ٹائم لائن

By abid-razaJanuary 15, 2025
باغ تخلیق میں
آفرینش کے قرطاس پر
ایک خط
صبح کاذب


ازل کی سیاہی سے کھینچا گیا
مو قلم ماہیت کا وجودی طبق در طبق کھولنے آ گیا
وقت کی یہ مقدس لکیر ایک اندھے کوئیں سے بر آمد ہوئی
موسموں اور زمانوں کے ابدی تغیر کی ڈوری سے باندھی گئی


دم بدم
کچھ حوادث کے خم
اس میں آنے لگے
کچھ عناصر ہوئے جب بہم


ایک ذرے کے اندر بنی کہکشاں
مہر و مریخ و ماہ و نجوم
برج حامل میں سیارگاں
رقص کرتے ہوئے جگمگانے لگے


ایک خلیے سے نکلی ہوئی زندگی
اپنی بے باک بے پردگی تک پہنچنے میں جس کو زمانے لگے
دشت ظلمات میں ڈائناسور چنگھاڑتے
گل مچاتے رہے رات بھر


صبح دم زاغ و طاؤس بھی گیت گانے لگے
یہ سمے کا نشاں
ابن آدم کی حیرت کا پہلا سبق
دیوتاؤں کی وحشی مشیت سے کھینچا گیا ایک خط


کس میں ہمت ہے
اس میں نیا خم نکالے اسے موڑ دے
وقت کی یہ پرانی لکیر
اتنی تیزی سے آگے بڑھی


جیسے معدوم ہونے کو ہو
جیسے براق کے نقش ہائے قدم
ہم فرشتہ صفت کافروں کی نگاہوں میں ٹھہرے نہیں
اور گم ہو گئے


دست قدرت سے جاری
سمے کا نشاں
کوئی دن ہے کہ اب یہ بکھرنے کو ہے
طبل بجنے کو ہے


اس سے پہلے کہ گرد فنا
خط تقویم کو ڈھانپ دے
دشت امکاں کے آتش کدے میں کوئی آگ پھر سے جلانی پڑے گی
آنے والے زمانے کی ساری مشینی کرامت


اگلے وقتوں کی کل جینیاتی ذہانت
یہیں پر اگانی پڑے گی
خاک زادوں کو اس خط پہ اپنی جگہ خود بنانی پڑے گی
84692 viewsnazmUrdu