اے شہنشاہ آسماں اورنگ

اے شہنشاہ آسماں اورنگ
اے جہاں دار آفتاب آثار

تھا میں اک بے نواے گوشہ نشیں
تھا میں اک درد مند سینہ فگار

تم نے مجھ کو جو آبرو بخشی
ہوئی میری وہ گرمی بازار

کہ ہوا مجھ سا ذرہ ناچیز
روشناس ثوابت و سیار

گرچہ از روے ننگ بے ہنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار

کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار

شاد ہوں لیکن اپنے جی میں کہ ہوں
بادشہ کا غلام کار گزار

خانہ زاد اور مرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ گزار

بارے نوکر بھی ہو گیا صد شکر
نسبتیں ہو گئیں مشخص چار

نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں
مدعاے ضروری الاظہار

پیر و مرشد اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوق آرایش سرود ستار

کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تا نہ دے باد زمہریر آزار

کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں ہے اگرچہ نزار

کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار

رات کو آگ اور دن کو دھوپ
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار

آگ تاپے کہاں تلک انساں
دھوپ کھاوے کہاں تلک جاں دار

دھوپ کی یابش آگ کی گرمی
وقنا ربنا عذاب النار

میری تنخواہ جو مقرر ہے
اس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار

رسم ہے مردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اسی چلن پہ مدار

مجھ کو دیکھو تو ہوں بقید حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار

بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سود کی تکرار

میری تنخواہ میں تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہوکار

آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغز گوے خوش گفتار

رزم کی داستان گر سنیے
ہے زباں میری تیغ جوہر دار

بزم کا التزام گر کیجیے
ہے قلم میری ابر گوہر بار

ظلم ہے گر نہ دو سخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار

آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار

میری تنخواہ کیجیے ماہ بماہ
تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار

ختم کرتا ہوں اب دعا پہ کلام
شاعری سے نہیں مجھے سروکار

تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار


Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close