’’بیٹی اچھی!‘‘ یہ آواز، ایک عالیشان عمارت، اسمٰعیل بلڈنگ کے دروازے کے پاس بجلی کے کھمبے کے نیچے کھڑی ہوئی، ایک برقعہ پوش عورت کے لبوں سے نکلی اور اس کے قریب کھڑی ہوئی سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی ایک کمسن لڑکی، اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ ’’کیوں اماں؟‘‘ ’’جاؤ بیٹی! اندر چلی جاؤ، یہاں بہت سردی ہے۔‘‘ لڑکی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور اس کی ٹانگوں سے لپٹی رہی۔ یہ بدنصیب عورت شہر کے مشہور و معروف دولت مند تاجر، شیخ اسمٰعیل کی بیوی آمنہ تھی اور یہ اس کی بیٹی اصغری۔ آج سے آٹھ سال پیشتر، آمنہ اپنے غریب والدین کے گھر میں نہایت خوش و خرم تھی، زندگی کے تلخ و صبر فرسا حقائق سے بالکل ناواقف اور زمانے کے دل شکن و روح گداز حادثات سے محض ناآشنا۔ اس کی نگاہ میں زندگی عبارت تھی ایک غیرمختتم مسرت سے اور دنیا نام تھا ایک ایسی جگہ کا، جہاں مسلسل خوشی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ دیہات کا وہ گوشہ جہاں اس کی مسرور زندگی گزر رہی تھی۔ اس کے لیے جنت الفردوس سے کسی حالت میں بھی کم نہ تھا۔ صبح کے وقت رات کے جھوٹے برتن مانجھنے کے بعد جب وہ اپنی سادہ طبیعت سہیلیوں کے ساگھ گا گا کر، قہقہے لگا لگا کر چکی پیستی تو اپنے دل میں ایک ایسی مسرت محسوس کرتی جسے دولت مندوں کی فروانیٔ دولت بھی حاصل کرنے سے یکسر قاصر تھی، دیہات کی سادہ وسعتوں میں اسے، ہر وقت مسرت ہی کے قہقہے گونجتے ہوئے سنائی دیتے تھے۔ اس کی زندگی بذاتخود ایک قہقہہ تھی جس نے دیہات کی ایک سادہ مزاج لڑکی کی شکل اختیار کر لی تھی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا اس کی خوشیاں بھی بڑھتی جاتی تھیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ جب جوانی کا آفتاب افق حیات کی پیشانی پر طلوع ہوتا ہے تو سادہ سے سادہ زندگی بھی ایک دلآویز خواب بن جاتی ہے۔۔۔ ایک دلآویز خوابِ رنگین۔۔۔ آمنہ نے بھی منزل شباب میں قدم رکھتے ہوئے خود کو نئی مسرتوں کے آغوش میں پایا اور جب اس کی منگنی شہر کے بہت بڑے رئیس اور اپنے چچا کے ب یٹے اسمٰعیل سے قرار پائی تو خاندان کاہر ایک فرد فرطِ مسرت سے دیوانہ ہو رہا تھا۔ کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ آمنہ اس قدر خوش نصیب ہوگی۔ اسمٰعیل کا باپ ایک نہایت کامیاب تاجر تھا۔ جفاکشی، ایمانداری اور لگاتار تگ و دو نے اس کے کاروبار کو بہت فروغ دیا تھا اور انہی خصوصیات کی بناپر اس کا ہر اقدام کامیاب رہتا تھا۔ وہ نیک مزاج و خلوص کیش تھا۔ اس لیے آمنہ کے والد کی درخواست کو رد نہ کر سکتا اور دیہات کی اس سادہ مزاج لڑکی کو۔۔۔ اپنی بہو بنانا منظور کر لیا۔ آمنہ کے ارد گرد متعدد شادی شدہ عورتیں تھیں جنہیں وہ اپنے سے زیادہ مسرور پاتی تھی۔ اب جب کہ وہ خود اسمنزل پر قدم رکھنے والی تھی۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ شر کی زندگی کو دیہات کے لوگ جنت کی زندگی سمجھتے ہیں، آمنہ کو جب اس زندگی کا خیال آتا تو اسکے دل میں ایک اضطراب انگیز مسرت یا ایک مسرت انگیز اضطراب دوڑنے لگتا اور جب سہیلیوں کے ساتھ گاگر اٹھائے وہ پانی بھرنے کے لیے کوئیں پر جاتی اور پہلے گاگر بھرنے کے لیے اصرار کرتی تو وہ اس کی گاگر پکڑ لیتیں اور مسکراکر کہتیں، ’’اری تو تو یہاں چار دن کی مہمان ہے، پھر بھی ہم سے لڑتی ہے۔‘‘ وہ مسکراکر منہ دوسری طرف پھیر لیتی۔ حیا کی سرخی اس کے چہرے پر جھلک جاتی۔ وہ سب سے آخر میں گاگر بھرتی اور چلنے لگتی۔ تمام راہ رنگین امیدوں کے پر تو سے جگمگاتے ہوئے مستقبل کا تصور نشے کی ایک لہر بن کر اس کے دل و دماغ پر طاری رہتا۔ بظاہر وہ سہیلیوں کی گفتگو کو برا مناتی مگر اس کے دل میں یہی خواہش ہوتی کہ ان کی گفتگو ختم نہ ہو۔ منگنی کے دو سال بعد یہ دیہاتی لڑکی، دیہات کی جھونپڑی سے نکل کر شہر کی ایک محل نما عمارت میں پہنچ گئی۔ حجلۂ عروسی کی فضا خوشبو سے مہک رہی تھی۔ وہ اس وقت شاندار پلنگ پر گٹھڑی کی صورت میں بیٹھی ہوئی، عجب لذت محسوس کر رہی تھی۔ ہر طرف رنگ برنگ کے برقی قمقوں کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ پلنگ پر پھولوں کے ہار پڑے تھے۔ اس نے پھولوں کے رنگین ہاروں کو دیکھا اور خودبحود شرما گئی، اس کی نگاہوں کے سامنے دولہا کا پھولوں میں گھرا ہوا، مسکراتا ہوا چہرہ پھرنے لگا۔ اس نے اپنے عین سامنے دولہا کے چہرے کو دیکھا۔ پھر وہاں سے اس کی نظریں ہٹ کر۔۔۔ پھولوں پر پڑیں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ اس کا رنگین خواب روشنی سے ٹکراکر پھولوں کی صورت میں بکھر گیا ہے۔ ہر قدم کی آہٹ پراس کا دل دھرک جاتا تھا اور وہ شرماکر، لجاکر رہ جاتی تھی۔ اس کا دولہا آیا۔ محبت کے فوری جذبے میں مرد عورت سے وفاداری کا کیا کیا وعدہ نہیں کرتا؟ اسمٰعیل نے بھی اس کے ساتھ محبت کے علد و پیمان کیے۔ حیاتِ ازدواجی شروع ہوئی اور نہایت مسرور کن و نشہ آور کیفیت میں، شادی کے آغاز میں عورت خود کو بہت خوش نصیب سمجھتی ہے۔ کیونکہ مسرت اس کا ساتھ دیتی ہے۔ مگر حیات ازدواجی کی یہ مقدس مسرت بہت جلد غائب ہو جاتی ہے۔ آمنہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔ رنگین تصورات خاکِ نامرادی میں منہ چھپانے لگے اور خوشی درخت کی ٹہنی سے ٹوٹے ہوئے ایک حقیر پتے کی مانند، جو ظالم جھونکوں کا مقابلہ کرتا ہوا، شاخوں سے سہارا لیتا ہوا چند لمحوں میں زمین پر گر پڑتا ہے، مفقود ہو گئی۔۔۔ اس کے خاوند کی حالت بالکل بدل گئی شہری زندگی کے تصنعات میں پرورش پائے ہوئے، امیرانہ تربیت حاصل کیے ہوئے مرد کی تمناؤں خواہشوں کو، دیہات کی ایک سادہ مزاج عورت کیونکر پورا کر سکتی تھی اور نہ پورا کر سکنے کی حالت میں کیونکر اپنی زندگی کی لڑکھڑاتی ہوئی مسرتوں کو سنبھال سکتی تھی؟ نتیجہ وہی ہوا، جو ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور جو ہمیشہ ہوت رہےگا۔ اسمٰعیل اس سے متنفر ہو گیا اور اس سے گریزاں رہنے لگا۔ ایک وفاشعار عورت کے لیے اس سے زیادہ اور کیا مصیبت ہو سکتی ہے کہ اس کا خاوند اس سے نفرت کرے۔ اس سے بھاگے؟ وہ ہر وقت غمگین رہنے لگی۔ دل ہی دل میں کڑھتی اور اس کے سوا وہ کر بھی کیا کر سکتی تھی؟ اس حالت میں اس کی معصوم بچی اصغری اس کے لیے بہت بڑی رحمت ثابت ہوئی۔ اس کی تمام توجہات اس ننھے سے جسم میں مرکوز ہو گئیں۔ جب ننھی بچی کے لبوں پر معصوم تبسم کھیلتا تو فرطِ محبت کے زیر اثر وہ بے اختیارانہ اسے سینے سے لگا لیتی، خوشی سے اس کا سینہ بھر جاتا۔ غم کا تاریک و کثیف بادل جو اس کی روح پر منڈلاتا رہتا تھا۔ اس معصوم کی چمکتی ہوئی پیاری پیاری آنکھوں کی روشنی کےسامنے دور ہو جاتا۔ خاوند کے ناقابل برداشت مظالم کے باوجود وہ خوش تھی۔ قدرت نے اس کے خاوند کے دل سے محبت چھین لی۔ لیکن اس کے عوض محبت کی یہ جیتی جاگتی تصویر بھیج دی۔ اسمٰعیل کی عشرت پسند اور عیش جو طبیعت کیونکر خاموش رہ سکتی تھی؟ وہ کیونکر براشت کر سکتا تھاکہ کوئی جدید معاشرت کا ساتھ دینے والی اس کی زندگی کا ساتھ نہ دے؟ ترکش ستم سےآخری تیر نکلا۔ شہر کے ایک دولت مند آدمی کی لڑکی اس کی سوکن کی صورت میں اس کے پاس آموجود ہوئی۔ صورت حال دیکھ کر آمنہ کا دل لرز گیا۔ اس نے سنا تھا کہ سوکن بہت ظلم کیا کرتی ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ دنیا کے ملعون ترین ظلم نے اپنا نشانہ اس دیہاتی عورت ہی کے سینے کو بنایا۔ اب اس کے خاوند کے پاس اس کے لیے صرف ایک چیز رہ گئی تھی اور وہ بالکل بےپروائی۔ اس کی سوکن کے پاس اس کے لیے صرف ایک شے تھی اور وہ تھی طعنہ زنی! بیچاری عورت اپنی فریاد کسے سناتی؟ شادی کے دو سال بعد ہی، اس کاسسر فوت ہو گیا تھا، اب وہ گئے والدین تو ان کے لیے یہ فخر کی بات نہیں تھی کہ ان کی لرکی بہت بڑے رئیس کے گھر ہے؟ وہ اسی فخر میں مست تھے۔ کاش انہیں اپنی بیٹی کے اس زخم کی خبر ہوتی، جو اس کے سینے میں ہر وقت رستا رہتا تھا۔ بار بار نفرت انگیز قہقہے، ہر وقت دلخراش طعنے، رات دن جھڑکیاں، گالیاں، وہ کیا کیا ظلم برداشت نہ کرتی، ظلم بالائے ظلم یہ کہ سوکن اس کی معصوم بچی کو بھی ظالمانہ طور پر مارتی تھی۔ وہ بیچاری اتنا بھی نہ کرسکتی تھی کہ اصغری کواس ظالمہ کے پنجے سے چھڑائے۔ اس نیت سے جب ذرا آگے بڑھتی تو خاوند اور سوکن دونوں پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتے۔ ’’تم لڑکی کو خود بھی ہدایت نہیں دیتی ہو اور ہمیں بھی منع کرتی ہو۔‘‘ یہ تھے سوکن کے الفاظ جو وہ اسے روکنے کے لیے کہتی۔ بیچاری آمنہ خون جگر پی کر، منہ دوسری طرف پھیر کر خاموش کھڑی رہتی، جب سزا ختم ہو جاتی تو وہ بچی کو سینے سے لگائے اپنے کمرے میں چلی جاتی، اسے بھینچ بھینچ کر خوب روتی، بچی معصومانہ انداز میں کہتی، ’’انہوں نے تمہیں بھی مارا ہے اماں؟‘‘ ’’نہیں۔۔۔ ب۔۔۔ بیٹی!‘‘ ’’تو پھر تم کیوں روتی ہو؟‘‘ اس کا جواب وہ کیا دیتی۔۔۔ کیا دے سکتی تھی؟ آج کی شام سے دو دن پیشتر اصغری کاہاتھ آگ میں جل گیا تھا۔ اس لیے وہ اسے کوئی کام نہیں دیتی تھی، اب سے ایک گھنٹہ پیشتر وہ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی اور اپنی حالت پر رو رہی تھی، جب غم و غصہ انتہا کو پہنچ جاتا تو والدین کو کوسنے لگتی، جنہوں نے اسے اس اندھیرے کوئیں میں دھکیل دیا تھا۔ یکایک اسے بچی کے رونے کی آواز آئی۔ وہ بےاختیارانہ باہر نکل آئی۔ سوکن اصغری کو بےرحمانہ پیٹ رہی تھی اور بچی درد سے تلملا رہی تھی، اس سے نہ رہا گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر سوکن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’ایک تو اس کا ہاتھ جلا ہوا ہے اور دوسرے تم پیٹ رہی ہو، رحم نہیں آتا تمہیں؟‘‘ ’’لو دیکھا بڑی ہمدرد آ گئی۔‘‘ سوکن نے اسمٰعیل کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’کیا بات ہوئی؟‘‘ اسمٰعیل نے پوچھا۔ ’’میں نے اس کم بخت کی بچی کو کہا تھا کہ ذرا گلاس مانجھ دے، کہنے لگی میرا ہاتھ جلا ہوا ہے۔ حالانکہ اس کے ہاتھ کو کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘ ’’اندھی تو نہیں ہو، اس کا ہاتھ تو دیکھو۔‘‘ آمنہ نے جل کر کہا۔ ایسا سخت فقرہ اس نے تمام عمر میں پہلی بار کہا تھا۔ اس کے سینے میں آگ لگی ہوئی تھی اس وقت اس کا دل چاہتا تھا کہ سامنے کھڑی ہوئی ظالم عورت کے چہرے کونوچ دے، وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی کہ سوکن آگ بھبھو کا ہوکر بولی: ’’اندھی ہو تو تیری ماں۔۔۔ بے شرم کہیں کی۔۔۔ دیہات کی چھوکری ہوکر ہمارے سروں پر چڑھتی جاتی ہے۔‘‘ ’’تو تو کب بادشاہ کی بیٹی ہے۔‘‘ وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا جواب دے۔ فرطِ غصہ و غم سے اس کی زبان بند ہو گئی تھی۔ ’’خاموش رہو بدبخت! میں پوچھتا ہوں، تو اپنی شرارتوں سے کب باز آئےگی؟‘‘ خاوند نے اپنی چہیتی بیوی کے اشارے پر کہا۔ ’’میرا تو اب یہ فیصلہ ہے کہ یا میں رہوں گی یا تمہاری یہ چہیتی بیوی۔‘‘ اس کی سوکن نے خاوند کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ دیہاتی ڈائن واقعی بہت تنگ کرتی ہے۔‘‘ اسمٰعیل نے کہا۔ ان الفاظ سے آمنہ پر بجلی گرپڑی۔ ’’اگر تو نے اپنی حالت نہ بدلی، تو میں تجھے گھر سے نکال دوں گا۔‘‘ یہ اس کا دوسرا فقرہ تھا۔ ’’اس کا ابھی فیصلہ ہونا چاہیے۔ میں اس ڈائن کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‘‘ سوکن نے لال پیلا ہوکر کہا۔ ’’میں ڈائن ہوں؟‘‘ آمنہ کے لبوں سے نکلا۔ ’’اور کیا، بلکہ ڈائن سے بھی زیادہ۔‘‘ ’’تو میں چلی جاتی ہوں۔‘‘ ’’ہماری جوتی سے!‘‘ آمنہ اپنے کمرے میں چلی گئی، برقعہ پہنا اور باہر نکلنے لگی۔ اسے کامل یقین تھا کہ اس کا خاوند اسے ایسا کرنے سے روکےگا۔ مگر وہ ظالم بیٹھا رہا۔ ایک لفظ تک اس کے منہ سے نہ نکلا۔ وہ اضطراری کیفیت میں گھر سے باہر نکل گئی اور انتظار کرنے لگی کہ اس کا خاوند یا کوئی اور آئے اور اسے لے جائے۔ اسی اثنا میں اصغری بھی وہاں آ گئی۔ رات کے نو بجے تھے۔ سردی بلا کی تھی۔ ہوا کے سرد، جسم خراش جھونکے، نہایت تیزی سے چل رہے تھے اور ان کے ہلاکت خیز جملوں کے سامنے دہ بیکس ہستیاں کھڑی تھیں۔ دو بیکس و مظلوم، ستم رسیدہ ہستیاں! ان کے سامنے ان کے عالیشان مکان کا دروازہ کھلا تھا۔ مگر وہ نہیں جا سکتی تھیں، ماں نے چہرے سے نقاب ہٹا دیا تھا۔ اس کی آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی آنکھیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اس کا دایاں ہاتھ درویزے پر رکھا ہوا تھا۔ گویا وہ خلاقِ عالم سے پوچھ رہی تھی کہ اس دروازے کو چھوڑ کر اب وہ کہاں جائے؟ بچی مستفسرانہ بیکس ماں کو دیکھ رہی تھی۔ آمنہ نے سرد آہ بھری اور دروازے پر نظریں گاڑ دیں۔ وہ انتظار کر رہی تھی کہ کوئی اندر سے آئے۔ اسے آہنی دروازے پر برقی قمقے کا ہلکا سا، حلقۂ نور، اس کی کبھی پوری نہ ہونے والی امید پر، ایک خاموش قہقہہ استہزا بن کر محسوس ہو رہا تھا۔ دائیں بائیں ایک مسلسل قطار میں شاندار کوٹھیاں کھڑی تھیں، جن کے خوش قسمت مکیں مخملیں لحافوں میں خوابِ استراحت کا لطف اٹھا رہے تھے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ ان کے قریب دو مظلوم ہستیاں، قدرت کے انتہائی ظلم کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ وہاں کوئی بھی نہیں تھا جو ان کی مصیبت کا اندازہ لگاتا۔ ان کی گریہ آور و قابل رحم حالت دیکھتا۔ کسے پڑی تھی کہ اس سردی میں گھر سے باہر نکلے؟ اچانک اندر سے اسمٰعیل کی گرجتی ہوئی آواز سنائی دی۔ اصغری خوف زدہ ہوکر اور یہ سمجھ کر کہ اس کا باپ جھڑکتا ہوا اسے مارنے کے لیے آ رہا ہے۔ ماں کا ہاتھ چھوڑ کر ایک طر ف تیزی سے بھاگ گئی۔ حیران و پریشان ماں بھی اس کے پیچھے چلی گئی۔ اصغری کچھ دور ایک درخت کے عقب میں کھری کانپ رہی تھی۔ آمنے نے آواز دی، خوف زدہ بچی خاموش رہی۔ کئی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ سوتیلی ماں یا باپ سے ڈر کر ایک جگہ چھپ گئی، ماں نے آواز دی اور جب وہ آئی تو سوتیلی ماں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔ ظلم کایہ نقشہ اس کی آنکھوں کے آگے پھر رہا تھا۔ چند منٹ کے بعد آمنہ نے معصوم بچی کو کانپتے ہوئے دیکھ لیا۔ ’’اچھی! تجھے کیا ہوا؟‘‘ ماں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ابا جان۔۔۔ مارنے آرہے تھے۔‘‘ ’’مظلوم عورت کی آنکھوں سے آنسوٹپک پڑے۔ آنسوؤں کے نقاب میں سے اس نے خوف اور سردی سے کانپتی ہوئی بیکس بچی کے زرد چہرے کو دیکھا۔ اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگا۔ وہ اس وقت جی کھول کر رونا چاہتی تھی۔ سیلاب اشک بہنے کے لیے آنکھوں میں موجزن تھا۔ اس نے انتہائی ضبط سے کام لیا۔ معاً اس کے دل میں خیال گزرا کہ یہ معصوم بچی کیوں اس کے ساتھ سردی کا ظلم برداشت کرے؟ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگی کہ کیوں وہ گھر سے باہر نکل آئی۔ آخر میں نے پہلے یہ ظلم برداشت نہیں کیے تھے؟‘’ اسنے دل میں کہا، ’’یہ ذلت و ستم میرے لیے نیا نہیں۔۔۔ مگر انہوں نے تو مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔۔۔ وہ تو مجھے۔۔۔‘‘ اس نے مایوس ہوکر آنکھیں بند کر لیں۔ تاہم وہ رو کر بھی کیا کر سکتی تھی۔ اس نے بچی کو گود میں اٹھا لیا اور گھر کی طرف چلنے لگی۔ بار بار اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ اگر نوکروں نے دروازہ بند کرلیا ہو تو پھر؟ دروازے کو دور ہی سے دیکھ کر، اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس کی آخری امید بھی خاک میں مل چکی تھی اور دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس کی نگاہوں میں دنیا خون آلود تاریکی میں ڈوبنے لگی۔ قریب پہنچ کر اس نے دروازے پر دستک دی، مگر اس سے کیا ہو سکتا تھا؟ ماں کو دیکھ بچی بھی اپنے ننھے ننھے ہاتھ لوہے پر مارنے لگی۔ مگر پھر درد محسوس کرکے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔ آہ! یہ منظر کتنا درد ناک، کتن درد انگیز تھا۔ آمنہ نے آواز دینی چاہی مگر کوشش کے باوجود بھی آواز اس کی زبان سے نہ نکل سکی۔ آخرکار ہلکی سی آواز نبیا کہتی ہوئی اس کے تھرتھراتے ہوئے لبوں سے نکلی۔ نبیا (گھر کا بوڑھا خادم) وہاں کہاں تھا؟ اس نےایک اور آواز دی۔ مگر یہ بھی فضا میں ایک ہلکا سا ارتعاش پیدا کرکے غائب ہو گئی۔ اندر سے کوئی ہاتھ دروازے کی طرف نہ بڑھا۔ آدھ گھنٹہ تک وہ وہاں کھڑی رہی۔ بچی بار بار کہتی، ’’اماں سردی سردی۔‘‘ وہ اس کے جواب میں اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگتی، اس کی باہیں تھک گئیں۔ ہاتھ درد محسوس کرنے لگے۔ اس کی قسمت کی طرح دروازہ بدستور بند تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہوا کا ہر ایک سرد جھونکا، اس کے دماغ کا کوئی نہ کوئی جزو، اس کے دل کا کوئی نہ کوئی حصہ اڑاکر لیے جا رہا ہے اور وہ قبرستان کے زنگ آلود آہنیں دروازے پر زخمی ہاتھ مار مارکر چیخ رہی ہے۔ اس کے عریاں سینے سے لہو کا ایک قطرہ نکلتا ہے اور وہ وہیں جم جاتا ہے۔ یکایک اصغری مدھم سی آواز نکالتی ہے اور منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ خون کا یہ منجمد قطرہ اس کی ننھی اصغری ہے۔ جسے اس نے سینے سے لگا رکھا ہے۔ اسی اثنا میں امید کی ایک کرن اس کی آنکھوں میں چمکی۔ جس کمرے میں بوڑھا نبیا سوتا تھا۔ وہاں سے بھی اندر راستہ؟ یہ سمجھ کر کہ شاید کوئی کتا دروازے پر پنجے مار رہا ہے۔ ’’شی شی‘‘ کہا اور ساتھ ہی چھڑی کو زور سے زمین پر مارنے کی آواز آئی۔ آمنہ کو محسوس ہوا کہ وہ زمین کی آخری گہرائی میں جاگری ہے۔ وہ گھر کی مالکہ تھی۔۔۔ وہ اس گھر کی مالکہ بن کر آئی تھی اور آج اسے ایک ذلیل کتا سمجھا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو خشک ہو چکے تھے۔ کوشش کے باوجود آنسو کا ایک قطرہ بھی اس کی آنکھوں سے نہ نکلا۔ یہ نا امیدی کی، ذلت کی انتہا تھی۔ ذلت اور حقارت، دنیا میں اس کے لیے صرف یہی دو چیزیں رہ گئی تھیں۔ اگر وہ اکیلی ہوتی تو یقیناً کوئیں میں چھلانگ لگا لیتی، مگر اس وقت وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے سینے سے چمٹی ہوئی ایک ننھی سی ہستی، اپنے ننھے ننھے ہونٹوں سے بار بار اماں، اماں کہنے والی معصوم بچی، اس کے اس خطرناک ارادے میں حائل تھی، اس نے دل کو کڑا کرکے پھر دروازے پر دستک دی، آوازبھی دی۔ اب کے ’شی‘ کی آواز زور سے آئی، وہ دروازے سے ہٹ گئی۔ چندمنٹ ایک جگہ کھڑی رہنے کے بعد، وہ پھر آہنیں دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ کچھ دیر وہاں کھڑی رہنے کے بعد وہ اپنے مکان کے پہلو میں باغیچہ کی طرف قدم اٹھانے لگی۔ دوتین منٹ میں وہ باغیچے میں تھی، چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی، آسمان پر بادل منڈلا رہے تھے۔ وہ ایک گوشے میں کھڑی ہو گئی، اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بحر بےپایاں میں ڈوب رہی ہے۔ ہر طرف تاریکی ہے۔ ایک طرف سے مگر مچھ تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا ہے، دور بجلی کا قمقمہ اسے مگرمچھ کی آنکھ بن کر نظر آ رہا تھا۔ قدرت کے ستم کا کون سا تیر تھا جس سے وہ محفوظ تھی۔ وہاں جہاں وہ کھڑی تھی اس کے مکان کی ایک کھڑکی کھلتی تھی۔ جو اس وقت بند تھی اور تھی بھی اس سے بہت اونچی، بچی لرزتی ہوئی آواز میں کہتی، ’’اماں سردی۔۔۔ سردی۔‘‘ بے کس ماں اسے سینے سے بھینچ لیتی۔ وہ ایک پودے کے پاس بیٹھ گئی۔ اچانک اس کے دماغ میں خیال پیدا ہوا کہ وہ کسی ہمسائے کے دوازے کو کیوں نہ کھٹکھٹائے، لیکن پھر مایوس ہو گئی، ممکن ہے دروازہ نہ کھلے اور پھر وہ کہہ کیا سکتی تھی، شرم و حیا اور بےغیرتی کااحساس اسے ایسا کرنے پر کبھی رضامند نہیں کر سکتا تھا۔ مجبور ہوکر بےکس عورت باغیچے کے آخری گوشے میں چلی گئی۔ جسم پر شلوار اور ایک قمیص کے سوا باقی سب کچھ اتار دیا۔ پھر برقعے اور دوسرے کپڑوں میں بچی کو لپیٹا اور اسے سینے سے لگا لیا۔ اس کے جسم کے گرد ہاتھ حمائل کر دیے۔ پشت دیوار سے لگادی اوربیٹھ کر سردی کے ہلاکت آور جھونکوں کے درمیان ماں کی مامتا کا آخری ثبوت دینے لگی۔ صبح کے سات بج چکے تھے۔ باغیچے میں آکر مالیوں نے جونہی دور، ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ وہ وہاں تیزی سے پہنچے۔ ایک عورت مردہ پڑی تھی۔ سینے پر کپڑوں کی ایک گٹھڑی کے گرد ہاتھ حمائل تھے۔ ایک مالی نے یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا وہ زندہ ہے یا نہیں، اسے جنبش دی، سینے سے ہلکی سی آواز آئی، حیران ہوکر انہوں نے سینے سے کپڑے اتارے، ننھی بچی، اصغری آنکھ ملتی ہوئی، مردہ ماں کے سینے سے علیحدہ ہوکر ایک طرف کھڑی ہو گئی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اماں، اماں کہنے لگی۔۔۔ آہ! اس کی ماں ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔ بےوفا خاوند۔۔۔ ابھی تک آرام سے سو رہا تھا اور وفاشعار بیوی کی نگاہیں مر کر بھی مکان کی کھڑکی کی طرف لگی ہوئی تھیں۔