برف باری سے پہلے
By क़ुर्रतुलऐन-हैदरMay 18, 2024
’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ نے کہا۔ سب آتش دان کے اور قریب ہو کے بیٹھ گئے۔ آتش دان پر رکھی ہوئی گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ بلیاں کشنوں میں منہ دیئے اونگھ رہی تھیں، اور کبھی کبھی کسی آواز پر کان کھڑے کر کے کھانے کے کمرے کے دروازے کی طرف ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر دیکھ لیتی تھیں۔ صاحب خانہ کی دونوں لڑکیاں نٹنگ میں مشغول تھیں۔ گھر کے سارے بچے کمرے کے ایک کونے میں پرانے اخباروں اور رسالوں کے ڈھیر پر چڑھے کیرم میں مصروف تھے۔
بوبی ممتاز کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھا ان سب کو دیکھتا رہا۔
’’ہاں آج رات تو قطعی برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ کے بڑے بیٹے نے کہا۔ ’’بڑا مزا آئے گا۔ صبح کو ہم اسنو مین بنائیں گے‘‘ ایک بچہ چلایا۔ ’’ممتاز بھائی جان ہمیں اپنا پائپ دے دو گے؟ ہم اسے اسنو مین کے منہ میں ٹھونسیں گے‘‘، دوسرے بچے نے کہا۔
’’کل صبح شمال میں ہلکے ہلکے چھینٹے پڑیں گے۔ اور شمال مغرب میں آندھی کے ساتھ بارش ہوگی۔ جنوبی بلوچستان اور سندھ کا موسم خشک رہے گا‘‘ صاحب خانہ نے ناک پر عینک رکھ کر اخبار اٹھایا اور موسم کی پیشین گوئی با آواز بلند پڑھنی شروع کی۔
’’خوب برف پڑتی ہے بھائی۔ لیکن ایک بات ہے۔ اس طرف پھل بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں جب میں تھا‘‘ صاحب خانہ کے منجھلے بیٹے نے خود ہی اپنی بات جاری رکھی۔
بوبی ممتاز چپکا بیٹھا ہنستا رہا۔ ’’ساری دنیا موسم میں اتنی شدید دلچسپی کیوں لیتی ہے۔ کیا ان لوگوں کو اس وقت گفتگو کا کوئی اس سے زیادہ بے کار موضوع نہیں سوجھ رہا۔ کوئینی لکھنؤ ریڈیو پر روزانہ آٹھ پچپن پر انگریزی میں موسم کی رپورٹ سناتی تھی۔ کل پچھّم میں تیز ہوا کے ساتھ پانی آئے گا۔ پورب میں صرف تھوڑے چھینٹے پڑیں گے اتر میں سردی بڑھ جائے گی۔۔۔ کوئینی۔۔۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو۔۔۔ فریڈ کہاں ہو تم سب۔۔۔ اس وقت تم سب جانے کیا کر رہے ہوگے‘‘ اس نے بہت تھک کر آنکھیں بند کر لیں۔
’’ممتاز صاحب آج تو آپ ہمارے ساتھ ہی کھانا کھائیے‘‘، صاحب خانہ کی بیگم نے کہا اور شال لپٹتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ان کی آواز پرآنکھیں کھول کر وہ انہیں پینٹری کے دروازے میں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔
صاحب خانہ کی دو لڑکیاں تھیں۔ یہی ساری بات تھی۔ اسی وجہ سے اس کی اتنی خاطریں کی جارہی تھیں۔ جب سے وہ پاکستان منتخب کرنے کے بعد کوئٹہ آیا تھا۔ یہ خاندان اسے روزانہ اپنے ہاں چائے یا کھانے پر مدعو کرتا۔ اگر وہ نہ آنا چاہتا تو وہ جاکر اسے کلب سے پکڑ لاتے۔ اس کے لیے روز طرح طرح کے حلوے تیار کیے جاتے۔ اس کی موجودگی میں ان کی بڑی لڑکی پھیکے شلجم کے ایسے چہرے والی سعیدہ بڑی معصومیت اور نیاز مندی کے ساتھ ایک طرف کو بیٹھی نٹنگ کرتی رہتی۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے خالی رہتا۔ جیسے کسی کل والی چینی کی گڑیا کی انگلیوں میں تتلیاں تھما دی گئی ہوں۔ کبھی کبھی وہ دوسروں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی اور پھر خود بخود شرما کر دوبارہ نٹنگ پر جھک جاتی۔
یہ لڑکیاں کتنی نٹنگ کرتی ہیں۔ بس سال بھر ان کے ہاتھوں میں اون اور سلائیاں دیکھ لو۔ گویا یہ ان کے بنے ہوئے پل اوور اور موزے قیامت کے روز انہیں بخشوائیں گے۔ پھر صاحب خانہ کی بیگم باورچی خانہ سے واپس آکر خانساماں کی نامعقولیت پر اظہار خیال کرنے کے بعد اپنی سگھڑبیٹی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتیں اور اسے مخاطب ہوکر کہتیں۔
’’بس اس کو تو یہی شوق ہے۔ دن بھر اسی طرح کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی ہے۔ اپنے ابا کا یہ سویٹر کوٹ بھی اسی نے بنا ہے۔‘‘ اس وقت وہ یقینا متوقع ہوتیں کہ وہ کہے، ’’اون منگوا دوں گا میرے لیے بھی ایک پل ادور بنا دیجئے۔‘‘ لیکن وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہتا۔ لڑکی اپنی ڈائرکٹر آف پروپگنڈہ اینڈ پبلسٹی کی طرف سے یہ تعریف ہوتی سن کر اور زیادہ شرما جاتی اور اس کی سلائیاں زیادہ تیزی سے متحرک ہوجاتیں۔
خدا وندا۔۔۔ بوبی ممتاز نے بہت زیادہ اکتا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ اندھیرے میں چنار کے درخت آہستہ آہستہ سرسرا رہے تھے۔ اس گرم اور روشن کمرے کے باہر دور دور تک مکمل سکوت طاری تھا۔ رات کا گہرا اور منجمد سکوت۔ وہ رات بالکل ایسی تھی اندھیری اور خاموش۔ ۹ستمبر ۴۷ء کی وہ رات جو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مسوری کے وائلڈ روز میں آخری بار گزاری تھی۔ کوئینی اور وجاہت کا وائلڈ روز۔ جب وہ سب وائلڈ روز کے خوب صورت لاؤنج میں آگ کے پاس بیٹھے تھے اور کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ وہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔لیکن وہ رات بھی پلک جھپکتے میں گزر گئی تھی۔وقت اسی طرح گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحب خانہ نے دفعتاً بڑے زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ایک ہاتھ میں اخبار تھامے ویکلی کے کسی کارٹون پر ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جارہے تھے۔ بچے اپنے تصویروں والے رسالے اور کیرم چھوڑ کر اس کے قریب آگئے اور اس سے کہنے لگے کہ اگر رات کو اس کی موٹر برف میں پھنس گئی تو کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ ایک بچی نے ناؤ بنانے کے لیے اون لکر کا سرورق پھاڑ ڈالا اور ایک تصویر دوسری تراشی ہوئی تصویروں اور کترنوں کے ساتھ رسالے میں سے سرک کر فرش پر آن گری۔
بوبی ممتاز کی نظر اس تصویر پر پڑگئی۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ سگرڈ کی تصویر تھی۔ سگرڈ اپنے پیارے سے دوماہ کے بچے کو میز پر ہاتھوں سے تھامے اس کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔ وہی مخصوص تبسم، اس کے بال اسی اسٹائل سے بنے تھے۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پرسکون اور پر اسرار۔۔۔ اس تصویر کے لیے بچوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوگئی۔ اس کے جسم میں سردی کی ایک تیز ناقابل برداشت کاٹتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی بند تھی اور آتش دان میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کمرہ حسب معمول گرم تھا۔ بچے اسی طرح شور مچا رہے تھے۔ لڑکیاں نٹنگ کررہی تھیں۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ یہ سگرڈ کی تصویر تھی جو ایک بچی نے بے خیالی سے نئے اون لکر میں سے کاٹ لی تھی۔۔۔ سگرڈ۔۔۔ سگرڈ وہ دفعتاً کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
’’کہاں چلے۔۔۔؟ کھانا آنے والا ہے‘‘ صاحب خانہ ہاتھ پھیلا کر چلائے۔ ’’بس پانچ منٹ اور ٹھہر جاؤ بھیا۔ توا چڑھا ہی ہے‘‘ بیگم صاحب نے کہا۔ ’’کھانا کھاکے جائیےگا‘‘ سعیدہ نے اپنی پتلی سی آواز آہستہ سے بلند کرکے چپکے سے کہا اور پھر جلدی سے سلائیوں پر جھک گئی۔
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں پائپ لگا دوں گا۔‘‘ دوسرا بچہ چلایا۔ ’’واہ، لڑکیاں پائپ کہاں پیتی ہیں‘‘ پہلے بچے نے اعتراض کیا۔ ’’ممتاز بھائی جان تو پیتے ہیں‘‘ اس نے اپنی منطق استعمال کی۔ ’’ممتاز بھائی جان کوئی لڑکی تھوڑا ہی ہیں۔‘‘ سب نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔
بوبی ممتاز انتہائی بد اخلاقی کا ثبوت دیتا کمرے سے نکل کر جلدی سے باہر آیا۔ اور اپنی اوپل تک پہنچ کر سب کو شب بخیر کہنے کے بعد تیزی سے سڑک پر آگیا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ اور فروری کا آسمان تاریک تھا۔ اس کے میز بانوں کا گھر دور ہوتا گیا۔ بچوں کے شور کی آواز پیچھے رہ گئی۔ بالکل خالی الذہن ہوکر اس نے کار بے حد تیز رفتاری سے سیدھی سڑک پر چھوڑدی۔ گھر چلا جائے۔ اس نے سوچا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ اس نے کار کا رخ کلب کی طرف کردیا۔
ایک بیرے کو کھانے کے متعلق کہتے ہوئے وہ ایک لاؤنج کی طرف چلا گیا۔ جو اکثر سنسان پڑی رہتی تھی۔ اس نے صوفے پر لیٹ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے، یاد کرنے کی ساری عادتیں بھول چکا ہے۔ اب کچھ باقی نہیں، کچھ باقی نہیں۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو خوب ملا۔ اور پھر غور سے ہتھیلیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کی آنکھیں بہت سونی سونی لگ رہی ہوں گی۔ وہ آنکھیں جن کے لیے کملا کہا کرتی تھی کہ انتہائی شراب انڈیلنے والی آنکھیں ہیں۔ اس کی آنکھوں کی یہ تعریف سب کو یاد ہوگئی تھی۔ بوبی ممتاز کی شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔ اور وہ اس وقت وہاں، اس اجنبی شہر کے غیر دل چسپ کلب کے نیم تاریک خاموش لاؤنج میں صوفے پر بچوں کی طرح پڑا اپنی ہتھیلیوں سے ان آنکھوں کو مل رہا تھا۔ گویا بہت دیر کا سویا ہوا اب جگا ہے۔ برابر کے کمرے میں خوب زور زور سے ریڈیو بجایا جارہا تھا۔ بہت سے لوگ باتوں میں مشغول تھے۔ وہاں بھی موسم کے متعلق بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی۔‘‘ کوئی بے حد وثوق اور اہمیت کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
’’یہاں بڑے کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے یارو‘‘، دوسرے نے جواب دیا۔ پھر سیاسیات پر گفتگوشروع ہوگئی۔ جہاں چار آدمی اکٹھے ہوتے یہ لازمی بات تھی کہ سیاست پر رائے زنی شروع ہوجائے۔ جواہر لال نے یہ کہا۔ قائد اعظم نے یہ کہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہا۔ یہ اچھا ہوا۔ یہ برا ہوا۔ تم کیسے آئے؟ میں ایسے آیا۔ میں یوں لٹا۔ میں نے راستے میں یوں تکلیفیں اٹھائیں۔ فلاں ملازم ہوگیا۔ فلاں نے استعفیٰ دے دیا۔ فلاں کراچی میں ہے۔ فلاں پنڈی پہنچ چکا ہے۔۔۔
بوبی ممتاز لاؤنج کے صوفے پر چپ چاپ پڑا یہ سب سنا کیا۔ گیلری کی دوسری جانب ایک کمرے میں چند انگریز ممبر اور ان کی خواتین قریب قریب بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ مے نوشی میں مصروف تھیں۔ کلب کا وہ حصہ نسبتاً سنسان پڑا تھا۔ ۱۵اگست کے بعد شہر اور چھاؤنی میں جو اکادکا انگریز رہ گئے تھے وہ سرشام ہی سے وہاں آن بیٹھتے اور ہوم، خط لکھتے رہتے یا طامس کک اور بی، او، اے، سی والوں سے پسیج کے متعلق خط وکتابت کرتے۔ ان کی بیویاں اور لڑکیاں اکتاہٹ کے ساتھ بیٹھی ریکارڈ بجاتی رہتیں۔ ان کے گڈ اولڈ ڈیز کے پرانے ساتھی اور عزیز ہوم جاچکے تھے اور جانے کہاں کہاں سے نئے نئے دیسی ممبر کلب میں آن بھرے تھے۔۔۔ ڈیڈی نے دوسال کے لیے کنٹریکٹ کیا ہے۔ چالس نے سال بھر کے لیے والینٹیئر کیا ہے۔ کوئٹہ تو مار گریٹ ڈارلنگ بے حد دل چسپ اسٹیشن تھا۔ پر اب۔ اب تو اتنا مرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بے بسی کے عالم میں کلب کے دیسی ممبروں کی خواتین کو دیکھتیں۔
’اوگوش‘ گیلری میں سے گزرتے ہوئے کرنل روجرز کی سرخ بالوں والی لڑکی نے چپکے سے اپنی ایک سہیلی سے اکتا کر کہا، ’’آج وہ بھی نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ کون۔۔۔؟ اس کی سہیلی نے پوچھا۔۔۔ ’’وہی۔۔۔ انتظامی سروس والا۔۔۔ جو لکھنؤ سے آیا ہے۔‘‘
’’اچھا وہ۔۔۔‘‘
’’ہاں، سخت بور ہے۔ کل رات میرا خیال تھا کہ مجھ سے رقص کے لیے کہے گا۔ لیکن چپ چاپ الو کی طرح آنکھیں جھپکاتا رہا۔‘‘
’’لیکن کیرل ڈرالنگ کتنی بالکل شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔‘‘
’’ہوں گی۔۔۔ جین ڈارلنگ یہ ہندوستانی بالکل گیلنٹ نہیں ہوتے۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرتی کارڈ روم کی طرف چلی گئیں۔
باہر درخت ہوا میں سر سراتے رہے۔ اس کے ایک دوست نے گیلری میں سے لاؤنج میں آکر روشنی جلادی۔ وہ چونک کر صوفے پر سے اٹھ بیٹھا۔ ’’ابے یار کیا افیمچیوں کی طرح بیٹھے ہو۔ تمہیں سارے میں تلاش کر ڈالا، چلو کارڈ روم میں چلیں۔ وہاں روجرز کی لونڈیا بھی موجود ہے۔ تم نے تو ابھی سارا کلب بھی گھوم کر نہیں دیکھا۔ ذرا جاڑے نکلنے دو، تفریح رہے گی۔ سچ پوچھو تو یہ شہر اتنا برا نہیں۔ شروع شروع میں تو سبھی ہوم سک، محسوس کرتے ہیں لیکن بہت جلد ہم ان فضاؤں سے مانوس ہوجائیں گے‘‘، اس کے دوست نے کہا۔
’’ہاں بالکل ٹھیک کہتے ہو بھائی‘‘، اس نے پائپ جلاتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’چلو ذرا پون ٹون ہی کھیلیں۔‘‘
’’تم چلو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’جلد آنا۔ سب تمہارے منتظر ہیں‘‘ دوست نے باہر جاتے ہوئے کہا۔
برابر کے کمرے کا شور دھیما پڑگیا۔ شاید وہ سب بھی کارڈ روم کی طرف چلے گئے تھے۔ کسی بیرے نے یہ سمجھ کر کہ لاؤنج میں کوئی نہیں ہے۔ دروازے میں سے ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بجھا دی اور آگے چلا گیا۔ لاؤنج میں پھر وہی نیم تاریکی پھیل گئی۔ رات کا سحر گہرا ہوتا جارہا تھا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ وہ پھر چونک پڑا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نام سے اس اجنبی جگہ میں اس کو کس نے پکارا۔ اس نام سے پکارنے والے اس کے پیارے ساتھی بہت پیچھے بہت دور رہ گئے تھے۔
بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہاں پر کوئی نہ تھا۔ اس جگہ پر تو محض ممتاز صغیر احمد تھا۔ وہ ہنسی، وہ شور مچانے والا، خوب صورت آنکھوں کا مالک، سب کا چہیتا بوبی تو کہیں اور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں پر صرف ممتاز صغیر احمد موجود تھا۔ اس نے اپنا نام آہستہ سے پکارا۔ ممتاز صغیر احمد کتنا عجیب نام ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کی ہستی کیا ہے کیوں اور کس طرح اپنے آپ کو وہاں پر موجود پا رہا ہے۔۔۔ یہ انسان۔۔۔ یہ انسان سب کچھ محسوس کرکے، سب کچھ بتا کے اب تک زندہ ہے۔ سانس لے رہا ہے۔ رات کے کھانے کا انتظار کررہا ہے۔ ابھی وہ کارڈ روم میں جاکر پون ٹون کھیلےگا۔ کرنل فریزر کی لڑکی کے ساتھ ناچے گا۔ اتوار کو پھر اس شلجم کی ایسی شکل والی لڑکی سعیدہ کے گھر مدعو کیا جائےگا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے جواب دیا۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو بھیا۔۔۔ یہ تم ہو۔۔۔؟ اس نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھاکر کچھ محسوس کرنا چاہا۔ اس نے صوفے کے مخملیں کشن کو چھوا۔ مخمل اتنی گرم تھی، اور راحت پہنچانے والی۔ دریچے کے باہر فروری کی ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔
بوبی۔۔۔ ہاں کوئینی بی بی۔ تم کہاں ہو۔ میں نے تمہاری آواز سنی ہے۔ ابھی تم اور لوکھلکھلا کر ہنسی تھیں۔ لیکن وہاں لو بھی نہیں تھی۔ وجاہت بھی نہیں تھا۔ فریڈ بھی نہیں تھا۔
کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے دہرایا۔ آٹھ پچپن۔ اس کی نظر گھڑی پر پڑگئی وہ اس وقت، سینکڑوں ہزاروں میل دور، نشر گاہ کے اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنے سامنے رکھے ہوئے بلٹین کے ٹھیٹ سنسکرت الفاظ نگلنے کی کوشش میں مصروف ہوگی۔ اور موسم کی رپورٹ سنا رہی ہوگی۔ گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ وجاہت بھائی۔۔۔ تم اس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ اور فریڈ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ انیس۔۔۔
برابر کے کمرے میں لاہور سے موسم کی رپورٹ سنائی جارہی تھی اور خالی کمرے میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔ آج شمال میں برف باری ہوگی۔ شمال مغرب میں بارش کے چھینٹے پڑیں گے۔ جنوب میں تیز ہوائیں چلیں گی۔۔۔ گھڑی اسی طرح ٹک ٹک کرتی رہی۔ ٹک ٹک ٹک۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔چھ۔۔۔ چھ سال۔۔۔ یہ چھ سال۔۔۔ خدا وند۔
اس تپش، اس تڑپ، اس بے چینی کے بعد آخر کار موت آتی ہے۔ آخر کار خدائے قدوس کا سپید تخت نظر آتا ہے۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ کوئینی نے آہستہ آہستہ کہا۔ پس منظر کی موسیقی دفعتاً بہت تیز ہوگئی۔
ہاں۔۔۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ ارے تم کدھر نکل آئے زندگی کی طرف واپس جاؤ۔ انقلاب اور موت کے تندرو آندھیوں کے سامنے زرد، کمزور پتوں کی طرح بھاگتے ہوئے انسان۔ ہماری طرف واپس لوٹو۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ لو ٹہر گئی۔ ٹھیک ہے؟ اس نے اپنے حصے کی آخری سطریں ختم کرکے اسکرپٹ فرش پر گرادیا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔ تھینک یو۔۔۔‘‘ کوئینی ہیڈ فون ایک طرف کو ڈال کر باہر آگئی۔ ’’لیکن ڈارلنگ تم نے ٹمپو پھر تیز کردیا۔ خدا کے لیے دھیرے دھیرے بولا کرو۔‘‘
’’او گوش۔ یہ ٹمپو توکسی چیزکا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ کوئینی ڈرالنگ۔۔۔‘‘ لونے اکتا کر جواب دیا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ گیلری میں سے وجاہت کی آواز سنائی دی۔ ’’ارے کیا وجو آیا ہے؟‘‘ کوئینی نے اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر باہرجھانکا۔
اس کا بھائی وجاہت انتظار کے کمرے میں کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’بیٹا گھر چل رہی ہو؟‘‘ اس نے کوئینی سے پوچھا۔ ’’تم اس وقت کیسے آگئے؟‘‘ کوئینی نے دریافت کیا۔
’’میں ابھی ابھی بوبی ممتاز کوبرلنگٹن سے لینے آیا تھا۔ میں نے سوچا اگر تمہارا کام ختم ہوگیا ہو تو تمہیں بھی ساتھ لیتا چلوں‘‘، وجاہت نے کہا۔ ’’بوبی ممتاز کون؟‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’ہے ایک۔۔۔‘‘ وجاہت نے اسی بے خیالی سے جواب دیا۔ بوبی ممتاز زینے پر سے اتر کے ان کی طرف آیا۔ ’’کہاں بھاگ گئے تھے؟‘‘ وجاہت نے ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’ار۔۔۔ آداب۔۔۔‘‘ بوبی ممتاز نے کوئینی کی طرف مڑکر کہا ’’تم ہی کوئینی بیٹا ہونا؟‘‘
’’ہاں۔ تسلیم!‘‘ کوئینی ناخن کترتے ہوئے غور سے اس کے مطالعے میں مصروف تھی۔ کتنا سوئیٹ لڑکا ہے۔ اس نے دل میں کہا۔ ’’تو پھر چلو ہمارے ساتھ ہی گھر‘‘، بوبی ممتاز نے کہا۔ ’’نہیں بھیا۔ ابھی مجھے وہ کم بخت موسم کی خبریں سنانی ہیں۔ آٹھ پچپن ہوگئے۔‘‘ وہ انہیں گیلری میں کھڑا چھوڑ کر اسٹوڈیو میں تیزی سے گھس گئی۔ وہ دونوں باہر آگئے۔
یہ خلوص، یہ سادگی، یہ اپنائیت ایسے پیارے دوست اسے آج تک کہیں نہ ملے تھے۔ بہت جلد وہ وجاہت کے سٹ میں گھل مل گیا۔ وہ سب کے سب اتنے دل چسپ تھے۔ لیونور اور شرجو ’ لو‘ کہلاتی تھی، جس کی ماں امریکن اور باپ پہاڑی تھا۔ اس کی ترچھی ترچھی نیپالی آنکھوں کی وجہ سے سب اسے چنک چائی لو کہتے تھے اور فریڈ جس کا تبسم اتنا معصوم، اتنا پاکیزہ، اتنا شریف تھا۔ وہ اسے چھیڑنے کے لیے ہندستانی عیسائی فرقے کی مخصوص حماقتوں کا مذاق اڑاتے۔ لڑکیاں عیسائیوں کے بنے ہوئے انگریزی لہجے کی نقل کر کے اس سے پوچھتیں، ’’فریڈ ڈیر کیا آج تم کسی اپنا گرل فرینڈ کو باہر نہیں لے جانے مانگتا؟‘‘
’’کیوں تم سب میری اتنی ٹانگ کھینچتے ہو‘‘ وہ ہنس کر کہتا۔ وہ بہت اونچے عیسائی خاندان سے تھا۔ لیکن اسے اس طرح چھیڑنے میں سب کو بہت لطف آتا۔ وہ سب لو سے کہتے، ‘‘لوڈیر اگر فریڈ اس سنڈے کو پروپوز کرے تو فوراً مان جاؤ۔ ہم سب تمہاری برائیڈز میڈز اور پیچ بوائے بنیں گے۔‘‘ پھر وہ چلا چلا کر گاتیں، ’’سم سنڈے مارننگ۔‘‘
وہ ۴۲ء تھا، جب بوبی ممتاز پہلی بار ان سب سے ملا۔ ہر سال کی طرح جب گرمیاں آئیں اور وہ لوگ مسوری جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہم راہ مسوری گیا۔ کوئینی اور وجاہت کے ’وائلڈ‘ روز میں سب اکٹھے ہوئے۔ اور وہ وہاں پر بھی بہت جلد بے حد ہر دلعزیز ہوگیا۔
بڑی غیر دلچسپ سی شام تھی۔ وہ سب ہیک منیز کے ایک کونے میں بیٹھے سامنے سے گزرنے والوں کو اکتاہٹ سے دیکھ رہے تھے۔ اور چند ملنے والوں کے منتظر تھے۔ جنہیں وجاہت نے مدعو کیا تھا۔ اتنے میں گیلری میں سے چچی ارنا گزرتی نظر آئیں انہوں نے بالوں میں دو تین پھول ٹھونس رکھے تھے۔ اور خانہ بدوشوں کا سا لباس پہنے تھیں۔
’’کوئی نیا جناور گرا ہے‘‘ یاسمین نے چپکے سے کوئینی سے کہا۔ ’’اماں چپ رہو یار‘‘، کوئینی نے اسے ڈپٹ کر جواب دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں‘‘، کوئینی نے جواب دیا۔ اتنے میں ان کے مہمان آگئے۔ اور وہ سب بظاہر بڑی سنجیدہ شکلیں بنا کر ان کے پاس جا بیٹھیں۔
’’یہ چچی ارنا کون ہیں۔ تمہاری چچی ہیں؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ تازہ وارد مہمان سب ان ہی کی باتیں کر رہے تھے۔
’’ارے نہیں بھئی‘‘، کوئینی نے شگفتگی سے جواب دیا۔ ’’یہ سگرڈ کی ممی ہیں۔‘‘
’’سگرڈ کون؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’ہے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔۔‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے گویا مزید تشریح کر دی اور پھر دوسری باتوں میں منہمک ہوگئی۔
اگلے روز وہ سب ٹہلنے کے لیے نکلے تو وجاہت نے تجویز کیا کہ وڈ اسٹاک کا چکر لگا آئیں۔ سگرڈ سے بھی ملتے آئیں گے۔ وہ ٹولیاں بنا کر پتھر اور چٹانیں پھلانگتے وڈ اسٹاک کے ہوسٹل کی طرف مڑ گئے۔
ایک بڑے سے سلوراوک کے نیچے بوبی ممتاز نے سگرڈ کو دیکھا۔ وہ عمارت کی ڈھلوان پر درختوں کے جھنڈ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی نٹنگ میں مشغول تھی۔ ان سب کواپنی سمت آتا دیکھ کر وہ بچیوں کی طرح دوڑتی ہوئی کوئینی کے قریب آگئی۔ کوئینی نے اس کا تعارف کرایا، ’’یہ ہمارے بوبی بھائی ہیں۔ اتنی بڑھیا ایکٹنگ کرتے ہیں کہ تم دیکھ کر بالکل انتقال کر جاؤ گی۔‘‘
وہ بچوں کی طرح مسکرائی۔ وہ اس کا معصوم، پاکیزہ تبسم، ایکٹنگ ان دونوں کا مشترکہ موضوع گفتگو بن گیا۔ وہ سب شام کی چائے کے لیے اکٹھے ’وائلڈ روز‘ واپس آئے۔
وہ زمانہ جو اس سال بوبی ممتاز نے مسوری میں گزارا، اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔ مال پر سے ونسنٹ ہل کی طرف واپس آتے ہوئے ایک روز اس نے فریڈ سے کہا، ’’ٹھاکر پال فریڈرک رنبیر سنگھ۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان کون ہے؟‘‘ فریڈ نے سنجیدگی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’سنو‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جس طرح اکثر اخباروں کے میگزین سیکشن میں ایک کالم چھپتا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پل سڈنی میں ہے۔ دنیا کا امیر ترین شخص نظام حیدر آباد ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ چھپے گا کہ دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص ممتاز صغیر احمد ہے۔ سمجھے ٹھاکر صاحب۔۔۔ ممتاز صغیر۔۔۔ کیا سمجھے؟‘‘
فریڈ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ بہت ہی گر انبار، سنجیدہ، سلجھا ہوا آدمی تھا۔ اس کی عمر اکتیس بتیس سال کی رہی ہوگی۔ بہت ہی کنفرمڈ قسم کا بیچلر تھا اور سارے بیچلرز کا مانا ہوا گرو۔ اپنے ایک نہایت ہی سعادت مند چیلے سے یہ بچوں کی سی بات سن کر وہ صرف ہنستا رہا۔ اور اس نے بوبی کو کوئی جواب نہ دیا۔ بوبی بے فکری سے سیٹی بجاتا آگے چلا گیا۔
سڑک کی ڈھلوان پر سے مڑتے ہوئے اس کی نظر ایک بڑی سی دو منزلہ کوٹھی پر پڑی جسے اس نے آج تک نوٹس نہ کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ اس وقت اس کے احاطے میں خوب گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ دروازوں پر روغن کیا جارہا تھا۔ چھت پر بھی نیا سرخ رنگ کیا گیا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کے داڑھی دراز بزرگوار بر آمدے میں کھڑے قلیوں اور نوکروں کو ہدایات دے رہے تھے۔ بڑا کرو فر۔ بڑی شان و شوکت نظر آرہی تھی۔
’’یہ کس کا مکان ہے بھئی؟‘‘ بوبی نے ایک قلی سے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔؟ قاضی جلیل الرحمن کا ایشلے ہال‘‘، قلی نے بڑے رعب سے اسے مطلع کیا۔ اور آگے چلا گیا۔
سیاہ بادل بہت تیزی سے بڑھتے آرہے تھے۔ یک لخت بارش کا ایک زور دار ریلا آگیا۔ بوبی نے اپنی برساتی سنبھال کر جلدی سے ’وائلڈ روز‘ کے راستے چڑھائی طے کرنی شروع کردی۔
وہ جولائی کا دوسرا ہفتہ تھا۔ موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہورہی تھیں۔ چند روز بعد وہ سب مسوری سے واپس آگئے۔
لیکن قاضی جلیل الرحمن اور ان کے بھانجے انیس کو موسمی تعطیلات کے ختم ہوجانے کی پروانہ تھی۔ وہ مراد آباد کے نواح کے زمین دار تھے۔ ان کے پاس وقت اور روپے کی فراوانی تھی۔ اور ان دونوں چیزوں کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے دونوں ماموں بھانجے مسوری آئے تھے اور پانی کی طرح روپیہ بہانے میں مصروف تھے اور اکتوبر سے پہلے ان کا مراد آباد جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
انیس کے والد کا سال بھر قبل انتقال ہوچکا تھا۔ اور اس کے ماموں قاضی صاحب نے خود کو اس کا غیر قانونی مشیر مقرر کررکھا تھا۔ ان کا اثر اس پر بہت زیادہ تھا۔ قاضی صاحب بے حد دل چلے اور شوقین آدمی تھے۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد انہوں نے اندازہ لگایا کہ لڑکا بہت سیدھا اور خاصا کم عمر ہے اور ساری ریاست اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہذا اب تو راوی چین لکھتا ہے۔ چناں چہ انیس کے والد کی برسی کے بعد پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ پہاڑ پر چل کے رہنے کے فوائد اسے ذہن نشین کرانے شروع کیے۔ اس کے حوالیوں موالیوں نے بھی اٹھتے بیٹھتے اس سے کہا کہ سرکار اک ذری تھوڑی دور کسی فرحت بخش مقام پر ہو آویں تو غم غلط ہووے گا۔ وہ فوراً مان گیا اور اپنا لاؤ لشکر لے کر قاضی صاحب کی قیادت میں مسوری آن پہنچا۔ طے کیا گیا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا جھول ہے اور اٹھائی گیروں کا کام ہے جن کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں ہوتا۔ ہری چگ کی طرح آئے اور ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ لہذا ایک عمدہ سی کوٹھی خریدنا چاہئے۔ انیس نے کہا کہ یہاں کی سب سے بڑھیا کوٹھی کون سی ہے وہی خرید لی جائے۔ لوگوں نے بتایا کہ کپور تھلہ ہاؤس یہاں کی بہترین کوٹھی سمجھی جاتی ہے۔ کوٹھی کیا اچھا خاصا محل ہے۔ انیس نے فوراً اپنی چیک بک نکالی۔ ’’لاؤ پھر اسے ہی خرید لیتے ہیں‘‘، اس نے کہا۔
’’اماں یار باؤلے ہوئے ہوکیا۔ کپور تھلہ ہاؤس تم خرید لوگے بھلا؟‘‘ ایک دوست نے قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’حضور دوسرا بہترین مکان بھوپال ہاؤس ہے۔ لیکن اتفاق سے وہ بھی بک نہیں سکتا۔ تیسری بہترین کوٹھی اسپرینگ ڈیل ہے اور چوتھی کوٹھی حضور کے لائق ایشلے ہال ہے‘‘، ایک مصاحب نے اطلاع دی۔
ایشلے ہال خرید لی گئی۔ اسے بہترین ساز وسامان سے آراستہ کیا گیا۔ دہرہ دون سے گوانیز ملازم اور ایک اینگلو انڈین ہاؤس کیپر منگوائی گئی اور ایشلے ہال مسوری کی چوتھی بہترین کوٹھی کہلانے لگی۔
انیس جب پہلے پہل مسوری گیا ہے اس کی تعلیم بقول شخصے صرف سرسی سے سنبھل تلک کی تھی۔ نویں کلاس سے اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ اس سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ البتہ شیر کے شکار اور شہسواری اور برج اور گھوڑ دوڑ کے میدان میں رویل کھنڈ بھر میں دور دور کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنبے کی ایک لڑکی سے کردی گئی تھی جو ایک اور زمین دار کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی جاگیر پر بیٹھا چین کی بنسی بجاتا تھا۔
ایشلے ہال خرید کر مسوری میں جب اس نے رہنا شروع کیا تو وہاں کی پہلی جھلک سے اس کی آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ اور اس نے سوچا کہ یار یہ جو اب تک ہم مراد آبا، سنبھل اور امروہے میں پڑے تھے وہ اتنی عمر تو گویا برباد ہی گئی۔ یہاں تو ایک عجیب وغریب دنیا آباد تھی۔ انسانوں کی بستی تھی۔ یا اندر کا اکھاڑہ۔ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ ایشلے ہال کا مالک اور مسوری کا سب سے زیادہ روپیہ خرچنے والا میزبان، لیکن بالکل تازہ تازہ دیہاتی جاگیردار۔ ادھر ادھر تو کام چل جاتا تھا لیکن خواتین کی سوسائٹی میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ایک اینگلو انڈین لیڈی کمپنین کی خدمات حاصل کیں۔ جو اسے صحیح انگریزی بولنا اور بال روم ناچ سکھائے۔ چند ہی مہینوں میں وہ ایک اور فرفر انگریزی بولنے والا بے حد ویل ڈر سیڈ انیس تھا جو مسوری کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز شخص سمجھا جاتا تھا۔ بالکل ہی کایا پلٹ ہوگئی۔
اگلے سال ۴۳ء کی گرمیوں میں جب کوئینی وجاہت اور ان کا گروپ مسوری پہنچا تو انہیں ایک تازہ وارد اجنبی بال رومز کی سطح پر بہتا نظر آیا۔ جس نے ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی۔ وجاہت اسے پہلے سے جانتا تھا۔ لیکن اس اچانک کایا پلٹ پر وہ بھی اسے نہ پہچان سکا۔ اس سال وہاں سارے مشہور ٹینس اسٹارز جمع تھے۔ مس اعزاز، مس کاجی۔ غیاث محمد۔ علی نگر کی عبیداللہ بہنیں۔ ان کی بھاوج شاہندہ احسان عبیداللہ،بمبئی سے جیوتی بھی حسب معمول آیا تھا۔ سیزن اپنے عروج پر تھا۔ لکھنؤ کی کھوچڑ بہنیں بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھیں۔ نرملا، پرکاش، وائلٹ، روبی اوبز روزا کی پیشین گوئی تھی کہ روبی کھوچڑ اس دفعہ سالانہ مقابلہ حسن میں سگرڈ ربانی سے سبقت لے جائے گی۔ ایشلے ہال کی پارٹیوں میں یہ سب اکثر نظر آتیں۔
ایک روز ہیک منیز میں انیس رقص کا پہلا دور ختم کرکے کوئینی کی طرف آیا اور اسے سلام کرکے وجاہت کے قریب جا بیٹھا۔ ’’ابے اوبغ چونچ۔۔۔ یہ سوٹ بوٹ کیسے ڈانٹ لیا۔ یہ کیا سوانگ بھرا ہے ایں؟‘‘ وجاہت نے اسے ڈانٹ کرپوچھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا جھینپتے ہوئے چپکے سے وجاہت سے پوچھا، ’’کیوں یار اب ٹھیک لگتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘
’’ذرا اس گدھے کو دیکھنا یاسمین ڈارلنگ، خود تو شام کا لباس پہن کر ناچتا پھررہا ہے اور بیوی کو وہیں قصبے میں چھوڑ رکھا ہے۔ ایسے آدمیوں کو تو بس۔۔۔‘‘ کوئینی نے غصے کے ساتھ چپکے سے کہا۔
اس کے اگلے دن کوئینی اپنے مکان کے اوپر کے برآمدے میں آرام کرسی پر کاہل بلی کی طرح لیٹی پڑھنے میں مشغول تھی کہ دفعتاً اسے برآمدے کے شیشوں میں سے نظر آیا کہ نشیب میں خان بہادر اعجاز احمد کے کاٹج کے سامنے رکشائیں کھڑی ہیں۔ بہت سے لوگ آجارہے ہیں اور خوب چہل پہل ہے۔ یہاں تک کہ ان کے باورچی خانہ میں سے دھواں تک اٹھ رہا ہے۔ یہ بے حد عجیب اور نئی بات تھی۔ کیوں کہ خان بہادر صاحب کا خاندان عموماً یا دوسروں کے ہاں مدعو رہتا تھا یا ہوٹلوں میں کھانا کھاتا تھا۔ وہ بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھتی رہی۔ اسی وقت بارش شروع ہوگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد وجاہت اور بوبی برساتیوں سے لدے پھندے بھیگتے بھاگتے نچلی منزل کی گیلری میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی زینے ہی پر تھے کہ کوئینی چلائی، ’’ارے وجو بوبی بھیا جلدی سے اوپرآؤ۔۔۔‘‘
اور جس وقت وجاہت اور بوبی برآمدے کے دریچے میں آکھڑے ہوئے انہیں انیس اپنا بہترین سوٹ پہنے سگار کا دھواں اڑاتا خان بہادر صاحب کے کاٹج میں سے نکلتا نظر آیا۔
’’اچھا۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔‘‘ وجاہت نے بہت آہستہ سے کہا۔ اسے اور بوبی کو اتنا رنجیدہ دیکھ کر کوئینی کا سارا اکسائیٹ منٹ رفو چکر ہوگیا۔ اور وہ بھی بڑی فکر مندی کے ساتھ دونوں کی کرسیوں کے نزدیک فرش پر بلی کی طرح آبیٹھی اور چہرہ اوپر اٹھاکر دونوں لڑکوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔
چچ چچ چچ۔۔۔ بے چارہ سوئیٹ بوبی ممتاز۔ کوئینی نے بے حد ہمدردی سے دل میں سوچا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس سے اس سنجیدگی سے نہ بیٹھا گیا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر بھاگی بھاگی گیلری میں پہنچی اور یاسمین کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔
’’میں نے تم سے کہا تھا کوئینی ڈیرکہ اس سال تو کوئی اور بھی برا جناور گرا ہے۔ اس پچھلے سال والے کسی جناور سے بھی بڑا‘‘ دوسرے سرے پر یاسمین بڑی شگفتگی سے کہہ رہی تھی۔ ’’اور سنو تو۔۔۔ کل میں نے سگرڈ کو نیا لیپرڈاسکن کوٹ پہنے دیکھا۔ ایسا بڑھیا کہ تم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ اور چچی ارنا کا نیا ایوننگ گاؤن۔ اصلی ٹیفیٹا ہے۔ اس جنگ کے زمانے میں اصلی ٹیفیٹا کوئینی ڈارلنگ۔۔۔ اور ٹوٹو کہہ رہی تھی کہ اس نے مسز راج پال سے سنا جنہیں بیگم فاروقی نے بتایا کہ مسز نارنگ نے ان سے کہا کہ آج کل خان بہادر صاحب کے ہاں کی خریداری کے سارے بل لیلارام اور فینسی ہاؤس والے سیدھے ایشلے ہال بھیج دیتے ہیں۔۔۔ اوگوش۔‘‘
’’اوگوش۔۔۔‘‘ کوئینی نے اپنی آنکھیں بالکل پھیلا کر پھولے ہوئے سانس سے دہرایا۔
بارش ہوتی رہی۔ ریسیور رکھ کر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اوپر آگئی اور دریچے میں کہنیاں ٹیک کر بے دلی سے باہر کا منظر دیکھتی رہی جہاں پانی کے پھواروں کے ساتھ بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر تیرتے پھر رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں خان بہادر صاحب کے کاٹج میں پیانو بج رہا تھا اور چچی ارنا اپنے برآمدے میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں۔
چچی ارنا سوئیڈش تھیں۔ جب وہ پہلی بار اپنے شوہر کے ہم راہ ہندوستان آئی تھیں۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ سر آغا خاں کے اس سنہرے دیس میں وہ بھی ایک مرمریں محل سرا میں کسی الف لیلیٰ سلطانہ کی طرح رہا کریں گی۔ لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ مرمریں ستونوں اور ایرانی قالینوں والی محل سرا کے بجائے ان کے شوہر اصغر ربانی لکھنؤ کے ایک نہایت گندے محلے وکٹوریہ گنج میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک بوڑھی ماں ہے جو ہر وقت امام کی مجلسوں میں چلا چلا کر رونے میں مصروف رہتی ہے۔ چار پانچ جاہل اور کالی اور سخت بے ہنگم بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ ان سب عورتوں کی ساری سوسائٹی جھوائی ٹولہ اور مولوی گنج اور نخاس کی گلیوں تک محدود ہے جہاں وہ سب ڈولیوں پر کتے کی طرح ہانپتے ہوئے انسانوں کے کاندھوں پر لد کے، پردے دار تانگوں میں سوار ہوکے کبھی کبھار اسی طرح کے دوسرے گندے مکانوں اور ان ہی کی قسم کی دوسری بے ہنگم عورتوں سے ملنے جایا کرتی ہیں۔
ارنا کرسینا پر یہ سب دیکھ کر بے ہوشی کا سا عالم طاری ہوگیا۔ ان کے پیارے شوہر نے انہیں دلاسا دیا کہ جب ان کا کاروبار چمک جائے گا تو وہ شہر سے باہر گومتی کے کنارے سول لائنز میں یا چھاؤنی میں کوٹھی لے کر رہا کریں گے۔ لیکن وہ برسوں تک اس ٹاٹ کے پردوں والے مکان سے نہ نکل سکیں۔ ان کے بالکل سونے کی رنگت کے دمکتے ہوئے بال تھے۔ نیلی آنکھیں تھیں اور گلاب کے شبنم آلود شگوفوں کی ایسی رنگت تھی۔ لیکن وائٹ ویز کے ہاں کے ملبوسات پہن کر چھتر منزل کلب میں جگمگانے کے بجائے ان کی قسمت میں تو یہی زک بھوگنا لکھا تھا کہ ٹوریہ گنج کے اس مکان کی ایک صخچی میں بیٹھی ٹھیٹ ہندوستانی ماؤں کی طرح محض سگرڈ کو پالتی رہیں اور اپنے میاں کو کوسا کریں۔ اصغر ربانی اٹھتے بیٹھتے انہیں اطمینان دلاتے، ’’بس ڈارلنگ چند روز کی بات اور ہے پھر ہم چل کر الگ رہیں گے۔ تمہیں کون سی جگہ زیادہ پسند ہے، ٹرانس گومتی سول لائنز یا دل کشا؟‘‘
’’جہنم میں جائے تمہاری ٹرانس گومتی‘‘ اور ارنا کرٹینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ واقعی یہ ان کے لیے بڑا صبر آزما زمانہ تھا۔ اچھی اچھی ہندوستانی لڑکیوں کے جنہیں باہر کی ذراسی بھی ہوا لگ چکی ہوتی۔ اس ماحول میں دہشت زدہ ہوجاتیں۔ وہ پھر خالص ولائتی تھیں۔
کئی برس اسی طرح لشٹم پشٹم گزر گئے۔ آخر ایک سال اصغر ربانی کسی طرح روپیہ فراہم کرکے انہیں گرمیاں گزارنے کے لیے مسوری لے گئے۔ وہاں چچی ارنا کی ملاقات اصغر ربانی کے ایک دوست خان بہادر اعجاز احمد سے ہوئی جو ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر تھے، اور بڑے ٹھاٹ سے وہاں زندگی گذارتے تھے۔ چچی ارنا نے ان سے شادی کرلی۔ اور سگرڈ کوڈو اسٹاک اسکول میں داخل کردیا۔ اور اسی طرح کی زندگی گزارنے لگیں جس کی انہیں اتنی شدید تمنا تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک کسی کو اصغر ربانی کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے لیے طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں۔ کسی نے انہیں جمنا کے کنارے داڑھی اور جٹائیں بڑھائے، سادھوؤں کے ساتھ گھومتے دیکھا۔ آخری اطلاع ان کے متعلق یہ تھی کہ کاروبار میں سخت نقصان اٹھانے کے بعد اپنا باقی ماندہ روپیہ لے کر وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔
سگرڈ جب بڑی ہوئی اس وقت تک وہ وکٹوریہ گنج کے مکان اور اپنے باپ کو بالکل بھول چکی تھی۔ وہ اب مسوری کی ’بال آف فائر‘ کہلاتی تھی۔ اس کا رنگ بالکل سفید نہیں تھا، اس میں ہلکے ہلکے ہندوستانی سانولے پن کی جھلک تھی۔ اس کی آنکھیں بچوں کی طرح بڑی بڑی اور سیاہ تھیں۔ چچی ارنا کیتھولک تھیں۔ کیتھولک مذہب میں جو گمبھیرتا ہے اس کا پورا پورا اثر سگرڈ کی اس طبیعت نے قبول کیا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب طرح کی فرشتوں کی سی معصومیت برستی تھی۔ سوسائٹی لڑکیوں میں اکثر جو چھچھورا پن سطحیت اور چمک دمک ہوتی ہے وہ اس سے کوسوں دور تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے دنیا سے الگ تھلگ، سینٹ میری کی مقدس راہبات کی کسی خانقاہ میں سے نکل کر چلی آرہی ہے۔
’’خدا وندا۔۔۔ کیا سگرڈ ایسی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔‘‘ کوئینی نے بر آمدے کے دریچے میں کھڑے کھڑے ایک اور جمائی لے کر بڑے دکھ کے ساتھ سوچا۔ اسے پھر بوبی ممتاز کا خیال آیا جو سمجھتا تھا کہ سگرڈ ہی وہ لڑکی ہے جس کا وہ جنم جنم سے انتظار کرتا آیا تھا۔ جو روبی کھوچڑ اور انوری خاں اور نشاط اسٹینلے اور ان کی طرح کی دوسری لڑکیوں سے بہت بلند ہے۔ بہت بلند اور بہت مختلف۔۔۔ خداوندا۔۔۔وہ بے دلی سے وادی کے نیلے اور سفید پھولوں پر بارش کی پھواروں کو برستا دیکھتی رہی۔ چچی ارنا کے کاٹج میں سے پیانو کی آواز بدستور بلند ہو رہی تھی۔ کوئی بڑے اچھے سروں میں ’’سوانی۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو‘‘ کا پرانا نغمہ بجارہا تھا۔
اسی شام ’وائلڈ روز‘ سے واپسی پر بوبی ممتاز کو راستے میں نشاط اسٹینلے مل گئی۔ نشاط اسٹینلے بمبئی ریڈیو سے انگریزی میں اناؤنسمنٹ کرتی تھی اور کمرشل آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی جو انتہائی بدشکل تھی۔ لیکن نہ جانے کس طرح انتہائی دل کش معلوم ہوئی تھی۔
’’اوہلو بوبی ممتاز۔ تمہیں آج اتنے چاندوں کے بعد دیکھا ہے۔ کہاں تھے؟‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ ’’کہیں نہیں۔۔۔ یہیں تھا۔۔۔‘‘ بوبی نے اکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا اور اپنی شراب انڈیلنے والی آنکھیں دوسری طرف گھما دیں۔ وہ ایک ہرنی کی طرح جست بھر کے پگڈنڈی پر سے پھر ان آنکھوں کی زد میں آکھڑی ہوئی۔
’’اوجیزس۔۔۔ صدیوں کے بعد نظر آئے ہو۔ کیا سگرڈ ربانی کے چھن جانے کا سوگ منا رہے ہو؟ بے وقوف ہو۔ سوگ کرنے کے بجائے آؤ اس حادثے کو سے لے بریٹ کریں‘‘، اس نے بشاشت سے کہا۔ اور اسے کھینچتی ہوئی اسٹینڈرڈ کی طرف لے گئی۔ اور وہاں ایک لاؤنج میں پہنچ کر دھم سے ایک کرسی پر گرتے ہوئے وہ بیرے کو احکامات دینے میں مصروف ہوگئی۔
بوبی بے دلی سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے اس لڑکی سے اتنی نفرت تھی۔ پھر بھی اس لڑکی میں ایک عجیب نا قابل بیان، تکلیف دہ کشش تھی۔ اتنی بدشکل۔۔۔ بدشکل۔۔۔ اس نے کوئی تشبیہ سوچنی چاہی۔ لیکن نشاط اسٹینلے کی شخصیت سے موازنہ کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ یہ لڑکی جو فخریہ کہتی تھی کہ مجھ سے بڑا فلرٹ اس روئے زمین پر آپ کو دستیاب نہ ہوگا۔ وہ الٰہ آباد کے ایک بہت اعلی عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور بڑی ہمدرد، بڑی فیاض بے حد نیک دل لڑکی تھی۔ اکثر وہ جذباتی بن کر اپنے دوستوں سے کہتی۔ لوگ مجھے اتنا برا سمجھتے ہیں، کاش کوئی مجھے پہچان سکتا کاش لوگ اتنے بے وقوف، گدھے نہ ہوتے۔
پھر اس نے بیرے کی طرف سے مڑکر بوبی سے، ’’بوبی ڈیر کیوں ایسی رونی شکل بنائے بیٹھے ہو۔ بے وقوف ذرا اور دریچے سے باہر نظر ڈالو۔ کائنات اتنی بشاش ہے،ارغوانی بادل جھکے ہوئے ہیں، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں وادیوں میں نیلے پھول کھل رہے ہیں۔ کیا ایسے میں تم رنجیدہ رہ سکتے ہو؟ الو ہو بالکل۔‘‘
بوبی ہنس پڑا۔ اور پھر وہ دونوں بچوں کی سی مستعدی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے اور قہقہے لگانے میں مشغول ہوگئے۔ باہر پہاڑوں کی برف پر جگمگاتی ہوئی چاندنی زیادہ خوش گوار ہوگئی۔‘‘سوانی ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔‘‘ کا پامال نغمہ جو ڈانس بینڈ والے ہال کے سرے پر بجا رہے تھے۔ یک لخت بالکل نیا بہت انوکھا اور بے حد اچھا معلوم ہونے لگا۔
دفعتاً بوبی کو خیال آیا۔ میں اس وقت یہاں نشاط اسٹینلے کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر کوئینی نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو اسے کتنا شوک پہنچے گا۔ پھر اس نے ضدی بچوں کی طرح سر جھٹک کر سوچا۔ اگر اس وقت کوئینی اور اس کی جیسی باعزت اور اونچی لڑکیوں کی ایک پوری بریگیڈ یہاں آکر کھڑی ہو جائے اور مجھے اس کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر بے ہوش ہوجائے تب بھی میں ذرا پروانہ کروں گا۔ قطعی پروانہ کروں گا۔ یہ لڑکی کتنی پیاری تھی کتنی ہمدرد تھی۔ بالکل کسی پیاری سی بہن کی طرح ہمدرد۔ اسے یادآیا کل کسی نے اس کے متعلق کیسی کیسی عجیب اور خوف ناک باتیں اسے بتائی تھیں۔ ارے نہیں نشاط۔ اس نے چلا کر کہنا چاہا۔ تم ایسی نہیں ہو۔ اس کا جی چاہا کہ وہ کرسی پر چڑھ کر سارے اسٹنڈرڈ، ساری مسوری، ساری دنیا کو بتائے۔ یہ لڑکی نشاط اسٹینلے بری نہیں ہے۔ تم سب خود برے ہو۔ تم میں اخلاقی قوت نہیں ہے۔ اس لیے اپنی جھینپ مٹانے کی خاطر تم اسے برا کہتے ہو۔۔۔ تم لوگ۔۔۔
’’ہلو بوبی بھیا۔۔۔ تم یہاں ہو۔ ہم تمہیں سارے میں ڈھونڈ آئے‘‘ اس نے چونک کر دیکھا۔ اس کے سامنے کوئینی کھڑی تھی جو اسی وقت لو، فریڈ اور کملا کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ ذرا گھبرا کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور اس کے لیے کرسی خالی کردی۔ نشاط اسی طرح بے فکری سے کرسی پر نیم دراز ایک گیت گنگناتی رہی۔
’’ہلو کوئینی‘‘ اس نے بے پروائی سے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو نشاط‘‘ کوئینی نے بڑے ہی با اخلاق لہجے میں جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا تھا کہ اس کا روکھا پن اور مربیانہ، بے تعلق انداز سب کو محسوس ہوجائے۔ اسے جواب دیا۔
’’ہمیں ابھی زینے پر روبی کھوچڑ ملی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اس سال مقابلہ حسن میں اس کا اول آنا یقینی ہے۔ کیوں کہ اس کی حریف سگرڈ ربانی اس مرتبہ مقابلہ میں شامل نہیں ہورہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کی اجازت نہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات میں شرکت کرتی پھرے‘‘، لو نے جھک کر بوبی کو بتایا۔
’’انیس کی اجازت نہیں؟‘‘ نشاط نے دفعتاً اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’اسے اس قدر اختیارات سگرڈ پر کب سے حاصل ہو گئے۔ کیا وہ اس سے شادی کر رہا ہے؟‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔ شادی کون مسخرہ کر رہا ہے‘‘، لو نے بے فکری سے جواب دیا۔ ’’ہاں۔ بوبی بھیا ہم تم سے یہ کہنے آئے تھے کہ کل موتی بھائی نے ہم سب کو ہیک مینز مدعو کیا ہے۔ سگرڈ کی دعوت ہے در اصل۔ موتی بھائی کہہ رہے تھے کہ اس سیزن میں یہ ان کی پہلی پارٹی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ ضرور آنا بوبی۔ اور تم بھی نشاط۔۔۔‘‘
’’چلو بوبی ڈیر ناچیں۔۔۔ ‘‘ نشاط نے جمائی لیتے ہوئے بوبی سے کہا۔
اگلی صبح، بہت تھکا ماندہ اور رنجیدہ شکل بنائے موتی لال ’وائلڈ روز‘ پہنچا۔ ’’لو بھئی وجو‘‘، موتی بھائی پہنچے، ‘‘کوئینی نے نٹنگ کرتے کرتے اوپر کے برآمدے کے دریچے میں سے جھانک کر وجاہت سے کہا۔ اور اس قدر فلسفیوں کی طرح چل رہے ہیں کہ حد ہے۔ کیا مصیبت ہے آج کل جسے دیکھو ایسا لگتا ہے کہ بس اب رو دے گا۔‘‘
موتی لال زینے کے دروازے میں سے برآمدے میں داخل ہوگئے۔
’’دیکھی تم نے اس قاضی انیس الرحمن کی حرکت۔ سگرڈ کو اب کسی سے ملنے نہیں دیتا، ‘‘اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے تم نہیں جانتے چچی ارنا کی سیاست موتی بھائی‘‘، کوئینی نے اس سے کہا۔ ’’جہنم میں جائیں چچی ارنا‘‘، وہ اکتا کر دریچے سے باہر دیکھنے لگے۔ جہاں سر مئی بادل تیرتے پھر رہے تھے۔ ’’بہر حال تم لوگ آج میری پارٹی میں تو ضرور آؤ گے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’قطعی‘‘، وجاہت نے شیو کرتے کرتے جواب دیا اور آئینے میں اپنی ناک کو بڑے غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
’’میں جلد ہی بمبئی جارہا ہوں‘‘ جیوتی لال نے دفعتاً سر اٹھا کر کہا۔ ’’کیوں۔۔۔؟ یہ کیا وحشت ؟ کم از کم ٹینس کے سیمی فائنلز تک تو رک جاؤ۔ کل عالم کا جی تمہیں پوچھ رہی تھی‘‘، کوئینی نے کہا۔ ’’جہنم میں جائے عالم کا جی بھی؟‘‘ وجاہت نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جیوتی لال ہنسنے لگے۔ وہ عموماً اتنا نون سیریس رہتے کہ اسے اتنا سنجیدہ اور غمگین دیکھ کر کوئینی کو بے حد ہنسی آئی۔
تیسرے پہر کو، جب کہ سب لوگ جیوتی لال کی پارٹی میں جانے کی تیاری میں مصروف تھے، کسی دل چلے نے ایشلے ہال جاکر انیس کو یہ خبر دی کہ موتی لال نے آج سگرڈ کو مدعو کیا ہے۔
’’کب؟ کہاں۔ کس وقت؟‘‘ انیس یہ سن کر تلملا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ اس کی موجودگی میں کسی اور کی یہ ہمت کہ سگرڈ کو باہر لے جائے۔ ’’اگر موتی لال یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ایک اکیلے شہزادہ گلفام ہیں تو انہیں بہت جلد اس مغالطے سے نکلنا چاہئے‘‘، اس نے غصے سے کہا۔
جیوتی لال کی پارٹی کا وقت چھ بجے تھا۔ اس وقت سوا پانچ بجے تھے۔ دفعتاً انیس کو کوئی خیال آیا، وہ تیز تیز قدم رکھتا ایشلے ہال کی سیڑھیاں اترکر مال پر آیا اور ہیک منیز کی طرف روانہ ہوگیا۔ مسز ہیک مین کے پاس پہنچ کر اس نے کہا وہ ریسٹوران کا ایک حصہ فوراً اپنے لیے مخصوص کروانا چاہتا ہے۔ مسز ہیک مین نے جواب دیا کہ افسوس ہے کہ وہ حصہ ایک ہفتے پہلے ہی آج شام کی ایک پارٹی کے لیے مخصوص کروا لیا گیا ہے۔
’’کیا آپ کسی طرح اس ریزرویشن کو کینسل نہیں کر سکتیں؟ اس نے پوچھا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے مسٹر انیس۔ اس کا پیشگی کرایہ دے دیا گیا ہے‘‘، انہوں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج شام یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے بچوں کی طرح ضد کر کے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مسٹر انیس‘‘، مسز ہیگ مین نے جواب دیا۔ ’’کسی ریسٹوران یا رقص گاہ یا کسی اور پبلک جگہ پر آپ لوگوں کو آنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ’’یہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب آپ پورا ہیک منیز اپنے لیے مخصوص کر والیں‘‘، مسز ہیک مین نے ہنس کر جواب دیا۔
’’میں اس کے لیے تیار ہوں‘‘، انیس نے تقریباً چلا کر کہا۔ ’’آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پورے ہیک مینز کا ایک شام کا کرایہ سات ہزار روپے ہوگا؟‘‘ مسز ہیک مین نے جواب دیا۔ ’’صرف۔۔۔؟ یہ لیجئے۔۔۔‘‘ انیس نے اپنی وہ لافانی چیک بک نکالی اور سات ہزار کا ایک چیک کاٹ کر حیرت زدہ مسز ہیک مین کے حوالے کیا۔
جیوتی لال کا ریزرویشن اس طرح خود بخود کینسل ہوگیا۔ بیروں نے جو چند لوگ ادھر ادھر آئے بیٹھے تھے۔ ان سے مودبانہ عرض کی، ’’آج سارا ہیک مینز مخصوص کروا لیا گیا ہے اس لیے آپ حضرات تشریف لے جائیے۔‘‘ ساری رقص گاہ خالی ہوگئی۔ چھ بجا ہی چاہتے تھے۔ قاضی انیس الرحمن پنولین کی سی
بوبی ممتاز کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھا ان سب کو دیکھتا رہا۔
’’ہاں آج رات تو قطعی برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ کے بڑے بیٹے نے کہا۔ ’’بڑا مزا آئے گا۔ صبح کو ہم اسنو مین بنائیں گے‘‘ ایک بچہ چلایا۔ ’’ممتاز بھائی جان ہمیں اپنا پائپ دے دو گے؟ ہم اسے اسنو مین کے منہ میں ٹھونسیں گے‘‘، دوسرے بچے نے کہا۔
’’کل صبح شمال میں ہلکے ہلکے چھینٹے پڑیں گے۔ اور شمال مغرب میں آندھی کے ساتھ بارش ہوگی۔ جنوبی بلوچستان اور سندھ کا موسم خشک رہے گا‘‘ صاحب خانہ نے ناک پر عینک رکھ کر اخبار اٹھایا اور موسم کی پیشین گوئی با آواز بلند پڑھنی شروع کی۔
’’خوب برف پڑتی ہے بھائی۔ لیکن ایک بات ہے۔ اس طرف پھل بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں جب میں تھا‘‘ صاحب خانہ کے منجھلے بیٹے نے خود ہی اپنی بات جاری رکھی۔
بوبی ممتاز چپکا بیٹھا ہنستا رہا۔ ’’ساری دنیا موسم میں اتنی شدید دلچسپی کیوں لیتی ہے۔ کیا ان لوگوں کو اس وقت گفتگو کا کوئی اس سے زیادہ بے کار موضوع نہیں سوجھ رہا۔ کوئینی لکھنؤ ریڈیو پر روزانہ آٹھ پچپن پر انگریزی میں موسم کی رپورٹ سناتی تھی۔ کل پچھّم میں تیز ہوا کے ساتھ پانی آئے گا۔ پورب میں صرف تھوڑے چھینٹے پڑیں گے اتر میں سردی بڑھ جائے گی۔۔۔ کوئینی۔۔۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو۔۔۔ فریڈ کہاں ہو تم سب۔۔۔ اس وقت تم سب جانے کیا کر رہے ہوگے‘‘ اس نے بہت تھک کر آنکھیں بند کر لیں۔
’’ممتاز صاحب آج تو آپ ہمارے ساتھ ہی کھانا کھائیے‘‘، صاحب خانہ کی بیگم نے کہا اور شال لپٹتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ان کی آواز پرآنکھیں کھول کر وہ انہیں پینٹری کے دروازے میں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔
صاحب خانہ کی دو لڑکیاں تھیں۔ یہی ساری بات تھی۔ اسی وجہ سے اس کی اتنی خاطریں کی جارہی تھیں۔ جب سے وہ پاکستان منتخب کرنے کے بعد کوئٹہ آیا تھا۔ یہ خاندان اسے روزانہ اپنے ہاں چائے یا کھانے پر مدعو کرتا۔ اگر وہ نہ آنا چاہتا تو وہ جاکر اسے کلب سے پکڑ لاتے۔ اس کے لیے روز طرح طرح کے حلوے تیار کیے جاتے۔ اس کی موجودگی میں ان کی بڑی لڑکی پھیکے شلجم کے ایسے چہرے والی سعیدہ بڑی معصومیت اور نیاز مندی کے ساتھ ایک طرف کو بیٹھی نٹنگ کرتی رہتی۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے خالی رہتا۔ جیسے کسی کل والی چینی کی گڑیا کی انگلیوں میں تتلیاں تھما دی گئی ہوں۔ کبھی کبھی وہ دوسروں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی اور پھر خود بخود شرما کر دوبارہ نٹنگ پر جھک جاتی۔
یہ لڑکیاں کتنی نٹنگ کرتی ہیں۔ بس سال بھر ان کے ہاتھوں میں اون اور سلائیاں دیکھ لو۔ گویا یہ ان کے بنے ہوئے پل اوور اور موزے قیامت کے روز انہیں بخشوائیں گے۔ پھر صاحب خانہ کی بیگم باورچی خانہ سے واپس آکر خانساماں کی نامعقولیت پر اظہار خیال کرنے کے بعد اپنی سگھڑبیٹی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتیں اور اسے مخاطب ہوکر کہتیں۔
’’بس اس کو تو یہی شوق ہے۔ دن بھر اسی طرح کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی ہے۔ اپنے ابا کا یہ سویٹر کوٹ بھی اسی نے بنا ہے۔‘‘ اس وقت وہ یقینا متوقع ہوتیں کہ وہ کہے، ’’اون منگوا دوں گا میرے لیے بھی ایک پل ادور بنا دیجئے۔‘‘ لیکن وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہتا۔ لڑکی اپنی ڈائرکٹر آف پروپگنڈہ اینڈ پبلسٹی کی طرف سے یہ تعریف ہوتی سن کر اور زیادہ شرما جاتی اور اس کی سلائیاں زیادہ تیزی سے متحرک ہوجاتیں۔
خدا وندا۔۔۔ بوبی ممتاز نے بہت زیادہ اکتا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ اندھیرے میں چنار کے درخت آہستہ آہستہ سرسرا رہے تھے۔ اس گرم اور روشن کمرے کے باہر دور دور تک مکمل سکوت طاری تھا۔ رات کا گہرا اور منجمد سکوت۔ وہ رات بالکل ایسی تھی اندھیری اور خاموش۔ ۹ستمبر ۴۷ء کی وہ رات جو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مسوری کے وائلڈ روز میں آخری بار گزاری تھی۔ کوئینی اور وجاہت کا وائلڈ روز۔ جب وہ سب وائلڈ روز کے خوب صورت لاؤنج میں آگ کے پاس بیٹھے تھے اور کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ وہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔لیکن وہ رات بھی پلک جھپکتے میں گزر گئی تھی۔وقت اسی طرح گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحب خانہ نے دفعتاً بڑے زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ایک ہاتھ میں اخبار تھامے ویکلی کے کسی کارٹون پر ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جارہے تھے۔ بچے اپنے تصویروں والے رسالے اور کیرم چھوڑ کر اس کے قریب آگئے اور اس سے کہنے لگے کہ اگر رات کو اس کی موٹر برف میں پھنس گئی تو کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ ایک بچی نے ناؤ بنانے کے لیے اون لکر کا سرورق پھاڑ ڈالا اور ایک تصویر دوسری تراشی ہوئی تصویروں اور کترنوں کے ساتھ رسالے میں سے سرک کر فرش پر آن گری۔
بوبی ممتاز کی نظر اس تصویر پر پڑگئی۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ سگرڈ کی تصویر تھی۔ سگرڈ اپنے پیارے سے دوماہ کے بچے کو میز پر ہاتھوں سے تھامے اس کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔ وہی مخصوص تبسم، اس کے بال اسی اسٹائل سے بنے تھے۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پرسکون اور پر اسرار۔۔۔ اس تصویر کے لیے بچوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوگئی۔ اس کے جسم میں سردی کی ایک تیز ناقابل برداشت کاٹتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی بند تھی اور آتش دان میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کمرہ حسب معمول گرم تھا۔ بچے اسی طرح شور مچا رہے تھے۔ لڑکیاں نٹنگ کررہی تھیں۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ یہ سگرڈ کی تصویر تھی جو ایک بچی نے بے خیالی سے نئے اون لکر میں سے کاٹ لی تھی۔۔۔ سگرڈ۔۔۔ سگرڈ وہ دفعتاً کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
’’کہاں چلے۔۔۔؟ کھانا آنے والا ہے‘‘ صاحب خانہ ہاتھ پھیلا کر چلائے۔ ’’بس پانچ منٹ اور ٹھہر جاؤ بھیا۔ توا چڑھا ہی ہے‘‘ بیگم صاحب نے کہا۔ ’’کھانا کھاکے جائیےگا‘‘ سعیدہ نے اپنی پتلی سی آواز آہستہ سے بلند کرکے چپکے سے کہا اور پھر جلدی سے سلائیوں پر جھک گئی۔
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں پائپ لگا دوں گا۔‘‘ دوسرا بچہ چلایا۔ ’’واہ، لڑکیاں پائپ کہاں پیتی ہیں‘‘ پہلے بچے نے اعتراض کیا۔ ’’ممتاز بھائی جان تو پیتے ہیں‘‘ اس نے اپنی منطق استعمال کی۔ ’’ممتاز بھائی جان کوئی لڑکی تھوڑا ہی ہیں۔‘‘ سب نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔
بوبی ممتاز انتہائی بد اخلاقی کا ثبوت دیتا کمرے سے نکل کر جلدی سے باہر آیا۔ اور اپنی اوپل تک پہنچ کر سب کو شب بخیر کہنے کے بعد تیزی سے سڑک پر آگیا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ اور فروری کا آسمان تاریک تھا۔ اس کے میز بانوں کا گھر دور ہوتا گیا۔ بچوں کے شور کی آواز پیچھے رہ گئی۔ بالکل خالی الذہن ہوکر اس نے کار بے حد تیز رفتاری سے سیدھی سڑک پر چھوڑدی۔ گھر چلا جائے۔ اس نے سوچا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ اس نے کار کا رخ کلب کی طرف کردیا۔
ایک بیرے کو کھانے کے متعلق کہتے ہوئے وہ ایک لاؤنج کی طرف چلا گیا۔ جو اکثر سنسان پڑی رہتی تھی۔ اس نے صوفے پر لیٹ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے، یاد کرنے کی ساری عادتیں بھول چکا ہے۔ اب کچھ باقی نہیں، کچھ باقی نہیں۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو خوب ملا۔ اور پھر غور سے ہتھیلیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کی آنکھیں بہت سونی سونی لگ رہی ہوں گی۔ وہ آنکھیں جن کے لیے کملا کہا کرتی تھی کہ انتہائی شراب انڈیلنے والی آنکھیں ہیں۔ اس کی آنکھوں کی یہ تعریف سب کو یاد ہوگئی تھی۔ بوبی ممتاز کی شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔ اور وہ اس وقت وہاں، اس اجنبی شہر کے غیر دل چسپ کلب کے نیم تاریک خاموش لاؤنج میں صوفے پر بچوں کی طرح پڑا اپنی ہتھیلیوں سے ان آنکھوں کو مل رہا تھا۔ گویا بہت دیر کا سویا ہوا اب جگا ہے۔ برابر کے کمرے میں خوب زور زور سے ریڈیو بجایا جارہا تھا۔ بہت سے لوگ باتوں میں مشغول تھے۔ وہاں بھی موسم کے متعلق بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی۔‘‘ کوئی بے حد وثوق اور اہمیت کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
’’یہاں بڑے کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے یارو‘‘، دوسرے نے جواب دیا۔ پھر سیاسیات پر گفتگوشروع ہوگئی۔ جہاں چار آدمی اکٹھے ہوتے یہ لازمی بات تھی کہ سیاست پر رائے زنی شروع ہوجائے۔ جواہر لال نے یہ کہا۔ قائد اعظم نے یہ کہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہا۔ یہ اچھا ہوا۔ یہ برا ہوا۔ تم کیسے آئے؟ میں ایسے آیا۔ میں یوں لٹا۔ میں نے راستے میں یوں تکلیفیں اٹھائیں۔ فلاں ملازم ہوگیا۔ فلاں نے استعفیٰ دے دیا۔ فلاں کراچی میں ہے۔ فلاں پنڈی پہنچ چکا ہے۔۔۔
بوبی ممتاز لاؤنج کے صوفے پر چپ چاپ پڑا یہ سب سنا کیا۔ گیلری کی دوسری جانب ایک کمرے میں چند انگریز ممبر اور ان کی خواتین قریب قریب بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ مے نوشی میں مصروف تھیں۔ کلب کا وہ حصہ نسبتاً سنسان پڑا تھا۔ ۱۵اگست کے بعد شہر اور چھاؤنی میں جو اکادکا انگریز رہ گئے تھے وہ سرشام ہی سے وہاں آن بیٹھتے اور ہوم، خط لکھتے رہتے یا طامس کک اور بی، او، اے، سی والوں سے پسیج کے متعلق خط وکتابت کرتے۔ ان کی بیویاں اور لڑکیاں اکتاہٹ کے ساتھ بیٹھی ریکارڈ بجاتی رہتیں۔ ان کے گڈ اولڈ ڈیز کے پرانے ساتھی اور عزیز ہوم جاچکے تھے اور جانے کہاں کہاں سے نئے نئے دیسی ممبر کلب میں آن بھرے تھے۔۔۔ ڈیڈی نے دوسال کے لیے کنٹریکٹ کیا ہے۔ چالس نے سال بھر کے لیے والینٹیئر کیا ہے۔ کوئٹہ تو مار گریٹ ڈارلنگ بے حد دل چسپ اسٹیشن تھا۔ پر اب۔ اب تو اتنا مرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بے بسی کے عالم میں کلب کے دیسی ممبروں کی خواتین کو دیکھتیں۔
’اوگوش‘ گیلری میں سے گزرتے ہوئے کرنل روجرز کی سرخ بالوں والی لڑکی نے چپکے سے اپنی ایک سہیلی سے اکتا کر کہا، ’’آج وہ بھی نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ کون۔۔۔؟ اس کی سہیلی نے پوچھا۔۔۔ ’’وہی۔۔۔ انتظامی سروس والا۔۔۔ جو لکھنؤ سے آیا ہے۔‘‘
’’اچھا وہ۔۔۔‘‘
’’ہاں، سخت بور ہے۔ کل رات میرا خیال تھا کہ مجھ سے رقص کے لیے کہے گا۔ لیکن چپ چاپ الو کی طرح آنکھیں جھپکاتا رہا۔‘‘
’’لیکن کیرل ڈرالنگ کتنی بالکل شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔‘‘
’’ہوں گی۔۔۔ جین ڈارلنگ یہ ہندوستانی بالکل گیلنٹ نہیں ہوتے۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرتی کارڈ روم کی طرف چلی گئیں۔
باہر درخت ہوا میں سر سراتے رہے۔ اس کے ایک دوست نے گیلری میں سے لاؤنج میں آکر روشنی جلادی۔ وہ چونک کر صوفے پر سے اٹھ بیٹھا۔ ’’ابے یار کیا افیمچیوں کی طرح بیٹھے ہو۔ تمہیں سارے میں تلاش کر ڈالا، چلو کارڈ روم میں چلیں۔ وہاں روجرز کی لونڈیا بھی موجود ہے۔ تم نے تو ابھی سارا کلب بھی گھوم کر نہیں دیکھا۔ ذرا جاڑے نکلنے دو، تفریح رہے گی۔ سچ پوچھو تو یہ شہر اتنا برا نہیں۔ شروع شروع میں تو سبھی ہوم سک، محسوس کرتے ہیں لیکن بہت جلد ہم ان فضاؤں سے مانوس ہوجائیں گے‘‘، اس کے دوست نے کہا۔
’’ہاں بالکل ٹھیک کہتے ہو بھائی‘‘، اس نے پائپ جلاتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’چلو ذرا پون ٹون ہی کھیلیں۔‘‘
’’تم چلو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’جلد آنا۔ سب تمہارے منتظر ہیں‘‘ دوست نے باہر جاتے ہوئے کہا۔
برابر کے کمرے کا شور دھیما پڑگیا۔ شاید وہ سب بھی کارڈ روم کی طرف چلے گئے تھے۔ کسی بیرے نے یہ سمجھ کر کہ لاؤنج میں کوئی نہیں ہے۔ دروازے میں سے ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بجھا دی اور آگے چلا گیا۔ لاؤنج میں پھر وہی نیم تاریکی پھیل گئی۔ رات کا سحر گہرا ہوتا جارہا تھا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ وہ پھر چونک پڑا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نام سے اس اجنبی جگہ میں اس کو کس نے پکارا۔ اس نام سے پکارنے والے اس کے پیارے ساتھی بہت پیچھے بہت دور رہ گئے تھے۔
بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہاں پر کوئی نہ تھا۔ اس جگہ پر تو محض ممتاز صغیر احمد تھا۔ وہ ہنسی، وہ شور مچانے والا، خوب صورت آنکھوں کا مالک، سب کا چہیتا بوبی تو کہیں اور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں پر صرف ممتاز صغیر احمد موجود تھا۔ اس نے اپنا نام آہستہ سے پکارا۔ ممتاز صغیر احمد کتنا عجیب نام ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کی ہستی کیا ہے کیوں اور کس طرح اپنے آپ کو وہاں پر موجود پا رہا ہے۔۔۔ یہ انسان۔۔۔ یہ انسان سب کچھ محسوس کرکے، سب کچھ بتا کے اب تک زندہ ہے۔ سانس لے رہا ہے۔ رات کے کھانے کا انتظار کررہا ہے۔ ابھی وہ کارڈ روم میں جاکر پون ٹون کھیلےگا۔ کرنل فریزر کی لڑکی کے ساتھ ناچے گا۔ اتوار کو پھر اس شلجم کی ایسی شکل والی لڑکی سعیدہ کے گھر مدعو کیا جائےگا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے جواب دیا۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو بھیا۔۔۔ یہ تم ہو۔۔۔؟ اس نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھاکر کچھ محسوس کرنا چاہا۔ اس نے صوفے کے مخملیں کشن کو چھوا۔ مخمل اتنی گرم تھی، اور راحت پہنچانے والی۔ دریچے کے باہر فروری کی ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔
بوبی۔۔۔ ہاں کوئینی بی بی۔ تم کہاں ہو۔ میں نے تمہاری آواز سنی ہے۔ ابھی تم اور لوکھلکھلا کر ہنسی تھیں۔ لیکن وہاں لو بھی نہیں تھی۔ وجاہت بھی نہیں تھا۔ فریڈ بھی نہیں تھا۔
کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے دہرایا۔ آٹھ پچپن۔ اس کی نظر گھڑی پر پڑگئی وہ اس وقت، سینکڑوں ہزاروں میل دور، نشر گاہ کے اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنے سامنے رکھے ہوئے بلٹین کے ٹھیٹ سنسکرت الفاظ نگلنے کی کوشش میں مصروف ہوگی۔ اور موسم کی رپورٹ سنا رہی ہوگی۔ گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ وجاہت بھائی۔۔۔ تم اس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ اور فریڈ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ انیس۔۔۔
برابر کے کمرے میں لاہور سے موسم کی رپورٹ سنائی جارہی تھی اور خالی کمرے میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔ آج شمال میں برف باری ہوگی۔ شمال مغرب میں بارش کے چھینٹے پڑیں گے۔ جنوب میں تیز ہوائیں چلیں گی۔۔۔ گھڑی اسی طرح ٹک ٹک کرتی رہی۔ ٹک ٹک ٹک۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔چھ۔۔۔ چھ سال۔۔۔ یہ چھ سال۔۔۔ خدا وند۔
اس تپش، اس تڑپ، اس بے چینی کے بعد آخر کار موت آتی ہے۔ آخر کار خدائے قدوس کا سپید تخت نظر آتا ہے۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ کوئینی نے آہستہ آہستہ کہا۔ پس منظر کی موسیقی دفعتاً بہت تیز ہوگئی۔
ہاں۔۔۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ ارے تم کدھر نکل آئے زندگی کی طرف واپس جاؤ۔ انقلاب اور موت کے تندرو آندھیوں کے سامنے زرد، کمزور پتوں کی طرح بھاگتے ہوئے انسان۔ ہماری طرف واپس لوٹو۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ لو ٹہر گئی۔ ٹھیک ہے؟ اس نے اپنے حصے کی آخری سطریں ختم کرکے اسکرپٹ فرش پر گرادیا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔ تھینک یو۔۔۔‘‘ کوئینی ہیڈ فون ایک طرف کو ڈال کر باہر آگئی۔ ’’لیکن ڈارلنگ تم نے ٹمپو پھر تیز کردیا۔ خدا کے لیے دھیرے دھیرے بولا کرو۔‘‘
’’او گوش۔ یہ ٹمپو توکسی چیزکا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ کوئینی ڈرالنگ۔۔۔‘‘ لونے اکتا کر جواب دیا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ گیلری میں سے وجاہت کی آواز سنائی دی۔ ’’ارے کیا وجو آیا ہے؟‘‘ کوئینی نے اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر باہرجھانکا۔
اس کا بھائی وجاہت انتظار کے کمرے میں کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’بیٹا گھر چل رہی ہو؟‘‘ اس نے کوئینی سے پوچھا۔ ’’تم اس وقت کیسے آگئے؟‘‘ کوئینی نے دریافت کیا۔
’’میں ابھی ابھی بوبی ممتاز کوبرلنگٹن سے لینے آیا تھا۔ میں نے سوچا اگر تمہارا کام ختم ہوگیا ہو تو تمہیں بھی ساتھ لیتا چلوں‘‘، وجاہت نے کہا۔ ’’بوبی ممتاز کون؟‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’ہے ایک۔۔۔‘‘ وجاہت نے اسی بے خیالی سے جواب دیا۔ بوبی ممتاز زینے پر سے اتر کے ان کی طرف آیا۔ ’’کہاں بھاگ گئے تھے؟‘‘ وجاہت نے ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’ار۔۔۔ آداب۔۔۔‘‘ بوبی ممتاز نے کوئینی کی طرف مڑکر کہا ’’تم ہی کوئینی بیٹا ہونا؟‘‘
’’ہاں۔ تسلیم!‘‘ کوئینی ناخن کترتے ہوئے غور سے اس کے مطالعے میں مصروف تھی۔ کتنا سوئیٹ لڑکا ہے۔ اس نے دل میں کہا۔ ’’تو پھر چلو ہمارے ساتھ ہی گھر‘‘، بوبی ممتاز نے کہا۔ ’’نہیں بھیا۔ ابھی مجھے وہ کم بخت موسم کی خبریں سنانی ہیں۔ آٹھ پچپن ہوگئے۔‘‘ وہ انہیں گیلری میں کھڑا چھوڑ کر اسٹوڈیو میں تیزی سے گھس گئی۔ وہ دونوں باہر آگئے۔
یہ خلوص، یہ سادگی، یہ اپنائیت ایسے پیارے دوست اسے آج تک کہیں نہ ملے تھے۔ بہت جلد وہ وجاہت کے سٹ میں گھل مل گیا۔ وہ سب کے سب اتنے دل چسپ تھے۔ لیونور اور شرجو ’ لو‘ کہلاتی تھی، جس کی ماں امریکن اور باپ پہاڑی تھا۔ اس کی ترچھی ترچھی نیپالی آنکھوں کی وجہ سے سب اسے چنک چائی لو کہتے تھے اور فریڈ جس کا تبسم اتنا معصوم، اتنا پاکیزہ، اتنا شریف تھا۔ وہ اسے چھیڑنے کے لیے ہندستانی عیسائی فرقے کی مخصوص حماقتوں کا مذاق اڑاتے۔ لڑکیاں عیسائیوں کے بنے ہوئے انگریزی لہجے کی نقل کر کے اس سے پوچھتیں، ’’فریڈ ڈیر کیا آج تم کسی اپنا گرل فرینڈ کو باہر نہیں لے جانے مانگتا؟‘‘
’’کیوں تم سب میری اتنی ٹانگ کھینچتے ہو‘‘ وہ ہنس کر کہتا۔ وہ بہت اونچے عیسائی خاندان سے تھا۔ لیکن اسے اس طرح چھیڑنے میں سب کو بہت لطف آتا۔ وہ سب لو سے کہتے، ‘‘لوڈیر اگر فریڈ اس سنڈے کو پروپوز کرے تو فوراً مان جاؤ۔ ہم سب تمہاری برائیڈز میڈز اور پیچ بوائے بنیں گے۔‘‘ پھر وہ چلا چلا کر گاتیں، ’’سم سنڈے مارننگ۔‘‘
وہ ۴۲ء تھا، جب بوبی ممتاز پہلی بار ان سب سے ملا۔ ہر سال کی طرح جب گرمیاں آئیں اور وہ لوگ مسوری جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہم راہ مسوری گیا۔ کوئینی اور وجاہت کے ’وائلڈ‘ روز میں سب اکٹھے ہوئے۔ اور وہ وہاں پر بھی بہت جلد بے حد ہر دلعزیز ہوگیا۔
بڑی غیر دلچسپ سی شام تھی۔ وہ سب ہیک منیز کے ایک کونے میں بیٹھے سامنے سے گزرنے والوں کو اکتاہٹ سے دیکھ رہے تھے۔ اور چند ملنے والوں کے منتظر تھے۔ جنہیں وجاہت نے مدعو کیا تھا۔ اتنے میں گیلری میں سے چچی ارنا گزرتی نظر آئیں انہوں نے بالوں میں دو تین پھول ٹھونس رکھے تھے۔ اور خانہ بدوشوں کا سا لباس پہنے تھیں۔
’’کوئی نیا جناور گرا ہے‘‘ یاسمین نے چپکے سے کوئینی سے کہا۔ ’’اماں چپ رہو یار‘‘، کوئینی نے اسے ڈپٹ کر جواب دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں‘‘، کوئینی نے جواب دیا۔ اتنے میں ان کے مہمان آگئے۔ اور وہ سب بظاہر بڑی سنجیدہ شکلیں بنا کر ان کے پاس جا بیٹھیں۔
’’یہ چچی ارنا کون ہیں۔ تمہاری چچی ہیں؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ تازہ وارد مہمان سب ان ہی کی باتیں کر رہے تھے۔
’’ارے نہیں بھئی‘‘، کوئینی نے شگفتگی سے جواب دیا۔ ’’یہ سگرڈ کی ممی ہیں۔‘‘
’’سگرڈ کون؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’ہے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔۔‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے گویا مزید تشریح کر دی اور پھر دوسری باتوں میں منہمک ہوگئی۔
اگلے روز وہ سب ٹہلنے کے لیے نکلے تو وجاہت نے تجویز کیا کہ وڈ اسٹاک کا چکر لگا آئیں۔ سگرڈ سے بھی ملتے آئیں گے۔ وہ ٹولیاں بنا کر پتھر اور چٹانیں پھلانگتے وڈ اسٹاک کے ہوسٹل کی طرف مڑ گئے۔
ایک بڑے سے سلوراوک کے نیچے بوبی ممتاز نے سگرڈ کو دیکھا۔ وہ عمارت کی ڈھلوان پر درختوں کے جھنڈ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی نٹنگ میں مشغول تھی۔ ان سب کواپنی سمت آتا دیکھ کر وہ بچیوں کی طرح دوڑتی ہوئی کوئینی کے قریب آگئی۔ کوئینی نے اس کا تعارف کرایا، ’’یہ ہمارے بوبی بھائی ہیں۔ اتنی بڑھیا ایکٹنگ کرتے ہیں کہ تم دیکھ کر بالکل انتقال کر جاؤ گی۔‘‘
وہ بچوں کی طرح مسکرائی۔ وہ اس کا معصوم، پاکیزہ تبسم، ایکٹنگ ان دونوں کا مشترکہ موضوع گفتگو بن گیا۔ وہ سب شام کی چائے کے لیے اکٹھے ’وائلڈ روز‘ واپس آئے۔
وہ زمانہ جو اس سال بوبی ممتاز نے مسوری میں گزارا، اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔ مال پر سے ونسنٹ ہل کی طرف واپس آتے ہوئے ایک روز اس نے فریڈ سے کہا، ’’ٹھاکر پال فریڈرک رنبیر سنگھ۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان کون ہے؟‘‘ فریڈ نے سنجیدگی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’سنو‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جس طرح اکثر اخباروں کے میگزین سیکشن میں ایک کالم چھپتا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پل سڈنی میں ہے۔ دنیا کا امیر ترین شخص نظام حیدر آباد ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ چھپے گا کہ دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص ممتاز صغیر احمد ہے۔ سمجھے ٹھاکر صاحب۔۔۔ ممتاز صغیر۔۔۔ کیا سمجھے؟‘‘
فریڈ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ بہت ہی گر انبار، سنجیدہ، سلجھا ہوا آدمی تھا۔ اس کی عمر اکتیس بتیس سال کی رہی ہوگی۔ بہت ہی کنفرمڈ قسم کا بیچلر تھا اور سارے بیچلرز کا مانا ہوا گرو۔ اپنے ایک نہایت ہی سعادت مند چیلے سے یہ بچوں کی سی بات سن کر وہ صرف ہنستا رہا۔ اور اس نے بوبی کو کوئی جواب نہ دیا۔ بوبی بے فکری سے سیٹی بجاتا آگے چلا گیا۔
سڑک کی ڈھلوان پر سے مڑتے ہوئے اس کی نظر ایک بڑی سی دو منزلہ کوٹھی پر پڑی جسے اس نے آج تک نوٹس نہ کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ اس وقت اس کے احاطے میں خوب گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ دروازوں پر روغن کیا جارہا تھا۔ چھت پر بھی نیا سرخ رنگ کیا گیا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کے داڑھی دراز بزرگوار بر آمدے میں کھڑے قلیوں اور نوکروں کو ہدایات دے رہے تھے۔ بڑا کرو فر۔ بڑی شان و شوکت نظر آرہی تھی۔
’’یہ کس کا مکان ہے بھئی؟‘‘ بوبی نے ایک قلی سے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔؟ قاضی جلیل الرحمن کا ایشلے ہال‘‘، قلی نے بڑے رعب سے اسے مطلع کیا۔ اور آگے چلا گیا۔
سیاہ بادل بہت تیزی سے بڑھتے آرہے تھے۔ یک لخت بارش کا ایک زور دار ریلا آگیا۔ بوبی نے اپنی برساتی سنبھال کر جلدی سے ’وائلڈ روز‘ کے راستے چڑھائی طے کرنی شروع کردی۔
وہ جولائی کا دوسرا ہفتہ تھا۔ موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہورہی تھیں۔ چند روز بعد وہ سب مسوری سے واپس آگئے۔
لیکن قاضی جلیل الرحمن اور ان کے بھانجے انیس کو موسمی تعطیلات کے ختم ہوجانے کی پروانہ تھی۔ وہ مراد آباد کے نواح کے زمین دار تھے۔ ان کے پاس وقت اور روپے کی فراوانی تھی۔ اور ان دونوں چیزوں کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے دونوں ماموں بھانجے مسوری آئے تھے اور پانی کی طرح روپیہ بہانے میں مصروف تھے اور اکتوبر سے پہلے ان کا مراد آباد جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
انیس کے والد کا سال بھر قبل انتقال ہوچکا تھا۔ اور اس کے ماموں قاضی صاحب نے خود کو اس کا غیر قانونی مشیر مقرر کررکھا تھا۔ ان کا اثر اس پر بہت زیادہ تھا۔ قاضی صاحب بے حد دل چلے اور شوقین آدمی تھے۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد انہوں نے اندازہ لگایا کہ لڑکا بہت سیدھا اور خاصا کم عمر ہے اور ساری ریاست اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہذا اب تو راوی چین لکھتا ہے۔ چناں چہ انیس کے والد کی برسی کے بعد پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ پہاڑ پر چل کے رہنے کے فوائد اسے ذہن نشین کرانے شروع کیے۔ اس کے حوالیوں موالیوں نے بھی اٹھتے بیٹھتے اس سے کہا کہ سرکار اک ذری تھوڑی دور کسی فرحت بخش مقام پر ہو آویں تو غم غلط ہووے گا۔ وہ فوراً مان گیا اور اپنا لاؤ لشکر لے کر قاضی صاحب کی قیادت میں مسوری آن پہنچا۔ طے کیا گیا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا جھول ہے اور اٹھائی گیروں کا کام ہے جن کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں ہوتا۔ ہری چگ کی طرح آئے اور ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ لہذا ایک عمدہ سی کوٹھی خریدنا چاہئے۔ انیس نے کہا کہ یہاں کی سب سے بڑھیا کوٹھی کون سی ہے وہی خرید لی جائے۔ لوگوں نے بتایا کہ کپور تھلہ ہاؤس یہاں کی بہترین کوٹھی سمجھی جاتی ہے۔ کوٹھی کیا اچھا خاصا محل ہے۔ انیس نے فوراً اپنی چیک بک نکالی۔ ’’لاؤ پھر اسے ہی خرید لیتے ہیں‘‘، اس نے کہا۔
’’اماں یار باؤلے ہوئے ہوکیا۔ کپور تھلہ ہاؤس تم خرید لوگے بھلا؟‘‘ ایک دوست نے قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’حضور دوسرا بہترین مکان بھوپال ہاؤس ہے۔ لیکن اتفاق سے وہ بھی بک نہیں سکتا۔ تیسری بہترین کوٹھی اسپرینگ ڈیل ہے اور چوتھی کوٹھی حضور کے لائق ایشلے ہال ہے‘‘، ایک مصاحب نے اطلاع دی۔
ایشلے ہال خرید لی گئی۔ اسے بہترین ساز وسامان سے آراستہ کیا گیا۔ دہرہ دون سے گوانیز ملازم اور ایک اینگلو انڈین ہاؤس کیپر منگوائی گئی اور ایشلے ہال مسوری کی چوتھی بہترین کوٹھی کہلانے لگی۔
انیس جب پہلے پہل مسوری گیا ہے اس کی تعلیم بقول شخصے صرف سرسی سے سنبھل تلک کی تھی۔ نویں کلاس سے اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ اس سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ البتہ شیر کے شکار اور شہسواری اور برج اور گھوڑ دوڑ کے میدان میں رویل کھنڈ بھر میں دور دور کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنبے کی ایک لڑکی سے کردی گئی تھی جو ایک اور زمین دار کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی جاگیر پر بیٹھا چین کی بنسی بجاتا تھا۔
ایشلے ہال خرید کر مسوری میں جب اس نے رہنا شروع کیا تو وہاں کی پہلی جھلک سے اس کی آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ اور اس نے سوچا کہ یار یہ جو اب تک ہم مراد آبا، سنبھل اور امروہے میں پڑے تھے وہ اتنی عمر تو گویا برباد ہی گئی۔ یہاں تو ایک عجیب وغریب دنیا آباد تھی۔ انسانوں کی بستی تھی۔ یا اندر کا اکھاڑہ۔ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ ایشلے ہال کا مالک اور مسوری کا سب سے زیادہ روپیہ خرچنے والا میزبان، لیکن بالکل تازہ تازہ دیہاتی جاگیردار۔ ادھر ادھر تو کام چل جاتا تھا لیکن خواتین کی سوسائٹی میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ایک اینگلو انڈین لیڈی کمپنین کی خدمات حاصل کیں۔ جو اسے صحیح انگریزی بولنا اور بال روم ناچ سکھائے۔ چند ہی مہینوں میں وہ ایک اور فرفر انگریزی بولنے والا بے حد ویل ڈر سیڈ انیس تھا جو مسوری کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز شخص سمجھا جاتا تھا۔ بالکل ہی کایا پلٹ ہوگئی۔
اگلے سال ۴۳ء کی گرمیوں میں جب کوئینی وجاہت اور ان کا گروپ مسوری پہنچا تو انہیں ایک تازہ وارد اجنبی بال رومز کی سطح پر بہتا نظر آیا۔ جس نے ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی۔ وجاہت اسے پہلے سے جانتا تھا۔ لیکن اس اچانک کایا پلٹ پر وہ بھی اسے نہ پہچان سکا۔ اس سال وہاں سارے مشہور ٹینس اسٹارز جمع تھے۔ مس اعزاز، مس کاجی۔ غیاث محمد۔ علی نگر کی عبیداللہ بہنیں۔ ان کی بھاوج شاہندہ احسان عبیداللہ،بمبئی سے جیوتی بھی حسب معمول آیا تھا۔ سیزن اپنے عروج پر تھا۔ لکھنؤ کی کھوچڑ بہنیں بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھیں۔ نرملا، پرکاش، وائلٹ، روبی اوبز روزا کی پیشین گوئی تھی کہ روبی کھوچڑ اس دفعہ سالانہ مقابلہ حسن میں سگرڈ ربانی سے سبقت لے جائے گی۔ ایشلے ہال کی پارٹیوں میں یہ سب اکثر نظر آتیں۔
ایک روز ہیک منیز میں انیس رقص کا پہلا دور ختم کرکے کوئینی کی طرف آیا اور اسے سلام کرکے وجاہت کے قریب جا بیٹھا۔ ’’ابے اوبغ چونچ۔۔۔ یہ سوٹ بوٹ کیسے ڈانٹ لیا۔ یہ کیا سوانگ بھرا ہے ایں؟‘‘ وجاہت نے اسے ڈانٹ کرپوچھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا جھینپتے ہوئے چپکے سے وجاہت سے پوچھا، ’’کیوں یار اب ٹھیک لگتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘
’’ذرا اس گدھے کو دیکھنا یاسمین ڈارلنگ، خود تو شام کا لباس پہن کر ناچتا پھررہا ہے اور بیوی کو وہیں قصبے میں چھوڑ رکھا ہے۔ ایسے آدمیوں کو تو بس۔۔۔‘‘ کوئینی نے غصے کے ساتھ چپکے سے کہا۔
اس کے اگلے دن کوئینی اپنے مکان کے اوپر کے برآمدے میں آرام کرسی پر کاہل بلی کی طرح لیٹی پڑھنے میں مشغول تھی کہ دفعتاً اسے برآمدے کے شیشوں میں سے نظر آیا کہ نشیب میں خان بہادر اعجاز احمد کے کاٹج کے سامنے رکشائیں کھڑی ہیں۔ بہت سے لوگ آجارہے ہیں اور خوب چہل پہل ہے۔ یہاں تک کہ ان کے باورچی خانہ میں سے دھواں تک اٹھ رہا ہے۔ یہ بے حد عجیب اور نئی بات تھی۔ کیوں کہ خان بہادر صاحب کا خاندان عموماً یا دوسروں کے ہاں مدعو رہتا تھا یا ہوٹلوں میں کھانا کھاتا تھا۔ وہ بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھتی رہی۔ اسی وقت بارش شروع ہوگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد وجاہت اور بوبی برساتیوں سے لدے پھندے بھیگتے بھاگتے نچلی منزل کی گیلری میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی زینے ہی پر تھے کہ کوئینی چلائی، ’’ارے وجو بوبی بھیا جلدی سے اوپرآؤ۔۔۔‘‘
اور جس وقت وجاہت اور بوبی برآمدے کے دریچے میں آکھڑے ہوئے انہیں انیس اپنا بہترین سوٹ پہنے سگار کا دھواں اڑاتا خان بہادر صاحب کے کاٹج میں سے نکلتا نظر آیا۔
’’اچھا۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔‘‘ وجاہت نے بہت آہستہ سے کہا۔ اسے اور بوبی کو اتنا رنجیدہ دیکھ کر کوئینی کا سارا اکسائیٹ منٹ رفو چکر ہوگیا۔ اور وہ بھی بڑی فکر مندی کے ساتھ دونوں کی کرسیوں کے نزدیک فرش پر بلی کی طرح آبیٹھی اور چہرہ اوپر اٹھاکر دونوں لڑکوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔
چچ چچ چچ۔۔۔ بے چارہ سوئیٹ بوبی ممتاز۔ کوئینی نے بے حد ہمدردی سے دل میں سوچا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس سے اس سنجیدگی سے نہ بیٹھا گیا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر بھاگی بھاگی گیلری میں پہنچی اور یاسمین کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔
’’میں نے تم سے کہا تھا کوئینی ڈیرکہ اس سال تو کوئی اور بھی برا جناور گرا ہے۔ اس پچھلے سال والے کسی جناور سے بھی بڑا‘‘ دوسرے سرے پر یاسمین بڑی شگفتگی سے کہہ رہی تھی۔ ’’اور سنو تو۔۔۔ کل میں نے سگرڈ کو نیا لیپرڈاسکن کوٹ پہنے دیکھا۔ ایسا بڑھیا کہ تم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ اور چچی ارنا کا نیا ایوننگ گاؤن۔ اصلی ٹیفیٹا ہے۔ اس جنگ کے زمانے میں اصلی ٹیفیٹا کوئینی ڈارلنگ۔۔۔ اور ٹوٹو کہہ رہی تھی کہ اس نے مسز راج پال سے سنا جنہیں بیگم فاروقی نے بتایا کہ مسز نارنگ نے ان سے کہا کہ آج کل خان بہادر صاحب کے ہاں کی خریداری کے سارے بل لیلارام اور فینسی ہاؤس والے سیدھے ایشلے ہال بھیج دیتے ہیں۔۔۔ اوگوش۔‘‘
’’اوگوش۔۔۔‘‘ کوئینی نے اپنی آنکھیں بالکل پھیلا کر پھولے ہوئے سانس سے دہرایا۔
بارش ہوتی رہی۔ ریسیور رکھ کر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اوپر آگئی اور دریچے میں کہنیاں ٹیک کر بے دلی سے باہر کا منظر دیکھتی رہی جہاں پانی کے پھواروں کے ساتھ بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر تیرتے پھر رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں خان بہادر صاحب کے کاٹج میں پیانو بج رہا تھا اور چچی ارنا اپنے برآمدے میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں۔
چچی ارنا سوئیڈش تھیں۔ جب وہ پہلی بار اپنے شوہر کے ہم راہ ہندوستان آئی تھیں۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ سر آغا خاں کے اس سنہرے دیس میں وہ بھی ایک مرمریں محل سرا میں کسی الف لیلیٰ سلطانہ کی طرح رہا کریں گی۔ لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ مرمریں ستونوں اور ایرانی قالینوں والی محل سرا کے بجائے ان کے شوہر اصغر ربانی لکھنؤ کے ایک نہایت گندے محلے وکٹوریہ گنج میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک بوڑھی ماں ہے جو ہر وقت امام کی مجلسوں میں چلا چلا کر رونے میں مصروف رہتی ہے۔ چار پانچ جاہل اور کالی اور سخت بے ہنگم بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ ان سب عورتوں کی ساری سوسائٹی جھوائی ٹولہ اور مولوی گنج اور نخاس کی گلیوں تک محدود ہے جہاں وہ سب ڈولیوں پر کتے کی طرح ہانپتے ہوئے انسانوں کے کاندھوں پر لد کے، پردے دار تانگوں میں سوار ہوکے کبھی کبھار اسی طرح کے دوسرے گندے مکانوں اور ان ہی کی قسم کی دوسری بے ہنگم عورتوں سے ملنے جایا کرتی ہیں۔
ارنا کرسینا پر یہ سب دیکھ کر بے ہوشی کا سا عالم طاری ہوگیا۔ ان کے پیارے شوہر نے انہیں دلاسا دیا کہ جب ان کا کاروبار چمک جائے گا تو وہ شہر سے باہر گومتی کے کنارے سول لائنز میں یا چھاؤنی میں کوٹھی لے کر رہا کریں گے۔ لیکن وہ برسوں تک اس ٹاٹ کے پردوں والے مکان سے نہ نکل سکیں۔ ان کے بالکل سونے کی رنگت کے دمکتے ہوئے بال تھے۔ نیلی آنکھیں تھیں اور گلاب کے شبنم آلود شگوفوں کی ایسی رنگت تھی۔ لیکن وائٹ ویز کے ہاں کے ملبوسات پہن کر چھتر منزل کلب میں جگمگانے کے بجائے ان کی قسمت میں تو یہی زک بھوگنا لکھا تھا کہ ٹوریہ گنج کے اس مکان کی ایک صخچی میں بیٹھی ٹھیٹ ہندوستانی ماؤں کی طرح محض سگرڈ کو پالتی رہیں اور اپنے میاں کو کوسا کریں۔ اصغر ربانی اٹھتے بیٹھتے انہیں اطمینان دلاتے، ’’بس ڈارلنگ چند روز کی بات اور ہے پھر ہم چل کر الگ رہیں گے۔ تمہیں کون سی جگہ زیادہ پسند ہے، ٹرانس گومتی سول لائنز یا دل کشا؟‘‘
’’جہنم میں جائے تمہاری ٹرانس گومتی‘‘ اور ارنا کرٹینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ واقعی یہ ان کے لیے بڑا صبر آزما زمانہ تھا۔ اچھی اچھی ہندوستانی لڑکیوں کے جنہیں باہر کی ذراسی بھی ہوا لگ چکی ہوتی۔ اس ماحول میں دہشت زدہ ہوجاتیں۔ وہ پھر خالص ولائتی تھیں۔
کئی برس اسی طرح لشٹم پشٹم گزر گئے۔ آخر ایک سال اصغر ربانی کسی طرح روپیہ فراہم کرکے انہیں گرمیاں گزارنے کے لیے مسوری لے گئے۔ وہاں چچی ارنا کی ملاقات اصغر ربانی کے ایک دوست خان بہادر اعجاز احمد سے ہوئی جو ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر تھے، اور بڑے ٹھاٹ سے وہاں زندگی گذارتے تھے۔ چچی ارنا نے ان سے شادی کرلی۔ اور سگرڈ کوڈو اسٹاک اسکول میں داخل کردیا۔ اور اسی طرح کی زندگی گزارنے لگیں جس کی انہیں اتنی شدید تمنا تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک کسی کو اصغر ربانی کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے لیے طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں۔ کسی نے انہیں جمنا کے کنارے داڑھی اور جٹائیں بڑھائے، سادھوؤں کے ساتھ گھومتے دیکھا۔ آخری اطلاع ان کے متعلق یہ تھی کہ کاروبار میں سخت نقصان اٹھانے کے بعد اپنا باقی ماندہ روپیہ لے کر وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔
سگرڈ جب بڑی ہوئی اس وقت تک وہ وکٹوریہ گنج کے مکان اور اپنے باپ کو بالکل بھول چکی تھی۔ وہ اب مسوری کی ’بال آف فائر‘ کہلاتی تھی۔ اس کا رنگ بالکل سفید نہیں تھا، اس میں ہلکے ہلکے ہندوستانی سانولے پن کی جھلک تھی۔ اس کی آنکھیں بچوں کی طرح بڑی بڑی اور سیاہ تھیں۔ چچی ارنا کیتھولک تھیں۔ کیتھولک مذہب میں جو گمبھیرتا ہے اس کا پورا پورا اثر سگرڈ کی اس طبیعت نے قبول کیا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب طرح کی فرشتوں کی سی معصومیت برستی تھی۔ سوسائٹی لڑکیوں میں اکثر جو چھچھورا پن سطحیت اور چمک دمک ہوتی ہے وہ اس سے کوسوں دور تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے دنیا سے الگ تھلگ، سینٹ میری کی مقدس راہبات کی کسی خانقاہ میں سے نکل کر چلی آرہی ہے۔
’’خدا وندا۔۔۔ کیا سگرڈ ایسی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔‘‘ کوئینی نے بر آمدے کے دریچے میں کھڑے کھڑے ایک اور جمائی لے کر بڑے دکھ کے ساتھ سوچا۔ اسے پھر بوبی ممتاز کا خیال آیا جو سمجھتا تھا کہ سگرڈ ہی وہ لڑکی ہے جس کا وہ جنم جنم سے انتظار کرتا آیا تھا۔ جو روبی کھوچڑ اور انوری خاں اور نشاط اسٹینلے اور ان کی طرح کی دوسری لڑکیوں سے بہت بلند ہے۔ بہت بلند اور بہت مختلف۔۔۔ خداوندا۔۔۔وہ بے دلی سے وادی کے نیلے اور سفید پھولوں پر بارش کی پھواروں کو برستا دیکھتی رہی۔ چچی ارنا کے کاٹج میں سے پیانو کی آواز بدستور بلند ہو رہی تھی۔ کوئی بڑے اچھے سروں میں ’’سوانی۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو‘‘ کا پرانا نغمہ بجارہا تھا۔
اسی شام ’وائلڈ روز‘ سے واپسی پر بوبی ممتاز کو راستے میں نشاط اسٹینلے مل گئی۔ نشاط اسٹینلے بمبئی ریڈیو سے انگریزی میں اناؤنسمنٹ کرتی تھی اور کمرشل آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی جو انتہائی بدشکل تھی۔ لیکن نہ جانے کس طرح انتہائی دل کش معلوم ہوئی تھی۔
’’اوہلو بوبی ممتاز۔ تمہیں آج اتنے چاندوں کے بعد دیکھا ہے۔ کہاں تھے؟‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ ’’کہیں نہیں۔۔۔ یہیں تھا۔۔۔‘‘ بوبی نے اکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا اور اپنی شراب انڈیلنے والی آنکھیں دوسری طرف گھما دیں۔ وہ ایک ہرنی کی طرح جست بھر کے پگڈنڈی پر سے پھر ان آنکھوں کی زد میں آکھڑی ہوئی۔
’’اوجیزس۔۔۔ صدیوں کے بعد نظر آئے ہو۔ کیا سگرڈ ربانی کے چھن جانے کا سوگ منا رہے ہو؟ بے وقوف ہو۔ سوگ کرنے کے بجائے آؤ اس حادثے کو سے لے بریٹ کریں‘‘، اس نے بشاشت سے کہا۔ اور اسے کھینچتی ہوئی اسٹینڈرڈ کی طرف لے گئی۔ اور وہاں ایک لاؤنج میں پہنچ کر دھم سے ایک کرسی پر گرتے ہوئے وہ بیرے کو احکامات دینے میں مصروف ہوگئی۔
بوبی بے دلی سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے اس لڑکی سے اتنی نفرت تھی۔ پھر بھی اس لڑکی میں ایک عجیب نا قابل بیان، تکلیف دہ کشش تھی۔ اتنی بدشکل۔۔۔ بدشکل۔۔۔ اس نے کوئی تشبیہ سوچنی چاہی۔ لیکن نشاط اسٹینلے کی شخصیت سے موازنہ کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ یہ لڑکی جو فخریہ کہتی تھی کہ مجھ سے بڑا فلرٹ اس روئے زمین پر آپ کو دستیاب نہ ہوگا۔ وہ الٰہ آباد کے ایک بہت اعلی عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور بڑی ہمدرد، بڑی فیاض بے حد نیک دل لڑکی تھی۔ اکثر وہ جذباتی بن کر اپنے دوستوں سے کہتی۔ لوگ مجھے اتنا برا سمجھتے ہیں، کاش کوئی مجھے پہچان سکتا کاش لوگ اتنے بے وقوف، گدھے نہ ہوتے۔
پھر اس نے بیرے کی طرف سے مڑکر بوبی سے، ’’بوبی ڈیر کیوں ایسی رونی شکل بنائے بیٹھے ہو۔ بے وقوف ذرا اور دریچے سے باہر نظر ڈالو۔ کائنات اتنی بشاش ہے،ارغوانی بادل جھکے ہوئے ہیں، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں وادیوں میں نیلے پھول کھل رہے ہیں۔ کیا ایسے میں تم رنجیدہ رہ سکتے ہو؟ الو ہو بالکل۔‘‘
بوبی ہنس پڑا۔ اور پھر وہ دونوں بچوں کی سی مستعدی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے اور قہقہے لگانے میں مشغول ہوگئے۔ باہر پہاڑوں کی برف پر جگمگاتی ہوئی چاندنی زیادہ خوش گوار ہوگئی۔‘‘سوانی ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔‘‘ کا پامال نغمہ جو ڈانس بینڈ والے ہال کے سرے پر بجا رہے تھے۔ یک لخت بالکل نیا بہت انوکھا اور بے حد اچھا معلوم ہونے لگا۔
دفعتاً بوبی کو خیال آیا۔ میں اس وقت یہاں نشاط اسٹینلے کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر کوئینی نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو اسے کتنا شوک پہنچے گا۔ پھر اس نے ضدی بچوں کی طرح سر جھٹک کر سوچا۔ اگر اس وقت کوئینی اور اس کی جیسی باعزت اور اونچی لڑکیوں کی ایک پوری بریگیڈ یہاں آکر کھڑی ہو جائے اور مجھے اس کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر بے ہوش ہوجائے تب بھی میں ذرا پروانہ کروں گا۔ قطعی پروانہ کروں گا۔ یہ لڑکی کتنی پیاری تھی کتنی ہمدرد تھی۔ بالکل کسی پیاری سی بہن کی طرح ہمدرد۔ اسے یادآیا کل کسی نے اس کے متعلق کیسی کیسی عجیب اور خوف ناک باتیں اسے بتائی تھیں۔ ارے نہیں نشاط۔ اس نے چلا کر کہنا چاہا۔ تم ایسی نہیں ہو۔ اس کا جی چاہا کہ وہ کرسی پر چڑھ کر سارے اسٹنڈرڈ، ساری مسوری، ساری دنیا کو بتائے۔ یہ لڑکی نشاط اسٹینلے بری نہیں ہے۔ تم سب خود برے ہو۔ تم میں اخلاقی قوت نہیں ہے۔ اس لیے اپنی جھینپ مٹانے کی خاطر تم اسے برا کہتے ہو۔۔۔ تم لوگ۔۔۔
’’ہلو بوبی بھیا۔۔۔ تم یہاں ہو۔ ہم تمہیں سارے میں ڈھونڈ آئے‘‘ اس نے چونک کر دیکھا۔ اس کے سامنے کوئینی کھڑی تھی جو اسی وقت لو، فریڈ اور کملا کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ ذرا گھبرا کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور اس کے لیے کرسی خالی کردی۔ نشاط اسی طرح بے فکری سے کرسی پر نیم دراز ایک گیت گنگناتی رہی۔
’’ہلو کوئینی‘‘ اس نے بے پروائی سے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو نشاط‘‘ کوئینی نے بڑے ہی با اخلاق لہجے میں جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا تھا کہ اس کا روکھا پن اور مربیانہ، بے تعلق انداز سب کو محسوس ہوجائے۔ اسے جواب دیا۔
’’ہمیں ابھی زینے پر روبی کھوچڑ ملی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اس سال مقابلہ حسن میں اس کا اول آنا یقینی ہے۔ کیوں کہ اس کی حریف سگرڈ ربانی اس مرتبہ مقابلہ میں شامل نہیں ہورہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کی اجازت نہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات میں شرکت کرتی پھرے‘‘، لو نے جھک کر بوبی کو بتایا۔
’’انیس کی اجازت نہیں؟‘‘ نشاط نے دفعتاً اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’اسے اس قدر اختیارات سگرڈ پر کب سے حاصل ہو گئے۔ کیا وہ اس سے شادی کر رہا ہے؟‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔ شادی کون مسخرہ کر رہا ہے‘‘، لو نے بے فکری سے جواب دیا۔ ’’ہاں۔ بوبی بھیا ہم تم سے یہ کہنے آئے تھے کہ کل موتی بھائی نے ہم سب کو ہیک مینز مدعو کیا ہے۔ سگرڈ کی دعوت ہے در اصل۔ موتی بھائی کہہ رہے تھے کہ اس سیزن میں یہ ان کی پہلی پارٹی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ ضرور آنا بوبی۔ اور تم بھی نشاط۔۔۔‘‘
’’چلو بوبی ڈیر ناچیں۔۔۔ ‘‘ نشاط نے جمائی لیتے ہوئے بوبی سے کہا۔
اگلی صبح، بہت تھکا ماندہ اور رنجیدہ شکل بنائے موتی لال ’وائلڈ روز‘ پہنچا۔ ’’لو بھئی وجو‘‘، موتی بھائی پہنچے، ‘‘کوئینی نے نٹنگ کرتے کرتے اوپر کے برآمدے کے دریچے میں سے جھانک کر وجاہت سے کہا۔ اور اس قدر فلسفیوں کی طرح چل رہے ہیں کہ حد ہے۔ کیا مصیبت ہے آج کل جسے دیکھو ایسا لگتا ہے کہ بس اب رو دے گا۔‘‘
موتی لال زینے کے دروازے میں سے برآمدے میں داخل ہوگئے۔
’’دیکھی تم نے اس قاضی انیس الرحمن کی حرکت۔ سگرڈ کو اب کسی سے ملنے نہیں دیتا، ‘‘اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے تم نہیں جانتے چچی ارنا کی سیاست موتی بھائی‘‘، کوئینی نے اس سے کہا۔ ’’جہنم میں جائیں چچی ارنا‘‘، وہ اکتا کر دریچے سے باہر دیکھنے لگے۔ جہاں سر مئی بادل تیرتے پھر رہے تھے۔ ’’بہر حال تم لوگ آج میری پارٹی میں تو ضرور آؤ گے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’قطعی‘‘، وجاہت نے شیو کرتے کرتے جواب دیا اور آئینے میں اپنی ناک کو بڑے غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
’’میں جلد ہی بمبئی جارہا ہوں‘‘ جیوتی لال نے دفعتاً سر اٹھا کر کہا۔ ’’کیوں۔۔۔؟ یہ کیا وحشت ؟ کم از کم ٹینس کے سیمی فائنلز تک تو رک جاؤ۔ کل عالم کا جی تمہیں پوچھ رہی تھی‘‘، کوئینی نے کہا۔ ’’جہنم میں جائے عالم کا جی بھی؟‘‘ وجاہت نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جیوتی لال ہنسنے لگے۔ وہ عموماً اتنا نون سیریس رہتے کہ اسے اتنا سنجیدہ اور غمگین دیکھ کر کوئینی کو بے حد ہنسی آئی۔
تیسرے پہر کو، جب کہ سب لوگ جیوتی لال کی پارٹی میں جانے کی تیاری میں مصروف تھے، کسی دل چلے نے ایشلے ہال جاکر انیس کو یہ خبر دی کہ موتی لال نے آج سگرڈ کو مدعو کیا ہے۔
’’کب؟ کہاں۔ کس وقت؟‘‘ انیس یہ سن کر تلملا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ اس کی موجودگی میں کسی اور کی یہ ہمت کہ سگرڈ کو باہر لے جائے۔ ’’اگر موتی لال یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ایک اکیلے شہزادہ گلفام ہیں تو انہیں بہت جلد اس مغالطے سے نکلنا چاہئے‘‘، اس نے غصے سے کہا۔
جیوتی لال کی پارٹی کا وقت چھ بجے تھا۔ اس وقت سوا پانچ بجے تھے۔ دفعتاً انیس کو کوئی خیال آیا، وہ تیز تیز قدم رکھتا ایشلے ہال کی سیڑھیاں اترکر مال پر آیا اور ہیک منیز کی طرف روانہ ہوگیا۔ مسز ہیک مین کے پاس پہنچ کر اس نے کہا وہ ریسٹوران کا ایک حصہ فوراً اپنے لیے مخصوص کروانا چاہتا ہے۔ مسز ہیک مین نے جواب دیا کہ افسوس ہے کہ وہ حصہ ایک ہفتے پہلے ہی آج شام کی ایک پارٹی کے لیے مخصوص کروا لیا گیا ہے۔
’’کیا آپ کسی طرح اس ریزرویشن کو کینسل نہیں کر سکتیں؟ اس نے پوچھا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے مسٹر انیس۔ اس کا پیشگی کرایہ دے دیا گیا ہے‘‘، انہوں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج شام یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے بچوں کی طرح ضد کر کے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مسٹر انیس‘‘، مسز ہیگ مین نے جواب دیا۔ ’’کسی ریسٹوران یا رقص گاہ یا کسی اور پبلک جگہ پر آپ لوگوں کو آنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ’’یہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب آپ پورا ہیک منیز اپنے لیے مخصوص کر والیں‘‘، مسز ہیک مین نے ہنس کر جواب دیا۔
’’میں اس کے لیے تیار ہوں‘‘، انیس نے تقریباً چلا کر کہا۔ ’’آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پورے ہیک مینز کا ایک شام کا کرایہ سات ہزار روپے ہوگا؟‘‘ مسز ہیک مین نے جواب دیا۔ ’’صرف۔۔۔؟ یہ لیجئے۔۔۔‘‘ انیس نے اپنی وہ لافانی چیک بک نکالی اور سات ہزار کا ایک چیک کاٹ کر حیرت زدہ مسز ہیک مین کے حوالے کیا۔
جیوتی لال کا ریزرویشن اس طرح خود بخود کینسل ہوگیا۔ بیروں نے جو چند لوگ ادھر ادھر آئے بیٹھے تھے۔ ان سے مودبانہ عرض کی، ’’آج سارا ہیک مینز مخصوص کروا لیا گیا ہے اس لیے آپ حضرات تشریف لے جائیے۔‘‘ ساری رقص گاہ خالی ہوگئی۔ چھ بجا ہی چاہتے تھے۔ قاضی انیس الرحمن پنولین کی سی
29098 viewsstories • Urdu