نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا

By مرزا-غالبSeptember 25, 2023
نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
تھا سپند بزم وصل غیر گو بے تاب تھا
دیکھتے تھے ہم بچشم خود وہ طوفان بلا
آسمان سفلہ جس میں یک کف سیلاب تھا


موج سے پیدا ہوئے پیراہن دریا میں خار
گریہ وحشت بے قرار جلوۂ مہتاب تھا
جوش تکلیف تماشا محشرستان نگاہ
فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشت آب تھا


بے خبر مت کہہ ہمیں بے درد خود بینی سے پوچھ
قلزم ذوق نظر میں آئنہ پایاب تھا
بے دلی ہاے اسدؔ افسردگی آہنگ تر
یاد ایامے کہ ذوق صحبت احباب تھا


مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانۂ عاشق مگر ساز صداے آب تھا
نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں
پہلوے اندیشہ وقف بستر سنجاب تھا


کچھ نہ کی اپنی جنون نارسا نے ورنہ یاں
ذرہ ذرہ روکش خورشید عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا


یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
میں نے روکا رات غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے
اس کی سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا


97445 viewsunpublished-ghazalEnglish