ARMAAN SHAYARI

HEARTFELT SHAYARIS ON ARMAAN

Explore a beautiful collection of shayaris centered around armaan. Let the verses resonate with your innermost feelings and convey the essence of your emotions through poetry.

काँटों में गुलाबों को महकते हमने देखा है
सोने को भी शोलों में चमकते हमने देखा है
अगर ज़ज़्बा है तो अंज़ाम तेरे हक़ में जायेगा
कटे पेड़ों से भी पत्ते निकलते हमने देखा है

-


جِیون یہ مِرے درد کا افسانہ کوئی ہے آنکھوں میں مگر جلوۂِ جانانہ کوئی ہے غم دِل کے درِیچے پہ دِیئے جائے صدائیں بے ماپ ہے یا درد کا پیمانہ کوئی ہے؟ آئے ہو ابھی، آتے ہی جانے پہ بضِد ہو اِس طرز سے مِلتے ہو کہ بیگانہ کوئی ہے اِس دشتِ جنُوں خیز کا ہر رنگ نیا ہے دِیوانہ کوئی عِشق میں، فرزانہ کوئی ہے ہر روز بِلا وجہ وہ بیوی کو گھسِیٹے ہے شرم کوئی، جوہرِ مردانہ کوئی ہے؟؟ تسلِیم کِیا ہم سے بڑی بُھول ہُوئی ہے جیسا ہے مِرا دِل کہاں وِیرانہ کوئی ہے نادِم ہیں کہ ہم عِشق میں ناکام رہے ہیں اِک جان لُٹا دینا بھی نذرانہ کوئی ہے؟ بِن کیف کبھی دِل کو کہاں چین ہُؤا ہے مستی میں رہے مست یہ مستانہ کوئی ہے حسرتؔ ہو بِنا اُن کے بھلا کیسے تشفّی کہہ دِیجیے اُن آنکھوں سا مے خانہ کوئی ہے؟ رشِید حسرتؔ

-


سُکُوں دے کر یہ کیا مُشکل خرِیدی آپ نے ہے مُبارک ہو سُنا ہے مِل خرِیدی آپ نے ہے ہے خُوش فہمی کھرا اِک من کا سودا کر لِیا ہے خُدا کے گھر کے بدلے سِل خرِیدی آپ نے ہے کِسی کی طوطا چشمی سے ہُؤا یہ راز افشا یہاں کے لوگ، یہ مِحفِل خرِیدی آپ نے ہے وہاں بیکار میں مَیں جھونپڑے کی کھوج میں ہُوں جہاں کا آب، گارا- گِل خرِیدی آپ نے ہے ہُؤا اندازہ اب کُچھ آپ کو رُتبے کا اپنے یہ گاڑی آپ کے قابِل خرِیدی آپ نے ہے ہوا کے رُخ بدلنے میں بھلا ہے دیر کوئی؟ بجا کشتی مُعہ ساحِل خرِیدی آپ نے ہے بھٹکتے پِھر رہے تھے مُدّتوں سے اب کُھلا یہ مُسافت ماورا منزِل خرِیدی آپ نے ہے رہا کرتا ہے کیوں بے چین ہر پل، ہر گھڑی کو بلا کیا اے دلِ بِسمِل خرِیدی آپ نے ہے؟ مِری حسرت، مِرے ارماں شرارت اور خموشی مِری بے چارگی، قاتِل! خرِیدی آپ نے ہے رشید حسرت

-


آج ضبط کے تمام پیمانے باندھ کر اس کی چائے کونہ کہ گیا ہوں میں رانا عبداللہ

-


muje aise na satao may to paihle se Satya huva hu muje ye khel na sikhao may to paihle se khela huva hu

-


इक शख़्स जुदा होने से डरता था
एक वही शख़्स जुदा है मुझसे।

-


Dil mai base dard ko kuch istrha humne shayri mai chupa Diya. Jo kabhi humse Mohabbat kiya karte the unhone bhi hume nafrat mai bhula diya

-


इक शख़्स जुदा होने से डरता था
एक वही शख़्स जुदा है मुझसे

-


محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا رشِید حسرتؔ

-


ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے مِلائیں ہاں میں ہاں کب تک، کہاں تک جی حضُوری ہو بڑی معصُوم خواہِش اب تو دِل میں سر اُٹھاتی ہے کِسی دِن سامنا جو ہو تو دِل کی آس پُوری ہو جنُوں کا مُعجزہ تھا ہم جو انگاروں پہ چل نِکلے اداکاری کا وہ عالم کہ جُوں کوشِش شعُوری ہو ہمیشہ کے لِیئے ہم یہ نگر ہی چھوڑ جائیں گے مگر اِتنا کرے کوئی ضمانت تو عبُوری ہو کمی تھوڑی سی رہ جائے تو مُمکِن ہے تدارُک بھی تلافی ہو نہِیں سکتی کہ جب دِل ہی فتُوری ہو ہمیں کرنا پڑے گا اِحترامِ آدمی لازِم سراسر بالا تر ہو کر وہ ناری ہو کہ نُوری ہو جِدھر دیکھو اُدھر اب موت کا سامان دِکھتا ہے رشِید اپنی کہانی یہ نہ ہو آدھی ادھُوری ہو رشِید حسرت

-


ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے مِلائیں ہاں میں ہاں کب تک، کہاں تک جی حضُوری ہو بڑی معصُوم خواہِش اب تو دِل میں سر اُٹھاتی ہے کِسی دِن سامنا جو ہو تو دِل کی آس پُوری ہو جنُوں کا مُعجزہ تھا ہم جو انگاروں پہ چل نِکلے اداکاری کا وہ عالم کہ جُوں کوشِش شعُوری ہو ہمیشہ کے لِیئے ہم یہ نگر ہی چھوڑ جائیں گے مگر اِتنا کرے کوئی ضمانت تو عبُوری ہو کمی تھوڑی سی رہ جائے تو مُمکِن ہے تدارُک بھی تلافی ہو نہِیں سکتی کہ جب دِل ہی فتُوری ہو ہمیں کرنا پڑے گا اِحترامِ آدمی لازِم سراسر بالا تر ہو کر وہ ناری ہو کہ نُوری ہو جِدھر دیکھو اُدھر اب موت کا سامان دِکھتا ہے رشِید اپنی کہانی یہ نہ ہو آدھی ادھُوری ہو رشِید حسرت

-


پناہ دے گا، کوئی سائباں تو وہ بھی نہِیں ہمیں فنا ہے مگر جاوِداں تو وہ بھی نہِیں ہمارے پیار کی ناؤ پھنسی ہے بِیچ بھن٘ور بچا کے لائے کوئی بادباں تو وہ بھی نہِیں جو سچ کہیں تو خزاں اوڑھ کے بھی خُوش ہیں بہُت نہِیں اُجاڑ مگر گُلسِتاں تو وہ بھی نہِیں جہاں تلک بھی گئی آنکھ رِند بیٹھے تھے نوازے سب کو جو پیرِ مُغاں تو وہ بھی نہِیں تُمہارا پیار تھا مشرُوط لوٹنے سے مِرے نِبھاؤ عہد ابھی درمیاں تو "وہ" بھی نہِیں نظر میں ہو تو کہِیں ہم پلٹ کے نا دیکھیں کِسی بہار کا ایسا سماں تو وہ بھی نہِیں ہمارا نام حوالہ ہی اِس میں رنگ رہا وگرنہ ایسی کوئی داستاں تو وہ بھی نہِیں جو ایک شخص تُمہیں شاعری میں دِکھتا ہے شریکِ شعر سہی ترجماں تو وہ بھی نہِیں رشِید کی بھلا توصِیف کیا ضرُوری ہے؟ کرے ہے شاعری جادُو بیاں تو وہ بھی نہِیں رشِید حسرت

-


ہمارا رُتبہ، تُمہارا مقام یاد رہے خِرد سے دُور تُمہیں عقلِ خام یاد رہے ادا کِیا تو ہے کِردار شاہ زادے کا مگر غُلام ہو، ابنِ غُلام یاد رہے ابھی ہیں شل مِرے بازُو سو ہاتھ کِھینچ لِیا ضرُور لُوں گا مگر اِنتقام یاد رہے نہِیں ابھی، تو تُمہیں جِس گھڑی ملے فُرصت ہمارے ساتھ گُزارو گے شام یاد رہے خمِیر میں ہے تُمہارے، بڑے بُھلکّڑ ہو ابھی لِیا ہے جو ذِمّے تو کام یاد رہے جو اپنے آپ کو شُعلہ بیاں بتاتے تھے سو دی ہے اُن کی زباں کو لگام یاد رہے بِچھڑ تو جانا ہے اِتنا گُمان رہتا ہے لبوں کی مُہر، دِلوں کا پیام یاد رہے یہ مُعجزہ بھی کوئی دِن تو دیکھنے کو مِلے ہمارا ذِکر تُمہیں صُبح و شام یاد رہے بجا کہ زیر کِیا تُم نے اپنے دُشمن کو سنبھل سنبھل کے رکھو اب بھی گام یاد رہے نہ ہو کہ اور کہِیں دِن کا کھانا کھا بیٹھو ہمارے ساتھ ہے کل اِہتمام یاد رہے رشِید اُن کو کوئی بات یاد ہو کہ نہ ہو مگر تُمہارا وہ جُھک کر سلام یاد رہے رشِید حسرتؔ

-


میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں ٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتا قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گا کہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتا بھلے ہو جِسم پہ پوشاک خستہ حال مگر لِباس تن پہ محبّت کا گل نہِیں سکتا زمِیں پہ فصل سروں کی اُگانے چل تو دِیئے مگر یہ پودا کبھی پُھول پھل نہِیں سکتا رکھی خُدا نے کوئی سِل سی میرے سِینے میں سو اِس میں پیار کا جذبہ مچل نہِیں سکتا وہ اور لوگ تھے روشن ہیں تُربتیں جِن کی دِیا مزار پہ میرے تو جل نہِیں سکتا رشِید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہوں کِسی کلی کا مگر دِل مسل نہِیں سکتا رشِید حسرتؔ

-


غزل۔ میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں ٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتا قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گا کہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتا بھلے ہو جِسم پہ پوشاک خستہ حال مگر لِباس تن پہ محبّت کا گل نہِیں سکتا زمِیں پہ فصل سروں کی اُگانے چل تو دِیئے مگر یہ پودا کبھی پُھول پھل نہِیں سکتا رکھی خُدا نے کوئی سِل سی میرے سِینے میں سو اِس میں پیار کا جذبہ مچل نہِیں سکتا وہ اور لوگ تھے روشن ہیں تُربتیں جِن کی دِیا مزار پہ میرے تو جل نہِیں سکتا رشِید صدمے کئی ہنس کے جھیل سکتا ہوں کِسی کلی کا مگر دِل مسل نہِیں سکتا رشِید حسرتؔ

-


مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھا بتا کر ہی تُمہارے شہر آنا چاہِیے تھا مِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تُمہاری تُمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہِیے تھا مِرے بچّے گئے ہیں کل سے پِکنِک کا بتا کر نہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہِیے تھا نجانے کِس لِیئے تھا رات سنّاٹوں کا پہرہ مُجھے محفل میں تھوڑا گُنگُنانا چاہِیے تھا کما کر میں جواں بچّوں کو پالُوں، بُوڑھا ہو کر یہ بے حِس ہیں اِنہیں ہر حال (کھانا) چاہِیے تھا ہُوئی ہوگی مِری تاخِیر سے لوگوں کو زحمت مُعافی دو مُجھے بر وقت آنا چاہِیے تھا بہُت ہی مُختصر تھا ساتھ اپنا اور تُمہارا مگر تُم کو بُھلانے کو زمانہ چاہِیے تھا کُھلی جو بات لوگوں نے اُچھالا کھول کے جی اُنہیں تو گُفتگُو کو اِک فسانہ چاہِیے تھا کِسی دِل کا کُھلا در دیکھ کر ہم آن بیٹھے ہمیں تو سر چُھپانے کو ٹِھکانہ چاہِیے تھا لگایا رتجگوں کا جِس نے اِن آنکھوں میں کاجل سُکوں ایسے سِتم گر کا چُرانا چاہِیے تھا رشِید اب تک گُناہوں میں گزاری زندگانی تُمہیں تھوڑی سی نیکی بھی کمانا چاہِیے تھا رشِید حسرتؔ

-


Write something here...

-


Write something here...

-


گیا جہان سے ادنا یا کوئی اعلا گیا کسی کا غم بھی کہاں دیر تک سنبھالا گیا سلیقہ اس میں مجھے اک ذرا دِکھے تو سہی کہا جو کام ہمیشہ وہ کل پہ ٹالا گیا قُصور ہو گا تُمہارا بھی کچھ نہ کچھ گُڑیا سبب تو ہے جو تمہیں گھر سے یوں نکالا گیا پجاری مال کے ایسے کہ جیسے مالا ہو جہاں بھی چاند گیا ساتھ اُس کا ہالہ گیا کہا تھا میں نے کہ گھر سے اتار لو جالا مکاں میں اب ہے اندھیرا وہ سب اجالا گیا تڑپ، جدائی، محبت، جمال، زیبائی نجانے کون سے سانچوں میں دل کو ڈھالا گیا رشیدؔ کاہے کی یہ پنجہ آزمائی ہے؟ کبھی سنگھار سے دیکھا کہ رنگ کالا گیا؟ رشید حسرتؔ۔

-


تمام عُمر جِسے میں نے اعتبار دیا دغا سے تُم نے بیک لخت اُس کو مار دیا وفائیں دی ہیں اُسے میں نے عُمر بھر لیکِن صِلے میں اُس نے فقط مُجھ کو اِنتظار دیا مُجھے قرِیب رکھو یا کہ تُم رکھو دُوری تُمہاری چاہ پہ ہے، تُم کو اختیار دیا یہ اُس کا خاص کرم ہے، عطا ہے مولا کی دیا شعُور مُجھے اور اِفتخار دیا نہِیں ہُوں تابع اگر ماں کے، میری بِیوی نے عجیب زہر مِرے ذہن میں اُتار دیا یہ وسوسہ ہے کہ یہ خواب یا حقِیقت ہے امیرِ شہر نے لوگوں کو روز گار دیا مِرے وجود میں بستا تھا اِک رشِید حسرتؔ سو ایک عرصہ ہُؤا میں نے اُس کو مار دیا رشِید حسرتؔ

-


ووٹ پھر نہ دینا تم۔ بے حیائی کی اِنتہا ہے یہ یہ حکُومت ہے یا بلا ہے یہ بُھوک سے لوگ مر رہے ہیں یہاں اور خوابوں میں مُبتلا ہے یہ بُھول ہم سے ہُوئی جو اِس کو چُنا لوگو بُھگتو جو کی خطا ہے یہ جان و عِزّت یہاں نہِیں محفُوظ امن کی کیسی فاختہ ہے یہ ہم نے دیکھا بدلتا پاکستان کیا محبّت تھی، کیا صِلہ ہے یہ؟؟ پہلے کرتا تھا چوک میں ناٹک اب تو رُسوا بھی جابجا ہے یہ حق یتامہ کا مار کھاتا ہے خُوش لِباسی میں بھی گدا ہے یہ عہد باندھا تھا، عہد شِکنی کی ہو کے رُسوا مرے دُعا ہے یہ ووٹ حسرتؔ کبھی نہِیں دینا اب تو اعلان برملہ ہے یہ رشِید حسرتؔ

-


بے حیائی کی اِنتہا ہے یہ یہ حکُومت ہے یا بلا ہے یہ بُھوک سے لوگ مر رہے ہیں یہاں اور خوابوں میں مُبتلا ہے یہ بُھول ہم سے ہُوئی جو اِس کو چُنا لوگو بُھگتو جو کی خطا ہے یہ جان و عِزّت یہاں نہِیں محفُوظ امن کی کیسی ساختہ ہے یہ ہم نے دیکھا بدلتا پاکستان کیا محبّت تھی، کیا صِلہ ہے یہ؟؟ پہلے کرتا تھا چوک میں ناٹک اب تو رُسوا بھی جابجا ہے یہ حق یتامہ کا مار کھاتا ہے خُوش لِباسی میں بھی گدا ہے یہ عہد باندھا تھا عہد شِکنی کی ہو کے رُسوا مرے دُعا ہے یہ ووٹ حسرتؔ کبھی نہِیں دینا اب تو اعلان برملہ ہے یہ رشِید حسرتؔ

-


بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی تُمہاری یاد کی خُوشبُو کے دائروں میں رہا اگرچہ زرد رہی، پر بہار جیسی تھی تُمہارے ہِجر کے موسم میں، کیا کہُوں حالت کبھی اُجاڑ، کبھی تو سِنگھار جیسی تھی رہی ہے گِرد مِرے حلقہ اپنا تنگ کِیئے حیات جیسے کِسی اِک حِصار جیسی تھی وہ رات جِس سے میں شب بھر لِپٹ کے روتا رہا رشِیدؔ شب تھی مگر غمگُسار جیسی تھی رشِید حسرتؔ

-


عوام بُھوک سے دیکھو نِڈھال ہے کہ نہِیں؟ ہر ایک چہرے سے ظاہِر ملال ہے کہ نہِیں؟ تمام چِیزوں کی قِیمت بڑھائی جاتی رہی غرِیب مارنے کی اِس میں چال ہے کہ نہِیں؟ پہُنچ سے پہلے ہی باہر تھا عیش کا ساماں فلک کے پاس ابھی آٹا، دال ہے کہ نہِیں؟ جو برق مہِنگی بتاتا بِلوں کو پھاڑتا تھا کُچھ اپنے عہد میں اِس کا خیال ہے کہ نہِیں؟ ہمارے جِسم سے نوچا ہے گوشت، خُوں چُوسا ابھی یہ دیکھنے آیا ہے کھال ہے کہ نہِیں؟ وہ جِس کے عہد میں ماں باپ بیچ دیں بچّے تُمہیں کہو کہ یہ وجہِ وبال ہے کہ نہِیں؟ ٹھٹھر کے سرد عِلاقوں میں مر رہے ہیں لوگ زُباں سے پُھوٹو تُمہیں کُچھ مجال ہے کہ نہِیں؟ کِیا تھا عہد بحالی کا، چِھین لی روٹی غرِیب کے لِیئے جِینا مُحال ہے کہ نہِیں؟ نمُونہ سامنے رکھتے ہیں ہم خلِیفوں کا تُمہارے سامنے کوئی مِثال ہے کہ نہِیں؟ دِکھائے باغ ہرے ہم غرِیب لوگوں کو عوام پہلے سے مخدُوش حال ہے کہ نہِیں؟ امیرِ شہر نے آنکھیں رکھی ہیں بند رشِیدؔ وگرنہ چہرہ طمانچوں سے لال ہے کہ نہِیں؟ رشِید حسرتؔ

-


تسلِیم ہم شِکست کریں یا نہِیں کریں اپنی انا کو پست کریں یا نہِیں کریں اِک شب کا ہے قیام رہو تُم ہمارے ساتھ کھانے کا بند و بست کریں یا نہِیں کریں شوہر بِچارے سوچ میں ڈُوبے ہُوئے ہیں آج بِیوی کو زیرِ دست کریں یا نہِیں کریں اعصاب کی شکست کو عرصہ گُزر گیا پِھر سے عدم کو ہست کریں یا نہِیں کریں دِل یہ صنم تراش بھی ہے بُت شِکن بھی ہے اِس کو خُدا پرست کریں یا نہِیں کریں لکھا ہؤا ہے سال وِلادت کا اور کُچھ اِس کو بدل کے شست کریں یا نہِیں کریں تُم نے کہا تھا مارچ میں لوٹاؤ گے اُدھار اب فیصلہ اگست کریں یا نہِیں کریں چھوڑا ہے اُس نے بِیچ میں کسنے کو اِک خلا اب فِقرہ کوئی جست کریں یا نہِیں کریں حسرتؔ ہے وجد کیف مگر چُپ لگی ہُوئی کہیے کہ مست الست کریں یا نہِیں کریں رشید حسرتؔ

-