محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا

محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا
نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا

نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے
دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا

گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ
بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا

یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی
کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا

مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں
جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا

ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا
کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا

عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے
دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا

تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں
کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا

رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں
سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا



رشِید حسرتؔ


ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو

ضرُوری خُود کو سمجھو یا نہِیں سمجھو، ضرُوری ہو
بظاہر اِستعارہ قُرب کا، صدیوں کی دُوری ہو

اکڑ کر کہہ تو دیتے ہو کہ ہم ہیں جوہری طاقت
بہے گا خُون اِنساں کا، وہ ہو شاہیں کہ سُوری ہو

لو اب سے توڑ دیتے ہیں، جو محرُومی کے حلقے تھے
مِلائیں ہاں میں ہاں کب تک، کہاں تک جی حضُوری ہو

بڑی معصُوم خواہِش اب تو دِل میں سر اُٹھاتی ہے
کِسی دِن سامنا جو ہو تو دِل کی آس پُوری ہو

جنُوں کا مُعجزہ تھا ہم جو انگاروں پہ چل نِکلے
اداکاری کا وہ عالم کہ جُوں کوشِش شعُوری ہو

ہمیشہ کے لِیئے ہم یہ نگر ہی چھوڑ جائیں گے
مگر اِتنا کرے کوئی ضمانت تو عبُوری ہو

کمی تھوڑی سی رہ جائے تو مُمکِن ہے تدارُک بھی
تلافی ہو نہِیں سکتی کہ جب دِل ہی فتُوری ہو

ہمیں کرنا پڑے گا اِحترامِ آدمی لازِم
سراسر بالا تر ہو کر وہ ناری ہو کہ نُوری ہو

جِدھر دیکھو اُدھر اب موت کا سامان دِکھتا ہے
رشِید اپنی کہانی یہ نہ ہو آدھی ادھُوری ہو


رشِید حسرت

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close