خالق ِ کائنات نے ہمیں ایک زمین اور سات سمندر عنایت کیے، یعنی ایک حصّہ خشکی ا ور سات حصّہ تری کے۔ وہ جانتا تھا کہ اُسکی مخلوقات کے لیے پانی کس قدر اہم ہے اس لیے سمندر کے سمندر عنایت کر دیے، یہی نہیں ہزاروں ندیاں بہا دیں، آبشاروں کی کوئی گنتی ہی نہیں، زمیں کی گود سے جگہ جگہ چشمے ا لگ پھوٹ رہے ہیں۔ اور اُس کی رحمت کا تقاضا یہ ہوا کہ صرف ایک با ر ہی نہ دیا جائے بار بار پانی برسایا جائے۔ کالی گھٹا چھاتی ہے، ڈھنڈی ہوا پیغام لے کر آتی ہے اور رم جھم شروع ہو جاتی ہے۔ صرف برستا ہی نہیں بلکہ ایک خوبصورت منظر بھی پیش کرتا ہے۔ جب خاموش برستا ہے تو دلوں میں گدگدی پیدا ہوتی ہے۔ پھر کبھی دھواں دھار برستا ہے اور کبھی طوفان کی مانند آتا ہے تو انسان گھبرانے لگتا ہے۔ مگر جب نہیں برستا تو ہائے توبہ مچتی ہے سب کی نگاہیں آسمان کی جانب اُٹھتی ہیں، اذانیں دی جاتی ہیں دعائیں کی جاتی ہیں، ہون ہوتے ہیں بھجن ہوتے ہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ سلیمانؑ نبی بھی اپنے وقت کے قحط میں اصحاب کو لیکر دعا کے لیے نکلے تھے پھر راہ میں ایک چیونٹی کو دیکھا کہ اپنے آگے کے دو ننھے ننھے پاؤں اونچے کرکے پانی کے لیے دعا کر رہی ہے تو آپ نے سب سے کہا لوٹ چلو یہ معصوم محوِ دعا ہے پانی برسا کہ برسا۔ ہمارے ملکوں میں ہمیشہ سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ جب کوئی مہمان آتا ہے تو پہلے پانی ہی پیش کیا جاتا ہے پھر دوسرا سامان ِ مہمانی۔ مجھے سب جگہ کا علم نہیں مگر ہمارے راجستھان میں گاؤں کی گوری ندی یا پنگھٹ سے پا نی لیکر آتی ہے۔ پنگھٹ سے وابستہ کتنے ہی قصّہ ہیں۔ (۲)
[...]