EMOTIONS SHAYARI
HEARTFELT SHAYARIS ON EMOTIONS
Discover a compilation of profound shayaris that capture the essence of various emotions. Let these verses express the nuanced range of human feelings and sentiments through poetic expressions.
मेरी बहोत सी खुशनुमा शामें बहोत पीछे छूट गई
उस दौर से जुड़ी हर एक डोर भी अब टूट गई !
हर दिन खामोशी से गुजर जाता है पर अंदर शोर होता है
जान कर खुद के दिल को दिखाया मैंने इसलिए खुशियां रूठ गई !!
Rajat Akela Dil
-
पागल से थे जो हम बेवजह इश्क़ से उलझ पड़े
मुसाफिर था वो और उसे हम ज़िंदगी समझ बैठे
खामोश निगाहों ने दिल सवाल में खड़े कर दिए
काफिर थे वो और हम दिल का मेहमान समझ बैठ
Rajat Akela Dil
-
विदा करा कर लाये थे उन्हें तब खुशियो बेसुमार आई थी
कभी दूर न होंगे ये बात कंधे पर सिर रख कर बताई थी
कही भी जाने से पहले तुमने मुझसे हर बार पूछा
मुझसे दूर दूसरी दुनिया मे चले जाओगे ये बात क्यों छुपाई थी
Rajat Akela Dil
-
बड़े ही अदब के साथ जाम को मैखाने में मुह से लगाया जाता है
लड़की को पता होता है अपने आशिक़ को थोड़ा थोड़ा सताया जाता है
हम पिये जाम या जाम पिये हमको क्या फर्क पड़ता है यारों
देखो नई दुनिया के कानून वफादार को ही यहाँ बेवफा बताया जाता है
Rajat Akela Dil
-
एक रोज़ उनके दरवाज़े की कुंडी में गुलाब छोड़ कर आये थे
जब हमने हफ्ते भर उनकी गली के बेहद चक्कर लगाये थे
एक तूफान ने उस गुलाब को कुंडी हटा कर रास्ते पर फेंका
हमने अपने मेहबूब को ही वो गुलाब पैरों से मसलते देखा
Rajat Akela Dil
-
वो खिड़की अब खुलती ही नही जिसमे मेरा चाँद दिखता था !
वो बाज़ार अब नही लगता जिसमे चाँद का ताज़ बिकता था !!
उस तवायफ ने भी नाचना छोड़ दिया वजह पूछी गयी तो
बोली
वो शख्स ही अब नही आता जो सिर्फ मेरे लिए बहकता था !!
Rajat Akela Dil
-
لعنت ہو حُکمرانوں کے ایسے نِظام پر
افلاس مُنتظر ہے جہاں گام گام پر
ہر روز قِیمتوں میں اِضافہ ہے بے پناہ
جُوں تک بھی رِینگتی نہیں ابنِ غُلام پر
فاقوں سے لوگ خُود کُشی آمادہ ہوگئے
"مہنگائی بم" گِرا ہے نِہتّے عوام پر
ہِیرا شِماؔ کو بم نے کیا تھا تبہ مگر
برباد ہم ہُوئے ہیں تغیُّر کے نام پر
بے غیرتی کی حد سے بھی آگے نِکل گیا
چرسی تو پی رہا ہے فقط جام، جام پر
مسند ہے اُس کے پاس کہ رکھے نہ با خُدا
تھوڑے مُعاوضے پہ جِسے کوئی کام پر
سو سال جنگ لڑ کے بھی آتے نہ جِس جگہ
دے کر زوال لایا ہمیں اُس مُقام پر
کیا سو رہے ہیں چرس کے سُوٹے لگا کے سب
لِکھوا لِیئے ہیں محل یا کُچھ اپنے نام پر
کیوں چِھینتے نہیں ہو موالی سے اِقتدار
ڈھایا ہے جِس نے ظُلم ہر اِک خاص و عام پر
اِس بے حیا کی بات کا کرنا نہ اعتبار
رکھے بھی ہاتھ یہ جو خُدا کے کلام پر
اب تک دلِیل دیتا ہے اپنے دِفاع میں
لعنت ہے تیری ذات پر اور عقلِ خام پر
اِس کو وقارِ ارضِ وطن سے بھلا ہے کیا
جو اپنا آپ بیچے گا اِک روز دام پر
حسرتؔ ہے میری مُنصفِ اعلا سے اِلتجا
مخلُوق کو نِجات دِلا ربّ کے نام پر
رشِید حسرتؔ
-
مہنگائی کا اب آیا ہے طُوفان یقیناً
توڑے ہیں حُکمرانوں نے پیمان یقیناً
مزدُور کو پابند کِیا گھر پہ بِٹھایا
دو وقت کی اب اِس کو نہیں نان یقیناً
اِنسان کی توہین کبھی اِتنی نہیں تھی
روٹی ھے گِراں خُون ھے ارزان یقیناً
جِس حُکم پہ دھقان کی مِحنت کا صِلہ ضبط
تحقِیر کے لائق ہے وہ فرمان یقیناً
جِس گاؤں میں افلاس میں دِن ھم نے گُزارے
اب ہوں گے وہاں موت کے سامان یقیناً
ہر ظُلم پہ جب بند رکھے آنکھ قیادت
تب تخت کے تختے کا ہے اِمکان یقیناً
جِس شخص نے تنویر مُجھے عِلم کی بخشی
اُس کا ہے بڑا مُجھ پہ یہ احسان یقیناً
جو دل کے کھرے اُن پہ کڑا وقت بھلے ہو
منزل بھی مگر اُن کی ہے آسان یقیناً
اے دیس کی مٹی تُجھے شاداب رکھیں گے
دہقان بڑھائیں گے تِری شان یقیناً
سچ پُوچِھیئے رشِیدؔ ہمِی جُھوٹ بھرے ہیں
دینی ہے خُدا ہی کو ہمیں جان یقیناً۔
رشِید حسرتؔ
-
وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو
نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو
کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو
ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو
کب کہا میں نے تعلُّق وہ پُرانا ہو بحال
بس دِکھاوے کو فقط تُم سے کوئی راہ تو ہو
جو محبّت میں وفاؤں کو تڑپتا چھوڑے
پِِھر ترستا ہی رہے، پہلے اُسے چاہ تو ہو
میں نے کب اُس کی محبّت کا کِیا ہے اِنکار؟
اُس طرف جاتا کوئی راستہ ہو، راہ تو ہو
تُرش لہجے پہ کبھی غور کِیا ہے تُم نے
گرم جوشی نہ سہی دل میں مگر جاہ تو ہو
کیا ہُؤا چاند اگر اپنے تصرُّف میں نہِِیں
شک نہِیں اِس میں مِرے واسطے تُم ماہ تو ہو
آج کُچھ ایسا ادا کرنا پڑے گا کِردار
ہو نہ ہو کُچھ بھی مگر دوست خُود آگاہ تو ہو
یہ وُہی خانہ بدوشوں کا قِبیلہ ہے رشِیدؔ
ڈیرہ ڈالے گا، وہاں کوئی چراگاہ تو ہو
رشِید حسرتؔ
-
دیکھو تو مِرے دِل پہ یہ جو چھالا ہُؤا ہے
اِس واسطے تو پیار کو بھی ٹالا ہُؤا ہے
ہاں کر دو مِری جان اگر آیا ہے رِشتہ
اور لڑکا بھی تو دیکھا ہؤا، بھالا ہُؤا ہے
سب چھوڑ کے آئے تھے، مگر (آج کراچیؔ)
ہم بِچھڑے ہُوؤں کے لِیےانبالہؔ ہُؤا ہے
میں کب کا بِکھر جاتا غمِ دہر کے ہاتھوں
بس گِرد مِرے غم کا تِرے جالا ہُؤا ہے
ہوتا ہُوں اکیلا تو مُجھے آ کے سنبھالے
اِک درد کہ بے درد سا جو پالا ہُؤا ہے
دکھ درد کِسی اور کا، بے چین مِرا دِل
یُوں درد کے سانچے میں اِسے ڈھالا ہؤا ہے
کیا بات کرؤں کیا مِری اوقات رفِیقو
جُنبِش کے لِیئے لب پہ مِرے تالا ہُُؤا ہے
کیا لاج رہی تیری اگر آج بہم ہیں
اے پیار کے دُشمن تِرا مُنہ کالا ہُؤا ہے
آنکھوں پہ کہوں شعر یا میں گھر کو سنبھالوں
حسرتؔ نے پرکھشا میں مُجھے ڈالا ہؤا ہے
رشید حسرتؔ
-
میں کور چشموں میں اب آئینے رکُھوں گا کیا
کوئی پڑھے گا نہِیں مُجھ تو لِکُھوں گا کیا؟
میں دِل سے تھوڑی یہ کہتا ہوں "تُم بِچھڑ جاؤ"
تُمہارے ہِجر کے صدمے میں سہہ سکُوں گا کیا؟
کوئی جو پُوچھے کہ شِعر و سُخن میں کیا پایا
تو سوچتا ہوں کہ اِس کا جواب دُوں گا کیا؟
میں اپنے بچّوں کو بازار لے تو آیا ہوں
ہے جیب خالی تو اِن کے کھلونے لُوں گا کیا؟
کِیا ہے مُجھ پہ بھروسہ تو دفن سمجھو اِنہیں
تُمہارے راز کِسی سے کبھی کہُوں گا کیا؟
بدل لیا ہے اگر تُم نے راستہ تو کیا
ذرا سی بات پہ اب رات بھر جگُوں گا کیا؟
رشِیدؔ وقت نے چہرے سے نوچ لی رونق
میں کِھکِھلا کے کِسی بات پر ہنسُوں گا کیا؟
رشید حسرتؔ
-
کہاں ہے پیار کی تھپکی، پذِیرائی کہاں ہے
تبھی تو شاعری میں دوست گہرائی کہاں ہے
میں کِس کے سامنے اپنا دلِ بیتاب کھولوں
نیا ہوں شہر میں اب تک شناسائی کہاں ہے
کبھی تھی اِن سے وابستہ کہانی، جانتے ہو
سجی تو ہیں مگر آنکھوں میں بِینائی کہاں ہے
مُجھے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے تھے
ابھی سوچوں گلی، کُوچے وہ ہمسائی کہاں ہے
مبادا بُھول بیٹُھوں میں تُمہارا ناک نقشہ
کہاں ہے بے وفا تُو، میرے ہرجائی کہاں ہے؟؟
جگر پر جا بجا سرطان پلتے ہیں، مسِیحا!
تُمہاری چشم تاثیریں، مسیحائی کہاں ہے؟
مُجھے تسلِیم جذبے ڈھل چکےہیں میرے لیکن
تُمہارے حسن کی پہلی سی رعنائی کہاں ہے؟
اِرادے سے نہیں بس بے اِرادہ پُوچھ بیٹھا
کمانیں کھینچ کے رکھتی وہ انگڑائی کہاں ہے
میں اپنے آپ کو بے وجہ قیدی مانتا ہوں
کِسی نے زُلف کی زنجِیر پہنائی کہاں ہے
نہیں روٹی تو ہم کو چاہیئے کھائیں سموسے
ہمارے ہاں تو سب اچّھا ہے، مہنگائی کہاں ہے؟
سُنائی دے رہے ہیں چار سُو اب غم کے نوحے
کبھی گونجی تھی جو حسرتؔ وہ شہنائی کہاں ہے
رشید حسرتؔ
-
غزل
نئی کہانی، نیا فسانہ، نئے ہی لوگوں میں آنا جانا
کہاں سے سِیکھا مِرے سِتمگر کِسی کا دل یُوں دُکھانا۔ جانا
تُجھے ہے جانا جو روند کر یُوں محبتّوں کو تو شوق سے جا
مِری عقِیدت میں کیا کمی تھی سبب خُدارا بتانا۔ جانا
یہ کِس نے تُجھ سے کہا کہ تُجھ سے بِچھڑ کے جِیون خزاؤں جیسا
تِرے ہی غم کی بہار کو ہی تو دوست میں نے خزانہ جانا
مجھے محبّت کی چار دن کی کہانی پہلے ہی کُھل چُکی تھی
اِِسی لیئے اپنی زِندگی میں تو تیرے آنے کو جانا جانا
بجا کہ تُجھ کو عقِیدتوں کےنئے خزانے مِلا کریں گے
ملال ہو گا سماں بہاروں کا چھوڑ کر تُو سہانا جا۔نا
مُجھے ہے ناموس و نامِ آبا کی پاسداری مِرے رفِیقو
مِرے لِیئے ہے بڑا ہی اعزاز اُن کے ناموں سے جانا جانا
رشِیدؔ کیسی یہ اُلجھنیں ہیں، نجانے کیا روگ پالتا ہے
جو جان تُجھ پر چِھڑک رہے ہیں، کہیں سِتم اُن پہ ڈھا نہ جانا
رشِید حسرتؔ
-
غزل
دیکھا نہ کبھی تُم نے سُنا، دیکھتا ہوں میں
بس تُم کو نہیں اِس کا پتا دیکھتا ہوں میں
چہروں کی لکِیروں کے مُجھے قاعدے از بر
پڑھتا ہوں وہی جو بھی لِکھا دیکھتا ہوں میں
ماضی کے جھروکوں سے نہیں جھانک ابھی تُو
(غش کھا کے گِرا) شخص پڑا دیکھتا ہوں میں
کہنے کو تِرا شہر بہُت روشن و تاباں
ہر چہرہ مگر اِس میں بُجھا دیکھتا ہوں میں
گُلشن میں خزاں رُت ہے سمن پِیلے پڑے ہیں
جاتے ہی تِرے زِیست سے، کیا دیکھتا ہوں میں
اُس پار گیا جو بھی نہیں لوٹ کے آیا
کیا بھید چُھپا اِس میں سو جا دیکھتا ہوں میں
وہ جِس کے بنا زِیست مِری آدھی ادھوری
رُخ کیسے بدلتا ہے، ادا دیکھتا ہوں میں
اے دوست نہ بہلا کہ ہوئی بِیچ میں حائل
کم ہو نہ کبھی جو، وہ خلا دیکھتا ہوں میں
ویران مِرے دل کا نگر جِس نے بتایا
جُھوٹا ہے، رشیدؔ اِس کو سجا دیکھتا ہوں میں
رشید حسرتؔ
-
ہے اِس کا ملال اُس کو، ترقّی کا سفر طے
کیوں میں نے کیا، کر نہ سکا وہ ہی اگر طے
جو مسئلہ تھا اُن کا بہت اُلجھا ہؤا تھا
کُچھ حِکمت و دانِش سے کِیا میں نے مگر طے
ہو جذبہ و ہِمّت تو کٹِھن کُچھ بھی نہِیں ہے
ہو جائے گا اے دوستو دُشوار سفر طے
کِس طرز کا اِنساں ہے، نسب کیسا ہے اُس کا
بس ایک مُلاقات میں ہوتا ہے اثر طے
ہے کیسا نِظام اِس میں فقط جُھوٹ بِکے ہے
مُنہ حق سے نہِیں موڑوں گا کٹ جائے گا سر طے
اِک بار کی مِحنت تو اکارت ہی گئی ہے
سو کرنا پڑا مُجھ کو سفر بارِ دِگر طے
سمجھا نہ کسیؔ نے جو مِرے طرزِ بیاں کو
بیکار گیا پِھر تو مِرا شعر و ہُنر طے
ہے عزم، سفر میں جو پرِندوں کا مُعاون
یہ کِس نے کہا کرتے ہیں یہ بازو و پر طے
کِس کِس نے میرے ساتھ وفا کی یا خفا کی
کر لے گا رشیدؔ آج مِرا دامنِ تر طے
رشید حسرتؔ
-
کچھ نہیں تعلّق پر، میرا نام گُوگل پر لکھ کے سرچ کِیجے گا
شعر ہیں مِرے پِھیکے پِھر بھی ہے توقع سِی
کُھل کے داد دِیجئے گا
بات کیا قبا کی ہو، اے مِرے رفُوگر دیکھ، دل بھی اب دریدہ ہے
کام کر توجہ سے، چھید نا رہے باقی سارے چاک سِیجے گا
چاہتے ہو گر یارو لُطف ماورا آئے، آبِ آتشیں سے، تو
اشک مُ الخبائث میں اے مِرے رفیقو بس اب ملا کے پِِیجے گا
آپ ہیں دُکھی تو ہوں، مُجھ سے کیا بھلا مطلب آپ کو پتہ تو ہے
آپ کے دُکھوں پہ ہی مُجھ سے پتھر دِل کا دِل کِس لیئے پسِیجے گا؟
ڈوبنے کو ہے لوگو میرے پیار کی ناؤ، بوجھ کیسے ہلکا ہو
قرض ہے محبت کا، اور جس کا جتنا ہے آ کے مجھ سے لیجئے گا
آنکھ بھی دِکھائیں گے، دھونس دھمکی بھی دیں گے کیونکہ یہ کمینے ہیں
گھاگ ہیں سیاسی لوگ، اے مِرے قلمکارو اِن سے مٹ دبِیجے گا
بے رِدا کیا اِس کو، اُس کا گھر جلا ڈالا کون آپ سے پُوچھے
ان غریب لوگوں کا اے رشیدؔ ان داتا آپ ہی کہِیجے گا۔
رشِید حسرتؔ۔
-
یادوں کا سنسار۔
زباں کا مُنہ میں اِک ٹکڑا سا جو بیکار رکھا ہے
یہ میرا ظرف ہے لب پر نہ کُچھ اِظہار رکھا ہے
مِرے اپنوں نے ہی مُجھ کو حقارت سے ہے ٹُھکرایا
کہوں کیا دِل میں شِکووں کا بس اِک انبار رکھا ہے
یہ سوچا تھا محل سپنوں کا ہی تعمِیر کر لیں گے
مگر تُم نے ہمیشہ کو روا انکار رکھا ہے
چلو تسلیم کر لیتے ہیں، تُم نے جو کِیا اچّھا
کہاں اُجڑی ہوئی یادوں کا وہ سنسار رکھا ہے۔
مُبارک ھو تُمہیں اِک ھمسفر کا ہم سفر ہونا
نئے ساتھی کا اب کے نام کیا 'سرکار" رکھا ہے۔
سدا مسرور رکھا ہے جسے شِیریں سُخنی سے
اُسی کے تلخ لہجوں نے مُجھے آزار رکھا ہے
اگرچہ فاصلے ہیں بِیچ میں حائل مگر حسرتؔ
تُمہاری یاد سے دِل کو گُل و گُلزار رکھا ہے۔
رشید حسرتؔ۔
-
میں ہُوں ذرّہ تُو اگر آفتاب اپنے لیئے
تیرے سپنے ہیں، مِرے ٹُوٹے سے خواب اپنے لیئے
میں نے سوچا ہے کِسی روز چمن کو جا کر
چُن کے لاؤں گا کوئی تازہ گُلاب اپنے لیئے
جِن کی تعبِیر نہِیں خواب وہ دیکھے میں نے
شب گُزشتہ ہی تو سُلگائے وہ خواب اپنے لیئے
تِیس پاروں کے تقدُّس کی قسم کھاتا ہوں
نُور کا دھارا ہے یہ پاکِیزہ کتاب اپنے لیئے
وقت کی دُھوپ کو چھاؤں میں بدل لیتے ہیں
میں ہوں خیمہ تو مِرے دوست تناب اپنے لیئے
میں نے پُوچھا تو فقط اُس نے خموشی اوڑھی
تو یہ مثبت ہے کہ ہے منفی جواب اپنے لیئے؟
کیوں بھلا کچّے گھڑوں پہ بھی بھروسہ رکھیں
چھوڑ دے راستہ، دریائے چنابؔ! اپنے لیئے
بہتے دریاؔ پہ روانی ہے، ابھی زندہ ہیں
لے ہی لیجے گا کوئی توشہ جناب اپنے لیئے
لوگ، لوگوں کا لہو پِیتے ہیں تو کُچھ بھی نہِیں
اور ہوتی ہے حرام صِرف شراب اپنے لیئے
میں اُٹھاتا ہوں ابھی اپنے گُناہوں کا بوجھ
تُو نے تو چُن کے کتابوں سے ثواب اپنے لِیئے
مُجھ کو تسلیم حویلی ہے تِرے پاس بھلے ہو گی جناب
ماورا محل سے ہے جھونپڑا، صاب اپنے لیئے
ہم بھی اک روز ترقّی کی ڈگر پر ہوں گے
بات یہ گویا ہے صحرا کا سراب اپنے لیئے
کوئی جانے سے کِسی کے نہِیں مرتا حسرتؔ
صِرف یادیں ہی تو ہوتی ہیں عذاب اپنے لیئے
رشید حسرتؔ
-
جو گِیت اوروں کے بے وجہ گانے لگتے ہیں
تو ہوش دو ہی قدم میں ٹِھکانے لگتے ہیں
بِگاڑنا تو تعلُّق کا ہے بہت آساں
اِسے بنانے میں لیکِن زمانے لگتے ہیں
کبھی وہ آ نہِیں سکتا کبھی ہے رنجِیدہ
مُجھے تو یہ کوئی جُھوٹے بہانے لگتے ہیں
یہ سِین ہے کہ ملے ہیں وہ ایک مُدّت بعد
مُہر بہ لب ہی ہتِھیلی دِکھانے لگتے ہیں
کہاں ہے وقت کہ ہم دُوسروں کے غم بانٹیں
کُچھ آشنا سے، کہانی سُنانے لگتے ہیں
وہِیں پہ بزم ہی برخاست کر دی جاتی ہے
کبھی کہِیں پہ جو محفِل سجانے لگتے ہیں
اگرچہ لوگ نہِیں اُس گلی میں وہؔ آباد
کرُوں میں کیا کہ قدم ڈگمگانے لگتے ہیں
کِسی کے دِل کے لیئے بول دے جو مِیٹھے بول
کوئی بتائے کیا اِس میں خزانے لگتے ہیں؟
رشیدؔ ہم پہ محبّت شجر ہُؤا ممنُوع
یہ سب رقِیب کے ہی تانے بانے لگتے ہیں
رشِید حسرتؔ
-
بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو
نہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تو
وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا
گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو
کہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سے
نہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو تو
بڑوں سے دِل سے عقِیدت ہے پیار چھوٹوں سے
خیال کرتے ہو جو بد تمِیز ہم کو تو
کِسی کے درد کے سانچے میں ڈھل کے دیکھا ہے
پڑے وہ زخم (کہ بس الحفِیظ) ہم کو تو
نہ راز، راز کو رکھا، نہ بھید پوشِیدہ
خیال پِھر بھی کریں سب رمِیز ہم کو تو
رکھو جو درد تو، آہیں بھی اور کُچھ آنسو
رشیدؔ چاہئیں کُچھ خواب نِیز ہم کو تو
رشِید حسرتؔ
-
ہستی کا مِری حشر بپا دیکھتے ہوئے
وہ رو ہی دیا مُجھ کو بُجھا دیکھتے ہوئے
ہم وہ کہ کبھی وقت سے بھی ہار نہ مانی
برباد کِیا آپ نے کیا دیکھتے ہوئے
انجان ہوئی راہ، بڑا سخت تعیُّن
قِبلے کا، بِنا قِبلہ نُما دیکھتے ہوئے
مرمر تھا ماں کی قبر پہ نہ باپ کی کبھی
حیرت سِی لگی کتبہ لگا دیکھتے ہوئے
سوتے ہیں ابھی رات بہُت بِیت چکی ہے
میں رات اُٹھا ایک بجا دیکھتے ہوئے
جو مِیرے اِشارے پہ فِدا ہوتے ہمیشہ
مُنہ پھیر گئے وقت بُرا دیکھتے ہوئے
بوسِیدہ ہو کے چاک ہوئی ہے جگہ جگہ
مزدُور کے جو تن پہ قبا، دیکھتے ہوئے
کُچھ اور سوا آئی مُجھے یاد مِری ماں
اِک پیڑ گھنا گھر میں لگا دیکھتے ہوئے
لوٹ آ تُو مِرے دوست تِرے بعد مِری چشم
نمناک ہے محفِل کو سجا دیکھتے ہوئے
کر شُکر ادا اُس کی جگہ پر جو نہیں تُو
تذلِیل نہ کر اُس کی، گدا دیکھتے ہوئے
گُڑیا نے کہا "بابا" مُجھے ڈُھونڈو تو جانوں
انجان بنا اُس کو چُھپا دیکھتے ہوئے
اب دِل میں کدُورت کا سبب ہونے لگے ہیں
جو فاصلے ہیں بِیچ وبا دیکھتے ہوئے
بیٹی جو کہا ہے تو تُجھے مانا ہے بیٹی
حسرت نے فقط تُجھ میں حیا دیکھتے ہوئے
رشِید حسرتؔ
-
Your funeral would be the only thing you attend and miss at the same time!
-
We suffer more in our minds than we ever do in real life. worrying is a wasted emotion!
-
Who's the genius that decided to call it "emotional baggage "...
...and not "griefcase!"
...and not "griefcase!"
-
The rain falls because sky can no longer handle its heaviness. just like tears
it falls because heart can no longer handle pain!
it falls because heart can no longer handle pain!
-