MARSIYA SHAYARI
A POETIC ELEGY OF LOVE AND LOSS
Delve into the emotional depth of marsiya shayari, a form of poetry that elegantly captures the essence of love and loss. Each verse is a tribute to the poignant emotions that accompany grief and love, creating a profound impact on the reader. Allow the evocative words of marsiya shayari to resonate with your innermost feelings and experience the melancholic beauty of this poetic art form.
جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
- میر-انیس
किस शेर की आमद है कि रन काँप रहा है
रुस्तम का जिगर ज़ेर-ए-कफ़न काँप रहा है
हर क़स्र-ए-सलातीन-ए-ज़मन काँप रहा है
सब एक तरफ़ चर्ख़-ए-कुहन काँप रहा है
शमशीर-बकफ़ देख के हैदर के पिसर को
जिब्रील लरज़ते हैं समेटे हुए पर को
हैबत से हैं न क़िला-ए-अफ़लाक के दरबंद
जल्लाद-ए-फ़लक भी नज़र आता है नज़र-बंद
वा है कमर-ए-चर्ख़ से जौज़ा का कमर-बंद
सय्यारे हैं ग़लताँ सिफ़त-ए-ताइर-ए-पुर-बंद
अंगुश्त-ए-अतारिद से क़लम छूट पड़ा है
ख़ुरशीद के पंजे से इल्म छूट पड़ा है
ख़ुद फ़ितना ओ शर पढ़ रहे हैं फ़ातिहा-ए-ख़ैर
कहते हैं अनल-अब्द लरज़ कर सनम-ए-दैर
जाँ ग़ैर है तन ग़ैर मकीँ ग़ैर मकाँ ग़ैर
ने चर्ख़ का है दूर न सय्यारों की है सैर
सकते में फ़लक ख़ौफ़ से मानिंद-ए-ज़ीं है
जुज़ बख़्त-ए-यज़ीद अब कोई गर्दिश में नहीं है
बे-होश है बिजली पे समंद इन का है होशियार
ख़्वाबीदा हैं सब ताला-ए-अब्बास है बे-दार
पोशीदा है ख़ुरशीद इल्म उन का नुमूदार
बे-नूर है मुँह चाँद का रुख़ उन का ज़िया-बार
सब जुज़ु हैं कल रुतबे में कहलाते हैं अब्बास
कौनैन पियादा हैं सवार आते हैं अब्बास
चमका के मह-ओ-ख़ौर ज़र ओ नुक़रा के असा को
सरकाते हैं पीरे फ़लक-ए-पुश्त-दोता को
अदल आगे बढ़ा हुक्म ये देता है क़ज़ा को
हाँ बांध ले ज़ुल्म-ओ-सितम-ओ-जोर-ओ-जफ़ा को
घर लूट ले बुग़्ज़-ओ-हसद-ओ-किज़्ब-ओ-रिया का
सर काट ले हिर्स-ओ-तमा-ओ-मकर-ओ-दग़ा का
राहत के महलों को बला पूछ रही है
हस्ती के मकानों को फ़ना पूछ रही है
तक़दीर से उम्र अपनी क़ज़ा पूछ रही है
दोनों का पता फ़ौज-ए-जफ़ा पूछ रही है
ग़फ़लत का तो दिल चौंक पड़ा ख़ौफ़ से हिल कर
फ़ितने ने किया ख़ूब गले कुफ्र से मिल कर
अल-नशर का हंगामा है इस वक़्त हश्र में
अल-सूर का आवाज़ा है अब जिन ओ बशर में
अल-जुज़ का है तज़किरा बाहम तन-ओ-सर में
अल-वस्ल का ग़ुल है सक़र ओ अहल-ए-सक़र में
अल-हश्र जो मुर्दे न पुकारें तो ग़ज़ब है
अल-मौत ज़बान-ए-मलक-उल-मौत पे अब है
रूकश है उस इक तन का न बहमन न तमहतीं
सुहराब ओ नरीमान ओ पशुन बे-सर ओ बे-तन
क़ारों की तरह तहत-ए-ज़मीं ग़र्क़ है क़ारन
हर आशिक़-ए-दुनिया को है दुनिया चह-ए-बे-ज़न
सब भूल गए अपना हस्ब और नस्ब आज
आता है जिगर-गोशा-ए-क़िताल-ए-अरब आज
हर ख़ुद निहाँ होता है ख़ुद कासा-ए-सर में
मानिंद-ए-रग-ओ-रेशा ज़र्रा छुपती है बर में
बे-रंग है रंग असलहे का फ़ौज-ए-उम्र में
जौहर है न तैग़ों में न रौगन है सिपर में
रंग उड़ के भरा है जो रुख़-ए-फ़ौज-ए-लईं का
चेहरा नज़र आता है फ़लक का न ज़मीं का
है शोर फ़लक का कि ये ख़ुरशीद-ए-अरब है
इंसाफ़ ये कहता है कि चुप तर्क-ए-अदब है
ख़ुरशीद-ए-फ़लक पर तव-ए-आरिज़ का लक़ब है
ये क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब है
हर एक कब इस के शरफ़-ओ-जाह को समझे
इस बंदे को वो समझे जो अल्लाह को समझे
यूसुफ़ है ये कुनआँ में सुलेमान है सबा में
ईसा है मसीहाई में मूसा है दुआ में
अय्यूब है ये सब्र में यहया है बका में
शपीर है मज़लूमी में हैदर है वग़ा में
क्या ग़म जो न मादर न पिदर रखते हैं आदम
अब्बास सा दुनिया में पिसर रखते हैं आदम
पंजे में यदुल्लाह है बाज़ू में है जाफ़र
ताअत में मुलक ख़ू में हसन ज़ोर में हैदर
इक़बाल में हाशिम तो तवाज़ो में पयंबर
और तंतना-ओ-दबदबा में हमज़ा-ए-सफ़दर
जौहर के दिखाने में ये शमशीर-ए-ख़ुदा है
और सर के कटाने में ये शाह-ए-शोहदा है
बे उन के शर्फ़ कुछ भी ज़माना नहीं रखता
ईमान सिवा उन के ख़ज़ाना नहीं रखता
क़ुरआँ भी कोई और फ़साना नहीं रखता
शपीर बगै़र उन के यगाना नहीं रखता
ये रूह-ए-मुक़द्दस है फ़क़त जलव-गिरी में
ये अक़ल-ए-मुजर्रिद है जमाल-ए-बशरी में
सहरा में गिरा परतव-ए-आरिज़ जो क़ज़ारा
सूरज की किरन ने किया शर्मा के किनारा
यूँ धूप एड़ी आग पे जिस तरह से पारा
मूसा की तरह ग़श हुए सब कैसा नज़ारा
जुज़ मदह न दम रोशनई-ए-तूर ने मारा
शब-ए-ख़ून अजब धूप पे उस नूर ने मारा
क़ुर्बान हवा-ए-इल्म-ए-शाह-ए-अमम के
सब ख़ार हरे हो के बने सर्व-ए-इरम के
हैं राज़ अयाँ ख़ालिक़-ए-ज़ुलफ़ज़्ल-ओ-करम के
जिब्रील ने पर खोले हैं दामन में इल्म के
पर्चम का जहाँ अक्स गिरा साइक़ा चमका
पर्चम कहीं देखा न सुना इस चम-ओ-ख़म का
क़र्ना में न दम है न जलाजुल में सदा में है
बूक़ ओ दहल ओ कोस की भी साँस हुआ है
हर दिल के धड़कने का मगर शोर बपा है
बाजा जो सलामी का उसे कहिए बजा है
सकते में जो आवाज़ है नक़्कारा-ए-वदफ़ की
नौबत है वरूद-ए-ख़ल्फ़-ए-शाह-ए-नजफ़ की
आमद को तो देखा रुख़-ए-पुर-नूर को देखो
वालशमश पढ़ो रौशनी-ए-तूर को देखो
लिए रौशनी-ए-माह को ने हूर को देखो
इस शम्मा-ए-मुराद-ए-मुलक-ओ-हूर को देखो
है कौन तजल्ली रुख़-ए-पुर-नूर की मानिंद
याँ रौशनी-ए-तूर जली तूर के मानिंद
मद्दाह को अब ताज़गी-ए-नज़्म में कद है
या हज़रत-ए-अब्बास-ए-अली वक़्त-ए-मदद है
मौला की मदद से जो सुख़न हो वो सनद है
इस नज़्म का जो हो ना मक़र उस को हसद है
हासिद से सुलह भी नहीं दरकार है मुझ को
सरकार-ए-हुसैनी से सरोकार है मुझ को
गुलज़ार है ये नज़्म ओ बयाँ बेशा नहीं है
बाग़ी को भी गुलगश्त में अंदेशा नहीं है
हर मिस्र-ए-पर-जस्ता है फल तेशा नहीं है
याँ मग़्ज़ सुख़न का है रग-ओ-रेशा नहीं है
सेहत मिरी तशख़ीस से है नज़्म के फ़न की
मानिंद-ए-क़लम हाथ में है नब्ज़ सुख़न की
गर काह मिले फ़ाएदा क्या कोहकनी से
मैं काह को गुल करता हूँ रंगीं-ए-सुख़नी से
ख़ुश-रंग है अलफ़ाज़ अक़ीक़-ए-यमनी से
ये साज़ है सोज़-ए-ग़म-ए-शाह-ए-मदनी से
आहन को करूँ नर्म तो आइना बना लूँ
पत्थर को करूँ गर्म तो मैं इत्र बना लूँ
गो ख़िलअत तहसीं मुझे हासिल है सरापा
पर वस्फ़ सरापा का तो मुश्किल है सरापा
हर अज़्व-ए-तन इक क़ुदरत-ए-कामिल है सरापा
ये रूह है सर-ता-बक़दम दिल है सरापा
क्या मिलता है गर कोई झगड़ता है किसी से
मज़मून भी अपना नहीं लड़ता है किसी से
सूरज को छुपाता है गहन आइना को ज़ंग
दाग़ी है क़मर-ए-सोख़्ता ओ लाला-ए-ख़ुश-रंग
क्या अस्ल दर- ओ लअल की वो पानी है ये संग
देखो गुल ओ ग़ुन्चा वो परेशाँ है ये दिल-ए-तंग
इस चेहरे को दावर ही ने लारेब बनाया
बे-ऐब था ख़ुद नक़्श भी बे-ऐब बनाया
इंसाँ कहे उस चेहरे को कब चश्मा-ए-हैवाँ
ये नूर वो ज़ुल्मत ये नुमूदार वो पिनहाँ
बरसों से है आज़ार-ए-बर्स में मह-ए-ताबाँ
कब से यरक़ाँ महर को है और नहीं दरमाँ
आइना है घर ज़ंग काया रंग नहीं है
इस आइना में रंग है और ज़ंग नहीं है
आइना कहा रुख़ को तो कुछ भी न सुना की
सनअत वो सिकन्दर की ये सनअत है ख़ुदा की
वाँ ख़ाक ने सैक़ल यहाँ क़ुदरत ने जिला की
ताला ने किस आइना को ख़ूबी ये अता की
हर आइने में चहरा-ए-इंसाँ नज़र आया
इस रुख़ में जमाल-ए-शहि-ए-मरदाँ नज़र आया
बे-मिस्ल-ए-हसीं है निगह-ए-अहल-ए-यकीं में
बस एक ये ख़ुर्शीद है अफ़्लाक ओ ज़मीं में
जलवा है अजब अब्रुओं का क़ुरब-ए-जबीं में
दो मछलियाँ हैं चश्मा-ए-ख़ुर्शीद-ए-मुबीं में
मर्दुम को इशारा है ये अबरुओं का जबीं पर
हैं दो मह-ए-नौ जलवा-नुमा चर्ख़-ए-बरीं पर
बीनी के तो मज़मूँ पे ये दावा है यक़ीनी
इस नज़्म के चेहरे की वो हो जाएगा बीनी
मंज़ूर निगह को जो हुई अर्श-ए-नशीनी
की साया-ए-बीनी ने फ़क़त जलवा-ए-गज़ीनी
दरकार इसी बीनी की मोहब्बत का असा है
ये राह तो ईमाँ से भी बारीक सिवा है
बीनी को कहूँ शम्मा तो लौ उस की कहाँ है
पर-नूर भंवोँ पर मुझे शोला का गुमाँ है
दो शोले और इक शम्मा ये हैरत का मकाँ है
हाँ ज़ुल्फ़ों के कूचों से हवा तुंद रवां है
समझो न भवें बस क़ि हवा का जो गुज़र है
ये शम्मा की लौ गाह इधर गाह इधर है
इस दर्जा पसंद इस रुख़-ए-रौशन की चमक है
ख़ुर्शीद से बर्गश्ता हर इक माह-ए-फ़लक है
अबरो का ये ग़ुल काबा-ए-अफ़्लाक तिलक है
महराब दुआ-ए-बशर-ओ-जिन-ओ-मलक है
देखा जो मह-ए-नौ ने इस अबरो के शर्फ़ को
कअबा की तरफ़ पुश्त की रुख़ उस की तरफ़ को
जो मानी-ए-तहक़ीक़ से तावील का है फ़र्क़
पतली से वही कअबा की तमसील का है फ़र्क़
सुरमा से और इस आँख से इक मील का है फ़र्क़
मील एक तरफ़ नूर की तकमील का है फ़र्क़
इस आँख पे उम्मत के ज़रा ख़िशम को देखो
नाविक की सिलाई को और उस चश्म को देखो
गर आँख को नर्गिस कहूँ है ऐन-ए-हिक़ारत
नर्गिस में न पलकें हैं न पुतली न बसारत
चेहरे पे मह-ए-ईद की बेजा है इशारत
वो ईद का मुज़्दा है ये हैदर की बशारत
अबरो की मह-ए-नौ में न जुंबिश है न ज़ौ है
इक शब वो मह-ए-नौ है ये हर शब मह-ए-नौ है
मुँह ग़र्क़-ए-अर्क़ देख के ख़ुरशीद हुआ तर
अबरो से टपकता है निरा तैग़ का जौहर
आँखों का अर्क़ रौगन-ए-बादाम से बेहतर
आरिज़ का पसीना है गुलाब-ए-गुल-ए-अहमर
क़तरा रुख़-ए-पुर-नूर पे ढलते हुए देखो
इत्र-ए-गुल-ए-ख़ुर्शीद निकलते हुए देखो
तस्बीह-ए-कुनाँ मुँह में ज़बान आठ पहर है
गोया दहन-ए-ग़ुन्चा में बरग-ए-गुल-ए-तर है
कब ग़ुन्चा ओ गुलबर्ग में ये नूर मगर है
इस बुर्ज में ख़ुर्शीद के माही का गुज़र है
तारीफ़ में होंटों की जो लब तर हुआ मेरा
दुनिया ही में क़ाबू लब-ए-कौसर हुआ मेरा
ये मुँह जो रदीफ़-ए-लब-ए-ख़ुश-रंग हुआ है
क्या फ़ाक़ीह ग़ुन्चा का यहाँ तंग हुआ है
अब मदह-ए-दहन का मुझे आहंग हुआ है
पर गुंचे का नाम इस के लिए नंग हुआ है
ग़ुन्चा कहा उस मुँह को हज़र अहल-ए-सुख़न से
सूंघे कोई बू आती है गुंचे के दहन से
शीरीं-रक्मों में रक़्म उस लब की जुदा है
इक ने शुक्र और एक ने याक़ूत लिखा है
याक़ूत का लिखना मगर इन सब से बजा है
याक़ूत से बढ़ जो लिखूँ मैं तो मज़ा है
चूसा है ये लब मिसल-ए-रत्ब हक़ के वली ने
याक़ूत का बोसा लिया किस रोज़ अली ने
जान-ए-फ़ुसहा रूह-ए-फ़साहत है तो ये है
हर कलिमा है मौक़े पे बलाग़त है तो ये है
एजाज़-ए-मसीहा की करामत है तो ये है
क़ाएल है नज़ाकत कि नज़ाकत है तो ये है
यूँ होंटों पे तस्वीर-ए-सुख़न वक़्त-ए-बयाँ है
या वक़्त से गोया रग-ए-याक़ूत अयाँ है
अब असल में शीरीं-दहनी की करों तहरीर
तिफ़ली में खुला जबकि यही ग़ुंचा-ए-तक़रीर
पहले ये ख़बर दी कि मैं हूँ फ़िदया-ए-शपीर
इस मुज़दे पे मादर ने उन्हें बख़्श दिया शीर
मुँह हैदर-ए-कर्रार ने मीठा किया उन का
शीरीनी-ए-एजाज़ से मुँह भर दिया उन का
उस लब से दम-ए-ताज़ा हर इक ज़िनदे ने पाया
जैसे शहि-ए-मरदाँ ने नसीरी को जलाया
जान बख़्शि-ए-अम्वात का गोया है ये आया
हम-दम दम-ए-रूह-ए-अक़दस उन का नज़र आया
दम क़ालिब-ए-बे-जाँ में जो दम करते थे ईसा
इन होंटों के एजाज़ का दम भरते थे ईसा
दाँतों की लड़ी से ये लड़ी अक़ल-ए-ख़ुदा-दाद
वो बात ठिकाने की कहूँ अब कि रहे याद
ये गौहर-ए-अब्बास हैं पाक उन की ये बुनियाद
अब्बास-ओ-नजफ़ एक हैं गिनिए अगर एदाद
मादिन के शरफ़ हैं ये जवाहर के शरफ़ हैं
दंदाँ दर-ए-अब्बास हैं तो दर-ए-नजफ़ हैं
अस्ना अशरी अब करें हाथों का नज़ारा
दस उंगलियाँ हैं मिस्ल-ए-इल्म इन में सफ़-ए-आरा
हर पंजे का है पंजितनी को ये इशारा
ऐ मोमिनो अशरा में इल्म रखना हमारा
पहले मिरे आक़ा मिरे सालार को रोना
फिर ज़ेर-ए-इल्म उन के अलमदार को रोना
ता-मू-ए-कमर फ़िक्र का रिश्ता नहीं जाता
फ़िक्र एक तरफ़ वहम भी हाशा नहीं जाता
पर फ़िक्र-ए-रसा का मिरी दावा नहीं जाता
मज़मून ये नाज़ुक है कि बांधा नहीं जाता
अब जे़ब-ए-कमर तेग़-ए-शरर-ए-बार जो की है
अब्बास ने शोला को गिरह बाल से दी है
उश्शाक हूँ अब आलम-ए-बाला की मदद का
दरपेश है मज़मून-ए-अलमदार के क़द का
ये है क़द-ए-बाला पिस्र-ए-शेर-ए-समद का
या साया मुजस्सम हुआ अल्लाहु-अहद का
इस क़द पे दो अबरो की कशिश क्या कोई जाने
खींचे हैं दो मद एक अलिफ़ पर ये ख़ुदा ने
ने चर्ख़ के सौ दौरे न इक रख़्श का कावा
देता है सदा उम्र-ए-रवाँ को ये भुलावा
ये क़िस्म है तरकीब-ए-अनासिर के अलावा
अल्लाह की क़ुदरत है न छल-बल न छलावा
चलता है ग़ज़ब चाल क़दम शल है क़ज़ा का
तौसन न कहो रंग उड़ा है ये हवा का
गर्दिश में हर इक आँख है फ़ानुस-ए-ख़याली
बंदिश में हैं नाल उस के रुबाई-ए-हिलाली
रौशन है कि जौज़ा ने अनाँ दोष पे डाली
भर्ती से है मज़मून रिकाबों का भी ख़ाली
सरअत है अंधेरे और उजाले में ग़ज़ब की
अंधयारी उसे चाँदनी है चौधवीं शब की
गर्दूं हो कभी हम-क़दम उस का ये है दुशवार
वो क़ाफ़िले की गर्द है ये क़ाफ़िला-सालार
वो ज़ोअफ़ है ये ज़ोर वो मजबूर ये मुख़्तार
ये नाम है वो नंग है ये फ़ख़्र है वो आर
इक जस्त में रह जाते हैं यूँ अर्ज़ ओ समा दूर
जिस तरह मुसाफ़िर से दम-ए-सुब्ह सिरा दूर
जो बूँद पसीने की है शोख़ी से भरी है
इन क़तरों में परियों से सिवा तेज़ी परी है
गुलशन में सुब्ह बाग़ में ये कुबक-दरी है
फ़ानूस में परवाना है शीशे में परी है
ये है वो हुमा जिस के जिलौ-दार मलक हैं
साये की जगह पर के तले हफ़्त फ़लक हैं
ठहरे तो फ़लक सब को ज़मीं पर नज़र आए
दौड़े तो ज़मीं चर्ख़-ए-बरीं पर नज़र आए
शहबाज़ हवा का न कहीं पर नज़र आए
राकिब ही फ़क़त दामन-ए-ज़ीं पर नज़र आए
इस राकिब ओ मुरक्कब की बराबर जो सना की
ये इल्म ख़ुदा का वो मशीय्यत है ख़ुदा की
शोख़ी में परी हुस्न में है हूर-ए-बहिश्ती
तूफ़ान में राकिब के लिए नूह की कश्ती
कब अबलक़-ए-दौराँ में है ये नेक-ए-सरिश्ती
ये ख़ैर है वो शर है ये ख़ूबी है वो ज़श्ती
सहरा में चमन फ़सल-ए-बहारी है चमन में
रहवार है अस्तबल में तलवार है रन में
इस रख़्श को अब्बास उड़ाते हुए आए
कोस-ए-लिमन-उल-मलक बजाते हुए आए
तकबीर से सोतों को जगाते हुए आए
इक तेग़-ए-निगह सब पे लगाते हुए आए
बे चले के खींचे हुए अबरो की कमाँ को
बे हाथ के ताने हुए पलकों की सनाँ को
लिखा है मुअर्रिख़ ने कि इक गब्र-ए-दिलावर
हफ़तुम से फ़िरोकश था मियान-ए-सफ़-ए-लश्कर
रोईं तन ओ संगीं दिल ओ बद-बातिन ओ बदबर
सर कर के मुहिम नेज़ों पे लाया था कई सर
हमराह शक्की फ़ौज थी डंका था निशाँ था
जागीर के लेने को सू-ए-शाम रवाँ था
तक़दीर जो रन में शब-ए-हफ़तुम उसे लाई
ख़लवत में उसे बात उमर ने ये सुनाई
दरपेश है सादात से हम को भी लड़ाई
वान पंचतनी चंद हैं याँ सारी ख़ुदाई
अकबर का न क़ासिम का न शप्पीर का डर है
दो लाख को अल्लाह की शमशीर का डर है
बोला वो लरज़ कर कि हुआ मुझ को भी विस्वास
शमशीर-ए-ख़ुदा कौन उमर बोला कि अब्बास
उस ने कहा फिर फ़तह की क्यूँ कर है तुझे आस
बोला कि कई रोज़ से इस शेर को है प्यास
हम भी हैं बहादुर नहीं डरते हैं किसी से
पर रूह निकलती है तो अबास-अली से
तशरीफ़ अलमदार-जरी रन में जो लाया
इस गबर को चुपके से उमर ने ये सुनाया
अंदेशा था जिस शेर के आने का वो आया
सर उस ने परे से सो-ए-अब्बास उठाया
देखा तो कहा काँप के ये फ़ौज-ए-वग़ा से
रूबा हो लड़ाते हो मुझे शेर-ए-ख़ुदा से
माना कि ख़ुदा ये नहीं क़ुदरत है ख़ुदा की
मुझ में है निरा ज़ोर ये क़ूत है ख़ुदा की
की ख़ूब ज़ियाफ़त मिरी रहमत है ख़ुदा की
सब ने कहा तुझ पर भी इनायत है ख़ुदा की
जा उज़्र न कर नाम है मर्दों का इसी से
तो दबदबा-ए-ओ-ज़ोर में क्या कम है किसी से
बादल की तरह से वो गरजता हुआ निकला
जल्दी में सुलह जंग के बजता हुआ निकला
हरगाम रह-ए-उम्र को तजता हुआ निकला
और सामने नक़्क़ारा भी बजता हुआ निकला
ग़ालिब तहमतन की तरह अहल-ए-जहाँ पर
धॅंसती थी ज़मीं पाँव वो रखता था जहाँ पर
तैय्यार कमर कस के हुआ जंग पे ख़ूँख़ार
और पैक अजल आया कि है क़ब्र भी तैय्यार
ख़ंजर लिया मुँह देखने को और कभी तलवार
मिसल-ए-वर्म-ए-मर्ग चढ़ा घोड़े पे इक बार
वो रख़्श पे या देव-दनी तख़्त-ए-ज़री पर
ग़ुल रन में उठा कोई चढ़ा कबक-ए-दरी पर
इस हैयत ओ हैबत से वो नख़्वत-ए-सैर आया
आसेब को भी साए से उस के हज़्र आया
मैदान-ए-क़यामत को भी महशर नज़र आया
गर्द अपने लिए नेज़ों पे किश्तों के सर आया
ज़िंदा ही पि-ए-सैर न हर सफ़ से बढ़े थे
सर मर्दों के नेज़ों पे तमाशे को चढ़े थे
सीधा कभी नेज़े को हिलाया कभी आड़ा
पढ़ पढ़ के रज्ज़ बाग़-ए-फ़साहत को उजाड़ा
ज़ालिम ने कई पुश्त के मर्दों को उखाड़ा
बोला मेर हैबत ने जिगर-शेरों का फाड़ा
हम पंचा न रुस्तम है न सोहराब है मेरा
मर्हब बिन-अब्दुलक़मर अलक़ाब है मेरा
फ़ित्राक में सर बांधता हूँ पील-ए-दमाँ का
पंजा मैं सदा फेरता हूँ शेर-ए-ज़ियाँ का
नज़ारा ज़रा कीजिए हर शाख़-ए-सनाँ का
इस नेज़े पे वो सर है फ़ुलाँ-इब्न-ए-फ़ुलाँ का
जो जो थे यलान-ए-कुहन इस दौरा-ए-नौ में
तन उन के तह-ए-ख़ाक हैं सर मेरे जिलौ में
याँ सैफ-ए-ज़बाँ सैफ-ए-इलाही ने इल्म की
फ़रमाया मिरे आगे है तक़रीर सितम की
अब मुँह से कहा कुछ तो ज़बाँ मैं ने क़लम की
कौनैन ने गर्दन मिरे दरवाज़े पे ख़म की
ताक़त है हमारी असदुल्लाह की ताक़त
पंजे में हमारे है यद-अल्लाह की ताक़त
अब्दुलक़मर-ए-नहस का तू दाग़-ए-जिगर है
मैं चाँद अली का हूँ अरे ये भी ख़बर है
ख़ुर्शीद-परस्ती से तिरी क्या मुझे डर है
क़ब्ज़े में तनाब-ए-फ़लक-ओ-शम्श-ओ-क़मर है
मक़दूर रहा शम्स की रजअत का पिदर को
दो टुकड़े चचा ने किया उंगली से क़मर को
ख़ुर्शीद-ए-दरख़्शाँ में बता नूर है किस का
कलिमा वर्क़-ए-माह पे मस्तूर है किस का
और सूरा-ए-वालशम्स में मज़कूर है किस का
ज़र्रे को करे महर ये मक़दूर है किस का
ये साहिब-ए-मक़दूर नबी और अली हैं
या हम कि ग़ुलाम-ए-ख़ल्फ़-उस-सिदक़ नबी हैं
तौबा तो ख़ुदा जानता है शम्श-ओ-क़मर को
वो शाम को होता है ग़ुरूब और ये सहर को
ईमान समझ महर-ए-शहि-जिन्न-ओ-बशर को
शम्मा-ए-रह-ए-मेराज हैं ये अहल-ए-नज़र को
ख़ुर्शीद-ए-बनी-फ़ातिमा तो शाह-ए-अमम हैं
और माह-ए-बनी-हाश्मी आफ़ाक़ में हम हैं
दो चांद को करती है इक अंगुश्त हमारी
है महर-ए-नुबुव्वत से मिली पुश्त हमारी
है तेग़-ए-ज़फ़र वक़्त-ए-ज़द-ओ-किश्त हमारी
सौ ग़र्ज़-ए-क़ज़ा ज़रबत-ए-यकमुश्त हमारी
क़ुदरत के नीस्तान के हम शेर हैं ज़ालिम
हम शेर हैं और साहिब-ए-शमशीर हैं ज़ालिम
सब को है फ़ना दूर हमेशा है हमार
सर पेश-ए-ख़ुदा रखना ये पेशा है हमारा
हैं शेर-ए-ख़ुदा जिस में वो बेशा है हमारा
आरी है अजल जिस से वो तेशा है हमारा
हम जुज़्व-ए-बदन इस के हैं जो कल का शरफ़ है
रिश्ते में हमारे गुहर-ए-पाक-ए-नजफ़ है
जौशन जो दुआओं में है वो अपनी ज़र्रा है
हर अक़्दे का नाख़ुन मिरे नेज़े की गिरह है
तलवार से पानी जिगर-ए-हर-कि-ओ-मह है
काटा पर-ए-जिब्रील को जिस तेग़ से ये है
सर ख़ुद-ओ-कुल्ला का नहीं मोहताज हमारा
शप्पीर का है नक़श-ए-क़दम ताज हमारा
अहमद है चचा मेरा पिदर हैदर-ए-सफ़दर
वो कल का पयंबर है ये कौनैन का रहबर
और मादर ज़ैनब की है लौंडी मिरी मादर
भाई मिरा इक ऊन दो अब्दुल्लाह ओ जाफ़र
और शपर ओ शप्पीर हैं सरदार हमारे
हम उन के ग़ुलाम और वो मुख़्तार हमारे
क़ासिम का अज़ादार हूँ अकबर का मैं ग़म-ख़्वार
लश्कर का अलमदार हूँ सुरूर का जिलौ-दार
मैं करता हूँ पर्दा तो हिर्म होते हैं उस्वार
था शब को निगह बान ख़य्याम-ए-शह-ए-अबरार
अब ताज़ा ये बख़्शिश है ख़ुदा-ए-अज़ली की
सुक़्क़ा भी बना उस का जो पोती है अली की
हम बांटते हैं रोज़ी-ए-हर-बंदा-ए-ग़फ़्फ़ार
रज़्ज़ाक़ की सरकार के हैं मालिक-ओ-मुख़्तार
पर हक़ की इताअत है जो हर कार में दरकार
ख़ुद वक़्त-ए-सहर रोज़े में खालते हैं तलवार
हैं उक़्दा-कुशा वक़्त-ए-कुशा क़िला-कुशा भी
पर सब्र से बंधवाते हैं रस्सी में गला भी
उस के क़दम पाक का फ़िदया है सर अपना
क़ुर्बान किया जिस पे नबी ने पिसर अपना
नज़र-ए-सर-ए-अकबर है दिल अपना जिगर अपना
बैत-उश-शरफ़-ए-शाह पे सदक़े है घर अपना
मशहूर जो अब्बास ज़माने का शर्फ़ है
शप्पीर की नालैन उठाने का शर्फ़ है
शाहों का चिराग़ आते ही गुल कर दिया हम ने
हर जा अमल-ए-ख़त्म-ए-रसुल कर दिया हम ने
ख़ंदक़ पे दर-ए-क़िला को पुल कर दिया हम ने
इक जुज़ु था कलिमा उसे कुल कर दिया हम ने
धोका का न हो ये सब शर्फ़-ए-शेर-ए-ख़ुदा हैं
फिर वो न जुदा हम से न हम उन से जुदा हैं
नारी को बहिश्ती के रज्ज़ पर हसद आया
यूँ चल के पि-ए-हमला वो मलऊन-ए-बद आया
गोया कि सुक़र से उम्र-ए-अबदूद आया
और लरज़े में मरहब भी मियान-ए-लहद आया
नफ़रीं की ख़ुदा ने उसे तहसीं की उम्र ने
मुजरा किया अब्बास को याँ फ़तह-ओ-ज़फ़र ने
शप्पीर को बढ़ बढ़ के नक़ीबों ने पुकारा
लौ टूटता है दस्त-ए-ज़बरदस्त तुम्हारा
है मरहब-ए-अब्दुलक़मर अब मअर्का-आरा
शप्पीर यकीं जानो कि अब्बास को मारा
ये गर्ग वो यूसुफ़ ये ख़िज़ाँ है वो चमन है
वो चाँद ये अक़रब है वो सूरज ये गहन है
इस शोर ने तड़पा दिया हज़रत के जिगर को
अकबर से कहा जाओ तो अम्मो की ख़बर को
अकबर बढ़े है और मुड़के पुकारे ये पिदर को
घेरा है कई नहस सितारों ने क़मर को
इक फ़ौज नई गर्द-ए-अलमदार है रन में
लौ माह-ए-बनी-हाश्मी आता है गहन में
इक गबर-ए-क़वी आया है खींचे हुए तलवार
कहता है कि इक हमला में है फैसला-ए-कार
सरकुश्तों के नेज़ों पे हैं गर्द इस के नमूदार
याँ दस्त-ए-बह-ए-क़ब्ज़ा मुतबस्सिम हैं अलमदार
अल्लाह करे ख़ैर कि है क़सद-ए-शर उस को
सब कहते हैं मरहब-ए-बिन-अब्दुलक़मर उस को
ग़ुल है कि दिल-आल-ए-अबा तोड़ेगा मरहब
अब बाज़ू-ए-शाह-ए-शोहदा तोड़ेगा मरहब
बंद-ए-कमर-ए-शेर ख़ुदा तोड़ेगा मरहब
गौहर को तह-ए-संग जफ़ा तोड़ेगा मरहब
मरहब का न कुछ उस की तवानाई का डर है
फ़िदवी को चचा-जान की तन्हाई का डर है
शह ने कहा क्या रूह-ए-अली आई न होगी
नाना ने मिरे क्या ये ख़बर पाई न होगी
क्या फ़ातिमा फ़िर्दोस में घबराई न होगी
सर नंगे वो तशरीफ़ यहाँ लाई न होगी
बंदों पे अयाँ ज़ोर-ए-ख़ुदा करते हैं अब्बास
प्यारे मिरे देखो तो कि क्या करते हैं अब्बास
सुन कर ये ख़बर बीबियाँ करने लगीं नाला
डेयुढ़ी पे कमर पकड़े गए सय्यद-वाला
चिल्लाए कि फ़िज़्ज़ा अली-असग़र को उठा ला
है वक़्त-ए-दुआ छूटता है गोद का पाला
सैय्यदानियो! सर खोल दो सज्जादा बिछा दो
दुश्मन पे अलमदार हो ग़ालिब ये दुआ दो
खे़मे में क़यामत हुई फ़र्याद-ए-बका से
सहमी हुई कहती थी सकीना ये ख़ुदा से
ग़ारत हुआ इलाही जो लड़े मेरे चचा से
वो जीते फिरें ख़ैर मैं मरजाऊँ बला से
सदक़े करूँ क़ुर्बान करूँ अहल-ए-जफ़ा को
दो लाख ने घेरा है मिरे एक चचा को
है है कहीं इस ज़ुलम-ओ-सितम का है ठिकाना
सुक़्क़े पे सुना है कहीं तलवार उठाना
कोई भी रवा रखता है सय्यद का सताना
जाएज़ है किसी प्यासे से पानी का छुपाना
हफ़तुम से ग़िज़ा खाई है ने पानी पिया है
बे रहमों ने किस दुख में हमें डलदाया है
अच्छी मिरी अम्माँ मरे सुक़्क़े को बुलाओ
कह दो कि सकीना हुई आख़िर इधर आओ
अब पानी नहीं चाहिए ताबूत मंगाओ
कांधे से रखो मुश्क जनाज़े को उठाओ
मिलने मिरी तुर्बत के गले आएंगे अब्बास
ये सुनते ही घबरा के चले आएंगे अब्बास
इस अर्सा में हमले किए मरहब ने वहाँ चार
पर एक भी इस पंचतनी पर ना चला वार
मानिंद-ए-दिल-ओ-चश्म हर इक अज़्व था होशियार
आरी हुई तलवार मुख़ालिफ़ हुआ नाचार
जब तेग़ को झुंजला के रुख़-ए-पाक पे खींचा
तलवार ने उंगली से अलिफ़ ख़ाक पे खींचा
ग़ाज़ी ने कहा बस इसी फ़न पर था तुझे नाज़
सीखा न यदा लिल्लाहियों से ज़रब का अंदाज़
फिर खींची इस अंदाज़ से तेग़-ए-शरर-ए-अंदाज़
जो मियान के भी मुँह से ज़रा निकली न आवाज़
याँ ख़ौफ़ से क़ालिब को किया मियान ने ख़ाली
वाँ क़ालिब-ए-अअदा को क्या जान ने ख़ाली
ये तेग़-सरापा जो बरहना नज़र आई
फिर जामा-ए-तन में न कोई रूह समाई
हस्ती ने कहा तौबा क़ज़ा बोली दहाई
इंसाफ़ पुकारा कि है क़ब्ज़ा में ख़ुदाई
लौ फ़तह-ए-मुजस्सम का वो सर जेब से निकला
नुसरत के फ़लक का मह-ए-नौ ग़ैब से निकला
बिजली गिरी बिजली पे अजल डर के अजल पर
इक ज़लज़ला तारी हुआ गर्दूं के महल पर
सय्यारे हटे कर के नज़र तेग़ के फल पर
ख़ुर्शीद था मर्रीख़ ये मर्रीख़ ज़ुहल पर
ये होल दिया तेग़-ए-दरख़शाँ की चमक ने
जो तारों के दाँतों से ज़मीं पकड़ी फ़लक ने
मरहब से मुख़ातब हुए अब्बास-ए-दिलावर
शमशीर के मानिंद सरापा हूँ मैं जौहर
मुम्किन है कि इक ज़र्ब में दो हो तो सरासर
पर इस में अयाँ होंगे ना जौहर मिरे तुझ पर
ले रोक मिरे वार तिरे पास सिपर है
ज़ख़्मी न करूँगा अभी इज़हार-ए-हुनर है
कांधे से सिपर ले के मुक़ाबल हुआ दुश्मन
बतलाने लगे तेग़ से ये ज़र्ब का हरफ़न
ये सीना ये बाज़ू ये कमर और ये गर्दन
ये ख़ुद ये चार आईना ये ढाल ये जौशन
किस वार को वो रोकता तलवार कहाँ थी
आँखों में तो फुर्ती थी निगाहों से निहाँ थी
मर्हब ने न फिर ढाल न तलवार सँभाली
उस हाथ से सर एक से दस्तार सँभाली
ज़ालिम ने सनाँ ग़ुस्से से इक बार सँभाली
उस शेर ने शमशीर-ए-शरर-ए-हार सँभाली
तानी जो सनाँ उस ने अलमदार के ऊपर
ये नेज़ा उड़ा ले गए तलवार के ऊपर
जो चाल चला वो हुआ गुमराह ओ परेशाँ
फिर ज़ाइचा खींचा जो कमाँ का सर-ए-मैदाँ
तीरों की लड़ाई पे पड़ा करअ-ए-पैकाँ
तीरों को क़लम करने लगी तेग़-ए-दरख़शाँ
जौहर से न तीरों ही के फल दाग़ बदल थे
गर शिस्त के थे साठ तो चिल्ला के चहल थे
उस तेग़ ने सरकश के जो तरकश में किया घर
ग़ुल था कि नीसताँ में गिरी बर्क़ चमक कर
पर तीरों के कट कट के उड़े मिसल-ए-कबूतर
मर्हब हुआ मुज़्तर सिफ़त-ए-ताइर-ए-बे-पर
बढ़ कर कहा ग़ाज़ी ने बता किस की ज़फ़र है
अब मर्ग है और तू है ये तेग़ और ये सर है
नामर्द ने पोशीदा किया रुख़ को सिपर से
और खींच लिया ख़ंजर-ए-हिन्दी को कमर से
ख़ंजर तो इधर से चला और तेग़ उधर से
उस वक़्त हवा चल न सकी बीच में डर से
अल्लाह-रे शमशीर-ए-अलमदार के जौहर
जौहर किए उस ख़ंजर-ए-ख़ूँख़ार के जौहर
ख़ंजर का जो काटा तो वो ठहरी न सिपर पर
ठहरी न सिपर पर तो वो सीधी गई सर पर
सीधी गई सर पर तो वो थी सद्र ओ कमर पर
थी सद्र ओ कमर पर तो वो थी क़ल्ब ओ जिगर पर
थी क़लब ओ जिगर पर तो वो थी दामन-ए-ज़ीं पर
थी दामन-ए-ज़ीं पर तो वो राकिब था ज़मीं पर
ईमाँ ने उछल कर कहा वो कुफ्र को मारा
क़ुदरत ने पुकारा कि ये है ज़ोर हमारा
हैदर से नबी बोले ये है फ़ख़्र तुम्हारा
हैदर ने कहा ये मिरी पुतली का है तारा
परवाना-ए-शम-ए-रुख़-ए-ताबाँ हुईं ज़ोहरा
मोहसिन को लिए गोद में क़ुरबाँ हुईं ज़ोहरा
हंगामा हुआ गर्म ये नारी जो हुआ सर्द
वां फ़ौज ने ली बाग बढ़ा याँ ये जवाँमर्द
टापों की सदा से सर-क़ारों में हुआ दर्द
रंग-ए-रुख़-ए-आदा की तरह उड़ने लगी गर्द
क़ारों का ज़र-ए-गंज-ए-निहानी निकल आया
ये ख़ाक उड़ी रन से कि पानी निकल आया
जो ज़िंदा थे अलअज़मतुल्लाह पुकारे
सर मर्दों के नेज़ों पे जो थे वाह पुकारे
डरकर उम्र-ए-सअद को गुमराह पुकारे
ख़ुश हो के अलमदार सू-ए-शाह पुकारे
याँ तो हुआ या हज़रत-ए-शप्पीर नारा
शप्पीर ने हंस कर किया तकबीर का नारा
पर्दे के क़रीब आ के बहन शह की पुकारी
दुश्मन पर हुई फ़तह मुबारक हो मै वारी
अब कहती हूँ मै देखती थी जंग ये सारी
अब्बास की इक ज़र्ब में ठंडा हुआ नारी
मर्हब को तो ख़ैबर में यदुल्लाह ने मारा
हम नाम को इब्न-ए-असदुल्लाह ने मारा
मैदाँ मे अलमदार के जाने के मै सदक़े
उस फ़ाक़े में तलवार लगाने के मैं सदक़े
बाहम इल्म ओ मुश्क उठाने के मै सदक़े
उस प्यास मे इक बूँद न पाने के मै सदक़े
सुक़्क़ा बना प्यासों का मुरव्वत के तसद्दुक़
बे सर किया शह-ज़ोरों को क़ूत के तसद्दुक़
तुम दोनों का हर वक़्त निगहबान ख़ुदा हो
देखे जो बुरी आँख से ग़ारत हो फ़ना हो
दोनों की बला ले के ये माँ-जाई फ़िदा हो
रो कर कहा हज़रत ने बहन देखिए क्या हो
मुंह चाँद सा मुझ को जो दिखाएँ तो मैं जानूँ
दरिया से सलामत जो फिर आएँ तो मैं जानूँ
ज़ैनब से ब-हसरत ये बयाँ करते थे मौला
नागाह सकीना ने सुना फ़तह का मिज़दाँ
चिल्लाई मैं सदक़े तिरे अच्छी मिरी फ़िज़्ज़ा
जा जल्द बलाएँ तू मेरे अमूद की तू ले आ
देख प्यास का कह कर उन्हें मदहोश न करना
पर याद दिलाना कि फ़रामोश न करना
लेने को बलाएँ गई फ़िज़्ज़ा सू-ए-जंगाह
अब्बास ने आते हुए देखा उसे नागाह
चिल्लाए कि फिर जा मैं हवा आने से आगाह
कह देना सकीना से हमें याद है वल्लाह
दि प्यास से बी-बी का हुआ जाता है पानी
ले कर तिरे बाबा का ग़ुलाम आता है पानी
दरिया को चले अब्र-ए-सिफ़त साथ लिए बर्क़
मर्हब के शरीकों का जुदा करते हुए फ़र्क़
सरदार में और फ़ौज में बाक़ी न रहा फ़र्क़
मर्हब की तरह सब छह हब हब में हुए ग़र्क़
तलवार की इक मौज ने तूफ़ान उठाया
तूफ़ान ने सर पर वो बयान उठाया
पानी हुई हर मौज-ए-ज़र्रह-फ़ौज के तन में
मलबूस में ज़िंदे थे कि मुर्दे थे कफ़न में
खंजर की ज़बानों को क़लम कर के दहन में
इक तेग़ से तलवारों को आरी कया रन में
हैदर का असद क़लज़ुम-ए-लश्कर में दर आया
उमड़े हुए बादल की तरह नहर आया
दरिया के निगहबान बढ़े होने को चौ-रंग
पहने हुए मछली की तरह बर में ज़र्रह तंग
खींचे हुए मौजों की तरह खंजर बे-रंग
सुक़्क़े ने कहा पानी पे जाएज़ है कहाँ जंग
दरिया के निगहबान हो पर ग़फ़लत-ए-दीँ है
मानिंद-ए-हुबाब आँख में बीनाई नहीं है
मज़हब है क्या कि रह-ए-शरा न जानी
मशरब है ये कैसा कि पिलाते नहीं पानी
बे शीर का बचपन अली-अकबर की जवानी
बरबाद किए देती है अब तिशना-दहानी
लब ख़ुश्क हैं बच्चों की ज़बाँ प्यास से शक़ है
दरिया ही से पूछ लो किस प्यासे का हक़ है
पानी मुझे इक मुश्क है उस नहर से दर कार
भर लेने दो मुझ को न करो हुज्जत-ओ-तकरार
चिल्लाए सितम-गर है गुज़र नहर पे दुशवार
ग़ाज़ी ने कहा हाँ पे इरादा है तो होशियार
लौसेल को और बर्क़-ए-शरर-बार को रोको
रहवार कोरोको मिरी तलवार को रोको
ये कह के किया अस्प-ए-सुबुक-ए-ताज़ को महमेज़
बिजली की तरह कूंद के चमका फ़र्स-ए-तेज़
अशरार के सर पर हुआ नअलों से शरर-ए-रेज़
सैलाब-ए-फ़ना था कि वो तूफ़ान-ए-बला-ख़ेज़
झपकी पलक उस रख़्श को जब क़हर में देखा
फिर आँख खुली जब तो रवाँ नहर में देखा
दरिया में हुआ ग़ुल कि वो दर-ए-नजफ़ आया
इलियास ओ ख़िज़्र बोले हमारा शरफ़ आया
अब्बास शहनशाह-ए-नजफ़ का ख़लफ आया
पा-बोस को मोती लिए दस्त-ए-सदफ़ आया
याद आ गई प्यासों की जो हैदर के ख़लफ़ को
दिल ख़ून हुआ देख कर दरिया के ख़लफ़ को
सूखे हुए मुशकीज़ा का फिर खोला दहाना
भरने लगा ख़म हो के वो सर ताज-ए-ज़माना
अअदा ने किया दूर से तीरों का निशाना
और चूम लिया रूह-ए-यदुल्लाह ने शाना
फ़रमाया की क्या क्या मुझे ख़ुश करते हो बेटा
पानी मिरी पोती के लिए भरते हो बेटा
कुछ तिरी कोशिश ओ हिम्मत में नहीं है
पानी मगर उस प्यासी की क़िस्मत में नहीं है
वक़्फ़ा मिरे प्यारे की शहादत में नहीं है
जो ज़ख़्म में लज़्ज़त है वो जराहत में नहीं है
इक ख़ून की नहर आँखों से ज़ोहरा के बही है
रोने को तिरी लाश पे सर खोल रही है
दरिया से जो निकला असदुल्लाह का जानी
था शोर कि वो शेर लिए जाता है पानी
फिर राह में हाएल हुए सब ज़ुल्म के पानी
सुक़्क़ा-ए-सकीना की ये की मर्तबा-दानी
क़ब्रें नबी ओ हैदर ओ ज़ुबेरा की हिला दीं
बरछों की जो नोंकें थीं कलेजे से मिला दीं
वो कौन सा तीर जो दिल पे न लगाया
मुशकीज़े के पानी से सवा खून बहाया
ये नर्ग़ा था जो शमर ने हीले से सुनाया
अब्बास बचो ग़ौल-ए-कमीं-गाह से आया
मुड़ कर जो नज़र की ख़लफ़-ए-शीर-ए-ख़दा ने
शानो को तहे तेग़ किया अहल-ए-जफ़ा ने
लिखा है कि एक नख़्ल-ए-रत्ब था सर-ए-मैदाँ
इब्न-ए-वर्क़ा ज़ैद-ए-लईं इस में था पिनहाँ
पहुंचा जो वहाँ सर्व-ए-रवान-ए-शह-ए-मुर्दां
जो शाना था मुश्क ओ अलम ओ तेग़ के शायाँ
वारिस पे किया ज़ैद ने शमशीर-ए-अजल से
ये फूली-फली शाख़ कटी ते
रुस्तम का जिगर ज़ेर-ए-कफ़न काँप रहा है
हर क़स्र-ए-सलातीन-ए-ज़मन काँप रहा है
सब एक तरफ़ चर्ख़-ए-कुहन काँप रहा है
शमशीर-बकफ़ देख के हैदर के पिसर को
जिब्रील लरज़ते हैं समेटे हुए पर को
हैबत से हैं न क़िला-ए-अफ़लाक के दरबंद
जल्लाद-ए-फ़लक भी नज़र आता है नज़र-बंद
वा है कमर-ए-चर्ख़ से जौज़ा का कमर-बंद
सय्यारे हैं ग़लताँ सिफ़त-ए-ताइर-ए-पुर-बंद
अंगुश्त-ए-अतारिद से क़लम छूट पड़ा है
ख़ुरशीद के पंजे से इल्म छूट पड़ा है
ख़ुद फ़ितना ओ शर पढ़ रहे हैं फ़ातिहा-ए-ख़ैर
कहते हैं अनल-अब्द लरज़ कर सनम-ए-दैर
जाँ ग़ैर है तन ग़ैर मकीँ ग़ैर मकाँ ग़ैर
ने चर्ख़ का है दूर न सय्यारों की है सैर
सकते में फ़लक ख़ौफ़ से मानिंद-ए-ज़ीं है
जुज़ बख़्त-ए-यज़ीद अब कोई गर्दिश में नहीं है
बे-होश है बिजली पे समंद इन का है होशियार
ख़्वाबीदा हैं सब ताला-ए-अब्बास है बे-दार
पोशीदा है ख़ुरशीद इल्म उन का नुमूदार
बे-नूर है मुँह चाँद का रुख़ उन का ज़िया-बार
सब जुज़ु हैं कल रुतबे में कहलाते हैं अब्बास
कौनैन पियादा हैं सवार आते हैं अब्बास
चमका के मह-ओ-ख़ौर ज़र ओ नुक़रा के असा को
सरकाते हैं पीरे फ़लक-ए-पुश्त-दोता को
अदल आगे बढ़ा हुक्म ये देता है क़ज़ा को
हाँ बांध ले ज़ुल्म-ओ-सितम-ओ-जोर-ओ-जफ़ा को
घर लूट ले बुग़्ज़-ओ-हसद-ओ-किज़्ब-ओ-रिया का
सर काट ले हिर्स-ओ-तमा-ओ-मकर-ओ-दग़ा का
राहत के महलों को बला पूछ रही है
हस्ती के मकानों को फ़ना पूछ रही है
तक़दीर से उम्र अपनी क़ज़ा पूछ रही है
दोनों का पता फ़ौज-ए-जफ़ा पूछ रही है
ग़फ़लत का तो दिल चौंक पड़ा ख़ौफ़ से हिल कर
फ़ितने ने किया ख़ूब गले कुफ्र से मिल कर
अल-नशर का हंगामा है इस वक़्त हश्र में
अल-सूर का आवाज़ा है अब जिन ओ बशर में
अल-जुज़ का है तज़किरा बाहम तन-ओ-सर में
अल-वस्ल का ग़ुल है सक़र ओ अहल-ए-सक़र में
अल-हश्र जो मुर्दे न पुकारें तो ग़ज़ब है
अल-मौत ज़बान-ए-मलक-उल-मौत पे अब है
रूकश है उस इक तन का न बहमन न तमहतीं
सुहराब ओ नरीमान ओ पशुन बे-सर ओ बे-तन
क़ारों की तरह तहत-ए-ज़मीं ग़र्क़ है क़ारन
हर आशिक़-ए-दुनिया को है दुनिया चह-ए-बे-ज़न
सब भूल गए अपना हस्ब और नस्ब आज
आता है जिगर-गोशा-ए-क़िताल-ए-अरब आज
हर ख़ुद निहाँ होता है ख़ुद कासा-ए-सर में
मानिंद-ए-रग-ओ-रेशा ज़र्रा छुपती है बर में
बे-रंग है रंग असलहे का फ़ौज-ए-उम्र में
जौहर है न तैग़ों में न रौगन है सिपर में
रंग उड़ के भरा है जो रुख़-ए-फ़ौज-ए-लईं का
चेहरा नज़र आता है फ़लक का न ज़मीं का
है शोर फ़लक का कि ये ख़ुरशीद-ए-अरब है
इंसाफ़ ये कहता है कि चुप तर्क-ए-अदब है
ख़ुरशीद-ए-फ़लक पर तव-ए-आरिज़ का लक़ब है
ये क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब है
हर एक कब इस के शरफ़-ओ-जाह को समझे
इस बंदे को वो समझे जो अल्लाह को समझे
यूसुफ़ है ये कुनआँ में सुलेमान है सबा में
ईसा है मसीहाई में मूसा है दुआ में
अय्यूब है ये सब्र में यहया है बका में
शपीर है मज़लूमी में हैदर है वग़ा में
क्या ग़म जो न मादर न पिदर रखते हैं आदम
अब्बास सा दुनिया में पिसर रखते हैं आदम
पंजे में यदुल्लाह है बाज़ू में है जाफ़र
ताअत में मुलक ख़ू में हसन ज़ोर में हैदर
इक़बाल में हाशिम तो तवाज़ो में पयंबर
और तंतना-ओ-दबदबा में हमज़ा-ए-सफ़दर
जौहर के दिखाने में ये शमशीर-ए-ख़ुदा है
और सर के कटाने में ये शाह-ए-शोहदा है
बे उन के शर्फ़ कुछ भी ज़माना नहीं रखता
ईमान सिवा उन के ख़ज़ाना नहीं रखता
क़ुरआँ भी कोई और फ़साना नहीं रखता
शपीर बगै़र उन के यगाना नहीं रखता
ये रूह-ए-मुक़द्दस है फ़क़त जलव-गिरी में
ये अक़ल-ए-मुजर्रिद है जमाल-ए-बशरी में
सहरा में गिरा परतव-ए-आरिज़ जो क़ज़ारा
सूरज की किरन ने किया शर्मा के किनारा
यूँ धूप एड़ी आग पे जिस तरह से पारा
मूसा की तरह ग़श हुए सब कैसा नज़ारा
जुज़ मदह न दम रोशनई-ए-तूर ने मारा
शब-ए-ख़ून अजब धूप पे उस नूर ने मारा
क़ुर्बान हवा-ए-इल्म-ए-शाह-ए-अमम के
सब ख़ार हरे हो के बने सर्व-ए-इरम के
हैं राज़ अयाँ ख़ालिक़-ए-ज़ुलफ़ज़्ल-ओ-करम के
जिब्रील ने पर खोले हैं दामन में इल्म के
पर्चम का जहाँ अक्स गिरा साइक़ा चमका
पर्चम कहीं देखा न सुना इस चम-ओ-ख़म का
क़र्ना में न दम है न जलाजुल में सदा में है
बूक़ ओ दहल ओ कोस की भी साँस हुआ है
हर दिल के धड़कने का मगर शोर बपा है
बाजा जो सलामी का उसे कहिए बजा है
सकते में जो आवाज़ है नक़्कारा-ए-वदफ़ की
नौबत है वरूद-ए-ख़ल्फ़-ए-शाह-ए-नजफ़ की
आमद को तो देखा रुख़-ए-पुर-नूर को देखो
वालशमश पढ़ो रौशनी-ए-तूर को देखो
लिए रौशनी-ए-माह को ने हूर को देखो
इस शम्मा-ए-मुराद-ए-मुलक-ओ-हूर को देखो
है कौन तजल्ली रुख़-ए-पुर-नूर की मानिंद
याँ रौशनी-ए-तूर जली तूर के मानिंद
मद्दाह को अब ताज़गी-ए-नज़्म में कद है
या हज़रत-ए-अब्बास-ए-अली वक़्त-ए-मदद है
मौला की मदद से जो सुख़न हो वो सनद है
इस नज़्म का जो हो ना मक़र उस को हसद है
हासिद से सुलह भी नहीं दरकार है मुझ को
सरकार-ए-हुसैनी से सरोकार है मुझ को
गुलज़ार है ये नज़्म ओ बयाँ बेशा नहीं है
बाग़ी को भी गुलगश्त में अंदेशा नहीं है
हर मिस्र-ए-पर-जस्ता है फल तेशा नहीं है
याँ मग़्ज़ सुख़न का है रग-ओ-रेशा नहीं है
सेहत मिरी तशख़ीस से है नज़्म के फ़न की
मानिंद-ए-क़लम हाथ में है नब्ज़ सुख़न की
गर काह मिले फ़ाएदा क्या कोहकनी से
मैं काह को गुल करता हूँ रंगीं-ए-सुख़नी से
ख़ुश-रंग है अलफ़ाज़ अक़ीक़-ए-यमनी से
ये साज़ है सोज़-ए-ग़म-ए-शाह-ए-मदनी से
आहन को करूँ नर्म तो आइना बना लूँ
पत्थर को करूँ गर्म तो मैं इत्र बना लूँ
गो ख़िलअत तहसीं मुझे हासिल है सरापा
पर वस्फ़ सरापा का तो मुश्किल है सरापा
हर अज़्व-ए-तन इक क़ुदरत-ए-कामिल है सरापा
ये रूह है सर-ता-बक़दम दिल है सरापा
क्या मिलता है गर कोई झगड़ता है किसी से
मज़मून भी अपना नहीं लड़ता है किसी से
सूरज को छुपाता है गहन आइना को ज़ंग
दाग़ी है क़मर-ए-सोख़्ता ओ लाला-ए-ख़ुश-रंग
क्या अस्ल दर- ओ लअल की वो पानी है ये संग
देखो गुल ओ ग़ुन्चा वो परेशाँ है ये दिल-ए-तंग
इस चेहरे को दावर ही ने लारेब बनाया
बे-ऐब था ख़ुद नक़्श भी बे-ऐब बनाया
इंसाँ कहे उस चेहरे को कब चश्मा-ए-हैवाँ
ये नूर वो ज़ुल्मत ये नुमूदार वो पिनहाँ
बरसों से है आज़ार-ए-बर्स में मह-ए-ताबाँ
कब से यरक़ाँ महर को है और नहीं दरमाँ
आइना है घर ज़ंग काया रंग नहीं है
इस आइना में रंग है और ज़ंग नहीं है
आइना कहा रुख़ को तो कुछ भी न सुना की
सनअत वो सिकन्दर की ये सनअत है ख़ुदा की
वाँ ख़ाक ने सैक़ल यहाँ क़ुदरत ने जिला की
ताला ने किस आइना को ख़ूबी ये अता की
हर आइने में चहरा-ए-इंसाँ नज़र आया
इस रुख़ में जमाल-ए-शहि-ए-मरदाँ नज़र आया
बे-मिस्ल-ए-हसीं है निगह-ए-अहल-ए-यकीं में
बस एक ये ख़ुर्शीद है अफ़्लाक ओ ज़मीं में
जलवा है अजब अब्रुओं का क़ुरब-ए-जबीं में
दो मछलियाँ हैं चश्मा-ए-ख़ुर्शीद-ए-मुबीं में
मर्दुम को इशारा है ये अबरुओं का जबीं पर
हैं दो मह-ए-नौ जलवा-नुमा चर्ख़-ए-बरीं पर
बीनी के तो मज़मूँ पे ये दावा है यक़ीनी
इस नज़्म के चेहरे की वो हो जाएगा बीनी
मंज़ूर निगह को जो हुई अर्श-ए-नशीनी
की साया-ए-बीनी ने फ़क़त जलवा-ए-गज़ीनी
दरकार इसी बीनी की मोहब्बत का असा है
ये राह तो ईमाँ से भी बारीक सिवा है
बीनी को कहूँ शम्मा तो लौ उस की कहाँ है
पर-नूर भंवोँ पर मुझे शोला का गुमाँ है
दो शोले और इक शम्मा ये हैरत का मकाँ है
हाँ ज़ुल्फ़ों के कूचों से हवा तुंद रवां है
समझो न भवें बस क़ि हवा का जो गुज़र है
ये शम्मा की लौ गाह इधर गाह इधर है
इस दर्जा पसंद इस रुख़-ए-रौशन की चमक है
ख़ुर्शीद से बर्गश्ता हर इक माह-ए-फ़लक है
अबरो का ये ग़ुल काबा-ए-अफ़्लाक तिलक है
महराब दुआ-ए-बशर-ओ-जिन-ओ-मलक है
देखा जो मह-ए-नौ ने इस अबरो के शर्फ़ को
कअबा की तरफ़ पुश्त की रुख़ उस की तरफ़ को
जो मानी-ए-तहक़ीक़ से तावील का है फ़र्क़
पतली से वही कअबा की तमसील का है फ़र्क़
सुरमा से और इस आँख से इक मील का है फ़र्क़
मील एक तरफ़ नूर की तकमील का है फ़र्क़
इस आँख पे उम्मत के ज़रा ख़िशम को देखो
नाविक की सिलाई को और उस चश्म को देखो
गर आँख को नर्गिस कहूँ है ऐन-ए-हिक़ारत
नर्गिस में न पलकें हैं न पुतली न बसारत
चेहरे पे मह-ए-ईद की बेजा है इशारत
वो ईद का मुज़्दा है ये हैदर की बशारत
अबरो की मह-ए-नौ में न जुंबिश है न ज़ौ है
इक शब वो मह-ए-नौ है ये हर शब मह-ए-नौ है
मुँह ग़र्क़-ए-अर्क़ देख के ख़ुरशीद हुआ तर
अबरो से टपकता है निरा तैग़ का जौहर
आँखों का अर्क़ रौगन-ए-बादाम से बेहतर
आरिज़ का पसीना है गुलाब-ए-गुल-ए-अहमर
क़तरा रुख़-ए-पुर-नूर पे ढलते हुए देखो
इत्र-ए-गुल-ए-ख़ुर्शीद निकलते हुए देखो
तस्बीह-ए-कुनाँ मुँह में ज़बान आठ पहर है
गोया दहन-ए-ग़ुन्चा में बरग-ए-गुल-ए-तर है
कब ग़ुन्चा ओ गुलबर्ग में ये नूर मगर है
इस बुर्ज में ख़ुर्शीद के माही का गुज़र है
तारीफ़ में होंटों की जो लब तर हुआ मेरा
दुनिया ही में क़ाबू लब-ए-कौसर हुआ मेरा
ये मुँह जो रदीफ़-ए-लब-ए-ख़ुश-रंग हुआ है
क्या फ़ाक़ीह ग़ुन्चा का यहाँ तंग हुआ है
अब मदह-ए-दहन का मुझे आहंग हुआ है
पर गुंचे का नाम इस के लिए नंग हुआ है
ग़ुन्चा कहा उस मुँह को हज़र अहल-ए-सुख़न से
सूंघे कोई बू आती है गुंचे के दहन से
शीरीं-रक्मों में रक़्म उस लब की जुदा है
इक ने शुक्र और एक ने याक़ूत लिखा है
याक़ूत का लिखना मगर इन सब से बजा है
याक़ूत से बढ़ जो लिखूँ मैं तो मज़ा है
चूसा है ये लब मिसल-ए-रत्ब हक़ के वली ने
याक़ूत का बोसा लिया किस रोज़ अली ने
जान-ए-फ़ुसहा रूह-ए-फ़साहत है तो ये है
हर कलिमा है मौक़े पे बलाग़त है तो ये है
एजाज़-ए-मसीहा की करामत है तो ये है
क़ाएल है नज़ाकत कि नज़ाकत है तो ये है
यूँ होंटों पे तस्वीर-ए-सुख़न वक़्त-ए-बयाँ है
या वक़्त से गोया रग-ए-याक़ूत अयाँ है
अब असल में शीरीं-दहनी की करों तहरीर
तिफ़ली में खुला जबकि यही ग़ुंचा-ए-तक़रीर
पहले ये ख़बर दी कि मैं हूँ फ़िदया-ए-शपीर
इस मुज़दे पे मादर ने उन्हें बख़्श दिया शीर
मुँह हैदर-ए-कर्रार ने मीठा किया उन का
शीरीनी-ए-एजाज़ से मुँह भर दिया उन का
उस लब से दम-ए-ताज़ा हर इक ज़िनदे ने पाया
जैसे शहि-ए-मरदाँ ने नसीरी को जलाया
जान बख़्शि-ए-अम्वात का गोया है ये आया
हम-दम दम-ए-रूह-ए-अक़दस उन का नज़र आया
दम क़ालिब-ए-बे-जाँ में जो दम करते थे ईसा
इन होंटों के एजाज़ का दम भरते थे ईसा
दाँतों की लड़ी से ये लड़ी अक़ल-ए-ख़ुदा-दाद
वो बात ठिकाने की कहूँ अब कि रहे याद
ये गौहर-ए-अब्बास हैं पाक उन की ये बुनियाद
अब्बास-ओ-नजफ़ एक हैं गिनिए अगर एदाद
मादिन के शरफ़ हैं ये जवाहर के शरफ़ हैं
दंदाँ दर-ए-अब्बास हैं तो दर-ए-नजफ़ हैं
अस्ना अशरी अब करें हाथों का नज़ारा
दस उंगलियाँ हैं मिस्ल-ए-इल्म इन में सफ़-ए-आरा
हर पंजे का है पंजितनी को ये इशारा
ऐ मोमिनो अशरा में इल्म रखना हमारा
पहले मिरे आक़ा मिरे सालार को रोना
फिर ज़ेर-ए-इल्म उन के अलमदार को रोना
ता-मू-ए-कमर फ़िक्र का रिश्ता नहीं जाता
फ़िक्र एक तरफ़ वहम भी हाशा नहीं जाता
पर फ़िक्र-ए-रसा का मिरी दावा नहीं जाता
मज़मून ये नाज़ुक है कि बांधा नहीं जाता
अब जे़ब-ए-कमर तेग़-ए-शरर-ए-बार जो की है
अब्बास ने शोला को गिरह बाल से दी है
उश्शाक हूँ अब आलम-ए-बाला की मदद का
दरपेश है मज़मून-ए-अलमदार के क़द का
ये है क़द-ए-बाला पिस्र-ए-शेर-ए-समद का
या साया मुजस्सम हुआ अल्लाहु-अहद का
इस क़द पे दो अबरो की कशिश क्या कोई जाने
खींचे हैं दो मद एक अलिफ़ पर ये ख़ुदा ने
ने चर्ख़ के सौ दौरे न इक रख़्श का कावा
देता है सदा उम्र-ए-रवाँ को ये भुलावा
ये क़िस्म है तरकीब-ए-अनासिर के अलावा
अल्लाह की क़ुदरत है न छल-बल न छलावा
चलता है ग़ज़ब चाल क़दम शल है क़ज़ा का
तौसन न कहो रंग उड़ा है ये हवा का
गर्दिश में हर इक आँख है फ़ानुस-ए-ख़याली
बंदिश में हैं नाल उस के रुबाई-ए-हिलाली
रौशन है कि जौज़ा ने अनाँ दोष पे डाली
भर्ती से है मज़मून रिकाबों का भी ख़ाली
सरअत है अंधेरे और उजाले में ग़ज़ब की
अंधयारी उसे चाँदनी है चौधवीं शब की
गर्दूं हो कभी हम-क़दम उस का ये है दुशवार
वो क़ाफ़िले की गर्द है ये क़ाफ़िला-सालार
वो ज़ोअफ़ है ये ज़ोर वो मजबूर ये मुख़्तार
ये नाम है वो नंग है ये फ़ख़्र है वो आर
इक जस्त में रह जाते हैं यूँ अर्ज़ ओ समा दूर
जिस तरह मुसाफ़िर से दम-ए-सुब्ह सिरा दूर
जो बूँद पसीने की है शोख़ी से भरी है
इन क़तरों में परियों से सिवा तेज़ी परी है
गुलशन में सुब्ह बाग़ में ये कुबक-दरी है
फ़ानूस में परवाना है शीशे में परी है
ये है वो हुमा जिस के जिलौ-दार मलक हैं
साये की जगह पर के तले हफ़्त फ़लक हैं
ठहरे तो फ़लक सब को ज़मीं पर नज़र आए
दौड़े तो ज़मीं चर्ख़-ए-बरीं पर नज़र आए
शहबाज़ हवा का न कहीं पर नज़र आए
राकिब ही फ़क़त दामन-ए-ज़ीं पर नज़र आए
इस राकिब ओ मुरक्कब की बराबर जो सना की
ये इल्म ख़ुदा का वो मशीय्यत है ख़ुदा की
शोख़ी में परी हुस्न में है हूर-ए-बहिश्ती
तूफ़ान में राकिब के लिए नूह की कश्ती
कब अबलक़-ए-दौराँ में है ये नेक-ए-सरिश्ती
ये ख़ैर है वो शर है ये ख़ूबी है वो ज़श्ती
सहरा में चमन फ़सल-ए-बहारी है चमन में
रहवार है अस्तबल में तलवार है रन में
इस रख़्श को अब्बास उड़ाते हुए आए
कोस-ए-लिमन-उल-मलक बजाते हुए आए
तकबीर से सोतों को जगाते हुए आए
इक तेग़-ए-निगह सब पे लगाते हुए आए
बे चले के खींचे हुए अबरो की कमाँ को
बे हाथ के ताने हुए पलकों की सनाँ को
लिखा है मुअर्रिख़ ने कि इक गब्र-ए-दिलावर
हफ़तुम से फ़िरोकश था मियान-ए-सफ़-ए-लश्कर
रोईं तन ओ संगीं दिल ओ बद-बातिन ओ बदबर
सर कर के मुहिम नेज़ों पे लाया था कई सर
हमराह शक्की फ़ौज थी डंका था निशाँ था
जागीर के लेने को सू-ए-शाम रवाँ था
तक़दीर जो रन में शब-ए-हफ़तुम उसे लाई
ख़लवत में उसे बात उमर ने ये सुनाई
दरपेश है सादात से हम को भी लड़ाई
वान पंचतनी चंद हैं याँ सारी ख़ुदाई
अकबर का न क़ासिम का न शप्पीर का डर है
दो लाख को अल्लाह की शमशीर का डर है
बोला वो लरज़ कर कि हुआ मुझ को भी विस्वास
शमशीर-ए-ख़ुदा कौन उमर बोला कि अब्बास
उस ने कहा फिर फ़तह की क्यूँ कर है तुझे आस
बोला कि कई रोज़ से इस शेर को है प्यास
हम भी हैं बहादुर नहीं डरते हैं किसी से
पर रूह निकलती है तो अबास-अली से
तशरीफ़ अलमदार-जरी रन में जो लाया
इस गबर को चुपके से उमर ने ये सुनाया
अंदेशा था जिस शेर के आने का वो आया
सर उस ने परे से सो-ए-अब्बास उठाया
देखा तो कहा काँप के ये फ़ौज-ए-वग़ा से
रूबा हो लड़ाते हो मुझे शेर-ए-ख़ुदा से
माना कि ख़ुदा ये नहीं क़ुदरत है ख़ुदा की
मुझ में है निरा ज़ोर ये क़ूत है ख़ुदा की
की ख़ूब ज़ियाफ़त मिरी रहमत है ख़ुदा की
सब ने कहा तुझ पर भी इनायत है ख़ुदा की
जा उज़्र न कर नाम है मर्दों का इसी से
तो दबदबा-ए-ओ-ज़ोर में क्या कम है किसी से
बादल की तरह से वो गरजता हुआ निकला
जल्दी में सुलह जंग के बजता हुआ निकला
हरगाम रह-ए-उम्र को तजता हुआ निकला
और सामने नक़्क़ारा भी बजता हुआ निकला
ग़ालिब तहमतन की तरह अहल-ए-जहाँ पर
धॅंसती थी ज़मीं पाँव वो रखता था जहाँ पर
तैय्यार कमर कस के हुआ जंग पे ख़ूँख़ार
और पैक अजल आया कि है क़ब्र भी तैय्यार
ख़ंजर लिया मुँह देखने को और कभी तलवार
मिसल-ए-वर्म-ए-मर्ग चढ़ा घोड़े पे इक बार
वो रख़्श पे या देव-दनी तख़्त-ए-ज़री पर
ग़ुल रन में उठा कोई चढ़ा कबक-ए-दरी पर
इस हैयत ओ हैबत से वो नख़्वत-ए-सैर आया
आसेब को भी साए से उस के हज़्र आया
मैदान-ए-क़यामत को भी महशर नज़र आया
गर्द अपने लिए नेज़ों पे किश्तों के सर आया
ज़िंदा ही पि-ए-सैर न हर सफ़ से बढ़े थे
सर मर्दों के नेज़ों पे तमाशे को चढ़े थे
सीधा कभी नेज़े को हिलाया कभी आड़ा
पढ़ पढ़ के रज्ज़ बाग़-ए-फ़साहत को उजाड़ा
ज़ालिम ने कई पुश्त के मर्दों को उखाड़ा
बोला मेर हैबत ने जिगर-शेरों का फाड़ा
हम पंचा न रुस्तम है न सोहराब है मेरा
मर्हब बिन-अब्दुलक़मर अलक़ाब है मेरा
फ़ित्राक में सर बांधता हूँ पील-ए-दमाँ का
पंजा मैं सदा फेरता हूँ शेर-ए-ज़ियाँ का
नज़ारा ज़रा कीजिए हर शाख़-ए-सनाँ का
इस नेज़े पे वो सर है फ़ुलाँ-इब्न-ए-फ़ुलाँ का
जो जो थे यलान-ए-कुहन इस दौरा-ए-नौ में
तन उन के तह-ए-ख़ाक हैं सर मेरे जिलौ में
याँ सैफ-ए-ज़बाँ सैफ-ए-इलाही ने इल्म की
फ़रमाया मिरे आगे है तक़रीर सितम की
अब मुँह से कहा कुछ तो ज़बाँ मैं ने क़लम की
कौनैन ने गर्दन मिरे दरवाज़े पे ख़म की
ताक़त है हमारी असदुल्लाह की ताक़त
पंजे में हमारे है यद-अल्लाह की ताक़त
अब्दुलक़मर-ए-नहस का तू दाग़-ए-जिगर है
मैं चाँद अली का हूँ अरे ये भी ख़बर है
ख़ुर्शीद-परस्ती से तिरी क्या मुझे डर है
क़ब्ज़े में तनाब-ए-फ़लक-ओ-शम्श-ओ-क़मर है
मक़दूर रहा शम्स की रजअत का पिदर को
दो टुकड़े चचा ने किया उंगली से क़मर को
ख़ुर्शीद-ए-दरख़्शाँ में बता नूर है किस का
कलिमा वर्क़-ए-माह पे मस्तूर है किस का
और सूरा-ए-वालशम्स में मज़कूर है किस का
ज़र्रे को करे महर ये मक़दूर है किस का
ये साहिब-ए-मक़दूर नबी और अली हैं
या हम कि ग़ुलाम-ए-ख़ल्फ़-उस-सिदक़ नबी हैं
तौबा तो ख़ुदा जानता है शम्श-ओ-क़मर को
वो शाम को होता है ग़ुरूब और ये सहर को
ईमान समझ महर-ए-शहि-जिन्न-ओ-बशर को
शम्मा-ए-रह-ए-मेराज हैं ये अहल-ए-नज़र को
ख़ुर्शीद-ए-बनी-फ़ातिमा तो शाह-ए-अमम हैं
और माह-ए-बनी-हाश्मी आफ़ाक़ में हम हैं
दो चांद को करती है इक अंगुश्त हमारी
है महर-ए-नुबुव्वत से मिली पुश्त हमारी
है तेग़-ए-ज़फ़र वक़्त-ए-ज़द-ओ-किश्त हमारी
सौ ग़र्ज़-ए-क़ज़ा ज़रबत-ए-यकमुश्त हमारी
क़ुदरत के नीस्तान के हम शेर हैं ज़ालिम
हम शेर हैं और साहिब-ए-शमशीर हैं ज़ालिम
सब को है फ़ना दूर हमेशा है हमार
सर पेश-ए-ख़ुदा रखना ये पेशा है हमारा
हैं शेर-ए-ख़ुदा जिस में वो बेशा है हमारा
आरी है अजल जिस से वो तेशा है हमारा
हम जुज़्व-ए-बदन इस के हैं जो कल का शरफ़ है
रिश्ते में हमारे गुहर-ए-पाक-ए-नजफ़ है
जौशन जो दुआओं में है वो अपनी ज़र्रा है
हर अक़्दे का नाख़ुन मिरे नेज़े की गिरह है
तलवार से पानी जिगर-ए-हर-कि-ओ-मह है
काटा पर-ए-जिब्रील को जिस तेग़ से ये है
सर ख़ुद-ओ-कुल्ला का नहीं मोहताज हमारा
शप्पीर का है नक़श-ए-क़दम ताज हमारा
अहमद है चचा मेरा पिदर हैदर-ए-सफ़दर
वो कल का पयंबर है ये कौनैन का रहबर
और मादर ज़ैनब की है लौंडी मिरी मादर
भाई मिरा इक ऊन दो अब्दुल्लाह ओ जाफ़र
और शपर ओ शप्पीर हैं सरदार हमारे
हम उन के ग़ुलाम और वो मुख़्तार हमारे
क़ासिम का अज़ादार हूँ अकबर का मैं ग़म-ख़्वार
लश्कर का अलमदार हूँ सुरूर का जिलौ-दार
मैं करता हूँ पर्दा तो हिर्म होते हैं उस्वार
था शब को निगह बान ख़य्याम-ए-शह-ए-अबरार
अब ताज़ा ये बख़्शिश है ख़ुदा-ए-अज़ली की
सुक़्क़ा भी बना उस का जो पोती है अली की
हम बांटते हैं रोज़ी-ए-हर-बंदा-ए-ग़फ़्फ़ार
रज़्ज़ाक़ की सरकार के हैं मालिक-ओ-मुख़्तार
पर हक़ की इताअत है जो हर कार में दरकार
ख़ुद वक़्त-ए-सहर रोज़े में खालते हैं तलवार
हैं उक़्दा-कुशा वक़्त-ए-कुशा क़िला-कुशा भी
पर सब्र से बंधवाते हैं रस्सी में गला भी
उस के क़दम पाक का फ़िदया है सर अपना
क़ुर्बान किया जिस पे नबी ने पिसर अपना
नज़र-ए-सर-ए-अकबर है दिल अपना जिगर अपना
बैत-उश-शरफ़-ए-शाह पे सदक़े है घर अपना
मशहूर जो अब्बास ज़माने का शर्फ़ है
शप्पीर की नालैन उठाने का शर्फ़ है
शाहों का चिराग़ आते ही गुल कर दिया हम ने
हर जा अमल-ए-ख़त्म-ए-रसुल कर दिया हम ने
ख़ंदक़ पे दर-ए-क़िला को पुल कर दिया हम ने
इक जुज़ु था कलिमा उसे कुल कर दिया हम ने
धोका का न हो ये सब शर्फ़-ए-शेर-ए-ख़ुदा हैं
फिर वो न जुदा हम से न हम उन से जुदा हैं
नारी को बहिश्ती के रज्ज़ पर हसद आया
यूँ चल के पि-ए-हमला वो मलऊन-ए-बद आया
गोया कि सुक़र से उम्र-ए-अबदूद आया
और लरज़े में मरहब भी मियान-ए-लहद आया
नफ़रीं की ख़ुदा ने उसे तहसीं की उम्र ने
मुजरा किया अब्बास को याँ फ़तह-ओ-ज़फ़र ने
शप्पीर को बढ़ बढ़ के नक़ीबों ने पुकारा
लौ टूटता है दस्त-ए-ज़बरदस्त तुम्हारा
है मरहब-ए-अब्दुलक़मर अब मअर्का-आरा
शप्पीर यकीं जानो कि अब्बास को मारा
ये गर्ग वो यूसुफ़ ये ख़िज़ाँ है वो चमन है
वो चाँद ये अक़रब है वो सूरज ये गहन है
इस शोर ने तड़पा दिया हज़रत के जिगर को
अकबर से कहा जाओ तो अम्मो की ख़बर को
अकबर बढ़े है और मुड़के पुकारे ये पिदर को
घेरा है कई नहस सितारों ने क़मर को
इक फ़ौज नई गर्द-ए-अलमदार है रन में
लौ माह-ए-बनी-हाश्मी आता है गहन में
इक गबर-ए-क़वी आया है खींचे हुए तलवार
कहता है कि इक हमला में है फैसला-ए-कार
सरकुश्तों के नेज़ों पे हैं गर्द इस के नमूदार
याँ दस्त-ए-बह-ए-क़ब्ज़ा मुतबस्सिम हैं अलमदार
अल्लाह करे ख़ैर कि है क़सद-ए-शर उस को
सब कहते हैं मरहब-ए-बिन-अब्दुलक़मर उस को
ग़ुल है कि दिल-आल-ए-अबा तोड़ेगा मरहब
अब बाज़ू-ए-शाह-ए-शोहदा तोड़ेगा मरहब
बंद-ए-कमर-ए-शेर ख़ुदा तोड़ेगा मरहब
गौहर को तह-ए-संग जफ़ा तोड़ेगा मरहब
मरहब का न कुछ उस की तवानाई का डर है
फ़िदवी को चचा-जान की तन्हाई का डर है
शह ने कहा क्या रूह-ए-अली आई न होगी
नाना ने मिरे क्या ये ख़बर पाई न होगी
क्या फ़ातिमा फ़िर्दोस में घबराई न होगी
सर नंगे वो तशरीफ़ यहाँ लाई न होगी
बंदों पे अयाँ ज़ोर-ए-ख़ुदा करते हैं अब्बास
प्यारे मिरे देखो तो कि क्या करते हैं अब्बास
सुन कर ये ख़बर बीबियाँ करने लगीं नाला
डेयुढ़ी पे कमर पकड़े गए सय्यद-वाला
चिल्लाए कि फ़िज़्ज़ा अली-असग़र को उठा ला
है वक़्त-ए-दुआ छूटता है गोद का पाला
सैय्यदानियो! सर खोल दो सज्जादा बिछा दो
दुश्मन पे अलमदार हो ग़ालिब ये दुआ दो
खे़मे में क़यामत हुई फ़र्याद-ए-बका से
सहमी हुई कहती थी सकीना ये ख़ुदा से
ग़ारत हुआ इलाही जो लड़े मेरे चचा से
वो जीते फिरें ख़ैर मैं मरजाऊँ बला से
सदक़े करूँ क़ुर्बान करूँ अहल-ए-जफ़ा को
दो लाख ने घेरा है मिरे एक चचा को
है है कहीं इस ज़ुलम-ओ-सितम का है ठिकाना
सुक़्क़े पे सुना है कहीं तलवार उठाना
कोई भी रवा रखता है सय्यद का सताना
जाएज़ है किसी प्यासे से पानी का छुपाना
हफ़तुम से ग़िज़ा खाई है ने पानी पिया है
बे रहमों ने किस दुख में हमें डलदाया है
अच्छी मिरी अम्माँ मरे सुक़्क़े को बुलाओ
कह दो कि सकीना हुई आख़िर इधर आओ
अब पानी नहीं चाहिए ताबूत मंगाओ
कांधे से रखो मुश्क जनाज़े को उठाओ
मिलने मिरी तुर्बत के गले आएंगे अब्बास
ये सुनते ही घबरा के चले आएंगे अब्बास
इस अर्सा में हमले किए मरहब ने वहाँ चार
पर एक भी इस पंचतनी पर ना चला वार
मानिंद-ए-दिल-ओ-चश्म हर इक अज़्व था होशियार
आरी हुई तलवार मुख़ालिफ़ हुआ नाचार
जब तेग़ को झुंजला के रुख़-ए-पाक पे खींचा
तलवार ने उंगली से अलिफ़ ख़ाक पे खींचा
ग़ाज़ी ने कहा बस इसी फ़न पर था तुझे नाज़
सीखा न यदा लिल्लाहियों से ज़रब का अंदाज़
फिर खींची इस अंदाज़ से तेग़-ए-शरर-ए-अंदाज़
जो मियान के भी मुँह से ज़रा निकली न आवाज़
याँ ख़ौफ़ से क़ालिब को किया मियान ने ख़ाली
वाँ क़ालिब-ए-अअदा को क्या जान ने ख़ाली
ये तेग़-सरापा जो बरहना नज़र आई
फिर जामा-ए-तन में न कोई रूह समाई
हस्ती ने कहा तौबा क़ज़ा बोली दहाई
इंसाफ़ पुकारा कि है क़ब्ज़ा में ख़ुदाई
लौ फ़तह-ए-मुजस्सम का वो सर जेब से निकला
नुसरत के फ़लक का मह-ए-नौ ग़ैब से निकला
बिजली गिरी बिजली पे अजल डर के अजल पर
इक ज़लज़ला तारी हुआ गर्दूं के महल पर
सय्यारे हटे कर के नज़र तेग़ के फल पर
ख़ुर्शीद था मर्रीख़ ये मर्रीख़ ज़ुहल पर
ये होल दिया तेग़-ए-दरख़शाँ की चमक ने
जो तारों के दाँतों से ज़मीं पकड़ी फ़लक ने
मरहब से मुख़ातब हुए अब्बास-ए-दिलावर
शमशीर के मानिंद सरापा हूँ मैं जौहर
मुम्किन है कि इक ज़र्ब में दो हो तो सरासर
पर इस में अयाँ होंगे ना जौहर मिरे तुझ पर
ले रोक मिरे वार तिरे पास सिपर है
ज़ख़्मी न करूँगा अभी इज़हार-ए-हुनर है
कांधे से सिपर ले के मुक़ाबल हुआ दुश्मन
बतलाने लगे तेग़ से ये ज़र्ब का हरफ़न
ये सीना ये बाज़ू ये कमर और ये गर्दन
ये ख़ुद ये चार आईना ये ढाल ये जौशन
किस वार को वो रोकता तलवार कहाँ थी
आँखों में तो फुर्ती थी निगाहों से निहाँ थी
मर्हब ने न फिर ढाल न तलवार सँभाली
उस हाथ से सर एक से दस्तार सँभाली
ज़ालिम ने सनाँ ग़ुस्से से इक बार सँभाली
उस शेर ने शमशीर-ए-शरर-ए-हार सँभाली
तानी जो सनाँ उस ने अलमदार के ऊपर
ये नेज़ा उड़ा ले गए तलवार के ऊपर
जो चाल चला वो हुआ गुमराह ओ परेशाँ
फिर ज़ाइचा खींचा जो कमाँ का सर-ए-मैदाँ
तीरों की लड़ाई पे पड़ा करअ-ए-पैकाँ
तीरों को क़लम करने लगी तेग़-ए-दरख़शाँ
जौहर से न तीरों ही के फल दाग़ बदल थे
गर शिस्त के थे साठ तो चिल्ला के चहल थे
उस तेग़ ने सरकश के जो तरकश में किया घर
ग़ुल था कि नीसताँ में गिरी बर्क़ चमक कर
पर तीरों के कट कट के उड़े मिसल-ए-कबूतर
मर्हब हुआ मुज़्तर सिफ़त-ए-ताइर-ए-बे-पर
बढ़ कर कहा ग़ाज़ी ने बता किस की ज़फ़र है
अब मर्ग है और तू है ये तेग़ और ये सर है
नामर्द ने पोशीदा किया रुख़ को सिपर से
और खींच लिया ख़ंजर-ए-हिन्दी को कमर से
ख़ंजर तो इधर से चला और तेग़ उधर से
उस वक़्त हवा चल न सकी बीच में डर से
अल्लाह-रे शमशीर-ए-अलमदार के जौहर
जौहर किए उस ख़ंजर-ए-ख़ूँख़ार के जौहर
ख़ंजर का जो काटा तो वो ठहरी न सिपर पर
ठहरी न सिपर पर तो वो सीधी गई सर पर
सीधी गई सर पर तो वो थी सद्र ओ कमर पर
थी सद्र ओ कमर पर तो वो थी क़ल्ब ओ जिगर पर
थी क़लब ओ जिगर पर तो वो थी दामन-ए-ज़ीं पर
थी दामन-ए-ज़ीं पर तो वो राकिब था ज़मीं पर
ईमाँ ने उछल कर कहा वो कुफ्र को मारा
क़ुदरत ने पुकारा कि ये है ज़ोर हमारा
हैदर से नबी बोले ये है फ़ख़्र तुम्हारा
हैदर ने कहा ये मिरी पुतली का है तारा
परवाना-ए-शम-ए-रुख़-ए-ताबाँ हुईं ज़ोहरा
मोहसिन को लिए गोद में क़ुरबाँ हुईं ज़ोहरा
हंगामा हुआ गर्म ये नारी जो हुआ सर्द
वां फ़ौज ने ली बाग बढ़ा याँ ये जवाँमर्द
टापों की सदा से सर-क़ारों में हुआ दर्द
रंग-ए-रुख़-ए-आदा की तरह उड़ने लगी गर्द
क़ारों का ज़र-ए-गंज-ए-निहानी निकल आया
ये ख़ाक उड़ी रन से कि पानी निकल आया
जो ज़िंदा थे अलअज़मतुल्लाह पुकारे
सर मर्दों के नेज़ों पे जो थे वाह पुकारे
डरकर उम्र-ए-सअद को गुमराह पुकारे
ख़ुश हो के अलमदार सू-ए-शाह पुकारे
याँ तो हुआ या हज़रत-ए-शप्पीर नारा
शप्पीर ने हंस कर किया तकबीर का नारा
पर्दे के क़रीब आ के बहन शह की पुकारी
दुश्मन पर हुई फ़तह मुबारक हो मै वारी
अब कहती हूँ मै देखती थी जंग ये सारी
अब्बास की इक ज़र्ब में ठंडा हुआ नारी
मर्हब को तो ख़ैबर में यदुल्लाह ने मारा
हम नाम को इब्न-ए-असदुल्लाह ने मारा
मैदाँ मे अलमदार के जाने के मै सदक़े
उस फ़ाक़े में तलवार लगाने के मैं सदक़े
बाहम इल्म ओ मुश्क उठाने के मै सदक़े
उस प्यास मे इक बूँद न पाने के मै सदक़े
सुक़्क़ा बना प्यासों का मुरव्वत के तसद्दुक़
बे सर किया शह-ज़ोरों को क़ूत के तसद्दुक़
तुम दोनों का हर वक़्त निगहबान ख़ुदा हो
देखे जो बुरी आँख से ग़ारत हो फ़ना हो
दोनों की बला ले के ये माँ-जाई फ़िदा हो
रो कर कहा हज़रत ने बहन देखिए क्या हो
मुंह चाँद सा मुझ को जो दिखाएँ तो मैं जानूँ
दरिया से सलामत जो फिर आएँ तो मैं जानूँ
ज़ैनब से ब-हसरत ये बयाँ करते थे मौला
नागाह सकीना ने सुना फ़तह का मिज़दाँ
चिल्लाई मैं सदक़े तिरे अच्छी मिरी फ़िज़्ज़ा
जा जल्द बलाएँ तू मेरे अमूद की तू ले आ
देख प्यास का कह कर उन्हें मदहोश न करना
पर याद दिलाना कि फ़रामोश न करना
लेने को बलाएँ गई फ़िज़्ज़ा सू-ए-जंगाह
अब्बास ने आते हुए देखा उसे नागाह
चिल्लाए कि फिर जा मैं हवा आने से आगाह
कह देना सकीना से हमें याद है वल्लाह
दि प्यास से बी-बी का हुआ जाता है पानी
ले कर तिरे बाबा का ग़ुलाम आता है पानी
दरिया को चले अब्र-ए-सिफ़त साथ लिए बर्क़
मर्हब के शरीकों का जुदा करते हुए फ़र्क़
सरदार में और फ़ौज में बाक़ी न रहा फ़र्क़
मर्हब की तरह सब छह हब हब में हुए ग़र्क़
तलवार की इक मौज ने तूफ़ान उठाया
तूफ़ान ने सर पर वो बयान उठाया
पानी हुई हर मौज-ए-ज़र्रह-फ़ौज के तन में
मलबूस में ज़िंदे थे कि मुर्दे थे कफ़न में
खंजर की ज़बानों को क़लम कर के दहन में
इक तेग़ से तलवारों को आरी कया रन में
हैदर का असद क़लज़ुम-ए-लश्कर में दर आया
उमड़े हुए बादल की तरह नहर आया
दरिया के निगहबान बढ़े होने को चौ-रंग
पहने हुए मछली की तरह बर में ज़र्रह तंग
खींचे हुए मौजों की तरह खंजर बे-रंग
सुक़्क़े ने कहा पानी पे जाएज़ है कहाँ जंग
दरिया के निगहबान हो पर ग़फ़लत-ए-दीँ है
मानिंद-ए-हुबाब आँख में बीनाई नहीं है
मज़हब है क्या कि रह-ए-शरा न जानी
मशरब है ये कैसा कि पिलाते नहीं पानी
बे शीर का बचपन अली-अकबर की जवानी
बरबाद किए देती है अब तिशना-दहानी
लब ख़ुश्क हैं बच्चों की ज़बाँ प्यास से शक़ है
दरिया ही से पूछ लो किस प्यासे का हक़ है
पानी मुझे इक मुश्क है उस नहर से दर कार
भर लेने दो मुझ को न करो हुज्जत-ओ-तकरार
चिल्लाए सितम-गर है गुज़र नहर पे दुशवार
ग़ाज़ी ने कहा हाँ पे इरादा है तो होशियार
लौसेल को और बर्क़-ए-शरर-बार को रोको
रहवार कोरोको मिरी तलवार को रोको
ये कह के किया अस्प-ए-सुबुक-ए-ताज़ को महमेज़
बिजली की तरह कूंद के चमका फ़र्स-ए-तेज़
अशरार के सर पर हुआ नअलों से शरर-ए-रेज़
सैलाब-ए-फ़ना था कि वो तूफ़ान-ए-बला-ख़ेज़
झपकी पलक उस रख़्श को जब क़हर में देखा
फिर आँख खुली जब तो रवाँ नहर में देखा
दरिया में हुआ ग़ुल कि वो दर-ए-नजफ़ आया
इलियास ओ ख़िज़्र बोले हमारा शरफ़ आया
अब्बास शहनशाह-ए-नजफ़ का ख़लफ आया
पा-बोस को मोती लिए दस्त-ए-सदफ़ आया
याद आ गई प्यासों की जो हैदर के ख़लफ़ को
दिल ख़ून हुआ देख कर दरिया के ख़लफ़ को
सूखे हुए मुशकीज़ा का फिर खोला दहाना
भरने लगा ख़म हो के वो सर ताज-ए-ज़माना
अअदा ने किया दूर से तीरों का निशाना
और चूम लिया रूह-ए-यदुल्लाह ने शाना
फ़रमाया की क्या क्या मुझे ख़ुश करते हो बेटा
पानी मिरी पोती के लिए भरते हो बेटा
कुछ तिरी कोशिश ओ हिम्मत में नहीं है
पानी मगर उस प्यासी की क़िस्मत में नहीं है
वक़्फ़ा मिरे प्यारे की शहादत में नहीं है
जो ज़ख़्म में लज़्ज़त है वो जराहत में नहीं है
इक ख़ून की नहर आँखों से ज़ोहरा के बही है
रोने को तिरी लाश पे सर खोल रही है
दरिया से जो निकला असदुल्लाह का जानी
था शोर कि वो शेर लिए जाता है पानी
फिर राह में हाएल हुए सब ज़ुल्म के पानी
सुक़्क़ा-ए-सकीना की ये की मर्तबा-दानी
क़ब्रें नबी ओ हैदर ओ ज़ुबेरा की हिला दीं
बरछों की जो नोंकें थीं कलेजे से मिला दीं
वो कौन सा तीर जो दिल पे न लगाया
मुशकीज़े के पानी से सवा खून बहाया
ये नर्ग़ा था जो शमर ने हीले से सुनाया
अब्बास बचो ग़ौल-ए-कमीं-गाह से आया
मुड़ कर जो नज़र की ख़लफ़-ए-शीर-ए-ख़दा ने
शानो को तहे तेग़ किया अहल-ए-जफ़ा ने
लिखा है कि एक नख़्ल-ए-रत्ब था सर-ए-मैदाँ
इब्न-ए-वर्क़ा ज़ैद-ए-लईं इस में था पिनहाँ
पहुंचा जो वहाँ सर्व-ए-रवान-ए-शह-ए-मुर्दां
जो शाना था मुश्क ओ अलम ओ तेग़ के शायाँ
वारिस पे किया ज़ैद ने शमशीर-ए-अजल से
ये फूली-फली शाख़ कटी ते
- मिर्ज़ा-सलामत-अली-दबीर
1
تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی
رگوں میں خون بدن میں نکھار ہے پانی
گلوں میں حسن چمن میں بہار ہے پانی
نمو کی بزم میں پروردگار ہے پانی
نگاہ خلق سے غائب جو ہے فضاؤں میں
امام غیب کا بھرتا ہے دم ہواؤں میں
2
بفطرت ازلی بے غبار ہے پانی
جمال قدس کا آئینہ دار ہے پانی
فضا میں خالق ابر بہار ہے پانی
زمیں پہ رحمت پروردگار ہے پانی
یہ آب و رنگ یہ سب رنگ وبو ہے پانی سے
عروس خاک! تری آبرو ہے پانی سے
3
کہیں یہ اشک کا گوہر کہیں درشبنم
کہیں خوشی کا ہے آنسو کہیں ہے گریہ غم
خوشا لطافت آب و خوشا طہارت یم
بہشت میں ہے یہ تسنیم خاک پرزمزم
یہ پاک ساقی کوثر کے انتساب سے ہے
کہ جیسے خاک کی تطہیر بوتراب سے ہے
4
نہ کیوں ہو چار عناصر میں آب کو تفضیل
بقول حق ہے اسی سے حیات کی تشکیل
جو مس ہو تن سے نجاست کثیر ہو کہ قلیل
تو پاک کرنے کو یہ سلسبیل کی ہے سبیل
عجیب جوہر تطہیر اس کی ذات میں ہے
کہ سب سے پہلے یہ شرعاً مطہرات میں ہے
5
یہ چار حرف کی ترکیب کس قدر ہے عظیم
کبھی زمین کبھی آسمان اس کا ندیم
کبھی ہے کوہ کی آغوش میں بصد تکریم
کبھی فضا میں معلق بدوش موج نسیم
سبیل عام کبھی راہ باٹ کا پانی
پیا ہے اس نے غرض گھاٹ گھاٹ کا پانی
6
عجیب چیز زبان لعنت میں پانی ہے
کہ جس کے ذکر میں آمد ہے اور روانی ہے
قلم بھی وقت رقم محو در فشانی ہے
یہ ایک لفظ اور اک قلزم معانی ہے
چڑھے جو بام فلک پر سحاب ہوجائے
جو کھینچ لیں تو عرق ہو شراب ہوجائے
7
اگر یہ پھل کی صفت ہو تو سمجھو پھیکا ہے
جو ذکر شیر میں آئے رقیق ہوتا ہے
جو وصف آہن و فولاد ہو تو ٹھنڈا ہے
ہوں اصل و نسل کے معنی تو استعارا ہے
یہ روز مرہ ہے مشہور مرزبانی کا
کہ جانور ہے بہت اچھے کھیت پانی کا
8
کسی کسان سے معنی جو پوچھے اس نے کہا
کہ میرا کھیت ہے محتاج ایک پانی کا
کبھی کسی کو اگر آگیا کہیں غصہ
طمانچہ کھاکے وہ پانی ہوا تو نرم پڑا
جو یاد ہو کبھی پانی کی اہل جوہر میں
چمک ہے تیغ میں یہ اور دمک ہے گوہر میں
9
ہوئی جو کام میں مشکل کے بعد آسانی
وہاں بھی اس کے سہارے چلی زباں دانی
کہیں یہ جیسے کہ پیاسوں نے دل میں جب ٹھانی
تو جو بھی آئیں کڑی منزلیں ہوئیں پانی
کبھی ہے حوصلہ وعزم کے معانی میں
کہ جیسے مد مقابل ہے کتنے پانی میں
10
تری کا ہے مترادف جو آبلے سے بہا
اسی کو کہتے ہیں آنسو جب آنکھ میں امڈا
یہ موتیا ہے اگر مردمک تک آپہنچا
کبھی اسی کے ہیں معنی خجل بفرط حیا
شمیم خاک شفا جیسے وہ سہانی ہے
کہ جس کے سامنے کوثر کی نہر پانی ہے
11
بہت وسیع ہے پانی کا دامن سیال
یہ سب کثیر معانی ہیں اس کے فیض پہ دال
محاورات میں ان کے سوا ہے استعمال
جو بوند بوند نہیں لاکھ ہیں پکھال پکھال
کہیں جو ماہی فکر ان کی تہ میں کھوجائے
تو بحر شعر و سخن آب آب ہوجائے
12
بیان آب کا ابلا جو قلزم زخار
برس پڑا ہے تخیل کا ابر دریا بار
زمین شعر کا یوں دھوگیا ہے گردوغبار
ورق ورق میں ہے طوبی کی پتیوں کا نکھار
جو اس بہانے سے کوثر کی راہ کھل جائے
یقین ہے مری فرد حساب دھل جائے
13
شکوہ دجلہ و فر فرات ہے پانی
گلوں کی جان ہے شبنم کی ذات ہے پانی
مری زبان میں شہد و نبات ہے پانی
مذاق خضرؑ میں آب حیات ہے پانی
یہ روح قافلہ ہے تشنگی کے خطروں میں
حیات بستی ہے اس کے لطیف قطروں میں
14
عجیب سادہ مزاجی عجیب فطرت ہے
نہ ذائقہ ہے کچھ اس میں نہ بونہ رنگت ہے
مگر کسی پہ اگر تشنگی کی شدت ہے
پھر اس سے پوچھئے پانی میں کیا حلاوت ہے
نہ ترش و تلخ نہ شیریں ہے یہ نہ سیٹھا ہے
مگر مزہ تو یہ ہے جان سے بھی میٹھا ہے
15
سبک مفرح دل جاں فروز روح نواز
لطیف و خوش مزہ و خوش گوار و نرم و گداز
کبھی یہ خاک نشیں اور کبھی فلک پرواز
قدم قدم پہ ہے دیکھے ہوئے نشیب و فراز
زمیں سے اٹھ کے جو گردوں کی راہ لیتا ہے
یہ ارتقا کا زمانے کو درس دیتا ہے
16
یہ کائنات حقیقت میں ہے دخان و شرر
اسی دخان و شرر سے بنے ہیں شمس و قمر
زمیں بھی پارۂ آتش تھی ابتدا میں مگر
یہ آگ راکھ بنی مدتوں میں بجھ بجھ کر
تلا بہ امر مشیت جو لاگ پر پانی
سحاب فضل نے چھڑکا اس آگ پر پانی
17
ہزاروں سال فضا میں رہا محیط سحاب
جھما جھمی سے ہوئیں بارشیں، زمیں سیراب
بجائے شعلۂ بیتاب اب تھے وہ گرداب
نگل کے آگ، اگلتے تھے جو درنایاب
بفیض آب نوید گل و گلاب آئی
زمین خاک تھی، پانی سے آب و تاب آئی
18
نمود حسن جگر دوز و دل نشیں، پانی
وجود نیشکر و شہد و انگبیں، پانی
جہاں میں نسخہ ایجاد ماء وطیں، پانی
ہے آفرینش انساں، صد آفریں، پانی
نمو میں ہے حرکت آب کی روانی سے
اگا ہے خلق میں نخل حیات پانی سے
19
ہے جزو جامۂ خلقت جو آستیں کی طرح
لیے ہے گود میں خلقت کو یہ زمیں کی طرح
زمیں جو گول ہے انگشتر حسیں کی طرح
چمک رہا ہے انگوٹھی میں یہ نگیں کی طرح
جہان خاک میں پانی کا یہ قرینہ ہے
کہ خاک دان حقیقت میں آبگینہ ہے
20
کبھی مسیح کے نسخے میں موج رحمت حق
کبھی مریض کی آنکھوں میں وجہ سد رمق
کبھی افق کی تراوٹ کبھی ہے رنگ شفق
کبھی شراب، کبھی شیخ کی جبیں کا عرق
کبھی الست کے مستوں کی روح مینا ہے
کبھی علی کا مہکتا ہوا پسینا ہے
21
بزیر خاک ہے سرچشمہ نمو پانی
بروئے شاخ ہے، شوخی رنگ و بو، پانی
سموم تند میں دہقاں کی آرزو، پانی
بھری بہار میں پھولوں سے سرخرو، پانی
شفق کے رنگ سے تازہ یہ گل کھلاتا ہے
کہ آسماں کو حنائی زمیں بناتا ہے
22
جو بن گیا درشہوار یہ تو زینت تاج
کسی کی پیاس بجھادی دیا عطا کو رواج
مگر تضاد پسندی بھی ہے شریک مزاج
یہ معتدل حرکت یہ تلاطم امواج
ابل ابل کے اگر یہ کبھی بپھرتا ہے
زبان موج سے باتیں فلک سے کرتا ہے
23
چمن میں ہے تو یہ گل بن میں ہے تو خار بلا
زمین پر ہے تو دریا فضا میں ہے تو گھٹا
صدف کے بطن میں موتی، کنار جو ذرا
گلے میں ہے تو حیات اور گلے گلے تو فضا
لپک ہے آگ کی، سیلاب کی روانی ہے
اگر گرے تو ہے بجلی، پھرے تو پانی ہے
24
دوا میں ہے تو یہ حنظل، غذا میں ہے تو عسل
جو باغ میں ہے تو لالہ، جو رود میں تو کنول
جو کاہ میں ہے تو دلکش، جو راہ میں تو خلل
جو نہر میں ہے تو شربت، جو زہر میں تو اجل
کبھی ہے برف، کبھی کشتئ دخانی ہے
عجب جمود کا عالم، عجب روانی ہے
25
ذوی العقول میں شامل نہیں یہ نیک نہاد
مگر تمیز بدونیک کی ہیں راہیں یاد
بہاؤ ایک ہے، وقت ایک اور اثر متضاد
برائے خیر ہے رحمت، برائے شرجلاد
جو حق ہے پار تو باطل ہے غرق یا کہ نہیں
جناب نوح! کہو، ہے یہ فرق یا کہ نہیں
26
سمائے سب کی رگ و پے میں اور جدا بھی رہے
فرازسر بھی چڑھے، اور زیر پا بھی رہے
رفیق شاہ بنے، مونس گدا بھی رہے
بہا بہا بھی پھرے، اور بے بہا بھی رہے
زمیں پہ اس کا ہے گھر، چوٹیوں پہ بستا ہے
عجیب بات کہ انمول اور سستا ہے
27
کھلی فضا میں یہ راتیں گزارنے والا
خمار سر خوشی و بے خودی کا متوالا
جو انجماد کے نقطے پر آئے تو ژالا
جو پھیل جائے تو کہرے کی گود کا پالا
بڑھے جو حد سے نہ اپنی، تو بارہ ماسا ہے
جو سر اٹھائے تو پانی کا یہ بتاسا ہے
28
کوئی ہوں، کیسے بھی ہوں، بے شعور، اہل شعور
غنی، غریب، قوی، ناتواں، شکور، کفور
لہو غریبوں کا پی پی کے فربہ و مغرور
تباہ کردہ ٔرسم معاشرہ، مزدور
یہ سب جہاں ہیں مساوی وہ موڑ ہے پانی
ربوبیت کے عمل کا نچوڑ ہے پانی
29
نقیب اردی و مشاطہ ربیع و خریف
جمیل، صاف، مصفا، حسیں، لطیف، نظیف
صدف میں گوہر یکتا، خزف میں آب کثیف
طبیعت اس کی ملایم، مزاج اس کا شریف
جو شکل پوچھیے کیسی ہے جسم کیسا ہے
تو ہر جگہ پہ یہ ویسا ہے ظرف جیسا ہے
30
اچھل رہا ہے کہیں اور چھلک رہا ہے کہیں
ابل رہا ہے کہیں، اور بھٹک رہا ہے کہیں
چمک رہا ہے کہیں اور جھلک رہا ہے کہیں
ہے سربلند کہیں، سر پٹک رہا ہے کہیں
نہیں پسند رعونت اسے زمانے کی
تلاش کرتا ہے راہیں زمیں پہ آنے
31
صفت ہے جس کی تواضع، یہ ہے وہ پاک گہر
کریں بلند تو پھر جھک کے رکھ دے خاک پہ سر
یہ عاجزی ہے مگر رعب اس سے بھی بڑھ کر
کہ ناچتے ہیں بھنور رات دن اشاروں پر
بہ انکسار ملے چاہے سب زمانے سے
مگر یہ دب نہیں سکتا کبھی دبانے سے
32
یہ رحمت ابدی ہے نہ ہو جو طغیانی
اسی کی بوند میں رقصاں ہے کشف بارانی
گھٹا میں دیکھیے قطروں کی اس کے جولانی
خم شراب پہ جس سے پڑے گھڑوں پانی
یہ کیاریوں میں چمک کر گہر سے جڑتا ہے
بلائے قحط سے یہ بیچ کھیت لڑتا ہے
33
گیاہ خشک میں روح نمو، نمی اس کی
دعا و ذکر کی دعوت ہے، برہمی اس کی
نماز خاص کی تحریک ہے، کمی اس کی
ثنا کرے بلب حمد، آدمی اس کی
لیے ہوئے ہے جو سینے میں برق سینا کو
پڑھائے جاتا ہے دو قل کا ورد مینا کو
34
حلاوت مئے کوثر ہے اس کی شیرینی
ہے اس سے گردگلوں میں جو ہے مہک بھینی
دھنک حسیں ہے پر اک عیب بھی آئینی
کجی ہے اس میں اور اس میں کمال رنگینی
جہاں سحاب سا سقائے فیض جاری ہے
اسی کے تحت وہ تنظیم آبداری ہے
35
رواں دواں ہے یہی بطن خاک میں پیہم
یہی ہے لذت انگور و کیف ساغر جم
عطیہ ہائے خدا میں ہے یہ خدا کی قسم
عطا کی آن، سخا کا حشم، کرم کا بھرم
یہ فیض دیکھے تو سونا ورق ورق ہوجائے
یہ جود سن لے تو دریا عرق عرق ہوجائے
36
نہ پوچھیے کہ رسا ہے کہاں کہاں پانی
کہیں نہاں ہے نظر سے کہیں عیاں پانی
جہاں جہاں یہ جہاں ہے، وہاں وہاں پانی
وہاں حیات معطل، نہیں جہاں پانی
فضا و کوہ میں حاضر ہے فرش پر موجود
نبیؐ کے ہاتھ دھلانے کو عرش پر موجود
37
گلوں کی پنکھڑیوں میں اسی سے رس قائم
نمو کی لہر ہے جس میں رواں وہ نس قائم
اسی کی وجہ سے برگ و ثمر کا جس قائم
اسی کے دم سے ہیں سانسیں نفس نفس قائم
وہ ہیں اسی سے فضاؤں میں جو ہوائیں ہیں
ہر ایک بوند کی مٹھی میں دو ہوائیں ہیں
38
یہ دو ہوائیں تشخص میں دو ہیں اور پھر ایک
مظاہرے ہیں الگ مرکز مظاہر ایک
یہ برق و باد کے ہیں مختلف مناظر ایک
جدا جدا ہے اثر، فاعل ومؤثر ایک
دوئی ہے صاف عیاں اور ظہور واحد ہیں
یونہی علیؑ و پیمبرؐ بھی نور واحد ہیں
39
یہ قلب میں ہے سکوں، جسم میں ہے نشوونما
جگر میں تاب وتواں پتلیوں میں نوروضیا
بصر فروز و بصیرت فزود و جاں افزا
بہشت پرور وطوبیٰ نواز و کوثر زا
یہ اس شراب میں شامل ولا کے ہاتھ سے ہے
جو مومنین کی قسمت خدا کے ہاتھ سے ہے
40
کبھی عمارت گردوں جناب ہے پانی
کبھی خرابی ٔدارالخراب ہے پانی
کبھی ہے برق کبھی آب و تاب ہے پانی
جو اعتدال نہ ہو اک عذاب ہے پانی
کسی کی آنکھ کا پانی ذرا جو ڈھل جائے
نظام عصمت و اخلاق ہی بدل جائے
41
نبیؐ کے سر پہ جو رہتا تھا ابر کا سایا
نظر کو آپ کا سایہ کہاں نظر آیا
یہ معجزہ جو کرامت خدا نے فرمایا
تو اس کو حجت پیغمبری بھی ٹھہرایا
نگاہ خلق میں یہ ابر ہے، جو پانی ہے
مری نظر میں نبوت کی یہ نشانی ہے
42
کبھی جو رحمت باری کی شان دکھلائے
زمیں پہ خلد سے نزہت کو کھینچ کر لائے
جو کف اگل کے تلاطم بکف کبھی آئے
عرق میں نوحؑ کا طوفان غرق ہوجائے
خدا کا فضل ہے، قہر قدیر ہے پانی
مطیع شاہ بشیر و نذیر ہے پانی
43
جو موج میں ہے تو گویا چنا ہوا جامہ
حباب میں ہے تو آب رواں کا عمامہ
قلم میں ہے تو نوید نگارش نامہ
دوات میں ہے تو سجدہ گزار ہر خامہ
رکا رہے تو مزاج خسیس ہے پانی
رواں ہو جب تو زبان انیس ہے پانی
44
یہ آج جو ہے قوام حیات میں شامل
رگوں میں خون میں تخمیر ذات میں شامل
ازل سے آب وگل کائنات میں شامل
عمل کی راہ سے ہے معجزات میں شامل
یہ جسم در ہے جو اجرام آسمانی پر
قوی ہے کوہ سے بھی اور بنا ہے پانی پر
45
اگرچہ نرم مزاجی ہے اس کی سب پہ عیاں
مگر ہے سخت بھی اتنا پہاڑ پر ہے گراں
ابل ابل کے کبھی ہو جو یہ رواں ودواں
ہوا ہو گرد تو آندھی کے ہوش ہوں پراں
جو کوہ سامنے ہوں تیوریوں پہ بل ڈالے
تو دست موج کی چٹکی سے یہ مسل ڈالے
46
فضا میں تھی جو ہوا روز و شب پراگندا
گراں تھا آب پہ یہ صبح و شام کا دھندا
گلے میں باد بہاری کے ڈال کے پھندا
بنا لیا اسے آزادہ گام سے بندا
عصائے حضرت موسیٰ جو یاد آتا ہے
ہر ایک چوب کو اب تک یہ سر چڑھاتا ہے
47
جو آکے غیر کوئی اس کی بزم میں ہو دخیل
ابل پڑے یہ بغیظ و غضب بصورت نیل
تھپیڑے مار کے کردے ڈبوڈبو کے ذلیل
سوائے شاخ شجر وہ خفیف ہو کہ ثقیل
عصائے حضرت موسی جو یاد آتا ہے
ہر ایک چوب کو اب تک یہ سر چڑھاتا ہے
48
گلاب نسترن، ویاسمین، مولسری
گل انار، مدن بان، رات کی رانی
سدا بہار، گل آفتاب، داؤدی
گڑھل، کنول، گل عباس، جعفری، خیری
چمن چمن جو یہ کھل کھل کے رنگ لائے ہیں
یہ رنگ رنگ کے پانی نے گل کھلائے ہیں
49
کمان، تیر، سروہی، سنان، بھال، خدنگ
چھری، کٹار، فلاخن، عصا، طمنچہ، سنگ
کمند، گرز، شکنجہ، بنوٹ، بانک، تفنگ
حسام شعلہ مزاج، آبدار، صاعقہ رنگ
برس پڑیں تو نہ ٹوٹے گی دھار پانی کی
سپر ہے رحمت پروردگار پانی کی
50
خلیج، نہر، ندی، جوئبار، جھیل، کنواں
غرض جہاں یہ مکیں ہو، جہاں ہو اس کا مکاں
اٹھاکے ٹھوس قدم جب بھی کوئی آئے وہاں
یہ اس کو دل میں بٹھائے نہ طبع پر ہو گراں
ملے جو ظرف کا ہلکا اچھال دے اس کو
بہا بہا کے کنارے پہ ڈال دے اس کو
51
جو پھینک دے کوئی اس کو بذلت و خواری
وہ غم میں ہو، تو کرے پھر یہ اس کی غمخواری
ہر ایک کافر و مسلم سے ہے رواداری
نبیؐ و آل نبیؐ کا یہ فیض ہے جاری
جناب فاطمہؑ زہرا کا مہر ہے پانی
جو ان سے بغض رکھے اس کو زہر ہے پانی
52
جو ریگ گرم میں دم بھر نہ یہ کسی کو ملے
تڑپ کے قافلۂ تشنہ کام دم توڑے
جو کاروان مدینہ کی چھاگلوں میں رہے
عطش میں حر کے رسالے کو زندگی بخشے
فرات میں ہے تو ارماں کسی حزینہ کا
چچا کی مشک میں ہے آسرا سکینہ کا
53
جو گھر میں ہو تو گھرانے کا ہے یہ مونس جاں
کنویں میں ہو تو کل اطراف میں ہے فیض رساں
جو چشمہ سار سے پھوٹے، جونہر میں ہو رواں
تو فیضیاب سب انسان و جانور یکساں
ادھر سے شدت گرما میں جو گزرتے ہیں
تو قافلے سرساحل قیام کرتے ہیں
54
تمام حاکم و محکوم و منعم ونادار
تمام کافر و دیندار و زاہد و بدکار
و حوش و طیر و بزوگرگ و مرکب و اسوار
ہیں بے مزاحمت اس وقف عام سے سرشار
روا ہر اک کے لیے بے گزند ہے پانی
مگر حسینؑ کے بچوں پہ بند ہے پانی
55
یہ تین روز کے پیاسے کھڑے ہیں ڈیہوڑی پر
شباب پر ہے تمازت سموم کا ہے گزر
بھبک رہی ہیں فضاؤں، برس رہے ہیں شرر
فرات سامنے ہے، پی رہا ہے سب لشکر
قیامت اور یہ بچوں پہ ڈھارہے ہیں شقی
دکھا کے پیاس میں پانی بہارہے ہیں شقی
56
وہ مسلم جگر افگار کے یتیم پسر
وہ بنت فاطمہؐ کے لال عون اور جعفر
وہ جان شبر مسموم قاسم مضطر
وہ آسرا شہ مظلوم کا علی اکبرؑ
یہ سب پیمبرؑ اسلام کے نواسے ہیں
جو کلمہ گویوں کی بستی میں آج پیاسے ہیں
57
حبیب و مسلم و ضرغامہ و بریر و ہلال
زہیر قین جگر دار و وہب نیک خصال
جناب جون جری، دشت کربلا کے ہلال
یہ سب تھے تین شب و روز کی عطش سے نڈھال
لیے تھے سینوں میں لیکن یہ آرزو پیاسے
عدوئے آل کا پی جائیں گے لہو پیاسے
58
خیام پاک میں ذریت نبیؐ بے آب
کہ جن میں زینبؑ و کلثومؑ دلفگار ورباب
پھر ان کی گود میں اطفال مضطر و بیتاب
سکینہ پیاس سے غش میں پڑی ہیں سینہ کباب
جو چونکتی ہیں نکلتا ہے منہ سے یا عباسؑ
کہیں سے پانی منگا دیجیے چچا عباسؑ
59
ہے ایک خیمہ عصمت میں بیکس و مظلوم
وہ ایک جوان جو بیمار و مضطر و مغموم
ولی و زاہد و سجاد و عابد و معصوم
مریض تب سے جلے اور ہو آب سے محروم
وفور کرب میں غش سے جو آنکھ کھلتی ہے
زبان خشک کے کانٹوں میں پیاس تلتی ہے
60
پڑا تھا جھولے میں اک شیر خوار جان علیؑ
یہ چھ مہینے کی جان اور بلائے تشنہ لبی
لگی تھی پیاس سے ہچکی، ڈھلا تھا منکا بھی
یہ ضعف تھا کہ نہ کھلتی تھی آنکھ اصغر کی
بلکنا چاہتے تھے اور بلک نہ سکتے تھے
حسینؑ یاس سے بچے کے منہ کو تکتے تھے
61
جو پوچھیے کہ یہ معصوم کب سے تھے بے آب
تو خیمے میں شب ہشتم بھی آب تھا نایاب
بریر لائے تھے مشکیزہ بھر کے جب تو شتاب
نہ جانے کب سے تھے بچے عطش سے سینہ کباب
سب آکے ٹوٹ پڑے جب نظر پڑا پانی
کشاکشی میں کھلی مشک، بہ گیا پانی
62
تڑپ کے رہ گئے اطفال سید کونین
کیا وہ نوحہ و ماتم کہ سن کے روئے حسینؑ
وہ مشک بیچ میں، بچے وہ گرد، لب پہ وہ بین
کسی کی لاش پہ ہوتا ہے جیسے شیون و شین
نمی سے آتش دل میں کمی جو ہوتی تھی
سکینہ مشک پہ رخسار رکھ کے روتی تھی
63
وہ شب گزرنے پہ آئی جو آٹھویں کی سحر
ہوئے تھے سوکھ کے کانٹا وہ لب جو تھے گل تر
عجب ہے پیاس سے تھی جن کی جان ہونٹوں پر
وہ تین روز جیے اور تشنہ لب کیوں کر
یہ کیا تھا جس نے انہیں اس قدر دلیر کیا
کہ تشنگی سے لڑے، فطرتوں کو زیر کیا
64
عطش سے گرچہ تھے برہم، مزاج شکر پسند
یقین جام شہادت سے تھے مگر خورسند
رضائے حق پہ تھ ے شاکر، وہ صبر کے پابند
مگر خیام میں فریاد العطش تھی بلند
یہ تازیانہ ٔگریہ، سوال آب نہ تھا
جھنجھوڑتے تھے شقاوت کو اضطراب نہ تھا
65
دہم کی صبح کو یہ تشنگی کا عالم تھا
زباں تھی اینٹھی ہوئی، خشک، خار دار گلا
جو بات کرتے تھے لگتا تھا منہ میں نشترسا
رجز کا وقت جو آیا بہا دیے دریا
بڑھے جو سیل کی صورت اٹھا کے سینوں کو
ڈبو دیا عرق شرم میں لعینوں کو
66
اٹھا اٹھا کے حساموں کی آب سے طوفاں
پہنچ پہنچ گئے ساحل کے پاس شیر زیاں
وہیں تو نہر تھی جاری یہ لڑرہے تھے جہاں
نظر اٹھا کے بھی دیکھا نہ سوئے آب رواں
بڑھا دیا تھا بہت ضبط نے وقار ان کا
بتولؑ کو لب کوثر تھا انتظار ان کا
67
پھر اس کے بعد یہ منظر بھی فوج نے دیکھا
کہ اک جری درخیمہ سے سوئے نہر چلا
علم تھا دوش مبارک پہ ہاتھ میں نیزا
لیے تھا مشک بھی، جیسے کسی کا ہے سقا
مزاحمت سے نبٹتا ہوا لڑائی میں
سفیر تشنہ لباں تھا، رکا ترائی میں
68
پسینہ پونچھ کے انگڑائی لی جو ضیغم نے
جو رہ گئے تھے وہ پہرے بھی نہر سے بھاگے
اتر کے زین سے پہنے جری نے دستانے
کہ مشک بھرنے میں پانی نہ مس ہو ہاتھوں سے
وفا کا پاس جو کروٹ نہ اس گھڑی لیتا
فرات قبضے میں تھی چاہتا تو پی لیتا
69
جری نے مشک بھری اور تشنہ کام پھرا
پلٹ کے فوج نے نرغہ کیا بہ مکرودغا
ہوئے وہ ہاتھ قلم، مشک پر بھی تیرلگا
علم کے ساتھ، یہ پانی گرا، وہ شیرگرا
ہوا نثار علم پر شہ مدینہ کے
لہو سبیل بنا، نام پر سکینہ کے
70
اب اک جوان تھا پیاسا، جو بہر جنگ چلا
بھگا کے فوج جو اظہار تشنگی کا کیا
زباں چسانے کو اپنی بڑھے امام ہدا
ملا دہن سے دہن، منہ پسر نے پیٹ لیا
کہا کہ ہائے یہ کلفت یہ امتحان حسینؑ
ہے چوب خشک سے بھی خشک تر زبان حسینؑ
71
یہ کہہ کے رن میں دوبارہ گئے، جہاد کیا
سناں جو کھائی تو صغرا بہن کو یاد کیا
مرادوں والے نے اماں کو نامراد کیا
پدر سے عرض یہ روکر بہ اعتماد کیا
نہ شکل دیکھے گا ناچیز جام کوثر کی
حضور پیاس نہ جب تک بجھے گی اصغرؑ کی
72
یہ کہتے کہتے پسینے جو موت کے آئے
پسر نے توڑ کے دم باپ پر ستم ڈھائے
جنازہ لے کے چلے شاہ بال بکھرائے
جواں کو لے کے گئے، شیر خوار کو لائے
خدا کی راہ میں ایثار کی جوٹھانی ہے
وہ لاش اٹھا چکے یہ لاش اب اٹھانی ہے
73
سپاہ شام کو صورت دکھا کے بچے کی
کہا کہ وہ بھی سنیں جو کہ ہوں شقی سے شقی
یہ چھ مہینے کا گل رو، یہ جان ننھی سی
ہمارے ساتھ ہے پامال جور تشنہ لبی
یزیدیو! یہ گل تر بہت نراسا ہے
قصور کچھ نہیں اور تین دن کا پیاسا ہے
74
یہ سن کے سب نے جو دیکھا نظر اٹھا کے ادھر
شقی بھی رو دیے دل تھام تھام کر اکثر
کمان اتنے میں کڑکی، بپا ہوا محشر
گلے پہ تیر لگا، مسکرا دیے اصغرؑ
حسینؑ بولے، میں اس ضبط کے فدا بیٹا
تمہاری پیاس بجھی، حلق ترہوا بیٹا؟
75
قبا پہ خون جو ٹپکا ہوئی یہ حیرانی
کہاں سے دھوئیں اسے پینے کو نہیں پانی
اور اس میں سب سے زیادہ تھی یہ پریشانی
کسے مدد کو پکارے بتولؐ کا جانی
نہ لشکرے، نہ سپا ہے، نہ کثرت النا سے
نہ قاسمے، نہ علی اکبرے، نہ عباسے
76
کوئی رفیق نہ ہمدم نہ مونس و یاور
فقط صغیر کا لاشہ تھا اور داغ جگر
علیؑ کی تیغ سے بولے امام جن و بشر
بس اب سنبھل کہ بناتے ہیں تربت اصغرؑ
یہ کہہ کے بار بلائے کثیر کھینچ لیا
پسر کے حلق سے صابر نے تیر کھینچ لیا
77
غضب کی جاہے کہ یہ کلفتیں اٹھائے حسینؑ
علیؑ کی تیغ سے خود اک لحد بنائے حسینؑ
اتارے قبر میں بیٹے کو باپ، ہائے حسینؑ
بجز رضا بقضا کچھ نہ لب پہ لائے حسینؑ
نہ تھا چھڑکنے کو پانی پسر کی تربت پر
چڑھائے آنسوؤں کے پھول ننھی تربت پر
78
خیال آب جو تھا یاد آگئے بھائی
نگاہ یاس ترائی سے جاکے ٹکرائی
زمیں لرز گئی غازی کی لاش تھرائی
تڑپ کے غیرت انسانیت یہ چلائی
ارے فرات کے کم ظرف و بد گہر پانی
نہ مل سکا علی اصغر کو ڈوب مر پانی
تمام خلق کا خدمت گزار ہے پانی
رگوں میں خون بدن میں نکھار ہے پانی
گلوں میں حسن چمن میں بہار ہے پانی
نمو کی بزم میں پروردگار ہے پانی
نگاہ خلق سے غائب جو ہے فضاؤں میں
امام غیب کا بھرتا ہے دم ہواؤں میں
2
بفطرت ازلی بے غبار ہے پانی
جمال قدس کا آئینہ دار ہے پانی
فضا میں خالق ابر بہار ہے پانی
زمیں پہ رحمت پروردگار ہے پانی
یہ آب و رنگ یہ سب رنگ وبو ہے پانی سے
عروس خاک! تری آبرو ہے پانی سے
3
کہیں یہ اشک کا گوہر کہیں درشبنم
کہیں خوشی کا ہے آنسو کہیں ہے گریہ غم
خوشا لطافت آب و خوشا طہارت یم
بہشت میں ہے یہ تسنیم خاک پرزمزم
یہ پاک ساقی کوثر کے انتساب سے ہے
کہ جیسے خاک کی تطہیر بوتراب سے ہے
4
نہ کیوں ہو چار عناصر میں آب کو تفضیل
بقول حق ہے اسی سے حیات کی تشکیل
جو مس ہو تن سے نجاست کثیر ہو کہ قلیل
تو پاک کرنے کو یہ سلسبیل کی ہے سبیل
عجیب جوہر تطہیر اس کی ذات میں ہے
کہ سب سے پہلے یہ شرعاً مطہرات میں ہے
5
یہ چار حرف کی ترکیب کس قدر ہے عظیم
کبھی زمین کبھی آسمان اس کا ندیم
کبھی ہے کوہ کی آغوش میں بصد تکریم
کبھی فضا میں معلق بدوش موج نسیم
سبیل عام کبھی راہ باٹ کا پانی
پیا ہے اس نے غرض گھاٹ گھاٹ کا پانی
6
عجیب چیز زبان لعنت میں پانی ہے
کہ جس کے ذکر میں آمد ہے اور روانی ہے
قلم بھی وقت رقم محو در فشانی ہے
یہ ایک لفظ اور اک قلزم معانی ہے
چڑھے جو بام فلک پر سحاب ہوجائے
جو کھینچ لیں تو عرق ہو شراب ہوجائے
7
اگر یہ پھل کی صفت ہو تو سمجھو پھیکا ہے
جو ذکر شیر میں آئے رقیق ہوتا ہے
جو وصف آہن و فولاد ہو تو ٹھنڈا ہے
ہوں اصل و نسل کے معنی تو استعارا ہے
یہ روز مرہ ہے مشہور مرزبانی کا
کہ جانور ہے بہت اچھے کھیت پانی کا
8
کسی کسان سے معنی جو پوچھے اس نے کہا
کہ میرا کھیت ہے محتاج ایک پانی کا
کبھی کسی کو اگر آگیا کہیں غصہ
طمانچہ کھاکے وہ پانی ہوا تو نرم پڑا
جو یاد ہو کبھی پانی کی اہل جوہر میں
چمک ہے تیغ میں یہ اور دمک ہے گوہر میں
9
ہوئی جو کام میں مشکل کے بعد آسانی
وہاں بھی اس کے سہارے چلی زباں دانی
کہیں یہ جیسے کہ پیاسوں نے دل میں جب ٹھانی
تو جو بھی آئیں کڑی منزلیں ہوئیں پانی
کبھی ہے حوصلہ وعزم کے معانی میں
کہ جیسے مد مقابل ہے کتنے پانی میں
10
تری کا ہے مترادف جو آبلے سے بہا
اسی کو کہتے ہیں آنسو جب آنکھ میں امڈا
یہ موتیا ہے اگر مردمک تک آپہنچا
کبھی اسی کے ہیں معنی خجل بفرط حیا
شمیم خاک شفا جیسے وہ سہانی ہے
کہ جس کے سامنے کوثر کی نہر پانی ہے
11
بہت وسیع ہے پانی کا دامن سیال
یہ سب کثیر معانی ہیں اس کے فیض پہ دال
محاورات میں ان کے سوا ہے استعمال
جو بوند بوند نہیں لاکھ ہیں پکھال پکھال
کہیں جو ماہی فکر ان کی تہ میں کھوجائے
تو بحر شعر و سخن آب آب ہوجائے
12
بیان آب کا ابلا جو قلزم زخار
برس پڑا ہے تخیل کا ابر دریا بار
زمین شعر کا یوں دھوگیا ہے گردوغبار
ورق ورق میں ہے طوبی کی پتیوں کا نکھار
جو اس بہانے سے کوثر کی راہ کھل جائے
یقین ہے مری فرد حساب دھل جائے
13
شکوہ دجلہ و فر فرات ہے پانی
گلوں کی جان ہے شبنم کی ذات ہے پانی
مری زبان میں شہد و نبات ہے پانی
مذاق خضرؑ میں آب حیات ہے پانی
یہ روح قافلہ ہے تشنگی کے خطروں میں
حیات بستی ہے اس کے لطیف قطروں میں
14
عجیب سادہ مزاجی عجیب فطرت ہے
نہ ذائقہ ہے کچھ اس میں نہ بونہ رنگت ہے
مگر کسی پہ اگر تشنگی کی شدت ہے
پھر اس سے پوچھئے پانی میں کیا حلاوت ہے
نہ ترش و تلخ نہ شیریں ہے یہ نہ سیٹھا ہے
مگر مزہ تو یہ ہے جان سے بھی میٹھا ہے
15
سبک مفرح دل جاں فروز روح نواز
لطیف و خوش مزہ و خوش گوار و نرم و گداز
کبھی یہ خاک نشیں اور کبھی فلک پرواز
قدم قدم پہ ہے دیکھے ہوئے نشیب و فراز
زمیں سے اٹھ کے جو گردوں کی راہ لیتا ہے
یہ ارتقا کا زمانے کو درس دیتا ہے
16
یہ کائنات حقیقت میں ہے دخان و شرر
اسی دخان و شرر سے بنے ہیں شمس و قمر
زمیں بھی پارۂ آتش تھی ابتدا میں مگر
یہ آگ راکھ بنی مدتوں میں بجھ بجھ کر
تلا بہ امر مشیت جو لاگ پر پانی
سحاب فضل نے چھڑکا اس آگ پر پانی
17
ہزاروں سال فضا میں رہا محیط سحاب
جھما جھمی سے ہوئیں بارشیں، زمیں سیراب
بجائے شعلۂ بیتاب اب تھے وہ گرداب
نگل کے آگ، اگلتے تھے جو درنایاب
بفیض آب نوید گل و گلاب آئی
زمین خاک تھی، پانی سے آب و تاب آئی
18
نمود حسن جگر دوز و دل نشیں، پانی
وجود نیشکر و شہد و انگبیں، پانی
جہاں میں نسخہ ایجاد ماء وطیں، پانی
ہے آفرینش انساں، صد آفریں، پانی
نمو میں ہے حرکت آب کی روانی سے
اگا ہے خلق میں نخل حیات پانی سے
19
ہے جزو جامۂ خلقت جو آستیں کی طرح
لیے ہے گود میں خلقت کو یہ زمیں کی طرح
زمیں جو گول ہے انگشتر حسیں کی طرح
چمک رہا ہے انگوٹھی میں یہ نگیں کی طرح
جہان خاک میں پانی کا یہ قرینہ ہے
کہ خاک دان حقیقت میں آبگینہ ہے
20
کبھی مسیح کے نسخے میں موج رحمت حق
کبھی مریض کی آنکھوں میں وجہ سد رمق
کبھی افق کی تراوٹ کبھی ہے رنگ شفق
کبھی شراب، کبھی شیخ کی جبیں کا عرق
کبھی الست کے مستوں کی روح مینا ہے
کبھی علی کا مہکتا ہوا پسینا ہے
21
بزیر خاک ہے سرچشمہ نمو پانی
بروئے شاخ ہے، شوخی رنگ و بو، پانی
سموم تند میں دہقاں کی آرزو، پانی
بھری بہار میں پھولوں سے سرخرو، پانی
شفق کے رنگ سے تازہ یہ گل کھلاتا ہے
کہ آسماں کو حنائی زمیں بناتا ہے
22
جو بن گیا درشہوار یہ تو زینت تاج
کسی کی پیاس بجھادی دیا عطا کو رواج
مگر تضاد پسندی بھی ہے شریک مزاج
یہ معتدل حرکت یہ تلاطم امواج
ابل ابل کے اگر یہ کبھی بپھرتا ہے
زبان موج سے باتیں فلک سے کرتا ہے
23
چمن میں ہے تو یہ گل بن میں ہے تو خار بلا
زمین پر ہے تو دریا فضا میں ہے تو گھٹا
صدف کے بطن میں موتی، کنار جو ذرا
گلے میں ہے تو حیات اور گلے گلے تو فضا
لپک ہے آگ کی، سیلاب کی روانی ہے
اگر گرے تو ہے بجلی، پھرے تو پانی ہے
24
دوا میں ہے تو یہ حنظل، غذا میں ہے تو عسل
جو باغ میں ہے تو لالہ، جو رود میں تو کنول
جو کاہ میں ہے تو دلکش، جو راہ میں تو خلل
جو نہر میں ہے تو شربت، جو زہر میں تو اجل
کبھی ہے برف، کبھی کشتئ دخانی ہے
عجب جمود کا عالم، عجب روانی ہے
25
ذوی العقول میں شامل نہیں یہ نیک نہاد
مگر تمیز بدونیک کی ہیں راہیں یاد
بہاؤ ایک ہے، وقت ایک اور اثر متضاد
برائے خیر ہے رحمت، برائے شرجلاد
جو حق ہے پار تو باطل ہے غرق یا کہ نہیں
جناب نوح! کہو، ہے یہ فرق یا کہ نہیں
26
سمائے سب کی رگ و پے میں اور جدا بھی رہے
فرازسر بھی چڑھے، اور زیر پا بھی رہے
رفیق شاہ بنے، مونس گدا بھی رہے
بہا بہا بھی پھرے، اور بے بہا بھی رہے
زمیں پہ اس کا ہے گھر، چوٹیوں پہ بستا ہے
عجیب بات کہ انمول اور سستا ہے
27
کھلی فضا میں یہ راتیں گزارنے والا
خمار سر خوشی و بے خودی کا متوالا
جو انجماد کے نقطے پر آئے تو ژالا
جو پھیل جائے تو کہرے کی گود کا پالا
بڑھے جو حد سے نہ اپنی، تو بارہ ماسا ہے
جو سر اٹھائے تو پانی کا یہ بتاسا ہے
28
کوئی ہوں، کیسے بھی ہوں، بے شعور، اہل شعور
غنی، غریب، قوی، ناتواں، شکور، کفور
لہو غریبوں کا پی پی کے فربہ و مغرور
تباہ کردہ ٔرسم معاشرہ، مزدور
یہ سب جہاں ہیں مساوی وہ موڑ ہے پانی
ربوبیت کے عمل کا نچوڑ ہے پانی
29
نقیب اردی و مشاطہ ربیع و خریف
جمیل، صاف، مصفا، حسیں، لطیف، نظیف
صدف میں گوہر یکتا، خزف میں آب کثیف
طبیعت اس کی ملایم، مزاج اس کا شریف
جو شکل پوچھیے کیسی ہے جسم کیسا ہے
تو ہر جگہ پہ یہ ویسا ہے ظرف جیسا ہے
30
اچھل رہا ہے کہیں اور چھلک رہا ہے کہیں
ابل رہا ہے کہیں، اور بھٹک رہا ہے کہیں
چمک رہا ہے کہیں اور جھلک رہا ہے کہیں
ہے سربلند کہیں، سر پٹک رہا ہے کہیں
نہیں پسند رعونت اسے زمانے کی
تلاش کرتا ہے راہیں زمیں پہ آنے
31
صفت ہے جس کی تواضع، یہ ہے وہ پاک گہر
کریں بلند تو پھر جھک کے رکھ دے خاک پہ سر
یہ عاجزی ہے مگر رعب اس سے بھی بڑھ کر
کہ ناچتے ہیں بھنور رات دن اشاروں پر
بہ انکسار ملے چاہے سب زمانے سے
مگر یہ دب نہیں سکتا کبھی دبانے سے
32
یہ رحمت ابدی ہے نہ ہو جو طغیانی
اسی کی بوند میں رقصاں ہے کشف بارانی
گھٹا میں دیکھیے قطروں کی اس کے جولانی
خم شراب پہ جس سے پڑے گھڑوں پانی
یہ کیاریوں میں چمک کر گہر سے جڑتا ہے
بلائے قحط سے یہ بیچ کھیت لڑتا ہے
33
گیاہ خشک میں روح نمو، نمی اس کی
دعا و ذکر کی دعوت ہے، برہمی اس کی
نماز خاص کی تحریک ہے، کمی اس کی
ثنا کرے بلب حمد، آدمی اس کی
لیے ہوئے ہے جو سینے میں برق سینا کو
پڑھائے جاتا ہے دو قل کا ورد مینا کو
34
حلاوت مئے کوثر ہے اس کی شیرینی
ہے اس سے گردگلوں میں جو ہے مہک بھینی
دھنک حسیں ہے پر اک عیب بھی آئینی
کجی ہے اس میں اور اس میں کمال رنگینی
جہاں سحاب سا سقائے فیض جاری ہے
اسی کے تحت وہ تنظیم آبداری ہے
35
رواں دواں ہے یہی بطن خاک میں پیہم
یہی ہے لذت انگور و کیف ساغر جم
عطیہ ہائے خدا میں ہے یہ خدا کی قسم
عطا کی آن، سخا کا حشم، کرم کا بھرم
یہ فیض دیکھے تو سونا ورق ورق ہوجائے
یہ جود سن لے تو دریا عرق عرق ہوجائے
36
نہ پوچھیے کہ رسا ہے کہاں کہاں پانی
کہیں نہاں ہے نظر سے کہیں عیاں پانی
جہاں جہاں یہ جہاں ہے، وہاں وہاں پانی
وہاں حیات معطل، نہیں جہاں پانی
فضا و کوہ میں حاضر ہے فرش پر موجود
نبیؐ کے ہاتھ دھلانے کو عرش پر موجود
37
گلوں کی پنکھڑیوں میں اسی سے رس قائم
نمو کی لہر ہے جس میں رواں وہ نس قائم
اسی کی وجہ سے برگ و ثمر کا جس قائم
اسی کے دم سے ہیں سانسیں نفس نفس قائم
وہ ہیں اسی سے فضاؤں میں جو ہوائیں ہیں
ہر ایک بوند کی مٹھی میں دو ہوائیں ہیں
38
یہ دو ہوائیں تشخص میں دو ہیں اور پھر ایک
مظاہرے ہیں الگ مرکز مظاہر ایک
یہ برق و باد کے ہیں مختلف مناظر ایک
جدا جدا ہے اثر، فاعل ومؤثر ایک
دوئی ہے صاف عیاں اور ظہور واحد ہیں
یونہی علیؑ و پیمبرؐ بھی نور واحد ہیں
39
یہ قلب میں ہے سکوں، جسم میں ہے نشوونما
جگر میں تاب وتواں پتلیوں میں نوروضیا
بصر فروز و بصیرت فزود و جاں افزا
بہشت پرور وطوبیٰ نواز و کوثر زا
یہ اس شراب میں شامل ولا کے ہاتھ سے ہے
جو مومنین کی قسمت خدا کے ہاتھ سے ہے
40
کبھی عمارت گردوں جناب ہے پانی
کبھی خرابی ٔدارالخراب ہے پانی
کبھی ہے برق کبھی آب و تاب ہے پانی
جو اعتدال نہ ہو اک عذاب ہے پانی
کسی کی آنکھ کا پانی ذرا جو ڈھل جائے
نظام عصمت و اخلاق ہی بدل جائے
41
نبیؐ کے سر پہ جو رہتا تھا ابر کا سایا
نظر کو آپ کا سایہ کہاں نظر آیا
یہ معجزہ جو کرامت خدا نے فرمایا
تو اس کو حجت پیغمبری بھی ٹھہرایا
نگاہ خلق میں یہ ابر ہے، جو پانی ہے
مری نظر میں نبوت کی یہ نشانی ہے
42
کبھی جو رحمت باری کی شان دکھلائے
زمیں پہ خلد سے نزہت کو کھینچ کر لائے
جو کف اگل کے تلاطم بکف کبھی آئے
عرق میں نوحؑ کا طوفان غرق ہوجائے
خدا کا فضل ہے، قہر قدیر ہے پانی
مطیع شاہ بشیر و نذیر ہے پانی
43
جو موج میں ہے تو گویا چنا ہوا جامہ
حباب میں ہے تو آب رواں کا عمامہ
قلم میں ہے تو نوید نگارش نامہ
دوات میں ہے تو سجدہ گزار ہر خامہ
رکا رہے تو مزاج خسیس ہے پانی
رواں ہو جب تو زبان انیس ہے پانی
44
یہ آج جو ہے قوام حیات میں شامل
رگوں میں خون میں تخمیر ذات میں شامل
ازل سے آب وگل کائنات میں شامل
عمل کی راہ سے ہے معجزات میں شامل
یہ جسم در ہے جو اجرام آسمانی پر
قوی ہے کوہ سے بھی اور بنا ہے پانی پر
45
اگرچہ نرم مزاجی ہے اس کی سب پہ عیاں
مگر ہے سخت بھی اتنا پہاڑ پر ہے گراں
ابل ابل کے کبھی ہو جو یہ رواں ودواں
ہوا ہو گرد تو آندھی کے ہوش ہوں پراں
جو کوہ سامنے ہوں تیوریوں پہ بل ڈالے
تو دست موج کی چٹکی سے یہ مسل ڈالے
46
فضا میں تھی جو ہوا روز و شب پراگندا
گراں تھا آب پہ یہ صبح و شام کا دھندا
گلے میں باد بہاری کے ڈال کے پھندا
بنا لیا اسے آزادہ گام سے بندا
عصائے حضرت موسیٰ جو یاد آتا ہے
ہر ایک چوب کو اب تک یہ سر چڑھاتا ہے
47
جو آکے غیر کوئی اس کی بزم میں ہو دخیل
ابل پڑے یہ بغیظ و غضب بصورت نیل
تھپیڑے مار کے کردے ڈبوڈبو کے ذلیل
سوائے شاخ شجر وہ خفیف ہو کہ ثقیل
عصائے حضرت موسی جو یاد آتا ہے
ہر ایک چوب کو اب تک یہ سر چڑھاتا ہے
48
گلاب نسترن، ویاسمین، مولسری
گل انار، مدن بان، رات کی رانی
سدا بہار، گل آفتاب، داؤدی
گڑھل، کنول، گل عباس، جعفری، خیری
چمن چمن جو یہ کھل کھل کے رنگ لائے ہیں
یہ رنگ رنگ کے پانی نے گل کھلائے ہیں
49
کمان، تیر، سروہی، سنان، بھال، خدنگ
چھری، کٹار، فلاخن، عصا، طمنچہ، سنگ
کمند، گرز، شکنجہ، بنوٹ، بانک، تفنگ
حسام شعلہ مزاج، آبدار، صاعقہ رنگ
برس پڑیں تو نہ ٹوٹے گی دھار پانی کی
سپر ہے رحمت پروردگار پانی کی
50
خلیج، نہر، ندی، جوئبار، جھیل، کنواں
غرض جہاں یہ مکیں ہو، جہاں ہو اس کا مکاں
اٹھاکے ٹھوس قدم جب بھی کوئی آئے وہاں
یہ اس کو دل میں بٹھائے نہ طبع پر ہو گراں
ملے جو ظرف کا ہلکا اچھال دے اس کو
بہا بہا کے کنارے پہ ڈال دے اس کو
51
جو پھینک دے کوئی اس کو بذلت و خواری
وہ غم میں ہو، تو کرے پھر یہ اس کی غمخواری
ہر ایک کافر و مسلم سے ہے رواداری
نبیؐ و آل نبیؐ کا یہ فیض ہے جاری
جناب فاطمہؑ زہرا کا مہر ہے پانی
جو ان سے بغض رکھے اس کو زہر ہے پانی
52
جو ریگ گرم میں دم بھر نہ یہ کسی کو ملے
تڑپ کے قافلۂ تشنہ کام دم توڑے
جو کاروان مدینہ کی چھاگلوں میں رہے
عطش میں حر کے رسالے کو زندگی بخشے
فرات میں ہے تو ارماں کسی حزینہ کا
چچا کی مشک میں ہے آسرا سکینہ کا
53
جو گھر میں ہو تو گھرانے کا ہے یہ مونس جاں
کنویں میں ہو تو کل اطراف میں ہے فیض رساں
جو چشمہ سار سے پھوٹے، جونہر میں ہو رواں
تو فیضیاب سب انسان و جانور یکساں
ادھر سے شدت گرما میں جو گزرتے ہیں
تو قافلے سرساحل قیام کرتے ہیں
54
تمام حاکم و محکوم و منعم ونادار
تمام کافر و دیندار و زاہد و بدکار
و حوش و طیر و بزوگرگ و مرکب و اسوار
ہیں بے مزاحمت اس وقف عام سے سرشار
روا ہر اک کے لیے بے گزند ہے پانی
مگر حسینؑ کے بچوں پہ بند ہے پانی
55
یہ تین روز کے پیاسے کھڑے ہیں ڈیہوڑی پر
شباب پر ہے تمازت سموم کا ہے گزر
بھبک رہی ہیں فضاؤں، برس رہے ہیں شرر
فرات سامنے ہے، پی رہا ہے سب لشکر
قیامت اور یہ بچوں پہ ڈھارہے ہیں شقی
دکھا کے پیاس میں پانی بہارہے ہیں شقی
56
وہ مسلم جگر افگار کے یتیم پسر
وہ بنت فاطمہؐ کے لال عون اور جعفر
وہ جان شبر مسموم قاسم مضطر
وہ آسرا شہ مظلوم کا علی اکبرؑ
یہ سب پیمبرؑ اسلام کے نواسے ہیں
جو کلمہ گویوں کی بستی میں آج پیاسے ہیں
57
حبیب و مسلم و ضرغامہ و بریر و ہلال
زہیر قین جگر دار و وہب نیک خصال
جناب جون جری، دشت کربلا کے ہلال
یہ سب تھے تین شب و روز کی عطش سے نڈھال
لیے تھے سینوں میں لیکن یہ آرزو پیاسے
عدوئے آل کا پی جائیں گے لہو پیاسے
58
خیام پاک میں ذریت نبیؐ بے آب
کہ جن میں زینبؑ و کلثومؑ دلفگار ورباب
پھر ان کی گود میں اطفال مضطر و بیتاب
سکینہ پیاس سے غش میں پڑی ہیں سینہ کباب
جو چونکتی ہیں نکلتا ہے منہ سے یا عباسؑ
کہیں سے پانی منگا دیجیے چچا عباسؑ
59
ہے ایک خیمہ عصمت میں بیکس و مظلوم
وہ ایک جوان جو بیمار و مضطر و مغموم
ولی و زاہد و سجاد و عابد و معصوم
مریض تب سے جلے اور ہو آب سے محروم
وفور کرب میں غش سے جو آنکھ کھلتی ہے
زبان خشک کے کانٹوں میں پیاس تلتی ہے
60
پڑا تھا جھولے میں اک شیر خوار جان علیؑ
یہ چھ مہینے کی جان اور بلائے تشنہ لبی
لگی تھی پیاس سے ہچکی، ڈھلا تھا منکا بھی
یہ ضعف تھا کہ نہ کھلتی تھی آنکھ اصغر کی
بلکنا چاہتے تھے اور بلک نہ سکتے تھے
حسینؑ یاس سے بچے کے منہ کو تکتے تھے
61
جو پوچھیے کہ یہ معصوم کب سے تھے بے آب
تو خیمے میں شب ہشتم بھی آب تھا نایاب
بریر لائے تھے مشکیزہ بھر کے جب تو شتاب
نہ جانے کب سے تھے بچے عطش سے سینہ کباب
سب آکے ٹوٹ پڑے جب نظر پڑا پانی
کشاکشی میں کھلی مشک، بہ گیا پانی
62
تڑپ کے رہ گئے اطفال سید کونین
کیا وہ نوحہ و ماتم کہ سن کے روئے حسینؑ
وہ مشک بیچ میں، بچے وہ گرد، لب پہ وہ بین
کسی کی لاش پہ ہوتا ہے جیسے شیون و شین
نمی سے آتش دل میں کمی جو ہوتی تھی
سکینہ مشک پہ رخسار رکھ کے روتی تھی
63
وہ شب گزرنے پہ آئی جو آٹھویں کی سحر
ہوئے تھے سوکھ کے کانٹا وہ لب جو تھے گل تر
عجب ہے پیاس سے تھی جن کی جان ہونٹوں پر
وہ تین روز جیے اور تشنہ لب کیوں کر
یہ کیا تھا جس نے انہیں اس قدر دلیر کیا
کہ تشنگی سے لڑے، فطرتوں کو زیر کیا
64
عطش سے گرچہ تھے برہم، مزاج شکر پسند
یقین جام شہادت سے تھے مگر خورسند
رضائے حق پہ تھ ے شاکر، وہ صبر کے پابند
مگر خیام میں فریاد العطش تھی بلند
یہ تازیانہ ٔگریہ، سوال آب نہ تھا
جھنجھوڑتے تھے شقاوت کو اضطراب نہ تھا
65
دہم کی صبح کو یہ تشنگی کا عالم تھا
زباں تھی اینٹھی ہوئی، خشک، خار دار گلا
جو بات کرتے تھے لگتا تھا منہ میں نشترسا
رجز کا وقت جو آیا بہا دیے دریا
بڑھے جو سیل کی صورت اٹھا کے سینوں کو
ڈبو دیا عرق شرم میں لعینوں کو
66
اٹھا اٹھا کے حساموں کی آب سے طوفاں
پہنچ پہنچ گئے ساحل کے پاس شیر زیاں
وہیں تو نہر تھی جاری یہ لڑرہے تھے جہاں
نظر اٹھا کے بھی دیکھا نہ سوئے آب رواں
بڑھا دیا تھا بہت ضبط نے وقار ان کا
بتولؑ کو لب کوثر تھا انتظار ان کا
67
پھر اس کے بعد یہ منظر بھی فوج نے دیکھا
کہ اک جری درخیمہ سے سوئے نہر چلا
علم تھا دوش مبارک پہ ہاتھ میں نیزا
لیے تھا مشک بھی، جیسے کسی کا ہے سقا
مزاحمت سے نبٹتا ہوا لڑائی میں
سفیر تشنہ لباں تھا، رکا ترائی میں
68
پسینہ پونچھ کے انگڑائی لی جو ضیغم نے
جو رہ گئے تھے وہ پہرے بھی نہر سے بھاگے
اتر کے زین سے پہنے جری نے دستانے
کہ مشک بھرنے میں پانی نہ مس ہو ہاتھوں سے
وفا کا پاس جو کروٹ نہ اس گھڑی لیتا
فرات قبضے میں تھی چاہتا تو پی لیتا
69
جری نے مشک بھری اور تشنہ کام پھرا
پلٹ کے فوج نے نرغہ کیا بہ مکرودغا
ہوئے وہ ہاتھ قلم، مشک پر بھی تیرلگا
علم کے ساتھ، یہ پانی گرا، وہ شیرگرا
ہوا نثار علم پر شہ مدینہ کے
لہو سبیل بنا، نام پر سکینہ کے
70
اب اک جوان تھا پیاسا، جو بہر جنگ چلا
بھگا کے فوج جو اظہار تشنگی کا کیا
زباں چسانے کو اپنی بڑھے امام ہدا
ملا دہن سے دہن، منہ پسر نے پیٹ لیا
کہا کہ ہائے یہ کلفت یہ امتحان حسینؑ
ہے چوب خشک سے بھی خشک تر زبان حسینؑ
71
یہ کہہ کے رن میں دوبارہ گئے، جہاد کیا
سناں جو کھائی تو صغرا بہن کو یاد کیا
مرادوں والے نے اماں کو نامراد کیا
پدر سے عرض یہ روکر بہ اعتماد کیا
نہ شکل دیکھے گا ناچیز جام کوثر کی
حضور پیاس نہ جب تک بجھے گی اصغرؑ کی
72
یہ کہتے کہتے پسینے جو موت کے آئے
پسر نے توڑ کے دم باپ پر ستم ڈھائے
جنازہ لے کے چلے شاہ بال بکھرائے
جواں کو لے کے گئے، شیر خوار کو لائے
خدا کی راہ میں ایثار کی جوٹھانی ہے
وہ لاش اٹھا چکے یہ لاش اب اٹھانی ہے
73
سپاہ شام کو صورت دکھا کے بچے کی
کہا کہ وہ بھی سنیں جو کہ ہوں شقی سے شقی
یہ چھ مہینے کا گل رو، یہ جان ننھی سی
ہمارے ساتھ ہے پامال جور تشنہ لبی
یزیدیو! یہ گل تر بہت نراسا ہے
قصور کچھ نہیں اور تین دن کا پیاسا ہے
74
یہ سن کے سب نے جو دیکھا نظر اٹھا کے ادھر
شقی بھی رو دیے دل تھام تھام کر اکثر
کمان اتنے میں کڑکی، بپا ہوا محشر
گلے پہ تیر لگا، مسکرا دیے اصغرؑ
حسینؑ بولے، میں اس ضبط کے فدا بیٹا
تمہاری پیاس بجھی، حلق ترہوا بیٹا؟
75
قبا پہ خون جو ٹپکا ہوئی یہ حیرانی
کہاں سے دھوئیں اسے پینے کو نہیں پانی
اور اس میں سب سے زیادہ تھی یہ پریشانی
کسے مدد کو پکارے بتولؐ کا جانی
نہ لشکرے، نہ سپا ہے، نہ کثرت النا سے
نہ قاسمے، نہ علی اکبرے، نہ عباسے
76
کوئی رفیق نہ ہمدم نہ مونس و یاور
فقط صغیر کا لاشہ تھا اور داغ جگر
علیؑ کی تیغ سے بولے امام جن و بشر
بس اب سنبھل کہ بناتے ہیں تربت اصغرؑ
یہ کہہ کے بار بلائے کثیر کھینچ لیا
پسر کے حلق سے صابر نے تیر کھینچ لیا
77
غضب کی جاہے کہ یہ کلفتیں اٹھائے حسینؑ
علیؑ کی تیغ سے خود اک لحد بنائے حسینؑ
اتارے قبر میں بیٹے کو باپ، ہائے حسینؑ
بجز رضا بقضا کچھ نہ لب پہ لائے حسینؑ
نہ تھا چھڑکنے کو پانی پسر کی تربت پر
چڑھائے آنسوؤں کے پھول ننھی تربت پر
78
خیال آب جو تھا یاد آگئے بھائی
نگاہ یاس ترائی سے جاکے ٹکرائی
زمیں لرز گئی غازی کی لاش تھرائی
تڑپ کے غیرت انسانیت یہ چلائی
ارے فرات کے کم ظرف و بد گہر پانی
نہ مل سکا علی اصغر کو ڈوب مر پانی
- نسیم-امروہوی
جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
- میر-انیس
آج شبیرؔ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے
ظلم کی چاند پہ زہراؔ کی گھٹا چھائی ہے
اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے
یاں نہ بیٹا نہ بھتیجا نہ کوئی بھائی ہے
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں
مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں
زخمی بازو ہیں کمر خم ہے بدن میں نہیں تاب
ڈگمگاتے ہیں نکل جاتی ہے قدموں سے رکاب
پیاس کا غلبہ ہے لب خشک ہیں آنکھیں ہیں پر آب
تیغ سے دیتے ہیں ہر وار کا اعدا کو جواب
شدتِ ضعف میں جس جا پہ ٹھہر جاتے ہیں
سیکڑوں تیر ستم تن سے گذر جاتے ہیں
گیسو آلودۂ خوں لپٹے ہیں رخساروں سے
شانے کٹ کٹ کے لٹک آئے ہیں تلواروں سے
تیر پیوست ہیں خوں بہتا ہے سوفاروں سے
لاکھ آفت میں ہے اک جان دل آزاروں سے
فکر ہے سجدۂ معبود ہیں سر دینے کی
وار سے تیغوں کے فرصت نہیں، دم لینے کی
خون سے تر پیچ عمامے کے ہیں سر زخمی ہے
ہے جبیں چاند سی پر نور مگر زخمی ہے
سینہ سب برچھیوں سے تا بہ کمر زخمی ہے
تیرِ بیداد سے دل زخمی، جگر زخمی ہے
ضربِ شمشیر سے بیکار ہیں بازو دونوں
ظلم کے تیروں سے مجروح ہیں پہلو دونوں
برچھی آ کر کوئی پہلو میں لگا جاتا ہے
مارتا ہے کوئی نیزہ تو غش آجاتا ہے
بڑھتے ہیں زخمِ بدن، زور گھٹا جاتا ہے
بند آنکھیں ہیں، سرِ پاک جھکا جاتا ہے
گردِ زہراؔ و علیؔ گریہ کناں پھرتے ہیں
غل ہے گھوڑے سے امام دو جہاں گرتے ہیں
گرتے ہیں قطرۂ خوں زخمِ جبیں سے پیہم
دستِ مجروح سے کھنچ سکتے نہیں تیرِ ستم
فکر ہے بخششِ امت کی کچھ اپنا نہیں غم
کرتے ہیں شکرِ خدا خشک زباں سے ہر دم
ہے عبا تیروں سے غرباں قبا گلگوں ہے
ہونٹ یا وقت سے زخمی ہیں دہن پر خوں ہے
زیں سے ہوتا ہے جدا دوشِ محمد کا مکیں
چمنِ فاطمہ کا سرو ہے مائل بہ زمیں
برچھیاں گرد ہیں اور بیچ میں ہیں سرورِ دیں
ہے یہ نزدیک گرے مہرِ نبوت کا نگیں
پاؤں ہر بار رکابوں سے نکل جاتے ہیں
یا علیؔ کہتی ہے زینبؔ تو سنبھل جاتے ہیں
لاکھ تلواریں ہیں اورایک تنِ اطہر ہے
ایک مظلوم ہے اور ظالموں کا لشکر ہے
سیکڑوں خنجرِ فولاد ہیں اور اک سر ہے
نہ کوئی یار، نہ ہمدم، نہ کوئی یاور ہے
باگ گھوڑے کی لٹکتی ہے، اٹھا سکتے نہیں
سامنے اہلِ حرم روتے ہیں، جا سکتے ہیں
کوئی سید کا نہیں آہ، بچانے والا
حربے لاکھوں ہیں، اور اک زخم اٹھانے والا
پیاس میں کوئی نہیں، پانی پلانے والا
سنبھلے کس طرح بھلا، برچھیاں کھانے والا
چرخ سے آگ برستی ہے زمیں جلتی ہے
مارے گرمی کے زباں خشک ہے، لُو چلتی ہے
کہیں دم لینے کو سایہ نہیں، ہے وقت زوال
اینٹھی جاتی ہے زباں پیاس کی شدت ہے کمال
کبھی زینبؔ کا ہے غم گاہ سکینہؔ کا خیال
دن جو ڈھلتا ہے تو حضرت ہوئے جاتے ہیں نڈھال
مثلِ خورشید، بدن ضعف سے تھراتا ہے
نیر برجِ امامت پہ زوال آتا ہے
کہتے ہیں ظالموں سے، خشک زباں دکھلا کر
بہرِ حق پانی کا، اک جام پلادو لا کر
اہلِ کیں کہتے ہیں یہ تیغِ ستم چمکا کر
آبِ شمشیر پیو برچھیوں کے پھل کھا کر
یہ سخن سن کے بھی غصہ نہیں فرماتے ہیں
یاس سے سوئے فلک دیکھ کے رہ جاتے ہیں
عرض کرتے ہیں یہ خالق سے کہ اے لبِ غفور!
تو ہے عالم کہ نہیں کچھ ترے بندے کا قصور
کرتے ہیں یہ مجھے بے جرم و خطا تیغوں سے چور
ہاتھ امت پہ اٹھانا نہیں مجھ کو منظور
جانتے ہیں کہ محمدؔ کا نواسا ہوں میں
پانی دیتے نہیں دو روز کا پیاسا ہوں میں
تو نے بچپن سے مرے ناز اٹھائے یارب
وہ عنایت کیا جو تجھ سے کیا میں نے طلب
تیرا محبوب بنا عید کو میرا مرکب
روزہ رکھا تو چھپا مہر نمایاں ہوئی شب
بھوک میں خلد کا کھانا مجھے امداد کیا
بھیج کر ہرنی کا بچہ مرا دل شاد کیا
اب اگر ہے یہ تری مصلحت اے ربِّ قدیر
ہو رواں حلق پہ اس پیاسے کے آبِ شمشیر
میرے مولا بہ سر و چشم ہے حاضر شبیر
حکمِ حاکم میں یہ طاقت ہے کروں میں تاخیر
جلد گردن پہ رواں، خنجرِ برّآں ہووے
اے خوشا وہ، جو تری راہ میں قرباں ہووے
غم نہیں کچھ مجھے گو بیکس و بے یار ہوں میں
زیرِ شمشیر گلا رکھنے کو تیار ہوں میں
تو مددگار ہے، مختار ہے لاچار ہوں میں
وقتِ مشکل ہے، عنایت کا طلبگار ہوں میں
تیرے سجدے میں یہ سر تن سے جدا ہو جاوے
عہدِ طفلی کا جو وعدہ ہے، وفا ہو جاوے
سختیاں مرگ کی کر اپنے کرم سے آساں
لب پہ تکبیر ہو، جب خلق پہ خنجر ہو رواں
دل میں ہو یاد تری، بند ہو جس وقت زباں
دم بھروں تیرا ہی تن سے جو نکلنے لگے جاں
بعدِ چہلم جو مجھے قبر میسر ہووے
زخمی تن پر نہ فشار اے مرے داور ہووے
رحم کر رحم کر شرمندہ ہوں اے یارِ خدا
بندگی کا ترے جو حق تھا ادا ہو نہ سکا
خوفِ محشر سے، بدن کانپتا ہے، سرتاپا
ہوگی اعمال کی پرسش تو، کہوں گا میں کیا؟
کوئی تحفہ ترے لائق نہیں پاتا ہے حسینؔ
ہاتھ خالی ترے دربار میں آتا ہے حسینؔ
تقویت دل کو کرم سے ہے ترے یا رحماں
نہیں مایوس کہ رحمت ہے تری بے پایاں
مشکلیں بندوں کی کر دیتا ہے دم میں آساں
شکر الطاف و عنایات میں قاصر ہے زباں
عاصیوں سے بھی محبت نہیں کم کرتا ہے
جرم وہ کرتے ہیں تو لطف و کرم کرتا ہے
میں تری راہ میں مظلومی سے ہوتا ہوں فدا
تو ہے آگاہ کہ دو دن کا ہوں بھوکا پیاسا
چاہتا ہوں میں یہی، اپنی شہادت کا صلا
مغفرت امتِ عاصی کی ہو اے بارِ خدا
ہے گوارا مجھے جو کچھ کہ اذیت ہووے
ان کو دنیا میں بھی عقبیٰ میں بھی راحت ہووے
عرض کرتے تھے یہ خالق سے شۂ بندہ نواز
یک بیک عالمِ بالا سے یہ آئی آواز
اے مرے شیر کے فرزند، نبی کے دمساز
تجھ سے ہم خوش ہیں پذیرا ہے ترا عجر و نیاز
مرد ہے عاشقِ کامل ہے، وفادار ہے تو
جو کہا وہ ہی کیا صادق الاقرار ہے تو
تو بھی مقبول ہے اور تیری عبادت بھی قبول
یہ اطاعت بھی ہے مقبول، یہ طاعت بھی قبول
عاجزی بھی تری مقبول، شہادت بھی قبول
تیری خاطر سے ہمیں بخششِ امت بھی قبول
ہم نے خیل شہدا کا تجھے سردار کیا
امتِ احمد مختار کا مختار کیا
دوست داروں کا ترے گلشنِ جنت ہے مقام
تاابد سایۂ طوبیٰ میں کریں گے آرام
ہوں گے محشور ترے ساتھ عزادار تمام
تجھ کو جو روئیں گے آنچ ان پہ ہے دوزخ کی حرام
غم نہ کھا! اہلِ جہاں تیرے محب سارے ہیں
تو ہے پیارا، ترے پیارے میں بھی ہمیں پیارے ہیں
ہوں گے ہر رنج سے، محفوظ ترے تعزیہ دار
سختیِٔ مرگ نہ ان کو ہے، نہ ایذائے فشار
دمِ مردن نظر آوے گا علیؔ کا دیدار
قبر سے گلشنِ فردوس کی دیکھیں گے بہار
دار دنیا ہی میں ہیں جو سو انہیں ایذا ہے
آنکھیں جب بند ہوئیں پھر، درِ جنت وا ہے
تجھ سا عابد نہ ہوا ہے، نہ کوئی ہووے گا
تیر کھا کھا کے کسی نے بھی ہے یوں شکر کیا
طاعتِ خلق سے اک سجدہ ہے افضل تیرا
عرشِ اعظم پہ، ملائک تری کرتے ہیں ثنا
سارا گھر میری محبت میں، فنا تو نے کیا
بندگی کا تھا جو کچھ حق وہ ادا تو نے کیا
حشر تک روئے گا مظلومی پہ تیری عالم
تیرا ماتم نہیں ہووے گا جہاں میں کبھی کم
روضۂ پاک کو تیرے یہ شرف بخشیں گے ہم
آئیں گے جس کی زیارت کو ملک ہو کے بہم
یہ زمیں عرش سے رتبے میں سوا ہووے گی
خاک تربت کی تری خاکِ شفا ہووے گی
یہ صدا سن کے ہوئے شاد شۂ ہر دوسرا
آ گئی از سرِ نو جسم میں طاقت گویا
جھک کے سجدے کی طرف عجز سے رو کر یہ کہا
میرے مولا میں تری بندہ نوازی کے فدا
کیوں نہ ممتاز ہو وہ تو جسے رتبہ بخشے
اس کفِ خاک کو کیا رتبۂ اعلیٰ بخشے
ابھی مولا نے سرِ عجز اٹھایا نہ تھا آہ
نیزہ اک چھاتی پہ مارا جو کسی نے ناگاہ
غش میں گرنے لگے گھوڑے سے امامِ ذی جاہ
آئی خاتونِ قیامت کی صدا بسم اللہ
تھامنے آئے علیؔ خلد سے گھبرائے ہوئے
دوڑے محبوبِ خدا ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے
اک جفا کیش نے پھر پہلو پہ نیزہ مارا
چھد گیا توڑ کے چھاتی کو کلیجہ سارا
پشتِ تازی پہ، سنبھلنے کا نہ پایا یارا
گر پڑا خاک پہ، وہ عرشِ خدا کا تارا
گرد آلود قبائے شۂ پرنور ہوئی
ریت زخموں کے لیے مرہم کافور ہوئی
خاک و خوں میں جو تڑپتے تھے ، شہنشاہِ زمن
گل کے مانند کھلے جاتے تھے سب زخمِ بدن
طلبِ آب میں کھولے ہوئے تھے خشک دہن
گرد کھینچے ہوئے تلواریں کھڑے تھے دشمن
غمِ ناموس بھی تھا، پیاس کی بھی شدت تھی
پھر سکینہؔ کو نہ دیکھ آئے یہی حسرت تھی
کان میں آتی تھی زینبؔ کے صدائے جاںکاہ
دل تڑپ جاتا تھا کرتے تھے عجب درد سے آہ
راہ روکے ہوئے خیمے کی، کھڑے تھے گمراہ
نیم وا چشم سے کرتے تھے سوئے خیمہ نگہ
تنِ زخمی پہ جو پیکانِ ستم گڑتے تھے
خاک سے اٹھتے تھے اور کانپ کے گر پڑتے تھے
کہتا تھا فوج میں سب سے عمر بد اختر
کھنچے کیوں تیغوں کو ہاتھوں میں کھڑے ہو ششدر
ریگِ تفتیدہ پہ ہے غش میں، علیؔ کا دلبر
جاؤ کیا دیر ہے ، کاٹو شۂ مظلوم کا سر
تیغ سے فاطمہؔ زہرا کا گلا چاک کرو
جلد ہاں خاتمۂ پنجتن پاک کرو
ایسے مظلوم کا، سر کاٹنا کیا ہے دشوار
جس کا کوئی بھی مددگار، نہ ہمدرد، نہ یار
عورتیں ہیں کئی خیمے میں غریب و ناچار
مر چکے پہلے ہی جو خون کے تھے دعویدار
خوں بہا بھی نہ کوئی مانگنے کو آوے گا
اک پسر ہے سو وہ بیمار ہے مرجاوے گا
کانپ کر کہتے تھے سب ہم سے نہ ہوگا یہ ستم
ذبح فرزندِ محمدؔ کو نہیں کرنے کے ہم
ایسے مظلوم کی چھاتی پہ جو رکھے گا قدم
پاؤں جل جائے گا تھرائے گا عرشِ اعظم
پیٹتے قبر سے محبوب خدا آویں گے
بخدا فاطمہ کی آہ سے جل جاویں گے
کون بے کس کو بھلا ذبح کرے بے تقصیر
پھرتا ہے کوئی پیاسے کے گلے پر شمشیر؟
گو کہ بے کس ہے پہ آساں نہیں، قتلِ شبیرؔ
حشر میں ہوئیں گے محبوبِ خدا دامن گیر
تو سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی خوں خواہ نہیں
بنتِ احمدؔ نہیں، حیدر نہیں، اللہ نہیں
تھا جو دمساز عمر ابن نمیر اظلم
بڑھ کے تیغ اس نے سرِ شاہ پہ ماری اس دم
تا جبیں ہو گیا مجروح سرِ شاہِ امم
تھام کر سر کو پکارے یہ امامِ عالم
نہ میسر تجھے اس ہاتھ سے کھانا ہووے
تو تہی دست جہنم کو روانہ ہووے
چاہا ظالم نے کہ پھر شۂ پہ کرے تیغ کا وار
دیکھا انگشت بدنداں ہیں رسولؐ مختار
خشک اس وقت ہوئے دستِ ستمگر اک بار
ہاتھ سے تیغ گری خوف سے بھاگا، خوں خوار
یاں سرِ پاک سے حضرت کے لہو جاری تھا
خم سوئے قبلہ تھے، بند آنکھیں تھیں غش طاری تھا
جب تڑپنے کی بھی طاقت نہ رہی سرور کو
غل ہوا یہ کہ غش آیا، خلفِ حیدر کو
فوج سے شمر بڑھا کھینچے ہوئے خنجر کو
سب سے کہتا تھا کہ اب کاٹو سرِ سرور کو
خلفِ احمدِ مختار کا قاتل ہوں میں
کام میرا ہے، اسی کام کے قابل ہوں میں
مجھ کو حیدرؔ سے غرض ہے نہ محمدؔ سے ہے کام
رو دیں محبوبِ خدا ہووے خوشی حاکمِ شام
دولتِ فاطمہؔ لے جاؤں میں پاؤں انعام
روح حیدرؔ کی ہو بے چین، مجھے ہو آرام
منہ نہ میں دولتِ دنیا سے کبھی پھیروں گا
آج زہراؔ کے کلیجے پہ چھری پھیروں گا
تیز کرتا ہوا خنجر کو گیا شہ کے قریں
آسماں ہل گیا تھرا گئی مقتل کی زمیں
رو رو چلانے لگی زینبِؔ ناشادِ حزیں
غش میں بھی گھیرے ہیں، ہے ہے مرے بھائی کو لعیں
رحم زہراؔ کے پسر پر نہیں کھاتا کوئی
خاک سے بھی نہیں زخمی کو اٹھاتا کوئی
کس سے فریاد کروں، جا کے میں دکھیا ہے ہے
نہ محمدؔ ہیں نہ حیدرؔ ہیں نہ زہرا ہے ہے
لاکھ دشمن ہیں مرا بھائی ہے تنہا ہے ہے
تیغوں سے کٹتا ہے، زہراؔ کا کلیجا ہے ہے
سروِ گلزارِ رسالت کو قلم کرتے ہیں
ہائے سید پہ، مسافر پہ ستم کرتے ہیں
گرد زینب کے تھا ناموس پیمبر کا ہجوم
بانو روتی تھی، کھڑی پیٹتی تھی سر، کلثوم
کہتی تھی دیکھ کے میداں کو سکینہ معصوم
اے پھوپھی! نرغۂ اعدا میں ہیں شاہِ مظلوم
جاؤں گی اب میں ٹھہرنے کی نہیں آپ کے پاس
شمرؔ خنجر لیے جاتا ہے ، مرے باپ کے پاس
باپ کے پاس سے ، جا کر اسے سرکاؤں گی
جوڑ کر ہاتھوں کو منت سے میں سمجھاؤں گی
اپنے بابا کی میں چھاتی سے لپٹ جاؤں گی
خیمے تک ان کو سنبھالے ہوئے لے آؤں گی
بھوکے پیاسے، مرے بابا کو نہ مارے کوئی
ان کے بدلے، مرا سر تن سے اتارے کوئی
کتنا روکا اسے بانو نے پہ ہرگز نہ رکی
چھوٹے سے ہاتھون سے سر پیٹتی میداں کو چلی
پیچھے سر کھولے ہوئے خیمے سے زینبؔ نکلی
پہونچی رن میں تو سکینہؔ یہ عمر سے بولی
او لعیں حیدرِؔ کرار کی پوتی ہوں میں
رحم کر! مجھ پہ کہ بِن باپ کی ہوتی ہوں میں
دیکھ غربت کو مری کر مرے بچپن پہ نظر
باپ مارا گیا میرا تو جیوں گی کیوں کر؟
سر پہ آوے گی یتیمی تو میں جاؤں گی کدھر؟
میں تو ہوں باپ کی شیدا مرا عاشق ہے پدر
باپ بن ایک دم آرام نہ آوے گا مجھے
کون پھر رات کو چھاتی پہ سلاوے گا مجھے
ہنسلیاں اپنی گلے سے تجھے دیتی ہوں اتار
لے مرے کان کا دُر، پر مرے بابا کو نہ مار
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں ترے آگے ناچار
منع کردے کوئی بیکس کو نہ مارے تلوار
گھر میں جو کچھ زر و زیور ہے، وہ لادوں گی میں
جان بابا کی بچے گی تو دعا دوں گی میں
بھیڑ میں مجھ کو نظر آتے نہیں بابا جاں
اتنا کہہ دے کہ سرک جائیں یہ سب بے ایماں
گرد پھر پھر کے، میں ہوں اپنے پدر کے قرباں
جا کے دیکھوں گی، بدن پر ہیں لگے زخم کہاں
دمِ آخر تو بھلا کام میں آؤں ان کے
اپنے کرتے سے لہو منہ کا چھڑاؤں ان کے
کتنا کہتی رہی وہ بنتِ شۂ عرشِ جناب
اس ستمگر نے دیا کچھ نہ سکینہؔ کو جواب
پیٹ کر سر کہا زینبؔ نے کہ او خانہ خراب
تجھ کو آتا نہیں کچھ روحِ پیمر سے حجاب
ظلم مت کر اسد اللہ کی جائی ہوں میں
ننگے سر پردے سے باہر نکل آئی ہوں میں
میری اماں کا ہے مشہور جہاں میں پردا
بعدِ رحلت بھی جنازہ نہ کسی نے دیکھا
اس کی بیٹی ہوں، ترے ظلم سے ، یہ وقت پڑا
سر برہنہ ہوں، گریباں بھی ہے کرتے کا پھٹا
منہ کو اللہ و پیمبر سے چھپاتا ہے تو
میں تو فریادی ہوں، اور آنکھ چراتا ہے تو
مارا جاتا ہے ترے سامنے زہراؔ کا پسر
دیکھتا ہے تو یہ تلواریں ہیں پڑتی کس پر
تیر کس کو لگے غربال ہوا کس کا جگر
ذبحِ کرنے کو کسے کھینچے ہے ظالم خنجر
دلِ زہرا، جگر شیرِ خدا، کٹتا ہے
ظلم سے تیرے، محمدؔ کا گلا کٹتا ہے
قتل مظلوم کو کیوں کرتا ہے، بے جرم و گناہ
اب تلک میں نے بہت صبر کیا ہے واللہ
دل جلی ہوں میں ابھی سینے سے کھینچوں گر آہ
تو بی جل جائے، تری فوج بھی ہو خاک سیاہ
بد دعا دوں میں تو نازل ابھی آفت ہووے
سر کے بالوں کو جو کھولوں تو قیامت ہووے
غش میں حضرت نے سنے جبکہ یہ زینبؔ کے سخن
کھول کر دیدۂ پرخوں کو اٹھائی گردن
دیکھا سر ننگے کھڑی روتی ہیں مقتل میں بہن
بنتِ زہراؔ کو پکارے یہ شہنشاہِ زمن
کیا کیا تم نے کہ پردے سے کھلے سر نکلیں
جیتے جی میرے سر پردے سے باہر نکلیں
کس کو سمجھاتی ہو، کوئی نہ سنے گا فریاد
باز آئے گا نہیں، قتل سے میرے جلاد
جتنا تم پیٹتی ہو، اور لعیں ہوتے ہیں شاد
حشر کے روز خدا دیوے گا اس خون کی داد
شوق مرنے کا ہے، سر تن سے جدا ہونے دو
جاؤ گھر میں، مجھے امت پہ فدا ہونے دو
گود میں میری سکینہؔ کو اٹھاؤ ہمشیر
کوئی اصغر کی طرح مار نہ بیٹھے اسے تیر
پھر یہ بیٹی کو پکارے ترے صدقے شبیرؔ
تو بھی جا ساتھ پھوپھی جان کے اب اے دلگیر
وقتِ طاعت ہے ذرا یادِ خدا کر لیویں
ہم بھی اب آتے ہیں، سجدے کو ادا کر لیویں
کہہ کے یہ غش ہوئے پھر رن میں شہنشاہ امم
شمرِ اظلم نے رکھا، سینۂ اقدس پہ قدم
جگرِ فاطمہؔ زہرا پہ چلی تیغِ دو دم
آگے زینبؔ کے ہوئے ذبح حسینؔ آہ ستم
پیٹ کر بنت شہنشاہِ زمن رونے لگی
باپ کو بیٹی، برادر کو بہن رونے لگی
فتح کا فوج مخالف میں بجا نقارا
غل ہوا قتل ہوا شیر خدا کا پیارا
بس انیسؔ اب نہیں گویائی کا مجھ کو یارا
غم سے خوں ہو گیا سینہ میں کلیجا سارا
کس سے اس درد و مصیبت کا بیاں ہوتا ہے
آنکھیں روتی ہیں قلم روتا ہے دل روتا ہے
ظلم کی چاند پہ زہراؔ کی گھٹا چھائی ہے
اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے
یاں نہ بیٹا نہ بھتیجا نہ کوئی بھائی ہے
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں
مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں
زخمی بازو ہیں کمر خم ہے بدن میں نہیں تاب
ڈگمگاتے ہیں نکل جاتی ہے قدموں سے رکاب
پیاس کا غلبہ ہے لب خشک ہیں آنکھیں ہیں پر آب
تیغ سے دیتے ہیں ہر وار کا اعدا کو جواب
شدتِ ضعف میں جس جا پہ ٹھہر جاتے ہیں
سیکڑوں تیر ستم تن سے گذر جاتے ہیں
گیسو آلودۂ خوں لپٹے ہیں رخساروں سے
شانے کٹ کٹ کے لٹک آئے ہیں تلواروں سے
تیر پیوست ہیں خوں بہتا ہے سوفاروں سے
لاکھ آفت میں ہے اک جان دل آزاروں سے
فکر ہے سجدۂ معبود ہیں سر دینے کی
وار سے تیغوں کے فرصت نہیں، دم لینے کی
خون سے تر پیچ عمامے کے ہیں سر زخمی ہے
ہے جبیں چاند سی پر نور مگر زخمی ہے
سینہ سب برچھیوں سے تا بہ کمر زخمی ہے
تیرِ بیداد سے دل زخمی، جگر زخمی ہے
ضربِ شمشیر سے بیکار ہیں بازو دونوں
ظلم کے تیروں سے مجروح ہیں پہلو دونوں
برچھی آ کر کوئی پہلو میں لگا جاتا ہے
مارتا ہے کوئی نیزہ تو غش آجاتا ہے
بڑھتے ہیں زخمِ بدن، زور گھٹا جاتا ہے
بند آنکھیں ہیں، سرِ پاک جھکا جاتا ہے
گردِ زہراؔ و علیؔ گریہ کناں پھرتے ہیں
غل ہے گھوڑے سے امام دو جہاں گرتے ہیں
گرتے ہیں قطرۂ خوں زخمِ جبیں سے پیہم
دستِ مجروح سے کھنچ سکتے نہیں تیرِ ستم
فکر ہے بخششِ امت کی کچھ اپنا نہیں غم
کرتے ہیں شکرِ خدا خشک زباں سے ہر دم
ہے عبا تیروں سے غرباں قبا گلگوں ہے
ہونٹ یا وقت سے زخمی ہیں دہن پر خوں ہے
زیں سے ہوتا ہے جدا دوشِ محمد کا مکیں
چمنِ فاطمہ کا سرو ہے مائل بہ زمیں
برچھیاں گرد ہیں اور بیچ میں ہیں سرورِ دیں
ہے یہ نزدیک گرے مہرِ نبوت کا نگیں
پاؤں ہر بار رکابوں سے نکل جاتے ہیں
یا علیؔ کہتی ہے زینبؔ تو سنبھل جاتے ہیں
لاکھ تلواریں ہیں اورایک تنِ اطہر ہے
ایک مظلوم ہے اور ظالموں کا لشکر ہے
سیکڑوں خنجرِ فولاد ہیں اور اک سر ہے
نہ کوئی یار، نہ ہمدم، نہ کوئی یاور ہے
باگ گھوڑے کی لٹکتی ہے، اٹھا سکتے نہیں
سامنے اہلِ حرم روتے ہیں، جا سکتے ہیں
کوئی سید کا نہیں آہ، بچانے والا
حربے لاکھوں ہیں، اور اک زخم اٹھانے والا
پیاس میں کوئی نہیں، پانی پلانے والا
سنبھلے کس طرح بھلا، برچھیاں کھانے والا
چرخ سے آگ برستی ہے زمیں جلتی ہے
مارے گرمی کے زباں خشک ہے، لُو چلتی ہے
کہیں دم لینے کو سایہ نہیں، ہے وقت زوال
اینٹھی جاتی ہے زباں پیاس کی شدت ہے کمال
کبھی زینبؔ کا ہے غم گاہ سکینہؔ کا خیال
دن جو ڈھلتا ہے تو حضرت ہوئے جاتے ہیں نڈھال
مثلِ خورشید، بدن ضعف سے تھراتا ہے
نیر برجِ امامت پہ زوال آتا ہے
کہتے ہیں ظالموں سے، خشک زباں دکھلا کر
بہرِ حق پانی کا، اک جام پلادو لا کر
اہلِ کیں کہتے ہیں یہ تیغِ ستم چمکا کر
آبِ شمشیر پیو برچھیوں کے پھل کھا کر
یہ سخن سن کے بھی غصہ نہیں فرماتے ہیں
یاس سے سوئے فلک دیکھ کے رہ جاتے ہیں
عرض کرتے ہیں یہ خالق سے کہ اے لبِ غفور!
تو ہے عالم کہ نہیں کچھ ترے بندے کا قصور
کرتے ہیں یہ مجھے بے جرم و خطا تیغوں سے چور
ہاتھ امت پہ اٹھانا نہیں مجھ کو منظور
جانتے ہیں کہ محمدؔ کا نواسا ہوں میں
پانی دیتے نہیں دو روز کا پیاسا ہوں میں
تو نے بچپن سے مرے ناز اٹھائے یارب
وہ عنایت کیا جو تجھ سے کیا میں نے طلب
تیرا محبوب بنا عید کو میرا مرکب
روزہ رکھا تو چھپا مہر نمایاں ہوئی شب
بھوک میں خلد کا کھانا مجھے امداد کیا
بھیج کر ہرنی کا بچہ مرا دل شاد کیا
اب اگر ہے یہ تری مصلحت اے ربِّ قدیر
ہو رواں حلق پہ اس پیاسے کے آبِ شمشیر
میرے مولا بہ سر و چشم ہے حاضر شبیر
حکمِ حاکم میں یہ طاقت ہے کروں میں تاخیر
جلد گردن پہ رواں، خنجرِ برّآں ہووے
اے خوشا وہ، جو تری راہ میں قرباں ہووے
غم نہیں کچھ مجھے گو بیکس و بے یار ہوں میں
زیرِ شمشیر گلا رکھنے کو تیار ہوں میں
تو مددگار ہے، مختار ہے لاچار ہوں میں
وقتِ مشکل ہے، عنایت کا طلبگار ہوں میں
تیرے سجدے میں یہ سر تن سے جدا ہو جاوے
عہدِ طفلی کا جو وعدہ ہے، وفا ہو جاوے
سختیاں مرگ کی کر اپنے کرم سے آساں
لب پہ تکبیر ہو، جب خلق پہ خنجر ہو رواں
دل میں ہو یاد تری، بند ہو جس وقت زباں
دم بھروں تیرا ہی تن سے جو نکلنے لگے جاں
بعدِ چہلم جو مجھے قبر میسر ہووے
زخمی تن پر نہ فشار اے مرے داور ہووے
رحم کر رحم کر شرمندہ ہوں اے یارِ خدا
بندگی کا ترے جو حق تھا ادا ہو نہ سکا
خوفِ محشر سے، بدن کانپتا ہے، سرتاپا
ہوگی اعمال کی پرسش تو، کہوں گا میں کیا؟
کوئی تحفہ ترے لائق نہیں پاتا ہے حسینؔ
ہاتھ خالی ترے دربار میں آتا ہے حسینؔ
تقویت دل کو کرم سے ہے ترے یا رحماں
نہیں مایوس کہ رحمت ہے تری بے پایاں
مشکلیں بندوں کی کر دیتا ہے دم میں آساں
شکر الطاف و عنایات میں قاصر ہے زباں
عاصیوں سے بھی محبت نہیں کم کرتا ہے
جرم وہ کرتے ہیں تو لطف و کرم کرتا ہے
میں تری راہ میں مظلومی سے ہوتا ہوں فدا
تو ہے آگاہ کہ دو دن کا ہوں بھوکا پیاسا
چاہتا ہوں میں یہی، اپنی شہادت کا صلا
مغفرت امتِ عاصی کی ہو اے بارِ خدا
ہے گوارا مجھے جو کچھ کہ اذیت ہووے
ان کو دنیا میں بھی عقبیٰ میں بھی راحت ہووے
عرض کرتے تھے یہ خالق سے شۂ بندہ نواز
یک بیک عالمِ بالا سے یہ آئی آواز
اے مرے شیر کے فرزند، نبی کے دمساز
تجھ سے ہم خوش ہیں پذیرا ہے ترا عجر و نیاز
مرد ہے عاشقِ کامل ہے، وفادار ہے تو
جو کہا وہ ہی کیا صادق الاقرار ہے تو
تو بھی مقبول ہے اور تیری عبادت بھی قبول
یہ اطاعت بھی ہے مقبول، یہ طاعت بھی قبول
عاجزی بھی تری مقبول، شہادت بھی قبول
تیری خاطر سے ہمیں بخششِ امت بھی قبول
ہم نے خیل شہدا کا تجھے سردار کیا
امتِ احمد مختار کا مختار کیا
دوست داروں کا ترے گلشنِ جنت ہے مقام
تاابد سایۂ طوبیٰ میں کریں گے آرام
ہوں گے محشور ترے ساتھ عزادار تمام
تجھ کو جو روئیں گے آنچ ان پہ ہے دوزخ کی حرام
غم نہ کھا! اہلِ جہاں تیرے محب سارے ہیں
تو ہے پیارا، ترے پیارے میں بھی ہمیں پیارے ہیں
ہوں گے ہر رنج سے، محفوظ ترے تعزیہ دار
سختیِٔ مرگ نہ ان کو ہے، نہ ایذائے فشار
دمِ مردن نظر آوے گا علیؔ کا دیدار
قبر سے گلشنِ فردوس کی دیکھیں گے بہار
دار دنیا ہی میں ہیں جو سو انہیں ایذا ہے
آنکھیں جب بند ہوئیں پھر، درِ جنت وا ہے
تجھ سا عابد نہ ہوا ہے، نہ کوئی ہووے گا
تیر کھا کھا کے کسی نے بھی ہے یوں شکر کیا
طاعتِ خلق سے اک سجدہ ہے افضل تیرا
عرشِ اعظم پہ، ملائک تری کرتے ہیں ثنا
سارا گھر میری محبت میں، فنا تو نے کیا
بندگی کا تھا جو کچھ حق وہ ادا تو نے کیا
حشر تک روئے گا مظلومی پہ تیری عالم
تیرا ماتم نہیں ہووے گا جہاں میں کبھی کم
روضۂ پاک کو تیرے یہ شرف بخشیں گے ہم
آئیں گے جس کی زیارت کو ملک ہو کے بہم
یہ زمیں عرش سے رتبے میں سوا ہووے گی
خاک تربت کی تری خاکِ شفا ہووے گی
یہ صدا سن کے ہوئے شاد شۂ ہر دوسرا
آ گئی از سرِ نو جسم میں طاقت گویا
جھک کے سجدے کی طرف عجز سے رو کر یہ کہا
میرے مولا میں تری بندہ نوازی کے فدا
کیوں نہ ممتاز ہو وہ تو جسے رتبہ بخشے
اس کفِ خاک کو کیا رتبۂ اعلیٰ بخشے
ابھی مولا نے سرِ عجز اٹھایا نہ تھا آہ
نیزہ اک چھاتی پہ مارا جو کسی نے ناگاہ
غش میں گرنے لگے گھوڑے سے امامِ ذی جاہ
آئی خاتونِ قیامت کی صدا بسم اللہ
تھامنے آئے علیؔ خلد سے گھبرائے ہوئے
دوڑے محبوبِ خدا ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے
اک جفا کیش نے پھر پہلو پہ نیزہ مارا
چھد گیا توڑ کے چھاتی کو کلیجہ سارا
پشتِ تازی پہ، سنبھلنے کا نہ پایا یارا
گر پڑا خاک پہ، وہ عرشِ خدا کا تارا
گرد آلود قبائے شۂ پرنور ہوئی
ریت زخموں کے لیے مرہم کافور ہوئی
خاک و خوں میں جو تڑپتے تھے ، شہنشاہِ زمن
گل کے مانند کھلے جاتے تھے سب زخمِ بدن
طلبِ آب میں کھولے ہوئے تھے خشک دہن
گرد کھینچے ہوئے تلواریں کھڑے تھے دشمن
غمِ ناموس بھی تھا، پیاس کی بھی شدت تھی
پھر سکینہؔ کو نہ دیکھ آئے یہی حسرت تھی
کان میں آتی تھی زینبؔ کے صدائے جاںکاہ
دل تڑپ جاتا تھا کرتے تھے عجب درد سے آہ
راہ روکے ہوئے خیمے کی، کھڑے تھے گمراہ
نیم وا چشم سے کرتے تھے سوئے خیمہ نگہ
تنِ زخمی پہ جو پیکانِ ستم گڑتے تھے
خاک سے اٹھتے تھے اور کانپ کے گر پڑتے تھے
کہتا تھا فوج میں سب سے عمر بد اختر
کھنچے کیوں تیغوں کو ہاتھوں میں کھڑے ہو ششدر
ریگِ تفتیدہ پہ ہے غش میں، علیؔ کا دلبر
جاؤ کیا دیر ہے ، کاٹو شۂ مظلوم کا سر
تیغ سے فاطمہؔ زہرا کا گلا چاک کرو
جلد ہاں خاتمۂ پنجتن پاک کرو
ایسے مظلوم کا، سر کاٹنا کیا ہے دشوار
جس کا کوئی بھی مددگار، نہ ہمدرد، نہ یار
عورتیں ہیں کئی خیمے میں غریب و ناچار
مر چکے پہلے ہی جو خون کے تھے دعویدار
خوں بہا بھی نہ کوئی مانگنے کو آوے گا
اک پسر ہے سو وہ بیمار ہے مرجاوے گا
کانپ کر کہتے تھے سب ہم سے نہ ہوگا یہ ستم
ذبح فرزندِ محمدؔ کو نہیں کرنے کے ہم
ایسے مظلوم کی چھاتی پہ جو رکھے گا قدم
پاؤں جل جائے گا تھرائے گا عرشِ اعظم
پیٹتے قبر سے محبوب خدا آویں گے
بخدا فاطمہ کی آہ سے جل جاویں گے
کون بے کس کو بھلا ذبح کرے بے تقصیر
پھرتا ہے کوئی پیاسے کے گلے پر شمشیر؟
گو کہ بے کس ہے پہ آساں نہیں، قتلِ شبیرؔ
حشر میں ہوئیں گے محبوبِ خدا دامن گیر
تو سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی خوں خواہ نہیں
بنتِ احمدؔ نہیں، حیدر نہیں، اللہ نہیں
تھا جو دمساز عمر ابن نمیر اظلم
بڑھ کے تیغ اس نے سرِ شاہ پہ ماری اس دم
تا جبیں ہو گیا مجروح سرِ شاہِ امم
تھام کر سر کو پکارے یہ امامِ عالم
نہ میسر تجھے اس ہاتھ سے کھانا ہووے
تو تہی دست جہنم کو روانہ ہووے
چاہا ظالم نے کہ پھر شۂ پہ کرے تیغ کا وار
دیکھا انگشت بدنداں ہیں رسولؐ مختار
خشک اس وقت ہوئے دستِ ستمگر اک بار
ہاتھ سے تیغ گری خوف سے بھاگا، خوں خوار
یاں سرِ پاک سے حضرت کے لہو جاری تھا
خم سوئے قبلہ تھے، بند آنکھیں تھیں غش طاری تھا
جب تڑپنے کی بھی طاقت نہ رہی سرور کو
غل ہوا یہ کہ غش آیا، خلفِ حیدر کو
فوج سے شمر بڑھا کھینچے ہوئے خنجر کو
سب سے کہتا تھا کہ اب کاٹو سرِ سرور کو
خلفِ احمدِ مختار کا قاتل ہوں میں
کام میرا ہے، اسی کام کے قابل ہوں میں
مجھ کو حیدرؔ سے غرض ہے نہ محمدؔ سے ہے کام
رو دیں محبوبِ خدا ہووے خوشی حاکمِ شام
دولتِ فاطمہؔ لے جاؤں میں پاؤں انعام
روح حیدرؔ کی ہو بے چین، مجھے ہو آرام
منہ نہ میں دولتِ دنیا سے کبھی پھیروں گا
آج زہراؔ کے کلیجے پہ چھری پھیروں گا
تیز کرتا ہوا خنجر کو گیا شہ کے قریں
آسماں ہل گیا تھرا گئی مقتل کی زمیں
رو رو چلانے لگی زینبِؔ ناشادِ حزیں
غش میں بھی گھیرے ہیں، ہے ہے مرے بھائی کو لعیں
رحم زہراؔ کے پسر پر نہیں کھاتا کوئی
خاک سے بھی نہیں زخمی کو اٹھاتا کوئی
کس سے فریاد کروں، جا کے میں دکھیا ہے ہے
نہ محمدؔ ہیں نہ حیدرؔ ہیں نہ زہرا ہے ہے
لاکھ دشمن ہیں مرا بھائی ہے تنہا ہے ہے
تیغوں سے کٹتا ہے، زہراؔ کا کلیجا ہے ہے
سروِ گلزارِ رسالت کو قلم کرتے ہیں
ہائے سید پہ، مسافر پہ ستم کرتے ہیں
گرد زینب کے تھا ناموس پیمبر کا ہجوم
بانو روتی تھی، کھڑی پیٹتی تھی سر، کلثوم
کہتی تھی دیکھ کے میداں کو سکینہ معصوم
اے پھوپھی! نرغۂ اعدا میں ہیں شاہِ مظلوم
جاؤں گی اب میں ٹھہرنے کی نہیں آپ کے پاس
شمرؔ خنجر لیے جاتا ہے ، مرے باپ کے پاس
باپ کے پاس سے ، جا کر اسے سرکاؤں گی
جوڑ کر ہاتھوں کو منت سے میں سمجھاؤں گی
اپنے بابا کی میں چھاتی سے لپٹ جاؤں گی
خیمے تک ان کو سنبھالے ہوئے لے آؤں گی
بھوکے پیاسے، مرے بابا کو نہ مارے کوئی
ان کے بدلے، مرا سر تن سے اتارے کوئی
کتنا روکا اسے بانو نے پہ ہرگز نہ رکی
چھوٹے سے ہاتھون سے سر پیٹتی میداں کو چلی
پیچھے سر کھولے ہوئے خیمے سے زینبؔ نکلی
پہونچی رن میں تو سکینہؔ یہ عمر سے بولی
او لعیں حیدرِؔ کرار کی پوتی ہوں میں
رحم کر! مجھ پہ کہ بِن باپ کی ہوتی ہوں میں
دیکھ غربت کو مری کر مرے بچپن پہ نظر
باپ مارا گیا میرا تو جیوں گی کیوں کر؟
سر پہ آوے گی یتیمی تو میں جاؤں گی کدھر؟
میں تو ہوں باپ کی شیدا مرا عاشق ہے پدر
باپ بن ایک دم آرام نہ آوے گا مجھے
کون پھر رات کو چھاتی پہ سلاوے گا مجھے
ہنسلیاں اپنی گلے سے تجھے دیتی ہوں اتار
لے مرے کان کا دُر، پر مرے بابا کو نہ مار
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں ترے آگے ناچار
منع کردے کوئی بیکس کو نہ مارے تلوار
گھر میں جو کچھ زر و زیور ہے، وہ لادوں گی میں
جان بابا کی بچے گی تو دعا دوں گی میں
بھیڑ میں مجھ کو نظر آتے نہیں بابا جاں
اتنا کہہ دے کہ سرک جائیں یہ سب بے ایماں
گرد پھر پھر کے، میں ہوں اپنے پدر کے قرباں
جا کے دیکھوں گی، بدن پر ہیں لگے زخم کہاں
دمِ آخر تو بھلا کام میں آؤں ان کے
اپنے کرتے سے لہو منہ کا چھڑاؤں ان کے
کتنا کہتی رہی وہ بنتِ شۂ عرشِ جناب
اس ستمگر نے دیا کچھ نہ سکینہؔ کو جواب
پیٹ کر سر کہا زینبؔ نے کہ او خانہ خراب
تجھ کو آتا نہیں کچھ روحِ پیمر سے حجاب
ظلم مت کر اسد اللہ کی جائی ہوں میں
ننگے سر پردے سے باہر نکل آئی ہوں میں
میری اماں کا ہے مشہور جہاں میں پردا
بعدِ رحلت بھی جنازہ نہ کسی نے دیکھا
اس کی بیٹی ہوں، ترے ظلم سے ، یہ وقت پڑا
سر برہنہ ہوں، گریباں بھی ہے کرتے کا پھٹا
منہ کو اللہ و پیمبر سے چھپاتا ہے تو
میں تو فریادی ہوں، اور آنکھ چراتا ہے تو
مارا جاتا ہے ترے سامنے زہراؔ کا پسر
دیکھتا ہے تو یہ تلواریں ہیں پڑتی کس پر
تیر کس کو لگے غربال ہوا کس کا جگر
ذبحِ کرنے کو کسے کھینچے ہے ظالم خنجر
دلِ زہرا، جگر شیرِ خدا، کٹتا ہے
ظلم سے تیرے، محمدؔ کا گلا کٹتا ہے
قتل مظلوم کو کیوں کرتا ہے، بے جرم و گناہ
اب تلک میں نے بہت صبر کیا ہے واللہ
دل جلی ہوں میں ابھی سینے سے کھینچوں گر آہ
تو بی جل جائے، تری فوج بھی ہو خاک سیاہ
بد دعا دوں میں تو نازل ابھی آفت ہووے
سر کے بالوں کو جو کھولوں تو قیامت ہووے
غش میں حضرت نے سنے جبکہ یہ زینبؔ کے سخن
کھول کر دیدۂ پرخوں کو اٹھائی گردن
دیکھا سر ننگے کھڑی روتی ہیں مقتل میں بہن
بنتِ زہراؔ کو پکارے یہ شہنشاہِ زمن
کیا کیا تم نے کہ پردے سے کھلے سر نکلیں
جیتے جی میرے سر پردے سے باہر نکلیں
کس کو سمجھاتی ہو، کوئی نہ سنے گا فریاد
باز آئے گا نہیں، قتل سے میرے جلاد
جتنا تم پیٹتی ہو، اور لعیں ہوتے ہیں شاد
حشر کے روز خدا دیوے گا اس خون کی داد
شوق مرنے کا ہے، سر تن سے جدا ہونے دو
جاؤ گھر میں، مجھے امت پہ فدا ہونے دو
گود میں میری سکینہؔ کو اٹھاؤ ہمشیر
کوئی اصغر کی طرح مار نہ بیٹھے اسے تیر
پھر یہ بیٹی کو پکارے ترے صدقے شبیرؔ
تو بھی جا ساتھ پھوپھی جان کے اب اے دلگیر
وقتِ طاعت ہے ذرا یادِ خدا کر لیویں
ہم بھی اب آتے ہیں، سجدے کو ادا کر لیویں
کہہ کے یہ غش ہوئے پھر رن میں شہنشاہ امم
شمرِ اظلم نے رکھا، سینۂ اقدس پہ قدم
جگرِ فاطمہؔ زہرا پہ چلی تیغِ دو دم
آگے زینبؔ کے ہوئے ذبح حسینؔ آہ ستم
پیٹ کر بنت شہنشاہِ زمن رونے لگی
باپ کو بیٹی، برادر کو بہن رونے لگی
فتح کا فوج مخالف میں بجا نقارا
غل ہوا قتل ہوا شیر خدا کا پیارا
بس انیسؔ اب نہیں گویائی کا مجھ کو یارا
غم سے خوں ہو گیا سینہ میں کلیجا سارا
کس سے اس درد و مصیبت کا بیاں ہوتا ہے
آنکھیں روتی ہیں قلم روتا ہے دل روتا ہے
- میر-انیس
किस शेर की आमद है कि रन काँप रहा है
रुस्तम का जिगर ज़ेर-ए-कफ़न काँप रहा है
हर क़स्र-ए-सलातीन-ए-ज़मन काँप रहा है
सब एक तरफ़ चर्ख़-ए-कुहन काँप रहा है
शमशीर-बकफ़ देख के हैदर के पिसर को
जिब्रील लरज़ते हैं समेटे हुए पर को
हैबत से हैं न क़िला-ए-अफ़लाक के दरबंद
जल्लाद-ए-फ़लक भी नज़र आता है नज़र-बंद
वा है कमर-ए-चर्ख़ से जौज़ा का कमर-बंद
सय्यारे हैं ग़लताँ सिफ़त-ए-ताइर-ए-पुर-बंद
अंगुश्त-ए-अतारिद से क़लम छूट पड़ा है
ख़ुरशीद के पंजे से इल्म छूट पड़ा है
ख़ुद फ़ितना ओ शर पढ़ रहे हैं फ़ातिहा-ए-ख़ैर
कहते हैं अनल-अब्द लरज़ कर सनम-ए-दैर
जाँ ग़ैर है तन ग़ैर मकीँ ग़ैर मकाँ ग़ैर
ने चर्ख़ का है दूर न सय्यारों की है सैर
सकते में फ़लक ख़ौफ़ से मानिंद-ए-ज़ीं है
जुज़ बख़्त-ए-यज़ीद अब कोई गर्दिश में नहीं है
बे-होश है बिजली पे समंद इन का है होशियार
ख़्वाबीदा हैं सब ताला-ए-अब्बास है बे-दार
पोशीदा है ख़ुरशीद इल्म उन का नुमूदार
बे-नूर है मुँह चाँद का रुख़ उन का ज़िया-बार
सब जुज़ु हैं कल रुतबे में कहलाते हैं अब्बास
कौनैन पियादा हैं सवार आते हैं अब्बास
चमका के मह-ओ-ख़ौर ज़र ओ नुक़रा के असा को
सरकाते हैं पीरे फ़लक-ए-पुश्त-दोता को
अदल आगे बढ़ा हुक्म ये देता है क़ज़ा को
हाँ बांध ले ज़ुल्म-ओ-सितम-ओ-जोर-ओ-जफ़ा को
घर लूट ले बुग़्ज़-ओ-हसद-ओ-किज़्ब-ओ-रिया का
सर काट ले हिर्स-ओ-तमा-ओ-मकर-ओ-दग़ा का
राहत के महलों को बला पूछ रही है
हस्ती के मकानों को फ़ना पूछ रही है
तक़दीर से उम्र अपनी क़ज़ा पूछ रही है
दोनों का पता फ़ौज-ए-जफ़ा पूछ रही है
ग़फ़लत का तो दिल चौंक पड़ा ख़ौफ़ से हिल कर
फ़ितने ने किया ख़ूब गले कुफ्र से मिल कर
अल-नशर का हंगामा है इस वक़्त हश्र में
अल-सूर का आवाज़ा है अब जिन ओ बशर में
अल-जुज़ का है तज़किरा बाहम तन-ओ-सर में
अल-वस्ल का ग़ुल है सक़र ओ अहल-ए-सक़र में
अल-हश्र जो मुर्दे न पुकारें तो ग़ज़ब है
अल-मौत ज़बान-ए-मलक-उल-मौत पे अब है
रूकश है उस इक तन का न बहमन न तमहतीं
सुहराब ओ नरीमान ओ पशुन बे-सर ओ बे-तन
क़ारों की तरह तहत-ए-ज़मीं ग़र्क़ है क़ारन
हर आशिक़-ए-दुनिया को है दुनिया चह-ए-बे-ज़न
सब भूल गए अपना हस्ब और नस्ब आज
आता है जिगर-गोशा-ए-क़िताल-ए-अरब आज
हर ख़ुद निहाँ होता है ख़ुद कासा-ए-सर में
मानिंद-ए-रग-ओ-रेशा ज़र्रा छुपती है बर में
बे-रंग है रंग असलहे का फ़ौज-ए-उम्र में
जौहर है न तैग़ों में न रौगन है सिपर में
रंग उड़ के भरा है जो रुख़-ए-फ़ौज-ए-लईं का
चेहरा नज़र आता है फ़लक का न ज़मीं का
है शोर फ़लक का कि ये ख़ुरशीद-ए-अरब है
इंसाफ़ ये कहता है कि चुप तर्क-ए-अदब है
ख़ुरशीद-ए-फ़लक पर तव-ए-आरिज़ का लक़ब है
ये क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब है
हर एक कब इस के शरफ़-ओ-जाह को समझे
इस बंदे को वो समझे जो अल्लाह को समझे
यूसुफ़ है ये कुनआँ में सुलेमान है सबा में
ईसा है मसीहाई में मूसा है दुआ में
अय्यूब है ये सब्र में यहया है बका में
शपीर है मज़लूमी में हैदर है वग़ा में
क्या ग़म जो न मादर न पिदर रखते हैं आदम
अब्बास सा दुनिया में पिसर रखते हैं आदम
पंजे में यदुल्लाह है बाज़ू में है जाफ़र
ताअत में मुलक ख़ू में हसन ज़ोर में हैदर
इक़बाल में हाशिम तो तवाज़ो में पयंबर
और तंतना-ओ-दबदबा में हमज़ा-ए-सफ़दर
जौहर के दिखाने में ये शमशीर-ए-ख़ुदा है
और सर के कटाने में ये शाह-ए-शोहदा है
बे उन के शर्फ़ कुछ भी ज़माना नहीं रखता
ईमान सिवा उन के ख़ज़ाना नहीं रखता
क़ुरआँ भी कोई और फ़साना नहीं रखता
शपीर बगै़र उन के यगाना नहीं रखता
ये रूह-ए-मुक़द्दस है फ़क़त जलव-गिरी में
ये अक़ल-ए-मुजर्रिद है जमाल-ए-बशरी में
सहरा में गिरा परतव-ए-आरिज़ जो क़ज़ारा
सूरज की किरन ने किया शर्मा के किनारा
यूँ धूप एड़ी आग पे जिस तरह से पारा
मूसा की तरह ग़श हुए सब कैसा नज़ारा
जुज़ मदह न दम रोशनई-ए-तूर ने मारा
शब-ए-ख़ून अजब धूप पे उस नूर ने मारा
क़ुर्बान हवा-ए-इल्म-ए-शाह-ए-अमम के
सब ख़ार हरे हो के बने सर्व-ए-इरम के
हैं राज़ अयाँ ख़ालिक़-ए-ज़ुलफ़ज़्ल-ओ-करम के
जिब्रील ने पर खोले हैं दामन में इल्म के
पर्चम का जहाँ अक्स गिरा साइक़ा चमका
पर्चम कहीं देखा न सुना इस चम-ओ-ख़म का
क़र्ना में न दम है न जलाजुल में सदा में है
बूक़ ओ दहल ओ कोस की भी साँस हुआ है
हर दिल के धड़कने का मगर शोर बपा है
बाजा जो सलामी का उसे कहिए बजा है
सकते में जो आवाज़ है नक़्कारा-ए-वदफ़ की
नौबत है वरूद-ए-ख़ल्फ़-ए-शाह-ए-नजफ़ की
आमद को तो देखा रुख़-ए-पुर-नूर को देखो
वालशमश पढ़ो रौशनी-ए-तूर को देखो
लिए रौशनी-ए-माह को ने हूर को देखो
इस शम्मा-ए-मुराद-ए-मुलक-ओ-हूर को देखो
है कौन तजल्ली रुख़-ए-पुर-नूर की मानिंद
याँ रौशनी-ए-तूर जली तूर के मानिंद
मद्दाह को अब ताज़गी-ए-नज़्म में कद है
या हज़रत-ए-अब्बास-ए-अली वक़्त-ए-मदद है
मौला की मदद से जो सुख़न हो वो सनद है
इस नज़्म का जो हो ना मक़र उस को हसद है
हासिद से सुलह भी नहीं दरकार है मुझ को
सरकार-ए-हुसैनी से सरोकार है मुझ को
गुलज़ार है ये नज़्म ओ बयाँ बेशा नहीं है
बाग़ी को भी गुलगश्त में अंदेशा नहीं है
हर मिस्र-ए-पर-जस्ता है फल तेशा नहीं है
याँ मग़्ज़ सुख़न का है रग-ओ-रेशा नहीं है
सेहत मिरी तशख़ीस से है नज़्म के फ़न की
मानिंद-ए-क़लम हाथ में है नब्ज़ सुख़न की
गर काह मिले फ़ाएदा क्या कोहकनी से
मैं काह को गुल करता हूँ रंगीं-ए-सुख़नी से
ख़ुश-रंग है अलफ़ाज़ अक़ीक़-ए-यमनी से
ये साज़ है सोज़-ए-ग़म-ए-शाह-ए-मदनी से
आहन को करूँ नर्म तो आइना बना लूँ
पत्थर को करूँ गर्म तो मैं इत्र बना लूँ
गो ख़िलअत तहसीं मुझे हासिल है सरापा
पर वस्फ़ सरापा का तो मुश्किल है सरापा
हर अज़्व-ए-तन इक क़ुदरत-ए-कामिल है सरापा
ये रूह है सर-ता-बक़दम दिल है सरापा
क्या मिलता है गर कोई झगड़ता है किसी से
मज़मून भी अपना नहीं लड़ता है किसी से
सूरज को छुपाता है गहन आइना को ज़ंग
दाग़ी है क़मर-ए-सोख़्ता ओ लाला-ए-ख़ुश-रंग
क्या अस्ल दर- ओ लअल की वो पानी है ये संग
देखो गुल ओ ग़ुन्चा वो परेशाँ है ये दिल-ए-तंग
इस चेहरे को दावर ही ने लारेब बनाया
बे-ऐब था ख़ुद नक़्श भी बे-ऐब बनाया
इंसाँ कहे उस चेहरे को कब चश्मा-ए-हैवाँ
ये नूर वो ज़ुल्मत ये नुमूदार वो पिनहाँ
बरसों से है आज़ार-ए-बर्स में मह-ए-ताबाँ
कब से यरक़ाँ महर को है और नहीं दरमाँ
आइना है घर ज़ंग काया रंग नहीं है
इस आइना में रंग है और ज़ंग नहीं है
आइना कहा रुख़ को तो कुछ भी न सुना की
सनअत वो सिकन्दर की ये सनअत है ख़ुदा की
वाँ ख़ाक ने सैक़ल यहाँ क़ुदरत ने जिला की
ताला ने किस आइना को ख़ूबी ये अता की
हर आइने में चहरा-ए-इंसाँ नज़र आया
इस रुख़ में जमाल-ए-शहि-ए-मरदाँ नज़र आया
बे-मिस्ल-ए-हसीं है निगह-ए-अहल-ए-यकीं में
बस एक ये ख़ुर्शीद है अफ़्लाक ओ ज़मीं में
जलवा है अजब अब्रुओं का क़ुरब-ए-जबीं में
दो मछलियाँ हैं चश्मा-ए-ख़ुर्शीद-ए-मुबीं में
मर्दुम को इशारा है ये अबरुओं का जबीं पर
हैं दो मह-ए-नौ जलवा-नुमा चर्ख़-ए-बरीं पर
बीनी के तो मज़मूँ पे ये दावा है यक़ीनी
इस नज़्म के चेहरे की वो हो जाएगा बीनी
मंज़ूर निगह को जो हुई अर्श-ए-नशीनी
की साया-ए-बीनी ने फ़क़त जलवा-ए-गज़ीनी
दरकार इसी बीनी की मोहब्बत का असा है
ये राह तो ईमाँ से भी बारीक सिवा है
बीनी को कहूँ शम्मा तो लौ उस की कहाँ है
पर-नूर भंवोँ पर मुझे शोला का गुमाँ है
दो शोले और इक शम्मा ये हैरत का मकाँ है
हाँ ज़ुल्फ़ों के कूचों से हवा तुंद रवां है
समझो न भवें बस क़ि हवा का जो गुज़र है
ये शम्मा की लौ गाह इधर गाह इधर है
इस दर्जा पसंद इस रुख़-ए-रौशन की चमक है
ख़ुर्शीद से बर्गश्ता हर इक माह-ए-फ़लक है
अबरो का ये ग़ुल काबा-ए-अफ़्लाक तिलक है
महराब दुआ-ए-बशर-ओ-जिन-ओ-मलक है
देखा जो मह-ए-नौ ने इस अबरो के शर्फ़ को
कअबा की तरफ़ पुश्त की रुख़ उस की तरफ़ को
जो मानी-ए-तहक़ीक़ से तावील का है फ़र्क़
पतली से वही कअबा की तमसील का है फ़र्क़
सुरमा से और इस आँख से इक मील का है फ़र्क़
मील एक तरफ़ नूर की तकमील का है फ़र्क़
इस आँख पे उम्मत के ज़रा ख़िशम को देखो
नाविक की सिलाई को और उस चश्म को देखो
गर आँख को नर्गिस कहूँ है ऐन-ए-हिक़ारत
नर्गिस में न पलकें हैं न पुतली न बसारत
चेहरे पे मह-ए-ईद की बेजा है इशारत
वो ईद का मुज़्दा है ये हैदर की बशारत
अबरो की मह-ए-नौ में न जुंबिश है न ज़ौ है
इक शब वो मह-ए-नौ है ये हर शब मह-ए-नौ है
मुँह ग़र्क़-ए-अर्क़ देख के ख़ुरशीद हुआ तर
अबरो से टपकता है निरा तैग़ का जौहर
आँखों का अर्क़ रौगन-ए-बादाम से बेहतर
आरिज़ का पसीना है गुलाब-ए-गुल-ए-अहमर
क़तरा रुख़-ए-पुर-नूर पे ढलते हुए देखो
इत्र-ए-गुल-ए-ख़ुर्शीद निकलते हुए देखो
तस्बीह-ए-कुनाँ मुँह में ज़बान आठ पहर है
गोया दहन-ए-ग़ुन्चा में बरग-ए-गुल-ए-तर है
कब ग़ुन्चा ओ गुलबर्ग में ये नूर मगर है
इस बुर्ज में ख़ुर्शीद के माही का गुज़र है
तारीफ़ में होंटों की जो लब तर हुआ मेरा
दुनिया ही में क़ाबू लब-ए-कौसर हुआ मेरा
ये मुँह जो रदीफ़-ए-लब-ए-ख़ुश-रंग हुआ है
क्या फ़ाक़ीह ग़ुन्चा का यहाँ तंग हुआ है
अब मदह-ए-दहन का मुझे आहंग हुआ है
पर गुंचे का नाम इस के लिए नंग हुआ है
ग़ुन्चा कहा उस मुँह को हज़र अहल-ए-सुख़न से
सूंघे कोई बू आती है गुंचे के दहन से
शीरीं-रक्मों में रक़्म उस लब की जुदा है
इक ने शुक्र और एक ने याक़ूत लिखा है
याक़ूत का लिखना मगर इन सब से बजा है
याक़ूत से बढ़ जो लिखूँ मैं तो मज़ा है
चूसा है ये लब मिसल-ए-रत्ब हक़ के वली ने
याक़ूत का बोसा लिया किस रोज़ अली ने
जान-ए-फ़ुसहा रूह-ए-फ़साहत है तो ये है
हर कलिमा है मौक़े पे बलाग़त है तो ये है
एजाज़-ए-मसीहा की करामत है तो ये है
क़ाएल है नज़ाकत कि नज़ाकत है तो ये है
यूँ होंटों पे तस्वीर-ए-सुख़न वक़्त-ए-बयाँ है
या वक़्त से गोया रग-ए-याक़ूत अयाँ है
अब असल में शीरीं-दहनी की करों तहरीर
तिफ़ली में खुला जबकि यही ग़ुंचा-ए-तक़रीर
पहले ये ख़बर दी कि मैं हूँ फ़िदया-ए-शपीर
इस मुज़दे पे मादर ने उन्हें बख़्श दिया शीर
मुँह हैदर-ए-कर्रार ने मीठा किया उन का
शीरीनी-ए-एजाज़ से मुँह भर दिया उन का
उस लब से दम-ए-ताज़ा हर इक ज़िनदे ने पाया
जैसे शहि-ए-मरदाँ ने नसीरी को जलाया
जान बख़्शि-ए-अम्वात का गोया है ये आया
हम-दम दम-ए-रूह-ए-अक़दस उन का नज़र आया
दम क़ालिब-ए-बे-जाँ में जो दम करते थे ईसा
इन होंटों के एजाज़ का दम भरते थे ईसा
दाँतों की लड़ी से ये लड़ी अक़ल-ए-ख़ुदा-दाद
वो बात ठिकाने की कहूँ अब कि रहे याद
ये गौहर-ए-अब्बास हैं पाक उन की ये बुनियाद
अब्बास-ओ-नजफ़ एक हैं गिनिए अगर एदाद
मादिन के शरफ़ हैं ये जवाहर के शरफ़ हैं
दंदाँ दर-ए-अब्बास हैं तो दर-ए-नजफ़ हैं
अस्ना अशरी अब करें हाथों का नज़ारा
दस उंगलियाँ हैं मिस्ल-ए-इल्म इन में सफ़-ए-आरा
हर पंजे का है पंजितनी को ये इशारा
ऐ मोमिनो अशरा में इल्म रखना हमारा
पहले मिरे आक़ा मिरे सालार को रोना
फिर ज़ेर-ए-इल्म उन के अलमदार को रोना
ता-मू-ए-कमर फ़िक्र का रिश्ता नहीं जाता
फ़िक्र एक तरफ़ वहम भी हाशा नहीं जाता
पर फ़िक्र-ए-रसा का मिरी दावा नहीं जाता
मज़मून ये नाज़ुक है कि बांधा नहीं जाता
अब जे़ब-ए-कमर तेग़-ए-शरर-ए-बार जो की है
अब्बास ने शोला को गिरह बाल से दी है
उश्शाक हूँ अब आलम-ए-बाला की मदद का
दरपेश है मज़मून-ए-अलमदार के क़द का
ये है क़द-ए-बाला पिस्र-ए-शेर-ए-समद का
या साया मुजस्सम हुआ अल्लाहु-अहद का
इस क़द पे दो अबरो की कशिश क्या कोई जाने
खींचे हैं दो मद एक अलिफ़ पर ये ख़ुदा ने
ने चर्ख़ के सौ दौरे न इक रख़्श का कावा
देता है सदा उम्र-ए-रवाँ को ये भुलावा
ये क़िस्म है तरकीब-ए-अनासिर के अलावा
अल्लाह की क़ुदरत है न छल-बल न छलावा
चलता है ग़ज़ब चाल क़दम शल है क़ज़ा का
तौसन न कहो रंग उड़ा है ये हवा का
गर्दिश में हर इक आँख है फ़ानुस-ए-ख़याली
बंदिश में हैं नाल उस के रुबाई-ए-हिलाली
रौशन है कि जौज़ा ने अनाँ दोष पे डाली
भर्ती से है मज़मून रिकाबों का भी ख़ाली
सरअत है अंधेरे और उजाले में ग़ज़ब की
अंधयारी उसे चाँदनी है चौधवीं शब की
गर्दूं हो कभी हम-क़दम उस का ये है दुशवार
वो क़ाफ़िले की गर्द है ये क़ाफ़िला-सालार
वो ज़ोअफ़ है ये ज़ोर वो मजबूर ये मुख़्तार
ये नाम है वो नंग है ये फ़ख़्र है वो आर
इक जस्त में रह जाते हैं यूँ अर्ज़ ओ समा दूर
जिस तरह मुसाफ़िर से दम-ए-सुब्ह सिरा दूर
जो बूँद पसीने की है शोख़ी से भरी है
इन क़तरों में परियों से सिवा तेज़ी परी है
गुलशन में सुब्ह बाग़ में ये कुबक-दरी है
फ़ानूस में परवाना है शीशे में परी है
ये है वो हुमा जिस के जिलौ-दार मलक हैं
साये की जगह पर के तले हफ़्त फ़लक हैं
ठहरे तो फ़लक सब को ज़मीं पर नज़र आए
दौड़े तो ज़मीं चर्ख़-ए-बरीं पर नज़र आए
शहबाज़ हवा का न कहीं पर नज़र आए
राकिब ही फ़क़त दामन-ए-ज़ीं पर नज़र आए
इस राकिब ओ मुरक्कब की बराबर जो सना की
ये इल्म ख़ुदा का वो मशीय्यत है ख़ुदा की
शोख़ी में परी हुस्न में है हूर-ए-बहिश्ती
तूफ़ान में राकिब के लिए नूह की कश्ती
कब अबलक़-ए-दौराँ में है ये नेक-ए-सरिश्ती
ये ख़ैर है वो शर है ये ख़ूबी है वो ज़श्ती
सहरा में चमन फ़सल-ए-बहारी है चमन में
रहवार है अस्तबल में तलवार है रन में
इस रख़्श को अब्बास उड़ाते हुए आए
कोस-ए-लिमन-उल-मलक बजाते हुए आए
तकबीर से सोतों को जगाते हुए आए
इक तेग़-ए-निगह सब पे लगाते हुए आए
बे चले के खींचे हुए अबरो की कमाँ को
बे हाथ के ताने हुए पलकों की सनाँ को
लिखा है मुअर्रिख़ ने कि इक गब्र-ए-दिलावर
हफ़तुम से फ़िरोकश था मियान-ए-सफ़-ए-लश्कर
रोईं तन ओ संगीं दिल ओ बद-बातिन ओ बदबर
सर कर के मुहिम नेज़ों पे लाया था कई सर
हमराह शक्की फ़ौज थी डंका था निशाँ था
जागीर के लेने को सू-ए-शाम रवाँ था
तक़दीर जो रन में शब-ए-हफ़तुम उसे लाई
ख़लवत में उसे बात उमर ने ये सुनाई
दरपेश है सादात से हम को भी लड़ाई
वान पंचतनी चंद हैं याँ सारी ख़ुदाई
अकबर का न क़ासिम का न शप्पीर का डर है
दो लाख को अल्लाह की शमशीर का डर है
बोला वो लरज़ कर कि हुआ मुझ को भी विस्वास
शमशीर-ए-ख़ुदा कौन उमर बोला कि अब्बास
उस ने कहा फिर फ़तह की क्यूँ कर है तुझे आस
बोला कि कई रोज़ से इस शेर को है प्यास
हम भी हैं बहादुर नहीं डरते हैं किसी से
पर रूह निकलती है तो अबास-अली से
तशरीफ़ अलमदार-जरी रन में जो लाया
इस गबर को चुपके से उमर ने ये सुनाया
अंदेशा था जिस शेर के आने का वो आया
सर उस ने परे से सो-ए-अब्बास उठाया
देखा तो कहा काँप के ये फ़ौज-ए-वग़ा से
रूबा हो लड़ाते हो मुझे शेर-ए-ख़ुदा से
माना कि ख़ुदा ये नहीं क़ुदरत है ख़ुदा की
मुझ में है निरा ज़ोर ये क़ूत है ख़ुदा की
की ख़ूब ज़ियाफ़त मिरी रहमत है ख़ुदा की
सब ने कहा तुझ पर भी इनायत है ख़ुदा की
जा उज़्र न कर नाम है मर्दों का इसी से
तो दबदबा-ए-ओ-ज़ोर में क्या कम है किसी से
बादल की तरह से वो गरजता हुआ निकला
जल्दी में सुलह जंग के बजता हुआ निकला
हरगाम रह-ए-उम्र को तजता हुआ निकला
और सामने नक़्क़ारा भी बजता हुआ निकला
ग़ालिब तहमतन की तरह अहल-ए-जहाँ पर
धॅंसती थी ज़मीं पाँव वो रखता था जहाँ पर
तैय्यार कमर कस के हुआ जंग पे ख़ूँख़ार
और पैक अजल आया कि है क़ब्र भी तैय्यार
ख़ंजर लिया मुँह देखने को और कभी तलवार
मिसल-ए-वर्म-ए-मर्ग चढ़ा घोड़े पे इक बार
वो रख़्श पे या देव-दनी तख़्त-ए-ज़री पर
ग़ुल रन में उठा कोई चढ़ा कबक-ए-दरी पर
इस हैयत ओ हैबत से वो नख़्वत-ए-सैर आया
आसेब को भी साए से उस के हज़्र आया
मैदान-ए-क़यामत को भी महशर नज़र आया
गर्द अपने लिए नेज़ों पे किश्तों के सर आया
ज़िंदा ही पि-ए-सैर न हर सफ़ से बढ़े थे
सर मर्दों के नेज़ों पे तमाशे को चढ़े थे
सीधा कभी नेज़े को हिलाया कभी आड़ा
पढ़ पढ़ के रज्ज़ बाग़-ए-फ़साहत को उजाड़ा
ज़ालिम ने कई पुश्त के मर्दों को उखाड़ा
बोला मेर हैबत ने जिगर-शेरों का फाड़ा
हम पंचा न रुस्तम है न सोहराब है मेरा
मर्हब बिन-अब्दुलक़मर अलक़ाब है मेरा
फ़ित्राक में सर बांधता हूँ पील-ए-दमाँ का
पंजा मैं सदा फेरता हूँ शेर-ए-ज़ियाँ का
नज़ारा ज़रा कीजिए हर शाख़-ए-सनाँ का
इस नेज़े पे वो सर है फ़ुलाँ-इब्न-ए-फ़ुलाँ का
जो जो थे यलान-ए-कुहन इस दौरा-ए-नौ में
तन उन के तह-ए-ख़ाक हैं सर मेरे जिलौ में
याँ सैफ-ए-ज़बाँ सैफ-ए-इलाही ने इल्म की
फ़रमाया मिरे आगे है तक़रीर सितम की
अब मुँह से कहा कुछ तो ज़बाँ मैं ने क़लम की
कौनैन ने गर्दन मिरे दरवाज़े पे ख़म की
ताक़त है हमारी असदुल्लाह की ताक़त
पंजे में हमारे है यद-अल्लाह की ताक़त
अब्दुलक़मर-ए-नहस का तू दाग़-ए-जिगर है
मैं चाँद अली का हूँ अरे ये भी ख़बर है
ख़ुर्शीद-परस्ती से तिरी क्या मुझे डर है
क़ब्ज़े में तनाब-ए-फ़लक-ओ-शम्श-ओ-क़मर है
मक़दूर रहा शम्स की रजअत का पिदर को
दो टुकड़े चचा ने किया उंगली से क़मर को
ख़ुर्शीद-ए-दरख़्शाँ में बता नूर है किस का
कलिमा वर्क़-ए-माह पे मस्तूर है किस का
और सूरा-ए-वालशम्स में मज़कूर है किस का
ज़र्रे को करे महर ये मक़दूर है किस का
ये साहिब-ए-मक़दूर नबी और अली हैं
या हम कि ग़ुलाम-ए-ख़ल्फ़-उस-सिदक़ नबी हैं
तौबा तो ख़ुदा जानता है शम्श-ओ-क़मर को
वो शाम को होता है ग़ुरूब और ये सहर को
ईमान समझ महर-ए-शहि-जिन्न-ओ-बशर को
शम्मा-ए-रह-ए-मेराज हैं ये अहल-ए-नज़र को
ख़ुर्शीद-ए-बनी-फ़ातिमा तो शाह-ए-अमम हैं
और माह-ए-बनी-हाश्मी आफ़ाक़ में हम हैं
दो चांद को करती है इक अंगुश्त हमारी
है महर-ए-नुबुव्वत से मिली पुश्त हमारी
है तेग़-ए-ज़फ़र वक़्त-ए-ज़द-ओ-किश्त हमारी
सौ ग़र्ज़-ए-क़ज़ा ज़रबत-ए-यकमुश्त हमारी
क़ुदरत के नीस्तान के हम शेर हैं ज़ालिम
हम शेर हैं और साहिब-ए-शमशीर हैं ज़ालिम
सब को है फ़ना दूर हमेशा है हमार
सर पेश-ए-ख़ुदा रखना ये पेशा है हमारा
हैं शेर-ए-ख़ुदा जिस में वो बेशा है हमारा
आरी है अजल जिस से वो तेशा है हमारा
हम जुज़्व-ए-बदन इस के हैं जो कल का शरफ़ है
रिश्ते में हमारे गुहर-ए-पाक-ए-नजफ़ है
जौशन जो दुआओं में है वो अपनी ज़र्रा है
हर अक़्दे का नाख़ुन मिरे नेज़े की गिरह है
तलवार से पानी जिगर-ए-हर-कि-ओ-मह है
काटा पर-ए-जिब्रील को जिस तेग़ से ये है
सर ख़ुद-ओ-कुल्ला का नहीं मोहताज हमारा
शप्पीर का है नक़श-ए-क़दम ताज हमारा
अहमद है चचा मेरा पिदर हैदर-ए-सफ़दर
वो कल का पयंबर है ये कौनैन का रहबर
और मादर ज़ैनब की है लौंडी मिरी मादर
भाई मिरा इक ऊन दो अब्दुल्लाह ओ जाफ़र
और शपर ओ शप्पीर हैं सरदार हमारे
हम उन के ग़ुलाम और वो मुख़्तार हमारे
क़ासिम का अज़ादार हूँ अकबर का मैं ग़म-ख़्वार
लश्कर का अलमदार हूँ सुरूर का जिलौ-दार
मैं करता हूँ पर्दा तो हिर्म होते हैं उस्वार
था शब को निगह बान ख़य्याम-ए-शह-ए-अबरार
अब ताज़ा ये बख़्शिश है ख़ुदा-ए-अज़ली की
सुक़्क़ा भी बना उस का जो पोती है अली की
हम बांटते हैं रोज़ी-ए-हर-बंदा-ए-ग़फ़्फ़ार
रज़्ज़ाक़ की सरकार के हैं मालिक-ओ-मुख़्तार
पर हक़ की इताअत है जो हर कार में दरकार
ख़ुद वक़्त-ए-सहर रोज़े में खालते हैं तलवार
हैं उक़्दा-कुशा वक़्त-ए-कुशा क़िला-कुशा भी
पर सब्र से बंधवाते हैं रस्सी में गला भी
उस के क़दम पाक का फ़िदया है सर अपना
क़ुर्बान किया जिस पे नबी ने पिसर अपना
नज़र-ए-सर-ए-अकबर है दिल अपना जिगर अपना
बैत-उश-शरफ़-ए-शाह पे सदक़े है घर अपना
मशहूर जो अब्बास ज़माने का शर्फ़ है
शप्पीर की नालैन उठाने का शर्फ़ है
शाहों का चिराग़ आते ही गुल कर दिया हम ने
हर जा अमल-ए-ख़त्म-ए-रसुल कर दिया हम ने
ख़ंदक़ पे दर-ए-क़िला को पुल कर दिया हम ने
इक जुज़ु था कलिमा उसे कुल कर दिया हम ने
धोका का न हो ये सब शर्फ़-ए-शेर-ए-ख़ुदा हैं
फिर वो न जुदा हम से न हम उन से जुदा हैं
नारी को बहिश्ती के रज्ज़ पर हसद आया
यूँ चल के पि-ए-हमला वो मलऊन-ए-बद आया
गोया कि सुक़र से उम्र-ए-अबदूद आया
और लरज़े में मरहब भी मियान-ए-लहद आया
नफ़रीं की ख़ुदा ने उसे तहसीं की उम्र ने
मुजरा किया अब्बास को याँ फ़तह-ओ-ज़फ़र ने
शप्पीर को बढ़ बढ़ के नक़ीबों ने पुकारा
लौ टूटता है दस्त-ए-ज़बरदस्त तुम्हारा
है मरहब-ए-अब्दुलक़मर अब मअर्का-आरा
शप्पीर यकीं जानो कि अब्बास को मारा
ये गर्ग वो यूसुफ़ ये ख़िज़ाँ है वो चमन है
वो चाँद ये अक़रब है वो सूरज ये गहन है
इस शोर ने तड़पा दिया हज़रत के जिगर को
अकबर से कहा जाओ तो अम्मो की ख़बर को
अकबर बढ़े है और मुड़के पुकारे ये पिदर को
घेरा है कई नहस सितारों ने क़मर को
इक फ़ौज नई गर्द-ए-अलमदार है रन में
लौ माह-ए-बनी-हाश्मी आता है गहन में
इक गबर-ए-क़वी आया है खींचे हुए तलवार
कहता है कि इक हमला में है फैसला-ए-कार
सरकुश्तों के नेज़ों पे हैं गर्द इस के नमूदार
याँ दस्त-ए-बह-ए-क़ब्ज़ा मुतबस्सिम हैं अलमदार
अल्लाह करे ख़ैर कि है क़सद-ए-शर उस को
सब कहते हैं मरहब-ए-बिन-अब्दुलक़मर उस को
ग़ुल है कि दिल-आल-ए-अबा तोड़ेगा मरहब
अब बाज़ू-ए-शाह-ए-शोहदा तोड़ेगा मरहब
बंद-ए-कमर-ए-शेर ख़ुदा तोड़ेगा मरहब
गौहर को तह-ए-संग जफ़ा तोड़ेगा मरहब
मरहब का न कुछ उस की तवानाई का डर है
फ़िदवी को चचा-जान की तन्हाई का डर है
शह ने कहा क्या रूह-ए-अली आई न होगी
नाना ने मिरे क्या ये ख़बर पाई न होगी
क्या फ़ातिमा फ़िर्दोस में घबराई न होगी
सर नंगे वो तशरीफ़ यहाँ लाई न होगी
बंदों पे अयाँ ज़ोर-ए-ख़ुदा करते हैं अब्बास
प्यारे मिरे देखो तो कि क्या करते हैं अब्बास
सुन कर ये ख़बर बीबियाँ करने लगीं नाला
डेयुढ़ी पे कमर पकड़े गए सय्यद-वाला
चिल्लाए कि फ़िज़्ज़ा अली-असग़र को उठा ला
है वक़्त-ए-दुआ छूटता है गोद का पाला
सैय्यदानियो! सर खोल दो सज्जादा बिछा दो
दुश्मन पे अलमदार हो ग़ालिब ये दुआ दो
खे़मे में क़यामत हुई फ़र्याद-ए-बका से
सहमी हुई कहती थी सकीना ये ख़ुदा से
ग़ारत हुआ इलाही जो लड़े मेरे चचा से
वो जीते फिरें ख़ैर मैं मरजाऊँ बला से
सदक़े करूँ क़ुर्बान करूँ अहल-ए-जफ़ा को
दो लाख ने घेरा है मिरे एक चचा को
है है कहीं इस ज़ुलम-ओ-सितम का है ठिकाना
सुक़्क़े पे सुना है कहीं तलवार उठाना
कोई भी रवा रखता है सय्यद का सताना
जाएज़ है किसी प्यासे से पानी का छुपाना
हफ़तुम से ग़िज़ा खाई है ने पानी पिया है
बे रहमों ने किस दुख में हमें डलदाया है
अच्छी मिरी अम्माँ मरे सुक़्क़े को बुलाओ
कह दो कि सकीना हुई आख़िर इधर आओ
अब पानी नहीं चाहिए ताबूत मंगाओ
कांधे से रखो मुश्क जनाज़े को उठाओ
मिलने मिरी तुर्बत के गले आएंगे अब्बास
ये सुनते ही घबरा के चले आएंगे अब्बास
इस अर्सा में हमले किए मरहब ने वहाँ चार
पर एक भी इस पंचतनी पर ना चला वार
मानिंद-ए-दिल-ओ-चश्म हर इक अज़्व था होशियार
आरी हुई तलवार मुख़ालिफ़ हुआ नाचार
जब तेग़ को झुंजला के रुख़-ए-पाक पे खींचा
तलवार ने उंगली से अलिफ़ ख़ाक पे खींचा
ग़ाज़ी ने कहा बस इसी फ़न पर था तुझे नाज़
सीखा न यदा लिल्लाहियों से ज़रब का अंदाज़
फिर खींची इस अंदाज़ से तेग़-ए-शरर-ए-अंदाज़
जो मियान के भी मुँह से ज़रा निकली न आवाज़
याँ ख़ौफ़ से क़ालिब को किया मियान ने ख़ाली
वाँ क़ालिब-ए-अअदा को क्या जान ने ख़ाली
ये तेग़-सरापा जो बरहना नज़र आई
फिर जामा-ए-तन में न कोई रूह समाई
हस्ती ने कहा तौबा क़ज़ा बोली दहाई
इंसाफ़ पुकारा कि है क़ब्ज़ा में ख़ुदाई
लौ फ़तह-ए-मुजस्सम का वो सर जेब से निकला
नुसरत के फ़लक का मह-ए-नौ ग़ैब से निकला
बिजली गिरी बिजली पे अजल डर के अजल पर
इक ज़लज़ला तारी हुआ गर्दूं के महल पर
सय्यारे हटे कर के नज़र तेग़ के फल पर
ख़ुर्शीद था मर्रीख़ ये मर्रीख़ ज़ुहल पर
ये होल दिया तेग़-ए-दरख़शाँ की चमक ने
जो तारों के दाँतों से ज़मीं पकड़ी फ़लक ने
मरहब से मुख़ातब हुए अब्बास-ए-दिलावर
शमशीर के मानिंद सरापा हूँ मैं जौहर
मुम्किन है कि इक ज़र्ब में दो हो तो सरासर
पर इस में अयाँ होंगे ना जौहर मिरे तुझ पर
ले रोक मिरे वार तिरे पास सिपर है
ज़ख़्मी न करूँगा अभी इज़हार-ए-हुनर है
कांधे से सिपर ले के मुक़ाबल हुआ दुश्मन
बतलाने लगे तेग़ से ये ज़र्ब का हरफ़न
ये सीना ये बाज़ू ये कमर और ये गर्दन
ये ख़ुद ये चार आईना ये ढाल ये जौशन
किस वार को वो रोकता तलवार कहाँ थी
आँखों में तो फुर्ती थी निगाहों से निहाँ थी
मर्हब ने न फिर ढाल न तलवार सँभाली
उस हाथ से सर एक से दस्तार सँभाली
ज़ालिम ने सनाँ ग़ुस्से से इक बार सँभाली
उस शेर ने शमशीर-ए-शरर-ए-हार सँभाली
तानी जो सनाँ उस ने अलमदार के ऊपर
ये नेज़ा उड़ा ले गए तलवार के ऊपर
जो चाल चला वो हुआ गुमराह ओ परेशाँ
फिर ज़ाइचा खींचा जो कमाँ का सर-ए-मैदाँ
तीरों की लड़ाई पे पड़ा करअ-ए-पैकाँ
तीरों को क़लम करने लगी तेग़-ए-दरख़शाँ
जौहर से न तीरों ही के फल दाग़ बदल थे
गर शिस्त के थे साठ तो चिल्ला के चहल थे
उस तेग़ ने सरकश के जो तरकश में किया घर
ग़ुल था कि नीसताँ में गिरी बर्क़ चमक कर
पर तीरों के कट कट के उड़े मिसल-ए-कबूतर
मर्हब हुआ मुज़्तर सिफ़त-ए-ताइर-ए-बे-पर
बढ़ कर कहा ग़ाज़ी ने बता किस की ज़फ़र है
अब मर्ग है और तू है ये तेग़ और ये सर है
नामर्द ने पोशीदा किया रुख़ को सिपर से
और खींच लिया ख़ंजर-ए-हिन्दी को कमर से
ख़ंजर तो इधर से चला और तेग़ उधर से
उस वक़्त हवा चल न सकी बीच में डर से
अल्लाह-रे शमशीर-ए-अलमदार के जौहर
जौहर किए उस ख़ंजर-ए-ख़ूँख़ार के जौहर
ख़ंजर का जो काटा तो वो ठहरी न सिपर पर
ठहरी न सिपर पर तो वो सीधी गई सर पर
सीधी गई सर पर तो वो थी सद्र ओ कमर पर
थी सद्र ओ कमर पर तो वो थी क़ल्ब ओ जिगर पर
थी क़लब ओ जिगर पर तो वो थी दामन-ए-ज़ीं पर
थी दामन-ए-ज़ीं पर तो वो राकिब था ज़मीं पर
ईमाँ ने उछल कर कहा वो कुफ्र को मारा
क़ुदरत ने पुकारा कि ये है ज़ोर हमारा
हैदर से नबी बोले ये है फ़ख़्र तुम्हारा
हैदर ने कहा ये मिरी पुतली का है तारा
परवाना-ए-शम-ए-रुख़-ए-ताबाँ हुईं ज़ोहरा
मोहसिन को लिए गोद में क़ुरबाँ हुईं ज़ोहरा
हंगामा हुआ गर्म ये नारी जो हुआ सर्द
वां फ़ौज ने ली बाग बढ़ा याँ ये जवाँमर्द
टापों की सदा से सर-क़ारों में हुआ दर्द
रंग-ए-रुख़-ए-आदा की तरह उड़ने लगी गर्द
क़ारों का ज़र-ए-गंज-ए-निहानी निकल आया
ये ख़ाक उड़ी रन से कि पानी निकल आया
जो ज़िंदा थे अलअज़मतुल्लाह पुकारे
सर मर्दों के नेज़ों पे जो थे वाह पुकारे
डरकर उम्र-ए-सअद को गुमराह पुकारे
ख़ुश हो के अलमदार सू-ए-शाह पुकारे
याँ तो हुआ या हज़रत-ए-शप्पीर नारा
शप्पीर ने हंस कर किया तकबीर का नारा
पर्दे के क़रीब आ के बहन शह की पुकारी
दुश्मन पर हुई फ़तह मुबारक हो मै वारी
अब कहती हूँ मै देखती थी जंग ये सारी
अब्बास की इक ज़र्ब में ठंडा हुआ नारी
मर्हब को तो ख़ैबर में यदुल्लाह ने मारा
हम नाम को इब्न-ए-असदुल्लाह ने मारा
मैदाँ मे अलमदार के जाने के मै सदक़े
उस फ़ाक़े में तलवार लगाने के मैं सदक़े
बाहम इल्म ओ मुश्क उठाने के मै सदक़े
उस प्यास मे इक बूँद न पाने के मै सदक़े
सुक़्क़ा बना प्यासों का मुरव्वत के तसद्दुक़
बे सर किया शह-ज़ोरों को क़ूत के तसद्दुक़
तुम दोनों का हर वक़्त निगहबान ख़ुदा हो
देखे जो बुरी आँख से ग़ारत हो फ़ना हो
दोनों की बला ले के ये माँ-जाई फ़िदा हो
रो कर कहा हज़रत ने बहन देखिए क्या हो
मुंह चाँद सा मुझ को जो दिखाएँ तो मैं जानूँ
दरिया से सलामत जो फिर आएँ तो मैं जानूँ
ज़ैनब से ब-हसरत ये बयाँ करते थे मौला
नागाह सकीना ने सुना फ़तह का मिज़दाँ
चिल्लाई मैं सदक़े तिरे अच्छी मिरी फ़िज़्ज़ा
जा जल्द बलाएँ तू मेरे अमूद की तू ले आ
देख प्यास का कह कर उन्हें मदहोश न करना
पर याद दिलाना कि फ़रामोश न करना
लेने को बलाएँ गई फ़िज़्ज़ा सू-ए-जंगाह
अब्बास ने आते हुए देखा उसे नागाह
चिल्लाए कि फिर जा मैं हवा आने से आगाह
कह देना सकीना से हमें याद है वल्लाह
दि प्यास से बी-बी का हुआ जाता है पानी
ले कर तिरे बाबा का ग़ुलाम आता है पानी
दरिया को चले अब्र-ए-सिफ़त साथ लिए बर्क़
मर्हब के शरीकों का जुदा करते हुए फ़र्क़
सरदार में और फ़ौज में बाक़ी न रहा फ़र्क़
मर्हब की तरह सब छह हब हब में हुए ग़र्क़
तलवार की इक मौज ने तूफ़ान उठाया
तूफ़ान ने सर पर वो बयान उठाया
पानी हुई हर मौज-ए-ज़र्रह-फ़ौज के तन में
मलबूस में ज़िंदे थे कि मुर्दे थे कफ़न में
खंजर की ज़बानों को क़लम कर के दहन में
इक तेग़ से तलवारों को आरी कया रन में
हैदर का असद क़लज़ुम-ए-लश्कर में दर आया
उमड़े हुए बादल की तरह नहर आया
दरिया के निगहबान बढ़े होने को चौ-रंग
पहने हुए मछली की तरह बर में ज़र्रह तंग
खींचे हुए मौजों की तरह खंजर बे-रंग
सुक़्क़े ने कहा पानी पे जाएज़ है कहाँ जंग
दरिया के निगहबान हो पर ग़फ़लत-ए-दीँ है
मानिंद-ए-हुबाब आँख में बीनाई नहीं है
मज़हब है क्या कि रह-ए-शरा न जानी
मशरब है ये कैसा कि पिलाते नहीं पानी
बे शीर का बचपन अली-अकबर की जवानी
बरबाद किए देती है अब तिशना-दहानी
लब ख़ुश्क हैं बच्चों की ज़बाँ प्यास से शक़ है
दरिया ही से पूछ लो किस प्यासे का हक़ है
पानी मुझे इक मुश्क है उस नहर से दर कार
भर लेने दो मुझ को न करो हुज्जत-ओ-तकरार
चिल्लाए सितम-गर है गुज़र नहर पे दुशवार
ग़ाज़ी ने कहा हाँ पे इरादा है तो होशियार
लौसेल को और बर्क़-ए-शरर-बार को रोको
रहवार कोरोको मिरी तलवार को रोको
ये कह के किया अस्प-ए-सुबुक-ए-ताज़ को महमेज़
बिजली की तरह कूंद के चमका फ़र्स-ए-तेज़
अशरार के सर पर हुआ नअलों से शरर-ए-रेज़
सैलाब-ए-फ़ना था कि वो तूफ़ान-ए-बला-ख़ेज़
झपकी पलक उस रख़्श को जब क़हर में देखा
फिर आँख खुली जब तो रवाँ नहर में देखा
दरिया में हुआ ग़ुल कि वो दर-ए-नजफ़ आया
इलियास ओ ख़िज़्र बोले हमारा शरफ़ आया
अब्बास शहनशाह-ए-नजफ़ का ख़लफ आया
पा-बोस को मोती लिए दस्त-ए-सदफ़ आया
याद आ गई प्यासों की जो हैदर के ख़लफ़ को
दिल ख़ून हुआ देख कर दरिया के ख़लफ़ को
सूखे हुए मुशकीज़ा का फिर खोला दहाना
भरने लगा ख़म हो के वो सर ताज-ए-ज़माना
अअदा ने किया दूर से तीरों का निशाना
और चूम लिया रूह-ए-यदुल्लाह ने शाना
फ़रमाया की क्या क्या मुझे ख़ुश करते हो बेटा
पानी मिरी पोती के लिए भरते हो बेटा
कुछ तिरी कोशिश ओ हिम्मत में नहीं है
पानी मगर उस प्यासी की क़िस्मत में नहीं है
वक़्फ़ा मिरे प्यारे की शहादत में नहीं है
जो ज़ख़्म में लज़्ज़त है वो जराहत में नहीं है
इक ख़ून की नहर आँखों से ज़ोहरा के बही है
रोने को तिरी लाश पे सर खोल रही है
दरिया से जो निकला असदुल्लाह का जानी
था शोर कि वो शेर लिए जाता है पानी
फिर राह में हाएल हुए सब ज़ुल्म के पानी
सुक़्क़ा-ए-सकीना की ये की मर्तबा-दानी
क़ब्रें नबी ओ हैदर ओ ज़ुबेरा की हिला दीं
बरछों की जो नोंकें थीं कलेजे से मिला दीं
वो कौन सा तीर जो दिल पे न लगाया
मुशकीज़े के पानी से सवा खून बहाया
ये नर्ग़ा था जो शमर ने हीले से सुनाया
अब्बास बचो ग़ौल-ए-कमीं-गाह से आया
मुड़ कर जो नज़र की ख़लफ़-ए-शीर-ए-ख़दा ने
शानो को तहे तेग़ किया अहल-ए-जफ़ा ने
लिखा है कि एक नख़्ल-ए-रत्ब था सर-ए-मैदाँ
इब्न-ए-वर्क़ा ज़ैद-ए-लईं इस में था पिनहाँ
पहुंचा जो वहाँ सर्व-ए-रवान-ए-शह-ए-मुर्दां
जो शाना था मुश्क ओ अलम ओ तेग़ के शायाँ
वारिस पे किया ज़ैद ने शमशीर-ए-अजल से
ये फूली-फली शाख़ कटी ते
रुस्तम का जिगर ज़ेर-ए-कफ़न काँप रहा है
हर क़स्र-ए-सलातीन-ए-ज़मन काँप रहा है
सब एक तरफ़ चर्ख़-ए-कुहन काँप रहा है
शमशीर-बकफ़ देख के हैदर के पिसर को
जिब्रील लरज़ते हैं समेटे हुए पर को
हैबत से हैं न क़िला-ए-अफ़लाक के दरबंद
जल्लाद-ए-फ़लक भी नज़र आता है नज़र-बंद
वा है कमर-ए-चर्ख़ से जौज़ा का कमर-बंद
सय्यारे हैं ग़लताँ सिफ़त-ए-ताइर-ए-पुर-बंद
अंगुश्त-ए-अतारिद से क़लम छूट पड़ा है
ख़ुरशीद के पंजे से इल्म छूट पड़ा है
ख़ुद फ़ितना ओ शर पढ़ रहे हैं फ़ातिहा-ए-ख़ैर
कहते हैं अनल-अब्द लरज़ कर सनम-ए-दैर
जाँ ग़ैर है तन ग़ैर मकीँ ग़ैर मकाँ ग़ैर
ने चर्ख़ का है दूर न सय्यारों की है सैर
सकते में फ़लक ख़ौफ़ से मानिंद-ए-ज़ीं है
जुज़ बख़्त-ए-यज़ीद अब कोई गर्दिश में नहीं है
बे-होश है बिजली पे समंद इन का है होशियार
ख़्वाबीदा हैं सब ताला-ए-अब्बास है बे-दार
पोशीदा है ख़ुरशीद इल्म उन का नुमूदार
बे-नूर है मुँह चाँद का रुख़ उन का ज़िया-बार
सब जुज़ु हैं कल रुतबे में कहलाते हैं अब्बास
कौनैन पियादा हैं सवार आते हैं अब्बास
चमका के मह-ओ-ख़ौर ज़र ओ नुक़रा के असा को
सरकाते हैं पीरे फ़लक-ए-पुश्त-दोता को
अदल आगे बढ़ा हुक्म ये देता है क़ज़ा को
हाँ बांध ले ज़ुल्म-ओ-सितम-ओ-जोर-ओ-जफ़ा को
घर लूट ले बुग़्ज़-ओ-हसद-ओ-किज़्ब-ओ-रिया का
सर काट ले हिर्स-ओ-तमा-ओ-मकर-ओ-दग़ा का
राहत के महलों को बला पूछ रही है
हस्ती के मकानों को फ़ना पूछ रही है
तक़दीर से उम्र अपनी क़ज़ा पूछ रही है
दोनों का पता फ़ौज-ए-जफ़ा पूछ रही है
ग़फ़लत का तो दिल चौंक पड़ा ख़ौफ़ से हिल कर
फ़ितने ने किया ख़ूब गले कुफ्र से मिल कर
अल-नशर का हंगामा है इस वक़्त हश्र में
अल-सूर का आवाज़ा है अब जिन ओ बशर में
अल-जुज़ का है तज़किरा बाहम तन-ओ-सर में
अल-वस्ल का ग़ुल है सक़र ओ अहल-ए-सक़र में
अल-हश्र जो मुर्दे न पुकारें तो ग़ज़ब है
अल-मौत ज़बान-ए-मलक-उल-मौत पे अब है
रूकश है उस इक तन का न बहमन न तमहतीं
सुहराब ओ नरीमान ओ पशुन बे-सर ओ बे-तन
क़ारों की तरह तहत-ए-ज़मीं ग़र्क़ है क़ारन
हर आशिक़-ए-दुनिया को है दुनिया चह-ए-बे-ज़न
सब भूल गए अपना हस्ब और नस्ब आज
आता है जिगर-गोशा-ए-क़िताल-ए-अरब आज
हर ख़ुद निहाँ होता है ख़ुद कासा-ए-सर में
मानिंद-ए-रग-ओ-रेशा ज़र्रा छुपती है बर में
बे-रंग है रंग असलहे का फ़ौज-ए-उम्र में
जौहर है न तैग़ों में न रौगन है सिपर में
रंग उड़ के भरा है जो रुख़-ए-फ़ौज-ए-लईं का
चेहरा नज़र आता है फ़लक का न ज़मीं का
है शोर फ़लक का कि ये ख़ुरशीद-ए-अरब है
इंसाफ़ ये कहता है कि चुप तर्क-ए-अदब है
ख़ुरशीद-ए-फ़लक पर तव-ए-आरिज़ का लक़ब है
ये क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब है
हर एक कब इस के शरफ़-ओ-जाह को समझे
इस बंदे को वो समझे जो अल्लाह को समझे
यूसुफ़ है ये कुनआँ में सुलेमान है सबा में
ईसा है मसीहाई में मूसा है दुआ में
अय्यूब है ये सब्र में यहया है बका में
शपीर है मज़लूमी में हैदर है वग़ा में
क्या ग़म जो न मादर न पिदर रखते हैं आदम
अब्बास सा दुनिया में पिसर रखते हैं आदम
पंजे में यदुल्लाह है बाज़ू में है जाफ़र
ताअत में मुलक ख़ू में हसन ज़ोर में हैदर
इक़बाल में हाशिम तो तवाज़ो में पयंबर
और तंतना-ओ-दबदबा में हमज़ा-ए-सफ़दर
जौहर के दिखाने में ये शमशीर-ए-ख़ुदा है
और सर के कटाने में ये शाह-ए-शोहदा है
बे उन के शर्फ़ कुछ भी ज़माना नहीं रखता
ईमान सिवा उन के ख़ज़ाना नहीं रखता
क़ुरआँ भी कोई और फ़साना नहीं रखता
शपीर बगै़र उन के यगाना नहीं रखता
ये रूह-ए-मुक़द्दस है फ़क़त जलव-गिरी में
ये अक़ल-ए-मुजर्रिद है जमाल-ए-बशरी में
सहरा में गिरा परतव-ए-आरिज़ जो क़ज़ारा
सूरज की किरन ने किया शर्मा के किनारा
यूँ धूप एड़ी आग पे जिस तरह से पारा
मूसा की तरह ग़श हुए सब कैसा नज़ारा
जुज़ मदह न दम रोशनई-ए-तूर ने मारा
शब-ए-ख़ून अजब धूप पे उस नूर ने मारा
क़ुर्बान हवा-ए-इल्म-ए-शाह-ए-अमम के
सब ख़ार हरे हो के बने सर्व-ए-इरम के
हैं राज़ अयाँ ख़ालिक़-ए-ज़ुलफ़ज़्ल-ओ-करम के
जिब्रील ने पर खोले हैं दामन में इल्म के
पर्चम का जहाँ अक्स गिरा साइक़ा चमका
पर्चम कहीं देखा न सुना इस चम-ओ-ख़म का
क़र्ना में न दम है न जलाजुल में सदा में है
बूक़ ओ दहल ओ कोस की भी साँस हुआ है
हर दिल के धड़कने का मगर शोर बपा है
बाजा जो सलामी का उसे कहिए बजा है
सकते में जो आवाज़ है नक़्कारा-ए-वदफ़ की
नौबत है वरूद-ए-ख़ल्फ़-ए-शाह-ए-नजफ़ की
आमद को तो देखा रुख़-ए-पुर-नूर को देखो
वालशमश पढ़ो रौशनी-ए-तूर को देखो
लिए रौशनी-ए-माह को ने हूर को देखो
इस शम्मा-ए-मुराद-ए-मुलक-ओ-हूर को देखो
है कौन तजल्ली रुख़-ए-पुर-नूर की मानिंद
याँ रौशनी-ए-तूर जली तूर के मानिंद
मद्दाह को अब ताज़गी-ए-नज़्म में कद है
या हज़रत-ए-अब्बास-ए-अली वक़्त-ए-मदद है
मौला की मदद से जो सुख़न हो वो सनद है
इस नज़्म का जो हो ना मक़र उस को हसद है
हासिद से सुलह भी नहीं दरकार है मुझ को
सरकार-ए-हुसैनी से सरोकार है मुझ को
गुलज़ार है ये नज़्म ओ बयाँ बेशा नहीं है
बाग़ी को भी गुलगश्त में अंदेशा नहीं है
हर मिस्र-ए-पर-जस्ता है फल तेशा नहीं है
याँ मग़्ज़ सुख़न का है रग-ओ-रेशा नहीं है
सेहत मिरी तशख़ीस से है नज़्म के फ़न की
मानिंद-ए-क़लम हाथ में है नब्ज़ सुख़न की
गर काह मिले फ़ाएदा क्या कोहकनी से
मैं काह को गुल करता हूँ रंगीं-ए-सुख़नी से
ख़ुश-रंग है अलफ़ाज़ अक़ीक़-ए-यमनी से
ये साज़ है सोज़-ए-ग़म-ए-शाह-ए-मदनी से
आहन को करूँ नर्म तो आइना बना लूँ
पत्थर को करूँ गर्म तो मैं इत्र बना लूँ
गो ख़िलअत तहसीं मुझे हासिल है सरापा
पर वस्फ़ सरापा का तो मुश्किल है सरापा
हर अज़्व-ए-तन इक क़ुदरत-ए-कामिल है सरापा
ये रूह है सर-ता-बक़दम दिल है सरापा
क्या मिलता है गर कोई झगड़ता है किसी से
मज़मून भी अपना नहीं लड़ता है किसी से
सूरज को छुपाता है गहन आइना को ज़ंग
दाग़ी है क़मर-ए-सोख़्ता ओ लाला-ए-ख़ुश-रंग
क्या अस्ल दर- ओ लअल की वो पानी है ये संग
देखो गुल ओ ग़ुन्चा वो परेशाँ है ये दिल-ए-तंग
इस चेहरे को दावर ही ने लारेब बनाया
बे-ऐब था ख़ुद नक़्श भी बे-ऐब बनाया
इंसाँ कहे उस चेहरे को कब चश्मा-ए-हैवाँ
ये नूर वो ज़ुल्मत ये नुमूदार वो पिनहाँ
बरसों से है आज़ार-ए-बर्स में मह-ए-ताबाँ
कब से यरक़ाँ महर को है और नहीं दरमाँ
आइना है घर ज़ंग काया रंग नहीं है
इस आइना में रंग है और ज़ंग नहीं है
आइना कहा रुख़ को तो कुछ भी न सुना की
सनअत वो सिकन्दर की ये सनअत है ख़ुदा की
वाँ ख़ाक ने सैक़ल यहाँ क़ुदरत ने जिला की
ताला ने किस आइना को ख़ूबी ये अता की
हर आइने में चहरा-ए-इंसाँ नज़र आया
इस रुख़ में जमाल-ए-शहि-ए-मरदाँ नज़र आया
बे-मिस्ल-ए-हसीं है निगह-ए-अहल-ए-यकीं में
बस एक ये ख़ुर्शीद है अफ़्लाक ओ ज़मीं में
जलवा है अजब अब्रुओं का क़ुरब-ए-जबीं में
दो मछलियाँ हैं चश्मा-ए-ख़ुर्शीद-ए-मुबीं में
मर्दुम को इशारा है ये अबरुओं का जबीं पर
हैं दो मह-ए-नौ जलवा-नुमा चर्ख़-ए-बरीं पर
बीनी के तो मज़मूँ पे ये दावा है यक़ीनी
इस नज़्म के चेहरे की वो हो जाएगा बीनी
मंज़ूर निगह को जो हुई अर्श-ए-नशीनी
की साया-ए-बीनी ने फ़क़त जलवा-ए-गज़ीनी
दरकार इसी बीनी की मोहब्बत का असा है
ये राह तो ईमाँ से भी बारीक सिवा है
बीनी को कहूँ शम्मा तो लौ उस की कहाँ है
पर-नूर भंवोँ पर मुझे शोला का गुमाँ है
दो शोले और इक शम्मा ये हैरत का मकाँ है
हाँ ज़ुल्फ़ों के कूचों से हवा तुंद रवां है
समझो न भवें बस क़ि हवा का जो गुज़र है
ये शम्मा की लौ गाह इधर गाह इधर है
इस दर्जा पसंद इस रुख़-ए-रौशन की चमक है
ख़ुर्शीद से बर्गश्ता हर इक माह-ए-फ़लक है
अबरो का ये ग़ुल काबा-ए-अफ़्लाक तिलक है
महराब दुआ-ए-बशर-ओ-जिन-ओ-मलक है
देखा जो मह-ए-नौ ने इस अबरो के शर्फ़ को
कअबा की तरफ़ पुश्त की रुख़ उस की तरफ़ को
जो मानी-ए-तहक़ीक़ से तावील का है फ़र्क़
पतली से वही कअबा की तमसील का है फ़र्क़
सुरमा से और इस आँख से इक मील का है फ़र्क़
मील एक तरफ़ नूर की तकमील का है फ़र्क़
इस आँख पे उम्मत के ज़रा ख़िशम को देखो
नाविक की सिलाई को और उस चश्म को देखो
गर आँख को नर्गिस कहूँ है ऐन-ए-हिक़ारत
नर्गिस में न पलकें हैं न पुतली न बसारत
चेहरे पे मह-ए-ईद की बेजा है इशारत
वो ईद का मुज़्दा है ये हैदर की बशारत
अबरो की मह-ए-नौ में न जुंबिश है न ज़ौ है
इक शब वो मह-ए-नौ है ये हर शब मह-ए-नौ है
मुँह ग़र्क़-ए-अर्क़ देख के ख़ुरशीद हुआ तर
अबरो से टपकता है निरा तैग़ का जौहर
आँखों का अर्क़ रौगन-ए-बादाम से बेहतर
आरिज़ का पसीना है गुलाब-ए-गुल-ए-अहमर
क़तरा रुख़-ए-पुर-नूर पे ढलते हुए देखो
इत्र-ए-गुल-ए-ख़ुर्शीद निकलते हुए देखो
तस्बीह-ए-कुनाँ मुँह में ज़बान आठ पहर है
गोया दहन-ए-ग़ुन्चा में बरग-ए-गुल-ए-तर है
कब ग़ुन्चा ओ गुलबर्ग में ये नूर मगर है
इस बुर्ज में ख़ुर्शीद के माही का गुज़र है
तारीफ़ में होंटों की जो लब तर हुआ मेरा
दुनिया ही में क़ाबू लब-ए-कौसर हुआ मेरा
ये मुँह जो रदीफ़-ए-लब-ए-ख़ुश-रंग हुआ है
क्या फ़ाक़ीह ग़ुन्चा का यहाँ तंग हुआ है
अब मदह-ए-दहन का मुझे आहंग हुआ है
पर गुंचे का नाम इस के लिए नंग हुआ है
ग़ुन्चा कहा उस मुँह को हज़र अहल-ए-सुख़न से
सूंघे कोई बू आती है गुंचे के दहन से
शीरीं-रक्मों में रक़्म उस लब की जुदा है
इक ने शुक्र और एक ने याक़ूत लिखा है
याक़ूत का लिखना मगर इन सब से बजा है
याक़ूत से बढ़ जो लिखूँ मैं तो मज़ा है
चूसा है ये लब मिसल-ए-रत्ब हक़ के वली ने
याक़ूत का बोसा लिया किस रोज़ अली ने
जान-ए-फ़ुसहा रूह-ए-फ़साहत है तो ये है
हर कलिमा है मौक़े पे बलाग़त है तो ये है
एजाज़-ए-मसीहा की करामत है तो ये है
क़ाएल है नज़ाकत कि नज़ाकत है तो ये है
यूँ होंटों पे तस्वीर-ए-सुख़न वक़्त-ए-बयाँ है
या वक़्त से गोया रग-ए-याक़ूत अयाँ है
अब असल में शीरीं-दहनी की करों तहरीर
तिफ़ली में खुला जबकि यही ग़ुंचा-ए-तक़रीर
पहले ये ख़बर दी कि मैं हूँ फ़िदया-ए-शपीर
इस मुज़दे पे मादर ने उन्हें बख़्श दिया शीर
मुँह हैदर-ए-कर्रार ने मीठा किया उन का
शीरीनी-ए-एजाज़ से मुँह भर दिया उन का
उस लब से दम-ए-ताज़ा हर इक ज़िनदे ने पाया
जैसे शहि-ए-मरदाँ ने नसीरी को जलाया
जान बख़्शि-ए-अम्वात का गोया है ये आया
हम-दम दम-ए-रूह-ए-अक़दस उन का नज़र आया
दम क़ालिब-ए-बे-जाँ में जो दम करते थे ईसा
इन होंटों के एजाज़ का दम भरते थे ईसा
दाँतों की लड़ी से ये लड़ी अक़ल-ए-ख़ुदा-दाद
वो बात ठिकाने की कहूँ अब कि रहे याद
ये गौहर-ए-अब्बास हैं पाक उन की ये बुनियाद
अब्बास-ओ-नजफ़ एक हैं गिनिए अगर एदाद
मादिन के शरफ़ हैं ये जवाहर के शरफ़ हैं
दंदाँ दर-ए-अब्बास हैं तो दर-ए-नजफ़ हैं
अस्ना अशरी अब करें हाथों का नज़ारा
दस उंगलियाँ हैं मिस्ल-ए-इल्म इन में सफ़-ए-आरा
हर पंजे का है पंजितनी को ये इशारा
ऐ मोमिनो अशरा में इल्म रखना हमारा
पहले मिरे आक़ा मिरे सालार को रोना
फिर ज़ेर-ए-इल्म उन के अलमदार को रोना
ता-मू-ए-कमर फ़िक्र का रिश्ता नहीं जाता
फ़िक्र एक तरफ़ वहम भी हाशा नहीं जाता
पर फ़िक्र-ए-रसा का मिरी दावा नहीं जाता
मज़मून ये नाज़ुक है कि बांधा नहीं जाता
अब जे़ब-ए-कमर तेग़-ए-शरर-ए-बार जो की है
अब्बास ने शोला को गिरह बाल से दी है
उश्शाक हूँ अब आलम-ए-बाला की मदद का
दरपेश है मज़मून-ए-अलमदार के क़द का
ये है क़द-ए-बाला पिस्र-ए-शेर-ए-समद का
या साया मुजस्सम हुआ अल्लाहु-अहद का
इस क़द पे दो अबरो की कशिश क्या कोई जाने
खींचे हैं दो मद एक अलिफ़ पर ये ख़ुदा ने
ने चर्ख़ के सौ दौरे न इक रख़्श का कावा
देता है सदा उम्र-ए-रवाँ को ये भुलावा
ये क़िस्म है तरकीब-ए-अनासिर के अलावा
अल्लाह की क़ुदरत है न छल-बल न छलावा
चलता है ग़ज़ब चाल क़दम शल है क़ज़ा का
तौसन न कहो रंग उड़ा है ये हवा का
गर्दिश में हर इक आँख है फ़ानुस-ए-ख़याली
बंदिश में हैं नाल उस के रुबाई-ए-हिलाली
रौशन है कि जौज़ा ने अनाँ दोष पे डाली
भर्ती से है मज़मून रिकाबों का भी ख़ाली
सरअत है अंधेरे और उजाले में ग़ज़ब की
अंधयारी उसे चाँदनी है चौधवीं शब की
गर्दूं हो कभी हम-क़दम उस का ये है दुशवार
वो क़ाफ़िले की गर्द है ये क़ाफ़िला-सालार
वो ज़ोअफ़ है ये ज़ोर वो मजबूर ये मुख़्तार
ये नाम है वो नंग है ये फ़ख़्र है वो आर
इक जस्त में रह जाते हैं यूँ अर्ज़ ओ समा दूर
जिस तरह मुसाफ़िर से दम-ए-सुब्ह सिरा दूर
जो बूँद पसीने की है शोख़ी से भरी है
इन क़तरों में परियों से सिवा तेज़ी परी है
गुलशन में सुब्ह बाग़ में ये कुबक-दरी है
फ़ानूस में परवाना है शीशे में परी है
ये है वो हुमा जिस के जिलौ-दार मलक हैं
साये की जगह पर के तले हफ़्त फ़लक हैं
ठहरे तो फ़लक सब को ज़मीं पर नज़र आए
दौड़े तो ज़मीं चर्ख़-ए-बरीं पर नज़र आए
शहबाज़ हवा का न कहीं पर नज़र आए
राकिब ही फ़क़त दामन-ए-ज़ीं पर नज़र आए
इस राकिब ओ मुरक्कब की बराबर जो सना की
ये इल्म ख़ुदा का वो मशीय्यत है ख़ुदा की
शोख़ी में परी हुस्न में है हूर-ए-बहिश्ती
तूफ़ान में राकिब के लिए नूह की कश्ती
कब अबलक़-ए-दौराँ में है ये नेक-ए-सरिश्ती
ये ख़ैर है वो शर है ये ख़ूबी है वो ज़श्ती
सहरा में चमन फ़सल-ए-बहारी है चमन में
रहवार है अस्तबल में तलवार है रन में
इस रख़्श को अब्बास उड़ाते हुए आए
कोस-ए-लिमन-उल-मलक बजाते हुए आए
तकबीर से सोतों को जगाते हुए आए
इक तेग़-ए-निगह सब पे लगाते हुए आए
बे चले के खींचे हुए अबरो की कमाँ को
बे हाथ के ताने हुए पलकों की सनाँ को
लिखा है मुअर्रिख़ ने कि इक गब्र-ए-दिलावर
हफ़तुम से फ़िरोकश था मियान-ए-सफ़-ए-लश्कर
रोईं तन ओ संगीं दिल ओ बद-बातिन ओ बदबर
सर कर के मुहिम नेज़ों पे लाया था कई सर
हमराह शक्की फ़ौज थी डंका था निशाँ था
जागीर के लेने को सू-ए-शाम रवाँ था
तक़दीर जो रन में शब-ए-हफ़तुम उसे लाई
ख़लवत में उसे बात उमर ने ये सुनाई
दरपेश है सादात से हम को भी लड़ाई
वान पंचतनी चंद हैं याँ सारी ख़ुदाई
अकबर का न क़ासिम का न शप्पीर का डर है
दो लाख को अल्लाह की शमशीर का डर है
बोला वो लरज़ कर कि हुआ मुझ को भी विस्वास
शमशीर-ए-ख़ुदा कौन उमर बोला कि अब्बास
उस ने कहा फिर फ़तह की क्यूँ कर है तुझे आस
बोला कि कई रोज़ से इस शेर को है प्यास
हम भी हैं बहादुर नहीं डरते हैं किसी से
पर रूह निकलती है तो अबास-अली से
तशरीफ़ अलमदार-जरी रन में जो लाया
इस गबर को चुपके से उमर ने ये सुनाया
अंदेशा था जिस शेर के आने का वो आया
सर उस ने परे से सो-ए-अब्बास उठाया
देखा तो कहा काँप के ये फ़ौज-ए-वग़ा से
रूबा हो लड़ाते हो मुझे शेर-ए-ख़ुदा से
माना कि ख़ुदा ये नहीं क़ुदरत है ख़ुदा की
मुझ में है निरा ज़ोर ये क़ूत है ख़ुदा की
की ख़ूब ज़ियाफ़त मिरी रहमत है ख़ुदा की
सब ने कहा तुझ पर भी इनायत है ख़ुदा की
जा उज़्र न कर नाम है मर्दों का इसी से
तो दबदबा-ए-ओ-ज़ोर में क्या कम है किसी से
बादल की तरह से वो गरजता हुआ निकला
जल्दी में सुलह जंग के बजता हुआ निकला
हरगाम रह-ए-उम्र को तजता हुआ निकला
और सामने नक़्क़ारा भी बजता हुआ निकला
ग़ालिब तहमतन की तरह अहल-ए-जहाँ पर
धॅंसती थी ज़मीं पाँव वो रखता था जहाँ पर
तैय्यार कमर कस के हुआ जंग पे ख़ूँख़ार
और पैक अजल आया कि है क़ब्र भी तैय्यार
ख़ंजर लिया मुँह देखने को और कभी तलवार
मिसल-ए-वर्म-ए-मर्ग चढ़ा घोड़े पे इक बार
वो रख़्श पे या देव-दनी तख़्त-ए-ज़री पर
ग़ुल रन में उठा कोई चढ़ा कबक-ए-दरी पर
इस हैयत ओ हैबत से वो नख़्वत-ए-सैर आया
आसेब को भी साए से उस के हज़्र आया
मैदान-ए-क़यामत को भी महशर नज़र आया
गर्द अपने लिए नेज़ों पे किश्तों के सर आया
ज़िंदा ही पि-ए-सैर न हर सफ़ से बढ़े थे
सर मर्दों के नेज़ों पे तमाशे को चढ़े थे
सीधा कभी नेज़े को हिलाया कभी आड़ा
पढ़ पढ़ के रज्ज़ बाग़-ए-फ़साहत को उजाड़ा
ज़ालिम ने कई पुश्त के मर्दों को उखाड़ा
बोला मेर हैबत ने जिगर-शेरों का फाड़ा
हम पंचा न रुस्तम है न सोहराब है मेरा
मर्हब बिन-अब्दुलक़मर अलक़ाब है मेरा
फ़ित्राक में सर बांधता हूँ पील-ए-दमाँ का
पंजा मैं सदा फेरता हूँ शेर-ए-ज़ियाँ का
नज़ारा ज़रा कीजिए हर शाख़-ए-सनाँ का
इस नेज़े पे वो सर है फ़ुलाँ-इब्न-ए-फ़ुलाँ का
जो जो थे यलान-ए-कुहन इस दौरा-ए-नौ में
तन उन के तह-ए-ख़ाक हैं सर मेरे जिलौ में
याँ सैफ-ए-ज़बाँ सैफ-ए-इलाही ने इल्म की
फ़रमाया मिरे आगे है तक़रीर सितम की
अब मुँह से कहा कुछ तो ज़बाँ मैं ने क़लम की
कौनैन ने गर्दन मिरे दरवाज़े पे ख़म की
ताक़त है हमारी असदुल्लाह की ताक़त
पंजे में हमारे है यद-अल्लाह की ताक़त
अब्दुलक़मर-ए-नहस का तू दाग़-ए-जिगर है
मैं चाँद अली का हूँ अरे ये भी ख़बर है
ख़ुर्शीद-परस्ती से तिरी क्या मुझे डर है
क़ब्ज़े में तनाब-ए-फ़लक-ओ-शम्श-ओ-क़मर है
मक़दूर रहा शम्स की रजअत का पिदर को
दो टुकड़े चचा ने किया उंगली से क़मर को
ख़ुर्शीद-ए-दरख़्शाँ में बता नूर है किस का
कलिमा वर्क़-ए-माह पे मस्तूर है किस का
और सूरा-ए-वालशम्स में मज़कूर है किस का
ज़र्रे को करे महर ये मक़दूर है किस का
ये साहिब-ए-मक़दूर नबी और अली हैं
या हम कि ग़ुलाम-ए-ख़ल्फ़-उस-सिदक़ नबी हैं
तौबा तो ख़ुदा जानता है शम्श-ओ-क़मर को
वो शाम को होता है ग़ुरूब और ये सहर को
ईमान समझ महर-ए-शहि-जिन्न-ओ-बशर को
शम्मा-ए-रह-ए-मेराज हैं ये अहल-ए-नज़र को
ख़ुर्शीद-ए-बनी-फ़ातिमा तो शाह-ए-अमम हैं
और माह-ए-बनी-हाश्मी आफ़ाक़ में हम हैं
दो चांद को करती है इक अंगुश्त हमारी
है महर-ए-नुबुव्वत से मिली पुश्त हमारी
है तेग़-ए-ज़फ़र वक़्त-ए-ज़द-ओ-किश्त हमारी
सौ ग़र्ज़-ए-क़ज़ा ज़रबत-ए-यकमुश्त हमारी
क़ुदरत के नीस्तान के हम शेर हैं ज़ालिम
हम शेर हैं और साहिब-ए-शमशीर हैं ज़ालिम
सब को है फ़ना दूर हमेशा है हमार
सर पेश-ए-ख़ुदा रखना ये पेशा है हमारा
हैं शेर-ए-ख़ुदा जिस में वो बेशा है हमारा
आरी है अजल जिस से वो तेशा है हमारा
हम जुज़्व-ए-बदन इस के हैं जो कल का शरफ़ है
रिश्ते में हमारे गुहर-ए-पाक-ए-नजफ़ है
जौशन जो दुआओं में है वो अपनी ज़र्रा है
हर अक़्दे का नाख़ुन मिरे नेज़े की गिरह है
तलवार से पानी जिगर-ए-हर-कि-ओ-मह है
काटा पर-ए-जिब्रील को जिस तेग़ से ये है
सर ख़ुद-ओ-कुल्ला का नहीं मोहताज हमारा
शप्पीर का है नक़श-ए-क़दम ताज हमारा
अहमद है चचा मेरा पिदर हैदर-ए-सफ़दर
वो कल का पयंबर है ये कौनैन का रहबर
और मादर ज़ैनब की है लौंडी मिरी मादर
भाई मिरा इक ऊन दो अब्दुल्लाह ओ जाफ़र
और शपर ओ शप्पीर हैं सरदार हमारे
हम उन के ग़ुलाम और वो मुख़्तार हमारे
क़ासिम का अज़ादार हूँ अकबर का मैं ग़म-ख़्वार
लश्कर का अलमदार हूँ सुरूर का जिलौ-दार
मैं करता हूँ पर्दा तो हिर्म होते हैं उस्वार
था शब को निगह बान ख़य्याम-ए-शह-ए-अबरार
अब ताज़ा ये बख़्शिश है ख़ुदा-ए-अज़ली की
सुक़्क़ा भी बना उस का जो पोती है अली की
हम बांटते हैं रोज़ी-ए-हर-बंदा-ए-ग़फ़्फ़ार
रज़्ज़ाक़ की सरकार के हैं मालिक-ओ-मुख़्तार
पर हक़ की इताअत है जो हर कार में दरकार
ख़ुद वक़्त-ए-सहर रोज़े में खालते हैं तलवार
हैं उक़्दा-कुशा वक़्त-ए-कुशा क़िला-कुशा भी
पर सब्र से बंधवाते हैं रस्सी में गला भी
उस के क़दम पाक का फ़िदया है सर अपना
क़ुर्बान किया जिस पे नबी ने पिसर अपना
नज़र-ए-सर-ए-अकबर है दिल अपना जिगर अपना
बैत-उश-शरफ़-ए-शाह पे सदक़े है घर अपना
मशहूर जो अब्बास ज़माने का शर्फ़ है
शप्पीर की नालैन उठाने का शर्फ़ है
शाहों का चिराग़ आते ही गुल कर दिया हम ने
हर जा अमल-ए-ख़त्म-ए-रसुल कर दिया हम ने
ख़ंदक़ पे दर-ए-क़िला को पुल कर दिया हम ने
इक जुज़ु था कलिमा उसे कुल कर दिया हम ने
धोका का न हो ये सब शर्फ़-ए-शेर-ए-ख़ुदा हैं
फिर वो न जुदा हम से न हम उन से जुदा हैं
नारी को बहिश्ती के रज्ज़ पर हसद आया
यूँ चल के पि-ए-हमला वो मलऊन-ए-बद आया
गोया कि सुक़र से उम्र-ए-अबदूद आया
और लरज़े में मरहब भी मियान-ए-लहद आया
नफ़रीं की ख़ुदा ने उसे तहसीं की उम्र ने
मुजरा किया अब्बास को याँ फ़तह-ओ-ज़फ़र ने
शप्पीर को बढ़ बढ़ के नक़ीबों ने पुकारा
लौ टूटता है दस्त-ए-ज़बरदस्त तुम्हारा
है मरहब-ए-अब्दुलक़मर अब मअर्का-आरा
शप्पीर यकीं जानो कि अब्बास को मारा
ये गर्ग वो यूसुफ़ ये ख़िज़ाँ है वो चमन है
वो चाँद ये अक़रब है वो सूरज ये गहन है
इस शोर ने तड़पा दिया हज़रत के जिगर को
अकबर से कहा जाओ तो अम्मो की ख़बर को
अकबर बढ़े है और मुड़के पुकारे ये पिदर को
घेरा है कई नहस सितारों ने क़मर को
इक फ़ौज नई गर्द-ए-अलमदार है रन में
लौ माह-ए-बनी-हाश्मी आता है गहन में
इक गबर-ए-क़वी आया है खींचे हुए तलवार
कहता है कि इक हमला में है फैसला-ए-कार
सरकुश्तों के नेज़ों पे हैं गर्द इस के नमूदार
याँ दस्त-ए-बह-ए-क़ब्ज़ा मुतबस्सिम हैं अलमदार
अल्लाह करे ख़ैर कि है क़सद-ए-शर उस को
सब कहते हैं मरहब-ए-बिन-अब्दुलक़मर उस को
ग़ुल है कि दिल-आल-ए-अबा तोड़ेगा मरहब
अब बाज़ू-ए-शाह-ए-शोहदा तोड़ेगा मरहब
बंद-ए-कमर-ए-शेर ख़ुदा तोड़ेगा मरहब
गौहर को तह-ए-संग जफ़ा तोड़ेगा मरहब
मरहब का न कुछ उस की तवानाई का डर है
फ़िदवी को चचा-जान की तन्हाई का डर है
शह ने कहा क्या रूह-ए-अली आई न होगी
नाना ने मिरे क्या ये ख़बर पाई न होगी
क्या फ़ातिमा फ़िर्दोस में घबराई न होगी
सर नंगे वो तशरीफ़ यहाँ लाई न होगी
बंदों पे अयाँ ज़ोर-ए-ख़ुदा करते हैं अब्बास
प्यारे मिरे देखो तो कि क्या करते हैं अब्बास
सुन कर ये ख़बर बीबियाँ करने लगीं नाला
डेयुढ़ी पे कमर पकड़े गए सय्यद-वाला
चिल्लाए कि फ़िज़्ज़ा अली-असग़र को उठा ला
है वक़्त-ए-दुआ छूटता है गोद का पाला
सैय्यदानियो! सर खोल दो सज्जादा बिछा दो
दुश्मन पे अलमदार हो ग़ालिब ये दुआ दो
खे़मे में क़यामत हुई फ़र्याद-ए-बका से
सहमी हुई कहती थी सकीना ये ख़ुदा से
ग़ारत हुआ इलाही जो लड़े मेरे चचा से
वो जीते फिरें ख़ैर मैं मरजाऊँ बला से
सदक़े करूँ क़ुर्बान करूँ अहल-ए-जफ़ा को
दो लाख ने घेरा है मिरे एक चचा को
है है कहीं इस ज़ुलम-ओ-सितम का है ठिकाना
सुक़्क़े पे सुना है कहीं तलवार उठाना
कोई भी रवा रखता है सय्यद का सताना
जाएज़ है किसी प्यासे से पानी का छुपाना
हफ़तुम से ग़िज़ा खाई है ने पानी पिया है
बे रहमों ने किस दुख में हमें डलदाया है
अच्छी मिरी अम्माँ मरे सुक़्क़े को बुलाओ
कह दो कि सकीना हुई आख़िर इधर आओ
अब पानी नहीं चाहिए ताबूत मंगाओ
कांधे से रखो मुश्क जनाज़े को उठाओ
मिलने मिरी तुर्बत के गले आएंगे अब्बास
ये सुनते ही घबरा के चले आएंगे अब्बास
इस अर्सा में हमले किए मरहब ने वहाँ चार
पर एक भी इस पंचतनी पर ना चला वार
मानिंद-ए-दिल-ओ-चश्म हर इक अज़्व था होशियार
आरी हुई तलवार मुख़ालिफ़ हुआ नाचार
जब तेग़ को झुंजला के रुख़-ए-पाक पे खींचा
तलवार ने उंगली से अलिफ़ ख़ाक पे खींचा
ग़ाज़ी ने कहा बस इसी फ़न पर था तुझे नाज़
सीखा न यदा लिल्लाहियों से ज़रब का अंदाज़
फिर खींची इस अंदाज़ से तेग़-ए-शरर-ए-अंदाज़
जो मियान के भी मुँह से ज़रा निकली न आवाज़
याँ ख़ौफ़ से क़ालिब को किया मियान ने ख़ाली
वाँ क़ालिब-ए-अअदा को क्या जान ने ख़ाली
ये तेग़-सरापा जो बरहना नज़र आई
फिर जामा-ए-तन में न कोई रूह समाई
हस्ती ने कहा तौबा क़ज़ा बोली दहाई
इंसाफ़ पुकारा कि है क़ब्ज़ा में ख़ुदाई
लौ फ़तह-ए-मुजस्सम का वो सर जेब से निकला
नुसरत के फ़लक का मह-ए-नौ ग़ैब से निकला
बिजली गिरी बिजली पे अजल डर के अजल पर
इक ज़लज़ला तारी हुआ गर्दूं के महल पर
सय्यारे हटे कर के नज़र तेग़ के फल पर
ख़ुर्शीद था मर्रीख़ ये मर्रीख़ ज़ुहल पर
ये होल दिया तेग़-ए-दरख़शाँ की चमक ने
जो तारों के दाँतों से ज़मीं पकड़ी फ़लक ने
मरहब से मुख़ातब हुए अब्बास-ए-दिलावर
शमशीर के मानिंद सरापा हूँ मैं जौहर
मुम्किन है कि इक ज़र्ब में दो हो तो सरासर
पर इस में अयाँ होंगे ना जौहर मिरे तुझ पर
ले रोक मिरे वार तिरे पास सिपर है
ज़ख़्मी न करूँगा अभी इज़हार-ए-हुनर है
कांधे से सिपर ले के मुक़ाबल हुआ दुश्मन
बतलाने लगे तेग़ से ये ज़र्ब का हरफ़न
ये सीना ये बाज़ू ये कमर और ये गर्दन
ये ख़ुद ये चार आईना ये ढाल ये जौशन
किस वार को वो रोकता तलवार कहाँ थी
आँखों में तो फुर्ती थी निगाहों से निहाँ थी
मर्हब ने न फिर ढाल न तलवार सँभाली
उस हाथ से सर एक से दस्तार सँभाली
ज़ालिम ने सनाँ ग़ुस्से से इक बार सँभाली
उस शेर ने शमशीर-ए-शरर-ए-हार सँभाली
तानी जो सनाँ उस ने अलमदार के ऊपर
ये नेज़ा उड़ा ले गए तलवार के ऊपर
जो चाल चला वो हुआ गुमराह ओ परेशाँ
फिर ज़ाइचा खींचा जो कमाँ का सर-ए-मैदाँ
तीरों की लड़ाई पे पड़ा करअ-ए-पैकाँ
तीरों को क़लम करने लगी तेग़-ए-दरख़शाँ
जौहर से न तीरों ही के फल दाग़ बदल थे
गर शिस्त के थे साठ तो चिल्ला के चहल थे
उस तेग़ ने सरकश के जो तरकश में किया घर
ग़ुल था कि नीसताँ में गिरी बर्क़ चमक कर
पर तीरों के कट कट के उड़े मिसल-ए-कबूतर
मर्हब हुआ मुज़्तर सिफ़त-ए-ताइर-ए-बे-पर
बढ़ कर कहा ग़ाज़ी ने बता किस की ज़फ़र है
अब मर्ग है और तू है ये तेग़ और ये सर है
नामर्द ने पोशीदा किया रुख़ को सिपर से
और खींच लिया ख़ंजर-ए-हिन्दी को कमर से
ख़ंजर तो इधर से चला और तेग़ उधर से
उस वक़्त हवा चल न सकी बीच में डर से
अल्लाह-रे शमशीर-ए-अलमदार के जौहर
जौहर किए उस ख़ंजर-ए-ख़ूँख़ार के जौहर
ख़ंजर का जो काटा तो वो ठहरी न सिपर पर
ठहरी न सिपर पर तो वो सीधी गई सर पर
सीधी गई सर पर तो वो थी सद्र ओ कमर पर
थी सद्र ओ कमर पर तो वो थी क़ल्ब ओ जिगर पर
थी क़लब ओ जिगर पर तो वो थी दामन-ए-ज़ीं पर
थी दामन-ए-ज़ीं पर तो वो राकिब था ज़मीं पर
ईमाँ ने उछल कर कहा वो कुफ्र को मारा
क़ुदरत ने पुकारा कि ये है ज़ोर हमारा
हैदर से नबी बोले ये है फ़ख़्र तुम्हारा
हैदर ने कहा ये मिरी पुतली का है तारा
परवाना-ए-शम-ए-रुख़-ए-ताबाँ हुईं ज़ोहरा
मोहसिन को लिए गोद में क़ुरबाँ हुईं ज़ोहरा
हंगामा हुआ गर्म ये नारी जो हुआ सर्द
वां फ़ौज ने ली बाग बढ़ा याँ ये जवाँमर्द
टापों की सदा से सर-क़ारों में हुआ दर्द
रंग-ए-रुख़-ए-आदा की तरह उड़ने लगी गर्द
क़ारों का ज़र-ए-गंज-ए-निहानी निकल आया
ये ख़ाक उड़ी रन से कि पानी निकल आया
जो ज़िंदा थे अलअज़मतुल्लाह पुकारे
सर मर्दों के नेज़ों पे जो थे वाह पुकारे
डरकर उम्र-ए-सअद को गुमराह पुकारे
ख़ुश हो के अलमदार सू-ए-शाह पुकारे
याँ तो हुआ या हज़रत-ए-शप्पीर नारा
शप्पीर ने हंस कर किया तकबीर का नारा
पर्दे के क़रीब आ के बहन शह की पुकारी
दुश्मन पर हुई फ़तह मुबारक हो मै वारी
अब कहती हूँ मै देखती थी जंग ये सारी
अब्बास की इक ज़र्ब में ठंडा हुआ नारी
मर्हब को तो ख़ैबर में यदुल्लाह ने मारा
हम नाम को इब्न-ए-असदुल्लाह ने मारा
मैदाँ मे अलमदार के जाने के मै सदक़े
उस फ़ाक़े में तलवार लगाने के मैं सदक़े
बाहम इल्म ओ मुश्क उठाने के मै सदक़े
उस प्यास मे इक बूँद न पाने के मै सदक़े
सुक़्क़ा बना प्यासों का मुरव्वत के तसद्दुक़
बे सर किया शह-ज़ोरों को क़ूत के तसद्दुक़
तुम दोनों का हर वक़्त निगहबान ख़ुदा हो
देखे जो बुरी आँख से ग़ारत हो फ़ना हो
दोनों की बला ले के ये माँ-जाई फ़िदा हो
रो कर कहा हज़रत ने बहन देखिए क्या हो
मुंह चाँद सा मुझ को जो दिखाएँ तो मैं जानूँ
दरिया से सलामत जो फिर आएँ तो मैं जानूँ
ज़ैनब से ब-हसरत ये बयाँ करते थे मौला
नागाह सकीना ने सुना फ़तह का मिज़दाँ
चिल्लाई मैं सदक़े तिरे अच्छी मिरी फ़िज़्ज़ा
जा जल्द बलाएँ तू मेरे अमूद की तू ले आ
देख प्यास का कह कर उन्हें मदहोश न करना
पर याद दिलाना कि फ़रामोश न करना
लेने को बलाएँ गई फ़िज़्ज़ा सू-ए-जंगाह
अब्बास ने आते हुए देखा उसे नागाह
चिल्लाए कि फिर जा मैं हवा आने से आगाह
कह देना सकीना से हमें याद है वल्लाह
दि प्यास से बी-बी का हुआ जाता है पानी
ले कर तिरे बाबा का ग़ुलाम आता है पानी
दरिया को चले अब्र-ए-सिफ़त साथ लिए बर्क़
मर्हब के शरीकों का जुदा करते हुए फ़र्क़
सरदार में और फ़ौज में बाक़ी न रहा फ़र्क़
मर्हब की तरह सब छह हब हब में हुए ग़र्क़
तलवार की इक मौज ने तूफ़ान उठाया
तूफ़ान ने सर पर वो बयान उठाया
पानी हुई हर मौज-ए-ज़र्रह-फ़ौज के तन में
मलबूस में ज़िंदे थे कि मुर्दे थे कफ़न में
खंजर की ज़बानों को क़लम कर के दहन में
इक तेग़ से तलवारों को आरी कया रन में
हैदर का असद क़लज़ुम-ए-लश्कर में दर आया
उमड़े हुए बादल की तरह नहर आया
दरिया के निगहबान बढ़े होने को चौ-रंग
पहने हुए मछली की तरह बर में ज़र्रह तंग
खींचे हुए मौजों की तरह खंजर बे-रंग
सुक़्क़े ने कहा पानी पे जाएज़ है कहाँ जंग
दरिया के निगहबान हो पर ग़फ़लत-ए-दीँ है
मानिंद-ए-हुबाब आँख में बीनाई नहीं है
मज़हब है क्या कि रह-ए-शरा न जानी
मशरब है ये कैसा कि पिलाते नहीं पानी
बे शीर का बचपन अली-अकबर की जवानी
बरबाद किए देती है अब तिशना-दहानी
लब ख़ुश्क हैं बच्चों की ज़बाँ प्यास से शक़ है
दरिया ही से पूछ लो किस प्यासे का हक़ है
पानी मुझे इक मुश्क है उस नहर से दर कार
भर लेने दो मुझ को न करो हुज्जत-ओ-तकरार
चिल्लाए सितम-गर है गुज़र नहर पे दुशवार
ग़ाज़ी ने कहा हाँ पे इरादा है तो होशियार
लौसेल को और बर्क़-ए-शरर-बार को रोको
रहवार कोरोको मिरी तलवार को रोको
ये कह के किया अस्प-ए-सुबुक-ए-ताज़ को महमेज़
बिजली की तरह कूंद के चमका फ़र्स-ए-तेज़
अशरार के सर पर हुआ नअलों से शरर-ए-रेज़
सैलाब-ए-फ़ना था कि वो तूफ़ान-ए-बला-ख़ेज़
झपकी पलक उस रख़्श को जब क़हर में देखा
फिर आँख खुली जब तो रवाँ नहर में देखा
दरिया में हुआ ग़ुल कि वो दर-ए-नजफ़ आया
इलियास ओ ख़िज़्र बोले हमारा शरफ़ आया
अब्बास शहनशाह-ए-नजफ़ का ख़लफ आया
पा-बोस को मोती लिए दस्त-ए-सदफ़ आया
याद आ गई प्यासों की जो हैदर के ख़लफ़ को
दिल ख़ून हुआ देख कर दरिया के ख़लफ़ को
सूखे हुए मुशकीज़ा का फिर खोला दहाना
भरने लगा ख़म हो के वो सर ताज-ए-ज़माना
अअदा ने किया दूर से तीरों का निशाना
और चूम लिया रूह-ए-यदुल्लाह ने शाना
फ़रमाया की क्या क्या मुझे ख़ुश करते हो बेटा
पानी मिरी पोती के लिए भरते हो बेटा
कुछ तिरी कोशिश ओ हिम्मत में नहीं है
पानी मगर उस प्यासी की क़िस्मत में नहीं है
वक़्फ़ा मिरे प्यारे की शहादत में नहीं है
जो ज़ख़्म में लज़्ज़त है वो जराहत में नहीं है
इक ख़ून की नहर आँखों से ज़ोहरा के बही है
रोने को तिरी लाश पे सर खोल रही है
दरिया से जो निकला असदुल्लाह का जानी
था शोर कि वो शेर लिए जाता है पानी
फिर राह में हाएल हुए सब ज़ुल्म के पानी
सुक़्क़ा-ए-सकीना की ये की मर्तबा-दानी
क़ब्रें नबी ओ हैदर ओ ज़ुबेरा की हिला दीं
बरछों की जो नोंकें थीं कलेजे से मिला दीं
वो कौन सा तीर जो दिल पे न लगाया
मुशकीज़े के पानी से सवा खून बहाया
ये नर्ग़ा था जो शमर ने हीले से सुनाया
अब्बास बचो ग़ौल-ए-कमीं-गाह से आया
मुड़ कर जो नज़र की ख़लफ़-ए-शीर-ए-ख़दा ने
शानो को तहे तेग़ किया अहल-ए-जफ़ा ने
लिखा है कि एक नख़्ल-ए-रत्ब था सर-ए-मैदाँ
इब्न-ए-वर्क़ा ज़ैद-ए-लईं इस में था पिनहाँ
पहुंचा जो वहाँ सर्व-ए-रवान-ए-शह-ए-मुर्दां
जो शाना था मुश्क ओ अलम ओ तेग़ के शायाँ
वारिस पे किया ज़ैद ने शमशीर-ए-अजल से
ये फूली-फली शाख़ कटी ते
- मिर्ज़ा-सलामत-अली-दबीर
kis nur ki majlis mein meri jalwagari hai
kis nur ki majlis mein meri jalwagari hai
jis nur se pur-nur ye nur-e-nazari hai
aamad hi mein hairan qayas-e-bashri hai
ye kaun si taswir-e-tajalli se bhari hai
go husn ka rutba nahin mazkur hua hai
mimbar mera ham-martaba-e-tur hua hai
sad shukr ki majlis mari mushtaq-e-sukhan hai
ye faiz-e-inayat-e-husain aur hasan hai
phir josh-e-jawani pe mari taba-e-kuhan hai
ye quwwat-e-imdad shah-e-tishna-dahan hai
naqqash mein ye sanat-e-tahrir nahin hai
taswir dikhata hun ye taqrir nahin hai
naqqash to karta hai qalam le ke ye tadbir
ek shakl nai safha-e-qirtas pe tahrir
insaf karo kilk-e-zaban se dam-e-tahrir
main safha-e-baatin mein raqam karta hun taswir
sau rang se taswir musawwir ne bhari hai
rangini-e-mazmun ki kahan jalwagari hai
taswir main us shakhs ki hun tum ko dikhata
jo sani-e-mahbub-e-ilahi hai kahata
ek nur jo jata hai to ek nur hai aata
wajh-e-adam-e-saya-e-ahmad hun sunata
tha baad-e-mohammad ke jo aaya ali akbar
tha ahmad-e-mukhtar ka saya ali akbar
yan tak sukhan-e-taza kiya taba ne paida
wo nur-e-nabi aur nabi nur-e-khuda ka
ye silsila-e-nur kahan ja ke hai pahuncha
akbar ko jo dekha to batao kise dekha
wallah ziyarat ka saza-war hai akbar
nemul-badal ahmad0-e-mukhtar hai akbar
lekin tumhein taswir ye karti hai ishaarat
han majlisiyan roza-e-jannat ki bashaarat
ho mahw-e-tahaarat hai agar qasd-e-ziyarat
hai lazim-o-malzum ziyarat ko tahaarat
is qasd pe baithe ho jo sahib-e-nazaro tum
tajdid-e-wazu ashk ke pani se karo tum
likha hai ki thi hazrat-e-shabbir ko aadat
hoti thi namaz-e-sahri se jo faraghat
pahle ali akbar hi ko bulwate the hazrat
farmate the karta hun ibaadat mein ibaadat
raushan ho na kyun chashm-e-husain ibn-e-ali
karta hun ziyarat mein jamal-e-nubwi ki
karte ali akbar to jhuka farq ko mujra
har martaba mil jata tha panw se sar un ka
kis nur ki majlis mein meri jalwagari hai
jis nur se pur-nur ye nur-e-nazari hai
aamad hi mein hairan qayas-e-bashri hai
ye kaun si taswir-e-tajalli se bhari hai
go husn ka rutba nahin mazkur hua hai
mimbar mera ham-martaba-e-tur hua hai
sad shukr ki majlis mari mushtaq-e-sukhan hai
ye faiz-e-inayat-e-husain aur hasan hai
phir josh-e-jawani pe mari taba-e-kuhan hai
ye quwwat-e-imdad shah-e-tishna-dahan hai
naqqash mein ye sanat-e-tahrir nahin hai
taswir dikhata hun ye taqrir nahin hai
naqqash to karta hai qalam le ke ye tadbir
ek shakl nai safha-e-qirtas pe tahrir
insaf karo kilk-e-zaban se dam-e-tahrir
main safha-e-baatin mein raqam karta hun taswir
sau rang se taswir musawwir ne bhari hai
rangini-e-mazmun ki kahan jalwagari hai
taswir main us shakhs ki hun tum ko dikhata
jo sani-e-mahbub-e-ilahi hai kahata
ek nur jo jata hai to ek nur hai aata
wajh-e-adam-e-saya-e-ahmad hun sunata
tha baad-e-mohammad ke jo aaya ali akbar
tha ahmad-e-mukhtar ka saya ali akbar
yan tak sukhan-e-taza kiya taba ne paida
wo nur-e-nabi aur nabi nur-e-khuda ka
ye silsila-e-nur kahan ja ke hai pahuncha
akbar ko jo dekha to batao kise dekha
wallah ziyarat ka saza-war hai akbar
nemul-badal ahmad0-e-mukhtar hai akbar
lekin tumhein taswir ye karti hai ishaarat
han majlisiyan roza-e-jannat ki bashaarat
ho mahw-e-tahaarat hai agar qasd-e-ziyarat
hai lazim-o-malzum ziyarat ko tahaarat
is qasd pe baithe ho jo sahib-e-nazaro tum
tajdid-e-wazu ashk ke pani se karo tum
likha hai ki thi hazrat-e-shabbir ko aadat
hoti thi namaz-e-sahri se jo faraghat
pahle ali akbar hi ko bulwate the hazrat
farmate the karta hun ibaadat mein ibaadat
raushan ho na kyun chashm-e-husain ibn-e-ali
karta hun ziyarat mein jamal-e-nubwi ki
karte ali akbar to jhuka farq ko mujra
har martaba mil jata tha panw se sar un ka
- meer-muzaffar-husain-zameer
arsh ke nuri zamin ke farsh par aane ko hain
aur ek khaki ko sair-e-khuld dikhlane ko hain
bagh-e-jannat ko sidhaara sayyad-e-ali-maqam
rah mein us ki malaek nur barsane ko hain
wae-hasrat chal diya duniya se wo mahbub-e-qaum
aur jo baqi hain us ke hijr mein jaane ko hain
saqi-e-marhum tere baada-khwaron ke liye
khun-e-dil pine ko aur lakht-e-jigar khane ko hain
gulshan-e-millat mein ghunchon ne abhi kholi thi aankh
ek jhonke se khizan ke ab wo murjhane ko hain
chhup gaya wo ru-e-rakhshan mehr-e-alam-tab ka
ab shab-e-yalda ki har-su zulmaten chhane ko hain
ai shah-e-be-taj wo matam ki tere dhum hai
taj-daron ke alam is gham se jhuk jaane ko hain
dasht mein dun lag rahi hai qais ke matam mein aaj
aahuwan-e-najd ki aankhon mein ashk aane ko hain
ek sine mein thi sayyad ke tadap islam ki
hum musalman sab barae nam kahlane ko hain
karwan-e-qaum ka hangama tere dam se tha
ye na tha malum hazrat kuch farmane ko hain
bosa-gah-e-qaum hoga tere sang-e-astan
naqsh-e-pa par tere lakhon qafile aane ko hain
har zaman in rahguzar ra karwan-e-digar ast
kushtagan-e-ishq ra har lakht jaan-e-digar ast
hae wo khurshid-e-anwar chehra-e-taban tera
hae wo mah-e-munawwar aariz-e-rakhshan tera
wo nigahen jaan-faza aur wo adaen dil-ruba
wo jabin-e-dil-kusha wo dil-faroz unwan tera
hae us rish-e-mubarak par wo barish nur ki
sham-e-piri mein bayaz-e-subh nur-afshan tera
hae wo jaan-e-basirat tera nurani dimagh
hae wo kan-e-mohabbat sina-e-sozan tera
wo teri shan-e-jalali wo tera roab-e-jamal
pad gai jis par nazar tha banda-e-farman tera
mehdi-o-mushtaq hamdam shibli-o-haali nadim
aur zain-ul-abdin khasai-e-khasan tera
baam-o-dar collage ke hain matam mein tere sar nigun
marsiyan-khwan ban gaya har kakh-o-har-aiwan tera
dil se khisht-o-sang ke collage mein uthti hai sada
kya hua mir-e-imarat khana-e-viran tera
ta-jahan mein hai tere nana ki ummat ko baqa
qaum mein matam rahega sayyad-ahmad-khan tera
banda-parwar waqt-e-rukhsat yaad farmaya na kyun
nazir-e-mahjur tha wabasta-e-daman tera
ai chaman paira-e-millat tere shauq-e-did mein
tha nawa-sanj-e-fughan ye bulbul-e-bustan tera
sar-ba-sahra ab rahenge aah diwane tere
sham-e-turbat ka karenge tauf parwane tere
hae bazm-e-qaum mein ab jalwa farmaega kaun
mah ke manind haale mein nazar aaega kaun
ai masiha qaum ke tujh bin izam-e-khasta ko
qum-be-izni kah ke ab jumbish mein phir laega kaun
dekh kar chitwan teri uthte the dil mein walwale
is nigah-e-garm se ab dil ko garmaega kaun
tha tera ru-e-munawwar ek najm-e-rahnuma
ab wo nurani faza zulmat mein dikhlaega kaun
us shua-e-ruh-parwar se phir ai mah-e-munir
dil ke dariya mein wo raqs-e-mauj dikhlaega kaun
khana-jangi har taraf hai mashar-e-islam mein
hae tujh bin in ke ye uljhao suljhaega kaun
dar-o-gir-e-dahr misl-e-arsa-e-shatranj hai
yar-e-shatir ban ke is ki chaal batlaega kaun
ghuggiyon ka rup bhar kar qaum ki stage par
ma nami khwahem nang-o-nam ra gaega kaun
ruth kar jata hai sayyad aao len is ko mana
warna itni mushkilen aasan farmaega kaun
dafn karna sahn mein collage ke sir-sayyad ki lash
is khalilullah se kabe ko chhudwaega kaun
yun to lakhon aaenge is najd mein aur jaenge
sayyad ahmad sa junun-saman magar aaega kaun
ai harifan aan qadah ba-shikast-o-an saqi numand
jura-e-juz ashk-e-khun dar jam-e-ma baqi numand
sayyad-e-marhum ummat ka bhala karta raha
fikr-e-millat roz-o-shab subh-o-masa karta raha
jo falah-e-qaum ki aai samajh mein us ki baat
barmala kahta raha aur barmala karta raha
thi use parwah-e-tahsin aur na kuchh nafrin ka dar
us ko jo karna tha be-ru-o-riya karta raha
na-saza sunta raha aur marhaba kahta raha
kufr ke fatwon mein kaam islam ka karta raha
gar hue nakaamiyon se hausle yaron ke past
himmat-e-ali ka apni iqtiza karta raha
qaum mein phir taza zauq-e-but-parasti dekh kar
ek naya kaba aligarh mein bana karta raha
ai ki collage ke ye qasr-o-khak-o-aiwan dekhiye
kaam jo shahon ka tha so ye gada karta raha
us ne ki islam aur auham-e-baatil mein tamiz
zang se aaina-e-din ki jila karta raha
kufr ke hamlon mein tha islam ki daim sipar
aalam-e-ummat ye kar-e-ambiya karta raha
shahid-e-urdu ki zulfon ke nikale pech-o-kham
husn ke ghamzon ko fitrat-ashna karta raha
ye chali thi ummat-e-marhum sail-e-ghadr mein
maut ke tufan mein kar-e-nakhuda karta raha
zindagi sayyad ki thi qalb-e-tapan ki zindagi
thi jahan ki zindagi jaan-e-jahan ki zindagi
chhup gaya wo mehr-e-taban bazm-e-dauran chhod kar
matla-e-ummid ka tarik unwan chhod kar
fasl-e-gul mein wo chala bazm-e-gulistan chhod kar
shakh sare aarzu ke gul-ba-daman chhod kar
nala-e-dil-doz sahn-e-bostan mein sar kiya
bulbulan-e-zar ne daras-e-gulistan chhod kar
aa liya sail-e-fana ne karwan salar ko
qafile ko dasht-e-hirman mein pareshan chhod kar
pir-e-kanan ki judai se jigar hai pash pash
go chala hai misr mein wo mah-e-kanan chhod kar
so gaya kunj-e-lahad mein shah-e-be-taj-o-sarir
bagh-o-ragh-o-bargah-o-qasr-o-aiwan chhod kar
faiz se tere rahi wabasta hasil ki ummid
tishna-lab kahti na jae abr-e-naisan chhod kar
ye to batla de ki hai kis ka sahaara qaum ko
kaba-e-dil qibla-e-jaan tera daman chhod kar
kaun hoga mard-e-maidan ab masaf-e-dahr ka
hath mein kis ke chala hai go wo chaugan chhod kar
banda-parwar ye junun-e-ishq ke shayan na tha
sair-e-gulzar-e-iram khar-e-mughilan chhod kar
gahe-gahe qaum ki haalat pe bhi karna nazar
sair-e-jannat chhod kar gul-gasht-e-rizwan chhod kar
is chaman mein ruh mandlati rahegi aap ki
jaegi bulbul kahan bazm-e-gulistan chhod kar
dar-e-fani ki hai 'nazir' garche fani zindagi
kushtagan-e-ishq ki hai jawedani zindagi
aur ek khaki ko sair-e-khuld dikhlane ko hain
bagh-e-jannat ko sidhaara sayyad-e-ali-maqam
rah mein us ki malaek nur barsane ko hain
wae-hasrat chal diya duniya se wo mahbub-e-qaum
aur jo baqi hain us ke hijr mein jaane ko hain
saqi-e-marhum tere baada-khwaron ke liye
khun-e-dil pine ko aur lakht-e-jigar khane ko hain
gulshan-e-millat mein ghunchon ne abhi kholi thi aankh
ek jhonke se khizan ke ab wo murjhane ko hain
chhup gaya wo ru-e-rakhshan mehr-e-alam-tab ka
ab shab-e-yalda ki har-su zulmaten chhane ko hain
ai shah-e-be-taj wo matam ki tere dhum hai
taj-daron ke alam is gham se jhuk jaane ko hain
dasht mein dun lag rahi hai qais ke matam mein aaj
aahuwan-e-najd ki aankhon mein ashk aane ko hain
ek sine mein thi sayyad ke tadap islam ki
hum musalman sab barae nam kahlane ko hain
karwan-e-qaum ka hangama tere dam se tha
ye na tha malum hazrat kuch farmane ko hain
bosa-gah-e-qaum hoga tere sang-e-astan
naqsh-e-pa par tere lakhon qafile aane ko hain
har zaman in rahguzar ra karwan-e-digar ast
kushtagan-e-ishq ra har lakht jaan-e-digar ast
hae wo khurshid-e-anwar chehra-e-taban tera
hae wo mah-e-munawwar aariz-e-rakhshan tera
wo nigahen jaan-faza aur wo adaen dil-ruba
wo jabin-e-dil-kusha wo dil-faroz unwan tera
hae us rish-e-mubarak par wo barish nur ki
sham-e-piri mein bayaz-e-subh nur-afshan tera
hae wo jaan-e-basirat tera nurani dimagh
hae wo kan-e-mohabbat sina-e-sozan tera
wo teri shan-e-jalali wo tera roab-e-jamal
pad gai jis par nazar tha banda-e-farman tera
mehdi-o-mushtaq hamdam shibli-o-haali nadim
aur zain-ul-abdin khasai-e-khasan tera
baam-o-dar collage ke hain matam mein tere sar nigun
marsiyan-khwan ban gaya har kakh-o-har-aiwan tera
dil se khisht-o-sang ke collage mein uthti hai sada
kya hua mir-e-imarat khana-e-viran tera
ta-jahan mein hai tere nana ki ummat ko baqa
qaum mein matam rahega sayyad-ahmad-khan tera
banda-parwar waqt-e-rukhsat yaad farmaya na kyun
nazir-e-mahjur tha wabasta-e-daman tera
ai chaman paira-e-millat tere shauq-e-did mein
tha nawa-sanj-e-fughan ye bulbul-e-bustan tera
sar-ba-sahra ab rahenge aah diwane tere
sham-e-turbat ka karenge tauf parwane tere
hae bazm-e-qaum mein ab jalwa farmaega kaun
mah ke manind haale mein nazar aaega kaun
ai masiha qaum ke tujh bin izam-e-khasta ko
qum-be-izni kah ke ab jumbish mein phir laega kaun
dekh kar chitwan teri uthte the dil mein walwale
is nigah-e-garm se ab dil ko garmaega kaun
tha tera ru-e-munawwar ek najm-e-rahnuma
ab wo nurani faza zulmat mein dikhlaega kaun
us shua-e-ruh-parwar se phir ai mah-e-munir
dil ke dariya mein wo raqs-e-mauj dikhlaega kaun
khana-jangi har taraf hai mashar-e-islam mein
hae tujh bin in ke ye uljhao suljhaega kaun
dar-o-gir-e-dahr misl-e-arsa-e-shatranj hai
yar-e-shatir ban ke is ki chaal batlaega kaun
ghuggiyon ka rup bhar kar qaum ki stage par
ma nami khwahem nang-o-nam ra gaega kaun
ruth kar jata hai sayyad aao len is ko mana
warna itni mushkilen aasan farmaega kaun
dafn karna sahn mein collage ke sir-sayyad ki lash
is khalilullah se kabe ko chhudwaega kaun
yun to lakhon aaenge is najd mein aur jaenge
sayyad ahmad sa junun-saman magar aaega kaun
ai harifan aan qadah ba-shikast-o-an saqi numand
jura-e-juz ashk-e-khun dar jam-e-ma baqi numand
sayyad-e-marhum ummat ka bhala karta raha
fikr-e-millat roz-o-shab subh-o-masa karta raha
jo falah-e-qaum ki aai samajh mein us ki baat
barmala kahta raha aur barmala karta raha
thi use parwah-e-tahsin aur na kuchh nafrin ka dar
us ko jo karna tha be-ru-o-riya karta raha
na-saza sunta raha aur marhaba kahta raha
kufr ke fatwon mein kaam islam ka karta raha
gar hue nakaamiyon se hausle yaron ke past
himmat-e-ali ka apni iqtiza karta raha
qaum mein phir taza zauq-e-but-parasti dekh kar
ek naya kaba aligarh mein bana karta raha
ai ki collage ke ye qasr-o-khak-o-aiwan dekhiye
kaam jo shahon ka tha so ye gada karta raha
us ne ki islam aur auham-e-baatil mein tamiz
zang se aaina-e-din ki jila karta raha
kufr ke hamlon mein tha islam ki daim sipar
aalam-e-ummat ye kar-e-ambiya karta raha
shahid-e-urdu ki zulfon ke nikale pech-o-kham
husn ke ghamzon ko fitrat-ashna karta raha
ye chali thi ummat-e-marhum sail-e-ghadr mein
maut ke tufan mein kar-e-nakhuda karta raha
zindagi sayyad ki thi qalb-e-tapan ki zindagi
thi jahan ki zindagi jaan-e-jahan ki zindagi
chhup gaya wo mehr-e-taban bazm-e-dauran chhod kar
matla-e-ummid ka tarik unwan chhod kar
fasl-e-gul mein wo chala bazm-e-gulistan chhod kar
shakh sare aarzu ke gul-ba-daman chhod kar
nala-e-dil-doz sahn-e-bostan mein sar kiya
bulbulan-e-zar ne daras-e-gulistan chhod kar
aa liya sail-e-fana ne karwan salar ko
qafile ko dasht-e-hirman mein pareshan chhod kar
pir-e-kanan ki judai se jigar hai pash pash
go chala hai misr mein wo mah-e-kanan chhod kar
so gaya kunj-e-lahad mein shah-e-be-taj-o-sarir
bagh-o-ragh-o-bargah-o-qasr-o-aiwan chhod kar
faiz se tere rahi wabasta hasil ki ummid
tishna-lab kahti na jae abr-e-naisan chhod kar
ye to batla de ki hai kis ka sahaara qaum ko
kaba-e-dil qibla-e-jaan tera daman chhod kar
kaun hoga mard-e-maidan ab masaf-e-dahr ka
hath mein kis ke chala hai go wo chaugan chhod kar
banda-parwar ye junun-e-ishq ke shayan na tha
sair-e-gulzar-e-iram khar-e-mughilan chhod kar
gahe-gahe qaum ki haalat pe bhi karna nazar
sair-e-jannat chhod kar gul-gasht-e-rizwan chhod kar
is chaman mein ruh mandlati rahegi aap ki
jaegi bulbul kahan bazm-e-gulistan chhod kar
dar-e-fani ki hai 'nazir' garche fani zindagi
kushtagan-e-ishq ki hai jawedani zindagi
-
dasht-e-wigha mein nur-e-khuda ka zuhur hai
dasht-e-wigha mein nur-e-khuda ka zuhur hai
zarron mein raushni-e-tajalli-e-tur hai
ek aaftab-e-rukh ki ziya dur dur hai
koson zamin aks se dariya-e-nur hai
allah-re husn tabqa-e-ambar-sarisht ka
maidan-e-karbala hai namuna bahisht ka
hairan zamin ke nur se hai charkh-e-lajward
manind-e-kahruba hai rukh-e-aftab-e-zard
hai ru-kash-e-faza-e-iram wadi-e-nabard
uthta hai khak se tataq-e-nur ja-e-gard
hairat se hamilan-e-falak un ko takte hain
zarre nahin zamin pe sitare chamakte hain
hai aab-e-nahr surat-e-aina jalwa-gar
taban hai misl-e-chashma-e-khurshid har bhanwar
lahren bisan-e-barq chamakti hain sar-ba-sar
pani pe machhliyon ki thaharti nahin nazar
ye aab-o-tab hai ki guhar aab aab hain
dariya to aasman hain sitare hubab hain
partaw-fagan hua jo rukh-e-qibla-e-anam
mashhur ho gai wo zamin arsh-ehtisham
aur sang-reze durr-e-najaf ban gae tamam
sahra ko mil gaya sharaf-e-wadi-assalam
kabe se aur najaf se bhi izzat siwa hui
khak us zamin-e-pak ki khak-e-shifa hui
phaila jo nur-e-mahr-e-imamat dam-e-zawal
zarron se wan ke aankh milana hua muhaal
sare nihaal faiz-e-qadam se hue nihaal
akhtar bane jo phul to shakhen banin hilal
patte tamam aaina-e-nur ho gae
sahra ke nakhl sab shajar-e-tur ho gae
ghul tha zahe husain ki shaukat zahe waqar
goya khade hain jang ko mahbub-e-kirdgar
rukh se ayan hai dabdaba-e-shah-e-zul-fiqar
hai nur-e-haq jabin-e-munawwar se aashkar
kyunkar chhupe na mah-e-do-hafta hijab se
chauda tabaq mein nur hai us aaftab se
ye ru-e-raushan aur ye gesu-e-mushk-e-fam
yan sham mein to subh hai aur subh mein hai sham
haale mein yun nazar nahin aata hai mah tamam
qudarat khuda ki nur ka zulmat mein hai maqam
zulfon mein jalwa-gar nahin chehra janab ka
hai nisf shab mein aaj zuhur aaftab ka
qurban kaman-e-abru-e-maula pe jaan o dil
gar mah-e-nau kahen to hai tashbih mubtazil
chashm-e-ghazal-e-dasht-e-khutan chashm se khajil
dekha jise karam se khataen huin bahil
putli bisan-e-qibla-numa be-qarar hai
giryan hain wo ye gardish-e-lail o nahaar hai
rukhsar hain ziya mein qamar se ziyaada-tar
jin par thahar saki na kabhi shams ki nazar
rish-e-mokhazzab aur ye rukh-e-shah-e-bahr o bar
paida hain saf mani-e-wal-lailo-o-wal-qamar
quran se ayan hai buzurgi imam ki
khai qasam khuda ne isi subh o sham ki
kis munh se kijiye lab-e-jaan-bakhsh ka bayan
chusi jinhon ne ahmad mukhtar ki zaban
kya durr-e-ab-dar hain is durj mein nihan
goya ki motiyon ka khazana hai ye dahan
zarre zamin pe aks se sare chamak gae
jis waqt ye khile to sitar chamak gae
sham-e-harim-e-lam-yazali tha gulu-e-shah
tarik shab mein jaise huwaida ho nur-e-mah
ai charkh-e-be-madar ye kaisa sitam hai aah
shamshir-e-shimr aur mohammad ki bosa-gah
jis par rasul honton ko malte hon pyar se
kat jae karbala main wo khanjar ki dhaar se
manzur yan thi madh-e-gulu-e-shah-e-umam
yaad aa gai magar ye hadis-e-gham-o-alam
masjid mein jalwa-gar the rasul-e-falak-hasham
malte the zikr-e-haq mein lab-e-pak dam-ba-dam
raushan the baam-o-dar rukh-e-raushan ke nur se
aaina ban gai thi zamin tan ke nur se
tha jo sutun ki rukn-e-risalat ka takiya-gah
kursi bhi us ki pusht ki thi dhundhti panah
tha jis hasir par wo do aalam ka baadshah
hasrat se arsh karta tha us farsh par nigah
auj-e-zamin bahisht-e-barin se do-chand tha
mimbar ka nuh falak se bhi paya buland tha
ashab-e-khas gird the anjum ki tarah sab
taban tha bich mein wo mah-e-hashmi-laqab
sar par malak-sifat magas-raan the do arab
jibril tah kiye hue the zanu-e-adab
khadim bilal-o-qumbar-e-gardun-asas tha
nalain is ke pas asa us ke pas tha
gesu the wo mufassir-e-wallail-iza-saja
rukh se ayan the mani-e-washshams-o-wa-zzuha
wo rish-e-pak aur rukh-e-sardar-e-ambiya
goya dhara tha rehl pe quran khula hua
odhe siyah aba jo wo aalam-panah tha
kaba ka saf hajiyon ko ishtibah tha
pahlu mein baadshah ke tha jalwa-gar wazir
sardar-e-din ali-e-wali khalq ka amir
donon jahan mein koi na donon ka tha nazir
ahmad the aaftab to haidar mah-e-munir
zahir mein ek nur ka do ja zuhur tha
gar ghaur kijiye to wahi ek nur tha
masruf-e-waz-o-pand the sultan-e-mashriqain
jo ghar se nikle khelte zohra ke nur ain
nana baghair donon nawason ko tha na chain
badh jate the hasan kabhi aage kabhi husain
kahte the dekhen kaun qadam jald uthata hai
nana ke pas kaun bhala pahle jata hai
wo gore gore chehron pe zulfen idhar udhar
akhtar se wo chamakte hue kan ke guhar
rashk-e-hilal tauq gale ghairat-e-qamar
haikal pe naqsh nam khuda-e-jalil ke
tawiz gardanon pe par-e-jibril ke
masjid mein aae hanste hue jab wo gul-badan
khushbu se sehan-e-masjid-e-jame bana chaman
taslim ko husain se pahle jhuke hasan
khush ho ke muskurane lage sarwar-e-zaman
badh badh ke kham salam ko chhote bade hue
baithe rahe rasul malak uth khade hue
beton ko tha ali ka ishaara ki baith jao
lazim nahin ki waz mein nana ko tum satao
phaila ke hath bole mohammad ki aao aao
shabbir ne kaha hamein pahle gale lagao
bhai hasan jo aap ki godi mein aaen ge
hum tum se nana jaan abhi ruth jaen ge
bole hasan ki wah hamein aur karen na pyar
iqrar ke chuke hain shahanshah-e-nam-dar
bole ba-chashm-e-nam ye husain-e-falak-waqar
dekhen to kaun kandhe pe hota hai ab sawar
sab se siwa jo hain so hamin un ke pyare hain
aage na badhiye aap ki nana hamare hain
bhai se tab kaha ye hasan ne ba-iltifat
be-wajh hum se ruthe ho tum ai niko-sifat
nana hamare kya nahin sultan-e-kaenat
hoti hai nagawar tumhein to zara si baat
ghussa na itna chahiye khush-khu ke waste
machle the yun hi bachcha-e-ahu ke waste
ye sun ke munh ali ka lage dekhne rasul
hans kar kaha ye donon hain mere chaman ke phul
main chahta hun ek ki khatir na ho malul
roenge ye to ghar se nikal aaegi butul
howe na ranj mere kisi nur-e-ain ko
tum lo hasan ko god mein main lun husain ko
shabbar se phir ishaara kiya ho ke be-qarar
ghussa na khao pahle tumhin ko karenge pyar
phir bole dekh kar su-e-shabbir-e-nam-dar
aa ai husain aa teri baaton ke main nisar
chhati se hum lagaenge jaan apni jaan kar
dekhen to pahle kaun lipatta hai aan kar
daude ye baat sun ke barabar wo khush-sayar
pas aae aaftab-e-risalat ke do qamar
lipte husain hans ke idhar aur hasan udhar
the panw zanuon pe to baala-e-dosh sar
nana ke sath pyar mein donon ka sath tha
gardan mein ek un ka aur un ka hath tha
phir phir ke dekhte the shahanshah-e-mashriqain
gah jaanib-e-hasan to kabhi jaanib-e-husain
baithe jo zanuon pe wo zehra ke nur-e-ain
tha tan ko lutf qalb ko rahat jigar ko chain
jhuk jhuk ke munh rasul-e-zaman chumne lage
in ka gala to un ka dahan chumne lage
shabbir chahte the ki chumen mere bhi lab
par kuchh gale ke boson ka khulta na tha sabab
nana ke munh ke pas ye late the munh ko jab
jhuk jhuk ke chumte the gala sayyad-e-arab
bhai ko dekh kar jo hasan muskuraate the
ghairat se un ki aankhon mein aansu bhar aate the
utthe husain zanu-e-ahmad se khashm-gin
ghusse se rang zard aur aankhon pe aastin
rukh par pasina jism mein rasha jabin pa chin
puchha kidhar chale to ye bole kahin nahin
ghar mein akele tewari chadhae chale gae
dekha na phir ke sar ko jhukae chale gae
baitushsharf mein aae jo shabbir-e-nam-dar
kurte ko munh pe rakh ke lage rone zar-zar
daudin ye kah ke faima-zehra jigar-figar
hai hai husain kya hua tu kyun hai ashk-bar
tujh ko rula ke gham mein mujhe mubtala kiya
qurban ho gai tujhe kis ne khafa kiya
mera kaleja phahtta hai ai dilruba na ro
zehra hazar jaan se tujh pe fida na ro
sar mein na dard ho kahin ai mah-laqa na ro
bas bas na ro husain bara-e-khuda na ro
meri taraf to dekho ki betab hoti hun
chadar se munh ko dhanp ke lo main bhi roti hun
tu munh to khol ai mere shabbir-e-khush-khisal
tar ho gae hain aansuon se gore gore gal
mal mal ke pusht-e-dast se aankh karo na lal
suljhaun aao uljhe hue gesuon ke baal
ghar se gae the sath juda ho ke aae ho
samjhi main kuchh hasan se khafa ho ke aae ho
tum chup raho wo ghar mein to masjid se phir ke aaen
guzri main khel se mere bachche ko kyun rulaen
un se na boliyo wo tumhein lakh gar manaen
lo aao jaane do tumhein chhati se hum lagaen
wari agar hasan ne rulaya bura kiya
puchhungi kya na main mere pyare ne kya kiya
bole husain hum to hain is baat par khafa
nana ne chume bhai ke hont aur mera gala
tum amman-jaan munh ko to sungho mere zara
kuchh bu-e-nagawar hai mere dahan mein kya
bhai ke lab se apne labon ko milate hain
ab hum na jaen ge hamein nana rulate hain
munh rakh ke munh pe boli ye zehra jigar-figar
bu-e-gulab aati hai ai mere gul-azar
chuma agar gala to khafa ho na main nisar
tum ko zaban chusate the mahbub-e-kirdgar
ye mushk mein mahak na gul-e-yasman mein hai
khush-bu usi dahan ki tumhaare dahan mein hai
kahne lage husain ye man se ba-chashm-e-nam
kya jaano tum hasan se hamein chahte hain kam
ye kya unhin pe lutf-o-inayat hai dam-ba-dam
malum ho gaya unhen pyare nahin hain hum
ro ro ke aaj jaan hum apni ganwaenge
pani na ab piyenge na khane ko khaenge
ye baat sun ke ho gaya zehra ka rang faq
boli pisar se ro ke wo bint-e-rasul-e-haq
sadqe gai karo na kaleje ko mere shaq
hai hai ye kya kaha mujhe hota hai ab qalaq
mera lahu bahega jo aansu bahaoge
kahe ko man jiyegi jo khana na khaoge
ye kah ke odh li sar-e-pur-nur par rida
moze pahan ke god mein shabbir ko liya
dar tak gai jo ghar se wo dil-band-e-mustafa
fizza ne badh ke buzar o salman ko di sada
pesh-e-nabi husain ko godi mein lati hain
hat jao sab ki fatima masjid mein aati hain
allah-re aamad aamad-e-zehra ka bandobast
saton falak the auj-e-sharafat se jis ke past
ahmad ke gird-o-pesh se utthe khuda-parast
insan to kya malak ko na thi qudarat-e-nishast
aain to shad-shad rasul-e-zaman hue
ghar mein khuda ke ek jagah panj-tan hue
tazim-e-fatima ko uthe sayyad-ul-bashar
dekha ki chashm-e-fatima hai aansuon se tar
gham the husain dosh pe man ke jhukae sar
tha ek hilal mahr ke pahlu mein jalwa-gar
man kahti thi na rowo magar chup na hote the
aankhen thin band hichkiyan le le ke rote the
ghabra ke puchhne lage mahbub-e-zul-jalal
rota hai kyun husain ye kya hai tumhaara haal
bolin butul aaj qalaq hai mujhe kamal
roya hai ye husain ki aankhen hain donon lal
aate hain hanste rote hue ghar mein jate hain
shafqat bhi aap hi karte hain aap hi rulate hain
hathon ko jodti hun main ya shah-e-bahr-o-bar
shafqat ki us ke haal pe har-dam rahe nazar
rone se us ke hota hai tukde mera jigar
mujh faqa-kash gharib ka pyara hai ye pisar
haidar se puchhiye mere usrat ke haal ko
kis kis dukhon se pala hai is naunihaal ko
ashk us ke jitne tapke hain ya shah-e-nek-khu
utna hi ghat gaya hai mere jism ka lahu
roe hain phut phut ke ye mere ru-ba-ru
tar ho gaya hai aansuon se chand sa gulu
dekha na tha ye main ne jo haal is ka aaj hai
hazrat to jaante hain ki nazuk mizaj hai
shafqat se aaj aap ne chume hasan ke lab
bosa liya na un ke labon ka ye kya sabab
rutbe mein donon ek hain ya surwar-e-arab
main sach kahun ye sun ke mujhe bhi hua ojab
is ko jo ho khushi to dil is ka bhi shad ho
chhote se chahiye ki mohabbat ziyaad ho
aap un ke naz uthate hain ya shah-e-bahr-o-bar
phir kis se ruthen aap se ruthen na ye agar
aksar inhen chadhaya hai hazrat ne dosh par
gesu diye hain nanhe se hathon mein besh-tar
ruthe the ye so qadmon pe sar dharne aae hain
munh ke na chumne ka gila karne aae hain
ye kah ke phir husain se bolin ba-chashm-tar
lo ja ke ab nabi ke qadam par jhukao sar
aae husain hath jo nanhe se jod kar
be-ikhtiyar rone lage sayyad-ul-bashar
rah rah ke dekhte the ali o butul ko
nazdik tha qalaq se ghash aae rasul ko
thi aansuon se rish-e-mubarak tamam nam
fart-e-buka se khak pa jhukte the dam-ba-dam
gahe sutun se lag ke hue rast gah kham
har lahza iztirab ziyaada tha sabr kam
ho sakta tha na zabt shah-e-mashriqain se
rote the bar bar lipat kar husain se
shabbir ro ke kahte the nana na roiye
roenge ab na hum shah-e-wala na roiye
hilne lagega arsh-e-mualla na roiye
phatta hai ab hamara kaleja na roiye
sau bar din mein hum to munh ashkon se dhote hain
hazrat hamare rone pe kahe ko rote hain
ghabra gae ali-e-wali shah-e-bahr-o-bar
ki arz fatima ne jhuka ke qadam pe sar
beti nisar ho gai ya sayyad-ul-bashar
kya wajh hai jo aap hain is tarah nauha gar
jaldi bataiye ki mujhe tab ab nahin
rona khuda ke dost ka ye be-sabab nahin
hazrat ko ilm-e-ghaib hai ya shah-e-ins-o-jaan
aainda o guzishta ka sab haal hai ayan
kya aai aaj wahi-e-khudawand-e-do-jahan
hona hai jo husain pe mujh se karo bayan
faqon se katti hun musibat jahan ki
kyun baba-jaan khair to hai is ki jaan ki
bole jigar ko tham ke mahbub-e-zul-jalal
tujh se suna na jaega ai fatima ye haal
kis munh se main kahun ki qalaq hai mujhe kamal
zehra shahid hue howenge tere ye donon lal
matam ki ye khabar abhi jibril lae the
sare malak husain ke purse ko aae the
almas pi ke huega be-jaan tera hasan
ye wajh hai ki chumta hun us ka main dahan
bhar jaega kalejon ke tukdon se sab lagan
hoga zamurradi tere is lal ka badan
su-e-bahisht jab ye jahan se sidhaarenge
bad-kesh tir is ke janaze pa marenge
zehra mujhe kalam ki taqat nahin hai ab
halq-e-husain chumne ka kya kahun sabab
ek ban mein tin roz rahenge ye tishna-lab
kat jaega gala yahi khanjar se hai ghazab
neze pe sar chadhega tere nur-e-ain ka
ghodon se raund dalenge lasha husain ka
roe khabar ye kah ke jo mahbub-e-zul-minan
ghabra ke munh husain ka takne lage hasan
zehra pukari hae lutega mera chaman
main mar gai duhai hai ya sarwar-e-zaman
ye kaisi aag hai ki meri kokh jal gai
hai hai chhuri kaleje pe zehra ke chal gai
fariyaad ya-nabi shah-e-abrar al-ghiyas
ai mursilan-e-haq ke madad-gar al-ghiyas
ai be-kason ke waris o sardar ul-ghiyas
qudarat hai sab tarah ki shah-e-mashriqain ko
hazrat se lungi apne hasan aur husain ko
kis jurm par ye lal mere qatl honge aah
ro kar kaha rasul-e-khuda ne ki be-gunah
ki arz fatima ne ki ai arsh-e-bar-gah
bachchon ko mere kya na milegi kahin panah
talwaren khench khench ke zalim jo aaenge
hazrat na kya nawason ko apne bachaenge
aasan hai kya jo qatl karenge sitam-shiar
kya sher-e-haq kamar se na khinchenge zul-fiqar
aada pe kya chalega na dast-e-khuda ka war
baalon ko kya na kholegi zehra jigar figar
tukde jigar jo huega mujh dil do-nim ka
paya na kya hilaungi arsh-e-azim ka
zehra se ro ke kahne lage shah-e-nek-khu
beti mujhe sataenge turbat mein kina-ju
is waqt qatl howenge ye donon mah-ru
duniya mein jab na hoga ali aur na main na tu
lashe pe mujtaba ke tu shabbir roega
shabbir jab marega to koi na huega
chillai sar patak ke ye zehra ki hai sitam
pitega kaun tan se jo niklega us ka dam
matam ki saf bichhaega kaun ai shah-e-umama
purse ko kaun aaega us ke ba-chashm-e-nam
hum mein se aise waqt jo koi na huega
hai hai mere husain ko phir kaun roega
bachche ki mere taziya-dari karega kaun
munh dhanp dhanp girya-o-zari karega kaun
dariya-e-ashk chashm se jari karega kaun
imdad baad-e-marg hamari karega kaun
hoga kahan nabi ke nawase ka fatiha
sharbat pe kaun dewega pyase ka fatiha
bole nabi ki aap ko zehra na kar halak
farma chuka hai mujh se ye wada khuda-e-pak
paida karenge qaum ek aisi ba-ru-e-khak
jo raat din rahenge isi gham mein dard-nak
bazm-e-aza mein aaenge wo dur dur se
tan khak se banaenge dil un ke nur se
hogi unhin se majlis-e-matam ki zeb-o-zain
denge unhen wo lab ki rahe jis pe wa husain
aankhen wo denge rone ko samjhen jo farz-e-ain
hath aise ghair sina-zani ho jinhen na chain
saman taziyat ke kabhi kam na howenge
wo hashr tak husain ke matam mein roenge
hoga ayan falak pe moharram ka jab hilal
rakht-e-siyah pahnenge bar mein wo khush-khisal
kholengi bibayan bhi sab apne saron ke baal
har ghar mein hoga shor ki hai hai ali ka lal
lenge sile mein khuld tere nur-e-ain se
aansu aziz wo na karenge husain se
pyasa shahid hoga jo tera ye dil-ruba
momin sabilen rakkhenge pani ki ja-ba-ja
howegi shad ruh shahidan-e-karbala
bhar bhar ke aab-e-sard pukarenge barmala
mahbub-e-kibriya ke nawase ki nazr hai
pyase na jaiyo ki ye pyase ki nazr hai
kahne lagi nabi se butul-e-falak-janab
hai hai main kya karun mere dil ko nahin hai tab
ai baadshah-e-kaun-o-makan malikur-riqab
dargah-e-haq mein aap ki hai arz mustajab
kije dua ki khaliq-e-akbar madad kare
allah ye bala mere bachche ki rad kare
beti se ro ke kahne lage shah-e-kaenat
ruh-ul-amin ne mujh se to ye bhi kahi hai baat
chaho to rad kare ye bala rabb-e-pak-zat
lekin na huegi mere ummat ki phir najat
mahbub-e-haq nisar tere nur-e-ain par
mauquf hai ye amar to qatl-e-husain par
allah-re sabr-e-mahbub-e-kirdgar
ummat ka nam sun ke jhukaya sar ek bar
khush-nud ho ke kahne lage shah-e-zul-fiqar
sadqe hasan husain tasadduq ali nisar
is rah mein na mal na daulat aziz hai
pyare pisar nahin hamein ummat aziz hai
kahne lage husain se phir shah-e-bahr-o-bar
batla mujhe ki kya teri marzi hai ai pisar
nana se bole chhote se hathon ko jod kar
ummat ke kaam aae to hazir abhi hai sar
wada ko hum na bhulenge go khurd-sal hain
chhote nahin hain mukhbir-e-sadiq ke lal hain
rote hain aap kis liye ya sayyad-e-umam
raazi hain hum pe rah-e-khuda mein hon jo sitam
talwaren bhi chalen to nahin marne ke dam
ummat pe apne sar ko tasadduq karenge hum
hum rast-go hain baat pe jis waqt aate hain
kahte hain jo zaban se wahi kar dikhate hain
bachpan mein jo zaban se kaha tha kiya wo kaam
jis waqt ran mein tut pade shah pe fauj-e-sham
gardan jhuka ke barchhiyan khaya kiye imam
khun mein qaba rasul ki tar ho gai tamam
teghen ali ke lal ke shane pe chal gain
chhati ke par nezon ki noken nikal gain
pheri na thi jo pusht-e-mubarak dam-e-masaf
the do hazar zakhm faqat sar se ta-ba-naf
sayyad se be-watan se zamana tha bar-khilaf
ghul tha ki aaj hota hai ghar fatima ka saf
sambhla na jaega khalaf-e-bu-turab se
lo wo qadam husain ke nikle rikab se
meinh ki tarah barasne lage shah-e-din pe tir
tharra rahe the lag ke tan-e-naznin pe tir
daman pe tir jaib pe tir aastin pe tir
pahlu pe tegh sina pe neza jabin pe tir
daghon se khun ke rakht-e-badan lala-zar tha
shakl-e-zarih sina-e-aqdas figar tha
tar thi lahu mein zulf-e-shikan-dar-shikan juda
majruh lal-e-lab the juda aur dahan juda
darpai the neza-dar juda teghzan juda
kat kat ke ho gaya tha har ek uzw-e-tan juda
si-para tha na sadr faqat us janab ka
purze waraq-waraq tha khuda ki kitab ka
karta tha war barchhiyon walon ka jab para
teghon se dam bhi lene ki mohlat na thi zara
nezon mein khun nabi ke nawase ka tha bhara
shamshir-o-tir neza-o-khanjar ke mawara
thin sakhtiyan sitam ki shah-e-khush-khisal par
chalte the sang faima-zehra ke lal par
the do hazar jism-e-shah-e-bahr-o-bar pe zakhm
mathe pe zakhm tir ke teghon ke sar pe zakhm
gardan pe zakhm sine pe zakhm aur kamar pe zakhm
aur is ke mawara the bahattar jigar pe zakhm
ghode pe gah sambhalte the gah dagmagate the
ghash aata tha to hirne pe sar ko jhukate the
ghode pe jab sambhalne ki mutlaq rahi na tab
hathon se bag chhut gai aur panw se rikab
girne laga jo khak pe wo aasman-janab
marqad mein be-qarar hui ruh-e-bu-turab
ghul tha ki khak par shah-e-kaun-o-makan gira
bas ab zamin ulat gai aur aasman gira
jalti hui zamin pe tadapne lage imam
be-kas pe zalimon ne kiya aur izhdiham
us waqt shimr se ye umar ne kiya kalam
han tan se jald kat sar-e-sarwar-e-anam
dariyo na sun ke faima-zehra ki aah ko
gul kar de sham-e-qabr-e-risalat-panah ko
ye sunte hi chadhai sitam-gar ne aastin
khanjar kamar se khinch ke aage badha lin
the qibla-ru jhuke hue sajde mein shah-e-din
lab hilte dekhe shah ke aaya wo jab qarin
samjha ki tishnagi se jo sadme guzarte hain
us waqt bad-dua mujhe shabbir karte hain
jhuk kar qarib kan jo laya to ye suna
haq mein gunahgaron ke karte hain shah dua
jari zaban-e-khushk pe ye hai ki ai khuda
kar hajaton ko mere muhibbon ki to rawa
shion ka hashr roz-e-jaza mere sath ho
mera ye khun-baha hai ki un ki najat ho
ye sun ke mustaid hua wo shah ke qatl par
zanu rakha husain ke sine pa be-khatar
gardan pe pherne laga khanjar jo bad-guhar
aai sada ali ki ki hai hai mere pisar
zehra pukari kuchh bhi nabi se hijab hai
zalim ye bosa-gah-e-risalat-maab hai
kyun zabh mere lal ko karta hai be-gunah
kyun katta hai mere kaleje ko ru-siyah
kashti ko ahl-e-bait-e-nabi ki na kar tabah
main fatima hun arsh hilaegi meri aah
huega hashr qatl jo ye be-watan hua
ye mar gaya to khatma-e-panj-tan hua
aawaz apni man ki ye zainab ne jab suni
daudi nikal ke kheme se sar pitti hui
dekha ki zabh karta hai hazrat ko wo shaqi
sar pit kar ye kahne lagi wo jigar-jali
hai hai na tin roz ke pyase ko zabh kar
zalim na mustafa ke nawase ko zabh kar
bano pukarti thi ye kya karta hai lain
pyasa hai tin roz se haidar ka ja-nashin
chillati thi sakina ki jine ki main nahin
baba ko zabh karta hai kyun ai udu-e-din
khanjar na pher chand si gardan pe rahm kar
abba ko chhod de mere bachpan pe rahm kar
zakhmon se chur chur hai zehra ka yaadgar
jis chhati par mein soti thi us par hai to sawar
baba ke halq par na phira ab chhuri ki dhaar
badle pidar ke sar ko mare tan se tu utar
sayyad pe tishna-lab pe sitam is qadar na kar
poti hun fatima ki mujhe be-pidar na kar
ro kar bayan ye karti thi wo sokhta-jigar
de kar duhai ahl-e-haram pitte the sar
karta tha zabh shah ko wahan shimr-e-bad guhar
farmate the ye shah ki pyasa hun rahm kar
pani diya na hae nabi ke nawase ko
jallad zabh karne laga bhuke pyase ko
aakhir sar-e-imam-e-umam tan se kat gaya
chilla ke fatima ne ye zainab ko di sada
maidan se jald le ke sakina ko ghar mein ja
be-jurm kat gaya tere man jae ka gala
mara ba-zulm shimr ne pyase ko jaan se
main lat gai husain sidhaare jahan se
bas ai 'anis' bazm mein hai nala-o-fughan
puchh un ke dil se jo hain sukhan-fahm nukta-dan
haq hai suna nahin kabhi us husn ka bayan
goya ki ye khaliq ki hai sar-ba-sar zaban
sach hai ki is zaban ko koi jaanta nahin
jo jaanta hai aur ko wo manta nahin
dasht-e-wigha mein nur-e-khuda ka zuhur hai
zarron mein raushni-e-tajalli-e-tur hai
ek aaftab-e-rukh ki ziya dur dur hai
koson zamin aks se dariya-e-nur hai
allah-re husn tabqa-e-ambar-sarisht ka
maidan-e-karbala hai namuna bahisht ka
hairan zamin ke nur se hai charkh-e-lajward
manind-e-kahruba hai rukh-e-aftab-e-zard
hai ru-kash-e-faza-e-iram wadi-e-nabard
uthta hai khak se tataq-e-nur ja-e-gard
hairat se hamilan-e-falak un ko takte hain
zarre nahin zamin pe sitare chamakte hain
hai aab-e-nahr surat-e-aina jalwa-gar
taban hai misl-e-chashma-e-khurshid har bhanwar
lahren bisan-e-barq chamakti hain sar-ba-sar
pani pe machhliyon ki thaharti nahin nazar
ye aab-o-tab hai ki guhar aab aab hain
dariya to aasman hain sitare hubab hain
partaw-fagan hua jo rukh-e-qibla-e-anam
mashhur ho gai wo zamin arsh-ehtisham
aur sang-reze durr-e-najaf ban gae tamam
sahra ko mil gaya sharaf-e-wadi-assalam
kabe se aur najaf se bhi izzat siwa hui
khak us zamin-e-pak ki khak-e-shifa hui
phaila jo nur-e-mahr-e-imamat dam-e-zawal
zarron se wan ke aankh milana hua muhaal
sare nihaal faiz-e-qadam se hue nihaal
akhtar bane jo phul to shakhen banin hilal
patte tamam aaina-e-nur ho gae
sahra ke nakhl sab shajar-e-tur ho gae
ghul tha zahe husain ki shaukat zahe waqar
goya khade hain jang ko mahbub-e-kirdgar
rukh se ayan hai dabdaba-e-shah-e-zul-fiqar
hai nur-e-haq jabin-e-munawwar se aashkar
kyunkar chhupe na mah-e-do-hafta hijab se
chauda tabaq mein nur hai us aaftab se
ye ru-e-raushan aur ye gesu-e-mushk-e-fam
yan sham mein to subh hai aur subh mein hai sham
haale mein yun nazar nahin aata hai mah tamam
qudarat khuda ki nur ka zulmat mein hai maqam
zulfon mein jalwa-gar nahin chehra janab ka
hai nisf shab mein aaj zuhur aaftab ka
qurban kaman-e-abru-e-maula pe jaan o dil
gar mah-e-nau kahen to hai tashbih mubtazil
chashm-e-ghazal-e-dasht-e-khutan chashm se khajil
dekha jise karam se khataen huin bahil
putli bisan-e-qibla-numa be-qarar hai
giryan hain wo ye gardish-e-lail o nahaar hai
rukhsar hain ziya mein qamar se ziyaada-tar
jin par thahar saki na kabhi shams ki nazar
rish-e-mokhazzab aur ye rukh-e-shah-e-bahr o bar
paida hain saf mani-e-wal-lailo-o-wal-qamar
quran se ayan hai buzurgi imam ki
khai qasam khuda ne isi subh o sham ki
kis munh se kijiye lab-e-jaan-bakhsh ka bayan
chusi jinhon ne ahmad mukhtar ki zaban
kya durr-e-ab-dar hain is durj mein nihan
goya ki motiyon ka khazana hai ye dahan
zarre zamin pe aks se sare chamak gae
jis waqt ye khile to sitar chamak gae
sham-e-harim-e-lam-yazali tha gulu-e-shah
tarik shab mein jaise huwaida ho nur-e-mah
ai charkh-e-be-madar ye kaisa sitam hai aah
shamshir-e-shimr aur mohammad ki bosa-gah
jis par rasul honton ko malte hon pyar se
kat jae karbala main wo khanjar ki dhaar se
manzur yan thi madh-e-gulu-e-shah-e-umam
yaad aa gai magar ye hadis-e-gham-o-alam
masjid mein jalwa-gar the rasul-e-falak-hasham
malte the zikr-e-haq mein lab-e-pak dam-ba-dam
raushan the baam-o-dar rukh-e-raushan ke nur se
aaina ban gai thi zamin tan ke nur se
tha jo sutun ki rukn-e-risalat ka takiya-gah
kursi bhi us ki pusht ki thi dhundhti panah
tha jis hasir par wo do aalam ka baadshah
hasrat se arsh karta tha us farsh par nigah
auj-e-zamin bahisht-e-barin se do-chand tha
mimbar ka nuh falak se bhi paya buland tha
ashab-e-khas gird the anjum ki tarah sab
taban tha bich mein wo mah-e-hashmi-laqab
sar par malak-sifat magas-raan the do arab
jibril tah kiye hue the zanu-e-adab
khadim bilal-o-qumbar-e-gardun-asas tha
nalain is ke pas asa us ke pas tha
gesu the wo mufassir-e-wallail-iza-saja
rukh se ayan the mani-e-washshams-o-wa-zzuha
wo rish-e-pak aur rukh-e-sardar-e-ambiya
goya dhara tha rehl pe quran khula hua
odhe siyah aba jo wo aalam-panah tha
kaba ka saf hajiyon ko ishtibah tha
pahlu mein baadshah ke tha jalwa-gar wazir
sardar-e-din ali-e-wali khalq ka amir
donon jahan mein koi na donon ka tha nazir
ahmad the aaftab to haidar mah-e-munir
zahir mein ek nur ka do ja zuhur tha
gar ghaur kijiye to wahi ek nur tha
masruf-e-waz-o-pand the sultan-e-mashriqain
jo ghar se nikle khelte zohra ke nur ain
nana baghair donon nawason ko tha na chain
badh jate the hasan kabhi aage kabhi husain
kahte the dekhen kaun qadam jald uthata hai
nana ke pas kaun bhala pahle jata hai
wo gore gore chehron pe zulfen idhar udhar
akhtar se wo chamakte hue kan ke guhar
rashk-e-hilal tauq gale ghairat-e-qamar
haikal pe naqsh nam khuda-e-jalil ke
tawiz gardanon pe par-e-jibril ke
masjid mein aae hanste hue jab wo gul-badan
khushbu se sehan-e-masjid-e-jame bana chaman
taslim ko husain se pahle jhuke hasan
khush ho ke muskurane lage sarwar-e-zaman
badh badh ke kham salam ko chhote bade hue
baithe rahe rasul malak uth khade hue
beton ko tha ali ka ishaara ki baith jao
lazim nahin ki waz mein nana ko tum satao
phaila ke hath bole mohammad ki aao aao
shabbir ne kaha hamein pahle gale lagao
bhai hasan jo aap ki godi mein aaen ge
hum tum se nana jaan abhi ruth jaen ge
bole hasan ki wah hamein aur karen na pyar
iqrar ke chuke hain shahanshah-e-nam-dar
bole ba-chashm-e-nam ye husain-e-falak-waqar
dekhen to kaun kandhe pe hota hai ab sawar
sab se siwa jo hain so hamin un ke pyare hain
aage na badhiye aap ki nana hamare hain
bhai se tab kaha ye hasan ne ba-iltifat
be-wajh hum se ruthe ho tum ai niko-sifat
nana hamare kya nahin sultan-e-kaenat
hoti hai nagawar tumhein to zara si baat
ghussa na itna chahiye khush-khu ke waste
machle the yun hi bachcha-e-ahu ke waste
ye sun ke munh ali ka lage dekhne rasul
hans kar kaha ye donon hain mere chaman ke phul
main chahta hun ek ki khatir na ho malul
roenge ye to ghar se nikal aaegi butul
howe na ranj mere kisi nur-e-ain ko
tum lo hasan ko god mein main lun husain ko
shabbar se phir ishaara kiya ho ke be-qarar
ghussa na khao pahle tumhin ko karenge pyar
phir bole dekh kar su-e-shabbir-e-nam-dar
aa ai husain aa teri baaton ke main nisar
chhati se hum lagaenge jaan apni jaan kar
dekhen to pahle kaun lipatta hai aan kar
daude ye baat sun ke barabar wo khush-sayar
pas aae aaftab-e-risalat ke do qamar
lipte husain hans ke idhar aur hasan udhar
the panw zanuon pe to baala-e-dosh sar
nana ke sath pyar mein donon ka sath tha
gardan mein ek un ka aur un ka hath tha
phir phir ke dekhte the shahanshah-e-mashriqain
gah jaanib-e-hasan to kabhi jaanib-e-husain
baithe jo zanuon pe wo zehra ke nur-e-ain
tha tan ko lutf qalb ko rahat jigar ko chain
jhuk jhuk ke munh rasul-e-zaman chumne lage
in ka gala to un ka dahan chumne lage
shabbir chahte the ki chumen mere bhi lab
par kuchh gale ke boson ka khulta na tha sabab
nana ke munh ke pas ye late the munh ko jab
jhuk jhuk ke chumte the gala sayyad-e-arab
bhai ko dekh kar jo hasan muskuraate the
ghairat se un ki aankhon mein aansu bhar aate the
utthe husain zanu-e-ahmad se khashm-gin
ghusse se rang zard aur aankhon pe aastin
rukh par pasina jism mein rasha jabin pa chin
puchha kidhar chale to ye bole kahin nahin
ghar mein akele tewari chadhae chale gae
dekha na phir ke sar ko jhukae chale gae
baitushsharf mein aae jo shabbir-e-nam-dar
kurte ko munh pe rakh ke lage rone zar-zar
daudin ye kah ke faima-zehra jigar-figar
hai hai husain kya hua tu kyun hai ashk-bar
tujh ko rula ke gham mein mujhe mubtala kiya
qurban ho gai tujhe kis ne khafa kiya
mera kaleja phahtta hai ai dilruba na ro
zehra hazar jaan se tujh pe fida na ro
sar mein na dard ho kahin ai mah-laqa na ro
bas bas na ro husain bara-e-khuda na ro
meri taraf to dekho ki betab hoti hun
chadar se munh ko dhanp ke lo main bhi roti hun
tu munh to khol ai mere shabbir-e-khush-khisal
tar ho gae hain aansuon se gore gore gal
mal mal ke pusht-e-dast se aankh karo na lal
suljhaun aao uljhe hue gesuon ke baal
ghar se gae the sath juda ho ke aae ho
samjhi main kuchh hasan se khafa ho ke aae ho
tum chup raho wo ghar mein to masjid se phir ke aaen
guzri main khel se mere bachche ko kyun rulaen
un se na boliyo wo tumhein lakh gar manaen
lo aao jaane do tumhein chhati se hum lagaen
wari agar hasan ne rulaya bura kiya
puchhungi kya na main mere pyare ne kya kiya
bole husain hum to hain is baat par khafa
nana ne chume bhai ke hont aur mera gala
tum amman-jaan munh ko to sungho mere zara
kuchh bu-e-nagawar hai mere dahan mein kya
bhai ke lab se apne labon ko milate hain
ab hum na jaen ge hamein nana rulate hain
munh rakh ke munh pe boli ye zehra jigar-figar
bu-e-gulab aati hai ai mere gul-azar
chuma agar gala to khafa ho na main nisar
tum ko zaban chusate the mahbub-e-kirdgar
ye mushk mein mahak na gul-e-yasman mein hai
khush-bu usi dahan ki tumhaare dahan mein hai
kahne lage husain ye man se ba-chashm-e-nam
kya jaano tum hasan se hamein chahte hain kam
ye kya unhin pe lutf-o-inayat hai dam-ba-dam
malum ho gaya unhen pyare nahin hain hum
ro ro ke aaj jaan hum apni ganwaenge
pani na ab piyenge na khane ko khaenge
ye baat sun ke ho gaya zehra ka rang faq
boli pisar se ro ke wo bint-e-rasul-e-haq
sadqe gai karo na kaleje ko mere shaq
hai hai ye kya kaha mujhe hota hai ab qalaq
mera lahu bahega jo aansu bahaoge
kahe ko man jiyegi jo khana na khaoge
ye kah ke odh li sar-e-pur-nur par rida
moze pahan ke god mein shabbir ko liya
dar tak gai jo ghar se wo dil-band-e-mustafa
fizza ne badh ke buzar o salman ko di sada
pesh-e-nabi husain ko godi mein lati hain
hat jao sab ki fatima masjid mein aati hain
allah-re aamad aamad-e-zehra ka bandobast
saton falak the auj-e-sharafat se jis ke past
ahmad ke gird-o-pesh se utthe khuda-parast
insan to kya malak ko na thi qudarat-e-nishast
aain to shad-shad rasul-e-zaman hue
ghar mein khuda ke ek jagah panj-tan hue
tazim-e-fatima ko uthe sayyad-ul-bashar
dekha ki chashm-e-fatima hai aansuon se tar
gham the husain dosh pe man ke jhukae sar
tha ek hilal mahr ke pahlu mein jalwa-gar
man kahti thi na rowo magar chup na hote the
aankhen thin band hichkiyan le le ke rote the
ghabra ke puchhne lage mahbub-e-zul-jalal
rota hai kyun husain ye kya hai tumhaara haal
bolin butul aaj qalaq hai mujhe kamal
roya hai ye husain ki aankhen hain donon lal
aate hain hanste rote hue ghar mein jate hain
shafqat bhi aap hi karte hain aap hi rulate hain
hathon ko jodti hun main ya shah-e-bahr-o-bar
shafqat ki us ke haal pe har-dam rahe nazar
rone se us ke hota hai tukde mera jigar
mujh faqa-kash gharib ka pyara hai ye pisar
haidar se puchhiye mere usrat ke haal ko
kis kis dukhon se pala hai is naunihaal ko
ashk us ke jitne tapke hain ya shah-e-nek-khu
utna hi ghat gaya hai mere jism ka lahu
roe hain phut phut ke ye mere ru-ba-ru
tar ho gaya hai aansuon se chand sa gulu
dekha na tha ye main ne jo haal is ka aaj hai
hazrat to jaante hain ki nazuk mizaj hai
shafqat se aaj aap ne chume hasan ke lab
bosa liya na un ke labon ka ye kya sabab
rutbe mein donon ek hain ya surwar-e-arab
main sach kahun ye sun ke mujhe bhi hua ojab
is ko jo ho khushi to dil is ka bhi shad ho
chhote se chahiye ki mohabbat ziyaad ho
aap un ke naz uthate hain ya shah-e-bahr-o-bar
phir kis se ruthen aap se ruthen na ye agar
aksar inhen chadhaya hai hazrat ne dosh par
gesu diye hain nanhe se hathon mein besh-tar
ruthe the ye so qadmon pe sar dharne aae hain
munh ke na chumne ka gila karne aae hain
ye kah ke phir husain se bolin ba-chashm-tar
lo ja ke ab nabi ke qadam par jhukao sar
aae husain hath jo nanhe se jod kar
be-ikhtiyar rone lage sayyad-ul-bashar
rah rah ke dekhte the ali o butul ko
nazdik tha qalaq se ghash aae rasul ko
thi aansuon se rish-e-mubarak tamam nam
fart-e-buka se khak pa jhukte the dam-ba-dam
gahe sutun se lag ke hue rast gah kham
har lahza iztirab ziyaada tha sabr kam
ho sakta tha na zabt shah-e-mashriqain se
rote the bar bar lipat kar husain se
shabbir ro ke kahte the nana na roiye
roenge ab na hum shah-e-wala na roiye
hilne lagega arsh-e-mualla na roiye
phatta hai ab hamara kaleja na roiye
sau bar din mein hum to munh ashkon se dhote hain
hazrat hamare rone pe kahe ko rote hain
ghabra gae ali-e-wali shah-e-bahr-o-bar
ki arz fatima ne jhuka ke qadam pe sar
beti nisar ho gai ya sayyad-ul-bashar
kya wajh hai jo aap hain is tarah nauha gar
jaldi bataiye ki mujhe tab ab nahin
rona khuda ke dost ka ye be-sabab nahin
hazrat ko ilm-e-ghaib hai ya shah-e-ins-o-jaan
aainda o guzishta ka sab haal hai ayan
kya aai aaj wahi-e-khudawand-e-do-jahan
hona hai jo husain pe mujh se karo bayan
faqon se katti hun musibat jahan ki
kyun baba-jaan khair to hai is ki jaan ki
bole jigar ko tham ke mahbub-e-zul-jalal
tujh se suna na jaega ai fatima ye haal
kis munh se main kahun ki qalaq hai mujhe kamal
zehra shahid hue howenge tere ye donon lal
matam ki ye khabar abhi jibril lae the
sare malak husain ke purse ko aae the
almas pi ke huega be-jaan tera hasan
ye wajh hai ki chumta hun us ka main dahan
bhar jaega kalejon ke tukdon se sab lagan
hoga zamurradi tere is lal ka badan
su-e-bahisht jab ye jahan se sidhaarenge
bad-kesh tir is ke janaze pa marenge
zehra mujhe kalam ki taqat nahin hai ab
halq-e-husain chumne ka kya kahun sabab
ek ban mein tin roz rahenge ye tishna-lab
kat jaega gala yahi khanjar se hai ghazab
neze pe sar chadhega tere nur-e-ain ka
ghodon se raund dalenge lasha husain ka
roe khabar ye kah ke jo mahbub-e-zul-minan
ghabra ke munh husain ka takne lage hasan
zehra pukari hae lutega mera chaman
main mar gai duhai hai ya sarwar-e-zaman
ye kaisi aag hai ki meri kokh jal gai
hai hai chhuri kaleje pe zehra ke chal gai
fariyaad ya-nabi shah-e-abrar al-ghiyas
ai mursilan-e-haq ke madad-gar al-ghiyas
ai be-kason ke waris o sardar ul-ghiyas
qudarat hai sab tarah ki shah-e-mashriqain ko
hazrat se lungi apne hasan aur husain ko
kis jurm par ye lal mere qatl honge aah
ro kar kaha rasul-e-khuda ne ki be-gunah
ki arz fatima ne ki ai arsh-e-bar-gah
bachchon ko mere kya na milegi kahin panah
talwaren khench khench ke zalim jo aaenge
hazrat na kya nawason ko apne bachaenge
aasan hai kya jo qatl karenge sitam-shiar
kya sher-e-haq kamar se na khinchenge zul-fiqar
aada pe kya chalega na dast-e-khuda ka war
baalon ko kya na kholegi zehra jigar figar
tukde jigar jo huega mujh dil do-nim ka
paya na kya hilaungi arsh-e-azim ka
zehra se ro ke kahne lage shah-e-nek-khu
beti mujhe sataenge turbat mein kina-ju
is waqt qatl howenge ye donon mah-ru
duniya mein jab na hoga ali aur na main na tu
lashe pe mujtaba ke tu shabbir roega
shabbir jab marega to koi na huega
chillai sar patak ke ye zehra ki hai sitam
pitega kaun tan se jo niklega us ka dam
matam ki saf bichhaega kaun ai shah-e-umama
purse ko kaun aaega us ke ba-chashm-e-nam
hum mein se aise waqt jo koi na huega
hai hai mere husain ko phir kaun roega
bachche ki mere taziya-dari karega kaun
munh dhanp dhanp girya-o-zari karega kaun
dariya-e-ashk chashm se jari karega kaun
imdad baad-e-marg hamari karega kaun
hoga kahan nabi ke nawase ka fatiha
sharbat pe kaun dewega pyase ka fatiha
bole nabi ki aap ko zehra na kar halak
farma chuka hai mujh se ye wada khuda-e-pak
paida karenge qaum ek aisi ba-ru-e-khak
jo raat din rahenge isi gham mein dard-nak
bazm-e-aza mein aaenge wo dur dur se
tan khak se banaenge dil un ke nur se
hogi unhin se majlis-e-matam ki zeb-o-zain
denge unhen wo lab ki rahe jis pe wa husain
aankhen wo denge rone ko samjhen jo farz-e-ain
hath aise ghair sina-zani ho jinhen na chain
saman taziyat ke kabhi kam na howenge
wo hashr tak husain ke matam mein roenge
hoga ayan falak pe moharram ka jab hilal
rakht-e-siyah pahnenge bar mein wo khush-khisal
kholengi bibayan bhi sab apne saron ke baal
har ghar mein hoga shor ki hai hai ali ka lal
lenge sile mein khuld tere nur-e-ain se
aansu aziz wo na karenge husain se
pyasa shahid hoga jo tera ye dil-ruba
momin sabilen rakkhenge pani ki ja-ba-ja
howegi shad ruh shahidan-e-karbala
bhar bhar ke aab-e-sard pukarenge barmala
mahbub-e-kibriya ke nawase ki nazr hai
pyase na jaiyo ki ye pyase ki nazr hai
kahne lagi nabi se butul-e-falak-janab
hai hai main kya karun mere dil ko nahin hai tab
ai baadshah-e-kaun-o-makan malikur-riqab
dargah-e-haq mein aap ki hai arz mustajab
kije dua ki khaliq-e-akbar madad kare
allah ye bala mere bachche ki rad kare
beti se ro ke kahne lage shah-e-kaenat
ruh-ul-amin ne mujh se to ye bhi kahi hai baat
chaho to rad kare ye bala rabb-e-pak-zat
lekin na huegi mere ummat ki phir najat
mahbub-e-haq nisar tere nur-e-ain par
mauquf hai ye amar to qatl-e-husain par
allah-re sabr-e-mahbub-e-kirdgar
ummat ka nam sun ke jhukaya sar ek bar
khush-nud ho ke kahne lage shah-e-zul-fiqar
sadqe hasan husain tasadduq ali nisar
is rah mein na mal na daulat aziz hai
pyare pisar nahin hamein ummat aziz hai
kahne lage husain se phir shah-e-bahr-o-bar
batla mujhe ki kya teri marzi hai ai pisar
nana se bole chhote se hathon ko jod kar
ummat ke kaam aae to hazir abhi hai sar
wada ko hum na bhulenge go khurd-sal hain
chhote nahin hain mukhbir-e-sadiq ke lal hain
rote hain aap kis liye ya sayyad-e-umam
raazi hain hum pe rah-e-khuda mein hon jo sitam
talwaren bhi chalen to nahin marne ke dam
ummat pe apne sar ko tasadduq karenge hum
hum rast-go hain baat pe jis waqt aate hain
kahte hain jo zaban se wahi kar dikhate hain
bachpan mein jo zaban se kaha tha kiya wo kaam
jis waqt ran mein tut pade shah pe fauj-e-sham
gardan jhuka ke barchhiyan khaya kiye imam
khun mein qaba rasul ki tar ho gai tamam
teghen ali ke lal ke shane pe chal gain
chhati ke par nezon ki noken nikal gain
pheri na thi jo pusht-e-mubarak dam-e-masaf
the do hazar zakhm faqat sar se ta-ba-naf
sayyad se be-watan se zamana tha bar-khilaf
ghul tha ki aaj hota hai ghar fatima ka saf
sambhla na jaega khalaf-e-bu-turab se
lo wo qadam husain ke nikle rikab se
meinh ki tarah barasne lage shah-e-din pe tir
tharra rahe the lag ke tan-e-naznin pe tir
daman pe tir jaib pe tir aastin pe tir
pahlu pe tegh sina pe neza jabin pe tir
daghon se khun ke rakht-e-badan lala-zar tha
shakl-e-zarih sina-e-aqdas figar tha
tar thi lahu mein zulf-e-shikan-dar-shikan juda
majruh lal-e-lab the juda aur dahan juda
darpai the neza-dar juda teghzan juda
kat kat ke ho gaya tha har ek uzw-e-tan juda
si-para tha na sadr faqat us janab ka
purze waraq-waraq tha khuda ki kitab ka
karta tha war barchhiyon walon ka jab para
teghon se dam bhi lene ki mohlat na thi zara
nezon mein khun nabi ke nawase ka tha bhara
shamshir-o-tir neza-o-khanjar ke mawara
thin sakhtiyan sitam ki shah-e-khush-khisal par
chalte the sang faima-zehra ke lal par
the do hazar jism-e-shah-e-bahr-o-bar pe zakhm
mathe pe zakhm tir ke teghon ke sar pe zakhm
gardan pe zakhm sine pe zakhm aur kamar pe zakhm
aur is ke mawara the bahattar jigar pe zakhm
ghode pe gah sambhalte the gah dagmagate the
ghash aata tha to hirne pe sar ko jhukate the
ghode pe jab sambhalne ki mutlaq rahi na tab
hathon se bag chhut gai aur panw se rikab
girne laga jo khak pe wo aasman-janab
marqad mein be-qarar hui ruh-e-bu-turab
ghul tha ki khak par shah-e-kaun-o-makan gira
bas ab zamin ulat gai aur aasman gira
jalti hui zamin pe tadapne lage imam
be-kas pe zalimon ne kiya aur izhdiham
us waqt shimr se ye umar ne kiya kalam
han tan se jald kat sar-e-sarwar-e-anam
dariyo na sun ke faima-zehra ki aah ko
gul kar de sham-e-qabr-e-risalat-panah ko
ye sunte hi chadhai sitam-gar ne aastin
khanjar kamar se khinch ke aage badha lin
the qibla-ru jhuke hue sajde mein shah-e-din
lab hilte dekhe shah ke aaya wo jab qarin
samjha ki tishnagi se jo sadme guzarte hain
us waqt bad-dua mujhe shabbir karte hain
jhuk kar qarib kan jo laya to ye suna
haq mein gunahgaron ke karte hain shah dua
jari zaban-e-khushk pe ye hai ki ai khuda
kar hajaton ko mere muhibbon ki to rawa
shion ka hashr roz-e-jaza mere sath ho
mera ye khun-baha hai ki un ki najat ho
ye sun ke mustaid hua wo shah ke qatl par
zanu rakha husain ke sine pa be-khatar
gardan pe pherne laga khanjar jo bad-guhar
aai sada ali ki ki hai hai mere pisar
zehra pukari kuchh bhi nabi se hijab hai
zalim ye bosa-gah-e-risalat-maab hai
kyun zabh mere lal ko karta hai be-gunah
kyun katta hai mere kaleje ko ru-siyah
kashti ko ahl-e-bait-e-nabi ki na kar tabah
main fatima hun arsh hilaegi meri aah
huega hashr qatl jo ye be-watan hua
ye mar gaya to khatma-e-panj-tan hua
aawaz apni man ki ye zainab ne jab suni
daudi nikal ke kheme se sar pitti hui
dekha ki zabh karta hai hazrat ko wo shaqi
sar pit kar ye kahne lagi wo jigar-jali
hai hai na tin roz ke pyase ko zabh kar
zalim na mustafa ke nawase ko zabh kar
bano pukarti thi ye kya karta hai lain
pyasa hai tin roz se haidar ka ja-nashin
chillati thi sakina ki jine ki main nahin
baba ko zabh karta hai kyun ai udu-e-din
khanjar na pher chand si gardan pe rahm kar
abba ko chhod de mere bachpan pe rahm kar
zakhmon se chur chur hai zehra ka yaadgar
jis chhati par mein soti thi us par hai to sawar
baba ke halq par na phira ab chhuri ki dhaar
badle pidar ke sar ko mare tan se tu utar
sayyad pe tishna-lab pe sitam is qadar na kar
poti hun fatima ki mujhe be-pidar na kar
ro kar bayan ye karti thi wo sokhta-jigar
de kar duhai ahl-e-haram pitte the sar
karta tha zabh shah ko wahan shimr-e-bad guhar
farmate the ye shah ki pyasa hun rahm kar
pani diya na hae nabi ke nawase ko
jallad zabh karne laga bhuke pyase ko
aakhir sar-e-imam-e-umam tan se kat gaya
chilla ke fatima ne ye zainab ko di sada
maidan se jald le ke sakina ko ghar mein ja
be-jurm kat gaya tere man jae ka gala
mara ba-zulm shimr ne pyase ko jaan se
main lat gai husain sidhaare jahan se
bas ai 'anis' bazm mein hai nala-o-fughan
puchh un ke dil se jo hain sukhan-fahm nukta-dan
haq hai suna nahin kabhi us husn ka bayan
goya ki ye khaliq ki hai sar-ba-sar zaban
sach hai ki is zaban ko koi jaanta nahin
jo jaanta hai aur ko wo manta nahin
-
chaara-gar bhi jo yun guzar jaen
phir ye bimar kis ke ghar jaen
aaj ka gham badi qayamat hai
aaj sab naqsh-e-gham ubhar jaen
hai bahaaron ki ruh sog-nashin
sare auraq-e-gul bikhar jaen
naz-parwarda be-nawa majbur
jaane wale ye sab kidhar jaen
kal ka din hae kal ka din ai 'jaun'
kash is raat hum bhi mar jaen
hai shab-e-matam-e-masihai
ashk daman mein ta-sahar jaen
marne wale tere janaze mein
kya faqat hum ba-chashm-tar jaen
kash dil khun ho ke bah jae
kash aankhen lahu mein bhar jaen
phir ye bimar kis ke ghar jaen
aaj ka gham badi qayamat hai
aaj sab naqsh-e-gham ubhar jaen
hai bahaaron ki ruh sog-nashin
sare auraq-e-gul bikhar jaen
naz-parwarda be-nawa majbur
jaane wale ye sab kidhar jaen
kal ka din hae kal ka din ai 'jaun'
kash is raat hum bhi mar jaen
hai shab-e-matam-e-masihai
ashk daman mein ta-sahar jaen
marne wale tere janaze mein
kya faqat hum ba-chashm-tar jaen
kash dil khun ho ke bah jae
kash aankhen lahu mein bhar jaen
-