MUKHAMMAS SHAYARI
UNVEILING THE ARTISTRY IN POETRY
Delve into the artistry of mukhammas shayari, where each verse unfolds a tapestry of emotions and beauty. Discover the enchanting world of this poetic form that weaves together structured elegance and lyrical charm, inviting you to experience the essence of mukhammas in all its glory.
سنو یارو بلاس رائے کا حال
ایک لچا ہے وہ عجائب مال
کام لینا ہے اس سے امر محال
سو جواں جا اڑیں تو دیوے ٹال
پیر کو اپنے دے نہ جھانٹ کا بال
لے جو کچھ اس سے ایسا ویسا ہو
ورنہ کیا دخل کوئی کیسا ہو
کہتا ہے دوں جو پاس پیسہ ہو
ہوتے جو دے نہ ایسا تیسا ہو
خلق ناحق ہے میرے جی کا وبال
ایک عمدہ کے ہاں ہے اہل کار
فوج کے لوگوں کا سب اس پہ مدار
سو یہ بڑچود ایسا خوش اقرار
کہے ہر اک کو دینے سو سو بار
پھر نہ دے جز فریب تا دہ سال
یا مہینوں تلک رہے روپوش
یا ملے ہے تو بے حواس و ہوش
لوگ کرتے پھرو نہ جوش و خروش
یہ کچہری میں بیٹھا ہے خاموش
زردرو بے حیا ہے گویا لال
جب سے یہ ہے محرر دفتر
تب سے ہنگامہ ہی رہا اکثر
ہووے پرچھا جو دے کسو کو زر
سو یہ پٹی پڑھا نہیں ہے لچر
سب سے اس کو ہے ایک جنگ و جدال
لات مکی ہے گہ روہیلوں سے
دھول چھکڑ ہے گاہ چیلوں سے
کم نہیں ہے کچہری میلوں سے
آتے جاتے ہیں لوگ ریلوں سے
نکلے ہے تیغ کھڑکے ہے واں ڈھال
ان دنوں آگیا ہے ازبس پیش
آج کم بھی ہے اس کا سب سے بیش
شان میں اپنی گوہر بدکیش
بوریاپوش گرسنہ درویش
پشم جانے ہے یہ قبا و شال
کیا کوئی جھاڑجی کی خوبی کہے
اس زیادہ سری کو کون سہے
چاٹے اس کے نہیں درخت رہے
بردباری زہے وقار خہے
بات کہتے ہیں تو کریں ہیں نہال
دیکھو منھ تو خدا ہی خیر کرے
پاک ہو شہر جو کہیں یہ مرے
کب تک ایسے نحس سے کوئی بھرے
کہنی تکیے پہ اس کو دیکھے دھرے
جن نے دیکھے نہ ہوویں خرس جوال
ایک صف خاک دھول اڑاتی ہے
سنگ و خشت ایک صف چلاتی ہے
لوہے پتھر کی اس کی چھاتی ہے
اک قیامت جلو میں آتی ہے
نکلے ہے گھر سے جب کہ یہ دجال
مردہ شو خصم جان اہل ہنر
جس کسو دن رہے ہے اپنے گھر
پڑتے ہیں میرزائی پر پتھر
یوں پھرے ہے کمر میں رکھ کے تبر
جوں کفن چور کوئی رکھے کدال
نے حیا ہے نہ کچھ مروت ہے
نے کچھ اس خر میں آدمیت ہے
کیا خدا جانے بھڑوے کی مت ہے
گالی ہے دھول ہے یہ عزت ہے
کہیں غیرت کا سر میں کچھ ہے خیال
جورو گھر میں رکھے ہے اک شتاہ
کہیں چشمک کرے کہیں وہ نگاہ
آتے جاتے ہر اک کو اس سے راہ
واہ رے رائے جی کی غیرت واہ
طرفہ دیوث زن جلب چنڈال
یہ کمر باندھ کر گئے دربار
وہ ہوئی گرم جستجوے یار
آنے دروازے پر لگی سو بار
سر پہ رکھ بانکی پگڑی کھڑکی دار
پھر ہوئی چیرہ بند بوڑھی چھنال
کچھ حمیت نہ زن جلب کے تئیں
ساتھ لے جائے گھر میں سب کے تئیں
نہ رہے پاس جورو شب کے تئیں
نہ تو پاتے ہیں اس کے ڈھب کے تئیں
نہ سمجھتے ہیں اس چھنال کی چال
قصہ کوتاہ بعد چندیں ماہ
میری اس بھڑوے پر ہوئی تنخواہ
جانے آدم لگا گہ و بے گاہ
یہ تو مغرور بے تہ و گمراہ
مفتری کاذب و سفیہ و ضلال
سہل سا مجھ کو بھی سمجھ کے فقیر
رکھنے وعدوں ہی میں لگا بے پیر
یہ نہ جانا نہیں ہے اس کی نظیر
اس کو جانے ہے بادشاہ و وزیر
دور تک پہنچے گی یہ قیل و قال
اس کی خاطر کہیں گے خرد و کلاں
سعی اس میں کریں گے عمدے بجاں
دوست اس کو رکھے ہیں پیر و جواں
لے گا منت علی محمد خاں
رکھنا ان پیسوں کا ہے کس کی مجال
آپ نواب سن کے اس کا نام
کہے گا دو یہ پیسے جلد تمام
یاں نہ زنہار کیجو صبح و شام
ہو نہ ایسا کہ پاوے طول کلام
ایک سے دس روپئے ہیں کچھ بھی مال
ہوتا اشراف تو یہ تہ پاتا
کاہے کو اپنے پردے اٹھواتا
سو جلاہوں سے اس کے تیں ناتا
کبھو بیچے تھا بڑھیا کا کاتا
کبھو ہوتا تھا سوت کا دلال
اب ترقی ہوئی وکیل ہوا
ایک عمدہ کے گھر دخیل ہوا
فوج کے لوگوں کا کفیل ہوا
مجھ سے اڑ کر عبث ذلیل ہوا
جہل پر اس کے ہے یہ صحبت دال
جو گیا آدمی سو داغ آیا
ٹک نہ یہ کس کباب شرمایا
جب تقاضے سے اس کو گھبرایا
پھیر منھ لب پہ یہ سخن لایا
تم تو کاٹو ہو پہلے چومے گال
یوں تو سو بار آؤ جاؤگے
پیسے تدریج ہی سے پاؤگے
اور اس پر بھی جو ستاؤگے
اپنے پیسوں سے ہاتھ اٹھاؤگے
بوجھ میں اپنے سر سے دوں گا ٹال
یاں کھڑا دو دو دن رہے ہے دواب
مطبخی خاص کو ملے ہے جواب
منھ تکا دیر کرتے ہیں نواب
کس کا اللہ میاں کہاں کا ثواب
بے زری سے ہے زیست رنج و نکال
کام جوں توں کے میں چلاتا ہوں
سو بھی سو سو دکاں پہ جاتا ہوں
قرض کچھ بن گیا تو لاتا ہوں
جیسا میں نے کیا ہے پاتا ہوں
متصدی گری ہے یا جنجال
باز آتا نہیں ہے نفس شوم
ورنہ کس سے اٹھے ہے ایسی دھوم
ہر سحر روز والوں کا ہے ہجوم
ہے تمھیں حال یاں کا کیا معلوم
تم تو سونٹا لیے کرو ہو سوال
ایک دن جا کیا نفر نے شور
ان نے دیکھا نہ مطلق اس کی اور
ہے غرض صحبت اپنی اس کی زور
وہ تو مچھر کی جھول کا ہے چور
میں بھی کھینچوں گا خوب اس کی کھال
اس پہ تنخواہ جو کہ کر لاوے
سو وہ اپنا کیا ہی بھر پاوے
پاشکستوں کو برسوں دوڑاوے
ایسے سے ہاتھ خاک کیا آوے
جس سے دل ہوں تہ غبار ملال
بدزبانی نہیں ہے اتنی خوب
بات اچھی نہیں ہے بے اسلوب
گفتگو اس طرح کی ہے معیوب
مل رہے گا جو کچھ کہ ہے مطلوب
بس قلم اب زبان اپنی سنبھال
ایک لچا ہے وہ عجائب مال
کام لینا ہے اس سے امر محال
سو جواں جا اڑیں تو دیوے ٹال
پیر کو اپنے دے نہ جھانٹ کا بال
لے جو کچھ اس سے ایسا ویسا ہو
ورنہ کیا دخل کوئی کیسا ہو
کہتا ہے دوں جو پاس پیسہ ہو
ہوتے جو دے نہ ایسا تیسا ہو
خلق ناحق ہے میرے جی کا وبال
ایک عمدہ کے ہاں ہے اہل کار
فوج کے لوگوں کا سب اس پہ مدار
سو یہ بڑچود ایسا خوش اقرار
کہے ہر اک کو دینے سو سو بار
پھر نہ دے جز فریب تا دہ سال
یا مہینوں تلک رہے روپوش
یا ملے ہے تو بے حواس و ہوش
لوگ کرتے پھرو نہ جوش و خروش
یہ کچہری میں بیٹھا ہے خاموش
زردرو بے حیا ہے گویا لال
جب سے یہ ہے محرر دفتر
تب سے ہنگامہ ہی رہا اکثر
ہووے پرچھا جو دے کسو کو زر
سو یہ پٹی پڑھا نہیں ہے لچر
سب سے اس کو ہے ایک جنگ و جدال
لات مکی ہے گہ روہیلوں سے
دھول چھکڑ ہے گاہ چیلوں سے
کم نہیں ہے کچہری میلوں سے
آتے جاتے ہیں لوگ ریلوں سے
نکلے ہے تیغ کھڑکے ہے واں ڈھال
ان دنوں آگیا ہے ازبس پیش
آج کم بھی ہے اس کا سب سے بیش
شان میں اپنی گوہر بدکیش
بوریاپوش گرسنہ درویش
پشم جانے ہے یہ قبا و شال
کیا کوئی جھاڑجی کی خوبی کہے
اس زیادہ سری کو کون سہے
چاٹے اس کے نہیں درخت رہے
بردباری زہے وقار خہے
بات کہتے ہیں تو کریں ہیں نہال
دیکھو منھ تو خدا ہی خیر کرے
پاک ہو شہر جو کہیں یہ مرے
کب تک ایسے نحس سے کوئی بھرے
کہنی تکیے پہ اس کو دیکھے دھرے
جن نے دیکھے نہ ہوویں خرس جوال
ایک صف خاک دھول اڑاتی ہے
سنگ و خشت ایک صف چلاتی ہے
لوہے پتھر کی اس کی چھاتی ہے
اک قیامت جلو میں آتی ہے
نکلے ہے گھر سے جب کہ یہ دجال
مردہ شو خصم جان اہل ہنر
جس کسو دن رہے ہے اپنے گھر
پڑتے ہیں میرزائی پر پتھر
یوں پھرے ہے کمر میں رکھ کے تبر
جوں کفن چور کوئی رکھے کدال
نے حیا ہے نہ کچھ مروت ہے
نے کچھ اس خر میں آدمیت ہے
کیا خدا جانے بھڑوے کی مت ہے
گالی ہے دھول ہے یہ عزت ہے
کہیں غیرت کا سر میں کچھ ہے خیال
جورو گھر میں رکھے ہے اک شتاہ
کہیں چشمک کرے کہیں وہ نگاہ
آتے جاتے ہر اک کو اس سے راہ
واہ رے رائے جی کی غیرت واہ
طرفہ دیوث زن جلب چنڈال
یہ کمر باندھ کر گئے دربار
وہ ہوئی گرم جستجوے یار
آنے دروازے پر لگی سو بار
سر پہ رکھ بانکی پگڑی کھڑکی دار
پھر ہوئی چیرہ بند بوڑھی چھنال
کچھ حمیت نہ زن جلب کے تئیں
ساتھ لے جائے گھر میں سب کے تئیں
نہ رہے پاس جورو شب کے تئیں
نہ تو پاتے ہیں اس کے ڈھب کے تئیں
نہ سمجھتے ہیں اس چھنال کی چال
قصہ کوتاہ بعد چندیں ماہ
میری اس بھڑوے پر ہوئی تنخواہ
جانے آدم لگا گہ و بے گاہ
یہ تو مغرور بے تہ و گمراہ
مفتری کاذب و سفیہ و ضلال
سہل سا مجھ کو بھی سمجھ کے فقیر
رکھنے وعدوں ہی میں لگا بے پیر
یہ نہ جانا نہیں ہے اس کی نظیر
اس کو جانے ہے بادشاہ و وزیر
دور تک پہنچے گی یہ قیل و قال
اس کی خاطر کہیں گے خرد و کلاں
سعی اس میں کریں گے عمدے بجاں
دوست اس کو رکھے ہیں پیر و جواں
لے گا منت علی محمد خاں
رکھنا ان پیسوں کا ہے کس کی مجال
آپ نواب سن کے اس کا نام
کہے گا دو یہ پیسے جلد تمام
یاں نہ زنہار کیجو صبح و شام
ہو نہ ایسا کہ پاوے طول کلام
ایک سے دس روپئے ہیں کچھ بھی مال
ہوتا اشراف تو یہ تہ پاتا
کاہے کو اپنے پردے اٹھواتا
سو جلاہوں سے اس کے تیں ناتا
کبھو بیچے تھا بڑھیا کا کاتا
کبھو ہوتا تھا سوت کا دلال
اب ترقی ہوئی وکیل ہوا
ایک عمدہ کے گھر دخیل ہوا
فوج کے لوگوں کا کفیل ہوا
مجھ سے اڑ کر عبث ذلیل ہوا
جہل پر اس کے ہے یہ صحبت دال
جو گیا آدمی سو داغ آیا
ٹک نہ یہ کس کباب شرمایا
جب تقاضے سے اس کو گھبرایا
پھیر منھ لب پہ یہ سخن لایا
تم تو کاٹو ہو پہلے چومے گال
یوں تو سو بار آؤ جاؤگے
پیسے تدریج ہی سے پاؤگے
اور اس پر بھی جو ستاؤگے
اپنے پیسوں سے ہاتھ اٹھاؤگے
بوجھ میں اپنے سر سے دوں گا ٹال
یاں کھڑا دو دو دن رہے ہے دواب
مطبخی خاص کو ملے ہے جواب
منھ تکا دیر کرتے ہیں نواب
کس کا اللہ میاں کہاں کا ثواب
بے زری سے ہے زیست رنج و نکال
کام جوں توں کے میں چلاتا ہوں
سو بھی سو سو دکاں پہ جاتا ہوں
قرض کچھ بن گیا تو لاتا ہوں
جیسا میں نے کیا ہے پاتا ہوں
متصدی گری ہے یا جنجال
باز آتا نہیں ہے نفس شوم
ورنہ کس سے اٹھے ہے ایسی دھوم
ہر سحر روز والوں کا ہے ہجوم
ہے تمھیں حال یاں کا کیا معلوم
تم تو سونٹا لیے کرو ہو سوال
ایک دن جا کیا نفر نے شور
ان نے دیکھا نہ مطلق اس کی اور
ہے غرض صحبت اپنی اس کی زور
وہ تو مچھر کی جھول کا ہے چور
میں بھی کھینچوں گا خوب اس کی کھال
اس پہ تنخواہ جو کہ کر لاوے
سو وہ اپنا کیا ہی بھر پاوے
پاشکستوں کو برسوں دوڑاوے
ایسے سے ہاتھ خاک کیا آوے
جس سے دل ہوں تہ غبار ملال
بدزبانی نہیں ہے اتنی خوب
بات اچھی نہیں ہے بے اسلوب
گفتگو اس طرح کی ہے معیوب
مل رہے گا جو کچھ کہ ہے مطلوب
بس قلم اب زبان اپنی سنبھال
- میر-تقی-میر
دستخطی فرد کا سنو احوال
بے دماغی سے میں تو دی تھی ڈال
ایک مشفق کو تھا ادھر کا خیال
مہربانی سے ان نے کھوج نکال
شیخ جی گاڑھے سو عجائب مال
شیخ کو اس بھی سن میں ہے گی ہوس
تنگ پوشی سے چولی جاہے چس
ہوگا سن شریف ساٹھ برس
دانت ٹوٹے گیا ہے کلہ دھس
دیکھ رنڈی کو بہہ چلے ہے رال
جامے کو خوب سا چناتے ہیں
خال رخسار پر بناتے ہیں
مہندی بھی پتلی سی لگاتے ہیں
ناز کرتے قدم اٹھاتے ہیں
دیکھا کرتے ہیں آرسی میں جمال
دل میں دھن ہے جو عیش و عشرت کی
پوچھتے ہیں دوائیں شہوت کی
باتیں ہیں رنڈیوں کی صحبت کی
دیکھے ہیں کوئی کتاب حکمت کی
کرتے ہیں بہمنین استعمال
محو رعنائی کتنے ہیں اللہ
مسی سے کرتے ہیں مسوڑھے سیاہ
رکھتے ہیں سرمہ پر ہمیشہ نگاہ
شانہ سے کام ہے گہ و بے گاہ
کپڑے نارنجی سر پہ اودی شال
(۶)
قیر و چرکیں لباس تنگ معاش
ساتھ رکھتے ہیں ایک موے تراش
قینچی لیتے ہیں گاہ و گہ منقاش
ہر سر مو پہ اس سے ہے پرخاش
لوگ کہتے ہیں شیخ ہے چنڈال
آشنا میرے بھی پرانے تھے
میں وے اک عمر اک ٹھکانے تھے
یار تھے دوست تھے یگانے تھے
صحبتیں تھیں بہم زمانے تھے
روز و شب ہمدگر تھی قال و مقال
اب وے مختار کے ہوئے مختار
ان پہ ٹھہرا ہے سلطنت کا مدار
وے ہی اس عہد میں ہیں کاربرآر
اس طرف سے مرا ہوا جو گذار
نکلے سن نام بہر استقبال
جب ملاقات درمیاں آئی
دستخطی فرد میں نے دکھلائی
لے کے میری تسلی فرمائی
اک نفر پاس اپنے رکھوائی
پھر لگے کہنے رکھیے استقلال
فرد نواب کو دکھاؤں گا
حال صاحب کا سب جتاؤں گا
ہے مقدر تو کر ہی لاؤں گا
لے کے دفتر میں آپ جاؤں گا
آگے میرے کسے سخن کی مجال
قدر والا تمھاری ہے معلوم
خلق خادم ہے اور تم مخدوم
اس سعادت سے جو رہے محروم
ہے یقیں یہ کہ وہ الاغ شوم
حشر کو ہوگا مرکب دجال
تم بنی فاطمہ ہو ہم ہیں غلام
ہے غلامی تمھاری اپنا کام
تم کو مسجود جانتے ہیں انام
تم سبھوں کے ہو پیشوا و امام
تم سے سب کو نجات کا ہے سوال
بارے رخصت کیا بصد اعزاز
اور کہا تم ہو خلق میں ممتاز
ہے تمنا کہ تم سے ہوں دمساز
دل ہمارا ہو کاش محو نیاز
کریے تم پر نثار جان و مال
شیخ نے کر سلوک حد سے زیاد
قید اندوہ سے کیا آزاد
دی بھلا روزگار کی بیداد
جان غم کش ہوئی نہایت شاد
کم ہوا کوئی روز سر سے وبال
پھر جو دو دن میں میں گیا ان پاس
شیخ جی نکلے ایک اشرالناس
نے وہ تعظیم و خلق نے وہ پاس
بولے کچھ زیر لب اداس اداس
رہ گیا چپ میں دیکھ کر یہ حال
میرے تیں بے دماغ جو پایا
سر کیا نیچے یعنی شرمایا
جب خجالت سے کچھ نہ بن آیا
تب بہانہ صداع کا لایا
پھر یہ بولا کہ کیوں ہے چہرہ لال
میں کہا وجہ ہے کہا کہیے
میں کہا جور کب تلک سہیے
چند پامال چرخ کج رہیے
جی میں ہے اب لگایئے پہیے
تاکہ گردوں کی کچھ ہو سیدھی چال
تھی جو تم سے توقع یاری
سو تو آئی ظہور میں ساری
ہوتی جو فرد دستخطی جاری
تو بھی یہ دن جو ایسے ہیں بھاری
کاٹتا یک طرف فقیر مثال
دستخطی فرد کا سنا جب نام
کہنے لاگا کہ اب قریب ہے شام
بیٹھنے کا ہوا ہے وقت تمام
پھر کسی روز کیجیے گا کلام
اب تو میرے نہیں حواس بحال
تھا جو سختی سے فقر کی ناچار
گھر گیا شیخ جی کے سو سو بار
نہ رہا کوئی فوج شہ میں یار
نہ کہا جن نے میرا حال زار
تنگ آیا میں مفلسی سے کمال
کچھ طرح اور جب نہ بن آئی
میں ہوا شیخ جی کا مجرائی
کھینچی کیا کیا انھوں کی مرزائی
پر تسلی مری نہ فرمائی
مفت عزت گئی ہوا پامال
ایک مدت تھی آج کل پر بات
اب تو ہے صبح اب ہوئی ہے رات
ہے بہت شیخ کی غنیمت ذات
جمع آدم میں اتنے کب ہوں صفات
مفتری و دروغی و محتال
ایک دن میں کہا جو ہو مضطر
کہیے اس در سے جاؤں اب کیدھر
ہنس کے بولے بہت تلطف کر
سر منڈائے ہو تم بھی اس گھر پر
آگے آئیں گے جتنے ہوں گے بال
راتوں کے تیں مصیبتیں گذریں
کیا دنوں کو قیامتیں گذریں
کچھ نہ پوچھو جو حالتیں گذریں
باتوں باتوں میں مدتیں گذریں
وعدہ دو چار دن نہ ماہ و سال
پھر جو اس فرد کا ہوا مذکور
کہنے لاگے کہ نائب دستور
جانتا ہے تمھیں کہ ہو مشہور
پر کہے ہے رکھو مجھے معذور
جاری کرنا ہے اس کا امر محال
آٹھ آنے ہیں شاہ پر بھاری
اس کے لوگوں ہی کی ہے اب خواری
آپ ہے تو یہ ہے گرفتاری
فوج ہے گی تو قحط کی ماری
کیونکہ جس جا رہے ہیں واں تھا کال
عمدے جو ہیں دنوں کو بھرتے ہیں
سو بھی اسباب گروی دھرتے ہیں
ہیں سپاہی سو بھوکے مرتے ہیں
لوہو پی پی کے زیست کرتے ہیں
ایک تلوار بیچے ہے اک ڈھال
(۲۸)
رہ گیا میں سو جی جلاتا ہوں
کچھ کہے کوئی سر ہلاتا ہوں
یعنی ہر اک کے تیں بلاتا ہوں
کام سرکار کا چلاتا ہوں
کارپرداز ہیں سفیہ و ضلال
بادشہ بھیک مانگتا آیا
روز روزینہ بند فرمایا
معتمد اپنا مجھ کو ٹھہرایا
سو برا بیچ میں میں کہلایا
جس کو دیکھو رکھے ہے مجھ سے ملال
ملکی اور سارے صاحبان تیول
پھرتے ہیں خوار ہوتے مجھ سے ملول
کہیے حضرت سے کچھ بھی ہو جو حصول
کوڑی دینا انھیں نہیں ہے قبول
آپھی مرتے ہیں ان کے اہل و عیال
یاں مرے در پہ یاروں کا ہے ہجوم
صبح سے شام تک رہے ہے دھوم
جو یہی ڈول ہے تو ہے معلوم
ایک دن با قدوم فرح لزوم
نکلے گا یاں سے شہ بہ جاہ و جلال
حاجت اک عالم اپنی لاتا ہے
جو ہے سو جان کھائے جاتا ہے
کون یاں راہ حرف پاتا ہے
اور جسے کوئی منھ لگاتا ہے
کاٹتا ہے وہ پہلے چومے گال
اس کے اوپر ہے شہ تماشائی
اور چاہے ہے خرچ بالائی
ہر طرف پھیلی ہے یہ رسوائی
کل چنانچہ ہمیں نظر آئی
لال خیمے کے گرد دو سہ پال
دینے کا ہو کہیں ٹھکانا بھی
جود کو چاہیے زمانہ بھی
یاں نہیں شہ کے گھر میں دانہ بھی
کبھو ہوتا ہے پینا کھانا بھی
ورنہ بھوکے رہے ہیں بیٹھے نڈھال
حال یہ ہے جو اس پہ ہو منظور
پھر بھی نواب سے کروں مذکور
گاہ باشد کہ ہو انھیں مقدور
پر سماجت ہے اب خرد سے دور
لطف کیا میں کہوں وہ دیویں ٹال
میں کہا بس بہت خراب ہوا
پردے میں واں سے بھی جواب ہوا
دل ہوا داغ جی کباب ہوا
بارے ہونا جو تھا شتاب ہوا
کٹ رہے گا مرا بھی یہ جنجال
دل سے اپنے بھی اب بھلا دیجے
فرد میری مجھے منگا دیجے
ان خیالات کو اڑا دیجے
بند چڑیا کے سے چھڑا دیجے
بس بچھایا بہت فریب کا جال
ہنس کے بولے کہ فرد ہے حاضر
اور سمجھیے نہ مجھ کو بھی قاصر
حال کا ہوں تمھارے میں ناظر
جمع فرماؤ خاطر عاطر
اب نہیں پھر یہ کام لوں گا سنبھال
تب سے اب تک وہ فرد لاتا ہوں
گاہ بے گاہ ان کے جاتا ہوں
وقت پاتا ہوں تو جتاتا ہوں
پر جواب ان سے صاف پاتا ہوں
اب کی باری کا ہے یہ حال و مآل
بے دماغی سے میں تو دی تھی ڈال
ایک مشفق کو تھا ادھر کا خیال
مہربانی سے ان نے کھوج نکال
شیخ جی گاڑھے سو عجائب مال
شیخ کو اس بھی سن میں ہے گی ہوس
تنگ پوشی سے چولی جاہے چس
ہوگا سن شریف ساٹھ برس
دانت ٹوٹے گیا ہے کلہ دھس
دیکھ رنڈی کو بہہ چلے ہے رال
جامے کو خوب سا چناتے ہیں
خال رخسار پر بناتے ہیں
مہندی بھی پتلی سی لگاتے ہیں
ناز کرتے قدم اٹھاتے ہیں
دیکھا کرتے ہیں آرسی میں جمال
دل میں دھن ہے جو عیش و عشرت کی
پوچھتے ہیں دوائیں شہوت کی
باتیں ہیں رنڈیوں کی صحبت کی
دیکھے ہیں کوئی کتاب حکمت کی
کرتے ہیں بہمنین استعمال
محو رعنائی کتنے ہیں اللہ
مسی سے کرتے ہیں مسوڑھے سیاہ
رکھتے ہیں سرمہ پر ہمیشہ نگاہ
شانہ سے کام ہے گہ و بے گاہ
کپڑے نارنجی سر پہ اودی شال
(۶)
قیر و چرکیں لباس تنگ معاش
ساتھ رکھتے ہیں ایک موے تراش
قینچی لیتے ہیں گاہ و گہ منقاش
ہر سر مو پہ اس سے ہے پرخاش
لوگ کہتے ہیں شیخ ہے چنڈال
آشنا میرے بھی پرانے تھے
میں وے اک عمر اک ٹھکانے تھے
یار تھے دوست تھے یگانے تھے
صحبتیں تھیں بہم زمانے تھے
روز و شب ہمدگر تھی قال و مقال
اب وے مختار کے ہوئے مختار
ان پہ ٹھہرا ہے سلطنت کا مدار
وے ہی اس عہد میں ہیں کاربرآر
اس طرف سے مرا ہوا جو گذار
نکلے سن نام بہر استقبال
جب ملاقات درمیاں آئی
دستخطی فرد میں نے دکھلائی
لے کے میری تسلی فرمائی
اک نفر پاس اپنے رکھوائی
پھر لگے کہنے رکھیے استقلال
فرد نواب کو دکھاؤں گا
حال صاحب کا سب جتاؤں گا
ہے مقدر تو کر ہی لاؤں گا
لے کے دفتر میں آپ جاؤں گا
آگے میرے کسے سخن کی مجال
قدر والا تمھاری ہے معلوم
خلق خادم ہے اور تم مخدوم
اس سعادت سے جو رہے محروم
ہے یقیں یہ کہ وہ الاغ شوم
حشر کو ہوگا مرکب دجال
تم بنی فاطمہ ہو ہم ہیں غلام
ہے غلامی تمھاری اپنا کام
تم کو مسجود جانتے ہیں انام
تم سبھوں کے ہو پیشوا و امام
تم سے سب کو نجات کا ہے سوال
بارے رخصت کیا بصد اعزاز
اور کہا تم ہو خلق میں ممتاز
ہے تمنا کہ تم سے ہوں دمساز
دل ہمارا ہو کاش محو نیاز
کریے تم پر نثار جان و مال
شیخ نے کر سلوک حد سے زیاد
قید اندوہ سے کیا آزاد
دی بھلا روزگار کی بیداد
جان غم کش ہوئی نہایت شاد
کم ہوا کوئی روز سر سے وبال
پھر جو دو دن میں میں گیا ان پاس
شیخ جی نکلے ایک اشرالناس
نے وہ تعظیم و خلق نے وہ پاس
بولے کچھ زیر لب اداس اداس
رہ گیا چپ میں دیکھ کر یہ حال
میرے تیں بے دماغ جو پایا
سر کیا نیچے یعنی شرمایا
جب خجالت سے کچھ نہ بن آیا
تب بہانہ صداع کا لایا
پھر یہ بولا کہ کیوں ہے چہرہ لال
میں کہا وجہ ہے کہا کہیے
میں کہا جور کب تلک سہیے
چند پامال چرخ کج رہیے
جی میں ہے اب لگایئے پہیے
تاکہ گردوں کی کچھ ہو سیدھی چال
تھی جو تم سے توقع یاری
سو تو آئی ظہور میں ساری
ہوتی جو فرد دستخطی جاری
تو بھی یہ دن جو ایسے ہیں بھاری
کاٹتا یک طرف فقیر مثال
دستخطی فرد کا سنا جب نام
کہنے لاگا کہ اب قریب ہے شام
بیٹھنے کا ہوا ہے وقت تمام
پھر کسی روز کیجیے گا کلام
اب تو میرے نہیں حواس بحال
تھا جو سختی سے فقر کی ناچار
گھر گیا شیخ جی کے سو سو بار
نہ رہا کوئی فوج شہ میں یار
نہ کہا جن نے میرا حال زار
تنگ آیا میں مفلسی سے کمال
کچھ طرح اور جب نہ بن آئی
میں ہوا شیخ جی کا مجرائی
کھینچی کیا کیا انھوں کی مرزائی
پر تسلی مری نہ فرمائی
مفت عزت گئی ہوا پامال
ایک مدت تھی آج کل پر بات
اب تو ہے صبح اب ہوئی ہے رات
ہے بہت شیخ کی غنیمت ذات
جمع آدم میں اتنے کب ہوں صفات
مفتری و دروغی و محتال
ایک دن میں کہا جو ہو مضطر
کہیے اس در سے جاؤں اب کیدھر
ہنس کے بولے بہت تلطف کر
سر منڈائے ہو تم بھی اس گھر پر
آگے آئیں گے جتنے ہوں گے بال
راتوں کے تیں مصیبتیں گذریں
کیا دنوں کو قیامتیں گذریں
کچھ نہ پوچھو جو حالتیں گذریں
باتوں باتوں میں مدتیں گذریں
وعدہ دو چار دن نہ ماہ و سال
پھر جو اس فرد کا ہوا مذکور
کہنے لاگے کہ نائب دستور
جانتا ہے تمھیں کہ ہو مشہور
پر کہے ہے رکھو مجھے معذور
جاری کرنا ہے اس کا امر محال
آٹھ آنے ہیں شاہ پر بھاری
اس کے لوگوں ہی کی ہے اب خواری
آپ ہے تو یہ ہے گرفتاری
فوج ہے گی تو قحط کی ماری
کیونکہ جس جا رہے ہیں واں تھا کال
عمدے جو ہیں دنوں کو بھرتے ہیں
سو بھی اسباب گروی دھرتے ہیں
ہیں سپاہی سو بھوکے مرتے ہیں
لوہو پی پی کے زیست کرتے ہیں
ایک تلوار بیچے ہے اک ڈھال
(۲۸)
رہ گیا میں سو جی جلاتا ہوں
کچھ کہے کوئی سر ہلاتا ہوں
یعنی ہر اک کے تیں بلاتا ہوں
کام سرکار کا چلاتا ہوں
کارپرداز ہیں سفیہ و ضلال
بادشہ بھیک مانگتا آیا
روز روزینہ بند فرمایا
معتمد اپنا مجھ کو ٹھہرایا
سو برا بیچ میں میں کہلایا
جس کو دیکھو رکھے ہے مجھ سے ملال
ملکی اور سارے صاحبان تیول
پھرتے ہیں خوار ہوتے مجھ سے ملول
کہیے حضرت سے کچھ بھی ہو جو حصول
کوڑی دینا انھیں نہیں ہے قبول
آپھی مرتے ہیں ان کے اہل و عیال
یاں مرے در پہ یاروں کا ہے ہجوم
صبح سے شام تک رہے ہے دھوم
جو یہی ڈول ہے تو ہے معلوم
ایک دن با قدوم فرح لزوم
نکلے گا یاں سے شہ بہ جاہ و جلال
حاجت اک عالم اپنی لاتا ہے
جو ہے سو جان کھائے جاتا ہے
کون یاں راہ حرف پاتا ہے
اور جسے کوئی منھ لگاتا ہے
کاٹتا ہے وہ پہلے چومے گال
اس کے اوپر ہے شہ تماشائی
اور چاہے ہے خرچ بالائی
ہر طرف پھیلی ہے یہ رسوائی
کل چنانچہ ہمیں نظر آئی
لال خیمے کے گرد دو سہ پال
دینے کا ہو کہیں ٹھکانا بھی
جود کو چاہیے زمانہ بھی
یاں نہیں شہ کے گھر میں دانہ بھی
کبھو ہوتا ہے پینا کھانا بھی
ورنہ بھوکے رہے ہیں بیٹھے نڈھال
حال یہ ہے جو اس پہ ہو منظور
پھر بھی نواب سے کروں مذکور
گاہ باشد کہ ہو انھیں مقدور
پر سماجت ہے اب خرد سے دور
لطف کیا میں کہوں وہ دیویں ٹال
میں کہا بس بہت خراب ہوا
پردے میں واں سے بھی جواب ہوا
دل ہوا داغ جی کباب ہوا
بارے ہونا جو تھا شتاب ہوا
کٹ رہے گا مرا بھی یہ جنجال
دل سے اپنے بھی اب بھلا دیجے
فرد میری مجھے منگا دیجے
ان خیالات کو اڑا دیجے
بند چڑیا کے سے چھڑا دیجے
بس بچھایا بہت فریب کا جال
ہنس کے بولے کہ فرد ہے حاضر
اور سمجھیے نہ مجھ کو بھی قاصر
حال کا ہوں تمھارے میں ناظر
جمع فرماؤ خاطر عاطر
اب نہیں پھر یہ کام لوں گا سنبھال
تب سے اب تک وہ فرد لاتا ہوں
گاہ بے گاہ ان کے جاتا ہوں
وقت پاتا ہوں تو جتاتا ہوں
پر جواب ان سے صاف پاتا ہوں
اب کی باری کا ہے یہ حال و مآل
- میر-تقی-میر
واں ان نے دل کیا ہے مانند سنگ خارا
یاں تن ہوا ہے پانی ہوکر گداز سارا
کیا پوچھتا ہے ہمدم احوال تو ہمارا
نے رمز نے کنایہ ایما ہے نے اشارہ
اس کے تغافلوں نے ان روزوں ہم کو مارا
ہو شہر یا کہ صحرا بارے مکان تو ہو
غم میں نہ ہووے کچھ تو اک تن میں جان تو ہو
حالت تغیر ہوکر منھ میں زبان تو ہو
سو بار دیکھ صورت ہو مہربان تو ہو
اپنے تئیں نہیں ہے اب گفتگو کا یارا
یہ چشم تھی کہ ترکاں اکثر سوار ہوں گے
ہم لوگ ان کی رہ کے گرد و غبار ہوں گے
یہ جانتے نہ تھے ہم اس طور خوار ہوں گے
اب کہتے ہیں کہ یارب کیوں کر دوچار ہوں گے
اس بھی طرف کو ہوگا ان کا کبھی گذارا
ہجراں میں ٹک نہ پرچے کوہ اور راغ میں ہم
بوے وفا نہ پائی دل میں دماغ میں ہم
مدت رہے اگرچہ گلگشت باغ میں ہم
پرلطف کچھ جو دیکھا سینے کے داغ میں ہم
اس بن جو گل چنے تھے ان کا کیا نظارہ
تشنے ہیں اپنے خوں کے اے ہمدمو نہ آؤ
ہووے طبیب گر خضر اس کو بھی یاں نہ لاؤ
اب ٹھانی ہم سو ٹھانی گو اس میں جان جاؤ
آب برندہ اس کی شمشیر کا پلاؤ
آب حیات اپنے جی کو نہیں گوارا
تنگ اس قدر نہیں ہیں اس زندگی سے ہم اب
جو آرزو کریں پھر اٹھنے کی حشر کو تب
ہونٹوں پہ یہ دعا ہے ہر روز اور ہر شب
یک حرف کاشکے ہو روز جزا بھی یارب
کس کو دماغ اتنا جو پھر جیے دوبارہ
ہوش و دل اور ایماں یہ تو گئے تھے سارے
موجب تو زندگی کا کوئی نہ تھا پیارے
تجھ سے کہیں سو کیا اب کہہ ہم ستم کے مارے
آنسو سے پونچھتا تھا کچھ جو کبھو ہمارے
سو صبر ظلم دیدہ کل رات سے سدھارا
اب دل اٹھا تو منعم تعمیر خانماں سے
کیا فائدہ رہا ہے گر کچھ نشاں مکاں سے
رہنے تجھی کو دیں گے جانا گیا کہاں سے
آواز بھی نہ آئی اک در جواب واں سے
کسریٰ کے در پہ جاکر کل میں بہت پکارا
موت اس کے ہاتھ سے ہو اس سے تو کیا ہے بہتر
پر جی میں حسرتیں ہیں بن آئی ہے یہ جی پر
غیروں سے ٹک کہو یہ کاے مدعیو اکثر
تلوار اس کو دے کر بھیجا کرو نہ ایدھر
جی جائے ہے ہمارا کیا جائے ہے تمھارا
اب وہ نہیں کہ ہر سو طوفان کا خطر ہے
یا میرؔ سیل آیا ابر سیاہ تر ہے
مت پوچھ رود کوئی آتا جو یاں نظر ہے
اس گریے ہی کا اب تک کچھ کچھ کہیں اثر ہے
دریا نے تو جہاں سے کب کا کیا کنارہ
یاں تن ہوا ہے پانی ہوکر گداز سارا
کیا پوچھتا ہے ہمدم احوال تو ہمارا
نے رمز نے کنایہ ایما ہے نے اشارہ
اس کے تغافلوں نے ان روزوں ہم کو مارا
ہو شہر یا کہ صحرا بارے مکان تو ہو
غم میں نہ ہووے کچھ تو اک تن میں جان تو ہو
حالت تغیر ہوکر منھ میں زبان تو ہو
سو بار دیکھ صورت ہو مہربان تو ہو
اپنے تئیں نہیں ہے اب گفتگو کا یارا
یہ چشم تھی کہ ترکاں اکثر سوار ہوں گے
ہم لوگ ان کی رہ کے گرد و غبار ہوں گے
یہ جانتے نہ تھے ہم اس طور خوار ہوں گے
اب کہتے ہیں کہ یارب کیوں کر دوچار ہوں گے
اس بھی طرف کو ہوگا ان کا کبھی گذارا
ہجراں میں ٹک نہ پرچے کوہ اور راغ میں ہم
بوے وفا نہ پائی دل میں دماغ میں ہم
مدت رہے اگرچہ گلگشت باغ میں ہم
پرلطف کچھ جو دیکھا سینے کے داغ میں ہم
اس بن جو گل چنے تھے ان کا کیا نظارہ
تشنے ہیں اپنے خوں کے اے ہمدمو نہ آؤ
ہووے طبیب گر خضر اس کو بھی یاں نہ لاؤ
اب ٹھانی ہم سو ٹھانی گو اس میں جان جاؤ
آب برندہ اس کی شمشیر کا پلاؤ
آب حیات اپنے جی کو نہیں گوارا
تنگ اس قدر نہیں ہیں اس زندگی سے ہم اب
جو آرزو کریں پھر اٹھنے کی حشر کو تب
ہونٹوں پہ یہ دعا ہے ہر روز اور ہر شب
یک حرف کاشکے ہو روز جزا بھی یارب
کس کو دماغ اتنا جو پھر جیے دوبارہ
ہوش و دل اور ایماں یہ تو گئے تھے سارے
موجب تو زندگی کا کوئی نہ تھا پیارے
تجھ سے کہیں سو کیا اب کہہ ہم ستم کے مارے
آنسو سے پونچھتا تھا کچھ جو کبھو ہمارے
سو صبر ظلم دیدہ کل رات سے سدھارا
اب دل اٹھا تو منعم تعمیر خانماں سے
کیا فائدہ رہا ہے گر کچھ نشاں مکاں سے
رہنے تجھی کو دیں گے جانا گیا کہاں سے
آواز بھی نہ آئی اک در جواب واں سے
کسریٰ کے در پہ جاکر کل میں بہت پکارا
موت اس کے ہاتھ سے ہو اس سے تو کیا ہے بہتر
پر جی میں حسرتیں ہیں بن آئی ہے یہ جی پر
غیروں سے ٹک کہو یہ کاے مدعیو اکثر
تلوار اس کو دے کر بھیجا کرو نہ ایدھر
جی جائے ہے ہمارا کیا جائے ہے تمھارا
اب وہ نہیں کہ ہر سو طوفان کا خطر ہے
یا میرؔ سیل آیا ابر سیاہ تر ہے
مت پوچھ رود کوئی آتا جو یاں نظر ہے
اس گریے ہی کا اب تک کچھ کچھ کہیں اثر ہے
دریا نے تو جہاں سے کب کا کیا کنارہ
- میر-تقی-میر
یہ بات جھوٹ نہیں صدق کی صفا کی قسم
ترے ہی لطف کا وابستہ ہوں وفا کی قسم
عبث جو قسمیں ہے دیوے تو مصطفےٰؐ کی قسم
جناب پاک بتول و شہ ولا کی قسم
قسم حسن کی حسین ابن مرتضےٰ کی قسم
ترا ہوں خوار تری شان کی مجھے سوگند
مروں ہوں تجھ پہ تری جان کی مجھے سوگند
تجھی کو جپتا ہوں ایمان کی مجھے سوگند
یہی وظیفہ ہے قرآن کی مجھے سوگند
تجھی سے بندگی رکھتا ہوں میں خدا کی قسم
رہے ہے مدنظر تیری زلف و کاکل و خال
پھرا کرے ہے مری آنکھوں میں تری ہی چال
شبوں کو تیرا تصور دنوں کو تیرا خیال
مریض دل ہوں مرا عابدیں ہے شاہد حال
اسی ستم زدہ بیمار و بے دوا کی قسم
تجھے میں دیکھ تماشے کا کیا مہیا ہوں
خدا نے دی ہیں مجھے آنکھیں کیا میں اندھا ہوں
نصیب لطف نہ باقر کا ہو جو جھوٹا ہوں
دوچار حشر میں آفت سے ہوں جو ایسا ہوں
امام پنجتن اس اپنے پیشوا کی قسم
جو رو و مو ہو نظر میں تو صبح و شام کی سوں
پڑا ہو پاؤں کہیں تو ترے خرام کی سوں
کلام ہو کسی سے تو مجھے کلام کی سوں
جو سات پانچ ہو جی میں چھٹے امام کی سوں
غبار رہ ہوں ترا اس کے خاک پا کی قسم
کرے ہے لطف جو ٹک تو بحال آتا ہوں
وگرنہ آپ سے میں لمحہ لمحہ جاتا ہوں
ترے ہی واسطے یہ غم یہ غصہ کھاتا ہوں
گواہ دعوے کا کاظم کو اپنے لاتا ہوں
سچ اس کو مان تجھے اس کی ہے ولا کی قسم
جو تجھ کو خوش نہیں پاتے تو جان کھوتے ہیں
ہلاک ہونے پہ تجھ ہی سے راضی ہوتے ہیں
کبھو ہی آٹھ پہر میں ٹک ایک سوتے ہیں
ہمیشہ راتوں کو آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں
امام ضامن ثامن علی رضا کی قسم
گداے در ہوں تقی کا نقی کا ہوں مملوک
رکھوں ہوں عسکری کے لطف سے امید سلوک
طریق مہدی ہادی کا رکھتا ہوں مسلوک
جہاں کے لوگ ہیں مفلوک سارے یہ ہیں ملوک
قسم جو کھایئے ان چار بادشا کی قسم
نہ اپنی تیری بنی ہر زماں بگڑتے رہے
گمان بد سے سدا روٹھتے ہی لڑتے رہے
سرشک آنکھوں سے جیسے ستارے جھڑتے رہے
شبوں کو عذر میں نت آکے پاؤں پڑتے رہے
ملے جو دن کو یہی بیچ میں رہا کی قسم
گناہ پہنچے جو اثبات کو تو رکھیے معاف
کدورت اپنی عبث ایک بار کر چک صاف
ہر ایک رات کہاں تک بسان روز مصاف
نکال تیغ شتابی نہیں یہ حرف گزاف
درنگ کیا ہے مگر کھائی ہے جفا کی قسم
چمن میں میں جو پھرا ہوں تو سوکھوں جیسے پات
زبان کاٹ جو سوسن کے رنگ کی ہو بات
سیاہ روز ہوں میں گر کہیں رہا ہوں رات
گیا ہوں چل کے تو رکھتا ہوں تیرے ہاتھ پہ ہات
جو کچھ خیال ہو سر میں تو تیرے پا کی قسم
جفا و جور ہزاروں طرح کے سہتا ہوں
گداز غم سے ہو سب آنسوؤں میں بہتا ہوں
ہوئے ہیں برسوں کہ چپکا ہی بیٹھا رہتا ہوں
کہو ہو یہ جو کبھو خواہش اپنی کہتا ہوں
ابھی تو کھائی تھی اظہار مدعا کی قسم
جلوں ہوں شمع کے مانند تجھ کو پروا نہ
خبر تجھے مری حالت سے کچھ بھی ہے یا نہ
فقط ہوں سلسلۂ مو کا تیرے دیوانہ
کہے تو تیل میں میں ہاتھ ڈالوں جوں شانہ
جو پیچ ہو تو ترے کاکل دوتا کی قسم
سرشک میرؔ ہیں جس جاے ٹک نگہ جاوے
تمام پانی ہو دل کاش اس کا بہہ جاوے
تو محو آئینہ ہو وہ جفائیں سہہ جاوے
کہاں تلک ترا منھ دیکھ دیکھ رہ جاوے
کچھ اس کے منھ سے حیا کر تجھے حیا کی قسم
ترے ہی لطف کا وابستہ ہوں وفا کی قسم
عبث جو قسمیں ہے دیوے تو مصطفےٰؐ کی قسم
جناب پاک بتول و شہ ولا کی قسم
قسم حسن کی حسین ابن مرتضےٰ کی قسم
ترا ہوں خوار تری شان کی مجھے سوگند
مروں ہوں تجھ پہ تری جان کی مجھے سوگند
تجھی کو جپتا ہوں ایمان کی مجھے سوگند
یہی وظیفہ ہے قرآن کی مجھے سوگند
تجھی سے بندگی رکھتا ہوں میں خدا کی قسم
رہے ہے مدنظر تیری زلف و کاکل و خال
پھرا کرے ہے مری آنکھوں میں تری ہی چال
شبوں کو تیرا تصور دنوں کو تیرا خیال
مریض دل ہوں مرا عابدیں ہے شاہد حال
اسی ستم زدہ بیمار و بے دوا کی قسم
تجھے میں دیکھ تماشے کا کیا مہیا ہوں
خدا نے دی ہیں مجھے آنکھیں کیا میں اندھا ہوں
نصیب لطف نہ باقر کا ہو جو جھوٹا ہوں
دوچار حشر میں آفت سے ہوں جو ایسا ہوں
امام پنجتن اس اپنے پیشوا کی قسم
جو رو و مو ہو نظر میں تو صبح و شام کی سوں
پڑا ہو پاؤں کہیں تو ترے خرام کی سوں
کلام ہو کسی سے تو مجھے کلام کی سوں
جو سات پانچ ہو جی میں چھٹے امام کی سوں
غبار رہ ہوں ترا اس کے خاک پا کی قسم
کرے ہے لطف جو ٹک تو بحال آتا ہوں
وگرنہ آپ سے میں لمحہ لمحہ جاتا ہوں
ترے ہی واسطے یہ غم یہ غصہ کھاتا ہوں
گواہ دعوے کا کاظم کو اپنے لاتا ہوں
سچ اس کو مان تجھے اس کی ہے ولا کی قسم
جو تجھ کو خوش نہیں پاتے تو جان کھوتے ہیں
ہلاک ہونے پہ تجھ ہی سے راضی ہوتے ہیں
کبھو ہی آٹھ پہر میں ٹک ایک سوتے ہیں
ہمیشہ راتوں کو آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں
امام ضامن ثامن علی رضا کی قسم
گداے در ہوں تقی کا نقی کا ہوں مملوک
رکھوں ہوں عسکری کے لطف سے امید سلوک
طریق مہدی ہادی کا رکھتا ہوں مسلوک
جہاں کے لوگ ہیں مفلوک سارے یہ ہیں ملوک
قسم جو کھایئے ان چار بادشا کی قسم
نہ اپنی تیری بنی ہر زماں بگڑتے رہے
گمان بد سے سدا روٹھتے ہی لڑتے رہے
سرشک آنکھوں سے جیسے ستارے جھڑتے رہے
شبوں کو عذر میں نت آکے پاؤں پڑتے رہے
ملے جو دن کو یہی بیچ میں رہا کی قسم
گناہ پہنچے جو اثبات کو تو رکھیے معاف
کدورت اپنی عبث ایک بار کر چک صاف
ہر ایک رات کہاں تک بسان روز مصاف
نکال تیغ شتابی نہیں یہ حرف گزاف
درنگ کیا ہے مگر کھائی ہے جفا کی قسم
چمن میں میں جو پھرا ہوں تو سوکھوں جیسے پات
زبان کاٹ جو سوسن کے رنگ کی ہو بات
سیاہ روز ہوں میں گر کہیں رہا ہوں رات
گیا ہوں چل کے تو رکھتا ہوں تیرے ہاتھ پہ ہات
جو کچھ خیال ہو سر میں تو تیرے پا کی قسم
جفا و جور ہزاروں طرح کے سہتا ہوں
گداز غم سے ہو سب آنسوؤں میں بہتا ہوں
ہوئے ہیں برسوں کہ چپکا ہی بیٹھا رہتا ہوں
کہو ہو یہ جو کبھو خواہش اپنی کہتا ہوں
ابھی تو کھائی تھی اظہار مدعا کی قسم
جلوں ہوں شمع کے مانند تجھ کو پروا نہ
خبر تجھے مری حالت سے کچھ بھی ہے یا نہ
فقط ہوں سلسلۂ مو کا تیرے دیوانہ
کہے تو تیل میں میں ہاتھ ڈالوں جوں شانہ
جو پیچ ہو تو ترے کاکل دوتا کی قسم
سرشک میرؔ ہیں جس جاے ٹک نگہ جاوے
تمام پانی ہو دل کاش اس کا بہہ جاوے
تو محو آئینہ ہو وہ جفائیں سہہ جاوے
کہاں تلک ترا منھ دیکھ دیکھ رہ جاوے
کچھ اس کے منھ سے حیا کر تجھے حیا کی قسم
- میر-تقی-میر
guzre wo jhulate hue jhumka mere aage
locket kabhi kangan kabhi chhalla mere aage
rahta hai hamesha hi ye khatra mere aage
ladki mere aage hai ki ladka mere aage
hota hai shab-o-roz tamasha mere aage
badli hain yahan aaj mohabbat ki wo rasmen
shirin na rahi ab kisi farhad ke bas mein
sohni ke lage tir mahinwal ki nas mein
khati hai yahan hir kisi aur ki qasmen
majnun ko bura kahti hai laila mere aage
sunte ho aji kahti thi hawwa ki ye dukhtar
wo tarz-e-takhatub tha ye chahat ka samundar
ab daur-e-masawat hai donon hain barabar
shauhar ko pukare hai wo ab nam hi le kar
aata hai abhi dekhiye kya kya mere aage
rakhna tha mohabbat ko chhupa dil ki kali mein
wada tha nibhane ka buri aur bhali mein
khujli hui shayad tere pairon ki tali mein
pakdi jo gai aaj raqibon ki gali mein
tu dekh ki kya rang hai tera mere aage
abba jo tere ishq ki rudad samajhte
majnun ka yaqinan hamein ham-zad samajhte
aur ghaib se bheji hui imdad samajhte
sine se lagate hamein damad samajhte
kyunkar kahun lo nam na un ka mere aage
locket kabhi kangan kabhi chhalla mere aage
rahta hai hamesha hi ye khatra mere aage
ladki mere aage hai ki ladka mere aage
hota hai shab-o-roz tamasha mere aage
badli hain yahan aaj mohabbat ki wo rasmen
shirin na rahi ab kisi farhad ke bas mein
sohni ke lage tir mahinwal ki nas mein
khati hai yahan hir kisi aur ki qasmen
majnun ko bura kahti hai laila mere aage
sunte ho aji kahti thi hawwa ki ye dukhtar
wo tarz-e-takhatub tha ye chahat ka samundar
ab daur-e-masawat hai donon hain barabar
shauhar ko pukare hai wo ab nam hi le kar
aata hai abhi dekhiye kya kya mere aage
rakhna tha mohabbat ko chhupa dil ki kali mein
wada tha nibhane ka buri aur bhali mein
khujli hui shayad tere pairon ki tali mein
pakdi jo gai aaj raqibon ki gali mein
tu dekh ki kya rang hai tera mere aage
abba jo tere ishq ki rudad samajhte
majnun ka yaqinan hamein ham-zad samajhte
aur ghaib se bheji hui imdad samajhte
sine se lagate hamein damad samajhte
kyunkar kahun lo nam na un ka mere aage
- shaukat-jamal
kunjashk-o-darna taza-dam lala kanwal aur nastaran
wo bulbul-o-taus-o-gul wo kaukab aur wo yasman
gul-ha-e-sad-rangin-qaba murghan-e-sad-shirin-dahan
gulshan kaho tum ya chaman hai ahl-e-dil ki anjuman
sad bulbul-e-shorida-sar sad lala-e-khunin-kafan
wo bagh-e-yak-minu-sifat ganjina-e-sarw-o-saman
mashur-kun wo chahchahe sad fakhr-e-daudi lahan
hai ambarin jis ki faza mushk-e-khutan jis ki pawan
is bagh mein aati hai ek mahbuba-e-gul-pairahan
shirin-nawa shirin-ada shirin-sukhan shirin-dahan
wo hai ilaj-e-dard-e-dil dil ki magar halchal bhi hai
wo aashna-e-gham bhi hai lekin bahut chanchal bhi hai
wo jalwa-e-mah-e-mubin wo naznin sanwal bhi hai
wo gul bhi hai suraj bhi hai bijli bhi hai baadal bhi hai
dekha na tha pahle kabhi aisa hasin banka sajan
aise wo aaya mah-ru ausan sab ke aa liye
nok aur palak ab sher ki kya dekhiye kya bhaaliye
ash ash ke is tufan ko aakhir kahan tak taliye
paikar ko us ke sher ke paikar mein kyunkar dhaaliye
khamosh hain hairan hain sab shahryaran-e-sukhan
bulbul si wo naghma-kunan muskan ghunche ki chatak
tewar wo bijli ki lapak lalin wo aariz ki dhanak
zulfon mein ambar ki mahak aankhon mein taron ki damak
peshani-e-simin hai ya subh-e-takhayyul ki chamak
shaistagi-e-fikr-o-fan us ke tabassum ki kiran
wo husn sa painda hai wo mah sa rakhshanda hai
behad hi wo bakhshinda hai aur sab se hi zebinda hai
jo dekh le farkhanda hai chahe jo us ko zinda hai
hur-o-pari sharminda hai wo is qadar tabinda hai
dekhe se nikhre rang-e-rukh chhune se maila ho badan
chaho bahut sunte raho us zindagi ke saz ko
dil mein hi bas rakkho magar tum uns ke us raaz ko
jo kuchh bhi ho tum chhuna mat us paikar-e-andaz ko
bas dur se dekha karo us shama-e-bazm-e-naz ko
wo raunaq-e-kashana-e-dil hairat-e-sad-anjuman
baaton mein us ki hai ayan wazeh ye mubham kaun hai
sochon mein us ki dam-ba-dam maujud paiham kaun hai
tanhai ke is dasht mein ye us ka hamdam kaun hai
aao chalen dekhen zara wo jaan-e-alam kaun hai
'sardar' ke sheron mein hai zulf-e-moambar ki shikan
wo bulbul-o-taus-o-gul wo kaukab aur wo yasman
gul-ha-e-sad-rangin-qaba murghan-e-sad-shirin-dahan
gulshan kaho tum ya chaman hai ahl-e-dil ki anjuman
sad bulbul-e-shorida-sar sad lala-e-khunin-kafan
wo bagh-e-yak-minu-sifat ganjina-e-sarw-o-saman
mashur-kun wo chahchahe sad fakhr-e-daudi lahan
hai ambarin jis ki faza mushk-e-khutan jis ki pawan
is bagh mein aati hai ek mahbuba-e-gul-pairahan
shirin-nawa shirin-ada shirin-sukhan shirin-dahan
wo hai ilaj-e-dard-e-dil dil ki magar halchal bhi hai
wo aashna-e-gham bhi hai lekin bahut chanchal bhi hai
wo jalwa-e-mah-e-mubin wo naznin sanwal bhi hai
wo gul bhi hai suraj bhi hai bijli bhi hai baadal bhi hai
dekha na tha pahle kabhi aisa hasin banka sajan
aise wo aaya mah-ru ausan sab ke aa liye
nok aur palak ab sher ki kya dekhiye kya bhaaliye
ash ash ke is tufan ko aakhir kahan tak taliye
paikar ko us ke sher ke paikar mein kyunkar dhaaliye
khamosh hain hairan hain sab shahryaran-e-sukhan
bulbul si wo naghma-kunan muskan ghunche ki chatak
tewar wo bijli ki lapak lalin wo aariz ki dhanak
zulfon mein ambar ki mahak aankhon mein taron ki damak
peshani-e-simin hai ya subh-e-takhayyul ki chamak
shaistagi-e-fikr-o-fan us ke tabassum ki kiran
wo husn sa painda hai wo mah sa rakhshanda hai
behad hi wo bakhshinda hai aur sab se hi zebinda hai
jo dekh le farkhanda hai chahe jo us ko zinda hai
hur-o-pari sharminda hai wo is qadar tabinda hai
dekhe se nikhre rang-e-rukh chhune se maila ho badan
chaho bahut sunte raho us zindagi ke saz ko
dil mein hi bas rakkho magar tum uns ke us raaz ko
jo kuchh bhi ho tum chhuna mat us paikar-e-andaz ko
bas dur se dekha karo us shama-e-bazm-e-naz ko
wo raunaq-e-kashana-e-dil hairat-e-sad-anjuman
baaton mein us ki hai ayan wazeh ye mubham kaun hai
sochon mein us ki dam-ba-dam maujud paiham kaun hai
tanhai ke is dasht mein ye us ka hamdam kaun hai
aao chalen dekhen zara wo jaan-e-alam kaun hai
'sardar' ke sheron mein hai zulf-e-moambar ki shikan
- ain-seen
ilaj-e-hijr zara aur karke dekhte hain
nazare hum kisi rashk-e-qamar ke dekhte hain
khumar-e-did se hum bhi sanwar ke dekhte hain
suna hai log use aankh bhar ke dekhte hain
so us ke shahr mein kuchh din thahar ke dekhte hain
hamein kasak si jo lahaq hai chand salon se
najat pane ko jate hain in malalon se
halak hote hain us ki nigah ke bhaalon se
suna hai rabt hai us ko kharab-haalon se
so apne aap ko barbaad karke dekhte hain
subu mizaj hai sad-chashm-e-naghma-saz us ki
wo be-niyaz nigah hai sukhan-taraaz us ki
dil-e-shaqi se to achchhi hai saz-baz us ki
suna hai dard ki gahak hai chashm-e-naz us ki
so hum bhi us ki gali se guzar ke dekhte hain
ghazal sunane ka us ko hamein mila hai sharaf
sukhan mein hum ne banaya jo us ko apna hadaf
to uth bhi sakti hai us ki nazar hamari taraf
suna hai us ko bhi hai sher-o-shaeri se shaghaf
so hum bhi moajize apne hunar ke dekhte hain
wo muskurae to rukh par gadhe se padte hain
labon ko chhute hain alfaz to sanwarte hain
jo lams pate hain honton ka to nikharte hain
suna hai bole to baaton se phul jhadte hain
ye baat hai to chalo baat karke dekhte hain
wahi to hai jise har ek chand kahta hai
wo jis ke nur mein suraj kiran sa bahta hai
wo jis ke hijr ko suraj bhi chhup ke sahta hai
suna hai raat use chand takta rahta hai
sitare baam-e-falak se utar ke dekhte hain
ki us ki zulf pe to badliyan khul aati hain
usi ki did pe ye qumriyan bhi gati hain
usi ke nur mein to bijliyan nahati hain
suna hai din ko use titliyan satati hain
suna hai raat ko jugnu thahar ke dekhte hain
bahut hasin hain us ki khayal si aankhen
wafur-e-baada se rangin gulal si aankhen
jo un mein jhank ke dekho to dhaal si aankhen
suna hai hashr hain us ki ghazal si aankhen
suna hai us ko hiran dasht bhar ke dekhte hain
ki rasmasa ke sana-gar hain konplen us ki
suna hai kaif ka mehwar hain mahfilen us ki
suna hai shauq se bartar hain manzilen us ki
suna hai raat se badh kar hain kakulen us ki
suna hai sham ko sae guzar ke dekhte hain
suna hai ghuncha-dahan sirr-e-sad-malahat hai
suna hai jaan-e-ghazal sar-basar sabahat hai
suna hai us ki ajab rustakhez qamat hai
suna hai us ki siyah-chashmagi qayamat hai
so us ko surma-farosh aah bhar ke dekhte hain
jo muskurae to yaqut-e-lab bahalte hain
suna hai us ke tabassum se dil pighalte hain
aqiq-honton pe jab qahqahe machalte hain
suna hai us ke labon se gulab jalte hain
so hum bahaar pe ilzam dhar ke dekhte hain
hai baat aur hi aur har ada hasin us ki
saba ke dosh pe wo zulf-e-ambarin us ki
ki dil pe qahr hain baaten wo dil-nashin us ki
suna hai aaina-timsal hai jabin us ki
jo sada dil hain use ban-sanwar ke dekhte hain
ki dekhte jo hain khud ko wo us ke darpan mein
hue hain itne wo mashur us ki ban-than mein
wo khud ko bhul ke khoe hain ek nae-pan mein
suna hai jab se hamail hain is ki gardan mein
mizaj aur hi lal-o-gohar ke dekhte hain
suna hai lams ko pane ke us ke arman mein
wafur-e-kaif ke afsun mein shauq-e-jaanan mein
isi khayal mein kho kar kabhi shabistan mein
suna hai chashm-e-tasawwur se dasht-e-imkan mein
palang zawiye us ki kamar ke dekhte hain
ghurur-e-husn ke phulon ki aisi-taisi hai
go khushbu un ki bhi bilkul usi ke jaisi hai
par un ki aan yahan pash pash kaisi hai
suna hai us ke badan ki tarash aisi hai
ki phul apni qabaen katar ke dekhte hain
nazir koi bhi us ka sar-e-bilad nahin
koi bhi husn mein us husn se ziyaad nahin
nahin jo dekh ke us ko koi jo shad nahin
wo sarw-qad hai magar be-gul-e-murad nahin
ki is shajar pe shagufe samar ke dekhte hain
ajib chiz hai jalwa jamal-e-kaamil ka
hate kabhi ki jo parda hai us ke mahmil ka
khayal phir nahin rahta hai koi manzil ka
bas ek nigah se lutta hai qafila dil ka
so rah-rawan-e-tamanna bhi dar ke dekhte hain
suna hai us ke shabistan se munfail hai bahisht
suna hai us ke shabistan se muzmahil hai bahisht
suna hai us ke shabistan se mundamil hai bahisht
suna hai us ke shabistan se muttasil hai bahisht
makin udhar ke bhi jalwe idhar ke dekhte hain
chale to gardishen sab e'tiraf karti hain
chale to rasta us ka wo saf karti hain
chale to us ke saliqe ka laf karti hain
ruke to gardishen us ka tawaf karti hain
chale to us ko zamane thahar ke dekhte hain
khayal-o-khwab ki ek anjuman use dekhe
aur is tarah ki bad-diwana-pan use dekhe
kabhi dariche se guzri pawan use dekhe
kise nasib ki be-pairahan use dekhe
kabhi kabhi dar-o-diwar ghar ke dekhte hain
ajab junun ke ye apne mualije hi sahi
dil-e-gharib ke apne mughaalate hi sahi
ye baalak-hat ke sabab ke mutalbe hi sahi
kahaniyan hi sahi sab mubaalghe hi sahi
agar wo khwab hai tabir karke dekhte hain
usi ke kuche mein rah len ki dar-ba-dar jaen
usi ke dar pe hi baithen ya apne ghar jaen
ab us ke shahr ko chhoden ya is mein mar jaen
ab us ke shahr mein thahren ki kuch kar jaen
'faraaz' aao sitare safar ke dekhte hain
nazare hum kisi rashk-e-qamar ke dekhte hain
khumar-e-did se hum bhi sanwar ke dekhte hain
suna hai log use aankh bhar ke dekhte hain
so us ke shahr mein kuchh din thahar ke dekhte hain
hamein kasak si jo lahaq hai chand salon se
najat pane ko jate hain in malalon se
halak hote hain us ki nigah ke bhaalon se
suna hai rabt hai us ko kharab-haalon se
so apne aap ko barbaad karke dekhte hain
subu mizaj hai sad-chashm-e-naghma-saz us ki
wo be-niyaz nigah hai sukhan-taraaz us ki
dil-e-shaqi se to achchhi hai saz-baz us ki
suna hai dard ki gahak hai chashm-e-naz us ki
so hum bhi us ki gali se guzar ke dekhte hain
ghazal sunane ka us ko hamein mila hai sharaf
sukhan mein hum ne banaya jo us ko apna hadaf
to uth bhi sakti hai us ki nazar hamari taraf
suna hai us ko bhi hai sher-o-shaeri se shaghaf
so hum bhi moajize apne hunar ke dekhte hain
wo muskurae to rukh par gadhe se padte hain
labon ko chhute hain alfaz to sanwarte hain
jo lams pate hain honton ka to nikharte hain
suna hai bole to baaton se phul jhadte hain
ye baat hai to chalo baat karke dekhte hain
wahi to hai jise har ek chand kahta hai
wo jis ke nur mein suraj kiran sa bahta hai
wo jis ke hijr ko suraj bhi chhup ke sahta hai
suna hai raat use chand takta rahta hai
sitare baam-e-falak se utar ke dekhte hain
ki us ki zulf pe to badliyan khul aati hain
usi ki did pe ye qumriyan bhi gati hain
usi ke nur mein to bijliyan nahati hain
suna hai din ko use titliyan satati hain
suna hai raat ko jugnu thahar ke dekhte hain
bahut hasin hain us ki khayal si aankhen
wafur-e-baada se rangin gulal si aankhen
jo un mein jhank ke dekho to dhaal si aankhen
suna hai hashr hain us ki ghazal si aankhen
suna hai us ko hiran dasht bhar ke dekhte hain
ki rasmasa ke sana-gar hain konplen us ki
suna hai kaif ka mehwar hain mahfilen us ki
suna hai shauq se bartar hain manzilen us ki
suna hai raat se badh kar hain kakulen us ki
suna hai sham ko sae guzar ke dekhte hain
suna hai ghuncha-dahan sirr-e-sad-malahat hai
suna hai jaan-e-ghazal sar-basar sabahat hai
suna hai us ki ajab rustakhez qamat hai
suna hai us ki siyah-chashmagi qayamat hai
so us ko surma-farosh aah bhar ke dekhte hain
jo muskurae to yaqut-e-lab bahalte hain
suna hai us ke tabassum se dil pighalte hain
aqiq-honton pe jab qahqahe machalte hain
suna hai us ke labon se gulab jalte hain
so hum bahaar pe ilzam dhar ke dekhte hain
hai baat aur hi aur har ada hasin us ki
saba ke dosh pe wo zulf-e-ambarin us ki
ki dil pe qahr hain baaten wo dil-nashin us ki
suna hai aaina-timsal hai jabin us ki
jo sada dil hain use ban-sanwar ke dekhte hain
ki dekhte jo hain khud ko wo us ke darpan mein
hue hain itne wo mashur us ki ban-than mein
wo khud ko bhul ke khoe hain ek nae-pan mein
suna hai jab se hamail hain is ki gardan mein
mizaj aur hi lal-o-gohar ke dekhte hain
suna hai lams ko pane ke us ke arman mein
wafur-e-kaif ke afsun mein shauq-e-jaanan mein
isi khayal mein kho kar kabhi shabistan mein
suna hai chashm-e-tasawwur se dasht-e-imkan mein
palang zawiye us ki kamar ke dekhte hain
ghurur-e-husn ke phulon ki aisi-taisi hai
go khushbu un ki bhi bilkul usi ke jaisi hai
par un ki aan yahan pash pash kaisi hai
suna hai us ke badan ki tarash aisi hai
ki phul apni qabaen katar ke dekhte hain
nazir koi bhi us ka sar-e-bilad nahin
koi bhi husn mein us husn se ziyaad nahin
nahin jo dekh ke us ko koi jo shad nahin
wo sarw-qad hai magar be-gul-e-murad nahin
ki is shajar pe shagufe samar ke dekhte hain
ajib chiz hai jalwa jamal-e-kaamil ka
hate kabhi ki jo parda hai us ke mahmil ka
khayal phir nahin rahta hai koi manzil ka
bas ek nigah se lutta hai qafila dil ka
so rah-rawan-e-tamanna bhi dar ke dekhte hain
suna hai us ke shabistan se munfail hai bahisht
suna hai us ke shabistan se muzmahil hai bahisht
suna hai us ke shabistan se mundamil hai bahisht
suna hai us ke shabistan se muttasil hai bahisht
makin udhar ke bhi jalwe idhar ke dekhte hain
chale to gardishen sab e'tiraf karti hain
chale to rasta us ka wo saf karti hain
chale to us ke saliqe ka laf karti hain
ruke to gardishen us ka tawaf karti hain
chale to us ko zamane thahar ke dekhte hain
khayal-o-khwab ki ek anjuman use dekhe
aur is tarah ki bad-diwana-pan use dekhe
kabhi dariche se guzri pawan use dekhe
kise nasib ki be-pairahan use dekhe
kabhi kabhi dar-o-diwar ghar ke dekhte hain
ajab junun ke ye apne mualije hi sahi
dil-e-gharib ke apne mughaalate hi sahi
ye baalak-hat ke sabab ke mutalbe hi sahi
kahaniyan hi sahi sab mubaalghe hi sahi
agar wo khwab hai tabir karke dekhte hain
usi ke kuche mein rah len ki dar-ba-dar jaen
usi ke dar pe hi baithen ya apne ghar jaen
ab us ke shahr ko chhoden ya is mein mar jaen
ab us ke shahr mein thahren ki kuch kar jaen
'faraaz' aao sitare safar ke dekhte hain
- ain-seen
na qaid-e-shara baqi hai na aazadi ki hai kuchh had
nahin kuchh guftugu is bab mein ye nek hai ya bad
buzurgon ka bhi fatwa hai ki padh qanun-e-sir-sayyad
ba-mii sajjada-rangin kun girat pir-e-mughan goyad
ki salik be-khabar na-buwad z rah-o-rasm-e-manzil-ha
nahin kuchh guftugu is bab mein ye nek hai ya bad
buzurgon ka bhi fatwa hai ki padh qanun-e-sir-sayyad
ba-mii sajjada-rangin kun girat pir-e-mughan goyad
ki salik be-khabar na-buwad z rah-o-rasm-e-manzil-ha
-