احساسی افسانے کی شاعری

افسانے کی شاعری کا مجموعہ

احساسی افسانے کی شاعری کے ایک خوبصورت مجموعے کو دریافت کریں۔ ان شاعروں کے کلمات آپ کے احساسات کی گہرائی ظاہر کریں۔ تنہائی کی تلاش یا محبت کا اظہار، اپنی جذبات کے ساتھ موسیقی کی تلاش کریں۔

چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔دفعتا اس بھیڑ کوچیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کراس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا، ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘
ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اوربلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔
مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا، ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا۔۔۔ آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘
ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘


دوسرے نے بآواز بلند کہا، ’’توڑ دو۔‘‘
’’توڑ دو۔۔۔ توڑ دو۔‘‘
ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔
دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا، ’’بھائیو ٹھیرو۔۔۔ میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘


یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کرکے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔ دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا، ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔
دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا، ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو۔۔۔ مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘
لٹیروں میں ایک بارپھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔


دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔۔۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔۔۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘
’’تہہ کرلو بھائی۔۔۔ اسے تہہ کرلو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔۔۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔بڑی نازک چیز ہے۔۔۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘
’’نہیں نہیں۔۔۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔۔۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘
’’ٹھہرو ٹھیرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘


اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے ۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا، ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘
دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف‘‘ اور چشم زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا، ’’ٹائیگر۔ٹائیگر!‘‘
ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا نام ہوا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑاٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا،
’’کون ہو تم؟‘‘


دبلا پتلا آدمی مسکرایا، ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


’’بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔ کپڑےجھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں
سے کہنے لگا، ’’تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔۔۔ صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا:
’’یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


’’میری آنکھوں کے سامنے میری جوان بیٹی کو نہ مارو۔‘‘
’’چلو اسی کی مان لو۔۔۔ کپڑے اتار کر ہانک دو ایک طرف۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


ایک آدمی نے اپنے لیے لکڑی کا ایک بڑا صندوق منتخب کیا ،جب اسے اٹھانے لگا تو وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلا۔ ایک شخص نے جسے شاید اپنے مطلب کی کوئی چیز مل ہی نہیں رہی تھی صندوق اٹھانے کی کوشش کرنےوالے سے کہا، ’’میں تمہاری مدد کروں؟‘‘
صندوق اٹھانے کی کوشش کرنے والا امداد لینے پر راضی ہوگیا۔ اس شخص نے جسے اپنے مطلب کی کوئی چیز مل نہیں رہی تھی، اپنے مضبوط ہاتھوں سے صندوق کو جنبش دی اور اٹھا کر اپنی پیٹھ پر دھر لیا۔۔۔ دوسرے نے سہارا دیا۔۔۔ دونوں باہر نکلے۔ صندوق بہت بوجھل تھا۔ اس کے وزن کے نیچے اٹھانےوالے کی پیٹھ چٹخ رہی تھی۔ ٹانگیں دوہری ہوئی جارہی تھیں مگر انعام کی توقع نے اس جسمانی مشقت کا احساس نیم مردہ کردیا تھا۔
صندوق اٹھانے والے کے مقابلے میں صندوق کو منتخب کرنے والا بہت ہی کمزور تھا۔ سارا رستہ وہ صرف ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اپنا حق قائم رکھتا رہا۔ جب دونوں محفوظ مقام پر پہنچ گئے تو صندوق کو ایک طرف رکھ کر ساری مشقت برداشت کرنے والے نے کہا،’’بولو۔ اس صندوق کے مال میں سے مجھے کتنا ملے گا۔‘‘
صندوق پر پہلی نظر ڈالنے والے نے جواب دیا، ’’ایک چوتھائی۔‘‘


’’بہت کم ہے۔‘‘
’’کم بالکل نہیں زیادہ ہے۔۔۔ اس لیے کہ سب سے پہلے میں نے ہی اس پر ہاتھ ڈالا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، لیکن یہاں تک اس کمر توڑ بوجھ کو اٹھا کے لایا کون ہے؟‘‘
’’آدھے آدھے پر راضی ہوتے ہو؟‘‘


’’ٹھیک ہے۔۔۔ کھولو صندوق۔‘‘
صندوق کھولا گیا تو اس میں سے ایک آدمی باہر نکلا۔ ہاتھ میں تلوار تھی۔ باہر نکلتے ہی اس نے دونوں حصہ داروں کو چار حصوں میں تقسیم کردیا۔

- सआदत-हसन-मंटो


وہ اپنے گھر کا تمام ضروری سامان ایک ٹرک میں لدوا کر دوسرے شہر جارہا تھا کہ راستے میں لوگوں نے اسے روک لیا۔
ایک نے ٹرک کے مال و اسباب پر حریصانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا، ’’دیکھو یار کس مزے سے اتنا مال اکیلا اڑائے چلا جارہا تھا۔‘‘
اسباب کے مالک نے مسکرا کر کہا، ’’جناب یہ مال میرا اپنا ہے۔‘‘
دو تین آدمی ہنسے، ’’ہم سب جانتے ہیں۔‘‘


ایک آدمی چلایا، ’’لوٹ لو، یہ امیر آدمی ہے۔۔۔ ٹرک لےکر چوریاں کرتا ہے۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


’’دیکھو یار، تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لیے اور ایسا ردی پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہ جلی۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچےتک چلی گئی۔
ازاربندکٹ گیا۔
چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمۂ تاسف نکلا۔
’’چ چ چ چ۔۔۔ مِشٹیک ہو گیا۔‘‘


- सआदत-हसन-मंटो


بڑی مشکل سے میاں بیوی گھر کا تھوڑا اثاثہ بچانے میں کامیاب ہوئے ۔ جوان لڑکی تھی، اس کا پتا نہ چلا۔ چھوٹی سی بچی تھی، اس کو ماں نے اپنے سینے کے ساتھ چمٹائے رکھا۔ ایک بھوری بھینس تھی اس کو بلوائی ہانک کر لے گئے۔ گائے بچ گئی مگر اس کا بچھڑا نہ ملا۔
میاں بیوی، ان کی چھوٹی لڑکی اور گائے ایک جگہ چھپے ہوئے تھے۔ سخت اندھیری رات تھی۔ بچی نے ڈر کے رونا شروع کیاتو خاموش فضا میں جیسے کوئی ڈھول پیٹنے لگا۔ ماں نے خوف زدہ ہو کربچی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ دشمن سن نہ لے۔ آواز دب گئی۔ باپ نے احتیاطاً اوپر گاڑھے کی موٹی چادر ڈال دی۔
تھوڑی دیر کے بعد دور سے کسی بچھڑے کی آواز آئی۔ گائے کے کان کھڑے ہوئے۔ اٹھی اور اِدھر اُدھر دیوانہ وار دوڑتی ڈکرانے لگی۔ اس کو چپ کرانے کی بہت کوشش کی گئی مگر بے سود۔ شور سن کر دشمن آ پہنچا۔ دور سے مشعلوں کی روشنی دکھائی دی۔ بیوی نے اپنے میاں سے بڑے غصے کے ساتھ کہا، ’’تم کیوں اس حیوان کو اپنے ساتھ لے آئے تھے۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


’’خو، ایک دم جلدی بولو، تم کون اے؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘
’’خو شیطان کا بچہ جلدی بولو۔۔۔ اندو اے یا مسلمین؟‘‘
’’مسلمین!‘‘


’’خو تمہارا رسول کون ہے؟‘‘
’’محمد خان!‘‘
’’ٹیک اے۔۔۔ جاؤ‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


’’کچھ نہیں دوست۔۔۔ اتنی محنت کرنے پر صرف ایک بکس ہاتھ لگا تھا ،پراس میں بھی سالاسور کا گوشت نکلا‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


دس راؤنڈ چلانے اور تین آدمیوں کو زخمی کرنے کے بعد پٹھان بھی آخر سرخ رو ہو ہی گیا۔ ایک افراتفری مچی تھی۔ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ چھینا جھپٹی ہورہی تھی۔ مار دھاڑ بھی جاری تھی۔ پٹھان اپنی بندوق لیے گھسا اور تقریباً ایک گھنٹہ کشتی لڑنے کے بعد تھرموس بوتل پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
پولیس پہنچی تو سب بھاگے۔۔۔ پٹھان بھی۔
ایک گولی اس کے داہنے کان کو چاٹتی ہوئی نکل گئی۔ پٹھان نے اس کی بالکل پروا نہ کی اور سرخ رنگ کی تھرموس بوتل کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اپنے دوستوں کے پاس پہنچ کر اس نے سب کو بڑے فخریہ انداز میں تھرموس بوتل دکھائی۔ ایک نے مسکرا کر کہا، ’’خان صاحب آپ یہ کیا اٹھا لائے ہیں۔‘‘
خان صاحب نے پسندیدہ نظروں سے بوتل کے چمکتے ہوئے ڈھکنے کو دیکھا اور پوچھا، ’’کیوں؟‘‘


’’یہ تو ٹھنڈی چیزیں ٹھنڈی اور گرم چیزیں گرم رکھنے والی بوتل ہے۔‘‘
خان صاحب نے بوتل اپنی جیب میں رکھ لی، ’’خو ،ام اس میں نسوار ڈالے گا۔۔۔ گرمیوں میں گرم رہے گی۔ سردیوں میں سرد!‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


’’مرا نہیں۔۔۔ دیکھو ابھی جان باقی ہے۔‘‘
’’رہنے دو یار۔۔۔ میں تھک گیا ہوں۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


’الف‘ اپنے دوست ’ب‘ کو اپنا ہم مذہب ظاہر کرکے اسے محفوظ مقام پر پہنچانے کے لیے ملٹری کے ایک دستے کے ساتھ روانہ ہوا۔

راستے میں ’ب‘ نے جس کا مذہب مصلحتاً بدل دیا گیا تھا، ملٹری والوں سے پوچھا، ’’کیوں جناب آس پاس کوئی واردات تو نہیں ہوئی؟‘‘
جواب ملا، ’’کوئی خاص نہیں۔۔۔ فلاں محلے میں البتہ ایک کتا مارا گیا۔‘‘


سہم کر ’ب‘ نے پوچھا، ’’کوئی اور خبر؟‘‘
جواب ملا، ’’خاص نہیں۔۔۔ نہر میں تین کتیوں کی لاشیں ملیں۔‘‘
’الف‘ نے ’ب‘ کی خاطر ملٹری والوں سے کہا، ’’ملٹری کچھ انتظام نہیں کرتی۔‘‘
جواب ملا، ’’کیوں نہیں۔۔۔ سب کام اسی کی نگرانی میں ہوتا ہے۔‘‘


- सआदत-हसन-मंटो


’’پکڑ لو۔۔۔ پکڑ لو۔۔۔ دیکھو جانے نہ پائے۔‘‘
شکار تھوڑی سی دوڑ دھوپ کے بعد پکڑ لیا گیا۔ جب نیزے اس کے آر پار ہونے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے لرزاں آواز میں گڑگڑا کر کہا،
’’مجھے نہ مارو۔۔۔ مجھےنہ مارو۔۔۔ میں تعطیلوں میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


گاڑی رکی ہوئی تھی۔تین بندوقچی ایک ڈبے کے پاس آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انہوں نے مسافروں سے پوچھا،
’’کیوں جناب کوئی مرغا ہے؟‘‘
ایک مسافر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ باقیوں نے جواب دیا،
’’جی نہیں۔‘‘


تھوڑی دیر کے بعد چار نیزہ بردار آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انہوں نے مسافروں سے پوچھا،
’’کیوں جناب کوئی مرغا ورغاہے؟‘‘
اس مسافر نے جو پہلے کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا جواب دیا، ’’جی معلوم نہیں۔۔۔ آپ اندر آکے سنڈاس میں دیکھ لیجیے۔‘‘
نیزہ بردار اندر داخل ہوئے۔ سنڈاس توڑا گیا تو اس میں سے ایک مرغا نکل آیا۔


ایک نیزہ بردار نے کہا،
’’کر دو حلال۔‘‘
دوسرے نے کہا،
’’نہیں یہاں نہیں۔ ڈبہ خراب ہو جائے گا۔۔۔ باہر لے چلو۔‘‘


- सआदत-हसन-मंटो


چلتی گاڑی روک لی گئی۔ جو دوسرے مذہب کے تھے ان کو نکال نکال کر تلواروں اور گولیوں سے ہلاک کردیا گیا۔
اس سے فارغ ہو کر گاڑی کے باقی مسافروں کی حلوے، دودھ اور پھلوں سے تواضع کی گئی۔
گاڑی چلنے سے پہلے تواضع کرنے والوں کےمنتظم نے مسافروں کو مخاطب کر کے کہا،
’’بھائیو اور بہنو، ہمیں گاڑی کی آمد کی اطلاع بہت دیر میں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جس طرح چاہتے تھے اس طرح آپ کی خدمت نہ کر سکے۔‘‘


- सआदत-हसन-मंटो


’’میں نے اس کی شہ رگ پر چھری رکھی۔ ہولے ہولے پھیری اور اس کو حلال کردیا۔‘‘
’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اس کو حلال کیوں کیا؟‘‘


’’مزا آتا ہے اس طرح۔‘‘
’’مزا آتا ہے کے بچے، تجھے جھٹکا کرنا چاہیے تھا۔۔۔ اس طرح۔‘‘
اور حلال کرنے والے کی گردن کا جھٹکا ہو گیا۔

- सआदत-हसन-मंटो


لبلبی دبی۔۔۔ پستول سے جھنجھلا کر گولی باہر نکلی۔
کھڑکی میں سے باہر جھانکنے والا آدمی اسی جگہ دوہرا ہوگیا۔
لبلبی تھوڑی دیر کے بعد پھر دبی۔۔۔ دوسری گولی بھنبھناتی ہوئی باہر نکلی۔
سڑک پر ماشکی کی مشک پھٹی۔ اوندھے منہ گرا اور اس کا لہو مشک کے پانی میں حل ہوکر بہنے لگا۔


لبلبی تیسری بار دبی۔۔۔ نشانہ چوک گیا۔ گولی ایک گیلی دیوار میں جذب ہوگئی۔
چوتھی گولی ایک بوڑھی عورت کی پیٹھ میں لگی۔۔۔ وہ چیخ بھی نہ سکی اور وہیں ڈھیر ہوگئی۔
پانچویں اور چھٹی گولی بیکار ہوگئی۔ کوئی ہلاک ہوا نہ زخمی۔
گولیاں چلانے والا بھنا گیا۔ دفعتا سڑک پر ایک چھوٹا سا بچہ دوڑتا دکھائی دیا۔ گولیاں چلانے والے نے پستول کا منہ اس طرف موڑا۔


اس کے ساتھی نے کہا، ’’یہ کیا کرتے ہو؟‘‘
گولیاں چلانے والے نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’گولیاں تو ختم ہوچکی ہیں۔‘‘
’’تم خاموش رہو۔۔۔ اتنے سے بچے کو کیا معلوم؟‘‘


- सआदत-हसन-मंटो


صبح چھ بجے پٹرول پمپ کے پاس، ہاتھ گاڑی میں برف بیچنے والے کے چھرا گھونپا گیا۔۔۔ سات بجے تک اس کی لاش لک بچھی سڑک پر پڑی رہی اور اس پر برف پانی بن بن گرتی رہی۔ سوا سات بجے پولیس لاش اٹھا کر لے گئی۔ برف اور خون وہیں سڑک پر پڑے رہے۔
ایک تانگہ پاس سے گزرا۔ بچے نے سڑک پر جیتے جیتے خون کے جمے ہوئے چمکیلے لوتھڑے کی طرف دیکھا۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اپنی ماں کا بازو کھینچ کر بچے نے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا، ’’دیکھو ممی جیلی!‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اضافہ ہوگیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اٹھائے خوش خوش گاتا جارہا تھا۔۔۔

جب تم ہی گئے پردیس لگا کرٹھیس او پیتم پیارا، دنیا میں کون ہمارا۔
ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں کا انبار ڈالے بھاگا جارہا تھا۔۔۔ ٹھوکر لگی تو پاپڑوں کی ایک گڈی اس کی جھولی میں سے گر پڑی۔ لڑکا اسے اٹھانے کے لیے جھکا تو ایک آدمی نےجس نے سر پرسلائی کی مشین اٹھائی ہوئی تھی اس سے کہا، ’’رہنے دے بیٹا رہنے دے۔ اپنے آپ بھن جائیں گے۔‘‘


بازار میں دھب سے ایک بھری ہوئی بوری گری۔ ایک شخص نے جلدی سے بڑھ کر اپنے چھرے سے اس کا پیٹ چاک کیا۔۔۔ آنتوں کے بجائے شکر، سفید سفید دانوں والی شکر ابل کرباہر نکل آئی۔ لوگ جمع ہوگئے اوراپنی جھولیاں بھرنے لگے۔ ایک آدمی کرتے کے بغیر تھا، اس نے جلدی سے اپنا تہبند کھولا اور مٹھیاں بھر بھر اس میں ڈالنے لگا۔
’’ہٹ جاؤ۔۔۔ ہٹ جاؤ۔۔۔‘‘ ایک تانگہ تازہ تازہ روغن شدہ الماریوں سے لدا ہوا گزر گیا۔
اونچے مکان کی کھڑکی میں سے ململ کا تھان پھڑپھڑاتا ہوا باہر نکلا۔۔۔ شعلے کی زبان نے ہولے سے اسے چاٹا۔۔۔ سڑک تک پہنچا تو راکھ کا ڈھیر تھا۔
’’پوں پوں۔۔۔۔ پوں پوں۔۔۔‘‘ موٹر کے ہارن کی آواز کے ساتھ دو عورتوں کی چیخیں بھی تھیں۔


لوہے کا ایک سیف دس پندرہ آدمیوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور لاٹھیوں کی مدد سے اس کو کھولنا شروع کیا۔
’’کاؤ اینڈ گوٹ۔‘‘ دودھ کے کئی ٹین دونوں ہاتھوں پر اٹھائے اپنی ٹھوڑی سے ان کو سہارا دیے ایک آدمی دکان سے باہر نکلا اور آہستہ آہستہ بازار میں چلنے لگا۔بلند آواز آئی، ’’آؤ آؤ لیمونیڈ کی بوتلیں پیو۔۔۔ گرمی کا موسم ہے۔‘‘ گلے میں موٹر کا ٹائر ڈالے ہوئے آدمی نے دو بوتلیں لیں اور شکریہ ادا کیے بغیر چل دیا۔
ایک آواز آئی، ’’کوئی آگ بجھانے والوں کو تو اطلاع دے دے۔۔۔ سارا مال جل جائے گا۔‘‘ کسی نے اس مفید مشورے کی طرف توجہ نہ دی۔ لوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہا اور اس گرمی میں چاروں طرف بھڑکنے والی آگ بدستور اضافہ کرتی رہی۔ بہت دیر کے بعد تڑتڑکی آواز آئی۔ گولیاں چلنے لگیں۔
پولیس کو بازار خالی نظر آیا۔۔۔ لیکن دور، دھوئیں میں ملفوف موڑکے پاس ایک آدمی کا سایہ دکھائی دیا۔ پولیس کے سپاہی سیٹیاں بجاتے اس کی طرف لپکے۔۔۔ سایہ تیزی سے دھوئیں کے اندرگھس گیا۔ پولیس کے سپاہی بھی اس کے تعاقب میں گئے۔ دھوئیں کا علاقہ ختم ہوا تو پولیس کے سپاہیوں نے دیکھاکہ ایک کشمیری مزدور پیٹھ پروزنی بوری اٹھانے بھاگا چلا جا رہا ہے۔ سیٹیوں کے گلے خشک ہوگئے مگر وہ کشمیری مزدور نہ رکا۔ اس کی پیٹھ پر وزن تھا۔ معمولی وزن نہیں، ایک بھری ہوئی بوری تھی لیکن وہ یوں دوڑ رہا تھا جیسے پیٹھ پرکچھ ہے ہی نہیں۔


سپاہی ہانپنے لگے۔ ایک نے تنگ آکر پستول نکالا اور داغ دیا۔ گولی کشمیری مزدور کی پنڈلی میں لگی۔ بوری اس کی پیٹھ پر سے گرپڑی۔ گھبرا کر اس نے اپنے پیچھے آہستہ آہستہ بھاگتے ہوئے سپاہیوں کو دیکھا۔ پنڈلی سے بہتے ہوئے خون کی طرف بھی اس نے غور کیا۔ لیکن ایک ہی جھٹکے سے بوری اٹھائی اور پیٹھ پر ڈال کر پھر بھاگنے لگا۔
سپاہیوں نے سوچا، ’’جانے دو، جہنم میں جائے۔‘‘
ایک دم لنگڑاتا لنگڑاتا کشمیری مزدور لڑکھڑایا اور گرپڑا۔ بوری اس کے اوپر آرہی۔ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور بوری سمیت لے گئے۔ راستے میں کشمیری مزدور نے بارہا کہا،’’حضرت، آپ مجھے کیوں پکڑتی ہے۔۔۔ میں تو غریب آدمی ہوتی۔۔۔ چاول کی ایک بوری لیتی۔۔۔ گھر میں کھاتی۔۔۔ آپ ناحق مجھے گولی مارتی۔‘‘ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔
تھانے میں بھی کشمیری نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا، ’’حضرت، دوسرا لوگ بڑا بڑا مال اٹھاتی۔۔۔ میں تو فقط ایک چاول کی بوری لیتی۔۔۔ حضرت، میں بہت غریب ہوتی۔ ہر روز بھات کھاتی۔‘‘


جب وہ تھک ہار گیا تو اس نے اپنی میلی ٹوپی سے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چاولوں کی بوری کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر تھانےدار کے آگے ہاتھ پھیلا کر کہا، ’’اچھا حضرت، تم بوری اپنے پاس رکھ۔۔۔ میں اپنی مزدوری مانگتی۔۔۔ چار آنے!‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


اس کی خود کشی پر اس کے ایک دوست نے کہا،
’’بہت ہی بے وقوف تھا جی۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ دیکھواگر تمہارے کیس کاٹ دیے ہیں اور تمہاری داڑھی مونڈدی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمہارا دھرم ختم ہوگیا ہے۔۔۔ روز دہی استعمال کرو۔ واہ گورو جی نے چاہا تو ایک ہی برس میں تم پھر ویسے کے ویسے ہو جاؤ گے۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो


دو دوستوں نے مل کر، دس بیس لڑکیوں میں سے ایک لڑکی چنی اور بیالیس روپے دے کر اسے خرید لیا۔ رات گزار کر ایک دوست نے اس لڑکی سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
لڑکی نے اپنا نام بتایا تو وہ بھنا گیا، ’’ہم سے تو کہا گیا تھا کہ تم دوسرے مذہب کی ہو۔‘‘
لڑکی نے جواب دیا، ’’اس نے جھوٹ بولا تھا۔‘‘
یہ سن کر وہ دوڑا دوڑا اپنے دوست کے پاس گیا اور کہنے لگا، ’’اس حرام زادے نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے۔۔۔ ہمارے ہی مذہب کی لڑکی تھما دی۔۔۔ چلو واپس کرآئیں۔‘‘


- सआदत-हसन-मंटो


’’کون ہو تم؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘
’’ہر ہرمہادیو۔۔۔ ہر ہرمہادیو۔‘‘
’’ہرہرمہادیو۔‘‘


’’ثبوت کیا ہے؟‘‘
’’ثبوت۔۔۔میرا نام دھرم چند ہے۔‘‘
’’یہ کوئی ثبوت نہیں۔‘‘
ْ’’چارویدوں سے کوئی بھی بات مجھ سے پوچھ لو۔‘‘


’’ہم ویدوں کو نہیں جانتے۔۔۔ ثبوت دو۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’پائجامہ ڈھیلا کرو۔‘‘
پائجامہ ڈھیلا ہوا تو ایک شور مچ گیا،


’’مار ڈالو۔۔۔ مار ڈالو۔‘‘
’’ٹھہرو ٹھہرو۔۔۔ میں تمہارا بھائی ہوں۔۔۔ بھگوان کی قسم تمہارا بھائی ہوں۔‘‘
’’تو یہ کیا سلسلہ ہے؟‘‘
’’جس علاقے سے آرہا ہوں وہ ہمارے دشمنوں کا تھا اس لیے مجبوراً مجھے ایساکرنا پڑا۔۔۔ صرف اپنی جان بچانے کے لیے۔۔۔ ایک یہی چیز غلط ہوگئی ہے۔ باقی بالکل ٹھیک ہے۔‘‘


’’اڑا دو غلطی کو۔‘‘
غلطی اڑا دی گئی۔۔۔ دھرم چند بھی ساتھ ہی اڑ گیا۔

- सआदत-हसन-मंटो


’’میں سکھ بننے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔۔۔
میرا استرہ واپس کر دو مجھے۔‘‘

- सआदत-हसन-मंटो