وہ بزم کہاں اور یہ دریوزہ گری ...
میرے جینے کی سزا ہو جیسے ...
جہاں شراب کا میں نے گلاس دیکھا ہے ...
غم ہی غم ہیں خوشی کے پردے میں ...
اپنے ہی دل کی بات سے مہکا گیا ہوں میں ...
سودا برائے زندگی آسان کر دیا ...
سامنے والے کو ہلکا جان کر بھاری ہیں آپ ...
اس مصیبت سے نکلنے کا وسیلہ کر دے ...
بے خیالی کی ردا دور تلک تانی ہے ...
وصل کے بعد بھی پوری نہیں ہوتی خواہش
پریشانی اگر ہے تو پریشانی کا حل بھی ہے
آخری لمحات میں کیا سوچنے لگتے ہو تم
پہلے سے عشق کے وہ زمانے نہیں رہے ...
خوشیاں ہوں صرف جس میں یہ غم کا دھواں نہ ہو ...
جھلسے ہوئے صحرا میں شجر دیکھ رہا ہوں ...
ان چراغوں میں روشنی ٹھہرے ...
ہجر میں ایسے ترے شام و سحر جاتے ہیں ...
ہر سمت اک دھواں ہے ہر گام تیرگی ہے ...
گلوں کے درمیاں وہ کھلکھلانا یاد آیا ہے ...
دنیا میں روشنی کی قیادت کو لکھ چلیں ...