بچوں کی کہانیوں شاعری
بچوں کی کہانیوں پر جادوئی شاعری
پیاری بچوں کی کہانیوں سے متاثرہ ایک دلچسپ شاعری کا انعام ہے۔ ان بنیادی بنیادوں میں وہ معصومیت اور جادو ہے جو بچوں کو سنانا ہوتا ہے، جو مخصوص لفظوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔
ایک لکڑہارا تھا۔ وہ لکڑیاں بیچ کر اپنا پیٹ پالتا تھا۔ ایک دن لکڑہارے کی کلہاڑی کھو گئی۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ دوسری کلہاڑی خرید لیتا اس نے سارے جنگل میں کلہاڑی ڈھونڈی لیکن کہیں نہ ملی۔ تھک ہار کر وہ رونے لگا۔ اچانک درختوں کے پیچھے سے ایک جن نکلا۔ اس نے کہا۔ ’’کیا بات ہے میاں لکڑہارے؟ تم رو کیوں رہے ہو؟‘‘
’’میری کلہاڑی کھو گئی ہے۔ خدا کے لئے کہیں سے ڈھونڈ کر لاکر دو‘‘ لکڑہارے نے کہا۔
جن ایک دم غائب ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک سونے کی کلہاڑی لے کر واپس آیا۔ اس نے لکڑہارے سے کہا ’’لو، میں تمہاری کلہاڑی ڈھونڈ لایا ہوں۔‘‘
’’یہ میری کلہاڑی نہیں ہے۔ وہ تو لوہے کی تھی۔‘‘ لکڑہارا بولا۔
جن پھر غائب ہو گیا اور اب وہ چاندی کی کلہاڑی لے کر آیا۔ اس نے کہا ’’لو، یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔‘‘
’’نہیں۔ یہ نہیں ہے۔‘‘ لکڑہارے نے کہا۔
اب جن پھر غائب ہو گیا اور اس دفعہ وہ لوہے کی کلہاڑی لے کر آیا۔ کلہاڑی دیکھتے ہی لکڑہارا خوشی سے چیخا’’ہاں ہاں، یہی ہے میری کلہاڑی۔ اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
جن بولا ’’تم بہت ایماندار ہو۔ میں یہ تینوں کلہاڑی تمہیں دیتا ہوں۔ یہ تمہارا انعام ہے۔‘‘ لکڑہارے نے کلہاڑی لے لیں اور خوش گھر چلا گیا۔
’’میری کلہاڑی کھو گئی ہے۔ خدا کے لئے کہیں سے ڈھونڈ کر لاکر دو‘‘ لکڑہارے نے کہا۔
جن ایک دم غائب ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک سونے کی کلہاڑی لے کر واپس آیا۔ اس نے لکڑہارے سے کہا ’’لو، میں تمہاری کلہاڑی ڈھونڈ لایا ہوں۔‘‘
’’یہ میری کلہاڑی نہیں ہے۔ وہ تو لوہے کی تھی۔‘‘ لکڑہارا بولا۔
جن پھر غائب ہو گیا اور اب وہ چاندی کی کلہاڑی لے کر آیا۔ اس نے کہا ’’لو، یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔‘‘
’’نہیں۔ یہ نہیں ہے۔‘‘ لکڑہارے نے کہا۔
اب جن پھر غائب ہو گیا اور اس دفعہ وہ لوہے کی کلہاڑی لے کر آیا۔ کلہاڑی دیکھتے ہی لکڑہارا خوشی سے چیخا’’ہاں ہاں، یہی ہے میری کلہاڑی۔ اللہ تیرا شکر ہے۔‘‘
جن بولا ’’تم بہت ایماندار ہو۔ میں یہ تینوں کلہاڑی تمہیں دیتا ہوں۔ یہ تمہارا انعام ہے۔‘‘ لکڑہارے نے کلہاڑی لے لیں اور خوش گھر چلا گیا۔
- किश्वर-नाहीद
کسی بادشاہ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ وہ بہت ضدی تھی۔ ایک دن صبح کو وہ باغ میں ٹہلنے کے لئے گئی تو اس نے پھول پتیوں پر شبنم کے قطرے چمکتے ہوئے دیکھے۔ شبنم کے یہ قطرے ان ہیروں سے زیادہ چمکدار اور خوب صورت تھے جو شہزادی کے پاس تھے۔
شہزادی سیدھی محل میں واپس آئی اور بادشاہ سے کہنے لگی ’’مجھے شبنم کا ایک تاج بنوا دیجئے۔ جب تک مجھے تاج نہیں ملے گا میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی‘‘۔ یہ کہہ کر شہزادی نے اپنا کمرہ بند کر لیا اور چادر اوڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئی۔
بادشاہ جانتا تھا کہ شبنم کے قطروں سے تاج نہیں بنایا جا سکتا۔ پھر بھی اس نے شہزادی کی ضد پوری کرنے کے لئے شہر کے تمام سناروں کو بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ تین دن کے اندر اندر شبنم کے قطروں کا تاج بنا کر پیش کرو ورنہ تمہیں سخت سزا دی جائےگی۔ بچارے سنار حیران پریشان کہ شبنم کا تاج کس طرح بنائیں۔
ان سناروں میں ایک بوڑھا سنار بہت عقل مند تھا۔ سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ دوسرے دن صبح کو محل کے دروازے پر گیا اور سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہی اسے شہزادی کے پاس لے گئے۔ بوڑھے سنار نے شہزادی کو جھک کر سلام کیا اور بولا ’’حضور، میں آپ کا تاج بنانے کے لیے آیا ہوں۔ لیکن میری ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔
’’کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ شہزادی نے کہا۔سنار بولا ’’آپ باغ میں چل کر مجھے شبنم کے وہ قطرے دے دیجئے جن کا آپ تاج بنوانا چاہتی ہیں۔ جو قطرے آپ پسند کر کے مجھے دیں گی میں فوراً ان کا تاج بنا دوں گا‘‘۔
شہزادی سنار کے ساتھ باغ میں گئی۔ پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرے جگمگا رہے تھے۔ لیکن شہزادی نے جس قطرے کو بھی چھوا وہ اس کی انگلیوں پر پانی کی طرح بہہ گیا۔
تب شہزادی نے کھسیانی ہو کر بوڑھے سنار سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ اب بھی ایسی ضد نہیں کرےگی۔
(چینی کہانی)
شہزادی سیدھی محل میں واپس آئی اور بادشاہ سے کہنے لگی ’’مجھے شبنم کا ایک تاج بنوا دیجئے۔ جب تک مجھے تاج نہیں ملے گا میں نہ کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی‘‘۔ یہ کہہ کر شہزادی نے اپنا کمرہ بند کر لیا اور چادر اوڑھ کر پلنگ پر لیٹ گئی۔
بادشاہ جانتا تھا کہ شبنم کے قطروں سے تاج نہیں بنایا جا سکتا۔ پھر بھی اس نے شہزادی کی ضد پوری کرنے کے لئے شہر کے تمام سناروں کو بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ تین دن کے اندر اندر شبنم کے قطروں کا تاج بنا کر پیش کرو ورنہ تمہیں سخت سزا دی جائےگی۔ بچارے سنار حیران پریشان کہ شبنم کا تاج کس طرح بنائیں۔
ان سناروں میں ایک بوڑھا سنار بہت عقل مند تھا۔ سوچتے سوچتے اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ دوسرے دن صبح کو محل کے دروازے پر گیا اور سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہیوں سے کہا کہ وہ شہزادی کا تاج بنانے آیا ہے۔ سپاہی اسے شہزادی کے پاس لے گئے۔ بوڑھے سنار نے شہزادی کو جھک کر سلام کیا اور بولا ’’حضور، میں آپ کا تاج بنانے کے لیے آیا ہوں۔ لیکن میری ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔
’’کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ شہزادی نے کہا۔سنار بولا ’’آپ باغ میں چل کر مجھے شبنم کے وہ قطرے دے دیجئے جن کا آپ تاج بنوانا چاہتی ہیں۔ جو قطرے آپ پسند کر کے مجھے دیں گی میں فوراً ان کا تاج بنا دوں گا‘‘۔
شہزادی سنار کے ساتھ باغ میں گئی۔ پھولوں اور پتوں پر شبنم کے قطرے جگمگا رہے تھے۔ لیکن شہزادی نے جس قطرے کو بھی چھوا وہ اس کی انگلیوں پر پانی کی طرح بہہ گیا۔
تب شہزادی نے کھسیانی ہو کر بوڑھے سنار سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ اب بھی ایسی ضد نہیں کرےگی۔
(چینی کہانی)
- किश्वर-नाहीद
ایک دفعہ ایک گیدڑ کھانے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ وہ دن بھی اس کے لیے کتنا منحوس تھا۔ اسے دن بھر بھوکا ہی رہنا پڑا۔ وہ بھوکا اور تھکا ہارا چلتا رہا۔ راستہ ناپتا رہا۔ بالآخر لگ بھگ دن ڈھلے وہ ایک شہر میں پہنچا۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ ایک گیدڑ کے لیے شہر میں چلنا پھرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ خطرہ مول لینے پر مجبور تھا۔ ’’مجھے بہرحال کھانے کے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنے دل میں کہا۔ ’’لیکن خدا کرے کہ کسی آدمی یا کتے سے دو چار ہونا نہ پڑے۔‘‘
اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔
وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑپڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہئے۔
وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس کا جانور نہیں دیکھا تھا۔
گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘
سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘
ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔
چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘
سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘
نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘
’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘
گیدڑ کی اس بات نے سبھی جانوروں کی تسلی کر دی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہوکر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔
ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سیار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر ہو گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔
اچانک اس نے خطرے کی بو محسوس کی۔ کتے بھونک رہے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔
وہ ڈر کر بھاگا۔ لیکن کتوں نے اسے دیکھ لیا اور اس کے پیچھے دوڑپڑے۔ کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے گیدڑ تیز بھاگنے لگا لیکن کتے اس کے قریب پہنچ گئے۔ گیدڑ جلدی سے ایک مکان میں گھس گیا۔ یہ مکان ایک رنگریز کا تھا۔ مکان کے صحن میں نیلے رنگ سے بھرا ہوا ایک ٹب رکھا ہوا تھا۔ گیدڑ کو کتوں نے ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ کتے ہار کر واپس چلے گئے۔ گیدڑ اس وقت تک ٹب میں چھپا رہا جب تک کتوں کے چلے جانے کا اس کو یقین نہ ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ ٹب سے باہر نکل آیا۔ وہ پریشان تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اس نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی آدمی یا کتا دیکھ لے جنگل واپس چلنا چاہئے۔
وہ جلدی جلدی جنگل واپس آیا۔ جن جانوروں نے اسے دیکھا، ڈر کر بھاگے۔ آج تک انہوں نے اس کا جانور نہیں دیکھا تھا۔
گیدڑ بھانپ گیا کہ سبھی جانور اس سے ڈر رہے ہیں۔ بس پھر کیا تھا۔ اس کے دماغ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ چیخ چیخ کر جانوروں کو پکارنے لگا۔ ’’ٹھہرو۔ دم لو۔ کہاں جاتے ہو؟ یہاں آؤ۔ میری بات سنو۔‘‘
سارے جانور رک کر گیدڑ کو تاکنے لگے۔ اس کے پاس جاتے ہوئے وہ اب بھی ڈر رہے تھے۔ گیدڑ پھر چلا کر بولا۔ ’’آؤ میرے پاس آؤ۔ اپنے سبھی دوستوں کو بلا لاؤ۔ مجھے تم سب سے ایک ضروری بات کہنا ہے۔‘‘
ایک ایک کر کے سبھی جانور نیلے گیدڑ کے پاس پہنچے۔ چیتے، ہاتھی، بندر، خرگوش، ہرن۔ غرض سبھی جنگلی جانور اس کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے۔
چالاک گیدڑ نے کہا کہ، ’’مجھ سے ڈرو نہیں۔ میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ خدا نے مجھے تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے میں ایک بادشاہ کی طرح سب کی حفاظت کروں گا۔‘‘
سب جانوروں نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور اس کے سامنے سر جھکا کر بولے ’’ہمیں آپ کی بادشاہت قبول ہے۔ ہم اس خدا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے آپ کو ہماری حفاظت کی ذمہ سونپ دی ہے۔ ہم آپ کے حکم کے منتظر ہیں۔‘‘
نیلے گیدڑ نے کہا۔ ’’تمہیں اپنے بادشاہ کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ تم مجھے ایسے کھانے کھلایا کرو جو بادشاہ کھاتا ہے۔‘‘ ’’ضرور حضور والا۔‘‘ سبھی جانوروں نے ایک ہی آواز میں کہا۔’’ہم دل و جان سے اپنے بادشاہ کی خدمت کریں گے۔ فرمائیے اس کے علاوہ ہمیں اور کیا کرنا ہوگا؟‘‘
’’تمہیں اپنے بادشاہ کا وفادار رہنا ہے۔‘‘ نیلے گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’تبھی تمہارا بادشاہ تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔‘‘
گیدڑ کی اس بات نے سبھی جانوروں کی تسلی کر دی۔ وہ اس کے لیے قسم قسم کے مزیدار کھانے لانے لگے اور اس کی خاطر مدارات کرنے لگے۔ گیدڑ اب بادشاہ کی طرح رہنے لگا۔ سب جانور روزانہ اس کی خدمت میں حاضر ہوکر اسے سلام کرتے اپنی مشکلیں اسے بتاتے۔ بادشاہ ان کی باتوں کو سنتا اور ان کی مشکلوں کا حل بتاتا۔
ایک دن جب بادشاہ دربار میں بیٹھا تھا تو دور سے کچھ شور سنائی دیا۔ یہ گیدڑ کے غول کی آواز تھی۔ اب اپنے بھائیوں کی آٰواز سنی تو بہت خوش ہوا اور خوشی کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے اپنی بادشاہت کا بھی خیال نہ رہا اور اپنا سر اٹھا کر اس نے بھی گیدڑوں کی طرح بولنا شروع کر دیا۔ اس کا بولنا تھا کہ جانوروں پر اس کی اصلیت کھل گئی۔ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ رنگا ہوا سیار ہے۔ اس نے انہیں دھوکے میں رکھا ہے۔ سب جانور مارے غصہ کے اسے پھاڑ کھانے کے لیے اس پر چڑھ دوڑے۔ لیکن گیدڑ نے تو پہلے ہی سے بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ وہ بھاگتا گیا تیز اور تیز اور آخرکار سب کی پہنچ سے باہر ہو گیا اور اس طرح اس کی جان بن بچی۔
- साहिर-होशियारपुरी
شمع، ننھی منی پیاری سی لڑکی تھی۔ خوبصورت گول گول آنکھیں، سیب جیسے ہونٹ اور انار کی طرح اس کا سرخ رنگ تھا۔ وہ آنکھیں جھپک کر باتیں کرتی۔ اس کا چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہوجاتا اور اس کی اکثر ہچکی بندھ جاتی۔ اس موقع پر اس کی امی اسے مصری کی ایک ڈلی دیتیں۔ شمع اسے منہ میں ڈال کر چوسنے لگتی اور ساتھ ساتھ اپنی امی سے میٹھی میٹھی باتیں بھی کرتی۔
شمع کی زبان موٹی تھی۔ وہ لفظ آسانی سے نہ بول سکتی تھی۔ اس لیے سب اسے توتلی شہزادی کہتے تھے۔ وہ تت بت زبان میں باتیں کرتی، تو ہر ایک کو اس پر بے اختیار پیار آجاتا۔ اس کی سہیلیاں کہتیں ’’شمع تم بڑی خوش قسمت ہو تمہیں تو کھانے کو مصری کی ڈلیاں ملتی رہتی ہیں۔‘‘ شمع یہ سن کر پھولی نہ سماتی اور اپنی توتلی زبان میں پہاڑے دہرانا شروع کردیتی۔
’’ات دونی دو، دو دونی چار تن دونی تے، تال دونی اتھ‘‘ وہ تیسری جماعت میں پڑھتی تھی، مگر اسے سب پہاڑے یاد تھے۔ انگریزی کی نظمیں بھی اسے آتی تھیں۔ وہ اپنی مینا کو یہ نظمیں سناتی اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتی۔ ان کا گھر ایک پہاڑی پر تھا ایک شام وہ اپنی گڑیا کے ساتھ سیر کے لیے باہر نکلی، تو درخت کی اوٹ میں ایک بونا چھپا ہوا تھا توتلی شہزادی کو دیکھتے ہی وہ سامنے آگیا، اس کے سر پر ایک ہیٹ تھا، جس پر چڑیوں کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر توتلی شہزادی کی ہنسی نکل گئی۔ ہنستے ہنستے اسے ہچکی آگئی اور وہ لوٹ پوٹ ہو کر زمین پر گر گئی۔ بونا دوڑا دوڑا اس کے پاس آگیا، توتلی شہزادی ابھی تک ہنس رہی تھی۔ بونے نے یہ حال دیکھا تو اس کی بھی ہنسی نکل گئی۔ وہ شہزادی سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے بھی ہچکی آگئی۔
شہزادی نے مصری کی ڈلی منہ میں ڈالی اور بونے سے پوچھا۔
تیوں (کیوں) میاں بونے تمہیں بھی ہنسی کے ساتھ ہتکی آتی ہے۔‘‘
بونے نے ’’ہاں‘‘ کہتے ہوئے اپنا سر ہلایا۔
شہزادی نے اسے بھی مصری کی ایک ڈلی نکال کر دی، اسے چوستے ہی بونے میاں ٹھیک ہوگئے اور شہزادی سے پوچھنے لگے۔ ’’یہ تو بڑی اچھی چیز ہے۔ میرے پانچ دوستوں کو بھی اسی طرح ہچکی آجاتی ہے۔ تم ان سب کو یہ چیز کھلا دو۔‘‘
شہزادی نے کہا ’’کیوں نہیں۔ کل شام کو اسی وقت تم اپنے دوستوں کے ساتھ باغ میں آجانا۔‘‘ بونا یہ سن کر اچھلا اور خوشی خوشی اپنے مکان کی طرف چل دیا۔ یہ سب بونے مٹی کے ایک کچے مکان میں رہتے تھے۔
گھر جاکر بونے نے اپنے ساتھیوں کو خوش خبری سنائی اور کہا کہ کل شام کو ان کی شہزادی کے یہاں دعوت ہے۔ ادھر توتلی شہزادی نے مہینے میں جو پیسے جمع کیے ہوئے تھے، ان کی مصری خریدی۔ اس کی امی نے اس پارٹی کے لیے شہد کا تحفہ دیا اور شہزادی دعوت کے انتظام میں مصروف ہوگئی۔
اس نے اپنی گڑیا کی شادی کے لیے ایک منا ساٹی سیٹ خرید رکھا تھا۔ گڑیا سے اجازت لے کر اس نے یہ ٹی سیٹ اٹھایا اور شام سے پہلے پہلے باغ میں چلی آئی۔ خوبصورت گھاس پر اس نے دستر خوان بچھایا۔ اس وقت تک سب بونے وہاں پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے خوبصورت ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ ایک بونے کے ہاتھ میں بانسری تھی، جب کہ دوسروں کے ہاتھوں میں رنگ برنگ غبارے اڑ رہے تھے۔ وہ سب دسترخوان کے پاس بیٹھ گئے اور کھانا شروع کرنا چاہتے تھے۔ تب توتلی شہزادی نے کہا کہ دعوت سے پہلے سب باری باری ہنسیں، تاکہ ہنستے ہنستے ہر ایک کو ہچکی بندھ جائے اور دعوت کا خوب مزہ آجائے۔ اس سوال پر ایک بونا منہ بسور کر بیٹھ گیا، اس کے چہرے کو دیکھ کر سب کی ہنسی نکل گئی۔ اس کے بعد شہزادی نے تالی بجائی اور سب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے۔ شہزادی نے ہر ایک کے سامنے ایک ایک کپ رکھا۔ اس میں تھوڑا تھوڑا سا شہد ڈالا اور ساتھ ساتھ مصری کی ایک ایک ڈلی دی، جسے منہ میں ڈالتے ہی سب کی ہچکی جاتی رہی۔
پھر انہوں نے شہد کھایا اور نیبو ملا پانی پیا۔ اس کا ذائقہ انہیں بہت اچھا لگا۔ شہزادی نے بونوں سے کہا کہ امی کہتی ہیں ’’مصری کی ڈلی توسنے سے ہتکی ختم ہوداتی ہے۔‘‘ (مصری کی ڈلی چوسنے سے ہچکی ختم ہوجاتی ہے) یہ واقعی علاج تھا۔ دعوت کے بعد ایک بونے نے قریب کی ندی کے پانی سے سارے کپ دھوئے اور انہیں صاف کر کے شہزادی کو دے دیئے۔ شہزادی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر واپس چلی آئی۔ گڑیا کا ٹی سیٹ دوبارہ ڈبے میں بند کیا اور اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلی گئی۔ رات کو اس نے بڑا ہی خوبصورت خواب دیکھا۔ ایک بونا باریک سے تار پر ناچ رہا تھا اور باقی بونے تالیاں بجا رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر شہزادی کی ہنسی نکل گئی۔ اس کی آنکھ کھلی تو امی قریب ہی کھڑی تھیں۔ صبح ہونے والی تھی۔ امی نے پوچھا ’’تو خواب میں کیوں ہنس رہی تھی؟‘‘
توتلی شہزادی کوئی جواب دینے کی بجائے ہنسنے لگی اور پھر خود ہی اس نے امی کو سارا خواب سنا دیا۔ امی بولیں ’’یہ خواب تم نے صبح کے وقت دیکھا ہے۔ ایسے خواب سچے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ شہزادی نے کہا۔ ’’وہ تیسے (کیسے)؟‘‘
امی نے کہا ’’ایسے، جیسے کہ تم فرفر بول رہی ہو، اور تمہیں ہچکی نہیں آرہی۔‘‘
شہزادی نے معصوم نظروں کے ساتھ امی کی طرف دیکھا۔ اور امی فوراً سمجھ گئیں۔ ڈبے سے مصری کی ڈلی نکال کر شہزادی کو دی اور کہا ’’اب تمہیں کبھی ہچکی نہیں آئے گی۔‘‘
’’مدر امی مصری کی دلی؟‘‘ (مگر امی مصری کی ڈلی‘‘) اور امی اس کا مطلب سمجھ گئیں اور بولیں ’’ہاں ہاں مصری تمہیں کھانے کو ملتی رہے گی، تمہارے حصے کی نہیں، گڑیا کے حصے کی۔‘‘ امی کا جواب سن کر شہزادی بہت ہی خوش ہوئی۔
دوسرے دن شام کو اسے وہی بونا ملا۔ اس نے شہزادی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس دعوت کو اس نے قبول کر لیا اور اتوار کے دن بونوں کے گھر چلی گئی۔ بونوں نے شہزادی کے لیے میٹھا شربت تیار کیا اور توس مکھن بھی شہزادی کو کھلایا۔ اس کے بعد بونوں نے اسے گلاب کا پھول دیا اور کہا کے اسے پانی میں بھگو کر کھا لو۔‘‘
شہزادی نے ایسا ہی کیا اور اس پھول کی پتیاں پانی میں بھگو بھگو کر کھانی شروع کردیں۔ وہ روزانہ ایک پتی کھاتی، جس سے اس کی توتلی زبان ٹھیک ہوتی چلی گئی۔
شہزادی نے بونوں سے پوچھا کہ میں تو اب اچھی طرح سے باتیں کرسکتی ہوں۔ تمہیں کس نے بتایا ہے، کہ گلاب کے پھول کی پتیاں کھانے سے توتلی زبان ٹھیک ہوجاتی ہے۔
اس سوال پر سب بونے کھل کھلا کر ہنسنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ لقمان حکیم نے یہ علاج اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ شہزادی نے بونوں کی ہچکی کی عادت دور کی، انہوں نے اس کی تت بت زبان کو صحیح کردیا۔ شمع آج کل کالج میں پڑھ رہی ہے اب اسے کوئی بھی توتلی شہزادی نہیں کہتا۔
شمع کی زبان موٹی تھی۔ وہ لفظ آسانی سے نہ بول سکتی تھی۔ اس لیے سب اسے توتلی شہزادی کہتے تھے۔ وہ تت بت زبان میں باتیں کرتی، تو ہر ایک کو اس پر بے اختیار پیار آجاتا۔ اس کی سہیلیاں کہتیں ’’شمع تم بڑی خوش قسمت ہو تمہیں تو کھانے کو مصری کی ڈلیاں ملتی رہتی ہیں۔‘‘ شمع یہ سن کر پھولی نہ سماتی اور اپنی توتلی زبان میں پہاڑے دہرانا شروع کردیتی۔
’’ات دونی دو، دو دونی چار تن دونی تے، تال دونی اتھ‘‘ وہ تیسری جماعت میں پڑھتی تھی، مگر اسے سب پہاڑے یاد تھے۔ انگریزی کی نظمیں بھی اسے آتی تھیں۔ وہ اپنی مینا کو یہ نظمیں سناتی اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتی۔ ان کا گھر ایک پہاڑی پر تھا ایک شام وہ اپنی گڑیا کے ساتھ سیر کے لیے باہر نکلی، تو درخت کی اوٹ میں ایک بونا چھپا ہوا تھا توتلی شہزادی کو دیکھتے ہی وہ سامنے آگیا، اس کے سر پر ایک ہیٹ تھا، جس پر چڑیوں کا گھونسلہ بنا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر توتلی شہزادی کی ہنسی نکل گئی۔ ہنستے ہنستے اسے ہچکی آگئی اور وہ لوٹ پوٹ ہو کر زمین پر گر گئی۔ بونا دوڑا دوڑا اس کے پاس آگیا، توتلی شہزادی ابھی تک ہنس رہی تھی۔ بونے نے یہ حال دیکھا تو اس کی بھی ہنسی نکل گئی۔ وہ شہزادی سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے بھی ہچکی آگئی۔
شہزادی نے مصری کی ڈلی منہ میں ڈالی اور بونے سے پوچھا۔
تیوں (کیوں) میاں بونے تمہیں بھی ہنسی کے ساتھ ہتکی آتی ہے۔‘‘
بونے نے ’’ہاں‘‘ کہتے ہوئے اپنا سر ہلایا۔
شہزادی نے اسے بھی مصری کی ایک ڈلی نکال کر دی، اسے چوستے ہی بونے میاں ٹھیک ہوگئے اور شہزادی سے پوچھنے لگے۔ ’’یہ تو بڑی اچھی چیز ہے۔ میرے پانچ دوستوں کو بھی اسی طرح ہچکی آجاتی ہے۔ تم ان سب کو یہ چیز کھلا دو۔‘‘
شہزادی نے کہا ’’کیوں نہیں۔ کل شام کو اسی وقت تم اپنے دوستوں کے ساتھ باغ میں آجانا۔‘‘ بونا یہ سن کر اچھلا اور خوشی خوشی اپنے مکان کی طرف چل دیا۔ یہ سب بونے مٹی کے ایک کچے مکان میں رہتے تھے۔
گھر جاکر بونے نے اپنے ساتھیوں کو خوش خبری سنائی اور کہا کہ کل شام کو ان کی شہزادی کے یہاں دعوت ہے۔ ادھر توتلی شہزادی نے مہینے میں جو پیسے جمع کیے ہوئے تھے، ان کی مصری خریدی۔ اس کی امی نے اس پارٹی کے لیے شہد کا تحفہ دیا اور شہزادی دعوت کے انتظام میں مصروف ہوگئی۔
اس نے اپنی گڑیا کی شادی کے لیے ایک منا ساٹی سیٹ خرید رکھا تھا۔ گڑیا سے اجازت لے کر اس نے یہ ٹی سیٹ اٹھایا اور شام سے پہلے پہلے باغ میں چلی آئی۔ خوبصورت گھاس پر اس نے دستر خوان بچھایا۔ اس وقت تک سب بونے وہاں پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے خوبصورت ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ ایک بونے کے ہاتھ میں بانسری تھی، جب کہ دوسروں کے ہاتھوں میں رنگ برنگ غبارے اڑ رہے تھے۔ وہ سب دسترخوان کے پاس بیٹھ گئے اور کھانا شروع کرنا چاہتے تھے۔ تب توتلی شہزادی نے کہا کہ دعوت سے پہلے سب باری باری ہنسیں، تاکہ ہنستے ہنستے ہر ایک کو ہچکی بندھ جائے اور دعوت کا خوب مزہ آجائے۔ اس سوال پر ایک بونا منہ بسور کر بیٹھ گیا، اس کے چہرے کو دیکھ کر سب کی ہنسی نکل گئی۔ اس کے بعد شہزادی نے تالی بجائی اور سب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے۔ شہزادی نے ہر ایک کے سامنے ایک ایک کپ رکھا۔ اس میں تھوڑا تھوڑا سا شہد ڈالا اور ساتھ ساتھ مصری کی ایک ایک ڈلی دی، جسے منہ میں ڈالتے ہی سب کی ہچکی جاتی رہی۔
پھر انہوں نے شہد کھایا اور نیبو ملا پانی پیا۔ اس کا ذائقہ انہیں بہت اچھا لگا۔ شہزادی نے بونوں سے کہا کہ امی کہتی ہیں ’’مصری کی ڈلی توسنے سے ہتکی ختم ہوداتی ہے۔‘‘ (مصری کی ڈلی چوسنے سے ہچکی ختم ہوجاتی ہے) یہ واقعی علاج تھا۔ دعوت کے بعد ایک بونے نے قریب کی ندی کے پانی سے سارے کپ دھوئے اور انہیں صاف کر کے شہزادی کو دے دیئے۔ شہزادی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر واپس چلی آئی۔ گڑیا کا ٹی سیٹ دوبارہ ڈبے میں بند کیا اور اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلی گئی۔ رات کو اس نے بڑا ہی خوبصورت خواب دیکھا۔ ایک بونا باریک سے تار پر ناچ رہا تھا اور باقی بونے تالیاں بجا رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر شہزادی کی ہنسی نکل گئی۔ اس کی آنکھ کھلی تو امی قریب ہی کھڑی تھیں۔ صبح ہونے والی تھی۔ امی نے پوچھا ’’تو خواب میں کیوں ہنس رہی تھی؟‘‘
توتلی شہزادی کوئی جواب دینے کی بجائے ہنسنے لگی اور پھر خود ہی اس نے امی کو سارا خواب سنا دیا۔ امی بولیں ’’یہ خواب تم نے صبح کے وقت دیکھا ہے۔ ایسے خواب سچے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ شہزادی نے کہا۔ ’’وہ تیسے (کیسے)؟‘‘
امی نے کہا ’’ایسے، جیسے کہ تم فرفر بول رہی ہو، اور تمہیں ہچکی نہیں آرہی۔‘‘
شہزادی نے معصوم نظروں کے ساتھ امی کی طرف دیکھا۔ اور امی فوراً سمجھ گئیں۔ ڈبے سے مصری کی ڈلی نکال کر شہزادی کو دی اور کہا ’’اب تمہیں کبھی ہچکی نہیں آئے گی۔‘‘
’’مدر امی مصری کی دلی؟‘‘ (مگر امی مصری کی ڈلی‘‘) اور امی اس کا مطلب سمجھ گئیں اور بولیں ’’ہاں ہاں مصری تمہیں کھانے کو ملتی رہے گی، تمہارے حصے کی نہیں، گڑیا کے حصے کی۔‘‘ امی کا جواب سن کر شہزادی بہت ہی خوش ہوئی۔
دوسرے دن شام کو اسے وہی بونا ملا۔ اس نے شہزادی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس دعوت کو اس نے قبول کر لیا اور اتوار کے دن بونوں کے گھر چلی گئی۔ بونوں نے شہزادی کے لیے میٹھا شربت تیار کیا اور توس مکھن بھی شہزادی کو کھلایا۔ اس کے بعد بونوں نے اسے گلاب کا پھول دیا اور کہا کے اسے پانی میں بھگو کر کھا لو۔‘‘
شہزادی نے ایسا ہی کیا اور اس پھول کی پتیاں پانی میں بھگو بھگو کر کھانی شروع کردیں۔ وہ روزانہ ایک پتی کھاتی، جس سے اس کی توتلی زبان ٹھیک ہوتی چلی گئی۔
شہزادی نے بونوں سے پوچھا کہ میں تو اب اچھی طرح سے باتیں کرسکتی ہوں۔ تمہیں کس نے بتایا ہے، کہ گلاب کے پھول کی پتیاں کھانے سے توتلی زبان ٹھیک ہوجاتی ہے۔
اس سوال پر سب بونے کھل کھلا کر ہنسنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ لقمان حکیم نے یہ علاج اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے۔ شہزادی نے بونوں کی ہچکی کی عادت دور کی، انہوں نے اس کی تت بت زبان کو صحیح کردیا۔ شمع آج کل کالج میں پڑھ رہی ہے اب اسے کوئی بھی توتلی شہزادی نہیں کہتا۔
- एम-एस-नाज़
ثاقب بہت ہی محنتی لڑکا تھا۔ وہ اپنے اسکول کا کام دل لگا کر کرتا اور شام کو اپنے غریب باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے دکان پر بیٹھ جاتا۔ اس نے ایک خوب صورت مینا پال رکھی تھی۔ یہ مینا اس سے بڑی میٹھی میٹھی، پیاری پیاری باتیں کرتی۔ ثاقب اپنی بھولی مینا سے کہتا ’’میں تمھیں ایک نہ ایک دن دُنیا کی سیر کراؤں گا۔‘‘ ثاقب کے دل کی خواہش تھی کہ گھر اور دکان کے علاوہ دُنیا کی اور چیزیں بھی اُسے دیکھنے کو ملیں ۔ آخر ایک دن اسی ارادے سے وہ اپنی مینا کو ساتھ لے کر نکل کھڑا ہوا۔ اس نے تھوڑا سا پنیر بھی لے لیا، تاکہ سفر کے دوران کام آجائے ۔ وہ اپنی مینا کے پنجرے کو اُٹھائے دُور بہت دُور تک نکل گیا۔
شام ہوئی، تو ثاقب کو رات گزار نےکا خیال آیا ۔ اس نے پہاڑ پر ایک جھونپڑی دیکھی ۔ وہ بڑی مشکل سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوا، اس کی ملاقات ایک بھوت سے ہو گئی۔ یہ جھونپڑی اسی بُھوت کی تھی ۔
ثاقب کو نئے نئے دوست بنانے کا بہت شوق تھا۔ اُس نے دوستانہ لہجے میں اس لمبے تڑنگے بھوت سے کہا ’’آداب عرض کرتا ہوں ۔ میں ذرا سیر کو نکلا ہوں، آئیے آپ بھی میرے ساتھ چلیے۔‘‘ بھوت گرجدار آواز میں بولا چل بے او، کمزور اور دبلے پتلے انسان، میں کیوں تمہارے ساتھ جاؤں۔‘‘
ثاقب نے کہا:’’میں دیکھنے میں دبلا پتلا ضرور ہوں ، مگر اتنا بھی کمزور نہیں، جتنا تم سمجھ رہے ہو۔‘‘
اس پر بھوت ہنسا اُس نے ایک بھاری پتھر اٹھایا اور اپنے بڑے بڑے ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے بھینچا کہ اس میں سے پانی نکلنے لگا۔ پھر اُس نے ثاقب سے سوال کیا ۔
’’ کیوں بے چیونٹے ، تو بھی ایسا کرسکتا ہے؟‘‘
ثاقب ہنس پڑا اور بولا ’’واہ بھلا یہ بھی کوئی مشکل کام ہے ۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ اس کے بعد ثاقب نے اپنے تھیلے میں سے پنیر نکالا اور اسے آہستہ سے دبایا، تو اس میں سے کافی سے زیادہ چھاچھ بہنے لگی۔ اس نے بھوت سے پوچھا ۔’’تمھارے اتنے بڑے پتھر سے تو منوں پانی نکل سکتا تھا ، پر نکلا صرف تین چار بوندیں، میرے اس چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھو کتنا پانی نکلا ہے۔‘‘
بھوت یہ سُن کر تاؤ میں آگیا ۔ اس نے ایک ویسا ہی پتھر اٹھایا اور اتنا اُونچا پھینکا کہ نظروں سے اوجھل ہونے کے بہت دیر بعد واپس زمین پر پہنچا۔
ثاقب پھر ہنسا اور کہنے لگا :
’’یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ دیکھنا میرا کمال بھی، ایسی چیز ہوا میں چھوڑوں گا کہ بس آسمان پر ہی پہنچ جائے گی اور زمین پر واپس نہیں آئے گی‘‘
یہ کہہ کر اُس نے پنجرے سے مینا نکالی اور اُسے ہوا میں چھوڑ دیا۔
مینا اپنی آزادی پر اتنی خوش ہوئی کہ اوپر ہی اوپر اڑتی چلی گئی اور نظروں سے غائب ہو گئی ۔ بھوت یہ دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا اور بولا :
’’ چلو آج سے میں تمھارا دوست ہوں‘‘ پھر اُس نے ثاقب کو رات جھونپڑی ہی میں رکھا۔ طرح طرح کے کھانوں سے اس کی خاطر تواضع کی اور جاتےدفعہ تحفے بھی دیے۔
ثاقب اپنی کامیابی پر پھولے نہ سما رہا تھا۔ وہ فخر سے سینہ پھلاتا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچا اور بولا:
’’جہاں پناہ ! کب سے میں اس کوشش میں تھا کہ آپ کے نیاز حاصل ہوں۔کوئی میرے لائق خدمت ہو تو حکم کیجئے۔‘‘
بادشاہ نے حیرانگی سے ثاقب کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا اور کہا:
’’تم آگے ہی ادھ موئے ہو، ہمارے کس کام آسکتے ہو؟‘‘
ثاقب نے جواب دیا:
’’آپ کوئی حکم تو دیجئے۔‘‘
بادشاہ نے کہا کہ اس ملک میں دو جنوں نے لوگوں کو تنگ کر رکھا ہے۔ اگر تم ان جِنوں کے سرکاٹ کے لے آؤ ، تو آدھی سلطنت تمھاری اور میں اپنی بیٹی کی شادی بھی تم سے کر دوں گا۔ ثاقب نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا اور پھر بولا : میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘
ثاقب نے تھوڑی دیر کے لئے کچھ سوچا اور پھر بولا۔ ’’میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘
بادشاہ نے کہا: ’’تمھیں جتنی فوج چاہیے، لے جا سکتے ہو؟‘‘
ثاقب نے کہا۔ ’’نہیں نہیں، مجھے فوج کی ضرورت نہیں، فوج کی ضرورت صرف جنوں کے سر اٹھانے کے لیے پڑے گی‘‘
یہ وعدہ کر کے ثاقب اپنے دوست بھوت کے پاس آیا ۔ بھوت نے کہا کہ جنوں کے سر لانا کوئی مشکل کام نہیں، بس کوئی ترکیب سوچنا ہو گی۔ اس کے بعد ثاقب اور بھوت دونوں اس قلعے میں پہنچے، جہاں جِنّ رہتے تھے۔ بھوت نے ثاقب کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور ہوا میں اُڑتا ہوا، قلعے کے باغ میں چلا آیا۔ دونوں جن برگد کے درخت کے نیچے سوئے ہوئے تھے۔ ثاقب نے بھوت کے کہنے پر کنکریاں جیب میں ڈال لیں۔ بھوت نے بڑی بڑی اینٹیں اُٹھا لیں اور دونوں ایک درخت پر چڑھ گئے ۔ ثاقب نے ہولے ہولے ایک ایک کر کے جنوں کو کنکریاں مارنا شروع کیں ۔ جنوں نے مکھیاں سمجھ کر کوئی پرواہ نہ کی ۔ اس کے بعد بھوت نے اپنا کام دکھایا ۔ اُس نے بڑی بڑی اینٹیں اُٹھا کر جِنّوں پر برسانا شروع کر دیں۔ ایک جن سمجھا کہ دوسرا جن بار بار ہاتھ مار کر اسے ستا رہا ہے۔ ادھر دوسرے جن کو بھی یہی غلط فہمی ہوتی ۔ دونوں جن اب ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھے اور غُرَّا غُرَّا کر آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ درختوں سے ہتھیار کا کام لیا ۔ اسی مار دھاڑ میں بُری طرح زخمی ہوئے اور مر گئے۔ بھوت اور ثاقب خوشی سے ناچتےہوئے درخت سے نیچے اُترے اور تلوار سے دونوں جنوں کے سر تن سے جدا کر دیے۔ ثاقب بھاگا بھاگا بادشاہ کے محل میں پہنچا اور فوج کی امداد طلب کی ۔
فوج نے جنوں کے سروں کو ایک بہت بڑی توپ پر رکھا اور اسے گھسیٹ کر شاہی محل تک لایا گیا ۔ بادشاہ یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔ اُس نے ثاقب کو آدھی سلطنت دینے کی پیش کش کی، لیکن بیٹی کے ساتھ شادی کرنے کے وعدے سے مُکر گیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی خوب صورت شہزادے سے اپنی بیٹی کی شادی کرے ۔ ثاقب کا دل ٹوٹ گیا۔ اُس نے آدھی سلطنت کو ٹھکرا دیا اور اپنے دوست بھوت کے ساتھ جھونپڑی میں رہنے لگا اُسے شہزادی کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی تھی۔
اُدھر بادشاہ کی بیٹی کو جب یہ معلوم ہوا، تو وہ بیمار رہنے لگی ۔ بادشاہ نے بہتیرے علاج کرائے، مگر اسے آرام نہ آیا ۔ آخر کار اُس نے اپنی بیٹی کو ایک مینا خرید دی ۔ یہ مینا ہر وقت اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتی ۔ نجومیوں نے بادشاہ کو بتایا کہ شہزادی کی شادی ثاقب سے کر دی جائے تو وہ ٹھیک ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں۔ بادشاہ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ۔ اُس نے ثاقب کا پتہ کروایا، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
ایک دن مینا نے شہزادی سے کہا کہ میں ثاقب کو تلاش کرتی ہوں۔ وہ اُڑتی ہوئی بھوت کی جھونپڑی پر آبیٹھی ثاقب نے دیکھا ، یہ وہی مینا تھی، جو اُس نے ہوا میں چھوڑی تھی۔ مینا نے ثاقب کو شہزادی کا پیغام دیا۔ اور کہا کہ بادشاہ نے بھی تمھیں یاد کیا ہے۔ ثاقب یہ سُن کر سیدھا بادشاہ کے محل میں آیا ۔ اس کے بعد شہزادی سے اس کی شادی ہوگئی۔
بادشاہ نے اسے صبر اور بہادری کے انعام میں آدھی تو کیا ، ساری سلطنت دے دی ۔
شام ہوئی، تو ثاقب کو رات گزار نےکا خیال آیا ۔ اس نے پہاڑ پر ایک جھونپڑی دیکھی ۔ وہ بڑی مشکل سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوا، اس کی ملاقات ایک بھوت سے ہو گئی۔ یہ جھونپڑی اسی بُھوت کی تھی ۔
ثاقب کو نئے نئے دوست بنانے کا بہت شوق تھا۔ اُس نے دوستانہ لہجے میں اس لمبے تڑنگے بھوت سے کہا ’’آداب عرض کرتا ہوں ۔ میں ذرا سیر کو نکلا ہوں، آئیے آپ بھی میرے ساتھ چلیے۔‘‘ بھوت گرجدار آواز میں بولا چل بے او، کمزور اور دبلے پتلے انسان، میں کیوں تمہارے ساتھ جاؤں۔‘‘
ثاقب نے کہا:’’میں دیکھنے میں دبلا پتلا ضرور ہوں ، مگر اتنا بھی کمزور نہیں، جتنا تم سمجھ رہے ہو۔‘‘
اس پر بھوت ہنسا اُس نے ایک بھاری پتھر اٹھایا اور اپنے بڑے بڑے ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے بھینچا کہ اس میں سے پانی نکلنے لگا۔ پھر اُس نے ثاقب سے سوال کیا ۔
’’ کیوں بے چیونٹے ، تو بھی ایسا کرسکتا ہے؟‘‘
ثاقب ہنس پڑا اور بولا ’’واہ بھلا یہ بھی کوئی مشکل کام ہے ۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ اس کے بعد ثاقب نے اپنے تھیلے میں سے پنیر نکالا اور اسے آہستہ سے دبایا، تو اس میں سے کافی سے زیادہ چھاچھ بہنے لگی۔ اس نے بھوت سے پوچھا ۔’’تمھارے اتنے بڑے پتھر سے تو منوں پانی نکل سکتا تھا ، پر نکلا صرف تین چار بوندیں، میرے اس چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھو کتنا پانی نکلا ہے۔‘‘
بھوت یہ سُن کر تاؤ میں آگیا ۔ اس نے ایک ویسا ہی پتھر اٹھایا اور اتنا اُونچا پھینکا کہ نظروں سے اوجھل ہونے کے بہت دیر بعد واپس زمین پر پہنچا۔
ثاقب پھر ہنسا اور کہنے لگا :
’’یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ دیکھنا میرا کمال بھی، ایسی چیز ہوا میں چھوڑوں گا کہ بس آسمان پر ہی پہنچ جائے گی اور زمین پر واپس نہیں آئے گی‘‘
یہ کہہ کر اُس نے پنجرے سے مینا نکالی اور اُسے ہوا میں چھوڑ دیا۔
مینا اپنی آزادی پر اتنی خوش ہوئی کہ اوپر ہی اوپر اڑتی چلی گئی اور نظروں سے غائب ہو گئی ۔ بھوت یہ دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا اور بولا :
’’ چلو آج سے میں تمھارا دوست ہوں‘‘ پھر اُس نے ثاقب کو رات جھونپڑی ہی میں رکھا۔ طرح طرح کے کھانوں سے اس کی خاطر تواضع کی اور جاتےدفعہ تحفے بھی دیے۔
ثاقب اپنی کامیابی پر پھولے نہ سما رہا تھا۔ وہ فخر سے سینہ پھلاتا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچا اور بولا:
’’جہاں پناہ ! کب سے میں اس کوشش میں تھا کہ آپ کے نیاز حاصل ہوں۔کوئی میرے لائق خدمت ہو تو حکم کیجئے۔‘‘
بادشاہ نے حیرانگی سے ثاقب کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا اور کہا:
’’تم آگے ہی ادھ موئے ہو، ہمارے کس کام آسکتے ہو؟‘‘
ثاقب نے جواب دیا:
’’آپ کوئی حکم تو دیجئے۔‘‘
بادشاہ نے کہا کہ اس ملک میں دو جنوں نے لوگوں کو تنگ کر رکھا ہے۔ اگر تم ان جِنوں کے سرکاٹ کے لے آؤ ، تو آدھی سلطنت تمھاری اور میں اپنی بیٹی کی شادی بھی تم سے کر دوں گا۔ ثاقب نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا اور پھر بولا : میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘
ثاقب نے تھوڑی دیر کے لئے کچھ سوچا اور پھر بولا۔ ’’میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘
بادشاہ نے کہا: ’’تمھیں جتنی فوج چاہیے، لے جا سکتے ہو؟‘‘
ثاقب نے کہا۔ ’’نہیں نہیں، مجھے فوج کی ضرورت نہیں، فوج کی ضرورت صرف جنوں کے سر اٹھانے کے لیے پڑے گی‘‘
یہ وعدہ کر کے ثاقب اپنے دوست بھوت کے پاس آیا ۔ بھوت نے کہا کہ جنوں کے سر لانا کوئی مشکل کام نہیں، بس کوئی ترکیب سوچنا ہو گی۔ اس کے بعد ثاقب اور بھوت دونوں اس قلعے میں پہنچے، جہاں جِنّ رہتے تھے۔ بھوت نے ثاقب کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور ہوا میں اُڑتا ہوا، قلعے کے باغ میں چلا آیا۔ دونوں جن برگد کے درخت کے نیچے سوئے ہوئے تھے۔ ثاقب نے بھوت کے کہنے پر کنکریاں جیب میں ڈال لیں۔ بھوت نے بڑی بڑی اینٹیں اُٹھا لیں اور دونوں ایک درخت پر چڑھ گئے ۔ ثاقب نے ہولے ہولے ایک ایک کر کے جنوں کو کنکریاں مارنا شروع کیں ۔ جنوں نے مکھیاں سمجھ کر کوئی پرواہ نہ کی ۔ اس کے بعد بھوت نے اپنا کام دکھایا ۔ اُس نے بڑی بڑی اینٹیں اُٹھا کر جِنّوں پر برسانا شروع کر دیں۔ ایک جن سمجھا کہ دوسرا جن بار بار ہاتھ مار کر اسے ستا رہا ہے۔ ادھر دوسرے جن کو بھی یہی غلط فہمی ہوتی ۔ دونوں جن اب ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھے اور غُرَّا غُرَّا کر آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ درختوں سے ہتھیار کا کام لیا ۔ اسی مار دھاڑ میں بُری طرح زخمی ہوئے اور مر گئے۔ بھوت اور ثاقب خوشی سے ناچتےہوئے درخت سے نیچے اُترے اور تلوار سے دونوں جنوں کے سر تن سے جدا کر دیے۔ ثاقب بھاگا بھاگا بادشاہ کے محل میں پہنچا اور فوج کی امداد طلب کی ۔
فوج نے جنوں کے سروں کو ایک بہت بڑی توپ پر رکھا اور اسے گھسیٹ کر شاہی محل تک لایا گیا ۔ بادشاہ یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔ اُس نے ثاقب کو آدھی سلطنت دینے کی پیش کش کی، لیکن بیٹی کے ساتھ شادی کرنے کے وعدے سے مُکر گیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی خوب صورت شہزادے سے اپنی بیٹی کی شادی کرے ۔ ثاقب کا دل ٹوٹ گیا۔ اُس نے آدھی سلطنت کو ٹھکرا دیا اور اپنے دوست بھوت کے ساتھ جھونپڑی میں رہنے لگا اُسے شہزادی کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی تھی۔
اُدھر بادشاہ کی بیٹی کو جب یہ معلوم ہوا، تو وہ بیمار رہنے لگی ۔ بادشاہ نے بہتیرے علاج کرائے، مگر اسے آرام نہ آیا ۔ آخر کار اُس نے اپنی بیٹی کو ایک مینا خرید دی ۔ یہ مینا ہر وقت اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتی ۔ نجومیوں نے بادشاہ کو بتایا کہ شہزادی کی شادی ثاقب سے کر دی جائے تو وہ ٹھیک ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں۔ بادشاہ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ۔ اُس نے ثاقب کا پتہ کروایا، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
ایک دن مینا نے شہزادی سے کہا کہ میں ثاقب کو تلاش کرتی ہوں۔ وہ اُڑتی ہوئی بھوت کی جھونپڑی پر آبیٹھی ثاقب نے دیکھا ، یہ وہی مینا تھی، جو اُس نے ہوا میں چھوڑی تھی۔ مینا نے ثاقب کو شہزادی کا پیغام دیا۔ اور کہا کہ بادشاہ نے بھی تمھیں یاد کیا ہے۔ ثاقب یہ سُن کر سیدھا بادشاہ کے محل میں آیا ۔ اس کے بعد شہزادی سے اس کی شادی ہوگئی۔
بادشاہ نے اسے صبر اور بہادری کے انعام میں آدھی تو کیا ، ساری سلطنت دے دی ۔
- एम-एस-नाज़
کافی دنوں کی بات ہے۔ ایک شہر میں دو بھائی رہتے تھے۔ ان کا قد ایک جیسا تھا، البتہ رنگت ایک جیسی نہیں تھی۔ ایک گورا چٹا تھا اور دوسرا سانولے رنگ کا۔
گورے بھائی کا نام اشفاق اور سانولے بھائی کا نام شفیق تھا۔ دونوں بھائیوں کی عادات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اشفاق بہت محنتی اور وقت کا پابند تھا۔ جب کہ شفیق بہت سست تھا۔ اشفاق میں اخلاقی خوبیاں بھی تھیں۔ وہ کسی کے احسان پر اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولتا تھا، اور شفیق اکثر ایسی باتوں سے کنی کتراتا تھا۔ اشفاق اسے اس عادت پر ٹوکتا اور کہتا کہ ’’جب لوگ تمہارے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں، تو تمہارا بھی فرض ہے کہ ان لوگوں کا شکریہ ادا کرو۔‘‘
شفیق اس پر جھنجھلا کر رہ جاتا اور کہتا:
’’بس بس چپ رہو۔ میں شکریہ ادا کردیا کروں گا۔‘‘
اور پھر عادت کے مطابق بھول جاتا۔ امی بھی شفیق کو اس کی عادت پر جھڑک دیتیں، مگر وہ خاموش رہتا اور کبھی کبھی فقط اتنا کہہ دیتا:
’’امی، میرے پاس وقت نہیں ہوتا، کون لوگوں کا شکریہ ادا کرتا رہے۔‘‘
عید سے چند روز پہلے اشفاق اور شفیق کو دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے تحفے وصول ہوئے۔ انہیں ایک ہی جیسے تحائف کے پارسل وصول ہوئے، کیوں کہ ان کے دادا دادی اور چچا دوسرے شہر میں رہتے تھے۔
چچا نے انہیں ایک ایک ننھی منی ریل گاڑی، آنٹی نے انہیں ایک ایک لڈو اور دادا اور دادی اماں نے انہیں ٹافیوں اور مٹھائیوں کے پیکٹ بھیجے۔
امی یہ تحائف دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہا:
’’اشفاق اور شفیق، تم دونوں بہت خوش قسمت ہو۔ تمہیں اتنے ڈھیر سارے کھلونے اور تحفے ملے ہیں، تمہیں چاہئے کہ انہیں سنبھال کر رکھو۔‘‘
اشفاق نے کہا: ’’امی میں نے تو پچھلی عید کے تحفے بھی سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
امی نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’مگر میں تمہیں نہیں کہہ رہی۔ میں تو شفیق سے کہہ رہی ہوں جو اپنے کھلونے جلد ہی توڑ دیتا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد امی نے کہا:
’’تم دونوں بھائیوں کا فرض ہے کہ جس جس نے تمہیں تحفے ارسال کیے ہیں، انہیں تم شکریے کے خط لکھو۔‘‘
شفیق فوراً بول پڑا: ’’امی، شکریے کے خط لکھنے کا فائدہ؟‘‘
یہ بات سن کر امی نے کہا:
’’بیٹے شکریہ ادا کرنے سے انسان کے اخلاق کا پتا چلتا ہے۔ شکریہ کے خط لکھنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ دوسرے آدمی کو علم ہوجاتا ہے کہ اس کے بھیجے ہوئے تحفے تمہیں مل گئے ہیں اور دوسرے یہ کہ تم بڑے بااخلاق ہو۔‘‘
امی کی بات سن کر شفیق لاجواب ہوگیا۔ پھر دونوں بھائی یہ وعدہ کر کے چلے گئے کہ وہ عید کے تحفے بھیجنے والوں کو شکریہ کے خط لکھیں گے۔
شام ہو چکی تھی۔ کھانا تیار ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اشفاق نے سوچا:
’’کیوں نا اس وقت شکریہ کے خط ہی لکھ دیے جائیں۔‘‘
وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تحفے بھیجنے والوں کو خط لکھنے لگا۔ سب سے پہلے اس نے چچا کو شکریے کا خط لکھا۔ پھر آنٹی کو اور آخر میں دادا اور دادی اماں کو پیار اور محبت بھرے خط لکھے وہ خط لکھ ہی رہا تھا کہ شفیق کمرے میں آگیا۔ اشفاق نے اس سے کہا:
’’تم بھی خط لکھ دو۔‘‘
شفیق بھنّا کے بولا:
’’میں اس وقت بیڈمنٹن کھیلنے جارہا ہوں۔ شکریے کے خط واپسی پر لکھوں گا۔‘‘
شفیق کھیل کر واپس آیا تو بہت تھکا ہوا تھا۔ اس نے کھانا کھایا اور بستر پر لیٹ گیا۔ اسے جلدی ہی نیند آگئی۔ دوسرے دن صبح اٹھا، تو اشفاق کے لکھے ہوئے خط امی کے سامنے پڑے تھے۔ امی نے شفیق کی طرف دیکھا تو وہ جان چھڑانے کے انداز میں بولا:
’’امی، میں یہ خط ا سکول سے واپسی پر ضرور لکھ دوں گا۔‘‘
سکول سے چھٹی کے بعد شفیق کچھ دیر کے لئے سو گیا۔ پھر جاگا، تو سہ پہر بیت رہی تھی۔ وہ منہ ہاتھ دھوکر کھیلنے کے لیے گراؤنڈ میں چلا گیا اور اس رات بھی بڑے مزے سے سو رہا۔
امی نے اشفاق کے لکھے ہوئے خط پوسٹ کروا دیے تھے۔ اگلے دن یہ خط چچا، آنٹی، دادا اور دادی اماں کووصول ہوگئے۔ وہ یہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔ ایک بات کی انہیں حیرانی بھی تھی کہ شفیق نے انہیں کوئی خط نہیں لکھا تھا۔ ادھر شفیق یہ خط لکھنے بھول گیا تھا، کیونکہ کہ وہ وقت پر کام کا عادی نہیں تھا۔
اسی دوران اشفاق اور شفیق کی سالگرہ کا دن آگیا۔ 22 مارچ کی صبح ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اشفاق اور شفیق رات کی پارٹی کے منتظر تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ شفیق نے بڑھ کر دروازہ کھولا، تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا اس نے شفیق سے کہا:
’’اشفاق کے نام تحفوں کے کچھ پارسل آئے ہیں۔‘‘
’’کیا میرا بھی کوئی تحفہ آیا ہے؟‘‘
شفیق نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا، اور ڈاکیے کے انکار پر وہ خاموشی سے اندر چلا گیا اور اشفاق کو بھیج دیا۔ ڈاکیے نے اشفاق کو سالگرہ کی مبارکباد دی اور کہا:
’’کیا اس بار اکیلے آپ کی سالگرہ منائی جارہی ہے؟‘‘
اشفاق نے کہا۔ ’’نہیں تو۔‘‘
ڈاکیے نے کہا۔ ’’آج صرف آپ کے نام تحفے آئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکیے نے سارے پارسل اشفاق کے ہاتھوں میں تھما دیے۔ اشفاق خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ وہ تحفے لے کر سیدھا امی کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’میرے نام بہت سے تحفے آئے ہیں۔‘‘
امی نے پوچھا: ’’شفیق کے لیے کوئی تحفہ نہیں آیا؟‘‘
اشفاق نے جواب دیا:
’’امی، سب پارسلوں پر تو میرا نام لکھا ہوا ہے۔ میں انہیں کھول کر دیکھتا ہوں شاید ان میں شفیق کے لیے بھی تحفے رکھے گئے ہوں۔‘‘
اشفاق نے جو پارسل کھولے، تو کوئی بھی تحفہ شفیق کے لیے نہیں تھا۔ ان تحائف کے ساتھ ساتھ ایک خط بھی تھا، جس میں لکھا تھا، کہ تمہاری طرف سے شکریے کا خط ملا۔ تم بہت اچھے لڑکے ہو۔ اس بار اپنی سالگرہ پر یہ تحفے قبول کرو۔‘‘
یہ الفاظ سن کر شفیق کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ امی نے اسے یاد دلایا اور کہا۔ ’’تم نے شکریے کے خط نہیں لکھے تھے۔ ممکن ہے چچا، آنٹی، دادا اور دادی اماں نے سوچا ہو کہ تمہیں ان کے تحفے پسند نہیں آئے۔‘‘
’’نہیں نہیں امی، یہ بات نہیں۔‘‘ شفیق نے کہا اور چپکے سے اپنے کمرے میں چلا آیا اور سب کو شکریہ کے خطوں میں لکھا اور خط دیر سے لکھنے کی معافی بھی مانگی۔
چند روز بعد اسے بھی ویسے ہی خوبصورت تحفے وصول ہوئے۔ یہ تحفے شفیق نے امی کو دکھائے اور اس روز دونوں بھائیوں کی سالگرہ دوبارہ منائی گئی۔
ان کی امی نے دعوت کے وقت مہمانوں سے کہا:
’’آج سے شفیق اور اشفاق دونوں اچھے بچے بن گئے ہیں۔‘‘
گورے بھائی کا نام اشفاق اور سانولے بھائی کا نام شفیق تھا۔ دونوں بھائیوں کی عادات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اشفاق بہت محنتی اور وقت کا پابند تھا۔ جب کہ شفیق بہت سست تھا۔ اشفاق میں اخلاقی خوبیاں بھی تھیں۔ وہ کسی کے احسان پر اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولتا تھا، اور شفیق اکثر ایسی باتوں سے کنی کتراتا تھا۔ اشفاق اسے اس عادت پر ٹوکتا اور کہتا کہ ’’جب لوگ تمہارے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں، تو تمہارا بھی فرض ہے کہ ان لوگوں کا شکریہ ادا کرو۔‘‘
شفیق اس پر جھنجھلا کر رہ جاتا اور کہتا:
’’بس بس چپ رہو۔ میں شکریہ ادا کردیا کروں گا۔‘‘
اور پھر عادت کے مطابق بھول جاتا۔ امی بھی شفیق کو اس کی عادت پر جھڑک دیتیں، مگر وہ خاموش رہتا اور کبھی کبھی فقط اتنا کہہ دیتا:
’’امی، میرے پاس وقت نہیں ہوتا، کون لوگوں کا شکریہ ادا کرتا رہے۔‘‘
عید سے چند روز پہلے اشفاق اور شفیق کو دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے تحفے وصول ہوئے۔ انہیں ایک ہی جیسے تحائف کے پارسل وصول ہوئے، کیوں کہ ان کے دادا دادی اور چچا دوسرے شہر میں رہتے تھے۔
چچا نے انہیں ایک ایک ننھی منی ریل گاڑی، آنٹی نے انہیں ایک ایک لڈو اور دادا اور دادی اماں نے انہیں ٹافیوں اور مٹھائیوں کے پیکٹ بھیجے۔
امی یہ تحائف دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہا:
’’اشفاق اور شفیق، تم دونوں بہت خوش قسمت ہو۔ تمہیں اتنے ڈھیر سارے کھلونے اور تحفے ملے ہیں، تمہیں چاہئے کہ انہیں سنبھال کر رکھو۔‘‘
اشفاق نے کہا: ’’امی میں نے تو پچھلی عید کے تحفے بھی سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
امی نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’مگر میں تمہیں نہیں کہہ رہی۔ میں تو شفیق سے کہہ رہی ہوں جو اپنے کھلونے جلد ہی توڑ دیتا ہے۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد امی نے کہا:
’’تم دونوں بھائیوں کا فرض ہے کہ جس جس نے تمہیں تحفے ارسال کیے ہیں، انہیں تم شکریے کے خط لکھو۔‘‘
شفیق فوراً بول پڑا: ’’امی، شکریے کے خط لکھنے کا فائدہ؟‘‘
یہ بات سن کر امی نے کہا:
’’بیٹے شکریہ ادا کرنے سے انسان کے اخلاق کا پتا چلتا ہے۔ شکریہ کے خط لکھنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ دوسرے آدمی کو علم ہوجاتا ہے کہ اس کے بھیجے ہوئے تحفے تمہیں مل گئے ہیں اور دوسرے یہ کہ تم بڑے بااخلاق ہو۔‘‘
امی کی بات سن کر شفیق لاجواب ہوگیا۔ پھر دونوں بھائی یہ وعدہ کر کے چلے گئے کہ وہ عید کے تحفے بھیجنے والوں کو شکریہ کے خط لکھیں گے۔
شام ہو چکی تھی۔ کھانا تیار ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اشفاق نے سوچا:
’’کیوں نا اس وقت شکریہ کے خط ہی لکھ دیے جائیں۔‘‘
وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تحفے بھیجنے والوں کو خط لکھنے لگا۔ سب سے پہلے اس نے چچا کو شکریے کا خط لکھا۔ پھر آنٹی کو اور آخر میں دادا اور دادی اماں کو پیار اور محبت بھرے خط لکھے وہ خط لکھ ہی رہا تھا کہ شفیق کمرے میں آگیا۔ اشفاق نے اس سے کہا:
’’تم بھی خط لکھ دو۔‘‘
شفیق بھنّا کے بولا:
’’میں اس وقت بیڈمنٹن کھیلنے جارہا ہوں۔ شکریے کے خط واپسی پر لکھوں گا۔‘‘
شفیق کھیل کر واپس آیا تو بہت تھکا ہوا تھا۔ اس نے کھانا کھایا اور بستر پر لیٹ گیا۔ اسے جلدی ہی نیند آگئی۔ دوسرے دن صبح اٹھا، تو اشفاق کے لکھے ہوئے خط امی کے سامنے پڑے تھے۔ امی نے شفیق کی طرف دیکھا تو وہ جان چھڑانے کے انداز میں بولا:
’’امی، میں یہ خط ا سکول سے واپسی پر ضرور لکھ دوں گا۔‘‘
سکول سے چھٹی کے بعد شفیق کچھ دیر کے لئے سو گیا۔ پھر جاگا، تو سہ پہر بیت رہی تھی۔ وہ منہ ہاتھ دھوکر کھیلنے کے لیے گراؤنڈ میں چلا گیا اور اس رات بھی بڑے مزے سے سو رہا۔
امی نے اشفاق کے لکھے ہوئے خط پوسٹ کروا دیے تھے۔ اگلے دن یہ خط چچا، آنٹی، دادا اور دادی اماں کووصول ہوگئے۔ وہ یہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔ ایک بات کی انہیں حیرانی بھی تھی کہ شفیق نے انہیں کوئی خط نہیں لکھا تھا۔ ادھر شفیق یہ خط لکھنے بھول گیا تھا، کیونکہ کہ وہ وقت پر کام کا عادی نہیں تھا۔
اسی دوران اشفاق اور شفیق کی سالگرہ کا دن آگیا۔ 22 مارچ کی صبح ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اشفاق اور شفیق رات کی پارٹی کے منتظر تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ شفیق نے بڑھ کر دروازہ کھولا، تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا اس نے شفیق سے کہا:
’’اشفاق کے نام تحفوں کے کچھ پارسل آئے ہیں۔‘‘
’’کیا میرا بھی کوئی تحفہ آیا ہے؟‘‘
شفیق نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا، اور ڈاکیے کے انکار پر وہ خاموشی سے اندر چلا گیا اور اشفاق کو بھیج دیا۔ ڈاکیے نے اشفاق کو سالگرہ کی مبارکباد دی اور کہا:
’’کیا اس بار اکیلے آپ کی سالگرہ منائی جارہی ہے؟‘‘
اشفاق نے کہا۔ ’’نہیں تو۔‘‘
ڈاکیے نے کہا۔ ’’آج صرف آپ کے نام تحفے آئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکیے نے سارے پارسل اشفاق کے ہاتھوں میں تھما دیے۔ اشفاق خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ وہ تحفے لے کر سیدھا امی کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’میرے نام بہت سے تحفے آئے ہیں۔‘‘
امی نے پوچھا: ’’شفیق کے لیے کوئی تحفہ نہیں آیا؟‘‘
اشفاق نے جواب دیا:
’’امی، سب پارسلوں پر تو میرا نام لکھا ہوا ہے۔ میں انہیں کھول کر دیکھتا ہوں شاید ان میں شفیق کے لیے بھی تحفے رکھے گئے ہوں۔‘‘
اشفاق نے جو پارسل کھولے، تو کوئی بھی تحفہ شفیق کے لیے نہیں تھا۔ ان تحائف کے ساتھ ساتھ ایک خط بھی تھا، جس میں لکھا تھا، کہ تمہاری طرف سے شکریے کا خط ملا۔ تم بہت اچھے لڑکے ہو۔ اس بار اپنی سالگرہ پر یہ تحفے قبول کرو۔‘‘
یہ الفاظ سن کر شفیق کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ امی نے اسے یاد دلایا اور کہا۔ ’’تم نے شکریے کے خط نہیں لکھے تھے۔ ممکن ہے چچا، آنٹی، دادا اور دادی اماں نے سوچا ہو کہ تمہیں ان کے تحفے پسند نہیں آئے۔‘‘
’’نہیں نہیں امی، یہ بات نہیں۔‘‘ شفیق نے کہا اور چپکے سے اپنے کمرے میں چلا آیا اور سب کو شکریہ کے خطوں میں لکھا اور خط دیر سے لکھنے کی معافی بھی مانگی۔
چند روز بعد اسے بھی ویسے ہی خوبصورت تحفے وصول ہوئے۔ یہ تحفے شفیق نے امی کو دکھائے اور اس روز دونوں بھائیوں کی سالگرہ دوبارہ منائی گئی۔
ان کی امی نے دعوت کے وقت مہمانوں سے کہا:
’’آج سے شفیق اور اشفاق دونوں اچھے بچے بن گئے ہیں۔‘‘
- एम-एस-नाज़
رات کا وقت تھا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا کہ حویلی کے دروازے پر کسی نے زور زور سے دستک دی۔ ایک بزرگ نے دروازہ کھولا تو باہر ایک نوجوان بے ہوش پڑا تھا۔ بزرگ نے اسے اٹھایا اور نرم گدگدے بستر پر لاکر لٹا دیا۔ نوجوان کو ہوش آیا تو اس کے سامنے سفید داڑھی والے ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ انہوں نے محبت اور شفقت بھرے لہجے میں سوال کیا:
’’کیوں بیٹا، تم کس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہو؟‘‘
نوجوان نے لجاجت سے بزرگ کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور کہا ’’خدا کے لئے مجھے اپنی پناہ میں لے لیجئے۔‘‘
بزرگ نے کچھ اور پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور کہا:
’’وہ سامنے والا کمرہ خالی ہے۔ تم شوق سے اس میں رہو۔ تم میرے مہمان ہو اور میں تمہاری پوری پوری حفاظت کروں گا۔‘‘
نوجوان یہاں آرام سے رہنےلگا۔ بزرگ روزانہ صبح سویرے اسے کھانا دے کر کہیں باہر چلے جاتے اور شام ہوتے تھکے ہارے پریشان حالت میں واپس آجاتے۔ ان کے چہرے کی دھول سے ایسا لگتا جیسے کوئی شکاری دن بھر شکار کی تلاش میں گھوم پھر کر رات کو مایوس گھر لوٹا ہو۔
نوجوان کو یہ معلوم نہ تھا کہ بزرگ ہر روز کہاں جاتے ہیں؟
ایک روز رات کو بزرگ اکیلے بیٹھے تھے۔ نوجوان ان کے قریب پہنچا اور کہنے لگا۔ ’’آپ نے مجھے مہمان بنا کر اور میری حفاظت کا وعدہ کر کے مجھ پر بے حد احسان کیا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اس مہربانی کے صلے میں آپ کے کسی کام آؤں۔ آپ ہر روز صبح سویرے کہاں جاتے ہیں اور شام کو پریشان اور غمگین کیوں واپس آتے ہیں؟‘‘
یہ سن کر بزرگ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے کہا:
’’بیٹے، یہ کہانی بڑی دردناک ہے۔ تم اسے نہ ہی سنو تو اچھا ہے۔‘‘
نوجوان نے اصرار کیا۔ ’’نہیں بابا، میں آپ کی کہانی ضرور سنوں گا۔‘‘
بزرگ بولے۔ اچھا تم ضد کرتے ہو تو سنو۔ اس شہر کے گورنر کا نام ابراہیم ہے۔ اس نے میرے اکلوتے بھائی کو جان سے مار ڈالا ہے۔ میرا بھائی بے گناہ تھا۔ میں ابراہیم کے خون کا پیاسا ہوں۔ وہ گورنری چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ پولیس اس کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے۔ خلیفہ نے اس کی گرفتاری کا انعام چالیس ہزار درہم مقرر کر رکھا ہے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسی شہر میں کہیں چھپا ہوا ہے۔ میں ہر روز اسے ڈھونڈنے نکلتا ہوں۔ مگر وہ میرے ہاتھ نہیں آتا۔ ایک بار اسے پکڑ لوں، تو انعام بھی پاؤں، اور اپنے بھائی کے خون کا بدلہ بھی چکاؤں۔‘‘
یہ سنتے ہی نوجوان پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ سوچنے لگا:
میں سانپ سے بچنے کے لئے گویا شیر کے بھٹ میں پہنچ گیا ہوں میرے میزبان نے میری جان بچائی ہے۔ میری خاطر تواضع کی ہے۔ میں اس کا شکر گزار ہوں، مگر اب نظر آرہا ہے کہ میں زیادہ دن اپنی جان نہیں بچا سکوں گا۔ اس کے بعد نوجوان نے دل میں ٹھان لی کہ اپنی کم بخت زندگی کو بچانے کی اور کوشش نہ کروں گا۔ وہ کئی مہینوں سے اپنی جان بچانے کے لئے مارا مارا پھر رہا تھا۔ پولیس اسے تلاش کرتی ہوئی ایک گاؤں میں پہنچتی، تو وہ دوسرے گاؤں میں بھاگ جاتا۔ اب اس کے سامنے کوئی اور راستہ نہ تھا کہ وہ پولیس سے بچنے کے لئے گاؤں سے نکل کر شہر چلا جائے۔ کیونکہ شہر میں لوگ بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اتنے لوگوں کی آبادی میں اسے پہچانے جانے کا ڈر بہت کم تھا۔
ایک رات وہ چھپتا چھپاتا اسی حویلی کے سامنے پہنچ گیا، جہاں یہ بزرگ رہتے تھے۔ اسی بزرگ کے بھائی کا اس نے ناحق قتل کرا دیا تھا آج وہ اسی بزرگ کے سامنے بیٹھا ان کی دردناک کہانی سن رہا تھا۔ بزرگ کی زبانی یہ کہانی سن کر نوجوان دل کڑا کر کے بول اٹھا:
’’میرے بزرگ، میں ہی گورنر ابراہیم ہوں۔ میں نے ہی آپ کے بھائی کا خون کیا ہے۔‘‘
بزرگ یہ سن کر مسکرائے اور بولے: ’’معلوم ہوتا ہے، تم اس جوانی کے عالم میں زندگی سے مایوس ہو چکے ہو جبھی تم اپنے آپ کو ابراہیم ظاہر کررہے ہو۔‘‘
نوجوان نے کہا۔ ’’نہیں نہیں بابا، میں اصلی ابراہیم ہوں۔ یقین نہ آئے تو بے شک پولیس کو بلا لیجئے۔‘‘
بزرگ بولے ’’تم اس وقت میرے مہمان ہو اور میری پناہ میں ہو۔ اسلام کا حکم ہے کہ اپنے مہمان کی حفاظت کرو اور اسے کوئی تکلیف نہ آنے دو۔ اس لیے بہتر ہے کہ اب تم روپوؤں کی یہ تھیلی لے لو اور یہاں سے چلے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا خون کھولنے لگے اور میں انتقام کے جذبے میں تمہیں قتل کردوں یا خلیفہ کے حوالے کر دوں۔‘‘
اس کے بعد بزرگ نے روپوؤں کی تھیلی پیش کرتے ہوئے نوجوان سے کہا۔ ’’تم جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
نوجوان نے کہا۔ ’’بابا، اب میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ آپ بہت نیک اور رحم دل انسان ہیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میں نے آپ کے بھائی کا خون کیا۔ اسلام میں خون کی سزا خون ہی ہے۔ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ آپ مجھے پکڑ کر خلیفہ کے سامنے پیش کردیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے جلد سے جلد پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے۔‘‘
بزرگ کا دل یہ باتیں سن کر رحم کے جذبے سے بھر گیا۔ انہوں نے کہا ’’اسلام میں اس شخص کی بڑائی اور تعریف بیان کی گئی ہے، جو رحم دل اور نیک ہو اور اپنے دشمن کو معاف کردے۔‘‘
بزرگ کی اس بات پر نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ ان کی طرف التجا بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ بزرگ فوراً بول اٹھے۔ ’’جاؤ میں نے تمہیں معاف کردیا۔‘‘
نوجوان یہ سن کر بزرگ سے لپٹ گیا۔ انہوں نے اسے پیار سے تھپکی دی اور پھر اسے ساتھ لے کر خلیفہ کے محل کی طرف چل پڑے۔ شام ہو چکی تھی۔ جب وہ خلیفہ کے محل میں پہنچے، اس وقت خلیفہ محل کے چمن میں اپنے وزیروں کے ساتھ ٹہل رہا تھا۔ ابراہیم کے چہرے کو دیکھتے ہی اسے غصہ آگیا، مگر بزرگ نے سرجھکاتے ہوئے سلام کیا اور کہنے لگے۔ ’’حضور، میں نے اپنے بھائی کے قتل کو معاف کردیا ہے۔‘‘ اس کے بعد ابراہیم نے آگے بڑھ کر خلیفۂ وقت کے ہاتھ چوم لیے اوران سے وعدہ کیا کہ آئندہ زندگی میں وہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ خلیفۂ وقت نے بزرگ کے کہنے پر ابراہیم کو معاف کردیا اور اسے دوبارہ کوفے شہر کا گورنر بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ گورنر ابراہیم نے باقی ساری عمر اللہ کی یاد میں گزاری، اور غریبوں کی بڑی خدمت کی۔
جانتے ہو بچو! اس خلیفہ کا کیا نام تھا؟ اس کا نام تھا ’’سفاح‘‘ وہ بغداد کا خلیفہ تھا، جو کہا کرتا تھا کہ غریبوں سے انصاف کرو۔ انصاف کا ہمیشہ بول بالا ہوتا ہے۔
پیارے بچو!
اگر ہم بھی ایسی نیک باتوں پر عمل کریں، تو دنیا ہم کو کبھی نہ بھولے گی۔‘‘
’’کیوں بیٹا، تم کس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہو؟‘‘
نوجوان نے لجاجت سے بزرگ کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور کہا ’’خدا کے لئے مجھے اپنی پناہ میں لے لیجئے۔‘‘
بزرگ نے کچھ اور پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور کہا:
’’وہ سامنے والا کمرہ خالی ہے۔ تم شوق سے اس میں رہو۔ تم میرے مہمان ہو اور میں تمہاری پوری پوری حفاظت کروں گا۔‘‘
نوجوان یہاں آرام سے رہنےلگا۔ بزرگ روزانہ صبح سویرے اسے کھانا دے کر کہیں باہر چلے جاتے اور شام ہوتے تھکے ہارے پریشان حالت میں واپس آجاتے۔ ان کے چہرے کی دھول سے ایسا لگتا جیسے کوئی شکاری دن بھر شکار کی تلاش میں گھوم پھر کر رات کو مایوس گھر لوٹا ہو۔
نوجوان کو یہ معلوم نہ تھا کہ بزرگ ہر روز کہاں جاتے ہیں؟
ایک روز رات کو بزرگ اکیلے بیٹھے تھے۔ نوجوان ان کے قریب پہنچا اور کہنے لگا۔ ’’آپ نے مجھے مہمان بنا کر اور میری حفاظت کا وعدہ کر کے مجھ پر بے حد احسان کیا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اس مہربانی کے صلے میں آپ کے کسی کام آؤں۔ آپ ہر روز صبح سویرے کہاں جاتے ہیں اور شام کو پریشان اور غمگین کیوں واپس آتے ہیں؟‘‘
یہ سن کر بزرگ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے کہا:
’’بیٹے، یہ کہانی بڑی دردناک ہے۔ تم اسے نہ ہی سنو تو اچھا ہے۔‘‘
نوجوان نے اصرار کیا۔ ’’نہیں بابا، میں آپ کی کہانی ضرور سنوں گا۔‘‘
بزرگ بولے۔ اچھا تم ضد کرتے ہو تو سنو۔ اس شہر کے گورنر کا نام ابراہیم ہے۔ اس نے میرے اکلوتے بھائی کو جان سے مار ڈالا ہے۔ میرا بھائی بے گناہ تھا۔ میں ابراہیم کے خون کا پیاسا ہوں۔ وہ گورنری چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ پولیس اس کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے۔ خلیفہ نے اس کی گرفتاری کا انعام چالیس ہزار درہم مقرر کر رکھا ہے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسی شہر میں کہیں چھپا ہوا ہے۔ میں ہر روز اسے ڈھونڈنے نکلتا ہوں۔ مگر وہ میرے ہاتھ نہیں آتا۔ ایک بار اسے پکڑ لوں، تو انعام بھی پاؤں، اور اپنے بھائی کے خون کا بدلہ بھی چکاؤں۔‘‘
یہ سنتے ہی نوجوان پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ سوچنے لگا:
میں سانپ سے بچنے کے لئے گویا شیر کے بھٹ میں پہنچ گیا ہوں میرے میزبان نے میری جان بچائی ہے۔ میری خاطر تواضع کی ہے۔ میں اس کا شکر گزار ہوں، مگر اب نظر آرہا ہے کہ میں زیادہ دن اپنی جان نہیں بچا سکوں گا۔ اس کے بعد نوجوان نے دل میں ٹھان لی کہ اپنی کم بخت زندگی کو بچانے کی اور کوشش نہ کروں گا۔ وہ کئی مہینوں سے اپنی جان بچانے کے لئے مارا مارا پھر رہا تھا۔ پولیس اسے تلاش کرتی ہوئی ایک گاؤں میں پہنچتی، تو وہ دوسرے گاؤں میں بھاگ جاتا۔ اب اس کے سامنے کوئی اور راستہ نہ تھا کہ وہ پولیس سے بچنے کے لئے گاؤں سے نکل کر شہر چلا جائے۔ کیونکہ شہر میں لوگ بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اتنے لوگوں کی آبادی میں اسے پہچانے جانے کا ڈر بہت کم تھا۔
ایک رات وہ چھپتا چھپاتا اسی حویلی کے سامنے پہنچ گیا، جہاں یہ بزرگ رہتے تھے۔ اسی بزرگ کے بھائی کا اس نے ناحق قتل کرا دیا تھا آج وہ اسی بزرگ کے سامنے بیٹھا ان کی دردناک کہانی سن رہا تھا۔ بزرگ کی زبانی یہ کہانی سن کر نوجوان دل کڑا کر کے بول اٹھا:
’’میرے بزرگ، میں ہی گورنر ابراہیم ہوں۔ میں نے ہی آپ کے بھائی کا خون کیا ہے۔‘‘
بزرگ یہ سن کر مسکرائے اور بولے: ’’معلوم ہوتا ہے، تم اس جوانی کے عالم میں زندگی سے مایوس ہو چکے ہو جبھی تم اپنے آپ کو ابراہیم ظاہر کررہے ہو۔‘‘
نوجوان نے کہا۔ ’’نہیں نہیں بابا، میں اصلی ابراہیم ہوں۔ یقین نہ آئے تو بے شک پولیس کو بلا لیجئے۔‘‘
بزرگ بولے ’’تم اس وقت میرے مہمان ہو اور میری پناہ میں ہو۔ اسلام کا حکم ہے کہ اپنے مہمان کی حفاظت کرو اور اسے کوئی تکلیف نہ آنے دو۔ اس لیے بہتر ہے کہ اب تم روپوؤں کی یہ تھیلی لے لو اور یہاں سے چلے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا خون کھولنے لگے اور میں انتقام کے جذبے میں تمہیں قتل کردوں یا خلیفہ کے حوالے کر دوں۔‘‘
اس کے بعد بزرگ نے روپوؤں کی تھیلی پیش کرتے ہوئے نوجوان سے کہا۔ ’’تم جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
نوجوان نے کہا۔ ’’بابا، اب میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ آپ بہت نیک اور رحم دل انسان ہیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میں نے آپ کے بھائی کا خون کیا۔ اسلام میں خون کی سزا خون ہی ہے۔ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ آپ مجھے پکڑ کر خلیفہ کے سامنے پیش کردیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے جلد سے جلد پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے۔‘‘
بزرگ کا دل یہ باتیں سن کر رحم کے جذبے سے بھر گیا۔ انہوں نے کہا ’’اسلام میں اس شخص کی بڑائی اور تعریف بیان کی گئی ہے، جو رحم دل اور نیک ہو اور اپنے دشمن کو معاف کردے۔‘‘
بزرگ کی اس بات پر نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ ان کی طرف التجا بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ بزرگ فوراً بول اٹھے۔ ’’جاؤ میں نے تمہیں معاف کردیا۔‘‘
نوجوان یہ سن کر بزرگ سے لپٹ گیا۔ انہوں نے اسے پیار سے تھپکی دی اور پھر اسے ساتھ لے کر خلیفہ کے محل کی طرف چل پڑے۔ شام ہو چکی تھی۔ جب وہ خلیفہ کے محل میں پہنچے، اس وقت خلیفہ محل کے چمن میں اپنے وزیروں کے ساتھ ٹہل رہا تھا۔ ابراہیم کے چہرے کو دیکھتے ہی اسے غصہ آگیا، مگر بزرگ نے سرجھکاتے ہوئے سلام کیا اور کہنے لگے۔ ’’حضور، میں نے اپنے بھائی کے قتل کو معاف کردیا ہے۔‘‘ اس کے بعد ابراہیم نے آگے بڑھ کر خلیفۂ وقت کے ہاتھ چوم لیے اوران سے وعدہ کیا کہ آئندہ زندگی میں وہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ خلیفۂ وقت نے بزرگ کے کہنے پر ابراہیم کو معاف کردیا اور اسے دوبارہ کوفے شہر کا گورنر بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ گورنر ابراہیم نے باقی ساری عمر اللہ کی یاد میں گزاری، اور غریبوں کی بڑی خدمت کی۔
جانتے ہو بچو! اس خلیفہ کا کیا نام تھا؟ اس کا نام تھا ’’سفاح‘‘ وہ بغداد کا خلیفہ تھا، جو کہا کرتا تھا کہ غریبوں سے انصاف کرو۔ انصاف کا ہمیشہ بول بالا ہوتا ہے۔
پیارے بچو!
اگر ہم بھی ایسی نیک باتوں پر عمل کریں، تو دنیا ہم کو کبھی نہ بھولے گی۔‘‘
- एम-एस-नाज़
جاجی کا اصلی نام تو کسی کو معلوم نہیں، البتہ سب اسے پیٹو میاں کہتے تھے۔ پیٹو بھی ایسے کہ سارا باورچی خانہ چٹ کر کے بھی شور مچاتے تھے۔ ’’ہائے میں کئی دنوں سے بھوکا ہوں اور کمزور ہو رہا ہوں، کوئی بھی مجھ غریب پر ترس نہیں کھاتا۔‘‘ اور امی جھٹ سے اس کے آگے مختلف چیزیں رکھ دیتیں مگر وہ ضد کر کے کہتے۔ ’’میں تو چینی کھاؤں گا۔‘‘ کھا کھا کے پیٹو میاں تو پھول کر کپّا ہو چکے تھے۔ ان کی ڈیڑھ من وزنی توند تو چینی کی بوری معلوم ہوتی تھی۔ پھر لباس میں نیکر پہن لیتے اور سر پر پٹھانوں جیسی ٹوپی۔ اکثر دیکھا گیا کہ ان کی جیب میں چوری کے بسکٹ ہوتے اور وہ ٹھٹھرتی سردی میں کوٹ پہنے بڑے مزے سے قُلفی کھوئے ملائی والی کھا رہے ہوتے۔ قریب سے آم پاپڑ بیچنے والا گزر رہا ہوتا، تو اسے بھی آواز دے کر ٹھہرا لیتے اور پھر سب کچھ کھا پی کے بھی باورچی خانے میں آ دھمکتے اور کہتے ’’ہائے امی، بڑی سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ بس چینی کا ایک پراٹھا پکا دیجئے نا!‘‘ مزے کی بات تو یہ تھی کہ چینی کا پراٹھا بھی چینی کے ساتھ کھاتے اور ساتھ ساتھ میٹھا شربت پیتے جاتے۔
پیٹو میاں کی عمر تیرہ سال تھی۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ گھر سے اسکول جاتے اور ہفتے میں دو ایک بار سکول جانے کی بجائے راستے ہی میں نو دو گیارہ ہوجاتے۔ بلو اور کاکا کو ساتھ لیتے اور سیدھے باغ میں، غلیل سے چڑیوں کا شکار کرنے پہنچ جاتے۔ بیچاری چڑیوں کو بھون بھون کر کھانے میں انہیں خدا جانے کیا لطف آتا تھا۔
پیٹو میاں کو اپنے نام سے بہت چڑ تھی۔ جب کوئی انہیں پیٹو میاں کہہ کر بلاتا، اس سے ناراض ہوجاتے اور بعض اوقات لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے پر اتر آتے۔ پھر خود ہی روتے ہوئے امی کے پاس چلے آتے اور کہتے ’’میں تو صرف آٹھ دس روٹیاں، بسکٹ کے تین چار ڈبے، ٹافیوں کا ایک عدد پیکٹ اور زیادہ سے زیادہ سالن کی آدھی دیگچی کھاتا ہوں۔ اس کے باوجود سب مجھے پیٹو کہہ کر چھیڑتے ہیں۔‘‘ امی، پیٹو میاں کا پیار سے منہ چومنے لگتیں اور کہتیں۔ ’’بڑے گندے ہیں وہ لوگ، جو میرے لعل کو پیٹو چھیڑتے ہیں۔ وہ تو میرے جاجی کو نظر لگا دیں گے۔‘‘
امی کے اس پیار پر پیٹو میاں معصوم نظروں سے سوال کرتے۔ ’’بڑی بھوک لگی ہوئی، امی، بس چینی کا ایک پراٹھا پکا دیجئے۔‘‘ اور اس طرح دن میں انہیں کئی بار چینی کا پراٹھا کھانے کو مل جاتا۔ ابا جان انہیں منع کرتے کہ چینی زیادہ نہ کھایا کرو، بیمار ہو جاؤگے۔ مگر پیٹو میاں سنی ان سنی کر دیتے اور جواب میں کہتے، ’’چین کے لوگ بھی تو چینی کھاتے ہیں، وہ کیوں بیمار نہیں ہوتے؟‘‘ زیادہ کھانے کی وجہ سے پیٹو میاں کو کلاس میں بیٹھے بیٹھے نیند آجاتی۔ وہ خرّاٹے لینے لگتے تو سارے لڑکے ہنسنے لگتے۔ ماسٹر جی کی بھی ہنسی نکل آتی اور پیٹو میاں گھر آکر امی، ابا سے کہتے کہ اسکول کے لڑکے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ امی نے ایک دن کہا کہ تم دن بہ دن موٹے ہوتے جارہے ہو، کھیلا کودا کرو، ٹھیک ہوجاگے۔ پیٹو میاں کی سمجھ میں یہ بات تو آگئی، مگر انہوں نے بار بار کھانے کی عادت کو ترک نہ کیا اور وہ پیٹو کے پیٹو رہے۔
ایک اتوار، پیٹو میاں کے ابّا نے گھر میں اپنے دوستوں کو ایک دعوت پر بلایا۔ وہ ہفتے کی رات ہی مٹھائی لے آئے تھے۔ یہ مٹھائی باورچی خانے کی الماری میں رکھی ہوئی تھی۔ پیٹو میاں کو اس کا علم ہو گیا۔ رات کے وقت جب سب میٹھی نیند سوئے ہوئے تھے، پیٹو میاں آرام سے بستر سے اٹھے اور سیدھے باورچی خانے میں پہنچ گئے۔ بتی بھی نہ جلائی کہ کہیں چوری نہ پکڑی جائے۔ انہوں نے جلدی جلدی میں پہلے برفی پر ہاتھ صاف کیے، پھر لڈو اور بالوشاہی کھائے۔ اسی دوران میں صابن کا ایک ٹکڑا بھی ہاتھ لگ گیا۔ پیٹو میاں اسے برفی سمجھ کر نگل گئے۔ جب انہیں تسلی ہوگئی کہ کلو بھر مٹھائی چٹ ہوگئی ہے، تو چپکے سے دوبارہ بستر پر آکر لیٹ گئے۔ ابھی آنکھ نہ لگی تھی کہ ان کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ پیٹ میں کچھ درد محسوس ہونے لگا۔ اور پھر ایک ایسی قے آئی کہ گھر کے سب لوگ جاگ پڑے۔ ابّا باورچی خانے سے ہاضمے کا چورن لینے گئے، تو مٹھائی کا ڈبہ خالی پڑا تھا۔ وہ ساری بات سمجھ گئے۔ پیٹو میاں کے پاس آکر پوچھنے لگے، تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں نے مٹھائی کھائی ہے۔ پیٹو میاں ہاضمے کے چورن سے ٹھیک نہ ہوسکے، رات بھر ان کی طبیعت خراب رہی۔ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر کو بلایا گیا، تو پتہ چلا کہ پیٹو میاں کہیں اندھیرے میں مٹھائی کے ساتھ صابن بھی کھا گئے ہیں۔ پیٹو میاں نے یہ سنا تو زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ ’’مجھے بچاؤ، میں کبھی چوری کی مٹھائی نہ کھاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اللہ سے دعا مانگی۔ انہیں چند روز میں آرام آگیا، اور انہوں نے چوری سے توبہ کر لی۔ پھر ایک روز پیٹو میاں دوستوں کے ساتھ چڑیوں کے شکار کو گئے، تو ایک مداری کا بھالو رسی تڑوا کر باغ میں پہنچ گیا۔ پیٹو میاں کے کچھ دوست تو بھاگ گئے اور باقی درخت پر چڑھ گئے۔ اب پیٹو میاں کی شامت آگئی۔ وہ درخت پر چڑھ نہ سکے۔ ان سے دوڑا بھی نہ جارہا تھا۔ وہ ہانپتے کانپتے ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گئے۔ اتنے میں لوگوں کا شور سنائی دیا۔ ’’دوڑو، پکڑو، جانے نہ پائے۔‘‘ پھر بندوق چلنے کی آواز آئی۔
پیٹو میاں نے جھاڑی کی اوٹ سے جھانکا، تو بھالو زخمی ہو کر زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ پیٹو میاں اکڑفوں دکھاتے ہوئے جھاڑی سے باہر نکلے۔ اس وقت تک بہت سے لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔
’’جان بچی، سو لاکھوں پائے‘‘ پیٹو میاں نے اللہ کا پھر شکر ادا کیا۔ گھر آکر نمازی پڑھی اور لگے دعائیں کرنے، ’’یا مولا، میرے موٹے پیٹ پر رحم کر‘‘ امی، پیٹو میاں کی زبانی یہ دعا سن کر ٹھہر گئیں اور بولیں: ’’تم اگر وعدہ کرو کہ کم کھایا کروگے، تو تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔‘‘
پیٹو میاں نے مصلے پر بیٹھ کر وعدہ کیا کہ وہ آئندہ سے بدپرہیزی نہیں کریں گے۔‘‘
وہ دن اور آج کا دن، پیٹو میاں اسکول سے کبھی نہیں بھاگے اور نہ ہی چڑیوں کا شکار کرنے جاتے ہیں، کم کھاتے ہیں اور کم بولتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی سکول سے چھٹی کرتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں اور یہ دعا ضرور مانگتے ہیں کہ ’’اللہ میاں میرے پیٹ کو چھوٹا کردے۔‘‘
سنا ہے کہ پیٹو میاں کی دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔
ان دنوں پیٹو میاں ہر وقت یہ نظم گاتے رہتے ہیں؎
توبہ توبہ دہائی
میں نہیں ہوں پیٹو بھائی
ہردم چرنا کام تھا میرا
اب کھاتا ہوں بس دودھ ملائی
لیکن پھر بھی حال وہی ہے
ڈھنگ وہی ہے چال وہی ہے
پیٹو میاں ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ آج کل انہیں یہ غم کھائے جارہا ہے کہ میں موٹا ہوں۔ اسی غم میں وہ اور بھی موٹے ہوتے جارہے ہیں۔
پیٹو میاں کی عمر تیرہ سال تھی۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ گھر سے اسکول جاتے اور ہفتے میں دو ایک بار سکول جانے کی بجائے راستے ہی میں نو دو گیارہ ہوجاتے۔ بلو اور کاکا کو ساتھ لیتے اور سیدھے باغ میں، غلیل سے چڑیوں کا شکار کرنے پہنچ جاتے۔ بیچاری چڑیوں کو بھون بھون کر کھانے میں انہیں خدا جانے کیا لطف آتا تھا۔
پیٹو میاں کو اپنے نام سے بہت چڑ تھی۔ جب کوئی انہیں پیٹو میاں کہہ کر بلاتا، اس سے ناراض ہوجاتے اور بعض اوقات لڑنے جھگڑنے اور مرنے مارنے پر اتر آتے۔ پھر خود ہی روتے ہوئے امی کے پاس چلے آتے اور کہتے ’’میں تو صرف آٹھ دس روٹیاں، بسکٹ کے تین چار ڈبے، ٹافیوں کا ایک عدد پیکٹ اور زیادہ سے زیادہ سالن کی آدھی دیگچی کھاتا ہوں۔ اس کے باوجود سب مجھے پیٹو کہہ کر چھیڑتے ہیں۔‘‘ امی، پیٹو میاں کا پیار سے منہ چومنے لگتیں اور کہتیں۔ ’’بڑے گندے ہیں وہ لوگ، جو میرے لعل کو پیٹو چھیڑتے ہیں۔ وہ تو میرے جاجی کو نظر لگا دیں گے۔‘‘
امی کے اس پیار پر پیٹو میاں معصوم نظروں سے سوال کرتے۔ ’’بڑی بھوک لگی ہوئی، امی، بس چینی کا ایک پراٹھا پکا دیجئے۔‘‘ اور اس طرح دن میں انہیں کئی بار چینی کا پراٹھا کھانے کو مل جاتا۔ ابا جان انہیں منع کرتے کہ چینی زیادہ نہ کھایا کرو، بیمار ہو جاؤگے۔ مگر پیٹو میاں سنی ان سنی کر دیتے اور جواب میں کہتے، ’’چین کے لوگ بھی تو چینی کھاتے ہیں، وہ کیوں بیمار نہیں ہوتے؟‘‘ زیادہ کھانے کی وجہ سے پیٹو میاں کو کلاس میں بیٹھے بیٹھے نیند آجاتی۔ وہ خرّاٹے لینے لگتے تو سارے لڑکے ہنسنے لگتے۔ ماسٹر جی کی بھی ہنسی نکل آتی اور پیٹو میاں گھر آکر امی، ابا سے کہتے کہ اسکول کے لڑکے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ امی نے ایک دن کہا کہ تم دن بہ دن موٹے ہوتے جارہے ہو، کھیلا کودا کرو، ٹھیک ہوجاگے۔ پیٹو میاں کی سمجھ میں یہ بات تو آگئی، مگر انہوں نے بار بار کھانے کی عادت کو ترک نہ کیا اور وہ پیٹو کے پیٹو رہے۔
ایک اتوار، پیٹو میاں کے ابّا نے گھر میں اپنے دوستوں کو ایک دعوت پر بلایا۔ وہ ہفتے کی رات ہی مٹھائی لے آئے تھے۔ یہ مٹھائی باورچی خانے کی الماری میں رکھی ہوئی تھی۔ پیٹو میاں کو اس کا علم ہو گیا۔ رات کے وقت جب سب میٹھی نیند سوئے ہوئے تھے، پیٹو میاں آرام سے بستر سے اٹھے اور سیدھے باورچی خانے میں پہنچ گئے۔ بتی بھی نہ جلائی کہ کہیں چوری نہ پکڑی جائے۔ انہوں نے جلدی جلدی میں پہلے برفی پر ہاتھ صاف کیے، پھر لڈو اور بالوشاہی کھائے۔ اسی دوران میں صابن کا ایک ٹکڑا بھی ہاتھ لگ گیا۔ پیٹو میاں اسے برفی سمجھ کر نگل گئے۔ جب انہیں تسلی ہوگئی کہ کلو بھر مٹھائی چٹ ہوگئی ہے، تو چپکے سے دوبارہ بستر پر آکر لیٹ گئے۔ ابھی آنکھ نہ لگی تھی کہ ان کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ پیٹ میں کچھ درد محسوس ہونے لگا۔ اور پھر ایک ایسی قے آئی کہ گھر کے سب لوگ جاگ پڑے۔ ابّا باورچی خانے سے ہاضمے کا چورن لینے گئے، تو مٹھائی کا ڈبہ خالی پڑا تھا۔ وہ ساری بات سمجھ گئے۔ پیٹو میاں کے پاس آکر پوچھنے لگے، تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں نے مٹھائی کھائی ہے۔ پیٹو میاں ہاضمے کے چورن سے ٹھیک نہ ہوسکے، رات بھر ان کی طبیعت خراب رہی۔ صبح ہوتے ہی ڈاکٹر کو بلایا گیا، تو پتہ چلا کہ پیٹو میاں کہیں اندھیرے میں مٹھائی کے ساتھ صابن بھی کھا گئے ہیں۔ پیٹو میاں نے یہ سنا تو زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ ’’مجھے بچاؤ، میں کبھی چوری کی مٹھائی نہ کھاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اللہ سے دعا مانگی۔ انہیں چند روز میں آرام آگیا، اور انہوں نے چوری سے توبہ کر لی۔ پھر ایک روز پیٹو میاں دوستوں کے ساتھ چڑیوں کے شکار کو گئے، تو ایک مداری کا بھالو رسی تڑوا کر باغ میں پہنچ گیا۔ پیٹو میاں کے کچھ دوست تو بھاگ گئے اور باقی درخت پر چڑھ گئے۔ اب پیٹو میاں کی شامت آگئی۔ وہ درخت پر چڑھ نہ سکے۔ ان سے دوڑا بھی نہ جارہا تھا۔ وہ ہانپتے کانپتے ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ گئے۔ اتنے میں لوگوں کا شور سنائی دیا۔ ’’دوڑو، پکڑو، جانے نہ پائے۔‘‘ پھر بندوق چلنے کی آواز آئی۔
پیٹو میاں نے جھاڑی کی اوٹ سے جھانکا، تو بھالو زخمی ہو کر زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ پیٹو میاں اکڑفوں دکھاتے ہوئے جھاڑی سے باہر نکلے۔ اس وقت تک بہت سے لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔
’’جان بچی، سو لاکھوں پائے‘‘ پیٹو میاں نے اللہ کا پھر شکر ادا کیا۔ گھر آکر نمازی پڑھی اور لگے دعائیں کرنے، ’’یا مولا، میرے موٹے پیٹ پر رحم کر‘‘ امی، پیٹو میاں کی زبانی یہ دعا سن کر ٹھہر گئیں اور بولیں: ’’تم اگر وعدہ کرو کہ کم کھایا کروگے، تو تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔‘‘
پیٹو میاں نے مصلے پر بیٹھ کر وعدہ کیا کہ وہ آئندہ سے بدپرہیزی نہیں کریں گے۔‘‘
وہ دن اور آج کا دن، پیٹو میاں اسکول سے کبھی نہیں بھاگے اور نہ ہی چڑیوں کا شکار کرنے جاتے ہیں، کم کھاتے ہیں اور کم بولتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی سکول سے چھٹی کرتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھتے ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں اور یہ دعا ضرور مانگتے ہیں کہ ’’اللہ میاں میرے پیٹ کو چھوٹا کردے۔‘‘
سنا ہے کہ پیٹو میاں کی دعا ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔
ان دنوں پیٹو میاں ہر وقت یہ نظم گاتے رہتے ہیں؎
توبہ توبہ دہائی
میں نہیں ہوں پیٹو بھائی
ہردم چرنا کام تھا میرا
اب کھاتا ہوں بس دودھ ملائی
لیکن پھر بھی حال وہی ہے
ڈھنگ وہی ہے چال وہی ہے
پیٹو میاں ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ آج کل انہیں یہ غم کھائے جارہا ہے کہ میں موٹا ہوں۔ اسی غم میں وہ اور بھی موٹے ہوتے جارہے ہیں۔
- एम-एस-नाज़
امجد بہت پیارا گول مٹول سا لڑکا تھا۔ وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ اپنا سبق فرفر سناتا تو اُستاد بہت خوش ہوتے۔ گھر میں اپنی امی کے کاموں میں مدد کرتا تو وہ خوش ہو کر اسے اپنے سینے سے چمٹا لیتیں۔ شام کو اس کے ابّا جان گھر آتے تو وہ دوڑ کر ان سے لپٹ جاتا۔
غرض ہر کوئی اس سے پیار کرتا تھا۔ کیونکہ وہ ماں باپ کا کہنا مانتا تھا۔ ان کا ادب کرتا تھا۔
ایک دن وہ باغ کی سیر کرنے گیا۔ جس وقت وہ باغ میں پہنچا، دُور دُور تک کوئی آدمی نہ تھا۔ ہر طرف پھول کھلے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ پھر پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔ جیسے کوئی بڑا سا پرندہ پھڑپھڑاتا ہو۔ امجد ڈر گیا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا لیکن کوئی پرندہ اسے نظر نہ آیا۔ ابھی وہ حیران ہی ہو رہا تھا کہ ایک بار یک سی آواز سنائی دی:
’’پیارے پیارے منے۔ تم حیران ہو کر چاروں طرف کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
امجد نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا لیکن دور اور نزدیک اسے کوئی نظر نہ آیا۔
آواز پھر آئی: ’’تم بہت اچھے ہو اور بہت پیارے ہو کیونکہ تمھاری عادتیں بہت اچھی ہیں۔‘‘
امجد ڈرنے لگا کہ یہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں۔ آخر اس نے ہمت کر کے پوچھا:
’’تم کون ہو، مجھے تو یہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘
’’میں تمھاری دوست ہوں۔ تم اپنے ماں باپ کا کہنا مانتے ہو، اسکول کا کام وقت پر کرتے ہو۔ کسی کو دُکھ نہیں دیتے، کیسی کو
تنگ نہیں کرتے۔ گندے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلتے۔ تم امجد ہو نا؟‘‘
’’ہاں، میں امجد ہوں مگر تم کون ہو؟‘‘
’’میں۔ میں ایک پری ہوں۔ یہ سبزپری ہے۔‘‘
سبزپری ’’امجد نے حیران ہو کر کہا۔
’’ہاں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں‘‘
’’مگر تم مجھے نظر کیوں نہیں آتیں؟‘‘
’’ایسا ہو سکتا ہے، لیکن تمھیں اس کے لیے ایک وعدہ کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ تم کسی سے میرا ذکر نہیں کرو گے‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
اسی وقت پھر ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ پیروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی۔ دوسرے ہی لمحے سبزپری اُڑتی ہوئی اس کے پاس آکر رک گئی۔ اس کا سارا جسم سبز تھا، صرف بال کالے تھے۔
’’تو تم ہو سبزپری‘‘ امجد نے کہا۔
ہاں! اور میں تمھاری دوست ہوں‘‘
’’کیا تم مجھے ہر روز اس جگہ ملنے آیا کروگی؟‘‘
’’ہاں اور تمھارے لیے اچھے اچھے پھل بھی لایا کروں گی۔‘‘ پری نے کہا۔
’’اس کی کیا ضرورت ہے، ابا جان مجھے ہر روز پھل لا کر دیتے ہیں۔‘‘
’’پرستان میں پھلوں کے لاکھوں درخت ہیں۔ وہ تمھارے ہاں کے پھلوں سے زیادہ مزے دار ہوں گے۔“
اچھا۔ پھر تو میں ضرور کھاؤں گا۔
اور میں تو تمھارے لیے آج بھی لائی ہوں۔ یہ دیکھو۔‘‘
امجد نے پری کے ہاتھ میں دوسیب دیکھے۔ یہ بالکل سرخ تھے۔ امجد نے ان میں سے ایک لے کر کہا:
’’ایک تم کھاؤ‘‘
دونوں سیب کھانے لگے۔
’’پری باجی، یہ سیب تو واقعی بہت مزے کا ہے۔‘‘ امجد خوش ہو کر بولا۔
’’کل میں تمھیں پرستان کا کیلا کھلاؤں گی۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔‘‘
ہوا کا جھونکا امجد کے چہرے سے ٹکرایا اور پری غائب ہوگئی۔
دوسرے دن وہ ٹھیک وقت پر باغ میں پہنچ گیا۔ آج یہاں کچھ اور لوگ بھی ٹہل رہے تھے۔ اس نے سوچا، شاید ان لوگوں کی موجودگی میں پری نہ آئے۔ لیکن جونہی وہ اس درخت کے نیچے پہنچا، ہوا کا جھونکا آیا اور پری اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
پری باجی! یہ دوسرے لوگ تمھیں دیکھ لیں گے۔ امجد نے گھبرا کر کہا۔
’’میں انھیں نظر نہیں آؤں گی۔‘‘
’’اچھا۔ یہ تو بڑے مزے کی بات ہے‘‘
’’میں تمھارے لیے دو کیلے لائی ہوں۔‘‘
امجد نے دیکھا، اس کے ہاتھ میں دو لمبے لمبے سبز رنگ کے کیلے تھے۔ دونوں نے ایک ایک کیلا کھایا۔
دن یونہی گزرتے رہے۔ وہ ہر روز پری سے ملتا رہا۔ ایک دن وہ پری سے ملنے کے لیے گھر سے نکلا۔ کچھ دُور ہی چلا ہو گا کہ سڑک پر ایک بوڑھی عورت کھڑی دکھائی دی۔ اس کے پیروں کے پاس ایک گٹھری پڑی تھی۔
بیٹا! ذرا یہ گٹھری تو اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو‘‘ وہ بولی۔
امجد رک گیا۔ اس نے بوڑھیا کو غور سے دیکھا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہی تھی۔ امجد کو اس پر رحم آگیا۔ وہ گٹھری اٹھانے کے لیے جھکا ہی تھا کہ اسے سبزپری کا خیال آگیا، اس نے سوچا اگر مجھے دیر ہوگئی تو پری چلی جائے گی اور میں مزے دار آڑو کھانے سے رہ جاؤں گا۔ آج پری نے آڑو لانے کا وعدہ کیا تھا۔
وہ بوڑھیا سے بولا: ’’بوڑھی اماں! مجھے ایک ضروری کام ہے، اس لیے میں تمھاری مدد نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ باغ میں وہ سیدھا اس درخت کے نیچے آیا لیکن آج نہ کوئی ہوا کا جھونکا آیا، نہ پروں کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ وہ گھبرا گیا۔
پریشان ہوکر بولا: ’’پری باجی! آج تم کہاں ہو۔ دیکھو تمھارا دوست آگیا ہے۔ وہ تمھیں پکار رہا ہے۔‘‘ اس نے خاموش ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ پری کا دُور دُور تک پتا نہ تھا۔ دو تین مرتبہ اس نے پری کو پکارا، لیکن کوئی بھی جواب نہ ملا۔ اب تو اس کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی۔ کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد بھی جب پری نہ آئی تو وہ اداس ہو گیا اور گھر لوٹ آیا۔
ساری رات اسے نیند نہ آئی۔ وہ سوچتا رہا۔ آج پری کیوں نہیں آئی۔ میں نے تو اس کے متعلق کسی کو بتایا بھی نہیں۔ کہیں وہ بیمار نہ ہو گئی ہو شاید اسے بخار ہوگیا ہو۔ یا پھر نزلہ زکام نہ ہوگیا ہو۔ ہو سکتا ہے اسے ٹھنڈ لگ گئی ہو اور نمونیہ ہو گیا ہو۔
رات بھر وہ سوچتا رہا پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوسرے دن وہ پھر مقررہ وقت پر باغ میں پہنچ گیا، لیکن پری اس دن بھی نہ آئی۔ پھر تین دن اسی طرح گزر گئے۔ چوتھے دن اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا اٹھے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مایوس ہوگیا۔
عین اسی وقت ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا، پروں کی آواز آئی۔ وہ خوش ہوگیا۔ اس کا چہرہ کھل اُٹھا۔ دوسرے ہی لمحے پری اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
’’پری باجی! تم چار دن کہاں رہیں۔‘‘ اس نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
’’میں تم سے ناراض ہوں۔‘‘ پری بولی۔
’’کیوں پری باجی! میں نے تو کسی سے آپ کا ذکر تک نہیں کیا۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے، لیکن کیا تم جانتے ہو، اس دنیا میں سب سے بڑی نیکی کیا ہے۔ دوسری کے کام آنا۔ اس دنیا کے سردار پیارے نبی حضرت محمدؐ بھی دوسروں کے کام آیا کرتے تھے۔ وہ بوڑھی عورتوں کا بوجھ خود اٹھا لیا کرتے تھے، اور تم .... تم نے چند آڑوؤں کی خاطر اس بوڑھی عورت کی مدد نہیں کی۔‘‘
’’اوہ!‘‘ امجد کے منہ سے نکلا۔ اب اسے پری کے نہ آنے کی وجہ معلوم ہوئی۔
’’جب میں نے دیکھا کہ تم نے بوڑھی عورت کی مدد نہیں کی تو میں تم سے ناراض ہوگئی اور اس لیے تمھارے پاس نہیں آئی۔‘‘
’’پری باجی! مجھے معاف کر دو مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔ اب ایسی غلطی مجھ سے کبھی نہیں ہوگی۔ میں ہمیشہ دوسروں کے کام آؤں گا۔ غریبوں، یتیموں اور بوڑھوں کے کام آؤں گا۔‘‘
امجد بولا۔
’’شاباش! اب ہم پھر دوست ہیں۔ میں تمھیں بتاؤں، وہ بوڑھیا میں ہی تھی اور تمھارا امتحان لینا چاہتی تھی۔‘‘
امجد سبزپری کی بات سن کر حیران رہ گیا۔
غرض ہر کوئی اس سے پیار کرتا تھا۔ کیونکہ وہ ماں باپ کا کہنا مانتا تھا۔ ان کا ادب کرتا تھا۔
ایک دن وہ باغ کی سیر کرنے گیا۔ جس وقت وہ باغ میں پہنچا، دُور دُور تک کوئی آدمی نہ تھا۔ ہر طرف پھول کھلے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ پھر پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔ جیسے کوئی بڑا سا پرندہ پھڑپھڑاتا ہو۔ امجد ڈر گیا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا لیکن کوئی پرندہ اسے نظر نہ آیا۔ ابھی وہ حیران ہی ہو رہا تھا کہ ایک بار یک سی آواز سنائی دی:
’’پیارے پیارے منے۔ تم حیران ہو کر چاروں طرف کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
امجد نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا لیکن دور اور نزدیک اسے کوئی نظر نہ آیا۔
آواز پھر آئی: ’’تم بہت اچھے ہو اور بہت پیارے ہو کیونکہ تمھاری عادتیں بہت اچھی ہیں۔‘‘
امجد ڈرنے لگا کہ یہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں۔ آخر اس نے ہمت کر کے پوچھا:
’’تم کون ہو، مجھے تو یہاں کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘
’’میں تمھاری دوست ہوں۔ تم اپنے ماں باپ کا کہنا مانتے ہو، اسکول کا کام وقت پر کرتے ہو۔ کسی کو دُکھ نہیں دیتے، کیسی کو
تنگ نہیں کرتے۔ گندے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلتے۔ تم امجد ہو نا؟‘‘
’’ہاں، میں امجد ہوں مگر تم کون ہو؟‘‘
’’میں۔ میں ایک پری ہوں۔ یہ سبزپری ہے۔‘‘
سبزپری ’’امجد نے حیران ہو کر کہا۔
’’ہاں مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں‘‘
’’مگر تم مجھے نظر کیوں نہیں آتیں؟‘‘
’’ایسا ہو سکتا ہے، لیکن تمھیں اس کے لیے ایک وعدہ کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ تم کسی سے میرا ذکر نہیں کرو گے‘‘
’’میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
اسی وقت پھر ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا۔ پیروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی۔ دوسرے ہی لمحے سبزپری اُڑتی ہوئی اس کے پاس آکر رک گئی۔ اس کا سارا جسم سبز تھا، صرف بال کالے تھے۔
’’تو تم ہو سبزپری‘‘ امجد نے کہا۔
ہاں! اور میں تمھاری دوست ہوں‘‘
’’کیا تم مجھے ہر روز اس جگہ ملنے آیا کروگی؟‘‘
’’ہاں اور تمھارے لیے اچھے اچھے پھل بھی لایا کروں گی۔‘‘ پری نے کہا۔
’’اس کی کیا ضرورت ہے، ابا جان مجھے ہر روز پھل لا کر دیتے ہیں۔‘‘
’’پرستان میں پھلوں کے لاکھوں درخت ہیں۔ وہ تمھارے ہاں کے پھلوں سے زیادہ مزے دار ہوں گے۔“
اچھا۔ پھر تو میں ضرور کھاؤں گا۔
اور میں تو تمھارے لیے آج بھی لائی ہوں۔ یہ دیکھو۔‘‘
امجد نے پری کے ہاتھ میں دوسیب دیکھے۔ یہ بالکل سرخ تھے۔ امجد نے ان میں سے ایک لے کر کہا:
’’ایک تم کھاؤ‘‘
دونوں سیب کھانے لگے۔
’’پری باجی، یہ سیب تو واقعی بہت مزے کا ہے۔‘‘ امجد خوش ہو کر بولا۔
’’کل میں تمھیں پرستان کا کیلا کھلاؤں گی۔ اچھا اب میں چلتی ہوں۔‘‘
ہوا کا جھونکا امجد کے چہرے سے ٹکرایا اور پری غائب ہوگئی۔
دوسرے دن وہ ٹھیک وقت پر باغ میں پہنچ گیا۔ آج یہاں کچھ اور لوگ بھی ٹہل رہے تھے۔ اس نے سوچا، شاید ان لوگوں کی موجودگی میں پری نہ آئے۔ لیکن جونہی وہ اس درخت کے نیچے پہنچا، ہوا کا جھونکا آیا اور پری اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
پری باجی! یہ دوسرے لوگ تمھیں دیکھ لیں گے۔ امجد نے گھبرا کر کہا۔
’’میں انھیں نظر نہیں آؤں گی۔‘‘
’’اچھا۔ یہ تو بڑے مزے کی بات ہے‘‘
’’میں تمھارے لیے دو کیلے لائی ہوں۔‘‘
امجد نے دیکھا، اس کے ہاتھ میں دو لمبے لمبے سبز رنگ کے کیلے تھے۔ دونوں نے ایک ایک کیلا کھایا۔
دن یونہی گزرتے رہے۔ وہ ہر روز پری سے ملتا رہا۔ ایک دن وہ پری سے ملنے کے لیے گھر سے نکلا۔ کچھ دُور ہی چلا ہو گا کہ سڑک پر ایک بوڑھی عورت کھڑی دکھائی دی۔ اس کے پیروں کے پاس ایک گٹھری پڑی تھی۔
بیٹا! ذرا یہ گٹھری تو اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو‘‘ وہ بولی۔
امجد رک گیا۔ اس نے بوڑھیا کو غور سے دیکھا۔ وہ بُری طرح ہانپ رہی تھی۔ امجد کو اس پر رحم آگیا۔ وہ گٹھری اٹھانے کے لیے جھکا ہی تھا کہ اسے سبزپری کا خیال آگیا، اس نے سوچا اگر مجھے دیر ہوگئی تو پری چلی جائے گی اور میں مزے دار آڑو کھانے سے رہ جاؤں گا۔ آج پری نے آڑو لانے کا وعدہ کیا تھا۔
وہ بوڑھیا سے بولا: ’’بوڑھی اماں! مجھے ایک ضروری کام ہے، اس لیے میں تمھاری مدد نہیں کر سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ باغ میں وہ سیدھا اس درخت کے نیچے آیا لیکن آج نہ کوئی ہوا کا جھونکا آیا، نہ پروں کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔ وہ گھبرا گیا۔
پریشان ہوکر بولا: ’’پری باجی! آج تم کہاں ہو۔ دیکھو تمھارا دوست آگیا ہے۔ وہ تمھیں پکار رہا ہے۔‘‘ اس نے خاموش ہو کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ پری کا دُور دُور تک پتا نہ تھا۔ دو تین مرتبہ اس نے پری کو پکارا، لیکن کوئی بھی جواب نہ ملا۔ اب تو اس کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی۔ کافی دیر تک انتظار کرنے کے بعد بھی جب پری نہ آئی تو وہ اداس ہو گیا اور گھر لوٹ آیا۔
ساری رات اسے نیند نہ آئی۔ وہ سوچتا رہا۔ آج پری کیوں نہیں آئی۔ میں نے تو اس کے متعلق کسی کو بتایا بھی نہیں۔ کہیں وہ بیمار نہ ہو گئی ہو شاید اسے بخار ہوگیا ہو۔ یا پھر نزلہ زکام نہ ہوگیا ہو۔ ہو سکتا ہے اسے ٹھنڈ لگ گئی ہو اور نمونیہ ہو گیا ہو۔
رات بھر وہ سوچتا رہا پھر نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوسرے دن وہ پھر مقررہ وقت پر باغ میں پہنچ گیا، لیکن پری اس دن بھی نہ آئی۔ پھر تین دن اسی طرح گزر گئے۔ چوتھے دن اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا اٹھے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مایوس ہوگیا۔
عین اسی وقت ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے چہرے سے ٹکرایا، پروں کی آواز آئی۔ وہ خوش ہوگیا۔ اس کا چہرہ کھل اُٹھا۔ دوسرے ہی لمحے پری اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔
’’پری باجی! تم چار دن کہاں رہیں۔‘‘ اس نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
’’میں تم سے ناراض ہوں۔‘‘ پری بولی۔
’’کیوں پری باجی! میں نے تو کسی سے آپ کا ذکر تک نہیں کیا۔‘‘
’’یہ ٹھیک ہے، لیکن کیا تم جانتے ہو، اس دنیا میں سب سے بڑی نیکی کیا ہے۔ دوسری کے کام آنا۔ اس دنیا کے سردار پیارے نبی حضرت محمدؐ بھی دوسروں کے کام آیا کرتے تھے۔ وہ بوڑھی عورتوں کا بوجھ خود اٹھا لیا کرتے تھے، اور تم .... تم نے چند آڑوؤں کی خاطر اس بوڑھی عورت کی مدد نہیں کی۔‘‘
’’اوہ!‘‘ امجد کے منہ سے نکلا۔ اب اسے پری کے نہ آنے کی وجہ معلوم ہوئی۔
’’جب میں نے دیکھا کہ تم نے بوڑھی عورت کی مدد نہیں کی تو میں تم سے ناراض ہوگئی اور اس لیے تمھارے پاس نہیں آئی۔‘‘
’’پری باجی! مجھے معاف کر دو مجھ سے بڑی بھول ہوئی۔ اب ایسی غلطی مجھ سے کبھی نہیں ہوگی۔ میں ہمیشہ دوسروں کے کام آؤں گا۔ غریبوں، یتیموں اور بوڑھوں کے کام آؤں گا۔‘‘
امجد بولا۔
’’شاباش! اب ہم پھر دوست ہیں۔ میں تمھیں بتاؤں، وہ بوڑھیا میں ہی تھی اور تمھارا امتحان لینا چاہتی تھی۔‘‘
امجد سبزپری کی بات سن کر حیران رہ گیا۔
- इशतियाक़-अहमद
گھر کے کباڑ خانے میں بلیوں کی کانفرنس ہو رہی تھی۔ تمام بلیاں اس طرح ایک گول دائرے میں بیٹھی تھیں جیسے کسی گول میز کانفرنس میں شرکت کر رہی ہوں۔ بیٹھنے سے پہلے ان سب نے اپنی اپنی دم سے اپنی جگہ بھی صاف کی تھی۔ لکڑی کی ایک ٹوٹی کرسی پر اس وقت ایک بوڑھی بلی بیٹھی تھی۔ یہ بی حجّن تھی۔ تمام بلیاں اسے اسی نام سے پکارتی تھیں کیونکہ اس کے متعلق مشہور تھا کہ نو سو چوہے کھانے کے بعد حج کو گئی تھی۔
اچانک اس نے اپنا بازو اٹھا کر مُکے کی شکل میں لہرایا اور بلند آواز میں بولی: ’’یہ تو تم سب کو معلوم ہی ہے کہ ہم یہاں کس لیے جمع ہوئے ہیں۔ اس گھر کے رہنے والے اب ہم پر ظلم کرنے لگے ہیں کسی کی دم پر پاؤں رکھ دیتے ہیں تو کسی پر لکڑی یا پتھر اٹھا مارتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اس گھر پر چوہوں کی حکومت تھی۔ ہر طرف چوہے ہی چوہے تھے۔ باورچی خانے کے ہر کونے میں چوہے، گھر کی الماریوں میں چوہے، کھانے پینے کی چیزوں میں چوہے۔ یہاں تک کہ سوتے وقت ان لوگوں کے بستروں میں گھر کر چوہے لحافوں کے مزے بھی لیا کرتے تھے۔ آخر جب گھر والے بالکل ہی تنگ آگئے تو انہوں نے ایک بلی پالنے کی سوچی۔ اس کام پر منے میاں کو لگایا گیا۔ منے میاں ایک گلی میں سے گزرے۔ اس گلی میں ایک ٹوٹا پھوٹا مکان تھا جس میں میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ منے میاں کی نظر مجھ پر پڑی تو جھٹ مجھے اٹھا لیا۔ میں بہت گھبرائی مگر کیا کرسکتی تھی۔ ابھی بہت چھوٹی تھی نہ پنجے مار سکتی تھی نہ بھاگ سکتی تھی۔ منے میاں مجھے اس گھر میں لے آئے اور میں نے یہاں چوہوں کا ایک لشکر عظیم دیکھا۔ اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر میں گھبرا گئی کیونکہ ابھی تو میں دودھ پیتی بچی تھی۔ میں بھلا کیا چوہے کھاتی۔ پھر بھی اتنا ہوا کہ میری آواز سن کر چوہے ادھر سے ادھر بھاگ جاتے اور بلوں میں سے منہ نکال نکال کر مجھے دیکھتے رہتے۔ رفتہ رفتہ میں بڑی ہوتی گئی اور چوہوں کا شکار کرنے لگی۔ اب تو چوہے مجھ سے خوب ڈرنے لگے۔ ایک دن کیا ہوا، مجھے دیکھ کر بلی کے دو تین بچے اور اس گھر میں آکر رہنے لگے۔ اب تو روز بروز ہماری تعداد بڑھنے لگی اور چوہوں کی تعداد کم ہونے اب ہم اس گھر میں خوب اچھل کود مچانے لگے۔ ہماری تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔ پہلے پہل تو گھر کے لوگ خوش ہوتے رہے کیونکہ چوہے غائب ہوتے جارہے تھے اور ان کو ہماری وجہ سے بہت سکون ہوگیا تھا۔ جب ہماری تعداد بہت زیادہ ہوگئی تو ہم نے رہنے کے لئے اس کباڑخانے کو چن لیا۔ رات کو یہاں رہنے لگے اور دن میں سارے گھر میں اچھلتے کودتے پھرتے۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ ہماری تعداد بڑھ رہی تھی۔ آخر ایک دن ہم نے چوہوں کی فوج کا مکمل طور پر صفایا کردیا، اب گھر میں کوئی چوہا باقی نہ بچا تھا۔
جس دن اس گھر کا آخری چوہا بھی ہماری خوراک بن گیا تو ہم نے اس گھر کے اسی کمرے میں جشن منایا اس جشن میں ہم نے اپنے بچوں کی آپس میں شادیاں کردیں اس دن ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ پھر ایسا کہ ہماری تعداد اور بھی بڑھ گئی اور اب یہ اضافہ ہی ہمارے لئے مصیبت بن گیا ہے۔ گھر والے کھانے کی تمام چیزیں تالوں میں رکھتے ہیں ہمیں کچھ کھانے کو نہیں دیتے۔ اگر کبھی اتفاق سے کھانے کی کوئی چیز ہم میں سے کسی کے ہاتھ لگ جائے تو اسے لکڑیوں سے پیٹا جاتا ہے یا دم سے پکڑ کر ہوا میں جھلایا جاتا ہے۔ ان گھر والوں کے اس ظلم کے خلاف آج ہم سب یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ ہمیں کھانے کو کچھ نہیں دیتے تو نہ سہی ہم خود کھانے کی چیزیں حاصل کریں گے۔ اس فیصلے کے بعد ہم گھر کی چیزوں پر ٹوٹ پڑے تھے اور خوب جی بھر کر چیزیں کھائیں تھیں، لیکن نتیجہ کیا نکلا۔ کسی کی ٹانگ توڑ دی گئی تو کسی کو بوری میں بند کر کے دریا پار چھوڑ دیا گیا۔ مس بھوری تم کھڑی ہو جاؤ اور سب کو چل کے دکھاؤ‘‘
ایک بھوری بلی اٹھ کھڑی ہوئی اور ان سب کو چل کر دکھایا۔ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور وہ بری طرح لنگڑا رہی تھی۔
’’اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے دودھ کی دیگچی میں سے دو تین گھونٹ دودھ پی لیا تھا۔ اسی وقت منے میاں ادھر آنکلے۔ انہوں نے لکڑی اٹھائی اور اس کی ٹانگوں پر دے ماری۔ کتنے احسان فراموش ہیں یہ انسان اور ان کے بچے یہ ہمارے اس احسان کو بالکل ہی بھول گئے ہیں، جو ہم نے چوہوں کو کھا کر ان پر کیا ہے، یہ وہ دن بھول گئے جب اس گھر میں ہر طرف چوہے ہی چوہے ہوتے تھے اور ان کی راتوں کی نیند حرام ہوچکی تھی۔ سوتے میں چوہے ان کے اوپر اچھلتے کودتے تھے۔ آج ہم نے انہیں ان سے چھٹکارا دلا دیا ہے تو انہوں نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں آخر کس لیے۔ صرف اس لئے کہ ہمارے بچے بہت ہوگئے ہیں، لیکن خود ان کے کتنے بچے ہیں۔ سارے گھر میں بچے ہی بچے بھرے پڑے ہیں۔ آخر ہمیں بھی بچوں سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ انہیں۔ پھر یہ کیوں ہماری جان کے دشمن بن گئے ہیں اور کیا تم سب کو معلوم ہے کہ گھر والوں نے ہمارے خلاف ایک ہی ترکیب سوچی ہے۔‘‘ بی حجّن یہ کہہ کر خاموش ہوگئی اور تمام بلیوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ سب ایک ساتھ بول اٹھیں:
’’نئی ترکیب، آخر وہ کیا ہے اور ہمیں اس کا پتا کیوں نہیں چلا۔‘‘
’’یہ کل رات کی بات ہے، تم سب کو تو سونے کی پڑی رہتی ہے، صرف میں جاگ کر اللہ اللہ کر رہی تھی کہ میرے کانوں میں منے کے ابا کی آواز پڑی وہ کہہ رہے تھے ان بلیوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب ہم گھر میں شکاری کتا پالیں گے جو ان سب بلیوں کو بھگا دے گا یا چٹ کر جائے گا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ سب بلیاں خوف سے چلا اٹھیں۔ ان کی آنکھوں میں خوف سما گیا اور وہ تھرتھرکانپنے لگیں۔
’’کانپنے اور ڈرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں تو کہتی ہوں، اس سے پہلے کہ اس گھر میں کتا آئے، گھر کی ساری چیزوں کو درہم برہم کردو، الٹ پلٹ دو۔ ہر طرف تباہی مچا دو۔ تمہارے ساتھ آج تک جو ناانصافیاں ہوئی ہیں اورؤ ہو رہی ہیں، ان کا انتقام لو۔‘‘
’’لیکن اس کا کیا فائدہ۔‘‘ ایک عقل مند بلے نے کہا۔ ’’ہم نے اس گھر کا برسوں نمک کھایا ہے، ہم نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘
’’ہاں ہاں، ہم نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘
’’تو پھر اس گھر سے نکلنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔‘‘ بی حجّن نے کہا۔
’’ہاں ہم اس گھر سے چلے جائیں گے لیکن نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘
اسی وقت گھر میں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ آواز اسی طرف بڑھتی آرہی تھی۔ ان کے رنگ اڑ گئے وہ سب تھرتھر کانپنے لگیں۔
’’لو، آخر وہ کتّا لے ہی آئے۔‘‘
اچانک دروازہ کھلا اور ایک خوفناک شکل کا کتّا ان کی طرف جھپٹا۔ تما بلیاں بدحواسی کے عالم میں ادھر بھاگنے لگیں۔ وہ دیوار پھلانگ کر گلی میں کود رہی تھیں۔ سب سے آخر میں بی حجّن دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہوئی۔ وہ منے سے بولی جو کتے کی زنجیر تھامے ہوئے تھا: ’’منے میاں ہم تو جارہے ہیں، لیکن ایک دن آئے گا جب تمہیں اس برے سلوک کا افسوس ہوگا۔ اچھا خدا حافظ‘‘
اچانک اس نے اپنا بازو اٹھا کر مُکے کی شکل میں لہرایا اور بلند آواز میں بولی: ’’یہ تو تم سب کو معلوم ہی ہے کہ ہم یہاں کس لیے جمع ہوئے ہیں۔ اس گھر کے رہنے والے اب ہم پر ظلم کرنے لگے ہیں کسی کی دم پر پاؤں رکھ دیتے ہیں تو کسی پر لکڑی یا پتھر اٹھا مارتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اس گھر پر چوہوں کی حکومت تھی۔ ہر طرف چوہے ہی چوہے تھے۔ باورچی خانے کے ہر کونے میں چوہے، گھر کی الماریوں میں چوہے، کھانے پینے کی چیزوں میں چوہے۔ یہاں تک کہ سوتے وقت ان لوگوں کے بستروں میں گھر کر چوہے لحافوں کے مزے بھی لیا کرتے تھے۔ آخر جب گھر والے بالکل ہی تنگ آگئے تو انہوں نے ایک بلی پالنے کی سوچی۔ اس کام پر منے میاں کو لگایا گیا۔ منے میاں ایک گلی میں سے گزرے۔ اس گلی میں ایک ٹوٹا پھوٹا مکان تھا جس میں میں اپنی ماں کے ساتھ رہتی تھی۔ منے میاں کی نظر مجھ پر پڑی تو جھٹ مجھے اٹھا لیا۔ میں بہت گھبرائی مگر کیا کرسکتی تھی۔ ابھی بہت چھوٹی تھی نہ پنجے مار سکتی تھی نہ بھاگ سکتی تھی۔ منے میاں مجھے اس گھر میں لے آئے اور میں نے یہاں چوہوں کا ایک لشکر عظیم دیکھا۔ اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر میں گھبرا گئی کیونکہ ابھی تو میں دودھ پیتی بچی تھی۔ میں بھلا کیا چوہے کھاتی۔ پھر بھی اتنا ہوا کہ میری آواز سن کر چوہے ادھر سے ادھر بھاگ جاتے اور بلوں میں سے منہ نکال نکال کر مجھے دیکھتے رہتے۔ رفتہ رفتہ میں بڑی ہوتی گئی اور چوہوں کا شکار کرنے لگی۔ اب تو چوہے مجھ سے خوب ڈرنے لگے۔ ایک دن کیا ہوا، مجھے دیکھ کر بلی کے دو تین بچے اور اس گھر میں آکر رہنے لگے۔ اب تو روز بروز ہماری تعداد بڑھنے لگی اور چوہوں کی تعداد کم ہونے اب ہم اس گھر میں خوب اچھل کود مچانے لگے۔ ہماری تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔ پہلے پہل تو گھر کے لوگ خوش ہوتے رہے کیونکہ چوہے غائب ہوتے جارہے تھے اور ان کو ہماری وجہ سے بہت سکون ہوگیا تھا۔ جب ہماری تعداد بہت زیادہ ہوگئی تو ہم نے رہنے کے لئے اس کباڑخانے کو چن لیا۔ رات کو یہاں رہنے لگے اور دن میں سارے گھر میں اچھلتے کودتے پھرتے۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ ہماری تعداد بڑھ رہی تھی۔ آخر ایک دن ہم نے چوہوں کی فوج کا مکمل طور پر صفایا کردیا، اب گھر میں کوئی چوہا باقی نہ بچا تھا۔
جس دن اس گھر کا آخری چوہا بھی ہماری خوراک بن گیا تو ہم نے اس گھر کے اسی کمرے میں جشن منایا اس جشن میں ہم نے اپنے بچوں کی آپس میں شادیاں کردیں اس دن ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ پھر ایسا کہ ہماری تعداد اور بھی بڑھ گئی اور اب یہ اضافہ ہی ہمارے لئے مصیبت بن گیا ہے۔ گھر والے کھانے کی تمام چیزیں تالوں میں رکھتے ہیں ہمیں کچھ کھانے کو نہیں دیتے۔ اگر کبھی اتفاق سے کھانے کی کوئی چیز ہم میں سے کسی کے ہاتھ لگ جائے تو اسے لکڑیوں سے پیٹا جاتا ہے یا دم سے پکڑ کر ہوا میں جھلایا جاتا ہے۔ ان گھر والوں کے اس ظلم کے خلاف آج ہم سب یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر یہ لوگ ہمیں کھانے کو کچھ نہیں دیتے تو نہ سہی ہم خود کھانے کی چیزیں حاصل کریں گے۔ اس فیصلے کے بعد ہم گھر کی چیزوں پر ٹوٹ پڑے تھے اور خوب جی بھر کر چیزیں کھائیں تھیں، لیکن نتیجہ کیا نکلا۔ کسی کی ٹانگ توڑ دی گئی تو کسی کو بوری میں بند کر کے دریا پار چھوڑ دیا گیا۔ مس بھوری تم کھڑی ہو جاؤ اور سب کو چل کے دکھاؤ‘‘
ایک بھوری بلی اٹھ کھڑی ہوئی اور ان سب کو چل کر دکھایا۔ اس کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور وہ بری طرح لنگڑا رہی تھی۔
’’اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے دودھ کی دیگچی میں سے دو تین گھونٹ دودھ پی لیا تھا۔ اسی وقت منے میاں ادھر آنکلے۔ انہوں نے لکڑی اٹھائی اور اس کی ٹانگوں پر دے ماری۔ کتنے احسان فراموش ہیں یہ انسان اور ان کے بچے یہ ہمارے اس احسان کو بالکل ہی بھول گئے ہیں، جو ہم نے چوہوں کو کھا کر ان پر کیا ہے، یہ وہ دن بھول گئے جب اس گھر میں ہر طرف چوہے ہی چوہے ہوتے تھے اور ان کی راتوں کی نیند حرام ہوچکی تھی۔ سوتے میں چوہے ان کے اوپر اچھلتے کودتے تھے۔ آج ہم نے انہیں ان سے چھٹکارا دلا دیا ہے تو انہوں نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں آخر کس لیے۔ صرف اس لئے کہ ہمارے بچے بہت ہوگئے ہیں، لیکن خود ان کے کتنے بچے ہیں۔ سارے گھر میں بچے ہی بچے بھرے پڑے ہیں۔ آخر ہمیں بھی بچوں سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ انہیں۔ پھر یہ کیوں ہماری جان کے دشمن بن گئے ہیں اور کیا تم سب کو معلوم ہے کہ گھر والوں نے ہمارے خلاف ایک ہی ترکیب سوچی ہے۔‘‘ بی حجّن یہ کہہ کر خاموش ہوگئی اور تمام بلیوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ سب ایک ساتھ بول اٹھیں:
’’نئی ترکیب، آخر وہ کیا ہے اور ہمیں اس کا پتا کیوں نہیں چلا۔‘‘
’’یہ کل رات کی بات ہے، تم سب کو تو سونے کی پڑی رہتی ہے، صرف میں جاگ کر اللہ اللہ کر رہی تھی کہ میرے کانوں میں منے کے ابا کی آواز پڑی وہ کہہ رہے تھے ان بلیوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اب ہم گھر میں شکاری کتا پالیں گے جو ان سب بلیوں کو بھگا دے گا یا چٹ کر جائے گا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ سب بلیاں خوف سے چلا اٹھیں۔ ان کی آنکھوں میں خوف سما گیا اور وہ تھرتھرکانپنے لگیں۔
’’کانپنے اور ڈرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں تو کہتی ہوں، اس سے پہلے کہ اس گھر میں کتا آئے، گھر کی ساری چیزوں کو درہم برہم کردو، الٹ پلٹ دو۔ ہر طرف تباہی مچا دو۔ تمہارے ساتھ آج تک جو ناانصافیاں ہوئی ہیں اورؤ ہو رہی ہیں، ان کا انتقام لو۔‘‘
’’لیکن اس کا کیا فائدہ۔‘‘ ایک عقل مند بلے نے کہا۔ ’’ہم نے اس گھر کا برسوں نمک کھایا ہے، ہم نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘
’’ہاں ہاں، ہم نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘
’’تو پھر اس گھر سے نکلنے کے لئے تیار ہوجاؤ۔‘‘ بی حجّن نے کہا۔
’’ہاں ہم اس گھر سے چلے جائیں گے لیکن نمک حرامی نہیں کریں گے۔‘‘
اسی وقت گھر میں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ آواز اسی طرف بڑھتی آرہی تھی۔ ان کے رنگ اڑ گئے وہ سب تھرتھر کانپنے لگیں۔
’’لو، آخر وہ کتّا لے ہی آئے۔‘‘
اچانک دروازہ کھلا اور ایک خوفناک شکل کا کتّا ان کی طرف جھپٹا۔ تما بلیاں بدحواسی کے عالم میں ادھر بھاگنے لگیں۔ وہ دیوار پھلانگ کر گلی میں کود رہی تھیں۔ سب سے آخر میں بی حجّن دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہوئی۔ وہ منے سے بولی جو کتے کی زنجیر تھامے ہوئے تھا: ’’منے میاں ہم تو جارہے ہیں، لیکن ایک دن آئے گا جب تمہیں اس برے سلوک کا افسوس ہوگا۔ اچھا خدا حافظ‘‘
- इशतियाक़-अहमद
راج محل ہوٹل شہر کا سب سے بڑا اور عالیشان ہوٹل تھا۔ اس کے ہر فرش پر بڑے قیمتی قالین بچھے تھے اور چھتوں میں خوشنما فانوس لٹکے ہوئے تھے۔ میز کرسیاں اور کھانے پینے کے برتن بھی بڑے صاف ستھرے اور اعلیٰ درجے کے تھے۔ ہر روز چار سے پانچ بجے کے درمیان وہاں شہر کے بڑے امیر لوگ چائے پینے آتے تھے۔ کیونکہ غریب لوگ تو اس ہوٹل میں جاہی نہیں سکتے تھے۔ اس ہوٹل کے بڑے ہال میں جہاں بڑے لوگ بیٹھ کر چائے پیتے تھے غل مچانا منع تھا اور نہ بدتمیزی کی کوئی بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کیونکہ بڑے لوگ نہ تو غل مچانے کو اچھا سمجھتے تھے اور نہ کسی قسم کی بدتمیزی کو-
اس ہوٹل میں بہت سے بیرے ملازم تھے جو الغو کے نیچے کام کرتے تھے کیونکہ وہ ان سب سے بڑا بیرا تھا۔
ایک دن جبکہ ہوٹل کے بڑے ہال میں بڑے لوگ چائے پینے کے لئے جمع تھے۔ بیرے بڑی جلدی میں ادھر ادھر آجارہے تھے۔ مہمانوں سے آرڈر لے رہے تھے۔ چائے اور اس کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں میزوں پر لگا رہے تھے اور الغو ایک طرف دیکھ رہا تھا کہ کوئی بیرا اپنا کام سستی سے تو نہیں کررہا۔ مگر وہ سب اپنا اپنا کام ٹھیک ٹھیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک طرف سے شور سنائی دیا اور ایک بڑی ہی بھونڈی آواز آئی:
’’اے بیرا! کیا میرے لئے چائے نہیں لاؤگے؟‘‘
سب حیران ہو کر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ کون ہے جو محفل کے آداب سے بھی واقف نہیں۔ جو یہ بھی نہیں جانتا، کہ تہذیب والے لوگوں میں بیٹھ کر ایسے نہیں کسی کو بلایا کرتے۔ اور پھر یہ دیکھ کر کہ وہ کون ہے، سب کے پاؤں میں ڈر سے جوتے ڈھیلے پڑ گئے۔ کانپتے ہوئے ہر کوئی اپنی اپنی کرسی میں دبک گیا۔ مرد بھی اور عورتیں بھی۔ الغو آنکھیں جھپکتے ہوئے بڑے غور سے ادھر دیکھ رہا تھا۔ کہ خدا کی زمین پر یہ کیا ہے یہ کون ہے؟ کھڑکی کے قریب میز پر ایک خوفناک کتّا بیٹھا تھا اور سفید رومال اس کی گردن سے بندھا تھا جو کوئی چیز کھاتے وقت استعمال کرتے ہیں۔ الغو غصے میں کھڑکی کی طرف بڑھا اور پوچھا:
’’تم کون ہو؟‘‘
’’اوہ، آداب عرض۔ مجھے خوشی ہے کہ تم کو میرا بھی کچھ خیال آیا۔ اب میں چائے کا آرڈر دے سکوں گا۔‘‘ کتّے نے کہا۔
’’میں پوچھتا ہوں تم کون ہو؟‘‘ الغو نے پھر وہی سوال کیا۔
’’اوہ! بھئی عجیب سوال ہے۔ کیا تم نہیں جانتے، میں ٹنکو ہوں۔ کتّوں کی نمائش میں دوبار خوبصورتی کا انعام لے چکا ہوں۔ اس شہر کا ہر شخص مجھ کو جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے تو تمہیں خدا سمجھے۔‘‘
’’سمجھ گیا۔‘‘ الغو نےمسکرا کر کہا۔ ’’میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں ٹنکو صاحب یہاں کیوں تشریف لائے ہیں؟‘‘
’’دوپہر کی چائے میں ہمیشہ کسی اچھی جگہ پینا پسند کرتا ہوں۔ آج اتوار ہے، میں نے سوچا چلو آج اس شہر کے سب سے بڑے ہوٹل راج محل میں چل کر چائے پیتے ہیں۔ یہاں چلا آیا۔ اب تم جلدی سے چائے لاؤ۔ ہاں، بڑی تیز سی اور گرم گرم۔‘‘ ٹنکو نے کہا۔
الغو اس کی باتیں سن کر پھر مسکرایا کہنے لگا۔ ’’ٹنکو صاحب، آپ یہاں سے تشریف لے جائیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ ٹنکو نے بڑے غور سے الغو کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مطلب یہ ہے کہ یہاں بڑے لوگ چائے پینے آتے ہیں۔ ایک دم بڑے لوگ۔ جرنیل، کرنیل، لاکھوں پتی، کروڑ پتی، نواب، راجے، مہاراجے۔ تم ایسے چیڑقناتی کو تو اس ہوٹل میں گھسنے کی اجازت نہیں ہے۔ تم یہاں چائے پینا چاہتے ہو۔ عقل کا علاج کرواؤ‘‘
’’دیکھو جی زبان سنبھال کر بات کرو۔‘‘
ٹنکو نے گرج کر کہا۔
’’آج تک کبھی کسی نے میری اس طرح ہتک نہیں کی۔ تم نے مجھے ایرا غیرا نتھو خیرا سمجھا ہے۔ جبکہ سب لوگ مجھے بڑا معزز سمجھتے ہیں۔ جہاں تک ہوں لوگ میرے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں۔ میں تم کو بتائے دیتا ہوں، اگر تم میرے لیے چائے نہ لائے تو اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’کیا اچھا نہ ہوگا۔‘‘ الغو نے ذرا تند لہجہ میں کہا:
’’کیا کروگے تم؟‘‘
’’میں اس قدر زور سے بھونکنا شروع کردوں گا کہ تم دیکھو گے پھر کیا ہوگا۔‘‘ ٹنکو نے کہا۔
الغو حیران اور پریشان تھا کہ وہ ایسے مہمان کا کیا کرے۔ عجیب مہمان تھا۔ اس سے پہلے تو ایسا کوئی مہمان اس ہوٹل میں نہ آیا تھا۔
الغو منہ میں بڑبڑاتا ہوا ایک طرف نکل گیا۔ وہ اب ٹنکو سے کوئی بات نہ کرنا چاہتا تھا۔
یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ ایک کتّے کے آرڈر دینے پر اس کو چائے پیش کرے۔
ٹنکو نے جب دیکھا کہ اس کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اس کے آرڈر دینے پر بھی اس کو چائے پیش نہیں کی گئی تو وہ میز پر اگلی پچھلی ٹانگیں جوڑ کر لاؤڈسپیکر کی طرح بیٹھ گیا۔ اور پنا پورا منہ کھول دیا۔
’’بو۔۔۔ وو۔۔۔ وف۔۔۔!!
اچانک ہال میں کانوں کا بہرہ کر دینے والی آواز گونجی۔ جیسے دل گرجتا ہے۔
ہال کی دیواریں کانپ گئیں۔ چھت سے لٹکتا فانوس جھولنے لگا۔ جیسے بھونچال آگیا ہو۔
چائے پیتے بڑے لوگ پریشان ہوگئے۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ایسی گڑبڑ اس سے پہلے کبھی اس ہوٹل میں نہ ہوئی تھی۔
ایک میم صاحب اپنا ایک شیشے والا چشمہ آنکھ پر سے اتارتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگیں۔
ایک بہت موٹے صاحب نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے کہ گرج سے اس کے کان کے پردے نہ پھٹ جائیں۔
’’بو۔۔۔ وو۔۔۔ وف۔۔۔!!
ٹنکو پھر گرجا۔
’’میرے لیے مکھن والے توس لاؤ ۔۔۔ووف۔۔۔وف۔۔۔ کیک پیس بھی لاؤ ۔۔۔ بھوں ۔۔۔۔بھوں۔۔۔عف۔۔۔ عف۔۔۔ چاکلیٹ بسکٹ بھی ۔۔۔ ووف۔۔۔ ووف۔۔۔ فل سیٹ چائے۔۔۔ چار ابلے ہوئے انڈے۔۔۔ ووف۔۔۔بو۔۔۔ وو۔۔۔ ووف۔۔۔ سموسے اگر ہوں تو وہ بھی لے آؤ۔۔۔ ووف۔۔۔ ووف۔۔۔انگور بھی لاؤ بھوں۔۔۔بھوں ۔۔۔سیف بھی، مگر کھٹے نہ ہوں۔اگر میرے دانت کھٹے ہوئے، تو میں کاٹنا شروع کردوں گا۔ پھر نہ کہنا میں نے کاٹ کھایا۔ بھوں۔۔۔ بھوں۔۔ عف۔۔۔ عف۔۔۔ بو۔۔۔ وو۔۔۔ووف۔۔۔ووف۔۔۔!!‘‘
خدا کی پناہ۔ ٹنکو بری طرح بھونکے جارہا تھا۔ جیسے بادل گرج رہا ہو۔
ہال میں بھگدر مچ گئی۔ بڑے لوگ پریشان ہوگئے۔ اگر اتنے میں الغو اور دوسرے بیرے نہ آجاتے، تو ہال میں قیامت آجاتی۔ انہوں نے طشتریوں میں وہ ساری چیزیں اٹھائی ہوئی تھیں، جن کا ٹنکو نے آرڈر دیا تھا۔
’’بھئی ٹنکو صاحب، خدا کے لئے اب چپ ہوجاؤ یہ لاؤڈسپیکر بند کرو۔ یہ دیکھو تمہاری پسند کی سب چیزیں حاضر ہیں۔‘‘
’’ہو۔۔۔ ہو۔۔۔ عف۔۔۔ ہف۔۔۔ ہف۔۔۔!‘‘ ٹنکو کو ہنسی آگئی۔
سب چیزیں اس کے سامنے میز پر لگا دی گئیں۔
اور پھر ٹنکو مزے مزے سے کھانے لگا۔
اس ہوٹل میں بہت سے بیرے ملازم تھے جو الغو کے نیچے کام کرتے تھے کیونکہ وہ ان سب سے بڑا بیرا تھا۔
ایک دن جبکہ ہوٹل کے بڑے ہال میں بڑے لوگ چائے پینے کے لئے جمع تھے۔ بیرے بڑی جلدی میں ادھر ادھر آجارہے تھے۔ مہمانوں سے آرڈر لے رہے تھے۔ چائے اور اس کے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں میزوں پر لگا رہے تھے اور الغو ایک طرف دیکھ رہا تھا کہ کوئی بیرا اپنا کام سستی سے تو نہیں کررہا۔ مگر وہ سب اپنا اپنا کام ٹھیک ٹھیک کر رہے تھے۔ اچانک ایک طرف سے شور سنائی دیا اور ایک بڑی ہی بھونڈی آواز آئی:
’’اے بیرا! کیا میرے لئے چائے نہیں لاؤگے؟‘‘
سب حیران ہو کر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ کون ہے جو محفل کے آداب سے بھی واقف نہیں۔ جو یہ بھی نہیں جانتا، کہ تہذیب والے لوگوں میں بیٹھ کر ایسے نہیں کسی کو بلایا کرتے۔ اور پھر یہ دیکھ کر کہ وہ کون ہے، سب کے پاؤں میں ڈر سے جوتے ڈھیلے پڑ گئے۔ کانپتے ہوئے ہر کوئی اپنی اپنی کرسی میں دبک گیا۔ مرد بھی اور عورتیں بھی۔ الغو آنکھیں جھپکتے ہوئے بڑے غور سے ادھر دیکھ رہا تھا۔ کہ خدا کی زمین پر یہ کیا ہے یہ کون ہے؟ کھڑکی کے قریب میز پر ایک خوفناک کتّا بیٹھا تھا اور سفید رومال اس کی گردن سے بندھا تھا جو کوئی چیز کھاتے وقت استعمال کرتے ہیں۔ الغو غصے میں کھڑکی کی طرف بڑھا اور پوچھا:
’’تم کون ہو؟‘‘
’’اوہ، آداب عرض۔ مجھے خوشی ہے کہ تم کو میرا بھی کچھ خیال آیا۔ اب میں چائے کا آرڈر دے سکوں گا۔‘‘ کتّے نے کہا۔
’’میں پوچھتا ہوں تم کون ہو؟‘‘ الغو نے پھر وہی سوال کیا۔
’’اوہ! بھئی عجیب سوال ہے۔ کیا تم نہیں جانتے، میں ٹنکو ہوں۔ کتّوں کی نمائش میں دوبار خوبصورتی کا انعام لے چکا ہوں۔ اس شہر کا ہر شخص مجھ کو جانتا ہے۔ تم نہیں جانتے تو تمہیں خدا سمجھے۔‘‘
’’سمجھ گیا۔‘‘ الغو نےمسکرا کر کہا۔ ’’میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں ٹنکو صاحب یہاں کیوں تشریف لائے ہیں؟‘‘
’’دوپہر کی چائے میں ہمیشہ کسی اچھی جگہ پینا پسند کرتا ہوں۔ آج اتوار ہے، میں نے سوچا چلو آج اس شہر کے سب سے بڑے ہوٹل راج محل میں چل کر چائے پیتے ہیں۔ یہاں چلا آیا۔ اب تم جلدی سے چائے لاؤ۔ ہاں، بڑی تیز سی اور گرم گرم۔‘‘ ٹنکو نے کہا۔
الغو اس کی باتیں سن کر پھر مسکرایا کہنے لگا۔ ’’ٹنکو صاحب، آپ یہاں سے تشریف لے جائیں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ ٹنکو نے بڑے غور سے الغو کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مطلب یہ ہے کہ یہاں بڑے لوگ چائے پینے آتے ہیں۔ ایک دم بڑے لوگ۔ جرنیل، کرنیل، لاکھوں پتی، کروڑ پتی، نواب، راجے، مہاراجے۔ تم ایسے چیڑقناتی کو تو اس ہوٹل میں گھسنے کی اجازت نہیں ہے۔ تم یہاں چائے پینا چاہتے ہو۔ عقل کا علاج کرواؤ‘‘
’’دیکھو جی زبان سنبھال کر بات کرو۔‘‘
ٹنکو نے گرج کر کہا۔
’’آج تک کبھی کسی نے میری اس طرح ہتک نہیں کی۔ تم نے مجھے ایرا غیرا نتھو خیرا سمجھا ہے۔ جبکہ سب لوگ مجھے بڑا معزز سمجھتے ہیں۔ جہاں تک ہوں لوگ میرے ساتھ عزت سے پیش آتے ہیں۔ میں تم کو بتائے دیتا ہوں، اگر تم میرے لیے چائے نہ لائے تو اچھا نہ ہوگا۔‘‘
’’کیا اچھا نہ ہوگا۔‘‘ الغو نے ذرا تند لہجہ میں کہا:
’’کیا کروگے تم؟‘‘
’’میں اس قدر زور سے بھونکنا شروع کردوں گا کہ تم دیکھو گے پھر کیا ہوگا۔‘‘ ٹنکو نے کہا۔
الغو حیران اور پریشان تھا کہ وہ ایسے مہمان کا کیا کرے۔ عجیب مہمان تھا۔ اس سے پہلے تو ایسا کوئی مہمان اس ہوٹل میں نہ آیا تھا۔
الغو منہ میں بڑبڑاتا ہوا ایک طرف نکل گیا۔ وہ اب ٹنکو سے کوئی بات نہ کرنا چاہتا تھا۔
یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ وہ ایک کتّے کے آرڈر دینے پر اس کو چائے پیش کرے۔
ٹنکو نے جب دیکھا کہ اس کا مذاق اڑایا گیا ہے اور اس کے آرڈر دینے پر بھی اس کو چائے پیش نہیں کی گئی تو وہ میز پر اگلی پچھلی ٹانگیں جوڑ کر لاؤڈسپیکر کی طرح بیٹھ گیا۔ اور پنا پورا منہ کھول دیا۔
’’بو۔۔۔ وو۔۔۔ وف۔۔۔!!
اچانک ہال میں کانوں کا بہرہ کر دینے والی آواز گونجی۔ جیسے دل گرجتا ہے۔
ہال کی دیواریں کانپ گئیں۔ چھت سے لٹکتا فانوس جھولنے لگا۔ جیسے بھونچال آگیا ہو۔
چائے پیتے بڑے لوگ پریشان ہوگئے۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔ ایسی گڑبڑ اس سے پہلے کبھی اس ہوٹل میں نہ ہوئی تھی۔
ایک میم صاحب اپنا ایک شیشے والا چشمہ آنکھ پر سے اتارتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگیں۔
ایک بہت موٹے صاحب نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے کہ گرج سے اس کے کان کے پردے نہ پھٹ جائیں۔
’’بو۔۔۔ وو۔۔۔ وف۔۔۔!!
ٹنکو پھر گرجا۔
’’میرے لیے مکھن والے توس لاؤ ۔۔۔ووف۔۔۔وف۔۔۔ کیک پیس بھی لاؤ ۔۔۔ بھوں ۔۔۔۔بھوں۔۔۔عف۔۔۔ عف۔۔۔ چاکلیٹ بسکٹ بھی ۔۔۔ ووف۔۔۔ ووف۔۔۔ فل سیٹ چائے۔۔۔ چار ابلے ہوئے انڈے۔۔۔ ووف۔۔۔بو۔۔۔ وو۔۔۔ ووف۔۔۔ سموسے اگر ہوں تو وہ بھی لے آؤ۔۔۔ ووف۔۔۔ ووف۔۔۔انگور بھی لاؤ بھوں۔۔۔بھوں ۔۔۔سیف بھی، مگر کھٹے نہ ہوں۔اگر میرے دانت کھٹے ہوئے، تو میں کاٹنا شروع کردوں گا۔ پھر نہ کہنا میں نے کاٹ کھایا۔ بھوں۔۔۔ بھوں۔۔ عف۔۔۔ عف۔۔۔ بو۔۔۔ وو۔۔۔ووف۔۔۔ووف۔۔۔!!‘‘
خدا کی پناہ۔ ٹنکو بری طرح بھونکے جارہا تھا۔ جیسے بادل گرج رہا ہو۔
ہال میں بھگدر مچ گئی۔ بڑے لوگ پریشان ہوگئے۔ اگر اتنے میں الغو اور دوسرے بیرے نہ آجاتے، تو ہال میں قیامت آجاتی۔ انہوں نے طشتریوں میں وہ ساری چیزیں اٹھائی ہوئی تھیں، جن کا ٹنکو نے آرڈر دیا تھا۔
’’بھئی ٹنکو صاحب، خدا کے لئے اب چپ ہوجاؤ یہ لاؤڈسپیکر بند کرو۔ یہ دیکھو تمہاری پسند کی سب چیزیں حاضر ہیں۔‘‘
’’ہو۔۔۔ ہو۔۔۔ عف۔۔۔ ہف۔۔۔ ہف۔۔۔!‘‘ ٹنکو کو ہنسی آگئی۔
سب چیزیں اس کے سامنے میز پر لگا دی گئیں۔
اور پھر ٹنکو مزے مزے سے کھانے لگا۔
- आग़ा-अशरफ़
دادی اماں سونے سے پہلے سب بچوں کو کہانی سنایا کرتی تھیں۔ ہمارے گھر میں ان کی کہانی سننے کے لئے محلے کے دوسرے بچے بھی آجاتے۔ ہر روز رات کو ہم ان سے کہانی سنتے۔ ان کی کہانیاں بہت مزیدار ہوتیں۔ ہم انہیں مزے لے لے کر سنتے۔ آخر میں دادی اماں کہانی ختم کر کے سب کو دعائیں دیتیں۔
اس رات بھی سب بچے ان کے گرد جمع تھے۔ دادی اماں نے کہانی اس طرح شروع کی:
ننھے منے پھول جیسے نازک بچو! کہانیاں تو تم نے نہ جانے کتنی سنی ہوں گی۔ ان میں جنّوں، دیوؤں، بھوتوں پریوں، بادشاہوں اور شہزادوں، سبھی قسم کی کہانیاں تم نے سنی ہوں گی، لیکن آج میں جو کہانی سنانے والی ہوں، وہ نہ کسی جنّ دیو کی ہے، نہ بادشاہ یا شہزادے کی، بلکہ آج کی کہانی یک عورت اور اس کے بیٹے کی ہے۔
’’بھلا یہ کیا کہانی ہوسکتی ہے دادی امّاں!‘‘ ایک بچے نے حیران ہو کر کہا۔ دادی اماں مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں:
’’پہلے سن تو لو۔ ہاں تو اس عورت کا ایک چھوٹا سا بیٹا تھا۔ ابھی اس کی عمر چار سال کی تھی کہ اس عورت کا خاوند بس کے نیچے آکر مرگیا۔ وہ بہت غریب آدمی تھا۔ اس کے مرنے کے بعد گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ آخراس نے محلے کے گھروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ لوگوں کے برتن دھوئے، کپڑے دھوئے، سلائی کا کام کیا اور اس طرح وہ اتنے پیسے کمانے کے قابل ہوگئی کہ اپنی اور اپنے بچے کی گزر بسر کر سکے۔ ان ہی حالات میں بچہ چھ سال کا ہوگیا تو اس نے اسے سکول میں داخل کرادیا۔ بچہ بہت ذہین تھا۔ کلاس میں اس نے نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ پہلی جماعت میں اوّل آیا تو ماں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ بچہ دل لگا کر پڑھتا رہا۔ اس نے دن رات محنت کی۔ ہر سال جماعت میں اوّل آتا رہا۔ دراصل اسے اس بات کا بہت دکھ تھا کہ اس کی ماں کو لوگوں کے گھروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ سوچا کرتا کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک دن بڑا آدمی بنے گا اور اپنی ماں کی خدمت کرے گا۔ ساری عمر اسے کوئی کام نہ کرنے دے گا۔
دن گزرتے گئے۔ آخر اس نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا۔ اس بار اس نے اپنی محنت کی کہ ماں فکرمند ہوگئی کہ کہیں وہ بیمار نہ ہوجائے۔ لیکن وہ محنت کرنے سے باز نہ آیا۔ نتیجہ نکلا تو اخبار کے پہلے صفحے پر اس کی تصویر چھپی۔ وہ ضلع بھر میں اوّل آیا تھا۔
ماں کی خوشی کا کیا پوچھنا۔ اس دن دونوں خوشی کے مارے سو نہ سکے۔ محلے والے تمام دن مبارکباد دینے آتے رہے۔ رات کو بیٹے نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ ’’امی جان! اب میں آگے نہیں پڑھوں گا۔‘‘ ماں اس کی بات سن کر چونک اٹھی۔ اس نے کہا۔ ’’بیٹا! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اگر پڑھوگے نہیں تو بڑے آدمی کیسے بنوگے۔ ابھی تو تمہیں بہت پڑھنا ہے۔‘‘
’’لیکن امی جان! میں آپ کو کام کرتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے میں کوئی ملازمت ڈھونڈ لیتا ہوں۔‘‘
’’بیٹا! تم میری امیدوں پر پانی نہ پھیرو۔ اس خیال کو فوراً دل سے نکال دو۔ مجھے تمہاری اس بات سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ آئندہ ایسی بات نہ کہنا۔‘‘
بچے نے ماں کی بات سن کر خاموشی اختیار کر لی اور کالج میں داخل ہوگیا۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگا۔ اس کی ماں بھی پہلے کی نسبت زیادہ گھروں میں کام کرنے لگی۔ کیونکہ اب اسے بیٹے کی کالج کی فیس ادا کرنی پڑتی تھی اور اس کے دوسرے اخراجات بھی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا۔ وہ ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے فارغ ہو گیا۔ اب چونکہ اس نے ہر سال نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور میٹرک میں تو ضلع بھر میں اوّل آیا تھا۔ اس لیے اسے فوراً ہی ایک سرکاری دفتر میں ملازمت مل گئی۔ جس دن اسے ملازمت ملی، وہ دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے لپٹ گیا اور اسے اٹھا کر چکر لگانے لگا:
’’بس امی! آج کے بعد آپ کسی گھر میں کام نہیں کریں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا! اس دن کے انتظار میں تو میری ساری جوانی گزر گئی۔ اب خدا کے فضل سے تم کسی قابل ہو گئے ہو تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کے گھروں میں کام کروں۔ اب تو میں اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی۔‘‘
ماں نے اسی دن سے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا۔ بہت جلد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اور اس نے اپنے بیٹے کی شادی کر دی۔ شادی کے چھ سال بعد ملک کی سرحدوں پر جنگ چھڑ گئی۔ اس وقت تک اس کے بیٹے کے ہاں تین بچے پیدا ہوچکے تھے۔ یہ دو لڑکے اور ایک لڑکی تھے۔ دشمن ملک نے اعلان کے بغیر ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا۔ اس لیے سب غصے میں آگئے۔ ہزاروں شہری جنگ کی تربیت لینے لگے ۔ ان میں اس عورت کا بیٹا بھی تھا۔ وہ بھی کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتا تھا۔ تربیت لینے لگا۔ ایک دن اسے بھی پچھلے مورچوں پر بھیج دیا گیا۔ ماں نے اسے خوشی خوشی رخصت کیا۔ جب وہ لڑائی پر جارہا تھا تو اس کے بچے اس سے لپٹ لپٹ گئے۔ اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جنگ پندرہ دن تک جاری رہی۔ پندرھویں دن شہر کے محاذ پر کچھ زیادہ ہی زور تھا۔ توپ کا ایک گولہ پچھلے مورچوں پر آکر گرا اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ اس عورت کا بیٹا بھی شہید ہوگیا۔ اس کی لاش گھر لائی گئی تو بچے اس سے لپٹ کر رونے لگے۔ بیوی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ایک ماں تھی جس نے آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلنے دیا۔ بس وہ لاش کو تکتی رہی۔
ایک بار پھر وہی دوسروں کے گھروں کے کام تھے اور وہ تھی۔ پہلے وہ اپنے بیٹے کے لئے کام کرتی تھی۔ اب اپنے پوتوں کے لئے اور بیٹے کی بیوی کے لئے۔ بچو جانتے ہو اب وہ اپنے پوتوں کو کیا نصیحت کرتی ہے۔ وہ انہیں خوب پڑھنے لکھنے کی نصیحت کرتی ہے، تاکہ وہ ایک دن بڑے افسر بن سکیں اور اگر ملک کو ان کی ضرورت پڑجائے تو اس کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں۔ اتنا کہہ کر دادی امّاں خاموش ہو گئیں۔
سب بچے ٹکر ٹکر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے:
’’آگے سنائیے نادادی امّاں۔‘‘
’’بس بچو۔ کہانی تو ختم ہوگئی۔‘‘
کیا۔ کہانی ختم ہوگئی!‘‘
’’ہاں بچو! کہانی ختم بھی ہوگئی اور نہیں بھی ہوئی۔ ختم اس طرح کہ اس کا بیٹا شہید ہوگیا اور ابھی ختم اس طرح نہیں ہوئی کہ اب وہ اپنے بیٹے کے بیٹوں کو پڑھا رہی ہے۔ جب وہ بڑے ہوجائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ کسی دن پھر جنگ چھڑ جائے اور انہیں اپنی جانیں قربان کرنے کا موقع مل جائے۔ اس طرح بھلا یہ کہانی ختم کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے پوتے زندہ ہیں اور وہ ایک بار پھر انہیں وطن کے لئے تیار کر رہی ہے۔ مجھ سے وعدہ کرو بچو کہ تم بھی اپنے وطن کی ہر طرح خدمت کروگے، اس کے لیے جان تک دوگے۔‘‘
’’دادی اماں! ہم وعدہ کرتے ہیں۔‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
’’دادی امّاں! آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ وہ عورت کون ہے، کہاں رہتی ہے، اس کا کیا نام ہے۔‘‘
اچانک دادی امّاں کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، پھر وہ روتے روتے مسکرائیں اور بولیں: ’’پیارے پیارے بچو! وہ عورت میں ہی ہوں۔ میرا ہی بیٹا شہید ہوا تھا اور اب میں تم تینوں کو پال رہی ہوں۔‘‘ انہوں نے میری، میرے چھوٹے بھائی اور بہن کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
بچے حیران ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔
اس رات بھی سب بچے ان کے گرد جمع تھے۔ دادی اماں نے کہانی اس طرح شروع کی:
ننھے منے پھول جیسے نازک بچو! کہانیاں تو تم نے نہ جانے کتنی سنی ہوں گی۔ ان میں جنّوں، دیوؤں، بھوتوں پریوں، بادشاہوں اور شہزادوں، سبھی قسم کی کہانیاں تم نے سنی ہوں گی، لیکن آج میں جو کہانی سنانے والی ہوں، وہ نہ کسی جنّ دیو کی ہے، نہ بادشاہ یا شہزادے کی، بلکہ آج کی کہانی یک عورت اور اس کے بیٹے کی ہے۔
’’بھلا یہ کیا کہانی ہوسکتی ہے دادی امّاں!‘‘ ایک بچے نے حیران ہو کر کہا۔ دادی اماں مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں:
’’پہلے سن تو لو۔ ہاں تو اس عورت کا ایک چھوٹا سا بیٹا تھا۔ ابھی اس کی عمر چار سال کی تھی کہ اس عورت کا خاوند بس کے نیچے آکر مرگیا۔ وہ بہت غریب آدمی تھا۔ اس کے مرنے کے بعد گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ آخراس نے محلے کے گھروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ لوگوں کے برتن دھوئے، کپڑے دھوئے، سلائی کا کام کیا اور اس طرح وہ اتنے پیسے کمانے کے قابل ہوگئی کہ اپنی اور اپنے بچے کی گزر بسر کر سکے۔ ان ہی حالات میں بچہ چھ سال کا ہوگیا تو اس نے اسے سکول میں داخل کرادیا۔ بچہ بہت ذہین تھا۔ کلاس میں اس نے نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ پہلی جماعت میں اوّل آیا تو ماں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ بچہ دل لگا کر پڑھتا رہا۔ اس نے دن رات محنت کی۔ ہر سال جماعت میں اوّل آتا رہا۔ دراصل اسے اس بات کا بہت دکھ تھا کہ اس کی ماں کو لوگوں کے گھروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ سوچا کرتا کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک دن بڑا آدمی بنے گا اور اپنی ماں کی خدمت کرے گا۔ ساری عمر اسے کوئی کام نہ کرنے دے گا۔
دن گزرتے گئے۔ آخر اس نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا۔ اس بار اس نے اپنی محنت کی کہ ماں فکرمند ہوگئی کہ کہیں وہ بیمار نہ ہوجائے۔ لیکن وہ محنت کرنے سے باز نہ آیا۔ نتیجہ نکلا تو اخبار کے پہلے صفحے پر اس کی تصویر چھپی۔ وہ ضلع بھر میں اوّل آیا تھا۔
ماں کی خوشی کا کیا پوچھنا۔ اس دن دونوں خوشی کے مارے سو نہ سکے۔ محلے والے تمام دن مبارکباد دینے آتے رہے۔ رات کو بیٹے نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ ’’امی جان! اب میں آگے نہیں پڑھوں گا۔‘‘ ماں اس کی بات سن کر چونک اٹھی۔ اس نے کہا۔ ’’بیٹا! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اگر پڑھوگے نہیں تو بڑے آدمی کیسے بنوگے۔ ابھی تو تمہیں بہت پڑھنا ہے۔‘‘
’’لیکن امی جان! میں آپ کو کام کرتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے میں کوئی ملازمت ڈھونڈ لیتا ہوں۔‘‘
’’بیٹا! تم میری امیدوں پر پانی نہ پھیرو۔ اس خیال کو فوراً دل سے نکال دو۔ مجھے تمہاری اس بات سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ آئندہ ایسی بات نہ کہنا۔‘‘
بچے نے ماں کی بات سن کر خاموشی اختیار کر لی اور کالج میں داخل ہوگیا۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگا۔ اس کی ماں بھی پہلے کی نسبت زیادہ گھروں میں کام کرنے لگی۔ کیونکہ اب اسے بیٹے کی کالج کی فیس ادا کرنی پڑتی تھی اور اس کے دوسرے اخراجات بھی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا۔ وہ ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے فارغ ہو گیا۔ اب چونکہ اس نے ہر سال نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور میٹرک میں تو ضلع بھر میں اوّل آیا تھا۔ اس لیے اسے فوراً ہی ایک سرکاری دفتر میں ملازمت مل گئی۔ جس دن اسے ملازمت ملی، وہ دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے لپٹ گیا اور اسے اٹھا کر چکر لگانے لگا:
’’بس امی! آج کے بعد آپ کسی گھر میں کام نہیں کریں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا! اس دن کے انتظار میں تو میری ساری جوانی گزر گئی۔ اب خدا کے فضل سے تم کسی قابل ہو گئے ہو تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کے گھروں میں کام کروں۔ اب تو میں اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی۔‘‘
ماں نے اسی دن سے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا۔ بہت جلد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اور اس نے اپنے بیٹے کی شادی کر دی۔ شادی کے چھ سال بعد ملک کی سرحدوں پر جنگ چھڑ گئی۔ اس وقت تک اس کے بیٹے کے ہاں تین بچے پیدا ہوچکے تھے۔ یہ دو لڑکے اور ایک لڑکی تھے۔ دشمن ملک نے اعلان کے بغیر ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا۔ اس لیے سب غصے میں آگئے۔ ہزاروں شہری جنگ کی تربیت لینے لگے ۔ ان میں اس عورت کا بیٹا بھی تھا۔ وہ بھی کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتا تھا۔ تربیت لینے لگا۔ ایک دن اسے بھی پچھلے مورچوں پر بھیج دیا گیا۔ ماں نے اسے خوشی خوشی رخصت کیا۔ جب وہ لڑائی پر جارہا تھا تو اس کے بچے اس سے لپٹ لپٹ گئے۔ اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جنگ پندرہ دن تک جاری رہی۔ پندرھویں دن شہر کے محاذ پر کچھ زیادہ ہی زور تھا۔ توپ کا ایک گولہ پچھلے مورچوں پر آکر گرا اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ اس عورت کا بیٹا بھی شہید ہوگیا۔ اس کی لاش گھر لائی گئی تو بچے اس سے لپٹ کر رونے لگے۔ بیوی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ایک ماں تھی جس نے آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلنے دیا۔ بس وہ لاش کو تکتی رہی۔
ایک بار پھر وہی دوسروں کے گھروں کے کام تھے اور وہ تھی۔ پہلے وہ اپنے بیٹے کے لئے کام کرتی تھی۔ اب اپنے پوتوں کے لئے اور بیٹے کی بیوی کے لئے۔ بچو جانتے ہو اب وہ اپنے پوتوں کو کیا نصیحت کرتی ہے۔ وہ انہیں خوب پڑھنے لکھنے کی نصیحت کرتی ہے، تاکہ وہ ایک دن بڑے افسر بن سکیں اور اگر ملک کو ان کی ضرورت پڑجائے تو اس کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں۔ اتنا کہہ کر دادی امّاں خاموش ہو گئیں۔
سب بچے ٹکر ٹکر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے:
’’آگے سنائیے نادادی امّاں۔‘‘
’’بس بچو۔ کہانی تو ختم ہوگئی۔‘‘
کیا۔ کہانی ختم ہوگئی!‘‘
’’ہاں بچو! کہانی ختم بھی ہوگئی اور نہیں بھی ہوئی۔ ختم اس طرح کہ اس کا بیٹا شہید ہوگیا اور ابھی ختم اس طرح نہیں ہوئی کہ اب وہ اپنے بیٹے کے بیٹوں کو پڑھا رہی ہے۔ جب وہ بڑے ہوجائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ کسی دن پھر جنگ چھڑ جائے اور انہیں اپنی جانیں قربان کرنے کا موقع مل جائے۔ اس طرح بھلا یہ کہانی ختم کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے پوتے زندہ ہیں اور وہ ایک بار پھر انہیں وطن کے لئے تیار کر رہی ہے۔ مجھ سے وعدہ کرو بچو کہ تم بھی اپنے وطن کی ہر طرح خدمت کروگے، اس کے لیے جان تک دوگے۔‘‘
’’دادی اماں! ہم وعدہ کرتے ہیں۔‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
’’دادی امّاں! آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ وہ عورت کون ہے، کہاں رہتی ہے، اس کا کیا نام ہے۔‘‘
اچانک دادی امّاں کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، پھر وہ روتے روتے مسکرائیں اور بولیں: ’’پیارے پیارے بچو! وہ عورت میں ہی ہوں۔ میرا ہی بیٹا شہید ہوا تھا اور اب میں تم تینوں کو پال رہی ہوں۔‘‘ انہوں نے میری، میرے چھوٹے بھائی اور بہن کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
بچے حیران ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔
- इशतियाक़-अहमद
دو چور ایک گھر میں گھسے۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ گھر میں مٹی کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔ وہ گھر ایک بوڑھیا کا تھا جس کا اس دنیا میں کوئی بھی عزیز رشتے دار نہیں تھا۔ وہ اکیلی تھی اور کمانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ محلے کے لوگ صبح شام اس کو کھانا دے جایا کرتے تھے۔ وہ اس میں سے کھاتی اور خدا کا شکر ادا کرکے عبادت میں مصروف ہوجاتی۔
اس دن بھی وہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد کافی دیر تک اللہ اللہ کرنے کے بعد سوئی تھی کہ گھر میں دو چور گھس آئے۔ ایک چور کا پیر بوڑھیا کی چارپائی سے جو ٹکرایا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس نے دونوں چوروں کو دیکھ لیا لیکن بے فکر ہو کر لیٹی رہی۔ اسے فکر ہوتا بھی کیوں، گھر میں تھا ہی کیا جس کے چوری چلے جانے کا ڈر ہوتا۔ دل ہی دل میں ہسنتی رہی اور چوروں کو دیکھتی رہی۔ جو ادھر ادھر نقدی یا زیور تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ آخر جب چور تلاش کرتے کرتے تھک گئے اور مایوس ہو کر لوٹنے لگے تو بڑھیا بول اٹھی!
’’کیوں! کچھ نہیں ملا‘‘۔
دونوں چور بوڑھیا کی آواز سن کر چونک اٹھے۔ ان کا خیال تھا کہ بوڑھیا سو رہی ہے۔
’’تم چور ہو نا۔‘‘ بوڑھیا پھر بولی۔ اس کے بوڑھے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’ہاں ماں! ہم چور ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’تو پھر تمہاری ماں تین دن سے بھوکی ہے۔ تمہیں اس گھر سے کیا مل سکتا ہے۔‘‘ بوڑھیا نے کچھ سوچ کر کہا۔ حالانکہ وہ تین دن سے بھوکی ہرگز نہیں تھی۔ اس نے تو رات کو سونے سے پہلے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا تھا۔
’’کیا کہا۔۔۔ تم تین دن سے بھوکی ہو۔‘‘ دوسرے چور نے حیران ہو کر کہا۔
’’ہاں! میں اس دنیا میں اکیلی ہوں۔ میرا کوئی نہیں، پھر بھلا میں کھاؤں کہاں سے، تمہاری طرح چوری بھی نہیں کرسکتی۔ محلے کے لوگ ترس کھا کر کچھ دے دیتے ہیں تو کھا لیتی ہوں۔ تین دن سے کسی محلے والے نے بھی نہیں پوچھا، اب تم ہی کہو، میں کھاؤں تو کہاں سے کھاؤں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ ماں یہ بات ہے۔‘‘
پہلا چور بولا۔ وہ بہت رحمدل تھا۔ اس نے دوسرے سے کہا۔
’’چلو ہم کہیں سے ماں کے لیے کچھ کھانے کو لائیں۔‘‘
’’ہاں! چلو۔‘‘ دوسرا بولا۔
دونوں کچھ کہے بغیر بوڑھیا کے گھر سے نکل کر چلے گئے۔ بوڑھیا ان کے جانے کے بعد مسکرائی اور چارپائی پر لیٹ گئی اسے یقین تھا کہ دونوں چور ضرور واپس آئیں گے۔
اس کا خیال ٹھیک ہی نکلا۔ دو گھنٹے بعد دونوں چور پھر بوڑھیا کے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی جاگ رہی تھی انہیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھی:
’’تم آگئے بیٹا۔‘‘
’’ہاں ماں، ہم آگئے اور خالی ہاتھ نہیں آئے۔ تمہارے لیے کھانے کی بہت ساری چیزیں لائے ہیں۔‘‘
’’جیتے رہو۔ تم کتنے اچھے ہو، کاش میرا بھی تمہارے جیسا کوئی بیٹا ہوتا۔‘‘ بوڑھیا نے کہا۔
’’ہم بھی تو تمہارے بیٹے ہی ہیں ماں!‘‘ ایک چور نے کہا۔
’’خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘
’’اچھا اب یہ کھانے پینے کی چیزیں لو اور خوب پیٹ بھر کر کھاؤ۔۔۔ اب تم فکر نہ کیا کرنا۔ ہم ہر روز تمہیں کھانے کی چیزیں دے جایا کریں گے۔‘‘
دوسرے چور نے کہا۔
’’اچھا مگربیٹا۔۔۔ یہ سب چیزیں تم لائے کہاں سے ہو۔‘‘
’’کیوں ماں تم نے یہ بات کیوں پوچھی۔‘‘ ایک چور حیران ہو کر بولا۔
’’بس یونہی۔ بھلا اتنی رات گئے یہ چیزیں تمہیں کہاں سے مل گئیں۔‘‘
’’ماں! سچی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ چیزیں چرا کر لائے ہیں۔‘‘ دوسرا چور بول اٹھا۔
’’کیا کہا۔ چرا کر لائے ہو۔‘‘
بوڑھیا نے چونک کر کہا۔
’’ہاں! ہمارا تو پیشہ ہی یہی ہے۔‘‘
’’تب پھر میں یہ چیزیں نہیں کھاؤں گی۔‘‘ بوڑھیا نے کہا۔
’’کیوں کیوں۔‘‘ دونوں چور حیران ہو کر بولے۔
’’اس لیے کہ یہ چوری کی چیزیں ہیں اور میں چوری کا مال نہیں کھاؤں گی، چوری کا مال کھانا حرام کھانا ہے۔‘‘
’’لیکن ماں! تم تین دن سے بھوکی ہو۔‘‘ چور نے یاد دلایا۔
’’یہ ٹھیک ہے کہ میں تین دن سے بھوکی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں چوری کا مال نہیں کھاؤں گی۔ چاہے بھوک سے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔‘‘
دونوں چور حیران رہ گئے آخر ایک نے کہا۔
’’پھر تو تمہیں صبح تک بھوکا رہنا پڑے گا۔‘‘
’’کیا مطلب۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ بوڑھیا نے پوچھا۔
’’صبح ہم تمہارے لیے محنت مزدوری کرکے کچھ کھانے کے لئے لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت نہیں لاسکتے۔‘‘
’’تم میرے لیے اتنی تکلیف کیوں کروگے۔ جاؤ جاکر چوریاں کرو، کھاؤ پیو۔‘‘
’’نہیں ماں! ہم تمہیں بھوکا نہیں رہنے دیں گے۔‘‘
دونوں چور بوڑھیا کے گھر میں زمین پر پڑ کر سو رہے۔ صبح ہوئی تو دونوں گھر سے نکل گئے دوپہر تک وہ محنت مزدوری کرتے رہے، پھر انہوں نے کھانے کی کچھ چیزیں خریدیں اور بوڑھیا کے گھر آئے۔ انہوں نے چیزیں اس کے سامنے رکھ دیں۔
’’لو ماں! یہ چیزیں ہم خرید کر لائے ہیں اور خرید کر بھی چوری کے پیسوں سے نہیں لائے بلکہ محنت مزدوری کر کے لائے ہیں۔‘‘ ایک چور نے کہا۔
’’تم نے خود بھی ابھی تک کچھ کھایا یا نہیں۔‘‘ بوڑھیا نے پوچھا۔
’’نہیں ماں۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جوان بیٹوں کی ماں گھر میں بھوکی بیٹھی ہو اور وہ خود مزے کرتے پھریں۔ ہم نے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘
’’تو پھر پہلے تم اس میں سے کھاؤ۔‘‘
بوڑھیا نے کہا۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے ماں!‘‘
’’میں جو کہتی ہوں۔ چلو کھاؤ۔‘‘
دونوں نے چند لقمے کھائے۔
یہ کھانا تمہیں کیسا لگا۔‘‘ بوڑھیا نے پوچھا۔
’’بہت ہی مزے دار خدا کی قسم آج تک ہم نے اس سے زیادہ مزے کا کھانا نہیں کھایا۔‘‘ ایک نے حیران ہو کر کہا۔
’’یہ اس لیے کہ یہ حلال کی کمائی کا کھانا ہے، تم آج تک حرام کی کمائی کا کھانا کھاتے رہے ہو۔ وعدہ کرو کہ آئندہ کبھی چوری نہیں کروگے۔‘‘
’’ہم وعدہ کرتے ہیں ماں کہ کبھی چوری نہیں کریں گے۔‘‘
تینوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
اس دن بھی وہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد کافی دیر تک اللہ اللہ کرنے کے بعد سوئی تھی کہ گھر میں دو چور گھس آئے۔ ایک چور کا پیر بوڑھیا کی چارپائی سے جو ٹکرایا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس نے دونوں چوروں کو دیکھ لیا لیکن بے فکر ہو کر لیٹی رہی۔ اسے فکر ہوتا بھی کیوں، گھر میں تھا ہی کیا جس کے چوری چلے جانے کا ڈر ہوتا۔ دل ہی دل میں ہسنتی رہی اور چوروں کو دیکھتی رہی۔ جو ادھر ادھر نقدی یا زیور تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ آخر جب چور تلاش کرتے کرتے تھک گئے اور مایوس ہو کر لوٹنے لگے تو بڑھیا بول اٹھی!
’’کیوں! کچھ نہیں ملا‘‘۔
دونوں چور بوڑھیا کی آواز سن کر چونک اٹھے۔ ان کا خیال تھا کہ بوڑھیا سو رہی ہے۔
’’تم چور ہو نا۔‘‘ بوڑھیا پھر بولی۔ اس کے بوڑھے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
’’ہاں ماں! ہم چور ہیں۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔
’’تو پھر تمہاری ماں تین دن سے بھوکی ہے۔ تمہیں اس گھر سے کیا مل سکتا ہے۔‘‘ بوڑھیا نے کچھ سوچ کر کہا۔ حالانکہ وہ تین دن سے بھوکی ہرگز نہیں تھی۔ اس نے تو رات کو سونے سے پہلے بھی خوب پیٹ بھر کر کھایا تھا۔
’’کیا کہا۔۔۔ تم تین دن سے بھوکی ہو۔‘‘ دوسرے چور نے حیران ہو کر کہا۔
’’ہاں! میں اس دنیا میں اکیلی ہوں۔ میرا کوئی نہیں، پھر بھلا میں کھاؤں کہاں سے، تمہاری طرح چوری بھی نہیں کرسکتی۔ محلے کے لوگ ترس کھا کر کچھ دے دیتے ہیں تو کھا لیتی ہوں۔ تین دن سے کسی محلے والے نے بھی نہیں پوچھا، اب تم ہی کہو، میں کھاؤں تو کہاں سے کھاؤں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ ماں یہ بات ہے۔‘‘
پہلا چور بولا۔ وہ بہت رحمدل تھا۔ اس نے دوسرے سے کہا۔
’’چلو ہم کہیں سے ماں کے لیے کچھ کھانے کو لائیں۔‘‘
’’ہاں! چلو۔‘‘ دوسرا بولا۔
دونوں کچھ کہے بغیر بوڑھیا کے گھر سے نکل کر چلے گئے۔ بوڑھیا ان کے جانے کے بعد مسکرائی اور چارپائی پر لیٹ گئی اسے یقین تھا کہ دونوں چور ضرور واپس آئیں گے۔
اس کا خیال ٹھیک ہی نکلا۔ دو گھنٹے بعد دونوں چور پھر بوڑھیا کے گھر میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی جاگ رہی تھی انہیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھی:
’’تم آگئے بیٹا۔‘‘
’’ہاں ماں، ہم آگئے اور خالی ہاتھ نہیں آئے۔ تمہارے لیے کھانے کی بہت ساری چیزیں لائے ہیں۔‘‘
’’جیتے رہو۔ تم کتنے اچھے ہو، کاش میرا بھی تمہارے جیسا کوئی بیٹا ہوتا۔‘‘ بوڑھیا نے کہا۔
’’ہم بھی تو تمہارے بیٹے ہی ہیں ماں!‘‘ ایک چور نے کہا۔
’’خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘
’’اچھا اب یہ کھانے پینے کی چیزیں لو اور خوب پیٹ بھر کر کھاؤ۔۔۔ اب تم فکر نہ کیا کرنا۔ ہم ہر روز تمہیں کھانے کی چیزیں دے جایا کریں گے۔‘‘
دوسرے چور نے کہا۔
’’اچھا مگربیٹا۔۔۔ یہ سب چیزیں تم لائے کہاں سے ہو۔‘‘
’’کیوں ماں تم نے یہ بات کیوں پوچھی۔‘‘ ایک چور حیران ہو کر بولا۔
’’بس یونہی۔ بھلا اتنی رات گئے یہ چیزیں تمہیں کہاں سے مل گئیں۔‘‘
’’ماں! سچی بات تو یہ ہے کہ ہم یہ چیزیں چرا کر لائے ہیں۔‘‘ دوسرا چور بول اٹھا۔
’’کیا کہا۔ چرا کر لائے ہو۔‘‘
بوڑھیا نے چونک کر کہا۔
’’ہاں! ہمارا تو پیشہ ہی یہی ہے۔‘‘
’’تب پھر میں یہ چیزیں نہیں کھاؤں گی۔‘‘ بوڑھیا نے کہا۔
’’کیوں کیوں۔‘‘ دونوں چور حیران ہو کر بولے۔
’’اس لیے کہ یہ چوری کی چیزیں ہیں اور میں چوری کا مال نہیں کھاؤں گی، چوری کا مال کھانا حرام کھانا ہے۔‘‘
’’لیکن ماں! تم تین دن سے بھوکی ہو۔‘‘ چور نے یاد دلایا۔
’’یہ ٹھیک ہے کہ میں تین دن سے بھوکی ہوں، لیکن اس کے باوجود میں چوری کا مال نہیں کھاؤں گی۔ چاہے بھوک سے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔‘‘
دونوں چور حیران رہ گئے آخر ایک نے کہا۔
’’پھر تو تمہیں صبح تک بھوکا رہنا پڑے گا۔‘‘
’’کیا مطلب۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ بوڑھیا نے پوچھا۔
’’صبح ہم تمہارے لیے محنت مزدوری کرکے کچھ کھانے کے لئے لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت نہیں لاسکتے۔‘‘
’’تم میرے لیے اتنی تکلیف کیوں کروگے۔ جاؤ جاکر چوریاں کرو، کھاؤ پیو۔‘‘
’’نہیں ماں! ہم تمہیں بھوکا نہیں رہنے دیں گے۔‘‘
دونوں چور بوڑھیا کے گھر میں زمین پر پڑ کر سو رہے۔ صبح ہوئی تو دونوں گھر سے نکل گئے دوپہر تک وہ محنت مزدوری کرتے رہے، پھر انہوں نے کھانے کی کچھ چیزیں خریدیں اور بوڑھیا کے گھر آئے۔ انہوں نے چیزیں اس کے سامنے رکھ دیں۔
’’لو ماں! یہ چیزیں ہم خرید کر لائے ہیں اور خرید کر بھی چوری کے پیسوں سے نہیں لائے بلکہ محنت مزدوری کر کے لائے ہیں۔‘‘ ایک چور نے کہا۔
’’تم نے خود بھی ابھی تک کچھ کھایا یا نہیں۔‘‘ بوڑھیا نے پوچھا۔
’’نہیں ماں۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جوان بیٹوں کی ماں گھر میں بھوکی بیٹھی ہو اور وہ خود مزے کرتے پھریں۔ ہم نے کھانے کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔‘‘
’’تو پھر پہلے تم اس میں سے کھاؤ۔‘‘
بوڑھیا نے کہا۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے ماں!‘‘
’’میں جو کہتی ہوں۔ چلو کھاؤ۔‘‘
دونوں نے چند لقمے کھائے۔
یہ کھانا تمہیں کیسا لگا۔‘‘ بوڑھیا نے پوچھا۔
’’بہت ہی مزے دار خدا کی قسم آج تک ہم نے اس سے زیادہ مزے کا کھانا نہیں کھایا۔‘‘ ایک نے حیران ہو کر کہا۔
’’یہ اس لیے کہ یہ حلال کی کمائی کا کھانا ہے، تم آج تک حرام کی کمائی کا کھانا کھاتے رہے ہو۔ وعدہ کرو کہ آئندہ کبھی چوری نہیں کروگے۔‘‘
’’ہم وعدہ کرتے ہیں ماں کہ کبھی چوری نہیں کریں گے۔‘‘
تینوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔
- अज्ञात
جب میں اپنے استادوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے ذہن کے پردے پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں اور ساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال کر کے مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور ان پر پیار بھی آتا ہے۔ اب میں باری باری ان کا ذکر کروں گا۔
جب میں باغ ہالار اسکول (کراچی) میں کے جی کلاس میں پڑھتا تھا تو مس نگہت ہماری استانی تھیں۔ مار پیٹ کے بجائے بہت پیار سے پڑھاتی تھیں۔ صفائی پسند اتنی تھی کہ گندگی دیکھ کر انہیں غصہ آ جاتا تھا اور کسی بچے کے گندے کپڑے یا بڑھے ہوئے ناخن دیکھ کر اس کی ہلکی پھلکی پٹائی بھی کردیتی تھیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے ناخن بڑھے ہوئے تھے اور ان میں میل جمع تھا۔ مس نگہت نے میرے ناخنوں پر پیمانے سے (جسے آپ اسکیل یا فٹا کہتے ہیں) مارا۔ چوٹ ہلکی تھی لیکن اس دن میں بہت رویا۔ لیکن مس نگہت نے گندے اور بڑھے ہوئے ناخنوں کے جو نقصان بتائے وہ مجھے اب تک یاد ہیں اور اب میں جب بھی اپنے بڑھے ہوئے ناخن دیکھتا ہوں تو مجھے مس نگہت یاد آ جاتی ہیں اور میں فوراً ناخن کاٹنے بیٹھ جاتا ہوں۔
پہلی جماعت میں پہنچا تو مس سردار ہماری استانی تھیں، لیکن وہ جلد ہی چلی گئیں اور ان کی جگہ مس نسیم آئیں جو استانی کم اور جلاد زیادہ تھیں۔ بچوں کی اس طرح دھنائی کرتی تھیں جیسے دھنیا روئی دھنتا ہے۔ ایسی سخت مار پیٹ کرتی تھیں کہ انسان کو پرھائی سے، اسکول سے اور کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہو جائے۔ جو استاد اور استانیاں یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے میں درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو مار پیٹ کر نہ پڑھایا کریں۔ بہت ضروری ہو تو ڈانٹ ڈپٹ کر لیا کریں۔ اس تحریر کو پڑھنے والے جو بچے اور بچیاں بڑے ہو کر استاد اور استانیاں بنیں وہ بھی یاد رکھیں کہ مار پیٹ سے بچے پڑھتے نہیں بلکہ پرھائی سے بھاگتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم سے بیزار کرنے میں پٹائی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ایک آدھ ہلکا پھلکا تھپڑ پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اچھے بچوں کو اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے بعد کی جماعتوں میں پڑھانے والے جو استاد مجھے یاد آتے ہیں، ان میں سے ایک ضیا صاحب ہیں جو چھٹی جماعت میں ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ اگرچہ ضیا صاحب ہر وقت اپنے ساتھ ایک لچکیلا بیدر رکھتے تھے لیکن اس کا استعمال کم ہی کرتے تھے۔ انہوں نے میری اردو کا تلفظ صحیح کرنے میں بہت مدد دی۔ انہوں نے اردو سکھاتے اور پرھتاے ہوئے کئی کام کی باتیں بتائیں جن سے میں نے بعد میں بھی فائدہ اٹھایا۔ ضیا صاحب ہوم ورک کے طور پر ایک صفحہ روزانہ خوش خط لکھنے کو کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی لکھو، عبارت کہیں سے بھی اتارو، چاہے کسی اخبار سے یا رسالے سے یا کتاب سے اور چاہو تو کوئی کہانی ہی لکھ لاؤ مگر لکھو ضرور اور لکھو بھی صاف صاف اور خوبصورت۔ میں کتاب سے کوئی عبارت اتارنے کے بجائے اکثر دل سے قصے کہانیاں بناکر لکھ کر لے جایا کرتا تھا۔ شاید یہیں سے مجھے کہانیاں لکھنے کا چسکا پڑ گیا۔ کہانیاں پڑھنے کی لت تو پہلے سے تھی ہی۔ ضیا صاحب کے لئے آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ ان کا سکھایا پڑھایا بہت کام آیا۔
ساتویں جماعت میں جناب طیب عباسی ملے جو ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ بچوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بہت مذہبی آدمی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سنایا کرتے تھے۔ بچوں کی شاذ و نادر ہی پٹائی کی ہوگی۔ کلاس بہت شور مچاتی تو جھوٹ موٹ غصے سے کہتے: ’’کیا ہو رہا ہے بھئی؟‘‘ اور بچے اتنے شریر تھے کہ ان کا نرم سلوک دیکھ کر اور شیر ہو جاتے اور انہیں بار بار ’’کیا ہو رہا ہے بھئی‘‘ کہنا پڑتا۔ عباسی صاحب کا محبت بھرا برتاؤ اب بھی بہت یاد آتا ہے۔
آٹھویں جماعت میں میں نے باغ ہالار اسکول چھوڑ کر سیفیہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں جس استاد نے میرے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا وہ سید محمد طاہر صاحت تھے۔ آپ ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ نہ صرف ان کے پڑھانے کا انداز بہت عمدہ تھا بلکہ وہ خوش مزاج بھی تھے۔ قہقہہ بہت بلند آواز میں لگاتے تھے اور دیر تک ہنستے رہتے تھے۔ حتی کہ اسکول کی راہ داریوں میں، اسٹاف روم میں یا کسی جماعت کے کمرے میں ہوتے تو بھی ان کے قہقے سے پتا چل جاتا تھا کہ طاہر صاحب یہیں کہیں ہیں۔ ان کی دلچسپ باتوں پر پوری کلاس دل کھول کر قہقہے لگایا کرتی تھی۔ چنانچہ ہارا اردو کا پریڈ سب سے مزیدار ہوتا تھا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ پرھائی ہو رہی ہے، لیکن پڑھائی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی تھی۔ طاہر صاف کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں شعر یاد تھے۔ موقعے کے لحاظ سے غضب کا شعر پڑھتے تھے۔ اس سے میرا شعر و شاعری کا شوق بہت بڑھ گیا۔ وہ جماعت میں طالب علموں سے شعر سنانے کی فرمائش کرتے۔ اگر کوئی لڑکا اچھا شعر پڑھتا تو بہت داد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ چنانچہ میں نے ادھر ادھر سے کتابیں لے کر بڑے بڑے شاعر، مثلاً غالبؔ، اقبالؔ اور میر وغیرہ کے بےشمار شعر ایک کاپی میں لکھ لئے اور یاد کر لئے، بلکہ بہت سے شعر تو لکھنے کے دوران ہی یاد ہو گئے۔ پھر تو یہ ہونے لگا کہ طاہر صاحب ایک شعر سناتے اور ایک میں سناتا اور پوری کلاس ’’واہ وا‘‘ کر کے داد کے ڈونگرے برساتی۔ طاہر صاحب نے ہمیں تین سال تک یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں میں اردو پرھائی اور حق یہ ہے کہ اردو پرھانے کا حق ادا کر دیا۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرے اندر انہوں نے اردو زبان اور اردو شعر و ادب کا ایک ایسا ذوق اور مطالعے کا ایسا شوق پیدا کر دیا جس نے آگے چل کر میری پڑھائی اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔
انہیں تین سالوں میں شبیر صاحب سے بھی ربط ضبط رہا۔ اگرچہ سائنس کے آدمی تھے اور الجبرا اور طبیعات یعنی فزکس پڑھاتے تھے، لیکن شاعری سے اور ادب سے انہیں بھی بڑا لگاؤ تھا۔ اسی طرح ہمارے ایک استاد احمد صاحب تھے۔ وہ خود شاعر تھے اور کچھ دنوں تک میں ان سے (شاعری پر) اصلاح بھی لیتا رہا۔
تیسری چوتھی جماعت میں میں نے رسالے، کہانیاں اور ناول اس طرح چاٹنا شروع کر دیئے جیسے وہ قلفی یا کھٹ مٹھا چورن ہو۔ اسی دور میں میں نے ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کر دیا اور یہ میرے من کو ایسا بھایا کہ آج تک اسے نہیں چھور سکا بلکہ اب تو میرا بیٹا سجاد بھی اسے پڑھتا ہے۔ ہر ماہ جب اخبار والا ہمدرد نونہال کا تازہ شمارہ دے جاتا ہے تو دونوں باپ بیٹے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اسے پہلے میں پرھ لوں اور اب تو سجاد کی امی جان محترمہ بھی اس دوڑ میں شریک ہو گئی ہیں۔
ہمدرد نونہال سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے میں نے اردو سیکھی (اردو میری مادری زبان نہیں ہے) ہمدرد نونہال سے میں نے کہانیاں اور مضمون لکھنا سیکھا۔ بےشمار معلومات اور عقل کی باتیناس نے مجھے سکھائیں۔ درحقیقت ہمدرد نونہال بھی میرے استادوں میں شامل ہے۔ یہ میرا محسن ہے۔ ( اور یہ بات میں جناب حکیم محمد سعید صاحب یا جناب مسعود احمد برکاتی صاحب کو خوش کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ یہ سچی بات ہے) اپنے استادوں کے ساتھ نونہال کے لئے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں پاکستانی بچے کہ ان کے ملک سے ایک نہایت عمدہ رسالہ ان کی صحیح تربیت اور رہ نمائی کے لئے نکلتا ہے۔
بھئی اپنے استادوں کا یہ ذکر کچھ طویل ہوتا جا رہا ہے، اس لئے میں اسے ختم کرتا ہوں لیکن ٹھہریے! فوہ بھئی حد ہو گئی۔ استادوں کا یہ ذکر الیاس صاحب کے بغیر بھلا کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ انہوں نے ہمیں سال ڈیڑھ سال انگریزی پڑھائی۔ آٹھویں میں اور کچھ عرصے نویں میں۔ انگریزی پڑھائی کیا تھی بس گھول کر پلا دی تھی۔ انگریزی گرامی کی بعض چیزیں انہوں نے جس طرح ہنسا ہنساکر اور مذاق ہی مذاق میں پڑھا دیں وہ اتنے کام کی نکلیں کہ وہیں سے صحیح معنوں میں انگریزی ہماری سمجھ میں آنے لگی اور یہ بنیادی باتیں شاید کوئی اور اس طرح نہ بتا پائے۔ اللہ جانے الیاس صاحب اب کہاں ہیں؟ لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں اللہ تعالی انہیں خوش رکھے اور دنیاو آخرت کی نعمتوں سے مالا مال کرے۔ آمین۔ انہوں نے اور طاہر صاحب نے ہمیں نہایت عمدہ طریقے پر انگریزی اور اردو پرھا کر بہت بڑا احسان کیا۔
بلکہ درحقیقت میرے تمام استاد میرے محسن ہیں، چاہے وہ اسکول کے زمانے کے ہوں، کالج کے ہوں یا یونیورسٹی کے۔ انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔ مجھے اس وقت عقل اور تعلیم دی جب میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
جب میں باغ ہالار اسکول (کراچی) میں کے جی کلاس میں پڑھتا تھا تو مس نگہت ہماری استانی تھیں۔ مار پیٹ کے بجائے بہت پیار سے پڑھاتی تھیں۔ صفائی پسند اتنی تھی کہ گندگی دیکھ کر انہیں غصہ آ جاتا تھا اور کسی بچے کے گندے کپڑے یا بڑھے ہوئے ناخن دیکھ کر اس کی ہلکی پھلکی پٹائی بھی کردیتی تھیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے ناخن بڑھے ہوئے تھے اور ان میں میل جمع تھا۔ مس نگہت نے میرے ناخنوں پر پیمانے سے (جسے آپ اسکیل یا فٹا کہتے ہیں) مارا۔ چوٹ ہلکی تھی لیکن اس دن میں بہت رویا۔ لیکن مس نگہت نے گندے اور بڑھے ہوئے ناخنوں کے جو نقصان بتائے وہ مجھے اب تک یاد ہیں اور اب میں جب بھی اپنے بڑھے ہوئے ناخن دیکھتا ہوں تو مجھے مس نگہت یاد آ جاتی ہیں اور میں فوراً ناخن کاٹنے بیٹھ جاتا ہوں۔
پہلی جماعت میں پہنچا تو مس سردار ہماری استانی تھیں، لیکن وہ جلد ہی چلی گئیں اور ان کی جگہ مس نسیم آئیں جو استانی کم اور جلاد زیادہ تھیں۔ بچوں کی اس طرح دھنائی کرتی تھیں جیسے دھنیا روئی دھنتا ہے۔ ایسی سخت مار پیٹ کرتی تھیں کہ انسان کو پرھائی سے، اسکول سے اور کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہو جائے۔ جو استاد اور استانیاں یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے میں درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو مار پیٹ کر نہ پڑھایا کریں۔ بہت ضروری ہو تو ڈانٹ ڈپٹ کر لیا کریں۔ اس تحریر کو پڑھنے والے جو بچے اور بچیاں بڑے ہو کر استاد اور استانیاں بنیں وہ بھی یاد رکھیں کہ مار پیٹ سے بچے پڑھتے نہیں بلکہ پرھائی سے بھاگتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم سے بیزار کرنے میں پٹائی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ایک آدھ ہلکا پھلکا تھپڑ پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اچھے بچوں کو اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے بعد کی جماعتوں میں پڑھانے والے جو استاد مجھے یاد آتے ہیں، ان میں سے ایک ضیا صاحب ہیں جو چھٹی جماعت میں ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ اگرچہ ضیا صاحب ہر وقت اپنے ساتھ ایک لچکیلا بیدر رکھتے تھے لیکن اس کا استعمال کم ہی کرتے تھے۔ انہوں نے میری اردو کا تلفظ صحیح کرنے میں بہت مدد دی۔ انہوں نے اردو سکھاتے اور پرھتاے ہوئے کئی کام کی باتیں بتائیں جن سے میں نے بعد میں بھی فائدہ اٹھایا۔ ضیا صاحب ہوم ورک کے طور پر ایک صفحہ روزانہ خوش خط لکھنے کو کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی لکھو، عبارت کہیں سے بھی اتارو، چاہے کسی اخبار سے یا رسالے سے یا کتاب سے اور چاہو تو کوئی کہانی ہی لکھ لاؤ مگر لکھو ضرور اور لکھو بھی صاف صاف اور خوبصورت۔ میں کتاب سے کوئی عبارت اتارنے کے بجائے اکثر دل سے قصے کہانیاں بناکر لکھ کر لے جایا کرتا تھا۔ شاید یہیں سے مجھے کہانیاں لکھنے کا چسکا پڑ گیا۔ کہانیاں پڑھنے کی لت تو پہلے سے تھی ہی۔ ضیا صاحب کے لئے آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ ان کا سکھایا پڑھایا بہت کام آیا۔
ساتویں جماعت میں جناب طیب عباسی ملے جو ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ بچوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بہت مذہبی آدمی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سنایا کرتے تھے۔ بچوں کی شاذ و نادر ہی پٹائی کی ہوگی۔ کلاس بہت شور مچاتی تو جھوٹ موٹ غصے سے کہتے: ’’کیا ہو رہا ہے بھئی؟‘‘ اور بچے اتنے شریر تھے کہ ان کا نرم سلوک دیکھ کر اور شیر ہو جاتے اور انہیں بار بار ’’کیا ہو رہا ہے بھئی‘‘ کہنا پڑتا۔ عباسی صاحب کا محبت بھرا برتاؤ اب بھی بہت یاد آتا ہے۔
آٹھویں جماعت میں میں نے باغ ہالار اسکول چھوڑ کر سیفیہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں جس استاد نے میرے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا وہ سید محمد طاہر صاحت تھے۔ آپ ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ نہ صرف ان کے پڑھانے کا انداز بہت عمدہ تھا بلکہ وہ خوش مزاج بھی تھے۔ قہقہہ بہت بلند آواز میں لگاتے تھے اور دیر تک ہنستے رہتے تھے۔ حتی کہ اسکول کی راہ داریوں میں، اسٹاف روم میں یا کسی جماعت کے کمرے میں ہوتے تو بھی ان کے قہقے سے پتا چل جاتا تھا کہ طاہر صاحب یہیں کہیں ہیں۔ ان کی دلچسپ باتوں پر پوری کلاس دل کھول کر قہقہے لگایا کرتی تھی۔ چنانچہ ہارا اردو کا پریڈ سب سے مزیدار ہوتا تھا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ پرھائی ہو رہی ہے، لیکن پڑھائی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی تھی۔ طاہر صاف کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں شعر یاد تھے۔ موقعے کے لحاظ سے غضب کا شعر پڑھتے تھے۔ اس سے میرا شعر و شاعری کا شوق بہت بڑھ گیا۔ وہ جماعت میں طالب علموں سے شعر سنانے کی فرمائش کرتے۔ اگر کوئی لڑکا اچھا شعر پڑھتا تو بہت داد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ چنانچہ میں نے ادھر ادھر سے کتابیں لے کر بڑے بڑے شاعر، مثلاً غالبؔ، اقبالؔ اور میر وغیرہ کے بےشمار شعر ایک کاپی میں لکھ لئے اور یاد کر لئے، بلکہ بہت سے شعر تو لکھنے کے دوران ہی یاد ہو گئے۔ پھر تو یہ ہونے لگا کہ طاہر صاحب ایک شعر سناتے اور ایک میں سناتا اور پوری کلاس ’’واہ وا‘‘ کر کے داد کے ڈونگرے برساتی۔ طاہر صاحب نے ہمیں تین سال تک یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں میں اردو پرھائی اور حق یہ ہے کہ اردو پرھانے کا حق ادا کر دیا۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرے اندر انہوں نے اردو زبان اور اردو شعر و ادب کا ایک ایسا ذوق اور مطالعے کا ایسا شوق پیدا کر دیا جس نے آگے چل کر میری پڑھائی اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔
انہیں تین سالوں میں شبیر صاحب سے بھی ربط ضبط رہا۔ اگرچہ سائنس کے آدمی تھے اور الجبرا اور طبیعات یعنی فزکس پڑھاتے تھے، لیکن شاعری سے اور ادب سے انہیں بھی بڑا لگاؤ تھا۔ اسی طرح ہمارے ایک استاد احمد صاحب تھے۔ وہ خود شاعر تھے اور کچھ دنوں تک میں ان سے (شاعری پر) اصلاح بھی لیتا رہا۔
تیسری چوتھی جماعت میں میں نے رسالے، کہانیاں اور ناول اس طرح چاٹنا شروع کر دیئے جیسے وہ قلفی یا کھٹ مٹھا چورن ہو۔ اسی دور میں میں نے ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کر دیا اور یہ میرے من کو ایسا بھایا کہ آج تک اسے نہیں چھور سکا بلکہ اب تو میرا بیٹا سجاد بھی اسے پڑھتا ہے۔ ہر ماہ جب اخبار والا ہمدرد نونہال کا تازہ شمارہ دے جاتا ہے تو دونوں باپ بیٹے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اسے پہلے میں پرھ لوں اور اب تو سجاد کی امی جان محترمہ بھی اس دوڑ میں شریک ہو گئی ہیں۔
ہمدرد نونہال سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے میں نے اردو سیکھی (اردو میری مادری زبان نہیں ہے) ہمدرد نونہال سے میں نے کہانیاں اور مضمون لکھنا سیکھا۔ بےشمار معلومات اور عقل کی باتیناس نے مجھے سکھائیں۔ درحقیقت ہمدرد نونہال بھی میرے استادوں میں شامل ہے۔ یہ میرا محسن ہے۔ ( اور یہ بات میں جناب حکیم محمد سعید صاحب یا جناب مسعود احمد برکاتی صاحب کو خوش کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ یہ سچی بات ہے) اپنے استادوں کے ساتھ نونہال کے لئے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں پاکستانی بچے کہ ان کے ملک سے ایک نہایت عمدہ رسالہ ان کی صحیح تربیت اور رہ نمائی کے لئے نکلتا ہے۔
بھئی اپنے استادوں کا یہ ذکر کچھ طویل ہوتا جا رہا ہے، اس لئے میں اسے ختم کرتا ہوں لیکن ٹھہریے! فوہ بھئی حد ہو گئی۔ استادوں کا یہ ذکر الیاس صاحب کے بغیر بھلا کیسے مکمل ہو سکتا ہے؟ انہوں نے ہمیں سال ڈیڑھ سال انگریزی پڑھائی۔ آٹھویں میں اور کچھ عرصے نویں میں۔ انگریزی پڑھائی کیا تھی بس گھول کر پلا دی تھی۔ انگریزی گرامی کی بعض چیزیں انہوں نے جس طرح ہنسا ہنساکر اور مذاق ہی مذاق میں پڑھا دیں وہ اتنے کام کی نکلیں کہ وہیں سے صحیح معنوں میں انگریزی ہماری سمجھ میں آنے لگی اور یہ بنیادی باتیں شاید کوئی اور اس طرح نہ بتا پائے۔ اللہ جانے الیاس صاحب اب کہاں ہیں؟ لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں اللہ تعالی انہیں خوش رکھے اور دنیاو آخرت کی نعمتوں سے مالا مال کرے۔ آمین۔ انہوں نے اور طاہر صاحب نے ہمیں نہایت عمدہ طریقے پر انگریزی اور اردو پرھا کر بہت بڑا احسان کیا۔
بلکہ درحقیقت میرے تمام استاد میرے محسن ہیں، چاہے وہ اسکول کے زمانے کے ہوں، کالج کے ہوں یا یونیورسٹی کے۔ انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔ مجھے اس وقت عقل اور تعلیم دی جب میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
- रऊफ़-पारेख
کلاس میں بالکل خاموشی تھی۔ سبھی بچے چپ چاپ قلم کاپی سنبھالے ہوئے تیار بیٹھے تھے کہ انگریزی کے استاد آئیں اور املا بولنا شروع کریں۔ آج انگریزی املا کا دن تھا۔ سبھی بچے گھر سے خوب خوب یاد کر کے آتے تھے۔ روزمرہ کی طرح اس دن بھی بچوں کے انگریزی کے استاد کا انتظار زیادہ دیر نہ کرنا پڑا۔ گھنٹہ بجنے کے تھوڑی دیر بعد انگریزی کے استاد کلاس میں آگئے۔
استاد کے کلاس میں آتے ہی سبھی بچے ان کی تعظیم کے لئے بڑے ادب سے کھڑے ہوگئے۔ استاد نے ان کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور وہ سب بیٹھ گئے اور ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔
انگریزی کے استاد نے بہت شفقت اور نرمی سے کہا’بچوں آج ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آئے ہیں اور وہ معائنہ کریں گے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو املا نہیں بولوں گا ابھی انسپکٹر صاحب آتے ہوں گے وہی تم لوگوں کو املا بولیں گے‘‘
’’جی جی اچھا ماسٹر صاحب ’’اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں نے استاد کی بات ختم ہوتے ہی ایک ساتھ دھیمی آواز میں کہا یہ سن کراستاد نے پھر ان کو مخاطب کیا۔
’’دیکھو بچوں گھبرانا بالکل نہیں جیسے ہی انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوں تم سب بہت خاموشی اور بہت ادب سے کھڑے ہوجانا پھر جب وہ کہیں (please sit down) پلیز سٹ ڈاؤن تو تم سب بیٹھ جانا پھر جب وہ پوچھیں کہ آج کیا ہے تو صرف مانٹیر جواب دے کہ سر آج (dictation) ڈکٹیشن کا دن ہے۔
انگریزی کے استاد بچوں کو یہ سمجھا ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچے ادب سے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے پورے کلاس پر بھر پور نظر دوڑاتے ہوئے ان سب سے بیٹھ جانے کو کہا پھر انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔
’’ماسٹر صاحب کیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘
’’سر آج ڈکٹیشن کا دن ہے ’’انگریزی کے استاد نے جواب دیا ’’اچھا اچھا تو آج ڈکٹیشن کا دن ہے تو لائیے آج میں ہی بول دوں دیکھوں آپ کے بچے کیا پڑھتے ہیں ’’انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے انگریزی کے استاد سے کہا انگریزی کے استاد یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے ذرا سا ہٹ کر اور ایک کونے میں کھڑے ہوگئے تاکہ انسپکٹر صاحب سب لڑکوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ سبھی بچے املا لکھنے کے لئے تیار ہوگئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔
’’بچوں تمہارا قلم کاپی تیار ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں سر‘‘ سبھی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
’’تو لکھو میں بولتا ہوں‘‘ انسپکٹر صاحب نے کہا اور پھر رک رک کر املا بولنا شروع کردیا۔ forest فاریسٹ، manمین، cup کپ، teacherٹیچر، kettle کیٹل۔
سبھی بچے گھر سے خوب پڑھ کر اور یاد کر کے آئے تھے اس لئے ان سبھی نے جلدی جلدی انسپکٹر صاحب کے بولے ہوئے پانچوں لفظ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھ دیئے۔ انگریزی کے استاد نے خوش ہو کر بچوں کے پاس جا جا کر دیکھا تو صرف ایک بچہ ایسا نکلا جو ’’کیٹل‘‘ نہیں لکھ پاتا تھا اور باقی چاروں لفظ اس نے بالکل ٹھیک لکھے تھے۔ وہ بچہ چاہتا تو بغل میں بیٹھے کسی بھی بچے کی نقل کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور اس نے اپنی نظر اپنی کاپی سے ذرا بھی نہ ہٹائی۔
انسپکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے سبھی بچوں کے پاس گئے اور انہوں نے سب کی کاپیاں دیکھیں ۔وہ جب اس کے پاس گئے تو وہ بچہ سب بچوں کی طرح ادب سے کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنی کاپی انسپکٹر صاحب کو پیش کر دی۔ انسپکٹر صاحب نے اس کی کاپی دیکھی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔
’’تم کو’ کیٹل‘‘ کی اسپیلنگ نہیں معلوم؟‘‘
’’نوسر‘‘ اس بچے نے بہت ایمانداری اور شرمساری سے کہا
انسپکٹرصاحب اس بچے کا جواب سن کر اس پر غصہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بہت خوش ہوئے اور انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر صاحب! آپ کے کلاس کے بچے نہ صرف پڑھنے میں تیز ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں۔ اس بچے کے دائیں بائیں دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچوں نے سبھی لفظ صحیح لکھے ہیں اگر یہ بچہ چاہتا تو نقل کر سکتا تھا یا پوچھ سکتا تھا مگر یہ نقل کرنا یا پوچھنا بھی بے ایمانی سمجھتا ہے اس لئے اس نے ایسا نہیں کیا میں آپ کے سبھی بچوں سے اور اس بچے سے بہت خوش ہوں۔‘‘
انسپکٹر صاحب انگریزی کے استاد سے اتنا کہہ کر اس بچہ سے مخاطب ہوئے۔
’’کیوں بچے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’جناب میرا نام موہن داس ہے‘‘ اس بچے نے بہت شائستگی سے جواب دیا جس کو سن کر انسپکٹر صاحب نے کہا۔
’’تم ضرور ایک دن نام پیدا کروگے۔‘‘
انسپکٹر صاحب کا کہنا سچ ثابت ہوا۔ اس بچے نے آگے چل کر بڑا نام پیدا کیا۔ بڑا ہو کر اس نے ہمارے ملک ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے کا راستہ دکھایا خود بڑی بڑی مصیبتیں جھیل کر ملک کو آزاد کرایا۔ اس نے ساری زندگی اپنے وطن اور عوام کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ وہ مر گیا مگر اس کا نام اور کام امر ہوگیا۔ ساری دنیا اس کی عزت کرتی ہے۔ اس کا نام بڑے ادب اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام تو موہن داس کرم چند گاندھی تھا مگر ہم ہندوستانی محبت سے اس کو باپو کہتے ہیں۔ وہ قوم کا باپ بھی کہلاتا ہے۔ سچا، ایماندار اور نیک ہونے کے سبب وہ ’’مہاتما‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں جتنے بھی بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان سب میں وہ شامل ہیں اور یہ صرف اس لئے کہ اس نے شروع ہی سے جھوٹ سے نفرت کی اور سچ بولنے کی عادت ڈالی۔ سچ ہے۔
’’سچ کا نام بڑا‘‘
استاد کے کلاس میں آتے ہی سبھی بچے ان کی تعظیم کے لئے بڑے ادب سے کھڑے ہوگئے۔ استاد نے ان کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور وہ سب بیٹھ گئے اور ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔
انگریزی کے استاد نے بہت شفقت اور نرمی سے کہا’بچوں آج ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آئے ہیں اور وہ معائنہ کریں گے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو املا نہیں بولوں گا ابھی انسپکٹر صاحب آتے ہوں گے وہی تم لوگوں کو املا بولیں گے‘‘
’’جی جی اچھا ماسٹر صاحب ’’اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں نے استاد کی بات ختم ہوتے ہی ایک ساتھ دھیمی آواز میں کہا یہ سن کراستاد نے پھر ان کو مخاطب کیا۔
’’دیکھو بچوں گھبرانا بالکل نہیں جیسے ہی انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوں تم سب بہت خاموشی اور بہت ادب سے کھڑے ہوجانا پھر جب وہ کہیں (please sit down) پلیز سٹ ڈاؤن تو تم سب بیٹھ جانا پھر جب وہ پوچھیں کہ آج کیا ہے تو صرف مانٹیر جواب دے کہ سر آج (dictation) ڈکٹیشن کا دن ہے۔
انگریزی کے استاد بچوں کو یہ سمجھا ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچے ادب سے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے پورے کلاس پر بھر پور نظر دوڑاتے ہوئے ان سب سے بیٹھ جانے کو کہا پھر انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔
’’ماسٹر صاحب کیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘
’’سر آج ڈکٹیشن کا دن ہے ’’انگریزی کے استاد نے جواب دیا ’’اچھا اچھا تو آج ڈکٹیشن کا دن ہے تو لائیے آج میں ہی بول دوں دیکھوں آپ کے بچے کیا پڑھتے ہیں ’’انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے انگریزی کے استاد سے کہا انگریزی کے استاد یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے ذرا سا ہٹ کر اور ایک کونے میں کھڑے ہوگئے تاکہ انسپکٹر صاحب سب لڑکوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ سبھی بچے املا لکھنے کے لئے تیار ہوگئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔
’’بچوں تمہارا قلم کاپی تیار ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں سر‘‘ سبھی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
’’تو لکھو میں بولتا ہوں‘‘ انسپکٹر صاحب نے کہا اور پھر رک رک کر املا بولنا شروع کردیا۔ forest فاریسٹ، manمین، cup کپ، teacherٹیچر، kettle کیٹل۔
سبھی بچے گھر سے خوب پڑھ کر اور یاد کر کے آئے تھے اس لئے ان سبھی نے جلدی جلدی انسپکٹر صاحب کے بولے ہوئے پانچوں لفظ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھ دیئے۔ انگریزی کے استاد نے خوش ہو کر بچوں کے پاس جا جا کر دیکھا تو صرف ایک بچہ ایسا نکلا جو ’’کیٹل‘‘ نہیں لکھ پاتا تھا اور باقی چاروں لفظ اس نے بالکل ٹھیک لکھے تھے۔ وہ بچہ چاہتا تو بغل میں بیٹھے کسی بھی بچے کی نقل کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور اس نے اپنی نظر اپنی کاپی سے ذرا بھی نہ ہٹائی۔
انسپکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے سبھی بچوں کے پاس گئے اور انہوں نے سب کی کاپیاں دیکھیں ۔وہ جب اس کے پاس گئے تو وہ بچہ سب بچوں کی طرح ادب سے کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنی کاپی انسپکٹر صاحب کو پیش کر دی۔ انسپکٹر صاحب نے اس کی کاپی دیکھی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔
’’تم کو’ کیٹل‘‘ کی اسپیلنگ نہیں معلوم؟‘‘
’’نوسر‘‘ اس بچے نے بہت ایمانداری اور شرمساری سے کہا
انسپکٹرصاحب اس بچے کا جواب سن کر اس پر غصہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بہت خوش ہوئے اور انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر صاحب! آپ کے کلاس کے بچے نہ صرف پڑھنے میں تیز ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں۔ اس بچے کے دائیں بائیں دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچوں نے سبھی لفظ صحیح لکھے ہیں اگر یہ بچہ چاہتا تو نقل کر سکتا تھا یا پوچھ سکتا تھا مگر یہ نقل کرنا یا پوچھنا بھی بے ایمانی سمجھتا ہے اس لئے اس نے ایسا نہیں کیا میں آپ کے سبھی بچوں سے اور اس بچے سے بہت خوش ہوں۔‘‘
انسپکٹر صاحب انگریزی کے استاد سے اتنا کہہ کر اس بچہ سے مخاطب ہوئے۔
’’کیوں بچے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’جناب میرا نام موہن داس ہے‘‘ اس بچے نے بہت شائستگی سے جواب دیا جس کو سن کر انسپکٹر صاحب نے کہا۔
’’تم ضرور ایک دن نام پیدا کروگے۔‘‘
انسپکٹر صاحب کا کہنا سچ ثابت ہوا۔ اس بچے نے آگے چل کر بڑا نام پیدا کیا۔ بڑا ہو کر اس نے ہمارے ملک ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے کا راستہ دکھایا خود بڑی بڑی مصیبتیں جھیل کر ملک کو آزاد کرایا۔ اس نے ساری زندگی اپنے وطن اور عوام کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ وہ مر گیا مگر اس کا نام اور کام امر ہوگیا۔ ساری دنیا اس کی عزت کرتی ہے۔ اس کا نام بڑے ادب اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام تو موہن داس کرم چند گاندھی تھا مگر ہم ہندوستانی محبت سے اس کو باپو کہتے ہیں۔ وہ قوم کا باپ بھی کہلاتا ہے۔ سچا، ایماندار اور نیک ہونے کے سبب وہ ’’مہاتما‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں جتنے بھی بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان سب میں وہ شامل ہیں اور یہ صرف اس لئے کہ اس نے شروع ہی سے جھوٹ سے نفرت کی اور سچ بولنے کی عادت ڈالی۔ سچ ہے۔
’’سچ کا نام بڑا‘‘
- ahmad-ibrahim-alvi
ابا جان بھی بچوں کی طرح کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے کہ کس طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ نہ رہ سکے بول ہی اٹھے، ’’بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے کہو تو سناؤں؟‘‘
’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا؟‘‘
ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی،
کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
نہ آتا تھا کوئی اس کے قریب
بادشاہ اور غریب سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں ابا سنا رہے تھے۔
کئے ایک دن جمع اس نے فقیر
کھلائی انہیں سونے چاندی کے کھیر
فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
امیروں وزیروں سے کہنے لگا
کہ آؤ چلیں آج کھیلیں شکار
قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
مگر مچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں
ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہوکر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا کہنے لگے، ’’یہ تو عجیب بےمعنیٰ کہانی ہے جس کا سر نہ پیر‘‘
ابا جان بولے، ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہیں آئی‘‘
منجھلے بھائی نے کہا، ’’سمجھ میں آتی ہے پتہ نہیں چلتا‘‘
یہ سن کر سب ہنس پڑے، ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے پتہ نہیں چلتا‘‘ آپا نے کہا۔
’’ابا جان۔ بادشاہ غریب تھا تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں رکھ لیا مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا کیا مطلب ہے اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھرے سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڈے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگر مچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘
ننھی بولی، ’’توبہ توبہ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
ابا جان نے کہا، ’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔۔‘‘
ہوا یہ کہ،
سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
مرے پاس دال اور آٹا نہیں
تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
وہیں ایک مکھی کا پرکٹ گیا
جلا ہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا
یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی۔ لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا، ’’یہ کہانی تو کچھ اول جلول سی ہے‘‘
’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا۔
’’خاک مزا آ رہا ہے‘‘ ننھی نے کہا، ’’تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا ہوگا تو پھر کیا ہوا؟‘‘
ابا نے کہا، ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ،
مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور‘‘
’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘
’’بھئی مجھے کیا معلوم .. کہانی بنانے والوں نے یہی لکھا ہے؟‘‘
’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے۔‘‘
’’حفیظ صاحب نے‘‘
’’ابا اب میں سمجھا آگے سنائیے ابا جان آگے بڑھے۔
مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
لگا ناچنے سانپ کی دم پہ مور
کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
لئے شیر سے بیر چوہیا نے چھین‘‘
چوہیا نے شیر سے بیر چھین لئے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری سمجھ آزمانے کے لئے کہانی سنا رہے ہیں۔
’’اور تو یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ امی جان ہنستے ہوئی بولیں۔ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہیے کہیے آگے کہیے آگے کہیے ابا جان۔۔۔
ابا جان نے کہا، ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے
ہاں کیا کہہ رہا تھا۔
لئے شیر سے بیر چوہیا نے چھین
یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے‘‘
بڑے بھائی جان نے قہقہہ مارا، ’’ہہ ہہ ہا ہا لیجئے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی‘‘ منجھلے بھائی بولے، ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں‘‘ ابا جان نے کہا، ’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے، ’’کمند ہوا‘‘ چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘
آپا نے پوچھا، ’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں‘‘
مگر ننھی بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور منہ بسورنے لگی اوں اوں کہانی ختم کیجئے واہ ساری کہانی خراب کردی ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی۔
غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
مگر راہ میں چیونٹیاں آگئیں
چنے جس قدر تھے وہ سب کھا گئیں
بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی
اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا؟‘‘
ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی،
کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
نہ آتا تھا کوئی اس کے قریب
بادشاہ اور غریب سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں ابا سنا رہے تھے۔
کئے ایک دن جمع اس نے فقیر
کھلائی انہیں سونے چاندی کے کھیر
فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
امیروں وزیروں سے کہنے لگا
کہ آؤ چلیں آج کھیلیں شکار
قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
مگر مچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں
ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہوکر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا کہنے لگے، ’’یہ تو عجیب بےمعنیٰ کہانی ہے جس کا سر نہ پیر‘‘
ابا جان بولے، ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہیں آئی‘‘
منجھلے بھائی نے کہا، ’’سمجھ میں آتی ہے پتہ نہیں چلتا‘‘
یہ سن کر سب ہنس پڑے، ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے پتہ نہیں چلتا‘‘ آپا نے کہا۔
’’ابا جان۔ بادشاہ غریب تھا تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں رکھ لیا مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا کیا مطلب ہے اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھرے سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڈے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگر مچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘
ننھی بولی، ’’توبہ توبہ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان۔ پھر کیا ہوا؟‘‘
ابا جان نے کہا، ’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔۔‘‘
ہوا یہ کہ،
سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
مرے پاس دال اور آٹا نہیں
تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
وہیں ایک مکھی کا پرکٹ گیا
جلا ہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا
یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی۔ لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا، ’’یہ کہانی تو کچھ اول جلول سی ہے‘‘
’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا۔
’’خاک مزا آ رہا ہے‘‘ ننھی نے کہا، ’’تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا ہوگا تو پھر کیا ہوا؟‘‘
ابا نے کہا، ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ،
مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور‘‘
’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘
’’بھئی مجھے کیا معلوم .. کہانی بنانے والوں نے یہی لکھا ہے؟‘‘
’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے۔‘‘
’’حفیظ صاحب نے‘‘
’’ابا اب میں سمجھا آگے سنائیے ابا جان آگے بڑھے۔
مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
لگا ناچنے سانپ کی دم پہ مور
کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
لئے شیر سے بیر چوہیا نے چھین‘‘
چوہیا نے شیر سے بیر چھین لئے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری سمجھ آزمانے کے لئے کہانی سنا رہے ہیں۔
’’اور تو یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ امی جان ہنستے ہوئی بولیں۔ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہیے کہیے آگے کہیے آگے کہیے ابا جان۔۔۔
ابا جان نے کہا، ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے
ہاں کیا کہہ رہا تھا۔
لئے شیر سے بیر چوہیا نے چھین
یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے‘‘
بڑے بھائی جان نے قہقہہ مارا، ’’ہہ ہہ ہا ہا لیجئے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی‘‘ منجھلے بھائی بولے، ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں‘‘ ابا جان نے کہا، ’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے، ’’کمند ہوا‘‘ چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘
آپا نے پوچھا، ’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں‘‘
مگر ننھی بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور منہ بسورنے لگی اوں اوں کہانی ختم کیجئے واہ ساری کہانی خراب کردی ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی۔
غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
مگر راہ میں چیونٹیاں آگئیں
چنے جس قدر تھے وہ سب کھا گئیں
بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی
اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
- hafeez-jalandhari
ایک مور تھا اور ایک تھا گیدڑ۔ دونوں میں محبت تھی۔ دنوں کی صلاح ہوئی۔ کہ چل کر بیر کھاؤ۔ وہ دونوں کے دونوں مل کر چلے کسی باغ میں۔ وہاں ایک بیری کا درخت تھا۔ جب اس درخت کے قریب پہنچے۔ تو مور ار کر اس درخت پر جا بیٹھا۔ درخت پر بیٹھ کے پکے پکے بیر تو آپ کھانے لگا اور کچے کچے بیر نیچے پھینکنے لگا۔ گیدڑ نے کہا یا تو دوست پکے پکے بیر دے۔ نہیں تو تو نیچے اترے گا۔ تو میں تجھے کھا جاؤں گا۔ جب مور کا پیٹ بھر گیا۔ تو وہ نیچے اترا۔ گیدڑ نے اسے کھا لیا۔
جب اسے کھا کے آگے چلا۔ تو ایک بڑھیا بیٹھے اپلے چن رہی تھی۔ جب اس کے پاس گیا۔ تو اسے جاکے کہا۔ کہ پکے پکے بیر کھائے اپنا بھائی مور کھایا۔ تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے، بڑھیا نے کہا جاپرے! نہیں تو ایک اپلاماروں گی۔ گیدڑ بڑھیا کو بھی کھا گیا۔ آگے چلا تو ایک لکڑہارا لکڑیاں چیرتا ہوا ملا۔ اس سے کہا۔ کہ پکے پکے بیر کھائے۔ اپنا بھائی مور کھایا۔ اپلے چنتی بڑھیا کھائ۔ تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے اس نے کہا پرے ہٹ! آگے چلا تو ملا اسے ایک تیلی تیل تول رہا تھا۔ اس سے بھی گیدڑ نے یوں ہی کہا۔ کہ پکے پکے بیر کھائے۔ اپنا بھائی مور کھایا۔ اپلے چنتی بڑھیا کھائی۔ لکڑیاں چیرتا لکڑہارا کھایا۔ تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے۔ تیلی نے کہا چل! نہیں تو ایک کپاماروں گا۔ گیدڑ تیلی کو بھا کھا گیا۔ آگے گیا تو دریا ملا۔ وہاں جا خوب پانی پیا۔ جب پیٹ اچھی طرح بھر گیا۔ تب سارے جنگل کی مٹی سمیٹ اس کا چبوترا بنایا اور گوبر سے اسے لیپا۔ اور دریاؤں میں سے دو مینڈکیاں پکڑا اپنے دونوں کانوں میں لٹکالیں۔ اور چبوترے پر چڑھ بیٹھے۔ بہت سی گائیں بھینسیں آئیں۔ اس دریا پر۔ پانی پینے کے واسطے ان سے لڑنے لگا۔ کہ میں پانی نہیں پینے دوں گا۔ انہوں نے کہا کیوں؟ کہا پہلے اس طرح کہو۔ کہ چاندی کا تیرا چونترا۔ کوئی صندل لیپا جائے۔ کانوں تیرے دو مرکیاں کوئی راجہ بنسی بیٹھا ہوئے۔ انہوں نے کہا۔ اچھا ہم پہلے پانی پی لیں۔ پھر کہیں گے۔ جب گائیں بھینسیں پانی پی چکیں۔ تو گیدڑ نے کہا۔ اب کہو۔ تو انہوں نے کہا کہ،
مٹی کا تیرا چونترا۔ کوئی گوبر لیپا جائے
کانوں تیرے دو مینڈکیاں۔ کوئی گیدڑ بیٹھا ہوئے
گیدڑ نے جو یہ سنا تو وہ لڑنے لگا۔ گائے بھینسوں کو جو آیاغصہ۔ انہوں نے ایک سینگ مارا گیدڑ کا پیٹ پھٹ گیا اور اس میں سے جتنے مور اور آدمی اس نے کھائے تھے وہ سب نکل آئے اور اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ گیدڑ مرگیا۔
جب اسے کھا کے آگے چلا۔ تو ایک بڑھیا بیٹھے اپلے چن رہی تھی۔ جب اس کے پاس گیا۔ تو اسے جاکے کہا۔ کہ پکے پکے بیر کھائے اپنا بھائی مور کھایا۔ تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے، بڑھیا نے کہا جاپرے! نہیں تو ایک اپلاماروں گی۔ گیدڑ بڑھیا کو بھی کھا گیا۔ آگے چلا تو ایک لکڑہارا لکڑیاں چیرتا ہوا ملا۔ اس سے کہا۔ کہ پکے پکے بیر کھائے۔ اپنا بھائی مور کھایا۔ اپلے چنتی بڑھیا کھائ۔ تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے اس نے کہا پرے ہٹ! آگے چلا تو ملا اسے ایک تیلی تیل تول رہا تھا۔ اس سے بھی گیدڑ نے یوں ہی کہا۔ کہ پکے پکے بیر کھائے۔ اپنا بھائی مور کھایا۔ اپلے چنتی بڑھیا کھائی۔ لکڑیاں چیرتا لکڑہارا کھایا۔ تجھے کھاؤں تو پیٹ بھرے۔ تیلی نے کہا چل! نہیں تو ایک کپاماروں گا۔ گیدڑ تیلی کو بھا کھا گیا۔ آگے گیا تو دریا ملا۔ وہاں جا خوب پانی پیا۔ جب پیٹ اچھی طرح بھر گیا۔ تب سارے جنگل کی مٹی سمیٹ اس کا چبوترا بنایا اور گوبر سے اسے لیپا۔ اور دریاؤں میں سے دو مینڈکیاں پکڑا اپنے دونوں کانوں میں لٹکالیں۔ اور چبوترے پر چڑھ بیٹھے۔ بہت سی گائیں بھینسیں آئیں۔ اس دریا پر۔ پانی پینے کے واسطے ان سے لڑنے لگا۔ کہ میں پانی نہیں پینے دوں گا۔ انہوں نے کہا کیوں؟ کہا پہلے اس طرح کہو۔ کہ چاندی کا تیرا چونترا۔ کوئی صندل لیپا جائے۔ کانوں تیرے دو مرکیاں کوئی راجہ بنسی بیٹھا ہوئے۔ انہوں نے کہا۔ اچھا ہم پہلے پانی پی لیں۔ پھر کہیں گے۔ جب گائیں بھینسیں پانی پی چکیں۔ تو گیدڑ نے کہا۔ اب کہو۔ تو انہوں نے کہا کہ،
مٹی کا تیرا چونترا۔ کوئی گوبر لیپا جائے
کانوں تیرے دو مینڈکیاں۔ کوئی گیدڑ بیٹھا ہوئے
گیدڑ نے جو یہ سنا تو وہ لڑنے لگا۔ گائے بھینسوں کو جو آیاغصہ۔ انہوں نے ایک سینگ مارا گیدڑ کا پیٹ پھٹ گیا اور اس میں سے جتنے مور اور آدمی اس نے کھائے تھے وہ سب نکل آئے اور اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ گیدڑ مرگیا۔
- unknown
جب میں اپنے استادوں کا تصور کرتا ہوں تو میرے ذہن کے پردے پر کچھ ایسے لوگ ابھرتے ہیں جو بہت دلچسپ، مہربان، پڑھے لکھے اور ذہین ہیں اور ساتھ ہی میرے محسن بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال کر کے مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور ان پر پیار بھی آتا ہے۔ اب میں باری باری ان کا ذکر کروں گا۔
جب میں باغ ہالار اسکول (کراچی) میں کے جی کلاس میں پڑھتا تھا تو مس نگہت ہماری استانی تھیں۔ مار پیٹ کے بجائے بہت پیار سے پڑھاتی تھیں۔ صفائی پسند اتنی تھی کہ گندگی دیکھ کر انہیں غصہ آجاتا تھا اور کسی بچے کے گندے کپڑے یا بڑھے ہوئے ناخن دیکھ کر اس کی ہلکی پھلکی پٹائی بھی کردیتی تھیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے ناخن بڑھے ہوئے تھے اور ان میں میل جمع تھا۔ مس نگہت نے میرے ناخنوں پر پیمانے سے (جسے آپ اسکیل یا فٹا کہتے ہیں) مارا۔ چوٹ ہلکی تھی لیکن اس دن میں بہت رویا۔ لیکن مس نگہت نے گندے اور بڑھے ہوئے ناخنوں کے جو نقصان بتائے وہ مجھے اب تک یاد ہیں۔ اور اب میں جب بھی اپنے بڑھے ہوئے ناخن دیکھتا ہوں تو مجھے مس نگہت یاد آجاتی ہیں اور میں فوراً ناخن کاٹنے بیٹھ جاتا ہوں۔
پہلی جماعت میں پہنچا تو مس سردار ہماری استانی تھیں، لیکن وہ جلد ہی چلی گئیں اور ان کی جگہ مس نسیم آئیں جو استانی کم اور جلاد زیادہ تھیں۔ بچوں کی اس طرح دھنائی کرتی تھیں جیسے دھنیا روئی دھنتا ہے۔ ایسی سخت مار پیٹ کرتی تھیں کہ انسان کو پرھائی سے، اسکول سے اور کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہوجائے۔ جو استاد اور استانیاں یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے میں درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو مار پیٹ کر نہ پڑھایا کریں۔ بہت ضروری ہو تو ڈانٹ ڈپٹ کر لیا کریں۔ اس تحریر کو پڑھنے والے جو بچے اور بچیاں بڑے ہو کر استاد اور استانیاں بنیں وہ بھی یاد رکھیں کہ مار پیٹ سے بچے پڑھتے نہیں بلکہ پرھائی سے بھاگتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم سے بیزار کرنے میں پٹائی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ایک آدھ ہلکا پھلکا تھپڑ پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اچھے بچوں کو اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے بعد کی جماعتوں میں پڑھانے والے جو استاد مجھے یاد آتے ہیں، ان میں سے ایک ضیا صاحب ہیں جو چھٹی جماعت میں ہمیں اردو پرھاتے تھے۔ اگرچہ ضیا صاحب ہر وقت اپنے ساتھ ایک لچکیلا بیدر رکھتے تھے لیکن اس کا استعمال کم ہی کرتے تھے۔ انہوں نے میری اردو کا تلفظ صحیح کرنے میں بہت مدد دی۔ انہوں نے اردو سکھاتے اور پرھتاے ہوئے کئی کام کی باتیں بتائیں جن سے میں نے بعد میں بھی فائدہ اٹھایا۔ ضیا صاحب ہوم ورک کے طور پر ایک صفحہ روزانہ خوش خط لکھنے کو کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی لکھو، عبارت کہیں سے بھی اتارو، چاہے کسی اخبار سے یا رسالے سے یا کتاب سے، اور چاہو تو کوئی کہانی ہی لکھ لاؤ مگر لکھو ضرور، اور لکھو بھی صاف صاف اور خوبصورت۔ میں کتاب سے کوئی عبارت اتارنے کے بجائے اکثر دل سے قصے کہانیاں بنا کر لکھ کر لے جایا کرتا تھا۔ شاید یہیں سے مجھے کہانیاں لکھنے کا چسکا پرگیا۔ کہانیاں پڑھنے کی لت تو پہلے سے تھی ہی۔ ضیا صاحب کے لئے آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ ان کا سکھایا پڑھایا بہت کام آیا۔
ساتویں جماعت میں جناب طیب عباسی ملے جو ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ بچوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بہت مذہبی آدمی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سنایا کرتے تھے۔ بچوں کی شاذ و نادر ہی پٹائی کی ہوگی۔ کلاس بہت شور مچاتی تو جھوٹ موٹ غصے سے کہتے: ’’کیا ہو رہا ہے بھئی؟‘‘ اور بچے اتنے شریر تھے کہ ان کا نرم سلوک دیکھ کر اور شیر ہوجاتے اور انہیں بار بار ’’کیا ہو رہا ہے بھئی‘‘ کہنا پڑتا۔ عباسی صاحب کا محبت بھرا برتاؤ اب بھی بہت یاد آتا ہے۔
آٹھویں جماعت میں میں نے باغ ہالار اسکول چھوڑ کر سیفیہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں جس استاد نے میرے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا وہ سید محمد طاہر صاحت تھے۔ آپ ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ نہ صرف ان کے پڑھانے کا انداز بہت عمدہ تھا بلکہ وہ خوش مزاج بھی تھے۔ قہقہہ بہت بلند آواز میں لگاتے تھے اور دیر تک ہنستے رہتے تھے۔ حتی کہ اسکول کی راہ داریوں میں، اسٹاف روم میں یا کسی جماعت کے کمرے میں ہوتے تو بھی ان کے قہقے سے پتا چل جاتا تھا کہ طاہر صاحب یہیں کہیں ہیں۔ ان کی دلچسپ باتوں پر پوری کلاس دل ککھول کر قہقہے لگایا کرتی تھی۔ چنانچہ ہارا اردو کا پریڈ سب سے مزیدار ہوتا تھا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ پرھائی ہو رہی ہے، لیکن پڑھائی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی تھی۔ طاہر صاف کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں شعر یاد تھے۔ موقعے کے لحاظ سے غضب کا شعر پڑھتے تھے۔ اس سے میرا شعر و شاعری کا شوق بہت بڑھ گیا۔ وہ جماعت میں طالب علموں سے شعر سنانے کی فرمائش کرتے۔ اگر کوئی لڑکا اچھا شعر پڑھتا تو بہت داد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ چنانچہ میں نے ادھر ادھر سے کتابیں لے کر بڑے بڑے شاعر، مثلاً غالبؔ، اقبالؔ اور میر وغیرہ کے بے شمار شعر ایک کاپی میں لکھ لئے اور یاد کر لئے، بلکہ بہت سے شعر تو لکھنے کے دوران ہی یاد ہوگئے۔ پھر تو یہ ہونے لگا کہ طاہر صاحب ایک شعر سناتے اور ایک میں سناتا اور پوری کلاس ’’واہ وا‘‘ کر کے داد کے ڈونگرے برساتی۔ طاہر صاحب نے ہمیں تین سال تک یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں میں اردو پرھائی اور حق یہ ہے کہ اردو پرھانے کا حق ادا کردیا۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرے اندر انہوں نے اردو زبان اور اردو شعر و ادب کا ایک ایسا ذوق اور مطالعے کا ایسا شوق پیدا کر دیا جس نے آگے چل کر میری پڑھائی اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔
انہیں تین سالوں میں شبیر صاحب سے بھی ربط ضبط رہا۔ اگرچہ سائنس کے آدمی تھے اور الجبرا اور طبیعات یعنی فزکس پڑھاتے تھے، لیکن شاعری سے اور ادب سے انہیں بھی بڑا لگاؤ تھا۔ اسی طرح ہمارے ایک استاد احمد صاحب تھے۔ وہ خود شاعر تھے اور کچھ دنوں تک میں ان سے (شاعری پر) اصلاح بھی لیتا رہا۔
تیسری چوتھی جماعت میں میں نے رسالے، کہانیاں اور ناول اس طرح چاٹنا شروع کردیئے جیسے وہ قلفی یا کھٹ مٹھا چورن ہو۔ اسی دور میں میں نے ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کردیا۔ اور یہ میرے من کو ایسا بھایا کہ آج تک اسے نہیں چھور سکا بلکہ اب تو میرا بیٹا سجاد بھی اسے پڑھتا ہے۔ ہر ماہ جب اخبار والا ہمدرد نونہال کا تازہ شمارہ دے جاتا ہے تو دونوں باپ بیٹے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اسے پہلے میں پرھ لوں اور اب تو سجاد کی امی جان محترمہ بھی اس دوڑ میں شریک ہوگئی ہیں۔
ہمدرد نونہال سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے میں نے اردو سیکھی(اردو میری مادری زبان نہیں ہے) ہمدرد نونہال سے میں نے کہانیاں اور مضمون لکھنا سیکھا۔ بے شمار معلومات اور عقل کی باتیناس نے مجھے سکھائیں۔ درحقیقت ہمدرد نونہال بھی میرے استادوں میں شامل ہے۔ یہ میرا محسن ہے۔ ( اور یہ بات میں جناب حکیم محمد سعید صاحب یا جناب مسعود احمد برکاتی صاحب کو خوش کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ یہ سچی بات ہے) اپنے استادوں کے ساتھ نونہال کے لئے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں پاکستانی بچے کہ ان کے ملک سے ایک نہایت عمدہ رسالہ ان کی صحیح تربیت اور رہ نمائی کے لئے نکلتا ہے۔
بھئی اپنے استادوں کا یہ ذکر کچھ طویل ہوتا جارہا ہے، اس لئے میں اسے ختم کرتا ہوں لیکن ٹھہریے! فوہ بھئی حد ہوگئی۔ استادوں کا یہ ذکر الیاس صاحب کے بغیر بھلا کیسے مکمل ہوسکتا ہے؟ انہوں نے ہمیں سال ڈیڑھ سال انگریزی پڑھائی۔ آٹھویں میں اور کچھ عرصے نویں میں۔ انگریزی پڑھائی کیا تھی بس گھول کر پلادی تھی۔ انگریزی گرامی کی بعض چیزیں انہوں نے جس طرح ہنسا ہنسا کر اور مذاق ہی مذاق میں پڑھا دیں وہ اتنے کام کی نکلیں کہ وہیں سے صحیح معنوں میں انگریزی ہماری سمجھ میں آنے لگی اور یہ بنیادی باتیں شاید کوئی اور اس طرح نہ بتا پائے۔ اللہ جانے الیاس صاحب اب کہاں ہیں؟ لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں اللہ تعالی انہیں خوش رکھے اور دنیاو آخرت کی نعمتوں سے مالا مال کرے۔ آمین۔ انہوں نے اور طاہر صاحب نے ہمیں نہایت عمدہ طریقے پر انگریزی اور اردو پرھا کر بہت بڑا احسان کیا۔
بلکہ درحقیقت میرے تمام استاد میرے محسن ہیں، چاہے وہ اسکول کے زمانے کے ہوں، کالج کے ہوں یا یونیورسٹی کے۔ انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔ مجھے اس وقت عقل اور تعلیم دی جب میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
جب میں باغ ہالار اسکول (کراچی) میں کے جی کلاس میں پڑھتا تھا تو مس نگہت ہماری استانی تھیں۔ مار پیٹ کے بجائے بہت پیار سے پڑھاتی تھیں۔ صفائی پسند اتنی تھی کہ گندگی دیکھ کر انہیں غصہ آجاتا تھا اور کسی بچے کے گندے کپڑے یا بڑھے ہوئے ناخن دیکھ کر اس کی ہلکی پھلکی پٹائی بھی کردیتی تھیں۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ ایک دفعہ میرے ناخن بڑھے ہوئے تھے اور ان میں میل جمع تھا۔ مس نگہت نے میرے ناخنوں پر پیمانے سے (جسے آپ اسکیل یا فٹا کہتے ہیں) مارا۔ چوٹ ہلکی تھی لیکن اس دن میں بہت رویا۔ لیکن مس نگہت نے گندے اور بڑھے ہوئے ناخنوں کے جو نقصان بتائے وہ مجھے اب تک یاد ہیں۔ اور اب میں جب بھی اپنے بڑھے ہوئے ناخن دیکھتا ہوں تو مجھے مس نگہت یاد آجاتی ہیں اور میں فوراً ناخن کاٹنے بیٹھ جاتا ہوں۔
پہلی جماعت میں پہنچا تو مس سردار ہماری استانی تھیں، لیکن وہ جلد ہی چلی گئیں اور ان کی جگہ مس نسیم آئیں جو استانی کم اور جلاد زیادہ تھیں۔ بچوں کی اس طرح دھنائی کرتی تھیں جیسے دھنیا روئی دھنتا ہے۔ ایسی سخت مار پیٹ کرتی تھیں کہ انسان کو پرھائی سے، اسکول سے اور کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نفرت ہوجائے۔ جو استاد اور استانیاں یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ان سے میں درخواست کرتا ہوں کہ بچوں کو مار پیٹ کر نہ پڑھایا کریں۔ بہت ضروری ہو تو ڈانٹ ڈپٹ کر لیا کریں۔ اس تحریر کو پڑھنے والے جو بچے اور بچیاں بڑے ہو کر استاد اور استانیاں بنیں وہ بھی یاد رکھیں کہ مار پیٹ سے بچے پڑھتے نہیں بلکہ پرھائی سے بھاگتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم سے بیزار کرنے میں پٹائی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے ایک آدھ ہلکا پھلکا تھپڑ پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اچھے بچوں کو اس کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے بعد کی جماعتوں میں پڑھانے والے جو استاد مجھے یاد آتے ہیں، ان میں سے ایک ضیا صاحب ہیں جو چھٹی جماعت میں ہمیں اردو پرھاتے تھے۔ اگرچہ ضیا صاحب ہر وقت اپنے ساتھ ایک لچکیلا بیدر رکھتے تھے لیکن اس کا استعمال کم ہی کرتے تھے۔ انہوں نے میری اردو کا تلفظ صحیح کرنے میں بہت مدد دی۔ انہوں نے اردو سکھاتے اور پرھتاے ہوئے کئی کام کی باتیں بتائیں جن سے میں نے بعد میں بھی فائدہ اٹھایا۔ ضیا صاحب ہوم ورک کے طور پر ایک صفحہ روزانہ خوش خط لکھنے کو کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ بھی لکھو، عبارت کہیں سے بھی اتارو، چاہے کسی اخبار سے یا رسالے سے یا کتاب سے، اور چاہو تو کوئی کہانی ہی لکھ لاؤ مگر لکھو ضرور، اور لکھو بھی صاف صاف اور خوبصورت۔ میں کتاب سے کوئی عبارت اتارنے کے بجائے اکثر دل سے قصے کہانیاں بنا کر لکھ کر لے جایا کرتا تھا۔ شاید یہیں سے مجھے کہانیاں لکھنے کا چسکا پرگیا۔ کہانیاں پڑھنے کی لت تو پہلے سے تھی ہی۔ ضیا صاحب کے لئے آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ ان کا سکھایا پڑھایا بہت کام آیا۔
ساتویں جماعت میں جناب طیب عباسی ملے جو ہمیں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ بچوں سے بڑی محبت کرتے تھے۔ بہت مذہبی آدمی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بھی سنایا کرتے تھے۔ بچوں کی شاذ و نادر ہی پٹائی کی ہوگی۔ کلاس بہت شور مچاتی تو جھوٹ موٹ غصے سے کہتے: ’’کیا ہو رہا ہے بھئی؟‘‘ اور بچے اتنے شریر تھے کہ ان کا نرم سلوک دیکھ کر اور شیر ہوجاتے اور انہیں بار بار ’’کیا ہو رہا ہے بھئی‘‘ کہنا پڑتا۔ عباسی صاحب کا محبت بھرا برتاؤ اب بھی بہت یاد آتا ہے۔
آٹھویں جماعت میں میں نے باغ ہالار اسکول چھوڑ کر سیفیہ اسکول میں داخلہ لے لیا۔ یہاں جس استاد نے میرے دل و دماغ پر قبضہ جما لیا وہ سید محمد طاہر صاحت تھے۔ آپ ہمیں اردو پڑھاتے تھے۔ نہ صرف ان کے پڑھانے کا انداز بہت عمدہ تھا بلکہ وہ خوش مزاج بھی تھے۔ قہقہہ بہت بلند آواز میں لگاتے تھے اور دیر تک ہنستے رہتے تھے۔ حتی کہ اسکول کی راہ داریوں میں، اسٹاف روم میں یا کسی جماعت کے کمرے میں ہوتے تو بھی ان کے قہقے سے پتا چل جاتا تھا کہ طاہر صاحب یہیں کہیں ہیں۔ ان کی دلچسپ باتوں پر پوری کلاس دل ککھول کر قہقہے لگایا کرتی تھی۔ چنانچہ ہارا اردو کا پریڈ سب سے مزیدار ہوتا تھا اور لگتا ہی نہیں تھا کہ پرھائی ہو رہی ہے، لیکن پڑھائی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی تھی۔ طاہر صاف کو سیکڑوں بلکہ ہزاروں شعر یاد تھے۔ موقعے کے لحاظ سے غضب کا شعر پڑھتے تھے۔ اس سے میرا شعر و شاعری کا شوق بہت بڑھ گیا۔ وہ جماعت میں طالب علموں سے شعر سنانے کی فرمائش کرتے۔ اگر کوئی لڑکا اچھا شعر پڑھتا تو بہت داد دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ چنانچہ میں نے ادھر ادھر سے کتابیں لے کر بڑے بڑے شاعر، مثلاً غالبؔ، اقبالؔ اور میر وغیرہ کے بے شمار شعر ایک کاپی میں لکھ لئے اور یاد کر لئے، بلکہ بہت سے شعر تو لکھنے کے دوران ہی یاد ہوگئے۔ پھر تو یہ ہونے لگا کہ طاہر صاحب ایک شعر سناتے اور ایک میں سناتا اور پوری کلاس ’’واہ وا‘‘ کر کے داد کے ڈونگرے برساتی۔ طاہر صاحب نے ہمیں تین سال تک یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں میں اردو پرھائی اور حق یہ ہے کہ اردو پرھانے کا حق ادا کردیا۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن میرے اندر انہوں نے اردو زبان اور اردو شعر و ادب کا ایک ایسا ذوق اور مطالعے کا ایسا شوق پیدا کر دیا جس نے آگے چل کر میری پڑھائی اور زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔
انہیں تین سالوں میں شبیر صاحب سے بھی ربط ضبط رہا۔ اگرچہ سائنس کے آدمی تھے اور الجبرا اور طبیعات یعنی فزکس پڑھاتے تھے، لیکن شاعری سے اور ادب سے انہیں بھی بڑا لگاؤ تھا۔ اسی طرح ہمارے ایک استاد احمد صاحب تھے۔ وہ خود شاعر تھے اور کچھ دنوں تک میں ان سے (شاعری پر) اصلاح بھی لیتا رہا۔
تیسری چوتھی جماعت میں میں نے رسالے، کہانیاں اور ناول اس طرح چاٹنا شروع کردیئے جیسے وہ قلفی یا کھٹ مٹھا چورن ہو۔ اسی دور میں میں نے ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کردیا۔ اور یہ میرے من کو ایسا بھایا کہ آج تک اسے نہیں چھور سکا بلکہ اب تو میرا بیٹا سجاد بھی اسے پڑھتا ہے۔ ہر ماہ جب اخبار والا ہمدرد نونہال کا تازہ شمارہ دے جاتا ہے تو دونوں باپ بیٹے اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اسے پہلے میں پرھ لوں اور اب تو سجاد کی امی جان محترمہ بھی اس دوڑ میں شریک ہوگئی ہیں۔
ہمدرد نونہال سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اس سے میں نے اردو سیکھی(اردو میری مادری زبان نہیں ہے) ہمدرد نونہال سے میں نے کہانیاں اور مضمون لکھنا سیکھا۔ بے شمار معلومات اور عقل کی باتیناس نے مجھے سکھائیں۔ درحقیقت ہمدرد نونہال بھی میرے استادوں میں شامل ہے۔ یہ میرا محسن ہے۔ ( اور یہ بات میں جناب حکیم محمد سعید صاحب یا جناب مسعود احمد برکاتی صاحب کو خوش کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ یہ سچی بات ہے) اپنے استادوں کے ساتھ نونہال کے لئے بھی دل سے دعا نکلتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں پاکستانی بچے کہ ان کے ملک سے ایک نہایت عمدہ رسالہ ان کی صحیح تربیت اور رہ نمائی کے لئے نکلتا ہے۔
بھئی اپنے استادوں کا یہ ذکر کچھ طویل ہوتا جارہا ہے، اس لئے میں اسے ختم کرتا ہوں لیکن ٹھہریے! فوہ بھئی حد ہوگئی۔ استادوں کا یہ ذکر الیاس صاحب کے بغیر بھلا کیسے مکمل ہوسکتا ہے؟ انہوں نے ہمیں سال ڈیڑھ سال انگریزی پڑھائی۔ آٹھویں میں اور کچھ عرصے نویں میں۔ انگریزی پڑھائی کیا تھی بس گھول کر پلادی تھی۔ انگریزی گرامی کی بعض چیزیں انہوں نے جس طرح ہنسا ہنسا کر اور مذاق ہی مذاق میں پڑھا دیں وہ اتنے کام کی نکلیں کہ وہیں سے صحیح معنوں میں انگریزی ہماری سمجھ میں آنے لگی اور یہ بنیادی باتیں شاید کوئی اور اس طرح نہ بتا پائے۔ اللہ جانے الیاس صاحب اب کہاں ہیں؟ لیکن وہ جہاں کہیں بھی ہوں اللہ تعالی انہیں خوش رکھے اور دنیاو آخرت کی نعمتوں سے مالا مال کرے۔ آمین۔ انہوں نے اور طاہر صاحب نے ہمیں نہایت عمدہ طریقے پر انگریزی اور اردو پرھا کر بہت بڑا احسان کیا۔
بلکہ درحقیقت میرے تمام استاد میرے محسن ہیں، چاہے وہ اسکول کے زمانے کے ہوں، کالج کے ہوں یا یونیورسٹی کے۔ انہوں نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ مجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔ مجھے اس وقت عقل اور تعلیم دی جب میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
- rauf-parekh
راجستھان کے مہاراج پور میں ایک تاجر تھا رامنا وہ اونٹوں پر سامان لاد کر دوسرے شہروں میں لے جاتا، وہاں فروخت کرتا۔ اچھا خاصا منافع حاصل ہوتا۔ رامنا کئی برسوں سے تجارت کر رہا تھا۔
سفر اکثر ہی رات کو کیا جاتا۔ اونٹ سدھے ہوئے تھے۔ تمام رات چل کر وہ دوسرے شہر پہنچ جاتا۔ رامنا شہر کے باہر کھلے میدان میں ڈیرا ڈالتا۔ سویرے کی ضروریات سے فارغ ہو کر نہا دھوکر وہ ناشتہ کرتے اور پھر سامان تجارت لے کر ہاٹ پہنچ جاتا۔ اونٹ آرام کرتا۔
تمام دن ہاٹ میں مصروف رہ کر وہ ڈیرے لوٹتے۔ کھانا پکاتے کھاتے اور واپسی کے سفر کے لئے تیار ہوجاتے۔
ایک مرتبہ رامنا متھرا جانے کے لئے نکلا۔ قافلہ میں دس اونٹ تھے۔ اونٹ ادھر ادھرنہ نکل جائیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سے اس طرح باندھا گیا کہ قطار کے پہلے اونٹ کی دم سے دوسرے اونٹ کی دم میں رسی، دوسرے کی دم سے تیسرے اونٹ کی دم میں رسی۔ اس طرح پہلے اونٹ سے آخری اونٹ تک اونٹ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ سب اونٹوں کے ساتھ ان کے ساربان تھے۔ قافلہ چل پڑا۔ اونٹوں پر ساربان بیٹھ گئے۔ اونگھنے لگے۔ رامنا بھی اونگھنے لگا۔ آہستہ آہستہ سب سوگئے۔ اونٹ چلتے رہے۔
مہاراج پور سے 02 میل آگے جانے کے بعد پہلے اونٹ کو سڑک کی دونوں طرف بیر سے لدے پیڑ نظر آئے۔ بیر کی خوشبو نے اسے بیتاب کردیا۔ وہ بیر اور پتیاں کھانے لگا۔ پیڑوں کے تنے گول تھے۔ پہلا اونٹ بیر کھاتے کھاتے گھومتا گیا۔ دوسرے اونٹ اس کے پیچھے تھے۔ پیڑ کی گولائی میں بیر کھاتے کھاتے پہلے اونٹ کا رخ مہاراج پور کی طرف ہوگیا۔ دوسرے اونٹ چونکے بندھے ہوئے تھے اس لئے بیر کھاتے کھاتے وہ بھی گولائی میں گھومے اور مہاراج پور کی طرف چلنے لگے۔ سواروں کو پتہ ہی نہیں چلا کسی کی آنکھ کھلی بھی تو اونٹوں کو چلتے دیکھ وہ پھر آرام سے سوگیا۔
سویرا ہوا۔ رامنا کی آنکھ کھلی تواونٹ مہاراج پور میں داخل ہورہے تھے۔ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ غلطی کس کی ہے! اس نے اونٹوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر غلطی کی یا اونٹوں نے بیر کھانے میں راستے کا دھیان نہ رکھ کر غلطی کی! آپ بتائیں غلطی کس کی تھی؟
سفر اکثر ہی رات کو کیا جاتا۔ اونٹ سدھے ہوئے تھے۔ تمام رات چل کر وہ دوسرے شہر پہنچ جاتا۔ رامنا شہر کے باہر کھلے میدان میں ڈیرا ڈالتا۔ سویرے کی ضروریات سے فارغ ہو کر نہا دھوکر وہ ناشتہ کرتے اور پھر سامان تجارت لے کر ہاٹ پہنچ جاتا۔ اونٹ آرام کرتا۔
تمام دن ہاٹ میں مصروف رہ کر وہ ڈیرے لوٹتے۔ کھانا پکاتے کھاتے اور واپسی کے سفر کے لئے تیار ہوجاتے۔
ایک مرتبہ رامنا متھرا جانے کے لئے نکلا۔ قافلہ میں دس اونٹ تھے۔ اونٹ ادھر ادھرنہ نکل جائیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سے اس طرح باندھا گیا کہ قطار کے پہلے اونٹ کی دم سے دوسرے اونٹ کی دم میں رسی، دوسرے کی دم سے تیسرے اونٹ کی دم میں رسی۔ اس طرح پہلے اونٹ سے آخری اونٹ تک اونٹ ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ سب اونٹوں کے ساتھ ان کے ساربان تھے۔ قافلہ چل پڑا۔ اونٹوں پر ساربان بیٹھ گئے۔ اونگھنے لگے۔ رامنا بھی اونگھنے لگا۔ آہستہ آہستہ سب سوگئے۔ اونٹ چلتے رہے۔
مہاراج پور سے 02 میل آگے جانے کے بعد پہلے اونٹ کو سڑک کی دونوں طرف بیر سے لدے پیڑ نظر آئے۔ بیر کی خوشبو نے اسے بیتاب کردیا۔ وہ بیر اور پتیاں کھانے لگا۔ پیڑوں کے تنے گول تھے۔ پہلا اونٹ بیر کھاتے کھاتے گھومتا گیا۔ دوسرے اونٹ اس کے پیچھے تھے۔ پیڑ کی گولائی میں بیر کھاتے کھاتے پہلے اونٹ کا رخ مہاراج پور کی طرف ہوگیا۔ دوسرے اونٹ چونکے بندھے ہوئے تھے اس لئے بیر کھاتے کھاتے وہ بھی گولائی میں گھومے اور مہاراج پور کی طرف چلنے لگے۔ سواروں کو پتہ ہی نہیں چلا کسی کی آنکھ کھلی بھی تو اونٹوں کو چلتے دیکھ وہ پھر آرام سے سوگیا۔
سویرا ہوا۔ رامنا کی آنکھ کھلی تواونٹ مہاراج پور میں داخل ہورہے تھے۔ وہ ہکا بکا رہ گیا۔ اس کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ غلطی کس کی ہے! اس نے اونٹوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر غلطی کی یا اونٹوں نے بیر کھانے میں راستے کا دھیان نہ رکھ کر غلطی کی! آپ بتائیں غلطی کس کی تھی؟
- bano-sartaj
آخر پروگرام بن ہی گیا۔ جون کا پہلا ہفتہ تھا۔ ہم لوگ دلی جانے کی تیاریاں کرنے لگے۔ ہم سات آدمیوں کی ٹولی میں مسخرہ رمیش بھی تھا، جس کو ہم نے بڑی مشکل سے اس سفر کے لیے تیار کیا تھا، کیوں کہ ہم جانتے تھےکہ اس کے بغیر سفر کا لطف آدھار جائے گا۔ بنارس کینٹ سے اپر انڈیا ایکسپریس میں ہم سب سوار ہوگئے اتفاق ہی کہئے کہ اس دن کوئی خاص بھیڑ نہ تھی اور ہم لوگوں کو اوپر کی برتھیں سونے کے لئے مل گئیں۔ رات کو گیارہ بجے تک تو ہم لوگ رمیش کی باتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، مگر جب اسے نیند آنے لگی تو ہم لوگوں نے بھی سونے کا ارادہ کر لیا۔
میری آنکھ اس وقت کھلی جب جب مرغ کی بانگ کی کئی آوازیں میرے کانوں کے پردے سے ٹکرائیں۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ مرغ کی بانگ میں نے ٹرین کے اندر پہلی بار سنی تھی۔ اگر ٹرین کے باہر کسی مرغ نے بانگ دی بھی ہو تو وہ اپر انڈیا ایکسپریس کی گھڑ گھڑاہٹ کو چیر کر اندر کیسے آسکتی تھی؟ بڑی عجیب بات تھی۔ میں نے اتنا ہی سوچا تھا کہ میری نظر اپنے سامنے والی برتھ پر پڑی جس پر رمیش اپنی ہنسی روکے بیٹھا تھا۔ جیسے ہی ہم دونوں کی نظریں ملیں اس کی ہنسی کا آبشار ابل پڑا۔ نیچے بیٹھے ہوئے میرے دوسرے ساتھ بھی قہقہہ لگانے لگے۔
یہ مرغ کی بانگ ہمارے دوست رمیش کے گلے ہی کا کرشمہ تھی۔ وہ مختلف پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کی نقل اتارنے میں ماہر تھا۔
ٹونڈلہ اسٹیشن آیا۔ ہم نے ناشتہ کیا اور پھر کمپارٹمنٹ میں ا ٓ بیٹھے۔ نیچے کی سیٹ پر ایک گول مٹول سے صاحب لمبی تانے سورہے تھے۔ ہم لوگوں کے قہقہے کے باوجود ان کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔ رمیش نے شرارت بھری نظروں سے ہمیں دیکھا اور ان کے سرہانے جا بیٹھا ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب اگلا شو کیا ہوگا۔ رمیش نے مرغ کی تین چار بانگیں ان صاحب کے کان کے پاس دیں اور باہر کھڑکی میں جھانکنے لگا۔ ہم لوگ بھی اپنی ہنسی بری طرح روکے ہوئے تھے۔
ان صاحب نے سب سے پہلے اپنی سیٹ کے نیچے جھانک کر دیکھا اور پھر ادھر ادھر۔ اس کے بعد انہوں نے جماہی لی۔ اور چادر سے اپنے آپ کو ڈھک کر بھی دراز ہوگئے۔ پندرہ منٹ تک بالکل خاموشی چھائی رہی۔ ہم لوگ اپنی ہنسی پی گئے تھے۔ پندرہ منٹ کے بعد رمیش نے پھر بانگ دی۔ اس بار وہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے باقاعدہ چاروں طرف نظریں دوڑانی شروع کیں اور کئی سیٹوں کے نیچے جھانکا بھی، پھر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گئے ہم لوگوں کو شک بھری نگاہوں سے گھورا اور سیٹ کی پشت سے لگ کر اونگھنے لگے۔ دس منٹ بعد رمیش نے بانگ کا ایک اور نعرہ لگایا۔
ان صاحب کا غصہ اپنی حد پارکر چکا تھا۔ انہوں نے سخت لہجے مےں ہم لوگوں کو مخاطب کیا ’’دیکھنے میں تو آپ شریف اور پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں، مگر ساتھ میں مرغے مرغیاں لے کر چلتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ہماری بیدگی بنی ہوئی بڑی اٹیچی کو گھورا اور یوں سرہلایا جیسے سمجھ گئے ہوں کہ ہم لوگوں نے مرغے مرغیاں اسی اٹیچی میں بند کر رکھی ہیں!
گیارہ بجے رہے تھے۔ ٹرین اپنی آخری دوڑ ختم کر رہی تھی کہ ایک ٹکٹ چیکر ہمارے کمپارٹمنٹ میں گھس آیا۔ ٹکٹ چیکر ہم لوگوں کا ٹکٹ دیکھ کر لوٹنے ہی والا تھا کہ گول مٹول صاحب نے لو کا’’اور مرغے مرغیاں!‘‘
چیکر پھر ہم لوگوں کی طرف مخاطب ہوگیا۔ ’’کہاں ہیں مرغ مرغیاں۔‘‘
گول مٹول صاحب نے ہم لوگوں کی اٹیچی کی طرف اشارہ کردیا۔
’’کیوں جناب؟‘‘ ٹکٹ چیکر نے رمیش کو اس طرح مخاطب کیا جیسے وہ کوئی بڑا مجرم ہو۔
جی —جی— و— وہ—مرغ —مرغیاں—رمیش نے بناوٹی گھبراہٹ کا اظہار کیا۔
’’جی دی کچھ نہیں۔ آپ کو ان کا محصول مع جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ جلدی کیجئے۔ چیکر نے سختی سے کہا۔
’’جی لیکن وہ، مرغ مرغیاں ہیں کہاں؟‘‘ رمیش نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
چیکر کے کہنے پر جب رمیش نے اپنی اٹیچی کھولی تو چیکر کے ساتھ ساتھ گول مٹول صاحب کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اٹیچی کپڑوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔
چیکر نے ہم لوگوں سے نظر بھی نہ ملائی۔ صرف گول مٹول صاحب کی طرف ایک بار گالی دینے والی نظر سے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔
ٹکٹ چیکر کمپارٹمنٹ کے دروازے سے باہر جھانک رہا تھا کہ رمیش نے عجیب قسم کی چڑیوں کی بولی سے کمپارٹمنٹ کو گونجا دیا۔
میری آنکھ اس وقت کھلی جب جب مرغ کی بانگ کی کئی آوازیں میرے کانوں کے پردے سے ٹکرائیں۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ مرغ کی بانگ میں نے ٹرین کے اندر پہلی بار سنی تھی۔ اگر ٹرین کے باہر کسی مرغ نے بانگ دی بھی ہو تو وہ اپر انڈیا ایکسپریس کی گھڑ گھڑاہٹ کو چیر کر اندر کیسے آسکتی تھی؟ بڑی عجیب بات تھی۔ میں نے اتنا ہی سوچا تھا کہ میری نظر اپنے سامنے والی برتھ پر پڑی جس پر رمیش اپنی ہنسی روکے بیٹھا تھا۔ جیسے ہی ہم دونوں کی نظریں ملیں اس کی ہنسی کا آبشار ابل پڑا۔ نیچے بیٹھے ہوئے میرے دوسرے ساتھ بھی قہقہہ لگانے لگے۔
یہ مرغ کی بانگ ہمارے دوست رمیش کے گلے ہی کا کرشمہ تھی۔ وہ مختلف پرندوں اور جانوروں کی بولیوں کی نقل اتارنے میں ماہر تھا۔
ٹونڈلہ اسٹیشن آیا۔ ہم نے ناشتہ کیا اور پھر کمپارٹمنٹ میں ا ٓ بیٹھے۔ نیچے کی سیٹ پر ایک گول مٹول سے صاحب لمبی تانے سورہے تھے۔ ہم لوگوں کے قہقہے کے باوجود ان کی آنکھ نہیں کھلی تھی۔ رمیش نے شرارت بھری نظروں سے ہمیں دیکھا اور ان کے سرہانے جا بیٹھا ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب اگلا شو کیا ہوگا۔ رمیش نے مرغ کی تین چار بانگیں ان صاحب کے کان کے پاس دیں اور باہر کھڑکی میں جھانکنے لگا۔ ہم لوگ بھی اپنی ہنسی بری طرح روکے ہوئے تھے۔
ان صاحب نے سب سے پہلے اپنی سیٹ کے نیچے جھانک کر دیکھا اور پھر ادھر ادھر۔ اس کے بعد انہوں نے جماہی لی۔ اور چادر سے اپنے آپ کو ڈھک کر بھی دراز ہوگئے۔ پندرہ منٹ تک بالکل خاموشی چھائی رہی۔ ہم لوگ اپنی ہنسی پی گئے تھے۔ پندرہ منٹ کے بعد رمیش نے پھر بانگ دی۔ اس بار وہ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے باقاعدہ چاروں طرف نظریں دوڑانی شروع کیں اور کئی سیٹوں کے نیچے جھانکا بھی، پھر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گئے ہم لوگوں کو شک بھری نگاہوں سے گھورا اور سیٹ کی پشت سے لگ کر اونگھنے لگے۔ دس منٹ بعد رمیش نے بانگ کا ایک اور نعرہ لگایا۔
ان صاحب کا غصہ اپنی حد پارکر چکا تھا۔ انہوں نے سخت لہجے مےں ہم لوگوں کو مخاطب کیا ’’دیکھنے میں تو آپ شریف اور پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں، مگر ساتھ میں مرغے مرغیاں لے کر چلتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ہماری بیدگی بنی ہوئی بڑی اٹیچی کو گھورا اور یوں سرہلایا جیسے سمجھ گئے ہوں کہ ہم لوگوں نے مرغے مرغیاں اسی اٹیچی میں بند کر رکھی ہیں!
گیارہ بجے رہے تھے۔ ٹرین اپنی آخری دوڑ ختم کر رہی تھی کہ ایک ٹکٹ چیکر ہمارے کمپارٹمنٹ میں گھس آیا۔ ٹکٹ چیکر ہم لوگوں کا ٹکٹ دیکھ کر لوٹنے ہی والا تھا کہ گول مٹول صاحب نے لو کا’’اور مرغے مرغیاں!‘‘
چیکر پھر ہم لوگوں کی طرف مخاطب ہوگیا۔ ’’کہاں ہیں مرغ مرغیاں۔‘‘
گول مٹول صاحب نے ہم لوگوں کی اٹیچی کی طرف اشارہ کردیا۔
’’کیوں جناب؟‘‘ ٹکٹ چیکر نے رمیش کو اس طرح مخاطب کیا جیسے وہ کوئی بڑا مجرم ہو۔
جی —جی— و— وہ—مرغ —مرغیاں—رمیش نے بناوٹی گھبراہٹ کا اظہار کیا۔
’’جی دی کچھ نہیں۔ آپ کو ان کا محصول مع جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ جلدی کیجئے۔ چیکر نے سختی سے کہا۔
’’جی لیکن وہ، مرغ مرغیاں ہیں کہاں؟‘‘ رمیش نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔
چیکر کے کہنے پر جب رمیش نے اپنی اٹیچی کھولی تو چیکر کے ساتھ ساتھ گول مٹول صاحب کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اٹیچی کپڑوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔
چیکر نے ہم لوگوں سے نظر بھی نہ ملائی۔ صرف گول مٹول صاحب کی طرف ایک بار گالی دینے والی نظر سے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔
ٹکٹ چیکر کمپارٹمنٹ کے دروازے سے باہر جھانک رہا تھا کہ رمیش نے عجیب قسم کی چڑیوں کی بولی سے کمپارٹمنٹ کو گونجا دیا۔
- kamaluddin
میرے ابا جو ایک پولیس افسر تھے ان کا تبادلہ ریاست بھوپال کے چھوٹے سے قصبے سے شہر بھوپال کے ایک بڑے تھانے میں ہوگیا۔
نئے گھر میں ہمارا سامان اتارا جارہا تھا۔ پھوپھی اماں اور دادی اماں ایک ایک کمرے میں آیۃالکرسی پڑھ کر دم کر رہی تھیں۔ میں نے شمیمہ باجی کا ہاتھ پکڑا اور کھینچتے ہوئے کہا۔ باجی! چلو ذرا آس پاس کی چیزوں کو اسی وقت دیکھ ڈالیں۔ پھر خدا جانے پھوپھی اماں اور دادی اماں گھر سے نکلیں دیں یا نہیں۔
شمیمہ باجی نے اپنا برقع سنبھالا۔ انہوں نے دس گیارہ سال کی عمر میں ابھی کچھ دن پہلے ہی برقع اوڑھنا شروع کیا تھا اور انہیں ابھی اس کی عادت بھی کچھ یوں ہی سی تھی۔ جب وہ برقع اوڑھ کر چلتیں تو بار بار اس سے الجھ جاتیں اور گرتے گرتے بچتیں۔ انہیں برقع میں دیکھ کر کبھی ’’بڑی بی‘‘ کبھی حجن بوا کہہ کر میں ان کا مذاق اڑاتی۔ وہ کھسیانی ہو کر دادی اماں سے شکایت کرتیں۔ دادی اماں لڑکھڑاتی، ڈگمگاتی مجھے مارنے کھڑی ہوتیں تو میں بھاگ کھڑی ہوتی۔ شمیمہ باجی یوں بھی سیدھی اور گھر والوں کی نظر میں نیک اور ’’شریف‘‘ بچی تھیں۔ اور میں ’’شریر‘‘ آفت کی پرکالہ، جس سے نچلا بیٹھا بھی نہیں جاتا، گھر میں شمیمہ باجی اور میں ہی دو لڑکیاں تھیں۔ میں ہر شیطانی یا ہر حرکت میں انہیں اپنے ساتھ کھینچنا چاہتی تھی مگر وہ تھیں ہی کچھ ڈرپوک سی۔
میں نے شمیمہ باجی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا اور باغ میں ایک ایک جھاڑی اور ایک ایک پیڑ کا معائنہ شروع کردیا۔ اسے اس وقت تو باغ نہیں کہا جاسکتا تھا کیوں کہ بہت دن سے نہ اس میں پانی دیا گیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال ہوئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیاں اور اونچے گھنے پیڑ پودے گھر کو ڈھکے ہوئے تھے۔
باجی! میں نے دو چار پیڑوں کو دیکھ کر کہا ’’بڑا مزہ آئے گا اس گھر میں‘‘ دیکھو یہاں کھٹے ککروندے، املی، اور کمرخ کے کتنے پیڑ ہیں۔ باجی تمہیں بھی کھٹی املی اور کمرخ کا بہت شوق ہے نا؟
باجی نے منہ سے جواب تو کچھ نہیں دیا مگر ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ ان کے منہ میں پانی بھر آیا ہے۔
یہ گھر جس میں ہمارے خاندان کے لوگ اب رہ رہے تھے وہ ’’ہوا محل‘‘ کہلاتا تھا۔ اور بہت پرانا مکان لگتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کبھی بڑی خوبصورت اور شاندار حویلی رہی ہو کسی نواب کی۔۔۔خیر، جس حصہ میں میرا خاندان آکر ٹھرا تھا اس کے پیچھے کا حصہ بالکل کھنڈر تھا۔ اب اس حصہ میں ایک ٹوٹی پھوٹی دیواروں اور گری ہوئی چھتوں کے ملبے کا ڈھیر تھا۔ اس ٹوٹے پھوٹے کھنڈر کی ایک کوٹھری ہمارے گھر کے اندر کھلتی تھی جسے ہمیشہ بند رکھا جاتا تھا۔ اس بند کھڑکی کو دیکھ کر ہمیشہ جی چاہتا تھا کہ جاکر دیکھوں کہ ادھر کیا ہے۔ میری یہ خواہش دن بدن بڑھتی ہی گئی۔ ایک دن پھوپی اماں نے مجھے کھڑکی کی طرف جاتے دیکھ کر بڑا ڈراؤنا سا انداز بنا کر سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو نسیمہ، مجھے آس پاس رہنے والوں نے بتایا ہے کہ اس کھنڈر میں بھوتوں اور بدروحوں کا جماؤ ہے، خبردار ادھر نہ جانا‘‘۔
’’مگر پھوپی اماں بھوت پریت، چڑیل تو کچھ ہوتے نہیں‘‘۔ میں نے ان کی بات کاٹی۔
’’دیکھا میں نہ کہتی تھی!‘‘ دادی اماں نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’اس لڑکی کا دماغ بالکل پھر گیا ہے۔ دیکھ لڑکی کان کھول کر سن لے! اگر تو نے اس کھنڈر کا رخ کیا تو کھنڈر کے بھوت تجھے زندہ نہ چھوڑیں گے!‘‘
دادی اماں اور پھوپی اماں دیر تک مجھے ڈراتی اور سمجھاتی رہیں مگر میں نے دل میں ٹھان لی کہ جب بھوت پریت اتنے قریب ہی رہ رہے ہوں تو اس سے اچھا موقع کیا ہوگا کہ انہیں دیکھنے کا۔ ادھر ہمیں ابا کے بتائے ہوئے اس نسخے پر بھی پورا یقین تھا کہ اندھیرے میں یا رات کو جب بھی کسی چیز سے ڈر لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لی جائے۔ ہمارے تائے ابا ہمیں بڑے پیار سے نماز، اس کا ترجمہ اور دینیات کی دوسری باتیں سمجھاتے تھے۔ انہوں نے آیۃ الکرسی یاد بھی کرادی تھی اور ہمارے دل سے اندھیرے، بھوتوں اور جنوں وغیرہ کا ڈر بھی نکال دیا تھا۔ پھر بھی بھوت ہوتا کیا ہے؟ یہ دیکھنے کا شوق مجھے مستقل اکساتا رہتا۔ اور جب ابا اور تائے ابا دفتر چلے جاتے اور گرمیوں کی دوپہر میں ہماری اماں دادی اماں اور پھوپھی سب سوجاتے تو دبے پاؤں اٹھتی کھڑکی سے کود کر کھنڈر میں گھومتی اور وہ آوازیں سنتی جو کبھی بہت ڈراونی لگتیں۔ اور تھوڑی دیر کے لیے میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہونے لگتیں۔ ایک زور سے ’’پھٹ پھٹ پھٹائک‘‘ چٹ چٹ چٹاخ۔ میں جب کوٹھری کے اندر جھانکتی تو مجھے کالی کالی سامنے والی دیوار پر انگارہ جیسے دو گول گول دیدے نظرے آتے! اور پھر جیسے ہی گھر کے کسی کمرے سے کسی کے کھانسنے یا کروٹ بدلنے کی آہٹ محسوس ہوتی میں غڑاپ سے کھڑکی سے کود کر اندر آجاتی اور کھڑکی بند کردیتی۔ مگر میں نے طے کر لیا کہ کسی نہ کسی دن ان دیدوں والے بھوت کو ضرور دیکھوں گی۔
جب میری ڈرپوک باجی نے میرے ساتھ جانے سے صاف انکار کردیا تو ایک دن میں نے اکیلے ہی دوپہر میں سناٹا ہوتے کھڑکی کھول کر کھنڈر میں قدم رکھا اور سیدھا کوٹھری کا رخ کیا۔ آیۃ الکرسی پڑھتی ادھر ادھر دیکھتی آخر میں کوٹھری کے اندر داخل ہوگئی۔ کوٹھری کے فرش پر بکھرے سوکھے پتے میرے پیروں کے نیچے چرمرائے اور سلیپروں کے نیچے دب کر کوڑا کرکٹ، چٹر پٹر کی سی آوازیں پیدا کرنے لگا۔ ادھر چھت پر سے ایک غول جنگلی فاختاؤں اور کبوتروں کا زور سے پھٹپھٹاتا ہوا اڑا۔ اور عجیب ڈراؤنی آوازوں میں شور مچانے لگا۔ فوراً ہی کچھ چمگاڈریں بھی ادھر ادھر اڑ کر دیواروں پر ٹکریں مارنے لگیں۔ اور ان سب ملی جلی آوازوں کی گونج سے ایک عجب بھیانک سا شور پیدا ہونے لگا۔ میرے جسم میں ایک ہلکی سی سنسناہٹ تو ضرور محسوس ہوئی مگر آج میں بھی دل میں فیصلہ کر کے آئی تھی۔ میں بھی نظریں جمائے دیکھتی اور سنتی رہی۔ میں نے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے۔۔۔ان چمگاڈروں اور جنگلی پرندوں کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا۔۔۔ اچھا تو یہ ہیں بھوت پریت صاحبان‘‘۔
مگر وہ انگارہ جیسے گول گول دیدے کس کے ہیں؟جنہں میں اب بھی ٹوٹی پھوٹی سامنے والی دیوار پر دیکھ رہی تھی۔ کافی غور کرنے پر مجھے چھت سے کچھ نیچے دو گول سوراخ نظر آئے۔ جنہیں پرانے گھروں میں روشن دانوں کے طور پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ انہیں سوراخوں سے دوپہر کی تیز دھوپ کی دوشعاعیں دیوار پر چمک دار ٹکیاں سی بنا رہی تھی میں یہ راز جان کر اس بات پر بہت خوش تھی کہ میں نے اکیلے ہی بھوت کی آنکھیں پہچان لیں ہیں۔
اور شام جو جب تائے ابا دفتر سے آئے تو ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے میں نے پورے جوش میں اپنا آج کا کارنامہ سنایا۔
تائے ابا۔۔۔ آخر آج میں نے بھوت پریت دیکھ ہی لیے۔
’’کیسے بھوت پریت؟‘‘ تائے ابا نے حیرت سے پوچھا۔
ارے وہی جن سے دادی اماں اور پھوپھی اماں ہمیں ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’وہ جو کھنڈر میں رہتے ہیں۔ تائے ابا۔ وہاں تو صرف جنگلی پرندے اور چمگاڈریں رہتی ہیں۔ میری آہٹ پاتے ہی خود مجھ سے ڈرگئے اور لگے شور مچانے اور ادھر ادھر بھاگنے۔ ہاں ان کی آوازیں کوٹھری میں ضرور ایسے گونجتی ہیں جن سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘
تائے ابا مسکرائے۔ ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ میری ہمت اور میرے نڈر ہونے پر بہت خوش تھے۔ مگر انہوں نے کچھ رک کر کہا۔ ’’مگر تم دادی اماں اور پھوپھی کا کہنا نہیں مانتیں۔ یہ بری بات ہے۔ اگر وہاں بھوت نہیں ہیں تو سانپ بچھو اور کیڑے مکوڑے تو ہوسکتے ہیں اور کوئی چھت یا دیوار بھی تو گرسکتی ہے تمہارے اوپر‘‘۔
پھر بھی آج میں اپنی کامیابی پر بہت خوش تھی۔
نئے گھر میں ہمارا سامان اتارا جارہا تھا۔ پھوپھی اماں اور دادی اماں ایک ایک کمرے میں آیۃالکرسی پڑھ کر دم کر رہی تھیں۔ میں نے شمیمہ باجی کا ہاتھ پکڑا اور کھینچتے ہوئے کہا۔ باجی! چلو ذرا آس پاس کی چیزوں کو اسی وقت دیکھ ڈالیں۔ پھر خدا جانے پھوپھی اماں اور دادی اماں گھر سے نکلیں دیں یا نہیں۔
شمیمہ باجی نے اپنا برقع سنبھالا۔ انہوں نے دس گیارہ سال کی عمر میں ابھی کچھ دن پہلے ہی برقع اوڑھنا شروع کیا تھا اور انہیں ابھی اس کی عادت بھی کچھ یوں ہی سی تھی۔ جب وہ برقع اوڑھ کر چلتیں تو بار بار اس سے الجھ جاتیں اور گرتے گرتے بچتیں۔ انہیں برقع میں دیکھ کر کبھی ’’بڑی بی‘‘ کبھی حجن بوا کہہ کر میں ان کا مذاق اڑاتی۔ وہ کھسیانی ہو کر دادی اماں سے شکایت کرتیں۔ دادی اماں لڑکھڑاتی، ڈگمگاتی مجھے مارنے کھڑی ہوتیں تو میں بھاگ کھڑی ہوتی۔ شمیمہ باجی یوں بھی سیدھی اور گھر والوں کی نظر میں نیک اور ’’شریف‘‘ بچی تھیں۔ اور میں ’’شریر‘‘ آفت کی پرکالہ، جس سے نچلا بیٹھا بھی نہیں جاتا، گھر میں شمیمہ باجی اور میں ہی دو لڑکیاں تھیں۔ میں ہر شیطانی یا ہر حرکت میں انہیں اپنے ساتھ کھینچنا چاہتی تھی مگر وہ تھیں ہی کچھ ڈرپوک سی۔
میں نے شمیمہ باجی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا اور باغ میں ایک ایک جھاڑی اور ایک ایک پیڑ کا معائنہ شروع کردیا۔ اسے اس وقت تو باغ نہیں کہا جاسکتا تھا کیوں کہ بہت دن سے نہ اس میں پانی دیا گیا تھا۔ اس کی دیکھ بھال ہوئی تھی۔ اونچی اونچی جھاڑیاں اور اونچے گھنے پیڑ پودے گھر کو ڈھکے ہوئے تھے۔
باجی! میں نے دو چار پیڑوں کو دیکھ کر کہا ’’بڑا مزہ آئے گا اس گھر میں‘‘ دیکھو یہاں کھٹے ککروندے، املی، اور کمرخ کے کتنے پیڑ ہیں۔ باجی تمہیں بھی کھٹی املی اور کمرخ کا بہت شوق ہے نا؟
باجی نے منہ سے جواب تو کچھ نہیں دیا مگر ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ ان کے منہ میں پانی بھر آیا ہے۔
یہ گھر جس میں ہمارے خاندان کے لوگ اب رہ رہے تھے وہ ’’ہوا محل‘‘ کہلاتا تھا۔ اور بہت پرانا مکان لگتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کبھی بڑی خوبصورت اور شاندار حویلی رہی ہو کسی نواب کی۔۔۔خیر، جس حصہ میں میرا خاندان آکر ٹھرا تھا اس کے پیچھے کا حصہ بالکل کھنڈر تھا۔ اب اس حصہ میں ایک ٹوٹی پھوٹی دیواروں اور گری ہوئی چھتوں کے ملبے کا ڈھیر تھا۔ اس ٹوٹے پھوٹے کھنڈر کی ایک کوٹھری ہمارے گھر کے اندر کھلتی تھی جسے ہمیشہ بند رکھا جاتا تھا۔ اس بند کھڑکی کو دیکھ کر ہمیشہ جی چاہتا تھا کہ جاکر دیکھوں کہ ادھر کیا ہے۔ میری یہ خواہش دن بدن بڑھتی ہی گئی۔ ایک دن پھوپی اماں نے مجھے کھڑکی کی طرف جاتے دیکھ کر بڑا ڈراؤنا سا انداز بنا کر سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو نسیمہ، مجھے آس پاس رہنے والوں نے بتایا ہے کہ اس کھنڈر میں بھوتوں اور بدروحوں کا جماؤ ہے، خبردار ادھر نہ جانا‘‘۔
’’مگر پھوپی اماں بھوت پریت، چڑیل تو کچھ ہوتے نہیں‘‘۔ میں نے ان کی بات کاٹی۔
’’دیکھا میں نہ کہتی تھی!‘‘ دادی اماں نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’اس لڑکی کا دماغ بالکل پھر گیا ہے۔ دیکھ لڑکی کان کھول کر سن لے! اگر تو نے اس کھنڈر کا رخ کیا تو کھنڈر کے بھوت تجھے زندہ نہ چھوڑیں گے!‘‘
دادی اماں اور پھوپی اماں دیر تک مجھے ڈراتی اور سمجھاتی رہیں مگر میں نے دل میں ٹھان لی کہ جب بھوت پریت اتنے قریب ہی رہ رہے ہوں تو اس سے اچھا موقع کیا ہوگا کہ انہیں دیکھنے کا۔ ادھر ہمیں ابا کے بتائے ہوئے اس نسخے پر بھی پورا یقین تھا کہ اندھیرے میں یا رات کو جب بھی کسی چیز سے ڈر لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لی جائے۔ ہمارے تائے ابا ہمیں بڑے پیار سے نماز، اس کا ترجمہ اور دینیات کی دوسری باتیں سمجھاتے تھے۔ انہوں نے آیۃ الکرسی یاد بھی کرادی تھی اور ہمارے دل سے اندھیرے، بھوتوں اور جنوں وغیرہ کا ڈر بھی نکال دیا تھا۔ پھر بھی بھوت ہوتا کیا ہے؟ یہ دیکھنے کا شوق مجھے مستقل اکساتا رہتا۔ اور جب ابا اور تائے ابا دفتر چلے جاتے اور گرمیوں کی دوپہر میں ہماری اماں دادی اماں اور پھوپھی سب سوجاتے تو دبے پاؤں اٹھتی کھڑکی سے کود کر کھنڈر میں گھومتی اور وہ آوازیں سنتی جو کبھی بہت ڈراونی لگتیں۔ اور تھوڑی دیر کے لیے میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہونے لگتیں۔ ایک زور سے ’’پھٹ پھٹ پھٹائک‘‘ چٹ چٹ چٹاخ۔ میں جب کوٹھری کے اندر جھانکتی تو مجھے کالی کالی سامنے والی دیوار پر انگارہ جیسے دو گول گول دیدے نظرے آتے! اور پھر جیسے ہی گھر کے کسی کمرے سے کسی کے کھانسنے یا کروٹ بدلنے کی آہٹ محسوس ہوتی میں غڑاپ سے کھڑکی سے کود کر اندر آجاتی اور کھڑکی بند کردیتی۔ مگر میں نے طے کر لیا کہ کسی نہ کسی دن ان دیدوں والے بھوت کو ضرور دیکھوں گی۔
جب میری ڈرپوک باجی نے میرے ساتھ جانے سے صاف انکار کردیا تو ایک دن میں نے اکیلے ہی دوپہر میں سناٹا ہوتے کھڑکی کھول کر کھنڈر میں قدم رکھا اور سیدھا کوٹھری کا رخ کیا۔ آیۃ الکرسی پڑھتی ادھر ادھر دیکھتی آخر میں کوٹھری کے اندر داخل ہوگئی۔ کوٹھری کے فرش پر بکھرے سوکھے پتے میرے پیروں کے نیچے چرمرائے اور سلیپروں کے نیچے دب کر کوڑا کرکٹ، چٹر پٹر کی سی آوازیں پیدا کرنے لگا۔ ادھر چھت پر سے ایک غول جنگلی فاختاؤں اور کبوتروں کا زور سے پھٹپھٹاتا ہوا اڑا۔ اور عجیب ڈراؤنی آوازوں میں شور مچانے لگا۔ فوراً ہی کچھ چمگاڈریں بھی ادھر ادھر اڑ کر دیواروں پر ٹکریں مارنے لگیں۔ اور ان سب ملی جلی آوازوں کی گونج سے ایک عجب بھیانک سا شور پیدا ہونے لگا۔ میرے جسم میں ایک ہلکی سی سنسناہٹ تو ضرور محسوس ہوئی مگر آج میں بھی دل میں فیصلہ کر کے آئی تھی۔ میں بھی نظریں جمائے دیکھتی اور سنتی رہی۔ میں نے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے۔۔۔ان چمگاڈروں اور جنگلی پرندوں کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا۔۔۔ اچھا تو یہ ہیں بھوت پریت صاحبان‘‘۔
مگر وہ انگارہ جیسے گول گول دیدے کس کے ہیں؟جنہں میں اب بھی ٹوٹی پھوٹی سامنے والی دیوار پر دیکھ رہی تھی۔ کافی غور کرنے پر مجھے چھت سے کچھ نیچے دو گول سوراخ نظر آئے۔ جنہیں پرانے گھروں میں روشن دانوں کے طور پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ انہیں سوراخوں سے دوپہر کی تیز دھوپ کی دوشعاعیں دیوار پر چمک دار ٹکیاں سی بنا رہی تھی میں یہ راز جان کر اس بات پر بہت خوش تھی کہ میں نے اکیلے ہی بھوت کی آنکھیں پہچان لیں ہیں۔
اور شام جو جب تائے ابا دفتر سے آئے تو ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے میں نے پورے جوش میں اپنا آج کا کارنامہ سنایا۔
تائے ابا۔۔۔ آخر آج میں نے بھوت پریت دیکھ ہی لیے۔
’’کیسے بھوت پریت؟‘‘ تائے ابا نے حیرت سے پوچھا۔
ارے وہی جن سے دادی اماں اور پھوپھی اماں ہمیں ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’وہ جو کھنڈر میں رہتے ہیں۔ تائے ابا۔ وہاں تو صرف جنگلی پرندے اور چمگاڈریں رہتی ہیں۔ میری آہٹ پاتے ہی خود مجھ سے ڈرگئے اور لگے شور مچانے اور ادھر ادھر بھاگنے۔ ہاں ان کی آوازیں کوٹھری میں ضرور ایسے گونجتی ہیں جن سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘
تائے ابا مسکرائے۔ ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ میری ہمت اور میرے نڈر ہونے پر بہت خوش تھے۔ مگر انہوں نے کچھ رک کر کہا۔ ’’مگر تم دادی اماں اور پھوپھی کا کہنا نہیں مانتیں۔ یہ بری بات ہے۔ اگر وہاں بھوت نہیں ہیں تو سانپ بچھو اور کیڑے مکوڑے تو ہوسکتے ہیں اور کوئی چھت یا دیوار بھی تو گرسکتی ہے تمہارے اوپر‘‘۔
پھر بھی آج میں اپنی کامیابی پر بہت خوش تھی۔
- syeda-farhat
آج مدرسے کی چھٹی تھی۔ اتوار کا دن تھا۔ میں اپنی سہیلی انوپما کے ساتھ بیٹھی ہوم ورک کے بہانے گپ شپ کر رہی تھی۔ اچانک باہر سے کچھ بچوں ے شوروغل کے ساتھ سپیرے کے بین کی آواز آئی۔ ہم دونوں دوڑ کر کھڑکی پر پہنچے۔ اور کھڑکی کھول کر باہر جھانکا۔ گلی میں محلے کے بچے جمع تھے۔ اور سانپ کا تماشا دکھایا جارہا تھا۔
سپیرا جھوم جھوم کر بین بجا رہا تھا۔ سانپ کا پٹارا کھلا تھا اور کالا ناگ اپنا چوڑا سا پھن اٹھائے ادھر ادھر گھما رہا تھا۔ پھ سپیرے نے اس کو باہر نکالا اور زمین پر چھوڑ دیا۔ وہ لہرا لہرا کر اپنا ناچ دکھانے لگا۔ کچھ نڈر بچے اسے دیکھ کر تالیاں بجارہے تھے اور کچھ ننھے ننھے منے بچے ڈر کر ماؤں کے آنچل میں منہ چھپائے کھڑے تھے۔
’’کیوں انو اسی طرح ہم بھی اس کو پال لیں اور پھر اس کو سدھار کر روز تماشا دکھایا کریں؟‘‘ میں نے اوپما سے پوچھا۔
’’مگر ہم پکڑیں گے کیسے؟ کبھی کبھی ہمارے یہاں برسات کے زمانے میں چمیلی کی جھاڑی میں سانپ تو دکھائی دیتا ہے مگر مالی بالی یا دادا جی موٹا سا ڈنڈا لے کر اسے مار پھینک دیتے ہیں‘‘۔ انوپما نے جواب دیا۔
’’بھئی ہمارے یہاں تو کبھی سانپ دکھائی نہیں دیا‘‘۔ میں کچھ سوچ کر بولی ’’اچھا! ہمارے باورچی خانے کے پیچھے ترکاری کی کیاری میں جہاں اماں نے ترئی اور سیم کی بیلیں لگا رکھیں ہیں، برسات آنے پر وہاں سانپ ڈھونڈیں گے‘‘۔
’’ہاں ہاں ضرور! مگر شور مچا کر سب کو بتانا نہیں‘‘۔ انوپما بولی۔
’’مگر اسے پکڑیں گے کیسے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ارے ایک موٹی سی رسی ڈھونڈکر اس کا پھندا بنا لینا‘‘۔ انوپما نے ترکیب سمجھائی۔
’’اہا! یہ تو اچھی ترکیب ہے، مگر پھر ہم کو ایک بین بھی خریدنا چاہئے۔‘‘
’’ارے بین تو بعد میں بجانا، پہلے اسے دودھ پلا کر پالنا ہوگا۔ مگر سب سے چھپا کر‘‘۔ انوپما نے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے میں ایندھن والی کوٹھری میں ایک ٹوکری میں اسے چھپادوں گی اوربھوری بلی کی طرح چھپا کر اسے دودھ پلایا کروں گی‘‘۔
’’اچھا چلو! برسات آنے دو۔ سانپ تو جب پکڑیں گے۔ آؤ اب تو پہاڑے یاد کرلیں اور انگریزی، اردو کا کام پورا کرلیں، نہیں تو کل اسکول میں نیا تماشا ہوگا!‘‘ انوپما نے ہنستے ہوئے کتاب کھولی۔
گرمی کی چھٹیاں اب ختم ہونے والی تھیں۔ برسات کا موسم کالی گھٹاؤں، بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک کے ساتھ شروع ہوچکا تھا۔ پھر چھما چھم بارشیں شروع ہوگئیں۔ ہر طرف ہریالی چھا گئی، مرجھائے پیڑ پودے ہرے بھرے ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں سانپ پکڑنے کا کیڑا کلبلانے لگا۔ میں کسی سانپ کی تلاش میں پھولوں کی کیاریوں اور ترکاریوں کی بیلوں میں گھومنے لگی۔ پھر جب ایک دن شام کو ترئی کی بیل میں ستارہ جیسی ننھی ننھی دوآنکھیں چمکتی نظر آئیں تو میں خوشی سے اچھل پڑی۔ سانپ بیل میں الجھا ہوا بیٹھا تھا۔ میں خوشی اور جوش میں قلانچیں بھرتی پیچھے کا دروازہ کھول، انوپما کے لان کی دیوار کود کر انوپما کو گھسیٹ لائی۔ رسی کا پھندا جو ایندھن کی کوٹھری میں پہلے ہی سے چھپا دیا گیا تھا، فوراً نکالا گیا۔ اب اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ ہم جلدی جلدی رسی پکڑے بیل کے پاس پہنچے۔ مگر سانپ وہاں سے اتر کر نالی میں سر سرارہا تھا۔ ہم دونوں اس کا پیچھا کرتے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ بار بار رسی کا پھندا پھینکتے مگر وہ اس سے نکل کر جھٹ سے آگے بڑھ جاتا۔
اچانک وہ مڑ کر باورچی خانے کے نیچے والی نالی میں ہولیا۔ ہم دونوں کیڑے بنے ہوئے نالی کے کنارے کنارے دبے پاؤں بڑھتے رہے۔ اب وہ باورچی خانے کے بالکل نیچے پہنچ چکا تھا۔ باورچی خانے میں وزیرن بوا چولھے پر بڑا سا توا چڑھائے چھپا چھپ چپاتیاں پکار رہی تھیں۔ ہم دونوں کے جوتوں کی گھس پھس سن کر انہوں نے ادھر گھوم کر دیکھا۔
’’ارے لڑکیو! شام کے وقت موری میں کیا ڈھونڈ رہی ہو!‘‘ ’’شش ش!‘‘ میں نے سر اٹھا کر ان سے بالکل خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے باورچی خانے کی دوسیڑھیاں چڑھ کر ان کے کان میں کہا’’بوا تمہیں قسم ہے، شور نہ مچانا۔ہم سانپ پکڑ رہے ہیں۔ ہم اسے پالیں گے اور پھر تم بھی تماشا دیکھنا‘‘۔
’’اوئی میرے اللہ!‘‘ وزیرن بوا بوکھلا کر زور سے چیخیں’’الہٰی خیر۔ شکرن میاں! ائے بھیا! دوڑیو!! سانپ ہے سانپ‘‘ بوا گلا پھاڑ کر اس وقت تک چیختی ہی رہیں جب تک چچا میاں، جو نماز کے بعد جانماز پر ہی لیٹ گئے تھے، تیزی سے ٹارچ اور ڈنڈا لے کر نہ آگئے۔۔۔ سانپ اب دالان کی نالی میں تھا۔ ہم دونوں ان سے لپٹ گئے۔
’’اچھے چچا میاں، اسے ہم پالیں گے۔ اسے نہ ماریئے‘‘۔ ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ انہوں نے جنجھلا کر ہمیں جھٹکا دے کر اپنی ٹانگوں سے الگ کیا اور ٹارچ ڈال کر سانپ کو دیکھا اور بڑی پھرتی کے ساتھ چھڑی سے اسے باہر نکال کر کھلے حصے میں ڈالا اور فوراً اس کا سر کچل دیا۔ ہمیں اپنے اس اتنے اچھے منصوبے کے ٹوٹنے کا اتنا غم ہوا کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’ارے تم دونوں کو کیا ہوا؟ روکیوں رہی ہو!!‘‘ چچا میاں نے حیرت سے پوچھا۔
’’جائیے ہم نہیں بولتے آپ سے!‘‘ میں نے ان سے روٹھنے کے انداز میں کہا ’’آپ نے ہمارا سارا کھیل بگاڑ دیا۔ اس سانپ کو مار دیا۔ اسے تو ہم پکڑ کر پالنے والے تھے‘‘۔ میں نے رک رک کر کہا۔۔۔’’اور ہم پھر اس کو سدھار کر ایسا تماشا دکھاتے جیسا اس دن سپیرا دکھا رہا تھا‘‘۔
’’ہا ہا ہا‘‘ چچا میاں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ’’کیا پاگل پن سما گیا ہے تمہاری ننھی سی کھوپڑی میں!‘‘ چچا میاں کہہ رہے تھے۔ ’’جانتی ہو کچھ سانپ زہریلے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ یہ پالتو جانور نہیں ہوتے۔‘‘
’’پھر وہ سپیرا!‘‘ میں نے بات کاٹی۔
’’ارے بھائی وہ سانپ پکڑنے کا کام سیکھتے ہیں۔ اپنی روٹی روزی کمانے کے لئے۔ پھر وہ سانپ کے دانتوں کے نیچے جو زہر بھری تھیلی ہوتی ہےنکالنا بھی جانتے ہیں۔‘‘ چچا میاں نے سمجھایا، پھر میرا اور انوپما کا کھسیانہ چہرہ دیکھ کر چچا میاں نے چمکار کر کہا’’اچھا کل ہم تمہیں ایک کھلونے والا کلدار سانپ دلادیں گے۔ پھر تم سب کو تماشا دکھاتی پھرنا‘‘۔
’’کوئی ہم ننھے بچے ہیں جناب! تیسری جماعت میں پڑھتے ہیں‘‘۔ میں نے ہیکڑی جتائی۔
چچا میاں مسکرائے۔ ’’اوہو! بڑی بی تم تو بڑی قابل ہوگئی ہو۔ تبھی تو بغیر سمجھے بوجھے زندہ سانپ پکڑنے چلیں تھیں۔‘‘
سپیرا جھوم جھوم کر بین بجا رہا تھا۔ سانپ کا پٹارا کھلا تھا اور کالا ناگ اپنا چوڑا سا پھن اٹھائے ادھر ادھر گھما رہا تھا۔ پھ سپیرے نے اس کو باہر نکالا اور زمین پر چھوڑ دیا۔ وہ لہرا لہرا کر اپنا ناچ دکھانے لگا۔ کچھ نڈر بچے اسے دیکھ کر تالیاں بجارہے تھے اور کچھ ننھے ننھے منے بچے ڈر کر ماؤں کے آنچل میں منہ چھپائے کھڑے تھے۔
’’کیوں انو اسی طرح ہم بھی اس کو پال لیں اور پھر اس کو سدھار کر روز تماشا دکھایا کریں؟‘‘ میں نے اوپما سے پوچھا۔
’’مگر ہم پکڑیں گے کیسے؟ کبھی کبھی ہمارے یہاں برسات کے زمانے میں چمیلی کی جھاڑی میں سانپ تو دکھائی دیتا ہے مگر مالی بالی یا دادا جی موٹا سا ڈنڈا لے کر اسے مار پھینک دیتے ہیں‘‘۔ انوپما نے جواب دیا۔
’’بھئی ہمارے یہاں تو کبھی سانپ دکھائی نہیں دیا‘‘۔ میں کچھ سوچ کر بولی ’’اچھا! ہمارے باورچی خانے کے پیچھے ترکاری کی کیاری میں جہاں اماں نے ترئی اور سیم کی بیلیں لگا رکھیں ہیں، برسات آنے پر وہاں سانپ ڈھونڈیں گے‘‘۔
’’ہاں ہاں ضرور! مگر شور مچا کر سب کو بتانا نہیں‘‘۔ انوپما بولی۔
’’مگر اسے پکڑیں گے کیسے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ارے ایک موٹی سی رسی ڈھونڈکر اس کا پھندا بنا لینا‘‘۔ انوپما نے ترکیب سمجھائی۔
’’اہا! یہ تو اچھی ترکیب ہے، مگر پھر ہم کو ایک بین بھی خریدنا چاہئے۔‘‘
’’ارے بین تو بعد میں بجانا، پہلے اسے دودھ پلا کر پالنا ہوگا۔ مگر سب سے چھپا کر‘‘۔ انوپما نے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے میں ایندھن والی کوٹھری میں ایک ٹوکری میں اسے چھپادوں گی اوربھوری بلی کی طرح چھپا کر اسے دودھ پلایا کروں گی‘‘۔
’’اچھا چلو! برسات آنے دو۔ سانپ تو جب پکڑیں گے۔ آؤ اب تو پہاڑے یاد کرلیں اور انگریزی، اردو کا کام پورا کرلیں، نہیں تو کل اسکول میں نیا تماشا ہوگا!‘‘ انوپما نے ہنستے ہوئے کتاب کھولی۔
گرمی کی چھٹیاں اب ختم ہونے والی تھیں۔ برسات کا موسم کالی گھٹاؤں، بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک کے ساتھ شروع ہوچکا تھا۔ پھر چھما چھم بارشیں شروع ہوگئیں۔ ہر طرف ہریالی چھا گئی، مرجھائے پیڑ پودے ہرے بھرے ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں سانپ پکڑنے کا کیڑا کلبلانے لگا۔ میں کسی سانپ کی تلاش میں پھولوں کی کیاریوں اور ترکاریوں کی بیلوں میں گھومنے لگی۔ پھر جب ایک دن شام کو ترئی کی بیل میں ستارہ جیسی ننھی ننھی دوآنکھیں چمکتی نظر آئیں تو میں خوشی سے اچھل پڑی۔ سانپ بیل میں الجھا ہوا بیٹھا تھا۔ میں خوشی اور جوش میں قلانچیں بھرتی پیچھے کا دروازہ کھول، انوپما کے لان کی دیوار کود کر انوپما کو گھسیٹ لائی۔ رسی کا پھندا جو ایندھن کی کوٹھری میں پہلے ہی سے چھپا دیا گیا تھا، فوراً نکالا گیا۔ اب اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ ہم جلدی جلدی رسی پکڑے بیل کے پاس پہنچے۔ مگر سانپ وہاں سے اتر کر نالی میں سر سرارہا تھا۔ ہم دونوں اس کا پیچھا کرتے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ بار بار رسی کا پھندا پھینکتے مگر وہ اس سے نکل کر جھٹ سے آگے بڑھ جاتا۔
اچانک وہ مڑ کر باورچی خانے کے نیچے والی نالی میں ہولیا۔ ہم دونوں کیڑے بنے ہوئے نالی کے کنارے کنارے دبے پاؤں بڑھتے رہے۔ اب وہ باورچی خانے کے بالکل نیچے پہنچ چکا تھا۔ باورچی خانے میں وزیرن بوا چولھے پر بڑا سا توا چڑھائے چھپا چھپ چپاتیاں پکار رہی تھیں۔ ہم دونوں کے جوتوں کی گھس پھس سن کر انہوں نے ادھر گھوم کر دیکھا۔
’’ارے لڑکیو! شام کے وقت موری میں کیا ڈھونڈ رہی ہو!‘‘ ’’شش ش!‘‘ میں نے سر اٹھا کر ان سے بالکل خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے باورچی خانے کی دوسیڑھیاں چڑھ کر ان کے کان میں کہا’’بوا تمہیں قسم ہے، شور نہ مچانا۔ہم سانپ پکڑ رہے ہیں۔ ہم اسے پالیں گے اور پھر تم بھی تماشا دیکھنا‘‘۔
’’اوئی میرے اللہ!‘‘ وزیرن بوا بوکھلا کر زور سے چیخیں’’الہٰی خیر۔ شکرن میاں! ائے بھیا! دوڑیو!! سانپ ہے سانپ‘‘ بوا گلا پھاڑ کر اس وقت تک چیختی ہی رہیں جب تک چچا میاں، جو نماز کے بعد جانماز پر ہی لیٹ گئے تھے، تیزی سے ٹارچ اور ڈنڈا لے کر نہ آگئے۔۔۔ سانپ اب دالان کی نالی میں تھا۔ ہم دونوں ان سے لپٹ گئے۔
’’اچھے چچا میاں، اسے ہم پالیں گے۔ اسے نہ ماریئے‘‘۔ ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ انہوں نے جنجھلا کر ہمیں جھٹکا دے کر اپنی ٹانگوں سے الگ کیا اور ٹارچ ڈال کر سانپ کو دیکھا اور بڑی پھرتی کے ساتھ چھڑی سے اسے باہر نکال کر کھلے حصے میں ڈالا اور فوراً اس کا سر کچل دیا۔ ہمیں اپنے اس اتنے اچھے منصوبے کے ٹوٹنے کا اتنا غم ہوا کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’ارے تم دونوں کو کیا ہوا؟ روکیوں رہی ہو!!‘‘ چچا میاں نے حیرت سے پوچھا۔
’’جائیے ہم نہیں بولتے آپ سے!‘‘ میں نے ان سے روٹھنے کے انداز میں کہا ’’آپ نے ہمارا سارا کھیل بگاڑ دیا۔ اس سانپ کو مار دیا۔ اسے تو ہم پکڑ کر پالنے والے تھے‘‘۔ میں نے رک رک کر کہا۔۔۔’’اور ہم پھر اس کو سدھار کر ایسا تماشا دکھاتے جیسا اس دن سپیرا دکھا رہا تھا‘‘۔
’’ہا ہا ہا‘‘ چچا میاں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ’’کیا پاگل پن سما گیا ہے تمہاری ننھی سی کھوپڑی میں!‘‘ چچا میاں کہہ رہے تھے۔ ’’جانتی ہو کچھ سانپ زہریلے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ یہ پالتو جانور نہیں ہوتے۔‘‘
’’پھر وہ سپیرا!‘‘ میں نے بات کاٹی۔
’’ارے بھائی وہ سانپ پکڑنے کا کام سیکھتے ہیں۔ اپنی روٹی روزی کمانے کے لئے۔ پھر وہ سانپ کے دانتوں کے نیچے جو زہر بھری تھیلی ہوتی ہےنکالنا بھی جانتے ہیں۔‘‘ چچا میاں نے سمجھایا، پھر میرا اور انوپما کا کھسیانہ چہرہ دیکھ کر چچا میاں نے چمکار کر کہا’’اچھا کل ہم تمہیں ایک کھلونے والا کلدار سانپ دلادیں گے۔ پھر تم سب کو تماشا دکھاتی پھرنا‘‘۔
’’کوئی ہم ننھے بچے ہیں جناب! تیسری جماعت میں پڑھتے ہیں‘‘۔ میں نے ہیکڑی جتائی۔
چچا میاں مسکرائے۔ ’’اوہو! بڑی بی تم تو بڑی قابل ہوگئی ہو۔ تبھی تو بغیر سمجھے بوجھے زندہ سانپ پکڑنے چلیں تھیں۔‘‘
- syeda-farhat
بڑا سنسان جزیرہ تھا۔ اونچے اونچے اور بھیانک درختوں سے ڈھکا ہوا۔ جتنے بھی سیاح سمندر کے راستے اس طرف آتے، ایک تو ویسے ہی انھیں حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ اس جزیرے پر قدم رکھیں۔ دوسرے آس پاس کے ماہی گیروں کی زبانی کہی ہوئی یہ باتیں بھی انھیں روک دیتی تھیں کہ اس جزیرے میں آج تک کوئی نہیں جاسکا اور جو گیا واپس نہیں آیا۔ اس جزیرے پر ایک انجانا خوف چھایا رہتا ہے۔ انسان تو انسان پرندہ بھی وہاں پر نہیں مار سکتا۔ یہ اور اسی قسم کی دوسری باتیں سیاحوں کے دلوں کو سہما دیتی تھیں۔ بہتیروں نے کوشش کی مگر انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ چار آدمیوں کے ایک چھوٹے سے قافلے نے اس ہیبت ناک جزیرے پر قدم رکھا۔ کمال ایک کاروباری آدمی تھا۔ وہ بمبئی کے ہنگاموں سے اکتا کر ایک پرسکون اور الگ تھلگ سی جگہ کی تلاش میں تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ جزیرہ ابھی تک غیر آباد ہے تو وہ اپنی بیوی پروین۔ اپنی لڑکی اختر، اپنے لڑکے اشرف کی پندرہ سال۔ دونوں بھائی بہن نے جو یہ بات سنی تو بے حد خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس جزیرے پر ایک چھوٹے سے گھر میں کچھ وقت گزارنا جنت میں رہنے کے برابر تھا۔
آخر کار وہ دن آہی گیا جب کمال اپنے بچوں کے ساتھ اس جزیرے پر اترا۔ جزیرہ اندر سے بہت خوبصورت تھا۔ جگہ جگہ پھولوں کے پودے لہلہارہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پھل دار درخت سینہ تانے کھڑے تھے۔ اونچے اونچے ٹیلوں اور سبز گھاس والا جزیرہ بچوں کو بہت پسند آیا۔ مگر اچانک کمال نے چونک کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے ہلکا قہقہہ لگایا ہو۔ پہلے تو اس نے اس بات کو وہم سمجھ کر دل میں جگہ نہیں مگر دوبارہ بھی ایسا ہی ہوا تو اس کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے دل میں سوچ لیا کہ ماہی گیروں کی کہی ہوئی باتوں میں سچائی ضرور ہے۔ مگر اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اپنے اس خیال کو کسی دوسرے پر ظاہر نہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو بچے ضرور ڈر جاتے۔
جب تک دن رہا وہ سب جزیرے کی سیر کرتے رہے۔ رات ہوئی تو انہیں کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی پڑی جہاں وہ خیمہ لگانا چہتے تھے۔ آخر ایک چھوٹے سے ٹیلے سے نیچے انہوں نے خیمہ گاڑ دیا۔ مگر کمال بار بار یہی سوچ رہا تھا کہ آخر وہ ہلکے سے قہقہے اسے پھر سنائی دیا۔ کمال کو پریشانی تو ضرور ہوئی مگر وہ اپنی اس پریشانی کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی بیوی سے کیا’’ابھی تواسی جگہ رات بسر کی جائے۔ صبح کو ایسی جگہ دیکھوں گا جہاں مکان بنایا جاسکے۔‘‘
’’مگر سنو کمال۔ کیا تم نے کسی کے ہنسنے کی آواز سنی ہے؟‘‘ پروین نے سہم کر پوچھا۔
’’سنی تو ہے۔‘‘ کمال نے آہستہ سے کہا۔ ’’مگر اس بات کو بچوں سے چھپائے رکھنا، میرے خیال میں ماہی گیر ٹھیک کہتے تھے۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ میں اتنا بزدل نہیں ہوں کہ ان معمولی باتوں گے گھبراؤں۔‘‘
ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اشرف نے سہم کر کہا’’ابا۔ میں نے کسی کی ہنسی سنی ہے اور یہ ہنسی بہت قریب ہی سے سنائی دی ہے۔ کیا بات ہے؟ کہیں یہاں بھوت ووت تو نہیں ہیں؟‘‘
’’پاگل مت بنو اشرف۔ یہ تو کسی پرندے کی آواز ہے۔ میں بھی بہت دیر سے سن رہا ہوں۔‘‘
کمال نے تو یہ کہہ کر اشرف کو ٹال دیا۔ مگر اشرف سوچ رہا تھا کہ اس جزیرے میں تو ایک بھی پرندہ نہیں ہے۔ پھر آخر ابا جھوٹ کیوں بول رہے ہیں! جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو وہ خاموشی سے اندر خیمے میں جاکر لیٹ گیا او رسوچنے لگا کہ جب صبح ہوگی تو خواہ مخواہ کا ڈر بھی اس کے دل سے دور ہوجائے گا۔ رات کو تو ایسے ہی اوٹ پٹانگ خیال ذہن میں آیا کرتے ہیں۔
صبح بھی آگئی۔ دوسری جگہوں کی طرح یہاں پرندوں کی چہچہاہٹ بالکل نہیں تھی۔ پھولوں پر تتلیاں نہیں منڈلا رہی تھیں۔ ایک پر اسرار خاموشی نے پورے جزیرے کو اپنی گود میں لے رکھا تھا۔ کمال نے سب کو اٹھایا اور پھر کہا’’آؤ جزیرے کے کونے کونے کو دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں ہمیں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں پینے کا پانی بھی ہو اور جو سمندر سے قریب بھی ہو۔ بس ایسی ہی جگہ ہم اپنا چھوٹا سا گھر بنائیں گے۔‘‘
یہ سن کر سب نے سامان باندھا اور اپنے کندھوں پر لٹکالیا۔ پھر یہ چھوٹا سا کنبہ گھر بنانے کے لئے جزیرے کے اندر بڑھنے لگا۔ شاید ایک دو فرلانگ چلنے کے بعد ہی کمال ٹھٹھک گیا۔ اس کی نظریں سامنے کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ اس جزیرے کے خوبصورت سے جنگل میں ایک نہایت ہی خوبصورت مکان بنا ہوا تھا۔ شاید یہ مکان بہت اونچا تھا۔ کیونکہ اس کا اوپر کا حصہ درختوں میں چھپ گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ یہ مکان بالکل شیشے کا نظر آتا تھا۔ گو اس کی دیواروں کے آر پار کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن دیواروں کی چمک بتاتی تھی کہ وہ شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔ بالکل سامنے ایک دروازہ تھا اور دروازے کے آگے ننھی منی سی روش تھی۔
’’ابا۔ یہ مکان کس کا ہے؟‘‘ اختر نے پہلی بار پوچھا۔
’’کوئی نہ کوئی یہاں رہتا ضرور ہے۔‘‘ کمال نے جواب دیا۔ ’’ماہی گیر غلط کہتے تھے کہ یہ غیر آباد جزیرہ ہے۔‘‘
َ
’’ارے۔ مگر دروازہ تو کھلا ہوا ہے۔‘‘ اشرف نے حیرت سے کہا۔
’’آجائیے، اندر آجائیے۔ میں تو برسوں سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ ایک بڑی بھاری آواز اندر سے آئی۔
’’چلیے۔ اندر چل کر تو دیکھیں کون ہے۔ کوئی ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘ پروین نے کمال کے کان میں کہا۔
کمال نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک کر کے سب اندر داخل ہوگئے۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس شیشے کے کمرے میں فرنیچر بالکل نہیں تھا اور کمرہ خالی تھا۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی اچانک دروازہ بند ہوگیا۔ کمال نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازہ باہر سے بند ہوگیا ہے اور اب کھل نہیں سکتا۔ یکایک وہی قہقہے پھر سنائی دینے لگے۔ پہلے ان کی آواز مدھم تھی مگر اب بہت تیزتھی۔
’’یہ قہقہے کس کے ہیں کون ہنس رہا ہے؟‘‘ کمال نے چلا کر پوچھا۔ مگر اس کی آواز شیشے کے مکان میں گونج کر رہ گئی۔
چند منٹ کے بعد شیشے کی دیواروں کے باہر کا منظر نظر آنے لگا اور کمال نے دیکھا کہ باہر جنگل میں دھواں زمین سے اٹھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ دھواں آسمان تک جا پہنچا اور پھر اس دھویں نے انسان کی شکل اختیار کر لی۔ ان لوگوں کو شیشے کے مکان میں دیکھتے ہی اس نے قہقہے لگانے شروع کردیئے۔ اس کے سر پر ایک لمبی سی چوٹی تھی جو اس کے کندھوں پر جھول رہی تھی۔
’’میں آزاد ہوں۔ میں آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘ اس لمبے آدمی نے قہقہے لگاتے ہوئے کہنا شروع کیا’’میں آزاد ہوں۔ اے اجنبی جانتے ہو۔ میں پانچ سو سال سے اس شیشے کی بوتل میں بندھا تھا۔ لیکن آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘
’’لیکن تم ہو کون اور ہمیں اس طرح قید کرنے سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ کمال نے پوچھا۔
’’میں جن ہوں۔ میں دنیا کا ہر وہ کام کرسکتا ہوں جو تم نہیں کرسکتے۔ پانچ سو سال پہلے ایک ماہی گیر نے مجھے ایک موٹی سی بوتل کے قید خانے میں سے نکالا تھا۔ اور جب میں نے اسے کھانے کا ارادہ کیا تھا تو اس کمبخت نے مجھے دھوکے سے بوتل میں بند کر دیا تھا۔ میں وہی جن ہوں اجنبی۔ سمجھے۔‘‘
’’مگر یہ تو ایک من گھڑت کہانی ہے۔‘‘ پروین نے کہا۔
’’بہت سے افسانے دراصل حقیقتوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔‘‘ جن نے کہا’’ماہی گیر نے مجھے بوتل میں قید کیا تھا وہ پانچ سو سال کے بعد ٹوٹ گئی۔ میں پھر آزاد ہوگیا اور میں نے کچھ ایسے کام کیے جن کی بدولت مجھے بڑی طاقتوں نے پھر سے اس بوتل میں، اس جزیرے میں قید کر دیا۔ میری آزادی کی شرط یہ رکھی گئی کہ ادھر کوئی انسان اس جگہ آکر میری جگہ لے لے تو میں آزاد ہوسکتا ہوں۔ اور اس لیے آج اے بے وقوف اجنبی تم نے مجھے آزاد کیا ہے اور اب میری جگہ تم اس بول کے قیدی ہو۔ ہاہا ہا۔‘‘
’’خدا کی پناہ۔ تو کیا یہ مکان بوتل کی شکل کا ہے۔‘‘ کمال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اب میں دوبارہ قیدی بننے کی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘ جن نے کہا ’’اب دوبارہ میں قید نہیں ہوں گا۔ ہا ہا ہا۔‘‘
یہ سنتے ہی کمال کی بری حالت ہوگئی۔ اس نے دیوانوں کی طرح جلدی سے آگے بڑھ کر اس شیشے کے دروازہ پر زور کی ایک لات رسید کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمت ہار کر وہ بے بسی سے جن کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا۔
’’بے وقوف اجنبی۔ تم اب یہاں سے کبھی باہر نہ نکل سکو گے۔ تم زندگی بھر کے لیے قید ہوگئے ہو۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ مجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔ جب تم خود مجھ سے جانے کے کہو گے اس وقت جاؤں گا۔ اس لیے مجھے اجازت دو۔‘‘
’’ابھی آپ کو اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ آپ مجھے ایک شریف جن معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اختر نے حوصلہ کر کے کہا۔
’’وہ تو میں ہوں ہی۔ کون کہتا ہے کہ میں سریف نہیں ہوں۔ بھولی؟‘‘
’’اگر آپ شریف ہیں تو ٹھہرئیے اور میرے ایک سوال کا جواب دیجئے۔ یہ ایک پہیلی ہے۔ اگر آپ نے اس پہیلی کا ٹھیک جواب دے دیا تو ہم اپنی مرضی سے یہیں قید ہوجائیں گے اور اگر آپ نے صحیح جواب نہیں دیا تو مجھے امید ہے کہ آپ اپنی شرافت کا مظاہرہ کریں گے اور ہمیں جانے دیں گے۔ کہانیوں میں میں نے یہی پڑھا ہے کہ شریف جن قول دے کر نہیں مکرتے۔ میں آپ کو تین موقع دوں گی۔ اگر تینوں بار صحیح جواب نہ دے سکے تو آپ ہار جائیں گے۔ بولیے منظور ہے؟ آپ خاموش کیوں ہیں۔ کیا آپ ڈرتے ہیں؟‘‘
یہ سن کر جن بڑے زور سے ہنسا اور اس کی ہنسی سے جنگل کے درخت لرزنے لگے ۔ اس کے بعد وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اور اپنا منہ شیشے کی دیوار کے پاس لاکر زور سے کہنے لگا۔ ’’میں ڈرتا ہوں! ہاہاہا۔ میں جو پوری دنیا کا مالک ہوں۔ تم جیسی ننھی سی گڑیا سے ڈر جاؤں گا۔ ہا ہاہا۔ میں دنیا کا سب سے عقلمند جن ہوں۔ اپنی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں کہ تم مجھ سے اپنی پہیلی پوچھو، بولو وہ کیا پہیلی ہے؟‘‘
کمال، پروین اور اشرف حیرت سے اختر کو دیکھ رہے تھے جو اتنے بڑے جن سے مقابلہ کرنے کو تیار تھی۔
’’وہ کیا چیز ہے جو پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ زمین پر، سمندر میں، ہوا میں، خلا میں سب جگہ موجود ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو مگر دیکھ نہیں سکتے۔ تم اسے محسوس کرسکتے ہو مگر محسوس نہیں کرسکتے۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہے تو سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتی ہے اور دنیا کا ہر انسان اسے اچھی طرح جانتا ہے بتاؤ وہ کیا ہے؟‘‘۔
جن نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’بھولی گڑیا،پہیلی کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز ایٹم ہے۔ ایٹم ہر جگہ ہے لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ صرف سائنس داں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اسے محسوس نہیں کرسکتے لیکن اگر کسی چیز کو چھوئیں تو محسوس کرسکتے ہیں۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہیں تو سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘
’’بالکل غلط۔‘‘ اختر نے مسکرا کر کہا۔ ’’دنیا کے بہت سے آدمی ایٹم کو نہیں جانتے۔‘‘
یہ سن کر جن بہت گھبرایا اور بولا۔ ’’ٹھہرو، مجھے سوچنے دو، ہاں ٹھیک ہے، اب صحیح جواب مل گیا۔ وہ چیز روشنی ہے۔ روشنی ہر جگہ ہے اور ہر آدمی اسے دیکھ سکتا ہے۔ کیوں۔‘‘
’’اب بھی غلط۔ ’’اختر نے خوش ہو کر کہا۔ ’’اندھے آدمی روشنی کیسے دیکھ سکتے ہیں؟‘‘
’’بے وقوف لڑکی۔‘‘ جن نے گھبرا کر کہا۔ ’’تم مجھے نادان سمجھتی ہو اور دھوکا دینا چاہتی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ اس پہیلی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لیے اب میں کوئی جواب نہ دوں گا۔‘‘
’’جواب کیوں نہیں ہے؟‘‘ اختر نے کہا۔ ’’اس کا جواب ہے سچ۔ سچ ہر جگہ ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو اور محسوس بھی کرسکتے ہو اگر تم سچے ہو اور اگر تم سچے نہیں ہو تو تم نہ اسے دیکھ سکتے ہو اور نہ محسوس کرسکتے ہو۔ دنیا کا ہر شخص سچ کو جانتا ہے۔ سچ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور ایک سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی جن نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور کہا’’تم نے مجھ سے چالاکی سے کام لیا اور میں نے بھی تم سے۔ میں نے بھی چالاکی سے تم سے صحیح جواب معلوم کرلیا۔ تم نے مجھے تین موقعے دیئے تھے اور میں نے دو ہی مرتبہ میں تم سے ٹھیک جواب حاصل کر لیا۔ کہو کیسی رہی؟ کیونکہ تم نے تیسرے موقع کا انتظار کیے بغیر ہی صحیح جواب بتا دیا اس لیے تم ہار گئیں۔‘‘
اختر تو اب چپ ہوگئی مگر کمال نے آگے بڑھ کہا۔’’یہ تمہاری کمزوری کی پہلی نشانی ہے۔ تم نے ایک بچی سے چالاکی سے ٹھیک جواب معلوم کر لیا۔ سچ جتنا بڑا ہے، تم اتنے بڑے نہیں ہو۔ میری بچی نے یہ بات ثابت کردی ہے۔‘‘
’’بکواس مت کرو۔ میں ہر چیز سے بڑا ہوں۔‘‘ جن نے جواب دیا۔
’’غلط ہے۔ تم سچ سے بڑے نہیں ہو۔‘‘ کمال نے کہا۔ ’’سچ ایک سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتا ہے۔ تم نہیں نکل سکتے۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی سوئی نہیں ہے جو ہم اس کا تجربہ کریں لیکن اس دروازے میں تالے کے اندر کنجی ڈالنے کا سوراخ تو ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سوئی کا ناکہ تو پھر چھوٹا سا ہے مگر تم اس بڑے سے سوراخ میں سے بھی نہیں گزر سکتے۔‘‘
’’یہ جھوٹ ہے۔ میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ سوئی کے ناکے میں سے بھی گزر سکتا ہوں اور تالے کے سوراخ میں سے بھی۔ لو دیکھو، میں دھواں بن کر ابھی تمہیں یہ تجربہ کر کے دکھاتا ہوں۔‘‘
اتنا کہتے ہی جن ہوا میں تحلیل ہونے لگا اور پھر دھواں بننے لگا۔ اس کے دھواں بنتے ہی کمال نے جلدی سے اپنی پانی کا چھاگل نکالی اور اس کی ڈاٹ کھول کر سب پانی فرش پر گرادیا۔ جیسے ہی جن دھواں بن کر تالے کے سوراخ سے اندر آنے لگا۔ کمال نے جلدی سے چھاگل کا منہ اس سوراخ سے لگادیا۔ جب تمام دھواں چھاگل میں چلا گیا تو کمال نے ڈاٹ مضبوطی کے ساتھ بند کردی اور ہنس کر کہا ’’ہاں واقعی تم تالے کے سوراخ میں سے نکل سکتے ہو۔ اور پھر چھاگل میں قیدی ہوسکتے ہو۔‘‘
’’تم نے مجھے دھوکا دیا۔ چالاکی سے مجھے بند کردیا۔‘‘ جن نے چھاگل میں سے چلانا شروع کیا۔ ’’مجھے آزاد کرو۔‘‘
’’تم نے سچ کی بڑائی کو نہیں مانا اس لیے تم ہار گئے۔‘‘ اتنا کہہ کر کمال نے دروازے کو کھولنا چاہا تو وہ کھل گیا۔ ’’لو دروازہ بھی کھل گیا۔ اب میں تمہیں سمندر میں واپس پھینکے دیتا ہوں تاکہ تم دوبارہ باہر نکل کر کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کر سکو۔ تم نے تمہیں اس بوتل کا قیدی بنایاتھا۔ لیکن اب تم خود قیدی ہوگئے۔‘‘
جن التجا کرتا رہا مگر کمال نے ایک نہ سنی اور پھر باہر آکر اس نے چھاگل سمندر میں پھینک دی۔ ایک زور دار تڑاخہ ہوا اور شیشے کا وہ قید خانہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا جس کی شکل بوتل کی سی تھی اور جس کا قیدی یہ چھوٹا سا کنبہ تھا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ چار آدمیوں کے ایک چھوٹے سے قافلے نے اس ہیبت ناک جزیرے پر قدم رکھا۔ کمال ایک کاروباری آدمی تھا۔ وہ بمبئی کے ہنگاموں سے اکتا کر ایک پرسکون اور الگ تھلگ سی جگہ کی تلاش میں تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ جزیرہ ابھی تک غیر آباد ہے تو وہ اپنی بیوی پروین۔ اپنی لڑکی اختر، اپنے لڑکے اشرف کی پندرہ سال۔ دونوں بھائی بہن نے جو یہ بات سنی تو بے حد خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس جزیرے پر ایک چھوٹے سے گھر میں کچھ وقت گزارنا جنت میں رہنے کے برابر تھا۔
آخر کار وہ دن آہی گیا جب کمال اپنے بچوں کے ساتھ اس جزیرے پر اترا۔ جزیرہ اندر سے بہت خوبصورت تھا۔ جگہ جگہ پھولوں کے پودے لہلہارہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پھل دار درخت سینہ تانے کھڑے تھے۔ اونچے اونچے ٹیلوں اور سبز گھاس والا جزیرہ بچوں کو بہت پسند آیا۔ مگر اچانک کمال نے چونک کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے ہلکا قہقہہ لگایا ہو۔ پہلے تو اس نے اس بات کو وہم سمجھ کر دل میں جگہ نہیں مگر دوبارہ بھی ایسا ہی ہوا تو اس کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے دل میں سوچ لیا کہ ماہی گیروں کی کہی ہوئی باتوں میں سچائی ضرور ہے۔ مگر اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اپنے اس خیال کو کسی دوسرے پر ظاہر نہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو بچے ضرور ڈر جاتے۔
جب تک دن رہا وہ سب جزیرے کی سیر کرتے رہے۔ رات ہوئی تو انہیں کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی پڑی جہاں وہ خیمہ لگانا چہتے تھے۔ آخر ایک چھوٹے سے ٹیلے سے نیچے انہوں نے خیمہ گاڑ دیا۔ مگر کمال بار بار یہی سوچ رہا تھا کہ آخر وہ ہلکے سے قہقہے اسے پھر سنائی دیا۔ کمال کو پریشانی تو ضرور ہوئی مگر وہ اپنی اس پریشانی کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی بیوی سے کیا’’ابھی تواسی جگہ رات بسر کی جائے۔ صبح کو ایسی جگہ دیکھوں گا جہاں مکان بنایا جاسکے۔‘‘
’’مگر سنو کمال۔ کیا تم نے کسی کے ہنسنے کی آواز سنی ہے؟‘‘ پروین نے سہم کر پوچھا۔
’’سنی تو ہے۔‘‘ کمال نے آہستہ سے کہا۔ ’’مگر اس بات کو بچوں سے چھپائے رکھنا، میرے خیال میں ماہی گیر ٹھیک کہتے تھے۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ میں اتنا بزدل نہیں ہوں کہ ان معمولی باتوں گے گھبراؤں۔‘‘
ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اشرف نے سہم کر کہا’’ابا۔ میں نے کسی کی ہنسی سنی ہے اور یہ ہنسی بہت قریب ہی سے سنائی دی ہے۔ کیا بات ہے؟ کہیں یہاں بھوت ووت تو نہیں ہیں؟‘‘
’’پاگل مت بنو اشرف۔ یہ تو کسی پرندے کی آواز ہے۔ میں بھی بہت دیر سے سن رہا ہوں۔‘‘
کمال نے تو یہ کہہ کر اشرف کو ٹال دیا۔ مگر اشرف سوچ رہا تھا کہ اس جزیرے میں تو ایک بھی پرندہ نہیں ہے۔ پھر آخر ابا جھوٹ کیوں بول رہے ہیں! جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو وہ خاموشی سے اندر خیمے میں جاکر لیٹ گیا او رسوچنے لگا کہ جب صبح ہوگی تو خواہ مخواہ کا ڈر بھی اس کے دل سے دور ہوجائے گا۔ رات کو تو ایسے ہی اوٹ پٹانگ خیال ذہن میں آیا کرتے ہیں۔
صبح بھی آگئی۔ دوسری جگہوں کی طرح یہاں پرندوں کی چہچہاہٹ بالکل نہیں تھی۔ پھولوں پر تتلیاں نہیں منڈلا رہی تھیں۔ ایک پر اسرار خاموشی نے پورے جزیرے کو اپنی گود میں لے رکھا تھا۔ کمال نے سب کو اٹھایا اور پھر کہا’’آؤ جزیرے کے کونے کونے کو دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں ہمیں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں پینے کا پانی بھی ہو اور جو سمندر سے قریب بھی ہو۔ بس ایسی ہی جگہ ہم اپنا چھوٹا سا گھر بنائیں گے۔‘‘
یہ سن کر سب نے سامان باندھا اور اپنے کندھوں پر لٹکالیا۔ پھر یہ چھوٹا سا کنبہ گھر بنانے کے لئے جزیرے کے اندر بڑھنے لگا۔ شاید ایک دو فرلانگ چلنے کے بعد ہی کمال ٹھٹھک گیا۔ اس کی نظریں سامنے کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ اس جزیرے کے خوبصورت سے جنگل میں ایک نہایت ہی خوبصورت مکان بنا ہوا تھا۔ شاید یہ مکان بہت اونچا تھا۔ کیونکہ اس کا اوپر کا حصہ درختوں میں چھپ گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ یہ مکان بالکل شیشے کا نظر آتا تھا۔ گو اس کی دیواروں کے آر پار کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن دیواروں کی چمک بتاتی تھی کہ وہ شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔ بالکل سامنے ایک دروازہ تھا اور دروازے کے آگے ننھی منی سی روش تھی۔
’’ابا۔ یہ مکان کس کا ہے؟‘‘ اختر نے پہلی بار پوچھا۔
’’کوئی نہ کوئی یہاں رہتا ضرور ہے۔‘‘ کمال نے جواب دیا۔ ’’ماہی گیر غلط کہتے تھے کہ یہ غیر آباد جزیرہ ہے۔‘‘
َ
’’ارے۔ مگر دروازہ تو کھلا ہوا ہے۔‘‘ اشرف نے حیرت سے کہا۔
’’آجائیے، اندر آجائیے۔ میں تو برسوں سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ ایک بڑی بھاری آواز اندر سے آئی۔
’’چلیے۔ اندر چل کر تو دیکھیں کون ہے۔ کوئی ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘ پروین نے کمال کے کان میں کہا۔
کمال نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک کر کے سب اندر داخل ہوگئے۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس شیشے کے کمرے میں فرنیچر بالکل نہیں تھا اور کمرہ خالی تھا۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی اچانک دروازہ بند ہوگیا۔ کمال نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازہ باہر سے بند ہوگیا ہے اور اب کھل نہیں سکتا۔ یکایک وہی قہقہے پھر سنائی دینے لگے۔ پہلے ان کی آواز مدھم تھی مگر اب بہت تیزتھی۔
’’یہ قہقہے کس کے ہیں کون ہنس رہا ہے؟‘‘ کمال نے چلا کر پوچھا۔ مگر اس کی آواز شیشے کے مکان میں گونج کر رہ گئی۔
چند منٹ کے بعد شیشے کی دیواروں کے باہر کا منظر نظر آنے لگا اور کمال نے دیکھا کہ باہر جنگل میں دھواں زمین سے اٹھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ دھواں آسمان تک جا پہنچا اور پھر اس دھویں نے انسان کی شکل اختیار کر لی۔ ان لوگوں کو شیشے کے مکان میں دیکھتے ہی اس نے قہقہے لگانے شروع کردیئے۔ اس کے سر پر ایک لمبی سی چوٹی تھی جو اس کے کندھوں پر جھول رہی تھی۔
’’میں آزاد ہوں۔ میں آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘ اس لمبے آدمی نے قہقہے لگاتے ہوئے کہنا شروع کیا’’میں آزاد ہوں۔ اے اجنبی جانتے ہو۔ میں پانچ سو سال سے اس شیشے کی بوتل میں بندھا تھا۔ لیکن آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘
’’لیکن تم ہو کون اور ہمیں اس طرح قید کرنے سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ کمال نے پوچھا۔
’’میں جن ہوں۔ میں دنیا کا ہر وہ کام کرسکتا ہوں جو تم نہیں کرسکتے۔ پانچ سو سال پہلے ایک ماہی گیر نے مجھے ایک موٹی سی بوتل کے قید خانے میں سے نکالا تھا۔ اور جب میں نے اسے کھانے کا ارادہ کیا تھا تو اس کمبخت نے مجھے دھوکے سے بوتل میں بند کر دیا تھا۔ میں وہی جن ہوں اجنبی۔ سمجھے۔‘‘
’’مگر یہ تو ایک من گھڑت کہانی ہے۔‘‘ پروین نے کہا۔
’’بہت سے افسانے دراصل حقیقتوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔‘‘ جن نے کہا’’ماہی گیر نے مجھے بوتل میں قید کیا تھا وہ پانچ سو سال کے بعد ٹوٹ گئی۔ میں پھر آزاد ہوگیا اور میں نے کچھ ایسے کام کیے جن کی بدولت مجھے بڑی طاقتوں نے پھر سے اس بوتل میں، اس جزیرے میں قید کر دیا۔ میری آزادی کی شرط یہ رکھی گئی کہ ادھر کوئی انسان اس جگہ آکر میری جگہ لے لے تو میں آزاد ہوسکتا ہوں۔ اور اس لیے آج اے بے وقوف اجنبی تم نے مجھے آزاد کیا ہے اور اب میری جگہ تم اس بول کے قیدی ہو۔ ہاہا ہا۔‘‘
’’خدا کی پناہ۔ تو کیا یہ مکان بوتل کی شکل کا ہے۔‘‘ کمال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اب میں دوبارہ قیدی بننے کی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘ جن نے کہا ’’اب دوبارہ میں قید نہیں ہوں گا۔ ہا ہا ہا۔‘‘
یہ سنتے ہی کمال کی بری حالت ہوگئی۔ اس نے دیوانوں کی طرح جلدی سے آگے بڑھ کر اس شیشے کے دروازہ پر زور کی ایک لات رسید کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمت ہار کر وہ بے بسی سے جن کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا۔
’’بے وقوف اجنبی۔ تم اب یہاں سے کبھی باہر نہ نکل سکو گے۔ تم زندگی بھر کے لیے قید ہوگئے ہو۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ مجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔ جب تم خود مجھ سے جانے کے کہو گے اس وقت جاؤں گا۔ اس لیے مجھے اجازت دو۔‘‘
’’ابھی آپ کو اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ آپ مجھے ایک شریف جن معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اختر نے حوصلہ کر کے کہا۔
’’وہ تو میں ہوں ہی۔ کون کہتا ہے کہ میں سریف نہیں ہوں۔ بھولی؟‘‘
’’اگر آپ شریف ہیں تو ٹھہرئیے اور میرے ایک سوال کا جواب دیجئے۔ یہ ایک پہیلی ہے۔ اگر آپ نے اس پہیلی کا ٹھیک جواب دے دیا تو ہم اپنی مرضی سے یہیں قید ہوجائیں گے اور اگر آپ نے صحیح جواب نہیں دیا تو مجھے امید ہے کہ آپ اپنی شرافت کا مظاہرہ کریں گے اور ہمیں جانے دیں گے۔ کہانیوں میں میں نے یہی پڑھا ہے کہ شریف جن قول دے کر نہیں مکرتے۔ میں آپ کو تین موقع دوں گی۔ اگر تینوں بار صحیح جواب نہ دے سکے تو آپ ہار جائیں گے۔ بولیے منظور ہے؟ آپ خاموش کیوں ہیں۔ کیا آپ ڈرتے ہیں؟‘‘
یہ سن کر جن بڑے زور سے ہنسا اور اس کی ہنسی سے جنگل کے درخت لرزنے لگے ۔ اس کے بعد وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ اور اپنا منہ شیشے کی دیوار کے پاس لاکر زور سے کہنے لگا۔ ’’میں ڈرتا ہوں! ہاہاہا۔ میں جو پوری دنیا کا مالک ہوں۔ تم جیسی ننھی سی گڑیا سے ڈر جاؤں گا۔ ہا ہاہا۔ میں دنیا کا سب سے عقلمند جن ہوں۔ اپنی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں کہ تم مجھ سے اپنی پہیلی پوچھو، بولو وہ کیا پہیلی ہے؟‘‘
کمال، پروین اور اشرف حیرت سے اختر کو دیکھ رہے تھے جو اتنے بڑے جن سے مقابلہ کرنے کو تیار تھی۔
’’وہ کیا چیز ہے جو پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ زمین پر، سمندر میں، ہوا میں، خلا میں سب جگہ موجود ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو مگر دیکھ نہیں سکتے۔ تم اسے محسوس کرسکتے ہو مگر محسوس نہیں کرسکتے۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہے تو سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتی ہے اور دنیا کا ہر انسان اسے اچھی طرح جانتا ہے بتاؤ وہ کیا ہے؟‘‘۔
جن نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’بھولی گڑیا،پہیلی کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز ایٹم ہے۔ ایٹم ہر جگہ ہے لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ صرف سائنس داں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اسے محسوس نہیں کرسکتے لیکن اگر کسی چیز کو چھوئیں تو محسوس کرسکتے ہیں۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہیں تو سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘
’’بالکل غلط۔‘‘ اختر نے مسکرا کر کہا۔ ’’دنیا کے بہت سے آدمی ایٹم کو نہیں جانتے۔‘‘
یہ سن کر جن بہت گھبرایا اور بولا۔ ’’ٹھہرو، مجھے سوچنے دو، ہاں ٹھیک ہے، اب صحیح جواب مل گیا۔ وہ چیز روشنی ہے۔ روشنی ہر جگہ ہے اور ہر آدمی اسے دیکھ سکتا ہے۔ کیوں۔‘‘
’’اب بھی غلط۔ ’’اختر نے خوش ہو کر کہا۔ ’’اندھے آدمی روشنی کیسے دیکھ سکتے ہیں؟‘‘
’’بے وقوف لڑکی۔‘‘ جن نے گھبرا کر کہا۔ ’’تم مجھے نادان سمجھتی ہو اور دھوکا دینا چاہتی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ اس پہیلی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لیے اب میں کوئی جواب نہ دوں گا۔‘‘
’’جواب کیوں نہیں ہے؟‘‘ اختر نے کہا۔ ’’اس کا جواب ہے سچ۔ سچ ہر جگہ ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو اور محسوس بھی کرسکتے ہو اگر تم سچے ہو اور اگر تم سچے نہیں ہو تو تم نہ اسے دیکھ سکتے ہو اور نہ محسوس کرسکتے ہو۔ دنیا کا ہر شخص سچ کو جانتا ہے۔ سچ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور ایک سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی جن نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور کہا’’تم نے مجھ سے چالاکی سے کام لیا اور میں نے بھی تم سے۔ میں نے بھی چالاکی سے تم سے صحیح جواب معلوم کرلیا۔ تم نے مجھے تین موقعے دیئے تھے اور میں نے دو ہی مرتبہ میں تم سے ٹھیک جواب حاصل کر لیا۔ کہو کیسی رہی؟ کیونکہ تم نے تیسرے موقع کا انتظار کیے بغیر ہی صحیح جواب بتا دیا اس لیے تم ہار گئیں۔‘‘
اختر تو اب چپ ہوگئی مگر کمال نے آگے بڑھ کہا۔’’یہ تمہاری کمزوری کی پہلی نشانی ہے۔ تم نے ایک بچی سے چالاکی سے ٹھیک جواب معلوم کر لیا۔ سچ جتنا بڑا ہے، تم اتنے بڑے نہیں ہو۔ میری بچی نے یہ بات ثابت کردی ہے۔‘‘
’’بکواس مت کرو۔ میں ہر چیز سے بڑا ہوں۔‘‘ جن نے جواب دیا۔
’’غلط ہے۔ تم سچ سے بڑے نہیں ہو۔‘‘ کمال نے کہا۔ ’’سچ ایک سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتا ہے۔ تم نہیں نکل سکتے۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی سوئی نہیں ہے جو ہم اس کا تجربہ کریں لیکن اس دروازے میں تالے کے اندر کنجی ڈالنے کا سوراخ تو ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سوئی کا ناکہ تو پھر چھوٹا سا ہے مگر تم اس بڑے سے سوراخ میں سے بھی نہیں گزر سکتے۔‘‘
’’یہ جھوٹ ہے۔ میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ سوئی کے ناکے میں سے بھی گزر سکتا ہوں اور تالے کے سوراخ میں سے بھی۔ لو دیکھو، میں دھواں بن کر ابھی تمہیں یہ تجربہ کر کے دکھاتا ہوں۔‘‘
اتنا کہتے ہی جن ہوا میں تحلیل ہونے لگا اور پھر دھواں بننے لگا۔ اس کے دھواں بنتے ہی کمال نے جلدی سے اپنی پانی کا چھاگل نکالی اور اس کی ڈاٹ کھول کر سب پانی فرش پر گرادیا۔ جیسے ہی جن دھواں بن کر تالے کے سوراخ سے اندر آنے لگا۔ کمال نے جلدی سے چھاگل کا منہ اس سوراخ سے لگادیا۔ جب تمام دھواں چھاگل میں چلا گیا تو کمال نے ڈاٹ مضبوطی کے ساتھ بند کردی اور ہنس کر کہا ’’ہاں واقعی تم تالے کے سوراخ میں سے نکل سکتے ہو۔ اور پھر چھاگل میں قیدی ہوسکتے ہو۔‘‘
’’تم نے مجھے دھوکا دیا۔ چالاکی سے مجھے بند کردیا۔‘‘ جن نے چھاگل میں سے چلانا شروع کیا۔ ’’مجھے آزاد کرو۔‘‘
’’تم نے سچ کی بڑائی کو نہیں مانا اس لیے تم ہار گئے۔‘‘ اتنا کہہ کر کمال نے دروازے کو کھولنا چاہا تو وہ کھل گیا۔ ’’لو دروازہ بھی کھل گیا۔ اب میں تمہیں سمندر میں واپس پھینکے دیتا ہوں تاکہ تم دوبارہ باہر نکل کر کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کر سکو۔ تم نے تمہیں اس بوتل کا قیدی بنایاتھا۔ لیکن اب تم خود قیدی ہوگئے۔‘‘
جن التجا کرتا رہا مگر کمال نے ایک نہ سنی اور پھر باہر آکر اس نے چھاگل سمندر میں پھینک دی۔ ایک زور دار تڑاخہ ہوا اور شیشے کا وہ قید خانہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا جس کی شکل بوتل کی سی تھی اور جس کا قیدی یہ چھوٹا سا کنبہ تھا۔
- siraj-anwar
کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں شیر اڑ سکتا تھا۔ اور اس وقت کوئی بھی شئے اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے شکار کیے ہوئے جانوروں کی ہڈیوں کو توڑے۔ وہ ان کے ڈھانچے جوں کے توں رکھنا چاہتا تھا۔ لہذا اس نے ان کی رکھوالی کے لئے دو سفید کوؤں کو ایک جوڑا بنایا۔ انہیں، اس نے ہڈیوں کے گرد بنائے گئے حصار کی دیوار پر بٹھایا اور خود شکار کرنے کے لئے نکل گیا۔ اب یہ اس کا معمول بن چکا تھا۔ لیکن ایک دن بڑا مینڈک ادھر آن پہنچا۔ اس نے تمام ہڈیوں کو ٹکڑے کردیا، ’’آدمی اور جانور زیادہ زندہ کیوں نہیں رہتے؟‘‘ اس نے کوؤں سے کہا، ’’جب وہ آئے تو اسے یہ بھی کہنا کہ میں ادھر جوہڑ کے کنارے رہتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو پھر اسے خود وہاں آنا ہوگا۔‘‘
ادھر شیر کچھ آرام کرنے کے لئے گھاس پر لیٹا ہوا تھا، اس نے اڑنا چاہا لیکن اس نے محسوس کیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اب وہ سخت غصے میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حصار پر یقیناً کچھ نہ کچھ ہوا ہے لہذا وہ گھر کی طرف چل دیا۔
’’تم نے کیا کیا ہے کہ میں اب اڑ نہیں سکتا؟‘‘ وہ جب گھر پہنچا تو اس نے کوؤں سے پوچھا۔
’’کوئی یہاں آیا تھا اور اس نے ہڈیوں کے ٹکڑے کر دیئے۔‘‘ کوؤں نے جواب دیا اور بولے، ’’اگر تم اس سے ملنا چاہتے ہو تو وہ تمہیں جوہڑ کے کنارے مل سکتا ہے!‘‘
شیر جب وہاں پہنچا تو مینڈک جوہڑ میں پانی کے کنارے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ہو!‘‘ وہ شیر کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں بولا اور فوراً پانی میں غوطہ لگا کر جوہڑ کے دوسرے کنارے پر جا نکلا۔ شیر بھی چکر لگا کر وہاں پہنچ گیا لیکن مینڈک دوبارہ غوطہ لگا گیا۔ بڑی کوشش کے باوجود شیر جب اسے نہ پکڑ سکا تو مایوس ہو کر گھر واپس آگیا۔
کہا جاتا ہے کہ تب سے آج تک شیر اپنے پیروں پر چلتا ہے۔ اور سفید کوے بھی تب سے بالکل بہرے ہوچکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ، کیا ہوا ہے؟ اور انہوں نے جواب میں بس اتنا کہا تھا کہ، ’’اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
کیا تم بتا سکتے ہو کہ، ہوا تھا؟
ادھر شیر کچھ آرام کرنے کے لئے گھاس پر لیٹا ہوا تھا، اس نے اڑنا چاہا لیکن اس نے محسوس کیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اب وہ سخت غصے میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حصار پر یقیناً کچھ نہ کچھ ہوا ہے لہذا وہ گھر کی طرف چل دیا۔
’’تم نے کیا کیا ہے کہ میں اب اڑ نہیں سکتا؟‘‘ وہ جب گھر پہنچا تو اس نے کوؤں سے پوچھا۔
’’کوئی یہاں آیا تھا اور اس نے ہڈیوں کے ٹکڑے کر دیئے۔‘‘ کوؤں نے جواب دیا اور بولے، ’’اگر تم اس سے ملنا چاہتے ہو تو وہ تمہیں جوہڑ کے کنارے مل سکتا ہے!‘‘
شیر جب وہاں پہنچا تو مینڈک جوہڑ میں پانی کے کنارے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ہو!‘‘ وہ شیر کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں بولا اور فوراً پانی میں غوطہ لگا کر جوہڑ کے دوسرے کنارے پر جا نکلا۔ شیر بھی چکر لگا کر وہاں پہنچ گیا لیکن مینڈک دوبارہ غوطہ لگا گیا۔ بڑی کوشش کے باوجود شیر جب اسے نہ پکڑ سکا تو مایوس ہو کر گھر واپس آگیا۔
کہا جاتا ہے کہ تب سے آج تک شیر اپنے پیروں پر چلتا ہے۔ اور سفید کوے بھی تب سے بالکل بہرے ہوچکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ، کیا ہوا ہے؟ اور انہوں نے جواب میں بس اتنا کہا تھا کہ، ’’اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
کیا تم بتا سکتے ہو کہ، ہوا تھا؟
- nasar-malik
ایک تھی مینا، ایک تھا کوا، مینا کا گھر موم کا تھا اور کوے کانون کا تھا۔ مینا نے ایک دن کھچڑی پکائی۔ بازار بند ہوگیاتھا۔ نمک نہ ملا تو اس نے اپنے بچے کو کوے کے پاس بھیجا کہ اپنے گھر میں سے ذرا سا نون دے دے۔ مینا کے بچے نے جب کوے سے یہ بات جاکر کہی تو کوا بہت خفا ہوا اور کہنے لگا جا جا بڑا بچارا نمک مانگنے والاآیا، تیری ہنڈیا کی خاطر میں اپنے گھر کی دیوار توڑ دوں، تب تجھ کو نمک دوں، ایسے بیوقوف مینا کے محلہ میں رہتے ہوں گے۔ مینا کا بچہ اپنا سا منہ لے کر ماں کے پاس آگیا اور اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کی کہ الہٰی گھمنڈ کرنے والوں کو نیچا دکھا، یہ دعا کرنی تھی کہ ایسا مینہ برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ کوے کا گھر تو نون کا تھا، سب بہہ گیا، مینا کا گھر موم کا تھا، اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا۔ جب کوے کا گھر برباد ہوگیا تو وہ مینا کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا بی مینا رات کی رات مجھے اپنے گھر میں ٹھہرا لو۔ مینا نے جواب دیا تو غرور کا کلمہ بولا تھا اور مجھ کو نمک نہ دیا تھا خدا نے اس کا بدلہ دکھایا ہے، اب میں تجھے گھر میں کیوں ٹھہراؤں،تو بڑا خود غرض اور خدا کا گنہگار بندہ ہے۔ کوے نے بہت عاجزی کی تو مینا کو ترس آگیا اور اس نے خیال کیا ایسا نہ ہو خدا مجھ سے بھی ناراض ہوجائے کہ تو نے مصیبت زدہ کی مدد کیوں نہ کی، اس واسطے اس نے دروازہ کھول دیا اور کوے کو اندر بلا لیا۔ کوے نے کہا آپا مینا میں کہاں بیٹھوں۔ مینا بولی چولھے پر بیٹھ جا۔ کوے نے کہا۔
میں جل مروں گا، میں جل مروں گا
مینا نے کہا اچھا جا میری چکی پر بیٹھ جا، کوا بولا
میں پس مروں گا، میں پس مروں گا
مینا نے کہا اچھا میرے چرخے پر بیٹھ جا، کوا بولا
میں کٹ مروں گا، میں کٹ مروں گا
تو میںا نے کہا اچھا کوٹھری میں جا بیٹھ، وہاں میرے چنے بھرے ہوئے ہیں ان کو نہ کھا لیجو۔ کوے نے کہا، توبہ ہے آپا مینا، تم بھی کیسی بدگمان ہو۔ تم تو مجھ پر احسان کرو۔ گھر میں جگہ دو اور میں تمہارے ہاں چوری کروں گا۔ توبہ توبہ، اس کا تو خیال بھی نہ کرنا۔ مینا کوٹھری کھول دی اور کوا اندر جاکر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کو مینا کی آنکھ کھلی تو کوٹھری میں کچھ کھانے کی آواز آئی۔ مینا نے پوچھا بھائی کوے کیا کھا رہے ہو۔ بولا آپا مینا میری سسرال سے بن آئے تھے۔ وہ سردی میں چبارہا ہوں مینا چپکی ہوئی۔ پچھلی رات کو مینا کی آنکھ پھر کھلی تو کھانے کی آواز آئی اور مینا نے پھر پوچھا تو کوے نے وہی جواب دیا۔ کوا سب جانوروں سے پہلے جاگا کرتا ہے۔ مینا ابھی بچھونوں سے اٹھی بھی نہ تھی جو کوا کوٹھری سے نکل کر بھاگ گیا۔ مینا نے اٹھ کر دیکھا تو ساری کوٹھری خالی تھی۔ کوے نے سب چنے کھالئے تھے اس وقت مینا نے کہا بدذات اور شریر کے ساتھ احسان کرنے کا یہ بدلہ ہے۔
میں جل مروں گا، میں جل مروں گا
مینا نے کہا اچھا جا میری چکی پر بیٹھ جا، کوا بولا
میں پس مروں گا، میں پس مروں گا
مینا نے کہا اچھا میرے چرخے پر بیٹھ جا، کوا بولا
میں کٹ مروں گا، میں کٹ مروں گا
تو میںا نے کہا اچھا کوٹھری میں جا بیٹھ، وہاں میرے چنے بھرے ہوئے ہیں ان کو نہ کھا لیجو۔ کوے نے کہا، توبہ ہے آپا مینا، تم بھی کیسی بدگمان ہو۔ تم تو مجھ پر احسان کرو۔ گھر میں جگہ دو اور میں تمہارے ہاں چوری کروں گا۔ توبہ توبہ، اس کا تو خیال بھی نہ کرنا۔ مینا کوٹھری کھول دی اور کوا اندر جاکر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کو مینا کی آنکھ کھلی تو کوٹھری میں کچھ کھانے کی آواز آئی۔ مینا نے پوچھا بھائی کوے کیا کھا رہے ہو۔ بولا آپا مینا میری سسرال سے بن آئے تھے۔ وہ سردی میں چبارہا ہوں مینا چپکی ہوئی۔ پچھلی رات کو مینا کی آنکھ پھر کھلی تو کھانے کی آواز آئی اور مینا نے پھر پوچھا تو کوے نے وہی جواب دیا۔ کوا سب جانوروں سے پہلے جاگا کرتا ہے۔ مینا ابھی بچھونوں سے اٹھی بھی نہ تھی جو کوا کوٹھری سے نکل کر بھاگ گیا۔ مینا نے اٹھ کر دیکھا تو ساری کوٹھری خالی تھی۔ کوے نے سب چنے کھالئے تھے اس وقت مینا نے کہا بدذات اور شریر کے ساتھ احسان کرنے کا یہ بدلہ ہے۔
- laila-khwaja-bano