غزل شاعری

لفظوں اور جذبات کی آہنگ

غزل شاعری کی خوبصورت دنیا میں خود کو ابلادیں جہاں ہر بیت ایک شاہکار ہے جو روح کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ شاعرانہ فنکاری کی روحانی دھارا آپ کو جذبات کی گہرائیوں تک شہل کریں۔ خاواہ آپ الفاظ کی میٹھی تال پر آرام کے معنی تلاش کریں یا اپنی جذبات کے پیچھے انگ دالنا چاہیں، غزل شاعری ایک گہرا اور بھومک پرندہ تجربه فراہم کرتی ہے۔

سودا برائے زندگی آسان کر دیا
جو بک نہیں رہا تھا اسے دان کر دیا
پوری غزل کا لطف اٹھا ہی نہیں سکے
مطلع نے اس قدر ہمیں حیران کر دیا


محفل میں کوئی حسن کا مصرع اگر ملا
اتنے سنائے شعر کہ دیوان کر دیا
پانی پہن کے دوڑ لگا دی گلی گلی
دریا نے کھیل کھیل میں نقصان کر دیا


ہم توڑنے گئے تھے نصیحت کی بوٹیاں
آرڈر جناب شیخ نے جلپان کر دیا
مشکل میں پڑ گئے ترے چکر میں خود مگر
خوش ہیں کہ راستہ ترا آسان کر دیا


سچائیوں نے خواب کے سب خیمے ڈھا دئے
اور عاشقوں کو بے سر و سامان کر دیا

- abbas-qamar


سامنے والے کو ہلکا جان کر بھاری ہیں آپ
آپ کا معیار دیکھا کتنے معیاری ہیں آپ
سارے دریا سب سمندر منتظر ہیں آپ کے
جائیے بہیے مری آنکھوں سے کیوں جاری ہیں آپ


اف تلک کرتے نہیں ظل الٰہی کے خلاف
آپ کو دربار کی عادت ہے درباری ہیں آپ
آپ کی آزادیاں ہیں آپ ہی کے ہاتھ میں
جس پہ قدرت بھی ہے نازاں وہ گرفتاری ہیں آپ


جسم کے پنجرے میں لے کر گھومیے ننھی سی جان
چند سانسوں کی مرے پیارے اداکاری ہیں آپ

- abbas-qamar


اس مصیبت سے نکلنے کا وسیلہ کر دے
کھو گیا ہے جو مرا مجھ کو وہی لا کر دے
اب میں کیسے تجھے سمجھاؤں کہ الجھن کیا ہے
کھول دے سانس کی گرہیں مجھے ڈھیلا کر دے


کیا پتہ کون سا رنگ اوڑھ کے آ جائے بہار
اور ترا ہاتھ مرے سامنے پیلا کر دے
ایک چٹکی کہ تری ناف میں پڑ جائیں بھنور
ایک بوسہ کہ ترے گال کو گیلا کر دے


روح کی آنچ بڑھا تیز کر احساس کی لو
جسم کو عشق و محبت کا پتیلا کر دے
استعارہ کوئی مل جائے مجھے ٹھوس ایسا
جو ترے حسن کا مضمون لچیلا کر دے


- abbas-qamar


بے خیالی کی ردا دور تلک تانی ہے
اب تو یہ بھی نہیں لگتا کہ پریشانی ہے
سرد موسم میں بھڑک اٹھی ہے تنہائی کی آگ
جو بڑھا دیتی ہے مشکل وہی آسانی ہے


آب گریہ سے ہے دیدار کی صورت پیدا
دیکھیے غور سے آنکھ آنکھ نہیں پانی ہے
میں تو احساس کی تصویر بنا بیٹھا ہوں
رونق بزم تصور مری حیرانی ہے


یہ جو دنیا ہے یہ دنیا کی بنائی ہوئی ہے
آدمی کیا ہے نظریات کی شیطانی ہے
یہ غزل سن کے کہیں گے قمر عباس قمرؔ
یار عباس قمرؔ تم نے عجب ٹھانی ہے


- abbas-qamar


پہلے سے عشق کے وہ زمانے نہیں رہے
ہم جیسے عاشقوں کے ٹھکانے نہیں رہے
نفرت کی آندھیوں میں گرفتار ہو گئے
ہونٹوں پہ چاہتوں کے ترانے نہیں رہے


ہم نے بھی چھوڑ دی وہ حسینوں کی رہگزر
بھنورے بھی پھول کے یہ دوانے نہیں رہے
منظر حسین خوابوں کے دل سے اتر گئے
موسم بھی بارشوں کے سہانے نہیں رہے


تہذیبیں زندگی کی یہ پامال ہو گئیں
محفل میں لوگ جب سے پرانے نہیں رہے
عابدؔ ہیں کون سی یہ روایت کے سلسلے
سینوں میں الفتوں کے خزانے نہیں رہے


- abid-barelvi


خوشیاں ہوں صرف جس میں یہ غم کا دھواں نہ ہو
کوئی زمیں نہیں ہے جہاں آسماں نہ ہو
اس کو بھی سینچے ہے خدا رحمت کی چھانو میں
دنیا میں جس چمن کا کوئی باغباں نہ ہو


پھرتی ہو در بہ در سی مری حسرتو کہاں
کوئی تمہارے جیسا یہاں بے مکاں نہ ہو
لازم ہے احتجاج ہواؤں کا اس لئے
ظلمت کی رہگزر پہ کوئی کارواں نہ ہو


نفرت کی آگ میں جو اصولوں کو جھونک دے
ایسا بھی مسندوں پہ کوئی حکمراں نہ ہو
قائم کرو یہاں نئی الفت کے سلسلے
راہوں میں وحشتوں کا یہ نام و نشاں نہ ہو


عابدؔ جلاؤ پیار کی شمعوں کو ہر طرف
ان نفرتوں میں تاکہ کوئی بد گماں نہ ہو

- abid-barelvi


جھلسے ہوئے صحرا میں شجر دیکھ رہا ہوں
امید کے گلشن میں سحر دیکھ رہا ہوں
جلوؤں کی تجلی کا طلب گار ہے یہ دل
تو حسن کا پیکر ہے نظر دیکھ رہا ہوں


ہر سمت محبت کے نئے باب لکھے ہیں
بس خواب سے منظر ہیں جدھر دیکھ رہا ہوں
اک خواب کی تعبیر ہے درکار مسلسل
اک آگ کا دریا ہے سفر دیکھ رہا ہوں


جاتے ہوئے لوگوں کو تم آواز نہ دینا
یہ ہجر کے مارے ہیں ڈگر دیکھ رہا ہوں
وہ شخص محبت میں خطا کار ہوا ہے
ہر شخص کے ہونٹوں پہ خبر دیکھ رہا ہوں


ہر گام ہیں راہوں میں سیاست کے بونڈر
مشکل میں ہے ہر ایک بشر دیکھ رہا ہوں
کیسا ہے ستم یارو ہے یہ ظرف بھی کیسا
جلتا ہوا اپنا ہی میں گھر دیکھ رہا ہوں


عابدؔ تجھے الفت کی تمنا ہی نہیں اب
کب سے میں تری سمت گزر دیکھ رہا ہوں

- abid-barelvi


ان چراغوں میں روشنی ٹھہرے
تو جو آئے تو زندگی ٹھہرے
تجھ کو دیکھیں تو خواب چلتے ہیں
بجھتی آنکھوں میں تازگی ٹھہرے


تیرے چہرے پہ خواب سے منظر
تیری پلکوں پہ راگنی ٹھہرے
کتنی پر نور ہیں تری آنکھیں
جیسے راتوں میں چاندنی ٹھہرے


ہر سو جلتے ہیں شام سے جگنو
تو جو یادوں میں جاں مری ٹھہرے
دل کے صحرا میں ہجر کا موسم
رات جیسے کہ بے بسی ٹھہرے


تجھ میں عابدؔ یہ کون رہتا ہے
جس کے رہنے سے خسروی ٹھہرے

- abid-barelvi


ہجر میں ایسے ترے شام و سحر جاتے ہیں
قافلے یادوں کے آتے ہیں گزر جاتے ہیں
کیا سزا پائی ہے پھولوں نے مہکنے کی یہ
ہر سحر کھلتے ہیں ہر شام بکھر جاتے ہیں


در بہ در خواب سے منظر ہیں مری آنکھوں میں
غم بھی پلکوں پہ مری آ کے ٹھہر جاتے ہیں
زندگی ہم نے ترا کچھ تو بھرم رکھا ہے
اتنے کرداروں میں جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں


کو بہ کو یاس کا عالم ہے فقط ہم تنہا
حوصلے ٹوٹ کے راہوں میں بکھر جاتے ہیں
جستجو کس کی ہے جانیں یہ سفر ہے کیسا
ہم کو جانا ہے کہاں ہم یہ کدھر جاتے ہیں


کشمکش میں ہے خوشی سب کی بھلا کیوں آخر
ہم جدھر جاتے ہیں یہ غم بھی ادھر جاتے ہیں
آؤ اب یارو زمیں پر بھی اتر آئیں ہم
یہ پرندے بھی بلندی سے اتر جاتے ہیں


اک نظر تیری زمانے پہ ہوا کرتی ہے
اگڑے بگڑے جو مقدر ہیں سنور جاتے ہیں
سر پھری آگ ہے اس دل میں لگی اے عابدؔ
آ چلیں اب کسی دریا میں اتر جاتے ہیں


- abid-barelvi


ہر سمت اک دھواں ہے ہر گام تیرگی ہے
دنیا ترے سفر میں یہ کیسی روشنی ہے
ظلمت کی رہگزر پہ الفت سسک رہی ہے
یہ کون بے حسی ہے یہ کون بے بسی ہے


تنہا ہی چل رہے ہم منزل کی آرزو میں
ہر صبح اجنبی ہے ہر شام اجنبی ہے
اپنی ہی دھن میں سب ہیں ہر شخص در بہ در ہے
یہ کیسی جستجو ہے یہ کیسی تشنگی ہے


ہم مر کے جی رہے ہیں خوابوں کی انجمن میں
ناکام حسرتیں ہیں گمنام زندگی ہے
عابدؔ تمہارے حق میں ہر لب پہ اک گلہ ہے
ہر دل میں اک چبھن ہے ہر آنکھ شبنمی ہے


- abid-barelvi


گلوں کے درمیاں وہ کھلکھلانا یاد آیا ہے
چمن میں بلبلوں کا چہچہانا یاد آیا ہے
کئی پھر خواب آنکھوں میں بسے ہیں زندگی بن کر
ہمیں پھر عشق میں گزرا زمانا یاد آیا ہے


پرندے چاہتوں کے سرزمیں پہ رقص کرتے ہیں
کوئی بھولی کہانی کا فسانہ یاد آیا ہے
تبسم ان لبوں کا پھر سحر سے گل کھلاتا ہے
بہار حسن کا وہ لہلہانا یاد آیا ہے


حسیں منظر تمہارے قرب کے اب بھی لبھاتے ہیں
تمہارے وصل کا موسم سہانا یاد آیا ہے
ہمیں عابدؔ کسی سے اب شکایت ہے نہ شکوہ ہے
نہ جانے کیوں دلوں کا ٹوٹ جانا یاد آیا ہے


- abid-barelvi


دنیا میں روشنی کی قیادت کو لکھ چلیں
لازم ہے ظلمتوں کی بغاوت کو لکھ چلیں
ہر سمت ہوں جہاں میں یہ الفت کے سلسلے
نفرت کی رہگزر پہ محبت کو لکھ چلیں


روشن ہے جن کے دم سے ابھی ہند کا چمن
اشکوں سے آج ان کی شہادت کو لکھ چلیں
اب تو مٹاؤ یارو عداوت کی تلخیاں
وحشت کی آندھیوں میں رفاقت کو لکھ چلیں


نفرت میں پھر جلے نہ کوئی امن کی سحر
لازم ہے لاکھ ایسی روایت کو لکھ چلیں
عابدؔ بسائیں ہر سو سبھی پیار کا جہاں
دنیا میں آؤ ایسی حکایت کو لکھ چلیں


- abid-barelvi


دل میں نفرت کی لگی آگ بجھا دی جائے
اب زمانہ کو محبت کی فضا دی جائے
بات لازم ہے اصولوں کی مگر اے یارو
پہلے دیوار عداوت کی گرا دی جائے


پھر جلے گھر نہ کسی کا بھی حکومت میں کوئی
بے حسی وقت کی جو بھی ہو مٹا دی جائے
کب تلک یوںہی سہو گے یہ ستم دنیا کے
اب تو آواز بغاوت کی اٹھا دی جائے


- abid-barelvi


آنکھوں میں آنسوؤں کا گزارا نہیں رہا
جب سے بچھڑ کے تو جو ہمارا نہیں رہا
تم نے بھلا دئے وہ محبت کے سلسلے
اک ہم ہیں الفتوں سے کنارا نہیں رہا


منظر حسین خوابوں سے جب سے بکھر گئے
کوئی بھی پھر نظر میں دوبارہ نہیں رہا
سارا جہان تیری محبت میں ہار کر
کہہ دوں میں تجھ سے کیسے خسارہ نہیں رہا


پھولوں کی بات ہو کہ ستاروں کی ذات ہو
کس پر ترے کرم کا اشارہ نہیں رہا
عابدؔ یہ ہم نے چاہا چراغوں کو پھونک دیں
اس سے بچھڑ کے یہ بھی گوارہ نہیں رہا


- abid-barelvi


کتاب زیست میں ایسا کوئی بھی باب نہیں
تمہارے عشق کا جس پر لکھا حساب نہیں
شراب خانے میں دو بوند بھی شراب نہیں
ہمارے واسطے اس سے بڑا عذاب نہیں


ہوئی یہ زندگی تاریک رات کے مانند
تو ماہتاب نہیں میں بھی آفتاب نہیں
نئی حیات میں ڈھلنا پڑے گا اب اس کو
یہ زندگی تو محبت میں کامیاب نہیں


تو اپنی آنکھوں کا چشمہ بدل کے دیکھ مجھے
جہان جتنا ہے اتنا تو میں خراب نہیں
ہمیں بھی ترک تعلق کا خاک ہو افسوس
بچھڑ کے ہم سے تمہیں بھی تو اضطراب نہیں


یہ مے کدہ ہے یہاں ہے ہر ایک شخص قبول
کوئی شریف نہیں ہے کوئی خراب نہیں
خزاں نے کون سی ترتیب سے کیا برباد
کسی بھی شاخ پہ گلشن میں اک گلاب نہیں


- a.r-sahil-'aleeg'


تو نے نظروں سے کئی لوگ گرائے ہوں گے
ہم نہیں پہلے بھی کچھ لوگ رلائے ہوں گے
شہر کا شہر جو پھرتا ہے عجب حالوں میں
تو نے آنکھوں سے انہیں جام پلائے ہوں گے


جن کے لہجوں میں الم باتوں میں دکھ ملتا ہے
میرا اندازہ ہے سب تیرے ستائے ہوں گے
ہم جو ہر حال میں دیتے ہیں دعائیں تجھ کو
جانے کس فرض میں کیا قرض اٹھائے ہوں گے


کتنے دلدار تری لاش سے لپٹے ہوں گے
کتنے غم خوار تری موت پہ آئے ہوں گے

- aftab-shah


اوڑھ کر شال تری یادوں کی گھر جاتا ہوں
گھر نہ جاؤں تو سر راہ بکھر جاتا ہوں
سرد موسم کے تھپیڑوں سے جو نخل گل پر
چوٹ پڑتی ہے تو کچھ اور سنور جاتا ہوں


حسن والوں پہ تو دیتا ہوں ہمیشہ پہرہ
وادیٔ عشق میں بے لوث اتر جاتا ہوں
مرنے والوں کو جلانے میں مزہ آتا ہے
جینے والوں پہ تو میں روز ہی مر جاتا ہوں


سوچ کو آگ دکھاتا ہوں ترے چہرے کی
آگ کو دل میں لگا کر میں نکھر جاتا ہوں
دن کو کہتا ہوں نہیں یاد نہیں کرنا اسے
شام کو اپنے ہی وعدے سے مکر جاتا ہوں


- aftab-shah


نظروں سے گر گیا تو اٹھایا نہیں گیا
مجھ سے وہ روٹھا شخص منایا نہیں گیا
اشکوں کو جس نے آنکھ کا زیور بنا دیا
آنکھوں کی چلمنوں سے ہٹایا نہیں گیا


ٹوٹا جو ایک بار تو حسرت ہوئی تمام
مجھ سے دوبارہ دل بھی لگایا نہیں گیا
مجھ کو مٹانے والے نے سب کچھ مٹا دیا
مجھ سے تو اس کا نام بھلایا نہیں گیا


اپنوں نے میری سوچ کو دیمک زدہ کیا
خوشیوں بھرا جو گھر تھا بسایا نہیں گیا
اس نے مجھے گرانے کا جب عہد کر لیا
ہارا وہ شخص مجھ سے ہرایا نہیں گیا


- aftab-shah


نگین لگتا ہوں میں دل نشین لگتا ہوں
وہ دیکھ لے جو مجھے میں حسین لگتا ہوں
خرید لے وہ اگر کچھ کہیں بھی سستے میں
میں دل کی بستی میں بکتی زمین لگتا ہوں


وہ آب جو سی اگر رخ کرے مری جانب
میں پانیوں کے جہاں کا مکین لگتا ہوں
وہ روشنی جو مجھے روک لے کہیں تنہا
میں رات اوڑھ کے چندے جبین لگتا ہوں


وہ دیکھتے ہی مرا نام بول دے جو کہیں
میں اس کے لفظ سے اعلیٰ ترین لگتا ہوں
وہ مورنی سی مجھے جب ذہین کہتی ہے
میں اپنے آپ میں خود کو فطین لگتا ہوں


- aftab-shah


نہ مجھ کو چین آوے ہے نہ مجھ کو نیند ہی آوے
سجن کی دے خبر کوئی کوئی تو اس طرف جاوے
ترے ہنسنے پہ دل اپنا تری جانب کھچا جاوے
ترے رونے پہ دل تڑپے عجب سی تشنگی چھاوے


بتاؤں کیا میں لوگوں کو ترے دیکھے سے کیا ہووے
جو تجھ کو دیکھ لے صاحب وہ جنت کا مزہ پاوے
جلن رہتی ہے سینے میں اسے کہہ دو صدا دے دے
کوئی تو یار کے کوچے سے تھوڑی دلبری لاوے


یہ دل کاہے کو تیری یاد میں جل جل کے دھڑکے ہے
یہ کاہے نام لے تیرا یہ کیونکر روگ ہے کھاوے
سجن کی بھولی باتاں سے گماں ہووے ہے کوئل کا
سجن کی بھوری اکھیاں میں پپیہا گیت ہے گاوے


ملن کی بات کرنے پر حیا مکھڑے کو کھا جائے
سمٹتی جائے لاجاں سے دلاں پر برق ہے ڈھاوے
تری سوچاں کی بھنوراں میں کوئی رستہ نہیں ملتا
سفر یہ بوجھ لاگے ہے محبت خون ہے تاوے


تو سنگت ہے بہاروں کی دلاں کے چاند تاروں کی
تو رانی ہے مرے دل کی نہ دل کو اب کوئی بھاوے

- aftab-shah


مرے ہجر کا تو علاج کر کوئی حل بتا مرے سائیاں
مرے کرب کی مرے درد کی کوئی کر دوا مرے سائیاں
مجھے دیکھ جا مرے چارہ گر میں تری نظر کا شکار ہوں
کہاں کیوں ہوا کہاں کیا ہوا نہ مجھے سنا مرے سائیاں


ذرا ہاتھ رکھ کے تو ہاتھ پر مری دھڑکنوں کو قرار دے
مجھے ریزہ ریزہ سمیٹ کر تو گلے لگا مرے سائیاں
نہ بتا مجھے کہ زمانے نے تجھے کیسے مجھ سے جدا کیا
تجھے عشق ہے جو ابھی تلک مرے پاس آ مرے سائیاں


مرے حوصلے کو تو داد دے مرے حسن ظن پہ تو جان دے
میں یہی رہا سدا سوچتا تو ہے بے خطا مرے سائیاں
ترے چونکنے سے پتہ چلا مرا نام اب بھی عزیز ہے
مرے ذکر پر جو جھکا ہے اب ذرا سر اٹھا مرے سائیاں


مجھے شوق لطف سے دیکھ کر نہ تو کر اشارے فریب کے
یوں پلٹ پلٹ کے نہ بات کر نہ یہاں سے جا مرے سائیاں

- aftab-shah


مرے ہم نشیں یہ ملال ہے مری زندگی کہیں کھو گئی
مجھے ڈس لیا ترے عشق نے مری دل کشی کہیں کھو گئی
کسی اجنبی کا ہوا نہیں مرا دل بھی کھل کے کھلا نہیں
مرا ربط ٹوٹا جو یار سے مری خوش دلی کہیں کھو گئی


وہ عروج تھا تو بتا مجھے یہ عجب سا کیسا زوال ہے
مرا حال اب تو عذاب ہے مری تازگی کہیں کھو گئی
نہ ہی خواب میں کوئی روپ ہے نہ ہی سوچ میں کوئی رنگ ہے
ترا عکس مجھ سے ہے دور جو مری بندگی کہیں کھو گئی


میں کھڑا ہوں کس کے مکان میں میں بجھا بجھا ہوں جہان میں
مرا دل بھی لگتا ہے غیر کا مری دل لگی کہیں کھو گئی
وہ جو مہرباں تھا خیال کا مری گہری سوچ و بچار کا
اسی مہرباں کے بچھڑنے پر مری پختگی کہیں کھو گئی


مجھے مان تھا کہ جو زخم ہیں یہ صلے رہیں گے سدا یوںہی
مرے چاک سلتے ہی پھٹ گئے مری عمدگی کہیں کھو گئی
میں دریدہ ہجر کا باسی ہوں جو مچل رہا ہے وصال کو
ترا لمس نکھرا جو خواب میں مری خستگی کہیں کھو گئی


تو کہاں گیا مرے ہم نشیں مرے نقش مجھ سے ہیں ہم کلام
مجھے ہے گماں ترے عشق میں وہ شگفتگی کہیں کھو گئی

- aftab-shah


میں زندگی کے ستم کو رواج کہہ نہ سکا
شکستہ پا بھی رہا آبلہ بھی بہہ نہ سکا
میں جان بوجھ کے پیچھے رہا زمانے سے
میں دوستوں کی دغا بار بار سہہ نہ سکا


عجیب حال ہوا دل بھی بے قرار رہا
وہ حال دل تھا کہ روئے بغیر رہ نہ سکا
میں حق پرست قبیلے کا فرد ہوں صاحب
چڑھا بھی سولی تو میں سچ کو جھوٹ کہہ نہ سکا


میں اس کی سوچ کے دریا میں بہتے بہتے کبھی
بنا جو موج تو دریا کے بیچ رہ نہ سکا

- aftab-shah


گزرے موسم کا چلن دل سے مرے گویا ہے
تجھ کو کھو کر بھی کہاں دل نے تجھے کھویا ہے
ضبط کے اشک دبائے ہیں ترے ہونے پر
چاند ہجرت کے مہینوں میں بہت رویا ہے


ہر گھڑی سوچ کو باندھا ہے تری یادوں سے
ہر گھڑی یاد کو اشکوں سے تری دھویا ہے
وصل کی چاہ میں دیکھے ہیں زمانے کتنے
کتنی صدیوں سے ترا مجنوں نہیں سویا ہے


کس نے سازش کی زمینوں پہ ہیں کاٹی فصلیں
زہر کا بیج بتا کس نے یہاں بویا ہے
ہم نے بیلوں کو نہیں باندھا ذرا غور کرو
رزق نے باندھ کے انساں کو یہاں جویا ہے


- aftab-shah


بے صدا سے شہر میں کچھ لوگ تنہا رہ گئے
آنکھ سے آنسو گرے اور خواب سارے بہہ گئے
بے خبر سی رات میں سنسان گلیوں کے چراغ
رتجگوں کی چاہ میں کیا کیا دلوں پر سہ گئے


دیکھنے سے لگ رہا ہے آپ بھی واقف سے ہیں
جن پہ نازاں تھے کبھی یہ بات ہم کو کہہ گئے
کیا کریں شکوہ کسی سے زندگی کا ہم میاں
سننے والے سنتے سنتے کب کے زیر تہہ گئے


زندگی کی دھوپ میں سایہ تھا جن کے نام کا
کیا ہوئے وہ پیار کے مینار کیسے ڈھہ گئے
کیا ہوا جو چال چلتے مٹ گئے ہم پٹ گئے
ہم پیادے تھے مگر میداں میں بن کے شہہ گئے


کس نگر میں شمس ڈوبا تارے بھٹکے کس طرف
کس جہاں میں رات ٹھہری جگنو بادل مہ گئے

- aftab-shah