ہندی غزل شاعری: اپنی تعریف اور شکریہ کا اظہار
ہندی غزل شاعری کو تجویز کرنے کا تجربہ کریں
غوطہ لگائیں ہندی غزل شاعری کی دنیا میں اور اپنی پر اعجاز، سراہنا اور شکریہ کے الفاظ کے ذریعے ان کو پیش کریں۔ یہ شاعری اظہار آپ کی عبادت اور ادب کے لئے ایک وسیلہ ہے۔ ہندی غزل شاعری کی خوبصورتی اور طاقت کا انعام لیں جبکہ آپکے دل کو شکریہ اور روحانیت سے بھر دیں۔
میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں
وہ غزل آپ کو سناتا ہوں
ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں
میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں
تو کسی ریل سی گزرتی ہے
میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں
ہر طرف اعتراض ہوتا ہے
میں اگر روشنی میں آتا ہوں
ایک بازو اکھڑ گیا جب سے
اور زیادہ وزن اٹھاتا ہوں
میں تجھے بھولنے کی کوشش میں
آج کتنے قریب پاتا ہوں
کون یہ فاصلہ نبھائے گا
میں فرشتہ ہوں سچ بتاتا ہوں
وہ غزل آپ کو سناتا ہوں
ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں
میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں
تو کسی ریل سی گزرتی ہے
میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں
ہر طرف اعتراض ہوتا ہے
میں اگر روشنی میں آتا ہوں
ایک بازو اکھڑ گیا جب سے
اور زیادہ وزن اٹھاتا ہوں
میں تجھے بھولنے کی کوشش میں
آج کتنے قریب پاتا ہوں
کون یہ فاصلہ نبھائے گا
میں فرشتہ ہوں سچ بتاتا ہوں
- dushyant-kumar
ہو گئی ہے پیر پربت سی پگھلنی چاہئے
اس ہمالے سے کوئی گنگا نکلنی چاہئے
آج یہ دیوار پردوں کی طرح ہلنے لگی
شرط لیکن تھی کہ یہ بنیاد ہلنی چاہئے
ہر سڑک پر ہر گلی میں ہر نگر ہر گاؤں میں
ہاتھ لہراتے ہوئے ہر لاش چلنی چاہئے
صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں
میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے
اس ہمالے سے کوئی گنگا نکلنی چاہئے
آج یہ دیوار پردوں کی طرح ہلنے لگی
شرط لیکن تھی کہ یہ بنیاد ہلنی چاہئے
ہر سڑک پر ہر گلی میں ہر نگر ہر گاؤں میں
ہاتھ لہراتے ہوئے ہر لاش چلنی چاہئے
صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں
میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے
- dushyant-kumar
کسی کے خط کا بہت انتظار کرتے ہیں
ہماری چھت پہ کبوتر نہیں اترتے ہیں
خوشی کے پیار کے گل کے بہار کے لمحے
ہمیں ملے بھی تو پل بھر نہیں ٹھہرتے ہیں
کسی طرف سے بھی آؤ گے ہم کو پاؤ گے
ہمارے گھر سے سبھی راستے گزرتے ہیں
یہ جانتا ہے سمندر میں کودنے والا
جو ڈوبتے ہیں وہی لوگ پھر ابھرتے ہیں
کہیں فساد کہیں حادثے کہیں دہشت
گھروں سے لوگ نکلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں
ہماری چھت پہ کبوتر نہیں اترتے ہیں
خوشی کے پیار کے گل کے بہار کے لمحے
ہمیں ملے بھی تو پل بھر نہیں ٹھہرتے ہیں
کسی طرف سے بھی آؤ گے ہم کو پاؤ گے
ہمارے گھر سے سبھی راستے گزرتے ہیں
یہ جانتا ہے سمندر میں کودنے والا
جو ڈوبتے ہیں وہی لوگ پھر ابھرتے ہیں
کہیں فساد کہیں حادثے کہیں دہشت
گھروں سے لوگ نکلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں
- ansar-kambari