IQBAL DAY SHAYARI: مشرق کے شاعر کی خراج تحسین
INSPIRATIONAL SHAYARI کے ذریعے علامہ اقبال کی وراثت کا جشن منائیں
Inspirational shayari کے ساتھ اقبال ڈے کی دلفریب روح منائیں جو مشرق کے بڑے فیلسوف اور شاعر علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ شعروں پر بنی صورت میں ان کی عالمی تعلیموں اور فلسفے کی عرصہ وار تعریف کرتے ہوئے ہم ان کے لازوال خدمات اور فکری و وحدت پر احترام پیش کرتے ہیں۔ آئیے iqbal day shayari کے الفاظ مشرق کے شاعر کے جلال کی روشنی میں ہم قدم ڈالیں جب ہم ان کی ادب، فلسفہ، اور انسانی روح کو فروغ دینے والے ہیں۔
سہانی نمود جہاں کی گھڑی تھی
تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی
کہیں مہر کو تاج زر مل رہا تھا
عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی
سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے
ستاروں کو تعلیم تابندگی تھی
کہیں شاخ ہستی کو لگتے تھے پتے
کہیں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی
فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا
ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی
عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو
خودی تشنہ کام مے بے خودی تھی
اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی
کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی
زمیں کو تھا دعویٰ کہ میں آسماں ہوں
مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لا مکاں ہوں
غرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا
کہ نظارگی ہو سراپا نظارا
ملک آزماتے تھے پرواز اپنی
جبینوں سے نور ازل آشکارا
فرشتہ تھا اک عشق تھا نام جس کا
کہ تھی رہبری اس کی سب کا سہارا
فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابیوں کا
ملک کا ملک اور پارے کا پارا
پئے سیر فردوس کو جا رہا تھا
قضا سے ملا راہ میں وہ قضا را
یہ پوچھا ترا نام کیا کام کیا ہے
نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا
ہوا سن کے گویا قضا کا فرشتہ
اجل ہوں مرا کام ہے آشکارا
اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا
مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے
پیام فنا ہے اسی کا اشارا
مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی
وہ آتش ہے میں سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو
وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا
بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
تبسم فشاں زندگی کی کلی تھی
کہیں مہر کو تاج زر مل رہا تھا
عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی
سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے
ستاروں کو تعلیم تابندگی تھی
کہیں شاخ ہستی کو لگتے تھے پتے
کہیں زندگی کی کلی پھوٹتی تھی
فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا
ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی
عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو
خودی تشنہ کام مے بے خودی تھی
اٹھی اول اول گھٹا کالی کالی
کوئی حور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی
زمیں کو تھا دعویٰ کہ میں آسماں ہوں
مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لا مکاں ہوں
غرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا
کہ نظارگی ہو سراپا نظارا
ملک آزماتے تھے پرواز اپنی
جبینوں سے نور ازل آشکارا
فرشتہ تھا اک عشق تھا نام جس کا
کہ تھی رہبری اس کی سب کا سہارا
فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابیوں کا
ملک کا ملک اور پارے کا پارا
پئے سیر فردوس کو جا رہا تھا
قضا سے ملا راہ میں وہ قضا را
یہ پوچھا ترا نام کیا کام کیا ہے
نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا
ہوا سن کے گویا قضا کا فرشتہ
اجل ہوں مرا کام ہے آشکارا
اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا
مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے
پیام فنا ہے اسی کا اشارا
مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی
وہ آتش ہے میں سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو
وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا
بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
- allama-iqbal