لطیفی شاعری: مزیدار بنیادیں کی پناہ لیں
لطیفی شاعری کی چرچا کریں
عقلمندی اور مزیدارت سے بھری ہنسی کی پنکتیوں کی ماہیت میں ڈوبیں لطیفی شاعری کی دنیا میں۔ مزیدار شاعری کی خوبصورتی کو کیا جانیں جو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لاتی ہے اور آپ کے دل میں خوشی جگاتی ہے۔
کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الہ آباد گئی اور جانکی بائی طوائف کے مکان پر ٹھہری۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی تو اپنی میزبان سے کہا کہ ’’میرا دل خان بہادر سید اکبر الہ آبادی سے ملنے کو بہت چاہتا ہے۔‘‘ جانکی بائی نے کہا کہ ’’آج میں وقت مقرر کرلوں گی، کل چلیں گے۔‘‘ چنانچہ دوسرے دن دونوں اکبر الہ آبادی کے ہاں پہنچیں۔ جانکی بائی نے تعارف کرایا اور کہا یہ کلکتہ کی نہایت مشہور و معروف مغنیہ گوہر جان ہیں۔ آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا، لہذا ان کو آپ سے ملانے لائی ہوں۔ اکبر نے کہا، ’’زہے نصیب، ورنہ میں نہ نبی ہوں نہ امام، نہ غوث، نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابل زیارت خیال کیا جاؤں۔ پہلے جج تھا اب ریٹائر ہوکر صرف اکبرؔ رہ گیا ہوں۔ حیران ہوں کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کروں۔ خیر ایک شعر بطور یادگار لکھے دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر مندرجہ ذیل شعر ایک کاغذ پر لکھا اور گوہر جان کے حوالے کیا۔
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
- अकबर-इलाहाबादी
اکبرکے مشہور ہوجانے پر بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعوی کردیا۔ ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انہوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کردیا۔ اکبر کو جب یہ اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو کہنے لگے، ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘
- अकबर-इलाहाबादी
اکبرالہ آبادی دلی میں خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے۔ سب لوگ کھانا کھانے لگے تو آلو کی ترکاری اکبر کو بہت پسند آئی۔ انہوں نے خواجہ صاحب کی دختر حور بانو سے (جو کھانا کھلارہی تھی) پوچھا کہ بڑے اچھے آلو ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میرے خالو بازار سے لائے ہیں۔ اس پر اکبرؔ نے فی البدیہہ شعر پڑھا،
لائے ہیں ڈھونڈکے بازار سے آلو اچھے
اس میں کچھ شک نہیں ہیں حور کے خالو اچھے
لائے ہیں ڈھونڈکے بازار سے آلو اچھے
اس میں کچھ شک نہیں ہیں حور کے خالو اچھے
- अकबर-इलाहाबादी
اکبر الہ آبادی ایک بار خواجہ حسن نظامی کے ہاں مہمان تھے۔ دو طوائفیں حضرت نظامی سے تعویذ لینے آئیں۔ خواجہ صاحب گاؤ تکیہ سے لگے بیٹھے تھے۔ اچانک ان کے دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھے اور اس طرح پھیل گئے جیسے بچے کو گود میں لینے کے لیے پھیلتے ہیں اور بے ساختہ زبان سے نکلا، ’’ آئیے آئیے۔‘‘
طوائفوں کے چلے جانے کے بعد اکبر الہ آباد ی یوں گویا ہوئے، ’’میں تو خیال کرتا تھا یہاں صرف فرشتے نازل ہوتے ہیں، لیکن آج تو حوریں بھی اترآئیں۔‘‘ اور یہ شعر پڑھا،
فقیروں کے گھروں میں لطف کی راتیں بھی آتی ہیں
زیارت کے لیے اکثر مسماتیں بھی آتی ہیں
طوائفوں کے چلے جانے کے بعد اکبر الہ آباد ی یوں گویا ہوئے، ’’میں تو خیال کرتا تھا یہاں صرف فرشتے نازل ہوتے ہیں، لیکن آج تو حوریں بھی اترآئیں۔‘‘ اور یہ شعر پڑھا،
فقیروں کے گھروں میں لطف کی راتیں بھی آتی ہیں
زیارت کے لیے اکثر مسماتیں بھی آتی ہیں
- अकबर-इलाहाबादी
مولانا عبدالمجید سالک ؔروزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں برطانیہ کے خلاف مضامین لکھنے کی پاداش میں گرفتار ہوئے اور ایک سال قید با مشقت کی سزا پائی۔ اس کے بعد ’’زمیندار‘‘ کے بہت سے ایڈیٹر گرفتار ہوئے۔ ہوم ممبر سرجان مینار ڈجیل کے معائنے کے لیے تشریف لائے تو سالکؔ صاحب سے پوچھا کہ ’’زمیندار‘‘ کا اصل ایڈیٹر کون ہے۔‘‘ سالکؔ صاحب نے جواب دیا، ’’کم از کم میں تو اصلی ہوں۔‘‘ سرجان مینارڈ نے ہنس کر کہا یہ تو ہم جانتے ہیں لیکن آج کل جس کا نام ’’زمیندار‘‘ میں ایڈیٹر کے طور پر لکھا جارہا ہے وہ تو کوئی پان فروش ہے۔ سالک صاحب نے جواب دیا کہ ’’جب اصل ایڈیٹروں کو اس تیزی سے گرفتار کرتے جائیں گے تو کسی پان فروش کو ہی آگے بڑھانا پڑے گا۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
مولانا عبدالمجید سالک ؔروزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ترک موالات کی تحریک میں برطانیہ کے خلاف مضامین لکھنے کی پاداش میں گرفتار ہوئے اور ایک سال قید با مشقت کی سزا پائی۔ اس کے بعد ’’زمیندار‘‘ کے بہت سے ایڈیٹر گرفتار ہوئے۔ ہوم ممبر سرجان مینار ڈجیل کے معائنے کے لیے تشریف لائے تو سالکؔ صاحب سے پوچھا کہ ’’زمیندار‘‘ کا اصل ایڈیٹر کون ہے۔‘‘ سالکؔ صاحب نے جواب دیا، ’’کم از کم میں تو اصلی ہوں۔‘‘ سرجان مینارڈ نے ہنس کر کہا یہ تو ہم جانتے ہیں لیکن آج کل جس کا نام ’’زمیندار‘‘ میں ایڈیٹر کے طور پر لکھا جارہا ہے وہ تو کوئی پان فروش ہے۔ سالک صاحب نے جواب دیا کہ ’’جب اصل ایڈیٹروں کو اس تیزی سے گرفتار کرتے جائیں گے تو کسی پان فروش کو ہی آگے بڑھانا پڑے گا۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
سالک صاحب اور مولانا تاجور، دونوں کے درمیان کشیدگی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ سالکؔ کے ایک دوست نے کہا کہ آپ کے درمیان یہ ’’کشمکش‘‘ ٹھیک نہیں، صلح ہوجانی چاہئے۔ سالک بولے،
’’حضور! ہماری طرف سے تو ’’کش‘‘ ہے ’’مکش‘‘ تو تاجور صاحب کرتے ہیں۔ آپ کی نصیحت تو ان کو ہونی چاہئے۔‘‘
’’حضور! ہماری طرف سے تو ’’کش‘‘ ہے ’’مکش‘‘ تو تاجور صاحب کرتے ہیں۔ آپ کی نصیحت تو ان کو ہونی چاہئے۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
سالک صاحب اور مولانا تاجور، دونوں کے درمیان کشیدگی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ سالکؔ کے ایک دوست نے کہا کہ آپ کے درمیان یہ ’’کشمکش‘‘ ٹھیک نہیں، صلح ہوجانی چاہئے۔ سالک بولے،
’’حضور! ہماری طرف سے تو ’’کش‘‘ ہے ’’مکش‘‘ تو تاجور صاحب کرتے ہیں۔ آپ کی نصیحت تو ان کو ہونی چاہئے۔‘‘
’’حضور! ہماری طرف سے تو ’’کش‘‘ ہے ’’مکش‘‘ تو تاجور صاحب کرتے ہیں۔ آپ کی نصیحت تو ان کو ہونی چاہئے۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
مولانا عبد المجید سالکؔ ہشاش و بشاش رہنے کے عادی تھے اور جب تک دفتر میں رہتے، دفتر قہقہہ زار رہتا۔ ان کی تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی ہوتی تھی۔ جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو سالکؔ نے انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہیں۔ چنانچہ مولانا سالکؔ نے انقلاب کے مزاحیہ کالم ’’افکار و حوادث‘‘ میں لکھا،
’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کایہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘
’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کایہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
مولانا عبد المجید سالکؔ ہشاش و بشاش رہنے کے عادی تھے اور جب تک دفتر میں رہتے، دفتر قہقہہ زار رہتا۔ ان کی تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی ہوتی تھی۔ جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو سالکؔ نے انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہیں۔ چنانچہ مولانا سالکؔ نے انقلاب کے مزاحیہ کالم ’’افکار و حوادث‘‘ میں لکھا،
’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کایہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘
’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کایہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
عبدالمجید سالک کو ایک بار کسی دل جلے نے لکھا،
’’آپ اپنے روزنامہ میں گمراہ کن خبریں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔‘‘
سالک صاحب نے نہایت حلیمی سے اسے جواب دیتے ہوئے لکھا،
’’ہم توجو کچھ لکھتے ہیں ملک و قوم کی بہبودی کے جذبہ کے زیر اثر لکھتے ہیں اور اگر ہزاروں قارئین میں آپ جیسا ایک آدمی بھی ہمارے کسی مضمون سے متاثر ہوکر نیک راہ اختیار کرلے، تو ہم سمجھیں گے ہمارا الو سیدھا ہوگیا۔‘‘
’’آپ اپنے روزنامہ میں گمراہ کن خبریں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔‘‘
سالک صاحب نے نہایت حلیمی سے اسے جواب دیتے ہوئے لکھا،
’’ہم توجو کچھ لکھتے ہیں ملک و قوم کی بہبودی کے جذبہ کے زیر اثر لکھتے ہیں اور اگر ہزاروں قارئین میں آپ جیسا ایک آدمی بھی ہمارے کسی مضمون سے متاثر ہوکر نیک راہ اختیار کرلے، تو ہم سمجھیں گے ہمارا الو سیدھا ہوگیا۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
عبدالمجید سالک کو ایک بار کسی دل جلے نے لکھا،
’’آپ اپنے روزنامہ میں گمراہ کن خبریں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔‘‘
سالک صاحب نے نہایت حلیمی سے اسے جواب دیتے ہوئے لکھا،
’’ہم توجو کچھ لکھتے ہیں ملک و قوم کی بہبودی کے جذبہ کے زیر اثر لکھتے ہیں اور اگر ہزاروں قارئین میں آپ جیسا ایک آدمی بھی ہمارے کسی مضمون سے متاثر ہوکر نیک راہ اختیار کرلے، تو ہم سمجھیں گے ہمارا الو سیدھا ہوگیا۔‘‘
’’آپ اپنے روزنامہ میں گمراہ کن خبریں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔‘‘
سالک صاحب نے نہایت حلیمی سے اسے جواب دیتے ہوئے لکھا،
’’ہم توجو کچھ لکھتے ہیں ملک و قوم کی بہبودی کے جذبہ کے زیر اثر لکھتے ہیں اور اگر ہزاروں قارئین میں آپ جیسا ایک آدمی بھی ہمارے کسی مضمون سے متاثر ہوکر نیک راہ اختیار کرلے، تو ہم سمجھیں گے ہمارا الو سیدھا ہوگیا۔‘‘
- अब्दुल-मजीद-सालिक
ماسٹر: دنیا میں سب سے زیادہ جلد بڑھنے والی کیا چیز ہے۔
ایک لڑکا: مچھلی۔
ماسٹر: ٹھیک ہے
لڑکا: آپا نے ایک دفعہ ایک مچھلی پکڑی تھی اور ہر مرتبہ جب وہ اس کا ذکر کرتے تھے تو وہ چھ انچ بڑھ جاتی تھی۔
یعنی ایک دفعہ اگر پکڑی ہوئی مچھلی کو چھ انچ کہتے تھے تو دوسرے ذکر کے وقت بارہ انچ کہتے اور تیسری دفعہ اٹھارہ انچ غرض اپنی بڑائی کے طور پر ہر وقت اس کو زیادہ بڑی ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے گویا وہ سب سے زیادہ جلد بڑھنے والی چیز ہے۔
ایک لڑکا: مچھلی۔
ماسٹر: ٹھیک ہے
لڑکا: آپا نے ایک دفعہ ایک مچھلی پکڑی تھی اور ہر مرتبہ جب وہ اس کا ذکر کرتے تھے تو وہ چھ انچ بڑھ جاتی تھی۔
یعنی ایک دفعہ اگر پکڑی ہوئی مچھلی کو چھ انچ کہتے تھے تو دوسرے ذکر کے وقت بارہ انچ کہتے اور تیسری دفعہ اٹھارہ انچ غرض اپنی بڑائی کے طور پر ہر وقت اس کو زیادہ بڑی ثابت کرنے کی کوشش کرتے تھے گویا وہ سب سے زیادہ جلد بڑھنے والی چیز ہے۔
- अज्ञात
لڑکا : (حساب کے ٹیچر سے) جناب ! ہندی کے ماسٹر صاحب ہندی میں، اردو کے ماسٹر صاحب اردو میں، اور انگریزی کے ماسٹر صاحب انگریزی میں پڑھاتے ہیں۔ پھر آپ بالکل حساب ہی کی زبان میں کیوں نہیں پڑھاتے ہیں؟
ماسٹر صاحب: زیادہ تین پانچ مت کرو، نو دو گیارہ ہو جاؤ۔ ورنہ تین تیرہ کر دوں گا۔
ماسٹر صاحب: زیادہ تین پانچ مت کرو، نو دو گیارہ ہو جاؤ۔ ورنہ تین تیرہ کر دوں گا۔
- अकबर-अली-ख़ाँ
بیٹا اسکول سے واپس آکر ماں سے بولا: ’’امی! امی! دیکھئے تو میرے سر پر کیا ہیں؟‘‘
ماں نے غور سے دیکھ کر کہا: ’’بیٹے تمہارے سر پر تو صرف بال ہیں۔‘‘
’’کیا صرف بال؟‘‘ بیٹے نے حیرت سے پوچھا
ماں نے کہا: ’’ہاں بھئی صرف اور صرف بال ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
بیٹے نے کہا: ’’امی! ماسٹر صاحب کتنے جھوٹے ہیں، کہہ رہے تھے ہمارے امتحان سر پر آ گئے ہیں۔‘‘
ماں نے غور سے دیکھ کر کہا: ’’بیٹے تمہارے سر پر تو صرف بال ہیں۔‘‘
’’کیا صرف بال؟‘‘ بیٹے نے حیرت سے پوچھا
ماں نے کہا: ’’ہاں بھئی صرف اور صرف بال ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
بیٹے نے کہا: ’’امی! ماسٹر صاحب کتنے جھوٹے ہیں، کہہ رہے تھے ہمارے امتحان سر پر آ گئے ہیں۔‘‘
- अज्ञात
استاد: اگر تم مغرب کی طرف جاؤ توکیا ہوگا؟
شاگرد: ہوگا کیا۔ میں غروب ہوجاؤں گا۔
شاگرد: ہوگا کیا۔ میں غروب ہوجاؤں گا۔
- अज्ञात
ایک بوڑھی عورت راستے سے جارہی تھی راستے میں وہ ایک سائیکل سے ٹکرا گئی۔ سائیکل سوار کے داڑھی بھی تھی۔ بوڑھی نے کہا کہ ’’اتنی بڑی داڑھی رکھ کر ٹکر دیتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی‘‘ اس آدمی نے کہا ’’یہ داڑھی ہے، بریک تھوڑی ہی ہے‘‘
- अज्ञात
شوہر نے بیوی کے سامنے بے تحاشا قہقہے لگاتے ہوئے کہا
’’اپنے حمید صاحب کی بیگم بھی خوب ہیں۔ ہم کرکٹ کے کوچ کے بارے میں گفتگو کر رہےتھے، ہماری گفتگو سن کر وہ یہ سمجھیں کہ کوچ کے چار پہییے ہوتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پھر سے قہقہے لگانے لگا۔ ان کی بیوی بھی قہقہے لگانے میں شریک ہوگئی۔ دونوں میاں بیوی جب دل کھول کر خوب ہنس چکے تو بیوی نے سرگوشی کے انداز میں شوہر سے پوچھا۔
’’اچھا تو کرکٹ کوچ میں کتنے پہیے ہوتے ہیں؟‘‘
’’اپنے حمید صاحب کی بیگم بھی خوب ہیں۔ ہم کرکٹ کے کوچ کے بارے میں گفتگو کر رہےتھے، ہماری گفتگو سن کر وہ یہ سمجھیں کہ کوچ کے چار پہییے ہوتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پھر سے قہقہے لگانے لگا۔ ان کی بیوی بھی قہقہے لگانے میں شریک ہوگئی۔ دونوں میاں بیوی جب دل کھول کر خوب ہنس چکے تو بیوی نے سرگوشی کے انداز میں شوہر سے پوچھا۔
’’اچھا تو کرکٹ کوچ میں کتنے پہیے ہوتے ہیں؟‘‘
- अज्ञात
ضمیر جعفری جن دنوں سٹیلائٹ ٹاؤن میں رہتے تھے۔ ایک جیسے مکانوں کے نقشے کی وجہ سے ایک شام بھول کر کسی اور کے دروازے پر دستک دے بیٹھے۔ دروازہ کھلنے پر دوسری عورت کو دیکھ کر جعفری صاحب کو اپنی غلطی کا احسا س ہوگیا۔فوراً واپس پلٹے۔ اس فعل کا ذکر جب جعفری صاحب نے ایک دوست سے کیا تو اس نے سوال کیا،
’’جعفری صاحب، آپ کو غلط گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے پر شرمندگی نہیں ہوئی؟‘‘
’’مجھے اس فعل پر تو کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، لیکن یہ دیکھ کر ضرور تکلیف ہوئی کہ دروازہ کھولنے والی عورت میری بیوی سے بھی بدصورت تھی۔‘‘ جعفری صاحب نے جواب دیا۔
’’جعفری صاحب، آپ کو غلط گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے پر شرمندگی نہیں ہوئی؟‘‘
’’مجھے اس فعل پر تو کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، لیکن یہ دیکھ کر ضرور تکلیف ہوئی کہ دروازہ کھولنے والی عورت میری بیوی سے بھی بدصورت تھی۔‘‘ جعفری صاحب نے جواب دیا۔
- syed-zameer-jafri
شوکت تھانوی باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ ایک بار بیوی کے ساتھ کراچی جارہے تھے۔ جس ڈبہ میں ان کی سیٹ تھی وہ نچلی تھی۔ اوپر کی سیٹ پرایک موٹے تازے آدمی براجمان تھے۔ شوکت صاحب نے اٹھ کر انہیں غور سے دیکھا پھر چھت کی طرف دیکھ کر کہا،
’’سبحان اللہ قدرت۔‘‘ وہ آدمی بولا، ’’کیا مجھ سے کچھ کہنا ہے؟‘‘
شوکت نے کہا، ’’جی ہاں‘‘ آپ کی نظر میں کوئی لڑکی ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں اس سے شادی کروں گا۔‘‘ شوکت نے کہا۔
’’واہ آپ کی تو بیوی ہے۔‘‘
’’سوچتا ہوں جب آپ نیچے اتریں گے تو گریں گے ضرور اور میری بیوی شہید ہوجائے گی۔ اس لئے میں ابھی سے انتظام کررہا ہوں۔
شوکت کے اس جواب پر سارا ڈبہ ہنس دیا۔ اور سارے سفر میں وہ موٹے آدمی سیٹ سے نیچے نہیں اترے۔
’’سبحان اللہ قدرت۔‘‘ وہ آدمی بولا، ’’کیا مجھ سے کچھ کہنا ہے؟‘‘
شوکت نے کہا، ’’جی ہاں‘‘ آپ کی نظر میں کوئی لڑکی ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں اس سے شادی کروں گا۔‘‘ شوکت نے کہا۔
’’واہ آپ کی تو بیوی ہے۔‘‘
’’سوچتا ہوں جب آپ نیچے اتریں گے تو گریں گے ضرور اور میری بیوی شہید ہوجائے گی۔ اس لئے میں ابھی سے انتظام کررہا ہوں۔
شوکت کے اس جواب پر سارا ڈبہ ہنس دیا۔ اور سارے سفر میں وہ موٹے آدمی سیٹ سے نیچے نہیں اترے۔
- shaukat-thanvi
ابوالاثر حفیظ جالندھری نے پیرانہ سالی میں جب انگریز خاتون سے شادی کے بارے میں سوچا تو تذبذب کے عالم میں انہوں نے جب شوکت تھانوی سے مشورہ کیا تو شوکت نے کہا،
’’حفیظ صاحب، اس سے قبل کہ وہ بیوۂ حفیظ بن جائے، آپ شادی کرلیں۔‘‘
’’حفیظ صاحب، اس سے قبل کہ وہ بیوۂ حفیظ بن جائے، آپ شادی کرلیں۔‘‘
- shaukat-thanvi
ایک دفعہ شوکت تھانوی سخت بیمار پڑے۔ یہاں تک کہ ان کے سر کے سارے بال جھڑگئے۔ دوست احباب ان کی عیادت کو پہنچے اور بات چیت کے دوران ان کے گنجے سر کو بھی دیکھتے رہے۔ سب کو متعجب دیکھ کر شوکت تھانوی بولے،
’’ملک الموت آئے تھے۔ صورت دیکھ کر ترس آگیا۔ بس صرف سر پر ایک چپت رسیدکرکے چلے گئے۔‘‘
’’ملک الموت آئے تھے۔ صورت دیکھ کر ترس آگیا۔ بس صرف سر پر ایک چپت رسیدکرکے چلے گئے۔‘‘
- shaukat-thanvi
شوکت تھانوی یورپ کے لئے روانہ ہونے لگے تو ان کے ایک دوست نے پوچھا، ’’روانگی کب ہوگی؟‘‘
شوکت نے کہا،
’’کیا بتاؤں۔ تمہاری بھابی نے پریشان کررکھا ہے۔ کہتی ہے ولایت جاؤ گے تو تم میم ضرور لاؤ گے۔ حالانکہ میں نے قسم کھاکر کہا ہے کہ اگر اپنے لیے میم لایا تو تمہارے لئے بھی ایک صاحب ضرور لاؤں گا۔ لیکن وہ سنتی ہی نہیں۔‘‘
شوکت نے کہا،
’’کیا بتاؤں۔ تمہاری بھابی نے پریشان کررکھا ہے۔ کہتی ہے ولایت جاؤ گے تو تم میم ضرور لاؤ گے۔ حالانکہ میں نے قسم کھاکر کہا ہے کہ اگر اپنے لیے میم لایا تو تمہارے لئے بھی ایک صاحب ضرور لاؤں گا۔ لیکن وہ سنتی ہی نہیں۔‘‘
- shaukat-thanvi
ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا، ’’آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں لیکن یہ چہرے سے جتنے بیوقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔‘‘ شوکت تھانوی نے فوراً کہا،
’’جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بے وقوف ہیں چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔‘‘
’’جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بے وقوف ہیں چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔‘‘
- shaukat-thanvi
نوعمر ی کے زمانے میں شوکت تھانوی نے ایک غزل کہی اور بڑی دوڑ دھوپ کے بعد ماہنامہ ’’ترچھی نظر‘‘ میں چھپوانے میں کامیاب ہوگئے۔ غزل کا ایک شعر تھا،
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں جاکر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں
شوکت تھانوی کے والد کی نظر سے اپنے صاحبزادے کایہ کارنامہ گزرا تو اس شعر کو پڑھ کر بہت سیخ پا ہوئے اور شوکت کی والدہ کو یہ شعر سناکر چیختے ہوئے بولے، ’’میں پوچھتا ہوں یہ آوارہ گرد آخر اس کوچے میں جاتا ہی کیوں ہے؟‘‘
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں جاکر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں
شوکت تھانوی کے والد کی نظر سے اپنے صاحبزادے کایہ کارنامہ گزرا تو اس شعر کو پڑھ کر بہت سیخ پا ہوئے اور شوکت کی والدہ کو یہ شعر سناکر چیختے ہوئے بولے، ’’میں پوچھتا ہوں یہ آوارہ گرد آخر اس کوچے میں جاتا ہی کیوں ہے؟‘‘
- shaukat-thanvi