مرثیہ شاعری
محبت اور ضیاع کی ایک شاعرانہ مراسی
مرثیہ شاعری کی محبت اور ضیاع کی گہرائیوں میں غرق ہوں، ایک کوششنامہ پر ادب جو محبت اور ضیاع کے اصل کو بیان کرتی ہے۔ ہر پنکتی ایک دردناک جذبات کی عقیدت ہے جو غم اور محبت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، پڑھنے والے پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ مرثیہ شاعری کے پرف بیانات کو آپ کی اندرونی جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے دیں اور یہ شاعری کی خوبصورتی کے غمگین مصنوع کا لطف اٹھائیں۔
جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
- میر-انیس
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
ہیبت سے ہیں نہ قلعۂ افلاک کے دربند
جلاد فلک بھی نظر آتا ہے نظر بند
وا ہے کمر چرخ سے جوزا کا کمر بند
سیارے ہیں غلطاں صفت طائر پر بند
انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے
خورشید کے پنجے سے علم چھوٹ پڑا ہے
خود فتنۂ و شر پڑھ رہے ہیں فاتحۂ خیر
کہتے ہیں انالعبد لرز کر صنم دیر
جاں غیر ہے تن غیر مکیں غیر مکاں غیر
نے چرخ کا ہے دور نہ سیاروں کی ہے سیر
سکتے میں فلک خوف سے مانند زیں ہے
جز بخت یزید اب کوئی گردش میں نہیں ہے
بے ہوش ہے بجلی پہ سمند ان کا ہے ہشیار
خوابیدہ ہیں سب طالع عباس ہے بیدار
پوشیدہ ہے خورشید علم ان کا نمودار
بے نور ہے منہ چاند کا رخ ان کا ضیا بار
سب جزو ہیں کل رتبہ میں کہلاتے ہیں عباس
کونین پیادہ ہیں سوار آتے ہیں عباسؑ
چمکا کے مہ و خور زر و نقرہ کے عصا کو
سرکاتے ہیں پیر فلک پشت دوتا کو
عدل آگے بڑھا حکم یہ دیتا ہے قضا کو
ہاں باندھ لے ظلم و ستم و جور و جفا کو
گھر لوٹ لے بغض و حسد و کذب و ریا کا
سرکاٹ لے حرص و طمع و مکر و دغا کا
راحت کے محلوں کو بلا پوچھ رہی ہے
ہستی کے مکانوں کو فنا پوچھ رہی ہے
تقدیر سے عمر اپنی قضا پوچھ رہی ہے
دونوں کا پتہ فوج جفا پوچھ رہی ہے
غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر
فتنے نے کیا خواب گلے کفر سے مل کر
النشر کا ہنگامہ ہے اس وقت حشر میں
الصورکا آوازہ ہے اب جن و بشر میں
الہجر کا ہے تذکرہ باہم تن و سر میں
الوصل کا غل ہے سقر و اہل سقر میں
الحشر جو مردے نہ پکاریں تو غضب ہے
الموت زبان ملک الموت پہ اب ہے
روکش ہے اس اک تن کا نہ بہمن نہ تہمتن
سہراب و نریمان و پشن بے سرو بے تن
قاروں کی طرح تحت زمیں غرق ہے قارن
ہر عاشق دنیا کو ہے دنیا چہہ بے زن
سب بھول گئے اپنا حسب اور نسب آج
آتا ہے جگر گوشۂ قتال عرب آج
ہر خود نہاں ہوتا ہے خود کاسۂ سر میں
مانند رگ و ریشہ زرہ چھپتی ہے بر میں
بے رنگ ہے رنگ اسلحے کا فوج عمر میں
جوہر ہے نہ تیغوں میں نہ روغن ہے سپر میں
رنگ اڑ کے بھرا ہے جو رخ فوج لعیں کا
چہرہ نظر آتا ہے فلک کا نہ زمیں کا
ہے شور فلک کا کہ یہ خورشید عرب ہے
انصاف یہ کہتا ہے کہ چپ ترک ادب ہے
خورشید فلک پرتو عارض کا لقب ہے
یہ قدرت رب قدرت رب قدرت رب ہے
ہر ایک کب اس کے شرف و جاہ کو سمجھے
اس بندے کو وہ سمجھے جو اللہ کو سمجھے
یوسف ہے یہ کنعاں میں سلیماں ہے سبا میں
عیسیٰ ہے مسیحائی میں موسیٰ ہے دعا میں
ایوب ہے یہ صبر میں یحییٰ ہے بکا میں
شپیر ہے مظلومی میں حیدر ہے وغا میں
کیا غم جو نہ مادر نہ پدر رکھتے ہیں آدم
عباس سا دنیا میں پسر رکھتے ہیں آدم
پنجے میں یداللہ ہے بازو میں ہے جعفر
طاعت میں ملک خو میں حسنؑ زور میں حیدر
اقبال میں ہاشم تو تواضع میں پیمبر
اور طنطنہ و دبدبہ میں حمزۂ صفدر
جوہر کے دکھانے میں یہ شمشیر خدا ہے
اور سر کے کٹانے میں یہ شاہ شہدا ہے
بے ان کے شرف کچھ بھی زمانہ نہیں رکھتا
ایمان سوا ان کے خزانہ نہیں رکھتا
قرآں بھی کوئی اور فسانہ نہیں رکھتا
شپیر بغیر ان کے یگانہ نہیں رکھتا
یہ روح مقدس ہے فقط جلوہ گری میں
یہ عقل مجرد ہے جمال بشری میں
صحرا میں گرا پرتو عارض جو قضارا
سورج کی کرن نے کیا شرما کے کنارا
یوں دھوپ اڑی آگ پہ جس طرح سے پارا
موسیٰ کی طرح غش ہوئے سب کیسا نظارا
جز مدح نہ دم روشنئ طور نے مارا
شب خون عجب دھوپ پہ اس نور نے مارا
قربان ہوائے علم شاہ امم کے
سب خار ہرے ہو کے بنے سرو ارم کے
ہیں راز عیاں خالق ذوالفضل و کرم کے
جبریلؑ نے پر کھولے ہیں دامن میں علم کے
پرچم کا جہاں عکس گرا صاعقہ چمکا
پرچم کہیں دیکھا نہ سنا اس چم و خم کا
قرنا میں نہ دم ہے نہ جلاجل میں صدا میں ہے
بوق و دہل و کوس کی بھی سانس ہوا ہے
ہر دل کے دھڑکنے کا مگر شور بپا ہے
باجا جو سلامی کا اسے کہیے بجا ہے
سکتے میں جو آواز ہے نقارۂ و دف کی
نوبت ہے ورود خلف شاہ نجف کی
آمد کو تو دیکھا رخ پر نور کو دیکھو
والشمش پڑھو روشنیٔ طور کو دیکھو
نے روشنیٔ ماہ کو نے ہور کو دیکھو
اس شمع مراد ملک و حور کو دیکھو
ہے کون تجلی رخ پر نور کی مانند
یاں روشنیٔ طور جلی طور کی مانند
مداح کو اب تازگیٔ نظم میں کد ہے
یا حضرت عباسؑ علیؑ وقت مدد ہے
مولا کی مدد سے جو سخن ہو وہ سند ہے
اس نظم کا جو ہو نہ مقر اس کو حسد ہے
حاسد سے صلا بھی نہیں درکار ہے مجھ کو
سرکار حسینیؑ سے سروکار ہے مجھ کو
گلزار ہے یہ نظم و بیاں بیشہ نہیں ہے
باغی کو بھی گلگشت میں اندیشہ نہیں ہے
ہر مصرعۂ پر جستہ ہے پھل تیشہ نہیں ہے
یاں مغز سخن کا ہے رگ و ریشہ نہیں ہے
صحت مری تشخیص سے ہے نظم کے فن کی
مانند قلم ہاتھ میں ہے نبض سخن کی
گر کاہ ملے فائدہ کیا کوہکنی سے
میں کاہ کو گل کرتا ہوں رنگیں سخنی سے
خوش رنگ ہے الفاظ عقیق یمنی سے
یہ ساز ہے سوز غم شاہ مدنی سے
آہن کو کروں نرم تو آئینہ بنا لوں
پتھر کو کروں گرم تو میں عطر نکا لوں
گو خلعت تحسیں مجھے حاصل ہے سراپا
پر وصف سراپا کا تو مشکل ہے سراپا
ہر عضو تن اک قدرت کامل ہے سراپا
یہ روح ہے سر تا بقدم دل ہے سراپا
کیا ملتا ہے گر کوئی جھگڑتا ہے کسی سے
مضمون بھی اپنا نہیں لڑتا ہے کسی سے
سورج کو چھپاتا ہے گہن آئینہ کو زنگ
داغی ہے قمر سوختہ و لالۂ خوش رنگ
کیا اصل در و لعل کی وہ پانی ہے یہ سنگ
دیکھو گل و غنچہ وہ پریشاں ہے یہ دل تنگ
اس چہرے کو داور ہی نے لاریب بنایا
بے عیب تھا خود نقش بھی بے عیب بنایا
انساں کہے اس چہرے کو کب چشمۂ حیواں
یہ نور وہ ظلمت یہ نمودار وہ پنہاں
برسوں سے ہے آزار برص میں مہ تاباں
کب سے یرقاں مہر کو ہے اور نہیں درماں
آئینہ ہے گھر زنگ کایہ رنگ نہیں ہے
اس آئینہ میں رنگ ہے اور زنگ نہیں ہے
آئینہ کہا رخ کو تو کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی یہ صنعت ہے خدا کی
واں خاک نے صیقل یہاں قدرت نے جلا کی
طالع نے کس آئینہ کو خوبی یہ عطا کی
ہر آئینہ میں چہرۂ انساں نظر آیا
اس رخ میں جمال شہ مرداں نظر آیا
بے مثل حسیں ہے نگہ اہل یقیں میں
بس ایک یہ خورشید ہے افلاک و زمیں میں
جلوہ ہے عجب ابروؤں کا قرب جبیں میں
دو مچھلیاں ہیں چشمۂ خورشید مبیں میں
مردم کو اشارہ ہے یہ ابرو کا جبیں پر
ہیں دو مہ نو جلوہ نما چرخ بریں پر
بینی کے تو مضموں پہ یہ دعوا ہے یقینی
اس نظم کے چہرے کی وہ ہوجائے گا بینی
منظور نگہ کو جو ہوئی عرش نشینی
کی سایۂ بینی نے فقط جلوہ گزینی
درکار اسی بینی کی محبت کا عصا ہے
یہ راہ تو ایماں سے بھی باریک سوا ہے
بینی کو کہوں شمع تو لو اس کی کہاں ہے
پر نور بھنوؤں پر مجھے شعلہ کا گماں ہے
دو شعلے اور اک شمع یہ حیرت کا مکاں ہے
ہاں زلفوں کے کوچوں سے ہوا تند رواں ہے
سمجھو نہ بھویں بس کہ ہوا کا جو گزر ہے
یہ شمع کی لو گاہ ادھر گاہ ادھر ہے
اس درجہ پسند اس رخ روشن کی چمک ہے
خورشید سے برگشتہ ہر اک ماہ فلک ہے
ابرو کا یہ غل کعبۂ افلاک تلک ہے
محراب دعائے بشر و جن و ملک ہے
دیکھا جو مہ نو نے اس ابرو کے شرف کو
کعبہ کی طرف پشت کی رخ اس کی طرف کو
جو معنیٔ تحقیق سے تاویل کا ہے فرق
پتلی سے وہی کعبہ کی تمثیل کا ہے فرق
سرمہ سے اور اس آنکھ سے اک میل کا ہے فرق
میل ایک طرف نور کی تکمیل کا ہے فرق
اس آنکھ پہ امت کے ذرا خشم کو دیکھو
ناوک کی سلائی کو اور اس چشم کو دیکھو
گر آنکھ کو نرگس کہوں ہے عین حقارت
نرگس میں نہ پلکیں ہیں نہ پتلی نہ بصارت
چہرے پہ مہ عید کی بے جا ہے اشارت
وہ عید کا مژدہ ہے یہ حیدرؑ کی بشارت
ابرو کی مہ نو میں نہ جنبش ہے نہ ضو ہے
اک شب وہ مہ نو ہے یہ ہر شب مہ نو ہے
منہ غرق عرق دیکھ کے خورشید ہوا تر
ابرو سے ٹپکتا ہے نرا تیغ کا جوہر
آنکھوں کا عرق روغن بادام سے بہتر
عارض کا پسینہ ہے گلاب گل احمر
قطرہ رخ پر نور پہ ڈھلتے ہوئے دیکھو
عطر گل خورشید نکلتے ہوئے دیکھو
تسبیح کناں منہ میں زبان آٹھ پہر ہے
گویا دہن غنچہ میں برگ گل تر ہے
کب غنچہ و گلبرگ میں یہ نور مگر ہے
اس برج میں خورشید کے ماہی کا گزر ہے
تعریف میں ہونٹوں کی جو لب تر ہوا میرا
دنیا ہی میں قابو لب کوثر ہوا میرا
یہ منہ جو ردیف لب خوش رنگ ہوا ہے
کیا فاقیہ غنچہ کا یہاں تنگ ہوا ہے
اب مدح دہن کا مجھے آہنگ ہوا ہے
پر غنچے کا نام اس کے لیے ننگ ہوا ہے
غنچہ کہا اس منہ کو حذر اہل سخن سے
سونگھے کوئی بو آتی ہے غنچے کے دہن سے
شیریں رقموں میں رقم اس لب کی جدا ہے
اک نے شکر اور ایک نے یاقوت لکھا ہے
یاقوت کا لکھنا مگر ان سب سے بجا ہے
یاقوت سے بڑھ جو لکھوں میں تو مزا ہے
چوسا ہے یہ لب مثل رطب حق کے ولی نے
یاقوت کا بوسہ لیا کس روز علیؑ نے
جان فصحا روح فصاحت ہے تو یہ ہے
ہر کلمہ ہے موقع پہ بلاغت ہے تو یہ ہے
اعجاز مسیحا کی کرامت ہے تو یہ ہے
قائل ہے نزاکت کہ نزاکت ہے تو یہ ہے
یوں ہونٹوں پہ تصویر سخن وقت بیاں ہے
یاقوت سے گویا رگ یاقوت عیاں ہے
اب اصل میں شیریں دہنی کی کروں تحریر
طفلی میں کھلا جبکہ یہی غنچۂ تقریر
پہلے یہ خبر دی کہ میں ہوں فدیۂ شپیر
اس مژدے پہ مادر نے انہیں بخش دیا شیر
منہ حیدر کرار نے میٹھا کیا ان کا
شیرینیٔ اعجاز سے منہ بھر دیا ان کا
اس لب سے دم تازہ ہر اک زندے نے پایا
جیسے شہ مرداں نے نصیری کو جلایا
جان بخشئے اموات کا گویا ہے یہ آیا
ہم دم دم روح القدس ان کا نظر آیا
دم قالب بے جاں میں جو دم کرتے تھے عیسیٰ
ان ہونٹوں کے اعجاز کا دم بھرتے تھے عیسیٰ
دانتوں کی لڑی سے یہ لڑی عقل خدا داد
وہ بات ٹھکانے کی کہوں اب کہ رہے یاد
یہ گوہر عباس ہیں پاک ان کی ہے بنیاد
عباس و نجف ایک ہیں گنئے اگر اعداد
معدن کے شرف ہیں یہ جواہر کے شرف ہیں
دنداں در عباس ہیں تو در نجف ہیں
اثناعشری اب کریں ہاتھوں کا نظارا
دس انگلیاں ہیں مثل علم ان میں صف آرا
ہر پنجہ کا ہے پنجتنی کو یہ اشارا
اے مومنو عشرہ میں علم رکھنا ہمارا
پہلے مرے آقا مرے سالار کو رونا
پھر زیر علم ان کے علمدار کو رونا
تا موئے کمر فکر کا رشتا نہیں جاتا
فکر ایک طرف وہم بھی حاشا نہیں جاتا
پر فکر رسا کا مری دعوا نہیں جاتا
مضمون یہ نازک ہے کہ باندھا نہیں جاتا
اب زیب کمر تیغ شرر بار جو کی ہے
عباسؑ نے شعلہ کو گرہ بال سے دی ہے
عشاق ہوں اب عالم بالا کی مدد کا
درپیش ہے مضمون علمدار کے قد کا
یہ ہے قد بالا پسر شیر صمد کا
یا سایہ مجسم ہوا اللہ احد کا
اس قد پہ دو ابرو کی کشش کیا کوئی جانے
کھینچے ہیں دو مد ایک الف پر یہ خدا نے
نے چرخ کے سو دورے نہ اک رخش کا کاوا
دیتا ہے سدا عمر رواں کو یہ بھلاوا
یہ قسم ہے ترکیب عناصر کے علاوا
اللہ کی قدرت ہے نہ چھل بل نہ چھلاوا
چلتا ہے غضب چال قدم شل ہے قضا کا
توسن نہ کہو رنگ اڑا ہے یہ ہوا کا
گردش میں ہر اک آنکھ ہے فانوس خیالی
بندش میں ہیں نعل اس کے رباعئ ہلالی
روشن ہے کہ جوزا نے عناں دوش پہ ڈالی
بھرتی سے ہے مضمون رکابوں کا بھی خالی
سرعت ہے اندھیرے اور اجالے میں غضب کی
اندھیاری اسے چاندنی ہے چودھویں شب کی
گردوں ہو کبھی ہم قدم اس کا یہ ہے دشوار
وہ قافلہ کی گرد ہے یہ قافلہ سالار
وہ ضعف ہے یہ زور وہ مجبور یہ مختار
یہ نام ہے وہ ننگ ہے یہ فخر ہے وہ عار
اک جست میں رہ جاتے ہیں یوں ارض و سما دور
جس طرح مسافر سے دم صبح سرا دور
جو بوند پسینے کی ہے شوخی سے بھری ہے
ان قطروں میں پریوں سے سوا تیز پری ہے
گلشن میں صبا باغ میں یہ کبک دری ہے
فانوس میں پروانہ ہے شیشے میں پری ہے
یہ ہے وہ ہما جس کے جلو دار ملک ہیں
سایہ کی جگہ پر کے تلے ہفت فلک ہیں
ٹھہرے تو فلک سب کو زمیں پر نظر آئے
دوڑے تو زمیں چرخ بریں پر نظر آئے
شہباز ہوا کا نہ کہیں پر نظر آئے
راکب ہی فقط دامن زیں پر نظر آئے
اس راکب و مرکب کی برابر جو ثنا کی
یہ علم خدا کا وہ مشیت ہے خدا کی
شوخی میں پری حسن میں ہے حور بہشتی
طوفان میں راکب کے لئے نوح کی کشتی
کب ابلق دوراں میں ہے یہ نیک سرشتی
یہ خیر ہے وہ شر ہے یہ خوبی ہے وہ زشتی
صحرا میں چمن فصل بہاری ہے چمن میں
رہوار ہے اصطبل میں تلوار ہے رن میں
اس رخش کو عباسؑ اڑاتے ہوئے آئے
کوس لمن الملک بجاتے ہوئے آئے
تکبیر سے سوتوں کو جگاتے ہوئے آئے
اک تیغ نگہ سب پہ لگاتے ہوئے آئے
بے چلے کے کھینچے ہوئے ابرو کی کماں کو
بے ہاتھ کے تانے ہوئے پلکوں کی سناں کو
لکھا ہے مورخ نے کہ اک گبر دلاور
ہفتم سے فروکش تھا میان صف لشکر
روئیں تن و سنگیں دل و بد باطن و بدبر
سر کرکے مہم نیزوں پہ لایا تھا کئی سر
ہمراہ شقی فوج تھی ڈنکا تھا نشاں تھا
جاگیر کے لینے کو سوئے شام رواں تھا
تقدیر جو رن میں شب ہفتم اسے لائی
خلوت میں اسے بات عمر نے یہ سنائی
درپیش ہے سادات سے ہم کو بھی لڑائی
وان پنچتنی چند ہیں یاں ساری خدائی
اکبرؑ کا نہ قاسمؑ کا نہ شپیرؑ کا ڈر ہے
دو لاکھ کو اللہ کی شمشیر کا ڈر ہے
بولا وہ لرز کر کہ ہوا مجھ کو بھی وسواس
شمشیر خدا کون عمر بولا کہ عباسؑ
اس نے کہا پھر فتح کی کیوں کر ہے تجھے آس
بولا کہ کئی روز سے اس شیر کو ہے پیاس
ہم بھی ہیں بہادر نہیں ڈرتے ہیں کسی سے
پر روح نکلتی ہے تو عباسؑ علی سے
تشریف علمدار جری رن میں جو لایا
اس گبر کو چپکے سے عمر نے یہ سنایا
اندیشہ تھا جس شیر کے آنے کا وہ آیا
سر اس نے پرے سے سوئے عباسؑ اٹھایا
دیکھا تو کہا کانپ کے یہ فوج وغا سے
روباہو لڑاتے ہو مجھے شیر خدا سے
مانا کہ خدا یہ نہیں قدرت ہے خدا کی
مجھ میں ہے نرا زور یہ قوت ہے خدا کی
کی خوب ضیافت مری رحمت ہے خدا کی
سب نے کہا تجھ پر بھی عنایت ہے خدا کی
جا عذر نہ کر نام ہے مردوں کا اسی سے
تو دبدبۂ و زور میں کیا کم ہے کسی سے
بادل کی طرح سے وہ گرجتا ہوا نکلا
جلدی میں سلح جنگ کے سجتا ہوا نکلا
ہرگام رہ عمر کو تجتا ہوا نکلا
اور سامنے نقارہ بھی بجتا ہوا نکلا
غالب تھا تہمتن کی طرح اہل جہاں پر
دھنستی تھی زمیں پاؤں وہ رکھتا تھا جہاں پر
تیار کمر کس کے ہوا جنگ پہ خونخوار
اور پیک اجل آیا کہ ہے قبر بھی تیار
خنجر لیا منہ دیکھنے کو اور کبھی تلوار
مثل ورم مرگ چڑھا گھوڑے پہ اک بار
وہ رخش پہ یا دیو دنی تخت زری پر
غل رن میں اٹھا کوہ چڑھا کبک دری پر
اس ہیئت و ہیبت سے وہ نخوت سیر آیا
آسیب کو بھی سائے سے اس کے حذر آیا
میدان قیامت کو بھی محشر نظر آیا
گرد اپنے لیے نیزوں پہ کشتوں کے سر آیا
زندہ ہی پئے سیر نہ ہر صف سے بڑھے تھے
سر مردوں کے نیزوں پہ تماشے کو چڑھے تھے
سیدھا کبھی نیزہ کو ہلایا کبھی آڑا
پڑھ پڑھ کے رجز باغ فصاحت کو اجاڑا
ظالم نے کئی پشت کے مردوں کو اکھاڑا
بولا میری ہیبت نے جگر شیروں کا پھاڑا
ہم پنچہ نہ رستم ہے نہ سہراب ہے میرا
مرحب بن عبدالقمر القاب ہے میرا
فتراک میں سر باندھتا ہوں پیل دماں کا
پنجہ میں سدا پھیرتا ہوں شیر ژیاں کا
نظارا ذرا کیجئے ہر شاخ سناں کا
اس نیزے پہ وہ سر ہے فلاں ابن فلاں کا
جو جو تھے یلان کہن اس دورۂ نو میں
تن ان کے تہ خاک ہیں سر میرے جلو میں
یاں سیف زباں سیف الٰہی نے علم کی
فرمایا مرے آگے ہے تقریر ستم کی
اب منہ سے کہا کچھ تو زباں میں نے قلم کی
کونین نے گردن مرے دروازے پہ خم کی
طاقت ہے ہماری اسداللہ کی طاقت
پنجے میں ہمارے ہے یداللہ کی طاقت
عبدالقمر نحس کا تو داغ جگر ہے
میں چاند علیؑ کا ہوں ارے یہ بھی خبر ہے
خورشید پرستی سے تری کیا مجھے ڈر ہے
قبضہ میں طناب فلک و شمش و قمر ہے
مقدور رہا شمس کی رجعت کا پدر کو
دو ٹکڑے چچا نے کیا انگلی سے قمر کو
خورشید درخشاں میں بتا نور ہے کس کا
کلمہ ورق ماہ پہ مسطور ہے کس کا
اور سورۂ والشمس میں مذکور ہے کس کا
ذرے کو کرے مہر یہ مقدور ہے کس کا
یہ صاحب مقدور نبیؐ اور علیؑ ہیں
یا ہم کہ غلام خلف الصدق نبیؐ ہیں
توبہ تو خدا جانتا ہے شمش و قمر کو
وہ شام کو ہوتا ہے غروب اور یہ سحر کو
ایمان سمجھ مہر شہ جن و بشر کو
شمع رہ معراج ہیں یہ اہل نظر کو
خورشید بنی فاطمہ تو شاہ امم ہیں
اور ماہ بنی ہاشمی آفاق میں ہم ہیں
دو چاند کو کرتی ہے اک انگشت ہماری
ہے مہر نبوت سے ملی پشت ہماری
ہے تیغ ظفر وقت زد و کشت ہماری
سو گرز قضا ضربت یکمشت ہماری
قدرت کے نیستان کے ہم شیر ہیں ظالم
ہم شیر ہیں اور صاحب شمشیر ہیں ظالم
سب کو ہے فنا دور ہمیشہ ہے ہمارا
سر پیش خدا رکھنا یہ پیشہ ہے ہمارا
ہیں شیر خدا جس میں وہ بیشہ ہے ہمارا
عاری ہے اجل جس سے وہ تیشہ ہے ہمارا
ہم جزو بدن اس کے ہیں جو کل کا شرف ہے
رشتے میں ہمارے گہر پاک نجف ہے
جوشن جو دعاؤں میں ہے وہ اپنی زرہ ہے
ہر عقدے کا ناخن مرے نیزے کی گرہ ہے
تلوار سے پانی جگر ہر کہ و مہ ہے
کاٹا پر جبریل کو جس تیغ سے یہ ہے
سرخود و کلہ کا نہیں محتاج ہمارا
شپیر کا ہے نقش قدم تاج ہمارا
احمد ہے چچا میرا پدر حیدرؑ صفدر
وہ کل کا پیمبر ہے یہ کونین کا رہبر
اور مادر زینبؑ کی ہے لونڈی مری مادر
بھائی مرا اک عون دو عبداللہ و جعفر
اور شپر و شپیر ہیں سردار ہمارے
ہم ان کے غلام اور وہ مختار ہمارے
قاسم کا عزادار ہوں اکبرؑ کا میں غمخوار
لشکر کا علمدار ہوں سرور کا جلو دار
میں کرتا ہوں پردا تو حرم ہوتے ہیں اسوار
تھا شب کو نگہبان خیام شہ ابرار
اب تازہ یہ بخشش ہے خدائے ازلی کی
سقا بھی بنا اس کا جو پوتی ہے علیؑ کی
ہم ہانٹتے ہیں روزئ ہر بندۂ غفار
رزاق کی سرکار کے ہیں مالک و مختار
پر حق کی اطاعت ہے جو ہر کار میں درکار
خود وقت سحر روزے میں کھالتے ہیں تلوار
ہیں عقدہ کشا وقت کشا قلعہ کشا بھی
پر صبر سے بندھواتے ہیں رسی میں گلا بھی
اس کے قدم پاک کا فدیہ ہے سر اپنا
قربان کیا جس پہ نبیؐ نے پسر اپنا
نذر سر اکبرؑ ہے دل اپنا جگر اپنا
بیت الشرف شاہ پہ صدقے ہے گھر اپنا
مشہور جو عباسؑ زمانے کا شرف ہے
شپیر کی نعلین اٹھانے کا شرف ہے
شاہوں کا چراغ آتے ہی گل کردیا ہم نے
ہر جا عمل ختم رسل کر دیا ہم نے
خندق پہ در قلعہ کو پل کر دیا ہم نے
اک جزو تھا کلمہ اسے کل کر دیا ہم نے
دھوکا نہ ہو یہ سب شرف شیر خدا ہیں
پھر وہ نہ جدا ہم سے نہ ہم ان سے جدا ہیں
ناری کو بہشتی کے رجز پر حسد آیا
یوں چل کے پئے حملہ وہ ملعون بد آیا
گویا کہ سقر سے عمر عبدود آیا
اور لرزے میں مرحب بھی میان لحد آیا
نفریں کی خدا نے اسے تحسیں کی عمر نے
مجرا کیا عباسؑ کو یاں فتح و ظفر نے
شپیر کو بڑھ بڑھ کے نقیبوں نے پکارا
لو ٹوٹتا ہے دست زبردست تمہارا
ہے مرحب عبدالقمر اب معرکہ آرا
شپیر یقیں جانو کہ عباسؑ کو مارا
یہ گرگ وہ یوسف یہ خزاں ہے وہ چمن ہے
وہ چاند یہ عقرب ہے وہ سورج یہ گہن ہے
اس شور نے تڑپا دیا حضرت کے جگر کو
اکبرؑ سے کہا جاؤ تو عمو کی خبر کو
اکبرؑ بڑھے اور مڑ کے پکارے یہ پدر کو
گھیرا ہے کئی نحس ستاروں نے قمر کو
اک فوج نئی گرد علمدار ہے رن میں
لو ماہ بنی ہاشمی آتا ہے گہن میں
اک گبر قوی آیا ہے کھینچے ہوئے تلوار
کہتا ہے کہ اک حملہ میں ہے فیصلۂ کار
سرکشتوں کے نیزوں پہ ہیں گرد اس کے نمودار
یاں دست بہ قبضہ متبسم ہیں علمدار
اللہ کرے خیر کہ ہے قصد شر اس کو
سب کہتے ہیں مرحب بن عبدالقمر اس کو
غل ہے کہ دل آل عبا توڑے گا مرحب
اب بازوئے شاہ شہدا توڑے گا مرحب
بند کمر شیر خدا توڑے گا مرحب
گوہر کو تہہ سنگ جفا توڑے گا مرحب
مرحب کا نہ کچھ اس کی توانائی کا ڈر ہے
فدوی کو چچا جان کی تنہائی کا ڈر ہے
شہ نے کہا کیا روح علیؑ آئی نہ ہوگی
نانا نے مرے کیا یہ خبر پائی نہ ہوگی
کیا فاطمہؑ فردوس میں گھبرائی نہ ہوگی
سر ننگے وہ تشریف یہاں لائی نہ ہوگی
بندوں پہ عیاں زور خدا کرتے ہیں عباسؑ
پیارے مرے دیکھو تو کہ کیا کرتے ہیں عباسؑ
سن کر یہ خبر بیبیاں کرنے لگیں نالا
ڈیوڑھی پہ کمر پکڑے گئے سید والا
چلائے کہ فضہ علی اصغر کو اٹھا لا
ہے وقت دعا چھوٹتا ہے گود کا پالا
سیدانیو! سر کھول دو سجادہ بچھا دو
دشمن پہ علمدار ہو غالب یہ دعا دو
خیمے میں قیامت ہوئی فریاد بکا سے
سہمی ہوئی کہتی تھی سکینہؑ یہ خدا سے
غارت ہو الٰہی جو لڑے میرے چچا سے
وہ جیتے پھریں خیر میں مرجاؤں بلا سے
صدقے کروں قربان کروں اہل جفا کو
دو لاکھ نے گھیرا ہے مرے ایک چچا کو
ہے ہے کہیں اس ظلم و ستم کا ہے ٹھکانا
سقے پہ سنا ہے کہیں تلوار اٹھانا
کوئی بھی روا رکھتا ہے سید کا ستانا
جائز ہے کسی پیاسے سے پانی کا چھپانا
ہفتم سے غذا کھائی ہے نے پانی پیا ہے
بے رحموں نے کس دکھ میں ہمیں ڈال دیا ہے
اچھی مری اماں مرے سقے کو بلاؤ
کہہ دو کہ سکینہؑ ہوئی آخر ادھر آؤ
اب پانی نہیں چاہیے تابوت منگاؤ
کاندھے سے رکھو مشک جنازے کو اٹھاؤ
ملنے مری تربت کے گلے آئیں گے عباسؑ
یہ سنتے ہی گھبرا کے چلے آئیں گے عباسؑ
اس عرصہ میں حملے کئے مرحب نے وہاں چار
پر ایک بھی اس پنچتنی پر نہ چلا وار
مانند دل و چشم ہر اک عضو تھا ہشیار
عاری ہوئی تلوار مخالف ہوا ناچار
جب تیغ کو جھنجلا کے رخ پاک پہ کھینچا
تلوار نے انگلی سے الف خاک پہ کھینچا
غازی نے کہا بس اسی فن پر تھا تجھے ناز
سیکھا نہ یداللٰہیوں سے ضرب کا انداز
پھر کھینچی اس انداز سے تیغ شرر انداز
جو میان کے بھی منہ سے ذرا نکلی نہ آواز
یاں خوف سے قالب کو کیا میان نے خالی
واں قالب اعدا کو کیا جان نے خالی
یہ تیغ سراپا جو برہنہ نظر آئی
پھر جامۂ تن میں نہ کوئی روح سمائی
ہستی نے کہا توبہ قضا بولی دہائی
انصاف پکارا کہ ہے قبضہ میں خدائی
لو فتح مجسم کا وہ سر جیب سے نکلا
نصرت کے فلک کا مہ نو غیب سے نکلا
بجلی گری بجلی پہ اجل ڈر کے اجل پر
اک زلزلہ طاری ہوا گردوں کے محل پر
سیارے ہٹے کر کے نظر تیغ کے پھل پر
خورشید تھا مریخ یہ مریخ زحل پر
یہ ہول دیا تیغ درخشاں کی چمک نے
جو تاروں کے دانتوں سے زمیں پکڑی فلک نے
مرحب سے مخاطب ہوئے عباسؑ دلاور
شمشیر کے مانند سراپا ہوں میں جوہر
ممکن ہے کہ اک ضرب میں دو ہو تو سراسر
پر اس میں عیاں ہوں گے نہ جوہر مرے تجھ پر
لے روک مرے وار ترے پاس سپر ہے
زخمی نہ کروں گا ابھی اظہار ہنر ہے
کاندھے سے سپر لے کے مقابل ہوا دشمن
بتلانے لگے تیغ سے یہ ضرب کا ہرفن
یہ سینہ یہ بازو یہ کمر اور یہ گردن
یہ خود یہ چار آئنہ یہ ڈھال یہ جوشن
کس وار کو وہ روکتا تلوار کہاں تھی
آنکھوں میں تو پھرتی تھی نگاہوں سے نہاں تھی
مرحب نے نہ پھر ڈھال نہ تلوار سنبھالی
اس ہاتھ سے سر ایک سے دستار سنبھالی
ظالم نے سناں غصے سے اک بار سنبھالی
اس شیر نے شمشیر شرر ہار سنبھالی
تانی جو سناں اس نے علمدار کے اوپر
یہ نیزا اڑا لے گئے تلوار کے اوپر
جو چال چلا وہ ہوا گمراہ و پریشاں
پھر زائچہ کھینچا جو کماں کا سر میداں
تیروں کی لڑائی پہ پڑا قرعۂ پیکاں
تیروں کو قلم کرنے لگی تیغ درخشاں
جوہر سے نہ تیروں ہی کے پھل داغ بدل تھے
گر شست کے تھے ساٹھ تو چلہ کے چہل تھے
اس تیغ نے سرکش کے جو ترکش میں کیا گھر
غل تھا کہ نیستاں میں گری برق چمک کر
پر تیروں کے کٹ کٹ کے اڑے مثل کبوتر
مرحب ہوا مضطر صفت طائر بے پر
بڑھ کر کہا غازی نے بتا کس کی ظفر ہے
اب مرگ ہے اور تو ہے یہ تیغ اور یہ سر ہے
نامرد نے پوشیدہ کیا رخ کو سپر سے
اور کھینچ لیا خنجر ہندی کو کمر سے
خنجر تو ادھر سے چلا اور تیغ ادھر سے
اس وقت ہوا چل نہ سکی بیچ میں ڈر سے
اللہ رے شمشیر علمدار کے جوہر
جوہر کیے اس خنجر خونخوار کے جوہر
خنجر کا جو کاٹا تو وہ ٹھہری نہ سپر پر
ٹھہری نہ سپر پر تو وہ سیدھی گئی سر پر
سیدھی گئی سر پر تو وہ تھی صدر و کمر پر
تھی صدر و کمر پر تو وہ تھی قلب و جگر پر
تھی قلب و جگر پر تو وہ تھی دامن زیں پر
تھی دامن زیں پر تو وہ راکب تھا زمیں پر
ایماں نے اچھل کر کہا وہ کفر کو مارا
قدرت نے پکارا کہ یہ ہے زور ہمارا
حیدر سے نبیؐ بولے یہ ہے فخر تمہارا
حیدرؑ نے کہا یہ مری پتلی کا ہے تارا
پروانۂ شمع رخ تاباں ہوئیں زہراؑ
محسن کو لیے گود میں قرباں ہوئیں زہراؑ
ہنگامہ ہوا گرم یہ ناری جو ہوا سرد
واں فوج نے لی باگ بڑھا یاں یہ جواں مرد
ٹاپوں کی صدا سے سر قاروں میں ہوا درد
رنگ رخ اعدا کی طرح اڑنے لگی گرد
قاروں کا زر گنج نہانی نکل آیا
یہ خاک اڑی رن سے کہ پانی نکل آیا
جو زندہ تھے العظمۃ للٰلہ پکارے
سر مردوں کے نیزوں پہ جو تھے واہ پکارے
ڈرکر عمر سعد کو گمراہ پکارے
خوش ہو کے علمدار سوئے شاہ پکارے
یاں تو ہوا یا حضرت شپیر کا نعرہ
شپیر نے ہنس کر کیا تکبیر کا نعرہ
پردے کے قریب آ کے بہن شہ کی پکاری
دشمن پہ ہوئی فتح مبارک ہو میں واری
اب کہتی ہوں میں دیکھتی تھی جنگ یہ ساری
عباسؑ کی اک ضرب میں ٹھنڈا ہوا ناری
مرحب کو تو خیبر میں یداللہ نے مارا
ہم نام کو ابن اسد اللہ نے مارا
میداں میں علمدار کے جانے کے میں صدقے
اس فاقے میں تلوار لگانے کے میں صدقے
باہم علم و مشک اٹھانے کے میں صدقے
اس پیاس میں اک بوند نہ پانے کے میں صدقے
سقا بنا پیاسوں کا مروت کے تصدق
بے سر کیا شہ زوروں کو قوت کے تصدق
تم دونوں کا ہر وقت نگہبان خدا ہو
دیکھے جو بری آنکھ سے غارت ہو فنا ہو
دونوں کی بلا لے کے یہ ماں جائی فدا ہو
رو کر کہا حضرت نے بہن دیکھیے کیا ہو
منہ چاند سا مجھ کو جو دکھائیں تو میں جانوں
دریا سے سلامت جو پھر آئیں تو میں جانوں
زینبؑ سے بحسرت یہ بیاں کرتے تھے مولا
ناگاہ سکینہؑ نے سنا فتح کا مژدا
چلائی میں صدقے ترے اچھی مری فضا
جا جلد بلائیں مرے عمود کی تو لے آ
دکھ پیاس کا کہہ کر انہیں مدہوش نہ کرنا
پر یاد دلانا کہ فراموش نہ کرنا
لینے کو بلائیں گئی فضہ سوئے جنگاہ
عباسؑ نے آتے ہوئے دیکھا اسے ناگاہ
چلائے کہ پھر جا میں ہوا آنے سے آگاہ
کہہ دینا سکینہؑ سے ہمیں یاد ہے واللہ
دل پیاس سے بی بی کا ہوا جاتا ہے پانی
لے کر ترے بابا کا غلام آتا ہے پانی
دریا کو چلے ابر صفت ساتھ لیے برق
مرحب کے شریکوں کا جدا کرتے ہوئے فرق
سردار میں اور فوج میں باقی نہ رہا فرق
مرحب کی طرح سب چہ ہب ہب میں ہوئے غرق
تلوار کی اک موج نے طوفان اٹھایا
طوفان نے سر پر وہ بیابان اٹھایا
پانی ہوئی ہر موج زرہ فوج کے تن میں
ملبوس میں زندے تھے کہ مردے تھے کفن میں
خنجر کی زبانوں کو قلم کرکے دہن میں
اک تیغ سے تلواروں کو عاری کیا رن میں
حیدر کا اسد قلزم لشکر میں در آیا
امڈے ہوئے بادل کی طرح نہر پر آیا
دریا کے نگہبان بڑھے ہونے کو چو رنگ
پہنے ہوئے مچھلی کی طرح بر میں زرہ تنگ
کھینچے ہوئے موجوں کی طرح خنجر بے زنگ
سقے نے کہا پانی پہ جائز ہے کہاں جنگ
دریا کے نگہبان ہو پر غفلت دیں ہے
مانند حباب آنکھ میں بینائی نہیں ہے
مذہب ہے یہ کیسا کہ رہ شرع نہ جانی
مشرب ہے یہ کیسا کہ پلاتے نہیں پانی
بے شیر کا بچپن علی اکبرؑ کی جوانی
برباد کیے دیتی ہے اب تشنہ دہانی
لب خشک ہیں بچوں کی زباں پیاس سے شق ہے
دریا ہی سے تم پوچھ لو کس پیاسے کا حق ہے
پانی مجھے اک مشک ہے اس نہر سے درکار
بھر لینے دو مجھ کو نہ کرو حجت و تکرار
چلائے ستم گر ہے گزر نہر پہ دشوار
غازی نے کہا ہاں پہ ارادہ ہے تو ہشیار
لو سیل کو اور برق شرر بار کو روکو
رہوار کو روکو مری تلوار کو روکو
یہ کہہ کے کیا اسپ سبک تاز کو مہمیز
بجلی کی طرح کوند کے چمکا فرس تیز
اشرار کے سر پر ہوا نعلوں سے شرر ریز
سیلاب فنا تھا کہ وہ طوفان بلا خیز
جھپکی پلک اس رخش کو جب قہر میں دیکھا
پھر آنکھ کھلی جب تو رواں نہر میں دیکھا
دریا میں ہوا غل کہ وہ در نجف آیا
الیاسؑ و خضرؑ بولے ہمارا شرف آیا
عباسؑ شہنشاہ نجف کا خلف آیا
پا بوس کو موتی لیے دست صدف آیا
یاد آ گئی پیاسوں کی جو حیدرؑ کے خلف کو
دل خون ہوا دیکھ کے دریا کی طرف کو
سوکھے ہوئے مشکیزہ کا پھر کھولا دہانہ
بھرنے لگا خم ہو کے وہ سرتاج زمانہ
اعدا نے کیا دور سے تیروں کا نشانہ
اور چوم لیا روح یداللہ نے شانہ
فرمایا کہ کیا کیا مجھے خوش کرتے ہو بیٹا
پانی مری پوتی کے لیے بھرتے ہو بیٹا
کچھ فرق تری کوشش و ہمت میں نہیں ہے
پانی مگر اس پیاسی کی قسمت میں نہیں ہے
وقفہ مرے پیارے کی شہادت میں نہیں ہے
جو زخم میں لذت ہے جراحت میں نہیں ہے
اک خون کی نہر آنکھوں سے زہراؑ کے بہی ہے
رونے کو تری لاش پہ سر کھول رہی ہے
دریا سے جو نکلا اسداللہ کا جانی
تھا شور کہ وہ شیر لیے جاتا ہے پانی
پھر راہ میں حائل ہوئے سب ظلم کے بانی
سقائے سکینہؑ کی یہ کی مرتبہ دانی
قبریں نبیؐ و حیدرؑ و زبیراؑ کی ہلادیں
برچھوں کی جو نوکیں تھیں کلیجے سے ملا دیں
وہ کون سا تھا تیر جو دل پر نہ لگایا
مشکیزے کے پانی سے سوا خون بہایا
یہ نرغہ تھا جو شمر نے حیلے سے سنایا
عباسؑ بچو غول کمیں گاہ سے آیا
مڑ کر جو نظر کی خلف شیر خدا نے
شانوں کو تہہ تیغ کیا اہل جفا نے
لکھا ہے کہ ایک نخل رطب تھا سر میداں
ابن ورقہ زید لعیں اس میں تھا پنہاں
پہنچا جو وہاں سرو روان شہ مرداں
جو شانہ تھا مشک و علم و تیغ کے شایاں
وار اس پہ کیا زید نے شمشیر اجل سے
یہ پھولی پھلی شاخ کٹی تیغ کے پھل سے
مشک و علم و تیغ کو بائیں پہ سنبھالا
اور جلد چلا عاشق روئے شہ والا
پر ابن طفیل آگے بڑھاتان کے بھالا
برچھی کی انی سے تو کیا دل تہہ و بالا
اور تیغ کی ضربت سے جگر شاہ کا کاٹا
وہ ہاتھ بھی فرزند یداللہ کا کاٹا
سقے نے کئی بانہوں پہ مشکیزہ کو رکھ کر
مانند زباں منہ میں لیا تسمہ سراسر
ناگاہ کئی تیر لگے آگے برابر
اک مشک پہ اک آنکھ پہ اور ایک دہن پر
مشکیزے سے پانی بہا اور خوں بہا تن سے
عباسؑ گرے گھوڑے سے اور مشک دہن سے
گر کر لب زخمی سے علمدار پکارا
کہہ دو کوئی پیاسوں سے کہ سقا گیا مارا
سن لی یہ صدا شاہ شہیداں نے قضارا
زینبؑ سے کہا لو نہ رہا کوئی ہمارا
اصغرؑ کا گلا چھد گیا اکبرؑ کا جگر بھی
بازو بھی مرے ٹوٹ گئے اور کمر بھی
گویا کہ اسی وقت جلے خیمے ہمارے
ظالم نے طمانچے بھی مری بیٹی کو مارے
رسی میں مرے خورد و کلاں بندھ گئے سارے
عباسؑ کے غم میں ہوئے ہم گور کنارے
اعدا میں ہے غل مالک شمشیر کو مارا
یہ کیوں نہیں کہتے ہیں کہ شپیر کو مارا
زینبؑ نے کہا سچ ہے تمہیں مرگئے بھائی
سب کنبے کو عباسؑ فنا کر گئے بھائی
آفاق سے اب حمزہؑ حیدرؑ گئے بھائی
ہم مجلس حاکم میں کھلے سر گئے بھائی
میں جان چکی قید مصیبت میں پڑی ہوں
اب گھر میں نہیں بلوے میں سر ننگے کھڑی ہوں
ناگاہ صدا آئی کہ اے فاطمہؑ کے لال
جلد آؤ کہ لاشہ مرا اب ہوتا ہے پامال
زینبؑ نے کہا زندہ ہیں عباسؑ خوش اقبال
تم جاؤ میں یاں بہر شفا کھولتی ہوں بال
شہ بولے لب گور سکینہؑ کا چچا ہے
اس فوج کا مارا ہوا کوئی بھی بچا ہے
اکبرؑ کے سہارے سے چلے نہر پہ آقا
گہ ہوش تھا گہ غش کبھی سکتہ کبھی نوحا
لکھا ہے کہ ٹکڑے ہوئے یوں سقے کی اعضا
اک ہاتھ تو مقتل میں ملا اک لب دریا
زہراؑ کا پسر رن میں جو زیر شجر آیا
اک ہاتھ تڑپتا ہوا شہ کو نظر آیا
گر کر شہ والا نے یہ اکبر سے کہی بات
اے لال اٹھا لو مرے بازو کا ہے یہ ہاتھ
یہ ہاتھ رکھے سینہ پہ وہ وارث سادات
پہنچا جو سر لاشۂ عباسؑ خوش اوقات
ہیہات قلم تیغوں سے شانے نظر آئے
سر ننگے یداللہ سرہانے نظر آئے
بے ساختہ ماتھے پہ رکھا شاہ نے ماتھا
لب رکھ کے لبوں پر کہا وا حسرت و در وا
یہ تیر یہ آنکھ اور یہ نیزہ یہ کلیجا
وا قرۃ عینا مرے وا مہجۃ قلبا
کچھ منہ سے تو بولو مرے غمخوار برادر
عباسؑ ابوالفضل علمدار برادر
اس جاں شکنی میں جو سنا شیون مولا
تعظیم کی نیت میں کٹے شانوں کو ٹیکا
پھر پاؤں سمیٹے کہ نہ ہوں پائنتی آقا
شہ بولے نہ تکلیف کرو اے میرے شیدا
کی عرض میں پھیلائے ہوئے پاؤں پڑا ہوں
حضرت نے یہ فرمایا سرہانے میں کھڑا ہوں
یاں تھی یہ قیامت وہاں خیمہ میں یہ محشر
در پر تھیں نبی زادیاں سب کھولے ہوئے سر
تشویش تھی کیوں لاش کو لے آئے نہ سرور
عباسؑ کا فرزند سراسیمہ تھا باہر
تن رعشے میں خورشید درخشاں کی طرح تھا
دل ٹکڑے یتیموں کے گریباں کی طرح تھا
ضد کرتا تھا ماں سے مرے بابا کو بلا دو
میں نہر پہ جاتا ہوں مرا نیمچہ لادو
ماں کہتی تھی بابا کو سکینہؑ کے دعا دو
بابا بھی چچا کو کہو بابا کو بھلا دو
حیدرؑ سے نویں سال چھڑایا تھا قضا نے
واری ترے بابا کو بھی پالا تھا چچا نے
دریا پہ ابھی گھر گئے تھے باپ تمہارے
پیارے کے چچا جان انہیں لینے کو سدھارے
تو رہ یہیں اے میرے رنڈاپے کے سہارے
بابا کو چچا جاں لیے آتے ہیں پیارے
تھا عشق جو عباسؑ سے اس نیک خلف کو
بڑھ بڑھ کے نظر کرتا تھا دریا کی طرف کو
ناگاہ پھرا پیٹتا منہ کو وہ پریشاں
زینبؑ نے کہا خیر تو ہے میں ترے قرباں
چلایا کہ خادم کی یتیمی کا ہے ساماں
بھیا علی اکبر نے ابھی پھاڑا گریباں
بن باپ کا بچپن میں ہمیں کر گئے بابا
مردے سے لپٹتے ہیں چچا مر گئے بابا
یہ غل تھا جو مولا لیے مشک و علم آلے
خیمہ میں کمر پکڑے امام امم آئے
اور گرد علم بال بکھیرے حرم آئے
زینبؑ سے کہا شہ نے بہن لٹ کے ہم آئے
بھائی کے یتیموں کی پرستار ہو زینبؑ
تم مہتمم سوگ علمدار ہو زینب
ہاں سوگ کا حیدرؑ کے سیہ فرش بچھاؤ
ہیں رخت عزا جس میں وہ صندوق منگاؤ
دو سب کو سیہ جوڑے عزادار بناؤ
شپر کی عزا کا ہمیں ملبوس پنہاؤ
تم پہنو وہ کالی کفنی آل عبا میں
جو فاطمہؑ نے پہنی تھی نانا کی عزا میں
عباسؑ کا یہ سوگ نہیں سوگ ہے میرا
عباسؑ کا ماتم ہو مرے گھر میں جو برپا
نوحے میں نہ عباسؑ کہے نہ کہے سقا
جو بین کرے رو کے کہے ہائے حسیناؑ
سب لونڈیاں یوں روئیں کہ آقا گیا مارا
چلائے سیکنہؑ بھی کہ بابا گیا مارا
زینب نے کہا ہیں میری قسمت کے یہی کام
دینے لگی ماتم کے یہ جوڑے تو وہ ناکام
فضہ سے کہا سوگ کا کرتی ہوں سر انجام
ٹھنڈا ہوا ہے ہے علم لشکر اسلام
زہراؑ کا لباس اپنے لیے چھانٹ رہی ہوں
عباسؑ کا ملبوس عزا بانٹ رہی ہوں
پھر زیر علم فرش سیہ لا کے بچھایا
اور بیوۂ عباسؑ کو خود لا کے بٹھایا
تھے جتنے سیہ پوش انہیں رو کے سنایا
قسمت نے جواں بھائی کا بھی داغ دکھایا
ناسور نہ کس طرح سے ہو دل میں جگر میں
ماتم ہے علمدار کا سردار کے گھر میں
باقی کوئی دستور عزا رہنے نہ پائے
اب خیمہ میں اپنے ہر اک اس خیمہ سے جائے
ایک ایک یہاں پُرسے کو عباسؑ کے آئے
سر ننگے لب فرش سے زینبؑ اسے لائے
یہ جعفر و حمزہ کا یہ حیدرؑ کا ہے ماتم
شپیر کا اکبرؑ کا اور اصغر کا ہے ماتم
سب خیموں میں اپنے گئیں کرتی ہوئی زاری
یاں کرنے لگی بین ید اللہ کی پیاری
فضہ نے کہا زینب مضطر سے میں واری
اے بنت علیؑ آتی ہے بانو کی سواری
منہ زیر علم ڈھانپے علمدار کی بی بی
پُرسے کے لیے آتی ہے سردار کی بی بی
بانو نے قدم پیچھے رکھا فرش سیہ پر
پہلے وہاں بٹھلا دیا اصغر کو کھلے سر
پھر سوئے علم پیٹتی دوڑی وہ یہ کہہ کر
قربان وفا پر تری اے بازوئے سرور
سنتی ہوں تہہ تیغ ستم ہو گئے بازو
دریا پہ بہشتی کے قلم ہو گئے بازو
عباسؑ کو تو میں نہ سمجھتی تھی برادر
میں ان کو پسر کہتی تھی اور وہ مجھے مادر
اس شیر کے مرجانے سے بیکس ہوئے سرور
بے جان ہوا حافظ جان علی اکبر
سب کہتے ہیں حضرت کا برادر گیا مارا
پوچھو جو مرے دل سے تو اکبرؑ گیا مارا
اتنے میں سنی بالی سیکنہؑ کی دہائی
زینب نے کہا روح علمدار کی آئی
جوڑے ہوئے ہاتھوں کو وہ شپیر کی جائی
کہتی تھی سزا پانی کے منگوانے کی پائی
تعذیر دو یا دختر شپیر کو بخشو
کس طرح کہوں میں مری تقصیر کو بخشو
میں نے تمہیں بیوہ کیا رنڈ سالہ پنہایا
ہے ہے مری اک پیاس نے سب گھر کو رلایا
کوثر پہ سدھارا اسد اللہ کا جایا
اور کنبے کا الزام مرے حصے میں آیا
انصاف کرو لوگوں یہ کیا کر گئے عمو
میں پیاسی کی پیاسی رہی اور مر گئے عمو
بعد اس کے ہوا شور کہ لو آتی ہے بیوہ
تشریف نئی بیوہ کے گھر لاتی ہے بیوہ
گھونگھٹ کو الٹتے ہوئے شرماتی ہے بیوہ
سر گوندھا ہوا ساس سے کھلواتی ہے بیوہ
زینبؑ نے کہا بیوۂ فرزند حسنؑ ہے
یہ کیوں نہیں کہتے مرے قاسمؑ کی دلہن ہے
کبراؑ کو چچی پاس جو زینبؑ نے بٹھایا
اس بیوہ نے گھونگھٹ رخ کبرؑیٰ سے ہٹایا
اور پوچھا کہ دولہا ترا کیوں ساتھ نہ آیا
افسوس چچی نے تجھے مہماں نہ بلایا
پرسے کو تو آئی خلف شیر خدا کے
پہلا ترا چالا یہ ہوا گھر میں چچا کے
ناگاہ فغاں زیر علم یہ ہوئی پیدا
سیدانیو دو مادر عباسؑ کو پرسا
تعظیم کو سب اٹھے کہ ہے نالۂ زہراؑ
زینبؑ نے کہا اماں وطن میں ہے وہ دکھیا
آئی یہ ندا پاس ہوں میں دور کہاں ہوں
عباسؑ مرا بیٹا میں عباسؑ کی ماں ہوں
رنڈ سالہ بہو کو میں پہنانے کو ہوں آئی
اک حُلۂ پر نور ہوں فردوس سے لائی
عباسؑ کے ماتم کی تو صف تم نے بچھائی
سامان سوئم ہوگا نہ کچھ اے مری جائی
تم روز سوئم ہائے رواں شام کو ہوگی
چہلم کو کفن لاش علمدار کو دوگی
لو حیدریو وارد مجلس ہوئیں زہراؑ
دو فاطمہؑ کی روح کو عباسؑ کا پرسا
اب تک نہیں کفنائے گئے ہیں شہ والا
بے گور ہے سردار و علمدار کا لاشا
رونے نہیں دیتے ہیں عدو آل نبی کو
تم سب کے عوض روؤ حسینؑ ابن علی کو
خاموش دبیرؔ اب کہ نہیں نظم کا یارا
مداح کا دل خنجر غم سے ہے دو پارا
کافی پئے بخشش یہ وسیلہ ہے ہمارا
اک ہفتے میں تصنیف کیا مرثیہ سارا
تجھ پر کرم خاص ہے یہ حق کے ولی کا
یہ فیض ہے سب مدح جگر بند علیؑ کا
رستم کا جگر زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
سب ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
ہیبت سے ہیں نہ قلعۂ افلاک کے دربند
جلاد فلک بھی نظر آتا ہے نظر بند
وا ہے کمر چرخ سے جوزا کا کمر بند
سیارے ہیں غلطاں صفت طائر پر بند
انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے
خورشید کے پنجے سے علم چھوٹ پڑا ہے
خود فتنۂ و شر پڑھ رہے ہیں فاتحۂ خیر
کہتے ہیں انالعبد لرز کر صنم دیر
جاں غیر ہے تن غیر مکیں غیر مکاں غیر
نے چرخ کا ہے دور نہ سیاروں کی ہے سیر
سکتے میں فلک خوف سے مانند زیں ہے
جز بخت یزید اب کوئی گردش میں نہیں ہے
بے ہوش ہے بجلی پہ سمند ان کا ہے ہشیار
خوابیدہ ہیں سب طالع عباس ہے بیدار
پوشیدہ ہے خورشید علم ان کا نمودار
بے نور ہے منہ چاند کا رخ ان کا ضیا بار
سب جزو ہیں کل رتبہ میں کہلاتے ہیں عباس
کونین پیادہ ہیں سوار آتے ہیں عباسؑ
چمکا کے مہ و خور زر و نقرہ کے عصا کو
سرکاتے ہیں پیر فلک پشت دوتا کو
عدل آگے بڑھا حکم یہ دیتا ہے قضا کو
ہاں باندھ لے ظلم و ستم و جور و جفا کو
گھر لوٹ لے بغض و حسد و کذب و ریا کا
سرکاٹ لے حرص و طمع و مکر و دغا کا
راحت کے محلوں کو بلا پوچھ رہی ہے
ہستی کے مکانوں کو فنا پوچھ رہی ہے
تقدیر سے عمر اپنی قضا پوچھ رہی ہے
دونوں کا پتہ فوج جفا پوچھ رہی ہے
غفلت کا تو دل چونک پڑا خوف سے ہل کر
فتنے نے کیا خواب گلے کفر سے مل کر
النشر کا ہنگامہ ہے اس وقت حشر میں
الصورکا آوازہ ہے اب جن و بشر میں
الہجر کا ہے تذکرہ باہم تن و سر میں
الوصل کا غل ہے سقر و اہل سقر میں
الحشر جو مردے نہ پکاریں تو غضب ہے
الموت زبان ملک الموت پہ اب ہے
روکش ہے اس اک تن کا نہ بہمن نہ تہمتن
سہراب و نریمان و پشن بے سرو بے تن
قاروں کی طرح تحت زمیں غرق ہے قارن
ہر عاشق دنیا کو ہے دنیا چہہ بے زن
سب بھول گئے اپنا حسب اور نسب آج
آتا ہے جگر گوشۂ قتال عرب آج
ہر خود نہاں ہوتا ہے خود کاسۂ سر میں
مانند رگ و ریشہ زرہ چھپتی ہے بر میں
بے رنگ ہے رنگ اسلحے کا فوج عمر میں
جوہر ہے نہ تیغوں میں نہ روغن ہے سپر میں
رنگ اڑ کے بھرا ہے جو رخ فوج لعیں کا
چہرہ نظر آتا ہے فلک کا نہ زمیں کا
ہے شور فلک کا کہ یہ خورشید عرب ہے
انصاف یہ کہتا ہے کہ چپ ترک ادب ہے
خورشید فلک پرتو عارض کا لقب ہے
یہ قدرت رب قدرت رب قدرت رب ہے
ہر ایک کب اس کے شرف و جاہ کو سمجھے
اس بندے کو وہ سمجھے جو اللہ کو سمجھے
یوسف ہے یہ کنعاں میں سلیماں ہے سبا میں
عیسیٰ ہے مسیحائی میں موسیٰ ہے دعا میں
ایوب ہے یہ صبر میں یحییٰ ہے بکا میں
شپیر ہے مظلومی میں حیدر ہے وغا میں
کیا غم جو نہ مادر نہ پدر رکھتے ہیں آدم
عباس سا دنیا میں پسر رکھتے ہیں آدم
پنجے میں یداللہ ہے بازو میں ہے جعفر
طاعت میں ملک خو میں حسنؑ زور میں حیدر
اقبال میں ہاشم تو تواضع میں پیمبر
اور طنطنہ و دبدبہ میں حمزۂ صفدر
جوہر کے دکھانے میں یہ شمشیر خدا ہے
اور سر کے کٹانے میں یہ شاہ شہدا ہے
بے ان کے شرف کچھ بھی زمانہ نہیں رکھتا
ایمان سوا ان کے خزانہ نہیں رکھتا
قرآں بھی کوئی اور فسانہ نہیں رکھتا
شپیر بغیر ان کے یگانہ نہیں رکھتا
یہ روح مقدس ہے فقط جلوہ گری میں
یہ عقل مجرد ہے جمال بشری میں
صحرا میں گرا پرتو عارض جو قضارا
سورج کی کرن نے کیا شرما کے کنارا
یوں دھوپ اڑی آگ پہ جس طرح سے پارا
موسیٰ کی طرح غش ہوئے سب کیسا نظارا
جز مدح نہ دم روشنئ طور نے مارا
شب خون عجب دھوپ پہ اس نور نے مارا
قربان ہوائے علم شاہ امم کے
سب خار ہرے ہو کے بنے سرو ارم کے
ہیں راز عیاں خالق ذوالفضل و کرم کے
جبریلؑ نے پر کھولے ہیں دامن میں علم کے
پرچم کا جہاں عکس گرا صاعقہ چمکا
پرچم کہیں دیکھا نہ سنا اس چم و خم کا
قرنا میں نہ دم ہے نہ جلاجل میں صدا میں ہے
بوق و دہل و کوس کی بھی سانس ہوا ہے
ہر دل کے دھڑکنے کا مگر شور بپا ہے
باجا جو سلامی کا اسے کہیے بجا ہے
سکتے میں جو آواز ہے نقارۂ و دف کی
نوبت ہے ورود خلف شاہ نجف کی
آمد کو تو دیکھا رخ پر نور کو دیکھو
والشمش پڑھو روشنیٔ طور کو دیکھو
نے روشنیٔ ماہ کو نے ہور کو دیکھو
اس شمع مراد ملک و حور کو دیکھو
ہے کون تجلی رخ پر نور کی مانند
یاں روشنیٔ طور جلی طور کی مانند
مداح کو اب تازگیٔ نظم میں کد ہے
یا حضرت عباسؑ علیؑ وقت مدد ہے
مولا کی مدد سے جو سخن ہو وہ سند ہے
اس نظم کا جو ہو نہ مقر اس کو حسد ہے
حاسد سے صلا بھی نہیں درکار ہے مجھ کو
سرکار حسینیؑ سے سروکار ہے مجھ کو
گلزار ہے یہ نظم و بیاں بیشہ نہیں ہے
باغی کو بھی گلگشت میں اندیشہ نہیں ہے
ہر مصرعۂ پر جستہ ہے پھل تیشہ نہیں ہے
یاں مغز سخن کا ہے رگ و ریشہ نہیں ہے
صحت مری تشخیص سے ہے نظم کے فن کی
مانند قلم ہاتھ میں ہے نبض سخن کی
گر کاہ ملے فائدہ کیا کوہکنی سے
میں کاہ کو گل کرتا ہوں رنگیں سخنی سے
خوش رنگ ہے الفاظ عقیق یمنی سے
یہ ساز ہے سوز غم شاہ مدنی سے
آہن کو کروں نرم تو آئینہ بنا لوں
پتھر کو کروں گرم تو میں عطر نکا لوں
گو خلعت تحسیں مجھے حاصل ہے سراپا
پر وصف سراپا کا تو مشکل ہے سراپا
ہر عضو تن اک قدرت کامل ہے سراپا
یہ روح ہے سر تا بقدم دل ہے سراپا
کیا ملتا ہے گر کوئی جھگڑتا ہے کسی سے
مضمون بھی اپنا نہیں لڑتا ہے کسی سے
سورج کو چھپاتا ہے گہن آئینہ کو زنگ
داغی ہے قمر سوختہ و لالۂ خوش رنگ
کیا اصل در و لعل کی وہ پانی ہے یہ سنگ
دیکھو گل و غنچہ وہ پریشاں ہے یہ دل تنگ
اس چہرے کو داور ہی نے لاریب بنایا
بے عیب تھا خود نقش بھی بے عیب بنایا
انساں کہے اس چہرے کو کب چشمۂ حیواں
یہ نور وہ ظلمت یہ نمودار وہ پنہاں
برسوں سے ہے آزار برص میں مہ تاباں
کب سے یرقاں مہر کو ہے اور نہیں درماں
آئینہ ہے گھر زنگ کایہ رنگ نہیں ہے
اس آئینہ میں رنگ ہے اور زنگ نہیں ہے
آئینہ کہا رخ کو تو کچھ بھی نہ ثنا کی
صنعت وہ سکندر کی یہ صنعت ہے خدا کی
واں خاک نے صیقل یہاں قدرت نے جلا کی
طالع نے کس آئینہ کو خوبی یہ عطا کی
ہر آئینہ میں چہرۂ انساں نظر آیا
اس رخ میں جمال شہ مرداں نظر آیا
بے مثل حسیں ہے نگہ اہل یقیں میں
بس ایک یہ خورشید ہے افلاک و زمیں میں
جلوہ ہے عجب ابروؤں کا قرب جبیں میں
دو مچھلیاں ہیں چشمۂ خورشید مبیں میں
مردم کو اشارہ ہے یہ ابرو کا جبیں پر
ہیں دو مہ نو جلوہ نما چرخ بریں پر
بینی کے تو مضموں پہ یہ دعوا ہے یقینی
اس نظم کے چہرے کی وہ ہوجائے گا بینی
منظور نگہ کو جو ہوئی عرش نشینی
کی سایۂ بینی نے فقط جلوہ گزینی
درکار اسی بینی کی محبت کا عصا ہے
یہ راہ تو ایماں سے بھی باریک سوا ہے
بینی کو کہوں شمع تو لو اس کی کہاں ہے
پر نور بھنوؤں پر مجھے شعلہ کا گماں ہے
دو شعلے اور اک شمع یہ حیرت کا مکاں ہے
ہاں زلفوں کے کوچوں سے ہوا تند رواں ہے
سمجھو نہ بھویں بس کہ ہوا کا جو گزر ہے
یہ شمع کی لو گاہ ادھر گاہ ادھر ہے
اس درجہ پسند اس رخ روشن کی چمک ہے
خورشید سے برگشتہ ہر اک ماہ فلک ہے
ابرو کا یہ غل کعبۂ افلاک تلک ہے
محراب دعائے بشر و جن و ملک ہے
دیکھا جو مہ نو نے اس ابرو کے شرف کو
کعبہ کی طرف پشت کی رخ اس کی طرف کو
جو معنیٔ تحقیق سے تاویل کا ہے فرق
پتلی سے وہی کعبہ کی تمثیل کا ہے فرق
سرمہ سے اور اس آنکھ سے اک میل کا ہے فرق
میل ایک طرف نور کی تکمیل کا ہے فرق
اس آنکھ پہ امت کے ذرا خشم کو دیکھو
ناوک کی سلائی کو اور اس چشم کو دیکھو
گر آنکھ کو نرگس کہوں ہے عین حقارت
نرگس میں نہ پلکیں ہیں نہ پتلی نہ بصارت
چہرے پہ مہ عید کی بے جا ہے اشارت
وہ عید کا مژدہ ہے یہ حیدرؑ کی بشارت
ابرو کی مہ نو میں نہ جنبش ہے نہ ضو ہے
اک شب وہ مہ نو ہے یہ ہر شب مہ نو ہے
منہ غرق عرق دیکھ کے خورشید ہوا تر
ابرو سے ٹپکتا ہے نرا تیغ کا جوہر
آنکھوں کا عرق روغن بادام سے بہتر
عارض کا پسینہ ہے گلاب گل احمر
قطرہ رخ پر نور پہ ڈھلتے ہوئے دیکھو
عطر گل خورشید نکلتے ہوئے دیکھو
تسبیح کناں منہ میں زبان آٹھ پہر ہے
گویا دہن غنچہ میں برگ گل تر ہے
کب غنچہ و گلبرگ میں یہ نور مگر ہے
اس برج میں خورشید کے ماہی کا گزر ہے
تعریف میں ہونٹوں کی جو لب تر ہوا میرا
دنیا ہی میں قابو لب کوثر ہوا میرا
یہ منہ جو ردیف لب خوش رنگ ہوا ہے
کیا فاقیہ غنچہ کا یہاں تنگ ہوا ہے
اب مدح دہن کا مجھے آہنگ ہوا ہے
پر غنچے کا نام اس کے لیے ننگ ہوا ہے
غنچہ کہا اس منہ کو حذر اہل سخن سے
سونگھے کوئی بو آتی ہے غنچے کے دہن سے
شیریں رقموں میں رقم اس لب کی جدا ہے
اک نے شکر اور ایک نے یاقوت لکھا ہے
یاقوت کا لکھنا مگر ان سب سے بجا ہے
یاقوت سے بڑھ جو لکھوں میں تو مزا ہے
چوسا ہے یہ لب مثل رطب حق کے ولی نے
یاقوت کا بوسہ لیا کس روز علیؑ نے
جان فصحا روح فصاحت ہے تو یہ ہے
ہر کلمہ ہے موقع پہ بلاغت ہے تو یہ ہے
اعجاز مسیحا کی کرامت ہے تو یہ ہے
قائل ہے نزاکت کہ نزاکت ہے تو یہ ہے
یوں ہونٹوں پہ تصویر سخن وقت بیاں ہے
یاقوت سے گویا رگ یاقوت عیاں ہے
اب اصل میں شیریں دہنی کی کروں تحریر
طفلی میں کھلا جبکہ یہی غنچۂ تقریر
پہلے یہ خبر دی کہ میں ہوں فدیۂ شپیر
اس مژدے پہ مادر نے انہیں بخش دیا شیر
منہ حیدر کرار نے میٹھا کیا ان کا
شیرینیٔ اعجاز سے منہ بھر دیا ان کا
اس لب سے دم تازہ ہر اک زندے نے پایا
جیسے شہ مرداں نے نصیری کو جلایا
جان بخشئے اموات کا گویا ہے یہ آیا
ہم دم دم روح القدس ان کا نظر آیا
دم قالب بے جاں میں جو دم کرتے تھے عیسیٰ
ان ہونٹوں کے اعجاز کا دم بھرتے تھے عیسیٰ
دانتوں کی لڑی سے یہ لڑی عقل خدا داد
وہ بات ٹھکانے کی کہوں اب کہ رہے یاد
یہ گوہر عباس ہیں پاک ان کی ہے بنیاد
عباس و نجف ایک ہیں گنئے اگر اعداد
معدن کے شرف ہیں یہ جواہر کے شرف ہیں
دنداں در عباس ہیں تو در نجف ہیں
اثناعشری اب کریں ہاتھوں کا نظارا
دس انگلیاں ہیں مثل علم ان میں صف آرا
ہر پنجہ کا ہے پنجتنی کو یہ اشارا
اے مومنو عشرہ میں علم رکھنا ہمارا
پہلے مرے آقا مرے سالار کو رونا
پھر زیر علم ان کے علمدار کو رونا
تا موئے کمر فکر کا رشتا نہیں جاتا
فکر ایک طرف وہم بھی حاشا نہیں جاتا
پر فکر رسا کا مری دعوا نہیں جاتا
مضمون یہ نازک ہے کہ باندھا نہیں جاتا
اب زیب کمر تیغ شرر بار جو کی ہے
عباسؑ نے شعلہ کو گرہ بال سے دی ہے
عشاق ہوں اب عالم بالا کی مدد کا
درپیش ہے مضمون علمدار کے قد کا
یہ ہے قد بالا پسر شیر صمد کا
یا سایہ مجسم ہوا اللہ احد کا
اس قد پہ دو ابرو کی کشش کیا کوئی جانے
کھینچے ہیں دو مد ایک الف پر یہ خدا نے
نے چرخ کے سو دورے نہ اک رخش کا کاوا
دیتا ہے سدا عمر رواں کو یہ بھلاوا
یہ قسم ہے ترکیب عناصر کے علاوا
اللہ کی قدرت ہے نہ چھل بل نہ چھلاوا
چلتا ہے غضب چال قدم شل ہے قضا کا
توسن نہ کہو رنگ اڑا ہے یہ ہوا کا
گردش میں ہر اک آنکھ ہے فانوس خیالی
بندش میں ہیں نعل اس کے رباعئ ہلالی
روشن ہے کہ جوزا نے عناں دوش پہ ڈالی
بھرتی سے ہے مضمون رکابوں کا بھی خالی
سرعت ہے اندھیرے اور اجالے میں غضب کی
اندھیاری اسے چاندنی ہے چودھویں شب کی
گردوں ہو کبھی ہم قدم اس کا یہ ہے دشوار
وہ قافلہ کی گرد ہے یہ قافلہ سالار
وہ ضعف ہے یہ زور وہ مجبور یہ مختار
یہ نام ہے وہ ننگ ہے یہ فخر ہے وہ عار
اک جست میں رہ جاتے ہیں یوں ارض و سما دور
جس طرح مسافر سے دم صبح سرا دور
جو بوند پسینے کی ہے شوخی سے بھری ہے
ان قطروں میں پریوں سے سوا تیز پری ہے
گلشن میں صبا باغ میں یہ کبک دری ہے
فانوس میں پروانہ ہے شیشے میں پری ہے
یہ ہے وہ ہما جس کے جلو دار ملک ہیں
سایہ کی جگہ پر کے تلے ہفت فلک ہیں
ٹھہرے تو فلک سب کو زمیں پر نظر آئے
دوڑے تو زمیں چرخ بریں پر نظر آئے
شہباز ہوا کا نہ کہیں پر نظر آئے
راکب ہی فقط دامن زیں پر نظر آئے
اس راکب و مرکب کی برابر جو ثنا کی
یہ علم خدا کا وہ مشیت ہے خدا کی
شوخی میں پری حسن میں ہے حور بہشتی
طوفان میں راکب کے لئے نوح کی کشتی
کب ابلق دوراں میں ہے یہ نیک سرشتی
یہ خیر ہے وہ شر ہے یہ خوبی ہے وہ زشتی
صحرا میں چمن فصل بہاری ہے چمن میں
رہوار ہے اصطبل میں تلوار ہے رن میں
اس رخش کو عباسؑ اڑاتے ہوئے آئے
کوس لمن الملک بجاتے ہوئے آئے
تکبیر سے سوتوں کو جگاتے ہوئے آئے
اک تیغ نگہ سب پہ لگاتے ہوئے آئے
بے چلے کے کھینچے ہوئے ابرو کی کماں کو
بے ہاتھ کے تانے ہوئے پلکوں کی سناں کو
لکھا ہے مورخ نے کہ اک گبر دلاور
ہفتم سے فروکش تھا میان صف لشکر
روئیں تن و سنگیں دل و بد باطن و بدبر
سر کرکے مہم نیزوں پہ لایا تھا کئی سر
ہمراہ شقی فوج تھی ڈنکا تھا نشاں تھا
جاگیر کے لینے کو سوئے شام رواں تھا
تقدیر جو رن میں شب ہفتم اسے لائی
خلوت میں اسے بات عمر نے یہ سنائی
درپیش ہے سادات سے ہم کو بھی لڑائی
وان پنچتنی چند ہیں یاں ساری خدائی
اکبرؑ کا نہ قاسمؑ کا نہ شپیرؑ کا ڈر ہے
دو لاکھ کو اللہ کی شمشیر کا ڈر ہے
بولا وہ لرز کر کہ ہوا مجھ کو بھی وسواس
شمشیر خدا کون عمر بولا کہ عباسؑ
اس نے کہا پھر فتح کی کیوں کر ہے تجھے آس
بولا کہ کئی روز سے اس شیر کو ہے پیاس
ہم بھی ہیں بہادر نہیں ڈرتے ہیں کسی سے
پر روح نکلتی ہے تو عباسؑ علی سے
تشریف علمدار جری رن میں جو لایا
اس گبر کو چپکے سے عمر نے یہ سنایا
اندیشہ تھا جس شیر کے آنے کا وہ آیا
سر اس نے پرے سے سوئے عباسؑ اٹھایا
دیکھا تو کہا کانپ کے یہ فوج وغا سے
روباہو لڑاتے ہو مجھے شیر خدا سے
مانا کہ خدا یہ نہیں قدرت ہے خدا کی
مجھ میں ہے نرا زور یہ قوت ہے خدا کی
کی خوب ضیافت مری رحمت ہے خدا کی
سب نے کہا تجھ پر بھی عنایت ہے خدا کی
جا عذر نہ کر نام ہے مردوں کا اسی سے
تو دبدبۂ و زور میں کیا کم ہے کسی سے
بادل کی طرح سے وہ گرجتا ہوا نکلا
جلدی میں سلح جنگ کے سجتا ہوا نکلا
ہرگام رہ عمر کو تجتا ہوا نکلا
اور سامنے نقارہ بھی بجتا ہوا نکلا
غالب تھا تہمتن کی طرح اہل جہاں پر
دھنستی تھی زمیں پاؤں وہ رکھتا تھا جہاں پر
تیار کمر کس کے ہوا جنگ پہ خونخوار
اور پیک اجل آیا کہ ہے قبر بھی تیار
خنجر لیا منہ دیکھنے کو اور کبھی تلوار
مثل ورم مرگ چڑھا گھوڑے پہ اک بار
وہ رخش پہ یا دیو دنی تخت زری پر
غل رن میں اٹھا کوہ چڑھا کبک دری پر
اس ہیئت و ہیبت سے وہ نخوت سیر آیا
آسیب کو بھی سائے سے اس کے حذر آیا
میدان قیامت کو بھی محشر نظر آیا
گرد اپنے لیے نیزوں پہ کشتوں کے سر آیا
زندہ ہی پئے سیر نہ ہر صف سے بڑھے تھے
سر مردوں کے نیزوں پہ تماشے کو چڑھے تھے
سیدھا کبھی نیزہ کو ہلایا کبھی آڑا
پڑھ پڑھ کے رجز باغ فصاحت کو اجاڑا
ظالم نے کئی پشت کے مردوں کو اکھاڑا
بولا میری ہیبت نے جگر شیروں کا پھاڑا
ہم پنچہ نہ رستم ہے نہ سہراب ہے میرا
مرحب بن عبدالقمر القاب ہے میرا
فتراک میں سر باندھتا ہوں پیل دماں کا
پنجہ میں سدا پھیرتا ہوں شیر ژیاں کا
نظارا ذرا کیجئے ہر شاخ سناں کا
اس نیزے پہ وہ سر ہے فلاں ابن فلاں کا
جو جو تھے یلان کہن اس دورۂ نو میں
تن ان کے تہ خاک ہیں سر میرے جلو میں
یاں سیف زباں سیف الٰہی نے علم کی
فرمایا مرے آگے ہے تقریر ستم کی
اب منہ سے کہا کچھ تو زباں میں نے قلم کی
کونین نے گردن مرے دروازے پہ خم کی
طاقت ہے ہماری اسداللہ کی طاقت
پنجے میں ہمارے ہے یداللہ کی طاقت
عبدالقمر نحس کا تو داغ جگر ہے
میں چاند علیؑ کا ہوں ارے یہ بھی خبر ہے
خورشید پرستی سے تری کیا مجھے ڈر ہے
قبضہ میں طناب فلک و شمش و قمر ہے
مقدور رہا شمس کی رجعت کا پدر کو
دو ٹکڑے چچا نے کیا انگلی سے قمر کو
خورشید درخشاں میں بتا نور ہے کس کا
کلمہ ورق ماہ پہ مسطور ہے کس کا
اور سورۂ والشمس میں مذکور ہے کس کا
ذرے کو کرے مہر یہ مقدور ہے کس کا
یہ صاحب مقدور نبیؐ اور علیؑ ہیں
یا ہم کہ غلام خلف الصدق نبیؐ ہیں
توبہ تو خدا جانتا ہے شمش و قمر کو
وہ شام کو ہوتا ہے غروب اور یہ سحر کو
ایمان سمجھ مہر شہ جن و بشر کو
شمع رہ معراج ہیں یہ اہل نظر کو
خورشید بنی فاطمہ تو شاہ امم ہیں
اور ماہ بنی ہاشمی آفاق میں ہم ہیں
دو چاند کو کرتی ہے اک انگشت ہماری
ہے مہر نبوت سے ملی پشت ہماری
ہے تیغ ظفر وقت زد و کشت ہماری
سو گرز قضا ضربت یکمشت ہماری
قدرت کے نیستان کے ہم شیر ہیں ظالم
ہم شیر ہیں اور صاحب شمشیر ہیں ظالم
سب کو ہے فنا دور ہمیشہ ہے ہمارا
سر پیش خدا رکھنا یہ پیشہ ہے ہمارا
ہیں شیر خدا جس میں وہ بیشہ ہے ہمارا
عاری ہے اجل جس سے وہ تیشہ ہے ہمارا
ہم جزو بدن اس کے ہیں جو کل کا شرف ہے
رشتے میں ہمارے گہر پاک نجف ہے
جوشن جو دعاؤں میں ہے وہ اپنی زرہ ہے
ہر عقدے کا ناخن مرے نیزے کی گرہ ہے
تلوار سے پانی جگر ہر کہ و مہ ہے
کاٹا پر جبریل کو جس تیغ سے یہ ہے
سرخود و کلہ کا نہیں محتاج ہمارا
شپیر کا ہے نقش قدم تاج ہمارا
احمد ہے چچا میرا پدر حیدرؑ صفدر
وہ کل کا پیمبر ہے یہ کونین کا رہبر
اور مادر زینبؑ کی ہے لونڈی مری مادر
بھائی مرا اک عون دو عبداللہ و جعفر
اور شپر و شپیر ہیں سردار ہمارے
ہم ان کے غلام اور وہ مختار ہمارے
قاسم کا عزادار ہوں اکبرؑ کا میں غمخوار
لشکر کا علمدار ہوں سرور کا جلو دار
میں کرتا ہوں پردا تو حرم ہوتے ہیں اسوار
تھا شب کو نگہبان خیام شہ ابرار
اب تازہ یہ بخشش ہے خدائے ازلی کی
سقا بھی بنا اس کا جو پوتی ہے علیؑ کی
ہم ہانٹتے ہیں روزئ ہر بندۂ غفار
رزاق کی سرکار کے ہیں مالک و مختار
پر حق کی اطاعت ہے جو ہر کار میں درکار
خود وقت سحر روزے میں کھالتے ہیں تلوار
ہیں عقدہ کشا وقت کشا قلعہ کشا بھی
پر صبر سے بندھواتے ہیں رسی میں گلا بھی
اس کے قدم پاک کا فدیہ ہے سر اپنا
قربان کیا جس پہ نبیؐ نے پسر اپنا
نذر سر اکبرؑ ہے دل اپنا جگر اپنا
بیت الشرف شاہ پہ صدقے ہے گھر اپنا
مشہور جو عباسؑ زمانے کا شرف ہے
شپیر کی نعلین اٹھانے کا شرف ہے
شاہوں کا چراغ آتے ہی گل کردیا ہم نے
ہر جا عمل ختم رسل کر دیا ہم نے
خندق پہ در قلعہ کو پل کر دیا ہم نے
اک جزو تھا کلمہ اسے کل کر دیا ہم نے
دھوکا نہ ہو یہ سب شرف شیر خدا ہیں
پھر وہ نہ جدا ہم سے نہ ہم ان سے جدا ہیں
ناری کو بہشتی کے رجز پر حسد آیا
یوں چل کے پئے حملہ وہ ملعون بد آیا
گویا کہ سقر سے عمر عبدود آیا
اور لرزے میں مرحب بھی میان لحد آیا
نفریں کی خدا نے اسے تحسیں کی عمر نے
مجرا کیا عباسؑ کو یاں فتح و ظفر نے
شپیر کو بڑھ بڑھ کے نقیبوں نے پکارا
لو ٹوٹتا ہے دست زبردست تمہارا
ہے مرحب عبدالقمر اب معرکہ آرا
شپیر یقیں جانو کہ عباسؑ کو مارا
یہ گرگ وہ یوسف یہ خزاں ہے وہ چمن ہے
وہ چاند یہ عقرب ہے وہ سورج یہ گہن ہے
اس شور نے تڑپا دیا حضرت کے جگر کو
اکبرؑ سے کہا جاؤ تو عمو کی خبر کو
اکبرؑ بڑھے اور مڑ کے پکارے یہ پدر کو
گھیرا ہے کئی نحس ستاروں نے قمر کو
اک فوج نئی گرد علمدار ہے رن میں
لو ماہ بنی ہاشمی آتا ہے گہن میں
اک گبر قوی آیا ہے کھینچے ہوئے تلوار
کہتا ہے کہ اک حملہ میں ہے فیصلۂ کار
سرکشتوں کے نیزوں پہ ہیں گرد اس کے نمودار
یاں دست بہ قبضہ متبسم ہیں علمدار
اللہ کرے خیر کہ ہے قصد شر اس کو
سب کہتے ہیں مرحب بن عبدالقمر اس کو
غل ہے کہ دل آل عبا توڑے گا مرحب
اب بازوئے شاہ شہدا توڑے گا مرحب
بند کمر شیر خدا توڑے گا مرحب
گوہر کو تہہ سنگ جفا توڑے گا مرحب
مرحب کا نہ کچھ اس کی توانائی کا ڈر ہے
فدوی کو چچا جان کی تنہائی کا ڈر ہے
شہ نے کہا کیا روح علیؑ آئی نہ ہوگی
نانا نے مرے کیا یہ خبر پائی نہ ہوگی
کیا فاطمہؑ فردوس میں گھبرائی نہ ہوگی
سر ننگے وہ تشریف یہاں لائی نہ ہوگی
بندوں پہ عیاں زور خدا کرتے ہیں عباسؑ
پیارے مرے دیکھو تو کہ کیا کرتے ہیں عباسؑ
سن کر یہ خبر بیبیاں کرنے لگیں نالا
ڈیوڑھی پہ کمر پکڑے گئے سید والا
چلائے کہ فضہ علی اصغر کو اٹھا لا
ہے وقت دعا چھوٹتا ہے گود کا پالا
سیدانیو! سر کھول دو سجادہ بچھا دو
دشمن پہ علمدار ہو غالب یہ دعا دو
خیمے میں قیامت ہوئی فریاد بکا سے
سہمی ہوئی کہتی تھی سکینہؑ یہ خدا سے
غارت ہو الٰہی جو لڑے میرے چچا سے
وہ جیتے پھریں خیر میں مرجاؤں بلا سے
صدقے کروں قربان کروں اہل جفا کو
دو لاکھ نے گھیرا ہے مرے ایک چچا کو
ہے ہے کہیں اس ظلم و ستم کا ہے ٹھکانا
سقے پہ سنا ہے کہیں تلوار اٹھانا
کوئی بھی روا رکھتا ہے سید کا ستانا
جائز ہے کسی پیاسے سے پانی کا چھپانا
ہفتم سے غذا کھائی ہے نے پانی پیا ہے
بے رحموں نے کس دکھ میں ہمیں ڈال دیا ہے
اچھی مری اماں مرے سقے کو بلاؤ
کہہ دو کہ سکینہؑ ہوئی آخر ادھر آؤ
اب پانی نہیں چاہیے تابوت منگاؤ
کاندھے سے رکھو مشک جنازے کو اٹھاؤ
ملنے مری تربت کے گلے آئیں گے عباسؑ
یہ سنتے ہی گھبرا کے چلے آئیں گے عباسؑ
اس عرصہ میں حملے کئے مرحب نے وہاں چار
پر ایک بھی اس پنچتنی پر نہ چلا وار
مانند دل و چشم ہر اک عضو تھا ہشیار
عاری ہوئی تلوار مخالف ہوا ناچار
جب تیغ کو جھنجلا کے رخ پاک پہ کھینچا
تلوار نے انگلی سے الف خاک پہ کھینچا
غازی نے کہا بس اسی فن پر تھا تجھے ناز
سیکھا نہ یداللٰہیوں سے ضرب کا انداز
پھر کھینچی اس انداز سے تیغ شرر انداز
جو میان کے بھی منہ سے ذرا نکلی نہ آواز
یاں خوف سے قالب کو کیا میان نے خالی
واں قالب اعدا کو کیا جان نے خالی
یہ تیغ سراپا جو برہنہ نظر آئی
پھر جامۂ تن میں نہ کوئی روح سمائی
ہستی نے کہا توبہ قضا بولی دہائی
انصاف پکارا کہ ہے قبضہ میں خدائی
لو فتح مجسم کا وہ سر جیب سے نکلا
نصرت کے فلک کا مہ نو غیب سے نکلا
بجلی گری بجلی پہ اجل ڈر کے اجل پر
اک زلزلہ طاری ہوا گردوں کے محل پر
سیارے ہٹے کر کے نظر تیغ کے پھل پر
خورشید تھا مریخ یہ مریخ زحل پر
یہ ہول دیا تیغ درخشاں کی چمک نے
جو تاروں کے دانتوں سے زمیں پکڑی فلک نے
مرحب سے مخاطب ہوئے عباسؑ دلاور
شمشیر کے مانند سراپا ہوں میں جوہر
ممکن ہے کہ اک ضرب میں دو ہو تو سراسر
پر اس میں عیاں ہوں گے نہ جوہر مرے تجھ پر
لے روک مرے وار ترے پاس سپر ہے
زخمی نہ کروں گا ابھی اظہار ہنر ہے
کاندھے سے سپر لے کے مقابل ہوا دشمن
بتلانے لگے تیغ سے یہ ضرب کا ہرفن
یہ سینہ یہ بازو یہ کمر اور یہ گردن
یہ خود یہ چار آئنہ یہ ڈھال یہ جوشن
کس وار کو وہ روکتا تلوار کہاں تھی
آنکھوں میں تو پھرتی تھی نگاہوں سے نہاں تھی
مرحب نے نہ پھر ڈھال نہ تلوار سنبھالی
اس ہاتھ سے سر ایک سے دستار سنبھالی
ظالم نے سناں غصے سے اک بار سنبھالی
اس شیر نے شمشیر شرر ہار سنبھالی
تانی جو سناں اس نے علمدار کے اوپر
یہ نیزا اڑا لے گئے تلوار کے اوپر
جو چال چلا وہ ہوا گمراہ و پریشاں
پھر زائچہ کھینچا جو کماں کا سر میداں
تیروں کی لڑائی پہ پڑا قرعۂ پیکاں
تیروں کو قلم کرنے لگی تیغ درخشاں
جوہر سے نہ تیروں ہی کے پھل داغ بدل تھے
گر شست کے تھے ساٹھ تو چلہ کے چہل تھے
اس تیغ نے سرکش کے جو ترکش میں کیا گھر
غل تھا کہ نیستاں میں گری برق چمک کر
پر تیروں کے کٹ کٹ کے اڑے مثل کبوتر
مرحب ہوا مضطر صفت طائر بے پر
بڑھ کر کہا غازی نے بتا کس کی ظفر ہے
اب مرگ ہے اور تو ہے یہ تیغ اور یہ سر ہے
نامرد نے پوشیدہ کیا رخ کو سپر سے
اور کھینچ لیا خنجر ہندی کو کمر سے
خنجر تو ادھر سے چلا اور تیغ ادھر سے
اس وقت ہوا چل نہ سکی بیچ میں ڈر سے
اللہ رے شمشیر علمدار کے جوہر
جوہر کیے اس خنجر خونخوار کے جوہر
خنجر کا جو کاٹا تو وہ ٹھہری نہ سپر پر
ٹھہری نہ سپر پر تو وہ سیدھی گئی سر پر
سیدھی گئی سر پر تو وہ تھی صدر و کمر پر
تھی صدر و کمر پر تو وہ تھی قلب و جگر پر
تھی قلب و جگر پر تو وہ تھی دامن زیں پر
تھی دامن زیں پر تو وہ راکب تھا زمیں پر
ایماں نے اچھل کر کہا وہ کفر کو مارا
قدرت نے پکارا کہ یہ ہے زور ہمارا
حیدر سے نبیؐ بولے یہ ہے فخر تمہارا
حیدرؑ نے کہا یہ مری پتلی کا ہے تارا
پروانۂ شمع رخ تاباں ہوئیں زہراؑ
محسن کو لیے گود میں قرباں ہوئیں زہراؑ
ہنگامہ ہوا گرم یہ ناری جو ہوا سرد
واں فوج نے لی باگ بڑھا یاں یہ جواں مرد
ٹاپوں کی صدا سے سر قاروں میں ہوا درد
رنگ رخ اعدا کی طرح اڑنے لگی گرد
قاروں کا زر گنج نہانی نکل آیا
یہ خاک اڑی رن سے کہ پانی نکل آیا
جو زندہ تھے العظمۃ للٰلہ پکارے
سر مردوں کے نیزوں پہ جو تھے واہ پکارے
ڈرکر عمر سعد کو گمراہ پکارے
خوش ہو کے علمدار سوئے شاہ پکارے
یاں تو ہوا یا حضرت شپیر کا نعرہ
شپیر نے ہنس کر کیا تکبیر کا نعرہ
پردے کے قریب آ کے بہن شہ کی پکاری
دشمن پہ ہوئی فتح مبارک ہو میں واری
اب کہتی ہوں میں دیکھتی تھی جنگ یہ ساری
عباسؑ کی اک ضرب میں ٹھنڈا ہوا ناری
مرحب کو تو خیبر میں یداللہ نے مارا
ہم نام کو ابن اسد اللہ نے مارا
میداں میں علمدار کے جانے کے میں صدقے
اس فاقے میں تلوار لگانے کے میں صدقے
باہم علم و مشک اٹھانے کے میں صدقے
اس پیاس میں اک بوند نہ پانے کے میں صدقے
سقا بنا پیاسوں کا مروت کے تصدق
بے سر کیا شہ زوروں کو قوت کے تصدق
تم دونوں کا ہر وقت نگہبان خدا ہو
دیکھے جو بری آنکھ سے غارت ہو فنا ہو
دونوں کی بلا لے کے یہ ماں جائی فدا ہو
رو کر کہا حضرت نے بہن دیکھیے کیا ہو
منہ چاند سا مجھ کو جو دکھائیں تو میں جانوں
دریا سے سلامت جو پھر آئیں تو میں جانوں
زینبؑ سے بحسرت یہ بیاں کرتے تھے مولا
ناگاہ سکینہؑ نے سنا فتح کا مژدا
چلائی میں صدقے ترے اچھی مری فضا
جا جلد بلائیں مرے عمود کی تو لے آ
دکھ پیاس کا کہہ کر انہیں مدہوش نہ کرنا
پر یاد دلانا کہ فراموش نہ کرنا
لینے کو بلائیں گئی فضہ سوئے جنگاہ
عباسؑ نے آتے ہوئے دیکھا اسے ناگاہ
چلائے کہ پھر جا میں ہوا آنے سے آگاہ
کہہ دینا سکینہؑ سے ہمیں یاد ہے واللہ
دل پیاس سے بی بی کا ہوا جاتا ہے پانی
لے کر ترے بابا کا غلام آتا ہے پانی
دریا کو چلے ابر صفت ساتھ لیے برق
مرحب کے شریکوں کا جدا کرتے ہوئے فرق
سردار میں اور فوج میں باقی نہ رہا فرق
مرحب کی طرح سب چہ ہب ہب میں ہوئے غرق
تلوار کی اک موج نے طوفان اٹھایا
طوفان نے سر پر وہ بیابان اٹھایا
پانی ہوئی ہر موج زرہ فوج کے تن میں
ملبوس میں زندے تھے کہ مردے تھے کفن میں
خنجر کی زبانوں کو قلم کرکے دہن میں
اک تیغ سے تلواروں کو عاری کیا رن میں
حیدر کا اسد قلزم لشکر میں در آیا
امڈے ہوئے بادل کی طرح نہر پر آیا
دریا کے نگہبان بڑھے ہونے کو چو رنگ
پہنے ہوئے مچھلی کی طرح بر میں زرہ تنگ
کھینچے ہوئے موجوں کی طرح خنجر بے زنگ
سقے نے کہا پانی پہ جائز ہے کہاں جنگ
دریا کے نگہبان ہو پر غفلت دیں ہے
مانند حباب آنکھ میں بینائی نہیں ہے
مذہب ہے یہ کیسا کہ رہ شرع نہ جانی
مشرب ہے یہ کیسا کہ پلاتے نہیں پانی
بے شیر کا بچپن علی اکبرؑ کی جوانی
برباد کیے دیتی ہے اب تشنہ دہانی
لب خشک ہیں بچوں کی زباں پیاس سے شق ہے
دریا ہی سے تم پوچھ لو کس پیاسے کا حق ہے
پانی مجھے اک مشک ہے اس نہر سے درکار
بھر لینے دو مجھ کو نہ کرو حجت و تکرار
چلائے ستم گر ہے گزر نہر پہ دشوار
غازی نے کہا ہاں پہ ارادہ ہے تو ہشیار
لو سیل کو اور برق شرر بار کو روکو
رہوار کو روکو مری تلوار کو روکو
یہ کہہ کے کیا اسپ سبک تاز کو مہمیز
بجلی کی طرح کوند کے چمکا فرس تیز
اشرار کے سر پر ہوا نعلوں سے شرر ریز
سیلاب فنا تھا کہ وہ طوفان بلا خیز
جھپکی پلک اس رخش کو جب قہر میں دیکھا
پھر آنکھ کھلی جب تو رواں نہر میں دیکھا
دریا میں ہوا غل کہ وہ در نجف آیا
الیاسؑ و خضرؑ بولے ہمارا شرف آیا
عباسؑ شہنشاہ نجف کا خلف آیا
پا بوس کو موتی لیے دست صدف آیا
یاد آ گئی پیاسوں کی جو حیدرؑ کے خلف کو
دل خون ہوا دیکھ کے دریا کی طرف کو
سوکھے ہوئے مشکیزہ کا پھر کھولا دہانہ
بھرنے لگا خم ہو کے وہ سرتاج زمانہ
اعدا نے کیا دور سے تیروں کا نشانہ
اور چوم لیا روح یداللہ نے شانہ
فرمایا کہ کیا کیا مجھے خوش کرتے ہو بیٹا
پانی مری پوتی کے لیے بھرتے ہو بیٹا
کچھ فرق تری کوشش و ہمت میں نہیں ہے
پانی مگر اس پیاسی کی قسمت میں نہیں ہے
وقفہ مرے پیارے کی شہادت میں نہیں ہے
جو زخم میں لذت ہے جراحت میں نہیں ہے
اک خون کی نہر آنکھوں سے زہراؑ کے بہی ہے
رونے کو تری لاش پہ سر کھول رہی ہے
دریا سے جو نکلا اسداللہ کا جانی
تھا شور کہ وہ شیر لیے جاتا ہے پانی
پھر راہ میں حائل ہوئے سب ظلم کے بانی
سقائے سکینہؑ کی یہ کی مرتبہ دانی
قبریں نبیؐ و حیدرؑ و زبیراؑ کی ہلادیں
برچھوں کی جو نوکیں تھیں کلیجے سے ملا دیں
وہ کون سا تھا تیر جو دل پر نہ لگایا
مشکیزے کے پانی سے سوا خون بہایا
یہ نرغہ تھا جو شمر نے حیلے سے سنایا
عباسؑ بچو غول کمیں گاہ سے آیا
مڑ کر جو نظر کی خلف شیر خدا نے
شانوں کو تہہ تیغ کیا اہل جفا نے
لکھا ہے کہ ایک نخل رطب تھا سر میداں
ابن ورقہ زید لعیں اس میں تھا پنہاں
پہنچا جو وہاں سرو روان شہ مرداں
جو شانہ تھا مشک و علم و تیغ کے شایاں
وار اس پہ کیا زید نے شمشیر اجل سے
یہ پھولی پھلی شاخ کٹی تیغ کے پھل سے
مشک و علم و تیغ کو بائیں پہ سنبھالا
اور جلد چلا عاشق روئے شہ والا
پر ابن طفیل آگے بڑھاتان کے بھالا
برچھی کی انی سے تو کیا دل تہہ و بالا
اور تیغ کی ضربت سے جگر شاہ کا کاٹا
وہ ہاتھ بھی فرزند یداللہ کا کاٹا
سقے نے کئی بانہوں پہ مشکیزہ کو رکھ کر
مانند زباں منہ میں لیا تسمہ سراسر
ناگاہ کئی تیر لگے آگے برابر
اک مشک پہ اک آنکھ پہ اور ایک دہن پر
مشکیزے سے پانی بہا اور خوں بہا تن سے
عباسؑ گرے گھوڑے سے اور مشک دہن سے
گر کر لب زخمی سے علمدار پکارا
کہہ دو کوئی پیاسوں سے کہ سقا گیا مارا
سن لی یہ صدا شاہ شہیداں نے قضارا
زینبؑ سے کہا لو نہ رہا کوئی ہمارا
اصغرؑ کا گلا چھد گیا اکبرؑ کا جگر بھی
بازو بھی مرے ٹوٹ گئے اور کمر بھی
گویا کہ اسی وقت جلے خیمے ہمارے
ظالم نے طمانچے بھی مری بیٹی کو مارے
رسی میں مرے خورد و کلاں بندھ گئے سارے
عباسؑ کے غم میں ہوئے ہم گور کنارے
اعدا میں ہے غل مالک شمشیر کو مارا
یہ کیوں نہیں کہتے ہیں کہ شپیر کو مارا
زینبؑ نے کہا سچ ہے تمہیں مرگئے بھائی
سب کنبے کو عباسؑ فنا کر گئے بھائی
آفاق سے اب حمزہؑ حیدرؑ گئے بھائی
ہم مجلس حاکم میں کھلے سر گئے بھائی
میں جان چکی قید مصیبت میں پڑی ہوں
اب گھر میں نہیں بلوے میں سر ننگے کھڑی ہوں
ناگاہ صدا آئی کہ اے فاطمہؑ کے لال
جلد آؤ کہ لاشہ مرا اب ہوتا ہے پامال
زینبؑ نے کہا زندہ ہیں عباسؑ خوش اقبال
تم جاؤ میں یاں بہر شفا کھولتی ہوں بال
شہ بولے لب گور سکینہؑ کا چچا ہے
اس فوج کا مارا ہوا کوئی بھی بچا ہے
اکبرؑ کے سہارے سے چلے نہر پہ آقا
گہ ہوش تھا گہ غش کبھی سکتہ کبھی نوحا
لکھا ہے کہ ٹکڑے ہوئے یوں سقے کی اعضا
اک ہاتھ تو مقتل میں ملا اک لب دریا
زہراؑ کا پسر رن میں جو زیر شجر آیا
اک ہاتھ تڑپتا ہوا شہ کو نظر آیا
گر کر شہ والا نے یہ اکبر سے کہی بات
اے لال اٹھا لو مرے بازو کا ہے یہ ہاتھ
یہ ہاتھ رکھے سینہ پہ وہ وارث سادات
پہنچا جو سر لاشۂ عباسؑ خوش اوقات
ہیہات قلم تیغوں سے شانے نظر آئے
سر ننگے یداللہ سرہانے نظر آئے
بے ساختہ ماتھے پہ رکھا شاہ نے ماتھا
لب رکھ کے لبوں پر کہا وا حسرت و در وا
یہ تیر یہ آنکھ اور یہ نیزہ یہ کلیجا
وا قرۃ عینا مرے وا مہجۃ قلبا
کچھ منہ سے تو بولو مرے غمخوار برادر
عباسؑ ابوالفضل علمدار برادر
اس جاں شکنی میں جو سنا شیون مولا
تعظیم کی نیت میں کٹے شانوں کو ٹیکا
پھر پاؤں سمیٹے کہ نہ ہوں پائنتی آقا
شہ بولے نہ تکلیف کرو اے میرے شیدا
کی عرض میں پھیلائے ہوئے پاؤں پڑا ہوں
حضرت نے یہ فرمایا سرہانے میں کھڑا ہوں
یاں تھی یہ قیامت وہاں خیمہ میں یہ محشر
در پر تھیں نبی زادیاں سب کھولے ہوئے سر
تشویش تھی کیوں لاش کو لے آئے نہ سرور
عباسؑ کا فرزند سراسیمہ تھا باہر
تن رعشے میں خورشید درخشاں کی طرح تھا
دل ٹکڑے یتیموں کے گریباں کی طرح تھا
ضد کرتا تھا ماں سے مرے بابا کو بلا دو
میں نہر پہ جاتا ہوں مرا نیمچہ لادو
ماں کہتی تھی بابا کو سکینہؑ کے دعا دو
بابا بھی چچا کو کہو بابا کو بھلا دو
حیدرؑ سے نویں سال چھڑایا تھا قضا نے
واری ترے بابا کو بھی پالا تھا چچا نے
دریا پہ ابھی گھر گئے تھے باپ تمہارے
پیارے کے چچا جان انہیں لینے کو سدھارے
تو رہ یہیں اے میرے رنڈاپے کے سہارے
بابا کو چچا جاں لیے آتے ہیں پیارے
تھا عشق جو عباسؑ سے اس نیک خلف کو
بڑھ بڑھ کے نظر کرتا تھا دریا کی طرف کو
ناگاہ پھرا پیٹتا منہ کو وہ پریشاں
زینبؑ نے کہا خیر تو ہے میں ترے قرباں
چلایا کہ خادم کی یتیمی کا ہے ساماں
بھیا علی اکبر نے ابھی پھاڑا گریباں
بن باپ کا بچپن میں ہمیں کر گئے بابا
مردے سے لپٹتے ہیں چچا مر گئے بابا
یہ غل تھا جو مولا لیے مشک و علم آلے
خیمہ میں کمر پکڑے امام امم آئے
اور گرد علم بال بکھیرے حرم آئے
زینبؑ سے کہا شہ نے بہن لٹ کے ہم آئے
بھائی کے یتیموں کی پرستار ہو زینبؑ
تم مہتمم سوگ علمدار ہو زینب
ہاں سوگ کا حیدرؑ کے سیہ فرش بچھاؤ
ہیں رخت عزا جس میں وہ صندوق منگاؤ
دو سب کو سیہ جوڑے عزادار بناؤ
شپر کی عزا کا ہمیں ملبوس پنہاؤ
تم پہنو وہ کالی کفنی آل عبا میں
جو فاطمہؑ نے پہنی تھی نانا کی عزا میں
عباسؑ کا یہ سوگ نہیں سوگ ہے میرا
عباسؑ کا ماتم ہو مرے گھر میں جو برپا
نوحے میں نہ عباسؑ کہے نہ کہے سقا
جو بین کرے رو کے کہے ہائے حسیناؑ
سب لونڈیاں یوں روئیں کہ آقا گیا مارا
چلائے سیکنہؑ بھی کہ بابا گیا مارا
زینب نے کہا ہیں میری قسمت کے یہی کام
دینے لگی ماتم کے یہ جوڑے تو وہ ناکام
فضہ سے کہا سوگ کا کرتی ہوں سر انجام
ٹھنڈا ہوا ہے ہے علم لشکر اسلام
زہراؑ کا لباس اپنے لیے چھانٹ رہی ہوں
عباسؑ کا ملبوس عزا بانٹ رہی ہوں
پھر زیر علم فرش سیہ لا کے بچھایا
اور بیوۂ عباسؑ کو خود لا کے بٹھایا
تھے جتنے سیہ پوش انہیں رو کے سنایا
قسمت نے جواں بھائی کا بھی داغ دکھایا
ناسور نہ کس طرح سے ہو دل میں جگر میں
ماتم ہے علمدار کا سردار کے گھر میں
باقی کوئی دستور عزا رہنے نہ پائے
اب خیمہ میں اپنے ہر اک اس خیمہ سے جائے
ایک ایک یہاں پُرسے کو عباسؑ کے آئے
سر ننگے لب فرش سے زینبؑ اسے لائے
یہ جعفر و حمزہ کا یہ حیدرؑ کا ہے ماتم
شپیر کا اکبرؑ کا اور اصغر کا ہے ماتم
سب خیموں میں اپنے گئیں کرتی ہوئی زاری
یاں کرنے لگی بین ید اللہ کی پیاری
فضہ نے کہا زینب مضطر سے میں واری
اے بنت علیؑ آتی ہے بانو کی سواری
منہ زیر علم ڈھانپے علمدار کی بی بی
پُرسے کے لیے آتی ہے سردار کی بی بی
بانو نے قدم پیچھے رکھا فرش سیہ پر
پہلے وہاں بٹھلا دیا اصغر کو کھلے سر
پھر سوئے علم پیٹتی دوڑی وہ یہ کہہ کر
قربان وفا پر تری اے بازوئے سرور
سنتی ہوں تہہ تیغ ستم ہو گئے بازو
دریا پہ بہشتی کے قلم ہو گئے بازو
عباسؑ کو تو میں نہ سمجھتی تھی برادر
میں ان کو پسر کہتی تھی اور وہ مجھے مادر
اس شیر کے مرجانے سے بیکس ہوئے سرور
بے جان ہوا حافظ جان علی اکبر
سب کہتے ہیں حضرت کا برادر گیا مارا
پوچھو جو مرے دل سے تو اکبرؑ گیا مارا
اتنے میں سنی بالی سیکنہؑ کی دہائی
زینب نے کہا روح علمدار کی آئی
جوڑے ہوئے ہاتھوں کو وہ شپیر کی جائی
کہتی تھی سزا پانی کے منگوانے کی پائی
تعذیر دو یا دختر شپیر کو بخشو
کس طرح کہوں میں مری تقصیر کو بخشو
میں نے تمہیں بیوہ کیا رنڈ سالہ پنہایا
ہے ہے مری اک پیاس نے سب گھر کو رلایا
کوثر پہ سدھارا اسد اللہ کا جایا
اور کنبے کا الزام مرے حصے میں آیا
انصاف کرو لوگوں یہ کیا کر گئے عمو
میں پیاسی کی پیاسی رہی اور مر گئے عمو
بعد اس کے ہوا شور کہ لو آتی ہے بیوہ
تشریف نئی بیوہ کے گھر لاتی ہے بیوہ
گھونگھٹ کو الٹتے ہوئے شرماتی ہے بیوہ
سر گوندھا ہوا ساس سے کھلواتی ہے بیوہ
زینبؑ نے کہا بیوۂ فرزند حسنؑ ہے
یہ کیوں نہیں کہتے مرے قاسمؑ کی دلہن ہے
کبراؑ کو چچی پاس جو زینبؑ نے بٹھایا
اس بیوہ نے گھونگھٹ رخ کبرؑیٰ سے ہٹایا
اور پوچھا کہ دولہا ترا کیوں ساتھ نہ آیا
افسوس چچی نے تجھے مہماں نہ بلایا
پرسے کو تو آئی خلف شیر خدا کے
پہلا ترا چالا یہ ہوا گھر میں چچا کے
ناگاہ فغاں زیر علم یہ ہوئی پیدا
سیدانیو دو مادر عباسؑ کو پرسا
تعظیم کو سب اٹھے کہ ہے نالۂ زہراؑ
زینبؑ نے کہا اماں وطن میں ہے وہ دکھیا
آئی یہ ندا پاس ہوں میں دور کہاں ہوں
عباسؑ مرا بیٹا میں عباسؑ کی ماں ہوں
رنڈ سالہ بہو کو میں پہنانے کو ہوں آئی
اک حُلۂ پر نور ہوں فردوس سے لائی
عباسؑ کے ماتم کی تو صف تم نے بچھائی
سامان سوئم ہوگا نہ کچھ اے مری جائی
تم روز سوئم ہائے رواں شام کو ہوگی
چہلم کو کفن لاش علمدار کو دوگی
لو حیدریو وارد مجلس ہوئیں زہراؑ
دو فاطمہؑ کی روح کو عباسؑ کا پرسا
اب تک نہیں کفنائے گئے ہیں شہ والا
بے گور ہے سردار و علمدار کا لاشا
رونے نہیں دیتے ہیں عدو آل نبی کو
تم سب کے عوض روؤ حسینؑ ابن علی کو
خاموش دبیرؔ اب کہ نہیں نظم کا یارا
مداح کا دل خنجر غم سے ہے دو پارا
کافی پئے بخشش یہ وسیلہ ہے ہمارا
اک ہفتے میں تصنیف کیا مرثیہ سارا
تجھ پر کرم خاص ہے یہ حق کے ولی کا
یہ فیض ہے سب مدح جگر بند علیؑ کا
- मिर्ज़ा-सलामत-अली-दबीर
جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے لبوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
- میر-انیس
किस शेर की आमद है कि रन काँप रहा है
रुस्तम का जिगर ज़ेर-ए-कफ़न काँप रहा है
हर क़स्र-ए-सलातीन-ए-ज़मन काँप रहा है
सब एक तरफ़ चर्ख़-ए-कुहन काँप रहा है
शमशीर-बकफ़ देख के हैदर के पिसर को
जिब्रील लरज़ते हैं समेटे हुए पर को
हैबत से हैं न क़िला-ए-अफ़लाक के दरबंद
जल्लाद-ए-फ़लक भी नज़र आता है नज़र-बंद
वा है कमर-ए-चर्ख़ से जौज़ा का कमर-बंद
सय्यारे हैं ग़लताँ सिफ़त-ए-ताइर-ए-पुर-बंद
अंगुश्त-ए-अतारिद से क़लम छूट पड़ा है
ख़ुरशीद के पंजे से इल्म छूट पड़ा है
ख़ुद फ़ितना ओ शर पढ़ रहे हैं फ़ातिहा-ए-ख़ैर
कहते हैं अनल-अब्द लरज़ कर सनम-ए-दैर
जाँ ग़ैर है तन ग़ैर मकीँ ग़ैर मकाँ ग़ैर
ने चर्ख़ का है दूर न सय्यारों की है सैर
सकते में फ़लक ख़ौफ़ से मानिंद-ए-ज़ीं है
जुज़ बख़्त-ए-यज़ीद अब कोई गर्दिश में नहीं है
बे-होश है बिजली पे समंद इन का है होशियार
ख़्वाबीदा हैं सब ताला-ए-अब्बास है बे-दार
पोशीदा है ख़ुरशीद इल्म उन का नुमूदार
बे-नूर है मुँह चाँद का रुख़ उन का ज़िया-बार
सब जुज़ु हैं कल रुतबे में कहलाते हैं अब्बास
कौनैन पियादा हैं सवार आते हैं अब्बास
चमका के मह-ओ-ख़ौर ज़र ओ नुक़रा के असा को
सरकाते हैं पीरे फ़लक-ए-पुश्त-दोता को
अदल आगे बढ़ा हुक्म ये देता है क़ज़ा को
हाँ बांध ले ज़ुल्म-ओ-सितम-ओ-जोर-ओ-जफ़ा को
घर लूट ले बुग़्ज़-ओ-हसद-ओ-किज़्ब-ओ-रिया का
सर काट ले हिर्स-ओ-तमा-ओ-मकर-ओ-दग़ा का
राहत के महलों को बला पूछ रही है
हस्ती के मकानों को फ़ना पूछ रही है
तक़दीर से उम्र अपनी क़ज़ा पूछ रही है
दोनों का पता फ़ौज-ए-जफ़ा पूछ रही है
ग़फ़लत का तो दिल चौंक पड़ा ख़ौफ़ से हिल कर
फ़ितने ने किया ख़ूब गले कुफ्र से मिल कर
अल-नशर का हंगामा है इस वक़्त हश्र में
अल-सूर का आवाज़ा है अब जिन ओ बशर में
अल-जुज़ का है तज़किरा बाहम तन-ओ-सर में
अल-वस्ल का ग़ुल है सक़र ओ अहल-ए-सक़र में
अल-हश्र जो मुर्दे न पुकारें तो ग़ज़ब है
अल-मौत ज़बान-ए-मलक-उल-मौत पे अब है
रूकश है उस इक तन का न बहमन न तमहतीं
सुहराब ओ नरीमान ओ पशुन बे-सर ओ बे-तन
क़ारों की तरह तहत-ए-ज़मीं ग़र्क़ है क़ारन
हर आशिक़-ए-दुनिया को है दुनिया चह-ए-बे-ज़न
सब भूल गए अपना हस्ब और नस्ब आज
आता है जिगर-गोशा-ए-क़िताल-ए-अरब आज
हर ख़ुद निहाँ होता है ख़ुद कासा-ए-सर में
मानिंद-ए-रग-ओ-रेशा ज़र्रा छुपती है बर में
बे-रंग है रंग असलहे का फ़ौज-ए-उम्र में
जौहर है न तैग़ों में न रौगन है सिपर में
रंग उड़ के भरा है जो रुख़-ए-फ़ौज-ए-लईं का
चेहरा नज़र आता है फ़लक का न ज़मीं का
है शोर फ़लक का कि ये ख़ुरशीद-ए-अरब है
इंसाफ़ ये कहता है कि चुप तर्क-ए-अदब है
ख़ुरशीद-ए-फ़लक पर तव-ए-आरिज़ का लक़ब है
ये क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब है
हर एक कब इस के शरफ़-ओ-जाह को समझे
इस बंदे को वो समझे जो अल्लाह को समझे
यूसुफ़ है ये कुनआँ में सुलेमान है सबा में
ईसा है मसीहाई में मूसा है दुआ में
अय्यूब है ये सब्र में यहया है बका में
शपीर है मज़लूमी में हैदर है वग़ा में
क्या ग़म जो न मादर न पिदर रखते हैं आदम
अब्बास सा दुनिया में पिसर रखते हैं आदम
पंजे में यदुल्लाह है बाज़ू में है जाफ़र
ताअत में मुलक ख़ू में हसन ज़ोर में हैदर
इक़बाल में हाशिम तो तवाज़ो में पयंबर
और तंतना-ओ-दबदबा में हमज़ा-ए-सफ़दर
जौहर के दिखाने में ये शमशीर-ए-ख़ुदा है
और सर के कटाने में ये शाह-ए-शोहदा है
बे उन के शर्फ़ कुछ भी ज़माना नहीं रखता
ईमान सिवा उन के ख़ज़ाना नहीं रखता
क़ुरआँ भी कोई और फ़साना नहीं रखता
शपीर बगै़र उन के यगाना नहीं रखता
ये रूह-ए-मुक़द्दस है फ़क़त जलव-गिरी में
ये अक़ल-ए-मुजर्रिद है जमाल-ए-बशरी में
सहरा में गिरा परतव-ए-आरिज़ जो क़ज़ारा
सूरज की किरन ने किया शर्मा के किनारा
यूँ धूप एड़ी आग पे जिस तरह से पारा
मूसा की तरह ग़श हुए सब कैसा नज़ारा
जुज़ मदह न दम रोशनई-ए-तूर ने मारा
शब-ए-ख़ून अजब धूप पे उस नूर ने मारा
क़ुर्बान हवा-ए-इल्म-ए-शाह-ए-अमम के
सब ख़ार हरे हो के बने सर्व-ए-इरम के
हैं राज़ अयाँ ख़ालिक़-ए-ज़ुलफ़ज़्ल-ओ-करम के
जिब्रील ने पर खोले हैं दामन में इल्म के
पर्चम का जहाँ अक्स गिरा साइक़ा चमका
पर्चम कहीं देखा न सुना इस चम-ओ-ख़म का
क़र्ना में न दम है न जलाजुल में सदा में है
बूक़ ओ दहल ओ कोस की भी साँस हुआ है
हर दिल के धड़कने का मगर शोर बपा है
बाजा जो सलामी का उसे कहिए बजा है
सकते में जो आवाज़ है नक़्कारा-ए-वदफ़ की
नौबत है वरूद-ए-ख़ल्फ़-ए-शाह-ए-नजफ़ की
आमद को तो देखा रुख़-ए-पुर-नूर को देखो
वालशमश पढ़ो रौशनी-ए-तूर को देखो
लिए रौशनी-ए-माह को ने हूर को देखो
इस शम्मा-ए-मुराद-ए-मुलक-ओ-हूर को देखो
है कौन तजल्ली रुख़-ए-पुर-नूर की मानिंद
याँ रौशनी-ए-तूर जली तूर के मानिंद
मद्दाह को अब ताज़गी-ए-नज़्म में कद है
या हज़रत-ए-अब्बास-ए-अली वक़्त-ए-मदद है
मौला की मदद से जो सुख़न हो वो सनद है
इस नज़्म का जो हो ना मक़र उस को हसद है
हासिद से सुलह भी नहीं दरकार है मुझ को
सरकार-ए-हुसैनी से सरोकार है मुझ को
गुलज़ार है ये नज़्म ओ बयाँ बेशा नहीं है
बाग़ी को भी गुलगश्त में अंदेशा नहीं है
हर मिस्र-ए-पर-जस्ता है फल तेशा नहीं है
याँ मग़्ज़ सुख़न का है रग-ओ-रेशा नहीं है
सेहत मिरी तशख़ीस से है नज़्म के फ़न की
मानिंद-ए-क़लम हाथ में है नब्ज़ सुख़न की
गर काह मिले फ़ाएदा क्या कोहकनी से
मैं काह को गुल करता हूँ रंगीं-ए-सुख़नी से
ख़ुश-रंग है अलफ़ाज़ अक़ीक़-ए-यमनी से
ये साज़ है सोज़-ए-ग़म-ए-शाह-ए-मदनी से
आहन को करूँ नर्म तो आइना बना लूँ
पत्थर को करूँ गर्म तो मैं इत्र बना लूँ
गो ख़िलअत तहसीं मुझे हासिल है सरापा
पर वस्फ़ सरापा का तो मुश्किल है सरापा
हर अज़्व-ए-तन इक क़ुदरत-ए-कामिल है सरापा
ये रूह है सर-ता-बक़दम दिल है सरापा
क्या मिलता है गर कोई झगड़ता है किसी से
मज़मून भी अपना नहीं लड़ता है किसी से
सूरज को छुपाता है गहन आइना को ज़ंग
दाग़ी है क़मर-ए-सोख़्ता ओ लाला-ए-ख़ुश-रंग
क्या अस्ल दर- ओ लअल की वो पानी है ये संग
देखो गुल ओ ग़ुन्चा वो परेशाँ है ये दिल-ए-तंग
इस चेहरे को दावर ही ने लारेब बनाया
बे-ऐब था ख़ुद नक़्श भी बे-ऐब बनाया
इंसाँ कहे उस चेहरे को कब चश्मा-ए-हैवाँ
ये नूर वो ज़ुल्मत ये नुमूदार वो पिनहाँ
बरसों से है आज़ार-ए-बर्स में मह-ए-ताबाँ
कब से यरक़ाँ महर को है और नहीं दरमाँ
आइना है घर ज़ंग काया रंग नहीं है
इस आइना में रंग है और ज़ंग नहीं है
आइना कहा रुख़ को तो कुछ भी न सुना की
सनअत वो सिकन्दर की ये सनअत है ख़ुदा की
वाँ ख़ाक ने सैक़ल यहाँ क़ुदरत ने जिला की
ताला ने किस आइना को ख़ूबी ये अता की
हर आइने में चहरा-ए-इंसाँ नज़र आया
इस रुख़ में जमाल-ए-शहि-ए-मरदाँ नज़र आया
बे-मिस्ल-ए-हसीं है निगह-ए-अहल-ए-यकीं में
बस एक ये ख़ुर्शीद है अफ़्लाक ओ ज़मीं में
जलवा है अजब अब्रुओं का क़ुरब-ए-जबीं में
दो मछलियाँ हैं चश्मा-ए-ख़ुर्शीद-ए-मुबीं में
मर्दुम को इशारा है ये अबरुओं का जबीं पर
हैं दो मह-ए-नौ जलवा-नुमा चर्ख़-ए-बरीं पर
बीनी के तो मज़मूँ पे ये दावा है यक़ीनी
इस नज़्म के चेहरे की वो हो जाएगा बीनी
मंज़ूर निगह को जो हुई अर्श-ए-नशीनी
की साया-ए-बीनी ने फ़क़त जलवा-ए-गज़ीनी
दरकार इसी बीनी की मोहब्बत का असा है
ये राह तो ईमाँ से भी बारीक सिवा है
बीनी को कहूँ शम्मा तो लौ उस की कहाँ है
पर-नूर भंवोँ पर मुझे शोला का गुमाँ है
दो शोले और इक शम्मा ये हैरत का मकाँ है
हाँ ज़ुल्फ़ों के कूचों से हवा तुंद रवां है
समझो न भवें बस क़ि हवा का जो गुज़र है
ये शम्मा की लौ गाह इधर गाह इधर है
इस दर्जा पसंद इस रुख़-ए-रौशन की चमक है
ख़ुर्शीद से बर्गश्ता हर इक माह-ए-फ़लक है
अबरो का ये ग़ुल काबा-ए-अफ़्लाक तिलक है
महराब दुआ-ए-बशर-ओ-जिन-ओ-मलक है
देखा जो मह-ए-नौ ने इस अबरो के शर्फ़ को
कअबा की तरफ़ पुश्त की रुख़ उस की तरफ़ को
जो मानी-ए-तहक़ीक़ से तावील का है फ़र्क़
पतली से वही कअबा की तमसील का है फ़र्क़
सुरमा से और इस आँख से इक मील का है फ़र्क़
मील एक तरफ़ नूर की तकमील का है फ़र्क़
इस आँख पे उम्मत के ज़रा ख़िशम को देखो
नाविक की सिलाई को और उस चश्म को देखो
गर आँख को नर्गिस कहूँ है ऐन-ए-हिक़ारत
नर्गिस में न पलकें हैं न पुतली न बसारत
चेहरे पे मह-ए-ईद की बेजा है इशारत
वो ईद का मुज़्दा है ये हैदर की बशारत
अबरो की मह-ए-नौ में न जुंबिश है न ज़ौ है
इक शब वो मह-ए-नौ है ये हर शब मह-ए-नौ है
मुँह ग़र्क़-ए-अर्क़ देख के ख़ुरशीद हुआ तर
अबरो से टपकता है निरा तैग़ का जौहर
आँखों का अर्क़ रौगन-ए-बादाम से बेहतर
आरिज़ का पसीना है गुलाब-ए-गुल-ए-अहमर
क़तरा रुख़-ए-पुर-नूर पे ढलते हुए देखो
इत्र-ए-गुल-ए-ख़ुर्शीद निकलते हुए देखो
तस्बीह-ए-कुनाँ मुँह में ज़बान आठ पहर है
गोया दहन-ए-ग़ुन्चा में बरग-ए-गुल-ए-तर है
कब ग़ुन्चा ओ गुलबर्ग में ये नूर मगर है
इस बुर्ज में ख़ुर्शीद के माही का गुज़र है
तारीफ़ में होंटों की जो लब तर हुआ मेरा
दुनिया ही में क़ाबू लब-ए-कौसर हुआ मेरा
ये मुँह जो रदीफ़-ए-लब-ए-ख़ुश-रंग हुआ है
क्या फ़ाक़ीह ग़ुन्चा का यहाँ तंग हुआ है
अब मदह-ए-दहन का मुझे आहंग हुआ है
पर गुंचे का नाम इस के लिए नंग हुआ है
ग़ुन्चा कहा उस मुँह को हज़र अहल-ए-सुख़न से
सूंघे कोई बू आती है गुंचे के दहन से
शीरीं-रक्मों में रक़्म उस लब की जुदा है
इक ने शुक्र और एक ने याक़ूत लिखा है
याक़ूत का लिखना मगर इन सब से बजा है
याक़ूत से बढ़ जो लिखूँ मैं तो मज़ा है
चूसा है ये लब मिसल-ए-रत्ब हक़ के वली ने
याक़ूत का बोसा लिया किस रोज़ अली ने
जान-ए-फ़ुसहा रूह-ए-फ़साहत है तो ये है
हर कलिमा है मौक़े पे बलाग़त है तो ये है
एजाज़-ए-मसीहा की करामत है तो ये है
क़ाएल है नज़ाकत कि नज़ाकत है तो ये है
यूँ होंटों पे तस्वीर-ए-सुख़न वक़्त-ए-बयाँ है
या वक़्त से गोया रग-ए-याक़ूत अयाँ है
अब असल में शीरीं-दहनी की करों तहरीर
तिफ़ली में खुला जबकि यही ग़ुंचा-ए-तक़रीर
पहले ये ख़बर दी कि मैं हूँ फ़िदया-ए-शपीर
इस मुज़दे पे मादर ने उन्हें बख़्श दिया शीर
मुँह हैदर-ए-कर्रार ने मीठा किया उन का
शीरीनी-ए-एजाज़ से मुँह भर दिया उन का
उस लब से दम-ए-ताज़ा हर इक ज़िनदे ने पाया
जैसे शहि-ए-मरदाँ ने नसीरी को जलाया
जान बख़्शि-ए-अम्वात का गोया है ये आया
हम-दम दम-ए-रूह-ए-अक़दस उन का नज़र आया
दम क़ालिब-ए-बे-जाँ में जो दम करते थे ईसा
इन होंटों के एजाज़ का दम भरते थे ईसा
दाँतों की लड़ी से ये लड़ी अक़ल-ए-ख़ुदा-दाद
वो बात ठिकाने की कहूँ अब कि रहे याद
ये गौहर-ए-अब्बास हैं पाक उन की ये बुनियाद
अब्बास-ओ-नजफ़ एक हैं गिनिए अगर एदाद
मादिन के शरफ़ हैं ये जवाहर के शरफ़ हैं
दंदाँ दर-ए-अब्बास हैं तो दर-ए-नजफ़ हैं
अस्ना अशरी अब करें हाथों का नज़ारा
दस उंगलियाँ हैं मिस्ल-ए-इल्म इन में सफ़-ए-आरा
हर पंजे का है पंजितनी को ये इशारा
ऐ मोमिनो अशरा में इल्म रखना हमारा
पहले मिरे आक़ा मिरे सालार को रोना
फिर ज़ेर-ए-इल्म उन के अलमदार को रोना
ता-मू-ए-कमर फ़िक्र का रिश्ता नहीं जाता
फ़िक्र एक तरफ़ वहम भी हाशा नहीं जाता
पर फ़िक्र-ए-रसा का मिरी दावा नहीं जाता
मज़मून ये नाज़ुक है कि बांधा नहीं जाता
अब जे़ब-ए-कमर तेग़-ए-शरर-ए-बार जो की है
अब्बास ने शोला को गिरह बाल से दी है
उश्शाक हूँ अब आलम-ए-बाला की मदद का
दरपेश है मज़मून-ए-अलमदार के क़द का
ये है क़द-ए-बाला पिस्र-ए-शेर-ए-समद का
या साया मुजस्सम हुआ अल्लाहु-अहद का
इस क़द पे दो अबरो की कशिश क्या कोई जाने
खींचे हैं दो मद एक अलिफ़ पर ये ख़ुदा ने
ने चर्ख़ के सौ दौरे न इक रख़्श का कावा
देता है सदा उम्र-ए-रवाँ को ये भुलावा
ये क़िस्म है तरकीब-ए-अनासिर के अलावा
अल्लाह की क़ुदरत है न छल-बल न छलावा
चलता है ग़ज़ब चाल क़दम शल है क़ज़ा का
तौसन न कहो रंग उड़ा है ये हवा का
गर्दिश में हर इक आँख है फ़ानुस-ए-ख़याली
बंदिश में हैं नाल उस के रुबाई-ए-हिलाली
रौशन है कि जौज़ा ने अनाँ दोष पे डाली
भर्ती से है मज़मून रिकाबों का भी ख़ाली
सरअत है अंधेरे और उजाले में ग़ज़ब की
अंधयारी उसे चाँदनी है चौधवीं शब की
गर्दूं हो कभी हम-क़दम उस का ये है दुशवार
वो क़ाफ़िले की गर्द है ये क़ाफ़िला-सालार
वो ज़ोअफ़ है ये ज़ोर वो मजबूर ये मुख़्तार
ये नाम है वो नंग है ये फ़ख़्र है वो आर
इक जस्त में रह जाते हैं यूँ अर्ज़ ओ समा दूर
जिस तरह मुसाफ़िर से दम-ए-सुब्ह सिरा दूर
जो बूँद पसीने की है शोख़ी से भरी है
इन क़तरों में परियों से सिवा तेज़ी परी है
गुलशन में सुब्ह बाग़ में ये कुबक-दरी है
फ़ानूस में परवाना है शीशे में परी है
ये है वो हुमा जिस के जिलौ-दार मलक हैं
साये की जगह पर के तले हफ़्त फ़लक हैं
ठहरे तो फ़लक सब को ज़मीं पर नज़र आए
दौड़े तो ज़मीं चर्ख़-ए-बरीं पर नज़र आए
शहबाज़ हवा का न कहीं पर नज़र आए
राकिब ही फ़क़त दामन-ए-ज़ीं पर नज़र आए
इस राकिब ओ मुरक्कब की बराबर जो सना की
ये इल्म ख़ुदा का वो मशीय्यत है ख़ुदा की
शोख़ी में परी हुस्न में है हूर-ए-बहिश्ती
तूफ़ान में राकिब के लिए नूह की कश्ती
कब अबलक़-ए-दौराँ में है ये नेक-ए-सरिश्ती
ये ख़ैर है वो शर है ये ख़ूबी है वो ज़श्ती
सहरा में चमन फ़सल-ए-बहारी है चमन में
रहवार है अस्तबल में तलवार है रन में
इस रख़्श को अब्बास उड़ाते हुए आए
कोस-ए-लिमन-उल-मलक बजाते हुए आए
तकबीर से सोतों को जगाते हुए आए
इक तेग़-ए-निगह सब पे लगाते हुए आए
बे चले के खींचे हुए अबरो की कमाँ को
बे हाथ के ताने हुए पलकों की सनाँ को
लिखा है मुअर्रिख़ ने कि इक गब्र-ए-दिलावर
हफ़तुम से फ़िरोकश था मियान-ए-सफ़-ए-लश्कर
रोईं तन ओ संगीं दिल ओ बद-बातिन ओ बदबर
सर कर के मुहिम नेज़ों पे लाया था कई सर
हमराह शक्की फ़ौज थी डंका था निशाँ था
जागीर के लेने को सू-ए-शाम रवाँ था
तक़दीर जो रन में शब-ए-हफ़तुम उसे लाई
ख़लवत में उसे बात उमर ने ये सुनाई
दरपेश है सादात से हम को भी लड़ाई
वान पंचतनी चंद हैं याँ सारी ख़ुदाई
अकबर का न क़ासिम का न शप्पीर का डर है
दो लाख को अल्लाह की शमशीर का डर है
बोला वो लरज़ कर कि हुआ मुझ को भी विस्वास
शमशीर-ए-ख़ुदा कौन उमर बोला कि अब्बास
उस ने कहा फिर फ़तह की क्यूँ कर है तुझे आस
बोला कि कई रोज़ से इस शेर को है प्यास
हम भी हैं बहादुर नहीं डरते हैं किसी से
पर रूह निकलती है तो अबास-अली से
तशरीफ़ अलमदार-जरी रन में जो लाया
इस गबर को चुपके से उमर ने ये सुनाया
अंदेशा था जिस शेर के आने का वो आया
सर उस ने परे से सो-ए-अब्बास उठाया
देखा तो कहा काँप के ये फ़ौज-ए-वग़ा से
रूबा हो लड़ाते हो मुझे शेर-ए-ख़ुदा से
माना कि ख़ुदा ये नहीं क़ुदरत है ख़ुदा की
मुझ में है निरा ज़ोर ये क़ूत है ख़ुदा की
की ख़ूब ज़ियाफ़त मिरी रहमत है ख़ुदा की
सब ने कहा तुझ पर भी इनायत है ख़ुदा की
जा उज़्र न कर नाम है मर्दों का इसी से
तो दबदबा-ए-ओ-ज़ोर में क्या कम है किसी से
बादल की तरह से वो गरजता हुआ निकला
जल्दी में सुलह जंग के बजता हुआ निकला
हरगाम रह-ए-उम्र को तजता हुआ निकला
और सामने नक़्क़ारा भी बजता हुआ निकला
ग़ालिब तहमतन की तरह अहल-ए-जहाँ पर
धॅंसती थी ज़मीं पाँव वो रखता था जहाँ पर
तैय्यार कमर कस के हुआ जंग पे ख़ूँख़ार
और पैक अजल आया कि है क़ब्र भी तैय्यार
ख़ंजर लिया मुँह देखने को और कभी तलवार
मिसल-ए-वर्म-ए-मर्ग चढ़ा घोड़े पे इक बार
वो रख़्श पे या देव-दनी तख़्त-ए-ज़री पर
ग़ुल रन में उठा कोई चढ़ा कबक-ए-दरी पर
इस हैयत ओ हैबत से वो नख़्वत-ए-सैर आया
आसेब को भी साए से उस के हज़्र आया
मैदान-ए-क़यामत को भी महशर नज़र आया
गर्द अपने लिए नेज़ों पे किश्तों के सर आया
ज़िंदा ही पि-ए-सैर न हर सफ़ से बढ़े थे
सर मर्दों के नेज़ों पे तमाशे को चढ़े थे
सीधा कभी नेज़े को हिलाया कभी आड़ा
पढ़ पढ़ के रज्ज़ बाग़-ए-फ़साहत को उजाड़ा
ज़ालिम ने कई पुश्त के मर्दों को उखाड़ा
बोला मेर हैबत ने जिगर-शेरों का फाड़ा
हम पंचा न रुस्तम है न सोहराब है मेरा
मर्हब बिन-अब्दुलक़मर अलक़ाब है मेरा
फ़ित्राक में सर बांधता हूँ पील-ए-दमाँ का
पंजा मैं सदा फेरता हूँ शेर-ए-ज़ियाँ का
नज़ारा ज़रा कीजिए हर शाख़-ए-सनाँ का
इस नेज़े पे वो सर है फ़ुलाँ-इब्न-ए-फ़ुलाँ का
जो जो थे यलान-ए-कुहन इस दौरा-ए-नौ में
तन उन के तह-ए-ख़ाक हैं सर मेरे जिलौ में
याँ सैफ-ए-ज़बाँ सैफ-ए-इलाही ने इल्म की
फ़रमाया मिरे आगे है तक़रीर सितम की
अब मुँह से कहा कुछ तो ज़बाँ मैं ने क़लम की
कौनैन ने गर्दन मिरे दरवाज़े पे ख़म की
ताक़त है हमारी असदुल्लाह की ताक़त
पंजे में हमारे है यद-अल्लाह की ताक़त
अब्दुलक़मर-ए-नहस का तू दाग़-ए-जिगर है
मैं चाँद अली का हूँ अरे ये भी ख़बर है
ख़ुर्शीद-परस्ती से तिरी क्या मुझे डर है
क़ब्ज़े में तनाब-ए-फ़लक-ओ-शम्श-ओ-क़मर है
मक़दूर रहा शम्स की रजअत का पिदर को
दो टुकड़े चचा ने किया उंगली से क़मर को
ख़ुर्शीद-ए-दरख़्शाँ में बता नूर है किस का
कलिमा वर्क़-ए-माह पे मस्तूर है किस का
और सूरा-ए-वालशम्स में मज़कूर है किस का
ज़र्रे को करे महर ये मक़दूर है किस का
ये साहिब-ए-मक़दूर नबी और अली हैं
या हम कि ग़ुलाम-ए-ख़ल्फ़-उस-सिदक़ नबी हैं
तौबा तो ख़ुदा जानता है शम्श-ओ-क़मर को
वो शाम को होता है ग़ुरूब और ये सहर को
ईमान समझ महर-ए-शहि-जिन्न-ओ-बशर को
शम्मा-ए-रह-ए-मेराज हैं ये अहल-ए-नज़र को
ख़ुर्शीद-ए-बनी-फ़ातिमा तो शाह-ए-अमम हैं
और माह-ए-बनी-हाश्मी आफ़ाक़ में हम हैं
दो चांद को करती है इक अंगुश्त हमारी
है महर-ए-नुबुव्वत से मिली पुश्त हमारी
है तेग़-ए-ज़फ़र वक़्त-ए-ज़द-ओ-किश्त हमारी
सौ ग़र्ज़-ए-क़ज़ा ज़रबत-ए-यकमुश्त हमारी
क़ुदरत के नीस्तान के हम शेर हैं ज़ालिम
हम शेर हैं और साहिब-ए-शमशीर हैं ज़ालिम
सब को है फ़ना दूर हमेशा है हमार
सर पेश-ए-ख़ुदा रखना ये पेशा है हमारा
हैं शेर-ए-ख़ुदा जिस में वो बेशा है हमारा
आरी है अजल जिस से वो तेशा है हमारा
हम जुज़्व-ए-बदन इस के हैं जो कल का शरफ़ है
रिश्ते में हमारे गुहर-ए-पाक-ए-नजफ़ है
जौशन जो दुआओं में है वो अपनी ज़र्रा है
हर अक़्दे का नाख़ुन मिरे नेज़े की गिरह है
तलवार से पानी जिगर-ए-हर-कि-ओ-मह है
काटा पर-ए-जिब्रील को जिस तेग़ से ये है
सर ख़ुद-ओ-कुल्ला का नहीं मोहताज हमारा
शप्पीर का है नक़श-ए-क़दम ताज हमारा
अहमद है चचा मेरा पिदर हैदर-ए-सफ़दर
वो कल का पयंबर है ये कौनैन का रहबर
और मादर ज़ैनब की है लौंडी मिरी मादर
भाई मिरा इक ऊन दो अब्दुल्लाह ओ जाफ़र
और शपर ओ शप्पीर हैं सरदार हमारे
हम उन के ग़ुलाम और वो मुख़्तार हमारे
क़ासिम का अज़ादार हूँ अकबर का मैं ग़म-ख़्वार
लश्कर का अलमदार हूँ सुरूर का जिलौ-दार
मैं करता हूँ पर्दा तो हिर्म होते हैं उस्वार
था शब को निगह बान ख़य्याम-ए-शह-ए-अबरार
अब ताज़ा ये बख़्शिश है ख़ुदा-ए-अज़ली की
सुक़्क़ा भी बना उस का जो पोती है अली की
हम बांटते हैं रोज़ी-ए-हर-बंदा-ए-ग़फ़्फ़ार
रज़्ज़ाक़ की सरकार के हैं मालिक-ओ-मुख़्तार
पर हक़ की इताअत है जो हर कार में दरकार
ख़ुद वक़्त-ए-सहर रोज़े में खालते हैं तलवार
हैं उक़्दा-कुशा वक़्त-ए-कुशा क़िला-कुशा भी
पर सब्र से बंधवाते हैं रस्सी में गला भी
उस के क़दम पाक का फ़िदया है सर अपना
क़ुर्बान किया जिस पे नबी ने पिसर अपना
नज़र-ए-सर-ए-अकबर है दिल अपना जिगर अपना
बैत-उश-शरफ़-ए-शाह पे सदक़े है घर अपना
मशहूर जो अब्बास ज़माने का शर्फ़ है
शप्पीर की नालैन उठाने का शर्फ़ है
शाहों का चिराग़ आते ही गुल कर दिया हम ने
हर जा अमल-ए-ख़त्म-ए-रसुल कर दिया हम ने
ख़ंदक़ पे दर-ए-क़िला को पुल कर दिया हम ने
इक जुज़ु था कलिमा उसे कुल कर दिया हम ने
धोका का न हो ये सब शर्फ़-ए-शेर-ए-ख़ुदा हैं
फिर वो न जुदा हम से न हम उन से जुदा हैं
नारी को बहिश्ती के रज्ज़ पर हसद आया
यूँ चल के पि-ए-हमला वो मलऊन-ए-बद आया
गोया कि सुक़र से उम्र-ए-अबदूद आया
और लरज़े में मरहब भी मियान-ए-लहद आया
नफ़रीं की ख़ुदा ने उसे तहसीं की उम्र ने
मुजरा किया अब्बास को याँ फ़तह-ओ-ज़फ़र ने
शप्पीर को बढ़ बढ़ के नक़ीबों ने पुकारा
लौ टूटता है दस्त-ए-ज़बरदस्त तुम्हारा
है मरहब-ए-अब्दुलक़मर अब मअर्का-आरा
शप्पीर यकीं जानो कि अब्बास को मारा
ये गर्ग वो यूसुफ़ ये ख़िज़ाँ है वो चमन है
वो चाँद ये अक़रब है वो सूरज ये गहन है
इस शोर ने तड़पा दिया हज़रत के जिगर को
अकबर से कहा जाओ तो अम्मो की ख़बर को
अकबर बढ़े है और मुड़के पुकारे ये पिदर को
घेरा है कई नहस सितारों ने क़मर को
इक फ़ौज नई गर्द-ए-अलमदार है रन में
लौ माह-ए-बनी-हाश्मी आता है गहन में
इक गबर-ए-क़वी आया है खींचे हुए तलवार
कहता है कि इक हमला में है फैसला-ए-कार
सरकुश्तों के नेज़ों पे हैं गर्द इस के नमूदार
याँ दस्त-ए-बह-ए-क़ब्ज़ा मुतबस्सिम हैं अलमदार
अल्लाह करे ख़ैर कि है क़सद-ए-शर उस को
सब कहते हैं मरहब-ए-बिन-अब्दुलक़मर उस को
ग़ुल है कि दिल-आल-ए-अबा तोड़ेगा मरहब
अब बाज़ू-ए-शाह-ए-शोहदा तोड़ेगा मरहब
बंद-ए-कमर-ए-शेर ख़ुदा तोड़ेगा मरहब
गौहर को तह-ए-संग जफ़ा तोड़ेगा मरहब
मरहब का न कुछ उस की तवानाई का डर है
फ़िदवी को चचा-जान की तन्हाई का डर है
शह ने कहा क्या रूह-ए-अली आई न होगी
नाना ने मिरे क्या ये ख़बर पाई न होगी
क्या फ़ातिमा फ़िर्दोस में घबराई न होगी
सर नंगे वो तशरीफ़ यहाँ लाई न होगी
बंदों पे अयाँ ज़ोर-ए-ख़ुदा करते हैं अब्बास
प्यारे मिरे देखो तो कि क्या करते हैं अब्बास
सुन कर ये ख़बर बीबियाँ करने लगीं नाला
डेयुढ़ी पे कमर पकड़े गए सय्यद-वाला
चिल्लाए कि फ़िज़्ज़ा अली-असग़र को उठा ला
है वक़्त-ए-दुआ छूटता है गोद का पाला
सैय्यदानियो! सर खोल दो सज्जादा बिछा दो
दुश्मन पे अलमदार हो ग़ालिब ये दुआ दो
खे़मे में क़यामत हुई फ़र्याद-ए-बका से
सहमी हुई कहती थी सकीना ये ख़ुदा से
ग़ारत हुआ इलाही जो लड़े मेरे चचा से
वो जीते फिरें ख़ैर मैं मरजाऊँ बला से
सदक़े करूँ क़ुर्बान करूँ अहल-ए-जफ़ा को
दो लाख ने घेरा है मिरे एक चचा को
है है कहीं इस ज़ुलम-ओ-सितम का है ठिकाना
सुक़्क़े पे सुना है कहीं तलवार उठाना
कोई भी रवा रखता है सय्यद का सताना
जाएज़ है किसी प्यासे से पानी का छुपाना
हफ़तुम से ग़िज़ा खाई है ने पानी पिया है
बे रहमों ने किस दुख में हमें डलदाया है
अच्छी मिरी अम्माँ मरे सुक़्क़े को बुलाओ
कह दो कि सकीना हुई आख़िर इधर आओ
अब पानी नहीं चाहिए ताबूत मंगाओ
कांधे से रखो मुश्क जनाज़े को उठाओ
मिलने मिरी तुर्बत के गले आएंगे अब्बास
ये सुनते ही घबरा के चले आएंगे अब्बास
इस अर्सा में हमले किए मरहब ने वहाँ चार
पर एक भी इस पंचतनी पर ना चला वार
मानिंद-ए-दिल-ओ-चश्म हर इक अज़्व था होशियार
आरी हुई तलवार मुख़ालिफ़ हुआ नाचार
जब तेग़ को झुंजला के रुख़-ए-पाक पे खींचा
तलवार ने उंगली से अलिफ़ ख़ाक पे खींचा
ग़ाज़ी ने कहा बस इसी फ़न पर था तुझे नाज़
सीखा न यदा लिल्लाहियों से ज़रब का अंदाज़
फिर खींची इस अंदाज़ से तेग़-ए-शरर-ए-अंदाज़
जो मियान के भी मुँह से ज़रा निकली न आवाज़
याँ ख़ौफ़ से क़ालिब को किया मियान ने ख़ाली
वाँ क़ालिब-ए-अअदा को क्या जान ने ख़ाली
ये तेग़-सरापा जो बरहना नज़र आई
फिर जामा-ए-तन में न कोई रूह समाई
हस्ती ने कहा तौबा क़ज़ा बोली दहाई
इंसाफ़ पुकारा कि है क़ब्ज़ा में ख़ुदाई
लौ फ़तह-ए-मुजस्सम का वो सर जेब से निकला
नुसरत के फ़लक का मह-ए-नौ ग़ैब से निकला
बिजली गिरी बिजली पे अजल डर के अजल पर
इक ज़लज़ला तारी हुआ गर्दूं के महल पर
सय्यारे हटे कर के नज़र तेग़ के फल पर
ख़ुर्शीद था मर्रीख़ ये मर्रीख़ ज़ुहल पर
ये होल दिया तेग़-ए-दरख़शाँ की चमक ने
जो तारों के दाँतों से ज़मीं पकड़ी फ़लक ने
मरहब से मुख़ातब हुए अब्बास-ए-दिलावर
शमशीर के मानिंद सरापा हूँ मैं जौहर
मुम्किन है कि इक ज़र्ब में दो हो तो सरासर
पर इस में अयाँ होंगे ना जौहर मिरे तुझ पर
ले रोक मिरे वार तिरे पास सिपर है
ज़ख़्मी न करूँगा अभी इज़हार-ए-हुनर है
कांधे से सिपर ले के मुक़ाबल हुआ दुश्मन
बतलाने लगे तेग़ से ये ज़र्ब का हरफ़न
ये सीना ये बाज़ू ये कमर और ये गर्दन
ये ख़ुद ये चार आईना ये ढाल ये जौशन
किस वार को वो रोकता तलवार कहाँ थी
आँखों में तो फुर्ती थी निगाहों से निहाँ थी
मर्हब ने न फिर ढाल न तलवार सँभाली
उस हाथ से सर एक से दस्तार सँभाली
ज़ालिम ने सनाँ ग़ुस्से से इक बार सँभाली
उस शेर ने शमशीर-ए-शरर-ए-हार सँभाली
तानी जो सनाँ उस ने अलमदार के ऊपर
ये नेज़ा उड़ा ले गए तलवार के ऊपर
जो चाल चला वो हुआ गुमराह ओ परेशाँ
फिर ज़ाइचा खींचा जो कमाँ का सर-ए-मैदाँ
तीरों की लड़ाई पे पड़ा करअ-ए-पैकाँ
तीरों को क़लम करने लगी तेग़-ए-दरख़शाँ
जौहर से न तीरों ही के फल दाग़ बदल थे
गर शिस्त के थे साठ तो चिल्ला के चहल थे
उस तेग़ ने सरकश के जो तरकश में किया घर
ग़ुल था कि नीसताँ में गिरी बर्क़ चमक कर
पर तीरों के कट कट के उड़े मिसल-ए-कबूतर
मर्हब हुआ मुज़्तर सिफ़त-ए-ताइर-ए-बे-पर
बढ़ कर कहा ग़ाज़ी ने बता किस की ज़फ़र है
अब मर्ग है और तू है ये तेग़ और ये सर है
नामर्द ने पोशीदा किया रुख़ को सिपर से
और खींच लिया ख़ंजर-ए-हिन्दी को कमर से
ख़ंजर तो इधर से चला और तेग़ उधर से
उस वक़्त हवा चल न सकी बीच में डर से
अल्लाह-रे शमशीर-ए-अलमदार के जौहर
जौहर किए उस ख़ंजर-ए-ख़ूँख़ार के जौहर
ख़ंजर का जो काटा तो वो ठहरी न सिपर पर
ठहरी न सिपर पर तो वो सीधी गई सर पर
सीधी गई सर पर तो वो थी सद्र ओ कमर पर
थी सद्र ओ कमर पर तो वो थी क़ल्ब ओ जिगर पर
थी क़लब ओ जिगर पर तो वो थी दामन-ए-ज़ीं पर
थी दामन-ए-ज़ीं पर तो वो राकिब था ज़मीं पर
ईमाँ ने उछल कर कहा वो कुफ्र को मारा
क़ुदरत ने पुकारा कि ये है ज़ोर हमारा
हैदर से नबी बोले ये है फ़ख़्र तुम्हारा
हैदर ने कहा ये मिरी पुतली का है तारा
परवाना-ए-शम-ए-रुख़-ए-ताबाँ हुईं ज़ोहरा
मोहसिन को लिए गोद में क़ुरबाँ हुईं ज़ोहरा
हंगामा हुआ गर्म ये नारी जो हुआ सर्द
वां फ़ौज ने ली बाग बढ़ा याँ ये जवाँमर्द
टापों की सदा से सर-क़ारों में हुआ दर्द
रंग-ए-रुख़-ए-आदा की तरह उड़ने लगी गर्द
क़ारों का ज़र-ए-गंज-ए-निहानी निकल आया
ये ख़ाक उड़ी रन से कि पानी निकल आया
जो ज़िंदा थे अलअज़मतुल्लाह पुकारे
सर मर्दों के नेज़ों पे जो थे वाह पुकारे
डरकर उम्र-ए-सअद को गुमराह पुकारे
ख़ुश हो के अलमदार सू-ए-शाह पुकारे
याँ तो हुआ या हज़रत-ए-शप्पीर नारा
शप्पीर ने हंस कर किया तकबीर का नारा
पर्दे के क़रीब आ के बहन शह की पुकारी
दुश्मन पर हुई फ़तह मुबारक हो मै वारी
अब कहती हूँ मै देखती थी जंग ये सारी
अब्बास की इक ज़र्ब में ठंडा हुआ नारी
मर्हब को तो ख़ैबर में यदुल्लाह ने मारा
हम नाम को इब्न-ए-असदुल्लाह ने मारा
मैदाँ मे अलमदार के जाने के मै सदक़े
उस फ़ाक़े में तलवार लगाने के मैं सदक़े
बाहम इल्म ओ मुश्क उठाने के मै सदक़े
उस प्यास मे इक बूँद न पाने के मै सदक़े
सुक़्क़ा बना प्यासों का मुरव्वत के तसद्दुक़
बे सर किया शह-ज़ोरों को क़ूत के तसद्दुक़
तुम दोनों का हर वक़्त निगहबान ख़ुदा हो
देखे जो बुरी आँख से ग़ारत हो फ़ना हो
दोनों की बला ले के ये माँ-जाई फ़िदा हो
रो कर कहा हज़रत ने बहन देखिए क्या हो
मुंह चाँद सा मुझ को जो दिखाएँ तो मैं जानूँ
दरिया से सलामत जो फिर आएँ तो मैं जानूँ
ज़ैनब से ब-हसरत ये बयाँ करते थे मौला
नागाह सकीना ने सुना फ़तह का मिज़दाँ
चिल्लाई मैं सदक़े तिरे अच्छी मिरी फ़िज़्ज़ा
जा जल्द बलाएँ तू मेरे अमूद की तू ले आ
देख प्यास का कह कर उन्हें मदहोश न करना
पर याद दिलाना कि फ़रामोश न करना
लेने को बलाएँ गई फ़िज़्ज़ा सू-ए-जंगाह
अब्बास ने आते हुए देखा उसे नागाह
चिल्लाए कि फिर जा मैं हवा आने से आगाह
कह देना सकीना से हमें याद है वल्लाह
दि प्यास से बी-बी का हुआ जाता है पानी
ले कर तिरे बाबा का ग़ुलाम आता है पानी
दरिया को चले अब्र-ए-सिफ़त साथ लिए बर्क़
मर्हब के शरीकों का जुदा करते हुए फ़र्क़
सरदार में और फ़ौज में बाक़ी न रहा फ़र्क़
मर्हब की तरह सब छह हब हब में हुए ग़र्क़
तलवार की इक मौज ने तूफ़ान उठाया
तूफ़ान ने सर पर वो बयान उठाया
पानी हुई हर मौज-ए-ज़र्रह-फ़ौज के तन में
मलबूस में ज़िंदे थे कि मुर्दे थे कफ़न में
खंजर की ज़बानों को क़लम कर के दहन में
इक तेग़ से तलवारों को आरी कया रन में
हैदर का असद क़लज़ुम-ए-लश्कर में दर आया
उमड़े हुए बादल की तरह नहर आया
दरिया के निगहबान बढ़े होने को चौ-रंग
पहने हुए मछली की तरह बर में ज़र्रह तंग
खींचे हुए मौजों की तरह खंजर बे-रंग
सुक़्क़े ने कहा पानी पे जाएज़ है कहाँ जंग
दरिया के निगहबान हो पर ग़फ़लत-ए-दीँ है
मानिंद-ए-हुबाब आँख में बीनाई नहीं है
मज़हब है क्या कि रह-ए-शरा न जानी
मशरब है ये कैसा कि पिलाते नहीं पानी
बे शीर का बचपन अली-अकबर की जवानी
बरबाद किए देती है अब तिशना-दहानी
लब ख़ुश्क हैं बच्चों की ज़बाँ प्यास से शक़ है
दरिया ही से पूछ लो किस प्यासे का हक़ है
पानी मुझे इक मुश्क है उस नहर से दर कार
भर लेने दो मुझ को न करो हुज्जत-ओ-तकरार
चिल्लाए सितम-गर है गुज़र नहर पे दुशवार
ग़ाज़ी ने कहा हाँ पे इरादा है तो होशियार
लौसेल को और बर्क़-ए-शरर-बार को रोको
रहवार कोरोको मिरी तलवार को रोको
ये कह के किया अस्प-ए-सुबुक-ए-ताज़ को महमेज़
बिजली की तरह कूंद के चमका फ़र्स-ए-तेज़
अशरार के सर पर हुआ नअलों से शरर-ए-रेज़
सैलाब-ए-फ़ना था कि वो तूफ़ान-ए-बला-ख़ेज़
झपकी पलक उस रख़्श को जब क़हर में देखा
फिर आँख खुली जब तो रवाँ नहर में देखा
दरिया में हुआ ग़ुल कि वो दर-ए-नजफ़ आया
इलियास ओ ख़िज़्र बोले हमारा शरफ़ आया
अब्बास शहनशाह-ए-नजफ़ का ख़लफ आया
पा-बोस को मोती लिए दस्त-ए-सदफ़ आया
याद आ गई प्यासों की जो हैदर के ख़लफ़ को
दिल ख़ून हुआ देख कर दरिया के ख़लफ़ को
सूखे हुए मुशकीज़ा का फिर खोला दहाना
भरने लगा ख़म हो के वो सर ताज-ए-ज़माना
अअदा ने किया दूर से तीरों का निशाना
और चूम लिया रूह-ए-यदुल्लाह ने शाना
फ़रमाया की क्या क्या मुझे ख़ुश करते हो बेटा
पानी मिरी पोती के लिए भरते हो बेटा
कुछ तिरी कोशिश ओ हिम्मत में नहीं है
पानी मगर उस प्यासी की क़िस्मत में नहीं है
वक़्फ़ा मिरे प्यारे की शहादत में नहीं है
जो ज़ख़्म में लज़्ज़त है वो जराहत में नहीं है
इक ख़ून की नहर आँखों से ज़ोहरा के बही है
रोने को तिरी लाश पे सर खोल रही है
दरिया से जो निकला असदुल्लाह का जानी
था शोर कि वो शेर लिए जाता है पानी
फिर राह में हाएल हुए सब ज़ुल्म के पानी
सुक़्क़ा-ए-सकीना की ये की मर्तबा-दानी
क़ब्रें नबी ओ हैदर ओ ज़ुबेरा की हिला दीं
बरछों की जो नोंकें थीं कलेजे से मिला दीं
वो कौन सा तीर जो दिल पे न लगाया
मुशकीज़े के पानी से सवा खून बहाया
ये नर्ग़ा था जो शमर ने हीले से सुनाया
अब्बास बचो ग़ौल-ए-कमीं-गाह से आया
मुड़ कर जो नज़र की ख़लफ़-ए-शीर-ए-ख़दा ने
शानो को तहे तेग़ किया अहल-ए-जफ़ा ने
लिखा है कि एक नख़्ल-ए-रत्ब था सर-ए-मैदाँ
इब्न-ए-वर्क़ा ज़ैद-ए-लईं इस में था पिनहाँ
पहुंचा जो वहाँ सर्व-ए-रवान-ए-शह-ए-मुर्दां
जो शाना था मुश्क ओ अलम ओ तेग़ के शायाँ
वारिस पे किया ज़ैद ने शमशीर-ए-अजल से
ये फूली-फली शाख़ कटी ते
रुस्तम का जिगर ज़ेर-ए-कफ़न काँप रहा है
हर क़स्र-ए-सलातीन-ए-ज़मन काँप रहा है
सब एक तरफ़ चर्ख़-ए-कुहन काँप रहा है
शमशीर-बकफ़ देख के हैदर के पिसर को
जिब्रील लरज़ते हैं समेटे हुए पर को
हैबत से हैं न क़िला-ए-अफ़लाक के दरबंद
जल्लाद-ए-फ़लक भी नज़र आता है नज़र-बंद
वा है कमर-ए-चर्ख़ से जौज़ा का कमर-बंद
सय्यारे हैं ग़लताँ सिफ़त-ए-ताइर-ए-पुर-बंद
अंगुश्त-ए-अतारिद से क़लम छूट पड़ा है
ख़ुरशीद के पंजे से इल्म छूट पड़ा है
ख़ुद फ़ितना ओ शर पढ़ रहे हैं फ़ातिहा-ए-ख़ैर
कहते हैं अनल-अब्द लरज़ कर सनम-ए-दैर
जाँ ग़ैर है तन ग़ैर मकीँ ग़ैर मकाँ ग़ैर
ने चर्ख़ का है दूर न सय्यारों की है सैर
सकते में फ़लक ख़ौफ़ से मानिंद-ए-ज़ीं है
जुज़ बख़्त-ए-यज़ीद अब कोई गर्दिश में नहीं है
बे-होश है बिजली पे समंद इन का है होशियार
ख़्वाबीदा हैं सब ताला-ए-अब्बास है बे-दार
पोशीदा है ख़ुरशीद इल्म उन का नुमूदार
बे-नूर है मुँह चाँद का रुख़ उन का ज़िया-बार
सब जुज़ु हैं कल रुतबे में कहलाते हैं अब्बास
कौनैन पियादा हैं सवार आते हैं अब्बास
चमका के मह-ओ-ख़ौर ज़र ओ नुक़रा के असा को
सरकाते हैं पीरे फ़लक-ए-पुश्त-दोता को
अदल आगे बढ़ा हुक्म ये देता है क़ज़ा को
हाँ बांध ले ज़ुल्म-ओ-सितम-ओ-जोर-ओ-जफ़ा को
घर लूट ले बुग़्ज़-ओ-हसद-ओ-किज़्ब-ओ-रिया का
सर काट ले हिर्स-ओ-तमा-ओ-मकर-ओ-दग़ा का
राहत के महलों को बला पूछ रही है
हस्ती के मकानों को फ़ना पूछ रही है
तक़दीर से उम्र अपनी क़ज़ा पूछ रही है
दोनों का पता फ़ौज-ए-जफ़ा पूछ रही है
ग़फ़लत का तो दिल चौंक पड़ा ख़ौफ़ से हिल कर
फ़ितने ने किया ख़ूब गले कुफ्र से मिल कर
अल-नशर का हंगामा है इस वक़्त हश्र में
अल-सूर का आवाज़ा है अब जिन ओ बशर में
अल-जुज़ का है तज़किरा बाहम तन-ओ-सर में
अल-वस्ल का ग़ुल है सक़र ओ अहल-ए-सक़र में
अल-हश्र जो मुर्दे न पुकारें तो ग़ज़ब है
अल-मौत ज़बान-ए-मलक-उल-मौत पे अब है
रूकश है उस इक तन का न बहमन न तमहतीं
सुहराब ओ नरीमान ओ पशुन बे-सर ओ बे-तन
क़ारों की तरह तहत-ए-ज़मीं ग़र्क़ है क़ारन
हर आशिक़-ए-दुनिया को है दुनिया चह-ए-बे-ज़न
सब भूल गए अपना हस्ब और नस्ब आज
आता है जिगर-गोशा-ए-क़िताल-ए-अरब आज
हर ख़ुद निहाँ होता है ख़ुद कासा-ए-सर में
मानिंद-ए-रग-ओ-रेशा ज़र्रा छुपती है बर में
बे-रंग है रंग असलहे का फ़ौज-ए-उम्र में
जौहर है न तैग़ों में न रौगन है सिपर में
रंग उड़ के भरा है जो रुख़-ए-फ़ौज-ए-लईं का
चेहरा नज़र आता है फ़लक का न ज़मीं का
है शोर फ़लक का कि ये ख़ुरशीद-ए-अरब है
इंसाफ़ ये कहता है कि चुप तर्क-ए-अदब है
ख़ुरशीद-ए-फ़लक पर तव-ए-आरिज़ का लक़ब है
ये क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब क़ुदरत-ए-रब है
हर एक कब इस के शरफ़-ओ-जाह को समझे
इस बंदे को वो समझे जो अल्लाह को समझे
यूसुफ़ है ये कुनआँ में सुलेमान है सबा में
ईसा है मसीहाई में मूसा है दुआ में
अय्यूब है ये सब्र में यहया है बका में
शपीर है मज़लूमी में हैदर है वग़ा में
क्या ग़म जो न मादर न पिदर रखते हैं आदम
अब्बास सा दुनिया में पिसर रखते हैं आदम
पंजे में यदुल्लाह है बाज़ू में है जाफ़र
ताअत में मुलक ख़ू में हसन ज़ोर में हैदर
इक़बाल में हाशिम तो तवाज़ो में पयंबर
और तंतना-ओ-दबदबा में हमज़ा-ए-सफ़दर
जौहर के दिखाने में ये शमशीर-ए-ख़ुदा है
और सर के कटाने में ये शाह-ए-शोहदा है
बे उन के शर्फ़ कुछ भी ज़माना नहीं रखता
ईमान सिवा उन के ख़ज़ाना नहीं रखता
क़ुरआँ भी कोई और फ़साना नहीं रखता
शपीर बगै़र उन के यगाना नहीं रखता
ये रूह-ए-मुक़द्दस है फ़क़त जलव-गिरी में
ये अक़ल-ए-मुजर्रिद है जमाल-ए-बशरी में
सहरा में गिरा परतव-ए-आरिज़ जो क़ज़ारा
सूरज की किरन ने किया शर्मा के किनारा
यूँ धूप एड़ी आग पे जिस तरह से पारा
मूसा की तरह ग़श हुए सब कैसा नज़ारा
जुज़ मदह न दम रोशनई-ए-तूर ने मारा
शब-ए-ख़ून अजब धूप पे उस नूर ने मारा
क़ुर्बान हवा-ए-इल्म-ए-शाह-ए-अमम के
सब ख़ार हरे हो के बने सर्व-ए-इरम के
हैं राज़ अयाँ ख़ालिक़-ए-ज़ुलफ़ज़्ल-ओ-करम के
जिब्रील ने पर खोले हैं दामन में इल्म के
पर्चम का जहाँ अक्स गिरा साइक़ा चमका
पर्चम कहीं देखा न सुना इस चम-ओ-ख़म का
क़र्ना में न दम है न जलाजुल में सदा में है
बूक़ ओ दहल ओ कोस की भी साँस हुआ है
हर दिल के धड़कने का मगर शोर बपा है
बाजा जो सलामी का उसे कहिए बजा है
सकते में जो आवाज़ है नक़्कारा-ए-वदफ़ की
नौबत है वरूद-ए-ख़ल्फ़-ए-शाह-ए-नजफ़ की
आमद को तो देखा रुख़-ए-पुर-नूर को देखो
वालशमश पढ़ो रौशनी-ए-तूर को देखो
लिए रौशनी-ए-माह को ने हूर को देखो
इस शम्मा-ए-मुराद-ए-मुलक-ओ-हूर को देखो
है कौन तजल्ली रुख़-ए-पुर-नूर की मानिंद
याँ रौशनी-ए-तूर जली तूर के मानिंद
मद्दाह को अब ताज़गी-ए-नज़्म में कद है
या हज़रत-ए-अब्बास-ए-अली वक़्त-ए-मदद है
मौला की मदद से जो सुख़न हो वो सनद है
इस नज़्म का जो हो ना मक़र उस को हसद है
हासिद से सुलह भी नहीं दरकार है मुझ को
सरकार-ए-हुसैनी से सरोकार है मुझ को
गुलज़ार है ये नज़्म ओ बयाँ बेशा नहीं है
बाग़ी को भी गुलगश्त में अंदेशा नहीं है
हर मिस्र-ए-पर-जस्ता है फल तेशा नहीं है
याँ मग़्ज़ सुख़न का है रग-ओ-रेशा नहीं है
सेहत मिरी तशख़ीस से है नज़्म के फ़न की
मानिंद-ए-क़लम हाथ में है नब्ज़ सुख़न की
गर काह मिले फ़ाएदा क्या कोहकनी से
मैं काह को गुल करता हूँ रंगीं-ए-सुख़नी से
ख़ुश-रंग है अलफ़ाज़ अक़ीक़-ए-यमनी से
ये साज़ है सोज़-ए-ग़म-ए-शाह-ए-मदनी से
आहन को करूँ नर्म तो आइना बना लूँ
पत्थर को करूँ गर्म तो मैं इत्र बना लूँ
गो ख़िलअत तहसीं मुझे हासिल है सरापा
पर वस्फ़ सरापा का तो मुश्किल है सरापा
हर अज़्व-ए-तन इक क़ुदरत-ए-कामिल है सरापा
ये रूह है सर-ता-बक़दम दिल है सरापा
क्या मिलता है गर कोई झगड़ता है किसी से
मज़मून भी अपना नहीं लड़ता है किसी से
सूरज को छुपाता है गहन आइना को ज़ंग
दाग़ी है क़मर-ए-सोख़्ता ओ लाला-ए-ख़ुश-रंग
क्या अस्ल दर- ओ लअल की वो पानी है ये संग
देखो गुल ओ ग़ुन्चा वो परेशाँ है ये दिल-ए-तंग
इस चेहरे को दावर ही ने लारेब बनाया
बे-ऐब था ख़ुद नक़्श भी बे-ऐब बनाया
इंसाँ कहे उस चेहरे को कब चश्मा-ए-हैवाँ
ये नूर वो ज़ुल्मत ये नुमूदार वो पिनहाँ
बरसों से है आज़ार-ए-बर्स में मह-ए-ताबाँ
कब से यरक़ाँ महर को है और नहीं दरमाँ
आइना है घर ज़ंग काया रंग नहीं है
इस आइना में रंग है और ज़ंग नहीं है
आइना कहा रुख़ को तो कुछ भी न सुना की
सनअत वो सिकन्दर की ये सनअत है ख़ुदा की
वाँ ख़ाक ने सैक़ल यहाँ क़ुदरत ने जिला की
ताला ने किस आइना को ख़ूबी ये अता की
हर आइने में चहरा-ए-इंसाँ नज़र आया
इस रुख़ में जमाल-ए-शहि-ए-मरदाँ नज़र आया
बे-मिस्ल-ए-हसीं है निगह-ए-अहल-ए-यकीं में
बस एक ये ख़ुर्शीद है अफ़्लाक ओ ज़मीं में
जलवा है अजब अब्रुओं का क़ुरब-ए-जबीं में
दो मछलियाँ हैं चश्मा-ए-ख़ुर्शीद-ए-मुबीं में
मर्दुम को इशारा है ये अबरुओं का जबीं पर
हैं दो मह-ए-नौ जलवा-नुमा चर्ख़-ए-बरीं पर
बीनी के तो मज़मूँ पे ये दावा है यक़ीनी
इस नज़्म के चेहरे की वो हो जाएगा बीनी
मंज़ूर निगह को जो हुई अर्श-ए-नशीनी
की साया-ए-बीनी ने फ़क़त जलवा-ए-गज़ीनी
दरकार इसी बीनी की मोहब्बत का असा है
ये राह तो ईमाँ से भी बारीक सिवा है
बीनी को कहूँ शम्मा तो लौ उस की कहाँ है
पर-नूर भंवोँ पर मुझे शोला का गुमाँ है
दो शोले और इक शम्मा ये हैरत का मकाँ है
हाँ ज़ुल्फ़ों के कूचों से हवा तुंद रवां है
समझो न भवें बस क़ि हवा का जो गुज़र है
ये शम्मा की लौ गाह इधर गाह इधर है
इस दर्जा पसंद इस रुख़-ए-रौशन की चमक है
ख़ुर्शीद से बर्गश्ता हर इक माह-ए-फ़लक है
अबरो का ये ग़ुल काबा-ए-अफ़्लाक तिलक है
महराब दुआ-ए-बशर-ओ-जिन-ओ-मलक है
देखा जो मह-ए-नौ ने इस अबरो के शर्फ़ को
कअबा की तरफ़ पुश्त की रुख़ उस की तरफ़ को
जो मानी-ए-तहक़ीक़ से तावील का है फ़र्क़
पतली से वही कअबा की तमसील का है फ़र्क़
सुरमा से और इस आँख से इक मील का है फ़र्क़
मील एक तरफ़ नूर की तकमील का है फ़र्क़
इस आँख पे उम्मत के ज़रा ख़िशम को देखो
नाविक की सिलाई को और उस चश्म को देखो
गर आँख को नर्गिस कहूँ है ऐन-ए-हिक़ारत
नर्गिस में न पलकें हैं न पुतली न बसारत
चेहरे पे मह-ए-ईद की बेजा है इशारत
वो ईद का मुज़्दा है ये हैदर की बशारत
अबरो की मह-ए-नौ में न जुंबिश है न ज़ौ है
इक शब वो मह-ए-नौ है ये हर शब मह-ए-नौ है
मुँह ग़र्क़-ए-अर्क़ देख के ख़ुरशीद हुआ तर
अबरो से टपकता है निरा तैग़ का जौहर
आँखों का अर्क़ रौगन-ए-बादाम से बेहतर
आरिज़ का पसीना है गुलाब-ए-गुल-ए-अहमर
क़तरा रुख़-ए-पुर-नूर पे ढलते हुए देखो
इत्र-ए-गुल-ए-ख़ुर्शीद निकलते हुए देखो
तस्बीह-ए-कुनाँ मुँह में ज़बान आठ पहर है
गोया दहन-ए-ग़ुन्चा में बरग-ए-गुल-ए-तर है
कब ग़ुन्चा ओ गुलबर्ग में ये नूर मगर है
इस बुर्ज में ख़ुर्शीद के माही का गुज़र है
तारीफ़ में होंटों की जो लब तर हुआ मेरा
दुनिया ही में क़ाबू लब-ए-कौसर हुआ मेरा
ये मुँह जो रदीफ़-ए-लब-ए-ख़ुश-रंग हुआ है
क्या फ़ाक़ीह ग़ुन्चा का यहाँ तंग हुआ है
अब मदह-ए-दहन का मुझे आहंग हुआ है
पर गुंचे का नाम इस के लिए नंग हुआ है
ग़ुन्चा कहा उस मुँह को हज़र अहल-ए-सुख़न से
सूंघे कोई बू आती है गुंचे के दहन से
शीरीं-रक्मों में रक़्म उस लब की जुदा है
इक ने शुक्र और एक ने याक़ूत लिखा है
याक़ूत का लिखना मगर इन सब से बजा है
याक़ूत से बढ़ जो लिखूँ मैं तो मज़ा है
चूसा है ये लब मिसल-ए-रत्ब हक़ के वली ने
याक़ूत का बोसा लिया किस रोज़ अली ने
जान-ए-फ़ुसहा रूह-ए-फ़साहत है तो ये है
हर कलिमा है मौक़े पे बलाग़त है तो ये है
एजाज़-ए-मसीहा की करामत है तो ये है
क़ाएल है नज़ाकत कि नज़ाकत है तो ये है
यूँ होंटों पे तस्वीर-ए-सुख़न वक़्त-ए-बयाँ है
या वक़्त से गोया रग-ए-याक़ूत अयाँ है
अब असल में शीरीं-दहनी की करों तहरीर
तिफ़ली में खुला जबकि यही ग़ुंचा-ए-तक़रीर
पहले ये ख़बर दी कि मैं हूँ फ़िदया-ए-शपीर
इस मुज़दे पे मादर ने उन्हें बख़्श दिया शीर
मुँह हैदर-ए-कर्रार ने मीठा किया उन का
शीरीनी-ए-एजाज़ से मुँह भर दिया उन का
उस लब से दम-ए-ताज़ा हर इक ज़िनदे ने पाया
जैसे शहि-ए-मरदाँ ने नसीरी को जलाया
जान बख़्शि-ए-अम्वात का गोया है ये आया
हम-दम दम-ए-रूह-ए-अक़दस उन का नज़र आया
दम क़ालिब-ए-बे-जाँ में जो दम करते थे ईसा
इन होंटों के एजाज़ का दम भरते थे ईसा
दाँतों की लड़ी से ये लड़ी अक़ल-ए-ख़ुदा-दाद
वो बात ठिकाने की कहूँ अब कि रहे याद
ये गौहर-ए-अब्बास हैं पाक उन की ये बुनियाद
अब्बास-ओ-नजफ़ एक हैं गिनिए अगर एदाद
मादिन के शरफ़ हैं ये जवाहर के शरफ़ हैं
दंदाँ दर-ए-अब्बास हैं तो दर-ए-नजफ़ हैं
अस्ना अशरी अब करें हाथों का नज़ारा
दस उंगलियाँ हैं मिस्ल-ए-इल्म इन में सफ़-ए-आरा
हर पंजे का है पंजितनी को ये इशारा
ऐ मोमिनो अशरा में इल्म रखना हमारा
पहले मिरे आक़ा मिरे सालार को रोना
फिर ज़ेर-ए-इल्म उन के अलमदार को रोना
ता-मू-ए-कमर फ़िक्र का रिश्ता नहीं जाता
फ़िक्र एक तरफ़ वहम भी हाशा नहीं जाता
पर फ़िक्र-ए-रसा का मिरी दावा नहीं जाता
मज़मून ये नाज़ुक है कि बांधा नहीं जाता
अब जे़ब-ए-कमर तेग़-ए-शरर-ए-बार जो की है
अब्बास ने शोला को गिरह बाल से दी है
उश्शाक हूँ अब आलम-ए-बाला की मदद का
दरपेश है मज़मून-ए-अलमदार के क़द का
ये है क़द-ए-बाला पिस्र-ए-शेर-ए-समद का
या साया मुजस्सम हुआ अल्लाहु-अहद का
इस क़द पे दो अबरो की कशिश क्या कोई जाने
खींचे हैं दो मद एक अलिफ़ पर ये ख़ुदा ने
ने चर्ख़ के सौ दौरे न इक रख़्श का कावा
देता है सदा उम्र-ए-रवाँ को ये भुलावा
ये क़िस्म है तरकीब-ए-अनासिर के अलावा
अल्लाह की क़ुदरत है न छल-बल न छलावा
चलता है ग़ज़ब चाल क़दम शल है क़ज़ा का
तौसन न कहो रंग उड़ा है ये हवा का
गर्दिश में हर इक आँख है फ़ानुस-ए-ख़याली
बंदिश में हैं नाल उस के रुबाई-ए-हिलाली
रौशन है कि जौज़ा ने अनाँ दोष पे डाली
भर्ती से है मज़मून रिकाबों का भी ख़ाली
सरअत है अंधेरे और उजाले में ग़ज़ब की
अंधयारी उसे चाँदनी है चौधवीं शब की
गर्दूं हो कभी हम-क़दम उस का ये है दुशवार
वो क़ाफ़िले की गर्द है ये क़ाफ़िला-सालार
वो ज़ोअफ़ है ये ज़ोर वो मजबूर ये मुख़्तार
ये नाम है वो नंग है ये फ़ख़्र है वो आर
इक जस्त में रह जाते हैं यूँ अर्ज़ ओ समा दूर
जिस तरह मुसाफ़िर से दम-ए-सुब्ह सिरा दूर
जो बूँद पसीने की है शोख़ी से भरी है
इन क़तरों में परियों से सिवा तेज़ी परी है
गुलशन में सुब्ह बाग़ में ये कुबक-दरी है
फ़ानूस में परवाना है शीशे में परी है
ये है वो हुमा जिस के जिलौ-दार मलक हैं
साये की जगह पर के तले हफ़्त फ़लक हैं
ठहरे तो फ़लक सब को ज़मीं पर नज़र आए
दौड़े तो ज़मीं चर्ख़-ए-बरीं पर नज़र आए
शहबाज़ हवा का न कहीं पर नज़र आए
राकिब ही फ़क़त दामन-ए-ज़ीं पर नज़र आए
इस राकिब ओ मुरक्कब की बराबर जो सना की
ये इल्म ख़ुदा का वो मशीय्यत है ख़ुदा की
शोख़ी में परी हुस्न में है हूर-ए-बहिश्ती
तूफ़ान में राकिब के लिए नूह की कश्ती
कब अबलक़-ए-दौराँ में है ये नेक-ए-सरिश्ती
ये ख़ैर है वो शर है ये ख़ूबी है वो ज़श्ती
सहरा में चमन फ़सल-ए-बहारी है चमन में
रहवार है अस्तबल में तलवार है रन में
इस रख़्श को अब्बास उड़ाते हुए आए
कोस-ए-लिमन-उल-मलक बजाते हुए आए
तकबीर से सोतों को जगाते हुए आए
इक तेग़-ए-निगह सब पे लगाते हुए आए
बे चले के खींचे हुए अबरो की कमाँ को
बे हाथ के ताने हुए पलकों की सनाँ को
लिखा है मुअर्रिख़ ने कि इक गब्र-ए-दिलावर
हफ़तुम से फ़िरोकश था मियान-ए-सफ़-ए-लश्कर
रोईं तन ओ संगीं दिल ओ बद-बातिन ओ बदबर
सर कर के मुहिम नेज़ों पे लाया था कई सर
हमराह शक्की फ़ौज थी डंका था निशाँ था
जागीर के लेने को सू-ए-शाम रवाँ था
तक़दीर जो रन में शब-ए-हफ़तुम उसे लाई
ख़लवत में उसे बात उमर ने ये सुनाई
दरपेश है सादात से हम को भी लड़ाई
वान पंचतनी चंद हैं याँ सारी ख़ुदाई
अकबर का न क़ासिम का न शप्पीर का डर है
दो लाख को अल्लाह की शमशीर का डर है
बोला वो लरज़ कर कि हुआ मुझ को भी विस्वास
शमशीर-ए-ख़ुदा कौन उमर बोला कि अब्बास
उस ने कहा फिर फ़तह की क्यूँ कर है तुझे आस
बोला कि कई रोज़ से इस शेर को है प्यास
हम भी हैं बहादुर नहीं डरते हैं किसी से
पर रूह निकलती है तो अबास-अली से
तशरीफ़ अलमदार-जरी रन में जो लाया
इस गबर को चुपके से उमर ने ये सुनाया
अंदेशा था जिस शेर के आने का वो आया
सर उस ने परे से सो-ए-अब्बास उठाया
देखा तो कहा काँप के ये फ़ौज-ए-वग़ा से
रूबा हो लड़ाते हो मुझे शेर-ए-ख़ुदा से
माना कि ख़ुदा ये नहीं क़ुदरत है ख़ुदा की
मुझ में है निरा ज़ोर ये क़ूत है ख़ुदा की
की ख़ूब ज़ियाफ़त मिरी रहमत है ख़ुदा की
सब ने कहा तुझ पर भी इनायत है ख़ुदा की
जा उज़्र न कर नाम है मर्दों का इसी से
तो दबदबा-ए-ओ-ज़ोर में क्या कम है किसी से
बादल की तरह से वो गरजता हुआ निकला
जल्दी में सुलह जंग के बजता हुआ निकला
हरगाम रह-ए-उम्र को तजता हुआ निकला
और सामने नक़्क़ारा भी बजता हुआ निकला
ग़ालिब तहमतन की तरह अहल-ए-जहाँ पर
धॅंसती थी ज़मीं पाँव वो रखता था जहाँ पर
तैय्यार कमर कस के हुआ जंग पे ख़ूँख़ार
और पैक अजल आया कि है क़ब्र भी तैय्यार
ख़ंजर लिया मुँह देखने को और कभी तलवार
मिसल-ए-वर्म-ए-मर्ग चढ़ा घोड़े पे इक बार
वो रख़्श पे या देव-दनी तख़्त-ए-ज़री पर
ग़ुल रन में उठा कोई चढ़ा कबक-ए-दरी पर
इस हैयत ओ हैबत से वो नख़्वत-ए-सैर आया
आसेब को भी साए से उस के हज़्र आया
मैदान-ए-क़यामत को भी महशर नज़र आया
गर्द अपने लिए नेज़ों पे किश्तों के सर आया
ज़िंदा ही पि-ए-सैर न हर सफ़ से बढ़े थे
सर मर्दों के नेज़ों पे तमाशे को चढ़े थे
सीधा कभी नेज़े को हिलाया कभी आड़ा
पढ़ पढ़ के रज्ज़ बाग़-ए-फ़साहत को उजाड़ा
ज़ालिम ने कई पुश्त के मर्दों को उखाड़ा
बोला मेर हैबत ने जिगर-शेरों का फाड़ा
हम पंचा न रुस्तम है न सोहराब है मेरा
मर्हब बिन-अब्दुलक़मर अलक़ाब है मेरा
फ़ित्राक में सर बांधता हूँ पील-ए-दमाँ का
पंजा मैं सदा फेरता हूँ शेर-ए-ज़ियाँ का
नज़ारा ज़रा कीजिए हर शाख़-ए-सनाँ का
इस नेज़े पे वो सर है फ़ुलाँ-इब्न-ए-फ़ुलाँ का
जो जो थे यलान-ए-कुहन इस दौरा-ए-नौ में
तन उन के तह-ए-ख़ाक हैं सर मेरे जिलौ में
याँ सैफ-ए-ज़बाँ सैफ-ए-इलाही ने इल्म की
फ़रमाया मिरे आगे है तक़रीर सितम की
अब मुँह से कहा कुछ तो ज़बाँ मैं ने क़लम की
कौनैन ने गर्दन मिरे दरवाज़े पे ख़म की
ताक़त है हमारी असदुल्लाह की ताक़त
पंजे में हमारे है यद-अल्लाह की ताक़त
अब्दुलक़मर-ए-नहस का तू दाग़-ए-जिगर है
मैं चाँद अली का हूँ अरे ये भी ख़बर है
ख़ुर्शीद-परस्ती से तिरी क्या मुझे डर है
क़ब्ज़े में तनाब-ए-फ़लक-ओ-शम्श-ओ-क़मर है
मक़दूर रहा शम्स की रजअत का पिदर को
दो टुकड़े चचा ने किया उंगली से क़मर को
ख़ुर्शीद-ए-दरख़्शाँ में बता नूर है किस का
कलिमा वर्क़-ए-माह पे मस्तूर है किस का
और सूरा-ए-वालशम्स में मज़कूर है किस का
ज़र्रे को करे महर ये मक़दूर है किस का
ये साहिब-ए-मक़दूर नबी और अली हैं
या हम कि ग़ुलाम-ए-ख़ल्फ़-उस-सिदक़ नबी हैं
तौबा तो ख़ुदा जानता है शम्श-ओ-क़मर को
वो शाम को होता है ग़ुरूब और ये सहर को
ईमान समझ महर-ए-शहि-जिन्न-ओ-बशर को
शम्मा-ए-रह-ए-मेराज हैं ये अहल-ए-नज़र को
ख़ुर्शीद-ए-बनी-फ़ातिमा तो शाह-ए-अमम हैं
और माह-ए-बनी-हाश्मी आफ़ाक़ में हम हैं
दो चांद को करती है इक अंगुश्त हमारी
है महर-ए-नुबुव्वत से मिली पुश्त हमारी
है तेग़-ए-ज़फ़र वक़्त-ए-ज़द-ओ-किश्त हमारी
सौ ग़र्ज़-ए-क़ज़ा ज़रबत-ए-यकमुश्त हमारी
क़ुदरत के नीस्तान के हम शेर हैं ज़ालिम
हम शेर हैं और साहिब-ए-शमशीर हैं ज़ालिम
सब को है फ़ना दूर हमेशा है हमार
सर पेश-ए-ख़ुदा रखना ये पेशा है हमारा
हैं शेर-ए-ख़ुदा जिस में वो बेशा है हमारा
आरी है अजल जिस से वो तेशा है हमारा
हम जुज़्व-ए-बदन इस के हैं जो कल का शरफ़ है
रिश्ते में हमारे गुहर-ए-पाक-ए-नजफ़ है
जौशन जो दुआओं में है वो अपनी ज़र्रा है
हर अक़्दे का नाख़ुन मिरे नेज़े की गिरह है
तलवार से पानी जिगर-ए-हर-कि-ओ-मह है
काटा पर-ए-जिब्रील को जिस तेग़ से ये है
सर ख़ुद-ओ-कुल्ला का नहीं मोहताज हमारा
शप्पीर का है नक़श-ए-क़दम ताज हमारा
अहमद है चचा मेरा पिदर हैदर-ए-सफ़दर
वो कल का पयंबर है ये कौनैन का रहबर
और मादर ज़ैनब की है लौंडी मिरी मादर
भाई मिरा इक ऊन दो अब्दुल्लाह ओ जाफ़र
और शपर ओ शप्पीर हैं सरदार हमारे
हम उन के ग़ुलाम और वो मुख़्तार हमारे
क़ासिम का अज़ादार हूँ अकबर का मैं ग़म-ख़्वार
लश्कर का अलमदार हूँ सुरूर का जिलौ-दार
मैं करता हूँ पर्दा तो हिर्म होते हैं उस्वार
था शब को निगह बान ख़य्याम-ए-शह-ए-अबरार
अब ताज़ा ये बख़्शिश है ख़ुदा-ए-अज़ली की
सुक़्क़ा भी बना उस का जो पोती है अली की
हम बांटते हैं रोज़ी-ए-हर-बंदा-ए-ग़फ़्फ़ार
रज़्ज़ाक़ की सरकार के हैं मालिक-ओ-मुख़्तार
पर हक़ की इताअत है जो हर कार में दरकार
ख़ुद वक़्त-ए-सहर रोज़े में खालते हैं तलवार
हैं उक़्दा-कुशा वक़्त-ए-कुशा क़िला-कुशा भी
पर सब्र से बंधवाते हैं रस्सी में गला भी
उस के क़दम पाक का फ़िदया है सर अपना
क़ुर्बान किया जिस पे नबी ने पिसर अपना
नज़र-ए-सर-ए-अकबर है दिल अपना जिगर अपना
बैत-उश-शरफ़-ए-शाह पे सदक़े है घर अपना
मशहूर जो अब्बास ज़माने का शर्फ़ है
शप्पीर की नालैन उठाने का शर्फ़ है
शाहों का चिराग़ आते ही गुल कर दिया हम ने
हर जा अमल-ए-ख़त्म-ए-रसुल कर दिया हम ने
ख़ंदक़ पे दर-ए-क़िला को पुल कर दिया हम ने
इक जुज़ु था कलिमा उसे कुल कर दिया हम ने
धोका का न हो ये सब शर्फ़-ए-शेर-ए-ख़ुदा हैं
फिर वो न जुदा हम से न हम उन से जुदा हैं
नारी को बहिश्ती के रज्ज़ पर हसद आया
यूँ चल के पि-ए-हमला वो मलऊन-ए-बद आया
गोया कि सुक़र से उम्र-ए-अबदूद आया
और लरज़े में मरहब भी मियान-ए-लहद आया
नफ़रीं की ख़ुदा ने उसे तहसीं की उम्र ने
मुजरा किया अब्बास को याँ फ़तह-ओ-ज़फ़र ने
शप्पीर को बढ़ बढ़ के नक़ीबों ने पुकारा
लौ टूटता है दस्त-ए-ज़बरदस्त तुम्हारा
है मरहब-ए-अब्दुलक़मर अब मअर्का-आरा
शप्पीर यकीं जानो कि अब्बास को मारा
ये गर्ग वो यूसुफ़ ये ख़िज़ाँ है वो चमन है
वो चाँद ये अक़रब है वो सूरज ये गहन है
इस शोर ने तड़पा दिया हज़रत के जिगर को
अकबर से कहा जाओ तो अम्मो की ख़बर को
अकबर बढ़े है और मुड़के पुकारे ये पिदर को
घेरा है कई नहस सितारों ने क़मर को
इक फ़ौज नई गर्द-ए-अलमदार है रन में
लौ माह-ए-बनी-हाश्मी आता है गहन में
इक गबर-ए-क़वी आया है खींचे हुए तलवार
कहता है कि इक हमला में है फैसला-ए-कार
सरकुश्तों के नेज़ों पे हैं गर्द इस के नमूदार
याँ दस्त-ए-बह-ए-क़ब्ज़ा मुतबस्सिम हैं अलमदार
अल्लाह करे ख़ैर कि है क़सद-ए-शर उस को
सब कहते हैं मरहब-ए-बिन-अब्दुलक़मर उस को
ग़ुल है कि दिल-आल-ए-अबा तोड़ेगा मरहब
अब बाज़ू-ए-शाह-ए-शोहदा तोड़ेगा मरहब
बंद-ए-कमर-ए-शेर ख़ुदा तोड़ेगा मरहब
गौहर को तह-ए-संग जफ़ा तोड़ेगा मरहब
मरहब का न कुछ उस की तवानाई का डर है
फ़िदवी को चचा-जान की तन्हाई का डर है
शह ने कहा क्या रूह-ए-अली आई न होगी
नाना ने मिरे क्या ये ख़बर पाई न होगी
क्या फ़ातिमा फ़िर्दोस में घबराई न होगी
सर नंगे वो तशरीफ़ यहाँ लाई न होगी
बंदों पे अयाँ ज़ोर-ए-ख़ुदा करते हैं अब्बास
प्यारे मिरे देखो तो कि क्या करते हैं अब्बास
सुन कर ये ख़बर बीबियाँ करने लगीं नाला
डेयुढ़ी पे कमर पकड़े गए सय्यद-वाला
चिल्लाए कि फ़िज़्ज़ा अली-असग़र को उठा ला
है वक़्त-ए-दुआ छूटता है गोद का पाला
सैय्यदानियो! सर खोल दो सज्जादा बिछा दो
दुश्मन पे अलमदार हो ग़ालिब ये दुआ दो
खे़मे में क़यामत हुई फ़र्याद-ए-बका से
सहमी हुई कहती थी सकीना ये ख़ुदा से
ग़ारत हुआ इलाही जो लड़े मेरे चचा से
वो जीते फिरें ख़ैर मैं मरजाऊँ बला से
सदक़े करूँ क़ुर्बान करूँ अहल-ए-जफ़ा को
दो लाख ने घेरा है मिरे एक चचा को
है है कहीं इस ज़ुलम-ओ-सितम का है ठिकाना
सुक़्क़े पे सुना है कहीं तलवार उठाना
कोई भी रवा रखता है सय्यद का सताना
जाएज़ है किसी प्यासे से पानी का छुपाना
हफ़तुम से ग़िज़ा खाई है ने पानी पिया है
बे रहमों ने किस दुख में हमें डलदाया है
अच्छी मिरी अम्माँ मरे सुक़्क़े को बुलाओ
कह दो कि सकीना हुई आख़िर इधर आओ
अब पानी नहीं चाहिए ताबूत मंगाओ
कांधे से रखो मुश्क जनाज़े को उठाओ
मिलने मिरी तुर्बत के गले आएंगे अब्बास
ये सुनते ही घबरा के चले आएंगे अब्बास
इस अर्सा में हमले किए मरहब ने वहाँ चार
पर एक भी इस पंचतनी पर ना चला वार
मानिंद-ए-दिल-ओ-चश्म हर इक अज़्व था होशियार
आरी हुई तलवार मुख़ालिफ़ हुआ नाचार
जब तेग़ को झुंजला के रुख़-ए-पाक पे खींचा
तलवार ने उंगली से अलिफ़ ख़ाक पे खींचा
ग़ाज़ी ने कहा बस इसी फ़न पर था तुझे नाज़
सीखा न यदा लिल्लाहियों से ज़रब का अंदाज़
फिर खींची इस अंदाज़ से तेग़-ए-शरर-ए-अंदाज़
जो मियान के भी मुँह से ज़रा निकली न आवाज़
याँ ख़ौफ़ से क़ालिब को किया मियान ने ख़ाली
वाँ क़ालिब-ए-अअदा को क्या जान ने ख़ाली
ये तेग़-सरापा जो बरहना नज़र आई
फिर जामा-ए-तन में न कोई रूह समाई
हस्ती ने कहा तौबा क़ज़ा बोली दहाई
इंसाफ़ पुकारा कि है क़ब्ज़ा में ख़ुदाई
लौ फ़तह-ए-मुजस्सम का वो सर जेब से निकला
नुसरत के फ़लक का मह-ए-नौ ग़ैब से निकला
बिजली गिरी बिजली पे अजल डर के अजल पर
इक ज़लज़ला तारी हुआ गर्दूं के महल पर
सय्यारे हटे कर के नज़र तेग़ के फल पर
ख़ुर्शीद था मर्रीख़ ये मर्रीख़ ज़ुहल पर
ये होल दिया तेग़-ए-दरख़शाँ की चमक ने
जो तारों के दाँतों से ज़मीं पकड़ी फ़लक ने
मरहब से मुख़ातब हुए अब्बास-ए-दिलावर
शमशीर के मानिंद सरापा हूँ मैं जौहर
मुम्किन है कि इक ज़र्ब में दो हो तो सरासर
पर इस में अयाँ होंगे ना जौहर मिरे तुझ पर
ले रोक मिरे वार तिरे पास सिपर है
ज़ख़्मी न करूँगा अभी इज़हार-ए-हुनर है
कांधे से सिपर ले के मुक़ाबल हुआ दुश्मन
बतलाने लगे तेग़ से ये ज़र्ब का हरफ़न
ये सीना ये बाज़ू ये कमर और ये गर्दन
ये ख़ुद ये चार आईना ये ढाल ये जौशन
किस वार को वो रोकता तलवार कहाँ थी
आँखों में तो फुर्ती थी निगाहों से निहाँ थी
मर्हब ने न फिर ढाल न तलवार सँभाली
उस हाथ से सर एक से दस्तार सँभाली
ज़ालिम ने सनाँ ग़ुस्से से इक बार सँभाली
उस शेर ने शमशीर-ए-शरर-ए-हार सँभाली
तानी जो सनाँ उस ने अलमदार के ऊपर
ये नेज़ा उड़ा ले गए तलवार के ऊपर
जो चाल चला वो हुआ गुमराह ओ परेशाँ
फिर ज़ाइचा खींचा जो कमाँ का सर-ए-मैदाँ
तीरों की लड़ाई पे पड़ा करअ-ए-पैकाँ
तीरों को क़लम करने लगी तेग़-ए-दरख़शाँ
जौहर से न तीरों ही के फल दाग़ बदल थे
गर शिस्त के थे साठ तो चिल्ला के चहल थे
उस तेग़ ने सरकश के जो तरकश में किया घर
ग़ुल था कि नीसताँ में गिरी बर्क़ चमक कर
पर तीरों के कट कट के उड़े मिसल-ए-कबूतर
मर्हब हुआ मुज़्तर सिफ़त-ए-ताइर-ए-बे-पर
बढ़ कर कहा ग़ाज़ी ने बता किस की ज़फ़र है
अब मर्ग है और तू है ये तेग़ और ये सर है
नामर्द ने पोशीदा किया रुख़ को सिपर से
और खींच लिया ख़ंजर-ए-हिन्दी को कमर से
ख़ंजर तो इधर से चला और तेग़ उधर से
उस वक़्त हवा चल न सकी बीच में डर से
अल्लाह-रे शमशीर-ए-अलमदार के जौहर
जौहर किए उस ख़ंजर-ए-ख़ूँख़ार के जौहर
ख़ंजर का जो काटा तो वो ठहरी न सिपर पर
ठहरी न सिपर पर तो वो सीधी गई सर पर
सीधी गई सर पर तो वो थी सद्र ओ कमर पर
थी सद्र ओ कमर पर तो वो थी क़ल्ब ओ जिगर पर
थी क़लब ओ जिगर पर तो वो थी दामन-ए-ज़ीं पर
थी दामन-ए-ज़ीं पर तो वो राकिब था ज़मीं पर
ईमाँ ने उछल कर कहा वो कुफ्र को मारा
क़ुदरत ने पुकारा कि ये है ज़ोर हमारा
हैदर से नबी बोले ये है फ़ख़्र तुम्हारा
हैदर ने कहा ये मिरी पुतली का है तारा
परवाना-ए-शम-ए-रुख़-ए-ताबाँ हुईं ज़ोहरा
मोहसिन को लिए गोद में क़ुरबाँ हुईं ज़ोहरा
हंगामा हुआ गर्म ये नारी जो हुआ सर्द
वां फ़ौज ने ली बाग बढ़ा याँ ये जवाँमर्द
टापों की सदा से सर-क़ारों में हुआ दर्द
रंग-ए-रुख़-ए-आदा की तरह उड़ने लगी गर्द
क़ारों का ज़र-ए-गंज-ए-निहानी निकल आया
ये ख़ाक उड़ी रन से कि पानी निकल आया
जो ज़िंदा थे अलअज़मतुल्लाह पुकारे
सर मर्दों के नेज़ों पे जो थे वाह पुकारे
डरकर उम्र-ए-सअद को गुमराह पुकारे
ख़ुश हो के अलमदार सू-ए-शाह पुकारे
याँ तो हुआ या हज़रत-ए-शप्पीर नारा
शप्पीर ने हंस कर किया तकबीर का नारा
पर्दे के क़रीब आ के बहन शह की पुकारी
दुश्मन पर हुई फ़तह मुबारक हो मै वारी
अब कहती हूँ मै देखती थी जंग ये सारी
अब्बास की इक ज़र्ब में ठंडा हुआ नारी
मर्हब को तो ख़ैबर में यदुल्लाह ने मारा
हम नाम को इब्न-ए-असदुल्लाह ने मारा
मैदाँ मे अलमदार के जाने के मै सदक़े
उस फ़ाक़े में तलवार लगाने के मैं सदक़े
बाहम इल्म ओ मुश्क उठाने के मै सदक़े
उस प्यास मे इक बूँद न पाने के मै सदक़े
सुक़्क़ा बना प्यासों का मुरव्वत के तसद्दुक़
बे सर किया शह-ज़ोरों को क़ूत के तसद्दुक़
तुम दोनों का हर वक़्त निगहबान ख़ुदा हो
देखे जो बुरी आँख से ग़ारत हो फ़ना हो
दोनों की बला ले के ये माँ-जाई फ़िदा हो
रो कर कहा हज़रत ने बहन देखिए क्या हो
मुंह चाँद सा मुझ को जो दिखाएँ तो मैं जानूँ
दरिया से सलामत जो फिर आएँ तो मैं जानूँ
ज़ैनब से ब-हसरत ये बयाँ करते थे मौला
नागाह सकीना ने सुना फ़तह का मिज़दाँ
चिल्लाई मैं सदक़े तिरे अच्छी मिरी फ़िज़्ज़ा
जा जल्द बलाएँ तू मेरे अमूद की तू ले आ
देख प्यास का कह कर उन्हें मदहोश न करना
पर याद दिलाना कि फ़रामोश न करना
लेने को बलाएँ गई फ़िज़्ज़ा सू-ए-जंगाह
अब्बास ने आते हुए देखा उसे नागाह
चिल्लाए कि फिर जा मैं हवा आने से आगाह
कह देना सकीना से हमें याद है वल्लाह
दि प्यास से बी-बी का हुआ जाता है पानी
ले कर तिरे बाबा का ग़ुलाम आता है पानी
दरिया को चले अब्र-ए-सिफ़त साथ लिए बर्क़
मर्हब के शरीकों का जुदा करते हुए फ़र्क़
सरदार में और फ़ौज में बाक़ी न रहा फ़र्क़
मर्हब की तरह सब छह हब हब में हुए ग़र्क़
तलवार की इक मौज ने तूफ़ान उठाया
तूफ़ान ने सर पर वो बयान उठाया
पानी हुई हर मौज-ए-ज़र्रह-फ़ौज के तन में
मलबूस में ज़िंदे थे कि मुर्दे थे कफ़न में
खंजर की ज़बानों को क़लम कर के दहन में
इक तेग़ से तलवारों को आरी कया रन में
हैदर का असद क़लज़ुम-ए-लश्कर में दर आया
उमड़े हुए बादल की तरह नहर आया
दरिया के निगहबान बढ़े होने को चौ-रंग
पहने हुए मछली की तरह बर में ज़र्रह तंग
खींचे हुए मौजों की तरह खंजर बे-रंग
सुक़्क़े ने कहा पानी पे जाएज़ है कहाँ जंग
दरिया के निगहबान हो पर ग़फ़लत-ए-दीँ है
मानिंद-ए-हुबाब आँख में बीनाई नहीं है
मज़हब है क्या कि रह-ए-शरा न जानी
मशरब है ये कैसा कि पिलाते नहीं पानी
बे शीर का बचपन अली-अकबर की जवानी
बरबाद किए देती है अब तिशना-दहानी
लब ख़ुश्क हैं बच्चों की ज़बाँ प्यास से शक़ है
दरिया ही से पूछ लो किस प्यासे का हक़ है
पानी मुझे इक मुश्क है उस नहर से दर कार
भर लेने दो मुझ को न करो हुज्जत-ओ-तकरार
चिल्लाए सितम-गर है गुज़र नहर पे दुशवार
ग़ाज़ी ने कहा हाँ पे इरादा है तो होशियार
लौसेल को और बर्क़-ए-शरर-बार को रोको
रहवार कोरोको मिरी तलवार को रोको
ये कह के किया अस्प-ए-सुबुक-ए-ताज़ को महमेज़
बिजली की तरह कूंद के चमका फ़र्स-ए-तेज़
अशरार के सर पर हुआ नअलों से शरर-ए-रेज़
सैलाब-ए-फ़ना था कि वो तूफ़ान-ए-बला-ख़ेज़
झपकी पलक उस रख़्श को जब क़हर में देखा
फिर आँख खुली जब तो रवाँ नहर में देखा
दरिया में हुआ ग़ुल कि वो दर-ए-नजफ़ आया
इलियास ओ ख़िज़्र बोले हमारा शरफ़ आया
अब्बास शहनशाह-ए-नजफ़ का ख़लफ आया
पा-बोस को मोती लिए दस्त-ए-सदफ़ आया
याद आ गई प्यासों की जो हैदर के ख़लफ़ को
दिल ख़ून हुआ देख कर दरिया के ख़लफ़ को
सूखे हुए मुशकीज़ा का फिर खोला दहाना
भरने लगा ख़म हो के वो सर ताज-ए-ज़माना
अअदा ने किया दूर से तीरों का निशाना
और चूम लिया रूह-ए-यदुल्लाह ने शाना
फ़रमाया की क्या क्या मुझे ख़ुश करते हो बेटा
पानी मिरी पोती के लिए भरते हो बेटा
कुछ तिरी कोशिश ओ हिम्मत में नहीं है
पानी मगर उस प्यासी की क़िस्मत में नहीं है
वक़्फ़ा मिरे प्यारे की शहादत में नहीं है
जो ज़ख़्म में लज़्ज़त है वो जराहत में नहीं है
इक ख़ून की नहर आँखों से ज़ोहरा के बही है
रोने को तिरी लाश पे सर खोल रही है
दरिया से जो निकला असदुल्लाह का जानी
था शोर कि वो शेर लिए जाता है पानी
फिर राह में हाएल हुए सब ज़ुल्म के पानी
सुक़्क़ा-ए-सकीना की ये की मर्तबा-दानी
क़ब्रें नबी ओ हैदर ओ ज़ुबेरा की हिला दीं
बरछों की जो नोंकें थीं कलेजे से मिला दीं
वो कौन सा तीर जो दिल पे न लगाया
मुशकीज़े के पानी से सवा खून बहाया
ये नर्ग़ा था जो शमर ने हीले से सुनाया
अब्बास बचो ग़ौल-ए-कमीं-गाह से आया
मुड़ कर जो नज़र की ख़लफ़-ए-शीर-ए-ख़दा ने
शानो को तहे तेग़ किया अहल-ए-जफ़ा ने
लिखा है कि एक नख़्ल-ए-रत्ब था सर-ए-मैदाँ
इब्न-ए-वर्क़ा ज़ैद-ए-लईं इस में था पिनहाँ
पहुंचा जो वहाँ सर्व-ए-रवान-ए-शह-ए-मुर्दां
जो शाना था मुश्क ओ अलम ओ तेग़ के शायाँ
वारिस पे किया ज़ैद ने शमशीर-ए-अजल से
ये फूली-फली शाख़ कटी ते
- मिर्ज़ा-सलामत-अली-दबीर
جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی
پردیس میں سادات پہ، آفت عجب آئی
فریاد کناں روح امیر عرب آئی
غل تھا کہ شب قتل شہ تشنہ لب آئی
سادات کو کیا کیا غمِ جانکاہ دکھائے
رات ایسی مصیبت کی نہ اللہ دکھائے
کاغذ پہ لکھے کیا قلم اس شب کی سیاہی
ہے چار طرف جس کی سیاہی سے تباہی
مرغان ہوا بر میں طپاں، بحر میں ماہی
تربت سے نکل آئے تھے محبوب الٰہی
فریاد کا تھا شور رسولان سلف میں
یثرب میں تزلزل تھا اداسی تھی نجف میں
صدمے سے ہوا رنگ رخ ماہ کا کافور
اختر بھی بنے مردمک دیدۂ بے نور
غم چھا گیا، راحت دل عالم سے ہوئی دور
تصویر الم بن گئی جنت میں ہر اک حور
کہتے تھے ملک رات نہ ہووے گی اب ایسی
تاروں نے بھی دیکھی نہ تھی تاریک شب ایسی
شمع طرب محفل عالم تھی جو خاموش
تھی رات بھی شبیرؔ کے ماتم میں سیہ پوش
کیا غم تھا کہ شادی تھی ہر اک دل کو فراموش
ہر چشم کو تھا غم میں سمندر کی طرح جوش
مضطر تھے علیؔ اشکوں سے منہ دھوتی تھی زہراؔ
مقتل تھا جہاں شاہ کا، واں روتی تھی زہراؔ
تھا خانۂ غم خیمۂ شاہنشہ والا
آندھی یہ پریشاں تھی کہ دل تھا تہ و بالا
مشعل نہ ٹھہرتی تھی، نہ شمعوں کا اجالا
خیمہ بھی اندھیرے میں نظر آتا تھا کالا
خاک اڑتی تھی منہ پر، حرم شیر خدا کے
تھا چیں بجبیں فرش بھی جھونکوں سے ہوا کے
جنگل کی ہوا، اور درندوں کی صدائیں
تھراتی تھیں بچوں کو چھپائے ہوئے مائیں
دھڑکا تھا کہ دہشت سے نہ جانے کہیں جائیں
روتی تھی کوئی، اور کوئی پڑھتی تھی دعائیں
گودوں میں بھی راحت نہ ذرا پاتے تھے بچے
جب بولتے تھے شیر تو ڈر جاتے تھے بچے
بچوں کے بلکنے پہ حرم کرتے تھے زاری
غش ہو گئی تھی بالی سکینہؔ کئی باری
چلاتی تھی رو رو کے وہ شبیرؔ کی پیاری
یا حضرت عباسؔ چلی جان ہماری
افسوس کہ پانی کا تو قطرہ نہیں گھر میں
اور آگ لگی ہے مرے ننھے سے جگر میں
تھی سب سے سوا، بنت علی، مضطر و بیتاب
فق ہو گیا تھا شام سے منہ صورت مہتاب
مژگاں سے رخ پاک پہ تھی، بارش خوں ناب
تلوار کلیجے پہ چلے جب تو کہاں تاب
اِک کرب تھا بسمل کی طرح جان حزیں پر
اٹھتی تھی کبھی اور کبھی گرتی تھی زمیں پر
کہتی تھی کبھی، آج پیمبر نہیں ہے ہے
حال اپنا دکھاؤں کسے حیدرؔ نہیں ہے ہے
بیٹی پہ فلک ٹوٹا ہے، مادر نہیں ہے ہے
شبیرؔ مصیبت میں تھے، شبرؔ نہیں ہے ہے
دیکھا نہ سنا یہ جو ستم آج ہے لوگو
نازوں کا پلا پانی کو محتاج ہے لوگو
در پیش ہے کل فوج سمتگر سے لڑائی
یاں تھوڑے سے پیاسے ہیں، ادھر ساری خدائی
بے سر دیے رن سے نہ پھرے گا مرا بھائی
ہو جائے گی حیدرؔ کے بھرے گھر کی صفائی
اس غم سے سدا اشکوں سے منہ دھوتی تھیں اماں
کل دن وہ ہے جس دن کے لئے روتی تھی اماں
تھے دوسرے خیمہ میں ادھر سبط پیمبر
دربار میں حاضر تھے رفیقان دلاور
اک پہلو میں قاسمؔ تھے اور اک پہلو میں اکبرؔ
اکبرؔ کے ادھر لخت دل زینب مضطر
شبیرؔ محبت سے سخن کرتے تھے سب سے
عباسؔ علی سامنے بیٹھے تھے ادب سے
سر گرم تھے مر جانے پہ، سب شاہ کے انصار
عباس سے یہ کہتا تھا، وہ کل کا مدد گار
تم رہیو ذرا خیمۂ ناموس سے ہشیار
ڈر ہے نہ کرے بے ادبی لشکر کفار
بے دینوں کو راحت مری منظور نہیں ہے
شب خوں جو ادھر سے ہو، تو کچھ دور نہیں ہے
یہ ذکر ابھی تھا کہ یکایک خبر آئی
اے چاند ید اللہ کے، شب دوپہر آئی
حضرت کو ستاروں کی جو گردش نظر آئی
دل یاد خدا کرنے لگا، چشم بھر آئی
فرمایا بڑا اجر ہے، بیدارئ شب کا
اے تشنہ لبو وقت ہے یہ طاعت رب کا
اب عمر بھی آخر ہے، نمازیں بھی ہیں آخر
بے توشہ پہونچتا نہیں، منزل پہ مسافر
ہر وقت ہے ربِ دو جہاں حاضر و ناظر
اجر ان کے مضاعف ہیں جو ہیں صابر و شاکر
مشکل نہ کسی رنج کو سمجھے نہ بلا کو
بندہ وہی بندہ ہے جو بھولے نہ خدا کو
نام اس کا رہے ورد، سفر ہو کہ حضر ہو
موجود سمجھ لے اسے جنگل ہو کہ گھر ہو
سجدے ہی کرے دکھ میں کہ راحت میں بسر ہو
تسبیح میں شب ہو، تو نمازوں میں سحر ہو
عشق گل تر ظلم کے خاروں میں نہ بھولے
معشوق کو تلواروں کی دھاروں میں نہ بھولے
چومے لب سوفار، جو سینے پہ لگیں تیر
دم عشق کا بھرتا رہے زیر دم شمشیر
زخموں کو یہ سمجھے، کہ ملا گلشن توقیر
تکبیر کا نعرہ ہو زباں پر، دم تکبیر
کٹنے میں رگوں کے نہ صدا آہ کی نکلے
ہر رنگ میں بو الفت اللہ کی نکلے
شہ نے سخن معرفت حق جو سنائے
اشک آنکھوں میں ہر عاشق صادق کے بھر آئے
کچھ پیاس کا شکوہ بھی زباں پر نہیں لائے
سجادے وہیں لا کے دلیروں نے بچھائے
تکبیریں ہوئیں لشکر اللہ و نبی میں
سب محو ہوئے یاد جناب احدی میں
تسبیح کہیں تھی کہیں سجدے کہیں زاری
تھا صوت حسن سے کوئی قرآن کا قاری
کرتا تھا کوئی عرض کہ یا حضرت باری
اب صبح کو عزت ہے ترے ہاتھ ہماری
حرمت سے شریک شہدا کیجیو یا رب
تو حوصلۂ صبر، عطا کیجیو یا رب
ہم ہیں ترے محبوب کے پیارے کے مددگار
مرنے کے لئے آئے ہیں یا چھوڑ کے گھر بار
یہ بندۂ بے کس ہے مصیبت میں گرفتار
کر رحم کہ ہے ذات تری راحم و غفار
فاقوں کے سبب، جسم کی طاقت میں کمی ہے
تجھ سے طلب قوت ثابت قدمی ہے
بے کس ہیں مسافر ہیں، وطن دور ہے، گھر دور
ہفتم سے ہمیں گھیرے ہے یہ لشکر مقہور
تیروں سے ہوں غربال کہ تیغوں سے بدن چور
احمدؔ کے نواسے سے جدائی نہیں منظور
پھر منہ کسے دکھلائیں جو سردار کو چھوڑیں
کیوں کر ترے مقبول کی سرکار کو چھوڑیں
مردوں کے لئے ننگ ہے تلواروں سے لڑنا
راحت ہو کہ ایذا، یہیں جینا، یہیں مرنا
تو چاہے تو مشکل نہیں کچھ سر سے گزرنا
اے کل کے مدد گار، مدد جنگ میں کرنا
فاقوں میں ہزاروں سے وغا ہو تو مزا ہے
کچھ حق نمک ہم سے ادا ہو تو مزا ہے
کرتے تھے مناجات ادھر یاور و انصار
پڑھتے تھے نماز شب ادھر، سید ابرار
تھی نیت تسبیح بتول جگر افگار
آواز بکا خیمے سے آنے لگی یک بار
اکبرؔ سے اشارہ کیا مڑ کر، کہ یہ کیا ہے
کہ عرض پھوپھی جان کے رونے کی صدا ہے
یوں تو کئی راتوں سے وہ ہیں مضطر و بیتاب
راحت کی نہ صورت ہے نہ آرام کا اسباب
غش میں جو ذرا بند ہوئے، دیدۂ پر آب
روتی ہوئی چونکی ہیں، ابھی دیکھ کے کچھ خواب
نعلین کہیں، چادر پر نور کہیں ہے
اس وقت سے بسمل کی طرح چین نہیں ہے
سب بیبیاں ہیں رو رہیں بچوں کو لیے پاس
ایک ایک کو اندیشہ ہے، ایک ایک کو وسواس
جو پوچھتا ہے وجہ تو کہتی ہیں بصد یاس
لوگو مجھے شبیر کے بچنے کی نہیں آس
مانگو یہ دعا غیب سے بے کس کی مدد ہو
صدقے کرو مجھ کو کہ بلا بھائی کی رد ہو
ان کا تو یہ احوال ہے، اماں کا یہ عالم
اشکوں کی جھڑی آنکھوں سے تھمتی نہ تھی اِک دم
اصغرؔ کی بھی ہے فکر، سکینہ کا بھی ہے غم
شش ماہ کا بچہ بھی ہوا جاتا ہے بے دم
گودی میں اٹھائیں اُسے یا اس کو سنبھالیں
دو روز کے فاقے میں وہ کس کس کو سنبھالیں
رو آتی ہیں عابدؔ کے سرہانے کبھی جا کر
گہوارۂ اصغرؔ پہ کبھی گرتی ہیں آ کر
قرآں کی ہوا دیتی ہیں غش میں اسے پا کر
بہلاتی ہیں، بیٹی کو کبھی اشک بہا کر
وہ کہتی ہے تا صبح یوں ہی روؤں گی اماں
بابا ہی جب آویں گے تو میں سوؤں گی اماں
بتلاؤ شہ جن و بشر کیوں نہیں آتے
اب رات بہت کم ہے، پدر کیوں نہیں آتے
آزردہ ہیں کچھ مجھ سے، ادھر کیوں نہیں آتے
کیا آج وہیں سوئیں گے، گھر کیوں نہیں آتے
اب پیاسوں کی فریاد بھی بابا نہیں سنتے
حضرت مرے رونے کی صدا کیا نہیں سنتے
رو کر علیؔ اکبر نے جو کی شہ سے یہ تقریر
پڑھتے ہوئے تسبیح گئے، حضرت شبیرؔ
دیکھی جو نہ تھی دیر سے وہ چاند سی تصویر
قدموں پہ محبت سے گری دوڑ کے ہمشیر
بیتاب جو پایا بہت اس تشنہ دہن کو
شبیرؔ نے لپٹا لیا چھاتی سے بہن کو
فرمایا بہن تم نے بنایا ہے یہ کیا حال
نہ سر پہ عصابہ ہے نہ چادر ہے نہ رومال
ماتھا ہے بھرا خاک سے بکھرے ہوئے ہیں بال
پیٹو نہیں، جیتا ہے ابھی فاطمہؔ کا لال
دم تن سے مرا کٹ کے نکل جائے گا زینبؔ
رو لیجیو جب رونے کا وقت آئے گا زینبؔ
جیتا ہوں میں اور آہ ابھی سے یہ تلاطم
یہ کرب یہ دکھ درد، یہ زاری یہ تظلم
ہوتے ہیں مرے ہوش و حواس آئے ہوئے گم
خنجر کے تلے دیکھو گی کس طرح مجھے تم
بس صبر کرو جی سے گذر جائیں گے بچے
تڑپو گی تم اس طرح تو مر جائیں گے بچے
تلوار کسی نے ابھی تولی نہیں مجھ پر
سینہ ابھی تیروں سے مشبک نہیں خواہر
گردن پہ کسی نے ابھی پھیرا نہیں خنجر
مر جائے گا بھائی تمہیں ثابت ہوا کیوں کر
ہر چند کہ ساعت نہیں ٹلتی ہے قضا کی
بچ جاؤں تو کیا دور ہے قدرت سے خدا کی
زینبؔ نے کہا خوش ہوں جو میری اجل آئے
بھائی تمہیں اللہ اس آفت سے بچائے
خالق مجھے عابدؔ کی یتیمی نہ دکھائے
بھائی کی بلا لے کے بہن خلق سے جائے
وسواس طبیعت کو بہلنے نہیں دیتا
بے چین ہے دل مجھ کو سنبھلنے نہیں دیتا
آتا ہے سکینہؔ کی یتیمی کا، مجھے دھیان
ہر وقت بھرا گھر نظر آ جاتا ہے، ویران
سمجھانے سے کچھ دل جو بہلتا ہے، میں قربان
پھر جاتا ہے آنکھوں کے تلے موت کا سامان
بازو مرے کسنے کو رسن لاتا ہے کوئی
سر پر سے ردا کھینچے لئے جاتا ہے کوئی
منہ ڈھانپ کے بستر پہ جو سو جاتی ہوں دم بھر
تو چاک گریباں نظر آتے ہیں پیمبر
اماں کبھی چلاتی ہیں یوں کھولے ہوئے سر
بیٹی نہ بچے گا ترا مظلوم برادر
کیا لیٹی ہے بستر پہ کدھر دھیان ہے زینبؔ
شپیر اسی رات کا مہمان ہے زینبؔ
یہ ذکر ابھی تھا کہ سکینہؔ نے پکارا
سونا تو گیا آپ کے ہمراہ ہمارا
میں جاگتی ہوں اور جہاں سوتا ہے سارا
گردوں پہ چمکنے نہ لگے صبح کا تارا
نیند آئی ہے بیٹی کو سلا جایئے بابا
بس ہو چکیں باتیں اب ادھر آیئے بابا
حضرت نے کہا میں تِری آواز کے قرباں
اللہ تم اب تک نہیں سوئی ہو مری جاں
غربت میں کہاں راحت و آرام کا ساماں
بن باپ کے تم کو تو نہیں چین کسی آں
اچھی نہیں عادت یہ نہ رویا کرو بی بی
پہلو میں کبھی ماں کے بھی سویا کرو بی بی
کیا ہووئے جو ہم گھر میں کسی شب کو نہ آئیں
مجبور ہوں ایسے کہ تمہیں چھوڑ کے جائیں
تم پاؤ نہ ہم کو، نہ تمہیں ہم کہیں پائیں
بی بی کہو پھر چھاتی پہ کس طرح سلائیں
جنگل میں بہت قافلے لٹ جاتے ہیں، بی بی
برسوں جو رہے ساتھ وہ چھٹ جاتے ہیں، بی بی
جب عمر تھی کم، ہم بھی چھٹے تھے یونہی ماں سے
سوتے تھے لپٹ کر یوں ہی، خاتون جناں سے
کوچ ان کا ہوا سامنے آنکھوں کے جہاں سے
ماتم سے ملیں وہ، نہ بکا سے، نہ فغاں سے
یہ داغ یہ اندوہ و الم سب کے لئے ہیں
ماں باپ زمانے میں سدا کس کے جیے ہیں
رستہ وہ اجل کا ہے کہ ہوتا ہی نہیں بند
کوچ آج پدر کا ہے تو کل جائے گا فرزند
ہوتا ہے قلق فرقت اولاد میں وہ چند
کیا زور ہے بندے کا، جو مرضیٔ خداوند
جو آئے ہیں دنیا میں وہ سب کوچ کریں گے
اس زیست کا انجام یہی ہے کہ مریں گے
یہ کہتے تھے حضرت کی صدا آئی اذاں کی
گلدستۂ اسلام پہ، بلبل نے فغاں کی
اک دم میں بہار اور ہوئی باغ جہاں کی
تلوار چلی گلشن انجم پہ خزاں کی
مہتاب ہوا گم فلک نیلوفری سے
پھولا گل خورشید، نسیم سحری سے
گرمی کی سحر اور وہ پھولوں کا مہکنا
مرغان چمن کا وہ درختوں پہ چہکنا
انجم کا وہ چھپنا کبھی اور گاہ چمکنا
وہ سرد ہوا اور وہ سبزے کا لہکنا
اس دشت میں روتی تھی جو شبنم شہ دیں پر
تھا موتیوں کا فرش زمرد کی زمیں پر
جلوہ وہ دم صبح کا، وہ نور کا عالم
دلچسپ صدا نوبت و شہنا کی، وہ باہم
سرخی وہ شفق کی، افق چرخ پہ کم کم
وہ گل کے کٹوروں پہ در افشانیٔ شبنم
خشکی میں بھی سردی سے ترائی کا سماں تھا
پر مالک گلزار جناں، تشنہ دہاں تھا
لشکر میں ادھر مورچے بندی کی ہوئی دھوم
یاں فرض ادا کرنے لگے عاشق قیوم
پیچھے تو جماعت تھی اور آگے شہ مظلوم
صف بستہ ملائک ہیں، یہی ہوتا تھا معلوم
سب ساجد و راکع تھے شہنشاہ کے ہمراہ
تاباں تھے بہتر مہ نو ماہ کے ہمراہ
خیمہ تھا فلک، آپ قمر، دوست ستارے
تارے بھی وہ تاروں کو فلک جن پہ اتارے
خم ہو گیا تھا، پیر فلک شرم کے مارے
کہتی تھی زمیں، اوج ہے طالع کو ہمارے
خورشید نہیں روشنیٔ نیر دیں ہے
خود عرش کو دھوکا تھا، یہ میں ہوں کہ زمیں ہے
جو صف ہے وہ اک سطر ہے قران مبیں کی
دیوار ہے قبلہ کی طرف، کعبۂ دیں کی
کیا خوب جماعت ہے یہ ارباب یقیں کی
افلاک کی زینت ہے تو رونق ہے زمیں کی
کس طرح شہنشاہ سے وہ فوج جدا ہو
مشکل ہے کہ دریا سے کہیں موج جدا ہو
اس دم تھی یہ آواز پس پردۂ قدرت
اے قدسیو دیکھو مرے بندوں کی عبادت
نہ پیاس کا شکوہ ہے، نہ فاقوں کی شکایت
یہ زہد، یہ تقویٰ، یہ اطاعت، یہ ریاضت
کونین میں یہ صاحب اقبال و شرف ہیں
عالم ہوں کہ ان لوگوں کے دل میری طرف ہیں
کس عجز سے آگے مرے حاضر ہیں یہ بندے
دیکھو مرے محبوب کے ناصر ہیں، یہ بندے
مظلوم ہیں بے کس ہیں مسافر ہیں یہ بندے
تھوڑے نہ ہوں کس طرح کے شاکر ہیں یہ بندے
صادق ہیں ولی سے مرے ان سب کو ولا ہے
ان کا وہ صلہ ہے جو رسولوں کا ملا ہے
پرسش نہ لحد میں نہ حساب اُن کے لئے ہے
یہ لائق رحمت ہیں، ثواب اُن کے لئے ہے
موتی سے جو ہے صاف، وہ آب اُن کے لئے ہے
میں جس کا ہوں ساقی، وہ شراب اُن کے لئے ہے
اس نخل ریاضت کے ثمر اُن کو ملیں گے
جو عرش کے نیچے ہیں وہ گھر اُن کے ملیں گے
فارغ جو صلوٰۃ سحری سے ہوئے دیں دار
پوشاک پہننے کو اٹھے سید ابرار
فرمانے لگے حضرت عباسؔ علمدار
ہاں غازیو اب تم بھی سجو جنگ کے ہتھیار
قرباں تمہیں ہونا ہے محمدؔ کے پسر پر
کمروں کو کسو، گلشن جنت کے سفر پر
آمادۂ شر لشکر کفار ہے کل سے
ہونا ہے تمہیں آج، ہم آغوش اجل سے
در پیش ہے جنگ و جدل اس فوج کے دَل سے
آقا بھی کوئی دم میں نکلتے ہیں محل سے
ہاں صف شکنو وقت ہے نصرت کی دعا کا
کھلتا ہے پھریرا علم فوج خدا کا
ہم لوگ اسی روز کے مشتاق ہیں، کب سے
اب ہوگی ملاقات شہنشاہ عرب سے
سیدانیاں تم سب کو دعا دیتی ہیں شب سے
صف باندھ کے آؤ، درِ دولت پہ ادب سے
فردوس میں نانا سے حضور آج ملیں گے
کوثر پہ تمہیں خلعت نور آج ملیں گے
اس مژدہ کو سنتے ہی مسلح ہوئے غازی
اصطبل سے آنے لگے جراروں کے تازی
شیر صف جنگاہ تھا، ایک ایک نمازی
نعرے تھے کہ قربان شہنشاہ حجازی
ڈیوڑھی پہ شگفتہ تھا چمن خلد بریں کا
خیمہ میں تلاطم تھا وداع شہ دیں کا
تھے گرد حرم بیچ میں وہ عاشق حق تھا
مانند سحر رنگ ہر اک بی بی کا فق تھا
بانوے دو عالم کا جگر سینے میں شق تھا
زینب یہ تڑپتی تھی کہ حضرت کو قلق تھا
شبیرؔ کے پہلو سے نہ ہٹتی تھی سکینہؔ
بڑھتے تھے تو دامن سے لپٹتی تھی سکینہؔ
شہ کہتے تھے بی بی ہمیں اب جانے دو گھر سے
سینہ مرا شق ہوتا ہے، لپٹو نہ پدر سے
وہ کہتی تھی سایہ جو یہ اٹھ جائے گا سر سے
ہے ہے میں تمہیں ڈھونڈ کے لاؤں گی کدھر سے
بیٹی کا سوا آپ کے کوئی نہیں بابا
شب بھر میں اسی خوف سے سوئی نہیں بابا
سمجھاتے تھے حضرت کہ میں صدقے مری پیاری
میداں سے ابھی آئیں گے ہم تو کئی باری
وہ کہتی تھی میں آپ کی مظلومی کی واری
ساماں نظر آتا ہے یتیمی کا ہماری
در پیش لڑائی نہیں گر فوج شقی سے
کیوں آپ سفارش مری کرتے تھے پھوپھی سے
اب آپ کے جانے سے تو ثابت ہے نہ آنا
کیوں کہتے تھے زینب اسے چھاتی سے سلانا
بانو مرے پیچھے، نہ سکینہ کو رلانا
پانی جو میسر ہو تو پیاس اس کی بجھانا
بہلائیو جب رو کے مجھے یاد کرے گی
تڑپوں گا لحد میں جو یہ فریاد کرے گی
میں سنتی تھی عابدؔ سے جو کچھ کی تھی وصیت
اس گھر کی تباہی کی خبر دیتے تھے حضرت
ہے ہے یہ مری عمر یہ صدمہ یہ مصیبت
لے لو مجھے ہمراہ، گوارہ نہیں فرقت
ساتھ آپ کے جاؤں گی جو اس دار محن سے
کوئی مری گردن تو نہ باندھے گا رسن سے
نادان کی ان باتوں پہ گھر روتا تھا سارا
ماتم میں کسی دل کو نہ تھا، صبر کا یارا
حضرت کو بھی فرقت تھی نہ بیٹی کی گوارا
ڈیوڑھی تک اسے گود سے اپنی نہ اتارا
جس دم وہ چھٹی، جیتے ہی جی مرگئے شپیرؔ
کس درد سے روتے ہوئے باہر گئے شپیرؔ
جس دم در دولت پہ امیر امم آیا
پیٹے یہ حرم گھر میں کہ ہونٹوں پہ دم آیا
تسلیم کو اسلام کا، لشکر بہم آیا
کس صولت و اقبال و حشم سے علم آیا
جاتی تھی لچکنے میں ضیا عرش تک اس کی
خورشید کو پنجہ میں لئے تھی چمک اس کی
آپس میں یہ کہتے تھے رفیقان دلاور
دیکھیں یہ ہُما سایہ فگن ہوتا ہے کس پر
اکبرؔ کے تو ہے نام پہ سالاریٔ لشکر
عباسؔ کو دیں گے شہ دیں منصب جعفرؔ
اِک عشق ہے اس شیر سے سلطان امم کو
بھائی کو کبھی دیکھتے ہیں، گاہ علَم کو
زینبؔ کے پسر مشورہ یہ کرتے تھے باہم
کیوں بھائی علَم لینے کو ماموں سے کہیں ہم
تائید خدا چاہئے گو عمر میں ہیں کم
عہدہ تو ہمارا ہے یہ آگاہ ہے عالم
واقف ہیں سبھی حیدرؔ و جعفرؔ کے شرف سے
حق پوچھو تو حقدار ہیں ہم دونوں طرف سے
دادا بھی علمدار ہے، نانا بھی علم دار
ہم اپنے بزرگوں کے ہیں، منصب کے طلب گار
کہتا تھا بڑا عرض کا موقع نہیں زنہار
ہیں بادشہ کون و مکاں مالک و مختار
عہدہ تو بڑا یہ ہے کہ ماموں پہ فدا ہوں
چپکے رہو، اماں نہ کہیں سن کے خفا ہوں
مطلب نہ علم سے نہ حشم سے ہمیں کچھ کام
مٹ جائیں نشاں، بس یہی عہدہ ہے یہی نام
یہ سر ہوں نثار قدم شاہ خوش انجام
عزت رہے بھائی، یہ دعا ہے سحرو شام
آقا جسے چاہیں علم فوج خدا دیں
مشتاق اجل ہیں ہمیں مرنے کی رضا دیں
روتی تھی جو پردے کے قریں زینبؔ دلگیر
سب اس نے مفصل یہ سنی بیٹوں کی تقریر
فضہؔ سے یہ کہنے لگی، وہ صاحب توقیر
دونوں کو اشارے سے بلا لے کسی تدبیر
کچھ کہنا ہے سن لیں اسے فرصت انہیں گر ہو
عباسؔ نہ دیکھیں نہ شہ دیں کو خبر ہو
یہ کہتی تھی زینبؔ کہ خود آئے وہ نکو کار
چھوٹے سے یہ فرمانے لگیں زینبؔ ناچار
کیا باتیں ابھی بھائی سے تھیں، اے مرے دلدار
اس وقت میں ہو کون سے منصب کے طلب گار
سمجھے نہ کہ مادر عقب پردہ کھڑی ہے
گھر لٹتا ہے میرا، تمہیں منصب کی پڑی ہے
اللہ بڑا عزم کیا، باندھ کے تلوار
بچو! تمہیں ایسا نہ سمجھتی تھی میں زنہار
دیکھو ابھی تم دونوں سے ہو جاؤں گی بے زار
کچھ کہیو نہ ماموں سے خبردار! خبردار
کیا دخل تمہیں امر میں سلطان امم کے
دیکھوں گی نہ پھر منہ، جو گئے پاس علم کے
کچھ اور ہی تیور ہیں علم نکلا ہے جب سے
تم کون ہو جو آگے بڑھے جاتے ہو سب سے
استادہ ہو، جا کر عقب شاہ، ادب سے
عہدہ ہے یہ جس کا مجھے معلوم ہے شب سے
اس امر میں خاطر نہ کریں، اور کسی کی
میں خوش ہوں بجا لائیں وصیت کو علیؔ کی
دو روز سے بھائی پہ مرے ظلم و ستم ہے
تم فکر علم میں ہو مجھے سخت الم ہے
چھوٹے سے ہیں قد، سِن بھی تمہارا ابھی کم ہے
کھیل اس کو نہ سمجھو یہ محمدؔ کا علم ہے
ہرگز نہ ابھی کچھ شہِ ذی جاہ سے کہنا
کہنا بھی تو رخصت کے لئے شاہ سے کہنا
مانا کہ پہونچتا ہے تمہیں منصب جعفرؔ
آقا کی غلامی سے ہے عہدہ کوئی بڑھ کر
چھوٹا مرا بھائی بھی ہے، بیٹوں کے برابر
عاشق کا تو عاشق ہے، برادر کا برادر
بگڑوں گی گلہ گر کوئی اسلوب کرو گے
عباس سے کیا تم مجھے ممجوب کرو گے
زینبؔ نے عتابانہ جو کی ان سے یہ گفتار
یوں کہنے لگے، جوڑ کے ہاتھوں کو وہ دلدار
شاہوں سے غلاموں نے بھی کی ہے، کبھی تکرار
مالک ہیں جسے چاہیں علم دیں، شہ ابرار
رخصت کے لئے تیغ و سپر باندھے ہوئے ہیں
ہم صبح سے مرنے پہ کمر باندھے ہوئے ہیں
زینبؔ نے کہا لے کے بلائیں کہ سدھارو
بس اب مرا دل شاد ہوا اے مرے پیارو
ماں صدقے گئی، سر قدم شاہ پہ وارو
ہو عید مجھے گر عمرؔ و شمرؔ کو مارو
یہ وقت ہے امداد امام ازلی کا
دے چھوٹے سے ہاتھوں میں خدا زور علیؔ کا
صدقے گئی سن لو کہ میں کہتی ہوں جتا کر
تم پہلے فدا کیجیو سر شہ کے قدم پر
میدان میں زخمی ہوئے گر قاسمؔ و اکبرؔ
پھر تم مرے فرزند نہ میں دونوں کی مادر
جب دل ہوا ناراض تو فرزند کہاں کے
کس کام کا وہ لعل جو کام آئے نہ ماں کے
ان میں سے اگر رن کی طرف ایک سدھارا
زہراؔ کی قسم منہ نہ میں دیکھوں گی تمہارا
جس وقت سنوں گی کہ سر ان دونوں نے وارا
اس وقت تمہیں ہوگا مرا دودھ گوارا
بے جاں ہوئے بعد ان کے، تو ماتم نہ کروں گی
دیکھو جو مروں گی بھی تو ناراض مروں گی
ہیں دونوں بھتیجے، مرے پیارے مرے محبوب
تم ان پہ تصدق ہو، یہی ہے مجھے مطلوب
جینا نہیں بہتر کسی صورت، کسی اسلوب
بے سر دیے دودھ اپنا میں بخشوں تمہیں، کیا خوب
ایذا جو اٹھاؤ گے تو راحت بھی ملے گی
جب آئیں گی لاشیں تو یہ دولت بھی ملے گی
دیکھو کہے دیتی ہوں خبردار! خبردار
جیتے جو رہے دودھ نہ بخشوں گی میں زنہار
شیروں کے یہ ہیں کام کھنچے جس گھڑی تلوار
رکھ دیویں گلا بڑھ کے، تہِ خنجرِ خوں خوار
توڑی ہیں صفیں جنگ میں جب کھیت پڑے ہیں
جنات کے لشکر سے علیؔ یوں ہی لڑے ہیں
اعدا کو مرے دودھ کی تاثیر دکھاؤ
اجلالِ حسن شوکتِ شبیر دکھاؤ
جعفرؔ کی طرح جوہرِ شمشیر دکھاؤ
تن تن کے ید اللہ کی تصویر دکھاؤ
خورشیدِ امامت سے قرابت میں قریں ہو
تم شیر ہو شیروں کے حسینوں کے حسیں ہو
جعفر سے نمودار کے دلبر ہو دلیرو
حیدر سے دلاور کے دلاور ہو دلیرو
جرار ہو، کرار ہو، صفدر ہو دلیرو
ضرغام ہو، ضیغم ہو، غضنفر ہو دلیرو
تیروں سے جوانوں کے جگر توڑ کے آؤ
خیبر کی طرح کوفے کا در توڑ کے آؤ
خندق کی لڑائی کی طرح جنگ کو جھیلو
بچے اسد اللہ کے ہو، جان پہ کھیلو
تیغوں میں دھنسو، چھاتیوں سے نیزوں کو ریلو
کوفے کو تہِ تیغ کرو، شام کو لے لو
دو اور جلا آئینۂ تیغِ عرب کو
لو روم کو قبضے میں تو قابو میں حلب ہے
خاقاںؔ کا رہا تخت نہ قیصرؔ کا رہا تاج
ہاں غازیو! چین و حبش و زنگ سے لو باج
چڑھنا ہے لڑائی پہ جواں مردوں کو معراج
گیتی تہ و بالا ہو وہ تلوار چلے آج
یوں آئیو چار آئینہ پہنے ہوئے بر میں
جس طرح علیؔ بعد ظفرؔ آتے تھے گھر میں
میلے نہ ہوں تیور، یہ سپاہی کے ہنر ہیں
جس کے ہیں، بس اس کے ہیں، جدھر ہیں بس ادھر ہیں
گہ عطر میں ڈوبے ہیں، گہے خون میں تر ہیں
صحبت میں مصاحب ہیں، لڑائی میں سپر ہیں
وہ اور کسی سے نہ جھکیں گے نہ جھکے ہیں
عزت میں نہ فرق آئے کہ سر بیچ چکے ہیں
یہ سن کے جو نکلے وہ جری خیمے سے باہر
کس پیار سے منہ دونوں کا تکنے لگے سرور
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ اے سبطِ پیمبر
تیار ہے سب قبلۂ کونین کا لشکر
جلدی ہے لڑائی کی ادھر فوجِ ستم کو
ارشاد جسے ہو وہ بڑھے لے کے علم کو
شہ بولے کہ عباسِؔ دلاور کو بلاؤ
پیارے مرے محبوب برادر کو بلاؤ
عاشق کو مددگار کو یاور کو بلاؤ
جلدی مرے حمزہؔ مرے جعفرؔ کو بلاؤ
یہ اوج، یہ رتبہ، یہ حشم اس کے لئے ہے
زیب اس سے علم کی ہے، علم اس کے لئے ہے
سب تکنے لگے صورتِ عباس فلک جاہ
نازاں ہوا خود اوج پہ اپنے علمِ شاہ
یعنی مرا عامل ہے نشانِ اسد اللہ
بالیدہ تھا پرچم، تو پھریرا تھا ہوا خواہ
جان آ گئی تھی سنتے ہی اس خوشخبری کو
پنجہ بھی اشارے سے بلاتا تھا جری کو
خوش ہو کے یہ عمّو کو پکارے علیؔ اکبر
جلد آیئے یاد آپ کو فرماتے ہیں سرور
حاضر ہوا جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ہو صفدر
ارشاد کیا شہ نے علم بھائی کو دے کر
رکھیے اسے کاندھے پہ، یہ ہے آپ کا عہدہ
لو بھائی مبارک ہو تمہیں باپ کا عہدہ
بوسہ دیا عباسِؔ دلاور نے علم پر
تسلیم کی اور رکھ دیا سر شہ کے قدم پر
کی عرض کہ قربان اس الطاف و کرم پر
سو سر ہوں تو صدقے میں شہنشاہِ امم پر
ادنیٰ جو ابھی تھا اسے اعلیٰ کیا مولا
قطرے کو ترے فیض نے دریا کیا مولا
اس چترِ فلک قدر کا سایہ مرے سر پر
اس دھوپ میں ہوگا، پہ پھریرا مرے سرپر
یہ ابر مِرے سر پہ، یہ طوبیٰ مرے سر پر
قائم رہیں لاکھوں برس آقا مرے سر پر
سلطانِ دو عالم کی غلامی کے صلے ہیں
سب اوج یہ نعلین اٹھانے سے ملے ہیں
حضرت نے کہا رو کے یہ کیا کہتے ہو پیارے
حاضر ہے اگر جان بھی کام آئے تمہارے
حصہ یہ تمہارا تھا سو پہونچا تمہیں بارے
مالک ہو تمہیں، ہم تو ہیں اب گور کنارے
تھا دل میں جو کچھ وہ بخدا ہو نہیں سکتا
بھائی ترا حق مجھ سے ادا ہو نہیں سکتا
یہ کہہ کے بڑھے سرورِ دیں جانبِ توسن
ہتیار لگائے ہوئے، پہنے ہوئے جوشن
اسوار ہوئے آپ، جو گردان کے دامن
اللہ رے ضیا، خانۂ زیں ہو گیا روشن
وہ پاؤں رکابوں کے لئے باعثِ ضو تھے
خورشید کے قدموں کے تلے دو مہِ نو تھے
رانوں کے اشارے سے لگا کوندنے، شبدیز
اسوار کے دل کا تھا اشارہ اسے مہمیز
گرما کے جو شبیرؔ نے تازی کو کیا تیز
اعدا پہ چلا غول سواروں کا، جلو ریز
ایک ایک جوانِ عربی، رشکِ ملک تھا
اللہ کے لشکر کا علم، سر بہ فلک تھا
کیا فیضِ سواری تھا کہ زر ریز تھی سب راہ
طالع تھا ادھر مہر، ادھر تھا علم شاہ
مابین دو خورشید تھی، فوجِ شہِ ذی جاہ
پنجے پہ تجلی تھی، کہ اللہ ہی اللہ
بالا تھی چمک، مہرِ منور کی چمک پر
ضو اس کی زمیں پر تھی، ضیا اس کی فلک پر
ایک ایک جواں، زیورِ جنگی کو سنوارے
نیزوں کی چمک اور وہ سمندر کے طرارے
جعفرؔ کے جگر بند، ید اللہ کے پیارے
رستم سے ہر اک جنگ کرے شیر کو مارے
سیاف ہو مرحبؔ سا، تو شمشیر سے ماریں
ارجنؔ سے کماندار کو، اک تیر سے ماریں
کم سن کئی لڑکوں کا جدا غول تھا سب سے
سوئے بھی نہ تھے، ولولۂ جنگ میں ، شب سے
رو کے ہوئے باگوں کو، شہِ دیں کے ادب سے
اعدا کی طرف دیکھتے تھے، چشمِ غضب سے
ہتھیار جو باندھے تھے تو کیا تن پہ کُھلے تھے
سب نیمچے تولے ہوئے مرنے پہ تُلے تھے
وہ چاند سا منہ، اور وہ گورے بدن، ان کے
شرمندہ ہو غنچے بھی، وہ نازک دہن ان کے
یوسف کی طرح عطر فشاں پیرہن ان کے
مرکر وہی کپڑے ہوئے آخر کفن ان کے
کیا حسنِ عقیدت تھا عجب دل کے جواں تھے
آقا پہ فِدا ہونے کو سب ایک زباں تھے
عمریں تو کم و بیش، یہ سب گیسوؤں والے
اِک غول میں تھے چاند کئی اور کئی ہالے
ذی مرتبہ سیدانیوں کو گود کے پالے
غنچہ تھا وہ سب، اکبرِؔ گل رو کے حوالے
ان تازہ نہالوں میں نمودار یہی تھے
اس گلشنِ یک رنگ کے مختار یہی تھے
مقتل کو جو پر نور کیا، عسکرِ دیں نے
دیکھا طرفِ چرخ، حقارت سے زمیں نے
اونچا نہ کیا سر فلکِ ماہِ جبیں نے
کی فرش پہ حسرت سے نظر عرشِ بریں نے
اٹھ اٹھ کے چمک اپنی دکھانے لگے ذرے
خورشید کے پہلو کو دبانے لگے ذرے
کھولا جو پھریرے کو علمدار جری نے
لوٹے گلِ فردوس، نسیم سحری نے
تاروں کو اتارا، فلکِ نیلوفری نے
پرچم جو کھلا کھول دیے بال پری نے
عیسی نے پکارا کہ نثار اس کے چشم کے
خورشید نے منہ رکھ دیا پنجے پہ علم کے
ترتیبِ صفِ فوج کا جس دم ہوا اعلام
باندھی علیؔ اکبر نے صفِ لشکرِ اسلام
ظاہر جو ہوئی شانِ جوانانِ گل اندام
کوفے کے نشاں جھک گئے، کانپی سپہِ شام
اللہ رے شوکت شرفا و نجبا کی
اسلام کا لشکر تھا کہ قدرت بھی خدا کی
ناگاہ بجا طبل، بڑھا لشکرِ سفاک
تا چرخ گیا، غلغلۂ کوسِ شغب ناک
فریاد سے قرنا کی ہلا گنبد افلاک
تھرا گیا آوازِ دہل سے کرۂ خاک
نوبت تھی زبس قتلِ امامِ مدنی کی
صاف آتی تھی تاشوں سے صدا سینہ زنی کی
واں شور تھا باجوں کا ادھر نعرۂ تکبیر
ایک ایک جری جھومتا تھا تول کے شمشیر
نگاہ سوئے فوجِ خدا آنے لگے تیر
عباسؔ علمبدار نے دیکھا رخِ شبیر
کی عرض کہ لڑنے کو شریر آتے ہیں مولا
کیا حکم ہے اب پیاسوں پہ تیر آتے ہیں مولا
شہ نے کہا شرم آتی ہے کیا حکم میں دوں آہ
ہفتادِ دو تن یاں ہیں، ادھر سیکڑوں گمراہ
غازی نے یہ کی عرض کہ اے گل کے شہنشاہ
یہ شیر نیستانِ علیؔ ہیں، تو وہ روبارہ
لاکھوں ہیں تو کیا ڈرہے شجاعانِ عرب کو
اقبال سے آقا کے بھگا دیتے ہیں سب کو
فرمایا کہ فاقے سے ہے، سارا مرا لشکر
پانی نہیں ملتا کہ لبِ خشک کریں تر
بہتر ہے اگر پہلے کٹے تن سے مرا سر
غازی نے کہا شیرِ گرسنہ ہیں، یہ صفدر
حملوں سے الٹ دیں گے پرے فوج عدو کے
بھوکے ہیں یہ زخموں کے، پیاسے ہیں لہو کے
حضرت نے کہا خیر! لڑو فوجِ ستم سے
معلوم ہے سب آج جدا ہوویں گے ہم سے
دنیا سے نہ مطلب ہے، نہ کچھ جاہ و حشم سے
کٹ جائے گا اپنا بھی گلا، تیعِ دو دم سے
مقبول ہیں وہ، جو مری امداد کریں گے
اس جنگ کو بھی لوگ، بہت یاد کریں گے
جس دم یہ سنی، قبلۂ کونین کی گفتار
جانباز بڑھے، فوج سے چلنے لگی تلوار
تھے پیاسوں کے حملے غضبِ حضرتِ قہار
چوٹی کے جواں بھاگ گئے پھینک کے تلوار
کون آنکھ ملا سکتا تھا، شیروں سے عرب کے
جب کرتے تھے نعرے قدم اٹھ جاتے تھے سب کے
لڑتا تھا غضب ایک کے بعد ایک وفادار
دن چڑھتا تھا یاں، گرم تھا واں موت کا بازار
سر بیچتے تھے، جنسِ شہادت کے طلبگار
بڑھ بڑھ کے خریدار پہ گرتا تھا خریدار
لیں پہلے، ہم ایک ایک کی جاں اس کی بڑی تھی
عقبیٰ کا جو سودا تھا تو قیمت بھی کڑی تھی
آیا جو عزیزوں کے لئے موت کا پیغام
فرزندوں نے جعفرؔ کے بڑے رن میں کئے کام
اولاد عقیل آ چکی شبیرؔ کے جب کام
لڑنے کو گئے مسلمِ بیکس کے گل اندام
تھا حشر بپا ندیاں بہتی تھیں لہو کی
بچوں نے الٹ دی تھیں صفیں فوجِ عدو کی
لشکر میں تلاطم تھا غضب چلتی تھی تلوار
بیتاب تھے یاں، زینبِ ناشاد کے دلدار
منہ دیکھ کے حضرت کا یہی کہتے تھے ہر بار
ہم جائیں گے بعد ان کے سوئے لشکرِ کفار
جی جائیں جو مولا ہمیں مرنے کی رضا دیں
ایسا نہ ہو قاسمؔ کو حضور اذنِ وِغا دیں
کچھ ان سے کہا چاہتے تھے سرورِ ذی شان
جو غل ہوا مارے گئے مسلمؔ کے دل و جان
لاشے بھی ادھر آ چکے، جب خون میں غلطاں
پھر ہاتھوں کو جوڑا کہ ملے رخصت میداں
شہ نے کہا یہ داغ تو دشوار ہے ہم پر
ان دونوں نے سر رکھ دیے ماموں کے قدم پر
حضرت نے کہا ماں سے بھی ہو آئے ہو رخصت
کیا کہتے ہو لٹوا دوں میں ہمشیر کی دولت
مایہ ہو تمہیں اس کا، تمہیں اس کی بضاعت
چھوٹے نے یہ حضرت سے کہا تھام کے رقت
جھوٹے نہیں ہم، آپ ابھی پوچھ لیں سب سے
اماں تو رضا دے چکی ہیں، مرنے کی شب سے
بچوں نے جو کی جوڑ کے ہاتھوں کو یہ تقریر
ان دونوں کا منہ دیکھ کے رونے لگے شبیرؔ
فرمایا چھڑاتا ہے، تمہیں بھی فلکِ پیر
اچھا میں رضا مند ہوں، جو مرضئِ ہمشیر
وہ سیدۂ پاک نواسی ہے نبی کی
فیاض کی ہمشیر ہے، بیٹی ہے سخی کی
یہ سن کے جھکے آخری تسلیم کو ذی جاہ
خورشید کے آگے مہ نو بن گئے دو ماہ
کی سوئے فلک دیکھ کے شبیرؔ نے اک جاہ
دو شیر چلے گھوڑوں پر چڑھ کر سوئے جنگاہ
ماں ڈیوڑھی سے چلائی کہ رخصت ہو مبارک
سرکارِ شہنشاہ سے، خلعت ہو مبارک
سلطانِ دو عالم نے مخلع کیا واری
تم جاتے ہو یا جاتی ہے دولہا کی سواری
پروان چڑھے، ختم ہوئیں شادیاں ساری
لو دور سے لیتی ہوں بلائیں، تمہاری
صدقے گئی نیزوں کو ہلاتے ہوئے جاؤ
شکلیں مجھے پھر پھر کے دکھاتے ہوئے جاؤ
تسلیم کو گھوڑوں سے جھکے، دونوں وہ گل رو
دل ماں کا یہ امڈا کہ ٹپکنے لگے آنسو
باگیں جو اٹھائیں تو فرس بن گئے، آہو
پھر دیکھنے پائی نہ انہیں زینبِ خوش خو
میداں کی طرف یاس سے ماں رہ گئی تک کر
پنہاں ہوئے بدلی میں ستارے سے چمک کر
میداں میں عجب شان سے وہ شیرِ نر آئے
گویا کہ بہم حیدرؔ و جعفرؔ نظر آئے
غل پر گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسن گرانمایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں، سایہ ہے ان کا
وہ چاند سے منہ، اور وہ گیسوئے معنبر
وہ بدر سے رخسار، زہے قدرتِ داور
سب شان یداللہ کی، سب شوکتِ حیدرؔ
چتون وہی، غصہ وہی، سارے وہی تیور
یہ دبدبہ کس صاحبِ شمشیر نے دیکھا
دیکھا جسے، معلوم ہوا شیر نے دیکھا
تن تن کے جو شان اپنی دکھاتے تھے وہ ذی جاہ
چھاتی سے لگا لیتے تھے دونوں کو ید اللہ
شمشاد سے قامت، نہ دراز اور نہ کوتاہ
کھیلے ہوئے تیغوں میں فنِ جنگ سے آگاہ
ناخن سے دلیروں کے سب اندازِ وِغا تھے
بچے تھے مگر بچۂ ضرغامِ خدا تھے
تھے حسن میں ان دونوں کے آئینہ رو ایک
پیشانی و ابرو و سر و صدر و گلو ایک
شان ایک، شکوہ ایک، جو رنگ ایک، تو بو ایک
دل ایک، جگر ایک، جسد ایک، لہو ایک
اور ان سا کوئی غرب سے تا شرق نہیں ہے
دو ٹکڑے ہیں اک سیب کے، کچھ فرق نہیں ہے
پڑھنے لگے اشعارِ رجز جب وہ دلاور
اللہ ری فصاحت فصحا ہو گئے ششدر
ہر بیت تھی دشمن کے لئے تیغِ دو پیکر
ہر مصرع برجستہ میں تھی تیزئِ خنجر
دے کون جواب ان کا کہ دم بند تھا سب کا
واں قافیہ تھا تنگ شجاعانِ عرب کا
اظہارِ نسب میں جو محمدؔ کا لیا نام
سب پڑھنے لگے صلِ علیٰ صاحبِ اسلام
آگے جو بڑھے نامِ علیؔ کے کے وہ گلفام
دل ہِل گئے تھرانے لگا روم سے تا شام
جعفرؔ کا جو کچھ ذکر کیا بعد علیؔ کے
مجرے کو علم جھک گئے سب فوجِ شقی کے
آغاز تھا ذکرِ شرفِ حضرتِ شبیرؔ
ڈنکے پہ ادھر چوٹ لگی، چلنے لگے تیر
اس وقت بڑے بھائی نے کی چھوٹے سے تقریر
تلوار علم کیجئے اب کس لئے تاخیر
کہتے تو جدا ہو کے ستمگاروں پہ جائیں
اسواروں میں ہم، آپ کمانداروں پہ جائیں
فرمایا بڑے بھائی نے ہنس کر، نہیں بھائی
تم جان ہو، دشوار ہے دم بھر کی جدائی
ہو جاتی ہے اِک آن میں، ہر صف کی صفائی
کر دیتے ہیں سر، کون سی ایسی ہے لڑائی
بازو ہوں قوی، ہاتھ سے گر ہاتھ نہ چھوٹے
سر تن سے اتر جائے، مگر ساتھ نہ چھوٹے
نانا کی طرح، فوج پہ حملے کریں، آؤ
تلواروں میں تن تن کے چلو، برچھیاں کھاؤ
ان چھوٹے سے ہاتھوں کا ہمیں، زور دکھاؤ
ہم سینہ سپر تم پہ ہوں، تم ہم کو بچاؤ
ہم شیروں پہ رستم کا بھی منہ پڑ نہ سکے گا
جب دو ہوئے اک دل تو کوئی لڑ نہ سکے گا
چھوٹے نے کہا جوڑ کے ہاتھوں کو کہ، بہتر
بس کھینچ لئے نیمچے، دونوں نے برابر
دو بجلیاں کوندیں کہ لرزنے لگے لشکر
نیزوں کے نیستاں میںِ در آئے وہ غضنفر
برباد کیا رو میں سواروں کو دبا کے
رہوار بھی اسوار تھے گھوڑوں پہ ہوا کے
ان چھوٹی سی تلواروں کے تھے کاٹ نرالے
تھیں کہنیاں پہونچوں سے جدا، ہاتھوں سے بھالے
مسل اپنی جمائے تھے جو بے مثل رسالے
تھے جائزہ ان سب کا یہی دیکھنے والے
ناز اپنے ہنر پر تھا شجاعان عرب کو
نیزوں کو قلم کر کے ندارد کیا سب کو
موت آئی اُدھر، نیمچے دونوں جدھر آئے
جب ہاتھ بڑھا، پاؤں پہ کٹ کٹ کے سر آئے
گر سینے تک آئے تو، کبھی تا کمر آئے
خالی نہ پھرے، جس پہ گئے، خوں میں بھر آئے
ہر نیمچہ، بجلی تھا ستمگاروں کے حق میں
ڈوبے ہوئے تھے دو مہِ نو، خوں کی شفق میں
اٹھتی تھی نہ ڈر سے کسی خوں خوار کی گردن
سر خود کا جھک جاتا تھا، تلوار کی گردن
دو چار کے منہ کٹ گئے، دو چار کی گردن
اسوار کا سر اڑ گیا، رہوار کی گردن
دو نیمچے بجلی سے گزرتے تھے کمر سے
آدھے ہوئے جاتے تھے لعیں جان کے ڈر سے
دو چھوٹی سی تیغوں سے قیامت نظر آئی
معصوموں کے ہاتھوں سے کرامت نظر آئی
سر کٹنے کی، اعدا کے علامت نظر آئی
لو ہے کی سپر بھی نہ سلامت نظر آئی
بے وجہ نہ پھر جاتے تھے منہ اہلِ جفا کے
دریا کے تھپیڑے تھے، طمانچے تھے قضا کے
گردن سے بڑھے کاٹ کے پیکر نکل آئے
جوشن کو دکھاتے ہوئے جوہر نکل آئے
چار آئینہ میں تیر کے باہر نکل آئے
صابون سے دو تار برابر نکل آئے
محراب کے نیچے کسے جھکتے نہیں دیکھا
مچھلی کو بندھے پانی میں رکتے نہیں دیکھا
ہر غول میں غلطاں و تپاں تھے سرو پیکر
دستانے کہیں تھے، کہیں ڈھالیں، کہیں مغفر
جب نیمچے ان دونوں کے اٹھتے تھے برابر
منہ خوف سے ڈھالوں میں چھپاتے تھے ستم گر
روکے انہیں، طاقت یہ نہ تھی پیر و جواں کی
صورت نظر آنے لگی تیغِ دو زباں کی
غارت تھی وہ صف جس سے وِغا کرکے پھرے وہ
دو ہاتھ میں سو سو کو فنا کرکے پھرے وہ
سرداروں کے سر تن سے جدا کرکے پھرے وہ
ہر غول میں اک حشر بپا کرکے پھرے وہ
غل تھا کہ پرے ٹوٹے ہوئے جم نہیں سکتے
سر کٹنے کی دہشت سے قدم تھم نہیں سکتے
گھوڑے تھے چھلاوا، کبھی یاں تھے کبھی واں تھے
پتلی میں تو پھرتے تھے، پر آنکھوں سے نہاں تھے
یاں تھے جو سبک رو تو ادھر گرم عناں تھے
بجلی تھے کسی جا تو کہیں آبِ رواں تھے
ہو سکتی تھی بجلی سے یہ سرعت نہ ہرن سے
جھونکے تھے ہوا کے کہ نکل جاتے تھے سَن سے
بے آب تھے دو دن سے یہ جاندار تھے گھوڑے
ہر مرتبہ اڑ جانے پہ تیار تھے گھوڑے
اس پار کبھی تھے، کبھی اس پار تھے گھوڑے
نقطہ تھے وہ سب فوج کی پرکار تھے گھوڑے
دس بیس جو مر جاتے تھے ٹاپوں سے کچل کر
بڑھ سکتا نہ تھا اِک بھی احاطہ سے اجل کے
تانے ہوئے سینوں کو جدھر جاتے تھے دونوں
تلواروں کی موجوں سے گزر جاتے تھے، دونوں
ہر غول میں بے خوف و خطر جاتے تھے، دونوں
سب ہوتے تھے پسپا تو ٹھہر جاتے تھے، دونوں
الٹی ہوئی صف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
بھائی کی طرف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
دم لے کے جو گھوڑوں کو اڑاتے تھے وہ جرار
اعدا کے رسالوں کو بھگاتے تھے وہ جرار
شیروں کی طرح فوج پہ جاتے تھے وہ جرار
دو کرتے تھے یکتا، جسے پاتے تھے وہ جرار
شیروں نے جو مارا بھی تو رو داروں کو مارا
جب آنکھ ملی چن کے نموداروں کو مارا
جمعیتِ لشکر کو پریشاں کیا، دم میں
جو فوج کی جاں تھے، انہیں بے جاں کیا دم میں
تلواروں سے جنگل کو، گلستاں کیا دم میں
سر کاٹ کے خونخواروں کو غلطاں کیا دم میں
بے دست تھے علموں کو، جو بے دین لیے تھے
بچوں نے جوانوں کے نشاں چھین لئے تھے
دو لاکھ کو دونوں نے کیا تھا تہ و بالا
تیغ ایک کی چلتی تھی، تو اِک بھائی کا بھالا
اِک بڑھ گیا گر ایک نے گھوڑے کو نکالا
دم اس نے لیا، اس نے لڑائی کو سنبھالا
یک جا فرسِ تیز قدم ہو گئے دونوں
جب بھیڑ بڑھی کچھ تو بہم ہو گئے دونوں
وہ چھیڑ کے تازی کو سواروں میں در آیا
دم بھر میں پیادوں کو پامال کر آیا
جب شیر سا پہونچا وہ ادھر، یہ ادھر آیا
جاں آ گئی بھائی کو جو بھائی نظر آیا
بچ بچ کے نکلتے تھے جو نیزوں کے تلے سے
اِک بھائی لپٹ جاتا تھا بھائی کے گلے سے
کچھ بھائی سے بڑھ کر جو وِغا کرتا تھا بھائی
بچ جانے کی بھائی کے دعا کرتا تھا بھائی
حق بھائی کی الفت کا ادا کرتا تھا بھائی
ہر وار پہ بھائی کی ثنا کرتا تھا بھائی
تم سا نہیں صفدر کوئی واللہ برادر
کیا خوب لڑے سلمک اللہ برادر
کہتا تھا بڑے بھائی سے چھوٹا بصد آداب
بھائی میں بھگا دوں ابھی ان کو، جو ملے آب
اب پیاس کی گرمی سے کلیجے کو نہیں تاب
سینے میں مرا دل نہیں، آتش پہ ہے سیماب
ہم لوگ محق کیا نہیں اس آبِ رواں کے
تالو میں خلش ہوتی ہے کانٹوں سے زباں کے
کہتا تھا بڑا بھائی میں صدقے ترے گلفام
ہم خشک زبانوں کو، بھلا پانی سے کیا کام
اب جلد اجل آئے تو کوثر کا پئیں جام
غش ہم کو بھی آ جائے گا، پانی کا نہ لو نام
آنکھیں تو ستمگاروں کی تیغوں سے لڑی ہیں
چپکے رہو اماں درِ خیمہ پہ کھڑی ہیں
اس نہر کا لینا تو کچھ ایسا نہیں مشکل
روکیں ہمیں کیا تاب لعینوں کی ہے، کیا دل
پل باندھ لیں لاشوں کے ابھی ہم سرِ ساحل
بتلایئے، پھر نہر کے لے لینے سے حاصل
دیکھو نہ ادھر پیاس سے گو لاکھ تعب ہے
اماں ہمیں گر دودھ نہ بخشیں تو غضب ہے
اشک آنکھوں میں بھر کر، کہا چھوٹے نے بہت خوب
ہر دم ہے رضامندئ مادر ہمیں مطلوب
ایسے تو نہیں ہم کہ بزرگوں سے ہوں محجوب
منظور یہ تھا فخر کا، نکلے کوئی اسلوب
دریا کو بھی دیکھیں گے نہ اب آنکھ اٹھا کے
پیتے بھی تو پہلے شہِ والا کو پلا کے
جعفرؔ کے جو پوتے ہیں، تو حیدرؔ کے نواسے
کچھ ہم علیؔ اکبر سے زیادہ نہیں پیاسے
یہ کہتے ہی لڑنے لگے، پھر اہلِ جفا سے
فریاد کہ بچوں پہ گری فوج قفا سے
خوں سر کا بہا منہ پہ تو گھبرا گئے دونوں
دو لاکھ کی تیغوں کے تلے آ گئے دونوں
ڈوبے ہوئے تھے شام کے بادل میں وہ دو ماہ
پردے سے کھڑی تکتی تھی، زینبؔ سوئے جنگاہ
عباسؔ سے کہتے تھے تڑپ کر شہِ ذی جاہ
اب مجھ سے جدا ہوتے ہیں دو شیر مرے آہ
کیوں کر متحمل ہو دل اس رنج و محن کا
گھر لٹتا ہے بھائی مری نادار بہن کا
اس بی بی کے فاقوں کے ہیں پالے ہوئے یہ لال
دولت ہے یہی، اور یہی حشمت و اقبال
سات آٹھ برس کے ہیں ابھی کیا ہے سن و سال
سب ہاتھ ملیں گے جو یہ گل ہو گئے پامال
تازہ یہی دو پھول ہیں جعفرؔ کے چمن میں
مر جائے گا باپ ان کی خبر سن کے وطن میں
رو کر دمِ رخصت وہ یہی کہتے تھے ہر بار
میں شاہ کا خادم ہوں، یہ دونوں ہیں نمک خوار
آگاہ صعوباتِ سفر سے نہیں زنہار
اے دخترِ زہرا مرے بیٹوں سے خبردار
میں رکھ نہیں سکتا ہوں کہ ماموں پہ فدا ہیں
اب تو یہی دونوں مرے پیری کے عصا ہیں
شوہر کا تڑپنا اسے کچھ بھی نہ رہا یاد
ہے ہے مری الفت میں لٹی زینبؔ ناشاد
یوں بھائی پہ صدقے کوئی کرتا نہیں اولاد
ہم دیکھتے ہیں اور بہن ہوتی ہے برباد
روئے گی وہ بیٹوں کو تو سمجھائیں گے کیوں کر
منہ زینبِؔ دلگیر کو دکھلائیں گے کیوں کر
عباسؔ نے کی عرض، کلیجہ ہے دو پارا
ان کو تو کسی کی نہیں، امداد گوارا
زخمی ہوئے، نہ مجھ کو نہ اکبرؔ کو پکارا
جائے یہ غلام آپ جو فرمائیں اِشارا
حضرت کی قسم دے کے میں سمجھاؤں گا ان کو
مچلیں گے تو گودی میں اٹھا لاؤں گا ان کو
حضرت نے کہا صاحبِ غیرت ہیں، وہ دونوں
لختِ جگر شاہِ ولایت ہیں وہ دونوں
ضرغامِ نیستانِ شجاعت ہیں، وہ دونوں
واللہ بڑے صاحبِ ہمت ہیں وہ ددنوں
دو لاکھ تو کیا ہیں جو کروروں میں گھریں گے
بے جان دیے، وہ نہ پھرے ہیں نہ پھریں گے
بڑھنے لگے میداں کی طرف قاسمِ ذی جاہ
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ میں جاتا ہوں یا شاہ
ہے دونوں کی فرقت کا، مجھے صدمۂ جانکاہ
لاکھوں میں ہیں تنہا پھوپھی اماں کے پسر، آہ
ریتی پہ کہیں گر نہ پڑیں برچھیاں کھا کر
میں ساتھ انہیں لے آتا ہوں اعدا کو بھگا کر
گھبرا کے درِ خیمہ سے زینبؔ یہ پکاری
سر ننگے میں نکلوں گی، جو تم جاؤ گے واری
اولاد مجھے تم سے زیادہ نہیں پیاری
بتلاؤ کہ میں ان کی ہوں عاشق کہ تمہاری
میداں کی طرف قاسمِؔ بے پر بھی نہ جائیں
تلواروں میں عباسِؔ دلاور بھی نہ جائیں
زہراؔ کی قسم کچھ نہیں بیٹوں کا مجھے دھیان
بھائی پہ تصدق ہوں، یہی تھا مجھے ارمان
وہ آئے تو وسواس سے دل ہوگا پریشان
صدقے کو نہیں پھیر کے لاتے ہیں، میں قربان
خود روؤں گی پر شاہ کو غم کھانے نہ دوں گی
لاشے بھی آٹھانے کیلئے جانے نہ دوں گی
میداں میں ہے کیا اور بجز نیزۂ و شمشیر
مر جاؤں گی زخمی ہوئے گر قاسمؔ دلگیر
دل کس کا چھدے، تم کو لگائے جو کوئی تیر
سمجھاؤ میں صدقے گئی کیوں روتے ہیں شبیرؔ
باقی ہے اگر زیست تو پھر آئیں گے دونوں
غم کس لئے، کیا ہو گا، جو مر جائیں گے دونوں
شہزادوں کو کھوتے ہیں، غلاموں کے لئے آہ
میں جوڑتی ہوں ہاتھ بس اب روئیں نہ للّٰلہ
ہے شرم کی کیا وجہ، میں لونڈی، وہ شہنشاہ
سو ایسے ہوں بیٹے تو نثارِ شہِ ذی جاہ
ممتاز ہے، فدیہ ہے جو زہراؔ کے پسر کا
شان اس کی بڑھے فخر ہو جو جد و پدر کا
باپ ان کا اگر ہوتا تو وہ سر نہ کٹاتا
زہراؔ کے کلیجے کے عوض، برچھیاں کھاتا
بیٹوں کو یوں ہی میری طرح نذر کو لاتا
اپنے کوئی محسن کو نہیں دل سے بھلاتا
جو پاس ہے جس کے وہ عطائے شہِ دیں ہے
کہہ دے مرے ماں جائے کہ حق کس پہ نہیں ہے
بیٹوں سے ہوئی گر تو ہوئی، آج جدائی
سر پر مرے دنیا میں، سلامت رہیں بھائی
اِک دولتِ اولاد، لٹائی تو لٹائی
کیا لٹ گیا وہ کون سی ایسی تھی کمائی
کیوں روؤں میں دنیا میں جو دلبند نہیں ہیں
کیا اکبرؔ و اصغرؔ مرے فرزند نہیں ہیں
یہ ذکر ابھی تھا کہ ستمگار پکارے
لو شاہ کی ہمشیر کے بیٹے گئے مارے
ٹکڑے کیا معصوموں کو تلواروں کے مارے
وہ لوٹتے ہیں خاک پہ، دو عرش کے تارے
پامالی کو ان دونوں کی اسوار بڑھیں گے
بچوں کے سر اب کٹ کے نشانوں پہ چڑھیں گے
یہ سنتے ہی تھرانے لگے حضرتِ عباسؔ
گھبرا کے اٹھے خاک سے شبیرؔ بصد یاس
سر کھولے ہوئے بیبیاں، ڈیوڑھی کے جو تھیں پاس
سب نے کہا لو شہ کی بہن ہو گئی بے آس
ٹوٹا ہے فلک، بنتِ شہنشاہِ نجف پر
زینبؔ کو چلو لے کے بس اب ماتمی صف پر
ہے ہے کا جو اک شور ہوا، رانڈوں میں برپا
زینبؔ بھی ہٹی، چھوڑ کے دروازے کا پردا
چلائی ارے چپکے رہو، غل ہے یہ کیسا
بھائی ہیں سلامت، مجھے کیوں دیتے ہو پرسا
ہے ہے نہ کرو صاحبو، گھبرائیں گے شبیرؔ
پھر کون ہے زینبؔ کا جو مرجائیں گے شبیرؔ
تم روتے ہو کس واسطے میں تو
پردیس میں سادات پہ، آفت عجب آئی
فریاد کناں روح امیر عرب آئی
غل تھا کہ شب قتل شہ تشنہ لب آئی
سادات کو کیا کیا غمِ جانکاہ دکھائے
رات ایسی مصیبت کی نہ اللہ دکھائے
کاغذ پہ لکھے کیا قلم اس شب کی سیاہی
ہے چار طرف جس کی سیاہی سے تباہی
مرغان ہوا بر میں طپاں، بحر میں ماہی
تربت سے نکل آئے تھے محبوب الٰہی
فریاد کا تھا شور رسولان سلف میں
یثرب میں تزلزل تھا اداسی تھی نجف میں
صدمے سے ہوا رنگ رخ ماہ کا کافور
اختر بھی بنے مردمک دیدۂ بے نور
غم چھا گیا، راحت دل عالم سے ہوئی دور
تصویر الم بن گئی جنت میں ہر اک حور
کہتے تھے ملک رات نہ ہووے گی اب ایسی
تاروں نے بھی دیکھی نہ تھی تاریک شب ایسی
شمع طرب محفل عالم تھی جو خاموش
تھی رات بھی شبیرؔ کے ماتم میں سیہ پوش
کیا غم تھا کہ شادی تھی ہر اک دل کو فراموش
ہر چشم کو تھا غم میں سمندر کی طرح جوش
مضطر تھے علیؔ اشکوں سے منہ دھوتی تھی زہراؔ
مقتل تھا جہاں شاہ کا، واں روتی تھی زہراؔ
تھا خانۂ غم خیمۂ شاہنشہ والا
آندھی یہ پریشاں تھی کہ دل تھا تہ و بالا
مشعل نہ ٹھہرتی تھی، نہ شمعوں کا اجالا
خیمہ بھی اندھیرے میں نظر آتا تھا کالا
خاک اڑتی تھی منہ پر، حرم شیر خدا کے
تھا چیں بجبیں فرش بھی جھونکوں سے ہوا کے
جنگل کی ہوا، اور درندوں کی صدائیں
تھراتی تھیں بچوں کو چھپائے ہوئے مائیں
دھڑکا تھا کہ دہشت سے نہ جانے کہیں جائیں
روتی تھی کوئی، اور کوئی پڑھتی تھی دعائیں
گودوں میں بھی راحت نہ ذرا پاتے تھے بچے
جب بولتے تھے شیر تو ڈر جاتے تھے بچے
بچوں کے بلکنے پہ حرم کرتے تھے زاری
غش ہو گئی تھی بالی سکینہؔ کئی باری
چلاتی تھی رو رو کے وہ شبیرؔ کی پیاری
یا حضرت عباسؔ چلی جان ہماری
افسوس کہ پانی کا تو قطرہ نہیں گھر میں
اور آگ لگی ہے مرے ننھے سے جگر میں
تھی سب سے سوا، بنت علی، مضطر و بیتاب
فق ہو گیا تھا شام سے منہ صورت مہتاب
مژگاں سے رخ پاک پہ تھی، بارش خوں ناب
تلوار کلیجے پہ چلے جب تو کہاں تاب
اِک کرب تھا بسمل کی طرح جان حزیں پر
اٹھتی تھی کبھی اور کبھی گرتی تھی زمیں پر
کہتی تھی کبھی، آج پیمبر نہیں ہے ہے
حال اپنا دکھاؤں کسے حیدرؔ نہیں ہے ہے
بیٹی پہ فلک ٹوٹا ہے، مادر نہیں ہے ہے
شبیرؔ مصیبت میں تھے، شبرؔ نہیں ہے ہے
دیکھا نہ سنا یہ جو ستم آج ہے لوگو
نازوں کا پلا پانی کو محتاج ہے لوگو
در پیش ہے کل فوج سمتگر سے لڑائی
یاں تھوڑے سے پیاسے ہیں، ادھر ساری خدائی
بے سر دیے رن سے نہ پھرے گا مرا بھائی
ہو جائے گی حیدرؔ کے بھرے گھر کی صفائی
اس غم سے سدا اشکوں سے منہ دھوتی تھیں اماں
کل دن وہ ہے جس دن کے لئے روتی تھی اماں
تھے دوسرے خیمہ میں ادھر سبط پیمبر
دربار میں حاضر تھے رفیقان دلاور
اک پہلو میں قاسمؔ تھے اور اک پہلو میں اکبرؔ
اکبرؔ کے ادھر لخت دل زینب مضطر
شبیرؔ محبت سے سخن کرتے تھے سب سے
عباسؔ علی سامنے بیٹھے تھے ادب سے
سر گرم تھے مر جانے پہ، سب شاہ کے انصار
عباس سے یہ کہتا تھا، وہ کل کا مدد گار
تم رہیو ذرا خیمۂ ناموس سے ہشیار
ڈر ہے نہ کرے بے ادبی لشکر کفار
بے دینوں کو راحت مری منظور نہیں ہے
شب خوں جو ادھر سے ہو، تو کچھ دور نہیں ہے
یہ ذکر ابھی تھا کہ یکایک خبر آئی
اے چاند ید اللہ کے، شب دوپہر آئی
حضرت کو ستاروں کی جو گردش نظر آئی
دل یاد خدا کرنے لگا، چشم بھر آئی
فرمایا بڑا اجر ہے، بیدارئ شب کا
اے تشنہ لبو وقت ہے یہ طاعت رب کا
اب عمر بھی آخر ہے، نمازیں بھی ہیں آخر
بے توشہ پہونچتا نہیں، منزل پہ مسافر
ہر وقت ہے ربِ دو جہاں حاضر و ناظر
اجر ان کے مضاعف ہیں جو ہیں صابر و شاکر
مشکل نہ کسی رنج کو سمجھے نہ بلا کو
بندہ وہی بندہ ہے جو بھولے نہ خدا کو
نام اس کا رہے ورد، سفر ہو کہ حضر ہو
موجود سمجھ لے اسے جنگل ہو کہ گھر ہو
سجدے ہی کرے دکھ میں کہ راحت میں بسر ہو
تسبیح میں شب ہو، تو نمازوں میں سحر ہو
عشق گل تر ظلم کے خاروں میں نہ بھولے
معشوق کو تلواروں کی دھاروں میں نہ بھولے
چومے لب سوفار، جو سینے پہ لگیں تیر
دم عشق کا بھرتا رہے زیر دم شمشیر
زخموں کو یہ سمجھے، کہ ملا گلشن توقیر
تکبیر کا نعرہ ہو زباں پر، دم تکبیر
کٹنے میں رگوں کے نہ صدا آہ کی نکلے
ہر رنگ میں بو الفت اللہ کی نکلے
شہ نے سخن معرفت حق جو سنائے
اشک آنکھوں میں ہر عاشق صادق کے بھر آئے
کچھ پیاس کا شکوہ بھی زباں پر نہیں لائے
سجادے وہیں لا کے دلیروں نے بچھائے
تکبیریں ہوئیں لشکر اللہ و نبی میں
سب محو ہوئے یاد جناب احدی میں
تسبیح کہیں تھی کہیں سجدے کہیں زاری
تھا صوت حسن سے کوئی قرآن کا قاری
کرتا تھا کوئی عرض کہ یا حضرت باری
اب صبح کو عزت ہے ترے ہاتھ ہماری
حرمت سے شریک شہدا کیجیو یا رب
تو حوصلۂ صبر، عطا کیجیو یا رب
ہم ہیں ترے محبوب کے پیارے کے مددگار
مرنے کے لئے آئے ہیں یا چھوڑ کے گھر بار
یہ بندۂ بے کس ہے مصیبت میں گرفتار
کر رحم کہ ہے ذات تری راحم و غفار
فاقوں کے سبب، جسم کی طاقت میں کمی ہے
تجھ سے طلب قوت ثابت قدمی ہے
بے کس ہیں مسافر ہیں، وطن دور ہے، گھر دور
ہفتم سے ہمیں گھیرے ہے یہ لشکر مقہور
تیروں سے ہوں غربال کہ تیغوں سے بدن چور
احمدؔ کے نواسے سے جدائی نہیں منظور
پھر منہ کسے دکھلائیں جو سردار کو چھوڑیں
کیوں کر ترے مقبول کی سرکار کو چھوڑیں
مردوں کے لئے ننگ ہے تلواروں سے لڑنا
راحت ہو کہ ایذا، یہیں جینا، یہیں مرنا
تو چاہے تو مشکل نہیں کچھ سر سے گزرنا
اے کل کے مدد گار، مدد جنگ میں کرنا
فاقوں میں ہزاروں سے وغا ہو تو مزا ہے
کچھ حق نمک ہم سے ادا ہو تو مزا ہے
کرتے تھے مناجات ادھر یاور و انصار
پڑھتے تھے نماز شب ادھر، سید ابرار
تھی نیت تسبیح بتول جگر افگار
آواز بکا خیمے سے آنے لگی یک بار
اکبرؔ سے اشارہ کیا مڑ کر، کہ یہ کیا ہے
کہ عرض پھوپھی جان کے رونے کی صدا ہے
یوں تو کئی راتوں سے وہ ہیں مضطر و بیتاب
راحت کی نہ صورت ہے نہ آرام کا اسباب
غش میں جو ذرا بند ہوئے، دیدۂ پر آب
روتی ہوئی چونکی ہیں، ابھی دیکھ کے کچھ خواب
نعلین کہیں، چادر پر نور کہیں ہے
اس وقت سے بسمل کی طرح چین نہیں ہے
سب بیبیاں ہیں رو رہیں بچوں کو لیے پاس
ایک ایک کو اندیشہ ہے، ایک ایک کو وسواس
جو پوچھتا ہے وجہ تو کہتی ہیں بصد یاس
لوگو مجھے شبیر کے بچنے کی نہیں آس
مانگو یہ دعا غیب سے بے کس کی مدد ہو
صدقے کرو مجھ کو کہ بلا بھائی کی رد ہو
ان کا تو یہ احوال ہے، اماں کا یہ عالم
اشکوں کی جھڑی آنکھوں سے تھمتی نہ تھی اِک دم
اصغرؔ کی بھی ہے فکر، سکینہ کا بھی ہے غم
شش ماہ کا بچہ بھی ہوا جاتا ہے بے دم
گودی میں اٹھائیں اُسے یا اس کو سنبھالیں
دو روز کے فاقے میں وہ کس کس کو سنبھالیں
رو آتی ہیں عابدؔ کے سرہانے کبھی جا کر
گہوارۂ اصغرؔ پہ کبھی گرتی ہیں آ کر
قرآں کی ہوا دیتی ہیں غش میں اسے پا کر
بہلاتی ہیں، بیٹی کو کبھی اشک بہا کر
وہ کہتی ہے تا صبح یوں ہی روؤں گی اماں
بابا ہی جب آویں گے تو میں سوؤں گی اماں
بتلاؤ شہ جن و بشر کیوں نہیں آتے
اب رات بہت کم ہے، پدر کیوں نہیں آتے
آزردہ ہیں کچھ مجھ سے، ادھر کیوں نہیں آتے
کیا آج وہیں سوئیں گے، گھر کیوں نہیں آتے
اب پیاسوں کی فریاد بھی بابا نہیں سنتے
حضرت مرے رونے کی صدا کیا نہیں سنتے
رو کر علیؔ اکبر نے جو کی شہ سے یہ تقریر
پڑھتے ہوئے تسبیح گئے، حضرت شبیرؔ
دیکھی جو نہ تھی دیر سے وہ چاند سی تصویر
قدموں پہ محبت سے گری دوڑ کے ہمشیر
بیتاب جو پایا بہت اس تشنہ دہن کو
شبیرؔ نے لپٹا لیا چھاتی سے بہن کو
فرمایا بہن تم نے بنایا ہے یہ کیا حال
نہ سر پہ عصابہ ہے نہ چادر ہے نہ رومال
ماتھا ہے بھرا خاک سے بکھرے ہوئے ہیں بال
پیٹو نہیں، جیتا ہے ابھی فاطمہؔ کا لال
دم تن سے مرا کٹ کے نکل جائے گا زینبؔ
رو لیجیو جب رونے کا وقت آئے گا زینبؔ
جیتا ہوں میں اور آہ ابھی سے یہ تلاطم
یہ کرب یہ دکھ درد، یہ زاری یہ تظلم
ہوتے ہیں مرے ہوش و حواس آئے ہوئے گم
خنجر کے تلے دیکھو گی کس طرح مجھے تم
بس صبر کرو جی سے گذر جائیں گے بچے
تڑپو گی تم اس طرح تو مر جائیں گے بچے
تلوار کسی نے ابھی تولی نہیں مجھ پر
سینہ ابھی تیروں سے مشبک نہیں خواہر
گردن پہ کسی نے ابھی پھیرا نہیں خنجر
مر جائے گا بھائی تمہیں ثابت ہوا کیوں کر
ہر چند کہ ساعت نہیں ٹلتی ہے قضا کی
بچ جاؤں تو کیا دور ہے قدرت سے خدا کی
زینبؔ نے کہا خوش ہوں جو میری اجل آئے
بھائی تمہیں اللہ اس آفت سے بچائے
خالق مجھے عابدؔ کی یتیمی نہ دکھائے
بھائی کی بلا لے کے بہن خلق سے جائے
وسواس طبیعت کو بہلنے نہیں دیتا
بے چین ہے دل مجھ کو سنبھلنے نہیں دیتا
آتا ہے سکینہؔ کی یتیمی کا، مجھے دھیان
ہر وقت بھرا گھر نظر آ جاتا ہے، ویران
سمجھانے سے کچھ دل جو بہلتا ہے، میں قربان
پھر جاتا ہے آنکھوں کے تلے موت کا سامان
بازو مرے کسنے کو رسن لاتا ہے کوئی
سر پر سے ردا کھینچے لئے جاتا ہے کوئی
منہ ڈھانپ کے بستر پہ جو سو جاتی ہوں دم بھر
تو چاک گریباں نظر آتے ہیں پیمبر
اماں کبھی چلاتی ہیں یوں کھولے ہوئے سر
بیٹی نہ بچے گا ترا مظلوم برادر
کیا لیٹی ہے بستر پہ کدھر دھیان ہے زینبؔ
شپیر اسی رات کا مہمان ہے زینبؔ
یہ ذکر ابھی تھا کہ سکینہؔ نے پکارا
سونا تو گیا آپ کے ہمراہ ہمارا
میں جاگتی ہوں اور جہاں سوتا ہے سارا
گردوں پہ چمکنے نہ لگے صبح کا تارا
نیند آئی ہے بیٹی کو سلا جایئے بابا
بس ہو چکیں باتیں اب ادھر آیئے بابا
حضرت نے کہا میں تِری آواز کے قرباں
اللہ تم اب تک نہیں سوئی ہو مری جاں
غربت میں کہاں راحت و آرام کا ساماں
بن باپ کے تم کو تو نہیں چین کسی آں
اچھی نہیں عادت یہ نہ رویا کرو بی بی
پہلو میں کبھی ماں کے بھی سویا کرو بی بی
کیا ہووئے جو ہم گھر میں کسی شب کو نہ آئیں
مجبور ہوں ایسے کہ تمہیں چھوڑ کے جائیں
تم پاؤ نہ ہم کو، نہ تمہیں ہم کہیں پائیں
بی بی کہو پھر چھاتی پہ کس طرح سلائیں
جنگل میں بہت قافلے لٹ جاتے ہیں، بی بی
برسوں جو رہے ساتھ وہ چھٹ جاتے ہیں، بی بی
جب عمر تھی کم، ہم بھی چھٹے تھے یونہی ماں سے
سوتے تھے لپٹ کر یوں ہی، خاتون جناں سے
کوچ ان کا ہوا سامنے آنکھوں کے جہاں سے
ماتم سے ملیں وہ، نہ بکا سے، نہ فغاں سے
یہ داغ یہ اندوہ و الم سب کے لئے ہیں
ماں باپ زمانے میں سدا کس کے جیے ہیں
رستہ وہ اجل کا ہے کہ ہوتا ہی نہیں بند
کوچ آج پدر کا ہے تو کل جائے گا فرزند
ہوتا ہے قلق فرقت اولاد میں وہ چند
کیا زور ہے بندے کا، جو مرضیٔ خداوند
جو آئے ہیں دنیا میں وہ سب کوچ کریں گے
اس زیست کا انجام یہی ہے کہ مریں گے
یہ کہتے تھے حضرت کی صدا آئی اذاں کی
گلدستۂ اسلام پہ، بلبل نے فغاں کی
اک دم میں بہار اور ہوئی باغ جہاں کی
تلوار چلی گلشن انجم پہ خزاں کی
مہتاب ہوا گم فلک نیلوفری سے
پھولا گل خورشید، نسیم سحری سے
گرمی کی سحر اور وہ پھولوں کا مہکنا
مرغان چمن کا وہ درختوں پہ چہکنا
انجم کا وہ چھپنا کبھی اور گاہ چمکنا
وہ سرد ہوا اور وہ سبزے کا لہکنا
اس دشت میں روتی تھی جو شبنم شہ دیں پر
تھا موتیوں کا فرش زمرد کی زمیں پر
جلوہ وہ دم صبح کا، وہ نور کا عالم
دلچسپ صدا نوبت و شہنا کی، وہ باہم
سرخی وہ شفق کی، افق چرخ پہ کم کم
وہ گل کے کٹوروں پہ در افشانیٔ شبنم
خشکی میں بھی سردی سے ترائی کا سماں تھا
پر مالک گلزار جناں، تشنہ دہاں تھا
لشکر میں ادھر مورچے بندی کی ہوئی دھوم
یاں فرض ادا کرنے لگے عاشق قیوم
پیچھے تو جماعت تھی اور آگے شہ مظلوم
صف بستہ ملائک ہیں، یہی ہوتا تھا معلوم
سب ساجد و راکع تھے شہنشاہ کے ہمراہ
تاباں تھے بہتر مہ نو ماہ کے ہمراہ
خیمہ تھا فلک، آپ قمر، دوست ستارے
تارے بھی وہ تاروں کو فلک جن پہ اتارے
خم ہو گیا تھا، پیر فلک شرم کے مارے
کہتی تھی زمیں، اوج ہے طالع کو ہمارے
خورشید نہیں روشنیٔ نیر دیں ہے
خود عرش کو دھوکا تھا، یہ میں ہوں کہ زمیں ہے
جو صف ہے وہ اک سطر ہے قران مبیں کی
دیوار ہے قبلہ کی طرف، کعبۂ دیں کی
کیا خوب جماعت ہے یہ ارباب یقیں کی
افلاک کی زینت ہے تو رونق ہے زمیں کی
کس طرح شہنشاہ سے وہ فوج جدا ہو
مشکل ہے کہ دریا سے کہیں موج جدا ہو
اس دم تھی یہ آواز پس پردۂ قدرت
اے قدسیو دیکھو مرے بندوں کی عبادت
نہ پیاس کا شکوہ ہے، نہ فاقوں کی شکایت
یہ زہد، یہ تقویٰ، یہ اطاعت، یہ ریاضت
کونین میں یہ صاحب اقبال و شرف ہیں
عالم ہوں کہ ان لوگوں کے دل میری طرف ہیں
کس عجز سے آگے مرے حاضر ہیں یہ بندے
دیکھو مرے محبوب کے ناصر ہیں، یہ بندے
مظلوم ہیں بے کس ہیں مسافر ہیں یہ بندے
تھوڑے نہ ہوں کس طرح کے شاکر ہیں یہ بندے
صادق ہیں ولی سے مرے ان سب کو ولا ہے
ان کا وہ صلہ ہے جو رسولوں کا ملا ہے
پرسش نہ لحد میں نہ حساب اُن کے لئے ہے
یہ لائق رحمت ہیں، ثواب اُن کے لئے ہے
موتی سے جو ہے صاف، وہ آب اُن کے لئے ہے
میں جس کا ہوں ساقی، وہ شراب اُن کے لئے ہے
اس نخل ریاضت کے ثمر اُن کو ملیں گے
جو عرش کے نیچے ہیں وہ گھر اُن کے ملیں گے
فارغ جو صلوٰۃ سحری سے ہوئے دیں دار
پوشاک پہننے کو اٹھے سید ابرار
فرمانے لگے حضرت عباسؔ علمدار
ہاں غازیو اب تم بھی سجو جنگ کے ہتھیار
قرباں تمہیں ہونا ہے محمدؔ کے پسر پر
کمروں کو کسو، گلشن جنت کے سفر پر
آمادۂ شر لشکر کفار ہے کل سے
ہونا ہے تمہیں آج، ہم آغوش اجل سے
در پیش ہے جنگ و جدل اس فوج کے دَل سے
آقا بھی کوئی دم میں نکلتے ہیں محل سے
ہاں صف شکنو وقت ہے نصرت کی دعا کا
کھلتا ہے پھریرا علم فوج خدا کا
ہم لوگ اسی روز کے مشتاق ہیں، کب سے
اب ہوگی ملاقات شہنشاہ عرب سے
سیدانیاں تم سب کو دعا دیتی ہیں شب سے
صف باندھ کے آؤ، درِ دولت پہ ادب سے
فردوس میں نانا سے حضور آج ملیں گے
کوثر پہ تمہیں خلعت نور آج ملیں گے
اس مژدہ کو سنتے ہی مسلح ہوئے غازی
اصطبل سے آنے لگے جراروں کے تازی
شیر صف جنگاہ تھا، ایک ایک نمازی
نعرے تھے کہ قربان شہنشاہ حجازی
ڈیوڑھی پہ شگفتہ تھا چمن خلد بریں کا
خیمہ میں تلاطم تھا وداع شہ دیں کا
تھے گرد حرم بیچ میں وہ عاشق حق تھا
مانند سحر رنگ ہر اک بی بی کا فق تھا
بانوے دو عالم کا جگر سینے میں شق تھا
زینب یہ تڑپتی تھی کہ حضرت کو قلق تھا
شبیرؔ کے پہلو سے نہ ہٹتی تھی سکینہؔ
بڑھتے تھے تو دامن سے لپٹتی تھی سکینہؔ
شہ کہتے تھے بی بی ہمیں اب جانے دو گھر سے
سینہ مرا شق ہوتا ہے، لپٹو نہ پدر سے
وہ کہتی تھی سایہ جو یہ اٹھ جائے گا سر سے
ہے ہے میں تمہیں ڈھونڈ کے لاؤں گی کدھر سے
بیٹی کا سوا آپ کے کوئی نہیں بابا
شب بھر میں اسی خوف سے سوئی نہیں بابا
سمجھاتے تھے حضرت کہ میں صدقے مری پیاری
میداں سے ابھی آئیں گے ہم تو کئی باری
وہ کہتی تھی میں آپ کی مظلومی کی واری
ساماں نظر آتا ہے یتیمی کا ہماری
در پیش لڑائی نہیں گر فوج شقی سے
کیوں آپ سفارش مری کرتے تھے پھوپھی سے
اب آپ کے جانے سے تو ثابت ہے نہ آنا
کیوں کہتے تھے زینب اسے چھاتی سے سلانا
بانو مرے پیچھے، نہ سکینہ کو رلانا
پانی جو میسر ہو تو پیاس اس کی بجھانا
بہلائیو جب رو کے مجھے یاد کرے گی
تڑپوں گا لحد میں جو یہ فریاد کرے گی
میں سنتی تھی عابدؔ سے جو کچھ کی تھی وصیت
اس گھر کی تباہی کی خبر دیتے تھے حضرت
ہے ہے یہ مری عمر یہ صدمہ یہ مصیبت
لے لو مجھے ہمراہ، گوارہ نہیں فرقت
ساتھ آپ کے جاؤں گی جو اس دار محن سے
کوئی مری گردن تو نہ باندھے گا رسن سے
نادان کی ان باتوں پہ گھر روتا تھا سارا
ماتم میں کسی دل کو نہ تھا، صبر کا یارا
حضرت کو بھی فرقت تھی نہ بیٹی کی گوارا
ڈیوڑھی تک اسے گود سے اپنی نہ اتارا
جس دم وہ چھٹی، جیتے ہی جی مرگئے شپیرؔ
کس درد سے روتے ہوئے باہر گئے شپیرؔ
جس دم در دولت پہ امیر امم آیا
پیٹے یہ حرم گھر میں کہ ہونٹوں پہ دم آیا
تسلیم کو اسلام کا، لشکر بہم آیا
کس صولت و اقبال و حشم سے علم آیا
جاتی تھی لچکنے میں ضیا عرش تک اس کی
خورشید کو پنجہ میں لئے تھی چمک اس کی
آپس میں یہ کہتے تھے رفیقان دلاور
دیکھیں یہ ہُما سایہ فگن ہوتا ہے کس پر
اکبرؔ کے تو ہے نام پہ سالاریٔ لشکر
عباسؔ کو دیں گے شہ دیں منصب جعفرؔ
اِک عشق ہے اس شیر سے سلطان امم کو
بھائی کو کبھی دیکھتے ہیں، گاہ علَم کو
زینبؔ کے پسر مشورہ یہ کرتے تھے باہم
کیوں بھائی علَم لینے کو ماموں سے کہیں ہم
تائید خدا چاہئے گو عمر میں ہیں کم
عہدہ تو ہمارا ہے یہ آگاہ ہے عالم
واقف ہیں سبھی حیدرؔ و جعفرؔ کے شرف سے
حق پوچھو تو حقدار ہیں ہم دونوں طرف سے
دادا بھی علمدار ہے، نانا بھی علم دار
ہم اپنے بزرگوں کے ہیں، منصب کے طلب گار
کہتا تھا بڑا عرض کا موقع نہیں زنہار
ہیں بادشہ کون و مکاں مالک و مختار
عہدہ تو بڑا یہ ہے کہ ماموں پہ فدا ہوں
چپکے رہو، اماں نہ کہیں سن کے خفا ہوں
مطلب نہ علم سے نہ حشم سے ہمیں کچھ کام
مٹ جائیں نشاں، بس یہی عہدہ ہے یہی نام
یہ سر ہوں نثار قدم شاہ خوش انجام
عزت رہے بھائی، یہ دعا ہے سحرو شام
آقا جسے چاہیں علم فوج خدا دیں
مشتاق اجل ہیں ہمیں مرنے کی رضا دیں
روتی تھی جو پردے کے قریں زینبؔ دلگیر
سب اس نے مفصل یہ سنی بیٹوں کی تقریر
فضہؔ سے یہ کہنے لگی، وہ صاحب توقیر
دونوں کو اشارے سے بلا لے کسی تدبیر
کچھ کہنا ہے سن لیں اسے فرصت انہیں گر ہو
عباسؔ نہ دیکھیں نہ شہ دیں کو خبر ہو
یہ کہتی تھی زینبؔ کہ خود آئے وہ نکو کار
چھوٹے سے یہ فرمانے لگیں زینبؔ ناچار
کیا باتیں ابھی بھائی سے تھیں، اے مرے دلدار
اس وقت میں ہو کون سے منصب کے طلب گار
سمجھے نہ کہ مادر عقب پردہ کھڑی ہے
گھر لٹتا ہے میرا، تمہیں منصب کی پڑی ہے
اللہ بڑا عزم کیا، باندھ کے تلوار
بچو! تمہیں ایسا نہ سمجھتی تھی میں زنہار
دیکھو ابھی تم دونوں سے ہو جاؤں گی بے زار
کچھ کہیو نہ ماموں سے خبردار! خبردار
کیا دخل تمہیں امر میں سلطان امم کے
دیکھوں گی نہ پھر منہ، جو گئے پاس علم کے
کچھ اور ہی تیور ہیں علم نکلا ہے جب سے
تم کون ہو جو آگے بڑھے جاتے ہو سب سے
استادہ ہو، جا کر عقب شاہ، ادب سے
عہدہ ہے یہ جس کا مجھے معلوم ہے شب سے
اس امر میں خاطر نہ کریں، اور کسی کی
میں خوش ہوں بجا لائیں وصیت کو علیؔ کی
دو روز سے بھائی پہ مرے ظلم و ستم ہے
تم فکر علم میں ہو مجھے سخت الم ہے
چھوٹے سے ہیں قد، سِن بھی تمہارا ابھی کم ہے
کھیل اس کو نہ سمجھو یہ محمدؔ کا علم ہے
ہرگز نہ ابھی کچھ شہِ ذی جاہ سے کہنا
کہنا بھی تو رخصت کے لئے شاہ سے کہنا
مانا کہ پہونچتا ہے تمہیں منصب جعفرؔ
آقا کی غلامی سے ہے عہدہ کوئی بڑھ کر
چھوٹا مرا بھائی بھی ہے، بیٹوں کے برابر
عاشق کا تو عاشق ہے، برادر کا برادر
بگڑوں گی گلہ گر کوئی اسلوب کرو گے
عباس سے کیا تم مجھے ممجوب کرو گے
زینبؔ نے عتابانہ جو کی ان سے یہ گفتار
یوں کہنے لگے، جوڑ کے ہاتھوں کو وہ دلدار
شاہوں سے غلاموں نے بھی کی ہے، کبھی تکرار
مالک ہیں جسے چاہیں علم دیں، شہ ابرار
رخصت کے لئے تیغ و سپر باندھے ہوئے ہیں
ہم صبح سے مرنے پہ کمر باندھے ہوئے ہیں
زینبؔ نے کہا لے کے بلائیں کہ سدھارو
بس اب مرا دل شاد ہوا اے مرے پیارو
ماں صدقے گئی، سر قدم شاہ پہ وارو
ہو عید مجھے گر عمرؔ و شمرؔ کو مارو
یہ وقت ہے امداد امام ازلی کا
دے چھوٹے سے ہاتھوں میں خدا زور علیؔ کا
صدقے گئی سن لو کہ میں کہتی ہوں جتا کر
تم پہلے فدا کیجیو سر شہ کے قدم پر
میدان میں زخمی ہوئے گر قاسمؔ و اکبرؔ
پھر تم مرے فرزند نہ میں دونوں کی مادر
جب دل ہوا ناراض تو فرزند کہاں کے
کس کام کا وہ لعل جو کام آئے نہ ماں کے
ان میں سے اگر رن کی طرف ایک سدھارا
زہراؔ کی قسم منہ نہ میں دیکھوں گی تمہارا
جس وقت سنوں گی کہ سر ان دونوں نے وارا
اس وقت تمہیں ہوگا مرا دودھ گوارا
بے جاں ہوئے بعد ان کے، تو ماتم نہ کروں گی
دیکھو جو مروں گی بھی تو ناراض مروں گی
ہیں دونوں بھتیجے، مرے پیارے مرے محبوب
تم ان پہ تصدق ہو، یہی ہے مجھے مطلوب
جینا نہیں بہتر کسی صورت، کسی اسلوب
بے سر دیے دودھ اپنا میں بخشوں تمہیں، کیا خوب
ایذا جو اٹھاؤ گے تو راحت بھی ملے گی
جب آئیں گی لاشیں تو یہ دولت بھی ملے گی
دیکھو کہے دیتی ہوں خبردار! خبردار
جیتے جو رہے دودھ نہ بخشوں گی میں زنہار
شیروں کے یہ ہیں کام کھنچے جس گھڑی تلوار
رکھ دیویں گلا بڑھ کے، تہِ خنجرِ خوں خوار
توڑی ہیں صفیں جنگ میں جب کھیت پڑے ہیں
جنات کے لشکر سے علیؔ یوں ہی لڑے ہیں
اعدا کو مرے دودھ کی تاثیر دکھاؤ
اجلالِ حسن شوکتِ شبیر دکھاؤ
جعفرؔ کی طرح جوہرِ شمشیر دکھاؤ
تن تن کے ید اللہ کی تصویر دکھاؤ
خورشیدِ امامت سے قرابت میں قریں ہو
تم شیر ہو شیروں کے حسینوں کے حسیں ہو
جعفر سے نمودار کے دلبر ہو دلیرو
حیدر سے دلاور کے دلاور ہو دلیرو
جرار ہو، کرار ہو، صفدر ہو دلیرو
ضرغام ہو، ضیغم ہو، غضنفر ہو دلیرو
تیروں سے جوانوں کے جگر توڑ کے آؤ
خیبر کی طرح کوفے کا در توڑ کے آؤ
خندق کی لڑائی کی طرح جنگ کو جھیلو
بچے اسد اللہ کے ہو، جان پہ کھیلو
تیغوں میں دھنسو، چھاتیوں سے نیزوں کو ریلو
کوفے کو تہِ تیغ کرو، شام کو لے لو
دو اور جلا آئینۂ تیغِ عرب کو
لو روم کو قبضے میں تو قابو میں حلب ہے
خاقاںؔ کا رہا تخت نہ قیصرؔ کا رہا تاج
ہاں غازیو! چین و حبش و زنگ سے لو باج
چڑھنا ہے لڑائی پہ جواں مردوں کو معراج
گیتی تہ و بالا ہو وہ تلوار چلے آج
یوں آئیو چار آئینہ پہنے ہوئے بر میں
جس طرح علیؔ بعد ظفرؔ آتے تھے گھر میں
میلے نہ ہوں تیور، یہ سپاہی کے ہنر ہیں
جس کے ہیں، بس اس کے ہیں، جدھر ہیں بس ادھر ہیں
گہ عطر میں ڈوبے ہیں، گہے خون میں تر ہیں
صحبت میں مصاحب ہیں، لڑائی میں سپر ہیں
وہ اور کسی سے نہ جھکیں گے نہ جھکے ہیں
عزت میں نہ فرق آئے کہ سر بیچ چکے ہیں
یہ سن کے جو نکلے وہ جری خیمے سے باہر
کس پیار سے منہ دونوں کا تکنے لگے سرور
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ اے سبطِ پیمبر
تیار ہے سب قبلۂ کونین کا لشکر
جلدی ہے لڑائی کی ادھر فوجِ ستم کو
ارشاد جسے ہو وہ بڑھے لے کے علم کو
شہ بولے کہ عباسِؔ دلاور کو بلاؤ
پیارے مرے محبوب برادر کو بلاؤ
عاشق کو مددگار کو یاور کو بلاؤ
جلدی مرے حمزہؔ مرے جعفرؔ کو بلاؤ
یہ اوج، یہ رتبہ، یہ حشم اس کے لئے ہے
زیب اس سے علم کی ہے، علم اس کے لئے ہے
سب تکنے لگے صورتِ عباس فلک جاہ
نازاں ہوا خود اوج پہ اپنے علمِ شاہ
یعنی مرا عامل ہے نشانِ اسد اللہ
بالیدہ تھا پرچم، تو پھریرا تھا ہوا خواہ
جان آ گئی تھی سنتے ہی اس خوشخبری کو
پنجہ بھی اشارے سے بلاتا تھا جری کو
خوش ہو کے یہ عمّو کو پکارے علیؔ اکبر
جلد آیئے یاد آپ کو فرماتے ہیں سرور
حاضر ہوا جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ہو صفدر
ارشاد کیا شہ نے علم بھائی کو دے کر
رکھیے اسے کاندھے پہ، یہ ہے آپ کا عہدہ
لو بھائی مبارک ہو تمہیں باپ کا عہدہ
بوسہ دیا عباسِؔ دلاور نے علم پر
تسلیم کی اور رکھ دیا سر شہ کے قدم پر
کی عرض کہ قربان اس الطاف و کرم پر
سو سر ہوں تو صدقے میں شہنشاہِ امم پر
ادنیٰ جو ابھی تھا اسے اعلیٰ کیا مولا
قطرے کو ترے فیض نے دریا کیا مولا
اس چترِ فلک قدر کا سایہ مرے سر پر
اس دھوپ میں ہوگا، پہ پھریرا مرے سرپر
یہ ابر مِرے سر پہ، یہ طوبیٰ مرے سر پر
قائم رہیں لاکھوں برس آقا مرے سر پر
سلطانِ دو عالم کی غلامی کے صلے ہیں
سب اوج یہ نعلین اٹھانے سے ملے ہیں
حضرت نے کہا رو کے یہ کیا کہتے ہو پیارے
حاضر ہے اگر جان بھی کام آئے تمہارے
حصہ یہ تمہارا تھا سو پہونچا تمہیں بارے
مالک ہو تمہیں، ہم تو ہیں اب گور کنارے
تھا دل میں جو کچھ وہ بخدا ہو نہیں سکتا
بھائی ترا حق مجھ سے ادا ہو نہیں سکتا
یہ کہہ کے بڑھے سرورِ دیں جانبِ توسن
ہتیار لگائے ہوئے، پہنے ہوئے جوشن
اسوار ہوئے آپ، جو گردان کے دامن
اللہ رے ضیا، خانۂ زیں ہو گیا روشن
وہ پاؤں رکابوں کے لئے باعثِ ضو تھے
خورشید کے قدموں کے تلے دو مہِ نو تھے
رانوں کے اشارے سے لگا کوندنے، شبدیز
اسوار کے دل کا تھا اشارہ اسے مہمیز
گرما کے جو شبیرؔ نے تازی کو کیا تیز
اعدا پہ چلا غول سواروں کا، جلو ریز
ایک ایک جوانِ عربی، رشکِ ملک تھا
اللہ کے لشکر کا علم، سر بہ فلک تھا
کیا فیضِ سواری تھا کہ زر ریز تھی سب راہ
طالع تھا ادھر مہر، ادھر تھا علم شاہ
مابین دو خورشید تھی، فوجِ شہِ ذی جاہ
پنجے پہ تجلی تھی، کہ اللہ ہی اللہ
بالا تھی چمک، مہرِ منور کی چمک پر
ضو اس کی زمیں پر تھی، ضیا اس کی فلک پر
ایک ایک جواں، زیورِ جنگی کو سنوارے
نیزوں کی چمک اور وہ سمندر کے طرارے
جعفرؔ کے جگر بند، ید اللہ کے پیارے
رستم سے ہر اک جنگ کرے شیر کو مارے
سیاف ہو مرحبؔ سا، تو شمشیر سے ماریں
ارجنؔ سے کماندار کو، اک تیر سے ماریں
کم سن کئی لڑکوں کا جدا غول تھا سب سے
سوئے بھی نہ تھے، ولولۂ جنگ میں ، شب سے
رو کے ہوئے باگوں کو، شہِ دیں کے ادب سے
اعدا کی طرف دیکھتے تھے، چشمِ غضب سے
ہتھیار جو باندھے تھے تو کیا تن پہ کُھلے تھے
سب نیمچے تولے ہوئے مرنے پہ تُلے تھے
وہ چاند سا منہ، اور وہ گورے بدن، ان کے
شرمندہ ہو غنچے بھی، وہ نازک دہن ان کے
یوسف کی طرح عطر فشاں پیرہن ان کے
مرکر وہی کپڑے ہوئے آخر کفن ان کے
کیا حسنِ عقیدت تھا عجب دل کے جواں تھے
آقا پہ فِدا ہونے کو سب ایک زباں تھے
عمریں تو کم و بیش، یہ سب گیسوؤں والے
اِک غول میں تھے چاند کئی اور کئی ہالے
ذی مرتبہ سیدانیوں کو گود کے پالے
غنچہ تھا وہ سب، اکبرِؔ گل رو کے حوالے
ان تازہ نہالوں میں نمودار یہی تھے
اس گلشنِ یک رنگ کے مختار یہی تھے
مقتل کو جو پر نور کیا، عسکرِ دیں نے
دیکھا طرفِ چرخ، حقارت سے زمیں نے
اونچا نہ کیا سر فلکِ ماہِ جبیں نے
کی فرش پہ حسرت سے نظر عرشِ بریں نے
اٹھ اٹھ کے چمک اپنی دکھانے لگے ذرے
خورشید کے پہلو کو دبانے لگے ذرے
کھولا جو پھریرے کو علمدار جری نے
لوٹے گلِ فردوس، نسیم سحری نے
تاروں کو اتارا، فلکِ نیلوفری نے
پرچم جو کھلا کھول دیے بال پری نے
عیسی نے پکارا کہ نثار اس کے چشم کے
خورشید نے منہ رکھ دیا پنجے پہ علم کے
ترتیبِ صفِ فوج کا جس دم ہوا اعلام
باندھی علیؔ اکبر نے صفِ لشکرِ اسلام
ظاہر جو ہوئی شانِ جوانانِ گل اندام
کوفے کے نشاں جھک گئے، کانپی سپہِ شام
اللہ رے شوکت شرفا و نجبا کی
اسلام کا لشکر تھا کہ قدرت بھی خدا کی
ناگاہ بجا طبل، بڑھا لشکرِ سفاک
تا چرخ گیا، غلغلۂ کوسِ شغب ناک
فریاد سے قرنا کی ہلا گنبد افلاک
تھرا گیا آوازِ دہل سے کرۂ خاک
نوبت تھی زبس قتلِ امامِ مدنی کی
صاف آتی تھی تاشوں سے صدا سینہ زنی کی
واں شور تھا باجوں کا ادھر نعرۂ تکبیر
ایک ایک جری جھومتا تھا تول کے شمشیر
نگاہ سوئے فوجِ خدا آنے لگے تیر
عباسؔ علمبدار نے دیکھا رخِ شبیر
کی عرض کہ لڑنے کو شریر آتے ہیں مولا
کیا حکم ہے اب پیاسوں پہ تیر آتے ہیں مولا
شہ نے کہا شرم آتی ہے کیا حکم میں دوں آہ
ہفتادِ دو تن یاں ہیں، ادھر سیکڑوں گمراہ
غازی نے یہ کی عرض کہ اے گل کے شہنشاہ
یہ شیر نیستانِ علیؔ ہیں، تو وہ روبارہ
لاکھوں ہیں تو کیا ڈرہے شجاعانِ عرب کو
اقبال سے آقا کے بھگا دیتے ہیں سب کو
فرمایا کہ فاقے سے ہے، سارا مرا لشکر
پانی نہیں ملتا کہ لبِ خشک کریں تر
بہتر ہے اگر پہلے کٹے تن سے مرا سر
غازی نے کہا شیرِ گرسنہ ہیں، یہ صفدر
حملوں سے الٹ دیں گے پرے فوج عدو کے
بھوکے ہیں یہ زخموں کے، پیاسے ہیں لہو کے
حضرت نے کہا خیر! لڑو فوجِ ستم سے
معلوم ہے سب آج جدا ہوویں گے ہم سے
دنیا سے نہ مطلب ہے، نہ کچھ جاہ و حشم سے
کٹ جائے گا اپنا بھی گلا، تیعِ دو دم سے
مقبول ہیں وہ، جو مری امداد کریں گے
اس جنگ کو بھی لوگ، بہت یاد کریں گے
جس دم یہ سنی، قبلۂ کونین کی گفتار
جانباز بڑھے، فوج سے چلنے لگی تلوار
تھے پیاسوں کے حملے غضبِ حضرتِ قہار
چوٹی کے جواں بھاگ گئے پھینک کے تلوار
کون آنکھ ملا سکتا تھا، شیروں سے عرب کے
جب کرتے تھے نعرے قدم اٹھ جاتے تھے سب کے
لڑتا تھا غضب ایک کے بعد ایک وفادار
دن چڑھتا تھا یاں، گرم تھا واں موت کا بازار
سر بیچتے تھے، جنسِ شہادت کے طلبگار
بڑھ بڑھ کے خریدار پہ گرتا تھا خریدار
لیں پہلے، ہم ایک ایک کی جاں اس کی بڑی تھی
عقبیٰ کا جو سودا تھا تو قیمت بھی کڑی تھی
آیا جو عزیزوں کے لئے موت کا پیغام
فرزندوں نے جعفرؔ کے بڑے رن میں کئے کام
اولاد عقیل آ چکی شبیرؔ کے جب کام
لڑنے کو گئے مسلمِ بیکس کے گل اندام
تھا حشر بپا ندیاں بہتی تھیں لہو کی
بچوں نے الٹ دی تھیں صفیں فوجِ عدو کی
لشکر میں تلاطم تھا غضب چلتی تھی تلوار
بیتاب تھے یاں، زینبِ ناشاد کے دلدار
منہ دیکھ کے حضرت کا یہی کہتے تھے ہر بار
ہم جائیں گے بعد ان کے سوئے لشکرِ کفار
جی جائیں جو مولا ہمیں مرنے کی رضا دیں
ایسا نہ ہو قاسمؔ کو حضور اذنِ وِغا دیں
کچھ ان سے کہا چاہتے تھے سرورِ ذی شان
جو غل ہوا مارے گئے مسلمؔ کے دل و جان
لاشے بھی ادھر آ چکے، جب خون میں غلطاں
پھر ہاتھوں کو جوڑا کہ ملے رخصت میداں
شہ نے کہا یہ داغ تو دشوار ہے ہم پر
ان دونوں نے سر رکھ دیے ماموں کے قدم پر
حضرت نے کہا ماں سے بھی ہو آئے ہو رخصت
کیا کہتے ہو لٹوا دوں میں ہمشیر کی دولت
مایہ ہو تمہیں اس کا، تمہیں اس کی بضاعت
چھوٹے نے یہ حضرت سے کہا تھام کے رقت
جھوٹے نہیں ہم، آپ ابھی پوچھ لیں سب سے
اماں تو رضا دے چکی ہیں، مرنے کی شب سے
بچوں نے جو کی جوڑ کے ہاتھوں کو یہ تقریر
ان دونوں کا منہ دیکھ کے رونے لگے شبیرؔ
فرمایا چھڑاتا ہے، تمہیں بھی فلکِ پیر
اچھا میں رضا مند ہوں، جو مرضئِ ہمشیر
وہ سیدۂ پاک نواسی ہے نبی کی
فیاض کی ہمشیر ہے، بیٹی ہے سخی کی
یہ سن کے جھکے آخری تسلیم کو ذی جاہ
خورشید کے آگے مہ نو بن گئے دو ماہ
کی سوئے فلک دیکھ کے شبیرؔ نے اک جاہ
دو شیر چلے گھوڑوں پر چڑھ کر سوئے جنگاہ
ماں ڈیوڑھی سے چلائی کہ رخصت ہو مبارک
سرکارِ شہنشاہ سے، خلعت ہو مبارک
سلطانِ دو عالم نے مخلع کیا واری
تم جاتے ہو یا جاتی ہے دولہا کی سواری
پروان چڑھے، ختم ہوئیں شادیاں ساری
لو دور سے لیتی ہوں بلائیں، تمہاری
صدقے گئی نیزوں کو ہلاتے ہوئے جاؤ
شکلیں مجھے پھر پھر کے دکھاتے ہوئے جاؤ
تسلیم کو گھوڑوں سے جھکے، دونوں وہ گل رو
دل ماں کا یہ امڈا کہ ٹپکنے لگے آنسو
باگیں جو اٹھائیں تو فرس بن گئے، آہو
پھر دیکھنے پائی نہ انہیں زینبِ خوش خو
میداں کی طرف یاس سے ماں رہ گئی تک کر
پنہاں ہوئے بدلی میں ستارے سے چمک کر
میداں میں عجب شان سے وہ شیرِ نر آئے
گویا کہ بہم حیدرؔ و جعفرؔ نظر آئے
غل پر گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسن گرانمایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں، سایہ ہے ان کا
وہ چاند سے منہ، اور وہ گیسوئے معنبر
وہ بدر سے رخسار، زہے قدرتِ داور
سب شان یداللہ کی، سب شوکتِ حیدرؔ
چتون وہی، غصہ وہی، سارے وہی تیور
یہ دبدبہ کس صاحبِ شمشیر نے دیکھا
دیکھا جسے، معلوم ہوا شیر نے دیکھا
تن تن کے جو شان اپنی دکھاتے تھے وہ ذی جاہ
چھاتی سے لگا لیتے تھے دونوں کو ید اللہ
شمشاد سے قامت، نہ دراز اور نہ کوتاہ
کھیلے ہوئے تیغوں میں فنِ جنگ سے آگاہ
ناخن سے دلیروں کے سب اندازِ وِغا تھے
بچے تھے مگر بچۂ ضرغامِ خدا تھے
تھے حسن میں ان دونوں کے آئینہ رو ایک
پیشانی و ابرو و سر و صدر و گلو ایک
شان ایک، شکوہ ایک، جو رنگ ایک، تو بو ایک
دل ایک، جگر ایک، جسد ایک، لہو ایک
اور ان سا کوئی غرب سے تا شرق نہیں ہے
دو ٹکڑے ہیں اک سیب کے، کچھ فرق نہیں ہے
پڑھنے لگے اشعارِ رجز جب وہ دلاور
اللہ ری فصاحت فصحا ہو گئے ششدر
ہر بیت تھی دشمن کے لئے تیغِ دو پیکر
ہر مصرع برجستہ میں تھی تیزئِ خنجر
دے کون جواب ان کا کہ دم بند تھا سب کا
واں قافیہ تھا تنگ شجاعانِ عرب کا
اظہارِ نسب میں جو محمدؔ کا لیا نام
سب پڑھنے لگے صلِ علیٰ صاحبِ اسلام
آگے جو بڑھے نامِ علیؔ کے کے وہ گلفام
دل ہِل گئے تھرانے لگا روم سے تا شام
جعفرؔ کا جو کچھ ذکر کیا بعد علیؔ کے
مجرے کو علم جھک گئے سب فوجِ شقی کے
آغاز تھا ذکرِ شرفِ حضرتِ شبیرؔ
ڈنکے پہ ادھر چوٹ لگی، چلنے لگے تیر
اس وقت بڑے بھائی نے کی چھوٹے سے تقریر
تلوار علم کیجئے اب کس لئے تاخیر
کہتے تو جدا ہو کے ستمگاروں پہ جائیں
اسواروں میں ہم، آپ کمانداروں پہ جائیں
فرمایا بڑے بھائی نے ہنس کر، نہیں بھائی
تم جان ہو، دشوار ہے دم بھر کی جدائی
ہو جاتی ہے اِک آن میں، ہر صف کی صفائی
کر دیتے ہیں سر، کون سی ایسی ہے لڑائی
بازو ہوں قوی، ہاتھ سے گر ہاتھ نہ چھوٹے
سر تن سے اتر جائے، مگر ساتھ نہ چھوٹے
نانا کی طرح، فوج پہ حملے کریں، آؤ
تلواروں میں تن تن کے چلو، برچھیاں کھاؤ
ان چھوٹے سے ہاتھوں کا ہمیں، زور دکھاؤ
ہم سینہ سپر تم پہ ہوں، تم ہم کو بچاؤ
ہم شیروں پہ رستم کا بھی منہ پڑ نہ سکے گا
جب دو ہوئے اک دل تو کوئی لڑ نہ سکے گا
چھوٹے نے کہا جوڑ کے ہاتھوں کو کہ، بہتر
بس کھینچ لئے نیمچے، دونوں نے برابر
دو بجلیاں کوندیں کہ لرزنے لگے لشکر
نیزوں کے نیستاں میںِ در آئے وہ غضنفر
برباد کیا رو میں سواروں کو دبا کے
رہوار بھی اسوار تھے گھوڑوں پہ ہوا کے
ان چھوٹی سی تلواروں کے تھے کاٹ نرالے
تھیں کہنیاں پہونچوں سے جدا، ہاتھوں سے بھالے
مسل اپنی جمائے تھے جو بے مثل رسالے
تھے جائزہ ان سب کا یہی دیکھنے والے
ناز اپنے ہنر پر تھا شجاعان عرب کو
نیزوں کو قلم کر کے ندارد کیا سب کو
موت آئی اُدھر، نیمچے دونوں جدھر آئے
جب ہاتھ بڑھا، پاؤں پہ کٹ کٹ کے سر آئے
گر سینے تک آئے تو، کبھی تا کمر آئے
خالی نہ پھرے، جس پہ گئے، خوں میں بھر آئے
ہر نیمچہ، بجلی تھا ستمگاروں کے حق میں
ڈوبے ہوئے تھے دو مہِ نو، خوں کی شفق میں
اٹھتی تھی نہ ڈر سے کسی خوں خوار کی گردن
سر خود کا جھک جاتا تھا، تلوار کی گردن
دو چار کے منہ کٹ گئے، دو چار کی گردن
اسوار کا سر اڑ گیا، رہوار کی گردن
دو نیمچے بجلی سے گزرتے تھے کمر سے
آدھے ہوئے جاتے تھے لعیں جان کے ڈر سے
دو چھوٹی سی تیغوں سے قیامت نظر آئی
معصوموں کے ہاتھوں سے کرامت نظر آئی
سر کٹنے کی، اعدا کے علامت نظر آئی
لو ہے کی سپر بھی نہ سلامت نظر آئی
بے وجہ نہ پھر جاتے تھے منہ اہلِ جفا کے
دریا کے تھپیڑے تھے، طمانچے تھے قضا کے
گردن سے بڑھے کاٹ کے پیکر نکل آئے
جوشن کو دکھاتے ہوئے جوہر نکل آئے
چار آئینہ میں تیر کے باہر نکل آئے
صابون سے دو تار برابر نکل آئے
محراب کے نیچے کسے جھکتے نہیں دیکھا
مچھلی کو بندھے پانی میں رکتے نہیں دیکھا
ہر غول میں غلطاں و تپاں تھے سرو پیکر
دستانے کہیں تھے، کہیں ڈھالیں، کہیں مغفر
جب نیمچے ان دونوں کے اٹھتے تھے برابر
منہ خوف سے ڈھالوں میں چھپاتے تھے ستم گر
روکے انہیں، طاقت یہ نہ تھی پیر و جواں کی
صورت نظر آنے لگی تیغِ دو زباں کی
غارت تھی وہ صف جس سے وِغا کرکے پھرے وہ
دو ہاتھ میں سو سو کو فنا کرکے پھرے وہ
سرداروں کے سر تن سے جدا کرکے پھرے وہ
ہر غول میں اک حشر بپا کرکے پھرے وہ
غل تھا کہ پرے ٹوٹے ہوئے جم نہیں سکتے
سر کٹنے کی دہشت سے قدم تھم نہیں سکتے
گھوڑے تھے چھلاوا، کبھی یاں تھے کبھی واں تھے
پتلی میں تو پھرتے تھے، پر آنکھوں سے نہاں تھے
یاں تھے جو سبک رو تو ادھر گرم عناں تھے
بجلی تھے کسی جا تو کہیں آبِ رواں تھے
ہو سکتی تھی بجلی سے یہ سرعت نہ ہرن سے
جھونکے تھے ہوا کے کہ نکل جاتے تھے سَن سے
بے آب تھے دو دن سے یہ جاندار تھے گھوڑے
ہر مرتبہ اڑ جانے پہ تیار تھے گھوڑے
اس پار کبھی تھے، کبھی اس پار تھے گھوڑے
نقطہ تھے وہ سب فوج کی پرکار تھے گھوڑے
دس بیس جو مر جاتے تھے ٹاپوں سے کچل کر
بڑھ سکتا نہ تھا اِک بھی احاطہ سے اجل کے
تانے ہوئے سینوں کو جدھر جاتے تھے دونوں
تلواروں کی موجوں سے گزر جاتے تھے، دونوں
ہر غول میں بے خوف و خطر جاتے تھے، دونوں
سب ہوتے تھے پسپا تو ٹھہر جاتے تھے، دونوں
الٹی ہوئی صف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
بھائی کی طرف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
دم لے کے جو گھوڑوں کو اڑاتے تھے وہ جرار
اعدا کے رسالوں کو بھگاتے تھے وہ جرار
شیروں کی طرح فوج پہ جاتے تھے وہ جرار
دو کرتے تھے یکتا، جسے پاتے تھے وہ جرار
شیروں نے جو مارا بھی تو رو داروں کو مارا
جب آنکھ ملی چن کے نموداروں کو مارا
جمعیتِ لشکر کو پریشاں کیا، دم میں
جو فوج کی جاں تھے، انہیں بے جاں کیا دم میں
تلواروں سے جنگل کو، گلستاں کیا دم میں
سر کاٹ کے خونخواروں کو غلطاں کیا دم میں
بے دست تھے علموں کو، جو بے دین لیے تھے
بچوں نے جوانوں کے نشاں چھین لئے تھے
دو لاکھ کو دونوں نے کیا تھا تہ و بالا
تیغ ایک کی چلتی تھی، تو اِک بھائی کا بھالا
اِک بڑھ گیا گر ایک نے گھوڑے کو نکالا
دم اس نے لیا، اس نے لڑائی کو سنبھالا
یک جا فرسِ تیز قدم ہو گئے دونوں
جب بھیڑ بڑھی کچھ تو بہم ہو گئے دونوں
وہ چھیڑ کے تازی کو سواروں میں در آیا
دم بھر میں پیادوں کو پامال کر آیا
جب شیر سا پہونچا وہ ادھر، یہ ادھر آیا
جاں آ گئی بھائی کو جو بھائی نظر آیا
بچ بچ کے نکلتے تھے جو نیزوں کے تلے سے
اِک بھائی لپٹ جاتا تھا بھائی کے گلے سے
کچھ بھائی سے بڑھ کر جو وِغا کرتا تھا بھائی
بچ جانے کی بھائی کے دعا کرتا تھا بھائی
حق بھائی کی الفت کا ادا کرتا تھا بھائی
ہر وار پہ بھائی کی ثنا کرتا تھا بھائی
تم سا نہیں صفدر کوئی واللہ برادر
کیا خوب لڑے سلمک اللہ برادر
کہتا تھا بڑے بھائی سے چھوٹا بصد آداب
بھائی میں بھگا دوں ابھی ان کو، جو ملے آب
اب پیاس کی گرمی سے کلیجے کو نہیں تاب
سینے میں مرا دل نہیں، آتش پہ ہے سیماب
ہم لوگ محق کیا نہیں اس آبِ رواں کے
تالو میں خلش ہوتی ہے کانٹوں سے زباں کے
کہتا تھا بڑا بھائی میں صدقے ترے گلفام
ہم خشک زبانوں کو، بھلا پانی سے کیا کام
اب جلد اجل آئے تو کوثر کا پئیں جام
غش ہم کو بھی آ جائے گا، پانی کا نہ لو نام
آنکھیں تو ستمگاروں کی تیغوں سے لڑی ہیں
چپکے رہو اماں درِ خیمہ پہ کھڑی ہیں
اس نہر کا لینا تو کچھ ایسا نہیں مشکل
روکیں ہمیں کیا تاب لعینوں کی ہے، کیا دل
پل باندھ لیں لاشوں کے ابھی ہم سرِ ساحل
بتلایئے، پھر نہر کے لے لینے سے حاصل
دیکھو نہ ادھر پیاس سے گو لاکھ تعب ہے
اماں ہمیں گر دودھ نہ بخشیں تو غضب ہے
اشک آنکھوں میں بھر کر، کہا چھوٹے نے بہت خوب
ہر دم ہے رضامندئ مادر ہمیں مطلوب
ایسے تو نہیں ہم کہ بزرگوں سے ہوں محجوب
منظور یہ تھا فخر کا، نکلے کوئی اسلوب
دریا کو بھی دیکھیں گے نہ اب آنکھ اٹھا کے
پیتے بھی تو پہلے شہِ والا کو پلا کے
جعفرؔ کے جو پوتے ہیں، تو حیدرؔ کے نواسے
کچھ ہم علیؔ اکبر سے زیادہ نہیں پیاسے
یہ کہتے ہی لڑنے لگے، پھر اہلِ جفا سے
فریاد کہ بچوں پہ گری فوج قفا سے
خوں سر کا بہا منہ پہ تو گھبرا گئے دونوں
دو لاکھ کی تیغوں کے تلے آ گئے دونوں
ڈوبے ہوئے تھے شام کے بادل میں وہ دو ماہ
پردے سے کھڑی تکتی تھی، زینبؔ سوئے جنگاہ
عباسؔ سے کہتے تھے تڑپ کر شہِ ذی جاہ
اب مجھ سے جدا ہوتے ہیں دو شیر مرے آہ
کیوں کر متحمل ہو دل اس رنج و محن کا
گھر لٹتا ہے بھائی مری نادار بہن کا
اس بی بی کے فاقوں کے ہیں پالے ہوئے یہ لال
دولت ہے یہی، اور یہی حشمت و اقبال
سات آٹھ برس کے ہیں ابھی کیا ہے سن و سال
سب ہاتھ ملیں گے جو یہ گل ہو گئے پامال
تازہ یہی دو پھول ہیں جعفرؔ کے چمن میں
مر جائے گا باپ ان کی خبر سن کے وطن میں
رو کر دمِ رخصت وہ یہی کہتے تھے ہر بار
میں شاہ کا خادم ہوں، یہ دونوں ہیں نمک خوار
آگاہ صعوباتِ سفر سے نہیں زنہار
اے دخترِ زہرا مرے بیٹوں سے خبردار
میں رکھ نہیں سکتا ہوں کہ ماموں پہ فدا ہیں
اب تو یہی دونوں مرے پیری کے عصا ہیں
شوہر کا تڑپنا اسے کچھ بھی نہ رہا یاد
ہے ہے مری الفت میں لٹی زینبؔ ناشاد
یوں بھائی پہ صدقے کوئی کرتا نہیں اولاد
ہم دیکھتے ہیں اور بہن ہوتی ہے برباد
روئے گی وہ بیٹوں کو تو سمجھائیں گے کیوں کر
منہ زینبِؔ دلگیر کو دکھلائیں گے کیوں کر
عباسؔ نے کی عرض، کلیجہ ہے دو پارا
ان کو تو کسی کی نہیں، امداد گوارا
زخمی ہوئے، نہ مجھ کو نہ اکبرؔ کو پکارا
جائے یہ غلام آپ جو فرمائیں اِشارا
حضرت کی قسم دے کے میں سمجھاؤں گا ان کو
مچلیں گے تو گودی میں اٹھا لاؤں گا ان کو
حضرت نے کہا صاحبِ غیرت ہیں، وہ دونوں
لختِ جگر شاہِ ولایت ہیں وہ دونوں
ضرغامِ نیستانِ شجاعت ہیں، وہ دونوں
واللہ بڑے صاحبِ ہمت ہیں وہ ددنوں
دو لاکھ تو کیا ہیں جو کروروں میں گھریں گے
بے جان دیے، وہ نہ پھرے ہیں نہ پھریں گے
بڑھنے لگے میداں کی طرف قاسمِ ذی جاہ
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ میں جاتا ہوں یا شاہ
ہے دونوں کی فرقت کا، مجھے صدمۂ جانکاہ
لاکھوں میں ہیں تنہا پھوپھی اماں کے پسر، آہ
ریتی پہ کہیں گر نہ پڑیں برچھیاں کھا کر
میں ساتھ انہیں لے آتا ہوں اعدا کو بھگا کر
گھبرا کے درِ خیمہ سے زینبؔ یہ پکاری
سر ننگے میں نکلوں گی، جو تم جاؤ گے واری
اولاد مجھے تم سے زیادہ نہیں پیاری
بتلاؤ کہ میں ان کی ہوں عاشق کہ تمہاری
میداں کی طرف قاسمِؔ بے پر بھی نہ جائیں
تلواروں میں عباسِؔ دلاور بھی نہ جائیں
زہراؔ کی قسم کچھ نہیں بیٹوں کا مجھے دھیان
بھائی پہ تصدق ہوں، یہی تھا مجھے ارمان
وہ آئے تو وسواس سے دل ہوگا پریشان
صدقے کو نہیں پھیر کے لاتے ہیں، میں قربان
خود روؤں گی پر شاہ کو غم کھانے نہ دوں گی
لاشے بھی آٹھانے کیلئے جانے نہ دوں گی
میداں میں ہے کیا اور بجز نیزۂ و شمشیر
مر جاؤں گی زخمی ہوئے گر قاسمؔ دلگیر
دل کس کا چھدے، تم کو لگائے جو کوئی تیر
سمجھاؤ میں صدقے گئی کیوں روتے ہیں شبیرؔ
باقی ہے اگر زیست تو پھر آئیں گے دونوں
غم کس لئے، کیا ہو گا، جو مر جائیں گے دونوں
شہزادوں کو کھوتے ہیں، غلاموں کے لئے آہ
میں جوڑتی ہوں ہاتھ بس اب روئیں نہ للّٰلہ
ہے شرم کی کیا وجہ، میں لونڈی، وہ شہنشاہ
سو ایسے ہوں بیٹے تو نثارِ شہِ ذی جاہ
ممتاز ہے، فدیہ ہے جو زہراؔ کے پسر کا
شان اس کی بڑھے فخر ہو جو جد و پدر کا
باپ ان کا اگر ہوتا تو وہ سر نہ کٹاتا
زہراؔ کے کلیجے کے عوض، برچھیاں کھاتا
بیٹوں کو یوں ہی میری طرح نذر کو لاتا
اپنے کوئی محسن کو نہیں دل سے بھلاتا
جو پاس ہے جس کے وہ عطائے شہِ دیں ہے
کہہ دے مرے ماں جائے کہ حق کس پہ نہیں ہے
بیٹوں سے ہوئی گر تو ہوئی، آج جدائی
سر پر مرے دنیا میں، سلامت رہیں بھائی
اِک دولتِ اولاد، لٹائی تو لٹائی
کیا لٹ گیا وہ کون سی ایسی تھی کمائی
کیوں روؤں میں دنیا میں جو دلبند نہیں ہیں
کیا اکبرؔ و اصغرؔ مرے فرزند نہیں ہیں
یہ ذکر ابھی تھا کہ ستمگار پکارے
لو شاہ کی ہمشیر کے بیٹے گئے مارے
ٹکڑے کیا معصوموں کو تلواروں کے مارے
وہ لوٹتے ہیں خاک پہ، دو عرش کے تارے
پامالی کو ان دونوں کی اسوار بڑھیں گے
بچوں کے سر اب کٹ کے نشانوں پہ چڑھیں گے
یہ سنتے ہی تھرانے لگے حضرتِ عباسؔ
گھبرا کے اٹھے خاک سے شبیرؔ بصد یاس
سر کھولے ہوئے بیبیاں، ڈیوڑھی کے جو تھیں پاس
سب نے کہا لو شہ کی بہن ہو گئی بے آس
ٹوٹا ہے فلک، بنتِ شہنشاہِ نجف پر
زینبؔ کو چلو لے کے بس اب ماتمی صف پر
ہے ہے کا جو اک شور ہوا، رانڈوں میں برپا
زینبؔ بھی ہٹی، چھوڑ کے دروازے کا پردا
چلائی ارے چپکے رہو، غل ہے یہ کیسا
بھائی ہیں سلامت، مجھے کیوں دیتے ہو پرسا
ہے ہے نہ کرو صاحبو، گھبرائیں گے شبیرؔ
پھر کون ہے زینبؔ کا جو مرجائیں گے شبیرؔ
تم روتے ہو کس واسطے میں تو
- meer-anees
جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے بسوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے بسوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
- meer-anees
1
کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے
جس نور سے پر نور یہ نور نظری ہے
آمد ہی میں حیران قیاس بشری ہے
یہ کون سی تصویر تجلی سے بھری ہے
گو حسن کا رتبہ نہیں مذکور ہوا ہے
منبر مرا ہم مرتبۂ طور ہوا ہے
2
صد شکر کہ مجلس مری مشتاق سخن ہے
یہ فیض عنایات حسین اور حسن ہے
پھر جوش جوانی پہ مری طبع کہن ہے
یہ قوت امداد شہ تشنہ دہن ہے
نقاش میں یہ صنعت تحریر نہیں ہے
تصویر دکھاتا ہوں یہ تقریر نہیں ہے
3
نقاش تو کرتا ہے قلم لے کے یہ تدبیر
اک شکل نئی صفحۂ قرطاس پہ تحریر
انصاف کرو کلک زباں سے دم تحریر
میں صفحۂ باطن میں رقم کرتا ہوں تصویر
سو رنگ سے تصویر مصور نے بھری ہے
رنیگنئ مضموں کی کہاں جلوہ گری ہے
4
تصویر میں اس شخص کی ہوں تم کو دکھاتا
جو ثانی محبوب الٰہی ہے کہاتا
اک نور جو جاتا ہے تو اک نور ہے آتا
وجہ عدم سایۂ احمد ہوں سناتا
تھا بعد محمد کے جو آیا علی اکبر
تھا احمد مختار کا سایہ علی اکبر
5
یاں تک سخن تازہ کیا طبع نے پیدا
وہ نور نبی اور نبی نورخدا کا
یہ سلسلۂ نور کہاں جا کے ہے پہنچا
اکبر کو جو دیکھا تو بتاؤ کسے دیکھا
واللہ زیارت کا سزا وار ہے اکبر
نعم البدل احمد مختار ہے اکبر
6
لیکن تمہیں تصویر یہ کرتی ہے اشارت
ہاں مجلسیاں روضۂ جنت کی بشارت
ہو محو طہارت ہے اگر قصد زیارت
ہے لازم و ملزوم زیارت کو طہارت
اس قصد پہ بیٹھے ہو جو صاحب نظرو تم
تجدید وضو اشک کے پانی سے کرو تم
7
لکھا ہے کہ تھی حضرت شبیر کو عادت
ہوتی تھی نماز سحری سے جو فراغت
پہلے علی اکبر ہی کو بلواتے تھے حضرت
فرماتے تھے کرتا ہوں عبادت میں عبادت
روشن ہو نہ کیوں چشم حسین ابن علی کی
کرتا ہوں زیارت میں جمال نبوی کی
8
کرتے علی اکبر تو جھکا فرق کو مجرا
ہر مرتبہ مل جاتا تھا پاؤں سے سر ان کا
تعظیم کو ہوتے تھے کھڑے سید والا
کہتے علی اکبر کہ یہ کیا کرتے ہو بابا
شہ کہتے تھے عادت تھی یہ محبوب خدا کی
تعظیم وہ کرتے تھے بتول عذرا کی
9
اے جان پدر ہے مجھے واجب تری توقیر
تو سر سے قدم تک ہے مرے نانا کی تصویر
تب جوڑ کے ہاتھوں کو وہ نو بادہ ٔ شبیر
گردن کو جھکا شرم سے کرتا تھا یہ تقریر
بس ختم شرافت ہوئی فرزندہ علی پر
رکھا ہے قدم آپ نے دوش نبوی پر
10
تب لیتے تھے پیشانی کا بوسہ شہ ذی شان
کہتے تھے کہ شیریں سختی پر تری قربان
زینب نے سنے راز و نیاز ان کے یہ جس آن
چلائی کہ دونوں پہ تصدق ہو مری جان
دیکھا نہ کوئی باپ اگر ابن علی سا
بیٹا بھی سنا ہے کوئی ہم شکل نبی سا
11
سن لو علی اکبر کی زیارت کا قرینہ
پہلے تو کدورت سے کرو صاف یہ سینہ
پھر دیدۂ باطن کو کرو دیدۂ بینا
تا جلوہ نما ہو رخ سلطان مدینہ
معلوم ہوا صفحۂ قرآں علی اکبر
تحقیق ہوا کعبۂ ایماں علی اکبر
12
قرآن کی تشبیہ یہ اس دل نے بتائی
پیشانیٔ انور ہے کہ ہے لوح طلائی
ابرو سے ہے بسم اللہ قرآں نظر آئی
جدول کشش زلف کی قاروں نے دکھائی
وہ زلف وہ بینی الف و لام رقم ہے
پر میم دہن مل کے یہ اک شکل الم ہے
13
اور کعبۂ دلہا کی یہ تمثیل ہے اظہر
یہ خال سیہ ہے حجر الاسود زیور
محراب حرم پیش نظر ابروے اکبر
یہ چاہ ذقن ہے چہ زمزم کے برابر
اس بینئ اقدس کا مجھے دھیان گر آیا
کعبہ میں دھرا نور کا منبر نظر آیا
14
دیکھو کہ صفا ہے رخ اکبر سے نمایاں
یاں سعی میں ہردم ہے دل زینب نالاں
کعبہ جو سیہ پوش ہے اے صاحب عرفاں
یاں بھی رخ انور پہ ہیں گیسوے ٔ پریشاں
اس زلف میں پابند دل شاہ امم ہے
زنجیر میں کعبے کی یہ قندیل حرم ہے
15
کیا قدر کوئی پائے مبارک کی سنادے
یہ رکن ہیں کعبہ کے اگر فہم خدادے
انصاف کرو تم کو خدا اس کی جزا دے
اس رکن کو یوں امت بے دین گرادے
حج تم نے کیا کعبے کا جب چشم ادھر ہے
معنی حج اکبر کے یہی ہیں جو نظر ہے
16
سب آتے ہیں کعبے نے یہ ہے مرتبہ پایا
یہ قبلۂ ایمان ہدایت کا جو آیا
آہوے حرم جان کے مجروح بنایا
اور خون کا دریا تھا ہر اک سمت بہایا
قربانی ہو کعبے میں یہ فرمان خدا ہے
یہ کعبہ تو امت ہی یہ قربان ہوا ہے
17
حسن علی اکبر تو سنایا نہیں جاتا
کچھ دل ہی مزا چشم تصور میں ہےپاتا
اس قد کا اگر باغ میں مذکور ہے آتا
تب سرو انگشت شہادت کو اٹھاتا
پیشانی تو آئینہ لب ریز صفا ہے
ابرو ہے کہ خود قبلہ ہے اور قبلہ نما ہے
18
مانند دعاے سحری قد رسا ہے
ماتھا ہے کہ دیباچہ انوار خدا ہے
دو زلف نے اک چاند سا منہ گھیر لیا ہے
وصل شب قدر و شب معراج ہوا ہے
دو زلفیں ہیں رخسار دل افروز بھی دو ہیں
ہاں شام بھی دو ہیں بہ خدا روز بھی دو ہیں
19
ہے چشم سیہ بس کہ تہہ ابروے خم دار
سو پنچۂ مژگاں کو اٹھائے تن بیمار
محراب کے نیچے یہ دعا کرتے ہیں ہربار
اس چشم جہاں بیں کو نہ پہنچے کوئی آزار
گیسو نہیں یہ سنبل فردوس نشاں ہیں
یہ چشم نہیں نرگس شہلائے جہاں ہیں
20
ہونٹوں سے کبو دی جو عطش کی ہے نمودار
ہوتا ہے دھواں آتش یاقوت سے اظہار
غصے سے جو ابرو میں شکن پڑتی ہے ہربار
ہالہ اسے سمجھے ہیں سرو ہی کا وہ کفار
ابرو جو ہر اک موے مبارک سے بھرا ہے
اعجاز سے شمشیر میں نیزوں کو دھرا ہے
21
اس ابروو بینی میں یہ پائی گئی صورت
جس طرح مہ عید پہ انگشت شہادت
شمع حرم حق نے کیا سایۂ وحدت
گوہر یہ نیا لایا ہے غواص طبیعت
مطبوع ہر اک شکل سے پایا جو رقم کو
یاں رکھ دیا نقاش دو عالم نے قلم کو
22
خط جلوہ نما عارض گلگوں پہ ہوا ہے
مصحف کو کسی نے ورق گل پہ لکھا ہے
یہ چشم یہ قد حسن میں اعجاز نما ہے
ہاں اہل نظر سرو میں بادام لگا ہے
تیروں سے سوا ترکش مژگاں کا اثر ہے
دشمن کے لیے ریزۂ الماس جگر ہے
23
کانوں کا تہ زلف مسلسل ہے اشارہ
دو پھول ہیں سنبل میں نہاں وقت نظارا
کس کو صفت حسن بنا گوش کا یارا
خورشید سے دیکھو تو ٹپکتا ہے ستارا
چہرہ غرق آلودہ دم صف شکنی ہے
خورشید پہ ہر قطرۂ سنبل یمنی ہے
23
برگشتہ مژہ اس کی یہ کرتی ہے اشارے
برگشتگیٔ عمر کے سامان ہیں سارے
مژگاں کے یہ نیزے جو خمیدہ ہوئے بارے
دھڑکا ہے کہ نیزہ کوئی اکبر کو نہ مارے
یک چشم زدن میں جو فلک اس سے پھرے گا
اس چشم کے مانند یہ نیزوں سے گھرے گا
24
لب ہیں کہ ہے دریائے لطافت بہ سراوج
اس اوج میں پیدا یم قدرت کی ہوئی موج
ہیں فرد نزاکت میں مگر دیکھنے میں زوج
دو ہونٹ ہیں اور پیاس کی ہے چاروں طرف فوج
بند آنکھیں ہیں لب خشک ہیں اور عالم غش ہے
اور منہ میں زباں ماہی دریاے عطش ہے
25
کس منہ سے کرے اب کوئی مدح درد نداں
کچھ قدر نہیں در عدن کی جہاں چنداں
تارے سے چمکنے لگے جس دم ہوئے خنداں
مضمون یہ ہے قابل دشوار پسنداں
یہ قاعدہ کلی ہے نہ ہو مدح بشر سے
کلی کوئی جب تک نہ کرے آب گہر سے
26
گردن ہے کہ فوارۂ نور ازلی ہے
یہ دوش تو ہم دوش بدوش نبوی ہے
سینہ ہے کہ آئینہ وضع احدی ہے
دل صاف نظر آتا ہے آئینہ یہی ہے
ان ساعدو ساقین کے رتبے کہو کیا ہیں
یہ چار مگر ماہی دریاے صفا ہیں
27
پشتینوں سے یہ پشت ہے ہم پشت پیمبر
لیکن شہ مظلوم چڑھے پشت نبی پر
یہ پشت پہ شبیر کی بیٹھا ہے مکرر
لے فرق سے تانا خن پا نور سراسر
کیا فرق ہے موسیٰ میں اور اس ماہ لقا میں
واں ہاتھ میں اور یاں ید بیضا کف پا میں
28
اور تن پہ سلاح خربی خوبی سجا ہے
یہ خود نہیں سایہ افضال خدا ہے
نیزہ نہیں شبیر کا یہ دست دعا ہے
یا بانوۓ مغموم کی فریاد رسا ہے
چار آئینے میں چار طرف عکس پڑے ہیں
یا بہر مد دپنچ تن پاک کھڑے ہیں
29
شبیر تو اس کے تن عارض پہ فدا ہے
زینب کا تو پوچھو نہ جو کچھ حال ہوا ہے
عابد کو قلق اس کی جدائی کا بڑا ہے
بانو کا تو سر خاک یہ اس غم سے جھکا ہے
یہ چار نہیں پھول جو تزئین سپر ہیں
بالائے سپر چاروں کے یہ داغ جگر ہیں
30
یہ تیغ کلید در اقبال و ظفر ہے
ہر سمت کو وا جس کے لیے زخم کا در ہے
حلقہ یہ زرہ کا نہیں تن رشک قمر ہے
سو تن سے ملا دیدۂ ارباب نظر ہے
گھوڑا تو ہے خاکی پہ خمیر آب بقا ہے
گرمی میں جو آتش ہے تو سرعت میں ہوا ہے
31
میں چشم تصور میں لگا کھینچنے تصویر
بس ذہن میں سرعت سے نہ ٹھہرا کسی تدبیر
جب بندش مضمون میں باندھا دم تحریر
دی کلک نے آواز پری کو کیا تسخیر
ڈھیلی جو ہوئی باگ تصور کی ادھر سے
جوں عمر رواں ہوگیا معدوم نظر سے
32
اس گھوڑے کی سرعت کہو کیوں کر کروں مرقوم
جوں حرف غلط حرف ہوئے جاتے ہیں معدوم
کونین میں یہ تیز روی کے جو ہیں مفہوم
یاں ہوتا ہے معلوم نہ واں ہوتا ہے معلوم
مرقوم ثنا صفحۂ کاغذ پہ جہاں ہو
ہر حرف وہیں مورچے کی طرح رواں ہو
33
کیوں مومنو تصویر پیمبر نظر آئی
لیکن تمہیں کس وقت میں صورت یہ دکھائی
جب باپ میں اور بیٹے میں ہوتی ہے جدائی
بس خوش ہیں کہ ہم نے بھی رضا جنگ کی پائی
خود قید مصیبت سے تو آزاد ہوئے ہیں
ماں باپ یہاں مفت میں برباد ہوئے ہیں
34
اٹھارہواں سال ہوگیا ایسا اسے بھاری
یہ تیغ نظر کس کی اسے لگ گئی کاری
ماں باپ کی برباد ہوئیں حسرتیں ساری
یوں سامنے سے چاند سی تصویر سدھاری
حسرت کا مرادوں کا یہ ارمان کا دن تھا
اٹھارہ برس پال کے یہ موت کا سن تھا
35
ماں ہتی کہتی بیٹا مجھے پسا اپنے بلاؤ
شہ کہتے تھے اس سینے کی آتش کو بجھاؤ
سجاد یہ چلاتے تھے بستر سے اٹھاؤ
کہتی تھی سکینہ مجھے ٹوپی تو پنہاؤ
زینب یہی کہتی تھی کہ اے صاحبو کیا ہے
اٹھارہ برس والا بھی مرنے کو چلا ہے
36
اکبر کا یہ عالم ہے کہ بس روبہ قضا ہیں
اک منتظر آمد شاہ شہدا ہیں
کہنے سے جو چھٹتے ہیں تو مشغول بکا ہیں
جس روز سے پیدا ہوئے وہ نور خدا ہیں
اس روز سے ماں باپ کی چھاتی کے تلے ہیں
اور آج نکلتے ہیں تو مرنے کو چلے ہیں
37
بیٹا تو ادھر واسطے مرنے کے سدھارا
یاں شاہ نے سر چوب در خیمہ سے مارا
بانو نے ادھر ہائے پسر جب کہ پکارا
گھونسا سا لگا آ کے کلیجے میں دوبارا
کہتے ہیں کہ ہیں سامنے جاتے علی اکبر
لیکن نہیں ہم کو نظر آتے علی اکبر
38
ہیں خاک پہ بیٹھے ہوئے اور فرق جھکا ہے
فرماتے ہیں یہ مسند شاہ شہدا ہے
گہ سر کو اٹھاکر یہی مضمون دعا ہے
لے آج یہ بیٹا بھی تری نذر کیا ہے
راضی ہوں میں تو داغ پسر دیجیو مجھ کو
پر شرط یہ ہے صبر عطا کیجیو مجھ کو
39
ادنی ٰترا بندہ ہوں سو طاقت مری کیا ہے
اس داغ کا دل ہو متحمل تو مزا ہے
میرا بھی تو اب کوچ کا سامان لگا ہے
دوچار گھڑی کا یہ پس و پیش ذرا ہے
بانو پہ عجب طرح کی آفت یہ پڑی ہے
یارب تری لونڈی کی مجھے فکر بڑی ہے
40
آئی تھی یہاں چھوڑ کے شاہی کو وہ دل گیر
سو تونے دیا تھا شرف بستر شبیر
آزاد کیا لونڈیوں کو دے دے کے جاگیر
بیٹا جو ملا تھا سو محمد کی تھی تصویر
ہاں ایک یہ دولت اسے امداد ہوئی ہے
سو ہاتھ سے امت کے وہ برباد ہوئی ہے
41
ہے بازو کو تھامے ہوئے کنبہ مرا سارا
کہتی ہے کہ لوگو کہو آیا مرا پیارا
نیزہ تو ابھی اس کو کسی نے نہیں مارا
جیتا ہے تو پھر کیوں مجھے اب تک نہ پکارا
اب موت کے پھندے میں مرا ماہ جبیں ہے
بے میرے تو اک آن اسے چین نہیں ہے
42
ہنستے ہوئے آتے تھے جو رخصت کے ارادے
کہتے تھے کہ اماں تمہیں اب صبر خدا دے
میں نے کہا آہستہ سے سر اپنا لگادے
واری گئی اللہ تری پیاس بجھادے
رخصت کا سخن دیکھ نکلتے ہوئے لب سے
کی تھی ابھی کیا کیا مجھے تسلیم ادب سے
43
اے صاحبو اب خاک پہ بانو کو بٹھادو
کالی کفنی ہو تو مجھے لا کے پنہا دو
اس کوکھ پہ اب خاک کا پھایا بھی لگادو
جس راہ گیا ہو وہ مجھے راہ بتا دو
اس دھوپ میں راہی وہ مرا لال ہوا ہے
اب پیاس سے کیا جانیے کیا حال ہوا ہے
44
زینب نے کہا ہائے کہاں جاؤگی بھابھی
روکے در خیمہ کو کھڑے ہیں شہ عالی
اصغر ترا مرتا ہے اٹھالے اسے بی بی
بانو نے کہا آہ خبر ہے مجھے کس کی
اصغر سے تو امید نہیں چند نفس کی
لٹتی ہے کمائی مری اٹھارہ برس کی
45
ہے یاس کا یہ ساماں سنو دشت کا ساماں
واں جاتے ہیں خوش خوش علی اکبر سوئے میداں
سب عرش الہی کی سی شوکت ہے وہی شاں
آتا ہے بڑی دھوم سے جیسے کوئی سلطاں
کہتا ہے نقیب اجل انصاف کی جاہے
دیکھو کہ جواں مرنے کو کیا شیر چلا ہے
46
اک سمت رکاب اس کی ہے تھامے ہوئے حشمت
اور اک طرف باگ کو پکڑے ہوئے نصرت
شاطر کی طرح آگے قدم مارتی دولت
اقبال و ظفر چتر لگائے پئے خدمت
اک نور سے ہر چار طرف دشت بھرا ہے
اور حسن نے خود غاشیا کاندھے پہ دھراے
47
نہ لاکھ میں یہ رعب کی آمد ہے نہ سو میں
دل تھامے ہوئے احمد مختار جلو میں
روح اسداللہ چلی آتی ہے رو میں
اور فاطمہ رہوار کے پیچھے تگ ودو میں
لپٹی ہوئی بس گر دسواری سے اسی کی
آتی ہے چلی جان حسین ابن علی کی
48
واں فوج میں حیرت سے ہر اک شخص ہے تکتا
ہر دار کو سکتہ ہے کہ بس ہل نہیں سکتا
کہتا ہے کہ دیکھو تو ہے کیا نور چمکتا
ہر عضو سے ہے حسن خدا داد ٹپکتا
کیا نور ہے کیا دبدبہ کیا جلوہ گری ہے
خورشید بھی یاں مثل چراغ سحری ہے
49
ہم قیصر روم اس کو جو سمجھیں تو بجا ہے
فغفور کہیں چین کا تو اس سے سوا ہے
خاقان حتن گر کہیں اس کو تو خطا ہے
جن کہیے تو جن میں یہ کہاں حسن و ضیا ہے
واللہ خوشا باپ کہ یہ جس کا خلف ہے
پیدا ہے شرافت سے کہ یہ در نجف ہے
50
نذریں دو اسے چل کے اور اس فوج میں لاؤ
محکوم ہو تم سب اسے سردار بناؤ
یہ چتر مرصع سر اقدس پہ لگاؤ
شبیر کو بلوا کے یہ صورت تو دکھاؤ
کرتے ہیں بہت فخر گھرانے پہ نبی کے
بس یاں یہ مقابل ہے حسین ابن علی کے
51
بہتر ہے جو بلوا کے کہو کیوں شہ تنہا
تھا حسن کا اکبر کے نہایت تمہیں دعوا
اب لا کے کھڑا دونوں کو کردیجئے یک جا
دنیا میں پڑے بندۂ اللہ ہیں کیا کیا
گو حسن کا اکبر کے بھی عنوان یہی ہے
کیوں اے شہ ذی شان کہو شان یہی ہے
52
تشویش میں تھی فوج کہ اس میں علی اکبر
کرنے لگے میداں میں رجز خوانیاں بڑھ کر
ہوں یوسف گل پیرہن سبط پیمبر
جویائے خزان چمن حسرت مادر
ننھیال سے ددھیال سے یہ حسب و نسب ہے
اک شاہ عجم ایک شہنشاہ عرب ہے
53
سلطان کفن پوش ہوں در حق کا سناسا
ناشاد ہوں نکلا نہیں در مان ذرا سا
پوتا شہ مرداں کا ہوں کسرا کا نواسا
مظلوم کا مظلوم ہوں اور پیاسے کا پیاسا
تصویر مری جلد مٹاؤ کوئی آ کر
برچھی مرے سینے پہ لگاؤ کوئی آکر
54
یہ سنتے ہی لشکر میں تلاطم ہوا اک بار
سوچے کہ یہی ہے پسر حیدر کرار
ترغیب میں تو تھا عمر سعد بد اطوار
پر مستعد قتل ہوا ایک نہ زنہار
کہتے تھے اگر لاشے پہ لاشے ہی پڑیں گے
اس جان جہاں سے نہ لڑیں گے نہ لڑیں گے
55
لیکن یہاں اکبر کےہے دل میں یہی بس دھیان
اس قوم کے ہاتھوں سے ہوئے قتل چچا جان
واللہ کہ ہیں گبر سے بدتر یہ مسلمان
انسان جو ہوتے تو ہمیں جانتے انسان
ہے دل میں جو ارمان بھر اصف شکنی کا
لے نام علی قصد کرو تیغ زنی کا
56
بس دوش سے چلا وہ کماں کا جو اتارا
چلے کو بنا گوش تلک کھینچا قضا را
تھا عارض و پیکان و کماں کا یہ اشارا
خورشید ہے اور قوس ہے اور اس میں ستارا
اور اس کا یہ سرعت سے چلا وار کے اوپر
پیکان تھا ایک ایک کے رہوار کے اوپر
57
اکبر نے کہا ہے مرا مشہور گھرانا
دستور نہیں پہلے کوئی وار لگانا
واجب ہوا تم پر مجھے تلوار چلانا
کیوں ظالمو یوں آل محمد کو مٹانا
تم سب کو کروں قتل مرے سامنے کیا ہو
پانی مجھے مل جائے تو لڑنے کا مزا ہو
58
زخمی ہوئی سب فوج تو غصہ انہیں آیا
جھنجھلا کے لعنیوں نے نشانوں کو بڑھایا
جلوہ علموں نے بہ سر فوج دکھایا
یاں رانوں میں شہزادے نے گھوڑے کو دبایا
ہستی کو جلاتا تھا فقط نور کا شعلہ
تھا جلوہ نماچار طرف طور کا شعلہ
59
ابر سیہ ٔفوج کا ایسا ہوا طغیاں
جو چاند حسین ابن علی کا ہوا پنہاں
میداں میں اٹھا تھا غبار سم اسپاں
تاریک ہوا دیدۂ خورشید درخشاں
جاتی تھی چلی جان عدو چھوڑ کے تن کو
اکبر نے سیا سوزن مژگاں سے کفن کو
60
نیزے سے کہیں زخم لگاتا کہیں شمشیر
بینی کہیں ابرو کی کہیں چشم کی تصویر
تھا بسکہ تماشائی وہ نوبادہ ٔشبیر
خورشید کی عینک کو دھرے تھا فلک پیر
چار آئینہ یوں توڑ کے نیزہ وہ ادھر جائے
جس طرح کہ عینک سے نگہ صاف گزر جائے
61
تھا آب دم تیغ سے طوفان کا اسباب
تھی موج فنا سر سے گزرتا تھا پڑا آب
دریا تھا وہ لشکر تو ہر اک حقلہ تھا گرداب
اعضاے بریدہ صفت ماہی بے آب
آب دم خنجر پہ علم داروں کے دم تھے
جب تیغ علم کی تو علم صاف قلم تھے
62
یوں میان کے درمیان سے باہر ہوئی تلوار
جوں پھوٹ کے باہر نکل آئے بدن خار
اک قطرۂ آب اس کو جو کہئے ہےسزاوا
آتش مگر اس آب سے ہوتی تھی نمودار
تھا سرووہ نیزہ پہ ہوا دار بدوں کو
وہ سرو گراتا تھا مگر سروقدوں کو
63
شمشیر جو تھی رنگ میں الماس کی تمثال
مرجان کی تھی شاخ کہ بس خوں سے ہوئی لال
تیروں کے لعینوں کے تواتر پہ چلے بھال
مانند زرہ تھیں سپریں ہاتھوں میں غربال
تھی چشم زرہ پوش شجاعت کے جوبل میں
اک دم میں گرفتار ہوئے دام اجل میں
64
تھے کاسۂ سر دشمنوں کے ٹھوکریں کھاتے
وہ تخم شتر مرغ کی صورت نظر آتے
تیروں کے عقاب اپنی یہ صورت ہیں دکھاتے
طعمہ جگر لشکر اعدا کا بناتے
مجروح بس اک تیر میں سو سو کا جگر ہو
جس طرح کہ سودانوں میں رشتے کا گذر ہو
65
اک آن میں لشکر متفرق ہوا سارا
اک جا پہ ٹھہر کر ہوا اجماع دوبارا
نعرہ پسر سعد نے سرداروں کو مارا
اکبر سے کرو مکر کوئی جلد خدارا
زور اس میں ہیں تین اور اکیلا یہ جری ہے
حیدر ہے پیمبر ہے حسین ابن علی ہے
66
دو شخص تھے لشکر میں عراقین کے مشہور
تھا ابن علی اک تو اک صالح مغرور
استاد عرب تھے فن نیزہ میں وہ مقہور
کچھ مشورہ کر کرکے وہ لشکر سے ہوئے دور
اک روبرو اکبر کی زدوکشت پر آیا
نیزے کو ہلاتا ہوا اک پشت پر آیا
67
دونوں سے غرض چلنے لگے نیزہ خوں خوار
گہہ اس کا گہے اس کا کھڑے روکتے تھے وار
اک برق الٹتی تھی پلٹتی تھی ہر اک بار
گھوڑا تھا دیا کل کا بنایا ہوا رہوار
نیزہ وہ نہ تھا شعلۂ جوالہ ہوا تھا
گرد مہ رخسار عجب بالہ ہوا تھا
68
کہتے تھے ملک جرأت اکبر یہ فدا ہیں
گویا احد وبدر میں محبوب خدا ہیں
جن کہتے تھے خود آج علی گرم وغا ہیں
دو دو سے تو لڑتے ہیں مگر ہوش بجاہیں
حوریں یہی کہتی تھیں کہ زہرا جو رضا دیں
کوثر کا بھرا جام ابھی لا کے پلا دیں
69
حوروں سے یہ فرماتی تھیں خاتون قیامت
اک آدھ گھڑی اور ہے یہ پیاس کی شدت
کیا ہووے گی اس مادر غم دیدہ کی حالت
اس لال کے لینے کو گئے شاہ ولایت
اک دم میں کلیجہ یہ سناں کھاتا ہے اکبر
حورو لب کوثر پر چلا آتا ہے اکبر
70
یاں وار کیا پشت پہ صالح نے قضارا
اکبر نے پلٹ کر وہیں نیزہ اسے مارا
اتنے ہی پلٹنے نے غضب کردیا سارا
بس سر کے بل آیا نہ رہا سانس کا یارا
واں شاہ گرے بانو کو غش آگیا گھر میں
اک نیزے نے سوراخ کئے تین جگر میں
71
جب توڑ کلیجے کو گیا پشت میں بھالا
تھرا گئے اکبر تو اٹھا سینے سے نالا
اللہ ری جرأت وہیں نیزے کو نکالا
غش آگیا ہر چند بہت دل کو سنبھالا
جب چھائی اجل اس دل مایوس کے اوپر
کس یاس سے سر رکھ دیا قربوس کے اوپر
72
تھیں برچھیاں بھی نیزے بھی تلواریں بھی ہرسو
عمامہ بھی پرزے ہوا کٹ کٹ گئے گیسو
کہتے تھے کہ آتی نہیں بابا کی کہیں بو
کی گھوڑے نے اپنے سے بچانے میں تگ و دو
وارث تو نہ تھا کوئی بہ جز پنج تن اس کا
جس طرح سے چاہا کیا ٹکڑے بدن اس کا
73
شادی سے لگے چار طرف لوگ اچھلنے
اس شور میں دی کوچ کی آواز دہل نے
کہتے تھے کہ مت دیجیو زخمی کو نکلنے
بس باگ پکڑلی وہیں گھوڑے کی اجل نے
پاتا نہ کہیں راہ نکلنے کو وہاں تھا
گھوڑا صفت تختہ ٔتابوت رواں تھا
74
یاں شاہ کو ناگہ دل اکبر نے ندا دی
کیا بیٹھے ہو واں بجتے ہیں نقارۂ شادی
نانا کی جو تصویر تھی اعدا نے مٹا دی
حضرت نے وہیں خاک پہ دستار گرادی
زینب کو صدا دی کہ بہن مرگئے اکبر
بھاوج سے خبردار سفر کر گئے اکبر
75
لکھا ہے کہ نعرہ وہاں شبیر نے مارا
جس نعرے سے سب دشت بلا ہل گیا سارا
گھبراتا تھا یوں شیر الٰہی کا وہ پیارا
بچہ کہیں جوں شیر کا کھوتا ہے قضارا
جب کرتے تھے غل ہائے علی وائے علی کا
تھا جھوم رہا عرش جناب احدی کا
76
کہتے تھے ملک شاہ کو اکبر سے ملادے
یا تو ہمیں دنیا میں اترنے کی رضا دے
دنیا کی رضا دے ہمیں اور حکم وغا دے
ان ظالموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے
یعقوب ہے یہ دشت ہے بیت الحزن اس کا
ہاں جلد ملا یوسف گل پیرہن اس کا
77
خالق کی صدا آئی فرشتوں کو کہ جاؤ
مردا اسے فرزند کالے جاکے دکھاؤ
ناشاد کو بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملاؤ
شبیر اگر مانے تو دکھ درد بٹاؤ
ہے اس پہ مسلط کیا اس واسطے غم کو
یہ صبر حسین ابن علی بھاتا ہے ہم کو
78
یاں متصل فوج جو پہنچے شہ ذی جاہ
ہر ایک سے کہتے تھے بتاؤ مجھے لللہ
جس خاک پہ تم سب نے گرایا ہے مراماہ
گم ہوگیا بیٹا مرا روکو نہ مری راہ
ہے حق بہ طرف اب جو مرا حال دگر ہے
دنیا میں کسی باپ کا اکبر سا پسر ہے
79
تم سب نے مرا لال ہے کس طرح کا مارا
سنتا ہوں کہ مجروح کلیجہ کیا سارا
مجھ باپ کو دیکھو کہ رہا محو نظارا
دل ہل گیا جب یا ابتا اس نے پکارا
لو پاس کا انسان دکھائی نہیں دیتا
اب کچھ مجھے آنکھوں سے سجھائی نہیں دیتا
80
سب گھر تو مرا صاف کیا تم نے جفا سے
کیسے مرے دل دار کیے ذبح پیاسے
جس شخص میں ہوں رحم کے آثار ذرا سے
وہ ہاتھ مرا تھام لے اب ڈر کے خدا سے
جس راہ سدھارا وہ مجھے راہ بتادو
بس دور سے لاشہ علی اکبر کا دکھادو
81
ڈرتے ہو تو آؤ مری شمشیر و سپر لو
اندیشہ جو ہو دل میں تو قیدی مجھے کرلو
تم گر دچلو اور مجھے بیچ میں دھرلو
دو لال مرا مجھ کو مرے جسم سے سرلو
سید پہ کرو رحم مسلمان سمجھ کر
کیا ترس بھی آتا نہیں انسان سمجھ کر
82
ناگاہ صدا دور سے یہ کان میں آئی
کیوں قبلہ حاجات بڑی دیر لگائی
کس وقت میں حضرت نے مری یاد بھلائی
اس کی خبر اماں نے بھی پائی کہ نہ پائی
وہ سامنے میرے ملک الموت کھڑا ہے
جلد آئیے اب درد کلیجے میں بڑا ہے
83
سن کر یہ صدا کچھ تو ہوا دل کو سہارا
چلائے کہ ہے ڈھونڈھ رہا باپ تمہارا
ہم کیا کریں بیٹا نہیں کچھ جرم ہمارا
آخر ہوا جاکر یہ سر نعش گزارا
دیکھا کہ ہے بیٹھا ہوا گھوڑا تو زمیں پر
تن خاک پہ گردن ہے دھری خانۂ زیں پر
84
چھاتی پہ دھرا ہاتھ ہے اور خوں ہے ابلتا
تھم تھم کے لہو سانس کے ہم راہ نکلتا
منہ زرد ہے جس طرح کہ خورشید ہو ڈھلتا
ماتھے پہ عرق آیا ہے اور دل ہے اچھلتا
مشتاق پدر دیر سے ہر چند ہیں آنکھیں
کھلتی ہیں کبھی اور کبھی بند ہیں آنکھیں
85
بے ساختہ اس دم شہ مظلوم پکارے
لو جان پدر آئے ہیں ہم پاس تمہارے
بولا نہ گیا جب کیے ابرو سے اشارے
رکھ دیجئے نعلین کو سینے پہ ہمارے
جینے کی نہ دنیا کی نہ کوثر کی ہوس ہے
اس وقت مجھے زانوے مادر کی ہوس ہے
86
حضرت نے اسے گود میں پہلے تو سنبھالا
پھر پھول کے مانند اٹھا گھوڑے پہ ڈالا
اکبر نے کہا آہ مرا زخم ہے آلا
شہ نے کہا ہے ناوک دل اور یہ نالا
اس درد کی شدت میں جو لے جاؤں تو کیوں کر
جیتا ہو اماں تک تمہیں پہنچاؤں تو کیوں کر
87
گر درد یہی ہے تو گزر جاؤ گے اکبر
ماں تک بھی نہ پہنچو گے کہ مرجاؤ گے اکبر
بے کس پدر پیر کو کرجاؤ گے اکبر
میں بھی وہیں جاؤں گا جدھر جاؤ گے اکبر
یہ آخری دیدار اسے دکھلاؤ تو بہتر
جیتے ہوئے ماں تک جو پہنچ جاؤ تو بہتر
88
تھے با سرعریاں تو حسین آپ روا نا
خود باگ کو تھامے ہوئے سلطان زمانا
کہتے تھے کہ گھوڑے قدم آہستہ بڑھانا
تو زخم نہ اکبر کے کلیجے کا دکھانا
فرزند کا بانو کے بدن چور ہے گھوڑے
یہ مجھ کو دکھانا اسے منظور ہے گھوڑے
89
گھوڑا تو رواں ہوتا تھا ہر چند کو تھم تھم
ہر گام پہ بس ٹوٹنے لگتا تھا یہاں دم
دس بیس قدم اس نے اٹھائے نہ تھے پیہم
یاں ہونے لگا سانس کابس اور ہی عالم
خیمہ رہا نزدیک تو اتنی ہی تکاں میں
روح علی اکبر گئی گلزار جناں میں
90
پانو نے یہاں دیکھ لیا شاہ کا سایا
چلائی کہ صاحب کہو یوسف مرا آیا
تم نے اسے کس واسطے گھوڑے پہ لٹایا
قربوس پہ رخسار ہے کیوں اس نے جھکایا
وہ دور وہ طاقت وہ توانائی کہاں ہے
لٹکائے ہوئے ہاتھ مرا شیر جواں ہے
91
مردہ نظر آیا اسے جب متصل آئے
مردے ہی سے ملنے کے لیے ہاتھ بڑھائے
ناموس محمد نے عجب شور مچائے
مل جل کے وہ ہاتھوں پہ اٹھا خیمے میں لائے
اس شیر کے مردے پہ بھی اک رعب بڑا تھا
بس خون میں ڈوبا ہوا اک چاند پڑا تھا
92
بانو نے غرض بیٹھ کے زانو پہ لیا سر
گیسو کو اٹھا چاند سا مکھڑا کیا باہر
چلائی کہ دو صاحبو پرسا مجھے آکر
نوحہ میں پڑھوں تم کہو ہے ہے علی اکبر
برباد یہاں بانو کی دولت گئی لوگو
اٹھارہ برس کی مری محنت گئی لوگو
93
اکبرکی وہ دانائیاں اب لگتی ہیں جوں تیر
جب شہ سے رضا جنگ کی لائے تھے بہ تدبیر
منظور ہو اماں سے بھی بخشائیے اب شیر
کرتی تھی زباں شرم سے لکنت دم تقریر
میں نے کہا ہم جان کو واریں علی اکبر
صدقے ہوئیں یہ دودھ کی دھاریں علی اکبر
94
پھر بانو نے اس زخم سے ہاتھ اپنا اٹھایا
منہ اپنا جھکا کر اسے آنکھوں سے لگایا
بس الفت مادر نے جو اک جوش سا کھایا
اکبر کا دل اس زخم کے رستے نکل آیا
سب دیکھتے تھے فرط محبت کے چلن سے
تادیر وہ لپٹا رہا مادر کے دہن سے
95
اور آئ صدا پانی نہ ہاتھ آیا ذرا سا
اماں میں پیاسا رہا پیاسا رہا پیاسا
اب چھوڑ دو دامن مرا اے حق کی شناسا
اب مرنے کو جاتا ہے محمد کا نواسا
لاشے پہ مرے آپ نے وہ بین کیا ہے
اس روح پر ارمان کو بے چین کیا
96
یہ سنتے ہی غش ہوگئی بانو جگر افگار
سب گرد کھڑے ہوگئے گھبرا کے بس اک بار
فرصت جو ملی اتنی تو بادیدۂ خوںبار
لاشے کو اٹھا لے گئے باہر شہ ابرار
باقی علی اصغر کے سوا کوئی نہیں ہے
اب خنجر بے داد و گلوے شہ دیں ہے
97
جس سال کہے وصف یہ ہم شکل نبی کے
سن بارہ سے انچاس تھے ہجری نبوی کے
آگے تو یہ اندازہ سخن تھے نہ کسی کے
اب سب یہ مقلد ہوئے اس طرز نوی کے
دس میں کہوں سو میں کہوں یہ ورد ہے میرا
جو جو کہے اس طرز میں شاگرد ہے میرا
98
ہاں کلک بس اب آگے نہیں طاقت تحریر
ہو اور زیادہ تری تحریر میں تاثیر
کہتا ہے ضمیر اب کہ براے شہ دل گیر
محبوب علی جان نبی حضرت شبیر
اس مرثیے کا بس یہ خدا مجھ کو صلا دے
اکبر کا تصدق مری اولاد جلادے
کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے
جس نور سے پر نور یہ نور نظری ہے
آمد ہی میں حیران قیاس بشری ہے
یہ کون سی تصویر تجلی سے بھری ہے
گو حسن کا رتبہ نہیں مذکور ہوا ہے
منبر مرا ہم مرتبۂ طور ہوا ہے
2
صد شکر کہ مجلس مری مشتاق سخن ہے
یہ فیض عنایات حسین اور حسن ہے
پھر جوش جوانی پہ مری طبع کہن ہے
یہ قوت امداد شہ تشنہ دہن ہے
نقاش میں یہ صنعت تحریر نہیں ہے
تصویر دکھاتا ہوں یہ تقریر نہیں ہے
3
نقاش تو کرتا ہے قلم لے کے یہ تدبیر
اک شکل نئی صفحۂ قرطاس پہ تحریر
انصاف کرو کلک زباں سے دم تحریر
میں صفحۂ باطن میں رقم کرتا ہوں تصویر
سو رنگ سے تصویر مصور نے بھری ہے
رنیگنئ مضموں کی کہاں جلوہ گری ہے
4
تصویر میں اس شخص کی ہوں تم کو دکھاتا
جو ثانی محبوب الٰہی ہے کہاتا
اک نور جو جاتا ہے تو اک نور ہے آتا
وجہ عدم سایۂ احمد ہوں سناتا
تھا بعد محمد کے جو آیا علی اکبر
تھا احمد مختار کا سایہ علی اکبر
5
یاں تک سخن تازہ کیا طبع نے پیدا
وہ نور نبی اور نبی نورخدا کا
یہ سلسلۂ نور کہاں جا کے ہے پہنچا
اکبر کو جو دیکھا تو بتاؤ کسے دیکھا
واللہ زیارت کا سزا وار ہے اکبر
نعم البدل احمد مختار ہے اکبر
6
لیکن تمہیں تصویر یہ کرتی ہے اشارت
ہاں مجلسیاں روضۂ جنت کی بشارت
ہو محو طہارت ہے اگر قصد زیارت
ہے لازم و ملزوم زیارت کو طہارت
اس قصد پہ بیٹھے ہو جو صاحب نظرو تم
تجدید وضو اشک کے پانی سے کرو تم
7
لکھا ہے کہ تھی حضرت شبیر کو عادت
ہوتی تھی نماز سحری سے جو فراغت
پہلے علی اکبر ہی کو بلواتے تھے حضرت
فرماتے تھے کرتا ہوں عبادت میں عبادت
روشن ہو نہ کیوں چشم حسین ابن علی کی
کرتا ہوں زیارت میں جمال نبوی کی
8
کرتے علی اکبر تو جھکا فرق کو مجرا
ہر مرتبہ مل جاتا تھا پاؤں سے سر ان کا
تعظیم کو ہوتے تھے کھڑے سید والا
کہتے علی اکبر کہ یہ کیا کرتے ہو بابا
شہ کہتے تھے عادت تھی یہ محبوب خدا کی
تعظیم وہ کرتے تھے بتول عذرا کی
9
اے جان پدر ہے مجھے واجب تری توقیر
تو سر سے قدم تک ہے مرے نانا کی تصویر
تب جوڑ کے ہاتھوں کو وہ نو بادہ ٔ شبیر
گردن کو جھکا شرم سے کرتا تھا یہ تقریر
بس ختم شرافت ہوئی فرزندہ علی پر
رکھا ہے قدم آپ نے دوش نبوی پر
10
تب لیتے تھے پیشانی کا بوسہ شہ ذی شان
کہتے تھے کہ شیریں سختی پر تری قربان
زینب نے سنے راز و نیاز ان کے یہ جس آن
چلائی کہ دونوں پہ تصدق ہو مری جان
دیکھا نہ کوئی باپ اگر ابن علی سا
بیٹا بھی سنا ہے کوئی ہم شکل نبی سا
11
سن لو علی اکبر کی زیارت کا قرینہ
پہلے تو کدورت سے کرو صاف یہ سینہ
پھر دیدۂ باطن کو کرو دیدۂ بینا
تا جلوہ نما ہو رخ سلطان مدینہ
معلوم ہوا صفحۂ قرآں علی اکبر
تحقیق ہوا کعبۂ ایماں علی اکبر
12
قرآن کی تشبیہ یہ اس دل نے بتائی
پیشانیٔ انور ہے کہ ہے لوح طلائی
ابرو سے ہے بسم اللہ قرآں نظر آئی
جدول کشش زلف کی قاروں نے دکھائی
وہ زلف وہ بینی الف و لام رقم ہے
پر میم دہن مل کے یہ اک شکل الم ہے
13
اور کعبۂ دلہا کی یہ تمثیل ہے اظہر
یہ خال سیہ ہے حجر الاسود زیور
محراب حرم پیش نظر ابروے اکبر
یہ چاہ ذقن ہے چہ زمزم کے برابر
اس بینئ اقدس کا مجھے دھیان گر آیا
کعبہ میں دھرا نور کا منبر نظر آیا
14
دیکھو کہ صفا ہے رخ اکبر سے نمایاں
یاں سعی میں ہردم ہے دل زینب نالاں
کعبہ جو سیہ پوش ہے اے صاحب عرفاں
یاں بھی رخ انور پہ ہیں گیسوے ٔ پریشاں
اس زلف میں پابند دل شاہ امم ہے
زنجیر میں کعبے کی یہ قندیل حرم ہے
15
کیا قدر کوئی پائے مبارک کی سنادے
یہ رکن ہیں کعبہ کے اگر فہم خدادے
انصاف کرو تم کو خدا اس کی جزا دے
اس رکن کو یوں امت بے دین گرادے
حج تم نے کیا کعبے کا جب چشم ادھر ہے
معنی حج اکبر کے یہی ہیں جو نظر ہے
16
سب آتے ہیں کعبے نے یہ ہے مرتبہ پایا
یہ قبلۂ ایمان ہدایت کا جو آیا
آہوے حرم جان کے مجروح بنایا
اور خون کا دریا تھا ہر اک سمت بہایا
قربانی ہو کعبے میں یہ فرمان خدا ہے
یہ کعبہ تو امت ہی یہ قربان ہوا ہے
17
حسن علی اکبر تو سنایا نہیں جاتا
کچھ دل ہی مزا چشم تصور میں ہےپاتا
اس قد کا اگر باغ میں مذکور ہے آتا
تب سرو انگشت شہادت کو اٹھاتا
پیشانی تو آئینہ لب ریز صفا ہے
ابرو ہے کہ خود قبلہ ہے اور قبلہ نما ہے
18
مانند دعاے سحری قد رسا ہے
ماتھا ہے کہ دیباچہ انوار خدا ہے
دو زلف نے اک چاند سا منہ گھیر لیا ہے
وصل شب قدر و شب معراج ہوا ہے
دو زلفیں ہیں رخسار دل افروز بھی دو ہیں
ہاں شام بھی دو ہیں بہ خدا روز بھی دو ہیں
19
ہے چشم سیہ بس کہ تہہ ابروے خم دار
سو پنچۂ مژگاں کو اٹھائے تن بیمار
محراب کے نیچے یہ دعا کرتے ہیں ہربار
اس چشم جہاں بیں کو نہ پہنچے کوئی آزار
گیسو نہیں یہ سنبل فردوس نشاں ہیں
یہ چشم نہیں نرگس شہلائے جہاں ہیں
20
ہونٹوں سے کبو دی جو عطش کی ہے نمودار
ہوتا ہے دھواں آتش یاقوت سے اظہار
غصے سے جو ابرو میں شکن پڑتی ہے ہربار
ہالہ اسے سمجھے ہیں سرو ہی کا وہ کفار
ابرو جو ہر اک موے مبارک سے بھرا ہے
اعجاز سے شمشیر میں نیزوں کو دھرا ہے
21
اس ابروو بینی میں یہ پائی گئی صورت
جس طرح مہ عید پہ انگشت شہادت
شمع حرم حق نے کیا سایۂ وحدت
گوہر یہ نیا لایا ہے غواص طبیعت
مطبوع ہر اک شکل سے پایا جو رقم کو
یاں رکھ دیا نقاش دو عالم نے قلم کو
22
خط جلوہ نما عارض گلگوں پہ ہوا ہے
مصحف کو کسی نے ورق گل پہ لکھا ہے
یہ چشم یہ قد حسن میں اعجاز نما ہے
ہاں اہل نظر سرو میں بادام لگا ہے
تیروں سے سوا ترکش مژگاں کا اثر ہے
دشمن کے لیے ریزۂ الماس جگر ہے
23
کانوں کا تہ زلف مسلسل ہے اشارہ
دو پھول ہیں سنبل میں نہاں وقت نظارا
کس کو صفت حسن بنا گوش کا یارا
خورشید سے دیکھو تو ٹپکتا ہے ستارا
چہرہ غرق آلودہ دم صف شکنی ہے
خورشید پہ ہر قطرۂ سنبل یمنی ہے
23
برگشتہ مژہ اس کی یہ کرتی ہے اشارے
برگشتگیٔ عمر کے سامان ہیں سارے
مژگاں کے یہ نیزے جو خمیدہ ہوئے بارے
دھڑکا ہے کہ نیزہ کوئی اکبر کو نہ مارے
یک چشم زدن میں جو فلک اس سے پھرے گا
اس چشم کے مانند یہ نیزوں سے گھرے گا
24
لب ہیں کہ ہے دریائے لطافت بہ سراوج
اس اوج میں پیدا یم قدرت کی ہوئی موج
ہیں فرد نزاکت میں مگر دیکھنے میں زوج
دو ہونٹ ہیں اور پیاس کی ہے چاروں طرف فوج
بند آنکھیں ہیں لب خشک ہیں اور عالم غش ہے
اور منہ میں زباں ماہی دریاے عطش ہے
25
کس منہ سے کرے اب کوئی مدح درد نداں
کچھ قدر نہیں در عدن کی جہاں چنداں
تارے سے چمکنے لگے جس دم ہوئے خنداں
مضمون یہ ہے قابل دشوار پسنداں
یہ قاعدہ کلی ہے نہ ہو مدح بشر سے
کلی کوئی جب تک نہ کرے آب گہر سے
26
گردن ہے کہ فوارۂ نور ازلی ہے
یہ دوش تو ہم دوش بدوش نبوی ہے
سینہ ہے کہ آئینہ وضع احدی ہے
دل صاف نظر آتا ہے آئینہ یہی ہے
ان ساعدو ساقین کے رتبے کہو کیا ہیں
یہ چار مگر ماہی دریاے صفا ہیں
27
پشتینوں سے یہ پشت ہے ہم پشت پیمبر
لیکن شہ مظلوم چڑھے پشت نبی پر
یہ پشت پہ شبیر کی بیٹھا ہے مکرر
لے فرق سے تانا خن پا نور سراسر
کیا فرق ہے موسیٰ میں اور اس ماہ لقا میں
واں ہاتھ میں اور یاں ید بیضا کف پا میں
28
اور تن پہ سلاح خربی خوبی سجا ہے
یہ خود نہیں سایہ افضال خدا ہے
نیزہ نہیں شبیر کا یہ دست دعا ہے
یا بانوۓ مغموم کی فریاد رسا ہے
چار آئینے میں چار طرف عکس پڑے ہیں
یا بہر مد دپنچ تن پاک کھڑے ہیں
29
شبیر تو اس کے تن عارض پہ فدا ہے
زینب کا تو پوچھو نہ جو کچھ حال ہوا ہے
عابد کو قلق اس کی جدائی کا بڑا ہے
بانو کا تو سر خاک یہ اس غم سے جھکا ہے
یہ چار نہیں پھول جو تزئین سپر ہیں
بالائے سپر چاروں کے یہ داغ جگر ہیں
30
یہ تیغ کلید در اقبال و ظفر ہے
ہر سمت کو وا جس کے لیے زخم کا در ہے
حلقہ یہ زرہ کا نہیں تن رشک قمر ہے
سو تن سے ملا دیدۂ ارباب نظر ہے
گھوڑا تو ہے خاکی پہ خمیر آب بقا ہے
گرمی میں جو آتش ہے تو سرعت میں ہوا ہے
31
میں چشم تصور میں لگا کھینچنے تصویر
بس ذہن میں سرعت سے نہ ٹھہرا کسی تدبیر
جب بندش مضمون میں باندھا دم تحریر
دی کلک نے آواز پری کو کیا تسخیر
ڈھیلی جو ہوئی باگ تصور کی ادھر سے
جوں عمر رواں ہوگیا معدوم نظر سے
32
اس گھوڑے کی سرعت کہو کیوں کر کروں مرقوم
جوں حرف غلط حرف ہوئے جاتے ہیں معدوم
کونین میں یہ تیز روی کے جو ہیں مفہوم
یاں ہوتا ہے معلوم نہ واں ہوتا ہے معلوم
مرقوم ثنا صفحۂ کاغذ پہ جہاں ہو
ہر حرف وہیں مورچے کی طرح رواں ہو
33
کیوں مومنو تصویر پیمبر نظر آئی
لیکن تمہیں کس وقت میں صورت یہ دکھائی
جب باپ میں اور بیٹے میں ہوتی ہے جدائی
بس خوش ہیں کہ ہم نے بھی رضا جنگ کی پائی
خود قید مصیبت سے تو آزاد ہوئے ہیں
ماں باپ یہاں مفت میں برباد ہوئے ہیں
34
اٹھارہواں سال ہوگیا ایسا اسے بھاری
یہ تیغ نظر کس کی اسے لگ گئی کاری
ماں باپ کی برباد ہوئیں حسرتیں ساری
یوں سامنے سے چاند سی تصویر سدھاری
حسرت کا مرادوں کا یہ ارمان کا دن تھا
اٹھارہ برس پال کے یہ موت کا سن تھا
35
ماں ہتی کہتی بیٹا مجھے پسا اپنے بلاؤ
شہ کہتے تھے اس سینے کی آتش کو بجھاؤ
سجاد یہ چلاتے تھے بستر سے اٹھاؤ
کہتی تھی سکینہ مجھے ٹوپی تو پنہاؤ
زینب یہی کہتی تھی کہ اے صاحبو کیا ہے
اٹھارہ برس والا بھی مرنے کو چلا ہے
36
اکبر کا یہ عالم ہے کہ بس روبہ قضا ہیں
اک منتظر آمد شاہ شہدا ہیں
کہنے سے جو چھٹتے ہیں تو مشغول بکا ہیں
جس روز سے پیدا ہوئے وہ نور خدا ہیں
اس روز سے ماں باپ کی چھاتی کے تلے ہیں
اور آج نکلتے ہیں تو مرنے کو چلے ہیں
37
بیٹا تو ادھر واسطے مرنے کے سدھارا
یاں شاہ نے سر چوب در خیمہ سے مارا
بانو نے ادھر ہائے پسر جب کہ پکارا
گھونسا سا لگا آ کے کلیجے میں دوبارا
کہتے ہیں کہ ہیں سامنے جاتے علی اکبر
لیکن نہیں ہم کو نظر آتے علی اکبر
38
ہیں خاک پہ بیٹھے ہوئے اور فرق جھکا ہے
فرماتے ہیں یہ مسند شاہ شہدا ہے
گہ سر کو اٹھاکر یہی مضمون دعا ہے
لے آج یہ بیٹا بھی تری نذر کیا ہے
راضی ہوں میں تو داغ پسر دیجیو مجھ کو
پر شرط یہ ہے صبر عطا کیجیو مجھ کو
39
ادنی ٰترا بندہ ہوں سو طاقت مری کیا ہے
اس داغ کا دل ہو متحمل تو مزا ہے
میرا بھی تو اب کوچ کا سامان لگا ہے
دوچار گھڑی کا یہ پس و پیش ذرا ہے
بانو پہ عجب طرح کی آفت یہ پڑی ہے
یارب تری لونڈی کی مجھے فکر بڑی ہے
40
آئی تھی یہاں چھوڑ کے شاہی کو وہ دل گیر
سو تونے دیا تھا شرف بستر شبیر
آزاد کیا لونڈیوں کو دے دے کے جاگیر
بیٹا جو ملا تھا سو محمد کی تھی تصویر
ہاں ایک یہ دولت اسے امداد ہوئی ہے
سو ہاتھ سے امت کے وہ برباد ہوئی ہے
41
ہے بازو کو تھامے ہوئے کنبہ مرا سارا
کہتی ہے کہ لوگو کہو آیا مرا پیارا
نیزہ تو ابھی اس کو کسی نے نہیں مارا
جیتا ہے تو پھر کیوں مجھے اب تک نہ پکارا
اب موت کے پھندے میں مرا ماہ جبیں ہے
بے میرے تو اک آن اسے چین نہیں ہے
42
ہنستے ہوئے آتے تھے جو رخصت کے ارادے
کہتے تھے کہ اماں تمہیں اب صبر خدا دے
میں نے کہا آہستہ سے سر اپنا لگادے
واری گئی اللہ تری پیاس بجھادے
رخصت کا سخن دیکھ نکلتے ہوئے لب سے
کی تھی ابھی کیا کیا مجھے تسلیم ادب سے
43
اے صاحبو اب خاک پہ بانو کو بٹھادو
کالی کفنی ہو تو مجھے لا کے پنہا دو
اس کوکھ پہ اب خاک کا پھایا بھی لگادو
جس راہ گیا ہو وہ مجھے راہ بتا دو
اس دھوپ میں راہی وہ مرا لال ہوا ہے
اب پیاس سے کیا جانیے کیا حال ہوا ہے
44
زینب نے کہا ہائے کہاں جاؤگی بھابھی
روکے در خیمہ کو کھڑے ہیں شہ عالی
اصغر ترا مرتا ہے اٹھالے اسے بی بی
بانو نے کہا آہ خبر ہے مجھے کس کی
اصغر سے تو امید نہیں چند نفس کی
لٹتی ہے کمائی مری اٹھارہ برس کی
45
ہے یاس کا یہ ساماں سنو دشت کا ساماں
واں جاتے ہیں خوش خوش علی اکبر سوئے میداں
سب عرش الہی کی سی شوکت ہے وہی شاں
آتا ہے بڑی دھوم سے جیسے کوئی سلطاں
کہتا ہے نقیب اجل انصاف کی جاہے
دیکھو کہ جواں مرنے کو کیا شیر چلا ہے
46
اک سمت رکاب اس کی ہے تھامے ہوئے حشمت
اور اک طرف باگ کو پکڑے ہوئے نصرت
شاطر کی طرح آگے قدم مارتی دولت
اقبال و ظفر چتر لگائے پئے خدمت
اک نور سے ہر چار طرف دشت بھرا ہے
اور حسن نے خود غاشیا کاندھے پہ دھراے
47
نہ لاکھ میں یہ رعب کی آمد ہے نہ سو میں
دل تھامے ہوئے احمد مختار جلو میں
روح اسداللہ چلی آتی ہے رو میں
اور فاطمہ رہوار کے پیچھے تگ ودو میں
لپٹی ہوئی بس گر دسواری سے اسی کی
آتی ہے چلی جان حسین ابن علی کی
48
واں فوج میں حیرت سے ہر اک شخص ہے تکتا
ہر دار کو سکتہ ہے کہ بس ہل نہیں سکتا
کہتا ہے کہ دیکھو تو ہے کیا نور چمکتا
ہر عضو سے ہے حسن خدا داد ٹپکتا
کیا نور ہے کیا دبدبہ کیا جلوہ گری ہے
خورشید بھی یاں مثل چراغ سحری ہے
49
ہم قیصر روم اس کو جو سمجھیں تو بجا ہے
فغفور کہیں چین کا تو اس سے سوا ہے
خاقان حتن گر کہیں اس کو تو خطا ہے
جن کہیے تو جن میں یہ کہاں حسن و ضیا ہے
واللہ خوشا باپ کہ یہ جس کا خلف ہے
پیدا ہے شرافت سے کہ یہ در نجف ہے
50
نذریں دو اسے چل کے اور اس فوج میں لاؤ
محکوم ہو تم سب اسے سردار بناؤ
یہ چتر مرصع سر اقدس پہ لگاؤ
شبیر کو بلوا کے یہ صورت تو دکھاؤ
کرتے ہیں بہت فخر گھرانے پہ نبی کے
بس یاں یہ مقابل ہے حسین ابن علی کے
51
بہتر ہے جو بلوا کے کہو کیوں شہ تنہا
تھا حسن کا اکبر کے نہایت تمہیں دعوا
اب لا کے کھڑا دونوں کو کردیجئے یک جا
دنیا میں پڑے بندۂ اللہ ہیں کیا کیا
گو حسن کا اکبر کے بھی عنوان یہی ہے
کیوں اے شہ ذی شان کہو شان یہی ہے
52
تشویش میں تھی فوج کہ اس میں علی اکبر
کرنے لگے میداں میں رجز خوانیاں بڑھ کر
ہوں یوسف گل پیرہن سبط پیمبر
جویائے خزان چمن حسرت مادر
ننھیال سے ددھیال سے یہ حسب و نسب ہے
اک شاہ عجم ایک شہنشاہ عرب ہے
53
سلطان کفن پوش ہوں در حق کا سناسا
ناشاد ہوں نکلا نہیں در مان ذرا سا
پوتا شہ مرداں کا ہوں کسرا کا نواسا
مظلوم کا مظلوم ہوں اور پیاسے کا پیاسا
تصویر مری جلد مٹاؤ کوئی آ کر
برچھی مرے سینے پہ لگاؤ کوئی آکر
54
یہ سنتے ہی لشکر میں تلاطم ہوا اک بار
سوچے کہ یہی ہے پسر حیدر کرار
ترغیب میں تو تھا عمر سعد بد اطوار
پر مستعد قتل ہوا ایک نہ زنہار
کہتے تھے اگر لاشے پہ لاشے ہی پڑیں گے
اس جان جہاں سے نہ لڑیں گے نہ لڑیں گے
55
لیکن یہاں اکبر کےہے دل میں یہی بس دھیان
اس قوم کے ہاتھوں سے ہوئے قتل چچا جان
واللہ کہ ہیں گبر سے بدتر یہ مسلمان
انسان جو ہوتے تو ہمیں جانتے انسان
ہے دل میں جو ارمان بھر اصف شکنی کا
لے نام علی قصد کرو تیغ زنی کا
56
بس دوش سے چلا وہ کماں کا جو اتارا
چلے کو بنا گوش تلک کھینچا قضا را
تھا عارض و پیکان و کماں کا یہ اشارا
خورشید ہے اور قوس ہے اور اس میں ستارا
اور اس کا یہ سرعت سے چلا وار کے اوپر
پیکان تھا ایک ایک کے رہوار کے اوپر
57
اکبر نے کہا ہے مرا مشہور گھرانا
دستور نہیں پہلے کوئی وار لگانا
واجب ہوا تم پر مجھے تلوار چلانا
کیوں ظالمو یوں آل محمد کو مٹانا
تم سب کو کروں قتل مرے سامنے کیا ہو
پانی مجھے مل جائے تو لڑنے کا مزا ہو
58
زخمی ہوئی سب فوج تو غصہ انہیں آیا
جھنجھلا کے لعنیوں نے نشانوں کو بڑھایا
جلوہ علموں نے بہ سر فوج دکھایا
یاں رانوں میں شہزادے نے گھوڑے کو دبایا
ہستی کو جلاتا تھا فقط نور کا شعلہ
تھا جلوہ نماچار طرف طور کا شعلہ
59
ابر سیہ ٔفوج کا ایسا ہوا طغیاں
جو چاند حسین ابن علی کا ہوا پنہاں
میداں میں اٹھا تھا غبار سم اسپاں
تاریک ہوا دیدۂ خورشید درخشاں
جاتی تھی چلی جان عدو چھوڑ کے تن کو
اکبر نے سیا سوزن مژگاں سے کفن کو
60
نیزے سے کہیں زخم لگاتا کہیں شمشیر
بینی کہیں ابرو کی کہیں چشم کی تصویر
تھا بسکہ تماشائی وہ نوبادہ ٔشبیر
خورشید کی عینک کو دھرے تھا فلک پیر
چار آئینہ یوں توڑ کے نیزہ وہ ادھر جائے
جس طرح کہ عینک سے نگہ صاف گزر جائے
61
تھا آب دم تیغ سے طوفان کا اسباب
تھی موج فنا سر سے گزرتا تھا پڑا آب
دریا تھا وہ لشکر تو ہر اک حقلہ تھا گرداب
اعضاے بریدہ صفت ماہی بے آب
آب دم خنجر پہ علم داروں کے دم تھے
جب تیغ علم کی تو علم صاف قلم تھے
62
یوں میان کے درمیان سے باہر ہوئی تلوار
جوں پھوٹ کے باہر نکل آئے بدن خار
اک قطرۂ آب اس کو جو کہئے ہےسزاوا
آتش مگر اس آب سے ہوتی تھی نمودار
تھا سرووہ نیزہ پہ ہوا دار بدوں کو
وہ سرو گراتا تھا مگر سروقدوں کو
63
شمشیر جو تھی رنگ میں الماس کی تمثال
مرجان کی تھی شاخ کہ بس خوں سے ہوئی لال
تیروں کے لعینوں کے تواتر پہ چلے بھال
مانند زرہ تھیں سپریں ہاتھوں میں غربال
تھی چشم زرہ پوش شجاعت کے جوبل میں
اک دم میں گرفتار ہوئے دام اجل میں
64
تھے کاسۂ سر دشمنوں کے ٹھوکریں کھاتے
وہ تخم شتر مرغ کی صورت نظر آتے
تیروں کے عقاب اپنی یہ صورت ہیں دکھاتے
طعمہ جگر لشکر اعدا کا بناتے
مجروح بس اک تیر میں سو سو کا جگر ہو
جس طرح کہ سودانوں میں رشتے کا گذر ہو
65
اک آن میں لشکر متفرق ہوا سارا
اک جا پہ ٹھہر کر ہوا اجماع دوبارا
نعرہ پسر سعد نے سرداروں کو مارا
اکبر سے کرو مکر کوئی جلد خدارا
زور اس میں ہیں تین اور اکیلا یہ جری ہے
حیدر ہے پیمبر ہے حسین ابن علی ہے
66
دو شخص تھے لشکر میں عراقین کے مشہور
تھا ابن علی اک تو اک صالح مغرور
استاد عرب تھے فن نیزہ میں وہ مقہور
کچھ مشورہ کر کرکے وہ لشکر سے ہوئے دور
اک روبرو اکبر کی زدوکشت پر آیا
نیزے کو ہلاتا ہوا اک پشت پر آیا
67
دونوں سے غرض چلنے لگے نیزہ خوں خوار
گہہ اس کا گہے اس کا کھڑے روکتے تھے وار
اک برق الٹتی تھی پلٹتی تھی ہر اک بار
گھوڑا تھا دیا کل کا بنایا ہوا رہوار
نیزہ وہ نہ تھا شعلۂ جوالہ ہوا تھا
گرد مہ رخسار عجب بالہ ہوا تھا
68
کہتے تھے ملک جرأت اکبر یہ فدا ہیں
گویا احد وبدر میں محبوب خدا ہیں
جن کہتے تھے خود آج علی گرم وغا ہیں
دو دو سے تو لڑتے ہیں مگر ہوش بجاہیں
حوریں یہی کہتی تھیں کہ زہرا جو رضا دیں
کوثر کا بھرا جام ابھی لا کے پلا دیں
69
حوروں سے یہ فرماتی تھیں خاتون قیامت
اک آدھ گھڑی اور ہے یہ پیاس کی شدت
کیا ہووے گی اس مادر غم دیدہ کی حالت
اس لال کے لینے کو گئے شاہ ولایت
اک دم میں کلیجہ یہ سناں کھاتا ہے اکبر
حورو لب کوثر پر چلا آتا ہے اکبر
70
یاں وار کیا پشت پہ صالح نے قضارا
اکبر نے پلٹ کر وہیں نیزہ اسے مارا
اتنے ہی پلٹنے نے غضب کردیا سارا
بس سر کے بل آیا نہ رہا سانس کا یارا
واں شاہ گرے بانو کو غش آگیا گھر میں
اک نیزے نے سوراخ کئے تین جگر میں
71
جب توڑ کلیجے کو گیا پشت میں بھالا
تھرا گئے اکبر تو اٹھا سینے سے نالا
اللہ ری جرأت وہیں نیزے کو نکالا
غش آگیا ہر چند بہت دل کو سنبھالا
جب چھائی اجل اس دل مایوس کے اوپر
کس یاس سے سر رکھ دیا قربوس کے اوپر
72
تھیں برچھیاں بھی نیزے بھی تلواریں بھی ہرسو
عمامہ بھی پرزے ہوا کٹ کٹ گئے گیسو
کہتے تھے کہ آتی نہیں بابا کی کہیں بو
کی گھوڑے نے اپنے سے بچانے میں تگ و دو
وارث تو نہ تھا کوئی بہ جز پنج تن اس کا
جس طرح سے چاہا کیا ٹکڑے بدن اس کا
73
شادی سے لگے چار طرف لوگ اچھلنے
اس شور میں دی کوچ کی آواز دہل نے
کہتے تھے کہ مت دیجیو زخمی کو نکلنے
بس باگ پکڑلی وہیں گھوڑے کی اجل نے
پاتا نہ کہیں راہ نکلنے کو وہاں تھا
گھوڑا صفت تختہ ٔتابوت رواں تھا
74
یاں شاہ کو ناگہ دل اکبر نے ندا دی
کیا بیٹھے ہو واں بجتے ہیں نقارۂ شادی
نانا کی جو تصویر تھی اعدا نے مٹا دی
حضرت نے وہیں خاک پہ دستار گرادی
زینب کو صدا دی کہ بہن مرگئے اکبر
بھاوج سے خبردار سفر کر گئے اکبر
75
لکھا ہے کہ نعرہ وہاں شبیر نے مارا
جس نعرے سے سب دشت بلا ہل گیا سارا
گھبراتا تھا یوں شیر الٰہی کا وہ پیارا
بچہ کہیں جوں شیر کا کھوتا ہے قضارا
جب کرتے تھے غل ہائے علی وائے علی کا
تھا جھوم رہا عرش جناب احدی کا
76
کہتے تھے ملک شاہ کو اکبر سے ملادے
یا تو ہمیں دنیا میں اترنے کی رضا دے
دنیا کی رضا دے ہمیں اور حکم وغا دے
ان ظالموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے
یعقوب ہے یہ دشت ہے بیت الحزن اس کا
ہاں جلد ملا یوسف گل پیرہن اس کا
77
خالق کی صدا آئی فرشتوں کو کہ جاؤ
مردا اسے فرزند کالے جاکے دکھاؤ
ناشاد کو بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملاؤ
شبیر اگر مانے تو دکھ درد بٹاؤ
ہے اس پہ مسلط کیا اس واسطے غم کو
یہ صبر حسین ابن علی بھاتا ہے ہم کو
78
یاں متصل فوج جو پہنچے شہ ذی جاہ
ہر ایک سے کہتے تھے بتاؤ مجھے لللہ
جس خاک پہ تم سب نے گرایا ہے مراماہ
گم ہوگیا بیٹا مرا روکو نہ مری راہ
ہے حق بہ طرف اب جو مرا حال دگر ہے
دنیا میں کسی باپ کا اکبر سا پسر ہے
79
تم سب نے مرا لال ہے کس طرح کا مارا
سنتا ہوں کہ مجروح کلیجہ کیا سارا
مجھ باپ کو دیکھو کہ رہا محو نظارا
دل ہل گیا جب یا ابتا اس نے پکارا
لو پاس کا انسان دکھائی نہیں دیتا
اب کچھ مجھے آنکھوں سے سجھائی نہیں دیتا
80
سب گھر تو مرا صاف کیا تم نے جفا سے
کیسے مرے دل دار کیے ذبح پیاسے
جس شخص میں ہوں رحم کے آثار ذرا سے
وہ ہاتھ مرا تھام لے اب ڈر کے خدا سے
جس راہ سدھارا وہ مجھے راہ بتادو
بس دور سے لاشہ علی اکبر کا دکھادو
81
ڈرتے ہو تو آؤ مری شمشیر و سپر لو
اندیشہ جو ہو دل میں تو قیدی مجھے کرلو
تم گر دچلو اور مجھے بیچ میں دھرلو
دو لال مرا مجھ کو مرے جسم سے سرلو
سید پہ کرو رحم مسلمان سمجھ کر
کیا ترس بھی آتا نہیں انسان سمجھ کر
82
ناگاہ صدا دور سے یہ کان میں آئی
کیوں قبلہ حاجات بڑی دیر لگائی
کس وقت میں حضرت نے مری یاد بھلائی
اس کی خبر اماں نے بھی پائی کہ نہ پائی
وہ سامنے میرے ملک الموت کھڑا ہے
جلد آئیے اب درد کلیجے میں بڑا ہے
83
سن کر یہ صدا کچھ تو ہوا دل کو سہارا
چلائے کہ ہے ڈھونڈھ رہا باپ تمہارا
ہم کیا کریں بیٹا نہیں کچھ جرم ہمارا
آخر ہوا جاکر یہ سر نعش گزارا
دیکھا کہ ہے بیٹھا ہوا گھوڑا تو زمیں پر
تن خاک پہ گردن ہے دھری خانۂ زیں پر
84
چھاتی پہ دھرا ہاتھ ہے اور خوں ہے ابلتا
تھم تھم کے لہو سانس کے ہم راہ نکلتا
منہ زرد ہے جس طرح کہ خورشید ہو ڈھلتا
ماتھے پہ عرق آیا ہے اور دل ہے اچھلتا
مشتاق پدر دیر سے ہر چند ہیں آنکھیں
کھلتی ہیں کبھی اور کبھی بند ہیں آنکھیں
85
بے ساختہ اس دم شہ مظلوم پکارے
لو جان پدر آئے ہیں ہم پاس تمہارے
بولا نہ گیا جب کیے ابرو سے اشارے
رکھ دیجئے نعلین کو سینے پہ ہمارے
جینے کی نہ دنیا کی نہ کوثر کی ہوس ہے
اس وقت مجھے زانوے مادر کی ہوس ہے
86
حضرت نے اسے گود میں پہلے تو سنبھالا
پھر پھول کے مانند اٹھا گھوڑے پہ ڈالا
اکبر نے کہا آہ مرا زخم ہے آلا
شہ نے کہا ہے ناوک دل اور یہ نالا
اس درد کی شدت میں جو لے جاؤں تو کیوں کر
جیتا ہو اماں تک تمہیں پہنچاؤں تو کیوں کر
87
گر درد یہی ہے تو گزر جاؤ گے اکبر
ماں تک بھی نہ پہنچو گے کہ مرجاؤ گے اکبر
بے کس پدر پیر کو کرجاؤ گے اکبر
میں بھی وہیں جاؤں گا جدھر جاؤ گے اکبر
یہ آخری دیدار اسے دکھلاؤ تو بہتر
جیتے ہوئے ماں تک جو پہنچ جاؤ تو بہتر
88
تھے با سرعریاں تو حسین آپ روا نا
خود باگ کو تھامے ہوئے سلطان زمانا
کہتے تھے کہ گھوڑے قدم آہستہ بڑھانا
تو زخم نہ اکبر کے کلیجے کا دکھانا
فرزند کا بانو کے بدن چور ہے گھوڑے
یہ مجھ کو دکھانا اسے منظور ہے گھوڑے
89
گھوڑا تو رواں ہوتا تھا ہر چند کو تھم تھم
ہر گام پہ بس ٹوٹنے لگتا تھا یہاں دم
دس بیس قدم اس نے اٹھائے نہ تھے پیہم
یاں ہونے لگا سانس کابس اور ہی عالم
خیمہ رہا نزدیک تو اتنی ہی تکاں میں
روح علی اکبر گئی گلزار جناں میں
90
پانو نے یہاں دیکھ لیا شاہ کا سایا
چلائی کہ صاحب کہو یوسف مرا آیا
تم نے اسے کس واسطے گھوڑے پہ لٹایا
قربوس پہ رخسار ہے کیوں اس نے جھکایا
وہ دور وہ طاقت وہ توانائی کہاں ہے
لٹکائے ہوئے ہاتھ مرا شیر جواں ہے
91
مردہ نظر آیا اسے جب متصل آئے
مردے ہی سے ملنے کے لیے ہاتھ بڑھائے
ناموس محمد نے عجب شور مچائے
مل جل کے وہ ہاتھوں پہ اٹھا خیمے میں لائے
اس شیر کے مردے پہ بھی اک رعب بڑا تھا
بس خون میں ڈوبا ہوا اک چاند پڑا تھا
92
بانو نے غرض بیٹھ کے زانو پہ لیا سر
گیسو کو اٹھا چاند سا مکھڑا کیا باہر
چلائی کہ دو صاحبو پرسا مجھے آکر
نوحہ میں پڑھوں تم کہو ہے ہے علی اکبر
برباد یہاں بانو کی دولت گئی لوگو
اٹھارہ برس کی مری محنت گئی لوگو
93
اکبرکی وہ دانائیاں اب لگتی ہیں جوں تیر
جب شہ سے رضا جنگ کی لائے تھے بہ تدبیر
منظور ہو اماں سے بھی بخشائیے اب شیر
کرتی تھی زباں شرم سے لکنت دم تقریر
میں نے کہا ہم جان کو واریں علی اکبر
صدقے ہوئیں یہ دودھ کی دھاریں علی اکبر
94
پھر بانو نے اس زخم سے ہاتھ اپنا اٹھایا
منہ اپنا جھکا کر اسے آنکھوں سے لگایا
بس الفت مادر نے جو اک جوش سا کھایا
اکبر کا دل اس زخم کے رستے نکل آیا
سب دیکھتے تھے فرط محبت کے چلن سے
تادیر وہ لپٹا رہا مادر کے دہن سے
95
اور آئ صدا پانی نہ ہاتھ آیا ذرا سا
اماں میں پیاسا رہا پیاسا رہا پیاسا
اب چھوڑ دو دامن مرا اے حق کی شناسا
اب مرنے کو جاتا ہے محمد کا نواسا
لاشے پہ مرے آپ نے وہ بین کیا ہے
اس روح پر ارمان کو بے چین کیا
96
یہ سنتے ہی غش ہوگئی بانو جگر افگار
سب گرد کھڑے ہوگئے گھبرا کے بس اک بار
فرصت جو ملی اتنی تو بادیدۂ خوںبار
لاشے کو اٹھا لے گئے باہر شہ ابرار
باقی علی اصغر کے سوا کوئی نہیں ہے
اب خنجر بے داد و گلوے شہ دیں ہے
97
جس سال کہے وصف یہ ہم شکل نبی کے
سن بارہ سے انچاس تھے ہجری نبوی کے
آگے تو یہ اندازہ سخن تھے نہ کسی کے
اب سب یہ مقلد ہوئے اس طرز نوی کے
دس میں کہوں سو میں کہوں یہ ورد ہے میرا
جو جو کہے اس طرز میں شاگرد ہے میرا
98
ہاں کلک بس اب آگے نہیں طاقت تحریر
ہو اور زیادہ تری تحریر میں تاثیر
کہتا ہے ضمیر اب کہ براے شہ دل گیر
محبوب علی جان نبی حضرت شبیر
اس مرثیے کا بس یہ خدا مجھ کو صلا دے
اکبر کا تصدق مری اولاد جلادے
- meer-muzaffar-husain-zameer
یارب چمنِ نظم کو گلزارِ اِرم کر
اے ابرِ کرم خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دَم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
اقلیم سخن میرے قلم رَو سے نہ جائے
اس باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری
بلبل کی زباں پر ہے تری شکر گزاری
ہر نخل برومند ہے یا حضرتِ باری
پھل ہم کو بھی مل جائے ریاضت کا ہماری
وہ کل ہوں عنایت چمن طبعِ نِکو کو
بلبل نے بھی سونگھا نہ وہ جن پھولوں کی بو کو
غواص طبیعت کو عطا کر وہ لالیٰ
ہو جن کی جگہ تاجِ سرِ عرش پہ خالی
ایک ایک لڑی نظمِ ثریا سے ہو عالی
عالم کی نگاہوں سے گرے قطبِ شمالی
سب ہوں دریکتا نہ علاقہ ہو کسی سے
نذر ان کی یہ ہوں گے جنہیں رشتہ ہے نبی سے
بھر دے درِ مقصود سے اس درجِ وہاں کو
دریائے معانی سے بڑھا طبع رواں کو
آگاہ کر اندازِ تکلم سے زباں کو
عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حسن بیاں کو
تحسیں کا سموت سے غل تابہ سمک ہو
ہرگوش بنے کانِ ملاحت وہ نمک ہو
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آپ تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہرِ منور سے ملا دوں
خاروں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
گر بز کی جانب ہو توجہ دمِ تحریر
کھنچ جائے ابھی گلشنِ فردوس کی تصویر
دیکھے نہ کبھی صحبت انجم فلک پیر
ہوجائے ہوا بزمِ سلیماں کی بھی توقیر
یوں تختِ حسینان معانی اتر آئے
ہر چشم کو پریوں کا اکھاڑا نظر آئے
ساقی کے کرم سے ہو وہ دور اور چلیں جام
جس میں عوضِ نشہ ہو کیفیت انجام
ہر مست، فراموش کرے گردشِ ایام
صوفی کی زباں بھی نہ رہے فیض سے ناکام
ہاں بادہ کشو پوچھ لو میخانہ نشیں سے
کوثر کی یہ موج آ گئی ہے خلدِ بیرں سے
آؤں طرفِ رزم ابھی چھوڑ کے جب بزم
خیبر کی خبر لائے مری طبعِ اولو العزم
قطعِ سرِ اعداد کا ارادہ ہو جو بالجزم
دکھلائے یہں سب کو زباں معرکۂ رزم
جل جائیں عدد آگ بڑھکتی نظر آئے
تلوار پہ تلوار چمکتی نظر آئے
مصرع ہوں صف آرا سفتِ لشکرِ جرار
الفاظ کی تیزی کو نہ پہونچے کوئی تلوار
نقطے ہوں جو ڈھالیں تو الفِ خنجر خونخوار
مَد آگے بڑھیں برچھیوں کو تول کے اک بار
غل ہو کبھی یوں فوج کو لڑتے نہیں دیکھا
مقتل میں رن ایسا کبھی پڑتے نہیں دیکھا
ہو ایک زباں ماہ سے تامسکن ماہی
عالم کو دکھا دے برشِ سیفِ الہٰی
جرأت کا دھنی تو ہے یہ چلائیں سپاہی
لاریب ترے نام پہ ہے سکۂ شاہی
ہر دم یہ اشارہ ہو دوات اور قلم کا
تو مالک و مختار ہے اس طبل و علم کا
تائید کا ہنگام ہے یا حیدرؑ صفدر
امداد ترا کام ہے یا حیدرؑ صفدر
تو صاحبِ اکرام ہے یا حیدرؑ صفدر
تیرا بھی کرم عام یا حیدرؑ صفدر
تنہا ترے اقبال سے شمشیر بکف ہوں
سب ایک طرف جمع ہوں میں ایک طرف ہوں
نا قدریئ عالم کی شکایت نہیں مولا
کچھ دفترِ باطل کی حقیقت نہیں مولا
باہم گل و بلبل میں محبت نہیں مولا
میں کیا ہوں کسی روح کو راحت نہیں مولا
عالم ہے مکدر، کوئی دل صاف نہیں ہے
اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے
نیک و بدِ عالم کا تامل نہیں کرتے
عارف کبھی اتنا بھی تجاہل نہیں کرتے
خاروں کے لئے رخ طرفِ گل نہیں کرتے
تعریف خوش الحانی بلبل نہیں کرتے
خاموش ہیں، گو شیشہ دل چور ہوئے ہیں
اشکوں کے ٹپک پڑنے سے مجبور ہوئے ہیں
الماس سے بہتر یہ سمجھتے ہیں خذف کو
در کو تو گھٹاتے ہیں، بڑھاتے ہیں صدف کو
اندھیر یہ ہے چاند بتاتے ہیں کلف کو
کھو دیتے ہیں شیشے کے لئے درِ نجف کو
ضائع ہیں درو لعل بد خشاں و عدن کے
مٹی میں ملاتے ہیں جواہر کو سخن کے
ہے لعل و گہر سے یہ دہن کانِ جواہر
ہنگامِ سخن کھلتی ہے، دکانِ جواہر
ہیں بد مرضع تو ورق خواں جواہر
دیکھے اسے، ہاں ہے کوئی خواہانِ جواہر
بینائے رقومات ہنر چاہئے اس کو
سودا ہے جواہر کا، نظر چاہئے اس کو
کیا ہو گئے وہ جو ہریانِ سخن اک بار
ہر وقت جو اس جنس کے رہتے تھے طلب گار
اب ہے کوئی طالب نہ شناسا نہ خریدار
ہے کون دکھائیں کسے یہ گوہرِ شہوار
کس وقت یہاں چھوڑ کے ملکِ عدم آئے
جب اٹھ گئے بازار سے گاہک تو ہم آئے
خواہاں نہیں یا قوتِ سخن کا کوئی، گو آج
ہے آپ کی سرکا تو یا صاحبِ معراج
اے باعثِ ایجادِ جہاں، خلق کے سرتاج
ہوجائے گا دم بھر میں غنی بندۂ محتاج
امید اسی گھر کی، وسیلہ اسی اسی گھر کا
دولت یہی میری، یہی توشہ ہے سفر کا
میں کیا ہوں مری طبع ہے کیا اے شبہ ساہان
حسان و فرزدق ہیں یہاں عاجز وحیراں
شرمندہ زمانے سے گئے وامل و سحباں
قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں
کیا مدح کفِ خاک سے ہو نور خدا کی
لکنت یہیں کرتی ہیں زبایں فصحا کی
لا یعلم ولا علم کی کیا سحر بیانی
حضرت پہ ہویدا ہے، مری ہیچ مدانی
نہ ذہن میں جودت، نہ طبیعت میں روانی
گویا ہوں، فقط ہے یہ تری فیض رسانی
میں کیا ہوں فرشتوں کی طلاقت ہے تو کیا ہے
وہ خاص یہ بندے ہیں کہ مداح خدا ہے
تھا جوش کچھ ایسا ہی جو دعویٰ کیا میں نے
خود سربہ گریباں ہوں کہ، یہ کیا کیا میں نے
اک قطرۂ نا چیز کو دریا کیا میں نے
تقصیر بحل کیجئے، بے جا کیا میں نے
ہاں سچ ہے کہ اتنی بھی تعلّی نہ روا تھی
مولا یہ کلیجے کے پھپھولوں کی دوا تھی
مجرم ہوں، کبھی ایسی خطا کی نہیں میں نے
بھولے سے بھی آپ اپنی ثنا کی نہیں میں نے
دل سے کبھی مدحِ اُمرا کی نہیں میں نے
تقلید کلامِ جہلا کی نہیں میں نے
نازاں ہوں محبت پہ امامِ ازلی کی
ساری یہ تعلّی ہے حمایت سے علیؑ کی
ہر چند زباں کیا مری اور کیا مری تقریر
دن رات وظیفہ ہے ثنا خوانئ شبیرؑ
منظور ہے اک باب میں دو فصل کی تحریر
مولا کی مدد کا متمنی ہے یہ دل گیر
یہ فصل نئے رنگ سے کاغذ پہ رقم ہو
اک بزم ہو شادی کی تو اک صحبتِ غم ہو
شعباں کی ہے تاریخِ سویم روزِ ولادت
اور ہے دہم ماہِ عزا یوم شہادت
دونوں میں بہر حال ہے تحصیلِ سعادت
وہ بھی عملِ خیر ہے یہ بھی ہے عبادت
مدّاح ہوں کیا کچھ نہیں اس گھر سے ملا ہے
کوثر ہے صلا اس کا بہشت اس کا صلا ہے
مقبول ہوئی غرض، گنہ عفو ہوئے سب
امید بر آئی مرا حاصل ہوا مطلب
شامل ہوا افضالِ محمدؐ کرمِ رب
ہوتے ہیں علم فوجِ مضامیں کے نشاں اب
پستی پہ ہیں سب رکنِ رکیں دینِ متیں کے
ڈنکے سے ہلا دیتا ہوں طبقوں کو زمیں کے
نازاں ہوں عنایت پہ شہنشاہِ زمن کی
بخشی ہے رضا جائزہ فوجِ سخن کی
چہرے کی بحالی سے قبا چست ہے تن کی
لو برطرفی پڑ گئی مضمون کہن کی
اک فرد پرائی نہیں دفتر میں ہمارے
بھرتی ہے نئی فوج کی لشکر میں ہمارے
ہاں اے فلکِ پیر نئے سر سے جواں ہو
اے ماہِ شبِ چار دہم نور فشاں ہو
اے ظلمتِ غم دیدۂ عالم سے نہاں ہو
اے روشنیِ صبح شبِ عید عیاں ہو
شادی ہے ولادت کی یداللہ کے گھر میں
خورشید اترتا ہے شہنشاہ کے گھر میں
اے شمس و قمر، اور قمر ہوتا ہے پیدا
نخلِ چمنِ دیں کا ثمر، ہوا ہے پیدا
مخدومۂ عالم کا پسر، ہوتا ہے پیدا
جو عرش کی ضو ہے، وہ گہر ہوتا ہے پیدا
ہر جسم میں جاں آتی ہے مذکور سے جس کے
نو نورِ خدا ہوں گے عیاں، نور سے جس کے
اے کعبۂ ایماں، تری حرمت کے دن آئے
اے رکنِ یمانی، تری شوکت کے دن آئے
اے بیتِ مقدس، تری عزت کے دن آئے
اے چشمۂ زمزم، تری چاہت کے دن آئے
اے سنگِ حرم، جلوہ نمائی ہوئی تجھ میں
اے کوہِ صفا، اور صفائی ہوئی تجھ میں
اے یثرب و بطحا، ترے والی کی ہے آمد
اے رتبۂ اعلیٰ، شہہ عالی کی ہے آمد
عالم کی تغیری پہ بحالی کی ہے آمد
کہتے ہیں چمن، ماہِ جلالی کی ہے آمد
یہ خانۂ کعبہ کے مباہات کے دن ہیں
یعقوبؑ سے یوسفؑ کی ملاقات کے دن ہیں
اے ارضِ مدینہ، تجھے فوق اب ہے فلک پر
رونق جو سما پر ہے، وہ اب ہوگی سمک پر
خورشید ملا، تیرا ستارہ ہے، چمک پر
صدقے گلِ تر ہے تری پھولوں کی مہک پر
پر جس پہ فرشتوں کے بچھیں فرش وہی ہے
جس خاک پہ ہو نورِ خدا عرش وہی ہے
یا ختمِ رسل گوہرِ مقصود مبارک
یا نورِ خدا رحمتِ معبود مبارک
یا شاہِ نجف شادیِ مولود مبارک
یا خیرالنساؑ ، اخترِ مسعود مبارک
رونق ہو سدا نور دوبالا رہے گھر میں
اس ماہِ دو ہفتہ کا اجالا رہے گھر میں
اے امتیو ہے یہ دم شکر گزاری
ہر بار کرو سجدۂ شکریہِّ باری
اللہ نے حل کردیا مشکل کو تمہاری
فردیں عملِ زشت کی اب چاک ہیں ساری
لکھے گئے بندوں میں ولی ابن ولی کے
ناجی ہوئے صدقے سے حسینؓ ابن علیؓ کے
اے ماہِ معظم ترے اقبال کے صدقے
شوکت کے فدا عظمت و اجلال کے صدقے
اتری برتک، فاطمہ کے لال کے صدقے
جس سال یہ پیدا ہوئے اس سال کے صدقے
قرباں سحر عید آگر ہو تو بجا ہے
نو روز بھی اس شب کی بزرگی پر فدا ہے
قربان شبِ جمعہ، شعبانِ خوش انجام
پیدا ہوا جس شب کو محمدؐ کا گل اندام
قائم ہوا دیں اور بڑھی رونقِ اسلام
ہم پلّۂ صبحِ شبِ معراج تھی وہ شام
خورشید کا اجلال و شرف بدر سے پوچھو
کیا قدر تھی اس شب کی شبِ قدر سے پوچھو
وہ نورِ قمر اور در افشانیئ انجم
تھے جس کے سبب روشنی دیدۂ مردم
وہ چہچہے رضواں کے، وہ حوروں کا تبسم
آپس میں وہ ہنس ہنس کے فرشتوں کا تکلم
میکال شگفتہ ہوئے جاتے تھے خوشی سے
جبریل تو پھولوں نہ سماتے تھے خوشی سے
روشن تھا مدینے ک اہر اک کوچہ و بازار
جو راہ تھی خوشبو، جو محلہ تھا وہ گلزار
کھولے ہوئے تھا آہوئے شب نافۂ تاتار
معلوم یہ ہوتا تھا کہ پھولو کا ہے انبار
گردوں کو بھی اک رشک تھا زینت پہ زمیں کی
ہر گھر میں ہوا آتی تھی فردوس بریں کی
کیا شب تھی وہ سعود و ہمایون و معظم
رخ رحمتِ معبود کا تھ جانبِ عالم
جبریل و سرافیل کو مہلت نہ تھی اک دم
بالائے زمیں آتے تھے اور جاتے تھے باہم
باشندوں کی یثرب کے خبر تھی نہ گھروں کی
سب سنتے تھے آواز فرشتوں کے پروں کی
تھیں فاطمہؓ بے چین ادھر دردِ شکم سے
منہ فق تھا اور آنسو تھے رواں دیدۂ نم سے
وابستہ تھی راحت جو اسی بی بی کے دم سے
مضطر تھے علیؓ بنتِ پیمبرؐ کے الم سے
آرام تھا اک دم نہ شہِ قلعہ شکن کو
پھرتے تھے لگائے ہوئے چھاتی سے حسنؑ کو
کرتے تھے دعا بادشہِ یثرب و بطحا
راحم ہے تری ذاتِ مقدس مرے مولا
زہرا ہے کنیز اور مرا بچہ ترا بندا
آسان کر اے بار خدا مشکل زہرا
نادار ہے اور فاقہ کش و زار و حزیں ہے
مادر بھی تشفی کے لئے پاس نہیں ہے
ناگاہ درِ حجرہ ہوا مطلع انوار
دکھلانے لگے نو تجلی در و دیوار
اسما نے علی سے یہ کہا دوڑ کے اک بار
فرزند مبارک تمہیں یا حیدر کرار
اسپند کرو فاطمہ کے ماہِ جبیں پر
فرزند نہیں چاند یہ اترا ہے زمیں پر
دیکھا نہیں اس طرح کا چہرا کبھی پیارا
نقشہ ہے محمدؐ سے شہنشاہ کا سارا
ماتھے پہ چمکتا ہے جلالت کا ستارا
اللہ نے اس گھر میں عجب چاند اتارا
تصویرِ رسولِ عربیؐ دیکھ رہے ہیں
آنکھوں کی ہے گردش کہ بنی دیکھ رہے ہیں
مژدہ یہ سنا احمدؐ مختار نے جس دم
پس شکر کے سجدے کو گرے قبلۂ عالم
آئے طرفِ خانۂ زہرا خوش و خرم
فرمایا مبارک پسرائے ثانیِ مریم
چہرہ مجھے دکھلادو مرے نورِ نظر کا
ٹکڑا ہے یہ فرزندِ محمدؐ کے جگر کا
کی عرض یہ اسما نے کہ اے خاصۂ داور
نہلا لوں تو لے آؤں اسے حجرے سے باہر
ارشاد کیا احمدِؐ مختار نے ہنس کر
لے آ کہ نواسا ہے مرا طاہر و اطہر
اس چاند کو تاجِ سرِ افلاک کیا ہے
یہ وہ ہے، خدا نے جسے خود پاک کیا ہے
میں اس سے ہوں اور مجھ سے ہے یہ تو نہیں باہر
یہ نورِ الہٰی ہے یہ ہے طیب و طاہر
اسرار جو مخفی ہیں وہ اب ہوئیں گے ظارہ
یہ آیتِ ایماں ہے یہ ہے حجتِ باہِر
بڑھ کر مدد سید لولاک کرے گا
کفار کے قصے کو یہی پاک کرے گا
جس دم یہ خبر مخبر صادق نے سنائی
اسما اسے اک پارچۂ نرم پہ لائی
بو اس گلِ تازہ کی محمدؐ نے جو پائی
ہنسنے لگ، سرخی رخِ پرنور پہ آئی
منہ چاند سا دیکھا جو رسولِؐ عربی نے
لپٹا لیا چھاتی سے نواسے کو نبیؐ نے
جاں اغئی یعقوبؑ نے یوسفؑ کو جو پایا
قرآں کی طرح رحلِ دو زانو پہ بٹھایا
منہ ملنے لگے منہ سے بہت پیار جو آیا
بوسے لئے اور ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا
دل ہل گیا کی جب کہ نظر سینہ و سر پر
چوما جو گلا، چل گئی تلوار جگر پر
جوش آیا تھا رونے کا مگر تھام کے رقت
اس کان میں فرمائی اذاں اس میں اقامت
حیدر سے یہ فرمایا کہ اے شاہِ ولایت
کیوں تم نے بھی دیکھی مرے فرزند کی صورت
پر نور ہے گھر، تو کو ملا ہے قمر ایسا
دنیا میں کسی نے نہیں پایا پسر ایسا
کیوں کر نہ ہو تم سا پدر اور فاطمہؓ سی ماں
دو شمس و قمر کا ہے یہ اک نیر تاباں
کی عرض یہ حیدر نے کہ اے قبلۂ ایماں
حق اس پہ رکھے سایۂ پیغمبر ذی شاں
اعلیٰ ہے وہ سب سے جو مقامِ شہ دیں ہے
بندہ ہوں میں اور یہ بھی غلامِ شہ دیں ہے
عالم میں ہے یہ سب برکت آپ کے دم سے
سرسبزی دنیا ہے اسی ابر کرم سے
تا عرش پہونچ جاتا ہے سر فیضِ قدم سے
عزت ہے غلاموں کی شہنشاہ امم سے
کچھ اس میں نہ زہرا کا ہے باعث نہ علی کا
سب ہے یہ بزرگی کہ نواسا ہے نبی کا
فرمانے لگے ہنس کے شہِ یثرب و بطحا
بھائی کہو فرزند کا کچھ نام بھی رکھا
کی عرض یہ حیدر نے کہ اے سید والا
سبقت کروں میں حضرت پہ، یہ مقدور ہے میرا
فرمایا کہ موقوف ہے یہ ربِّ عُلا پر
میں بھی سبقت کر نہیں سکتا ہوں خدا پر
بس اتنے میں نازل ہوئے جبریل خوش انجام
کی عرض کہ فرماتا ہے یہ خالقِ علام
پیارا ہے نہایت ہمیں زہرا کا گل اندام
یا ختمِ رسل ہم نے ’’حسین‘‘ اس کا رکھا نام
یہ حسن میں سردار حسینانِ زمن ہے
مشتق ہے تو احسان سے تصغیر حسن ہے
ح سے یہ اشارہ کہ یہ ہے حامیِ امت
سمجھیں گے اسی سین کو سب سینِ سعادت
یَ اس کی بزرگی میں یٰسین کی آیت
ہے نون سے ظاہر کہ یہ ہے نورِ نبوت
ناجی ہے وہ اس نام کو لے
یہ حسن میں دس حصے زیادہ ہے حسن سے
دو نور کے دریا کو جو ہم نے کیا اک جا
تب اس سے ہوا گوہرِ نایاب یہ پیدا
توقیر میں بے مثل، شجاعت میں ہے یکتا
اب اور نہ ہو گا کوئی اس حسن کا لڑکا
ہم جانتے ہیں جو نہیں ظاہر ہے کسی پر
کام اس سے جو لینا ہے وہ ہے ختم اسی پر
فیاض نے کونین کی دولت اسے دی ہے
دی ہے جو علیؓ کو وہ شجاعت اسے دی ہے
صبر اس کو عنایت کیا، عزت اسے دی ہے
ان سب کے سوا اپنی محبت اسے دی ہے
اعلیٰ ہے، معظم ہے، مکرم ہے، ولی ہے
ہادی ہے، وفادار ہے، زاہد ہے سخی ہے
جب کر چکے ذکرِ کرم مالکِ تقدیر
جبریلؑ نے پاس آن کے دیکھا رخِ شپیرؐ
کی صلِّ علیٰ کہہ کے محمدؐ سے یہ تقریر
یا شاہ، یہ مہرو تو ہے صاف آپ کی تصویر
جب کہ ہے زیارت پئے تسلیم جھکے ہیں
اس نور کو ہم عرش پہ بھی دیکھ چکے ہیں
ہے اس پہ ازل سے نظرِ رحمتِ معبود
یہ پیشتر آدم سے بھی تھا عرش پہ موجود
ہے ذاتِ خدا صاحبِ فیض و کرم وجود
تھا خلق دو عالم سے یہی مطلب و مقصود
مظلومی و غربت ہے عجب نام پہ اس کے
سب روتے ہیں اور روئیں گے انجام پہ اس کے
یہ ہے سبب تہنیت و تعزیت اس دم
ہے شادی و غم گلشن ایجاد میں توام
لپٹائے ہیں چھاتی سے جسے قبلۂ عالم
بے جرم و خطا ذبح کریں گے اسے اظلم
گر حشر بھی ہوگا تو یہ آفت نہ ٹلے گی
سجدے میں چھری حلقِ مبارک پہ چلے گی
ہوگا یہ محرم میں ستم اے شہہ ذی جاہ
چھپ جائے گا آنکھوں سے اسی چاند میں یہ ماہ
تاریخ دہم جمعہ کے دن عصر کے وقت آہ
نیزے پہ چڑھائیں گے سرِ پاک کو گمراہ
کٹ جائے جب سر تو ستم لاش پہ ہوں گے
گھوڑوں کے قدم سینۂ صد پاش پہ ہوں گے
چلائے محمد کہ میں بسمل ہوا بھائی
اے وائے اخی کیا یہ خبر مجھ کو سنائی
دل ہل گیا برچھی سی کلیجے میں در آئی
یہ واقعہ سن کر نہ جئے گی مری جائی
ممکن نہیں دنیا میں دوا زخمِ جگر کی
کیوں کر کہوں زہرا سے خبر مرگِ پسر کی
جس وقت سنی فاطمہؓ نے یہ خبرِ غم
شادی میں دلادت کی بپا ہوگیا ماتم
چلاتی تھی سرپیٹ کے وہ ثانیِ مریم
بیٹی پہ چھری چل گئی یا سیدِ عالم
خنجر کے تلے چاندسی تصویر کی گردن
کٹ جائے گی ہے ہے مرے شپیر کی گردن
ہے ہے کئی دن تک نہ ملے گا اسے پانی
ہے ہے یہ سہے گا تعبِ تشنہ دہانی
ہو جائیں گے اِک جان کے سب دشمنِ جانی
ہے ہے مرا محبوب، مرا یوسفِ ثانی
پیراہنِ صد چاک کفن ہووے گا اس کا
سر نیزہ پہ اور خاک پہ تن ہوے گا اس کا
صبر اپنا دکھانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
یوں خلق سے جانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
جنگل کے بسانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
اماں کے رلانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
ہم چاند سی صورت پہ نہ شیدا ہوئے ہوتے
اے کاش مرے گھر میں نہ پیدا ہوئے ہوتے
دنیا مجھے اندھیر ہے اس غم کی خبر سے
شعلوں کی طرح آہ نکلتی ہے جگر سے
دامن پہ ٹپکتا ہے لہو دیدۂ تر سے
بس آج سفر کر گئی شادی مرے گھر سے
جس وقت تلک جیتی ہوں ماتم میں رہوں گی
مظلوم حسینؓ آج سے اس کو میں کہوں گی
بیٹی کو یہ معلوم نہ تھا یا شہِ عالم
بچھے گی زچہ خانے کے اندر صفِ ماتم
اب دن ہے چھٹی کا مجھے عاشورِ محرم
تارے بھی نہ دیکھے تھے کہ ٹوٹا فلک غم
پوشاک نہ بدلوں گی نہ سر دھوؤں گی بابا
چلے میں بھی چہلم کی طرح روؤں کی بابا
حیدر ہے کہاں آ کے دلاسا نہیں دیتے
زہراؓ کا برا حال ہے سمجھا نہیں دیتے
اس زخم کا مرہم مجھے بتلا نہیں دیتے
ہے ہے مجھے فرزند کا پرسا نہیں دیتے
حجرے میں الگ بیٹھے ہیں کیوں چھوڑ کے گھر کو
آواز تو سنتی ہوں کہ روتے ہیں پس کو
پھر دیکھ کے فرزند کی صورت یہ پکاری
اے میرے شہید اے مرے بیکس ترے واری
ہاں بعد مرے ذبح کریں گے تجھے ناری
بنتی ہوں ابھی سے میں عزادار تمہاری
دل اور کسی شغل میں مصروف نہ ہو گا
بس آج سے رونا مرا موقوف نہ ہو گا
مرجائیگا تو تشنہ دہن ہائے حسینا
ہو جائے گا ٹکڑے یہ بدن ہاے حسینا
اک جان پپہ یہ رنج و محن ہائے حسینا
کوئی تجھے دے گا نہ کفن ہائے حسینا
گاڑیں گے نہ ظالم تنِ صد پاش کو ہے ہے
رہواروں سے روندیں گے تری لاش کو ہے ہے
فرمایا محمدؐ نے کہ اے فاطمہؓ زہرا
کیا مرضیِ معبود سے بندے کا ہے چارہ
خالق نے دیا ہے اسے تہ رتبۂ اعلیٰ
جبریل سوا کوئی نہیں جاننے والا
میں بھی ہوں فدا اس پہ کہ یہ فدیۂ رب ہے
یہ لال ترا بخشش امت کا سبب ہے
اس بات کا غم ہے اگر اے جانِ پیمبرؐ
بے دفن و کفن رن میں رہے گا ترا دلبر
جب قید سے ہووے گا رہا عابدِ مظطر
تگربت میں اسے دفن کرے گا وہی آ کر
ارواحِ رسولانِ زمن روئیں گی اس کو
سر پیٹ کے زینب سی بہن روئیں گی اس کو
جب چرخ پہ ہوئے گا عیاں ماہِ محرم
ہر گھر میں بپا ہوے گی اک مجلسِ ماتم
آئیں گے ملک عرش سے داں رونے کو باہم
ماتم یہ وہ ماتم ہے کہ ہوگا نہ کبھی کم
پر نور سدا اس کا عزا خانہ رہے گا
خورشید جہاں گرد بھی پروانہ رہے گا
کیا اوج ہے، کیا رتبہ ہے اس بزمِ عزا کا
غل عرش سے ہے فرش تلک صلِّ علیٰ کا
مشتاق ہے فردوزِ بریں یاں کی فضا کا
پانی میں بھی ہے یاں کی مزا آبِ بقا کا
دربارِ معلّیٰ ہے ولی ابنِ ولی کا
جاری ہے یہ سب فیض حسینؓ ابن علی کا
لوریاں سے بس اب مجلسِ ماتم کا بیاں ہے
وہ فصل خوشی ختم ہوئی غم کا بیاں ہے
مظلومیِ سلطانِ دو عالم کا بیاں ہے
ہنگامۂ عاشورِ محرم کا بیاں ہے
ہاں دیکھ لے مشتاق جو ہو فوجِ خدا کا
لوبزم میں کھلتا ہے مرقع شہدا کا
اے خضرِ بیابانِ سخن راہبری کر
اے نیرِ تابانِ خرد جلوہ گری کر
اے درد عطا لذتِ زخمِ جگری کر
اے خوفِ الٰہی مجھے عصیان سے بری کر
بندوں میں لکھا جاؤں امامِ ازلی کے
آزاد ہوں صدقے میں حسینؓ ابن علیؓ کے
قدسی کو نہیں بار، یہ دربار ہے کس کا
فردوس کو ہے رشک یہ گلزار ہے کس کا
سب جنسِ شفاعت ہے، یہ بازار ہے کس کا
خود بکتا ہے یوسفؑ یہ خریدار ہے کس کا
ملتی ہے کہاں مفت متاعِ حسن ایسی
دیکھی نہیں انجم نے کبھی انجمن ایسی
مجلس کا زہے نور خوشا محفلِ عالی
حیدر کے محبوں سے کوئی جا نہیں خالی
عاشق ہیں سب اس کے جو ہے کونین کا والی
اثنا عشری، پنجتنی، شیعۂ غالی
ششدر نہ ہو کیوں چرخ عجب جلوہ گری ہے
یہ بزمِ عزا آج ستاروں سے بھری ہے
ان میں جو مسن ہیں وہ پیمبر کے ہیں مہماں
اور جو متوسط ہیں، وہ حیدر کے ہیں مہماں
جو تازہ جواں ہیں، علی اکبر کے ہیں مہماں
شیعوں کے پسر سب علی اصغر کے ہیں مہماں
ہر خورد و کلاں عاشقِ شاہِ مدنی ہیں
پانچ انگلیوں کی طرح یہ سب پنجتنی ہیں
ارشادِ نبیؐ ہے کہ مددگار ہیں میرے
فرماتے ہیں حیدر کہ یہ غم خوار ہیں میرے
حضرت کا سخن ہے کہ عزادار ہیں میرے
میں ان کا ہوں طالب یہ طلب گار ہیں میرے
یہ آج اگر رو کے ہمیں یاد کریں گے
ہم قبر میں ان لوگوں کی امداد کریں گے
غم میں مرے بچوں کے یہ سب کرتے ہیں فریاد
اللہ سلامت رکھے ان لوگوں کی اولاد
بستی مرے شیعوں کی رہے خلق میں آباد
یہ حشر کے دن آتشِ دوزخ سے ہوں آزاد
مرتا ہے کوئی گر تو بکا کرتا ہوں میں بھی
ان کے لئے بخشش کی دعا کرتا ہوں میں بھی
مردم کے لئے واجب عینی ہے یہ زاری
رونا ہی وسیلہ ہے شفاعت کا ہماری
ہے وقتِ معین پہ ادا طاعتِ باری
یہ خیر ہے وہ خیر جو ہر وقت ہے جاری
رو لو کہ یہ وقت اور یہ صحبت نہ ملے گی
جب آنکھ ہوئی بند تو مہلت نہ ملے گی
مہلت جو اجل دے تو غنیمت اسے جانو
آمادہ ہو رونے پہ، سعادت اسے جانو
آنسو نکل آئیں تو عبادت اسے جانو
ایذا ہو جو محفل میں تو راحت اسے جانو
فاقے کئے ہیں دھوپ میں لب تشنہ رہے ہیں
آقا نے تمہارے لئے کیا ظم سہے ہیں
تکلیف کچھ ایسی نہیں سایہ ہے ہوا ہے
پانی ہے خنک مروحہِ کش بادِ صبا ہے
کچھ گرمیِ عاشورہ کا بھی حال سنا ہے
سر پیٹنے کا وقت ہے ہنگامِ بکا ہے
گذری ہے بیابان میں وہ گرمی شہِ دیں پر
بھن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر
لوں چلتی تھی ایسی کہ جلے جاتے تھے اشجار
تھا عنصرِ خاکی پہ گمانِ کرۂ نار
پانی پہ دو دوام گرے پڑتے تھے ہر بار
سب خلق تو سیراب تھی پیاسے شہِ ابرار
خاک اڑ کے جمی جانی تھی زلفوں پہ قبا پر
اس دھوپ میں سایہ بیھ نہ تھا نورِ خدا پر
قطرے جو پسینے کے ٹپک پڑتے تھے ہر بار
ثابت یہی ہوتا تھا کہ ہیں اخترِ سیار
شاہد المِ فاقہ سے ہے زردیِ رخسار
بے آبی سے اودے تھے لبِ لعل گہر بار
رنیا میں ترستے رہے وہ آب رواں کو
جن ہونٹوں نے چوما تھا محمدؐ کی زباں کو
دنیا بھی عجب گھر ہے کہ راحت نہیں جس میں
وہ گل ہے یہ گل بوئے محبت نہیں جس میں
وہ دوست ہے یہ دوستِ مروت نہیں جس میں
وہ شہد ہے یہ شہد حلاوت نہیں جس میں
بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گزری
دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری
گودی ہے کبھی ماں کی کبھی قبر کا آغوش
کل پیرہن اکثر نظر آتے ہیں کفن پوش
سرگرمِ سخن ہے کبھی انساں کبھی خاموش
گہہ تخ ہے اور گاہ جنازہ بسرِ دوش
اک طور پہ دیکھا نہ جواں کو نہ مسن کو
شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں تابوت مین دن کو
شادی ہو کہ اندوہ ہو آرام ہو یا جور
دنیا میں گزر جاتی ہے انساں کو بہر طور
ماتم کی کبھی فصل ہے، عشرت کا کبھی دور
ہے شادی و ماتم کا مرقع جو کرو غور
کس باغ پہ آسیبِ خزاں آ نہیں جاتا
گل کون سا کھلتا ہے جو مرجھا نہیں جاتا
ہے عالمِ فانی کی عجب صبح عجب شام
گہہ غم کبھی شادی کبھی ایذا کبھی آرام
نازوں سے پلا فاطمہ زہراؓ کا گل اندام
وا حسرت و دردا کہ وہ آغاز یہ انجام
راحت نہ ملی گھر کے تلاطم سے دہم تک
مظلوم نے فاقے کئے ہفتم سے دہم تک
ریتی یہ عزیزوں کا مرقع تو ہے ابتر
شہ کا ہے یہ نقشہ کہ میں تصویر سے ششدر
فرزند نہ ملسم کے نہ ہمشیر کے دلبر
قاسم ہیں نہ عباس نہ اکبر ہیں نہ اصغر
سب نذر کو دربار پیمبر میں گئے ہیں
رخصت کو اکیلے شہہ دیں گھر میں گئے ہیں
منظور ہے پھر دیکھ لیں ہمشیر کی صورت
پھر لے گئی ہے گھر میں سکینہ کی محبت
سجاد سے کچھ کہتے ہیں اسرار امامت
بانووے دو عالم سے بھی ہے آخری رخصت
مطلوب ہے یہ زیبِ بدن رختِ کہن ہو
تا بعد شہادت وہی ملبوسِ کفن ہو
خیمے میں مسافر کا وہ آنا تھا قیامت
ایک ایک کو چھاتی سے لگانا تھا قیامت
آنا تو غنیمت تھا یہ جانا تھا قیامت
تھوڑا سا وہ رخصت کا زمانہ تھا قیامت
واں بین ادھر صبر و شکیبائی کی باتیں
افسانۂ ماتم تھیں بہن بھائی کی باتیں
حضرت کا وہ کہنا کہ بہن صبر کرو صبر
امت کے لئے والدہ صاحب نے سہے جبر
وہ کہتی تھی کیوں کر نہ میں روؤں صفتِ ابر
تم پہنو کفن اور نہ بنے ہائے مری قبر
لٹتے ہوئے اماں کا گھر ان آنکھوں سے دیکھوں
ہے ہے تہِ خنجر تمہیں کن آنکھوں سے دیکھوں
اس عمر میں تھوڑے غمِ جانکاہ اٹھائے
اشک آنکھوں سے اماں کے جنازے پہ بہائے
آنسو نہ تھمے تھے کہ پدر خوں میں نہائے
ٹکڑے دلِ شبیر کے لگن میں نظر آئے
حضرت کے سوا اب کوئی سر پر نہیں بھائی
انساں ہوں کلیجہ مرا پتھر نہیں بھائی
ہر شخص کو ہے یوں تو سفر خلق سے کرنا
دشوار ہے اک آن مسافر کا ٹھہرنا
ان آنکھوں سے دیکھا ہے بزرگوں کا گزرنا
ہے سب سے سوا ہائے یہ مظلومی کا مرنا
صدقے گئی یوں رن کبھی پڑتے نہیں دیکھا
اک دن میں بھرے گھر کو اجڑتے نہیں دیکھا
ہے ہے تمہیں لے کے میں کہاں چھپ رہوں بھائی
لٹتی ہے مرے چار بزرگوں کی کمائی
کس دشتِ پر آشوب میں قسمت مجھے لائی
یارب کہیں مر جائے ید اللہ کی جائی
زہراؓ کا پسر وقتِ جدائی مجھے روئے
سب کو تو میں روئی ہوں یہ بھائی مجھے روئے
زینب کی وہ زاری وہ سکینہ کا بلکنا
وہ ننھی سی چھاتی میں کلیجے کا دھڑکنا
وہ چاند سا منہ اور وہ بندے کا چمکنا
حضرت کا وہ بیٹی کی طرف یاس سے تکنا
حسرت سے یہ ظاہر تھا کہ معذور ہیں بی بی
پیدا تھا نگاہوں سے کہ مجبور ہیں بی بی
وہ کہتی تھی بابا ہمیں چھاتی سے لگاؤ
فرماتے تھے شہ آؤ نہ جانِ پدر آؤ
ہم کڑھتے ہیں لو آنکھوں سے آنسو نہ بہاؤ
خوشبو تو ذرا گیسوئے مشکیں کو سنگھاؤ
کوثر یہ ہے، تم بن نہیں آرام چچا کو
ہم جاتے ہیں کچھ دیتی ہو پیغام چچا کو
بی بی کہو کیا حال ہے اب ماں کا تمہاری
کس گوشے میں بیٹھی ہیں کہاں کرتی ہیں زاری
جب سے سوئے جنت گئی اکبر کی سواری
دیکھا نہ انہیں گھر میں ہم آئے کئی باری
تھی سب کی محبت انہیں بیٹے ہی کے دم تک
کیا آخری رخصت کو بھی آئیں گی نہ ہم تک
کس جا ہیں طلب ہم کو کریں یا وہی آئیں
ممکن نہیں اب وہ ہمیں یا ہم انہیں پائیں
کچھ ہم سے سنیں کچھ ہمیں حال اپنا بتائیں
اک دم کے مسافر ہیں ہمیں دیکھ تو جائیں
بعد اپنے یہ لوٹا ہوا گھر اور کٹے گا
افسوس کہ اک عمر کا ساتھ آج چھٹے گا
غش میں جو سنی بانوئے مضطر نے یہ تقریر
ثابت ہو مرنے کو چلے حضرت شبیر
سر ننگے اٹھی چھوڑ کے گہوارۂ بے شیر
چلائی مجھے ہوش نہ تھا یا شہِ دل گیر
جاں تن سے کوئی آن میں اب جاتی ہے آقا
یہ خادمہ رخصت کے لئے آتی ہے آقا
یہ سن کے بڑھے چند قدم شاہِ خوش اقبال
قدموں پہ گری دوڑ کے وہ کھولے ہوئے بال
تھا قبلۂ عالم کا بھی اس وقت عجب حال
روتے تھے غضب آنکھوں پہ رکھے ہوئے رومال
فرماتے تھے جانکاہ جدائی کا الم ہے
اٹھو تمہیں روحِ علی اکبر کی قسم ہے
وہ کہتی تھی کیوں کر میں اٹھوں اے مری سرتاج
والی انہیں قدموں کی بدولت ہے مرا راج
سر پر جو نہ ہوگا پسرِ صاحبِ معراج
چادر کے لئے خلق میں جاؤں گی محتاج
چھوٹے جو قدم مرتبہ گھٹ جائے گا میرا
قربان گئی تخت الٹ جائے گا میرا
یاں آئی میں جب خانۂ کسریٰ ہوا برباد
وہ پہلی اسیری کی اذیت ہے مجھے یاد
کی عقدہ کشائے دو جہاں نے مری امداد
حضرت کے تصدق میں ہوئی قید سے آزاد
لونڈی تھی، بہو ہو گئی زہراؓ و علیؓ کی
قسمت نے بٹھایا مجھے مسند پہ نبیؐ کی
چھبیس برس تک نہ چھٹا آپ کا پہلو
اب ہجر ہے تقدیر میں یا سید خوش خو
شب بھر رہے تکیہ سرِ اقدس کا جو بازو
ہے ہے اسے اب رسی سے باندھیں گے جفا جو
سر پر نہ ردا ہوگی تو مر جاؤں گی صاحب
چھپنے کو میں جنگل میں کدھر جاؤں گی صاحب
حضرت نے کہا کس کا سدا ساتھ رہا ہے
ہر عاشق و معشوق نے یہ داغ سہا ہے
دارِ محن اس دار کو داور نے کہا ہے
ہر چشم سے خونِ جگر اس غم میں بہا ہے
فرقت میں عجب حال تھا خالق کے ولی کا
ساتھ آٹھ برس تک رہا زہراؓ و علیؓ کا
سو سو برس اس گھر میں محبت سے رہے جو
اس موت نے دم بھر میں جدا کر دیا ان کو
کچھ مرگ سے چارہ نہیں اے بانوئے خوش خو
ہے شاق فلک کو کہ رہیں ایک جگہ دو
کس کس پہ زمانے نے جفا کی نہیں صاحب
اچھوں سے کبھی اس نے وفا کی نہیں صاحب
لازم ہے خدا سے طلبِ خیر بشر کو
تھامے گا تباہی میں وہی رانڈ کے گھر کو
آنا ہے تمہیں بھی وہیں جاتے ہیں جدھر کو
وارث کی جدائی میں پٹکتے نہیں سر کو
کھولے گا وہی رسی بندھے ہاتھ تمہارے
سجاد سا بیٹا ہے جواں ساتھ تمہارے
زینب کو تو دیکھو کہ ہیں کس دکھ میں گرفتار
ایسا کوئی اس گھر میں نہیں بے کس و ناچار
تنہا ہیں کہ بے جاں ہوے دو چاند سے دلدار
دنیا سے گیا اکبرِ ناشاد ساغم خوار
بیٹے بھی نہیں گود کاپالا بھی نہیں ہے
ان کو تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے
یہ کہہ کے کچھ آہستہ کہا گوشِ پسر میں
بیمار کے رونے سے قیامت ہو گئی گھر میں
اندھیر زمانہ ہوا بانو کی نظر میں
غش ہو گئی زینبؓ یہ اتھا درد جگر میں
ٹھہر نہ گیا واں، شہِ والا نکل آئے
تنہا گئے روتے ہوئے تنہا نکل آئے
کچھ پڑھ کے پھرے جانبِ قبلہ شہہ بے پر
کج کی طرفِ دوشِ یمیں گردنِ انور
تھراتے ہوئے ہاتھوں پہ عمامے کو رکھ کر
کی حق سے مناجات کہ اے خالقِ اکبر
حرمت ترے محبوب کی دنیا میں بڑی ہے
کر رحم کہ آل ان کی تباہی میں پڑی ہے
یارب یہ ہے سادات کا گھر تیرے حوالے
رانڈیں ہیں کئی کستہ جگر تیرے حوالے
بیکس کا ہے بیمار پسر تیرے حوالے
سب ہیں ترے دریا کے گہر تیرے حوالے
عالم ہے غربت میں گرفتاری بلا ہوں
میں تیری حمایت میں انہیں چھوڑ چلا ہوں
میرے نہیں، بندے ہیں ترے اے مرے خالق
بستی ہو کہ جنگل توہی حافظ تو ہی رازق
باندھے ہیں کمر ظلم و تعدی پہ منافق
نے دوست ہے دنیا، نہ زمانہ ہے موافق
حرمت ہے ترے ہاتھ امامِ ازلی کی
دو بیٹیاں، دو بہوئیں ہیں اس گھر میں علی کی
میں یہ نہیں کہتا کہ اذیت نہ اٹھائیں
یا اہلِ ستم آگ سے خیمے نہ جلائیں
ناموس لٹیں قید ہوں اور شام میں جائیں
مہلت مرے لاشے پہ بھی رونے کی نہ پائیں
بیڑی میں قدم طوق میں عابد کا گلا ہو
جس میں ترے محبوب کی امت کا بھلا ہو
یہ کہہ کے گریبانِ مبارک کو کیا چاک
اور ڈال لی پیراہن پر نور پہ کچھ خاک
میت ہونے شبیر کفن بن گئی پوشاک
بس فاتحۂ خیر پڑھا بادلِ غم ناک
مڑکر نہ کسی دوست نہ غم خوار کو دیکھا
پاس آئے تو روتے ہوئے رہوار کو دیکھا
گردان کے دامن علی اکبر کو پکارے
تھامو مرے گھوڑے کا رکاب اے مرے پیارے
لختِ دلِ شبیر کدھر اس وقت سدھارے
بھائی ہیں کہاں ہاتھ میں دیں ہاتھ ہمارے
آتے نہیں مسلم کے جگر بند کہاں ہیں
دونوں مری ہمشیر کے فرزند کہاں ہیں
تنہائی میں اک ایک کو حضرت نے پکارا
کون آئے کہ فردو میں تھا قافلہ سارا
گھوڑے پہ چھڑا خود اسد اللہ کا پیارا
اونچا ہوا افلاکِ امامت کا ستارا
شوخی سے فرس پاؤں نہ رکھتا تھا زمیں پر
غل تھا کہ چلا قطبِ زماں عرشِ بریں پر
شبدیز نے چھل بل میں عجب ناز دکھایا
ہر گام پہ طاؤس کا انداز دکھایا
زیور نے عجب حسنِ خداداد دکھایا
فتراک نے اوجِ پرِ پرواز دکھایا
تھا خاک پہ اک پاؤں تو اک عرشِ بریں پر
غل تھا کہ پھر اترا ہے براق آج زمیں پر
اعداد کی زبانوں پر یہ حیرت کی تھی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تولے ہوئے شمشیر
دیکھوں نہ مٹاؤ مجھے اے فرقۂ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر
واللہ تعلّی نہیں یہ کلمۂ حق ہے
عالم کے مرقعے میں حسین ایک ورق ہے
واللہ جہاں میں مرا ہمسر نہیں کوئی
محتاج ہوں پر مجھ سا توانگر نہیں کوئی
ہاں میرے سوا شافعِ محشر نہیں کوئی
یوں سب ہیں مگر سبطِ پیمبر نہیں کوئی
باطل ہے اگر دعویٰ اعجاز کرے گا
کس بات پہ دنیا میں کوئی ناز کرے گا
ہم وہ ہیں کہ اللہ نے کوثر ہمیں بخشا
سرداریِ فردوس کا افسر ہمیں بخشا
اقبالِ علی خلق پیمبر ہمیں بخشا
قدرت ہمیں دی، زور ہمیں، زر ہمیں بخشا
ہم نور ہیں گھر طورِ تجلا ہے ہمارا
تختِ بنِ داؤد مصلا ہے ہمارا
نانا وہ کہ ہیں جن کے قدم عرش کے سرتاج
قوسینِ مکان، ختمِ رسل، صاحبِ معراج
ماں ایسی کہ سب جس کی شفاعت کے ہیں محتاج
باپ ایسا صنم خانوں کو جس نے کیا تاراج
لڑنے کو اگر حیدر صفدر نہ نکلتے
بت گھر سے خدا کے کبھی باہر نہ نکلتے
کس جنگ میں سینے کو سپر کر کے نہ آئے
کس مرحلۂ صعف کو سر کر کے نہ آئے
کس فوج کی صف زیر و زبر کر کے نہ آئے
تھی کون سی شب جس کو سحر کر کے نہ آئے
تھا کون جو ایماں تہِ صمصام نہ لایا
اس شخص کا سر لائے جو اسلام نہ لایا
اصنام نہ کچھ کم تھے، نہ کفار تھے تھوڑے
طاقت تھی کہ عزیٰ کو کوئی لات سے توڑے
بد کیشوں نے سجدے بھی کئے ہاتھ بھی جوڑے
بے توڑے وہ بت حیدر صفدر نے نہ چھوڑے
کعبے کو صفا کردیا خالق کے کرم سے
نکلے اسد اللہ اذاں دے کے حرم سے
اس عہد میں مالک اسی تلوار کے ہم ہیں
جرار پسر، حیدر کرار کے ہم ہیں
فرزند محمدؐ سے جہاں دار کے ہم ہیں
وارثِ شہِ لولاک کی سرکار کے ہم ہیں
کچھ غیر کفن ساتھ نہیں لے کے گئے ہیں
تابوت سکینہ بھی ہمیں دے کے گئے ہیں
یہ فرق یہ عمامۂ سردارِ زمن ہے
یہ تیغِ علی ہے یہ کمر بندِ حسن ہے
یہ جوشنِ داؤد ہے جو حافظ تن ہے
یہ پیراہنِ یوسفِ کنعانِ محن ہے
دکھلائیں سند دستِ رسول عربیؐ کی
یہ مہر سلیماں ہے، یہ خاتم ہے نبی کی
دیکھو تو یہ ہے کون سے جرار کی تلوار
کس شیر کے قبضے میں ہے کرار کی تلوار
دریا نے بھی دیکھی نہیں اس دھار کی تلوار
بجلی کی تو بجلی ہے یہ، تلوار کی تلوار
قہر و غضب اللہ کا ہے کاٹ نہیں ہے
کہتے ہیں اسے موت کا گھر گھاٹ نہیں ہے
دم لے کہیں رک کر وہ روانی نہیں اس میں
چلنے میں سبک تر ہے، گرانی نہیں اس میں
جز حرفِ ظفر اور نشانی نہیں اس میں
جل جاؤ گے سب آگ ہے پانی نہیں اس میں
چھوڑے گی نہ زندہ اسے جو دشمن دیں ہے
نابیں نہیں، غصے سے اجل چیں بہ جبیں ہے
سب قطرے ہیں گر فیض کے دریا ہیں تو ہم ہیں
ہر نقطۂ قرآں کے شناسا ہیں تو ہم ہیں
حق جس کا ہے جامع وہ ذخیرہ ہیں تو ہم ہیں
افضل ہیں تو ہم، عالم و دانا ہیں تو ہم ہیں
تعلیم ملک عرش پہ تھا ورد ہمارا
جبریل سا استاد ہے شاگرد ہمارا
گر فیض ظہورِ شہِ لولاک نہ ہوتا
بالائے زمیں گنبدِ افلاک نہ ہوتا
کچھ خاک کے طبقے میں، بجز خاک نہ ہوتا
ہم پاک نہ کرتے تو جہاں پاک نہ ہوتا
یہ شور اذاں کا سحر و شام کہاں تھا
ہم عرش پہ جب تھے تو یہ اسلام کہاں تھا
محسن سے بدی ہے یہی احساں کا عوض واہ
دشمن کے ہوا خواہ ہوئے دوست کے بد خواہ
گمراہ کے بہکانے سے روکو نہ مری راہ
لو اب بھی مسافر کو نکل جانے دو لِلّٰلہ
مل جائے گی اک دم میں اماں رنج و بلا سے
میں ذبح سے بچ جاؤں گا، تم قہر خدا سے
بستی میں کہیں مسکن و ماوا نہ کروں گا
یثرب میں بھی جانے کا ارادہ نہ کروں گا
صابر ہوں کسی کا کبھی شکوا نہ کروں گا
اس ظلم کا میں ذکر بھی اصلا نہ کروں گا
رونا نہ چھٹے گا کہ عزیزوں سے چھپا ہوں
جو پوچھے گا کہہ دوں گا کہ جنگل میں لٹا ہوں
اعدا نے کہا قہرِ خدا سے نہیں ڈرتے
ناری تو ہیں دوزخ کی جفا سے نہیں ڈرتے
فریاد رسولِؐ دوسرا سے نہیں ڈرتے
خاتونِ قیامت کی بکا سے نہیں ڈرتے
ہم لوگ جدھر دولتِ دنیا ہے ادھر ہیں
اللہ سے کچھ کام نہیں بندۂ زر ہیں
حضرت نے کہا خیر خبردار صفوں سے
آیا غضب اللہ کا ہشیار صفوں سے
بجلی سا گزر جاؤں گا ہر بار صفوں سے
کب پنجتنی رکتے ہیں دو چار صفوں سے
عربت کے چلن دیکھ چکے، حرب کو دیکھو
لو بندۂ زر ہو، تو مری ضرب کو دیکھو
یاں گوشۂ عزلت، خمِ شمشیر نے چھوڑا
واں سہم کے چلے کو ہر ایک تیر نے چھوڑا
کس قہر سے گھر موت کی تصویر نے چھوڑا
ساحل کو صفِ لشکرِ بے پیر نے چھوڑا
عنقائے ظفر فتح کا در کھول کے نکلا
شہباز اجل، صید کو، پر تول کے نکلا
جلوہ کیا بدلی سے نکل کر مہِ نونے
دکھلائے ہوا میں دوسر، اک شمع کی لو نے
تڑپا دیا بجلی کو فرس کی تگ و دَو نے
تاکاسپر مہر کو شمشیر کی ضو نے
اعدا تو چھپانے لگے ڈھالوں پہ سروں کو
جبریل نے اونچا کیا گھبرا کے پروں کو
بالا سے جو آئی وہ بلا جانبِ پستی
بس نیست ہوئی دم میں ستم گاروں کی بستی
چلنے لگی یک دست جو شمشیر دو دستی
معلوم ہوا لٹ گئی سب کفر کی بستی
زور ان کے ہر اک ضرب میں اللہ نے توڑے
ٹوٹیں جو صفیں بت اسد اللہ نے توڑے
بجلی سی جو گِر کر صفِ کفار سے نکلی
آواز بزن تیغ کی جھنکار سے نکلی
گہہ ڈھال میں ڈوبی کبھی تلوار سے نکلی
در آئی جو پیکاں میں تو سو فار سے نکلی
تھے بند خطا کاروں پہ دا امن و اماں کے
چلے بھی چھپے جاتے تھے گوشوں میں کماں کے
افلاک پہ چمکی کبھی، سر پر کبھی آئی
کوندی کبھی جوشن پی، سپر پر کبھی آئی
گہہ پڑھ گئی سینہ پہ، جگر پر کبھی آئی
تڑپی کبھی پہلو پہ، کبھی کمر پر کبھی آئی
طے کر کے پھر کون سا قصہ تھا فرس کا
باقی تھا جو کچھ کاٹ، وہ حصہ تھا فرس کا
بے پاؤں جدھر ہاتھ سے چلتی ہوئی آئی
ندی ادھر اک خوں کی ابلتی ہوئی آئی
دم بھر میں سو سورنگ بدلتی ہوئی آئی
پی پی کے لہو لعل اگلتی ہوئی آئی
ہیرا تھا بدن، رنگ زمرد سے ہرا تھا
جوہر نہ کہو پیٹ جواہر سے بھرا تھا
زیبا تھا دمِ جنگ پر ی وش اسے کہنا
معشوقِ بنی سرخ لباس اس نے جو پہنا
اس اوج پہ وہ سر کو جھکائے ہوئے رہنا
جوہر تھے کہ پہنے تھی دلہن پھولوں کا گہنا
سیب چمنِ خلد کی بو باس تھی پھل میں
رہتی تھی وہ شبیر سے دولہا کی بغل میں
سر ٹپکے تو موج اس کی روانی کو نہ پہونچے
قلزم کا بھی دھارا ہو تو پانی کو نہ پہونچے
بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہونچے
خنجر کی زباں تیغ زبانی کو نہ پہونچے
دوزخ کی زبانوں سے بھی آنچ اس کی بری تھی
برچھی تھی، کٹاری تھی، سر وہی تھی، چھری تھی
موجود بھی ہر غول میں اور سب سے جدا بھی
دم خم بھی، لگاوٹ بھی، صفائی بھی، ادا بھی
اک گھاٹ پہ تھی آگ بھی، پانی بھی، ہوا بھی
امرت کا بھی، ہلاہل بھی، مسیحا بھی، قضا بھی
کیا صاحب جوہر تھی عجب ظرف تھا اس کا
موقع تھا جہاں جس کا وہیں صرف تھا اس کا
ہرڈھال کے پھولوں کو اڑاتا تھا پھل اس کا
تھا لشکرِ باغی میں ازل سے عمل اس کا
ڈر جاتی تھی منہ دیکھ کے ہر دم اجل اس کا
تھا قلعۂ چار آئینہ، گویا عمل اس کا
اس در سے گئی کھول کے وہ در نکل آئی
گہہ صدر میں بیٹھی، کبھی باہر نکل آئی
نیزوں پہ گئی برچھیوں والوں کی طرف سے
جا پہونچی کماں داروں پہ پھالوں کی طرف سے
پھر آئی سواروں کے رسالوں کی طرف سے
منہ تیغوں کی جانب کیا ڈھالوں کی طرف سے
بس ہو گیا دفتر نظری، نام و نسب کا
لاکھوں تھے، تو کیا دیکھ لیا جائزہ سب کا
پہونچی جو سپر تک تو کلائی کو نہ چھوڑا
ہر ہاتھ میں ثاب کسی گھائی کو نہ چھوڑا
شوخی کو، شرارت کو، لڑائی کو نہ چھوڑا
تیزی کو، رکھائی کو، صفائی کو نہ چھوڑا
اعضائے بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے
قینچی سی زباں چلتی تھی فقرے تھے غضب کے
چار آئینہ والوں کو نہ تھا جنگ کا یارا
چو رنگ تھے سینے تو کلیجہ تھا دو پارا
کہتے تھے زرہ پوش نہیں جنگ کا یارا
بچ جائیں تو جانیں کہ ملی جان دوبارہ
جوشن کو سنا تھا کہ حفاظت کا محل ہے
اس کی نہ خبر تھی کہ یہی دامِ اجل ہے
بد کشی لڑائی کا چلن بھول گئے تھے
نادک فگنی تیر فگن بھول گئے تھے
سب حیلہ گری، عہد شکن بھول گئے تھے
بے ہوشی میں ترکش کا دہن بھو گئے تھے
معلوم نہ تھا جسم میں جاں ہے کہ نہیں ۃے
چلاتے تھے قبضے میں کماں ہے کہ نہیں ہے
ڈر ڈر کے قدِ راست سنانوں نے جھکائے
دب دب کے سرِ عجز کمانوں نے جھکائے
ہٹ ہٹ کے علم، رن میں جوانوں نے جھکائے
سر خاک پہ گرگر کے نشانوں نے جھکائے
غل تھا کہ پناہ، اب ہمیں یا شاہِ زماں دو
پھیلائے تھے دامن کو، پھریرے، کہ اماں دو
شہ کہتے تھے ہے باڑھ پہ دریا نہ رکے گا
اس موج پہ آفت کا طمانچہ نہ رکے گا
بے فتح و ظفر، دلبر زہرا نہ رکے گا
تاغرق نہ فرعون ہو، موسیٰؑ نہ رکے گا
ہے بحرِ غضب نام ہے قہر صمد اس کا
رکنے کا نہیں شام تلک جزر و مد اس کا
اس صف سے گئے بیچ سے اس غول کے نکلے
جو فوج چھڑی منہ پہ اسے رول کے نکلے
انبوہ سے یوں تیغِ دوسر تول کے نکلے
گویا درِ خیبر کو، علی کھول کے نکلے
دنیا جو بچی، روحِ محمدؐ کا سبب تھا
شبیر اگر رحم نہ کرتے تو غضب تھا
لڑتے تھے مگر غی
اے ابرِ کرم خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دَم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
اقلیم سخن میرے قلم رَو سے نہ جائے
اس باغ میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری
بلبل کی زباں پر ہے تری شکر گزاری
ہر نخل برومند ہے یا حضرتِ باری
پھل ہم کو بھی مل جائے ریاضت کا ہماری
وہ کل ہوں عنایت چمن طبعِ نِکو کو
بلبل نے بھی سونگھا نہ وہ جن پھولوں کی بو کو
غواص طبیعت کو عطا کر وہ لالیٰ
ہو جن کی جگہ تاجِ سرِ عرش پہ خالی
ایک ایک لڑی نظمِ ثریا سے ہو عالی
عالم کی نگاہوں سے گرے قطبِ شمالی
سب ہوں دریکتا نہ علاقہ ہو کسی سے
نذر ان کی یہ ہوں گے جنہیں رشتہ ہے نبی سے
بھر دے درِ مقصود سے اس درجِ وہاں کو
دریائے معانی سے بڑھا طبع رواں کو
آگاہ کر اندازِ تکلم سے زباں کو
عاشق ہو فصاحت بھی وہ دے حسن بیاں کو
تحسیں کا سموت سے غل تابہ سمک ہو
ہرگوش بنے کانِ ملاحت وہ نمک ہو
تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آپ تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہرِ منور سے ملا دوں
خاروں کو نزاکت میں گلِ تر سے ملا دوں
گلدستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
گر بز کی جانب ہو توجہ دمِ تحریر
کھنچ جائے ابھی گلشنِ فردوس کی تصویر
دیکھے نہ کبھی صحبت انجم فلک پیر
ہوجائے ہوا بزمِ سلیماں کی بھی توقیر
یوں تختِ حسینان معانی اتر آئے
ہر چشم کو پریوں کا اکھاڑا نظر آئے
ساقی کے کرم سے ہو وہ دور اور چلیں جام
جس میں عوضِ نشہ ہو کیفیت انجام
ہر مست، فراموش کرے گردشِ ایام
صوفی کی زباں بھی نہ رہے فیض سے ناکام
ہاں بادہ کشو پوچھ لو میخانہ نشیں سے
کوثر کی یہ موج آ گئی ہے خلدِ بیرں سے
آؤں طرفِ رزم ابھی چھوڑ کے جب بزم
خیبر کی خبر لائے مری طبعِ اولو العزم
قطعِ سرِ اعداد کا ارادہ ہو جو بالجزم
دکھلائے یہں سب کو زباں معرکۂ رزم
جل جائیں عدد آگ بڑھکتی نظر آئے
تلوار پہ تلوار چمکتی نظر آئے
مصرع ہوں صف آرا سفتِ لشکرِ جرار
الفاظ کی تیزی کو نہ پہونچے کوئی تلوار
نقطے ہوں جو ڈھالیں تو الفِ خنجر خونخوار
مَد آگے بڑھیں برچھیوں کو تول کے اک بار
غل ہو کبھی یوں فوج کو لڑتے نہیں دیکھا
مقتل میں رن ایسا کبھی پڑتے نہیں دیکھا
ہو ایک زباں ماہ سے تامسکن ماہی
عالم کو دکھا دے برشِ سیفِ الہٰی
جرأت کا دھنی تو ہے یہ چلائیں سپاہی
لاریب ترے نام پہ ہے سکۂ شاہی
ہر دم یہ اشارہ ہو دوات اور قلم کا
تو مالک و مختار ہے اس طبل و علم کا
تائید کا ہنگام ہے یا حیدرؑ صفدر
امداد ترا کام ہے یا حیدرؑ صفدر
تو صاحبِ اکرام ہے یا حیدرؑ صفدر
تیرا بھی کرم عام یا حیدرؑ صفدر
تنہا ترے اقبال سے شمشیر بکف ہوں
سب ایک طرف جمع ہوں میں ایک طرف ہوں
نا قدریئ عالم کی شکایت نہیں مولا
کچھ دفترِ باطل کی حقیقت نہیں مولا
باہم گل و بلبل میں محبت نہیں مولا
میں کیا ہوں کسی روح کو راحت نہیں مولا
عالم ہے مکدر، کوئی دل صاف نہیں ہے
اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے
نیک و بدِ عالم کا تامل نہیں کرتے
عارف کبھی اتنا بھی تجاہل نہیں کرتے
خاروں کے لئے رخ طرفِ گل نہیں کرتے
تعریف خوش الحانی بلبل نہیں کرتے
خاموش ہیں، گو شیشہ دل چور ہوئے ہیں
اشکوں کے ٹپک پڑنے سے مجبور ہوئے ہیں
الماس سے بہتر یہ سمجھتے ہیں خذف کو
در کو تو گھٹاتے ہیں، بڑھاتے ہیں صدف کو
اندھیر یہ ہے چاند بتاتے ہیں کلف کو
کھو دیتے ہیں شیشے کے لئے درِ نجف کو
ضائع ہیں درو لعل بد خشاں و عدن کے
مٹی میں ملاتے ہیں جواہر کو سخن کے
ہے لعل و گہر سے یہ دہن کانِ جواہر
ہنگامِ سخن کھلتی ہے، دکانِ جواہر
ہیں بد مرضع تو ورق خواں جواہر
دیکھے اسے، ہاں ہے کوئی خواہانِ جواہر
بینائے رقومات ہنر چاہئے اس کو
سودا ہے جواہر کا، نظر چاہئے اس کو
کیا ہو گئے وہ جو ہریانِ سخن اک بار
ہر وقت جو اس جنس کے رہتے تھے طلب گار
اب ہے کوئی طالب نہ شناسا نہ خریدار
ہے کون دکھائیں کسے یہ گوہرِ شہوار
کس وقت یہاں چھوڑ کے ملکِ عدم آئے
جب اٹھ گئے بازار سے گاہک تو ہم آئے
خواہاں نہیں یا قوتِ سخن کا کوئی، گو آج
ہے آپ کی سرکا تو یا صاحبِ معراج
اے باعثِ ایجادِ جہاں، خلق کے سرتاج
ہوجائے گا دم بھر میں غنی بندۂ محتاج
امید اسی گھر کی، وسیلہ اسی اسی گھر کا
دولت یہی میری، یہی توشہ ہے سفر کا
میں کیا ہوں مری طبع ہے کیا اے شبہ ساہان
حسان و فرزدق ہیں یہاں عاجز وحیراں
شرمندہ زمانے سے گئے وامل و سحباں
قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں
کیا مدح کفِ خاک سے ہو نور خدا کی
لکنت یہیں کرتی ہیں زبایں فصحا کی
لا یعلم ولا علم کی کیا سحر بیانی
حضرت پہ ہویدا ہے، مری ہیچ مدانی
نہ ذہن میں جودت، نہ طبیعت میں روانی
گویا ہوں، فقط ہے یہ تری فیض رسانی
میں کیا ہوں فرشتوں کی طلاقت ہے تو کیا ہے
وہ خاص یہ بندے ہیں کہ مداح خدا ہے
تھا جوش کچھ ایسا ہی جو دعویٰ کیا میں نے
خود سربہ گریباں ہوں کہ، یہ کیا کیا میں نے
اک قطرۂ نا چیز کو دریا کیا میں نے
تقصیر بحل کیجئے، بے جا کیا میں نے
ہاں سچ ہے کہ اتنی بھی تعلّی نہ روا تھی
مولا یہ کلیجے کے پھپھولوں کی دوا تھی
مجرم ہوں، کبھی ایسی خطا کی نہیں میں نے
بھولے سے بھی آپ اپنی ثنا کی نہیں میں نے
دل سے کبھی مدحِ اُمرا کی نہیں میں نے
تقلید کلامِ جہلا کی نہیں میں نے
نازاں ہوں محبت پہ امامِ ازلی کی
ساری یہ تعلّی ہے حمایت سے علیؑ کی
ہر چند زباں کیا مری اور کیا مری تقریر
دن رات وظیفہ ہے ثنا خوانئ شبیرؑ
منظور ہے اک باب میں دو فصل کی تحریر
مولا کی مدد کا متمنی ہے یہ دل گیر
یہ فصل نئے رنگ سے کاغذ پہ رقم ہو
اک بزم ہو شادی کی تو اک صحبتِ غم ہو
شعباں کی ہے تاریخِ سویم روزِ ولادت
اور ہے دہم ماہِ عزا یوم شہادت
دونوں میں بہر حال ہے تحصیلِ سعادت
وہ بھی عملِ خیر ہے یہ بھی ہے عبادت
مدّاح ہوں کیا کچھ نہیں اس گھر سے ملا ہے
کوثر ہے صلا اس کا بہشت اس کا صلا ہے
مقبول ہوئی غرض، گنہ عفو ہوئے سب
امید بر آئی مرا حاصل ہوا مطلب
شامل ہوا افضالِ محمدؐ کرمِ رب
ہوتے ہیں علم فوجِ مضامیں کے نشاں اب
پستی پہ ہیں سب رکنِ رکیں دینِ متیں کے
ڈنکے سے ہلا دیتا ہوں طبقوں کو زمیں کے
نازاں ہوں عنایت پہ شہنشاہِ زمن کی
بخشی ہے رضا جائزہ فوجِ سخن کی
چہرے کی بحالی سے قبا چست ہے تن کی
لو برطرفی پڑ گئی مضمون کہن کی
اک فرد پرائی نہیں دفتر میں ہمارے
بھرتی ہے نئی فوج کی لشکر میں ہمارے
ہاں اے فلکِ پیر نئے سر سے جواں ہو
اے ماہِ شبِ چار دہم نور فشاں ہو
اے ظلمتِ غم دیدۂ عالم سے نہاں ہو
اے روشنیِ صبح شبِ عید عیاں ہو
شادی ہے ولادت کی یداللہ کے گھر میں
خورشید اترتا ہے شہنشاہ کے گھر میں
اے شمس و قمر، اور قمر ہوتا ہے پیدا
نخلِ چمنِ دیں کا ثمر، ہوا ہے پیدا
مخدومۂ عالم کا پسر، ہوتا ہے پیدا
جو عرش کی ضو ہے، وہ گہر ہوتا ہے پیدا
ہر جسم میں جاں آتی ہے مذکور سے جس کے
نو نورِ خدا ہوں گے عیاں، نور سے جس کے
اے کعبۂ ایماں، تری حرمت کے دن آئے
اے رکنِ یمانی، تری شوکت کے دن آئے
اے بیتِ مقدس، تری عزت کے دن آئے
اے چشمۂ زمزم، تری چاہت کے دن آئے
اے سنگِ حرم، جلوہ نمائی ہوئی تجھ میں
اے کوہِ صفا، اور صفائی ہوئی تجھ میں
اے یثرب و بطحا، ترے والی کی ہے آمد
اے رتبۂ اعلیٰ، شہہ عالی کی ہے آمد
عالم کی تغیری پہ بحالی کی ہے آمد
کہتے ہیں چمن، ماہِ جلالی کی ہے آمد
یہ خانۂ کعبہ کے مباہات کے دن ہیں
یعقوبؑ سے یوسفؑ کی ملاقات کے دن ہیں
اے ارضِ مدینہ، تجھے فوق اب ہے فلک پر
رونق جو سما پر ہے، وہ اب ہوگی سمک پر
خورشید ملا، تیرا ستارہ ہے، چمک پر
صدقے گلِ تر ہے تری پھولوں کی مہک پر
پر جس پہ فرشتوں کے بچھیں فرش وہی ہے
جس خاک پہ ہو نورِ خدا عرش وہی ہے
یا ختمِ رسل گوہرِ مقصود مبارک
یا نورِ خدا رحمتِ معبود مبارک
یا شاہِ نجف شادیِ مولود مبارک
یا خیرالنساؑ ، اخترِ مسعود مبارک
رونق ہو سدا نور دوبالا رہے گھر میں
اس ماہِ دو ہفتہ کا اجالا رہے گھر میں
اے امتیو ہے یہ دم شکر گزاری
ہر بار کرو سجدۂ شکریہِّ باری
اللہ نے حل کردیا مشکل کو تمہاری
فردیں عملِ زشت کی اب چاک ہیں ساری
لکھے گئے بندوں میں ولی ابن ولی کے
ناجی ہوئے صدقے سے حسینؓ ابن علیؓ کے
اے ماہِ معظم ترے اقبال کے صدقے
شوکت کے فدا عظمت و اجلال کے صدقے
اتری برتک، فاطمہ کے لال کے صدقے
جس سال یہ پیدا ہوئے اس سال کے صدقے
قرباں سحر عید آگر ہو تو بجا ہے
نو روز بھی اس شب کی بزرگی پر فدا ہے
قربان شبِ جمعہ، شعبانِ خوش انجام
پیدا ہوا جس شب کو محمدؐ کا گل اندام
قائم ہوا دیں اور بڑھی رونقِ اسلام
ہم پلّۂ صبحِ شبِ معراج تھی وہ شام
خورشید کا اجلال و شرف بدر سے پوچھو
کیا قدر تھی اس شب کی شبِ قدر سے پوچھو
وہ نورِ قمر اور در افشانیئ انجم
تھے جس کے سبب روشنی دیدۂ مردم
وہ چہچہے رضواں کے، وہ حوروں کا تبسم
آپس میں وہ ہنس ہنس کے فرشتوں کا تکلم
میکال شگفتہ ہوئے جاتے تھے خوشی سے
جبریل تو پھولوں نہ سماتے تھے خوشی سے
روشن تھا مدینے ک اہر اک کوچہ و بازار
جو راہ تھی خوشبو، جو محلہ تھا وہ گلزار
کھولے ہوئے تھا آہوئے شب نافۂ تاتار
معلوم یہ ہوتا تھا کہ پھولو کا ہے انبار
گردوں کو بھی اک رشک تھا زینت پہ زمیں کی
ہر گھر میں ہوا آتی تھی فردوس بریں کی
کیا شب تھی وہ سعود و ہمایون و معظم
رخ رحمتِ معبود کا تھ جانبِ عالم
جبریل و سرافیل کو مہلت نہ تھی اک دم
بالائے زمیں آتے تھے اور جاتے تھے باہم
باشندوں کی یثرب کے خبر تھی نہ گھروں کی
سب سنتے تھے آواز فرشتوں کے پروں کی
تھیں فاطمہؓ بے چین ادھر دردِ شکم سے
منہ فق تھا اور آنسو تھے رواں دیدۂ نم سے
وابستہ تھی راحت جو اسی بی بی کے دم سے
مضطر تھے علیؓ بنتِ پیمبرؐ کے الم سے
آرام تھا اک دم نہ شہِ قلعہ شکن کو
پھرتے تھے لگائے ہوئے چھاتی سے حسنؑ کو
کرتے تھے دعا بادشہِ یثرب و بطحا
راحم ہے تری ذاتِ مقدس مرے مولا
زہرا ہے کنیز اور مرا بچہ ترا بندا
آسان کر اے بار خدا مشکل زہرا
نادار ہے اور فاقہ کش و زار و حزیں ہے
مادر بھی تشفی کے لئے پاس نہیں ہے
ناگاہ درِ حجرہ ہوا مطلع انوار
دکھلانے لگے نو تجلی در و دیوار
اسما نے علی سے یہ کہا دوڑ کے اک بار
فرزند مبارک تمہیں یا حیدر کرار
اسپند کرو فاطمہ کے ماہِ جبیں پر
فرزند نہیں چاند یہ اترا ہے زمیں پر
دیکھا نہیں اس طرح کا چہرا کبھی پیارا
نقشہ ہے محمدؐ سے شہنشاہ کا سارا
ماتھے پہ چمکتا ہے جلالت کا ستارا
اللہ نے اس گھر میں عجب چاند اتارا
تصویرِ رسولِ عربیؐ دیکھ رہے ہیں
آنکھوں کی ہے گردش کہ بنی دیکھ رہے ہیں
مژدہ یہ سنا احمدؐ مختار نے جس دم
پس شکر کے سجدے کو گرے قبلۂ عالم
آئے طرفِ خانۂ زہرا خوش و خرم
فرمایا مبارک پسرائے ثانیِ مریم
چہرہ مجھے دکھلادو مرے نورِ نظر کا
ٹکڑا ہے یہ فرزندِ محمدؐ کے جگر کا
کی عرض یہ اسما نے کہ اے خاصۂ داور
نہلا لوں تو لے آؤں اسے حجرے سے باہر
ارشاد کیا احمدِؐ مختار نے ہنس کر
لے آ کہ نواسا ہے مرا طاہر و اطہر
اس چاند کو تاجِ سرِ افلاک کیا ہے
یہ وہ ہے، خدا نے جسے خود پاک کیا ہے
میں اس سے ہوں اور مجھ سے ہے یہ تو نہیں باہر
یہ نورِ الہٰی ہے یہ ہے طیب و طاہر
اسرار جو مخفی ہیں وہ اب ہوئیں گے ظارہ
یہ آیتِ ایماں ہے یہ ہے حجتِ باہِر
بڑھ کر مدد سید لولاک کرے گا
کفار کے قصے کو یہی پاک کرے گا
جس دم یہ خبر مخبر صادق نے سنائی
اسما اسے اک پارچۂ نرم پہ لائی
بو اس گلِ تازہ کی محمدؐ نے جو پائی
ہنسنے لگ، سرخی رخِ پرنور پہ آئی
منہ چاند سا دیکھا جو رسولِؐ عربی نے
لپٹا لیا چھاتی سے نواسے کو نبیؐ نے
جاں اغئی یعقوبؑ نے یوسفؑ کو جو پایا
قرآں کی طرح رحلِ دو زانو پہ بٹھایا
منہ ملنے لگے منہ سے بہت پیار جو آیا
بوسے لئے اور ہاتھوں کو آنکھوں سے لگایا
دل ہل گیا کی جب کہ نظر سینہ و سر پر
چوما جو گلا، چل گئی تلوار جگر پر
جوش آیا تھا رونے کا مگر تھام کے رقت
اس کان میں فرمائی اذاں اس میں اقامت
حیدر سے یہ فرمایا کہ اے شاہِ ولایت
کیوں تم نے بھی دیکھی مرے فرزند کی صورت
پر نور ہے گھر، تو کو ملا ہے قمر ایسا
دنیا میں کسی نے نہیں پایا پسر ایسا
کیوں کر نہ ہو تم سا پدر اور فاطمہؓ سی ماں
دو شمس و قمر کا ہے یہ اک نیر تاباں
کی عرض یہ حیدر نے کہ اے قبلۂ ایماں
حق اس پہ رکھے سایۂ پیغمبر ذی شاں
اعلیٰ ہے وہ سب سے جو مقامِ شہ دیں ہے
بندہ ہوں میں اور یہ بھی غلامِ شہ دیں ہے
عالم میں ہے یہ سب برکت آپ کے دم سے
سرسبزی دنیا ہے اسی ابر کرم سے
تا عرش پہونچ جاتا ہے سر فیضِ قدم سے
عزت ہے غلاموں کی شہنشاہ امم سے
کچھ اس میں نہ زہرا کا ہے باعث نہ علی کا
سب ہے یہ بزرگی کہ نواسا ہے نبی کا
فرمانے لگے ہنس کے شہِ یثرب و بطحا
بھائی کہو فرزند کا کچھ نام بھی رکھا
کی عرض یہ حیدر نے کہ اے سید والا
سبقت کروں میں حضرت پہ، یہ مقدور ہے میرا
فرمایا کہ موقوف ہے یہ ربِّ عُلا پر
میں بھی سبقت کر نہیں سکتا ہوں خدا پر
بس اتنے میں نازل ہوئے جبریل خوش انجام
کی عرض کہ فرماتا ہے یہ خالقِ علام
پیارا ہے نہایت ہمیں زہرا کا گل اندام
یا ختمِ رسل ہم نے ’’حسین‘‘ اس کا رکھا نام
یہ حسن میں سردار حسینانِ زمن ہے
مشتق ہے تو احسان سے تصغیر حسن ہے
ح سے یہ اشارہ کہ یہ ہے حامیِ امت
سمجھیں گے اسی سین کو سب سینِ سعادت
یَ اس کی بزرگی میں یٰسین کی آیت
ہے نون سے ظاہر کہ یہ ہے نورِ نبوت
ناجی ہے وہ اس نام کو لے
یہ حسن میں دس حصے زیادہ ہے حسن سے
دو نور کے دریا کو جو ہم نے کیا اک جا
تب اس سے ہوا گوہرِ نایاب یہ پیدا
توقیر میں بے مثل، شجاعت میں ہے یکتا
اب اور نہ ہو گا کوئی اس حسن کا لڑکا
ہم جانتے ہیں جو نہیں ظاہر ہے کسی پر
کام اس سے جو لینا ہے وہ ہے ختم اسی پر
فیاض نے کونین کی دولت اسے دی ہے
دی ہے جو علیؓ کو وہ شجاعت اسے دی ہے
صبر اس کو عنایت کیا، عزت اسے دی ہے
ان سب کے سوا اپنی محبت اسے دی ہے
اعلیٰ ہے، معظم ہے، مکرم ہے، ولی ہے
ہادی ہے، وفادار ہے، زاہد ہے سخی ہے
جب کر چکے ذکرِ کرم مالکِ تقدیر
جبریلؑ نے پاس آن کے دیکھا رخِ شپیرؐ
کی صلِّ علیٰ کہہ کے محمدؐ سے یہ تقریر
یا شاہ، یہ مہرو تو ہے صاف آپ کی تصویر
جب کہ ہے زیارت پئے تسلیم جھکے ہیں
اس نور کو ہم عرش پہ بھی دیکھ چکے ہیں
ہے اس پہ ازل سے نظرِ رحمتِ معبود
یہ پیشتر آدم سے بھی تھا عرش پہ موجود
ہے ذاتِ خدا صاحبِ فیض و کرم وجود
تھا خلق دو عالم سے یہی مطلب و مقصود
مظلومی و غربت ہے عجب نام پہ اس کے
سب روتے ہیں اور روئیں گے انجام پہ اس کے
یہ ہے سبب تہنیت و تعزیت اس دم
ہے شادی و غم گلشن ایجاد میں توام
لپٹائے ہیں چھاتی سے جسے قبلۂ عالم
بے جرم و خطا ذبح کریں گے اسے اظلم
گر حشر بھی ہوگا تو یہ آفت نہ ٹلے گی
سجدے میں چھری حلقِ مبارک پہ چلے گی
ہوگا یہ محرم میں ستم اے شہہ ذی جاہ
چھپ جائے گا آنکھوں سے اسی چاند میں یہ ماہ
تاریخ دہم جمعہ کے دن عصر کے وقت آہ
نیزے پہ چڑھائیں گے سرِ پاک کو گمراہ
کٹ جائے جب سر تو ستم لاش پہ ہوں گے
گھوڑوں کے قدم سینۂ صد پاش پہ ہوں گے
چلائے محمد کہ میں بسمل ہوا بھائی
اے وائے اخی کیا یہ خبر مجھ کو سنائی
دل ہل گیا برچھی سی کلیجے میں در آئی
یہ واقعہ سن کر نہ جئے گی مری جائی
ممکن نہیں دنیا میں دوا زخمِ جگر کی
کیوں کر کہوں زہرا سے خبر مرگِ پسر کی
جس وقت سنی فاطمہؓ نے یہ خبرِ غم
شادی میں دلادت کی بپا ہوگیا ماتم
چلاتی تھی سرپیٹ کے وہ ثانیِ مریم
بیٹی پہ چھری چل گئی یا سیدِ عالم
خنجر کے تلے چاندسی تصویر کی گردن
کٹ جائے گی ہے ہے مرے شپیر کی گردن
ہے ہے کئی دن تک نہ ملے گا اسے پانی
ہے ہے یہ سہے گا تعبِ تشنہ دہانی
ہو جائیں گے اِک جان کے سب دشمنِ جانی
ہے ہے مرا محبوب، مرا یوسفِ ثانی
پیراہنِ صد چاک کفن ہووے گا اس کا
سر نیزہ پہ اور خاک پہ تن ہوے گا اس کا
صبر اپنا دکھانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
یوں خلق سے جانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
جنگل کے بسانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
اماں کے رلانے کو یہ آئے ہیں جہاں میں
ہم چاند سی صورت پہ نہ شیدا ہوئے ہوتے
اے کاش مرے گھر میں نہ پیدا ہوئے ہوتے
دنیا مجھے اندھیر ہے اس غم کی خبر سے
شعلوں کی طرح آہ نکلتی ہے جگر سے
دامن پہ ٹپکتا ہے لہو دیدۂ تر سے
بس آج سفر کر گئی شادی مرے گھر سے
جس وقت تلک جیتی ہوں ماتم میں رہوں گی
مظلوم حسینؓ آج سے اس کو میں کہوں گی
بیٹی کو یہ معلوم نہ تھا یا شہِ عالم
بچھے گی زچہ خانے کے اندر صفِ ماتم
اب دن ہے چھٹی کا مجھے عاشورِ محرم
تارے بھی نہ دیکھے تھے کہ ٹوٹا فلک غم
پوشاک نہ بدلوں گی نہ سر دھوؤں گی بابا
چلے میں بھی چہلم کی طرح روؤں کی بابا
حیدر ہے کہاں آ کے دلاسا نہیں دیتے
زہراؓ کا برا حال ہے سمجھا نہیں دیتے
اس زخم کا مرہم مجھے بتلا نہیں دیتے
ہے ہے مجھے فرزند کا پرسا نہیں دیتے
حجرے میں الگ بیٹھے ہیں کیوں چھوڑ کے گھر کو
آواز تو سنتی ہوں کہ روتے ہیں پس کو
پھر دیکھ کے فرزند کی صورت یہ پکاری
اے میرے شہید اے مرے بیکس ترے واری
ہاں بعد مرے ذبح کریں گے تجھے ناری
بنتی ہوں ابھی سے میں عزادار تمہاری
دل اور کسی شغل میں مصروف نہ ہو گا
بس آج سے رونا مرا موقوف نہ ہو گا
مرجائیگا تو تشنہ دہن ہائے حسینا
ہو جائے گا ٹکڑے یہ بدن ہاے حسینا
اک جان پپہ یہ رنج و محن ہائے حسینا
کوئی تجھے دے گا نہ کفن ہائے حسینا
گاڑیں گے نہ ظالم تنِ صد پاش کو ہے ہے
رہواروں سے روندیں گے تری لاش کو ہے ہے
فرمایا محمدؐ نے کہ اے فاطمہؓ زہرا
کیا مرضیِ معبود سے بندے کا ہے چارہ
خالق نے دیا ہے اسے تہ رتبۂ اعلیٰ
جبریل سوا کوئی نہیں جاننے والا
میں بھی ہوں فدا اس پہ کہ یہ فدیۂ رب ہے
یہ لال ترا بخشش امت کا سبب ہے
اس بات کا غم ہے اگر اے جانِ پیمبرؐ
بے دفن و کفن رن میں رہے گا ترا دلبر
جب قید سے ہووے گا رہا عابدِ مظطر
تگربت میں اسے دفن کرے گا وہی آ کر
ارواحِ رسولانِ زمن روئیں گی اس کو
سر پیٹ کے زینب سی بہن روئیں گی اس کو
جب چرخ پہ ہوئے گا عیاں ماہِ محرم
ہر گھر میں بپا ہوے گی اک مجلسِ ماتم
آئیں گے ملک عرش سے داں رونے کو باہم
ماتم یہ وہ ماتم ہے کہ ہوگا نہ کبھی کم
پر نور سدا اس کا عزا خانہ رہے گا
خورشید جہاں گرد بھی پروانہ رہے گا
کیا اوج ہے، کیا رتبہ ہے اس بزمِ عزا کا
غل عرش سے ہے فرش تلک صلِّ علیٰ کا
مشتاق ہے فردوزِ بریں یاں کی فضا کا
پانی میں بھی ہے یاں کی مزا آبِ بقا کا
دربارِ معلّیٰ ہے ولی ابنِ ولی کا
جاری ہے یہ سب فیض حسینؓ ابن علی کا
لوریاں سے بس اب مجلسِ ماتم کا بیاں ہے
وہ فصل خوشی ختم ہوئی غم کا بیاں ہے
مظلومیِ سلطانِ دو عالم کا بیاں ہے
ہنگامۂ عاشورِ محرم کا بیاں ہے
ہاں دیکھ لے مشتاق جو ہو فوجِ خدا کا
لوبزم میں کھلتا ہے مرقع شہدا کا
اے خضرِ بیابانِ سخن راہبری کر
اے نیرِ تابانِ خرد جلوہ گری کر
اے درد عطا لذتِ زخمِ جگری کر
اے خوفِ الٰہی مجھے عصیان سے بری کر
بندوں میں لکھا جاؤں امامِ ازلی کے
آزاد ہوں صدقے میں حسینؓ ابن علیؓ کے
قدسی کو نہیں بار، یہ دربار ہے کس کا
فردوس کو ہے رشک یہ گلزار ہے کس کا
سب جنسِ شفاعت ہے، یہ بازار ہے کس کا
خود بکتا ہے یوسفؑ یہ خریدار ہے کس کا
ملتی ہے کہاں مفت متاعِ حسن ایسی
دیکھی نہیں انجم نے کبھی انجمن ایسی
مجلس کا زہے نور خوشا محفلِ عالی
حیدر کے محبوں سے کوئی جا نہیں خالی
عاشق ہیں سب اس کے جو ہے کونین کا والی
اثنا عشری، پنجتنی، شیعۂ غالی
ششدر نہ ہو کیوں چرخ عجب جلوہ گری ہے
یہ بزمِ عزا آج ستاروں سے بھری ہے
ان میں جو مسن ہیں وہ پیمبر کے ہیں مہماں
اور جو متوسط ہیں، وہ حیدر کے ہیں مہماں
جو تازہ جواں ہیں، علی اکبر کے ہیں مہماں
شیعوں کے پسر سب علی اصغر کے ہیں مہماں
ہر خورد و کلاں عاشقِ شاہِ مدنی ہیں
پانچ انگلیوں کی طرح یہ سب پنجتنی ہیں
ارشادِ نبیؐ ہے کہ مددگار ہیں میرے
فرماتے ہیں حیدر کہ یہ غم خوار ہیں میرے
حضرت کا سخن ہے کہ عزادار ہیں میرے
میں ان کا ہوں طالب یہ طلب گار ہیں میرے
یہ آج اگر رو کے ہمیں یاد کریں گے
ہم قبر میں ان لوگوں کی امداد کریں گے
غم میں مرے بچوں کے یہ سب کرتے ہیں فریاد
اللہ سلامت رکھے ان لوگوں کی اولاد
بستی مرے شیعوں کی رہے خلق میں آباد
یہ حشر کے دن آتشِ دوزخ سے ہوں آزاد
مرتا ہے کوئی گر تو بکا کرتا ہوں میں بھی
ان کے لئے بخشش کی دعا کرتا ہوں میں بھی
مردم کے لئے واجب عینی ہے یہ زاری
رونا ہی وسیلہ ہے شفاعت کا ہماری
ہے وقتِ معین پہ ادا طاعتِ باری
یہ خیر ہے وہ خیر جو ہر وقت ہے جاری
رو لو کہ یہ وقت اور یہ صحبت نہ ملے گی
جب آنکھ ہوئی بند تو مہلت نہ ملے گی
مہلت جو اجل دے تو غنیمت اسے جانو
آمادہ ہو رونے پہ، سعادت اسے جانو
آنسو نکل آئیں تو عبادت اسے جانو
ایذا ہو جو محفل میں تو راحت اسے جانو
فاقے کئے ہیں دھوپ میں لب تشنہ رہے ہیں
آقا نے تمہارے لئے کیا ظم سہے ہیں
تکلیف کچھ ایسی نہیں سایہ ہے ہوا ہے
پانی ہے خنک مروحہِ کش بادِ صبا ہے
کچھ گرمیِ عاشورہ کا بھی حال سنا ہے
سر پیٹنے کا وقت ہے ہنگامِ بکا ہے
گذری ہے بیابان میں وہ گرمی شہِ دیں پر
بھن جاتا تھا دانہ بھی جو گرتا تھا زمیں پر
لوں چلتی تھی ایسی کہ جلے جاتے تھے اشجار
تھا عنصرِ خاکی پہ گمانِ کرۂ نار
پانی پہ دو دوام گرے پڑتے تھے ہر بار
سب خلق تو سیراب تھی پیاسے شہِ ابرار
خاک اڑ کے جمی جانی تھی زلفوں پہ قبا پر
اس دھوپ میں سایہ بیھ نہ تھا نورِ خدا پر
قطرے جو پسینے کے ٹپک پڑتے تھے ہر بار
ثابت یہی ہوتا تھا کہ ہیں اخترِ سیار
شاہد المِ فاقہ سے ہے زردیِ رخسار
بے آبی سے اودے تھے لبِ لعل گہر بار
رنیا میں ترستے رہے وہ آب رواں کو
جن ہونٹوں نے چوما تھا محمدؐ کی زباں کو
دنیا بھی عجب گھر ہے کہ راحت نہیں جس میں
وہ گل ہے یہ گل بوئے محبت نہیں جس میں
وہ دوست ہے یہ دوستِ مروت نہیں جس میں
وہ شہد ہے یہ شہد حلاوت نہیں جس میں
بے درد و الم شامِ غریباں نہیں گزری
دنیا میں کسی کی کبھی یکساں نہیں گزری
گودی ہے کبھی ماں کی کبھی قبر کا آغوش
کل پیرہن اکثر نظر آتے ہیں کفن پوش
سرگرمِ سخن ہے کبھی انساں کبھی خاموش
گہہ تخ ہے اور گاہ جنازہ بسرِ دوش
اک طور پہ دیکھا نہ جواں کو نہ مسن کو
شب کو تو چھپر کھٹ میں ہیں تابوت مین دن کو
شادی ہو کہ اندوہ ہو آرام ہو یا جور
دنیا میں گزر جاتی ہے انساں کو بہر طور
ماتم کی کبھی فصل ہے، عشرت کا کبھی دور
ہے شادی و ماتم کا مرقع جو کرو غور
کس باغ پہ آسیبِ خزاں آ نہیں جاتا
گل کون سا کھلتا ہے جو مرجھا نہیں جاتا
ہے عالمِ فانی کی عجب صبح عجب شام
گہہ غم کبھی شادی کبھی ایذا کبھی آرام
نازوں سے پلا فاطمہ زہراؓ کا گل اندام
وا حسرت و دردا کہ وہ آغاز یہ انجام
راحت نہ ملی گھر کے تلاطم سے دہم تک
مظلوم نے فاقے کئے ہفتم سے دہم تک
ریتی یہ عزیزوں کا مرقع تو ہے ابتر
شہ کا ہے یہ نقشہ کہ میں تصویر سے ششدر
فرزند نہ ملسم کے نہ ہمشیر کے دلبر
قاسم ہیں نہ عباس نہ اکبر ہیں نہ اصغر
سب نذر کو دربار پیمبر میں گئے ہیں
رخصت کو اکیلے شہہ دیں گھر میں گئے ہیں
منظور ہے پھر دیکھ لیں ہمشیر کی صورت
پھر لے گئی ہے گھر میں سکینہ کی محبت
سجاد سے کچھ کہتے ہیں اسرار امامت
بانووے دو عالم سے بھی ہے آخری رخصت
مطلوب ہے یہ زیبِ بدن رختِ کہن ہو
تا بعد شہادت وہی ملبوسِ کفن ہو
خیمے میں مسافر کا وہ آنا تھا قیامت
ایک ایک کو چھاتی سے لگانا تھا قیامت
آنا تو غنیمت تھا یہ جانا تھا قیامت
تھوڑا سا وہ رخصت کا زمانہ تھا قیامت
واں بین ادھر صبر و شکیبائی کی باتیں
افسانۂ ماتم تھیں بہن بھائی کی باتیں
حضرت کا وہ کہنا کہ بہن صبر کرو صبر
امت کے لئے والدہ صاحب نے سہے جبر
وہ کہتی تھی کیوں کر نہ میں روؤں صفتِ ابر
تم پہنو کفن اور نہ بنے ہائے مری قبر
لٹتے ہوئے اماں کا گھر ان آنکھوں سے دیکھوں
ہے ہے تہِ خنجر تمہیں کن آنکھوں سے دیکھوں
اس عمر میں تھوڑے غمِ جانکاہ اٹھائے
اشک آنکھوں سے اماں کے جنازے پہ بہائے
آنسو نہ تھمے تھے کہ پدر خوں میں نہائے
ٹکڑے دلِ شبیر کے لگن میں نظر آئے
حضرت کے سوا اب کوئی سر پر نہیں بھائی
انساں ہوں کلیجہ مرا پتھر نہیں بھائی
ہر شخص کو ہے یوں تو سفر خلق سے کرنا
دشوار ہے اک آن مسافر کا ٹھہرنا
ان آنکھوں سے دیکھا ہے بزرگوں کا گزرنا
ہے سب سے سوا ہائے یہ مظلومی کا مرنا
صدقے گئی یوں رن کبھی پڑتے نہیں دیکھا
اک دن میں بھرے گھر کو اجڑتے نہیں دیکھا
ہے ہے تمہیں لے کے میں کہاں چھپ رہوں بھائی
لٹتی ہے مرے چار بزرگوں کی کمائی
کس دشتِ پر آشوب میں قسمت مجھے لائی
یارب کہیں مر جائے ید اللہ کی جائی
زہراؓ کا پسر وقتِ جدائی مجھے روئے
سب کو تو میں روئی ہوں یہ بھائی مجھے روئے
زینب کی وہ زاری وہ سکینہ کا بلکنا
وہ ننھی سی چھاتی میں کلیجے کا دھڑکنا
وہ چاند سا منہ اور وہ بندے کا چمکنا
حضرت کا وہ بیٹی کی طرف یاس سے تکنا
حسرت سے یہ ظاہر تھا کہ معذور ہیں بی بی
پیدا تھا نگاہوں سے کہ مجبور ہیں بی بی
وہ کہتی تھی بابا ہمیں چھاتی سے لگاؤ
فرماتے تھے شہ آؤ نہ جانِ پدر آؤ
ہم کڑھتے ہیں لو آنکھوں سے آنسو نہ بہاؤ
خوشبو تو ذرا گیسوئے مشکیں کو سنگھاؤ
کوثر یہ ہے، تم بن نہیں آرام چچا کو
ہم جاتے ہیں کچھ دیتی ہو پیغام چچا کو
بی بی کہو کیا حال ہے اب ماں کا تمہاری
کس گوشے میں بیٹھی ہیں کہاں کرتی ہیں زاری
جب سے سوئے جنت گئی اکبر کی سواری
دیکھا نہ انہیں گھر میں ہم آئے کئی باری
تھی سب کی محبت انہیں بیٹے ہی کے دم تک
کیا آخری رخصت کو بھی آئیں گی نہ ہم تک
کس جا ہیں طلب ہم کو کریں یا وہی آئیں
ممکن نہیں اب وہ ہمیں یا ہم انہیں پائیں
کچھ ہم سے سنیں کچھ ہمیں حال اپنا بتائیں
اک دم کے مسافر ہیں ہمیں دیکھ تو جائیں
بعد اپنے یہ لوٹا ہوا گھر اور کٹے گا
افسوس کہ اک عمر کا ساتھ آج چھٹے گا
غش میں جو سنی بانوئے مضطر نے یہ تقریر
ثابت ہو مرنے کو چلے حضرت شبیر
سر ننگے اٹھی چھوڑ کے گہوارۂ بے شیر
چلائی مجھے ہوش نہ تھا یا شہِ دل گیر
جاں تن سے کوئی آن میں اب جاتی ہے آقا
یہ خادمہ رخصت کے لئے آتی ہے آقا
یہ سن کے بڑھے چند قدم شاہِ خوش اقبال
قدموں پہ گری دوڑ کے وہ کھولے ہوئے بال
تھا قبلۂ عالم کا بھی اس وقت عجب حال
روتے تھے غضب آنکھوں پہ رکھے ہوئے رومال
فرماتے تھے جانکاہ جدائی کا الم ہے
اٹھو تمہیں روحِ علی اکبر کی قسم ہے
وہ کہتی تھی کیوں کر میں اٹھوں اے مری سرتاج
والی انہیں قدموں کی بدولت ہے مرا راج
سر پر جو نہ ہوگا پسرِ صاحبِ معراج
چادر کے لئے خلق میں جاؤں گی محتاج
چھوٹے جو قدم مرتبہ گھٹ جائے گا میرا
قربان گئی تخت الٹ جائے گا میرا
یاں آئی میں جب خانۂ کسریٰ ہوا برباد
وہ پہلی اسیری کی اذیت ہے مجھے یاد
کی عقدہ کشائے دو جہاں نے مری امداد
حضرت کے تصدق میں ہوئی قید سے آزاد
لونڈی تھی، بہو ہو گئی زہراؓ و علیؓ کی
قسمت نے بٹھایا مجھے مسند پہ نبیؐ کی
چھبیس برس تک نہ چھٹا آپ کا پہلو
اب ہجر ہے تقدیر میں یا سید خوش خو
شب بھر رہے تکیہ سرِ اقدس کا جو بازو
ہے ہے اسے اب رسی سے باندھیں گے جفا جو
سر پر نہ ردا ہوگی تو مر جاؤں گی صاحب
چھپنے کو میں جنگل میں کدھر جاؤں گی صاحب
حضرت نے کہا کس کا سدا ساتھ رہا ہے
ہر عاشق و معشوق نے یہ داغ سہا ہے
دارِ محن اس دار کو داور نے کہا ہے
ہر چشم سے خونِ جگر اس غم میں بہا ہے
فرقت میں عجب حال تھا خالق کے ولی کا
ساتھ آٹھ برس تک رہا زہراؓ و علیؓ کا
سو سو برس اس گھر میں محبت سے رہے جو
اس موت نے دم بھر میں جدا کر دیا ان کو
کچھ مرگ سے چارہ نہیں اے بانوئے خوش خو
ہے شاق فلک کو کہ رہیں ایک جگہ دو
کس کس پہ زمانے نے جفا کی نہیں صاحب
اچھوں سے کبھی اس نے وفا کی نہیں صاحب
لازم ہے خدا سے طلبِ خیر بشر کو
تھامے گا تباہی میں وہی رانڈ کے گھر کو
آنا ہے تمہیں بھی وہیں جاتے ہیں جدھر کو
وارث کی جدائی میں پٹکتے نہیں سر کو
کھولے گا وہی رسی بندھے ہاتھ تمہارے
سجاد سا بیٹا ہے جواں ساتھ تمہارے
زینب کو تو دیکھو کہ ہیں کس دکھ میں گرفتار
ایسا کوئی اس گھر میں نہیں بے کس و ناچار
تنہا ہیں کہ بے جاں ہوے دو چاند سے دلدار
دنیا سے گیا اکبرِ ناشاد ساغم خوار
بیٹے بھی نہیں گود کاپالا بھی نہیں ہے
ان کو تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے
یہ کہہ کے کچھ آہستہ کہا گوشِ پسر میں
بیمار کے رونے سے قیامت ہو گئی گھر میں
اندھیر زمانہ ہوا بانو کی نظر میں
غش ہو گئی زینبؓ یہ اتھا درد جگر میں
ٹھہر نہ گیا واں، شہِ والا نکل آئے
تنہا گئے روتے ہوئے تنہا نکل آئے
کچھ پڑھ کے پھرے جانبِ قبلہ شہہ بے پر
کج کی طرفِ دوشِ یمیں گردنِ انور
تھراتے ہوئے ہاتھوں پہ عمامے کو رکھ کر
کی حق سے مناجات کہ اے خالقِ اکبر
حرمت ترے محبوب کی دنیا میں بڑی ہے
کر رحم کہ آل ان کی تباہی میں پڑی ہے
یارب یہ ہے سادات کا گھر تیرے حوالے
رانڈیں ہیں کئی کستہ جگر تیرے حوالے
بیکس کا ہے بیمار پسر تیرے حوالے
سب ہیں ترے دریا کے گہر تیرے حوالے
عالم ہے غربت میں گرفتاری بلا ہوں
میں تیری حمایت میں انہیں چھوڑ چلا ہوں
میرے نہیں، بندے ہیں ترے اے مرے خالق
بستی ہو کہ جنگل توہی حافظ تو ہی رازق
باندھے ہیں کمر ظلم و تعدی پہ منافق
نے دوست ہے دنیا، نہ زمانہ ہے موافق
حرمت ہے ترے ہاتھ امامِ ازلی کی
دو بیٹیاں، دو بہوئیں ہیں اس گھر میں علی کی
میں یہ نہیں کہتا کہ اذیت نہ اٹھائیں
یا اہلِ ستم آگ سے خیمے نہ جلائیں
ناموس لٹیں قید ہوں اور شام میں جائیں
مہلت مرے لاشے پہ بھی رونے کی نہ پائیں
بیڑی میں قدم طوق میں عابد کا گلا ہو
جس میں ترے محبوب کی امت کا بھلا ہو
یہ کہہ کے گریبانِ مبارک کو کیا چاک
اور ڈال لی پیراہن پر نور پہ کچھ خاک
میت ہونے شبیر کفن بن گئی پوشاک
بس فاتحۂ خیر پڑھا بادلِ غم ناک
مڑکر نہ کسی دوست نہ غم خوار کو دیکھا
پاس آئے تو روتے ہوئے رہوار کو دیکھا
گردان کے دامن علی اکبر کو پکارے
تھامو مرے گھوڑے کا رکاب اے مرے پیارے
لختِ دلِ شبیر کدھر اس وقت سدھارے
بھائی ہیں کہاں ہاتھ میں دیں ہاتھ ہمارے
آتے نہیں مسلم کے جگر بند کہاں ہیں
دونوں مری ہمشیر کے فرزند کہاں ہیں
تنہائی میں اک ایک کو حضرت نے پکارا
کون آئے کہ فردو میں تھا قافلہ سارا
گھوڑے پہ چھڑا خود اسد اللہ کا پیارا
اونچا ہوا افلاکِ امامت کا ستارا
شوخی سے فرس پاؤں نہ رکھتا تھا زمیں پر
غل تھا کہ چلا قطبِ زماں عرشِ بریں پر
شبدیز نے چھل بل میں عجب ناز دکھایا
ہر گام پہ طاؤس کا انداز دکھایا
زیور نے عجب حسنِ خداداد دکھایا
فتراک نے اوجِ پرِ پرواز دکھایا
تھا خاک پہ اک پاؤں تو اک عرشِ بریں پر
غل تھا کہ پھر اترا ہے براق آج زمیں پر
اعداد کی زبانوں پر یہ حیرت کی تھی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تولے ہوئے شمشیر
دیکھوں نہ مٹاؤ مجھے اے فرقۂ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر
واللہ تعلّی نہیں یہ کلمۂ حق ہے
عالم کے مرقعے میں حسین ایک ورق ہے
واللہ جہاں میں مرا ہمسر نہیں کوئی
محتاج ہوں پر مجھ سا توانگر نہیں کوئی
ہاں میرے سوا شافعِ محشر نہیں کوئی
یوں سب ہیں مگر سبطِ پیمبر نہیں کوئی
باطل ہے اگر دعویٰ اعجاز کرے گا
کس بات پہ دنیا میں کوئی ناز کرے گا
ہم وہ ہیں کہ اللہ نے کوثر ہمیں بخشا
سرداریِ فردوس کا افسر ہمیں بخشا
اقبالِ علی خلق پیمبر ہمیں بخشا
قدرت ہمیں دی، زور ہمیں، زر ہمیں بخشا
ہم نور ہیں گھر طورِ تجلا ہے ہمارا
تختِ بنِ داؤد مصلا ہے ہمارا
نانا وہ کہ ہیں جن کے قدم عرش کے سرتاج
قوسینِ مکان، ختمِ رسل، صاحبِ معراج
ماں ایسی کہ سب جس کی شفاعت کے ہیں محتاج
باپ ایسا صنم خانوں کو جس نے کیا تاراج
لڑنے کو اگر حیدر صفدر نہ نکلتے
بت گھر سے خدا کے کبھی باہر نہ نکلتے
کس جنگ میں سینے کو سپر کر کے نہ آئے
کس مرحلۂ صعف کو سر کر کے نہ آئے
کس فوج کی صف زیر و زبر کر کے نہ آئے
تھی کون سی شب جس کو سحر کر کے نہ آئے
تھا کون جو ایماں تہِ صمصام نہ لایا
اس شخص کا سر لائے جو اسلام نہ لایا
اصنام نہ کچھ کم تھے، نہ کفار تھے تھوڑے
طاقت تھی کہ عزیٰ کو کوئی لات سے توڑے
بد کیشوں نے سجدے بھی کئے ہاتھ بھی جوڑے
بے توڑے وہ بت حیدر صفدر نے نہ چھوڑے
کعبے کو صفا کردیا خالق کے کرم سے
نکلے اسد اللہ اذاں دے کے حرم سے
اس عہد میں مالک اسی تلوار کے ہم ہیں
جرار پسر، حیدر کرار کے ہم ہیں
فرزند محمدؐ سے جہاں دار کے ہم ہیں
وارثِ شہِ لولاک کی سرکار کے ہم ہیں
کچھ غیر کفن ساتھ نہیں لے کے گئے ہیں
تابوت سکینہ بھی ہمیں دے کے گئے ہیں
یہ فرق یہ عمامۂ سردارِ زمن ہے
یہ تیغِ علی ہے یہ کمر بندِ حسن ہے
یہ جوشنِ داؤد ہے جو حافظ تن ہے
یہ پیراہنِ یوسفِ کنعانِ محن ہے
دکھلائیں سند دستِ رسول عربیؐ کی
یہ مہر سلیماں ہے، یہ خاتم ہے نبی کی
دیکھو تو یہ ہے کون سے جرار کی تلوار
کس شیر کے قبضے میں ہے کرار کی تلوار
دریا نے بھی دیکھی نہیں اس دھار کی تلوار
بجلی کی تو بجلی ہے یہ، تلوار کی تلوار
قہر و غضب اللہ کا ہے کاٹ نہیں ہے
کہتے ہیں اسے موت کا گھر گھاٹ نہیں ہے
دم لے کہیں رک کر وہ روانی نہیں اس میں
چلنے میں سبک تر ہے، گرانی نہیں اس میں
جز حرفِ ظفر اور نشانی نہیں اس میں
جل جاؤ گے سب آگ ہے پانی نہیں اس میں
چھوڑے گی نہ زندہ اسے جو دشمن دیں ہے
نابیں نہیں، غصے سے اجل چیں بہ جبیں ہے
سب قطرے ہیں گر فیض کے دریا ہیں تو ہم ہیں
ہر نقطۂ قرآں کے شناسا ہیں تو ہم ہیں
حق جس کا ہے جامع وہ ذخیرہ ہیں تو ہم ہیں
افضل ہیں تو ہم، عالم و دانا ہیں تو ہم ہیں
تعلیم ملک عرش پہ تھا ورد ہمارا
جبریل سا استاد ہے شاگرد ہمارا
گر فیض ظہورِ شہِ لولاک نہ ہوتا
بالائے زمیں گنبدِ افلاک نہ ہوتا
کچھ خاک کے طبقے میں، بجز خاک نہ ہوتا
ہم پاک نہ کرتے تو جہاں پاک نہ ہوتا
یہ شور اذاں کا سحر و شام کہاں تھا
ہم عرش پہ جب تھے تو یہ اسلام کہاں تھا
محسن سے بدی ہے یہی احساں کا عوض واہ
دشمن کے ہوا خواہ ہوئے دوست کے بد خواہ
گمراہ کے بہکانے سے روکو نہ مری راہ
لو اب بھی مسافر کو نکل جانے دو لِلّٰلہ
مل جائے گی اک دم میں اماں رنج و بلا سے
میں ذبح سے بچ جاؤں گا، تم قہر خدا سے
بستی میں کہیں مسکن و ماوا نہ کروں گا
یثرب میں بھی جانے کا ارادہ نہ کروں گا
صابر ہوں کسی کا کبھی شکوا نہ کروں گا
اس ظلم کا میں ذکر بھی اصلا نہ کروں گا
رونا نہ چھٹے گا کہ عزیزوں سے چھپا ہوں
جو پوچھے گا کہہ دوں گا کہ جنگل میں لٹا ہوں
اعدا نے کہا قہرِ خدا سے نہیں ڈرتے
ناری تو ہیں دوزخ کی جفا سے نہیں ڈرتے
فریاد رسولِؐ دوسرا سے نہیں ڈرتے
خاتونِ قیامت کی بکا سے نہیں ڈرتے
ہم لوگ جدھر دولتِ دنیا ہے ادھر ہیں
اللہ سے کچھ کام نہیں بندۂ زر ہیں
حضرت نے کہا خیر خبردار صفوں سے
آیا غضب اللہ کا ہشیار صفوں سے
بجلی سا گزر جاؤں گا ہر بار صفوں سے
کب پنجتنی رکتے ہیں دو چار صفوں سے
عربت کے چلن دیکھ چکے، حرب کو دیکھو
لو بندۂ زر ہو، تو مری ضرب کو دیکھو
یاں گوشۂ عزلت، خمِ شمشیر نے چھوڑا
واں سہم کے چلے کو ہر ایک تیر نے چھوڑا
کس قہر سے گھر موت کی تصویر نے چھوڑا
ساحل کو صفِ لشکرِ بے پیر نے چھوڑا
عنقائے ظفر فتح کا در کھول کے نکلا
شہباز اجل، صید کو، پر تول کے نکلا
جلوہ کیا بدلی سے نکل کر مہِ نونے
دکھلائے ہوا میں دوسر، اک شمع کی لو نے
تڑپا دیا بجلی کو فرس کی تگ و دَو نے
تاکاسپر مہر کو شمشیر کی ضو نے
اعدا تو چھپانے لگے ڈھالوں پہ سروں کو
جبریل نے اونچا کیا گھبرا کے پروں کو
بالا سے جو آئی وہ بلا جانبِ پستی
بس نیست ہوئی دم میں ستم گاروں کی بستی
چلنے لگی یک دست جو شمشیر دو دستی
معلوم ہوا لٹ گئی سب کفر کی بستی
زور ان کے ہر اک ضرب میں اللہ نے توڑے
ٹوٹیں جو صفیں بت اسد اللہ نے توڑے
بجلی سی جو گِر کر صفِ کفار سے نکلی
آواز بزن تیغ کی جھنکار سے نکلی
گہہ ڈھال میں ڈوبی کبھی تلوار سے نکلی
در آئی جو پیکاں میں تو سو فار سے نکلی
تھے بند خطا کاروں پہ دا امن و اماں کے
چلے بھی چھپے جاتے تھے گوشوں میں کماں کے
افلاک پہ چمکی کبھی، سر پر کبھی آئی
کوندی کبھی جوشن پی، سپر پر کبھی آئی
گہہ پڑھ گئی سینہ پہ، جگر پر کبھی آئی
تڑپی کبھی پہلو پہ، کبھی کمر پر کبھی آئی
طے کر کے پھر کون سا قصہ تھا فرس کا
باقی تھا جو کچھ کاٹ، وہ حصہ تھا فرس کا
بے پاؤں جدھر ہاتھ سے چلتی ہوئی آئی
ندی ادھر اک خوں کی ابلتی ہوئی آئی
دم بھر میں سو سورنگ بدلتی ہوئی آئی
پی پی کے لہو لعل اگلتی ہوئی آئی
ہیرا تھا بدن، رنگ زمرد سے ہرا تھا
جوہر نہ کہو پیٹ جواہر سے بھرا تھا
زیبا تھا دمِ جنگ پر ی وش اسے کہنا
معشوقِ بنی سرخ لباس اس نے جو پہنا
اس اوج پہ وہ سر کو جھکائے ہوئے رہنا
جوہر تھے کہ پہنے تھی دلہن پھولوں کا گہنا
سیب چمنِ خلد کی بو باس تھی پھل میں
رہتی تھی وہ شبیر سے دولہا کی بغل میں
سر ٹپکے تو موج اس کی روانی کو نہ پہونچے
قلزم کا بھی دھارا ہو تو پانی کو نہ پہونچے
بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہونچے
خنجر کی زباں تیغ زبانی کو نہ پہونچے
دوزخ کی زبانوں سے بھی آنچ اس کی بری تھی
برچھی تھی، کٹاری تھی، سر وہی تھی، چھری تھی
موجود بھی ہر غول میں اور سب سے جدا بھی
دم خم بھی، لگاوٹ بھی، صفائی بھی، ادا بھی
اک گھاٹ پہ تھی آگ بھی، پانی بھی، ہوا بھی
امرت کا بھی، ہلاہل بھی، مسیحا بھی، قضا بھی
کیا صاحب جوہر تھی عجب ظرف تھا اس کا
موقع تھا جہاں جس کا وہیں صرف تھا اس کا
ہرڈھال کے پھولوں کو اڑاتا تھا پھل اس کا
تھا لشکرِ باغی میں ازل سے عمل اس کا
ڈر جاتی تھی منہ دیکھ کے ہر دم اجل اس کا
تھا قلعۂ چار آئینہ، گویا عمل اس کا
اس در سے گئی کھول کے وہ در نکل آئی
گہہ صدر میں بیٹھی، کبھی باہر نکل آئی
نیزوں پہ گئی برچھیوں والوں کی طرف سے
جا پہونچی کماں داروں پہ پھالوں کی طرف سے
پھر آئی سواروں کے رسالوں کی طرف سے
منہ تیغوں کی جانب کیا ڈھالوں کی طرف سے
بس ہو گیا دفتر نظری، نام و نسب کا
لاکھوں تھے، تو کیا دیکھ لیا جائزہ سب کا
پہونچی جو سپر تک تو کلائی کو نہ چھوڑا
ہر ہاتھ میں ثاب کسی گھائی کو نہ چھوڑا
شوخی کو، شرارت کو، لڑائی کو نہ چھوڑا
تیزی کو، رکھائی کو، صفائی کو نہ چھوڑا
اعضائے بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے
قینچی سی زباں چلتی تھی فقرے تھے غضب کے
چار آئینہ والوں کو نہ تھا جنگ کا یارا
چو رنگ تھے سینے تو کلیجہ تھا دو پارا
کہتے تھے زرہ پوش نہیں جنگ کا یارا
بچ جائیں تو جانیں کہ ملی جان دوبارہ
جوشن کو سنا تھا کہ حفاظت کا محل ہے
اس کی نہ خبر تھی کہ یہی دامِ اجل ہے
بد کشی لڑائی کا چلن بھول گئے تھے
نادک فگنی تیر فگن بھول گئے تھے
سب حیلہ گری، عہد شکن بھول گئے تھے
بے ہوشی میں ترکش کا دہن بھو گئے تھے
معلوم نہ تھا جسم میں جاں ہے کہ نہیں ۃے
چلاتے تھے قبضے میں کماں ہے کہ نہیں ہے
ڈر ڈر کے قدِ راست سنانوں نے جھکائے
دب دب کے سرِ عجز کمانوں نے جھکائے
ہٹ ہٹ کے علم، رن میں جوانوں نے جھکائے
سر خاک پہ گرگر کے نشانوں نے جھکائے
غل تھا کہ پناہ، اب ہمیں یا شاہِ زماں دو
پھیلائے تھے دامن کو، پھریرے، کہ اماں دو
شہ کہتے تھے ہے باڑھ پہ دریا نہ رکے گا
اس موج پہ آفت کا طمانچہ نہ رکے گا
بے فتح و ظفر، دلبر زہرا نہ رکے گا
تاغرق نہ فرعون ہو، موسیٰؑ نہ رکے گا
ہے بحرِ غضب نام ہے قہر صمد اس کا
رکنے کا نہیں شام تلک جزر و مد اس کا
اس صف سے گئے بیچ سے اس غول کے نکلے
جو فوج چھڑی منہ پہ اسے رول کے نکلے
انبوہ سے یوں تیغِ دوسر تول کے نکلے
گویا درِ خیبر کو، علی کھول کے نکلے
دنیا جو بچی، روحِ محمدؐ کا سبب تھا
شبیر اگر رحم نہ کرتے تو غضب تھا
لڑتے تھے مگر غی
- meer-anees
کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے
لاکھوں سے تشنہ کام لڑے کام کر گئے
امت کی مغفرت کا سر انجام کر گئے
فیض اپنا مثلِ ابر کرم عام کر گئے
پڑھتے ہیں سب درود جو ذکر ان کے ہوتے ہیں
ایسے بشر وہ تھے کہ ملک جن کو روتے ہیں
دیندار و سرفروش و شجاع و خوش اعتقاد
ہاتھوں میں تیغیں اور دلوں میں خدا کی یاد
زخموں کو نخلِ قد پہ وہ سمجھے گلِ مراد
مرادنگی یہ پیاس میں فاقوں میں یہ جہاد
تیغوں سے بند کون سا ان کا کٹا نہ تھا
پر معرکے سے پاؤں کسی کا ہٹا نہ تھا
برسوں رہے گا چرخ میں، گر آسمانِ پیر
لیکن نظر نہ آئے گا ان کا کہیں نظیر
گورے نہ ان کے پاؤں، نہ روئے مہِ منیر
خورشید جن کے سامنے اک ذرۂ حقیر
پرخوں قبائیں جسم میں، سینے تنے ہوئے
پہنچے ریاضِ خلد میں دولہا بنے ہوئے
رستم اٹھا نہ سکتا تھا سر ان کے سامنے
شیروں کے کانپتے تھے جگر ان کے سامنے
پھیکی تھی روشنیِٔ قمر ان کے سامنے
اڑتا تھا رنگ روئے سحر، ان کے سامنے
بخشا تھا نور، حق نے ہر اک خوش صفات کو
ہوتا تھا دن، جو گھر سے نکلتے تھے رات کو
پیشانیوں پہ جلوہ نما اختر سجود
دیکھیں جو ان کا نور تو قدسی پڑھیں درود
رخ سے عیاں جلال و جوانمردی و نمود
شیدائے آل، شیفتۂ واجب الوجود
جینے کی شاہ دیں کو دعا دے کے مر گئے
ایماں کے آئینہ کو جِلا دے کے مر گئے
تاثیر کر گئی تھی انہیں صحبتِ امام
تھا نزع میں بھی خشک لبوں پہ خدا کا نام
لبریز تھے محبت حیدرؔ سے دل کے جام
ذی قدر، ذی شعور، دلاور خجستہ کام
لشکر جو ان پہ ٹوٹ پڑے شام و روم کے
تلواریں کھائیں جسم پہ کیا جھوم جھوم کے
لاکھوں میں انتخاب ہزاروں میں لا جواب
تھا خشک و تر پہ جن کا کرم صورتِ سحاب
وہ نور، وہ جلال، وہ رونق، وہ آب و تاب
زہراؔ کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب
بس یک بہ یک جہاں میں اندھیرا سا چھا گیا
دن بھی ڈھلا نہ تھا کہ زوال ان پہ آ گیا
گل ہو گئے عقیلؔ کی تربت کے جب چراغ
جعفر کے لاڈلوں نے دیئے شہ کے دل کو داغ
ماتم سے بھانجوں کے ہوا تھا نہ انفراغ
پامال ہو گیا، حسنِؔ مجتبیٰ کا باغ
لاشے اٹھائے جنگ کرے یا بکا کرے
جس پر گریں یہ کوہ مصیبت وہ کیا کرے
صدمہ یہ تھا کہ لٹنے لگی دولتِ پدر
نکلے نبرد کو اسد اللہ کے پسر
مارے گئے جہاد میں جس دم وہ شیر نر
رخصت ہوئے حسینؔ سے عباسِؔ نام ور
ددریا بہے لہو کے بڑا کشت و خوں ہوا
ڈھلتی تھی دوپہر کہ علم سر نگوں ہوا
پیری میں قہر ہے، خبر مرگ نوجواں
ریتی پہ تھر تھرا کے گرے شاہِ انس و جاں
نکلیں سروں کو پیٹتی، خیمے سے بیبیاں
تھا خانۂ علی میں تلاطم کہ الا ماں
یوں گھر الٹ پلٹ تھا امامِ حجاز کا
جس طرح ٹوٹ جاتا ہے لنگر جہاز کا
غل تھا کہ خوں میں بھر گیا سقائے اہل بیت
دنیا سے کوچ کر گیا، سقائے اہل بیت
ہم لٹ گئے گذر گیا سقائے اہل بیت
فریاد ہے کہ مر گیا، سقائے اہل بیت
ہے ہے کہاں سے اپنے بہشتی کو لائیں گے
سوکھی زبان، اب کسے بچے دکھائیں گے
ہلتا تھا خیمہ روتے تھے یوں اہل بیت شاہ
صدمے سے حالِ زوجۂ عباسؔ تھا تباہ
چلاتی تھی کہ نہر کی مجھ کو بتاؤ راہ
لوٹی گئی میں دشت پُر آفت میں آہ آہ
خم تھے گرا تھا کوہِ مصیبت حسینؔ پر
ماتم تھا بیبیوں میں سکینہؔ کے بین پر
ماتم ادھر تھا، جشن میں تھے اہل شر اُدھر
بجتے تھے شادیانۂ فتح و ظفر اُدھر
انعام بانٹتا تھا ہر اک کو عمر ادھر
روتے تھے دیکھ دیکھ کے حضرت اِدھر اُدھر
غل تھا کہ بس حسینؔ بہت روئے بھائی کو
کوئی جواں ہو اور تو بھیجو لڑائی کو
باقی نہیں کوئی تو وِغا کو خود آیئے
حیدرؔ کی ذوالفقار کے جوہر دکھایئے
زخمِ سنان و خنجر و شمشیر کھایئے
گرمی بڑی ہے آج لہو میں نہایئے
آمادہ ہم تو دیر سے بہرِ ستیز ہیں
تیغیں بھی ہیں اُپی ہوئی خنجر بھی تیز ہیں
کاٹے ہیں جس نے بازوئے لخت دلِ امیر
ہے خوب آبدار، وہ شمشیرِ بے نظیر
چھیدا ہے جس سے مشک کو موجود ہے وہ تیر
ہر گرز وہ ہے، ضرب سے جس کی ہوئے اخیر
تڑپے تھے جس سے مشک کو دانتوں سے چھوڑ کر
برچھی یہ ہے جو نکلی تھی پہلو کو توڑ کر
صابر بڑے ہیں آپ تو یا شاہِ انس و جاں
اک بھائی کے فراق میں یہ نالہ و فغاں
رونے سے جی اٹھیں گے نہ عباسِ نوجواں
حضرت پکارتے ہیں کسے، بھائی اب کہاں
ملتا ہے کب جہاں میں بھلا جو گزر گیا
اب فکر اپنی کیجئے وہ شیر مر گیا
اکبر نے کی غضب کی نظر سوئے فوج شام
کانپے یہ غیظ سے کہ اگلنے لگی حسام
کی عرض ہاتھ جوڑ کے اے قبلۂ انام
سنتے ہیں آپ لشکرِ اعدا کا یہ کلام
خوں تن میں جوش کھاتا ہے ہنگام جنگ ہے
مولا بس اب تو حوصلۂ صبر تنگ ہے
ان کے کلام سننے کی کس کے جگر میں ہے تاب
خادم زبانِ تیغ سے دے گا انہیں جواب
کیا اپنے دل میں سمجھے ہیں، یہ خانماں خراب
نعرہ کروں تو شیر کا زہرہ ہو آب آب
آداب شاہ سے نہیں ہم بول سکتے ہیں
زخمِ جگر پہ اب تو نمک یہ چھڑکتے ہیں
ہم کو یہ طعن و طنز کی باتیں نہیں پسند
کوفے میں لیں گے دم جو اٹھائیں گے پھر سمند
ہونٹوں پہ غم سے اب ہے، یہاں جانِ دردمند
کاٹیں تبر سے، تیغ سے خنجر سے بند بند
ہنس ہنس کے جسم پر، تبر و تیر کھائیں گے
تیغِ زباں کے زخم اٹھائے نہ جائیں گے
گھبرا کے دیکھنے لگے بیٹے کے منہ کو شاہ
فرمایا خیر کہہ لیں جو کہتے ہیں روسیاہ
کیوں کانپتے ہو غیظ سے، اے میرے رشک ماہ
لازم ہے صبر و شکر کہ راضی رہے الٰہ
غصہ اسی طرح اگر آئے گا آپ کو
خنجر کے نیچے دیکھو گے کس طرح باپ کو
برہم نہ ہو تمہیں، سر شبیرؔ کی قسم
لو گھر میں جاؤ خیر سمجھ لیں گے ان سے ہم
دیکھو ہمیں کہ بھائی کے بازو ہوئے قلم
تلوار، دل پہ چل گئی، مارا نہ ہم نے دم
سب جل کے خاک ہوں جو ابھی بد دعا کروں
پر امت نبی ہے، بجز صبر کیا کروں
یہ سن کے زرد ہو گئے ہم شکلِ مصطفی
رو کر کہا یہ کرتے ہیں ارشاد آپ کا
وہ وقت، وہ گھڑی، نہ دکھائے ہمیں خدا
بابا نہ ہو تو بیٹے کے جینے کا کیا مزہ
آمادۂ فنا ہیں، خوشی دل سے فوت ہے
پھر خضرؔ کی حیات ملے گر تو موت ہے
کیا پہلے سر کٹایئے گا یا شہِ زماں
کس اشتیاق سے شہ دیں نے کہا کہ ہاں
آگے جو کچھ رضائے خدا، اے پدر کی جاں
جیتے ہیں پیر، سامنے مرتے ہیں نوجواں
دیکھو کہ چھوٹے بھائی کے ماتم میں روتے ہیں
پالا تھا جن کو ہم نے وہ دریا پہ سوتے ہیں
یہ کہہ کے اٹھ کھڑے ہوئے سلطانِ بحر و بر
پٹکے سے باندھنے لگے، ٹوئی ہوئی کمر
قدموں یہ گر پڑے، علیؔ اکبر بہ چشمِ تر
کی عرض رحم کیجئے، مر جائے گا پسر
آگے مرے جو ہو گی شہادت امام کی
دنیا میں آبرو نہ رہے گی غلام کی
چھوٹے تھے جو کہ سِن میں بڑے کر گئے وہ کام
یا شاہ کیا لڑائی کے قابل نہیں غلام
عمو کے خوں کا لیں گے لعینوں سے انتقام
ہم نے بھی تیغ باندھی ہے بچپن سے یا امام
عزت ملی ہے خلق میں صدقے سے آپ کے
بیٹا وہی جو رنج میں کام آئے باپ کے
انصاف آپ کیجئے یا سرورِ عرب
بیٹا تو گھر میں بیٹھے، لڑے باپ تشنہ لب
مارا گیا نہ آج، تو کل یہ کہیں گے سب
کیسا لہو سفید ہے، دنیا کا ہے غضب
سر کو کٹا کے باپ جہاں سے گزر گیا
بیٹا جوان، باپ کے آگے نہ مر گیا
بہرِ رسول رن کی رضا دیجئے مجے
صدقہ علی کا، اذن وغا دیجئے مجھے
مرتا ہوں یا امام، جلا دیجئے مجھے
یادِ خدا میں دل سے بھلا دیجئے مجھے
کھولیں کمر، حضور تو دل کو قرار ہو
کہہ دیجئے کہ جا! علیؔ اکبر نثار ہو
شہ نے کہا تمہیں مرے دل کی نہیں خبر
پیارے کہاں سے لاؤں میں اس طرح کا جگر
ہے باپ کو عصائے ضعیفی، جواں پسر
جب تم نہ ہو گے پاس تو مر جائے گا پدر
ایسے ہنسے نہ تھے کہ ہمیں تم رلاتے ہو
شادی کے دن جو آئے، تو مرنے کو جاتے ہیں
راتیں یہ عیش کی ہیں مرادوں کے ہیں یہ دن
پورے جواں نہیں، ابھی کیا ہے تمہارا سِن
اکبرؔ تری جوانی پہ روئیں گے انس و جن
کیوں کر قرار آئے گا ماں کو تمہارے بن
کیسی ہوا چلی، چمن روزگار میں
سید کا باغ لٹتا ہے فصلِ بہار میں
دیتا اگر تمہیں کوئی فرزند زوالجلال
ہوتی پدر کی قدر سمجھتے ہمارا حال
رخصت کا آپ سے یوں ہی کرتا وہ جب سوال
تب جانتے کہ دیتے اسے رخصتِ جدال
کیا جانے وہ مزاج سے اس کا ملا نہیں
اچھا سدھارو تم سے ہمیں کچھ گلا نہیں
تسلیم کر کے بولے علیؔ اکبرِ غیور
لاکھوں برس جہاں میں سلامت رہیں حضور
فرمایا شہ نے خیر اجل بھی نہیں ہے دور
برچھی لگا کے دل پہ خوشامد یہ کیا ضرور
تقریر میں پدر کو نہ اب بند کیجیے
خیمے میں جا کے ماں کو رضامند کیجیے
ہیں مبتلائے رنج بھلا کیا ہمارا پیار
تم سے جو پسر ہوں تو اس راہ میں نثار
ہر دم خدا سے خیر کا ہوں میں امیدوار
ہاں ماں نہ جانے دے تو مرا کیا ہے اختیار
سینے میں دل ہلے گا بدن تھرتھرائے گا
رخصت کا نام سنتے ہی غش اس کو آئے گا
سب جانتے ہیں جو ہے پھوپھی کو تمہاری چاہ
معلوم ہو گا جاؤ گے جب سوئے خیمہ گاہ
باہیں گلے میں ڈالے گی زینبؔ بہ اشک و آہ
قدموں پہ گر کے آپ کی ماں ہوگی سَدِ راہ
یہ مرحلہ بھی کم نہیں زنجیر و طوق سے
دونوں رضا جو دیں تو چلے جاؤ شوق سے
روتے ہوئے چلے علیؔ اکبر سوئے خیام
کانپا یہ دل کہ بیٹھ گئے خاک پر امام
روتا ہوا جو ڈیوڑھی سے آیا وہ نیک نام
دوڑی پسر کو دیکھ کے بانوئے تشنہ کام
دامن سے آ کے بالی سکینہؔ چمٹ گئی
زینبؔ بلائیں لے کے گلے سے لپٹ گئی
ماں گرد پھر کے بولی کہ اے میرے گلعذار
تم صبح سے گئے تھے اب آئے یہ ماں نثار
در پر تڑپ تڑپ کے میں جاتی تھی بار بار
کھولو بس اب کمر کہ مرا دل ہے بے قرار
گرمی یہ اور قحط کئی دن سے آب کا
رخ تمتما گیا ہے مرے آفتاب کا
تر ہے قبا پسینے میں پنکھا کوئی بلاؤ
سونلا گئے ہو دھوپ میں، واری ہوا میں آؤ
جھاڑوں ردا سے گرد میں، زلفوں کی، بیٹھ جاؤ
گھٹ جائے گا لہو مرا آنسو نہ تم بہاؤ
صدمہ جو دل پہ ہو اسے کچھ منہ سے کہتے ہیں
کیا ہے جو اشک نرگسی آنکھوں سے بہتے ہیں
صغراؔ کی تو وطن سے کچھ آئی نہیں خبر
جلدی کہو کہ منھ سے نکلتا ہے اب جگر
اکبرؔ نے عرض کی کہ ہیں سب خیر سے مگر
لٹتا ہے کوئی آن میں خیر النسا کا گھر
ملتی نہیں رضا ہمیں آنسو بہاتے ہیں
بابا گلا کٹانے کو میداں میں جاتے ہیں
اس وقت کس سے دردِ دل اپنا کہوں میں آہ
تم بھی ہو سدّ راہ پھوپھی بھی ہیں سدّ راہ
چھائی ہے واں گھٹا کی طرح شام کی سپاہ
اماں مدد کرو کہ کمر باندھتے ہیں شاہ
اب زندگی ہے تلخ بہت دق ہیں جان سے
الفت نے آپ کی ہمیں کھویا جہان سے
دیتے نہیں رضا جو امامِ فلک اساس
خاطر فقط یہ آپ کی ہے اور پھوپھی کا پاس
اب غیرِ یاس کوئی نہیں ان کے آس پاس
ناطاقتی ہے ضعف ہے فاقہ ہے اور پیاس
کیوں کر لڑیں گے وہ کہ سراپا ضعیف ہیں
پیری ہے دل ضعیف ہے اعضا ضعیف ہیں
عباس جب سے مر گئے روتے ہیں دم بہ دم
رخ زرد ہے کماں کی طرح ہو گئے ہیں غم
چلوں میں تیر جوڑے ہیں واں بانیٔ ستم
قرباں ہوں کس طرح پسرِ خاطر فاطمہؔ پہ ہم
سب روکتے ہیں رن کی طرف جائیں کس طرح
ماں کو پھوپھی کو بہنوں کو سمجھائیں کس طرح
بابا کا حکم ہے کہ رضا جا کے ماں سے لاؤ
راضی پھوپھی ہوں جب تو لڑو اور زخم کھاؤ
مرضی ہے آپ کی کہ مرے پاس سے نہ جاؤ
یا فاطمہؔ تمہیں علیؔ اکبر کے کام آؤ
چلنے لگیں نہ تیر شہِ مشرقین پر
نرغہ ہے ظالموں کا تمہارا حسینؔ پر
دیکھی گئی نہ ماں سے یہ بیتابیِٔ پسر
وارث کی بے کسی پہ لگا کانپنے جگر
ہاتھوں سے دل کو تھام کے بولی وہ نوحہ گر
دولت پہ فاطمہؔ کی تصدق تمام گھر
پہلے نہ کچھ کہا تھا نہ اب روکتی ہوں میں
روتے ہو کس لیے تمہیں کب روکتی ہوں میں
زہراؔ کے لال پر مرے مادر پدر نثار
عابدؔ نثار اصغرِؔ تشنہ جگر نثار
جانیں ہزار ہوں تو فدا لاکھ سر نثار
قربان گھر، کنیز تصدق، پسر نثار
کِسرائی گو کہ ہوں پہ بہو میں علیؔ کی ہوں
مانگو گے جو وہ دوں گی کہ لونڈی سخی کی ہوں
مجھ پر حوالہ کرتے ہیں گر شاہِ خوش خصال
رخصت نہ تم کو دوں یہ بھلا ہے مری مجال
صدقہ انہیں کا ہے کہ ملا تم سا نونہال
رخصت کا صدقے جاؤں پھوپھی سے کرو سوال
ہم سب کنیزیں بنتِ امیر عرب کی ہیں
اصغرؔ ہو یا کہ تم وہی مختار سب کی ہیں
کہنے کو یوں ہیں چاہنے والے تمہارے سب
لیکن ہے ان کے عشق سے نسبت کسی کو کب
دن کو انہوں نے دن کبھی جانا نہ شب کو شب
لیجے انہیں سے آپ کو جس شے کی ہے طلب
مجھ سے نہ کچھ نہ سید عالی سے پوچھیے
گر پوچھیے تو پالنے والی سے پوچھیے
روتے ہوئے گئے علیؔ اکبر پھوپھی کے پاس
دیکھا کہ غش پڑی ہے زمیں پر وہ حق شناس
زانو پہ سر لیے ہوئے کبراؔ ہے بے حواس
اس حال میں بھی لب پہ یہی ہے کلام یاس
اب تاب و طاقت جسد و روح و دل گئی
کیوں صاحبو! رضا علیؔ اکبر کو مل گئی
اکبرؔ سے مجھ کو یہ نہ توقع تھی ہے غضب
اتنا نہیں خیال کہ ہے کون جاں بہ لب
اس گُل نے ہائے میری ریاضت بھلائی سب
نامِ خدا جواں ہوئے کیا ہم سے کام اب
ہیں محو رن کے شوق میں رخصت کے دھیان میں
سچ ہے کسی کا کون ہوا ہے جہان میں
یا بے ہمارے چین نہ آتا تھا کوئی دم
مالک اب اور ہو گئے کوئی ہوئے نہ ہم
کیا دخل تھا جو ڈیوڑھی سے باہر رکھیں قدم
ہے ہے وہ میرا دردِ مصیبت وہ رنج و غم
جاگی ہوں میں جو چونک کے راتوں کو روئے ہیں
پوچھو تو کس کی چھاتی پہ بچپن میں سوئے ہیں
کنگھی کسی کے ہاتھ کی بھاتی نہ تھی کبھی
بے میرے لیٹے نیند انہیں آتی نہ تھی کبھی
بے ان کی ماں کی قبر پہ جاتی نہ تھی کبھی
روئیں پسر، پہ ان کو رلاتی نہ تھی کبھی
میرے سوا کسی کو کبھی جانتے نہ تھے
جو تھی سو میں تھی ماں کو تو پہچانتے نہ تھے
ہر چند دونوں تھے مرے فرزند خورد سال
پر اِن کے آگے اُن کا مجھے کچھ نہ تھا خیال
راتوں کو جب لپٹتے تھے مجھ سے وہ نونہال
میں کہتے تھی ہٹو علیؔ اکبر ہے میرا لال
وہ دونوں مرنے والے تو پہلو میں ہوتے تھے
پھیلا کے پاؤں یہ مری چھاتی پہ سوتے تھے
چھوٹا تو ضد بھی کرتا تھا راتوں کو بارہا
پرعونؔ کیا عقیلؔ تھا بخشے اسے خدا
دن رات تھی خوشامدِ ہم شکل مصطفا
سینے پہ جب یہ سوئے تو اس نے یہی کیا
آقا کے نور عین ہیں عالی مقام ہیں
اماں یہ شاہزادے ہیں اور ہم غلام ہیں
رہتے تھے پاس باپ کے وہ غیرتِ قمر
الفت میں ان کی مجھ کو کچھ ان کی نہ تھی خبر
قرآن پڑھنے بیٹھتی تھی جب دمِ سحر
صورت پہ تھی انہیں کی تلاوت میں بھی نظر
غافل نہ ان کے پیار سے میں ایک آن تھی
قرآں تو رحل پر تھا حمائل میں جان تھی
میں نے انہیں پہ صدقے کئے اپنے دونوں لال
تسکین تھی کہ باقی ہے اکبر سا نونہال
مانگے تو آگے مجھ سے بھلا رخصتِ جدال
نکلوں گی ساتھ خیمے سے بکھرا کے سر کے بال
کیا خوب جیتے جی مَرے جائیں گے مرنے کو
تلوار باندھ لی ہے ہمیں ذبح کرنے کو
بچپن میں تھا نہ ہم سے زیادہ کسی کا پیار
اب کیا غرض گزر گئی وہ فصل وہ بہار
بھیگیں مسیں نمود ہوا سبزۂ عذار
مالک ہیں خود بھلا مرا اب کیا ہے اختیار
ثابت ہوا اِدھر سے اُدھر مرنے جائیں گے
میں مر بھی جاؤں گی تو وہ یاں تک نہ آئیں گے
باہر سدھارے یا ابھی ہیں ماں سے کچھ کلام
بھابی نے کیوں لیا تھا ابھی رو کے میرا نام
سینے پہ منہ کو رکھ کے یہ بولا وہ لالہ فام
آنکھیں تو آپ کھولیے حاضر ہے یہ غلام
خادم جدا نہ تھا شہِ گردوں سریر سے
کس جرم پہ حضور خفا ہیں حقیر سے
کیا ہے قصور جس پہ یہ غصہ ہے یہ عتاب
کرتا ہوں بات میں کوئی بے مرضیِٔ جناب
روتا ہوں اب کہ صبر کی مجھ کو نہیں ہے تاب
شکوہ یہ خاکسار کا اے بنتِ بوتراب
ہر دکھ میں ہر بلا میں مددگار آپ ہیں
پالا ہے مجھ کو مالک و مختار آپ ہیں
پیدا ہوا تو آپ کی صحبت مجھے ملی
کرتی ہے روح شکر وہ راحت مجھے ملی
یوسف کو کب ملی تھی جو دولت مجھے ملی
رکھا عزیز آپ نے عزت مجھے ملی
صدقہ ہے اس قدم کا جو سر تا فلک گیا
کی مہر آفتاب نے، ذرہ چمک گیا
مرضی نہ ہو تو رن کو بھی جائے نہ یہ غلام
بندے ہیں ہم اطاعتِ مالک سے ہم کو کام
تکرار کی مجال نہ اصرار کا مقام
مرتے اگر تو اس میں بھی تھا آپ ہی کا نام
روتی ہیں آپ کس لیے اچھا نہ جائیں گے
پر یاد رکھیے منہ نہ کسی کو دکھائیں گے
یہ کہہ کے جھک گیا جو قدم پر وہ ذی وقار
بس ہو گئیں محبتِ قلبی سے بے قرار
پھیلا کے دونوں ہاتھوں کو اٹھیں بحال زار
شکوے کے بدلے منہ سے یہ نکلا کہ میں نثار
امڈا یہ دل کہ چشم کے ساغر چھلک پڑے
دیکھا جو آفتاب کو آنسو ٹپک پڑے
لے کر بلایں بولیں کہ واری خفا نہ ہو
صدقے ہے تم پہ جان ہماری خفا نہ ہو
باتیں تھیں یہ تو پیار کی ساری خفا نہ ہو
روتے ہو کیوں منگاؤ سواری خفا نہ ہو
آئے بلا حسینؔ پہ جو اس کو رد کرو
اچھا سدھارو دکھ میں پدر کی مدد کرو
الفت کے جوش میں تو یہ منہ سے کہا مگر
اٹھا یہ دل میں درد کہ تھرا گیا جگر
کبراؔ کو روتے دیکھ کے بولی وہ نوحہ گر
کیا ماجرا ہوا مجھے مطلق نہیں خبر
میں روکنے نہ پائی کہ وار ان کا چل گیا
کیا میں نے کہہ دیا کہ کلیجہ نکل گیا
کیا جا کے اب نہ آئے گا گھر میں یہ نونہال
ہے ہے مری کمائی پہ آ جائے گا زوال
جس وقت سے شہید ہوئے رن میں دونوں لال
بیہوش ہوں، حواس میں ہے میرے اختلال
ایسا ہے اضطراب کہ کچھ جس کی حد نہیں
جو آپ میں نہ ہو سخن اس کا سند نہیں
میں ہوش میں نہ تھی یہ قدم پر گرے تھے جب
میں بھی کہوں، یہ پاؤں پہ گرنے کا کیا سبب
لو مجھ پہ اب کھلا کہ یہ رخصت کی تھی طلب
اکبرؔ کو میں نے ہاتھ سے کھویا تھا ہے غضب
اِصلا خبر نہیں مرے دلبر نے کیا کہا
میں نے جواب کیا دیا اکبرؔ نے کیا کہا
کیا کہہ دیا تھا مرنے کو جائے یہ گل بدن
راضی ہوئی تھی میں کہ خزاں ہو مرا چمن
بیخود ہوں جب سے رن میں سدھارے شہِ زمن
کہتی ہوں کچھ زباں سے نکلتا ہے کچھ سخن
اتنی خبر نہیں علیؔ اکبر کے پیار میں
قابو میں ہے نہ دل نہ زباں اختیار میں
زندوں میں ہوتی گر تو یہ کہتی کہ مرنے جائیں
اس پیاس میں شہید ہوں فاقوں میں زخم کھائیں
اٹھا رواں برس ہے دلھن تو مجھے دکھائیں
پالا ہے منتوں سے، مُرادیں مری برآئیں
مرتی ہوں اشتیاق میں سہرا تو دیکھ لوں
سہرے کے نیچے چاند سا چہرا تو دیکھ لوں
رخصت کے نام سے مرا پھٹتا ہے اب جگر
ایسا نہ ہو کہ بانوئے بے کس کو ہو خبر
گر سن لیا تو دل میں کہے گی وہ نوحہ گر
پیارا ہوا نہ بنتِ علیؔ کو مرا پسر
سمجھیں تھیں کیا جو دی اسے رخصت جدال کی
زینبؔ نے ہائے قدر نہ کی میرے لال کی
سچ ہے کہ اس کی چاہ سے نسبت مجھے کہاں
ہوں لاکھ ان کی چاہنے والی وہ پھر ہے ماں
آنکھوں کا نور قلب کی طاقت بدن کی جاں
آنچ آتما کی ہے وہ قیامت کہ، الاماں
کیا سوچتے ہو صاحبو کچھ تم کو خیر ہے
ماں ہے تو ماں ہے خلق میں پھر غیر غیر ہے
ماں کی نہ کم توجہی اور نہ کسی کا پیار
غصہ ہو، یا کہ سخت کہے دل میں ہے نثار
بلبل فدا ہے گل پہ، شکایت کرے ہزار
دنیا میں عاشقوں کے دلوں کو کہاں قرار
دیں ماں کا ساتھ نامِ خدا اب جوان ہیں
میرا ہے جب یہ حال، پھر اس کی تو جان ہیں
جس دم سنے یہ دُور سے بانو نے سب کلام
آئی قریب حضرت زینب وہ نیک کام
کی غرض ہاتھ جوڑ کے اے خواہر امام
میں ہوں کنیز آپ کی اور یہ پسر غلام
کس کی مجال ہے جو کہے گا یہ کیا کیا
بی بی نے دی غلام کو رخصت، بجا کیا
لونڈی ہے فاطمہ کی کنیزوں میں با وفا
ہو قطع وہ زباں جو کرے آپ کا گلا
حضرت کو ان کے سر پہ سلامت رکھے خدا
مالک ہیں آپ اس میں کسی کو ہے دخل کیا
کچھ جائے گفتگو ہے نہ ماں کو نہ باپ کو
ہے دخل اذن دینے نہ دینے کا آپ کو
غم کھائیے نہ خونِ جگر آپ پیجئے
عابدؔ کو بھیج دیجیے اصغرؔ کو بھیجئے
ہے اختیار دیجیے رخصت نہ دیجیے
قربان جاؤں جو ہو مناسب وہ کیجیے
شادی ہو یا کہ غم ہو شریکِ ثواب ہوں
ہر طرح سے میں تابع حکمِ جناب ہوں
گھر میرا جب سے لٹ گیا اس گھر میں آئی ہوں
شکوے کا کوئی حرف کبھی لب پہ لائی ہوں
کسریٰ کی گو کہ پوتی ہوں سلطاں کی جائی ہوں
لونڈی ہوں آپ کی علیؔ اکبر کی دائی ہوں
صدقہ یہ آپ کا ہے جو شہ کو عزیز ہوں
بھاوج نہ جانیے مجھے ادنیٰ کنیز ہوں
آپ اس کی ماں ہیں آپ کا فرزند ہے یہ لال
دخل اس معاملہ میں کوئی دے یہ کیا مجال
یہ عازم جدال ہے اور آپ کا یہ حال
قدموں کو چھوڑتا نہ کبھی یہ نکو خصال
آپ اس کو چاہتی ہیں یہ صدقے ہے آپ پر
پر کیا کرے کہ آج مصیبت ہے باپ پر
قسمت بری ہے اس میں کسی کا قصور کیا
اچھا رہیں کہ جائیں ہمارا بھی ہے خدا
پروا ہماری ہے نہ خیال ان کو آپ کا
تابع ہم آپ کے بھی ہیں ان پر بھی ہیں فدا
عابدؔ ہوں یا کہ یہ سبھی، آنکھوں کے تارے ہیں
پر اب تو یہ نہ آپ کے ہیں، نہ ہمارے ہیں
یہ سن کے کانپنے لگی زینبؔ جگر فگار
آئی صدائے فاطمہؔ بیٹی یہ ماں نثار
اللہ یہ محبتِ فرزند اور یہ پیار
تنہا ستم کی فوج میں ہے میرا گل عذار
رخصت نہ دے گی تو اگر اس نور عین کو
کون اب بچائے گا مرے بیکس حسینؔ کو
آواز سن کے کانپ گئی بنتِ مرتضا
بانوؔ کے منہ کو دیکھ کے اکبرؔ سے یہ کہا
واری سدھارو خیر جو کچھ مرضیِٔ خدا
ترکِ ادب ہے تم کو اگر اب نہ دوں رجا
یاں والدہ بہشت سے تشریف لائی ہیں
بنتِ نبی تمہاری سفارش کو آئی ہیں
تسلیم کرکے خیمے سے وہ سیم بر چلا
پیچھے حرم کا قافلہ سب ننگے سر چلا
بانوؔ پکارتی تھی کہ پیارا پسر چلا
چلاتی تھی پوپھی مرا لختِ جگر چلا
لٹتے ہیں اہلِ بیت دہائی امام کی
تصویر گھر سے جاتی ہے خیر الانام کی
بھائی کے غم سے عابدِ بیکس تھے بے قرار
اٹھتے تھے اور زمین پہ گرتے تھے باربار
بہنیں پکارتی تھیں کہ بھیا ترے نثار
سینوں کو پیٹتی تھیں خواصیں بہ حال زار
اک حشر تھا جدا علیؔ اکبر جو ہوتے تھے
جھولے میں پھوٹ پھوٹ کے اصغرؔ بھی روتے تھے
ہلتا تھا خیمہ رانڈوں میں تھی، یہ دھڑا دھڑی
آہوں کی بجلیاں تھیں تو اشکوں کی تھی جھڑی
کوئی ادھر کو غش تھی کوئی تھی اُدھر پڑی
آفت کا وقت تھا تو قیامت کی تھی گھڑی
ماتم تھا یہ حسینؔ کے تازہ جوان کا
جاتا ہے گھر سے جیسے جنازہ جوان کا
نکلا حرم سرا سے جو وہ نورِ حق کا نور
خادم نے دی صدا کہ برآمد ہوئے حضور
حضرت کھڑے تھے خیمے کی ڈیوڑھی سے کچھ جو دور
دستِ ادب کو جوڑ کے بولا وہ ذی شعور
رخصت ہوں اب جو حکم شہ نامدار ہو
رو کر کہا حسینؔ نے اچھا سوار ہو
گھوڑے پہ شاہزادۂ عالم ہوا سوار
گویا چلے جہاد کو محبوب کردگار
تھا ثانیِٔ براق فلک سیر راہوار
صرصر سے تند و تیز تو بجلی سے بے قرار
یوں سامنے سے وہ دمِ جولاں نکل گیا
گویا ہوا پہ تختِ سلیماں نکل گیا
حضرت تو یاں زمیں پہ گرے تھام کر جگر
جاسوس نے یہ لشکر اعدا کو دی خبر
آتا ہے اک جوانِ حسیں غیرت قمر
چہرہ پہ اس کے نور محمد ہے جلوہ گر
شان و شکوہ سب اسدِ کبریا کی کی ہے
کہتے ہیں سب بشر نہیں قدرت خدا کی ہے
ہے دھوم ذرے ذرے میں اس آفتاب کی
خوشبو ہے زلف و جسم میں مشک و گلاب کی
سر تا قدم ہے شان رسالت مآب کی
تصویر ہے رسولِ خدا کے شباب کی
گھوڑے کے گرد جن و ملک کا ہجوم ہے
صلّو علی النبی کی بیاباں میں دھوم ہے
روشن کیا ہے روئے منور نے راہ کو
رخ پر نہیں ٹھہرنے کا یارا نگاہ کو
حیراں ہے عقل دیکھ کے زلفِ سیاہ کو
آغوش میں لیے ہے شبِ قدر ماہ کو
چہرے کے نور سے شبِ مہتاب ماند ہے
خالق گوا ہ ہے کہ اندھیرے کا چاند ہے
یہ ذکر تھا کہ نورِ خدا جلوہ گر ہوا
گویا رسولِ پاک کا رن میں گذر ہوا
چلائے اہلِ شام کہ طالع قمر ہوا
ہنگامِ ظہر تھا پہ گمانِ سحر ہوا
جلوہ دکھایا برق تجلیِٔ طور نے
خورشید کو چھپا دیا چہرے کے نور نے
غش کھا گیا کوئی کوئی گر کر سنبھلا گیا
صلِّ علیٰ کسی کی زباں سے نکل گیا
خجلت سے آفتاب کا نقشبہ بدل گیا
چمکا جو نور دھوپ کا جو بن بھی ڈھل گیا
دریائے نور حق کا فقط اوج موج تھا
سب پست تھے زمیں کے ستارے کا اوج تھا
صحرا کو شمعِ حسن نے تابند کر دیا
جو مردہ دل تھے دم میں انہیں زندہ کر دیا
ذروں کو آفتاب درخشندہ کر دیا
گردوں کو اس زمین نے شرمندہ کر دیا
پایہ زمیں کا عرش کے ہم دست ہو گیا
جادے سے اوجِ کاہکشاں پست ہو گیا
اللہ رے نبیرۂ مشکل کشا کی شان
تھی جس کے عضو عضو سے پیدا خدا کی شان
حیراں تھے لوگ دیکھ کے اس مہ لقا کی شان
حمزہ کا رعب زورِ علی مصطفی کی شان
پاکیزگی نسب میں بزرگی صفات میں
شیرینیٔ کلام حسنؔ بات بات میں
کچھ حسن بچپنے کا تو کچھ آمد شباب
وہ گل سا جسم اور وہ چہرے کی آب و تاب
اپنی جگہ یہ خال کے نقطے ہیں انتخاب
پتلی کا نور جن کی سیاہی سے بہرہ یاب
گردن کی ضو میں طَور تجلیٔ طُور کے
سب عضو تن ڈھلے ہوئے سانچے میں نور کے
دل پاک روح پاک نطر پاک جسم پاک
طینت میں آبِ خلد تھا اور کربلا کی خاک
غرفوں سے جس کے حسن کی حوروں کو جھانک تاک
یوسف جو دیکھ لیں تو کہے روحنا فداک
نام اس کا لوح پر جو قلم نے رقم کیا
سو بار پڑھ کے سورۂ نور اس پہ دم کیا
کیا دخل، چار ہو، جو کسی بے ادب کی آنکھ
رکھتی تھی رعب یہ، نہ عجم نہ عرب کی آنکھ
لاکھوں تھے اس طرف پہ جھپکتی تھی سب کی آنکھ
غصہ ستم کا، قہر کی چتون غضب کی آنکھ
پانی تھا، خوف جاں سے جگر، ہر دلیر کا
آہو شکار کرتے تھے میداں میں شیر کا
غل تھا رسولِ پاک کے ثانی کو دیکھنا
حسنِ بہار باغ جوانی کو دیکھنا
کھلتے ہیں گل شگفتہ بیانی کو دیکھنا
یہ سب تو ہے پہ غنچہ دہانی کو دیکھنا
نازک لب اس صفت کے دہن اس طریق کا
خاتم پہ جڑ دیا ہے نگینہ عقیق کا
کچھ عمر بھی نہیں ابھی اٹھارواں ہے سال
یہ باغ کس بہار میں ہوتا ہے پائمال
قامت یہ ہے کہ سروِ گلستانِ اعتدال
ماں باپ دیکھ دیکھ کے کیوں کر نہ ہوں نہال
آنکھوں کے سامنے جو یہ قامت نہ ہوئے گی
بتلاؤ ماں کہ دل پہ قیامت نہ ہوئے گی
زخمی جو ہوگی تیر سے یہ چاند سی جبیں
پٹکے گی سر کو خاک پہ بانوئے دل حزیں
تیغوں سے جب کٹیں گے یہ رخسار نازنیں
پیٹیں گے دونوں ہاتھوں سے منہ اپنا شاہِ دیں
سینہ چھدے پسر کا تو کیا دل کو کل پڑے
ایوبؔ بھی جو ہوں تو کلیجہ نکل پڑے
ناگاہ فوج کیں سے عمرؔ نے کیا کلام
یہ وقت کار زار ہے اے ساکنانِ شام
بس ہے یہی بساط شہنشاہِ خاص و عام
مارا گیا یہ شیر تو مر جائیں گے امام
لُوٹو جناب فاطمہؔ زہرا کے باغ کو
ٹھنڈا کرو حسینؔ کے گھر کے چراغ کو
تصویر مصطفی کی مٹائے گا آج جو
کہتا ہوں میں کہ صاحب جاگیر ہوگا وہ
محبوب کبریا کے مشابہ ہے گر تو ہو
اب مصلحت یہی ہے کہ مہلت اسے نہ دو
ہے اس سے کیا مراد حسیں ہے کہ نیک ہے
دو لاکھ اس طرف ہیں دلاور وہ ایک ہے
دنیا نہ جائے دین کا گر ہو تو ہو ضرر
ٹکڑے کرو اسے کہ یہ دشمن کا ہے پسر
تم آب دیدہ ہو لبِ خشک اس کے دیکھ کر
قطرہ نہ دوں میں گھٹنیوں اصغرؔ بھی آئے گر
غیر از یزیدؔ اور کوئی حکمراں نہ ہو
اولاد مرتضیٰ میں کسی کا نشاں نہ ہو
ہاں غازیو نہ اس کی جوانی کا غم کرو
نیزے پہ نیزے مارو ستم پر ستم کرو
برچھی اٹھاؤ ہاتھوں پہ تیغیں علم کرو
نخلِ مرادِ سبطِ نبی کو قلم کرو
بیٹا نہ جب رہا تو کدھر جائیں گے حسینؔ
گھوڑے سے یہ گرے گا تو مرجائیں گے حسینؔ
چھد جائے گا سناں سے جو اس شیر کا جگر
تڑپیں گے کیا زمیں پہ شہنشاہ بحر و بر
ڈیوڑھی سے ماں پکارے گی ہے ہے مرا پسر
نکلے گی خیمہ گاہ سے زینبؔ برہنہ سر
حضرت تو پیٹتے ہوئے لاشے پہ آئیں گے
ہم لوٹنے کو خیمۂ اقدس میں جائیں گے
یہ گل عذار دخترِ حیدرؔ کی جان ہے
بہنوں کی زندگی ہے برادر کی جان ہے
بابا کی روح ہے تنِ مادر کی جان ہے
بے جاں کرو اسے کہ یہ سب گھر کی جان ہے
جوشن یہی ہے بازوئے برناوپیر کا
بعد اس کے خاتمہ ہے صغیر و کبیر کا
یہ سن کے فوجِ کیں ہوئی آمادۂ نبرد
دردِ دل حسین کا تھا ایک کو نہ درد
غل سن کے ہو گیا شہ والا کا رنگ زرد
کانپے جو پاؤں بیٹھ گئے بھر کے آہ سرد
ماں گر پڑی زمیں پہ پھوپھی بلبلا گئی
بدلی ستم کی واں علیؔ اکبر پہ چھا گئی
قرنا پھکی سپاہ میں طبلِ وغا بجا
باندھے پرے سواروں نے بڑھ بڑھ کے جابجا
پیدل، چلے نبرد کو باجے بجابجا
چلاے اہلِ بیت کہ ہے ہے یہ کیا بجا
حضرت پکارے لال پہ اعدا کے ریلے ہیں
رانڈو دعا کرو علیؔ اکبر اکیلے ہیں
لڑنے کو اس طرف سے عدو سب کے سب بڑھے
تنہا ادھر سے اکبرؔ عالی نسب بڑھے
چومے قدم نہیب نے جھک کر یہ جب بڑھے
گویا پئے جہاد امیر عرب بڑھے
دہشت سے فوج شام کی بدلی سمٹ گئی
قدرت خدا کی دن جو بڑھا رات گھٹ گئی
ڈھالوں کو رکھ کے چہروں پہ گر گر پڑے حسود
گو تھے کئی ہزار پہ کیا ان کی ہست و بود
تھرا گیا تمام جنودِ سقر و رود
نورِ خدا کے سامنے ظلمت کی کیا نمود
عبرت سپاہ شام پہ دِہ چند ہو گئی
باجوں کی فوجِ کیں کے صدا بند ہو گئی
جرار کی زرہ پہ لگے جب کئی خدنگ
صفدر نے پڑھ کے فاتحہ، لی تیغ شعلہ رنگ
چمکا اک آئینہ کہ ہوئی فوجِ شام دنگ
دکھلائے تیغ تیز نے بجلی کے رنگ ڈھنگ
تھی کس کو تاب صاعقۂ شعلہ بار کی
یاد آ گئی ہر اک کو چمک ذوالفقار کی
تھم تھم کے یوں گیا صفِ اعدا پہ وہ دلیر
جاتا ہے داؤں کر کے غزالوں پہ جیسے شیر
غازی جو بھوک پیاس میں تھا زندگی سے سیر
کشتوں کے پشتے ہو گئے دم میں سروں کے ڈھیر
اک سیل زور شور سے آئی گذر گئی
ثابت نہ یہ ہوا صفِ اول کدھر گئی
جب یہ بڑھے لہو تنِ اعدا کا گھٹ گیا
باقی تھا جو حساب وہ لاشوں سے پٹ گیا
لشکر میں فرد فرد کا چہرا جو کٹ گیا
پس دفعتاً سپاہ کا دفتر الٹ گیا
سر داخلِ خزانۂ سرکار ہوگئے
پہلا ہی جائزہ تھا کہ بیکار ہوگے
چہرے پہ ایک کے نہ بحالی نظر پڑی
جو صف بھری ہوئی تھی وہ خالی نظر پڑی
سر پر سبھوں کے تیغ ہلالی نظر پڑی
سوئے جنوب فوجِ شمالی نظر پڑی
غل تھا کہ تیغ تیز نہیں موت آتی ہے
کیوں کر قدم تھمیں کہ زمیں سرکی جاتی ہے
ٹکڑے پڑے تھے خاک پہ بھالے اِدھر اُدھر
چھپتے تھے ڈر کے برچھیوں والے اِدھر اُدھر
پیشِ نظر تھے خون کے تھالے اِدھر اُدھر
ابتر تھے دشتِ کیں میں رسالے اِدھر اُدھر
ملتا تھا فصل کا نہ ٹھکانا نہ باب کا
شیرازہ کھل گیا تھا ستم کی کتاب کا
بڑھ کر کسی نے وار جو روکا سپر کٹی
چار آئینہ کٹا زرہِ خیرہ سر کٹی
نیزے کی ہرگرہ صفتِ نیشکر کٹی
سینہ کٹا جگر ہوا زخمی کمر کٹی
رہوار بھی دو نیم میانِ مصاف تھا
ان سب کے بعد منہ کو جو دیکھا تو صاف تھا
وہ گھاٹ باڑھ اور وہ اس کی چمک دمک
کانپی کبھی زمیں کبھی تھرا گئے فلک
شعلے میں یہ چمک تھی نہ بجلی میں یہ لپک
ہر ضرب میں سما سے تلاطم تھا تا سمک
کونین میں حواس بجا تھے نہ ایک کے
گاوِ زمیں سمٹتی تھی گھنٹوں کو ٹیک کے
سیدھی چلی وہ جب صفِ دشمن الٹ گئی
باقی تھی جتنی عمر تہِ تیغ کٹ گئی
آ کر زمیں پہ جب سوئے گردن پلٹ گئی
بجلی سے رعد رعد سے بجلی لپٹ گئی
گرتے تھے جن، زمین پہ منہ ڈھانپ ڈھانپ کے
ہٹتے تھے جبرئیل امیں کانپ کانپ کے
ملتا نہ تھا صفوں میں عَلم کا نشاں کہیں
چلے کہیں تھے شست کہیں اور کماں کہیں
نیزے کہیں تھے ڈانڈ کہیں اور سناں کہیں
جمدھر کہیں کمند کہیں برچھیاں کہیں
اک اک سیاہ رو کا جگر داغ داغ تھا
جنگل تمام ڈھالوں کے پھولوں سے باغ تھا
چمکی گری اٹھی ادھر آئی اُدھر گئی
خالی کیے پرے تو صفیں خوں میں بھر گئی
کاٹے کبھی قدم کبھی بالائے سر گئی
ندی غضب کی تھی کہ چڑھی اور اتر گئی
اک شور تھا یہ کیا ہے جو قہر صمد نہیں
ایسا تو رودِ نیل میں بھی جزر و مد نہیں
سر خود سروں کے چنبر گردن سے اڑ گئے
ہاتھ آستیں سے اڑ گئے سر تن سے اڑ گئے
ڈر ڈر کے سب پرند نشیمن سے اڑ گئے
پائی جو راہ طائرِ جاں سَن سے اڑ گئے
تھے قتلِ عام پر علیؔ اکبر تلے ہوئے
رستے تھے بند زخموں کے کوچے کھلے ہوئے
اللہ رے دو زبانیٔ تیغ دو دم کا کاٹ
آفت تھی جس کی باڑھ قیامت تھا جس کا گھاٹ
مقتل سے تا بہ نہر تھا دریائے خوں کا پاٹ
ہر دم تھی اس کو تازہ لہو چاٹنے کی چاٹ
سختی کو جوڑ بند کے کب مانتی تھی وہ
ہر استخواں کو مغز قلم جانتی تھی وہ
آئی جدھر پلٹ کے صفوں کو بچھا گئی
تن سے اڑا دیا وہی سر جس کو پا گئی
ہر اک کڑی کو نرم سمجھ کر چبا گئی
فولاد کی زرہ کو اشارے میں کھا گئی
چار آئینہ کا کاٹ بھی اس پر حوالہ تھا
ذکر اس کا کیا ہے خود تو منہ کا نوالہ تھا
یارا قرار کا تھا نہ صورت فرار کی
پیدل کی موت تھی تو خرابی سوار کی
روئیں تنوں کو، تاب نہ تھی ایک وار کی
ٹکڑے تھے دو کے ہاتھ یہ گھائی تھی چار کی
آگے بڑھے تو منہ وہیں کٹ جائے گیو کا
بجلی کی تھی کڑک کہ طمانچہ تھا دیو کا
اتری زمیں پہ وہ سر دشمن پہ جب چڑھی
دم بھر میں آبِ تیغ کی ندی غضب چڑھی
اک شور تھا صفوں میں کب اتری یہ کب چڑھی
سب کو بخارِ تیغ سے لرزے کی تپ چڑھی
مقتل سے بھاگنے پہ تنک ظرف تُل گئے
کانپے یہ نیزہ باز کہ سب بند کُھل گئے
زندہ کسی کو تیغ دو دم چھوڑتی نہ تھی
پیاسی یہ تھی کہ جسم میں دم چھوڑتی نہ تھی
بے دم کیے گلا کوئی دم چھوڑتی نہ تھی
بھاگیں کہاں کہ موت قدم چھوڑتی نہ تھی
خود وہ دبے جو لڑتے تھے گھوڑوں کو داب کے
بیڑی قدم میں بن گئے، حلقے رکاب کے
قعرِ سقر میں کشتۂ ضربِ نخست تھے
بے سر ہوئے بہت جو لڑائی میں چست تھے
قبضہ میں تھا نہ زور نہ بازو درست ھے
کھینچیں کسے کمانوں کے بازو بھی سست تھے
ہر کج نہاد تیر اجل کا نشانہ تھا
شانے بھی تھے قلم یہ نیا شاخسانہ تھا
تیغوں کو ڈر کے عربدہ جو پھینکنے لگے
مغفر سروں سے مثل سبو پھینکنے لگے
حلقے کماں کے سب لب جو پھینکنے لگے
تنکا سمجھ کے تیر عدو پھینکنے لگے
ترکش بھی اہل ظلم کے آفت رسیدہ تھے
چلّے بھی کشمکش میں کماں سے کشیدہ تھے
کرتے تھے فتح جنگ کو جو ایک آن میں
رعشہ تھا ان کے ہاتھ میں لکنت زبان میں
الجھاتے تھے کمند کمینے کمان میں
ترکش میں تیغیں رکھتے تھے تیروں کو میان میں
تلوار رکھ کے ہاتھ سے منہ ڈھانپ لیتے تھے
آتی تھی تیغ جب تو سپر پھینک دیتے تھے
بڑھتے تھے جو پرے سے بڑے بول بول کے
پہلے انہیں کو مار لیا رول رول کے
حملہ کیا جو تیغِ دو دم تول تول کے
ہتھیار سب نے پھینک دیے کھول کھول کے
اس شان سے کبھی نہ عجم نہ عرب لڑے
دو دن کی پیاس میں علیؔ اکبر غضب لڑے
دہشت سے کتنے ڈوب کے دریا میں مر گئے
اس گھاٹ پر جو آئے سر ان کے اتر گئے
رستہ تھا ایک اِدھر وہ گئے یا اُدھر گئے
ہر پھر کے ہر طرف سے میانِ سقر گئے
نار ان کے اشتیاق میں آب ان کی لاگ میں
پھینکا ہوا نے آب میں پانی نے آگ میں
وہ حرب وہ شکوہ وہ شان پیمبری
نعرے وہ زور و شور کے وہ ضرب حیدریؔ
وہ تیغ خوں چکاں وہ جلالِ غضنفری
راکب جو رشکِ حور تو رہوار بھی پری
چالاک آہوانِ ختن اس قدر نہ تھے
اڑ جاتا تھا ہما کی طرح اور پر نہ تھے
باریک جلد وہ کہ نظر آئے تن کا خوں
کنڈے کو دیکھ کر مہِ نو ہووے سرنگوں
رفتار میں وہ سحر کہ پریوں کو ہو جنوں
غنچے بھی کچھ بڑے ہیں کنوتی کو کیا کروں
قرباں ہزار جان، فرس بے نظیر پر
پیکان دو چڑھے ہوئے ہیں ایک تیر پر
کوتاہ و گرد و صاف کنوتی کمر کفل
کیا خوشنما کشادگیِٔ سینہ و بغل
سیماب کی طرح نہیں آرام ایک پل
پھرتا تھا اس طرح کہ پھرے جس طرح سے کَل
راکب نے سانس لی کہ وہ کوسوں روانہ تھا
تارِ نفس بھی اس کے لیے تازیانہ تھا
وہ جست خیز سرعتِ چالاکیِٔ سمند
سانچے میں تھے ڈھلے ہوئے سب اس کے جوڑ بند
سُم قرص ماہتاب سے روشن ہزار چند
نازک مزاج و شوخ و سیہ جسم سر بلند
گر ہل گئی ہوا سے ذرا باگ اڑ گیا
پُتلی سوار کی نہ پھری تھی کہ مُڑ گیا
آہو کی جست شیر کی آمد پری کی چال
کبکِ دری خجل پر طاؤس پائمال
سبزہ سبک روی میں قدم کے تلے نہال
اک دو قدم میں بھول گئے چوکڑی غزال
جو آ گیا قدم کے تلے گرد برد تھا
چھل بل غضب کی تھی کہ چھلاوا بھی گرد تھا
بجلی کبھی بنا کبھی رہوار بن گیا
آیا عرق تو ابر گہر بار بن گیا
گہ قطب، گاہ گنبد دوّار بن گیا
نقطہ کبھی بنا کبھی پرکار بن گیا
تیراں تھے اس کے گشت پہ لوگ اس ہجوم کے
تھوڑی سی جا میں پھرتا تھا کیا جھوم جھوم کے
جب اس جری نے قتل کیے پانچ سو جواں
ہر صف سے ہر پرے سے اٹھا شور الاماں
چلایا ابن سعدِ سیہ قلب و سخت جاں
نکلیں وہ دس ہزار کماندار ہیں کہاں
برچھی کا اب ہے کام نہ تلوار چاہیے
اس نوجواں پہ تیروں کی بوچھار چاہیے
یہ سن کے تشنہ لب پہ چلے چار سو سے تیر
پتھر عقب سے پڑنے لگے رو برو سے تیر
آتے تھے فوج فوج، سپاہِ عدو سے تیز
سب سرخ تھے شبیہ نبی کے لہو سے تیر
مقتل میں کیا ہجوم تھا اس نور عین پر
پروانے گر رہے تھے چراغِ حسینؔ پر
سینے پہ تیر کھا کے اٹھایا جو راہوار
بجلی چمک کے ہو گئی گویا فلک کے پار
سر خاک پر گرانے لگی تیغِ آبدار
تیروں کو پھینک پھینک کے بھاگے خطا شعار
حملہ کیا تھا جن پہ رخ ان کے تو پھر گئے
پر یہ پلٹ کے برچھیوں والوں میں گھر گئے
یوں آ گیا سنانوں میں وہ آسماں جناب
ہو جس طرح خطوطِ شعاعی میں آفتاب
سوکھی زباں میں پڑ گئے کانٹے بغیر آب
طاقت بھی فرط ضعف سے دینے لگی جواب
آمد ہوئی جو غش کی سرِ پاک جھک گیا
واحسرتا کہ ہاتھ بھی لڑنے سے رک گیا
اس حال میں بھی تیغ سے کیں برچھیاں قلم
لیکن جگر پہ لگ گیا اک نیزۂ ستم
زخمِ جگر سے بہنے لگا خون دم بہ دم
نکلے ہوئے رکابوں سے تھراتے تھے قدم
کھینچا جو اس نے سینے سے نیزہ تکاں کے ساتھ
دو پارۂ جگر نکل آئے سناں کے ساتھ
نیزہ لگا کے بھاگ چلا تھا وہ نابکار
قربان جرأتِ پسرِ شاہِ نامدار
زخمِ سناں تھا سینۂ انور کے وار پار
ماری شقی کو دوڑ کے اک تیغ آبدار
پہونچوں سے اس کے ہاتھ قلم ہو کے گر پڑے
لیکن فرس سے آپ بھی خم ہو کے گر پڑے
گرنا تھا بس کہ سر پہ لگا گرز ہے ستم
یوں جھک گئے کہ ہوتے ہیں سجدے میں جیسے خم
رکھ دی گلے پر شیثؔ نے شمشیر تیز دم
تلوار اک پڑی کہ ہوئیں پسلیاں قلم
غل تھا کرو نہ رحم تنِ پاش پاش پر
دوڑا دو گھوڑے اکبرؔ مہرو کی لاش پر
حضرت کھڑے تھے خیمے کی پکڑے ہوئے طناب
سن کر یہ غل رہی نہ دلِ ناتواں کو تاب
ناگاہ رن سے آئی صدا اے فلک جناب
بیٹا جہاں سے جاتا ہے اب آئیے شتاب
لاشے پہ ظلم و جور بد افعال کرتے ہیں
گھوڑوں سے اہل کیں ہمیں پامال کرتے ہیں
سن کر یہ استغاثۂ فرزند خوش خصال
سید نے آہ کی کہ ہلا عرش ذو الجلال
کھولے جناب فاطمہؔ کی بیٹیوں نے بال
بانوؔ پکاری خیر تو ہے اے علیؔ کے لال
ہے ہے پسر سے کون سی مادر بچھڑ گئی
صاحب بتاؤ کیا مری بستی اجڑ گئی
نیزے سے کس کے لال کا زخمی ہوا جگر
کرتے ہیں کس کی لاش کو پامال اہلِ شر
کہتا ہے کون رن میں تڑپ کر پدرپدر
اب گھر سے میں نکلتی ہوں ہے ہے مرا پسر
پردہ نہ مجھ سے کیجیے سب جانتی ہوں میں
آواز یہ اسی کی ہے پہچانتی ہوں میں
بانوؔ کو قسمیں دے کے چلے شاہِ نامدار
وہ پیاس اور وہ دھوپ کا صدمہ وہ اضطرار
دل تھا الٹ پلٹ تو کلیجہ تھا بے قرار
اٹھتے تھے اور زمین پہ گرتے تھے باربار
چلاتے تھے شبیہ پیمبر ہم آتے ہیں
گھبرائیو نہ اے علیؔ اکبر ہم آتے ہیں
بیٹا پکارو پھر کہ بصارت میں فرق ہے
اے نور عین جسم کی طاقت میں فرق ہے
تم یہ نہ جانیو کہ محبت میں فرق ہے
زخمی ہے قلب روح کی راحت میں فرق ہے
داغِ جگر ملا ہمیں گودی میں پال کے
کس کو دکھاؤں اپنا کلیجہ نکال کے
آؤں کدھر کو اے علیؔ اکبر جواب دو
چلا رہی ہے ڈیوڑھی پہ مادر جواب دو
اکبرؔ برائے خالقِ اکبر جواب دو
بیٹا جواب دو مرے دلبر جواب دو
گرتے ہیں ہم ثواب کا ہاتھوں سے کام لو
بیٹا ضعیف باپ کے بازو کو تھام لو
کچھ سوجھتا نہیں کہ کدھر جاؤں کیا کروں
اے نورِ چشم تجھ کو کہاں پاؤں کیا کروں
مضطر ہے جان و دل کسے سمجھاؤں کیا کروں
کیوں کر پسر کو ڈھونڈھ کے میں لاؤں کیا کروں
پایا تھا مدتوں میں جسے خاک چھان کے
وہ لال ہم نے کھو دیا جنگل میں آن کے
بس اب خبر حسینؔ کی لے جلد اے اجل
اے جسم زار، زیست کا باقی نہیں محل
اے جانِ ناتواں تنِ مجروح سے نکل
ہاں اے نفس چھری کی طرح سے گلے پہ چل
چھوٹے نہ اس کا ہاتھ جو پیری کی آس ہو
لاشہ بھی لاشۂ علیؔ اکبر کے پاس ہو
جنگل سے بے حواس پھرے نہر پر گئے
واں بھی جو وہ گہر نہ ملا سوئے بر گئے
دوڑے کسی طرف تو کسی جا ٹھہر گئے
تھالے ملے لہو کے برابر جدھر گئے
ٹپکا ہوا زمیں پہ جگر کا لہو ملا
لیکن کہیں نہ وہ پسر ماہ رو ملا
جا کر صفوں کے پاس پکارے باشکِ آہ
ہے کس طرف مرے علیؔ اکبر کی قتل گاہ
اے ظالمو، یہ شب ہے کہ دن ہو گیا سیاہ
کس ابر میں چھپا ہے مرا چودھویں کا ماہ
بتلاؤ جان ہے کہ نہیں جسم زار میں
زخمی پڑا ہے شیر مرا کس کچھار میں
لاش پسر کو ڈھونڈھتے تھے شاہِ بحر و بر
سر پیٹنے کی جا ہے کہ ہنستے تھے اہل شہر
کہتا تھا شمر اے پسر سید البشر
کس کو حضور ڈھونڈھتے ہیں مر گیا پسر
خود ڈھونڈھ لیجیے جسد پاش پاش کو
بتلائیں گے نہ ہم علیؔ اکبر کی لاش کو
لاکھوں سے تشنہ کام لڑے کام کر گئے
امت کی مغفرت کا سر انجام کر گئے
فیض اپنا مثلِ ابر کرم عام کر گئے
پڑھتے ہیں سب درود جو ذکر ان کے ہوتے ہیں
ایسے بشر وہ تھے کہ ملک جن کو روتے ہیں
دیندار و سرفروش و شجاع و خوش اعتقاد
ہاتھوں میں تیغیں اور دلوں میں خدا کی یاد
زخموں کو نخلِ قد پہ وہ سمجھے گلِ مراد
مرادنگی یہ پیاس میں فاقوں میں یہ جہاد
تیغوں سے بند کون سا ان کا کٹا نہ تھا
پر معرکے سے پاؤں کسی کا ہٹا نہ تھا
برسوں رہے گا چرخ میں، گر آسمانِ پیر
لیکن نظر نہ آئے گا ان کا کہیں نظیر
گورے نہ ان کے پاؤں، نہ روئے مہِ منیر
خورشید جن کے سامنے اک ذرۂ حقیر
پرخوں قبائیں جسم میں، سینے تنے ہوئے
پہنچے ریاضِ خلد میں دولہا بنے ہوئے
رستم اٹھا نہ سکتا تھا سر ان کے سامنے
شیروں کے کانپتے تھے جگر ان کے سامنے
پھیکی تھی روشنیِٔ قمر ان کے سامنے
اڑتا تھا رنگ روئے سحر، ان کے سامنے
بخشا تھا نور، حق نے ہر اک خوش صفات کو
ہوتا تھا دن، جو گھر سے نکلتے تھے رات کو
پیشانیوں پہ جلوہ نما اختر سجود
دیکھیں جو ان کا نور تو قدسی پڑھیں درود
رخ سے عیاں جلال و جوانمردی و نمود
شیدائے آل، شیفتۂ واجب الوجود
جینے کی شاہ دیں کو دعا دے کے مر گئے
ایماں کے آئینہ کو جِلا دے کے مر گئے
تاثیر کر گئی تھی انہیں صحبتِ امام
تھا نزع میں بھی خشک لبوں پہ خدا کا نام
لبریز تھے محبت حیدرؔ سے دل کے جام
ذی قدر، ذی شعور، دلاور خجستہ کام
لشکر جو ان پہ ٹوٹ پڑے شام و روم کے
تلواریں کھائیں جسم پہ کیا جھوم جھوم کے
لاکھوں میں انتخاب ہزاروں میں لا جواب
تھا خشک و تر پہ جن کا کرم صورتِ سحاب
وہ نور، وہ جلال، وہ رونق، وہ آب و تاب
زہراؔ کے گھر کے چاند، زمانے کے آفتاب
بس یک بہ یک جہاں میں اندھیرا سا چھا گیا
دن بھی ڈھلا نہ تھا کہ زوال ان پہ آ گیا
گل ہو گئے عقیلؔ کی تربت کے جب چراغ
جعفر کے لاڈلوں نے دیئے شہ کے دل کو داغ
ماتم سے بھانجوں کے ہوا تھا نہ انفراغ
پامال ہو گیا، حسنِؔ مجتبیٰ کا باغ
لاشے اٹھائے جنگ کرے یا بکا کرے
جس پر گریں یہ کوہ مصیبت وہ کیا کرے
صدمہ یہ تھا کہ لٹنے لگی دولتِ پدر
نکلے نبرد کو اسد اللہ کے پسر
مارے گئے جہاد میں جس دم وہ شیر نر
رخصت ہوئے حسینؔ سے عباسِؔ نام ور
ددریا بہے لہو کے بڑا کشت و خوں ہوا
ڈھلتی تھی دوپہر کہ علم سر نگوں ہوا
پیری میں قہر ہے، خبر مرگ نوجواں
ریتی پہ تھر تھرا کے گرے شاہِ انس و جاں
نکلیں سروں کو پیٹتی، خیمے سے بیبیاں
تھا خانۂ علی میں تلاطم کہ الا ماں
یوں گھر الٹ پلٹ تھا امامِ حجاز کا
جس طرح ٹوٹ جاتا ہے لنگر جہاز کا
غل تھا کہ خوں میں بھر گیا سقائے اہل بیت
دنیا سے کوچ کر گیا، سقائے اہل بیت
ہم لٹ گئے گذر گیا سقائے اہل بیت
فریاد ہے کہ مر گیا، سقائے اہل بیت
ہے ہے کہاں سے اپنے بہشتی کو لائیں گے
سوکھی زبان، اب کسے بچے دکھائیں گے
ہلتا تھا خیمہ روتے تھے یوں اہل بیت شاہ
صدمے سے حالِ زوجۂ عباسؔ تھا تباہ
چلاتی تھی کہ نہر کی مجھ کو بتاؤ راہ
لوٹی گئی میں دشت پُر آفت میں آہ آہ
خم تھے گرا تھا کوہِ مصیبت حسینؔ پر
ماتم تھا بیبیوں میں سکینہؔ کے بین پر
ماتم ادھر تھا، جشن میں تھے اہل شر اُدھر
بجتے تھے شادیانۂ فتح و ظفر اُدھر
انعام بانٹتا تھا ہر اک کو عمر ادھر
روتے تھے دیکھ دیکھ کے حضرت اِدھر اُدھر
غل تھا کہ بس حسینؔ بہت روئے بھائی کو
کوئی جواں ہو اور تو بھیجو لڑائی کو
باقی نہیں کوئی تو وِغا کو خود آیئے
حیدرؔ کی ذوالفقار کے جوہر دکھایئے
زخمِ سنان و خنجر و شمشیر کھایئے
گرمی بڑی ہے آج لہو میں نہایئے
آمادہ ہم تو دیر سے بہرِ ستیز ہیں
تیغیں بھی ہیں اُپی ہوئی خنجر بھی تیز ہیں
کاٹے ہیں جس نے بازوئے لخت دلِ امیر
ہے خوب آبدار، وہ شمشیرِ بے نظیر
چھیدا ہے جس سے مشک کو موجود ہے وہ تیر
ہر گرز وہ ہے، ضرب سے جس کی ہوئے اخیر
تڑپے تھے جس سے مشک کو دانتوں سے چھوڑ کر
برچھی یہ ہے جو نکلی تھی پہلو کو توڑ کر
صابر بڑے ہیں آپ تو یا شاہِ انس و جاں
اک بھائی کے فراق میں یہ نالہ و فغاں
رونے سے جی اٹھیں گے نہ عباسِ نوجواں
حضرت پکارتے ہیں کسے، بھائی اب کہاں
ملتا ہے کب جہاں میں بھلا جو گزر گیا
اب فکر اپنی کیجئے وہ شیر مر گیا
اکبر نے کی غضب کی نظر سوئے فوج شام
کانپے یہ غیظ سے کہ اگلنے لگی حسام
کی عرض ہاتھ جوڑ کے اے قبلۂ انام
سنتے ہیں آپ لشکرِ اعدا کا یہ کلام
خوں تن میں جوش کھاتا ہے ہنگام جنگ ہے
مولا بس اب تو حوصلۂ صبر تنگ ہے
ان کے کلام سننے کی کس کے جگر میں ہے تاب
خادم زبانِ تیغ سے دے گا انہیں جواب
کیا اپنے دل میں سمجھے ہیں، یہ خانماں خراب
نعرہ کروں تو شیر کا زہرہ ہو آب آب
آداب شاہ سے نہیں ہم بول سکتے ہیں
زخمِ جگر پہ اب تو نمک یہ چھڑکتے ہیں
ہم کو یہ طعن و طنز کی باتیں نہیں پسند
کوفے میں لیں گے دم جو اٹھائیں گے پھر سمند
ہونٹوں پہ غم سے اب ہے، یہاں جانِ دردمند
کاٹیں تبر سے، تیغ سے خنجر سے بند بند
ہنس ہنس کے جسم پر، تبر و تیر کھائیں گے
تیغِ زباں کے زخم اٹھائے نہ جائیں گے
گھبرا کے دیکھنے لگے بیٹے کے منہ کو شاہ
فرمایا خیر کہہ لیں جو کہتے ہیں روسیاہ
کیوں کانپتے ہو غیظ سے، اے میرے رشک ماہ
لازم ہے صبر و شکر کہ راضی رہے الٰہ
غصہ اسی طرح اگر آئے گا آپ کو
خنجر کے نیچے دیکھو گے کس طرح باپ کو
برہم نہ ہو تمہیں، سر شبیرؔ کی قسم
لو گھر میں جاؤ خیر سمجھ لیں گے ان سے ہم
دیکھو ہمیں کہ بھائی کے بازو ہوئے قلم
تلوار، دل پہ چل گئی، مارا نہ ہم نے دم
سب جل کے خاک ہوں جو ابھی بد دعا کروں
پر امت نبی ہے، بجز صبر کیا کروں
یہ سن کے زرد ہو گئے ہم شکلِ مصطفی
رو کر کہا یہ کرتے ہیں ارشاد آپ کا
وہ وقت، وہ گھڑی، نہ دکھائے ہمیں خدا
بابا نہ ہو تو بیٹے کے جینے کا کیا مزہ
آمادۂ فنا ہیں، خوشی دل سے فوت ہے
پھر خضرؔ کی حیات ملے گر تو موت ہے
کیا پہلے سر کٹایئے گا یا شہِ زماں
کس اشتیاق سے شہ دیں نے کہا کہ ہاں
آگے جو کچھ رضائے خدا، اے پدر کی جاں
جیتے ہیں پیر، سامنے مرتے ہیں نوجواں
دیکھو کہ چھوٹے بھائی کے ماتم میں روتے ہیں
پالا تھا جن کو ہم نے وہ دریا پہ سوتے ہیں
یہ کہہ کے اٹھ کھڑے ہوئے سلطانِ بحر و بر
پٹکے سے باندھنے لگے، ٹوئی ہوئی کمر
قدموں یہ گر پڑے، علیؔ اکبر بہ چشمِ تر
کی عرض رحم کیجئے، مر جائے گا پسر
آگے مرے جو ہو گی شہادت امام کی
دنیا میں آبرو نہ رہے گی غلام کی
چھوٹے تھے جو کہ سِن میں بڑے کر گئے وہ کام
یا شاہ کیا لڑائی کے قابل نہیں غلام
عمو کے خوں کا لیں گے لعینوں سے انتقام
ہم نے بھی تیغ باندھی ہے بچپن سے یا امام
عزت ملی ہے خلق میں صدقے سے آپ کے
بیٹا وہی جو رنج میں کام آئے باپ کے
انصاف آپ کیجئے یا سرورِ عرب
بیٹا تو گھر میں بیٹھے، لڑے باپ تشنہ لب
مارا گیا نہ آج، تو کل یہ کہیں گے سب
کیسا لہو سفید ہے، دنیا کا ہے غضب
سر کو کٹا کے باپ جہاں سے گزر گیا
بیٹا جوان، باپ کے آگے نہ مر گیا
بہرِ رسول رن کی رضا دیجئے مجے
صدقہ علی کا، اذن وغا دیجئے مجھے
مرتا ہوں یا امام، جلا دیجئے مجھے
یادِ خدا میں دل سے بھلا دیجئے مجھے
کھولیں کمر، حضور تو دل کو قرار ہو
کہہ دیجئے کہ جا! علیؔ اکبر نثار ہو
شہ نے کہا تمہیں مرے دل کی نہیں خبر
پیارے کہاں سے لاؤں میں اس طرح کا جگر
ہے باپ کو عصائے ضعیفی، جواں پسر
جب تم نہ ہو گے پاس تو مر جائے گا پدر
ایسے ہنسے نہ تھے کہ ہمیں تم رلاتے ہو
شادی کے دن جو آئے، تو مرنے کو جاتے ہیں
راتیں یہ عیش کی ہیں مرادوں کے ہیں یہ دن
پورے جواں نہیں، ابھی کیا ہے تمہارا سِن
اکبرؔ تری جوانی پہ روئیں گے انس و جن
کیوں کر قرار آئے گا ماں کو تمہارے بن
کیسی ہوا چلی، چمن روزگار میں
سید کا باغ لٹتا ہے فصلِ بہار میں
دیتا اگر تمہیں کوئی فرزند زوالجلال
ہوتی پدر کی قدر سمجھتے ہمارا حال
رخصت کا آپ سے یوں ہی کرتا وہ جب سوال
تب جانتے کہ دیتے اسے رخصتِ جدال
کیا جانے وہ مزاج سے اس کا ملا نہیں
اچھا سدھارو تم سے ہمیں کچھ گلا نہیں
تسلیم کر کے بولے علیؔ اکبرِ غیور
لاکھوں برس جہاں میں سلامت رہیں حضور
فرمایا شہ نے خیر اجل بھی نہیں ہے دور
برچھی لگا کے دل پہ خوشامد یہ کیا ضرور
تقریر میں پدر کو نہ اب بند کیجیے
خیمے میں جا کے ماں کو رضامند کیجیے
ہیں مبتلائے رنج بھلا کیا ہمارا پیار
تم سے جو پسر ہوں تو اس راہ میں نثار
ہر دم خدا سے خیر کا ہوں میں امیدوار
ہاں ماں نہ جانے دے تو مرا کیا ہے اختیار
سینے میں دل ہلے گا بدن تھرتھرائے گا
رخصت کا نام سنتے ہی غش اس کو آئے گا
سب جانتے ہیں جو ہے پھوپھی کو تمہاری چاہ
معلوم ہو گا جاؤ گے جب سوئے خیمہ گاہ
باہیں گلے میں ڈالے گی زینبؔ بہ اشک و آہ
قدموں پہ گر کے آپ کی ماں ہوگی سَدِ راہ
یہ مرحلہ بھی کم نہیں زنجیر و طوق سے
دونوں رضا جو دیں تو چلے جاؤ شوق سے
روتے ہوئے چلے علیؔ اکبر سوئے خیام
کانپا یہ دل کہ بیٹھ گئے خاک پر امام
روتا ہوا جو ڈیوڑھی سے آیا وہ نیک نام
دوڑی پسر کو دیکھ کے بانوئے تشنہ کام
دامن سے آ کے بالی سکینہؔ چمٹ گئی
زینبؔ بلائیں لے کے گلے سے لپٹ گئی
ماں گرد پھر کے بولی کہ اے میرے گلعذار
تم صبح سے گئے تھے اب آئے یہ ماں نثار
در پر تڑپ تڑپ کے میں جاتی تھی بار بار
کھولو بس اب کمر کہ مرا دل ہے بے قرار
گرمی یہ اور قحط کئی دن سے آب کا
رخ تمتما گیا ہے مرے آفتاب کا
تر ہے قبا پسینے میں پنکھا کوئی بلاؤ
سونلا گئے ہو دھوپ میں، واری ہوا میں آؤ
جھاڑوں ردا سے گرد میں، زلفوں کی، بیٹھ جاؤ
گھٹ جائے گا لہو مرا آنسو نہ تم بہاؤ
صدمہ جو دل پہ ہو اسے کچھ منہ سے کہتے ہیں
کیا ہے جو اشک نرگسی آنکھوں سے بہتے ہیں
صغراؔ کی تو وطن سے کچھ آئی نہیں خبر
جلدی کہو کہ منھ سے نکلتا ہے اب جگر
اکبرؔ نے عرض کی کہ ہیں سب خیر سے مگر
لٹتا ہے کوئی آن میں خیر النسا کا گھر
ملتی نہیں رضا ہمیں آنسو بہاتے ہیں
بابا گلا کٹانے کو میداں میں جاتے ہیں
اس وقت کس سے دردِ دل اپنا کہوں میں آہ
تم بھی ہو سدّ راہ پھوپھی بھی ہیں سدّ راہ
چھائی ہے واں گھٹا کی طرح شام کی سپاہ
اماں مدد کرو کہ کمر باندھتے ہیں شاہ
اب زندگی ہے تلخ بہت دق ہیں جان سے
الفت نے آپ کی ہمیں کھویا جہان سے
دیتے نہیں رضا جو امامِ فلک اساس
خاطر فقط یہ آپ کی ہے اور پھوپھی کا پاس
اب غیرِ یاس کوئی نہیں ان کے آس پاس
ناطاقتی ہے ضعف ہے فاقہ ہے اور پیاس
کیوں کر لڑیں گے وہ کہ سراپا ضعیف ہیں
پیری ہے دل ضعیف ہے اعضا ضعیف ہیں
عباس جب سے مر گئے روتے ہیں دم بہ دم
رخ زرد ہے کماں کی طرح ہو گئے ہیں غم
چلوں میں تیر جوڑے ہیں واں بانیٔ ستم
قرباں ہوں کس طرح پسرِ خاطر فاطمہؔ پہ ہم
سب روکتے ہیں رن کی طرف جائیں کس طرح
ماں کو پھوپھی کو بہنوں کو سمجھائیں کس طرح
بابا کا حکم ہے کہ رضا جا کے ماں سے لاؤ
راضی پھوپھی ہوں جب تو لڑو اور زخم کھاؤ
مرضی ہے آپ کی کہ مرے پاس سے نہ جاؤ
یا فاطمہؔ تمہیں علیؔ اکبر کے کام آؤ
چلنے لگیں نہ تیر شہِ مشرقین پر
نرغہ ہے ظالموں کا تمہارا حسینؔ پر
دیکھی گئی نہ ماں سے یہ بیتابیِٔ پسر
وارث کی بے کسی پہ لگا کانپنے جگر
ہاتھوں سے دل کو تھام کے بولی وہ نوحہ گر
دولت پہ فاطمہؔ کی تصدق تمام گھر
پہلے نہ کچھ کہا تھا نہ اب روکتی ہوں میں
روتے ہو کس لیے تمہیں کب روکتی ہوں میں
زہراؔ کے لال پر مرے مادر پدر نثار
عابدؔ نثار اصغرِؔ تشنہ جگر نثار
جانیں ہزار ہوں تو فدا لاکھ سر نثار
قربان گھر، کنیز تصدق، پسر نثار
کِسرائی گو کہ ہوں پہ بہو میں علیؔ کی ہوں
مانگو گے جو وہ دوں گی کہ لونڈی سخی کی ہوں
مجھ پر حوالہ کرتے ہیں گر شاہِ خوش خصال
رخصت نہ تم کو دوں یہ بھلا ہے مری مجال
صدقہ انہیں کا ہے کہ ملا تم سا نونہال
رخصت کا صدقے جاؤں پھوپھی سے کرو سوال
ہم سب کنیزیں بنتِ امیر عرب کی ہیں
اصغرؔ ہو یا کہ تم وہی مختار سب کی ہیں
کہنے کو یوں ہیں چاہنے والے تمہارے سب
لیکن ہے ان کے عشق سے نسبت کسی کو کب
دن کو انہوں نے دن کبھی جانا نہ شب کو شب
لیجے انہیں سے آپ کو جس شے کی ہے طلب
مجھ سے نہ کچھ نہ سید عالی سے پوچھیے
گر پوچھیے تو پالنے والی سے پوچھیے
روتے ہوئے گئے علیؔ اکبر پھوپھی کے پاس
دیکھا کہ غش پڑی ہے زمیں پر وہ حق شناس
زانو پہ سر لیے ہوئے کبراؔ ہے بے حواس
اس حال میں بھی لب پہ یہی ہے کلام یاس
اب تاب و طاقت جسد و روح و دل گئی
کیوں صاحبو! رضا علیؔ اکبر کو مل گئی
اکبرؔ سے مجھ کو یہ نہ توقع تھی ہے غضب
اتنا نہیں خیال کہ ہے کون جاں بہ لب
اس گُل نے ہائے میری ریاضت بھلائی سب
نامِ خدا جواں ہوئے کیا ہم سے کام اب
ہیں محو رن کے شوق میں رخصت کے دھیان میں
سچ ہے کسی کا کون ہوا ہے جہان میں
یا بے ہمارے چین نہ آتا تھا کوئی دم
مالک اب اور ہو گئے کوئی ہوئے نہ ہم
کیا دخل تھا جو ڈیوڑھی سے باہر رکھیں قدم
ہے ہے وہ میرا دردِ مصیبت وہ رنج و غم
جاگی ہوں میں جو چونک کے راتوں کو روئے ہیں
پوچھو تو کس کی چھاتی پہ بچپن میں سوئے ہیں
کنگھی کسی کے ہاتھ کی بھاتی نہ تھی کبھی
بے میرے لیٹے نیند انہیں آتی نہ تھی کبھی
بے ان کی ماں کی قبر پہ جاتی نہ تھی کبھی
روئیں پسر، پہ ان کو رلاتی نہ تھی کبھی
میرے سوا کسی کو کبھی جانتے نہ تھے
جو تھی سو میں تھی ماں کو تو پہچانتے نہ تھے
ہر چند دونوں تھے مرے فرزند خورد سال
پر اِن کے آگے اُن کا مجھے کچھ نہ تھا خیال
راتوں کو جب لپٹتے تھے مجھ سے وہ نونہال
میں کہتے تھی ہٹو علیؔ اکبر ہے میرا لال
وہ دونوں مرنے والے تو پہلو میں ہوتے تھے
پھیلا کے پاؤں یہ مری چھاتی پہ سوتے تھے
چھوٹا تو ضد بھی کرتا تھا راتوں کو بارہا
پرعونؔ کیا عقیلؔ تھا بخشے اسے خدا
دن رات تھی خوشامدِ ہم شکل مصطفا
سینے پہ جب یہ سوئے تو اس نے یہی کیا
آقا کے نور عین ہیں عالی مقام ہیں
اماں یہ شاہزادے ہیں اور ہم غلام ہیں
رہتے تھے پاس باپ کے وہ غیرتِ قمر
الفت میں ان کی مجھ کو کچھ ان کی نہ تھی خبر
قرآن پڑھنے بیٹھتی تھی جب دمِ سحر
صورت پہ تھی انہیں کی تلاوت میں بھی نظر
غافل نہ ان کے پیار سے میں ایک آن تھی
قرآں تو رحل پر تھا حمائل میں جان تھی
میں نے انہیں پہ صدقے کئے اپنے دونوں لال
تسکین تھی کہ باقی ہے اکبر سا نونہال
مانگے تو آگے مجھ سے بھلا رخصتِ جدال
نکلوں گی ساتھ خیمے سے بکھرا کے سر کے بال
کیا خوب جیتے جی مَرے جائیں گے مرنے کو
تلوار باندھ لی ہے ہمیں ذبح کرنے کو
بچپن میں تھا نہ ہم سے زیادہ کسی کا پیار
اب کیا غرض گزر گئی وہ فصل وہ بہار
بھیگیں مسیں نمود ہوا سبزۂ عذار
مالک ہیں خود بھلا مرا اب کیا ہے اختیار
ثابت ہوا اِدھر سے اُدھر مرنے جائیں گے
میں مر بھی جاؤں گی تو وہ یاں تک نہ آئیں گے
باہر سدھارے یا ابھی ہیں ماں سے کچھ کلام
بھابی نے کیوں لیا تھا ابھی رو کے میرا نام
سینے پہ منہ کو رکھ کے یہ بولا وہ لالہ فام
آنکھیں تو آپ کھولیے حاضر ہے یہ غلام
خادم جدا نہ تھا شہِ گردوں سریر سے
کس جرم پہ حضور خفا ہیں حقیر سے
کیا ہے قصور جس پہ یہ غصہ ہے یہ عتاب
کرتا ہوں بات میں کوئی بے مرضیِٔ جناب
روتا ہوں اب کہ صبر کی مجھ کو نہیں ہے تاب
شکوہ یہ خاکسار کا اے بنتِ بوتراب
ہر دکھ میں ہر بلا میں مددگار آپ ہیں
پالا ہے مجھ کو مالک و مختار آپ ہیں
پیدا ہوا تو آپ کی صحبت مجھے ملی
کرتی ہے روح شکر وہ راحت مجھے ملی
یوسف کو کب ملی تھی جو دولت مجھے ملی
رکھا عزیز آپ نے عزت مجھے ملی
صدقہ ہے اس قدم کا جو سر تا فلک گیا
کی مہر آفتاب نے، ذرہ چمک گیا
مرضی نہ ہو تو رن کو بھی جائے نہ یہ غلام
بندے ہیں ہم اطاعتِ مالک سے ہم کو کام
تکرار کی مجال نہ اصرار کا مقام
مرتے اگر تو اس میں بھی تھا آپ ہی کا نام
روتی ہیں آپ کس لیے اچھا نہ جائیں گے
پر یاد رکھیے منہ نہ کسی کو دکھائیں گے
یہ کہہ کے جھک گیا جو قدم پر وہ ذی وقار
بس ہو گئیں محبتِ قلبی سے بے قرار
پھیلا کے دونوں ہاتھوں کو اٹھیں بحال زار
شکوے کے بدلے منہ سے یہ نکلا کہ میں نثار
امڈا یہ دل کہ چشم کے ساغر چھلک پڑے
دیکھا جو آفتاب کو آنسو ٹپک پڑے
لے کر بلایں بولیں کہ واری خفا نہ ہو
صدقے ہے تم پہ جان ہماری خفا نہ ہو
باتیں تھیں یہ تو پیار کی ساری خفا نہ ہو
روتے ہو کیوں منگاؤ سواری خفا نہ ہو
آئے بلا حسینؔ پہ جو اس کو رد کرو
اچھا سدھارو دکھ میں پدر کی مدد کرو
الفت کے جوش میں تو یہ منہ سے کہا مگر
اٹھا یہ دل میں درد کہ تھرا گیا جگر
کبراؔ کو روتے دیکھ کے بولی وہ نوحہ گر
کیا ماجرا ہوا مجھے مطلق نہیں خبر
میں روکنے نہ پائی کہ وار ان کا چل گیا
کیا میں نے کہہ دیا کہ کلیجہ نکل گیا
کیا جا کے اب نہ آئے گا گھر میں یہ نونہال
ہے ہے مری کمائی پہ آ جائے گا زوال
جس وقت سے شہید ہوئے رن میں دونوں لال
بیہوش ہوں، حواس میں ہے میرے اختلال
ایسا ہے اضطراب کہ کچھ جس کی حد نہیں
جو آپ میں نہ ہو سخن اس کا سند نہیں
میں ہوش میں نہ تھی یہ قدم پر گرے تھے جب
میں بھی کہوں، یہ پاؤں پہ گرنے کا کیا سبب
لو مجھ پہ اب کھلا کہ یہ رخصت کی تھی طلب
اکبرؔ کو میں نے ہاتھ سے کھویا تھا ہے غضب
اِصلا خبر نہیں مرے دلبر نے کیا کہا
میں نے جواب کیا دیا اکبرؔ نے کیا کہا
کیا کہہ دیا تھا مرنے کو جائے یہ گل بدن
راضی ہوئی تھی میں کہ خزاں ہو مرا چمن
بیخود ہوں جب سے رن میں سدھارے شہِ زمن
کہتی ہوں کچھ زباں سے نکلتا ہے کچھ سخن
اتنی خبر نہیں علیؔ اکبر کے پیار میں
قابو میں ہے نہ دل نہ زباں اختیار میں
زندوں میں ہوتی گر تو یہ کہتی کہ مرنے جائیں
اس پیاس میں شہید ہوں فاقوں میں زخم کھائیں
اٹھا رواں برس ہے دلھن تو مجھے دکھائیں
پالا ہے منتوں سے، مُرادیں مری برآئیں
مرتی ہوں اشتیاق میں سہرا تو دیکھ لوں
سہرے کے نیچے چاند سا چہرا تو دیکھ لوں
رخصت کے نام سے مرا پھٹتا ہے اب جگر
ایسا نہ ہو کہ بانوئے بے کس کو ہو خبر
گر سن لیا تو دل میں کہے گی وہ نوحہ گر
پیارا ہوا نہ بنتِ علیؔ کو مرا پسر
سمجھیں تھیں کیا جو دی اسے رخصت جدال کی
زینبؔ نے ہائے قدر نہ کی میرے لال کی
سچ ہے کہ اس کی چاہ سے نسبت مجھے کہاں
ہوں لاکھ ان کی چاہنے والی وہ پھر ہے ماں
آنکھوں کا نور قلب کی طاقت بدن کی جاں
آنچ آتما کی ہے وہ قیامت کہ، الاماں
کیا سوچتے ہو صاحبو کچھ تم کو خیر ہے
ماں ہے تو ماں ہے خلق میں پھر غیر غیر ہے
ماں کی نہ کم توجہی اور نہ کسی کا پیار
غصہ ہو، یا کہ سخت کہے دل میں ہے نثار
بلبل فدا ہے گل پہ، شکایت کرے ہزار
دنیا میں عاشقوں کے دلوں کو کہاں قرار
دیں ماں کا ساتھ نامِ خدا اب جوان ہیں
میرا ہے جب یہ حال، پھر اس کی تو جان ہیں
جس دم سنے یہ دُور سے بانو نے سب کلام
آئی قریب حضرت زینب وہ نیک کام
کی غرض ہاتھ جوڑ کے اے خواہر امام
میں ہوں کنیز آپ کی اور یہ پسر غلام
کس کی مجال ہے جو کہے گا یہ کیا کیا
بی بی نے دی غلام کو رخصت، بجا کیا
لونڈی ہے فاطمہ کی کنیزوں میں با وفا
ہو قطع وہ زباں جو کرے آپ کا گلا
حضرت کو ان کے سر پہ سلامت رکھے خدا
مالک ہیں آپ اس میں کسی کو ہے دخل کیا
کچھ جائے گفتگو ہے نہ ماں کو نہ باپ کو
ہے دخل اذن دینے نہ دینے کا آپ کو
غم کھائیے نہ خونِ جگر آپ پیجئے
عابدؔ کو بھیج دیجیے اصغرؔ کو بھیجئے
ہے اختیار دیجیے رخصت نہ دیجیے
قربان جاؤں جو ہو مناسب وہ کیجیے
شادی ہو یا کہ غم ہو شریکِ ثواب ہوں
ہر طرح سے میں تابع حکمِ جناب ہوں
گھر میرا جب سے لٹ گیا اس گھر میں آئی ہوں
شکوے کا کوئی حرف کبھی لب پہ لائی ہوں
کسریٰ کی گو کہ پوتی ہوں سلطاں کی جائی ہوں
لونڈی ہوں آپ کی علیؔ اکبر کی دائی ہوں
صدقہ یہ آپ کا ہے جو شہ کو عزیز ہوں
بھاوج نہ جانیے مجھے ادنیٰ کنیز ہوں
آپ اس کی ماں ہیں آپ کا فرزند ہے یہ لال
دخل اس معاملہ میں کوئی دے یہ کیا مجال
یہ عازم جدال ہے اور آپ کا یہ حال
قدموں کو چھوڑتا نہ کبھی یہ نکو خصال
آپ اس کو چاہتی ہیں یہ صدقے ہے آپ پر
پر کیا کرے کہ آج مصیبت ہے باپ پر
قسمت بری ہے اس میں کسی کا قصور کیا
اچھا رہیں کہ جائیں ہمارا بھی ہے خدا
پروا ہماری ہے نہ خیال ان کو آپ کا
تابع ہم آپ کے بھی ہیں ان پر بھی ہیں فدا
عابدؔ ہوں یا کہ یہ سبھی، آنکھوں کے تارے ہیں
پر اب تو یہ نہ آپ کے ہیں، نہ ہمارے ہیں
یہ سن کے کانپنے لگی زینبؔ جگر فگار
آئی صدائے فاطمہؔ بیٹی یہ ماں نثار
اللہ یہ محبتِ فرزند اور یہ پیار
تنہا ستم کی فوج میں ہے میرا گل عذار
رخصت نہ دے گی تو اگر اس نور عین کو
کون اب بچائے گا مرے بیکس حسینؔ کو
آواز سن کے کانپ گئی بنتِ مرتضا
بانوؔ کے منہ کو دیکھ کے اکبرؔ سے یہ کہا
واری سدھارو خیر جو کچھ مرضیِٔ خدا
ترکِ ادب ہے تم کو اگر اب نہ دوں رجا
یاں والدہ بہشت سے تشریف لائی ہیں
بنتِ نبی تمہاری سفارش کو آئی ہیں
تسلیم کرکے خیمے سے وہ سیم بر چلا
پیچھے حرم کا قافلہ سب ننگے سر چلا
بانوؔ پکارتی تھی کہ پیارا پسر چلا
چلاتی تھی پوپھی مرا لختِ جگر چلا
لٹتے ہیں اہلِ بیت دہائی امام کی
تصویر گھر سے جاتی ہے خیر الانام کی
بھائی کے غم سے عابدِ بیکس تھے بے قرار
اٹھتے تھے اور زمین پہ گرتے تھے باربار
بہنیں پکارتی تھیں کہ بھیا ترے نثار
سینوں کو پیٹتی تھیں خواصیں بہ حال زار
اک حشر تھا جدا علیؔ اکبر جو ہوتے تھے
جھولے میں پھوٹ پھوٹ کے اصغرؔ بھی روتے تھے
ہلتا تھا خیمہ رانڈوں میں تھی، یہ دھڑا دھڑی
آہوں کی بجلیاں تھیں تو اشکوں کی تھی جھڑی
کوئی ادھر کو غش تھی کوئی تھی اُدھر پڑی
آفت کا وقت تھا تو قیامت کی تھی گھڑی
ماتم تھا یہ حسینؔ کے تازہ جوان کا
جاتا ہے گھر سے جیسے جنازہ جوان کا
نکلا حرم سرا سے جو وہ نورِ حق کا نور
خادم نے دی صدا کہ برآمد ہوئے حضور
حضرت کھڑے تھے خیمے کی ڈیوڑھی سے کچھ جو دور
دستِ ادب کو جوڑ کے بولا وہ ذی شعور
رخصت ہوں اب جو حکم شہ نامدار ہو
رو کر کہا حسینؔ نے اچھا سوار ہو
گھوڑے پہ شاہزادۂ عالم ہوا سوار
گویا چلے جہاد کو محبوب کردگار
تھا ثانیِٔ براق فلک سیر راہوار
صرصر سے تند و تیز تو بجلی سے بے قرار
یوں سامنے سے وہ دمِ جولاں نکل گیا
گویا ہوا پہ تختِ سلیماں نکل گیا
حضرت تو یاں زمیں پہ گرے تھام کر جگر
جاسوس نے یہ لشکر اعدا کو دی خبر
آتا ہے اک جوانِ حسیں غیرت قمر
چہرہ پہ اس کے نور محمد ہے جلوہ گر
شان و شکوہ سب اسدِ کبریا کی کی ہے
کہتے ہیں سب بشر نہیں قدرت خدا کی ہے
ہے دھوم ذرے ذرے میں اس آفتاب کی
خوشبو ہے زلف و جسم میں مشک و گلاب کی
سر تا قدم ہے شان رسالت مآب کی
تصویر ہے رسولِ خدا کے شباب کی
گھوڑے کے گرد جن و ملک کا ہجوم ہے
صلّو علی النبی کی بیاباں میں دھوم ہے
روشن کیا ہے روئے منور نے راہ کو
رخ پر نہیں ٹھہرنے کا یارا نگاہ کو
حیراں ہے عقل دیکھ کے زلفِ سیاہ کو
آغوش میں لیے ہے شبِ قدر ماہ کو
چہرے کے نور سے شبِ مہتاب ماند ہے
خالق گوا ہ ہے کہ اندھیرے کا چاند ہے
یہ ذکر تھا کہ نورِ خدا جلوہ گر ہوا
گویا رسولِ پاک کا رن میں گذر ہوا
چلائے اہلِ شام کہ طالع قمر ہوا
ہنگامِ ظہر تھا پہ گمانِ سحر ہوا
جلوہ دکھایا برق تجلیِٔ طور نے
خورشید کو چھپا دیا چہرے کے نور نے
غش کھا گیا کوئی کوئی گر کر سنبھلا گیا
صلِّ علیٰ کسی کی زباں سے نکل گیا
خجلت سے آفتاب کا نقشبہ بدل گیا
چمکا جو نور دھوپ کا جو بن بھی ڈھل گیا
دریائے نور حق کا فقط اوج موج تھا
سب پست تھے زمیں کے ستارے کا اوج تھا
صحرا کو شمعِ حسن نے تابند کر دیا
جو مردہ دل تھے دم میں انہیں زندہ کر دیا
ذروں کو آفتاب درخشندہ کر دیا
گردوں کو اس زمین نے شرمندہ کر دیا
پایہ زمیں کا عرش کے ہم دست ہو گیا
جادے سے اوجِ کاہکشاں پست ہو گیا
اللہ رے نبیرۂ مشکل کشا کی شان
تھی جس کے عضو عضو سے پیدا خدا کی شان
حیراں تھے لوگ دیکھ کے اس مہ لقا کی شان
حمزہ کا رعب زورِ علی مصطفی کی شان
پاکیزگی نسب میں بزرگی صفات میں
شیرینیٔ کلام حسنؔ بات بات میں
کچھ حسن بچپنے کا تو کچھ آمد شباب
وہ گل سا جسم اور وہ چہرے کی آب و تاب
اپنی جگہ یہ خال کے نقطے ہیں انتخاب
پتلی کا نور جن کی سیاہی سے بہرہ یاب
گردن کی ضو میں طَور تجلیٔ طُور کے
سب عضو تن ڈھلے ہوئے سانچے میں نور کے
دل پاک روح پاک نطر پاک جسم پاک
طینت میں آبِ خلد تھا اور کربلا کی خاک
غرفوں سے جس کے حسن کی حوروں کو جھانک تاک
یوسف جو دیکھ لیں تو کہے روحنا فداک
نام اس کا لوح پر جو قلم نے رقم کیا
سو بار پڑھ کے سورۂ نور اس پہ دم کیا
کیا دخل، چار ہو، جو کسی بے ادب کی آنکھ
رکھتی تھی رعب یہ، نہ عجم نہ عرب کی آنکھ
لاکھوں تھے اس طرف پہ جھپکتی تھی سب کی آنکھ
غصہ ستم کا، قہر کی چتون غضب کی آنکھ
پانی تھا، خوف جاں سے جگر، ہر دلیر کا
آہو شکار کرتے تھے میداں میں شیر کا
غل تھا رسولِ پاک کے ثانی کو دیکھنا
حسنِ بہار باغ جوانی کو دیکھنا
کھلتے ہیں گل شگفتہ بیانی کو دیکھنا
یہ سب تو ہے پہ غنچہ دہانی کو دیکھنا
نازک لب اس صفت کے دہن اس طریق کا
خاتم پہ جڑ دیا ہے نگینہ عقیق کا
کچھ عمر بھی نہیں ابھی اٹھارواں ہے سال
یہ باغ کس بہار میں ہوتا ہے پائمال
قامت یہ ہے کہ سروِ گلستانِ اعتدال
ماں باپ دیکھ دیکھ کے کیوں کر نہ ہوں نہال
آنکھوں کے سامنے جو یہ قامت نہ ہوئے گی
بتلاؤ ماں کہ دل پہ قیامت نہ ہوئے گی
زخمی جو ہوگی تیر سے یہ چاند سی جبیں
پٹکے گی سر کو خاک پہ بانوئے دل حزیں
تیغوں سے جب کٹیں گے یہ رخسار نازنیں
پیٹیں گے دونوں ہاتھوں سے منہ اپنا شاہِ دیں
سینہ چھدے پسر کا تو کیا دل کو کل پڑے
ایوبؔ بھی جو ہوں تو کلیجہ نکل پڑے
ناگاہ فوج کیں سے عمرؔ نے کیا کلام
یہ وقت کار زار ہے اے ساکنانِ شام
بس ہے یہی بساط شہنشاہِ خاص و عام
مارا گیا یہ شیر تو مر جائیں گے امام
لُوٹو جناب فاطمہؔ زہرا کے باغ کو
ٹھنڈا کرو حسینؔ کے گھر کے چراغ کو
تصویر مصطفی کی مٹائے گا آج جو
کہتا ہوں میں کہ صاحب جاگیر ہوگا وہ
محبوب کبریا کے مشابہ ہے گر تو ہو
اب مصلحت یہی ہے کہ مہلت اسے نہ دو
ہے اس سے کیا مراد حسیں ہے کہ نیک ہے
دو لاکھ اس طرف ہیں دلاور وہ ایک ہے
دنیا نہ جائے دین کا گر ہو تو ہو ضرر
ٹکڑے کرو اسے کہ یہ دشمن کا ہے پسر
تم آب دیدہ ہو لبِ خشک اس کے دیکھ کر
قطرہ نہ دوں میں گھٹنیوں اصغرؔ بھی آئے گر
غیر از یزیدؔ اور کوئی حکمراں نہ ہو
اولاد مرتضیٰ میں کسی کا نشاں نہ ہو
ہاں غازیو نہ اس کی جوانی کا غم کرو
نیزے پہ نیزے مارو ستم پر ستم کرو
برچھی اٹھاؤ ہاتھوں پہ تیغیں علم کرو
نخلِ مرادِ سبطِ نبی کو قلم کرو
بیٹا نہ جب رہا تو کدھر جائیں گے حسینؔ
گھوڑے سے یہ گرے گا تو مرجائیں گے حسینؔ
چھد جائے گا سناں سے جو اس شیر کا جگر
تڑپیں گے کیا زمیں پہ شہنشاہ بحر و بر
ڈیوڑھی سے ماں پکارے گی ہے ہے مرا پسر
نکلے گی خیمہ گاہ سے زینبؔ برہنہ سر
حضرت تو پیٹتے ہوئے لاشے پہ آئیں گے
ہم لوٹنے کو خیمۂ اقدس میں جائیں گے
یہ گل عذار دخترِ حیدرؔ کی جان ہے
بہنوں کی زندگی ہے برادر کی جان ہے
بابا کی روح ہے تنِ مادر کی جان ہے
بے جاں کرو اسے کہ یہ سب گھر کی جان ہے
جوشن یہی ہے بازوئے برناوپیر کا
بعد اس کے خاتمہ ہے صغیر و کبیر کا
یہ سن کے فوجِ کیں ہوئی آمادۂ نبرد
دردِ دل حسین کا تھا ایک کو نہ درد
غل سن کے ہو گیا شہ والا کا رنگ زرد
کانپے جو پاؤں بیٹھ گئے بھر کے آہ سرد
ماں گر پڑی زمیں پہ پھوپھی بلبلا گئی
بدلی ستم کی واں علیؔ اکبر پہ چھا گئی
قرنا پھکی سپاہ میں طبلِ وغا بجا
باندھے پرے سواروں نے بڑھ بڑھ کے جابجا
پیدل، چلے نبرد کو باجے بجابجا
چلاے اہلِ بیت کہ ہے ہے یہ کیا بجا
حضرت پکارے لال پہ اعدا کے ریلے ہیں
رانڈو دعا کرو علیؔ اکبر اکیلے ہیں
لڑنے کو اس طرف سے عدو سب کے سب بڑھے
تنہا ادھر سے اکبرؔ عالی نسب بڑھے
چومے قدم نہیب نے جھک کر یہ جب بڑھے
گویا پئے جہاد امیر عرب بڑھے
دہشت سے فوج شام کی بدلی سمٹ گئی
قدرت خدا کی دن جو بڑھا رات گھٹ گئی
ڈھالوں کو رکھ کے چہروں پہ گر گر پڑے حسود
گو تھے کئی ہزار پہ کیا ان کی ہست و بود
تھرا گیا تمام جنودِ سقر و رود
نورِ خدا کے سامنے ظلمت کی کیا نمود
عبرت سپاہ شام پہ دِہ چند ہو گئی
باجوں کی فوجِ کیں کے صدا بند ہو گئی
جرار کی زرہ پہ لگے جب کئی خدنگ
صفدر نے پڑھ کے فاتحہ، لی تیغ شعلہ رنگ
چمکا اک آئینہ کہ ہوئی فوجِ شام دنگ
دکھلائے تیغ تیز نے بجلی کے رنگ ڈھنگ
تھی کس کو تاب صاعقۂ شعلہ بار کی
یاد آ گئی ہر اک کو چمک ذوالفقار کی
تھم تھم کے یوں گیا صفِ اعدا پہ وہ دلیر
جاتا ہے داؤں کر کے غزالوں پہ جیسے شیر
غازی جو بھوک پیاس میں تھا زندگی سے سیر
کشتوں کے پشتے ہو گئے دم میں سروں کے ڈھیر
اک سیل زور شور سے آئی گذر گئی
ثابت نہ یہ ہوا صفِ اول کدھر گئی
جب یہ بڑھے لہو تنِ اعدا کا گھٹ گیا
باقی تھا جو حساب وہ لاشوں سے پٹ گیا
لشکر میں فرد فرد کا چہرا جو کٹ گیا
پس دفعتاً سپاہ کا دفتر الٹ گیا
سر داخلِ خزانۂ سرکار ہوگئے
پہلا ہی جائزہ تھا کہ بیکار ہوگے
چہرے پہ ایک کے نہ بحالی نظر پڑی
جو صف بھری ہوئی تھی وہ خالی نظر پڑی
سر پر سبھوں کے تیغ ہلالی نظر پڑی
سوئے جنوب فوجِ شمالی نظر پڑی
غل تھا کہ تیغ تیز نہیں موت آتی ہے
کیوں کر قدم تھمیں کہ زمیں سرکی جاتی ہے
ٹکڑے پڑے تھے خاک پہ بھالے اِدھر اُدھر
چھپتے تھے ڈر کے برچھیوں والے اِدھر اُدھر
پیشِ نظر تھے خون کے تھالے اِدھر اُدھر
ابتر تھے دشتِ کیں میں رسالے اِدھر اُدھر
ملتا تھا فصل کا نہ ٹھکانا نہ باب کا
شیرازہ کھل گیا تھا ستم کی کتاب کا
بڑھ کر کسی نے وار جو روکا سپر کٹی
چار آئینہ کٹا زرہِ خیرہ سر کٹی
نیزے کی ہرگرہ صفتِ نیشکر کٹی
سینہ کٹا جگر ہوا زخمی کمر کٹی
رہوار بھی دو نیم میانِ مصاف تھا
ان سب کے بعد منہ کو جو دیکھا تو صاف تھا
وہ گھاٹ باڑھ اور وہ اس کی چمک دمک
کانپی کبھی زمیں کبھی تھرا گئے فلک
شعلے میں یہ چمک تھی نہ بجلی میں یہ لپک
ہر ضرب میں سما سے تلاطم تھا تا سمک
کونین میں حواس بجا تھے نہ ایک کے
گاوِ زمیں سمٹتی تھی گھنٹوں کو ٹیک کے
سیدھی چلی وہ جب صفِ دشمن الٹ گئی
باقی تھی جتنی عمر تہِ تیغ کٹ گئی
آ کر زمیں پہ جب سوئے گردن پلٹ گئی
بجلی سے رعد رعد سے بجلی لپٹ گئی
گرتے تھے جن، زمین پہ منہ ڈھانپ ڈھانپ کے
ہٹتے تھے جبرئیل امیں کانپ کانپ کے
ملتا نہ تھا صفوں میں عَلم کا نشاں کہیں
چلے کہیں تھے شست کہیں اور کماں کہیں
نیزے کہیں تھے ڈانڈ کہیں اور سناں کہیں
جمدھر کہیں کمند کہیں برچھیاں کہیں
اک اک سیاہ رو کا جگر داغ داغ تھا
جنگل تمام ڈھالوں کے پھولوں سے باغ تھا
چمکی گری اٹھی ادھر آئی اُدھر گئی
خالی کیے پرے تو صفیں خوں میں بھر گئی
کاٹے کبھی قدم کبھی بالائے سر گئی
ندی غضب کی تھی کہ چڑھی اور اتر گئی
اک شور تھا یہ کیا ہے جو قہر صمد نہیں
ایسا تو رودِ نیل میں بھی جزر و مد نہیں
سر خود سروں کے چنبر گردن سے اڑ گئے
ہاتھ آستیں سے اڑ گئے سر تن سے اڑ گئے
ڈر ڈر کے سب پرند نشیمن سے اڑ گئے
پائی جو راہ طائرِ جاں سَن سے اڑ گئے
تھے قتلِ عام پر علیؔ اکبر تلے ہوئے
رستے تھے بند زخموں کے کوچے کھلے ہوئے
اللہ رے دو زبانیٔ تیغ دو دم کا کاٹ
آفت تھی جس کی باڑھ قیامت تھا جس کا گھاٹ
مقتل سے تا بہ نہر تھا دریائے خوں کا پاٹ
ہر دم تھی اس کو تازہ لہو چاٹنے کی چاٹ
سختی کو جوڑ بند کے کب مانتی تھی وہ
ہر استخواں کو مغز قلم جانتی تھی وہ
آئی جدھر پلٹ کے صفوں کو بچھا گئی
تن سے اڑا دیا وہی سر جس کو پا گئی
ہر اک کڑی کو نرم سمجھ کر چبا گئی
فولاد کی زرہ کو اشارے میں کھا گئی
چار آئینہ کا کاٹ بھی اس پر حوالہ تھا
ذکر اس کا کیا ہے خود تو منہ کا نوالہ تھا
یارا قرار کا تھا نہ صورت فرار کی
پیدل کی موت تھی تو خرابی سوار کی
روئیں تنوں کو، تاب نہ تھی ایک وار کی
ٹکڑے تھے دو کے ہاتھ یہ گھائی تھی چار کی
آگے بڑھے تو منہ وہیں کٹ جائے گیو کا
بجلی کی تھی کڑک کہ طمانچہ تھا دیو کا
اتری زمیں پہ وہ سر دشمن پہ جب چڑھی
دم بھر میں آبِ تیغ کی ندی غضب چڑھی
اک شور تھا صفوں میں کب اتری یہ کب چڑھی
سب کو بخارِ تیغ سے لرزے کی تپ چڑھی
مقتل سے بھاگنے پہ تنک ظرف تُل گئے
کانپے یہ نیزہ باز کہ سب بند کُھل گئے
زندہ کسی کو تیغ دو دم چھوڑتی نہ تھی
پیاسی یہ تھی کہ جسم میں دم چھوڑتی نہ تھی
بے دم کیے گلا کوئی دم چھوڑتی نہ تھی
بھاگیں کہاں کہ موت قدم چھوڑتی نہ تھی
خود وہ دبے جو لڑتے تھے گھوڑوں کو داب کے
بیڑی قدم میں بن گئے، حلقے رکاب کے
قعرِ سقر میں کشتۂ ضربِ نخست تھے
بے سر ہوئے بہت جو لڑائی میں چست تھے
قبضہ میں تھا نہ زور نہ بازو درست ھے
کھینچیں کسے کمانوں کے بازو بھی سست تھے
ہر کج نہاد تیر اجل کا نشانہ تھا
شانے بھی تھے قلم یہ نیا شاخسانہ تھا
تیغوں کو ڈر کے عربدہ جو پھینکنے لگے
مغفر سروں سے مثل سبو پھینکنے لگے
حلقے کماں کے سب لب جو پھینکنے لگے
تنکا سمجھ کے تیر عدو پھینکنے لگے
ترکش بھی اہل ظلم کے آفت رسیدہ تھے
چلّے بھی کشمکش میں کماں سے کشیدہ تھے
کرتے تھے فتح جنگ کو جو ایک آن میں
رعشہ تھا ان کے ہاتھ میں لکنت زبان میں
الجھاتے تھے کمند کمینے کمان میں
ترکش میں تیغیں رکھتے تھے تیروں کو میان میں
تلوار رکھ کے ہاتھ سے منہ ڈھانپ لیتے تھے
آتی تھی تیغ جب تو سپر پھینک دیتے تھے
بڑھتے تھے جو پرے سے بڑے بول بول کے
پہلے انہیں کو مار لیا رول رول کے
حملہ کیا جو تیغِ دو دم تول تول کے
ہتھیار سب نے پھینک دیے کھول کھول کے
اس شان سے کبھی نہ عجم نہ عرب لڑے
دو دن کی پیاس میں علیؔ اکبر غضب لڑے
دہشت سے کتنے ڈوب کے دریا میں مر گئے
اس گھاٹ پر جو آئے سر ان کے اتر گئے
رستہ تھا ایک اِدھر وہ گئے یا اُدھر گئے
ہر پھر کے ہر طرف سے میانِ سقر گئے
نار ان کے اشتیاق میں آب ان کی لاگ میں
پھینکا ہوا نے آب میں پانی نے آگ میں
وہ حرب وہ شکوہ وہ شان پیمبری
نعرے وہ زور و شور کے وہ ضرب حیدریؔ
وہ تیغ خوں چکاں وہ جلالِ غضنفری
راکب جو رشکِ حور تو رہوار بھی پری
چالاک آہوانِ ختن اس قدر نہ تھے
اڑ جاتا تھا ہما کی طرح اور پر نہ تھے
باریک جلد وہ کہ نظر آئے تن کا خوں
کنڈے کو دیکھ کر مہِ نو ہووے سرنگوں
رفتار میں وہ سحر کہ پریوں کو ہو جنوں
غنچے بھی کچھ بڑے ہیں کنوتی کو کیا کروں
قرباں ہزار جان، فرس بے نظیر پر
پیکان دو چڑھے ہوئے ہیں ایک تیر پر
کوتاہ و گرد و صاف کنوتی کمر کفل
کیا خوشنما کشادگیِٔ سینہ و بغل
سیماب کی طرح نہیں آرام ایک پل
پھرتا تھا اس طرح کہ پھرے جس طرح سے کَل
راکب نے سانس لی کہ وہ کوسوں روانہ تھا
تارِ نفس بھی اس کے لیے تازیانہ تھا
وہ جست خیز سرعتِ چالاکیِٔ سمند
سانچے میں تھے ڈھلے ہوئے سب اس کے جوڑ بند
سُم قرص ماہتاب سے روشن ہزار چند
نازک مزاج و شوخ و سیہ جسم سر بلند
گر ہل گئی ہوا سے ذرا باگ اڑ گیا
پُتلی سوار کی نہ پھری تھی کہ مُڑ گیا
آہو کی جست شیر کی آمد پری کی چال
کبکِ دری خجل پر طاؤس پائمال
سبزہ سبک روی میں قدم کے تلے نہال
اک دو قدم میں بھول گئے چوکڑی غزال
جو آ گیا قدم کے تلے گرد برد تھا
چھل بل غضب کی تھی کہ چھلاوا بھی گرد تھا
بجلی کبھی بنا کبھی رہوار بن گیا
آیا عرق تو ابر گہر بار بن گیا
گہ قطب، گاہ گنبد دوّار بن گیا
نقطہ کبھی بنا کبھی پرکار بن گیا
تیراں تھے اس کے گشت پہ لوگ اس ہجوم کے
تھوڑی سی جا میں پھرتا تھا کیا جھوم جھوم کے
جب اس جری نے قتل کیے پانچ سو جواں
ہر صف سے ہر پرے سے اٹھا شور الاماں
چلایا ابن سعدِ سیہ قلب و سخت جاں
نکلیں وہ دس ہزار کماندار ہیں کہاں
برچھی کا اب ہے کام نہ تلوار چاہیے
اس نوجواں پہ تیروں کی بوچھار چاہیے
یہ سن کے تشنہ لب پہ چلے چار سو سے تیر
پتھر عقب سے پڑنے لگے رو برو سے تیر
آتے تھے فوج فوج، سپاہِ عدو سے تیز
سب سرخ تھے شبیہ نبی کے لہو سے تیر
مقتل میں کیا ہجوم تھا اس نور عین پر
پروانے گر رہے تھے چراغِ حسینؔ پر
سینے پہ تیر کھا کے اٹھایا جو راہوار
بجلی چمک کے ہو گئی گویا فلک کے پار
سر خاک پر گرانے لگی تیغِ آبدار
تیروں کو پھینک پھینک کے بھاگے خطا شعار
حملہ کیا تھا جن پہ رخ ان کے تو پھر گئے
پر یہ پلٹ کے برچھیوں والوں میں گھر گئے
یوں آ گیا سنانوں میں وہ آسماں جناب
ہو جس طرح خطوطِ شعاعی میں آفتاب
سوکھی زباں میں پڑ گئے کانٹے بغیر آب
طاقت بھی فرط ضعف سے دینے لگی جواب
آمد ہوئی جو غش کی سرِ پاک جھک گیا
واحسرتا کہ ہاتھ بھی لڑنے سے رک گیا
اس حال میں بھی تیغ سے کیں برچھیاں قلم
لیکن جگر پہ لگ گیا اک نیزۂ ستم
زخمِ جگر سے بہنے لگا خون دم بہ دم
نکلے ہوئے رکابوں سے تھراتے تھے قدم
کھینچا جو اس نے سینے سے نیزہ تکاں کے ساتھ
دو پارۂ جگر نکل آئے سناں کے ساتھ
نیزہ لگا کے بھاگ چلا تھا وہ نابکار
قربان جرأتِ پسرِ شاہِ نامدار
زخمِ سناں تھا سینۂ انور کے وار پار
ماری شقی کو دوڑ کے اک تیغ آبدار
پہونچوں سے اس کے ہاتھ قلم ہو کے گر پڑے
لیکن فرس سے آپ بھی خم ہو کے گر پڑے
گرنا تھا بس کہ سر پہ لگا گرز ہے ستم
یوں جھک گئے کہ ہوتے ہیں سجدے میں جیسے خم
رکھ دی گلے پر شیثؔ نے شمشیر تیز دم
تلوار اک پڑی کہ ہوئیں پسلیاں قلم
غل تھا کرو نہ رحم تنِ پاش پاش پر
دوڑا دو گھوڑے اکبرؔ مہرو کی لاش پر
حضرت کھڑے تھے خیمے کی پکڑے ہوئے طناب
سن کر یہ غل رہی نہ دلِ ناتواں کو تاب
ناگاہ رن سے آئی صدا اے فلک جناب
بیٹا جہاں سے جاتا ہے اب آئیے شتاب
لاشے پہ ظلم و جور بد افعال کرتے ہیں
گھوڑوں سے اہل کیں ہمیں پامال کرتے ہیں
سن کر یہ استغاثۂ فرزند خوش خصال
سید نے آہ کی کہ ہلا عرش ذو الجلال
کھولے جناب فاطمہؔ کی بیٹیوں نے بال
بانوؔ پکاری خیر تو ہے اے علیؔ کے لال
ہے ہے پسر سے کون سی مادر بچھڑ گئی
صاحب بتاؤ کیا مری بستی اجڑ گئی
نیزے سے کس کے لال کا زخمی ہوا جگر
کرتے ہیں کس کی لاش کو پامال اہلِ شر
کہتا ہے کون رن میں تڑپ کر پدرپدر
اب گھر سے میں نکلتی ہوں ہے ہے مرا پسر
پردہ نہ مجھ سے کیجیے سب جانتی ہوں میں
آواز یہ اسی کی ہے پہچانتی ہوں میں
بانوؔ کو قسمیں دے کے چلے شاہِ نامدار
وہ پیاس اور وہ دھوپ کا صدمہ وہ اضطرار
دل تھا الٹ پلٹ تو کلیجہ تھا بے قرار
اٹھتے تھے اور زمین پہ گرتے تھے باربار
چلاتے تھے شبیہ پیمبر ہم آتے ہیں
گھبرائیو نہ اے علیؔ اکبر ہم آتے ہیں
بیٹا پکارو پھر کہ بصارت میں فرق ہے
اے نور عین جسم کی طاقت میں فرق ہے
تم یہ نہ جانیو کہ محبت میں فرق ہے
زخمی ہے قلب روح کی راحت میں فرق ہے
داغِ جگر ملا ہمیں گودی میں پال کے
کس کو دکھاؤں اپنا کلیجہ نکال کے
آؤں کدھر کو اے علیؔ اکبر جواب دو
چلا رہی ہے ڈیوڑھی پہ مادر جواب دو
اکبرؔ برائے خالقِ اکبر جواب دو
بیٹا جواب دو مرے دلبر جواب دو
گرتے ہیں ہم ثواب کا ہاتھوں سے کام لو
بیٹا ضعیف باپ کے بازو کو تھام لو
کچھ سوجھتا نہیں کہ کدھر جاؤں کیا کروں
اے نورِ چشم تجھ کو کہاں پاؤں کیا کروں
مضطر ہے جان و دل کسے سمجھاؤں کیا کروں
کیوں کر پسر کو ڈھونڈھ کے میں لاؤں کیا کروں
پایا تھا مدتوں میں جسے خاک چھان کے
وہ لال ہم نے کھو دیا جنگل میں آن کے
بس اب خبر حسینؔ کی لے جلد اے اجل
اے جسم زار، زیست کا باقی نہیں محل
اے جانِ ناتواں تنِ مجروح سے نکل
ہاں اے نفس چھری کی طرح سے گلے پہ چل
چھوٹے نہ اس کا ہاتھ جو پیری کی آس ہو
لاشہ بھی لاشۂ علیؔ اکبر کے پاس ہو
جنگل سے بے حواس پھرے نہر پر گئے
واں بھی جو وہ گہر نہ ملا سوئے بر گئے
دوڑے کسی طرف تو کسی جا ٹھہر گئے
تھالے ملے لہو کے برابر جدھر گئے
ٹپکا ہوا زمیں پہ جگر کا لہو ملا
لیکن کہیں نہ وہ پسر ماہ رو ملا
جا کر صفوں کے پاس پکارے باشکِ آہ
ہے کس طرف مرے علیؔ اکبر کی قتل گاہ
اے ظالمو، یہ شب ہے کہ دن ہو گیا سیاہ
کس ابر میں چھپا ہے مرا چودھویں کا ماہ
بتلاؤ جان ہے کہ نہیں جسم زار میں
زخمی پڑا ہے شیر مرا کس کچھار میں
لاش پسر کو ڈھونڈھتے تھے شاہِ بحر و بر
سر پیٹنے کی جا ہے کہ ہنستے تھے اہل شہر
کہتا تھا شمر اے پسر سید البشر
کس کو حضور ڈھونڈھتے ہیں مر گیا پسر
خود ڈھونڈھ لیجیے جسد پاش پاش کو
بتلائیں گے نہ ہم علیؔ اکبر کی لاش کو
- meer-anees
جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی
پردیس میں سادات پہ، آفت عجب آئی
فریاد کناں روح امیر عرب آئی
غل تھا کہ شب قتل شہ تشنہ لب آئی
سادات کو کیا کیا غمِ جانکاہ دکھائے
رات ایسی مصیبت کی نہ اللہ دکھائے
کاغذ پہ لکھے کیا قلم اس شب کی سیاہی
ہے چار طرف جس کی سیاہی سے تباہی
مرغان ہوا بر میں طپاں، بحر میں ماہی
تربت سے نکل آئے تھے محبوب الٰہی
فریاد کا تھا شور رسولان سلف میں
یثرب میں تزلزل تھا اداسی تھی نجف میں
صدمے سے ہوا رنگ رخ ماہ کا کافور
اختر بھی بنے مردمک دیدۂ بے نور
غم چھا گیا، راحت دل عالم سے ہوئی دور
تصویر الم بن گئی جنت میں ہر اک حور
کہتے تھے ملک رات نہ ہووے گی اب ایسی
تاروں نے بھی دیکھی نہ تھی تاریک شب ایسی
شمع طرب محفل عالم تھی جو خاموش
تھی رات بھی شبیرؔ کے ماتم میں سیہ پوش
کیا غم تھا کہ شادی تھی ہر اک دل کو فراموش
ہر چشم کو تھا غم میں سمندر کی طرح جوش
مضطر تھے علیؔ اشکوں سے منہ دھوتی تھی زہراؔ
مقتل تھا جہاں شاہ کا، واں روتی تھی زہراؔ
تھا خانۂ غم خیمۂ شاہنشہ والا
آندھی یہ پریشاں تھی کہ دل تھا تہ و بالا
مشعل نہ ٹھہرتی تھی، نہ شمعوں کا اجالا
خیمہ بھی اندھیرے میں نظر آتا تھا کالا
خاک اڑتی تھی منہ پر، حرم شیر خدا کے
تھا چیں بجبیں فرش بھی جھونکوں سے ہوا کے
جنگل کی ہوا، اور درندوں کی صدائیں
تھراتی تھیں بچوں کو چھپائے ہوئے مائیں
دھڑکا تھا کہ دہشت سے نہ جانے کہیں جائیں
روتی تھی کوئی، اور کوئی پڑھتی تھی دعائیں
گودوں میں بھی راحت نہ ذرا پاتے تھے بچے
جب بولتے تھے شیر تو ڈر جاتے تھے بچے
بچوں کے بلکنے پہ حرم کرتے تھے زاری
غش ہو گئی تھی بالی سکینہؔ کئی باری
چلاتی تھی رو رو کے وہ شبیرؔ کی پیاری
یا حضرت عباسؔ چلی جان ہماری
افسوس کہ پانی کا تو قطرہ نہیں گھر میں
اور آگ لگی ہے مرے ننھے سے جگر میں
تھی سب سے سوا، بنت علی، مضطر و بیتاب
فق ہو گیا تھا شام سے منہ صورت مہتاب
مژگاں سے رخ پاک پہ تھی، بارش خوں ناب
تلوار کلیجے پہ چلے جب تو کہاں تاب
اِک کرب تھا بسمل کی طرح جان حزیں پر
اٹھتی تھی کبھی اور کبھی گرتی تھی زمیں پر
کہتی تھی کبھی، آج پیمبر نہیں ہے ہے
حال اپنا دکھاؤں کسے حیدرؔ نہیں ہے ہے
بیٹی پہ فلک ٹوٹا ہے، مادر نہیں ہے ہے
شبیرؔ مصیبت میں تھے، شبرؔ نہیں ہے ہے
دیکھا نہ سنا یہ جو ستم آج ہے لوگو
نازوں کا پلا پانی کو محتاج ہے لوگو
در پیش ہے کل فوج سمتگر سے لڑائی
یاں تھوڑے سے پیاسے ہیں، ادھر ساری خدائی
بے سر دیے رن سے نہ پھرے گا مرا بھائی
ہو جائے گی حیدرؔ کے بھرے گھر کی صفائی
اس غم سے سدا اشکوں سے منہ دھوتی تھیں اماں
کل دن وہ ہے جس دن کے لئے روتی تھی اماں
تھے دوسرے خیمہ میں ادھر سبط پیمبر
دربار میں حاضر تھے رفیقان دلاور
اک پہلو میں قاسمؔ تھے اور اک پہلو میں اکبرؔ
اکبرؔ کے ادھر لخت دل زینب مضطر
شبیرؔ محبت سے سخن کرتے تھے سب سے
عباسؔ علی سامنے بیٹھے تھے ادب سے
سر گرم تھے مر جانے پہ، سب شاہ کے انصار
عباس سے یہ کہتا تھا، وہ کل کا مدد گار
تم رہیو ذرا خیمۂ ناموس سے ہشیار
ڈر ہے نہ کرے بے ادبی لشکر کفار
بے دینوں کو راحت مری منظور نہیں ہے
شب خوں جو ادھر سے ہو، تو کچھ دور نہیں ہے
یہ ذکر ابھی تھا کہ یکایک خبر آئی
اے چاند ید اللہ کے، شب دوپہر آئی
حضرت کو ستاروں کی جو گردش نظر آئی
دل یاد خدا کرنے لگا، چشم بھر آئی
فرمایا بڑا اجر ہے، بیدارئ شب کا
اے تشنہ لبو وقت ہے یہ طاعت رب کا
اب عمر بھی آخر ہے، نمازیں بھی ہیں آخر
بے توشہ پہونچتا نہیں، منزل پہ مسافر
ہر وقت ہے ربِ دو جہاں حاضر و ناظر
اجر ان کے مضاعف ہیں جو ہیں صابر و شاکر
مشکل نہ کسی رنج کو سمجھے نہ بلا کو
بندہ وہی بندہ ہے جو بھولے نہ خدا کو
نام اس کا رہے ورد، سفر ہو کہ حضر ہو
موجود سمجھ لے اسے جنگل ہو کہ گھر ہو
سجدے ہی کرے دکھ میں کہ راحت میں بسر ہو
تسبیح میں شب ہو، تو نمازوں میں سحر ہو
عشق گل تر ظلم کے خاروں میں نہ بھولے
معشوق کو تلواروں کی دھاروں میں نہ بھولے
چومے لب سوفار، جو سینے پہ لگیں تیر
دم عشق کا بھرتا رہے زیر دم شمشیر
زخموں کو یہ سمجھے، کہ ملا گلشن توقیر
تکبیر کا نعرہ ہو زباں پر، دم تکبیر
کٹنے میں رگوں کے نہ صدا آہ کی نکلے
ہر رنگ میں بو الفت اللہ کی نکلے
شہ نے سخن معرفت حق جو سنائے
اشک آنکھوں میں ہر عاشق صادق کے بھر آئے
کچھ پیاس کا شکوہ بھی زباں پر نہیں لائے
سجادے وہیں لا کے دلیروں نے بچھائے
تکبیریں ہوئیں لشکر اللہ و نبی میں
سب محو ہوئے یاد جناب احدی میں
تسبیح کہیں تھی کہیں سجدے کہیں زاری
تھا صوت حسن سے کوئی قرآن کا قاری
کرتا تھا کوئی عرض کہ یا حضرت باری
اب صبح کو عزت ہے ترے ہاتھ ہماری
حرمت سے شریک شہدا کیجیو یا رب
تو حوصلۂ صبر، عطا کیجیو یا رب
ہم ہیں ترے محبوب کے پیارے کے مددگار
مرنے کے لئے آئے ہیں یا چھوڑ کے گھر بار
یہ بندۂ بے کس ہے مصیبت میں گرفتار
کر رحم کہ ہے ذات تری راحم و غفار
فاقوں کے سبب، جسم کی طاقت میں کمی ہے
تجھ سے طلب قوت ثابت قدمی ہے
بے کس ہیں مسافر ہیں، وطن دور ہے، گھر دور
ہفتم سے ہمیں گھیرے ہے یہ لشکر مقہور
تیروں سے ہوں غربال کہ تیغوں سے بدن چور
احمدؔ کے نواسے سے جدائی نہیں منظور
پھر منہ کسے دکھلائیں جو سردار کو چھوڑیں
کیوں کر ترے مقبول کی سرکار کو چھوڑیں
مردوں کے لئے ننگ ہے تلواروں سے لڑنا
راحت ہو کہ ایذا، یہیں جینا، یہیں مرنا
تو چاہے تو مشکل نہیں کچھ سر سے گزرنا
اے کل کے مدد گار، مدد جنگ میں کرنا
فاقوں میں ہزاروں سے وغا ہو تو مزا ہے
کچھ حق نمک ہم سے ادا ہو تو مزا ہے
کرتے تھے مناجات ادھر یاور و انصار
پڑھتے تھے نماز شب ادھر، سید ابرار
تھی نیت تسبیح بتول جگر افگار
آواز بکا خیمے سے آنے لگی یک بار
اکبرؔ سے اشارہ کیا مڑ کر، کہ یہ کیا ہے
کہ عرض پھوپھی جان کے رونے کی صدا ہے
یوں تو کئی راتوں سے وہ ہیں مضطر و بیتاب
راحت کی نہ صورت ہے نہ آرام کا اسباب
غش میں جو ذرا بند ہوئے، دیدۂ پر آب
روتی ہوئی چونکی ہیں، ابھی دیکھ کے کچھ خواب
نعلین کہیں، چادر پر نور کہیں ہے
اس وقت سے بسمل کی طرح چین نہیں ہے
سب بیبیاں ہیں رو رہیں بچوں کو لیے پاس
ایک ایک کو اندیشہ ہے، ایک ایک کو وسواس
جو پوچھتا ہے وجہ تو کہتی ہیں بصد یاس
لوگو مجھے شبیر کے بچنے کی نہیں آس
مانگو یہ دعا غیب سے بے کس کی مدد ہو
صدقے کرو مجھ کو کہ بلا بھائی کی رد ہو
ان کا تو یہ احوال ہے، اماں کا یہ عالم
اشکوں کی جھڑی آنکھوں سے تھمتی نہ تھی اِک دم
اصغرؔ کی بھی ہے فکر، سکینہ کا بھی ہے غم
شش ماہ کا بچہ بھی ہوا جاتا ہے بے دم
گودی میں اٹھائیں اُسے یا اس کو سنبھالیں
دو روز کے فاقے میں وہ کس کس کو سنبھالیں
رو آتی ہیں عابدؔ کے سرہانے کبھی جا کر
گہوارۂ اصغرؔ پہ کبھی گرتی ہیں آ کر
قرآں کی ہوا دیتی ہیں غش میں اسے پا کر
بہلاتی ہیں، بیٹی کو کبھی اشک بہا کر
وہ کہتی ہے تا صبح یوں ہی روؤں گی اماں
بابا ہی جب آویں گے تو میں سوؤں گی اماں
بتلاؤ شہ جن و بشر کیوں نہیں آتے
اب رات بہت کم ہے، پدر کیوں نہیں آتے
آزردہ ہیں کچھ مجھ سے، ادھر کیوں نہیں آتے
کیا آج وہیں سوئیں گے، گھر کیوں نہیں آتے
اب پیاسوں کی فریاد بھی بابا نہیں سنتے
حضرت مرے رونے کی صدا کیا نہیں سنتے
رو کر علیؔ اکبر نے جو کی شہ سے یہ تقریر
پڑھتے ہوئے تسبیح گئے، حضرت شبیرؔ
دیکھی جو نہ تھی دیر سے وہ چاند سی تصویر
قدموں پہ محبت سے گری دوڑ کے ہمشیر
بیتاب جو پایا بہت اس تشنہ دہن کو
شبیرؔ نے لپٹا لیا چھاتی سے بہن کو
فرمایا بہن تم نے بنایا ہے یہ کیا حال
نہ سر پہ عصابہ ہے نہ چادر ہے نہ رومال
ماتھا ہے بھرا خاک سے بکھرے ہوئے ہیں بال
پیٹو نہیں، جیتا ہے ابھی فاطمہؔ کا لال
دم تن سے مرا کٹ کے نکل جائے گا زینبؔ
رو لیجیو جب رونے کا وقت آئے گا زینبؔ
جیتا ہوں میں اور آہ ابھی سے یہ تلاطم
یہ کرب یہ دکھ درد، یہ زاری یہ تظلم
ہوتے ہیں مرے ہوش و حواس آئے ہوئے گم
خنجر کے تلے دیکھو گی کس طرح مجھے تم
بس صبر کرو جی سے گذر جائیں گے بچے
تڑپو گی تم اس طرح تو مر جائیں گے بچے
تلوار کسی نے ابھی تولی نہیں مجھ پر
سینہ ابھی تیروں سے مشبک نہیں خواہر
گردن پہ کسی نے ابھی پھیرا نہیں خنجر
مر جائے گا بھائی تمہیں ثابت ہوا کیوں کر
ہر چند کہ ساعت نہیں ٹلتی ہے قضا کی
بچ جاؤں تو کیا دور ہے قدرت سے خدا کی
زینبؔ نے کہا خوش ہوں جو میری اجل آئے
بھائی تمہیں اللہ اس آفت سے بچائے
خالق مجھے عابدؔ کی یتیمی نہ دکھائے
بھائی کی بلا لے کے بہن خلق سے جائے
وسواس طبیعت کو بہلنے نہیں دیتا
بے چین ہے دل مجھ کو سنبھلنے نہیں دیتا
آتا ہے سکینہؔ کی یتیمی کا، مجھے دھیان
ہر وقت بھرا گھر نظر آ جاتا ہے، ویران
سمجھانے سے کچھ دل جو بہلتا ہے، میں قربان
پھر جاتا ہے آنکھوں کے تلے موت کا سامان
بازو مرے کسنے کو رسن لاتا ہے کوئی
سر پر سے ردا کھینچے لئے جاتا ہے کوئی
منہ ڈھانپ کے بستر پہ جو سو جاتی ہوں دم بھر
تو چاک گریباں نظر آتے ہیں پیمبر
اماں کبھی چلاتی ہیں یوں کھولے ہوئے سر
بیٹی نہ بچے گا ترا مظلوم برادر
کیا لیٹی ہے بستر پہ کدھر دھیان ہے زینبؔ
شپیر اسی رات کا مہمان ہے زینبؔ
یہ ذکر ابھی تھا کہ سکینہؔ نے پکارا
سونا تو گیا آپ کے ہمراہ ہمارا
میں جاگتی ہوں اور جہاں سوتا ہے سارا
گردوں پہ چمکنے نہ لگے صبح کا تارا
نیند آئی ہے بیٹی کو سلا جایئے بابا
بس ہو چکیں باتیں اب ادھر آیئے بابا
حضرت نے کہا میں تِری آواز کے قرباں
اللہ تم اب تک نہیں سوئی ہو مری جاں
غربت میں کہاں راحت و آرام کا ساماں
بن باپ کے تم کو تو نہیں چین کسی آں
اچھی نہیں عادت یہ نہ رویا کرو بی بی
پہلو میں کبھی ماں کے بھی سویا کرو بی بی
کیا ہووئے جو ہم گھر میں کسی شب کو نہ آئیں
مجبور ہوں ایسے کہ تمہیں چھوڑ کے جائیں
تم پاؤ نہ ہم کو، نہ تمہیں ہم کہیں پائیں
بی بی کہو پھر چھاتی پہ کس طرح سلائیں
جنگل میں بہت قافلے لٹ جاتے ہیں، بی بی
برسوں جو رہے ساتھ وہ چھٹ جاتے ہیں، بی بی
جب عمر تھی کم، ہم بھی چھٹے تھے یونہی ماں سے
سوتے تھے لپٹ کر یوں ہی، خاتون جناں سے
کوچ ان کا ہوا سامنے آنکھوں کے جہاں سے
ماتم سے ملیں وہ، نہ بکا سے، نہ فغاں سے
یہ داغ یہ اندوہ و الم سب کے لئے ہیں
ماں باپ زمانے میں سدا کس کے جیے ہیں
رستہ وہ اجل کا ہے کہ ہوتا ہی نہیں بند
کوچ آج پدر کا ہے تو کل جائے گا فرزند
ہوتا ہے قلق فرقت اولاد میں وہ چند
کیا زور ہے بندے کا، جو مرضیٔ خداوند
جو آئے ہیں دنیا میں وہ سب کوچ کریں گے
اس زیست کا انجام یہی ہے کہ مریں گے
یہ کہتے تھے حضرت کی صدا آئی اذاں کی
گلدستۂ اسلام پہ، بلبل نے فغاں کی
اک دم میں بہار اور ہوئی باغ جہاں کی
تلوار چلی گلشن انجم پہ خزاں کی
مہتاب ہوا گم فلک نیلوفری سے
پھولا گل خورشید، نسیم سحری سے
گرمی کی سحر اور وہ پھولوں کا مہکنا
مرغان چمن کا وہ درختوں پہ چہکنا
انجم کا وہ چھپنا کبھی اور گاہ چمکنا
وہ سرد ہوا اور وہ سبزے کا لہکنا
اس دشت میں روتی تھی جو شبنم شہ دیں پر
تھا موتیوں کا فرش زمرد کی زمیں پر
جلوہ وہ دم صبح کا، وہ نور کا عالم
دلچسپ صدا نوبت و شہنا کی، وہ باہم
سرخی وہ شفق کی، افق چرخ پہ کم کم
وہ گل کے کٹوروں پہ در افشانیٔ شبنم
خشکی میں بھی سردی سے ترائی کا سماں تھا
پر مالک گلزار جناں، تشنہ دہاں تھا
لشکر میں ادھر مورچے بندی کی ہوئی دھوم
یاں فرض ادا کرنے لگے عاشق قیوم
پیچھے تو جماعت تھی اور آگے شہ مظلوم
صف بستہ ملائک ہیں، یہی ہوتا تھا معلوم
سب ساجد و راکع تھے شہنشاہ کے ہمراہ
تاباں تھے بہتر مہ نو ماہ کے ہمراہ
خیمہ تھا فلک، آپ قمر، دوست ستارے
تارے بھی وہ تاروں کو فلک جن پہ اتارے
خم ہو گیا تھا، پیر فلک شرم کے مارے
کہتی تھی زمیں، اوج ہے طالع کو ہمارے
خورشید نہیں روشنیٔ نیر دیں ہے
خود عرش کو دھوکا تھا، یہ میں ہوں کہ زمیں ہے
جو صف ہے وہ اک سطر ہے قران مبیں کی
دیوار ہے قبلہ کی طرف، کعبۂ دیں کی
کیا خوب جماعت ہے یہ ارباب یقیں کی
افلاک کی زینت ہے تو رونق ہے زمیں کی
کس طرح شہنشاہ سے وہ فوج جدا ہو
مشکل ہے کہ دریا سے کہیں موج جدا ہو
اس دم تھی یہ آواز پس پردۂ قدرت
اے قدسیو دیکھو مرے بندوں کی عبادت
نہ پیاس کا شکوہ ہے، نہ فاقوں کی شکایت
یہ زہد، یہ تقویٰ، یہ اطاعت، یہ ریاضت
کونین میں یہ صاحب اقبال و شرف ہیں
عالم ہوں کہ ان لوگوں کے دل میری طرف ہیں
کس عجز سے آگے مرے حاضر ہیں یہ بندے
دیکھو مرے محبوب کے ناصر ہیں، یہ بندے
مظلوم ہیں بے کس ہیں مسافر ہیں یہ بندے
تھوڑے نہ ہوں کس طرح کے شاکر ہیں یہ بندے
صادق ہیں ولی سے مرے ان سب کو ولا ہے
ان کا وہ صلہ ہے جو رسولوں کا ملا ہے
پرسش نہ لحد میں نہ حساب اُن کے لئے ہے
یہ لائق رحمت ہیں، ثواب اُن کے لئے ہے
موتی سے جو ہے صاف، وہ آب اُن کے لئے ہے
میں جس کا ہوں ساقی، وہ شراب اُن کے لئے ہے
اس نخل ریاضت کے ثمر اُن کو ملیں گے
جو عرش کے نیچے ہیں وہ گھر اُن کے ملیں گے
فارغ جو صلوٰۃ سحری سے ہوئے دیں دار
پوشاک پہننے کو اٹھے سید ابرار
فرمانے لگے حضرت عباسؔ علمدار
ہاں غازیو اب تم بھی سجو جنگ کے ہتھیار
قرباں تمہیں ہونا ہے محمدؔ کے پسر پر
کمروں کو کسو، گلشن جنت کے سفر پر
آمادۂ شر لشکر کفار ہے کل سے
ہونا ہے تمہیں آج، ہم آغوش اجل سے
در پیش ہے جنگ و جدل اس فوج کے دَل سے
آقا بھی کوئی دم میں نکلتے ہیں محل سے
ہاں صف شکنو وقت ہے نصرت کی دعا کا
کھلتا ہے پھریرا علم فوج خدا کا
ہم لوگ اسی روز کے مشتاق ہیں، کب سے
اب ہوگی ملاقات شہنشاہ عرب سے
سیدانیاں تم سب کو دعا دیتی ہیں شب سے
صف باندھ کے آؤ، درِ دولت پہ ادب سے
فردوس میں نانا سے حضور آج ملیں گے
کوثر پہ تمہیں خلعت نور آج ملیں گے
اس مژدہ کو سنتے ہی مسلح ہوئے غازی
اصطبل سے آنے لگے جراروں کے تازی
شیر صف جنگاہ تھا، ایک ایک نمازی
نعرے تھے کہ قربان شہنشاہ حجازی
ڈیوڑھی پہ شگفتہ تھا چمن خلد بریں کا
خیمہ میں تلاطم تھا وداع شہ دیں کا
تھے گرد حرم بیچ میں وہ عاشق حق تھا
مانند سحر رنگ ہر اک بی بی کا فق تھا
بانوے دو عالم کا جگر سینے میں شق تھا
زینب یہ تڑپتی تھی کہ حضرت کو قلق تھا
شبیرؔ کے پہلو سے نہ ہٹتی تھی سکینہؔ
بڑھتے تھے تو دامن سے لپٹتی تھی سکینہؔ
شہ کہتے تھے بی بی ہمیں اب جانے دو گھر سے
سینہ مرا شق ہوتا ہے، لپٹو نہ پدر سے
وہ کہتی تھی سایہ جو یہ اٹھ جائے گا سر سے
ہے ہے میں تمہیں ڈھونڈ کے لاؤں گی کدھر سے
بیٹی کا سوا آپ کے کوئی نہیں بابا
شب بھر میں اسی خوف سے سوئی نہیں بابا
سمجھاتے تھے حضرت کہ میں صدقے مری پیاری
میداں سے ابھی آئیں گے ہم تو کئی باری
وہ کہتی تھی میں آپ کی مظلومی کی واری
ساماں نظر آتا ہے یتیمی کا ہماری
در پیش لڑائی نہیں گر فوج شقی سے
کیوں آپ سفارش مری کرتے تھے پھوپھی سے
اب آپ کے جانے سے تو ثابت ہے نہ آنا
کیوں کہتے تھے زینب اسے چھاتی سے سلانا
بانو مرے پیچھے، نہ سکینہ کو رلانا
پانی جو میسر ہو تو پیاس اس کی بجھانا
بہلائیو جب رو کے مجھے یاد کرے گی
تڑپوں گا لحد میں جو یہ فریاد کرے گی
میں سنتی تھی عابدؔ سے جو کچھ کی تھی وصیت
اس گھر کی تباہی کی خبر دیتے تھے حضرت
ہے ہے یہ مری عمر یہ صدمہ یہ مصیبت
لے لو مجھے ہمراہ، گوارہ نہیں فرقت
ساتھ آپ کے جاؤں گی جو اس دار محن سے
کوئی مری گردن تو نہ باندھے گا رسن سے
نادان کی ان باتوں پہ گھر روتا تھا سارا
ماتم میں کسی دل کو نہ تھا، صبر کا یارا
حضرت کو بھی فرقت تھی نہ بیٹی کی گوارا
ڈیوڑھی تک اسے گود سے اپنی نہ اتارا
جس دم وہ چھٹی، جیتے ہی جی مرگئے شپیرؔ
کس درد سے روتے ہوئے باہر گئے شپیرؔ
جس دم در دولت پہ امیر امم آیا
پیٹے یہ حرم گھر میں کہ ہونٹوں پہ دم آیا
تسلیم کو اسلام کا، لشکر بہم آیا
کس صولت و اقبال و حشم سے علم آیا
جاتی تھی لچکنے میں ضیا عرش تک اس کی
خورشید کو پنجہ میں لئے تھی چمک اس کی
آپس میں یہ کہتے تھے رفیقان دلاور
دیکھیں یہ ہُما سایہ فگن ہوتا ہے کس پر
اکبرؔ کے تو ہے نام پہ سالاریٔ لشکر
عباسؔ کو دیں گے شہ دیں منصب جعفرؔ
اِک عشق ہے اس شیر سے سلطان امم کو
بھائی کو کبھی دیکھتے ہیں، گاہ علَم کو
زینبؔ کے پسر مشورہ یہ کرتے تھے باہم
کیوں بھائی علَم لینے کو ماموں سے کہیں ہم
تائید خدا چاہئے گو عمر میں ہیں کم
عہدہ تو ہمارا ہے یہ آگاہ ہے عالم
واقف ہیں سبھی حیدرؔ و جعفرؔ کے شرف سے
حق پوچھو تو حقدار ہیں ہم دونوں طرف سے
دادا بھی علمدار ہے، نانا بھی علم دار
ہم اپنے بزرگوں کے ہیں، منصب کے طلب گار
کہتا تھا بڑا عرض کا موقع نہیں زنہار
ہیں بادشہ کون و مکاں مالک و مختار
عہدہ تو بڑا یہ ہے کہ ماموں پہ فدا ہوں
چپکے رہو، اماں نہ کہیں سن کے خفا ہوں
مطلب نہ علم سے نہ حشم سے ہمیں کچھ کام
مٹ جائیں نشاں، بس یہی عہدہ ہے یہی نام
یہ سر ہوں نثار قدم شاہ خوش انجام
عزت رہے بھائی، یہ دعا ہے سحرو شام
آقا جسے چاہیں علم فوج خدا دیں
مشتاق اجل ہیں ہمیں مرنے کی رضا دیں
روتی تھی جو پردے کے قریں زینبؔ دلگیر
سب اس نے مفصل یہ سنی بیٹوں کی تقریر
فضہؔ سے یہ کہنے لگی، وہ صاحب توقیر
دونوں کو اشارے سے بلا لے کسی تدبیر
کچھ کہنا ہے سن لیں اسے فرصت انہیں گر ہو
عباسؔ نہ دیکھیں نہ شہ دیں کو خبر ہو
یہ کہتی تھی زینبؔ کہ خود آئے وہ نکو کار
چھوٹے سے یہ فرمانے لگیں زینبؔ ناچار
کیا باتیں ابھی بھائی سے تھیں، اے مرے دلدار
اس وقت میں ہو کون سے منصب کے طلب گار
سمجھے نہ کہ مادر عقب پردہ کھڑی ہے
گھر لٹتا ہے میرا، تمہیں منصب کی پڑی ہے
اللہ بڑا عزم کیا، باندھ کے تلوار
بچو! تمہیں ایسا نہ سمجھتی تھی میں زنہار
دیکھو ابھی تم دونوں سے ہو جاؤں گی بے زار
کچھ کہیو نہ ماموں سے خبردار! خبردار
کیا دخل تمہیں امر میں سلطان امم کے
دیکھوں گی نہ پھر منہ، جو گئے پاس علم کے
کچھ اور ہی تیور ہیں علم نکلا ہے جب سے
تم کون ہو جو آگے بڑھے جاتے ہو سب سے
استادہ ہو، جا کر عقب شاہ، ادب سے
عہدہ ہے یہ جس کا مجھے معلوم ہے شب سے
اس امر میں خاطر نہ کریں، اور کسی کی
میں خوش ہوں بجا لائیں وصیت کو علیؔ کی
دو روز سے بھائی پہ مرے ظلم و ستم ہے
تم فکر علم میں ہو مجھے سخت الم ہے
چھوٹے سے ہیں قد، سِن بھی تمہارا ابھی کم ہے
کھیل اس کو نہ سمجھو یہ محمدؔ کا علم ہے
ہرگز نہ ابھی کچھ شہِ ذی جاہ سے کہنا
کہنا بھی تو رخصت کے لئے شاہ سے کہنا
مانا کہ پہونچتا ہے تمہیں منصب جعفرؔ
آقا کی غلامی سے ہے عہدہ کوئی بڑھ کر
چھوٹا مرا بھائی بھی ہے، بیٹوں کے برابر
عاشق کا تو عاشق ہے، برادر کا برادر
بگڑوں گی گلہ گر کوئی اسلوب کرو گے
عباس سے کیا تم مجھے ممجوب کرو گے
زینبؔ نے عتابانہ جو کی ان سے یہ گفتار
یوں کہنے لگے، جوڑ کے ہاتھوں کو وہ دلدار
شاہوں سے غلاموں نے بھی کی ہے، کبھی تکرار
مالک ہیں جسے چاہیں علم دیں، شہ ابرار
رخصت کے لئے تیغ و سپر باندھے ہوئے ہیں
ہم صبح سے مرنے پہ کمر باندھے ہوئے ہیں
زینبؔ نے کہا لے کے بلائیں کہ سدھارو
بس اب مرا دل شاد ہوا اے مرے پیارو
ماں صدقے گئی، سر قدم شاہ پہ وارو
ہو عید مجھے گر عمرؔ و شمرؔ کو مارو
یہ وقت ہے امداد امام ازلی کا
دے چھوٹے سے ہاتھوں میں خدا زور علیؔ کا
صدقے گئی سن لو کہ میں کہتی ہوں جتا کر
تم پہلے فدا کیجیو سر شہ کے قدم پر
میدان میں زخمی ہوئے گر قاسمؔ و اکبرؔ
پھر تم مرے فرزند نہ میں دونوں کی مادر
جب دل ہوا ناراض تو فرزند کہاں کے
کس کام کا وہ لعل جو کام آئے نہ ماں کے
ان میں سے اگر رن کی طرف ایک سدھارا
زہراؔ کی قسم منہ نہ میں دیکھوں گی تمہارا
جس وقت سنوں گی کہ سر ان دونوں نے وارا
اس وقت تمہیں ہوگا مرا دودھ گوارا
بے جاں ہوئے بعد ان کے، تو ماتم نہ کروں گی
دیکھو جو مروں گی بھی تو ناراض مروں گی
ہیں دونوں بھتیجے، مرے پیارے مرے محبوب
تم ان پہ تصدق ہو، یہی ہے مجھے مطلوب
جینا نہیں بہتر کسی صورت، کسی اسلوب
بے سر دیے دودھ اپنا میں بخشوں تمہیں، کیا خوب
ایذا جو اٹھاؤ گے تو راحت بھی ملے گی
جب آئیں گی لاشیں تو یہ دولت بھی ملے گی
دیکھو کہے دیتی ہوں خبردار! خبردار
جیتے جو رہے دودھ نہ بخشوں گی میں زنہار
شیروں کے یہ ہیں کام کھنچے جس گھڑی تلوار
رکھ دیویں گلا بڑھ کے، تہِ خنجرِ خوں خوار
توڑی ہیں صفیں جنگ میں جب کھیت پڑے ہیں
جنات کے لشکر سے علیؔ یوں ہی لڑے ہیں
اعدا کو مرے دودھ کی تاثیر دکھاؤ
اجلالِ حسن شوکتِ شبیر دکھاؤ
جعفرؔ کی طرح جوہرِ شمشیر دکھاؤ
تن تن کے ید اللہ کی تصویر دکھاؤ
خورشیدِ امامت سے قرابت میں قریں ہو
تم شیر ہو شیروں کے حسینوں کے حسیں ہو
جعفر سے نمودار کے دلبر ہو دلیرو
حیدر سے دلاور کے دلاور ہو دلیرو
جرار ہو، کرار ہو، صفدر ہو دلیرو
ضرغام ہو، ضیغم ہو، غضنفر ہو دلیرو
تیروں سے جوانوں کے جگر توڑ کے آؤ
خیبر کی طرح کوفے کا در توڑ کے آؤ
خندق کی لڑائی کی طرح جنگ کو جھیلو
بچے اسد اللہ کے ہو، جان پہ کھیلو
تیغوں میں دھنسو، چھاتیوں سے نیزوں کو ریلو
کوفے کو تہِ تیغ کرو، شام کو لے لو
دو اور جلا آئینۂ تیغِ عرب کو
لو روم کو قبضے میں تو قابو میں حلب ہے
خاقاںؔ کا رہا تخت نہ قیصرؔ کا رہا تاج
ہاں غازیو! چین و حبش و زنگ سے لو باج
چڑھنا ہے لڑائی پہ جواں مردوں کو معراج
گیتی تہ و بالا ہو وہ تلوار چلے آج
یوں آئیو چار آئینہ پہنے ہوئے بر میں
جس طرح علیؔ بعد ظفرؔ آتے تھے گھر میں
میلے نہ ہوں تیور، یہ سپاہی کے ہنر ہیں
جس کے ہیں، بس اس کے ہیں، جدھر ہیں بس ادھر ہیں
گہ عطر میں ڈوبے ہیں، گہے خون میں تر ہیں
صحبت میں مصاحب ہیں، لڑائی میں سپر ہیں
وہ اور کسی سے نہ جھکیں گے نہ جھکے ہیں
عزت میں نہ فرق آئے کہ سر بیچ چکے ہیں
یہ سن کے جو نکلے وہ جری خیمے سے باہر
کس پیار سے منہ دونوں کا تکنے لگے سرور
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ اے سبطِ پیمبر
تیار ہے سب قبلۂ کونین کا لشکر
جلدی ہے لڑائی کی ادھر فوجِ ستم کو
ارشاد جسے ہو وہ بڑھے لے کے علم کو
شہ بولے کہ عباسِؔ دلاور کو بلاؤ
پیارے مرے محبوب برادر کو بلاؤ
عاشق کو مددگار کو یاور کو بلاؤ
جلدی مرے حمزہؔ مرے جعفرؔ کو بلاؤ
یہ اوج، یہ رتبہ، یہ حشم اس کے لئے ہے
زیب اس سے علم کی ہے، علم اس کے لئے ہے
سب تکنے لگے صورتِ عباس فلک جاہ
نازاں ہوا خود اوج پہ اپنے علمِ شاہ
یعنی مرا عامل ہے نشانِ اسد اللہ
بالیدہ تھا پرچم، تو پھریرا تھا ہوا خواہ
جان آ گئی تھی سنتے ہی اس خوشخبری کو
پنجہ بھی اشارے سے بلاتا تھا جری کو
خوش ہو کے یہ عمّو کو پکارے علیؔ اکبر
جلد آیئے یاد آپ کو فرماتے ہیں سرور
حاضر ہوا جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ہو صفدر
ارشاد کیا شہ نے علم بھائی کو دے کر
رکھیے اسے کاندھے پہ، یہ ہے آپ کا عہدہ
لو بھائی مبارک ہو تمہیں باپ کا عہدہ
بوسہ دیا عباسِؔ دلاور نے علم پر
تسلیم کی اور رکھ دیا سر شہ کے قدم پر
کی عرض کہ قربان اس الطاف و کرم پر
سو سر ہوں تو صدقے میں شہنشاہِ امم پر
ادنیٰ جو ابھی تھا اسے اعلیٰ کیا مولا
قطرے کو ترے فیض نے دریا کیا مولا
اس چترِ فلک قدر کا سایہ مرے سر پر
اس دھوپ میں ہوگا، پہ پھریرا مرے سرپر
یہ ابر مِرے سر پہ، یہ طوبیٰ مرے سر پر
قائم رہیں لاکھوں برس آقا مرے سر پر
سلطانِ دو عالم کی غلامی کے صلے ہیں
سب اوج یہ نعلین اٹھانے سے ملے ہیں
حضرت نے کہا رو کے یہ کیا کہتے ہو پیارے
حاضر ہے اگر جان بھی کام آئے تمہارے
حصہ یہ تمہارا تھا سو پہونچا تمہیں بارے
مالک ہو تمہیں، ہم تو ہیں اب گور کنارے
تھا دل میں جو کچھ وہ بخدا ہو نہیں سکتا
بھائی ترا حق مجھ سے ادا ہو نہیں سکتا
یہ کہہ کے بڑھے سرورِ دیں جانبِ توسن
ہتیار لگائے ہوئے، پہنے ہوئے جوشن
اسوار ہوئے آپ، جو گردان کے دامن
اللہ رے ضیا، خانۂ زیں ہو گیا روشن
وہ پاؤں رکابوں کے لئے باعثِ ضو تھے
خورشید کے قدموں کے تلے دو مہِ نو تھے
رانوں کے اشارے سے لگا کوندنے، شبدیز
اسوار کے دل کا تھا اشارہ اسے مہمیز
گرما کے جو شبیرؔ نے تازی کو کیا تیز
اعدا پہ چلا غول سواروں کا، جلو ریز
ایک ایک جوانِ عربی، رشکِ ملک تھا
اللہ کے لشکر کا علم، سر بہ فلک تھا
کیا فیضِ سواری تھا کہ زر ریز تھی سب راہ
طالع تھا ادھر مہر، ادھر تھا علم شاہ
مابین دو خورشید تھی، فوجِ شہِ ذی جاہ
پنجے پہ تجلی تھی، کہ اللہ ہی اللہ
بالا تھی چمک، مہرِ منور کی چمک پر
ضو اس کی زمیں پر تھی، ضیا اس کی فلک پر
ایک ایک جواں، زیورِ جنگی کو سنوارے
نیزوں کی چمک اور وہ سمندر کے طرارے
جعفرؔ کے جگر بند، ید اللہ کے پیارے
رستم سے ہر اک جنگ کرے شیر کو مارے
سیاف ہو مرحبؔ سا، تو شمشیر سے ماریں
ارجنؔ سے کماندار کو، اک تیر سے ماریں
کم سن کئی لڑکوں کا جدا غول تھا سب سے
سوئے بھی نہ تھے، ولولۂ جنگ میں ، شب سے
رو کے ہوئے باگوں کو، شہِ دیں کے ادب سے
اعدا کی طرف دیکھتے تھے، چشمِ غضب سے
ہتھیار جو باندھے تھے تو کیا تن پہ کُھلے تھے
سب نیمچے تولے ہوئے مرنے پہ تُلے تھے
وہ چاند سا منہ، اور وہ گورے بدن، ان کے
شرمندہ ہو غنچے بھی، وہ نازک دہن ان کے
یوسف کی طرح عطر فشاں پیرہن ان کے
مرکر وہی کپڑے ہوئے آخر کفن ان کے
کیا حسنِ عقیدت تھا عجب دل کے جواں تھے
آقا پہ فِدا ہونے کو سب ایک زباں تھے
عمریں تو کم و بیش، یہ سب گیسوؤں والے
اِک غول میں تھے چاند کئی اور کئی ہالے
ذی مرتبہ سیدانیوں کو گود کے پالے
غنچہ تھا وہ سب، اکبرِؔ گل رو کے حوالے
ان تازہ نہالوں میں نمودار یہی تھے
اس گلشنِ یک رنگ کے مختار یہی تھے
مقتل کو جو پر نور کیا، عسکرِ دیں نے
دیکھا طرفِ چرخ، حقارت سے زمیں نے
اونچا نہ کیا سر فلکِ ماہِ جبیں نے
کی فرش پہ حسرت سے نظر عرشِ بریں نے
اٹھ اٹھ کے چمک اپنی دکھانے لگے ذرے
خورشید کے پہلو کو دبانے لگے ذرے
کھولا جو پھریرے کو علمدار جری نے
لوٹے گلِ فردوس، نسیم سحری نے
تاروں کو اتارا، فلکِ نیلوفری نے
پرچم جو کھلا کھول دیے بال پری نے
عیسی نے پکارا کہ نثار اس کے چشم کے
خورشید نے منہ رکھ دیا پنجے پہ علم کے
ترتیبِ صفِ فوج کا جس دم ہوا اعلام
باندھی علیؔ اکبر نے صفِ لشکرِ اسلام
ظاہر جو ہوئی شانِ جوانانِ گل اندام
کوفے کے نشاں جھک گئے، کانپی سپہِ شام
اللہ رے شوکت شرفا و نجبا کی
اسلام کا لشکر تھا کہ قدرت بھی خدا کی
ناگاہ بجا طبل، بڑھا لشکرِ سفاک
تا چرخ گیا، غلغلۂ کوسِ شغب ناک
فریاد سے قرنا کی ہلا گنبد افلاک
تھرا گیا آوازِ دہل سے کرۂ خاک
نوبت تھی زبس قتلِ امامِ مدنی کی
صاف آتی تھی تاشوں سے صدا سینہ زنی کی
واں شور تھا باجوں کا ادھر نعرۂ تکبیر
ایک ایک جری جھومتا تھا تول کے شمشیر
نگاہ سوئے فوجِ خدا آنے لگے تیر
عباسؔ علمبدار نے دیکھا رخِ شبیر
کی عرض کہ لڑنے کو شریر آتے ہیں مولا
کیا حکم ہے اب پیاسوں پہ تیر آتے ہیں مولا
شہ نے کہا شرم آتی ہے کیا حکم میں دوں آہ
ہفتادِ دو تن یاں ہیں، ادھر سیکڑوں گمراہ
غازی نے یہ کی عرض کہ اے گل کے شہنشاہ
یہ شیر نیستانِ علیؔ ہیں، تو وہ روبارہ
لاکھوں ہیں تو کیا ڈرہے شجاعانِ عرب کو
اقبال سے آقا کے بھگا دیتے ہیں سب کو
فرمایا کہ فاقے سے ہے، سارا مرا لشکر
پانی نہیں ملتا کہ لبِ خشک کریں تر
بہتر ہے اگر پہلے کٹے تن سے مرا سر
غازی نے کہا شیرِ گرسنہ ہیں، یہ صفدر
حملوں سے الٹ دیں گے پرے فوج عدو کے
بھوکے ہیں یہ زخموں کے، پیاسے ہیں لہو کے
حضرت نے کہا خیر! لڑو فوجِ ستم سے
معلوم ہے سب آج جدا ہوویں گے ہم سے
دنیا سے نہ مطلب ہے، نہ کچھ جاہ و حشم سے
کٹ جائے گا اپنا بھی گلا، تیعِ دو دم سے
مقبول ہیں وہ، جو مری امداد کریں گے
اس جنگ کو بھی لوگ، بہت یاد کریں گے
جس دم یہ سنی، قبلۂ کونین کی گفتار
جانباز بڑھے، فوج سے چلنے لگی تلوار
تھے پیاسوں کے حملے غضبِ حضرتِ قہار
چوٹی کے جواں بھاگ گئے پھینک کے تلوار
کون آنکھ ملا سکتا تھا، شیروں سے عرب کے
جب کرتے تھے نعرے قدم اٹھ جاتے تھے سب کے
لڑتا تھا غضب ایک کے بعد ایک وفادار
دن چڑھتا تھا یاں، گرم تھا واں موت کا بازار
سر بیچتے تھے، جنسِ شہادت کے طلبگار
بڑھ بڑھ کے خریدار پہ گرتا تھا خریدار
لیں پہلے، ہم ایک ایک کی جاں اس کی بڑی تھی
عقبیٰ کا جو سودا تھا تو قیمت بھی کڑی تھی
آیا جو عزیزوں کے لئے موت کا پیغام
فرزندوں نے جعفرؔ کے بڑے رن میں کئے کام
اولاد عقیل آ چکی شبیرؔ کے جب کام
لڑنے کو گئے مسلمِ بیکس کے گل اندام
تھا حشر بپا ندیاں بہتی تھیں لہو کی
بچوں نے الٹ دی تھیں صفیں فوجِ عدو کی
لشکر میں تلاطم تھا غضب چلتی تھی تلوار
بیتاب تھے یاں، زینبِ ناشاد کے دلدار
منہ دیکھ کے حضرت کا یہی کہتے تھے ہر بار
ہم جائیں گے بعد ان کے سوئے لشکرِ کفار
جی جائیں جو مولا ہمیں مرنے کی رضا دیں
ایسا نہ ہو قاسمؔ کو حضور اذنِ وِغا دیں
کچھ ان سے کہا چاہتے تھے سرورِ ذی شان
جو غل ہوا مارے گئے مسلمؔ کے دل و جان
لاشے بھی ادھر آ چکے، جب خون میں غلطاں
پھر ہاتھوں کو جوڑا کہ ملے رخصت میداں
شہ نے کہا یہ داغ تو دشوار ہے ہم پر
ان دونوں نے سر رکھ دیے ماموں کے قدم پر
حضرت نے کہا ماں سے بھی ہو آئے ہو رخصت
کیا کہتے ہو لٹوا دوں میں ہمشیر کی دولت
مایہ ہو تمہیں اس کا، تمہیں اس کی بضاعت
چھوٹے نے یہ حضرت سے کہا تھام کے رقت
جھوٹے نہیں ہم، آپ ابھی پوچھ لیں سب سے
اماں تو رضا دے چکی ہیں، مرنے کی شب سے
بچوں نے جو کی جوڑ کے ہاتھوں کو یہ تقریر
ان دونوں کا منہ دیکھ کے رونے لگے شبیرؔ
فرمایا چھڑاتا ہے، تمہیں بھی فلکِ پیر
اچھا میں رضا مند ہوں، جو مرضئِ ہمشیر
وہ سیدۂ پاک نواسی ہے نبی کی
فیاض کی ہمشیر ہے، بیٹی ہے سخی کی
یہ سن کے جھکے آخری تسلیم کو ذی جاہ
خورشید کے آگے مہ نو بن گئے دو ماہ
کی سوئے فلک دیکھ کے شبیرؔ نے اک جاہ
دو شیر چلے گھوڑوں پر چڑھ کر سوئے جنگاہ
ماں ڈیوڑھی سے چلائی کہ رخصت ہو مبارک
سرکارِ شہنشاہ سے، خلعت ہو مبارک
سلطانِ دو عالم نے مخلع کیا واری
تم جاتے ہو یا جاتی ہے دولہا کی سواری
پروان چڑھے، ختم ہوئیں شادیاں ساری
لو دور سے لیتی ہوں بلائیں، تمہاری
صدقے گئی نیزوں کو ہلاتے ہوئے جاؤ
شکلیں مجھے پھر پھر کے دکھاتے ہوئے جاؤ
تسلیم کو گھوڑوں سے جھکے، دونوں وہ گل رو
دل ماں کا یہ امڈا کہ ٹپکنے لگے آنسو
باگیں جو اٹھائیں تو فرس بن گئے، آہو
پھر دیکھنے پائی نہ انہیں زینبِ خوش خو
میداں کی طرف یاس سے ماں رہ گئی تک کر
پنہاں ہوئے بدلی میں ستارے سے چمک کر
میداں میں عجب شان سے وہ شیرِ نر آئے
گویا کہ بہم حیدرؔ و جعفرؔ نظر آئے
غل پر گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسن گرانمایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں، سایہ ہے ان کا
وہ چاند سے منہ، اور وہ گیسوئے معنبر
وہ بدر سے رخسار، زہے قدرتِ داور
سب شان یداللہ کی، سب شوکتِ حیدرؔ
چتون وہی، غصہ وہی، سارے وہی تیور
یہ دبدبہ کس صاحبِ شمشیر نے دیکھا
دیکھا جسے، معلوم ہوا شیر نے دیکھا
تن تن کے جو شان اپنی دکھاتے تھے وہ ذی جاہ
چھاتی سے لگا لیتے تھے دونوں کو ید اللہ
شمشاد سے قامت، نہ دراز اور نہ کوتاہ
کھیلے ہوئے تیغوں میں فنِ جنگ سے آگاہ
ناخن سے دلیروں کے سب اندازِ وِغا تھے
بچے تھے مگر بچۂ ضرغامِ خدا تھے
تھے حسن میں ان دونوں کے آئینہ رو ایک
پیشانی و ابرو و سر و صدر و گلو ایک
شان ایک، شکوہ ایک، جو رنگ ایک، تو بو ایک
دل ایک، جگر ایک، جسد ایک، لہو ایک
اور ان سا کوئی غرب سے تا شرق نہیں ہے
دو ٹکڑے ہیں اک سیب کے، کچھ فرق نہیں ہے
پڑھنے لگے اشعارِ رجز جب وہ دلاور
اللہ ری فصاحت فصحا ہو گئے ششدر
ہر بیت تھی دشمن کے لئے تیغِ دو پیکر
ہر مصرع برجستہ میں تھی تیزئِ خنجر
دے کون جواب ان کا کہ دم بند تھا سب کا
واں قافیہ تھا تنگ شجاعانِ عرب کا
اظہارِ نسب میں جو محمدؔ کا لیا نام
سب پڑھنے لگے صلِ علیٰ صاحبِ اسلام
آگے جو بڑھے نامِ علیؔ کے کے وہ گلفام
دل ہِل گئے تھرانے لگا روم سے تا شام
جعفرؔ کا جو کچھ ذکر کیا بعد علیؔ کے
مجرے کو علم جھک گئے سب فوجِ شقی کے
آغاز تھا ذکرِ شرفِ حضرتِ شبیرؔ
ڈنکے پہ ادھر چوٹ لگی، چلنے لگے تیر
اس وقت بڑے بھائی نے کی چھوٹے سے تقریر
تلوار علم کیجئے اب کس لئے تاخیر
کہتے تو جدا ہو کے ستمگاروں پہ جائیں
اسواروں میں ہم، آپ کمانداروں پہ جائیں
فرمایا بڑے بھائی نے ہنس کر، نہیں بھائی
تم جان ہو، دشوار ہے دم بھر کی جدائی
ہو جاتی ہے اِک آن میں، ہر صف کی صفائی
کر دیتے ہیں سر، کون سی ایسی ہے لڑائی
بازو ہوں قوی، ہاتھ سے گر ہاتھ نہ چھوٹے
سر تن سے اتر جائے، مگر ساتھ نہ چھوٹے
نانا کی طرح، فوج پہ حملے کریں، آؤ
تلواروں میں تن تن کے چلو، برچھیاں کھاؤ
ان چھوٹے سے ہاتھوں کا ہمیں، زور دکھاؤ
ہم سینہ سپر تم پہ ہوں، تم ہم کو بچاؤ
ہم شیروں پہ رستم کا بھی منہ پڑ نہ سکے گا
جب دو ہوئے اک دل تو کوئی لڑ نہ سکے گا
چھوٹے نے کہا جوڑ کے ہاتھوں کو کہ، بہتر
بس کھینچ لئے نیمچے، دونوں نے برابر
دو بجلیاں کوندیں کہ لرزنے لگے لشکر
نیزوں کے نیستاں میںِ در آئے وہ غضنفر
برباد کیا رو میں سواروں کو دبا کے
رہوار بھی اسوار تھے گھوڑوں پہ ہوا کے
ان چھوٹی سی تلواروں کے تھے کاٹ نرالے
تھیں کہنیاں پہونچوں سے جدا، ہاتھوں سے بھالے
مسل اپنی جمائے تھے جو بے مثل رسالے
تھے جائزہ ان سب کا یہی دیکھنے والے
ناز اپنے ہنر پر تھا شجاعان عرب کو
نیزوں کو قلم کر کے ندارد کیا سب کو
موت آئی اُدھر، نیمچے دونوں جدھر آئے
جب ہاتھ بڑھا، پاؤں پہ کٹ کٹ کے سر آئے
گر سینے تک آئے تو، کبھی تا کمر آئے
خالی نہ پھرے، جس پہ گئے، خوں میں بھر آئے
ہر نیمچہ، بجلی تھا ستمگاروں کے حق میں
ڈوبے ہوئے تھے دو مہِ نو، خوں کی شفق میں
اٹھتی تھی نہ ڈر سے کسی خوں خوار کی گردن
سر خود کا جھک جاتا تھا، تلوار کی گردن
دو چار کے منہ کٹ گئے، دو چار کی گردن
اسوار کا سر اڑ گیا، رہوار کی گردن
دو نیمچے بجلی سے گزرتے تھے کمر سے
آدھے ہوئے جاتے تھے لعیں جان کے ڈر سے
دو چھوٹی سی تیغوں سے قیامت نظر آئی
معصوموں کے ہاتھوں سے کرامت نظر آئی
سر کٹنے کی، اعدا کے علامت نظر آئی
لو ہے کی سپر بھی نہ سلامت نظر آئی
بے وجہ نہ پھر جاتے تھے منہ اہلِ جفا کے
دریا کے تھپیڑے تھے، طمانچے تھے قضا کے
گردن سے بڑھے کاٹ کے پیکر نکل آئے
جوشن کو دکھاتے ہوئے جوہر نکل آئے
چار آئینہ میں تیر کے باہر نکل آئے
صابون سے دو تار برابر نکل آئے
محراب کے نیچے کسے جھکتے نہیں دیکھا
مچھلی کو بندھے پانی میں رکتے نہیں دیکھا
ہر غول میں غلطاں و تپاں تھے سرو پیکر
دستانے کہیں تھے، کہیں ڈھالیں، کہیں مغفر
جب نیمچے ان دونوں کے اٹھتے تھے برابر
منہ خوف سے ڈھالوں میں چھپاتے تھے ستم گر
روکے انہیں، طاقت یہ نہ تھی پیر و جواں کی
صورت نظر آنے لگی تیغِ دو زباں کی
غارت تھی وہ صف جس سے وِغا کرکے پھرے وہ
دو ہاتھ میں سو سو کو فنا کرکے پھرے وہ
سرداروں کے سر تن سے جدا کرکے پھرے وہ
ہر غول میں اک حشر بپا کرکے پھرے وہ
غل تھا کہ پرے ٹوٹے ہوئے جم نہیں سکتے
سر کٹنے کی دہشت سے قدم تھم نہیں سکتے
گھوڑے تھے چھلاوا، کبھی یاں تھے کبھی واں تھے
پتلی میں تو پھرتے تھے، پر آنکھوں سے نہاں تھے
یاں تھے جو سبک رو تو ادھر گرم عناں تھے
بجلی تھے کسی جا تو کہیں آبِ رواں تھے
ہو سکتی تھی بجلی سے یہ سرعت نہ ہرن سے
جھونکے تھے ہوا کے کہ نکل جاتے تھے سَن سے
بے آب تھے دو دن سے یہ جاندار تھے گھوڑے
ہر مرتبہ اڑ جانے پہ تیار تھے گھوڑے
اس پار کبھی تھے، کبھی اس پار تھے گھوڑے
نقطہ تھے وہ سب فوج کی پرکار تھے گھوڑے
دس بیس جو مر جاتے تھے ٹاپوں سے کچل کر
بڑھ سکتا نہ تھا اِک بھی احاطہ سے اجل کے
تانے ہوئے سینوں کو جدھر جاتے تھے دونوں
تلواروں کی موجوں سے گزر جاتے تھے، دونوں
ہر غول میں بے خوف و خطر جاتے تھے، دونوں
سب ہوتے تھے پسپا تو ٹھہر جاتے تھے، دونوں
الٹی ہوئی صف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
بھائی کی طرف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
دم لے کے جو گھوڑوں کو اڑاتے تھے وہ جرار
اعدا کے رسالوں کو بھگاتے تھے وہ جرار
شیروں کی طرح فوج پہ جاتے تھے وہ جرار
دو کرتے تھے یکتا، جسے پاتے تھے وہ جرار
شیروں نے جو مارا بھی تو رو داروں کو مارا
جب آنکھ ملی چن کے نموداروں کو مارا
جمعیتِ لشکر کو پریشاں کیا، دم میں
جو فوج کی جاں تھے، انہیں بے جاں کیا دم میں
تلواروں سے جنگل کو، گلستاں کیا دم میں
سر کاٹ کے خونخواروں کو غلطاں کیا دم میں
بے دست تھے علموں کو، جو بے دین لیے تھے
بچوں نے جوانوں کے نشاں چھین لئے تھے
دو لاکھ کو دونوں نے کیا تھا تہ و بالا
تیغ ایک کی چلتی تھی، تو اِک بھائی کا بھالا
اِک بڑھ گیا گر ایک نے گھوڑے کو نکالا
دم اس نے لیا، اس نے لڑائی کو سنبھالا
یک جا فرسِ تیز قدم ہو گئے دونوں
جب بھیڑ بڑھی کچھ تو بہم ہو گئے دونوں
وہ چھیڑ کے تازی کو سواروں میں در آیا
دم بھر میں پیادوں کو پامال کر آیا
جب شیر سا پہونچا وہ ادھر، یہ ادھر آیا
جاں آ گئی بھائی کو جو بھائی نظر آیا
بچ بچ کے نکلتے تھے جو نیزوں کے تلے سے
اِک بھائی لپٹ جاتا تھا بھائی کے گلے سے
کچھ بھائی سے بڑھ کر جو وِغا کرتا تھا بھائی
بچ جانے کی بھائی کے دعا کرتا تھا بھائی
حق بھائی کی الفت کا ادا کرتا تھا بھائی
ہر وار پہ بھائی کی ثنا کرتا تھا بھائی
تم سا نہیں صفدر کوئی واللہ برادر
کیا خوب لڑے سلمک اللہ برادر
کہتا تھا بڑے بھائی سے چھوٹا بصد آداب
بھائی میں بھگا دوں ابھی ان کو، جو ملے آب
اب پیاس کی گرمی سے کلیجے کو نہیں تاب
سینے میں مرا دل نہیں، آتش پہ ہے سیماب
ہم لوگ محق کیا نہیں اس آبِ رواں کے
تالو میں خلش ہوتی ہے کانٹوں سے زباں کے
کہتا تھا بڑا بھائی میں صدقے ترے گلفام
ہم خشک زبانوں کو، بھلا پانی سے کیا کام
اب جلد اجل آئے تو کوثر کا پئیں جام
غش ہم کو بھی آ جائے گا، پانی کا نہ لو نام
آنکھیں تو ستمگاروں کی تیغوں سے لڑی ہیں
چپکے رہو اماں درِ خیمہ پہ کھڑی ہیں
اس نہر کا لینا تو کچھ ایسا نہیں مشکل
روکیں ہمیں کیا تاب لعینوں کی ہے، کیا دل
پل باندھ لیں لاشوں کے ابھی ہم سرِ ساحل
بتلایئے، پھر نہر کے لے لینے سے حاصل
دیکھو نہ ادھر پیاس سے گو لاکھ تعب ہے
اماں ہمیں گر دودھ نہ بخشیں تو غضب ہے
اشک آنکھوں میں بھر کر، کہا چھوٹے نے بہت خوب
ہر دم ہے رضامندئ مادر ہمیں مطلوب
ایسے تو نہیں ہم کہ بزرگوں سے ہوں محجوب
منظور یہ تھا فخر کا، نکلے کوئی اسلوب
دریا کو بھی دیکھیں گے نہ اب آنکھ اٹھا کے
پیتے بھی تو پہلے شہِ والا کو پلا کے
جعفرؔ کے جو پوتے ہیں، تو حیدرؔ کے نواسے
کچھ ہم علیؔ اکبر سے زیادہ نہیں پیاسے
یہ کہتے ہی لڑنے لگے، پھر اہلِ جفا سے
فریاد کہ بچوں پہ گری فوج قفا سے
خوں سر کا بہا منہ پہ تو گھبرا گئے دونوں
دو لاکھ کی تیغوں کے تلے آ گئے دونوں
ڈوبے ہوئے تھے شام کے بادل میں وہ دو ماہ
پردے سے کھڑی تکتی تھی، زینبؔ سوئے جنگاہ
عباسؔ سے کہتے تھے تڑپ کر شہِ ذی جاہ
اب مجھ سے جدا ہوتے ہیں دو شیر مرے آہ
کیوں کر متحمل ہو دل اس رنج و محن کا
گھر لٹتا ہے بھائی مری نادار بہن کا
اس بی بی کے فاقوں کے ہیں پالے ہوئے یہ لال
دولت ہے یہی، اور یہی حشمت و اقبال
سات آٹھ برس کے ہیں ابھی کیا ہے سن و سال
سب ہاتھ ملیں گے جو یہ گل ہو گئے پامال
تازہ یہی دو پھول ہیں جعفرؔ کے چمن میں
مر جائے گا باپ ان کی خبر سن کے وطن میں
رو کر دمِ رخصت وہ یہی کہتے تھے ہر بار
میں شاہ کا خادم ہوں، یہ دونوں ہیں نمک خوار
آگاہ صعوباتِ سفر سے نہیں زنہار
اے دخترِ زہرا مرے بیٹوں سے خبردار
میں رکھ نہیں سکتا ہوں کہ ماموں پہ فدا ہیں
اب تو یہی دونوں مرے پیری کے عصا ہیں
شوہر کا تڑپنا اسے کچھ بھی نہ رہا یاد
ہے ہے مری الفت میں لٹی زینبؔ ناشاد
یوں بھائی پہ صدقے کوئی کرتا نہیں اولاد
ہم دیکھتے ہیں اور بہن ہوتی ہے برباد
روئے گی وہ بیٹوں کو تو سمجھائیں گے کیوں کر
منہ زینبِؔ دلگیر کو دکھلائیں گے کیوں کر
عباسؔ نے کی عرض، کلیجہ ہے دو پارا
ان کو تو کسی کی نہیں، امداد گوارا
زخمی ہوئے، نہ مجھ کو نہ اکبرؔ کو پکارا
جائے یہ غلام آپ جو فرمائیں اِشارا
حضرت کی قسم دے کے میں سمجھاؤں گا ان کو
مچلیں گے تو گودی میں اٹھا لاؤں گا ان کو
حضرت نے کہا صاحبِ غیرت ہیں، وہ دونوں
لختِ جگر شاہِ ولایت ہیں وہ دونوں
ضرغامِ نیستانِ شجاعت ہیں، وہ دونوں
واللہ بڑے صاحبِ ہمت ہیں وہ ددنوں
دو لاکھ تو کیا ہیں جو کروروں میں گھریں گے
بے جان دیے، وہ نہ پھرے ہیں نہ پھریں گے
بڑھنے لگے میداں کی طرف قاسمِ ذی جاہ
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ میں جاتا ہوں یا شاہ
ہے دونوں کی فرقت کا، مجھے صدمۂ جانکاہ
لاکھوں میں ہیں تنہا پھوپھی اماں کے پسر، آہ
ریتی پہ کہیں گر نہ پڑیں برچھیاں کھا کر
میں ساتھ انہیں لے آتا ہوں اعدا کو بھگا کر
گھبرا کے درِ خیمہ سے زینبؔ یہ پکاری
سر ننگے میں نکلوں گی، جو تم جاؤ گے واری
اولاد مجھے تم سے زیادہ نہیں پیاری
بتلاؤ کہ میں ان کی ہوں عاشق کہ تمہاری
میداں کی طرف قاسمِؔ بے پر بھی نہ جائیں
تلواروں میں عباسِؔ دلاور بھی نہ جائیں
زہراؔ کی قسم کچھ نہیں بیٹوں کا مجھے دھیان
بھائی پہ تصدق ہوں، یہی تھا مجھے ارمان
وہ آئے تو وسواس سے دل ہوگا پریشان
صدقے کو نہیں پھیر کے لاتے ہیں، میں قربان
خود روؤں گی پر شاہ کو غم کھانے نہ دوں گی
لاشے بھی آٹھانے کیلئے جانے نہ دوں گی
میداں میں ہے کیا اور بجز نیزۂ و شمشیر
مر جاؤں گی زخمی ہوئے گر قاسمؔ دلگیر
دل کس کا چھدے، تم کو لگائے جو کوئی تیر
سمجھاؤ میں صدقے گئی کیوں روتے ہیں شبیرؔ
باقی ہے اگر زیست تو پھر آئیں گے دونوں
غم کس لئے، کیا ہو گا، جو مر جائیں گے دونوں
شہزادوں کو کھوتے ہیں، غلاموں کے لئے آہ
میں جوڑتی ہوں ہاتھ بس اب روئیں نہ للّٰلہ
ہے شرم کی کیا وجہ، میں لونڈی، وہ شہنشاہ
سو ایسے ہوں بیٹے تو نثارِ شہِ ذی جاہ
ممتاز ہے، فدیہ ہے جو زہراؔ کے پسر کا
شان اس کی بڑھے فخر ہو جو جد و پدر کا
باپ ان کا اگر ہوتا تو وہ سر نہ کٹاتا
زہراؔ کے کلیجے کے عوض، برچھیاں کھاتا
بیٹوں کو یوں ہی میری طرح نذر کو لاتا
اپنے کوئی محسن کو نہیں دل سے بھلاتا
جو پاس ہے جس کے وہ عطائے شہِ دیں ہے
کہہ دے مرے ماں جائے کہ حق کس پہ نہیں ہے
بیٹوں سے ہوئی گر تو ہوئی، آج جدائی
سر پر مرے دنیا میں، سلامت رہیں بھائی
اِک دولتِ اولاد، لٹائی تو لٹائی
کیا لٹ گیا وہ کون سی ایسی تھی کمائی
کیوں روؤں میں دنیا میں جو دلبند نہیں ہیں
کیا اکبرؔ و اصغرؔ مرے فرزند نہیں ہیں
یہ ذکر ابھی تھا کہ ستمگار پکارے
لو شاہ کی ہمشیر کے بیٹے گئے مارے
ٹکڑے کیا معصوموں کو تلواروں کے مارے
وہ لوٹتے ہیں خاک پہ، دو عرش کے تارے
پامالی کو ان دونوں کی اسوار بڑھیں گے
بچوں کے سر اب کٹ کے نشانوں پہ چڑھیں گے
یہ سنتے ہی تھرانے لگے حضرتِ عباسؔ
گھبرا کے اٹھے خاک سے شبیرؔ بصد یاس
سر کھولے ہوئے بیبیاں، ڈیوڑھی کے جو تھیں پاس
سب نے کہا لو شہ کی بہن ہو گئی بے آس
ٹوٹا ہے فلک، بنتِ شہنشاہِ نجف پر
زینبؔ کو چلو لے کے بس اب ماتمی صف پر
ہے ہے کا جو اک شور ہوا، رانڈوں میں برپا
زینبؔ بھی ہٹی، چھوڑ کے دروازے کا پردا
چلائی ارے چپکے رہو، غل ہے یہ کیسا
بھائی ہیں سلامت، مجھے کیوں دیتے ہو پرسا
ہے ہے نہ کرو صاحبو، گھبرائیں گے شبیرؔ
پھر کون ہے زینبؔ کا جو مرجائیں گے شبیرؔ
تم روتے ہو کس واسطے میں تو
پردیس میں سادات پہ، آفت عجب آئی
فریاد کناں روح امیر عرب آئی
غل تھا کہ شب قتل شہ تشنہ لب آئی
سادات کو کیا کیا غمِ جانکاہ دکھائے
رات ایسی مصیبت کی نہ اللہ دکھائے
کاغذ پہ لکھے کیا قلم اس شب کی سیاہی
ہے چار طرف جس کی سیاہی سے تباہی
مرغان ہوا بر میں طپاں، بحر میں ماہی
تربت سے نکل آئے تھے محبوب الٰہی
فریاد کا تھا شور رسولان سلف میں
یثرب میں تزلزل تھا اداسی تھی نجف میں
صدمے سے ہوا رنگ رخ ماہ کا کافور
اختر بھی بنے مردمک دیدۂ بے نور
غم چھا گیا، راحت دل عالم سے ہوئی دور
تصویر الم بن گئی جنت میں ہر اک حور
کہتے تھے ملک رات نہ ہووے گی اب ایسی
تاروں نے بھی دیکھی نہ تھی تاریک شب ایسی
شمع طرب محفل عالم تھی جو خاموش
تھی رات بھی شبیرؔ کے ماتم میں سیہ پوش
کیا غم تھا کہ شادی تھی ہر اک دل کو فراموش
ہر چشم کو تھا غم میں سمندر کی طرح جوش
مضطر تھے علیؔ اشکوں سے منہ دھوتی تھی زہراؔ
مقتل تھا جہاں شاہ کا، واں روتی تھی زہراؔ
تھا خانۂ غم خیمۂ شاہنشہ والا
آندھی یہ پریشاں تھی کہ دل تھا تہ و بالا
مشعل نہ ٹھہرتی تھی، نہ شمعوں کا اجالا
خیمہ بھی اندھیرے میں نظر آتا تھا کالا
خاک اڑتی تھی منہ پر، حرم شیر خدا کے
تھا چیں بجبیں فرش بھی جھونکوں سے ہوا کے
جنگل کی ہوا، اور درندوں کی صدائیں
تھراتی تھیں بچوں کو چھپائے ہوئے مائیں
دھڑکا تھا کہ دہشت سے نہ جانے کہیں جائیں
روتی تھی کوئی، اور کوئی پڑھتی تھی دعائیں
گودوں میں بھی راحت نہ ذرا پاتے تھے بچے
جب بولتے تھے شیر تو ڈر جاتے تھے بچے
بچوں کے بلکنے پہ حرم کرتے تھے زاری
غش ہو گئی تھی بالی سکینہؔ کئی باری
چلاتی تھی رو رو کے وہ شبیرؔ کی پیاری
یا حضرت عباسؔ چلی جان ہماری
افسوس کہ پانی کا تو قطرہ نہیں گھر میں
اور آگ لگی ہے مرے ننھے سے جگر میں
تھی سب سے سوا، بنت علی، مضطر و بیتاب
فق ہو گیا تھا شام سے منہ صورت مہتاب
مژگاں سے رخ پاک پہ تھی، بارش خوں ناب
تلوار کلیجے پہ چلے جب تو کہاں تاب
اِک کرب تھا بسمل کی طرح جان حزیں پر
اٹھتی تھی کبھی اور کبھی گرتی تھی زمیں پر
کہتی تھی کبھی، آج پیمبر نہیں ہے ہے
حال اپنا دکھاؤں کسے حیدرؔ نہیں ہے ہے
بیٹی پہ فلک ٹوٹا ہے، مادر نہیں ہے ہے
شبیرؔ مصیبت میں تھے، شبرؔ نہیں ہے ہے
دیکھا نہ سنا یہ جو ستم آج ہے لوگو
نازوں کا پلا پانی کو محتاج ہے لوگو
در پیش ہے کل فوج سمتگر سے لڑائی
یاں تھوڑے سے پیاسے ہیں، ادھر ساری خدائی
بے سر دیے رن سے نہ پھرے گا مرا بھائی
ہو جائے گی حیدرؔ کے بھرے گھر کی صفائی
اس غم سے سدا اشکوں سے منہ دھوتی تھیں اماں
کل دن وہ ہے جس دن کے لئے روتی تھی اماں
تھے دوسرے خیمہ میں ادھر سبط پیمبر
دربار میں حاضر تھے رفیقان دلاور
اک پہلو میں قاسمؔ تھے اور اک پہلو میں اکبرؔ
اکبرؔ کے ادھر لخت دل زینب مضطر
شبیرؔ محبت سے سخن کرتے تھے سب سے
عباسؔ علی سامنے بیٹھے تھے ادب سے
سر گرم تھے مر جانے پہ، سب شاہ کے انصار
عباس سے یہ کہتا تھا، وہ کل کا مدد گار
تم رہیو ذرا خیمۂ ناموس سے ہشیار
ڈر ہے نہ کرے بے ادبی لشکر کفار
بے دینوں کو راحت مری منظور نہیں ہے
شب خوں جو ادھر سے ہو، تو کچھ دور نہیں ہے
یہ ذکر ابھی تھا کہ یکایک خبر آئی
اے چاند ید اللہ کے، شب دوپہر آئی
حضرت کو ستاروں کی جو گردش نظر آئی
دل یاد خدا کرنے لگا، چشم بھر آئی
فرمایا بڑا اجر ہے، بیدارئ شب کا
اے تشنہ لبو وقت ہے یہ طاعت رب کا
اب عمر بھی آخر ہے، نمازیں بھی ہیں آخر
بے توشہ پہونچتا نہیں، منزل پہ مسافر
ہر وقت ہے ربِ دو جہاں حاضر و ناظر
اجر ان کے مضاعف ہیں جو ہیں صابر و شاکر
مشکل نہ کسی رنج کو سمجھے نہ بلا کو
بندہ وہی بندہ ہے جو بھولے نہ خدا کو
نام اس کا رہے ورد، سفر ہو کہ حضر ہو
موجود سمجھ لے اسے جنگل ہو کہ گھر ہو
سجدے ہی کرے دکھ میں کہ راحت میں بسر ہو
تسبیح میں شب ہو، تو نمازوں میں سحر ہو
عشق گل تر ظلم کے خاروں میں نہ بھولے
معشوق کو تلواروں کی دھاروں میں نہ بھولے
چومے لب سوفار، جو سینے پہ لگیں تیر
دم عشق کا بھرتا رہے زیر دم شمشیر
زخموں کو یہ سمجھے، کہ ملا گلشن توقیر
تکبیر کا نعرہ ہو زباں پر، دم تکبیر
کٹنے میں رگوں کے نہ صدا آہ کی نکلے
ہر رنگ میں بو الفت اللہ کی نکلے
شہ نے سخن معرفت حق جو سنائے
اشک آنکھوں میں ہر عاشق صادق کے بھر آئے
کچھ پیاس کا شکوہ بھی زباں پر نہیں لائے
سجادے وہیں لا کے دلیروں نے بچھائے
تکبیریں ہوئیں لشکر اللہ و نبی میں
سب محو ہوئے یاد جناب احدی میں
تسبیح کہیں تھی کہیں سجدے کہیں زاری
تھا صوت حسن سے کوئی قرآن کا قاری
کرتا تھا کوئی عرض کہ یا حضرت باری
اب صبح کو عزت ہے ترے ہاتھ ہماری
حرمت سے شریک شہدا کیجیو یا رب
تو حوصلۂ صبر، عطا کیجیو یا رب
ہم ہیں ترے محبوب کے پیارے کے مددگار
مرنے کے لئے آئے ہیں یا چھوڑ کے گھر بار
یہ بندۂ بے کس ہے مصیبت میں گرفتار
کر رحم کہ ہے ذات تری راحم و غفار
فاقوں کے سبب، جسم کی طاقت میں کمی ہے
تجھ سے طلب قوت ثابت قدمی ہے
بے کس ہیں مسافر ہیں، وطن دور ہے، گھر دور
ہفتم سے ہمیں گھیرے ہے یہ لشکر مقہور
تیروں سے ہوں غربال کہ تیغوں سے بدن چور
احمدؔ کے نواسے سے جدائی نہیں منظور
پھر منہ کسے دکھلائیں جو سردار کو چھوڑیں
کیوں کر ترے مقبول کی سرکار کو چھوڑیں
مردوں کے لئے ننگ ہے تلواروں سے لڑنا
راحت ہو کہ ایذا، یہیں جینا، یہیں مرنا
تو چاہے تو مشکل نہیں کچھ سر سے گزرنا
اے کل کے مدد گار، مدد جنگ میں کرنا
فاقوں میں ہزاروں سے وغا ہو تو مزا ہے
کچھ حق نمک ہم سے ادا ہو تو مزا ہے
کرتے تھے مناجات ادھر یاور و انصار
پڑھتے تھے نماز شب ادھر، سید ابرار
تھی نیت تسبیح بتول جگر افگار
آواز بکا خیمے سے آنے لگی یک بار
اکبرؔ سے اشارہ کیا مڑ کر، کہ یہ کیا ہے
کہ عرض پھوپھی جان کے رونے کی صدا ہے
یوں تو کئی راتوں سے وہ ہیں مضطر و بیتاب
راحت کی نہ صورت ہے نہ آرام کا اسباب
غش میں جو ذرا بند ہوئے، دیدۂ پر آب
روتی ہوئی چونکی ہیں، ابھی دیکھ کے کچھ خواب
نعلین کہیں، چادر پر نور کہیں ہے
اس وقت سے بسمل کی طرح چین نہیں ہے
سب بیبیاں ہیں رو رہیں بچوں کو لیے پاس
ایک ایک کو اندیشہ ہے، ایک ایک کو وسواس
جو پوچھتا ہے وجہ تو کہتی ہیں بصد یاس
لوگو مجھے شبیر کے بچنے کی نہیں آس
مانگو یہ دعا غیب سے بے کس کی مدد ہو
صدقے کرو مجھ کو کہ بلا بھائی کی رد ہو
ان کا تو یہ احوال ہے، اماں کا یہ عالم
اشکوں کی جھڑی آنکھوں سے تھمتی نہ تھی اِک دم
اصغرؔ کی بھی ہے فکر، سکینہ کا بھی ہے غم
شش ماہ کا بچہ بھی ہوا جاتا ہے بے دم
گودی میں اٹھائیں اُسے یا اس کو سنبھالیں
دو روز کے فاقے میں وہ کس کس کو سنبھالیں
رو آتی ہیں عابدؔ کے سرہانے کبھی جا کر
گہوارۂ اصغرؔ پہ کبھی گرتی ہیں آ کر
قرآں کی ہوا دیتی ہیں غش میں اسے پا کر
بہلاتی ہیں، بیٹی کو کبھی اشک بہا کر
وہ کہتی ہے تا صبح یوں ہی روؤں گی اماں
بابا ہی جب آویں گے تو میں سوؤں گی اماں
بتلاؤ شہ جن و بشر کیوں نہیں آتے
اب رات بہت کم ہے، پدر کیوں نہیں آتے
آزردہ ہیں کچھ مجھ سے، ادھر کیوں نہیں آتے
کیا آج وہیں سوئیں گے، گھر کیوں نہیں آتے
اب پیاسوں کی فریاد بھی بابا نہیں سنتے
حضرت مرے رونے کی صدا کیا نہیں سنتے
رو کر علیؔ اکبر نے جو کی شہ سے یہ تقریر
پڑھتے ہوئے تسبیح گئے، حضرت شبیرؔ
دیکھی جو نہ تھی دیر سے وہ چاند سی تصویر
قدموں پہ محبت سے گری دوڑ کے ہمشیر
بیتاب جو پایا بہت اس تشنہ دہن کو
شبیرؔ نے لپٹا لیا چھاتی سے بہن کو
فرمایا بہن تم نے بنایا ہے یہ کیا حال
نہ سر پہ عصابہ ہے نہ چادر ہے نہ رومال
ماتھا ہے بھرا خاک سے بکھرے ہوئے ہیں بال
پیٹو نہیں، جیتا ہے ابھی فاطمہؔ کا لال
دم تن سے مرا کٹ کے نکل جائے گا زینبؔ
رو لیجیو جب رونے کا وقت آئے گا زینبؔ
جیتا ہوں میں اور آہ ابھی سے یہ تلاطم
یہ کرب یہ دکھ درد، یہ زاری یہ تظلم
ہوتے ہیں مرے ہوش و حواس آئے ہوئے گم
خنجر کے تلے دیکھو گی کس طرح مجھے تم
بس صبر کرو جی سے گذر جائیں گے بچے
تڑپو گی تم اس طرح تو مر جائیں گے بچے
تلوار کسی نے ابھی تولی نہیں مجھ پر
سینہ ابھی تیروں سے مشبک نہیں خواہر
گردن پہ کسی نے ابھی پھیرا نہیں خنجر
مر جائے گا بھائی تمہیں ثابت ہوا کیوں کر
ہر چند کہ ساعت نہیں ٹلتی ہے قضا کی
بچ جاؤں تو کیا دور ہے قدرت سے خدا کی
زینبؔ نے کہا خوش ہوں جو میری اجل آئے
بھائی تمہیں اللہ اس آفت سے بچائے
خالق مجھے عابدؔ کی یتیمی نہ دکھائے
بھائی کی بلا لے کے بہن خلق سے جائے
وسواس طبیعت کو بہلنے نہیں دیتا
بے چین ہے دل مجھ کو سنبھلنے نہیں دیتا
آتا ہے سکینہؔ کی یتیمی کا، مجھے دھیان
ہر وقت بھرا گھر نظر آ جاتا ہے، ویران
سمجھانے سے کچھ دل جو بہلتا ہے، میں قربان
پھر جاتا ہے آنکھوں کے تلے موت کا سامان
بازو مرے کسنے کو رسن لاتا ہے کوئی
سر پر سے ردا کھینچے لئے جاتا ہے کوئی
منہ ڈھانپ کے بستر پہ جو سو جاتی ہوں دم بھر
تو چاک گریباں نظر آتے ہیں پیمبر
اماں کبھی چلاتی ہیں یوں کھولے ہوئے سر
بیٹی نہ بچے گا ترا مظلوم برادر
کیا لیٹی ہے بستر پہ کدھر دھیان ہے زینبؔ
شپیر اسی رات کا مہمان ہے زینبؔ
یہ ذکر ابھی تھا کہ سکینہؔ نے پکارا
سونا تو گیا آپ کے ہمراہ ہمارا
میں جاگتی ہوں اور جہاں سوتا ہے سارا
گردوں پہ چمکنے نہ لگے صبح کا تارا
نیند آئی ہے بیٹی کو سلا جایئے بابا
بس ہو چکیں باتیں اب ادھر آیئے بابا
حضرت نے کہا میں تِری آواز کے قرباں
اللہ تم اب تک نہیں سوئی ہو مری جاں
غربت میں کہاں راحت و آرام کا ساماں
بن باپ کے تم کو تو نہیں چین کسی آں
اچھی نہیں عادت یہ نہ رویا کرو بی بی
پہلو میں کبھی ماں کے بھی سویا کرو بی بی
کیا ہووئے جو ہم گھر میں کسی شب کو نہ آئیں
مجبور ہوں ایسے کہ تمہیں چھوڑ کے جائیں
تم پاؤ نہ ہم کو، نہ تمہیں ہم کہیں پائیں
بی بی کہو پھر چھاتی پہ کس طرح سلائیں
جنگل میں بہت قافلے لٹ جاتے ہیں، بی بی
برسوں جو رہے ساتھ وہ چھٹ جاتے ہیں، بی بی
جب عمر تھی کم، ہم بھی چھٹے تھے یونہی ماں سے
سوتے تھے لپٹ کر یوں ہی، خاتون جناں سے
کوچ ان کا ہوا سامنے آنکھوں کے جہاں سے
ماتم سے ملیں وہ، نہ بکا سے، نہ فغاں سے
یہ داغ یہ اندوہ و الم سب کے لئے ہیں
ماں باپ زمانے میں سدا کس کے جیے ہیں
رستہ وہ اجل کا ہے کہ ہوتا ہی نہیں بند
کوچ آج پدر کا ہے تو کل جائے گا فرزند
ہوتا ہے قلق فرقت اولاد میں وہ چند
کیا زور ہے بندے کا، جو مرضیٔ خداوند
جو آئے ہیں دنیا میں وہ سب کوچ کریں گے
اس زیست کا انجام یہی ہے کہ مریں گے
یہ کہتے تھے حضرت کی صدا آئی اذاں کی
گلدستۂ اسلام پہ، بلبل نے فغاں کی
اک دم میں بہار اور ہوئی باغ جہاں کی
تلوار چلی گلشن انجم پہ خزاں کی
مہتاب ہوا گم فلک نیلوفری سے
پھولا گل خورشید، نسیم سحری سے
گرمی کی سحر اور وہ پھولوں کا مہکنا
مرغان چمن کا وہ درختوں پہ چہکنا
انجم کا وہ چھپنا کبھی اور گاہ چمکنا
وہ سرد ہوا اور وہ سبزے کا لہکنا
اس دشت میں روتی تھی جو شبنم شہ دیں پر
تھا موتیوں کا فرش زمرد کی زمیں پر
جلوہ وہ دم صبح کا، وہ نور کا عالم
دلچسپ صدا نوبت و شہنا کی، وہ باہم
سرخی وہ شفق کی، افق چرخ پہ کم کم
وہ گل کے کٹوروں پہ در افشانیٔ شبنم
خشکی میں بھی سردی سے ترائی کا سماں تھا
پر مالک گلزار جناں، تشنہ دہاں تھا
لشکر میں ادھر مورچے بندی کی ہوئی دھوم
یاں فرض ادا کرنے لگے عاشق قیوم
پیچھے تو جماعت تھی اور آگے شہ مظلوم
صف بستہ ملائک ہیں، یہی ہوتا تھا معلوم
سب ساجد و راکع تھے شہنشاہ کے ہمراہ
تاباں تھے بہتر مہ نو ماہ کے ہمراہ
خیمہ تھا فلک، آپ قمر، دوست ستارے
تارے بھی وہ تاروں کو فلک جن پہ اتارے
خم ہو گیا تھا، پیر فلک شرم کے مارے
کہتی تھی زمیں، اوج ہے طالع کو ہمارے
خورشید نہیں روشنیٔ نیر دیں ہے
خود عرش کو دھوکا تھا، یہ میں ہوں کہ زمیں ہے
جو صف ہے وہ اک سطر ہے قران مبیں کی
دیوار ہے قبلہ کی طرف، کعبۂ دیں کی
کیا خوب جماعت ہے یہ ارباب یقیں کی
افلاک کی زینت ہے تو رونق ہے زمیں کی
کس طرح شہنشاہ سے وہ فوج جدا ہو
مشکل ہے کہ دریا سے کہیں موج جدا ہو
اس دم تھی یہ آواز پس پردۂ قدرت
اے قدسیو دیکھو مرے بندوں کی عبادت
نہ پیاس کا شکوہ ہے، نہ فاقوں کی شکایت
یہ زہد، یہ تقویٰ، یہ اطاعت، یہ ریاضت
کونین میں یہ صاحب اقبال و شرف ہیں
عالم ہوں کہ ان لوگوں کے دل میری طرف ہیں
کس عجز سے آگے مرے حاضر ہیں یہ بندے
دیکھو مرے محبوب کے ناصر ہیں، یہ بندے
مظلوم ہیں بے کس ہیں مسافر ہیں یہ بندے
تھوڑے نہ ہوں کس طرح کے شاکر ہیں یہ بندے
صادق ہیں ولی سے مرے ان سب کو ولا ہے
ان کا وہ صلہ ہے جو رسولوں کا ملا ہے
پرسش نہ لحد میں نہ حساب اُن کے لئے ہے
یہ لائق رحمت ہیں، ثواب اُن کے لئے ہے
موتی سے جو ہے صاف، وہ آب اُن کے لئے ہے
میں جس کا ہوں ساقی، وہ شراب اُن کے لئے ہے
اس نخل ریاضت کے ثمر اُن کو ملیں گے
جو عرش کے نیچے ہیں وہ گھر اُن کے ملیں گے
فارغ جو صلوٰۃ سحری سے ہوئے دیں دار
پوشاک پہننے کو اٹھے سید ابرار
فرمانے لگے حضرت عباسؔ علمدار
ہاں غازیو اب تم بھی سجو جنگ کے ہتھیار
قرباں تمہیں ہونا ہے محمدؔ کے پسر پر
کمروں کو کسو، گلشن جنت کے سفر پر
آمادۂ شر لشکر کفار ہے کل سے
ہونا ہے تمہیں آج، ہم آغوش اجل سے
در پیش ہے جنگ و جدل اس فوج کے دَل سے
آقا بھی کوئی دم میں نکلتے ہیں محل سے
ہاں صف شکنو وقت ہے نصرت کی دعا کا
کھلتا ہے پھریرا علم فوج خدا کا
ہم لوگ اسی روز کے مشتاق ہیں، کب سے
اب ہوگی ملاقات شہنشاہ عرب سے
سیدانیاں تم سب کو دعا دیتی ہیں شب سے
صف باندھ کے آؤ، درِ دولت پہ ادب سے
فردوس میں نانا سے حضور آج ملیں گے
کوثر پہ تمہیں خلعت نور آج ملیں گے
اس مژدہ کو سنتے ہی مسلح ہوئے غازی
اصطبل سے آنے لگے جراروں کے تازی
شیر صف جنگاہ تھا، ایک ایک نمازی
نعرے تھے کہ قربان شہنشاہ حجازی
ڈیوڑھی پہ شگفتہ تھا چمن خلد بریں کا
خیمہ میں تلاطم تھا وداع شہ دیں کا
تھے گرد حرم بیچ میں وہ عاشق حق تھا
مانند سحر رنگ ہر اک بی بی کا فق تھا
بانوے دو عالم کا جگر سینے میں شق تھا
زینب یہ تڑپتی تھی کہ حضرت کو قلق تھا
شبیرؔ کے پہلو سے نہ ہٹتی تھی سکینہؔ
بڑھتے تھے تو دامن سے لپٹتی تھی سکینہؔ
شہ کہتے تھے بی بی ہمیں اب جانے دو گھر سے
سینہ مرا شق ہوتا ہے، لپٹو نہ پدر سے
وہ کہتی تھی سایہ جو یہ اٹھ جائے گا سر سے
ہے ہے میں تمہیں ڈھونڈ کے لاؤں گی کدھر سے
بیٹی کا سوا آپ کے کوئی نہیں بابا
شب بھر میں اسی خوف سے سوئی نہیں بابا
سمجھاتے تھے حضرت کہ میں صدقے مری پیاری
میداں سے ابھی آئیں گے ہم تو کئی باری
وہ کہتی تھی میں آپ کی مظلومی کی واری
ساماں نظر آتا ہے یتیمی کا ہماری
در پیش لڑائی نہیں گر فوج شقی سے
کیوں آپ سفارش مری کرتے تھے پھوپھی سے
اب آپ کے جانے سے تو ثابت ہے نہ آنا
کیوں کہتے تھے زینب اسے چھاتی سے سلانا
بانو مرے پیچھے، نہ سکینہ کو رلانا
پانی جو میسر ہو تو پیاس اس کی بجھانا
بہلائیو جب رو کے مجھے یاد کرے گی
تڑپوں گا لحد میں جو یہ فریاد کرے گی
میں سنتی تھی عابدؔ سے جو کچھ کی تھی وصیت
اس گھر کی تباہی کی خبر دیتے تھے حضرت
ہے ہے یہ مری عمر یہ صدمہ یہ مصیبت
لے لو مجھے ہمراہ، گوارہ نہیں فرقت
ساتھ آپ کے جاؤں گی جو اس دار محن سے
کوئی مری گردن تو نہ باندھے گا رسن سے
نادان کی ان باتوں پہ گھر روتا تھا سارا
ماتم میں کسی دل کو نہ تھا، صبر کا یارا
حضرت کو بھی فرقت تھی نہ بیٹی کی گوارا
ڈیوڑھی تک اسے گود سے اپنی نہ اتارا
جس دم وہ چھٹی، جیتے ہی جی مرگئے شپیرؔ
کس درد سے روتے ہوئے باہر گئے شپیرؔ
جس دم در دولت پہ امیر امم آیا
پیٹے یہ حرم گھر میں کہ ہونٹوں پہ دم آیا
تسلیم کو اسلام کا، لشکر بہم آیا
کس صولت و اقبال و حشم سے علم آیا
جاتی تھی لچکنے میں ضیا عرش تک اس کی
خورشید کو پنجہ میں لئے تھی چمک اس کی
آپس میں یہ کہتے تھے رفیقان دلاور
دیکھیں یہ ہُما سایہ فگن ہوتا ہے کس پر
اکبرؔ کے تو ہے نام پہ سالاریٔ لشکر
عباسؔ کو دیں گے شہ دیں منصب جعفرؔ
اِک عشق ہے اس شیر سے سلطان امم کو
بھائی کو کبھی دیکھتے ہیں، گاہ علَم کو
زینبؔ کے پسر مشورہ یہ کرتے تھے باہم
کیوں بھائی علَم لینے کو ماموں سے کہیں ہم
تائید خدا چاہئے گو عمر میں ہیں کم
عہدہ تو ہمارا ہے یہ آگاہ ہے عالم
واقف ہیں سبھی حیدرؔ و جعفرؔ کے شرف سے
حق پوچھو تو حقدار ہیں ہم دونوں طرف سے
دادا بھی علمدار ہے، نانا بھی علم دار
ہم اپنے بزرگوں کے ہیں، منصب کے طلب گار
کہتا تھا بڑا عرض کا موقع نہیں زنہار
ہیں بادشہ کون و مکاں مالک و مختار
عہدہ تو بڑا یہ ہے کہ ماموں پہ فدا ہوں
چپکے رہو، اماں نہ کہیں سن کے خفا ہوں
مطلب نہ علم سے نہ حشم سے ہمیں کچھ کام
مٹ جائیں نشاں، بس یہی عہدہ ہے یہی نام
یہ سر ہوں نثار قدم شاہ خوش انجام
عزت رہے بھائی، یہ دعا ہے سحرو شام
آقا جسے چاہیں علم فوج خدا دیں
مشتاق اجل ہیں ہمیں مرنے کی رضا دیں
روتی تھی جو پردے کے قریں زینبؔ دلگیر
سب اس نے مفصل یہ سنی بیٹوں کی تقریر
فضہؔ سے یہ کہنے لگی، وہ صاحب توقیر
دونوں کو اشارے سے بلا لے کسی تدبیر
کچھ کہنا ہے سن لیں اسے فرصت انہیں گر ہو
عباسؔ نہ دیکھیں نہ شہ دیں کو خبر ہو
یہ کہتی تھی زینبؔ کہ خود آئے وہ نکو کار
چھوٹے سے یہ فرمانے لگیں زینبؔ ناچار
کیا باتیں ابھی بھائی سے تھیں، اے مرے دلدار
اس وقت میں ہو کون سے منصب کے طلب گار
سمجھے نہ کہ مادر عقب پردہ کھڑی ہے
گھر لٹتا ہے میرا، تمہیں منصب کی پڑی ہے
اللہ بڑا عزم کیا، باندھ کے تلوار
بچو! تمہیں ایسا نہ سمجھتی تھی میں زنہار
دیکھو ابھی تم دونوں سے ہو جاؤں گی بے زار
کچھ کہیو نہ ماموں سے خبردار! خبردار
کیا دخل تمہیں امر میں سلطان امم کے
دیکھوں گی نہ پھر منہ، جو گئے پاس علم کے
کچھ اور ہی تیور ہیں علم نکلا ہے جب سے
تم کون ہو جو آگے بڑھے جاتے ہو سب سے
استادہ ہو، جا کر عقب شاہ، ادب سے
عہدہ ہے یہ جس کا مجھے معلوم ہے شب سے
اس امر میں خاطر نہ کریں، اور کسی کی
میں خوش ہوں بجا لائیں وصیت کو علیؔ کی
دو روز سے بھائی پہ مرے ظلم و ستم ہے
تم فکر علم میں ہو مجھے سخت الم ہے
چھوٹے سے ہیں قد، سِن بھی تمہارا ابھی کم ہے
کھیل اس کو نہ سمجھو یہ محمدؔ کا علم ہے
ہرگز نہ ابھی کچھ شہِ ذی جاہ سے کہنا
کہنا بھی تو رخصت کے لئے شاہ سے کہنا
مانا کہ پہونچتا ہے تمہیں منصب جعفرؔ
آقا کی غلامی سے ہے عہدہ کوئی بڑھ کر
چھوٹا مرا بھائی بھی ہے، بیٹوں کے برابر
عاشق کا تو عاشق ہے، برادر کا برادر
بگڑوں گی گلہ گر کوئی اسلوب کرو گے
عباس سے کیا تم مجھے ممجوب کرو گے
زینبؔ نے عتابانہ جو کی ان سے یہ گفتار
یوں کہنے لگے، جوڑ کے ہاتھوں کو وہ دلدار
شاہوں سے غلاموں نے بھی کی ہے، کبھی تکرار
مالک ہیں جسے چاہیں علم دیں، شہ ابرار
رخصت کے لئے تیغ و سپر باندھے ہوئے ہیں
ہم صبح سے مرنے پہ کمر باندھے ہوئے ہیں
زینبؔ نے کہا لے کے بلائیں کہ سدھارو
بس اب مرا دل شاد ہوا اے مرے پیارو
ماں صدقے گئی، سر قدم شاہ پہ وارو
ہو عید مجھے گر عمرؔ و شمرؔ کو مارو
یہ وقت ہے امداد امام ازلی کا
دے چھوٹے سے ہاتھوں میں خدا زور علیؔ کا
صدقے گئی سن لو کہ میں کہتی ہوں جتا کر
تم پہلے فدا کیجیو سر شہ کے قدم پر
میدان میں زخمی ہوئے گر قاسمؔ و اکبرؔ
پھر تم مرے فرزند نہ میں دونوں کی مادر
جب دل ہوا ناراض تو فرزند کہاں کے
کس کام کا وہ لعل جو کام آئے نہ ماں کے
ان میں سے اگر رن کی طرف ایک سدھارا
زہراؔ کی قسم منہ نہ میں دیکھوں گی تمہارا
جس وقت سنوں گی کہ سر ان دونوں نے وارا
اس وقت تمہیں ہوگا مرا دودھ گوارا
بے جاں ہوئے بعد ان کے، تو ماتم نہ کروں گی
دیکھو جو مروں گی بھی تو ناراض مروں گی
ہیں دونوں بھتیجے، مرے پیارے مرے محبوب
تم ان پہ تصدق ہو، یہی ہے مجھے مطلوب
جینا نہیں بہتر کسی صورت، کسی اسلوب
بے سر دیے دودھ اپنا میں بخشوں تمہیں، کیا خوب
ایذا جو اٹھاؤ گے تو راحت بھی ملے گی
جب آئیں گی لاشیں تو یہ دولت بھی ملے گی
دیکھو کہے دیتی ہوں خبردار! خبردار
جیتے جو رہے دودھ نہ بخشوں گی میں زنہار
شیروں کے یہ ہیں کام کھنچے جس گھڑی تلوار
رکھ دیویں گلا بڑھ کے، تہِ خنجرِ خوں خوار
توڑی ہیں صفیں جنگ میں جب کھیت پڑے ہیں
جنات کے لشکر سے علیؔ یوں ہی لڑے ہیں
اعدا کو مرے دودھ کی تاثیر دکھاؤ
اجلالِ حسن شوکتِ شبیر دکھاؤ
جعفرؔ کی طرح جوہرِ شمشیر دکھاؤ
تن تن کے ید اللہ کی تصویر دکھاؤ
خورشیدِ امامت سے قرابت میں قریں ہو
تم شیر ہو شیروں کے حسینوں کے حسیں ہو
جعفر سے نمودار کے دلبر ہو دلیرو
حیدر سے دلاور کے دلاور ہو دلیرو
جرار ہو، کرار ہو، صفدر ہو دلیرو
ضرغام ہو، ضیغم ہو، غضنفر ہو دلیرو
تیروں سے جوانوں کے جگر توڑ کے آؤ
خیبر کی طرح کوفے کا در توڑ کے آؤ
خندق کی لڑائی کی طرح جنگ کو جھیلو
بچے اسد اللہ کے ہو، جان پہ کھیلو
تیغوں میں دھنسو، چھاتیوں سے نیزوں کو ریلو
کوفے کو تہِ تیغ کرو، شام کو لے لو
دو اور جلا آئینۂ تیغِ عرب کو
لو روم کو قبضے میں تو قابو میں حلب ہے
خاقاںؔ کا رہا تخت نہ قیصرؔ کا رہا تاج
ہاں غازیو! چین و حبش و زنگ سے لو باج
چڑھنا ہے لڑائی پہ جواں مردوں کو معراج
گیتی تہ و بالا ہو وہ تلوار چلے آج
یوں آئیو چار آئینہ پہنے ہوئے بر میں
جس طرح علیؔ بعد ظفرؔ آتے تھے گھر میں
میلے نہ ہوں تیور، یہ سپاہی کے ہنر ہیں
جس کے ہیں، بس اس کے ہیں، جدھر ہیں بس ادھر ہیں
گہ عطر میں ڈوبے ہیں، گہے خون میں تر ہیں
صحبت میں مصاحب ہیں، لڑائی میں سپر ہیں
وہ اور کسی سے نہ جھکیں گے نہ جھکے ہیں
عزت میں نہ فرق آئے کہ سر بیچ چکے ہیں
یہ سن کے جو نکلے وہ جری خیمے سے باہر
کس پیار سے منہ دونوں کا تکنے لگے سرور
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ اے سبطِ پیمبر
تیار ہے سب قبلۂ کونین کا لشکر
جلدی ہے لڑائی کی ادھر فوجِ ستم کو
ارشاد جسے ہو وہ بڑھے لے کے علم کو
شہ بولے کہ عباسِؔ دلاور کو بلاؤ
پیارے مرے محبوب برادر کو بلاؤ
عاشق کو مددگار کو یاور کو بلاؤ
جلدی مرے حمزہؔ مرے جعفرؔ کو بلاؤ
یہ اوج، یہ رتبہ، یہ حشم اس کے لئے ہے
زیب اس سے علم کی ہے، علم اس کے لئے ہے
سب تکنے لگے صورتِ عباس فلک جاہ
نازاں ہوا خود اوج پہ اپنے علمِ شاہ
یعنی مرا عامل ہے نشانِ اسد اللہ
بالیدہ تھا پرچم، تو پھریرا تھا ہوا خواہ
جان آ گئی تھی سنتے ہی اس خوشخبری کو
پنجہ بھی اشارے سے بلاتا تھا جری کو
خوش ہو کے یہ عمّو کو پکارے علیؔ اکبر
جلد آیئے یاد آپ کو فرماتے ہیں سرور
حاضر ہوا جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ہو صفدر
ارشاد کیا شہ نے علم بھائی کو دے کر
رکھیے اسے کاندھے پہ، یہ ہے آپ کا عہدہ
لو بھائی مبارک ہو تمہیں باپ کا عہدہ
بوسہ دیا عباسِؔ دلاور نے علم پر
تسلیم کی اور رکھ دیا سر شہ کے قدم پر
کی عرض کہ قربان اس الطاف و کرم پر
سو سر ہوں تو صدقے میں شہنشاہِ امم پر
ادنیٰ جو ابھی تھا اسے اعلیٰ کیا مولا
قطرے کو ترے فیض نے دریا کیا مولا
اس چترِ فلک قدر کا سایہ مرے سر پر
اس دھوپ میں ہوگا، پہ پھریرا مرے سرپر
یہ ابر مِرے سر پہ، یہ طوبیٰ مرے سر پر
قائم رہیں لاکھوں برس آقا مرے سر پر
سلطانِ دو عالم کی غلامی کے صلے ہیں
سب اوج یہ نعلین اٹھانے سے ملے ہیں
حضرت نے کہا رو کے یہ کیا کہتے ہو پیارے
حاضر ہے اگر جان بھی کام آئے تمہارے
حصہ یہ تمہارا تھا سو پہونچا تمہیں بارے
مالک ہو تمہیں، ہم تو ہیں اب گور کنارے
تھا دل میں جو کچھ وہ بخدا ہو نہیں سکتا
بھائی ترا حق مجھ سے ادا ہو نہیں سکتا
یہ کہہ کے بڑھے سرورِ دیں جانبِ توسن
ہتیار لگائے ہوئے، پہنے ہوئے جوشن
اسوار ہوئے آپ، جو گردان کے دامن
اللہ رے ضیا، خانۂ زیں ہو گیا روشن
وہ پاؤں رکابوں کے لئے باعثِ ضو تھے
خورشید کے قدموں کے تلے دو مہِ نو تھے
رانوں کے اشارے سے لگا کوندنے، شبدیز
اسوار کے دل کا تھا اشارہ اسے مہمیز
گرما کے جو شبیرؔ نے تازی کو کیا تیز
اعدا پہ چلا غول سواروں کا، جلو ریز
ایک ایک جوانِ عربی، رشکِ ملک تھا
اللہ کے لشکر کا علم، سر بہ فلک تھا
کیا فیضِ سواری تھا کہ زر ریز تھی سب راہ
طالع تھا ادھر مہر، ادھر تھا علم شاہ
مابین دو خورشید تھی، فوجِ شہِ ذی جاہ
پنجے پہ تجلی تھی، کہ اللہ ہی اللہ
بالا تھی چمک، مہرِ منور کی چمک پر
ضو اس کی زمیں پر تھی، ضیا اس کی فلک پر
ایک ایک جواں، زیورِ جنگی کو سنوارے
نیزوں کی چمک اور وہ سمندر کے طرارے
جعفرؔ کے جگر بند، ید اللہ کے پیارے
رستم سے ہر اک جنگ کرے شیر کو مارے
سیاف ہو مرحبؔ سا، تو شمشیر سے ماریں
ارجنؔ سے کماندار کو، اک تیر سے ماریں
کم سن کئی لڑکوں کا جدا غول تھا سب سے
سوئے بھی نہ تھے، ولولۂ جنگ میں ، شب سے
رو کے ہوئے باگوں کو، شہِ دیں کے ادب سے
اعدا کی طرف دیکھتے تھے، چشمِ غضب سے
ہتھیار جو باندھے تھے تو کیا تن پہ کُھلے تھے
سب نیمچے تولے ہوئے مرنے پہ تُلے تھے
وہ چاند سا منہ، اور وہ گورے بدن، ان کے
شرمندہ ہو غنچے بھی، وہ نازک دہن ان کے
یوسف کی طرح عطر فشاں پیرہن ان کے
مرکر وہی کپڑے ہوئے آخر کفن ان کے
کیا حسنِ عقیدت تھا عجب دل کے جواں تھے
آقا پہ فِدا ہونے کو سب ایک زباں تھے
عمریں تو کم و بیش، یہ سب گیسوؤں والے
اِک غول میں تھے چاند کئی اور کئی ہالے
ذی مرتبہ سیدانیوں کو گود کے پالے
غنچہ تھا وہ سب، اکبرِؔ گل رو کے حوالے
ان تازہ نہالوں میں نمودار یہی تھے
اس گلشنِ یک رنگ کے مختار یہی تھے
مقتل کو جو پر نور کیا، عسکرِ دیں نے
دیکھا طرفِ چرخ، حقارت سے زمیں نے
اونچا نہ کیا سر فلکِ ماہِ جبیں نے
کی فرش پہ حسرت سے نظر عرشِ بریں نے
اٹھ اٹھ کے چمک اپنی دکھانے لگے ذرے
خورشید کے پہلو کو دبانے لگے ذرے
کھولا جو پھریرے کو علمدار جری نے
لوٹے گلِ فردوس، نسیم سحری نے
تاروں کو اتارا، فلکِ نیلوفری نے
پرچم جو کھلا کھول دیے بال پری نے
عیسی نے پکارا کہ نثار اس کے چشم کے
خورشید نے منہ رکھ دیا پنجے پہ علم کے
ترتیبِ صفِ فوج کا جس دم ہوا اعلام
باندھی علیؔ اکبر نے صفِ لشکرِ اسلام
ظاہر جو ہوئی شانِ جوانانِ گل اندام
کوفے کے نشاں جھک گئے، کانپی سپہِ شام
اللہ رے شوکت شرفا و نجبا کی
اسلام کا لشکر تھا کہ قدرت بھی خدا کی
ناگاہ بجا طبل، بڑھا لشکرِ سفاک
تا چرخ گیا، غلغلۂ کوسِ شغب ناک
فریاد سے قرنا کی ہلا گنبد افلاک
تھرا گیا آوازِ دہل سے کرۂ خاک
نوبت تھی زبس قتلِ امامِ مدنی کی
صاف آتی تھی تاشوں سے صدا سینہ زنی کی
واں شور تھا باجوں کا ادھر نعرۂ تکبیر
ایک ایک جری جھومتا تھا تول کے شمشیر
نگاہ سوئے فوجِ خدا آنے لگے تیر
عباسؔ علمبدار نے دیکھا رخِ شبیر
کی عرض کہ لڑنے کو شریر آتے ہیں مولا
کیا حکم ہے اب پیاسوں پہ تیر آتے ہیں مولا
شہ نے کہا شرم آتی ہے کیا حکم میں دوں آہ
ہفتادِ دو تن یاں ہیں، ادھر سیکڑوں گمراہ
غازی نے یہ کی عرض کہ اے گل کے شہنشاہ
یہ شیر نیستانِ علیؔ ہیں، تو وہ روبارہ
لاکھوں ہیں تو کیا ڈرہے شجاعانِ عرب کو
اقبال سے آقا کے بھگا دیتے ہیں سب کو
فرمایا کہ فاقے سے ہے، سارا مرا لشکر
پانی نہیں ملتا کہ لبِ خشک کریں تر
بہتر ہے اگر پہلے کٹے تن سے مرا سر
غازی نے کہا شیرِ گرسنہ ہیں، یہ صفدر
حملوں سے الٹ دیں گے پرے فوج عدو کے
بھوکے ہیں یہ زخموں کے، پیاسے ہیں لہو کے
حضرت نے کہا خیر! لڑو فوجِ ستم سے
معلوم ہے سب آج جدا ہوویں گے ہم سے
دنیا سے نہ مطلب ہے، نہ کچھ جاہ و حشم سے
کٹ جائے گا اپنا بھی گلا، تیعِ دو دم سے
مقبول ہیں وہ، جو مری امداد کریں گے
اس جنگ کو بھی لوگ، بہت یاد کریں گے
جس دم یہ سنی، قبلۂ کونین کی گفتار
جانباز بڑھے، فوج سے چلنے لگی تلوار
تھے پیاسوں کے حملے غضبِ حضرتِ قہار
چوٹی کے جواں بھاگ گئے پھینک کے تلوار
کون آنکھ ملا سکتا تھا، شیروں سے عرب کے
جب کرتے تھے نعرے قدم اٹھ جاتے تھے سب کے
لڑتا تھا غضب ایک کے بعد ایک وفادار
دن چڑھتا تھا یاں، گرم تھا واں موت کا بازار
سر بیچتے تھے، جنسِ شہادت کے طلبگار
بڑھ بڑھ کے خریدار پہ گرتا تھا خریدار
لیں پہلے، ہم ایک ایک کی جاں اس کی بڑی تھی
عقبیٰ کا جو سودا تھا تو قیمت بھی کڑی تھی
آیا جو عزیزوں کے لئے موت کا پیغام
فرزندوں نے جعفرؔ کے بڑے رن میں کئے کام
اولاد عقیل آ چکی شبیرؔ کے جب کام
لڑنے کو گئے مسلمِ بیکس کے گل اندام
تھا حشر بپا ندیاں بہتی تھیں لہو کی
بچوں نے الٹ دی تھیں صفیں فوجِ عدو کی
لشکر میں تلاطم تھا غضب چلتی تھی تلوار
بیتاب تھے یاں، زینبِ ناشاد کے دلدار
منہ دیکھ کے حضرت کا یہی کہتے تھے ہر بار
ہم جائیں گے بعد ان کے سوئے لشکرِ کفار
جی جائیں جو مولا ہمیں مرنے کی رضا دیں
ایسا نہ ہو قاسمؔ کو حضور اذنِ وِغا دیں
کچھ ان سے کہا چاہتے تھے سرورِ ذی شان
جو غل ہوا مارے گئے مسلمؔ کے دل و جان
لاشے بھی ادھر آ چکے، جب خون میں غلطاں
پھر ہاتھوں کو جوڑا کہ ملے رخصت میداں
شہ نے کہا یہ داغ تو دشوار ہے ہم پر
ان دونوں نے سر رکھ دیے ماموں کے قدم پر
حضرت نے کہا ماں سے بھی ہو آئے ہو رخصت
کیا کہتے ہو لٹوا دوں میں ہمشیر کی دولت
مایہ ہو تمہیں اس کا، تمہیں اس کی بضاعت
چھوٹے نے یہ حضرت سے کہا تھام کے رقت
جھوٹے نہیں ہم، آپ ابھی پوچھ لیں سب سے
اماں تو رضا دے چکی ہیں، مرنے کی شب سے
بچوں نے جو کی جوڑ کے ہاتھوں کو یہ تقریر
ان دونوں کا منہ دیکھ کے رونے لگے شبیرؔ
فرمایا چھڑاتا ہے، تمہیں بھی فلکِ پیر
اچھا میں رضا مند ہوں، جو مرضئِ ہمشیر
وہ سیدۂ پاک نواسی ہے نبی کی
فیاض کی ہمشیر ہے، بیٹی ہے سخی کی
یہ سن کے جھکے آخری تسلیم کو ذی جاہ
خورشید کے آگے مہ نو بن گئے دو ماہ
کی سوئے فلک دیکھ کے شبیرؔ نے اک جاہ
دو شیر چلے گھوڑوں پر چڑھ کر سوئے جنگاہ
ماں ڈیوڑھی سے چلائی کہ رخصت ہو مبارک
سرکارِ شہنشاہ سے، خلعت ہو مبارک
سلطانِ دو عالم نے مخلع کیا واری
تم جاتے ہو یا جاتی ہے دولہا کی سواری
پروان چڑھے، ختم ہوئیں شادیاں ساری
لو دور سے لیتی ہوں بلائیں، تمہاری
صدقے گئی نیزوں کو ہلاتے ہوئے جاؤ
شکلیں مجھے پھر پھر کے دکھاتے ہوئے جاؤ
تسلیم کو گھوڑوں سے جھکے، دونوں وہ گل رو
دل ماں کا یہ امڈا کہ ٹپکنے لگے آنسو
باگیں جو اٹھائیں تو فرس بن گئے، آہو
پھر دیکھنے پائی نہ انہیں زینبِ خوش خو
میداں کی طرف یاس سے ماں رہ گئی تک کر
پنہاں ہوئے بدلی میں ستارے سے چمک کر
میداں میں عجب شان سے وہ شیرِ نر آئے
گویا کہ بہم حیدرؔ و جعفرؔ نظر آئے
غل پر گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسن گرانمایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں، سایہ ہے ان کا
وہ چاند سے منہ، اور وہ گیسوئے معنبر
وہ بدر سے رخسار، زہے قدرتِ داور
سب شان یداللہ کی، سب شوکتِ حیدرؔ
چتون وہی، غصہ وہی، سارے وہی تیور
یہ دبدبہ کس صاحبِ شمشیر نے دیکھا
دیکھا جسے، معلوم ہوا شیر نے دیکھا
تن تن کے جو شان اپنی دکھاتے تھے وہ ذی جاہ
چھاتی سے لگا لیتے تھے دونوں کو ید اللہ
شمشاد سے قامت، نہ دراز اور نہ کوتاہ
کھیلے ہوئے تیغوں میں فنِ جنگ سے آگاہ
ناخن سے دلیروں کے سب اندازِ وِغا تھے
بچے تھے مگر بچۂ ضرغامِ خدا تھے
تھے حسن میں ان دونوں کے آئینہ رو ایک
پیشانی و ابرو و سر و صدر و گلو ایک
شان ایک، شکوہ ایک، جو رنگ ایک، تو بو ایک
دل ایک، جگر ایک، جسد ایک، لہو ایک
اور ان سا کوئی غرب سے تا شرق نہیں ہے
دو ٹکڑے ہیں اک سیب کے، کچھ فرق نہیں ہے
پڑھنے لگے اشعارِ رجز جب وہ دلاور
اللہ ری فصاحت فصحا ہو گئے ششدر
ہر بیت تھی دشمن کے لئے تیغِ دو پیکر
ہر مصرع برجستہ میں تھی تیزئِ خنجر
دے کون جواب ان کا کہ دم بند تھا سب کا
واں قافیہ تھا تنگ شجاعانِ عرب کا
اظہارِ نسب میں جو محمدؔ کا لیا نام
سب پڑھنے لگے صلِ علیٰ صاحبِ اسلام
آگے جو بڑھے نامِ علیؔ کے کے وہ گلفام
دل ہِل گئے تھرانے لگا روم سے تا شام
جعفرؔ کا جو کچھ ذکر کیا بعد علیؔ کے
مجرے کو علم جھک گئے سب فوجِ شقی کے
آغاز تھا ذکرِ شرفِ حضرتِ شبیرؔ
ڈنکے پہ ادھر چوٹ لگی، چلنے لگے تیر
اس وقت بڑے بھائی نے کی چھوٹے سے تقریر
تلوار علم کیجئے اب کس لئے تاخیر
کہتے تو جدا ہو کے ستمگاروں پہ جائیں
اسواروں میں ہم، آپ کمانداروں پہ جائیں
فرمایا بڑے بھائی نے ہنس کر، نہیں بھائی
تم جان ہو، دشوار ہے دم بھر کی جدائی
ہو جاتی ہے اِک آن میں، ہر صف کی صفائی
کر دیتے ہیں سر، کون سی ایسی ہے لڑائی
بازو ہوں قوی، ہاتھ سے گر ہاتھ نہ چھوٹے
سر تن سے اتر جائے، مگر ساتھ نہ چھوٹے
نانا کی طرح، فوج پہ حملے کریں، آؤ
تلواروں میں تن تن کے چلو، برچھیاں کھاؤ
ان چھوٹے سے ہاتھوں کا ہمیں، زور دکھاؤ
ہم سینہ سپر تم پہ ہوں، تم ہم کو بچاؤ
ہم شیروں پہ رستم کا بھی منہ پڑ نہ سکے گا
جب دو ہوئے اک دل تو کوئی لڑ نہ سکے گا
چھوٹے نے کہا جوڑ کے ہاتھوں کو کہ، بہتر
بس کھینچ لئے نیمچے، دونوں نے برابر
دو بجلیاں کوندیں کہ لرزنے لگے لشکر
نیزوں کے نیستاں میںِ در آئے وہ غضنفر
برباد کیا رو میں سواروں کو دبا کے
رہوار بھی اسوار تھے گھوڑوں پہ ہوا کے
ان چھوٹی سی تلواروں کے تھے کاٹ نرالے
تھیں کہنیاں پہونچوں سے جدا، ہاتھوں سے بھالے
مسل اپنی جمائے تھے جو بے مثل رسالے
تھے جائزہ ان سب کا یہی دیکھنے والے
ناز اپنے ہنر پر تھا شجاعان عرب کو
نیزوں کو قلم کر کے ندارد کیا سب کو
موت آئی اُدھر، نیمچے دونوں جدھر آئے
جب ہاتھ بڑھا، پاؤں پہ کٹ کٹ کے سر آئے
گر سینے تک آئے تو، کبھی تا کمر آئے
خالی نہ پھرے، جس پہ گئے، خوں میں بھر آئے
ہر نیمچہ، بجلی تھا ستمگاروں کے حق میں
ڈوبے ہوئے تھے دو مہِ نو، خوں کی شفق میں
اٹھتی تھی نہ ڈر سے کسی خوں خوار کی گردن
سر خود کا جھک جاتا تھا، تلوار کی گردن
دو چار کے منہ کٹ گئے، دو چار کی گردن
اسوار کا سر اڑ گیا، رہوار کی گردن
دو نیمچے بجلی سے گزرتے تھے کمر سے
آدھے ہوئے جاتے تھے لعیں جان کے ڈر سے
دو چھوٹی سی تیغوں سے قیامت نظر آئی
معصوموں کے ہاتھوں سے کرامت نظر آئی
سر کٹنے کی، اعدا کے علامت نظر آئی
لو ہے کی سپر بھی نہ سلامت نظر آئی
بے وجہ نہ پھر جاتے تھے منہ اہلِ جفا کے
دریا کے تھپیڑے تھے، طمانچے تھے قضا کے
گردن سے بڑھے کاٹ کے پیکر نکل آئے
جوشن کو دکھاتے ہوئے جوہر نکل آئے
چار آئینہ میں تیر کے باہر نکل آئے
صابون سے دو تار برابر نکل آئے
محراب کے نیچے کسے جھکتے نہیں دیکھا
مچھلی کو بندھے پانی میں رکتے نہیں دیکھا
ہر غول میں غلطاں و تپاں تھے سرو پیکر
دستانے کہیں تھے، کہیں ڈھالیں، کہیں مغفر
جب نیمچے ان دونوں کے اٹھتے تھے برابر
منہ خوف سے ڈھالوں میں چھپاتے تھے ستم گر
روکے انہیں، طاقت یہ نہ تھی پیر و جواں کی
صورت نظر آنے لگی تیغِ دو زباں کی
غارت تھی وہ صف جس سے وِغا کرکے پھرے وہ
دو ہاتھ میں سو سو کو فنا کرکے پھرے وہ
سرداروں کے سر تن سے جدا کرکے پھرے وہ
ہر غول میں اک حشر بپا کرکے پھرے وہ
غل تھا کہ پرے ٹوٹے ہوئے جم نہیں سکتے
سر کٹنے کی دہشت سے قدم تھم نہیں سکتے
گھوڑے تھے چھلاوا، کبھی یاں تھے کبھی واں تھے
پتلی میں تو پھرتے تھے، پر آنکھوں سے نہاں تھے
یاں تھے جو سبک رو تو ادھر گرم عناں تھے
بجلی تھے کسی جا تو کہیں آبِ رواں تھے
ہو سکتی تھی بجلی سے یہ سرعت نہ ہرن سے
جھونکے تھے ہوا کے کہ نکل جاتے تھے سَن سے
بے آب تھے دو دن سے یہ جاندار تھے گھوڑے
ہر مرتبہ اڑ جانے پہ تیار تھے گھوڑے
اس پار کبھی تھے، کبھی اس پار تھے گھوڑے
نقطہ تھے وہ سب فوج کی پرکار تھے گھوڑے
دس بیس جو مر جاتے تھے ٹاپوں سے کچل کر
بڑھ سکتا نہ تھا اِک بھی احاطہ سے اجل کے
تانے ہوئے سینوں کو جدھر جاتے تھے دونوں
تلواروں کی موجوں سے گزر جاتے تھے، دونوں
ہر غول میں بے خوف و خطر جاتے تھے، دونوں
سب ہوتے تھے پسپا تو ٹھہر جاتے تھے، دونوں
الٹی ہوئی صف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
بھائی کی طرف دیکھ کے ہنس دیتا تھا بھائی
دم لے کے جو گھوڑوں کو اڑاتے تھے وہ جرار
اعدا کے رسالوں کو بھگاتے تھے وہ جرار
شیروں کی طرح فوج پہ جاتے تھے وہ جرار
دو کرتے تھے یکتا، جسے پاتے تھے وہ جرار
شیروں نے جو مارا بھی تو رو داروں کو مارا
جب آنکھ ملی چن کے نموداروں کو مارا
جمعیتِ لشکر کو پریشاں کیا، دم میں
جو فوج کی جاں تھے، انہیں بے جاں کیا دم میں
تلواروں سے جنگل کو، گلستاں کیا دم میں
سر کاٹ کے خونخواروں کو غلطاں کیا دم میں
بے دست تھے علموں کو، جو بے دین لیے تھے
بچوں نے جوانوں کے نشاں چھین لئے تھے
دو لاکھ کو دونوں نے کیا تھا تہ و بالا
تیغ ایک کی چلتی تھی، تو اِک بھائی کا بھالا
اِک بڑھ گیا گر ایک نے گھوڑے کو نکالا
دم اس نے لیا، اس نے لڑائی کو سنبھالا
یک جا فرسِ تیز قدم ہو گئے دونوں
جب بھیڑ بڑھی کچھ تو بہم ہو گئے دونوں
وہ چھیڑ کے تازی کو سواروں میں در آیا
دم بھر میں پیادوں کو پامال کر آیا
جب شیر سا پہونچا وہ ادھر، یہ ادھر آیا
جاں آ گئی بھائی کو جو بھائی نظر آیا
بچ بچ کے نکلتے تھے جو نیزوں کے تلے سے
اِک بھائی لپٹ جاتا تھا بھائی کے گلے سے
کچھ بھائی سے بڑھ کر جو وِغا کرتا تھا بھائی
بچ جانے کی بھائی کے دعا کرتا تھا بھائی
حق بھائی کی الفت کا ادا کرتا تھا بھائی
ہر وار پہ بھائی کی ثنا کرتا تھا بھائی
تم سا نہیں صفدر کوئی واللہ برادر
کیا خوب لڑے سلمک اللہ برادر
کہتا تھا بڑے بھائی سے چھوٹا بصد آداب
بھائی میں بھگا دوں ابھی ان کو، جو ملے آب
اب پیاس کی گرمی سے کلیجے کو نہیں تاب
سینے میں مرا دل نہیں، آتش پہ ہے سیماب
ہم لوگ محق کیا نہیں اس آبِ رواں کے
تالو میں خلش ہوتی ہے کانٹوں سے زباں کے
کہتا تھا بڑا بھائی میں صدقے ترے گلفام
ہم خشک زبانوں کو، بھلا پانی سے کیا کام
اب جلد اجل آئے تو کوثر کا پئیں جام
غش ہم کو بھی آ جائے گا، پانی کا نہ لو نام
آنکھیں تو ستمگاروں کی تیغوں سے لڑی ہیں
چپکے رہو اماں درِ خیمہ پہ کھڑی ہیں
اس نہر کا لینا تو کچھ ایسا نہیں مشکل
روکیں ہمیں کیا تاب لعینوں کی ہے، کیا دل
پل باندھ لیں لاشوں کے ابھی ہم سرِ ساحل
بتلایئے، پھر نہر کے لے لینے سے حاصل
دیکھو نہ ادھر پیاس سے گو لاکھ تعب ہے
اماں ہمیں گر دودھ نہ بخشیں تو غضب ہے
اشک آنکھوں میں بھر کر، کہا چھوٹے نے بہت خوب
ہر دم ہے رضامندئ مادر ہمیں مطلوب
ایسے تو نہیں ہم کہ بزرگوں سے ہوں محجوب
منظور یہ تھا فخر کا، نکلے کوئی اسلوب
دریا کو بھی دیکھیں گے نہ اب آنکھ اٹھا کے
پیتے بھی تو پہلے شہِ والا کو پلا کے
جعفرؔ کے جو پوتے ہیں، تو حیدرؔ کے نواسے
کچھ ہم علیؔ اکبر سے زیادہ نہیں پیاسے
یہ کہتے ہی لڑنے لگے، پھر اہلِ جفا سے
فریاد کہ بچوں پہ گری فوج قفا سے
خوں سر کا بہا منہ پہ تو گھبرا گئے دونوں
دو لاکھ کی تیغوں کے تلے آ گئے دونوں
ڈوبے ہوئے تھے شام کے بادل میں وہ دو ماہ
پردے سے کھڑی تکتی تھی، زینبؔ سوئے جنگاہ
عباسؔ سے کہتے تھے تڑپ کر شہِ ذی جاہ
اب مجھ سے جدا ہوتے ہیں دو شیر مرے آہ
کیوں کر متحمل ہو دل اس رنج و محن کا
گھر لٹتا ہے بھائی مری نادار بہن کا
اس بی بی کے فاقوں کے ہیں پالے ہوئے یہ لال
دولت ہے یہی، اور یہی حشمت و اقبال
سات آٹھ برس کے ہیں ابھی کیا ہے سن و سال
سب ہاتھ ملیں گے جو یہ گل ہو گئے پامال
تازہ یہی دو پھول ہیں جعفرؔ کے چمن میں
مر جائے گا باپ ان کی خبر سن کے وطن میں
رو کر دمِ رخصت وہ یہی کہتے تھے ہر بار
میں شاہ کا خادم ہوں، یہ دونوں ہیں نمک خوار
آگاہ صعوباتِ سفر سے نہیں زنہار
اے دخترِ زہرا مرے بیٹوں سے خبردار
میں رکھ نہیں سکتا ہوں کہ ماموں پہ فدا ہیں
اب تو یہی دونوں مرے پیری کے عصا ہیں
شوہر کا تڑپنا اسے کچھ بھی نہ رہا یاد
ہے ہے مری الفت میں لٹی زینبؔ ناشاد
یوں بھائی پہ صدقے کوئی کرتا نہیں اولاد
ہم دیکھتے ہیں اور بہن ہوتی ہے برباد
روئے گی وہ بیٹوں کو تو سمجھائیں گے کیوں کر
منہ زینبِؔ دلگیر کو دکھلائیں گے کیوں کر
عباسؔ نے کی عرض، کلیجہ ہے دو پارا
ان کو تو کسی کی نہیں، امداد گوارا
زخمی ہوئے، نہ مجھ کو نہ اکبرؔ کو پکارا
جائے یہ غلام آپ جو فرمائیں اِشارا
حضرت کی قسم دے کے میں سمجھاؤں گا ان کو
مچلیں گے تو گودی میں اٹھا لاؤں گا ان کو
حضرت نے کہا صاحبِ غیرت ہیں، وہ دونوں
لختِ جگر شاہِ ولایت ہیں وہ دونوں
ضرغامِ نیستانِ شجاعت ہیں، وہ دونوں
واللہ بڑے صاحبِ ہمت ہیں وہ ددنوں
دو لاکھ تو کیا ہیں جو کروروں میں گھریں گے
بے جان دیے، وہ نہ پھرے ہیں نہ پھریں گے
بڑھنے لگے میداں کی طرف قاسمِ ذی جاہ
اکبرؔ نے یہ کی عرض کہ میں جاتا ہوں یا شاہ
ہے دونوں کی فرقت کا، مجھے صدمۂ جانکاہ
لاکھوں میں ہیں تنہا پھوپھی اماں کے پسر، آہ
ریتی پہ کہیں گر نہ پڑیں برچھیاں کھا کر
میں ساتھ انہیں لے آتا ہوں اعدا کو بھگا کر
گھبرا کے درِ خیمہ سے زینبؔ یہ پکاری
سر ننگے میں نکلوں گی، جو تم جاؤ گے واری
اولاد مجھے تم سے زیادہ نہیں پیاری
بتلاؤ کہ میں ان کی ہوں عاشق کہ تمہاری
میداں کی طرف قاسمِؔ بے پر بھی نہ جائیں
تلواروں میں عباسِؔ دلاور بھی نہ جائیں
زہراؔ کی قسم کچھ نہیں بیٹوں کا مجھے دھیان
بھائی پہ تصدق ہوں، یہی تھا مجھے ارمان
وہ آئے تو وسواس سے دل ہوگا پریشان
صدقے کو نہیں پھیر کے لاتے ہیں، میں قربان
خود روؤں گی پر شاہ کو غم کھانے نہ دوں گی
لاشے بھی آٹھانے کیلئے جانے نہ دوں گی
میداں میں ہے کیا اور بجز نیزۂ و شمشیر
مر جاؤں گی زخمی ہوئے گر قاسمؔ دلگیر
دل کس کا چھدے، تم کو لگائے جو کوئی تیر
سمجھاؤ میں صدقے گئی کیوں روتے ہیں شبیرؔ
باقی ہے اگر زیست تو پھر آئیں گے دونوں
غم کس لئے، کیا ہو گا، جو مر جائیں گے دونوں
شہزادوں کو کھوتے ہیں، غلاموں کے لئے آہ
میں جوڑتی ہوں ہاتھ بس اب روئیں نہ للّٰلہ
ہے شرم کی کیا وجہ، میں لونڈی، وہ شہنشاہ
سو ایسے ہوں بیٹے تو نثارِ شہِ ذی جاہ
ممتاز ہے، فدیہ ہے جو زہراؔ کے پسر کا
شان اس کی بڑھے فخر ہو جو جد و پدر کا
باپ ان کا اگر ہوتا تو وہ سر نہ کٹاتا
زہراؔ کے کلیجے کے عوض، برچھیاں کھاتا
بیٹوں کو یوں ہی میری طرح نذر کو لاتا
اپنے کوئی محسن کو نہیں دل سے بھلاتا
جو پاس ہے جس کے وہ عطائے شہِ دیں ہے
کہہ دے مرے ماں جائے کہ حق کس پہ نہیں ہے
بیٹوں سے ہوئی گر تو ہوئی، آج جدائی
سر پر مرے دنیا میں، سلامت رہیں بھائی
اِک دولتِ اولاد، لٹائی تو لٹائی
کیا لٹ گیا وہ کون سی ایسی تھی کمائی
کیوں روؤں میں دنیا میں جو دلبند نہیں ہیں
کیا اکبرؔ و اصغرؔ مرے فرزند نہیں ہیں
یہ ذکر ابھی تھا کہ ستمگار پکارے
لو شاہ کی ہمشیر کے بیٹے گئے مارے
ٹکڑے کیا معصوموں کو تلواروں کے مارے
وہ لوٹتے ہیں خاک پہ، دو عرش کے تارے
پامالی کو ان دونوں کی اسوار بڑھیں گے
بچوں کے سر اب کٹ کے نشانوں پہ چڑھیں گے
یہ سنتے ہی تھرانے لگے حضرتِ عباسؔ
گھبرا کے اٹھے خاک سے شبیرؔ بصد یاس
سر کھولے ہوئے بیبیاں، ڈیوڑھی کے جو تھیں پاس
سب نے کہا لو شہ کی بہن ہو گئی بے آس
ٹوٹا ہے فلک، بنتِ شہنشاہِ نجف پر
زینبؔ کو چلو لے کے بس اب ماتمی صف پر
ہے ہے کا جو اک شور ہوا، رانڈوں میں برپا
زینبؔ بھی ہٹی، چھوڑ کے دروازے کا پردا
چلائی ارے چپکے رہو، غل ہے یہ کیسا
بھائی ہیں سلامت، مجھے کیوں دیتے ہو پرسا
ہے ہے نہ کرو صاحبو، گھبرائیں گے شبیرؔ
پھر کون ہے زینبؔ کا جو مرجائیں گے شبیرؔ
تم روتے ہو کس واسطے میں تو
- meer-anees
1
جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
فوجِ خدا پہ سایۂ ابرِ کرم ہوا
چرخ زبر جدی پے تسلیم خم ہوا
پنجے پہ سات بار تصدق حشم ہوا
دیکھا نہ تھا کبھی جو علم اس نمود کا
دونوں طرف کی فوج میں غل تھا درود کا
2
وہ شان اس قلم کی وہ عباس کا جلال
نخلِ زمردی کے تلے تھا علی کا لال
پرچم پہ جان دیتی تھیں پریوں کا تھا یہ حال
غل تھا کہ دوشِ حور پہ بکھرے ہوئے ہیں بال
ہر لہر آبدار تھی کوثر کی موج سے
طوبیٰ بھی دب گیا تھا پھریرے کی اوج سے
3
تھا پنجتن کا نور جو پنجے میں جلوہ گر
اعمیٰ کی پتلیوں میں بھی تھا روشنی کا گھر
ذرے نثار کرتے تھے اٹھ اٹھ کے اپنا زر
تکتے تھے فوق سے تو ملک تخت سے بشر
اللہ ری چمک علمِ بوتراب کی
تارِ نظر بنی تھی کرن آفتاب کی
4
قربان احتشام علمدار نام ور
رخ پر جلالت شہ مرداں تھی سر بسر
چہرہ تو آفتاب سا اور شیر کی نظر
قبضے میں تیغ بر میں زرہ دوش پر سپر
چھایا تھا رعب لشکرِ ابنِ زیادؔ پر
غل تھا چڑھے ہیں شیر الٰہی جہاد پر
5
وہ اوج وہ جلال وہ اقبال وہ حشم
وہ نور وہ شکوہ وہ توقیر وہ کرم
پنجے کی وہ چمک وہ سر افرازیِ علم
گرتی تی برق فوجِ مخالف پہ دم بہ دم
کیا رفعتِ نشانِ سعادت نشان تھی
سائے میں جس نشان کے طوبیٰ کی شان تھی
6
پنجہ اٹھا کے ہاتھ یہ کہتا تھا بار بار
عالم میں پنجتن کی بزرگی ہے آشکار
یہ شش جہت انہیں کے قدم سے ہے برقرار
کیوں ہفتہ دوست ہوتےہو اے قوم نابکار
آٹھوں بہشت ملتے ہیں مولا کے نام سے
بیعت کرو حسین علیہ السلام سے
7
غرفوں سے جھانک جھانک کے بولی ہر ایک حور
صلِ علیٰ علم کی چمک ہے کہ برق طور
یارب رہے نگاہ بد اس کی ضیا سے دور
پنجہ ہے یہ کہ ایک جگہ پنجتن کا نور
جلوے ہیں سب محمد و حیدر کی شان کے
قربان اس جواں کے نثار اس نشان کے
8
آگے کبھی نہ دیکھی تھی اس حسن کی سپاہ
دنیا بھی خوبیوں کا مرقع ہے واہ واہ
دیکھیں کسے کسے کہ ہے ایک ایک رشکِ ماہ
جاتی ہے جس کے رخ پہ تو پھرتی نہیں نگاہ
دیکھو انہیں دموں سے ہے رونق زمین کو
چن کر حسین لائے ہیں کس کس حسین کو
9
شہرہ بہت تھا حسن میں کنعاں کے ماہ کا
قصہ سنا ہوا ہے زلیخا کی چاہ کا
یاں آفتاب کو نہیں یارا نگاہ کا
یوسف ہے ایک ایک جواں اس سپاہ کا
سنتے تھے ہم کہ عالمِ ایجادِ زشت ہے
ایسے چمن کھلے ہیں کہ دنیا بہشت ہے
10
ہم شکل مصطفیٰ کا ہے کیا حسن کیا جمال
صبحِ جبیں بھی اور شبِ گیسو بھی بے مثال
یہ لب یہ خط یہ چشم یہ ابرو یہ رخ یہ خال
یاقوت و مشک و نرگس و نجم و مہ و ہلال
اک گل پہ یاں ہزار طرح کی بہار ہے
چہرہ نہ کہیے قدرتِ پروردگار ہے
11
لخت دلِ حسن بھی ہے کس مرتبہ حسیں
جس کے چراغ حسن سے روشن ہے سب زمیں
یہ زلف مشک بیز یہ آئینہ جبیں
سرمایۂ خطا و ختن کائنات چیں
رخ کی بلائیں لیتی ہیں پریاں کھڑی ہوئی
سہرے کی ہر لڑی سے ہیں آنکھیں لڑی ہوئی
12
نامِ خدا میں عون و محمد بھی کیا شکیل
اک مہرے بے نظیر ہے اک بدرِ بے عدیل
افروختہ ہیں رخ یہ شجاعت کی ہے دلیل
ہمت بڑی ہے گو کہ ہیں عمریں ابھی قلیل
مثلِ علی ہیں جنگ و جدل پر تلے ہوئے
دونوں کے نیمچوں کے ہیں ڈورے کھلے ہوئے
13
عباس نام ور بھی عجب سج کا ہے جوان
نازاں ہے جس کے دوشِ منور پہ خود نشان
حمزہ کا رعب صولت جفرؔ علی کی شان
ہاشم کا دل حسین کا بازو ، حسن کی جان
کیوں کر نہ عشق ہو شہ گردوں جناب کو
حاصل ہیں سیکڑوں شرف اس آفتاب کو
14
اس مہر کو تو دیکھو یہ ذرے ہیں جس کے سب
سرتاج آسمان و زمیں نورِ عرش رب
ابرِ کرم خدیو عجم خسرو عرب
عالی ہمم امامِ امم شاہِ تشنہ لب
جنباں زبانِ خشک ہے ذکر الٰہ میں
گویا کھڑے ہیں ختم رسل رزمگاہ میں
15
کیا فوج تھی حسین کی اس فوج کے نثار
ایک ایک آبروئے عرب فخرِ روزگار
جرار و دیں پناہ نمودار نامدار
لڑکوں میں سبزہ رنگ کوئی کوئی گل عذار
فوجیں کوئی سماتی تھیں ان کی نگاہ میں
وہ سب پلے تھے بیشہ شیر الہٰ میں
16
ایک ایک ملک جرأت و ہمت کا بادشاہ
کیواں خدم سپہر حشم عرشِ بارگاہ
آنکھیں غزالِ رشک مگر شیر کی نگاہ
وہ رعب چتونوں میں کہ اللہ کی پناہ
دیکھا تو دل کو توڑ کے برچھی نکل گئی
ابرو ذرا جو ہل گئے تلوار چل گئی
17
وہ اشتیاقِ جنگ میں لڑکوں کے ولولے
بے تاب تھے کہ دیکھیے تلوار کب چلے
چہرے وہ آفتاب سے وہ چاند سے گلے
سب فاطمہ کی بیٹیوں کی گود کے پلے
اک اک رسولِ حق کی لحد کا چراغ تھا
جس پر علی نے کی تھی ریاضت وہ باغ تھا
18
اکبر سے عرض کرتے تھے سینہ سپر کیے
یہ نیمچے نہ لیویں گے دم بے لہو پییے
گر آج مر گئے تو قیامت تلک جیے
صدقے ہوں اس قدم پہ یہ سر ہیں اسی لیے
آقا کے آگے لطف ہے تیغ آزمائی کا
آج آپ دیکھیے گا تماشا لڑائی کا
19
بچپن پہ خادمانِ او لوالعزم کے نہ جائیں
جب چاہیں معرکے میں ہمیں آپ آزمائیں
تن تن کے روکیں برچھیاں ہنس ہنس کے زخم کھائیں
بجلی گر ےتو منہ پہ جھجک کر سپر نہ لائیں
جھپکے پلک کسی سے تو آنکھیں نکالیے
بڑھ کر ہٹیں جو پانوں تو سر کاٹ ڈالیے
20
کہتے تھے مسکرا کے یہ زینب کے دونوں لال
کھلتے ہیں خود دلیروں کے جوہر دمِ جدال
ہر وقت چاہیے مددِ شیر ذو الجلال
نعرے ابھی کریں تو ہلے عرصۂ قتال
اتری ہے تیغ جن کے لیے وہ دلیر ہیں
ہم سب کو جانتے ہیں کہ شیروں کے شیر ہیں
21
یہ چہچہے جو کرتے تھے باہم وہ گلعذار
شپیر دیکھتے تھے کنکھیوں سے بار بار
پاس آ کے عرض کرتے تھے عباسِ نامدار
سنتے ہیں آپ کہتے ہٰن جو کچھ یہ جاں نثار
جرأت ٹپک رہی ہے ہر اک کے کلام سے
یہ نیمچے رکیں گے بھلا فوجِ شام سے
22
یہ سن یہ زور شور یہ عمریں یہ آن بان
یہ بھولے بھولے منہ پہ جواں مرد یا ں یہ شان
باتیں رجز سے کم نہیں اللہ رے خوش بیان
چلتی ہے ذوالفقار علی کی طرح زبان
کس دبدبے سے کاندھوں پہ نیزے سنبھالے ہیں
گویا چلن لڑائی کا سب دیکھے بھالے ہیں
23
زینب کے لاڈلوں کی طرف دیکھیے حضور
مثلِ عرق ٹپکتا ہے پیشانیوں سے نور
رخ پر جلال شیر خدا کا ہے سب ظہور
پر تو گلوں کا ہے کہ چمکتی ہے برقِ طور
دونوں میں صاف حیدر و جعفر کے طور ہیں
اللہ کی پناہ یہ تیوری ہی اور ہیں
24
یہ ذکر تھا کہ بجنے لگا طبل اس طرف
مشکل کشائی کی فوج نے باندھی ادھر بھی صف
تیروں نے رخ کیا سوئے ابنِ شہ نجف
سینوں کو غازیوں نے ادھر کر دیا ہدف
تھا بسکہ شوقِ جنگ ہر اک رشکِ ماہ کو
جوش آ گیا وغا کا حسینی سپاہ کو
25
غصے سے آفتاب ہوئے مہ وشوں کے رنگ
فوجوں پہ جا پڑیں یہ دلوں کی ہوئی امنگ
تن تن کے برچھیاں جو سنبھالیں برائے جنگ
بے چین ہو گئے فرسِ ابلق و سرنگ
پاسِ ادب سے شاہ کے صف بڑھ کے تھم گئی
پٹری ہر اک سوار کی گھوڑے پہ جم گئی
26
تنتا ہوا بڑھا کوئی قبضے کو چوم کے
بھالا کسی نے رکھ لیا کاندھے پہ جھوم کے
بولا کوئی یہ غول ہیں کیا شام و روم کے
ٹکڑے اڑائیں گے عمر و شمر شوم کے
نامرد ہیں جو آنکھ چراتے ہیں مرد سے
دونوں کو چار کر کے پھریں گے نبرد سے
27
دو لاکھ سے نظر کسی غازی کی لڑ گئی
بل کھا کے رخ پہ زلف کسی کی اکڑ گئی
چتون کسی کی شورِ دہل سے بگڑ گئی
منہ سرخ ہو گیا شکن آبرو پہ پڑ گئی
نکلا کوئی سمند کو رانوں میں داب کے
غصے سے رہ گیا کوئی ہونٹوں کو چاب کے
28
بڑھ کر کسی نے تیر ملایا کمان سے
نیزہ کوئی ہلانے لگا آن بان سے
نعرہ کسی کا پار ہوا آسمان سے
تلوار کھینچ لی کسی صفدر نے میان سے
ایک شور تھا کہ تلخ کیا ہے حیات کو
لاشوں سے چل کے پاٹ دو نہرِ فرات کو
29
سنتے ہی یہ کلام جو انانِ نام ور
لڑکے الگ کھڑے ہوئے غول اپنا باندھ کر
کہتے تھے نیمچے لیے وہ غیرتِ قمر
یارب شکست کوفیوں کو دے ہمیں ظفر
سر کے نہ پھر وغا میں جو بڑھ کے قدم گڑے
جاکر درِ یزید پہ اپنا علم گڑے
30
عباس شہ سے کہتے تھے بپھرے ہوئے ہیں شیر
تیر اس طرف سے آ چکے اب کس لیے ہے دیر
دو دن کی بھوک پیاس میں ہیں زندگی سے سیر
مولا غلام سے کہیں رکنے کے یہ دلیر
پاسِ ادب سے غیظ کو ٹالے ہوئے ہیں یہ
شیر خدا کی گود کے پالے ہوئے ہیں یہ
31
کس کو ہٹائے کس کو سنبھالے یہ جاں نثار
مرنے پہ ایک دل ہیں بہتر وفا شعار
ہے مصلحت کو دیجیے اب اذن کار زار
ایسا نہ ہو کہ جا پڑیں شکر پہ ایک بار
برہم ہیں سر کشی پہ سوارانِ شام کی
اکبر کی بات مانتے ہیں نہ غلام کی
32
جب روکتا ہوں میں انہیں اے آسماں سریر
کہتے ہیں کیوں امام کی جانب لگائے تیر
باندھے ہے سر کشی پہ کمر لشکرِ شریر
ہنگام جنگ شیر کے بچے ہوں گوشہ گیر
کس قہر کی نظر سے لعینوں کو تکتے ہیں
بچوں کو ہے یہ غیظ کہ آنسو ٹپکتے ہیں
33
اک اک جری کو تشنہ جرأت کا جوش ہے
عالم ہے بے خودی کا پہ مرنے کا ہوش ہے
ہر صف میں یا علی ولی کا خروش ہے
کہتے ہیں بار بار کہ سر بارِ دوش ہے
مشتاق ہیں وہ پیاس میں تیغوں کے گھاٹ کے
ڈر ہے کہ مر نہ جائیں گلے کاٹ کاٹ کے
34
حسرت سے کی سوئے رفقا شاہ نے نظر
بولے حبیب نذر کو حاضر ہیں سب کے سر
فرمایا شہ نے ہم بھی ہیں آمادۂ سفر
اچھا بڑھے جہاد کو ایک ایک نام ور
یہ راہِ حق ہے جو قدم آگے بڑھائے گا
دربارِ مصطفی میں وہی پہلے جائے گا
35
مژدہ یہ سن کے شاد ہوئے غازیانِ دیں
اک اک دلیر جانے لگا سوئے فوج کیں
جب نعرہ زن ہوئے صفتِ شیر خشمگیں
تھرائے آسماں کے طبق ہل گئی زمیں
برپا تھا شورِ حشر دلیروں کی حرب سے
فوجیں تو کیا جہاں تہہ و بالا تھا ضرب سے
36
اللہ رے جہاد حبیب و زہیرقین
گویا بپا تھا معرکۂ خندق و حنین
جب مر گئے وہ عاشقِ سلطان مشرقین
مقتل میں پیٹتے ہوئے دوڑے گئے حسین
یوں جاکے روئے ان کے تنِ پاش پاش پر
جس طرح بھائی روتا ہے بھائی کی لاش پر
37
خالی ہوا قدیم رفیقوں کا جب پرا
کانپا سپہر شہ نے دمِ سردیوں بھرا
کٹنے لگا عزیزوں کا بھی جب چمن ہرا
گہ روئے آپ ہاتھ جگر پر کبھی دھرا
لڑکے جو یک بہ یک کئی ہاتھوں سے کھو گئے
ٹکڑے حسن کی طرح کلیجے کے ہو گئے
38
تھی قہر حق عقیل کے پوتوں کی کارزار
شمشیر حیدری کا نمونہ تھے جن کے وار
عزت عرب کی رکھ گئے جعفر کے یادگار
تھے تین چار شیر کہ جھپٹے سوئے شکار
فتح و ظفر تھی مثلِ علی اختیار میں
پنجے میں تھا وہی جسے تاکا ہزار میں
39
نکلے برادران علمدارِ صف شکن
دکھلا دیے علی کی لڑائی کے سب چلن
بے سر تھے مورچوں میں جوانانِ پیل تن
لاشوں پہ لاشیں گرتی تھیں پڑتا تھارن پہ رن
آنکھوں میں پھر رہی تھی چمک زوالفقار کی
عباس داد دیتے تھے ایک ایک دار کی
40
تھا چھوٹے بھائیوں کے لیے مضطرب جو دل
گہ شہ کے پاس تھے کبھی لشکر کے متصل
نعرہ یہ تھا کہ شیر ہے ماں کا تمہیں بحل
شیرو رکے نہ ہاتھ بدن گو ہے مضمحل
یہ وقتِ آبرو ہے بڑی جد و کد کرو
ہاں بھائیو امام کی اپنے مدد کرو
41
الٹو پروں کو بڑھ کے صفوں کو بچھا کے آؤ
ساحل کے پاس خون کا دریا بہا کے آؤ
جب باگ اٹھاؤ فوج کے اس پار جا کے آؤ
یا مر کے آؤ یا انہیں رن سے بھگا کے آؤ
ہاں صفدر و نشاں نہ رہے فوجِ شام کا
بیٹوں کو پاس چاہیے بابا کے نام کا
42
رہ کر حسین کہتے تھے بھائی سے دم بہ دم
دولت پدر کی لٹتی ہے اور دیکھتے ہیں ہم
جینے نہ دے گا آہ ہمیں بھایئوں کا غم
عباس عرض کرتے تھے اے قبلۂ امم
اب باپ کی جگہ شہ عالی مقام ہیں
صدقے نہ کس طرح ہوں کہ ہم سب غلام ہیں
43
بے جاں ہوئے جو راہِ خدا میں دو شیرِ نر
حضرت ضعیف ہو گئے خم ہو گئی کمر
ماتم میں تھے کہ موت نے لوٹا حسن کاگھر
اک دم میں قتل ہو گئے دونوں جواں پسر
سب چل بسے نبی و علی پاس رہ گئے
ستر دو تن میں اکبر و عباس رہ گئے
44
آیا نظر جو لاشۂ نوشاہِ نیک خو
اکبر کی چشمِ تر سے ٹپکنے لگا لہو
کی غیظ کی نظر طربِ لشکرِ عدو
پہلے سے آئے روتے ہوئے شہ کے روبرو
نکلی یہ بات جوشِ بکا میں زبان سے
قاسم کے ساتھ جائیں گے ہم بھی جہان سے
45
بچپن سے ہم سے یہ نہ ہوئے تھے کبھی جدا
سوئے تو ایک فرش یہ کھیلے تو ایک جا
طفلی کا ساتھ چھوٹ گیا وامصیبتا
مرجائے ایسا بھائی تو جینے کا لطف کیا
حسرت یہ ہے کہ تیغوں سے تن پاش پاش ہو
پہلو میں ابنِ عم کے ہماری بھی لاش ہو
46
شہ نے کہا کہ سچ ہے یہ ایسا ہی ہے الم
خالق جہاں میں بھائی کا بھائی کو دے نہ غم
بازو کا ٹوٹنا اجل آنے سے کیا ہے کم
مر مر کے غم میں بھائی حسن کے جیے ہیں ہم
تازہ تھا غم پدر کا خوشی دل سے فوت تھی
عباسِ نامدار نہ ہوتے تو موت تھی
47
بھائی کے بعد ان سے ملی لذتِ حیات
بے کس کے غم گسار تھے یہ یا خدا کی ذات
خالی نہ پائی مہرو مروت سے کوئی بات
سویا جو میں تو ان کو کٹی جاگنے میں رات
صدمے بھلائے دل سے حسن کی جدائی کے
رونے نہیں دیا مجھے ماتم میں بھائی کے
48
ہے ان کے اتحاد کا سب سے جدا مزا
بیٹے کا لطف بھائی کاحظ باپ کا مزا
ملتا ہے بات بات میں ہر دم نیا مزا
اوجھل یہ آنکھ سے ہوں تو جینے کا کیا مزا
قائم رکھے خدا کہ علی کے نشان ہیں
مالک یہی ہیں گھر کے یہی تن کی جان ہیں
49
قوت جگر کی تم ہو تو یہ بازوؤں کا زور
بچھڑا جو دو میں ایک تو پھر میں کنار گور
ہوتا ہے زخمِ دل پہ نمک آنسوؤں کا شور
جب پتلیاں جدا ہوں تو چشمِ بشر ہے کور
تم پہلوؤں میں تھے جو یہ بے کس سنبھل گیا
پھر خاتمہ ہے جسم سے جب دم نکل گیا
50
ان سے نشان علی کا ہے تم سے ہمارا نام
گھر ہٹ گیا نبی کا جو دونوں ہوئے تمام
میت کے دفن کا بھی مقدم ہے انتظام
مرنے کے بعد کوئی توآئے ہمارے کام
تربت پہ تم سے گل ہوں تو دل باغ باغ ہو
اندھیر ہے جو قبر پدر بے چراغ ہو
51
کیجو نہ ذکر ہجر پہ صدمہ ہے دل خراش
بہرِ پدر کرو کفن و گور کی تلاش
ہوگا یہ جسم ظلم کی تیغوں سے پاش پاش
دو شخص چاہیے کہ اٹھائیں ہماری لاش
رونے کوکوئی دوست نہ یارو سرہانے ہو
فرزند پائینتی ہو برادر سرہانے ہو
52
اکبر نے سن کے باپ سے یہ اشکِ خوں بہائے
عباس بول اٹھے نہ خدا وہ گھڑی دکھائے
ہے زندگی یہی کہ ہمیں پہلے موت آئے
خاک اس غلام پر کہ جو آقا کی لاش اٹھائے
دستِ قوی ہیں نیزہ وصمصام کے لیے
پائیں ہیں کیا یہ ہاتھ اسی کام کے لیے
53
بس گر پڑا یہ کہہ کے قدم پر وہ باوفا
جھک کر کہا حسین نے بھائی یہ کیا کیا
قاسم کا ذکر کرتے تھے ہم شکلِ مصطفی
باتیں تو ان سے تھٰں تمہیں کیوں غیظ آ گیا
ہم تم تو ساتھ گلشنِ ہستی سے جائیں گے
اچھا ہماری لاش کو اکبر اٹھائیں گے
54
اٹھے قدم سے آپ کی الفت کے میں نثار
غصے میں بھول جاتے ہو بھیا ہمارا پیار
آنکھیں قدم پر مل کے یہ بولا وہ نام دار
بے اذن جنگ سر نہ اٹھائیں گا خاکسار
ایسا نہ ہوں خجل ہوں رسالت مآب سے
پہلے مروں گا اکبرِ عالی جناب سے
55
صدقہ علی کی روح کا اکبر کو رو کیے
دے کر قسم شبیہ پیمبر کو روکیے
نورِ نگاہِ بانوئے بے پر کو روکیے
اے آفتابِ دیں مہِ انور کو روکیے
پہلے رضا ملے تو بہت نیک نام ہوں
آقا یہ شاہزادہ ہے اور میں غلام ہوں
56
شہ نے کہا کہ سر تو قدم سے اٹھائیے
لیجے رضائے جنگ نہ آنسو بہائیے
فرقت میں ہم مریں کہ جئیں خیر جائیے
اپنی سکینۂ جان سے جاکر مل آئیے
زوجہ کو پیٹتے ہوئے سر دیکھ لیجیے
بچوں کو اور ایک نظر دیکھ لیجیے
57
عباس شہ کے گرد پھرے آٹھ کے سات بار
بھائی کو گھر میں لے کےچلے شاہِ ذی وقار
بولا یہ پیک شاطر فوجِ ستم شعار
لو اذن جنگ پا چکے عباس نام دار
خود دیکھ کر یہ حال پھرا ہوں میں راہ سے
ملنے گئے ہیں خیمے میں ناموسِ شاہ سے
58
تھے آگے آگے ہاتھوں سے تھامے کمر امام
نعرہ یہ دم بہ دم تھا کہ اب ہم ہوئے تمام
تیغوں سے گھاٹ روک لو آیا وہ نیک نام
اب معرکہ ہے قبر کا اے ساکنانِ شام
دیکھو بچے رہو کہ لڑائی ہے شیر سے
چھوٹے گی مشکلوں میں ترائی دلیر سے
59
دل مل گئے سپاہ کے سنتے ہی یہ خبر
کانپے مثالِ بید جو انانِ پر جگر
ہل چل میں اس طرف کے پرے ہو گئے ادھر
ساحل سے ہٹ کے نہر پکاری کہ الحذر
پیچھے ہٹیں صفیں یہ تلاطم عیاں ہوا
دریا جو باڑھ پر تھا وہ الٹا رواں ہوا
60
ٹوٹے وہ مورچے جو بندھے تھے پۓ جدال
برچھی گری زمیں پہ کسی کی کسی کی ڈھال
اللہ ری ہیبتِ خلفِ شیر ذوالجلال
کانپی زمیں کھڑے ہوئے روئیں تنوں کے بال
منہ زرد ہو کے رہ گیا ہر نوجوان کا
دشتِ نبرد کھیت بنا زعفران کا
61
تھا شش جہت میں غل کہ یہ ہے روزِ انقلاب
الٹے گا اس زمیں کا ورق ابنِ بوتراب
اس شیر پر نہ ہوگی کوئی فوج فتح یاب
بس اب بنائے عالمِ امکاں ہوئی خراب
حملہ غضب ہے بازوئے شاہِ حجاز کا
لنگر نہ ٹو جائے زمیں کے جہاز کا
62
ڈر ہے ہوا تھی ایک طرف گرد اک طرف
بھرتے تھے خیبری بھی دمِ سرد اک طرف
سمٹے ہوئے تھے کوفے کے نامرد اک طرف
تھے رو سیاہ شام کے سب زرد اکطرف
بھاگے تھے نیزہ باز لڑائی کو چھوڑ کے
ضیغم نکل گئے تھے ترائی کو چھوڑ کے
63
تھی ابتری سپاہِ ضلالت شعار میں
اس صف میں تھی وہ صف یہ قطار اس قطار میں
سو بار جو لڑے تھے اکیلے ہزار میں
وہ جائے امن ڈھونڈھتے تھے کارزار میں
چہرے تھے زرد خوف سے حیدر کے لال کے
نامرد منہ چھپائے تھے گھونگھٹ میں ڈھال کے
64
سر کو دہائے فوجِ مخالف تھے بے حواس
کچھ شمر کے قریب تھے کچھ تھے عمرکے پاس
سب کا یہ قول تھا کہ ہوئی زندگی سے یاس
ضرب علی ہے ضربِ علمدارِ حق شناس
طاقت سے ہیں بھرے ہوئے بازو دلیر کے
خیبر کشا کا زور ہے پنجے میں شیر کے
65
اس فوج میں ہے گو یہ تزلزل یہ انتشار
ہتھیار ادھر لگاتے ہیں عباسِ نامدار
مضطر ہیں بیبیاں شہِ والا ہیں بے قرار
بھائی کے منہ کو دیکھ کے روتے ہیں زار زار
بیٹا کھڑا ہے چاک گریباں کیے ہوئے
روتی ہے سوکھی مشک سکینہ لیے ہوئے
66
منہ دیکھتی ہے باپ کا جب وہ بہ چشم تر
کہتے ہیں یہ اشارے سے سلطانِ بحر و بر
لٹتا ہے باپ تم کو سکینہ نہیں خبر
جانے نہ دو چچا کو ہمیں چاہتی ہو گر
آنسو بہا بہا کے نہ پانی کا نام لو
دامن قبا کا ننھے سے ہاتھوں سے تھام لو
67
بھائی کے اضطراب سے زینب کا ہے یہ حال
ڈھلکی ہوئی ہے سر سے روا اور کھلے ہیں بال
عباس سے یہ کہتی ہے رو کر بہ صد ملال
چھوڑو نہ شہ کو اے اسدِ کربیا کے لال
کیا کہتے ہو سکینہ سے منہ موڑ موڑ کے
بھیا کدھر چلے مرے بھائی کو چھوڑ کے
68
دیکھو تو حال سبط رسول فلک اساس
بیٹے کا غم بھتیجے کا ماتم ہجوم یاس
ہے کثرتِ سپاہ میں تنہا وہ حق شناس
قربان جاؤں تم تو رہو بے وطن کے پاس
عاشق ہو دلبرِ اسد ذوالجلال کے
بازو قوی تمہیں سے ہیں زہرا کے لال کے
69
عباس کہتے ہیں کہ نہ جاؤں تو کیا کروں
کیوں کر نہ حق امامِ زماں کا ادا کروں
الٹوں صفیں ہزاروں سے تنہا وغا کروں
یہ سر ہے الیے کہ قدم پر فدا کروں
پہونچا ہے فیض سیدِ خوشخو کے ہاتھ سے
دنیا میں کچھ تو کام ہو بازو کے ہاتھ سے
70
رخصت طلب ہے شاہ سے اکبر سالالہ فام
شہزادہ مرے جائے سلامت رہے غلام
للہ روکیے نہ اب اے خواہر امام
وہ امر کیجیے کہ بڑھے جس سے میرا نام
بیکس ہوں ساتھ ماں نہیں سر پر پدر نہیں
میں آپ کا غلام تو ہوں گو پسر نہیں
71
باتیں یہ سن کے روتی ہیں زینب جھکا کے سر
تھرا رہی ہے زوجہ عباس نام ور
چہرہ تو فق ہے گود میں ہے چاند سا پسر
مانع ہے شرم روتی ہے منہ پھیر پھیر کر
موقع نہ روکنے کا ہے نے بول سکتی ہے
حضرت کے منہ کو نرگسی آنکھوں سے تکتی ہے
72
کہتی ہے رو کے بانوئے عالم سے بار بار
ہم کو تباہ کرتے ہیں عباسِ نام دار
ہے لونڈیوں کے باب میں بی بی کو اختیار
کچھ آپ بولتی نہیں اس وقت میں نثار
کہیے جو روکنے کی کوئی ان کے راہ ہو
اب عنقریب ہے کہ مرا گھر تباہ ہو
73
اکبر کا واسطہ کوئی تدبیر کیجیے
امداد بہرِ حضرتِ شپیر کیجیے
کچھ دل کو ہو قرار وہ تقریر کیجیے
پٹکا وہ باندھتے ہیں نہ تاخیر کیجیے
اک دل ہے میرا اور کئی غم کے تیر ہیں
بی بی میں کیا کروں مرے بچے صغیر ہیں
74
عباس دیکھتے ہیں جو زوجہ کا اضطرار
ہوتا ہے تیر غم جگر ناتواں کے پار
روتے ہیں خود مگر یہ اشار ہے بار بار
شوہر کے غم میں یوں کوئی ہوتا ہے بیقرار
آؤ ادب سے دلبرِ زہرا کے سامنے
روتی ہیں لونڈیاں کہیں آقا کے سامنے
75
کھولا ہے گوندھے بالوں کو صاحب یہ کیا یہ کیا
پیٹو نہ سر کو روتا ہے فرزند مہ لقا
خیرالنسا کے لال پہ ہوتے ہیں ہم فدا
شادی کا ہے مقام کہ ماتم کی ہے یہ جا
ایذا میں صبر صاحب ہمت کا کام ہے
میری بھی آبرو ہے تمہارا بھی نام ہے
76
لو پونچھ ڈالو آنسوؤں کو بہرِ ذو الجلال
دیکھو زیادہ رونے سے ہوگا ہمیں ملال
میر مفارفت کا نہ کیجو کبھی خیال
قائم تمہارے سر پہ رہے فاطمہ کا لال
غم چاہیے نہ آہ و بکا چاہیے تمہیں
شہ کی سلامتی کی دعا چاہیے تمہیں
77
صدقے ہیں ابنِ فاطمہ پر مجھ سے سو غلام
دیکھو نہ روتے دیکھ لیں تم کو کہیں امام
کیا اشکِ خوں بہا کے بگاڑوگی میرا کام
ہم ہاتھ جوڑتے ہیں یہ ہے صبر کا مقام
پوچھیں حضورگر کہ تمہیں کیا قبول ہے
صاحب یہ کہیو تم کہ رنڈاپا قبول ہے
78
دیکھو کہ گھر میں اور بھی رانڈیں ہیں تین چار
آدابِ شہ سے چپ ہیں نہیں کوئی بیقرار
رہ جائے بات کرتے ہیں وہ امرا ہوشیار
دنیا ہے بے ثبات زمانہ ہے بے مدار
کیا کیا نہ تفرقے ہوئے ایک ایک آن میں
صاحب سدا کوئی بھی جیا ہے جہان میں
79
قاسم کو دیکھو جانبِ کبرا کرو نگاہ
گذری جو شب تو صبح کو گھر ہو گیا تباہ
دشمن کو بھی دکھائے نہ اللہ ایسا بیاہ
کیا صابرہ ہے دخترِ شپیر واہ واہ
سہتے ہیں یوں جہاں میں جفارانڈ ہونے کی
آواز بھی بھلا کوئی سنتا ہے رونے کی
80
آفت میں صبر کرتی ہیں اس طرح بیبیاں
ہوتا ہے صابروں کا مصیبت میں امتحاں
جل جائے دل مگر نہ اٹھے آہ کا دھواں
اف کیجیے نہ منہ سے جو پہونچے لبوں پہ جاں
چرچا رہے کہ وقت پہ کیا کام کر گئی
چھوٹی بہو علی کا بڑا نام کر گئی
81
شوہر نے یہ کلام کیے جب بہ چشم تر
چپ ہو گئی وہ صاحب ہمت جھکا کے سر
ہتھیار سج کے حضرتِ عباس نامور
آئے قریب لختِ دل سیدالبشر
صدمے سے رنگِ سبطِ نئی زرد ہو گیا
کانپے یہ دست و پاک بدن سرد ہو گیا
82
جوں جوں قریب آتے تھے عباس نامور
بے تاب تھے حسین سنبھالے ہوئے جگر
کہتے تھے اضطراب میں جھک کر ادھر ادھر
جینے نہ دے گا آہ ہمیں صدمۂ کمر
ہے زیست تلخ فاطمہ کے نورِعین کو
زینب کہاں ہو؟ آ کے سنبھالو حسین کو
83
سب گھر کی بیٹیوں سے کہو میرے پاس آئیں
بانو کہاں ہیں زوجۂ عباس کو بلائیں
گودی میں تشنہ کام سکینہ کو جلد لائیں
کوچ اب جہاں سے ہے ہمیں سب آکے دیکھ جائیں
یہ نوجواں سنبھالے گا جس دم مروں گا میں
عباس سے ہر اک کی سفارش کروں گا میں
84
یہ سن کے ساری بیبیاں آئیں یہ حالِ زار
بولے قدم پہ جھک کے یہ عباسِ نامدار
اے آفتابِ عالمیاں نورِ کردگار
ہل من مبارز ًکا ادھر غل ہے بار بار
ہیں ذرہ پروری کے چلن آفتاب میں
آقا یہ دیر کس لیے خادم کے باب میں
85
لڑکوں نے معرکہ میں کیے اپنے اپنے نام
کیا میں غلامِ خاص نہیں یا شہِ انام
ایسا دن اور بھی کوئی ہوئے گا یا امام
کسا کام کا جو آج نہ کام آئے گا غلام
مشکل ہے ایسے وقت میں رکنا دلیر کا
آخر پسر ہوں شیر الٰہی سے شیر کا
86
ہوتا جو سب سے پہلے فدا خادمِ جناب
خوش ہوتی خاکسار سے روحِ ابوتراب
اب ہوں ہر اک کے آگے خجالت سے آب آب
زہرا سے بھی حجاب ہے شبر سے بھی حجاب
اب بھی نہ تیغ و تیر اگر تن پہ کھاؤں گا
مولا بتائیے کسے پھر منہ دکھاؤں گا
87
ساتھ آپ کے سہوں گا نہ گر قتل کی جفا
مجھ سے رسولِ پاک خوشی ہوں گے یا خفا؟
بیزار کیا نہو ہوگا دلِ شاہ لافتا
پھر فاطمہ کہیں گی مجھے صاحبِ وفا؟
مرنے کا خط نہ جینے کا مطلق مزا رہا
انساں کی آبرو نہ رہی جب تو کیا رہا
88
پالا ہے مجھ کو یاشہ دل گیر آپ نے
کی ہے ہمیشہ پیار سے تقریر آپ نے
بندھوائی ہے کمر سے یہ شمشیر آپ نے
بخشی ہے سب میں عزت و توقیر آپ نے
وقتِ مدد ہے آج بھی امداد کیجیے
بندہ سمجھ کے اب مجھے آزاد کیجیے
89
گردن ہلا کے شہ نے کہا آہ کیا کروں؟
مشکل ہے سخت اے مرے واللہ کیا کروں؟
جینے نہ دے گا یہ غمِ جاں کاہ کیا کروں؟
چھٹتا ہے اب برادرِ ذی جاہ کیا کروں؟
دم بھر کی زندگی مجھے دشوار ہو گئی
سب تو خفا تھے موت بھی بیزار ہو گئی
90
غازی نے رکھ دیا قدم شاہِ دیں پہ سر
بولے گلے لگا کے شہنشاہ بحرو بر
اے تن کی جان اے سبب قوتِ جگر
یوں ہے خوشی تو خیر جہاں سے کرو سفر
بھائی نہ ہو تو بھائی کی مٹی خراب ہے
اچھا تمہارا کوچ مرا پاتر اب ہے
91
روتا ہوا جھکا پے تسلیم وہ جری
سب روئے مشک دوشِ مبارک پہ جب دھری
اک آہِ سرد زوجۂ عباس نے بھری
صدمے سے رنگ زرد تھا اور تن میں تھرتھری
سر سے روا بھی دوش تلک آ کے گر پڑی
بانو کے پاس خاک پہ غش کھا کے گر پڑی
92
نکلا وہ شیر خیمے سے باہر علم لیے
مجرے کو آئی فتح سپاہ حشم لیے
جرأت نے بڑھ کے بوسۂ تیغِ دو دم لیے
نصرت نے چومے ہاتھ ظفر نے قدم لیے
خورشید کا جلال نگاہو سے گر گیا
اقبال سر کے گرد ہما بن کے پھر گیا
93
آیا سجا ہوا وہ سمندبراق سیر
تھا جو فلک پہ اڑنے کو تیار مثلِ طیر
ہوتا تھا اس کے ڈر سے غزالوں کا حال غیر
رن میں سپاہِ شر اسے رو کے تو یہ بخیر
صر صر قدم کی گرد کو پاتی نہیں کبھی
ڈھونڈھے بشر پری نظر آتی نہیں کبھی
94
وہ زیب و زین زین کی وہ ساز وہ پھبن
زیور سے جیسے ہوتی ہے آراستہ دلہن
چشمِ سیاہ دیدۂآہوپہ طعنہ زن
سرعت یہ تھی کہ بھولتے تھے چوکڑی ہرن
جادو تھا معجزہ تھا پری تھی طلسم تھا
پاکھر نہ تھی زرہ میں تہمتن کا جسم تھا
95
رکھا قدم رکاب میں حیدر کے لال نے
نعلین پاک فخر سے چوما ہلال نے
بخشی جو صدرِ زیں کو ضیا خوش جمال نے
دم کو چنور کیا فرس بے مثال نے
کس ناز سے وہ رشکِ غزالِ ختن چلا
طاؤس تھا کہ سیر کو سوئے چمن چلا
96
خوشبو سے ارضِ پاک ریاضِ جناں بنی
گرد اٹھ کے غازۂ رخ لیلیٰ نشاں بنی
جلوے سے راہِ دشتِ بلا کہکشاں بنی
ذرے بنے نجوم زمیں آسماں بنی
سم بدر تھے تو نعل بھی چاروں ہلال تھے
نقشِ سم فرس سے ہزاروں ہلال تھے
97
وہ دبدبہ وہ سطوتِ شاہانہ وہ شباب
تھرا رہا تھا جس کی جلالت سے آفتاب
وہ رعبِ حق کہ شیر کا زہرہ ہو آب آب
صولت میں فرد دفترِ جرأت میں انتخاب
تیور میں سارے طور خدا کے ولی کے ہیں
شوکت پکارتی ہے کہ بیٹے علی کے ہیں
98
پہونچے جو دشتِ کیں میں اڑاتے ہوئے فرس
گھوڑے کو ہاتھ اٹھا کے یہ آواز دی کہ بس
دیکھیں صفیں جمی جو چپ و راس و پیش و پس
نعرہ کیا کہ نہر پہ جانے کی ہے ہوس
روکے گا جو وہ موت کے پنجے میں آئے گا
ہٹ جاؤ سب کہ شیر ترائی میں جائے گا
99
روکے ہمیں نکل کے جو طاقت کسی میں ہو
لے تیغ میان سے جو شجاعت کسی میں ہو
گرمائے رخش کو جو حرارت کسی میں ہو
آئے جو حرب ضرب کی قدرت کسی میں ہو
دو ہاتھ میں علی کے پسر آر پار ہیں
دریا نہیں کہ رک گیا ہم ذوالفقار ہیں
100
تم کیا پہاڑ بیچ میں گر ہو تو ٹال دیں
شیروں کو ہم ترائی سے باہر نکال دیں
مہلت نہ ایک کو دم جنگ و جدال دیں
پانی تو کیا ہے آگ میں گھوڑے کو ڈال دیں
منہ دیکھتے ہیں جو ہیں نگہبان گھاٹ کے
لے جائیں گھر پہ تیغ سے دریا کو کاٹ کے
101
سرکش ہیں سب ہماری زبردستوں سے زیر
دادا شجاع باپ الوالعزم ہم دلیر
جب رن پڑا ہے کردیے ہیں زخمیوں کے ڈھیر
لائے ہیں جا کے آگ سے پانی خدا کے شیر
عفریت بھاگتے ہیں وہ چوٹیں ہماری ہیں
بیر العلم میں کود کے تلواریں ماری ہیں
102
جرأت جلو میں رہتی ہے نصرت رکاب میں
لیتے ہیں گھاٹ پیر کے تیغوں کی آب میں
لکھے ہوئے ہیں شیروں کے حملے کتاب میں
فصلیں ہیں اپنے زور کی خیبر کے باب میں
ناصر ہیں بادشاہ فلک بارگاہ کے
دفتر الٹ دیے ہیں عرب کی سپاہ کے
103
بے مشک کے بھرے ہمیں آتا ہے چین کب
گرمی میں پیاس سے کئی بچے ہیں جاں بلب
اصفر کی گودیوں میں تڑپتے کٹی ہے شب
کیا وقت ہے حسین کے بچوں پہ ہے عضب
لالے پڑے ہوئے ہیں سکینہ کی جان کے
کانٹے مجھے دکھائے تھے سوکھی زبان کے
104
عبرت کی یہ جگہ ہے کہ ہم اورسوالِ آب
سقہ بنے ہیں دیکھ کے بچوں کا اضطراب
اس مشک نے کیا ہمیں عقبیٰ میں کامیاب
اللہ ری آبرو کہ بہشتی ملا خطاب
شہ سے نشانِ فوجِ پیمبر بھی مل گیا
طوبیٰ کے ساتھ چشمہ ٔ کوثر بھی مل گیا
105
یہ ذکر تھا کہ فوج کی جانب سے تیر آئے
نیزے اٹھا کے شیر کے منہ پر شریر آئے
یہ بھی جھپٹ کے مثلِ شہِ قلعہ گیر آئے
گیتی ہلی غضب میں جناب امیر آئے
گھوڑا اڑا پروں کو سواروں کے توڑ کے
لپکی صفوں پہ سیف بھی کاٹھی کو چھوڑ کے
106
آمد تھی تیغ کی کہ اجل کا پیام تھا
یہ صف اخیر تھی وہ رسالہ تمام تھا
بجلی سا ہر جگہ فرس تیز گام تھا
ششدر تھی موت چار طرف قتلِ عام تھا
اس غول پر کبھی تھی کبھی اس قطار پر
پڑتا تھا ایک تیغ کا سایہ ہزار پر
107
وہ تیغ کی چمک وہ تڑپ راہوار کی
رفرف کی اک شبیہ تو اک ذوالفقار کی
شوکت سوار میں شہ دلدل سوار کی
حملوں میں شان سب اسدِ کردگار کی
چتون وہی غضب وہی بے باکیاں وہی
پھرتی وہی جھپٹ وہی چالاکیاں وہی
108
توڑا یہ مورچہ یہ صف الٹی ادھر پھرے
تلوار خوں میں آپ پسینے میں تر پھرے
یوں خاک پہ گرا کے لعینوں کے سر پھرے
جیسے شکار کھیلے ہوئے شیرِ نر پھرے
تھی قہر کی نگاہ غضب کا جلال تھا
آنکھیں بھی سرخ سرخ تھیں چہرہ بھی لال تھا
109
منہ پھر گئے سپاہ کے جس سمت رخ کیا
یاں سے وہاں گئے اسے مارا اسے لیا
باقی رہے ہزار میں سو دس میں ایک جیا
اللہ رے دم لہو پہ لہو تیغ نے پیا
اس پر بھی تشنگی کو نہ تسکیں ذری ہوئی
گو یا تھی آگ پیٹ میں اس کے بھری ہوئی
110
بے شک تھا ان کا ہاتھ امیرِ عرب کا ہاتھ
پہونچا وغا میں سو طرف اک تشنہ لب کا ہاتھ
آئی اجل اٹھا جو کسی بے ادب کا ہاتھ
شیرِ خدا کے شیر نے مارا غضب کا ہاتھ
بازو پہ آئی تیغ دو دم شانہ کاٹ کے
پہنچے کو بھی قلم کیا دستا نہ کاٹ کے
111
چلتا تھا مثلِ برق یمین و یسار ہاتھ
ڈر ڈر کے جوڑتے تھے ضلالت شعار ہاتھ
ان کی نہ ایک ضرب نہ ان کے ہزار ہاتھ
کافی تھے سب کو تیغِ دو دستی کے چار ہاتھ
آواز شش جہت مین بگیروبزن کی تھی
اللہ کا کرم تھا مدد پنجتن کی تھی
112
نعرہ جدا صدائے بگیرِ و برہ جدا
گوشہ کماں سے دور تھے گوشوں سے رہ جدا
بکتر جدا زمین پہ ٹکڑے زرہ جدا
نیزوں کو دیکھیے تو گرہ سے گرہ جدا
اللہ رے فرق گردن وسر بھی بہم نہ تھے
کشتوں کا ذکر کیا ہے کہ تیغوں میں دم نہ تھے
113
جس کی طرف نظر دمِ جنگ و جلد پھری
کچھ ہٹ کے تیغ سے اسی جانب اجل پھری
رہواریوں پھرا کہ اشارے میں کل پھری
تلوار بھی گلوں کی طرف بر محل پھری
ایسے جری سے کس کو مجالِ مصاف تھی
یوں پھر کے صف کی صف کو جو دیکھا تو صاف تھی
114
چل پھر کے کاٹتی تھی وہ تلواریں ہاتھ پاؤں
ڈر سے بڑھا نہ سکتے تھے خونخوار ہاتھ پاؤں
سر بچ گیا تو ہو گئے بیکار ہاتھ پاؤں
چمکی گری تو آٹھ ہوئے چار ہاتھ پاؤں
روحیں پکاریں تیغ پھر آئی نکل چلو
بولی اجل اب اٹھ کے تو پنجوں کے بل چلو
115
تیرے ادھر قلم تو ادھر برچھیاں قلم
ترکش دو نیم ٹکڑے کمانیں نشاں قلم
ہر ہاتھ میں قلم کی طرح استخواں قلم
منہ تیغ کا خراب سناں کی زباں قلم
جب سن سے آئی سر پہ کسی بد خصال کے
گویا سموم چل گئی پھولوں پہ ڈھال کے
116
کی جس نے سر کشی وہی فتنہ فروہوا
ظالم ہزار میں تھا جو یکتاوہ دو ہوا
افشاں لہو سے شیر کا دستِ نکو ہوا
ٹھنڈا وہی تھا جنگ پر سرگرم جو ہوا
تھا خاتمہ سپاہ جہنم مقام کا
شعلے بجھائے دیتا تھا پانی حسام کا
117
وہ تیغ کھول دیتی تھی لوہے کا بھی حصار
تھا اس کے ہاتھ سے دلِ چار آئینہ فگار
آری تھیں منہ پہ تیغوں کے ایسے پڑے تھے دار
خود اپنے سر پٹکتے تھے گر گر کے بار بار
پانی وہ زہر تھا کہ پیا اور فنا ہوا
ہے آج تک زرہ کا کلیجہ چھنا ہوا
118
جاتی تھی ہر سرے کی طرف سن کے بار بار
چڑھ کے سوار گرتے تھے تو سن کے بار بار
اٹھتی تھی الاماں کی صدا رن سے بار بار
ہر سر کا بار اترتا تھا گردن سے بار بار
غارت ہوئے تباہ ہوئے بے تزک ہوئے
ضربِ گراں جو اٹھ نہ سکی کیا سبک ہوئے
119
ثابت رہی نہ ڈھال نہ مغفر نہ سر بچا
سینے میں دل کو کاٹ گئی گر جگر بچا
دو ٹکڑے ہو گیا وہ ادھر جو ادھر بچا
بے زخم کھائے ایک نہ بیداد گر بچا
تلوار سے کوئی کوئی ڈر سے ہلاک تھا
سالم تھا جس کا جسم جگر اس کا چاک تھا
120
سر سے کمر میں تھی تو کمر سے تہ فرس
آفت کا منہ تھا قہر کا دم خم ستم کا کس
کشتے تڑپ رہے تھے چپ و راس پیش و پس
دو تھے اگر تو چار ہوئے پانچ تھے تو دس
غل تھا وہی لڑے جسے سر تن پہ بار ہو
آفت بپا ہے کون اجل سے دو چار ہو
121
غل تھا شرارتوں سے اس آتش زبان کی
پریاں پکارتی تھیں کہ ہو خیر جان کی
دنیا میں شعلہ بار ہے آگ اس جہان کی
بدلی ہوئی ہے آج ہوا آسمان کی
بجلی خجل ہے نازیہ اس شعر خو کے ہیں
بوچھاڑ ہے سروں کی در یڑے لہو کے ہیں
122
جب بڑھ کے سن سے صورتِ تیغ علی چلی
ثابت ہوا کہ ضربتِ دستِ ولی چلی
دل پر خفی چلی تو گلوں پر جلی چلی
تن سے نکل کے روح پکاری چلی چلی
دی تیغ نے صدا کہ ارادہ کدھر کا ہے
چلائی موت چل یہی رستا سقر کا ہے
123
خشکی میں تھی جو آپ تو آتش تری میں تھی
ہم نام ذوالفقار علی صفدری میں تھی
تلوار تھی کہ برق لباس پری میں تھی
بے باک اس لیے تھی کہ دستِ جری میں تھی
خوں بھی اسے حلال دیت بھی معاف تھی
کاٹا تھا سو گلوں کو مگر پاک صاف تھی
124
سارے رسالہ دار تباہی میں پڑ گئے
اب منہ کسے دکھائیں کہ چہرے بگڑ گئے
نامی جو تھے جواں قدم ان کے اکھڑ گئے
بھاگے جو سب نشاں بھی خجالت سے گڑ گئے
علموں کے پاس ڈھیرے پھریروں کے رن میں تھے
ریتی پہ بیرقیں تھیں کہ مردے کفن میں تھے
125
پہنے ہوئے تھے جسم میں زر ہیں جو چست چست
چوٹیں کڑی پڑیں تو ہوئے وہ بھی سخت سست
خوفِ اجل سے بھول گئے وعدۂ نخست
ٹوٹی صفوں میں ہاتھ کسی کے نہ تھے درست
اک شور تھا کہ جان گئی اس لڑائی میں
گھوڑے بھگاؤ آگ لگی ہے ترائی میں
138
گھیرے تھے ایک جان کو دو لاکھ اہلِ شہر
ٹھہرے کہاں قرار کہاں لیں تھمیں کدھر
چھاتی کے پاس برچھیاں تیغیں قریبِ سر
پہلو میں اس طرف تو سنائیں ادھر تبر
ملتی نہ تھی اماں سپہ تیرہ بخت سے
گوشوں سے تیر چلتے تھے پتھر درخت سے
139
جب مشک کی طرف کوئی آتا تھا سن سے تیر
کہتے تھے یا حفیظ کبھی گاہ یا قدیر
چلا رہا تھا شمر جفا پیشہ و شریر
جانے نہ پائے لختِ دلِ شاہ قلعہ گیر
رخ اس جری کا خیمہ کی جانب سے موڑ دو
ہاں برچھیوں سے شیر کے سینہ کو توڑ دو
140
سن کر زباں درازیِ شہرِ ستم شعار
عباس مثلِ شیر جھپٹتے تھے بار بار
تلواریں سیکڑوں تھیں ہزاروں تھے نیزہ دار
توڑی اگر یہ صف تو جمی دوسری قطار
تنہا سنبھالے مشک و علم یاوغا کرے
بلوہ ہو ساری فوج کا جس پر وہ کیا کرے
141
مشہور ہے کہ ایک پہ بھاری ہیں دو بشر
در پے تھے اک جواں کے لیے لاکھ اہلِ شر
کھائے ادھر سے زخم جو کی اس طرف نظر
کس کس کا وار رد کریں دیکھیں کدھر کدھر
جب دم لیا تو سینہ پہ سو تیر چل گئے
پہلو کو توڑ توڑ کے نیزے نکل گئے
142
سینہ سپر تھے مشک پہ رو کے ہوئے تھے ڈھال
لڑنے میں بھی حسین کے بچوں کا تھا خیال
کہتا تھا ڈگمگا کے فرس پردہ خوش خصال
فرزند کو سنبھالیے یا شیرِ ذوالجلال
جا پہنچوں مشک لے کے جو تھوڑی سی راہ ہو
ایسا نہ ہو کہ پیاسوں کی کشتی تباہ ہو
143
یہ کہتے تھے کہ ٹوٹ پڑا لشکرِ کثیر
بس چور ہو گیا پسرِ شاہ قلعہ گیر
آکر لگا میان دوا ابرو جو ایک تیر
تیور اگیا علی ٔولی کا مہ منیر
چھوٹی جو باگ پاؤں فرس کے بھی رک گئے
پھیلا کے ہاتھ مشک سکینہ پہ جھک گئے
144
اب یاں تو خاتمہ ہے سنو اس طرف کا حال
ڈیوڑھی پہ ننگے سر ہے رسولِ خدا کا لال
غم سے کمر جھکی ہوئی رخ زرد جی نڈھال
یہ کرب ہے کہ ہوتا ہے جو وقتِ انتقال
گر گر اٹھے تڑپ کے ادھر سےادھر گئے
جب آہ کی تو سب نے یہ جانا کہ مر گئے
145
فریاد کر کے دل کبھی تھا ما جگر کبھی
پکڑی طناب خیمے کی گہ اور کمر کبھی
گھبرا کے پیارے بھائی کو پوچھی خبر کبھی
روئے پسر کی دوش پہ رکھ کھر کے سر کبھی
کی آہ سامنے کبھی زہرا کی جائی کے
رو کر کبھی لپٹ گئے بیٹے سے بھائی کے
146
فرماتے تھے کراہ کے اکبر سے بار بار
شانے دباؤ اے علی اکبر پدر نثار
کیسا یہ درد ہے کہ جگر کو نہیں قرار
بازو کا زور لے گئے عباسِ نامدار
واحسرتا کہ بے کس و بے یار ہو گئے
سر پیٹیں کس سے ہاتھ تو بیکار ہو گئے
147
چلاتے تھے کہ جانِ بر ادربس اب پھر آؤ
پہونچا ہے دم لبوں پہ ہمٰیں آ کے دیکھ جاؤ
بھیا خدا کے واسطے اب برچھیاں نہ کھاؤ
عباس ہم اخیر ہیں تشریف جلد لاؤ
پیاری تمہاری ننھے سے ہاتھوں کو ملتی ہے
اب تم کو ڈھونڈھنے کو سکینہ نکلتی ہے
148
حضرت تو پیٹتے ہیں یہ کہہ کر بہ صد ملال
خیمے میں غش ہے زوجہ عباسِ خوش خصال
ڈیوڑھی پہ اہلِ بیت ہیں سب کھولے سر کے بال
پردے سے منہ نکالے ہیں اطفالِ خورد سال
لب ان کے اودے اودے ہیں منہ گورے گورے ہیں
آنکھوں میں اشک ہاتھوں میں خالی کٹورے ہیں
149
کہتے ہیں سب لبوں پہ زبانوں کو پھیر کر
اب پانی لے کے آتے ہیں عباس نام ور
حضرت سے پوچھتی ہے سکینہ بہ چشمِ تر
میرے چچا کب آئیں گے یا شاہِ بحر و بر
کیا میں سفر کروں گی جہاں سے تب آئیں گے
بہلاتے ہیں حسین کہ بی بی اب آئیں گے
150
گھیرے ہیں لاکھ ان کو ستمگار ہائے ہائے
مانگو دعا کہ بھائی کو میرے خدا بچائے
وہ کہتی ہے میں پانی سے گذری نہ مشک آئے
ہے ہے بس اب چچا کو مرے کوئی پھیر لائے
رکھے خدا جہاں میں علی کی نشانی کو
میں کیا کروں گی آگ لگے ایسے پانی کو
151
یہ ذکر تھا کہ فتح کے باجے بجے ادھر
تڑپے زمیں پہ گر کے شہنشاہِ بحر و بر
چلائے بڑھکے فوج سے دو چار اہلِ شر
حضرت کہاں ہیں مر گئے عباسِ نامور
کیا کیا چلی ہیں تیغوں پہ تیغیں لڑائی میں
وہ زخم کھائے شیر پڑا ہے ترائی میں
152
افشاں ہیں سر کے خون کی چھینٹوں سے سب نشاں
عباس کانپ جاتے تھے جھکتا تھا جب نشاں
نام آوروں نے آج مٹایا عجب نشاں
کیوں اے حسین کون اٹھائے گا اب نشاں
لاش ان کی پائمال ہوئی زخم پھٹ گئے
جن میں علی کا زور تھا وہ ہاتھ کٹ گئے
153
آئی صدا یہ نہر کی جانب سے ایک بار
آقا تمام ہوتا ہے یہ عبدِ جاں نثار
تن سے نکل کے آنکھوں میں اٹکی ہے جانِ زار
اب ہے فقط حضور کے آنے کا انتظار
بابا کے ساتھ خلد سے تشریف لائی ہیں
حضرت کی والدہ مرے لینے کو آئی ہیں
154
شہ دوڑ کر پکارے کہ آتا ہوں بھائی جان
گھر لٹ گیا ہے خاک اڑاتا ہوں بھائی جان
طاقت بدن مین اب نہیں پاتا ہوں بھائی جان
اک اک قدم پہ ٹھوکریں کھاتا ہوں بھائی جان
دستِ شکستہ بیٹے کی گردن میں ڈالے ہیں
بھیا ہمیں تو اکبر مہ رو سنبھالے ہیں
155
دیکھا جو در سے بنتِ علی نے یہ شہ کا حال
ڈیوڑھی سے نکلی چند قدم کھولے سر کے بال
چلاتی کون قتل ہوا اے علی کے لال
مڑ کر کہا حسین نے عباس خوش خصال
دریا پہ فوجِ شام نے مارا دلیر کو
زینب اجل نے چھین لیا میرے شیر کو
156
خورشید مشرقین زمانے سے اٹھ گیا
سید کا نور عین زمانے نے سے اٹھ گیا
وہ عاشقِ حسین زمانے سے اٹھ گیا
زینب ہمارا چین زمانے سے اٹھ گیا
آتا نہیں قرار دلِ بے قرار کو
دریا پہ روئے جاتے ہیں خدمت گزار کو
157
اکبر کو ہاتھ اٹھا کے پکاری وہ سوگوار
ہے ہے حسین ہو گئے بے یار و غم گسار
ماتم جوان بھائی کا ہے تم پہ میں نثار
اکبر خدا کے واسطے بابا سے ہوشیار
گرنے لگیں تو حیدرِ صفدر کا نام لو
بیٹا پدر کے ہاتھ کو مضبوط تھام لو
158
اکبر پدر کو تھامے ہوئے نہر پر جولائے
غلطاں لہو میں بازوئے سرور کے ہاتھ پائے
چلائے شاہ لاش کدھر ہے کوئی بتائے
فرق آگیا ہماری بصارت میں ہائے ہائے
رو لیں گلے لگا کے تنِ پاش پاش کو
اکبر ہمیں دکھا دو برادر کی لاش کو
159
اکبر نے شہ کے ہاتھ پکڑ کر بہ صد بکا
رکھے چچا کے سینے پہ اور رو کے یہ کہا
لیجے یہی ہے لاشِ علمدار باوفا
چلائے جھک کے لاش پہ سلطانِ کربلا
ٹوٹی ہوئی کمر ہے سنبھالو حسین کو
بھیا ذرا گلے سے لگالو حسین کو
160
عباس ہاتھ کٹ گئے شانوں سے ہے غضب
ریتی پہ دو طرف یہ تمہارا لہو ہے سب
لوٹا ہمیں رسول کی امت نے بے سبب
بھیا ہماری جان نکلتی ہے تن سے اب
مر جائیں گے جلا دو ہمیں منہ سے بول کر
دو باتیں کر لو بھائی سے آنکھوں کو کھول کر
161
کیوں خاک پر دھرے ہو یہ رخسار خوں میں تر
آؤ ہم اپنے زانو پہ رکھیں تمہارا سر
لیتے ہو کیوں کراہ کے کروٹ ادھر ادھر
ثابت ہوا کہ جلد ہے دنیا سے آب سفر
ہے ہے دلیلِ مرگ ہے لکنت زبان کی
ہچکی نہیں یہ جسم سے رخصت ہے جان کی
162
غش میں سنی جو گریۂ شپیر کی صدا
چونکے تڑپ کے حضرتِ عباس باوفا
آہستگی پہ عرض کہ اے سبطِ مصطفا
اس پیار کے نثار اس الطاف کے فدا
زیبا ہے نکلے جان اگر پیشوائی کو
گویا رسول آئے ہیں مشکل کشائی کو
163
یہ کہہ کے روئے شہ کی طرف کی نظر بہ غور
جھ کر پکارے شاہ کہ بھیا کہو کچھ اور
تڑپا قدم پہ شہ کے وہ مقتولِ ظلم و جور
لیں ہچکیاں بگڑنے لگے تیوروں کے طور
پتھرا کے چشمِ اشک فشاں بند ہو گی
تھرا ئے دونوں ہونٹ زباں بند ہو گئیں
164
اکبر نے عرض کی کہ چچا جان مر گئے
جھک کر پکارے شاہ کے بھیا کدھر گئے
منہ تو اٹھاؤ خاک سے رخسار بھر گئے
واحسر تا حسین کو بے آس کر گئے
اب کون دے گا دکھ میں نبی کے پسر کا ساتھ
دم بھر میں تم نے چھوڑ دیا عمر بھر کا ساتھ
165
ہاں روؤ مومنو یہ بکا کا مقام ہے
تم میں شریک روحِ رسولِ انام ہے
اب رخصتِ حسین علیہ السلام ہے
تاریخ آٹھویں ہے محرم تمام ہے
موت آئی تو شریکِ عزا کون ہوئے گا؟
جو سال بھر جیے گا وہ پھر شہ کو روئے گا
166
آگے تمہارے مرتے جو عباس با وفا
پرسا نہ دیتے سبط رسولِ خدا کو کیا
تم سب کو دیکتے ہیں شنہشاہِ کربلا
زہرا بھی ننگے سر ہیں قیامت کرو بپا
سمجھو شریکِ بزمِ شہِ مشرقین کو
دے لو جوان بھائی کا پرسا حسین کو
167
پیٹو سروں کو ہوتا ہے اب مرثیہ تمام
لپٹو ضریح پاک سے کہہ کہہ کے یا امام
رخصت طلب ہے باپ سے اکبر سا لالہ فام
خاموش ہیں حسین نہیں کرتے کچھ کلام
مقتول ظلم و جور ہے اب رن میں فاطمہ
ہوتا ہے پنجتن میں کوئی دم میں خاتمہ
168
بس اے انیسؔ روک لے اب خامہ کی عناں
یہ غم ہے جاں گزا نہ کبھی ہوئے گا بیاں
آنکھوں سے سامعین کے بھی اشک ہیں رواں
خالق سے عرض کر کہ اے خلاقِ انس و جاں
آنکھوں سے مس کروں میں مزار بتول کو
دکھلا دے جلد مرقد سبطِ رسول کو
جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
فوجِ خدا پہ سایۂ ابرِ کرم ہوا
چرخ زبر جدی پے تسلیم خم ہوا
پنجے پہ سات بار تصدق حشم ہوا
دیکھا نہ تھا کبھی جو علم اس نمود کا
دونوں طرف کی فوج میں غل تھا درود کا
2
وہ شان اس قلم کی وہ عباس کا جلال
نخلِ زمردی کے تلے تھا علی کا لال
پرچم پہ جان دیتی تھیں پریوں کا تھا یہ حال
غل تھا کہ دوشِ حور پہ بکھرے ہوئے ہیں بال
ہر لہر آبدار تھی کوثر کی موج سے
طوبیٰ بھی دب گیا تھا پھریرے کی اوج سے
3
تھا پنجتن کا نور جو پنجے میں جلوہ گر
اعمیٰ کی پتلیوں میں بھی تھا روشنی کا گھر
ذرے نثار کرتے تھے اٹھ اٹھ کے اپنا زر
تکتے تھے فوق سے تو ملک تخت سے بشر
اللہ ری چمک علمِ بوتراب کی
تارِ نظر بنی تھی کرن آفتاب کی
4
قربان احتشام علمدار نام ور
رخ پر جلالت شہ مرداں تھی سر بسر
چہرہ تو آفتاب سا اور شیر کی نظر
قبضے میں تیغ بر میں زرہ دوش پر سپر
چھایا تھا رعب لشکرِ ابنِ زیادؔ پر
غل تھا چڑھے ہیں شیر الٰہی جہاد پر
5
وہ اوج وہ جلال وہ اقبال وہ حشم
وہ نور وہ شکوہ وہ توقیر وہ کرم
پنجے کی وہ چمک وہ سر افرازیِ علم
گرتی تی برق فوجِ مخالف پہ دم بہ دم
کیا رفعتِ نشانِ سعادت نشان تھی
سائے میں جس نشان کے طوبیٰ کی شان تھی
6
پنجہ اٹھا کے ہاتھ یہ کہتا تھا بار بار
عالم میں پنجتن کی بزرگی ہے آشکار
یہ شش جہت انہیں کے قدم سے ہے برقرار
کیوں ہفتہ دوست ہوتےہو اے قوم نابکار
آٹھوں بہشت ملتے ہیں مولا کے نام سے
بیعت کرو حسین علیہ السلام سے
7
غرفوں سے جھانک جھانک کے بولی ہر ایک حور
صلِ علیٰ علم کی چمک ہے کہ برق طور
یارب رہے نگاہ بد اس کی ضیا سے دور
پنجہ ہے یہ کہ ایک جگہ پنجتن کا نور
جلوے ہیں سب محمد و حیدر کی شان کے
قربان اس جواں کے نثار اس نشان کے
8
آگے کبھی نہ دیکھی تھی اس حسن کی سپاہ
دنیا بھی خوبیوں کا مرقع ہے واہ واہ
دیکھیں کسے کسے کہ ہے ایک ایک رشکِ ماہ
جاتی ہے جس کے رخ پہ تو پھرتی نہیں نگاہ
دیکھو انہیں دموں سے ہے رونق زمین کو
چن کر حسین لائے ہیں کس کس حسین کو
9
شہرہ بہت تھا حسن میں کنعاں کے ماہ کا
قصہ سنا ہوا ہے زلیخا کی چاہ کا
یاں آفتاب کو نہیں یارا نگاہ کا
یوسف ہے ایک ایک جواں اس سپاہ کا
سنتے تھے ہم کہ عالمِ ایجادِ زشت ہے
ایسے چمن کھلے ہیں کہ دنیا بہشت ہے
10
ہم شکل مصطفیٰ کا ہے کیا حسن کیا جمال
صبحِ جبیں بھی اور شبِ گیسو بھی بے مثال
یہ لب یہ خط یہ چشم یہ ابرو یہ رخ یہ خال
یاقوت و مشک و نرگس و نجم و مہ و ہلال
اک گل پہ یاں ہزار طرح کی بہار ہے
چہرہ نہ کہیے قدرتِ پروردگار ہے
11
لخت دلِ حسن بھی ہے کس مرتبہ حسیں
جس کے چراغ حسن سے روشن ہے سب زمیں
یہ زلف مشک بیز یہ آئینہ جبیں
سرمایۂ خطا و ختن کائنات چیں
رخ کی بلائیں لیتی ہیں پریاں کھڑی ہوئی
سہرے کی ہر لڑی سے ہیں آنکھیں لڑی ہوئی
12
نامِ خدا میں عون و محمد بھی کیا شکیل
اک مہرے بے نظیر ہے اک بدرِ بے عدیل
افروختہ ہیں رخ یہ شجاعت کی ہے دلیل
ہمت بڑی ہے گو کہ ہیں عمریں ابھی قلیل
مثلِ علی ہیں جنگ و جدل پر تلے ہوئے
دونوں کے نیمچوں کے ہیں ڈورے کھلے ہوئے
13
عباس نام ور بھی عجب سج کا ہے جوان
نازاں ہے جس کے دوشِ منور پہ خود نشان
حمزہ کا رعب صولت جفرؔ علی کی شان
ہاشم کا دل حسین کا بازو ، حسن کی جان
کیوں کر نہ عشق ہو شہ گردوں جناب کو
حاصل ہیں سیکڑوں شرف اس آفتاب کو
14
اس مہر کو تو دیکھو یہ ذرے ہیں جس کے سب
سرتاج آسمان و زمیں نورِ عرش رب
ابرِ کرم خدیو عجم خسرو عرب
عالی ہمم امامِ امم شاہِ تشنہ لب
جنباں زبانِ خشک ہے ذکر الٰہ میں
گویا کھڑے ہیں ختم رسل رزمگاہ میں
15
کیا فوج تھی حسین کی اس فوج کے نثار
ایک ایک آبروئے عرب فخرِ روزگار
جرار و دیں پناہ نمودار نامدار
لڑکوں میں سبزہ رنگ کوئی کوئی گل عذار
فوجیں کوئی سماتی تھیں ان کی نگاہ میں
وہ سب پلے تھے بیشہ شیر الہٰ میں
16
ایک ایک ملک جرأت و ہمت کا بادشاہ
کیواں خدم سپہر حشم عرشِ بارگاہ
آنکھیں غزالِ رشک مگر شیر کی نگاہ
وہ رعب چتونوں میں کہ اللہ کی پناہ
دیکھا تو دل کو توڑ کے برچھی نکل گئی
ابرو ذرا جو ہل گئے تلوار چل گئی
17
وہ اشتیاقِ جنگ میں لڑکوں کے ولولے
بے تاب تھے کہ دیکھیے تلوار کب چلے
چہرے وہ آفتاب سے وہ چاند سے گلے
سب فاطمہ کی بیٹیوں کی گود کے پلے
اک اک رسولِ حق کی لحد کا چراغ تھا
جس پر علی نے کی تھی ریاضت وہ باغ تھا
18
اکبر سے عرض کرتے تھے سینہ سپر کیے
یہ نیمچے نہ لیویں گے دم بے لہو پییے
گر آج مر گئے تو قیامت تلک جیے
صدقے ہوں اس قدم پہ یہ سر ہیں اسی لیے
آقا کے آگے لطف ہے تیغ آزمائی کا
آج آپ دیکھیے گا تماشا لڑائی کا
19
بچپن پہ خادمانِ او لوالعزم کے نہ جائیں
جب چاہیں معرکے میں ہمیں آپ آزمائیں
تن تن کے روکیں برچھیاں ہنس ہنس کے زخم کھائیں
بجلی گر ےتو منہ پہ جھجک کر سپر نہ لائیں
جھپکے پلک کسی سے تو آنکھیں نکالیے
بڑھ کر ہٹیں جو پانوں تو سر کاٹ ڈالیے
20
کہتے تھے مسکرا کے یہ زینب کے دونوں لال
کھلتے ہیں خود دلیروں کے جوہر دمِ جدال
ہر وقت چاہیے مددِ شیر ذو الجلال
نعرے ابھی کریں تو ہلے عرصۂ قتال
اتری ہے تیغ جن کے لیے وہ دلیر ہیں
ہم سب کو جانتے ہیں کہ شیروں کے شیر ہیں
21
یہ چہچہے جو کرتے تھے باہم وہ گلعذار
شپیر دیکھتے تھے کنکھیوں سے بار بار
پاس آ کے عرض کرتے تھے عباسِ نامدار
سنتے ہیں آپ کہتے ہٰن جو کچھ یہ جاں نثار
جرأت ٹپک رہی ہے ہر اک کے کلام سے
یہ نیمچے رکیں گے بھلا فوجِ شام سے
22
یہ سن یہ زور شور یہ عمریں یہ آن بان
یہ بھولے بھولے منہ پہ جواں مرد یا ں یہ شان
باتیں رجز سے کم نہیں اللہ رے خوش بیان
چلتی ہے ذوالفقار علی کی طرح زبان
کس دبدبے سے کاندھوں پہ نیزے سنبھالے ہیں
گویا چلن لڑائی کا سب دیکھے بھالے ہیں
23
زینب کے لاڈلوں کی طرف دیکھیے حضور
مثلِ عرق ٹپکتا ہے پیشانیوں سے نور
رخ پر جلال شیر خدا کا ہے سب ظہور
پر تو گلوں کا ہے کہ چمکتی ہے برقِ طور
دونوں میں صاف حیدر و جعفر کے طور ہیں
اللہ کی پناہ یہ تیوری ہی اور ہیں
24
یہ ذکر تھا کہ بجنے لگا طبل اس طرف
مشکل کشائی کی فوج نے باندھی ادھر بھی صف
تیروں نے رخ کیا سوئے ابنِ شہ نجف
سینوں کو غازیوں نے ادھر کر دیا ہدف
تھا بسکہ شوقِ جنگ ہر اک رشکِ ماہ کو
جوش آ گیا وغا کا حسینی سپاہ کو
25
غصے سے آفتاب ہوئے مہ وشوں کے رنگ
فوجوں پہ جا پڑیں یہ دلوں کی ہوئی امنگ
تن تن کے برچھیاں جو سنبھالیں برائے جنگ
بے چین ہو گئے فرسِ ابلق و سرنگ
پاسِ ادب سے شاہ کے صف بڑھ کے تھم گئی
پٹری ہر اک سوار کی گھوڑے پہ جم گئی
26
تنتا ہوا بڑھا کوئی قبضے کو چوم کے
بھالا کسی نے رکھ لیا کاندھے پہ جھوم کے
بولا کوئی یہ غول ہیں کیا شام و روم کے
ٹکڑے اڑائیں گے عمر و شمر شوم کے
نامرد ہیں جو آنکھ چراتے ہیں مرد سے
دونوں کو چار کر کے پھریں گے نبرد سے
27
دو لاکھ سے نظر کسی غازی کی لڑ گئی
بل کھا کے رخ پہ زلف کسی کی اکڑ گئی
چتون کسی کی شورِ دہل سے بگڑ گئی
منہ سرخ ہو گیا شکن آبرو پہ پڑ گئی
نکلا کوئی سمند کو رانوں میں داب کے
غصے سے رہ گیا کوئی ہونٹوں کو چاب کے
28
بڑھ کر کسی نے تیر ملایا کمان سے
نیزہ کوئی ہلانے لگا آن بان سے
نعرہ کسی کا پار ہوا آسمان سے
تلوار کھینچ لی کسی صفدر نے میان سے
ایک شور تھا کہ تلخ کیا ہے حیات کو
لاشوں سے چل کے پاٹ دو نہرِ فرات کو
29
سنتے ہی یہ کلام جو انانِ نام ور
لڑکے الگ کھڑے ہوئے غول اپنا باندھ کر
کہتے تھے نیمچے لیے وہ غیرتِ قمر
یارب شکست کوفیوں کو دے ہمیں ظفر
سر کے نہ پھر وغا میں جو بڑھ کے قدم گڑے
جاکر درِ یزید پہ اپنا علم گڑے
30
عباس شہ سے کہتے تھے بپھرے ہوئے ہیں شیر
تیر اس طرف سے آ چکے اب کس لیے ہے دیر
دو دن کی بھوک پیاس میں ہیں زندگی سے سیر
مولا غلام سے کہیں رکنے کے یہ دلیر
پاسِ ادب سے غیظ کو ٹالے ہوئے ہیں یہ
شیر خدا کی گود کے پالے ہوئے ہیں یہ
31
کس کو ہٹائے کس کو سنبھالے یہ جاں نثار
مرنے پہ ایک دل ہیں بہتر وفا شعار
ہے مصلحت کو دیجیے اب اذن کار زار
ایسا نہ ہو کہ جا پڑیں شکر پہ ایک بار
برہم ہیں سر کشی پہ سوارانِ شام کی
اکبر کی بات مانتے ہیں نہ غلام کی
32
جب روکتا ہوں میں انہیں اے آسماں سریر
کہتے ہیں کیوں امام کی جانب لگائے تیر
باندھے ہے سر کشی پہ کمر لشکرِ شریر
ہنگام جنگ شیر کے بچے ہوں گوشہ گیر
کس قہر کی نظر سے لعینوں کو تکتے ہیں
بچوں کو ہے یہ غیظ کہ آنسو ٹپکتے ہیں
33
اک اک جری کو تشنہ جرأت کا جوش ہے
عالم ہے بے خودی کا پہ مرنے کا ہوش ہے
ہر صف میں یا علی ولی کا خروش ہے
کہتے ہیں بار بار کہ سر بارِ دوش ہے
مشتاق ہیں وہ پیاس میں تیغوں کے گھاٹ کے
ڈر ہے کہ مر نہ جائیں گلے کاٹ کاٹ کے
34
حسرت سے کی سوئے رفقا شاہ نے نظر
بولے حبیب نذر کو حاضر ہیں سب کے سر
فرمایا شہ نے ہم بھی ہیں آمادۂ سفر
اچھا بڑھے جہاد کو ایک ایک نام ور
یہ راہِ حق ہے جو قدم آگے بڑھائے گا
دربارِ مصطفی میں وہی پہلے جائے گا
35
مژدہ یہ سن کے شاد ہوئے غازیانِ دیں
اک اک دلیر جانے لگا سوئے فوج کیں
جب نعرہ زن ہوئے صفتِ شیر خشمگیں
تھرائے آسماں کے طبق ہل گئی زمیں
برپا تھا شورِ حشر دلیروں کی حرب سے
فوجیں تو کیا جہاں تہہ و بالا تھا ضرب سے
36
اللہ رے جہاد حبیب و زہیرقین
گویا بپا تھا معرکۂ خندق و حنین
جب مر گئے وہ عاشقِ سلطان مشرقین
مقتل میں پیٹتے ہوئے دوڑے گئے حسین
یوں جاکے روئے ان کے تنِ پاش پاش پر
جس طرح بھائی روتا ہے بھائی کی لاش پر
37
خالی ہوا قدیم رفیقوں کا جب پرا
کانپا سپہر شہ نے دمِ سردیوں بھرا
کٹنے لگا عزیزوں کا بھی جب چمن ہرا
گہ روئے آپ ہاتھ جگر پر کبھی دھرا
لڑکے جو یک بہ یک کئی ہاتھوں سے کھو گئے
ٹکڑے حسن کی طرح کلیجے کے ہو گئے
38
تھی قہر حق عقیل کے پوتوں کی کارزار
شمشیر حیدری کا نمونہ تھے جن کے وار
عزت عرب کی رکھ گئے جعفر کے یادگار
تھے تین چار شیر کہ جھپٹے سوئے شکار
فتح و ظفر تھی مثلِ علی اختیار میں
پنجے میں تھا وہی جسے تاکا ہزار میں
39
نکلے برادران علمدارِ صف شکن
دکھلا دیے علی کی لڑائی کے سب چلن
بے سر تھے مورچوں میں جوانانِ پیل تن
لاشوں پہ لاشیں گرتی تھیں پڑتا تھارن پہ رن
آنکھوں میں پھر رہی تھی چمک زوالفقار کی
عباس داد دیتے تھے ایک ایک دار کی
40
تھا چھوٹے بھائیوں کے لیے مضطرب جو دل
گہ شہ کے پاس تھے کبھی لشکر کے متصل
نعرہ یہ تھا کہ شیر ہے ماں کا تمہیں بحل
شیرو رکے نہ ہاتھ بدن گو ہے مضمحل
یہ وقتِ آبرو ہے بڑی جد و کد کرو
ہاں بھائیو امام کی اپنے مدد کرو
41
الٹو پروں کو بڑھ کے صفوں کو بچھا کے آؤ
ساحل کے پاس خون کا دریا بہا کے آؤ
جب باگ اٹھاؤ فوج کے اس پار جا کے آؤ
یا مر کے آؤ یا انہیں رن سے بھگا کے آؤ
ہاں صفدر و نشاں نہ رہے فوجِ شام کا
بیٹوں کو پاس چاہیے بابا کے نام کا
42
رہ کر حسین کہتے تھے بھائی سے دم بہ دم
دولت پدر کی لٹتی ہے اور دیکھتے ہیں ہم
جینے نہ دے گا آہ ہمیں بھایئوں کا غم
عباس عرض کرتے تھے اے قبلۂ امم
اب باپ کی جگہ شہ عالی مقام ہیں
صدقے نہ کس طرح ہوں کہ ہم سب غلام ہیں
43
بے جاں ہوئے جو راہِ خدا میں دو شیرِ نر
حضرت ضعیف ہو گئے خم ہو گئی کمر
ماتم میں تھے کہ موت نے لوٹا حسن کاگھر
اک دم میں قتل ہو گئے دونوں جواں پسر
سب چل بسے نبی و علی پاس رہ گئے
ستر دو تن میں اکبر و عباس رہ گئے
44
آیا نظر جو لاشۂ نوشاہِ نیک خو
اکبر کی چشمِ تر سے ٹپکنے لگا لہو
کی غیظ کی نظر طربِ لشکرِ عدو
پہلے سے آئے روتے ہوئے شہ کے روبرو
نکلی یہ بات جوشِ بکا میں زبان سے
قاسم کے ساتھ جائیں گے ہم بھی جہان سے
45
بچپن سے ہم سے یہ نہ ہوئے تھے کبھی جدا
سوئے تو ایک فرش یہ کھیلے تو ایک جا
طفلی کا ساتھ چھوٹ گیا وامصیبتا
مرجائے ایسا بھائی تو جینے کا لطف کیا
حسرت یہ ہے کہ تیغوں سے تن پاش پاش ہو
پہلو میں ابنِ عم کے ہماری بھی لاش ہو
46
شہ نے کہا کہ سچ ہے یہ ایسا ہی ہے الم
خالق جہاں میں بھائی کا بھائی کو دے نہ غم
بازو کا ٹوٹنا اجل آنے سے کیا ہے کم
مر مر کے غم میں بھائی حسن کے جیے ہیں ہم
تازہ تھا غم پدر کا خوشی دل سے فوت تھی
عباسِ نامدار نہ ہوتے تو موت تھی
47
بھائی کے بعد ان سے ملی لذتِ حیات
بے کس کے غم گسار تھے یہ یا خدا کی ذات
خالی نہ پائی مہرو مروت سے کوئی بات
سویا جو میں تو ان کو کٹی جاگنے میں رات
صدمے بھلائے دل سے حسن کی جدائی کے
رونے نہیں دیا مجھے ماتم میں بھائی کے
48
ہے ان کے اتحاد کا سب سے جدا مزا
بیٹے کا لطف بھائی کاحظ باپ کا مزا
ملتا ہے بات بات میں ہر دم نیا مزا
اوجھل یہ آنکھ سے ہوں تو جینے کا کیا مزا
قائم رکھے خدا کہ علی کے نشان ہیں
مالک یہی ہیں گھر کے یہی تن کی جان ہیں
49
قوت جگر کی تم ہو تو یہ بازوؤں کا زور
بچھڑا جو دو میں ایک تو پھر میں کنار گور
ہوتا ہے زخمِ دل پہ نمک آنسوؤں کا شور
جب پتلیاں جدا ہوں تو چشمِ بشر ہے کور
تم پہلوؤں میں تھے جو یہ بے کس سنبھل گیا
پھر خاتمہ ہے جسم سے جب دم نکل گیا
50
ان سے نشان علی کا ہے تم سے ہمارا نام
گھر ہٹ گیا نبی کا جو دونوں ہوئے تمام
میت کے دفن کا بھی مقدم ہے انتظام
مرنے کے بعد کوئی توآئے ہمارے کام
تربت پہ تم سے گل ہوں تو دل باغ باغ ہو
اندھیر ہے جو قبر پدر بے چراغ ہو
51
کیجو نہ ذکر ہجر پہ صدمہ ہے دل خراش
بہرِ پدر کرو کفن و گور کی تلاش
ہوگا یہ جسم ظلم کی تیغوں سے پاش پاش
دو شخص چاہیے کہ اٹھائیں ہماری لاش
رونے کوکوئی دوست نہ یارو سرہانے ہو
فرزند پائینتی ہو برادر سرہانے ہو
52
اکبر نے سن کے باپ سے یہ اشکِ خوں بہائے
عباس بول اٹھے نہ خدا وہ گھڑی دکھائے
ہے زندگی یہی کہ ہمیں پہلے موت آئے
خاک اس غلام پر کہ جو آقا کی لاش اٹھائے
دستِ قوی ہیں نیزہ وصمصام کے لیے
پائیں ہیں کیا یہ ہاتھ اسی کام کے لیے
53
بس گر پڑا یہ کہہ کے قدم پر وہ باوفا
جھک کر کہا حسین نے بھائی یہ کیا کیا
قاسم کا ذکر کرتے تھے ہم شکلِ مصطفی
باتیں تو ان سے تھٰں تمہیں کیوں غیظ آ گیا
ہم تم تو ساتھ گلشنِ ہستی سے جائیں گے
اچھا ہماری لاش کو اکبر اٹھائیں گے
54
اٹھے قدم سے آپ کی الفت کے میں نثار
غصے میں بھول جاتے ہو بھیا ہمارا پیار
آنکھیں قدم پر مل کے یہ بولا وہ نام دار
بے اذن جنگ سر نہ اٹھائیں گا خاکسار
ایسا نہ ہوں خجل ہوں رسالت مآب سے
پہلے مروں گا اکبرِ عالی جناب سے
55
صدقہ علی کی روح کا اکبر کو رو کیے
دے کر قسم شبیہ پیمبر کو روکیے
نورِ نگاہِ بانوئے بے پر کو روکیے
اے آفتابِ دیں مہِ انور کو روکیے
پہلے رضا ملے تو بہت نیک نام ہوں
آقا یہ شاہزادہ ہے اور میں غلام ہوں
56
شہ نے کہا کہ سر تو قدم سے اٹھائیے
لیجے رضائے جنگ نہ آنسو بہائیے
فرقت میں ہم مریں کہ جئیں خیر جائیے
اپنی سکینۂ جان سے جاکر مل آئیے
زوجہ کو پیٹتے ہوئے سر دیکھ لیجیے
بچوں کو اور ایک نظر دیکھ لیجیے
57
عباس شہ کے گرد پھرے آٹھ کے سات بار
بھائی کو گھر میں لے کےچلے شاہِ ذی وقار
بولا یہ پیک شاطر فوجِ ستم شعار
لو اذن جنگ پا چکے عباس نام دار
خود دیکھ کر یہ حال پھرا ہوں میں راہ سے
ملنے گئے ہیں خیمے میں ناموسِ شاہ سے
58
تھے آگے آگے ہاتھوں سے تھامے کمر امام
نعرہ یہ دم بہ دم تھا کہ اب ہم ہوئے تمام
تیغوں سے گھاٹ روک لو آیا وہ نیک نام
اب معرکہ ہے قبر کا اے ساکنانِ شام
دیکھو بچے رہو کہ لڑائی ہے شیر سے
چھوٹے گی مشکلوں میں ترائی دلیر سے
59
دل مل گئے سپاہ کے سنتے ہی یہ خبر
کانپے مثالِ بید جو انانِ پر جگر
ہل چل میں اس طرف کے پرے ہو گئے ادھر
ساحل سے ہٹ کے نہر پکاری کہ الحذر
پیچھے ہٹیں صفیں یہ تلاطم عیاں ہوا
دریا جو باڑھ پر تھا وہ الٹا رواں ہوا
60
ٹوٹے وہ مورچے جو بندھے تھے پۓ جدال
برچھی گری زمیں پہ کسی کی کسی کی ڈھال
اللہ ری ہیبتِ خلفِ شیر ذوالجلال
کانپی زمیں کھڑے ہوئے روئیں تنوں کے بال
منہ زرد ہو کے رہ گیا ہر نوجوان کا
دشتِ نبرد کھیت بنا زعفران کا
61
تھا شش جہت میں غل کہ یہ ہے روزِ انقلاب
الٹے گا اس زمیں کا ورق ابنِ بوتراب
اس شیر پر نہ ہوگی کوئی فوج فتح یاب
بس اب بنائے عالمِ امکاں ہوئی خراب
حملہ غضب ہے بازوئے شاہِ حجاز کا
لنگر نہ ٹو جائے زمیں کے جہاز کا
62
ڈر ہے ہوا تھی ایک طرف گرد اک طرف
بھرتے تھے خیبری بھی دمِ سرد اک طرف
سمٹے ہوئے تھے کوفے کے نامرد اک طرف
تھے رو سیاہ شام کے سب زرد اکطرف
بھاگے تھے نیزہ باز لڑائی کو چھوڑ کے
ضیغم نکل گئے تھے ترائی کو چھوڑ کے
63
تھی ابتری سپاہِ ضلالت شعار میں
اس صف میں تھی وہ صف یہ قطار اس قطار میں
سو بار جو لڑے تھے اکیلے ہزار میں
وہ جائے امن ڈھونڈھتے تھے کارزار میں
چہرے تھے زرد خوف سے حیدر کے لال کے
نامرد منہ چھپائے تھے گھونگھٹ میں ڈھال کے
64
سر کو دہائے فوجِ مخالف تھے بے حواس
کچھ شمر کے قریب تھے کچھ تھے عمرکے پاس
سب کا یہ قول تھا کہ ہوئی زندگی سے یاس
ضرب علی ہے ضربِ علمدارِ حق شناس
طاقت سے ہیں بھرے ہوئے بازو دلیر کے
خیبر کشا کا زور ہے پنجے میں شیر کے
65
اس فوج میں ہے گو یہ تزلزل یہ انتشار
ہتھیار ادھر لگاتے ہیں عباسِ نامدار
مضطر ہیں بیبیاں شہِ والا ہیں بے قرار
بھائی کے منہ کو دیکھ کے روتے ہیں زار زار
بیٹا کھڑا ہے چاک گریباں کیے ہوئے
روتی ہے سوکھی مشک سکینہ لیے ہوئے
66
منہ دیکھتی ہے باپ کا جب وہ بہ چشم تر
کہتے ہیں یہ اشارے سے سلطانِ بحر و بر
لٹتا ہے باپ تم کو سکینہ نہیں خبر
جانے نہ دو چچا کو ہمیں چاہتی ہو گر
آنسو بہا بہا کے نہ پانی کا نام لو
دامن قبا کا ننھے سے ہاتھوں سے تھام لو
67
بھائی کے اضطراب سے زینب کا ہے یہ حال
ڈھلکی ہوئی ہے سر سے روا اور کھلے ہیں بال
عباس سے یہ کہتی ہے رو کر بہ صد ملال
چھوڑو نہ شہ کو اے اسدِ کربیا کے لال
کیا کہتے ہو سکینہ سے منہ موڑ موڑ کے
بھیا کدھر چلے مرے بھائی کو چھوڑ کے
68
دیکھو تو حال سبط رسول فلک اساس
بیٹے کا غم بھتیجے کا ماتم ہجوم یاس
ہے کثرتِ سپاہ میں تنہا وہ حق شناس
قربان جاؤں تم تو رہو بے وطن کے پاس
عاشق ہو دلبرِ اسد ذوالجلال کے
بازو قوی تمہیں سے ہیں زہرا کے لال کے
69
عباس کہتے ہیں کہ نہ جاؤں تو کیا کروں
کیوں کر نہ حق امامِ زماں کا ادا کروں
الٹوں صفیں ہزاروں سے تنہا وغا کروں
یہ سر ہے الیے کہ قدم پر فدا کروں
پہونچا ہے فیض سیدِ خوشخو کے ہاتھ سے
دنیا میں کچھ تو کام ہو بازو کے ہاتھ سے
70
رخصت طلب ہے شاہ سے اکبر سالالہ فام
شہزادہ مرے جائے سلامت رہے غلام
للہ روکیے نہ اب اے خواہر امام
وہ امر کیجیے کہ بڑھے جس سے میرا نام
بیکس ہوں ساتھ ماں نہیں سر پر پدر نہیں
میں آپ کا غلام تو ہوں گو پسر نہیں
71
باتیں یہ سن کے روتی ہیں زینب جھکا کے سر
تھرا رہی ہے زوجہ عباس نام ور
چہرہ تو فق ہے گود میں ہے چاند سا پسر
مانع ہے شرم روتی ہے منہ پھیر پھیر کر
موقع نہ روکنے کا ہے نے بول سکتی ہے
حضرت کے منہ کو نرگسی آنکھوں سے تکتی ہے
72
کہتی ہے رو کے بانوئے عالم سے بار بار
ہم کو تباہ کرتے ہیں عباسِ نام دار
ہے لونڈیوں کے باب میں بی بی کو اختیار
کچھ آپ بولتی نہیں اس وقت میں نثار
کہیے جو روکنے کی کوئی ان کے راہ ہو
اب عنقریب ہے کہ مرا گھر تباہ ہو
73
اکبر کا واسطہ کوئی تدبیر کیجیے
امداد بہرِ حضرتِ شپیر کیجیے
کچھ دل کو ہو قرار وہ تقریر کیجیے
پٹکا وہ باندھتے ہیں نہ تاخیر کیجیے
اک دل ہے میرا اور کئی غم کے تیر ہیں
بی بی میں کیا کروں مرے بچے صغیر ہیں
74
عباس دیکھتے ہیں جو زوجہ کا اضطرار
ہوتا ہے تیر غم جگر ناتواں کے پار
روتے ہیں خود مگر یہ اشار ہے بار بار
شوہر کے غم میں یوں کوئی ہوتا ہے بیقرار
آؤ ادب سے دلبرِ زہرا کے سامنے
روتی ہیں لونڈیاں کہیں آقا کے سامنے
75
کھولا ہے گوندھے بالوں کو صاحب یہ کیا یہ کیا
پیٹو نہ سر کو روتا ہے فرزند مہ لقا
خیرالنسا کے لال پہ ہوتے ہیں ہم فدا
شادی کا ہے مقام کہ ماتم کی ہے یہ جا
ایذا میں صبر صاحب ہمت کا کام ہے
میری بھی آبرو ہے تمہارا بھی نام ہے
76
لو پونچھ ڈالو آنسوؤں کو بہرِ ذو الجلال
دیکھو زیادہ رونے سے ہوگا ہمیں ملال
میر مفارفت کا نہ کیجو کبھی خیال
قائم تمہارے سر پہ رہے فاطمہ کا لال
غم چاہیے نہ آہ و بکا چاہیے تمہیں
شہ کی سلامتی کی دعا چاہیے تمہیں
77
صدقے ہیں ابنِ فاطمہ پر مجھ سے سو غلام
دیکھو نہ روتے دیکھ لیں تم کو کہیں امام
کیا اشکِ خوں بہا کے بگاڑوگی میرا کام
ہم ہاتھ جوڑتے ہیں یہ ہے صبر کا مقام
پوچھیں حضورگر کہ تمہیں کیا قبول ہے
صاحب یہ کہیو تم کہ رنڈاپا قبول ہے
78
دیکھو کہ گھر میں اور بھی رانڈیں ہیں تین چار
آدابِ شہ سے چپ ہیں نہیں کوئی بیقرار
رہ جائے بات کرتے ہیں وہ امرا ہوشیار
دنیا ہے بے ثبات زمانہ ہے بے مدار
کیا کیا نہ تفرقے ہوئے ایک ایک آن میں
صاحب سدا کوئی بھی جیا ہے جہان میں
79
قاسم کو دیکھو جانبِ کبرا کرو نگاہ
گذری جو شب تو صبح کو گھر ہو گیا تباہ
دشمن کو بھی دکھائے نہ اللہ ایسا بیاہ
کیا صابرہ ہے دخترِ شپیر واہ واہ
سہتے ہیں یوں جہاں میں جفارانڈ ہونے کی
آواز بھی بھلا کوئی سنتا ہے رونے کی
80
آفت میں صبر کرتی ہیں اس طرح بیبیاں
ہوتا ہے صابروں کا مصیبت میں امتحاں
جل جائے دل مگر نہ اٹھے آہ کا دھواں
اف کیجیے نہ منہ سے جو پہونچے لبوں پہ جاں
چرچا رہے کہ وقت پہ کیا کام کر گئی
چھوٹی بہو علی کا بڑا نام کر گئی
81
شوہر نے یہ کلام کیے جب بہ چشم تر
چپ ہو گئی وہ صاحب ہمت جھکا کے سر
ہتھیار سج کے حضرتِ عباس نامور
آئے قریب لختِ دل سیدالبشر
صدمے سے رنگِ سبطِ نئی زرد ہو گیا
کانپے یہ دست و پاک بدن سرد ہو گیا
82
جوں جوں قریب آتے تھے عباس نامور
بے تاب تھے حسین سنبھالے ہوئے جگر
کہتے تھے اضطراب میں جھک کر ادھر ادھر
جینے نہ دے گا آہ ہمیں صدمۂ کمر
ہے زیست تلخ فاطمہ کے نورِعین کو
زینب کہاں ہو؟ آ کے سنبھالو حسین کو
83
سب گھر کی بیٹیوں سے کہو میرے پاس آئیں
بانو کہاں ہیں زوجۂ عباس کو بلائیں
گودی میں تشنہ کام سکینہ کو جلد لائیں
کوچ اب جہاں سے ہے ہمیں سب آکے دیکھ جائیں
یہ نوجواں سنبھالے گا جس دم مروں گا میں
عباس سے ہر اک کی سفارش کروں گا میں
84
یہ سن کے ساری بیبیاں آئیں یہ حالِ زار
بولے قدم پہ جھک کے یہ عباسِ نامدار
اے آفتابِ عالمیاں نورِ کردگار
ہل من مبارز ًکا ادھر غل ہے بار بار
ہیں ذرہ پروری کے چلن آفتاب میں
آقا یہ دیر کس لیے خادم کے باب میں
85
لڑکوں نے معرکہ میں کیے اپنے اپنے نام
کیا میں غلامِ خاص نہیں یا شہِ انام
ایسا دن اور بھی کوئی ہوئے گا یا امام
کسا کام کا جو آج نہ کام آئے گا غلام
مشکل ہے ایسے وقت میں رکنا دلیر کا
آخر پسر ہوں شیر الٰہی سے شیر کا
86
ہوتا جو سب سے پہلے فدا خادمِ جناب
خوش ہوتی خاکسار سے روحِ ابوتراب
اب ہوں ہر اک کے آگے خجالت سے آب آب
زہرا سے بھی حجاب ہے شبر سے بھی حجاب
اب بھی نہ تیغ و تیر اگر تن پہ کھاؤں گا
مولا بتائیے کسے پھر منہ دکھاؤں گا
87
ساتھ آپ کے سہوں گا نہ گر قتل کی جفا
مجھ سے رسولِ پاک خوشی ہوں گے یا خفا؟
بیزار کیا نہو ہوگا دلِ شاہ لافتا
پھر فاطمہ کہیں گی مجھے صاحبِ وفا؟
مرنے کا خط نہ جینے کا مطلق مزا رہا
انساں کی آبرو نہ رہی جب تو کیا رہا
88
پالا ہے مجھ کو یاشہ دل گیر آپ نے
کی ہے ہمیشہ پیار سے تقریر آپ نے
بندھوائی ہے کمر سے یہ شمشیر آپ نے
بخشی ہے سب میں عزت و توقیر آپ نے
وقتِ مدد ہے آج بھی امداد کیجیے
بندہ سمجھ کے اب مجھے آزاد کیجیے
89
گردن ہلا کے شہ نے کہا آہ کیا کروں؟
مشکل ہے سخت اے مرے واللہ کیا کروں؟
جینے نہ دے گا یہ غمِ جاں کاہ کیا کروں؟
چھٹتا ہے اب برادرِ ذی جاہ کیا کروں؟
دم بھر کی زندگی مجھے دشوار ہو گئی
سب تو خفا تھے موت بھی بیزار ہو گئی
90
غازی نے رکھ دیا قدم شاہِ دیں پہ سر
بولے گلے لگا کے شہنشاہ بحرو بر
اے تن کی جان اے سبب قوتِ جگر
یوں ہے خوشی تو خیر جہاں سے کرو سفر
بھائی نہ ہو تو بھائی کی مٹی خراب ہے
اچھا تمہارا کوچ مرا پاتر اب ہے
91
روتا ہوا جھکا پے تسلیم وہ جری
سب روئے مشک دوشِ مبارک پہ جب دھری
اک آہِ سرد زوجۂ عباس نے بھری
صدمے سے رنگ زرد تھا اور تن میں تھرتھری
سر سے روا بھی دوش تلک آ کے گر پڑی
بانو کے پاس خاک پہ غش کھا کے گر پڑی
92
نکلا وہ شیر خیمے سے باہر علم لیے
مجرے کو آئی فتح سپاہ حشم لیے
جرأت نے بڑھ کے بوسۂ تیغِ دو دم لیے
نصرت نے چومے ہاتھ ظفر نے قدم لیے
خورشید کا جلال نگاہو سے گر گیا
اقبال سر کے گرد ہما بن کے پھر گیا
93
آیا سجا ہوا وہ سمندبراق سیر
تھا جو فلک پہ اڑنے کو تیار مثلِ طیر
ہوتا تھا اس کے ڈر سے غزالوں کا حال غیر
رن میں سپاہِ شر اسے رو کے تو یہ بخیر
صر صر قدم کی گرد کو پاتی نہیں کبھی
ڈھونڈھے بشر پری نظر آتی نہیں کبھی
94
وہ زیب و زین زین کی وہ ساز وہ پھبن
زیور سے جیسے ہوتی ہے آراستہ دلہن
چشمِ سیاہ دیدۂآہوپہ طعنہ زن
سرعت یہ تھی کہ بھولتے تھے چوکڑی ہرن
جادو تھا معجزہ تھا پری تھی طلسم تھا
پاکھر نہ تھی زرہ میں تہمتن کا جسم تھا
95
رکھا قدم رکاب میں حیدر کے لال نے
نعلین پاک فخر سے چوما ہلال نے
بخشی جو صدرِ زیں کو ضیا خوش جمال نے
دم کو چنور کیا فرس بے مثال نے
کس ناز سے وہ رشکِ غزالِ ختن چلا
طاؤس تھا کہ سیر کو سوئے چمن چلا
96
خوشبو سے ارضِ پاک ریاضِ جناں بنی
گرد اٹھ کے غازۂ رخ لیلیٰ نشاں بنی
جلوے سے راہِ دشتِ بلا کہکشاں بنی
ذرے بنے نجوم زمیں آسماں بنی
سم بدر تھے تو نعل بھی چاروں ہلال تھے
نقشِ سم فرس سے ہزاروں ہلال تھے
97
وہ دبدبہ وہ سطوتِ شاہانہ وہ شباب
تھرا رہا تھا جس کی جلالت سے آفتاب
وہ رعبِ حق کہ شیر کا زہرہ ہو آب آب
صولت میں فرد دفترِ جرأت میں انتخاب
تیور میں سارے طور خدا کے ولی کے ہیں
شوکت پکارتی ہے کہ بیٹے علی کے ہیں
98
پہونچے جو دشتِ کیں میں اڑاتے ہوئے فرس
گھوڑے کو ہاتھ اٹھا کے یہ آواز دی کہ بس
دیکھیں صفیں جمی جو چپ و راس و پیش و پس
نعرہ کیا کہ نہر پہ جانے کی ہے ہوس
روکے گا جو وہ موت کے پنجے میں آئے گا
ہٹ جاؤ سب کہ شیر ترائی میں جائے گا
99
روکے ہمیں نکل کے جو طاقت کسی میں ہو
لے تیغ میان سے جو شجاعت کسی میں ہو
گرمائے رخش کو جو حرارت کسی میں ہو
آئے جو حرب ضرب کی قدرت کسی میں ہو
دو ہاتھ میں علی کے پسر آر پار ہیں
دریا نہیں کہ رک گیا ہم ذوالفقار ہیں
100
تم کیا پہاڑ بیچ میں گر ہو تو ٹال دیں
شیروں کو ہم ترائی سے باہر نکال دیں
مہلت نہ ایک کو دم جنگ و جدال دیں
پانی تو کیا ہے آگ میں گھوڑے کو ڈال دیں
منہ دیکھتے ہیں جو ہیں نگہبان گھاٹ کے
لے جائیں گھر پہ تیغ سے دریا کو کاٹ کے
101
سرکش ہیں سب ہماری زبردستوں سے زیر
دادا شجاع باپ الوالعزم ہم دلیر
جب رن پڑا ہے کردیے ہیں زخمیوں کے ڈھیر
لائے ہیں جا کے آگ سے پانی خدا کے شیر
عفریت بھاگتے ہیں وہ چوٹیں ہماری ہیں
بیر العلم میں کود کے تلواریں ماری ہیں
102
جرأت جلو میں رہتی ہے نصرت رکاب میں
لیتے ہیں گھاٹ پیر کے تیغوں کی آب میں
لکھے ہوئے ہیں شیروں کے حملے کتاب میں
فصلیں ہیں اپنے زور کی خیبر کے باب میں
ناصر ہیں بادشاہ فلک بارگاہ کے
دفتر الٹ دیے ہیں عرب کی سپاہ کے
103
بے مشک کے بھرے ہمیں آتا ہے چین کب
گرمی میں پیاس سے کئی بچے ہیں جاں بلب
اصفر کی گودیوں میں تڑپتے کٹی ہے شب
کیا وقت ہے حسین کے بچوں پہ ہے عضب
لالے پڑے ہوئے ہیں سکینہ کی جان کے
کانٹے مجھے دکھائے تھے سوکھی زبان کے
104
عبرت کی یہ جگہ ہے کہ ہم اورسوالِ آب
سقہ بنے ہیں دیکھ کے بچوں کا اضطراب
اس مشک نے کیا ہمیں عقبیٰ میں کامیاب
اللہ ری آبرو کہ بہشتی ملا خطاب
شہ سے نشانِ فوجِ پیمبر بھی مل گیا
طوبیٰ کے ساتھ چشمہ ٔ کوثر بھی مل گیا
105
یہ ذکر تھا کہ فوج کی جانب سے تیر آئے
نیزے اٹھا کے شیر کے منہ پر شریر آئے
یہ بھی جھپٹ کے مثلِ شہِ قلعہ گیر آئے
گیتی ہلی غضب میں جناب امیر آئے
گھوڑا اڑا پروں کو سواروں کے توڑ کے
لپکی صفوں پہ سیف بھی کاٹھی کو چھوڑ کے
106
آمد تھی تیغ کی کہ اجل کا پیام تھا
یہ صف اخیر تھی وہ رسالہ تمام تھا
بجلی سا ہر جگہ فرس تیز گام تھا
ششدر تھی موت چار طرف قتلِ عام تھا
اس غول پر کبھی تھی کبھی اس قطار پر
پڑتا تھا ایک تیغ کا سایہ ہزار پر
107
وہ تیغ کی چمک وہ تڑپ راہوار کی
رفرف کی اک شبیہ تو اک ذوالفقار کی
شوکت سوار میں شہ دلدل سوار کی
حملوں میں شان سب اسدِ کردگار کی
چتون وہی غضب وہی بے باکیاں وہی
پھرتی وہی جھپٹ وہی چالاکیاں وہی
108
توڑا یہ مورچہ یہ صف الٹی ادھر پھرے
تلوار خوں میں آپ پسینے میں تر پھرے
یوں خاک پہ گرا کے لعینوں کے سر پھرے
جیسے شکار کھیلے ہوئے شیرِ نر پھرے
تھی قہر کی نگاہ غضب کا جلال تھا
آنکھیں بھی سرخ سرخ تھیں چہرہ بھی لال تھا
109
منہ پھر گئے سپاہ کے جس سمت رخ کیا
یاں سے وہاں گئے اسے مارا اسے لیا
باقی رہے ہزار میں سو دس میں ایک جیا
اللہ رے دم لہو پہ لہو تیغ نے پیا
اس پر بھی تشنگی کو نہ تسکیں ذری ہوئی
گو یا تھی آگ پیٹ میں اس کے بھری ہوئی
110
بے شک تھا ان کا ہاتھ امیرِ عرب کا ہاتھ
پہونچا وغا میں سو طرف اک تشنہ لب کا ہاتھ
آئی اجل اٹھا جو کسی بے ادب کا ہاتھ
شیرِ خدا کے شیر نے مارا غضب کا ہاتھ
بازو پہ آئی تیغ دو دم شانہ کاٹ کے
پہنچے کو بھی قلم کیا دستا نہ کاٹ کے
111
چلتا تھا مثلِ برق یمین و یسار ہاتھ
ڈر ڈر کے جوڑتے تھے ضلالت شعار ہاتھ
ان کی نہ ایک ضرب نہ ان کے ہزار ہاتھ
کافی تھے سب کو تیغِ دو دستی کے چار ہاتھ
آواز شش جہت مین بگیروبزن کی تھی
اللہ کا کرم تھا مدد پنجتن کی تھی
112
نعرہ جدا صدائے بگیرِ و برہ جدا
گوشہ کماں سے دور تھے گوشوں سے رہ جدا
بکتر جدا زمین پہ ٹکڑے زرہ جدا
نیزوں کو دیکھیے تو گرہ سے گرہ جدا
اللہ رے فرق گردن وسر بھی بہم نہ تھے
کشتوں کا ذکر کیا ہے کہ تیغوں میں دم نہ تھے
113
جس کی طرف نظر دمِ جنگ و جلد پھری
کچھ ہٹ کے تیغ سے اسی جانب اجل پھری
رہواریوں پھرا کہ اشارے میں کل پھری
تلوار بھی گلوں کی طرف بر محل پھری
ایسے جری سے کس کو مجالِ مصاف تھی
یوں پھر کے صف کی صف کو جو دیکھا تو صاف تھی
114
چل پھر کے کاٹتی تھی وہ تلواریں ہاتھ پاؤں
ڈر سے بڑھا نہ سکتے تھے خونخوار ہاتھ پاؤں
سر بچ گیا تو ہو گئے بیکار ہاتھ پاؤں
چمکی گری تو آٹھ ہوئے چار ہاتھ پاؤں
روحیں پکاریں تیغ پھر آئی نکل چلو
بولی اجل اب اٹھ کے تو پنجوں کے بل چلو
115
تیرے ادھر قلم تو ادھر برچھیاں قلم
ترکش دو نیم ٹکڑے کمانیں نشاں قلم
ہر ہاتھ میں قلم کی طرح استخواں قلم
منہ تیغ کا خراب سناں کی زباں قلم
جب سن سے آئی سر پہ کسی بد خصال کے
گویا سموم چل گئی پھولوں پہ ڈھال کے
116
کی جس نے سر کشی وہی فتنہ فروہوا
ظالم ہزار میں تھا جو یکتاوہ دو ہوا
افشاں لہو سے شیر کا دستِ نکو ہوا
ٹھنڈا وہی تھا جنگ پر سرگرم جو ہوا
تھا خاتمہ سپاہ جہنم مقام کا
شعلے بجھائے دیتا تھا پانی حسام کا
117
وہ تیغ کھول دیتی تھی لوہے کا بھی حصار
تھا اس کے ہاتھ سے دلِ چار آئینہ فگار
آری تھیں منہ پہ تیغوں کے ایسے پڑے تھے دار
خود اپنے سر پٹکتے تھے گر گر کے بار بار
پانی وہ زہر تھا کہ پیا اور فنا ہوا
ہے آج تک زرہ کا کلیجہ چھنا ہوا
118
جاتی تھی ہر سرے کی طرف سن کے بار بار
چڑھ کے سوار گرتے تھے تو سن کے بار بار
اٹھتی تھی الاماں کی صدا رن سے بار بار
ہر سر کا بار اترتا تھا گردن سے بار بار
غارت ہوئے تباہ ہوئے بے تزک ہوئے
ضربِ گراں جو اٹھ نہ سکی کیا سبک ہوئے
119
ثابت رہی نہ ڈھال نہ مغفر نہ سر بچا
سینے میں دل کو کاٹ گئی گر جگر بچا
دو ٹکڑے ہو گیا وہ ادھر جو ادھر بچا
بے زخم کھائے ایک نہ بیداد گر بچا
تلوار سے کوئی کوئی ڈر سے ہلاک تھا
سالم تھا جس کا جسم جگر اس کا چاک تھا
120
سر سے کمر میں تھی تو کمر سے تہ فرس
آفت کا منہ تھا قہر کا دم خم ستم کا کس
کشتے تڑپ رہے تھے چپ و راس پیش و پس
دو تھے اگر تو چار ہوئے پانچ تھے تو دس
غل تھا وہی لڑے جسے سر تن پہ بار ہو
آفت بپا ہے کون اجل سے دو چار ہو
121
غل تھا شرارتوں سے اس آتش زبان کی
پریاں پکارتی تھیں کہ ہو خیر جان کی
دنیا میں شعلہ بار ہے آگ اس جہان کی
بدلی ہوئی ہے آج ہوا آسمان کی
بجلی خجل ہے نازیہ اس شعر خو کے ہیں
بوچھاڑ ہے سروں کی در یڑے لہو کے ہیں
122
جب بڑھ کے سن سے صورتِ تیغ علی چلی
ثابت ہوا کہ ضربتِ دستِ ولی چلی
دل پر خفی چلی تو گلوں پر جلی چلی
تن سے نکل کے روح پکاری چلی چلی
دی تیغ نے صدا کہ ارادہ کدھر کا ہے
چلائی موت چل یہی رستا سقر کا ہے
123
خشکی میں تھی جو آپ تو آتش تری میں تھی
ہم نام ذوالفقار علی صفدری میں تھی
تلوار تھی کہ برق لباس پری میں تھی
بے باک اس لیے تھی کہ دستِ جری میں تھی
خوں بھی اسے حلال دیت بھی معاف تھی
کاٹا تھا سو گلوں کو مگر پاک صاف تھی
124
سارے رسالہ دار تباہی میں پڑ گئے
اب منہ کسے دکھائیں کہ چہرے بگڑ گئے
نامی جو تھے جواں قدم ان کے اکھڑ گئے
بھاگے جو سب نشاں بھی خجالت سے گڑ گئے
علموں کے پاس ڈھیرے پھریروں کے رن میں تھے
ریتی پہ بیرقیں تھیں کہ مردے کفن میں تھے
125
پہنے ہوئے تھے جسم میں زر ہیں جو چست چست
چوٹیں کڑی پڑیں تو ہوئے وہ بھی سخت سست
خوفِ اجل سے بھول گئے وعدۂ نخست
ٹوٹی صفوں میں ہاتھ کسی کے نہ تھے درست
اک شور تھا کہ جان گئی اس لڑائی میں
گھوڑے بھگاؤ آگ لگی ہے ترائی میں
138
گھیرے تھے ایک جان کو دو لاکھ اہلِ شہر
ٹھہرے کہاں قرار کہاں لیں تھمیں کدھر
چھاتی کے پاس برچھیاں تیغیں قریبِ سر
پہلو میں اس طرف تو سنائیں ادھر تبر
ملتی نہ تھی اماں سپہ تیرہ بخت سے
گوشوں سے تیر چلتے تھے پتھر درخت سے
139
جب مشک کی طرف کوئی آتا تھا سن سے تیر
کہتے تھے یا حفیظ کبھی گاہ یا قدیر
چلا رہا تھا شمر جفا پیشہ و شریر
جانے نہ پائے لختِ دلِ شاہ قلعہ گیر
رخ اس جری کا خیمہ کی جانب سے موڑ دو
ہاں برچھیوں سے شیر کے سینہ کو توڑ دو
140
سن کر زباں درازیِ شہرِ ستم شعار
عباس مثلِ شیر جھپٹتے تھے بار بار
تلواریں سیکڑوں تھیں ہزاروں تھے نیزہ دار
توڑی اگر یہ صف تو جمی دوسری قطار
تنہا سنبھالے مشک و علم یاوغا کرے
بلوہ ہو ساری فوج کا جس پر وہ کیا کرے
141
مشہور ہے کہ ایک پہ بھاری ہیں دو بشر
در پے تھے اک جواں کے لیے لاکھ اہلِ شر
کھائے ادھر سے زخم جو کی اس طرف نظر
کس کس کا وار رد کریں دیکھیں کدھر کدھر
جب دم لیا تو سینہ پہ سو تیر چل گئے
پہلو کو توڑ توڑ کے نیزے نکل گئے
142
سینہ سپر تھے مشک پہ رو کے ہوئے تھے ڈھال
لڑنے میں بھی حسین کے بچوں کا تھا خیال
کہتا تھا ڈگمگا کے فرس پردہ خوش خصال
فرزند کو سنبھالیے یا شیرِ ذوالجلال
جا پہنچوں مشک لے کے جو تھوڑی سی راہ ہو
ایسا نہ ہو کہ پیاسوں کی کشتی تباہ ہو
143
یہ کہتے تھے کہ ٹوٹ پڑا لشکرِ کثیر
بس چور ہو گیا پسرِ شاہ قلعہ گیر
آکر لگا میان دوا ابرو جو ایک تیر
تیور اگیا علی ٔولی کا مہ منیر
چھوٹی جو باگ پاؤں فرس کے بھی رک گئے
پھیلا کے ہاتھ مشک سکینہ پہ جھک گئے
144
اب یاں تو خاتمہ ہے سنو اس طرف کا حال
ڈیوڑھی پہ ننگے سر ہے رسولِ خدا کا لال
غم سے کمر جھکی ہوئی رخ زرد جی نڈھال
یہ کرب ہے کہ ہوتا ہے جو وقتِ انتقال
گر گر اٹھے تڑپ کے ادھر سےادھر گئے
جب آہ کی تو سب نے یہ جانا کہ مر گئے
145
فریاد کر کے دل کبھی تھا ما جگر کبھی
پکڑی طناب خیمے کی گہ اور کمر کبھی
گھبرا کے پیارے بھائی کو پوچھی خبر کبھی
روئے پسر کی دوش پہ رکھ کھر کے سر کبھی
کی آہ سامنے کبھی زہرا کی جائی کے
رو کر کبھی لپٹ گئے بیٹے سے بھائی کے
146
فرماتے تھے کراہ کے اکبر سے بار بار
شانے دباؤ اے علی اکبر پدر نثار
کیسا یہ درد ہے کہ جگر کو نہیں قرار
بازو کا زور لے گئے عباسِ نامدار
واحسرتا کہ بے کس و بے یار ہو گئے
سر پیٹیں کس سے ہاتھ تو بیکار ہو گئے
147
چلاتے تھے کہ جانِ بر ادربس اب پھر آؤ
پہونچا ہے دم لبوں پہ ہمٰیں آ کے دیکھ جاؤ
بھیا خدا کے واسطے اب برچھیاں نہ کھاؤ
عباس ہم اخیر ہیں تشریف جلد لاؤ
پیاری تمہاری ننھے سے ہاتھوں کو ملتی ہے
اب تم کو ڈھونڈھنے کو سکینہ نکلتی ہے
148
حضرت تو پیٹتے ہیں یہ کہہ کر بہ صد ملال
خیمے میں غش ہے زوجہ عباسِ خوش خصال
ڈیوڑھی پہ اہلِ بیت ہیں سب کھولے سر کے بال
پردے سے منہ نکالے ہیں اطفالِ خورد سال
لب ان کے اودے اودے ہیں منہ گورے گورے ہیں
آنکھوں میں اشک ہاتھوں میں خالی کٹورے ہیں
149
کہتے ہیں سب لبوں پہ زبانوں کو پھیر کر
اب پانی لے کے آتے ہیں عباس نام ور
حضرت سے پوچھتی ہے سکینہ بہ چشمِ تر
میرے چچا کب آئیں گے یا شاہِ بحر و بر
کیا میں سفر کروں گی جہاں سے تب آئیں گے
بہلاتے ہیں حسین کہ بی بی اب آئیں گے
150
گھیرے ہیں لاکھ ان کو ستمگار ہائے ہائے
مانگو دعا کہ بھائی کو میرے خدا بچائے
وہ کہتی ہے میں پانی سے گذری نہ مشک آئے
ہے ہے بس اب چچا کو مرے کوئی پھیر لائے
رکھے خدا جہاں میں علی کی نشانی کو
میں کیا کروں گی آگ لگے ایسے پانی کو
151
یہ ذکر تھا کہ فتح کے باجے بجے ادھر
تڑپے زمیں پہ گر کے شہنشاہِ بحر و بر
چلائے بڑھکے فوج سے دو چار اہلِ شر
حضرت کہاں ہیں مر گئے عباسِ نامور
کیا کیا چلی ہیں تیغوں پہ تیغیں لڑائی میں
وہ زخم کھائے شیر پڑا ہے ترائی میں
152
افشاں ہیں سر کے خون کی چھینٹوں سے سب نشاں
عباس کانپ جاتے تھے جھکتا تھا جب نشاں
نام آوروں نے آج مٹایا عجب نشاں
کیوں اے حسین کون اٹھائے گا اب نشاں
لاش ان کی پائمال ہوئی زخم پھٹ گئے
جن میں علی کا زور تھا وہ ہاتھ کٹ گئے
153
آئی صدا یہ نہر کی جانب سے ایک بار
آقا تمام ہوتا ہے یہ عبدِ جاں نثار
تن سے نکل کے آنکھوں میں اٹکی ہے جانِ زار
اب ہے فقط حضور کے آنے کا انتظار
بابا کے ساتھ خلد سے تشریف لائی ہیں
حضرت کی والدہ مرے لینے کو آئی ہیں
154
شہ دوڑ کر پکارے کہ آتا ہوں بھائی جان
گھر لٹ گیا ہے خاک اڑاتا ہوں بھائی جان
طاقت بدن مین اب نہیں پاتا ہوں بھائی جان
اک اک قدم پہ ٹھوکریں کھاتا ہوں بھائی جان
دستِ شکستہ بیٹے کی گردن میں ڈالے ہیں
بھیا ہمیں تو اکبر مہ رو سنبھالے ہیں
155
دیکھا جو در سے بنتِ علی نے یہ شہ کا حال
ڈیوڑھی سے نکلی چند قدم کھولے سر کے بال
چلاتی کون قتل ہوا اے علی کے لال
مڑ کر کہا حسین نے عباس خوش خصال
دریا پہ فوجِ شام نے مارا دلیر کو
زینب اجل نے چھین لیا میرے شیر کو
156
خورشید مشرقین زمانے سے اٹھ گیا
سید کا نور عین زمانے نے سے اٹھ گیا
وہ عاشقِ حسین زمانے سے اٹھ گیا
زینب ہمارا چین زمانے سے اٹھ گیا
آتا نہیں قرار دلِ بے قرار کو
دریا پہ روئے جاتے ہیں خدمت گزار کو
157
اکبر کو ہاتھ اٹھا کے پکاری وہ سوگوار
ہے ہے حسین ہو گئے بے یار و غم گسار
ماتم جوان بھائی کا ہے تم پہ میں نثار
اکبر خدا کے واسطے بابا سے ہوشیار
گرنے لگیں تو حیدرِ صفدر کا نام لو
بیٹا پدر کے ہاتھ کو مضبوط تھام لو
158
اکبر پدر کو تھامے ہوئے نہر پر جولائے
غلطاں لہو میں بازوئے سرور کے ہاتھ پائے
چلائے شاہ لاش کدھر ہے کوئی بتائے
فرق آگیا ہماری بصارت میں ہائے ہائے
رو لیں گلے لگا کے تنِ پاش پاش کو
اکبر ہمیں دکھا دو برادر کی لاش کو
159
اکبر نے شہ کے ہاتھ پکڑ کر بہ صد بکا
رکھے چچا کے سینے پہ اور رو کے یہ کہا
لیجے یہی ہے لاشِ علمدار باوفا
چلائے جھک کے لاش پہ سلطانِ کربلا
ٹوٹی ہوئی کمر ہے سنبھالو حسین کو
بھیا ذرا گلے سے لگالو حسین کو
160
عباس ہاتھ کٹ گئے شانوں سے ہے غضب
ریتی پہ دو طرف یہ تمہارا لہو ہے سب
لوٹا ہمیں رسول کی امت نے بے سبب
بھیا ہماری جان نکلتی ہے تن سے اب
مر جائیں گے جلا دو ہمیں منہ سے بول کر
دو باتیں کر لو بھائی سے آنکھوں کو کھول کر
161
کیوں خاک پر دھرے ہو یہ رخسار خوں میں تر
آؤ ہم اپنے زانو پہ رکھیں تمہارا سر
لیتے ہو کیوں کراہ کے کروٹ ادھر ادھر
ثابت ہوا کہ جلد ہے دنیا سے آب سفر
ہے ہے دلیلِ مرگ ہے لکنت زبان کی
ہچکی نہیں یہ جسم سے رخصت ہے جان کی
162
غش میں سنی جو گریۂ شپیر کی صدا
چونکے تڑپ کے حضرتِ عباس باوفا
آہستگی پہ عرض کہ اے سبطِ مصطفا
اس پیار کے نثار اس الطاف کے فدا
زیبا ہے نکلے جان اگر پیشوائی کو
گویا رسول آئے ہیں مشکل کشائی کو
163
یہ کہہ کے روئے شہ کی طرف کی نظر بہ غور
جھ کر پکارے شاہ کہ بھیا کہو کچھ اور
تڑپا قدم پہ شہ کے وہ مقتولِ ظلم و جور
لیں ہچکیاں بگڑنے لگے تیوروں کے طور
پتھرا کے چشمِ اشک فشاں بند ہو گی
تھرا ئے دونوں ہونٹ زباں بند ہو گئیں
164
اکبر نے عرض کی کہ چچا جان مر گئے
جھک کر پکارے شاہ کے بھیا کدھر گئے
منہ تو اٹھاؤ خاک سے رخسار بھر گئے
واحسر تا حسین کو بے آس کر گئے
اب کون دے گا دکھ میں نبی کے پسر کا ساتھ
دم بھر میں تم نے چھوڑ دیا عمر بھر کا ساتھ
165
ہاں روؤ مومنو یہ بکا کا مقام ہے
تم میں شریک روحِ رسولِ انام ہے
اب رخصتِ حسین علیہ السلام ہے
تاریخ آٹھویں ہے محرم تمام ہے
موت آئی تو شریکِ عزا کون ہوئے گا؟
جو سال بھر جیے گا وہ پھر شہ کو روئے گا
166
آگے تمہارے مرتے جو عباس با وفا
پرسا نہ دیتے سبط رسولِ خدا کو کیا
تم سب کو دیکتے ہیں شنہشاہِ کربلا
زہرا بھی ننگے سر ہیں قیامت کرو بپا
سمجھو شریکِ بزمِ شہِ مشرقین کو
دے لو جوان بھائی کا پرسا حسین کو
167
پیٹو سروں کو ہوتا ہے اب مرثیہ تمام
لپٹو ضریح پاک سے کہہ کہہ کے یا امام
رخصت طلب ہے باپ سے اکبر سا لالہ فام
خاموش ہیں حسین نہیں کرتے کچھ کلام
مقتول ظلم و جور ہے اب رن میں فاطمہ
ہوتا ہے پنجتن میں کوئی دم میں خاتمہ
168
بس اے انیسؔ روک لے اب خامہ کی عناں
یہ غم ہے جاں گزا نہ کبھی ہوئے گا بیاں
آنکھوں سے سامعین کے بھی اشک ہیں رواں
خالق سے عرض کر کہ اے خلاقِ انس و جاں
آنکھوں سے مس کروں میں مزار بتول کو
دکھلا دے جلد مرقد سبطِ رسول کو
- meer-anees
جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے بسوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
جلوہ کیاسحر کے رخِ بے حجاب نے
دیکھا سوئے فلک شہ گردوں رکاب نے
مڑ کر صدا رفیقوں کو دی اس جناب نے
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اٹھو فریضۂ سحریٰ کو ادا کرو
ہاں غازیو یہ دن ہے جدال و قتال کا
یاں خوں بہے گا آج محمد کی آل کا
پرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گذری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ہم وہ ہیں غم کریں گے ملک جن کے واسطے
راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے
یہ صبح ہے وہ صبح مبارک ہے جس کی شام
یاں سے ہوا جو کوچ تو ہے خلد میں مقام
کوثر پہ آبرو سے پہونچ جائیں تشنہ کام
لکھے خدا نماز گزاروں ممیں سب کے نام
سب ہیں وحیدِ عصر یہ غل چار سو اٹھے
دنیا سے جو شہید اٹھے سرخرو اٹھے
یہ سن کے بستروں سے اٹھے وہ خدا شناس
اک اک نے زیبِ جسم کیا فاخرہ لباس
شانے محاسنوں میں کیے سب نے بے ہراس
باندھے عمامہ آئے امامِ زماں کے پاس
رنگیں عبائین دوش پہ کمریں کسے ہوے
مشک و زبا دو عرت میں کپڑے بسے ہوئے
سوکھے بسوں پہ حمدِ الٰہی رخوں پہ نور
خوف و ہراس رنج و کدورت دلوں سے دور
فیاض حق شناس اولو العزم ذی شعور
خوش فکر و بزلہ سنج و ہنر پرور و غیور
کانوں کو حسنِ صوت سے حظ برملا ملے
باتوں میں وہ نمک کہ دلوں کو مزا ملے
ساونت برد بار فلک مرتبت دلیر
عالی منش سبا میں سلیماں وغا میں شہ
گرداں دہر ان کی زبردستیوں سے زیر
فاقے سے تین دن کے مگر زندگی سے سیہ
دنیا کو ہیچ پوچ سراپا سمجھتے ہیں
دریا دلی سے بحر کو قطرا سمجھتے ہیں
تقریر میں وہ رمز کنایہ کہ لاجواب
نکتہ بھی منہ سے گر کوئی نکلا تو انتخاب
گویا دہن کتابِ بلاغت کا ایک باب
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
لہجوں پہ شاعران عبر تھے مرے ہوئے
پستے بسوں کے وہ کہ نمک سے بھرے ہوئے
لب پر ہنسی گلوں سے زیادہ شگفتہ رو
پیدا تنوں س پیرہن یوسفی کی بو
غلماں کے دل میں جن کی غلامی کی آرزو
پرہیز گار زاہدِ ابرار و نیک خو
پتھر میں ایسے لعل صدف میں گہر نہیں
روں کا قول تھا کہ ملک ہیں بشر نہیں
پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب
پر تھی رخوں پہ خاکِ تمیم سے طرفہ آب
باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب
ہوتے ہیں خاکسار غلامِ ابوتراب
مہتاب سے رخوں کی صفا اور ہو گئی
مٹی یس آئتوں میں جلا اور ہو گئی
خیمے سے نکلے شہ کے عزیزاں خوش خصال
جن میں کئی تھے حضرتِ خیر النسا کے لال
قاسم سا گلبدن علی اکبر سا خوش جمال
اک جا عقیل و مسلم و جعفر کے نونہال
سب کے رخوں کا نور سپہر بریں پہ تھا
اٹھارہ آفتابوں کا غنچہ زمیں پہ تھا
ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک
شرمائے جس سے اطلسِ زنگاریِ فلک
وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک
ہر برگِ گل پہ قطرہ شبنم کی وہ جھلک
ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے
قرباں صنعتِ قلم آفریدگار
تھی ہر ورق پہ صنعتِ ترصیع آشکار
عاجز ہے فکرت شعرائے ہند شعار
ان صنعتوں کو پائے کہاں عقلِ سادہ کار
عالم تھا محو قدرت رب عباد پر
مینا کیا تھا وادیِ مینو سواد پر
وہ نور اور وہ دشت سہانا وہ فضا
دراج و کیک و تیہود طاؤس کی صدا
وہ جوشِ گل وہ نالۂ مرغانِ خوش نوا
سردی جگر کو بخشی تھی صبح کی ہوا
پھولوں سے سبز سبز شجر سرخ پوش تھے
تھا لے بھی نخل کے سبدِ گل فروش تھے
وہ دشت وہ نسیم کے جھونکے وہ سبزہ زار
پھولوں پہ جابجا وہ گہرہائے آبدار
اٹھتا وہ جھوم جوھم کے شاخوں کا باربار
بالائے نخل ایک جو بلبل تو گل ہزار
خواہاں تھے زہرا گلشن زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم
کو کو کا شور نالۂ حق سرہ کی دھوم
سبحان رہنا کی صدا تھی علی العموم
جاری تھے وہ جو ان کی عبادت کے تھے رسوم
کچھ گل فقط نہ کرتے تھے رب علا کی حمد
ہر خار کو بھی نوکِ زباں تھی خدا کی حمد
چیونٹی بھی ہاتھ اٹھا کے یہ کہتی تھی بار بار
اے دانہ کش ضعیفوں کے رازق ترے نثار
یا حی یاقدیر کی تھی ہر طرف پکار
تہلیل تھی کہیں کہیں تسبیح کردگار
طائر ہوا میں محو ہنر سبزہ زار میں
جنگل کے شیر گونج رہے تھے کچھار میں
کانٹوں میں اک طرف تھے ریاضِ نبی کے پھول
خوشبو سے جن کی خلد تھا جنگل کا عرض و طول
دنیا کی زیب و زینتِ کا شانۂ بتول
وہ باغ تھا لگا گئے تھے خود جسے رسول
ماہِ عزا کے عشرۂ اول میں کب گیا
وہ باغیوں کے ہاتھ سے جنگل میں کٹ گیا
اللہ رے خزاں کے دن اس باغ کی بہار
پھولے سماتے تھے نہ محمد کے گلِ عذار
دولہا بنے ہوئے تھے اجل تھی گلوں کا ہار
جاگے وہ ساری رات کے وہ نیند کا خمار
راہیں تمام جسم کی خوشبو سے بس گئیں
جب مسکرا کے پھولوں کلیاں بکس گئیں
وہ دشت اور خیمۂ زنگارگوں کی شان
گویا زمیں پہ نصب تھا اک تازہ آسمان
بے چوبہ سپہر بریں جس کا سائبان
بیت العیق دین کا مدینہ جہاں کی جان
اللہ کے حبیب کے پیارے اسی میں تھے
سب عرشِ کبریا کے ستارے اسی میں تھے
گردوں پہ ناز کرتی تھی اس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمانِ دہم چرخ ہضمتیں
پردے تھے رشک پردۂ چشمانِ حور میں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ کیواں جناب پر
کیا کیا ہنسی ہے صبحِ گل آفتاب پر
ناگاہ چرخ پر خطِ ابیض ہوا عیاں
تشریف جا نماز پہ لائے شہ زماں
سجاد بچھ گئے عقبِ شاہ انس و جاں
تاروں سے تھا فلک اسی خرمن کا خوشہ چیں
دیکھا جو نور شمسۂ حسن سے اکبرِ مہر و نے دی اذاں
ہر اک کی چشم آنسوؤں سے ڈبڈبا گئی
گویا صدا رسول کی کانوں میں آگئی
چپ تھے طیور جھومتے تھے وجد میں شجر
تسبیح خواں تھے برگ و گل غنچہ و ثمر
محوِ ثنا کلوخ دنبا تات و دشت دور
پانی سے منہ نکالے تھے دریا کے جانور
اعجاز تھا کہ دلبِ شپیر کی صدا
ہر خشک و تر سے آئی تھی تکبیر کی صدا
ناموس شاہ روتے تھے خیمے میں زار زار
چپکی کھڑی تھی صحن میں بانو کے نامدار
زینب بلائیں لے کے یہ کہتی تھی بار بار
صدقے نمازیوں کے مؤذن کے میں نثار
کرتے ہیں یوں ثنا وصف ذوالجلال کی
لوگوں اذا سنو مرے یوسف جمال کی
یہ حسنِ صوت اور یہ قرأت یہ شدو مد
حقا کہ افصح الفصحا ہے انہیں کا جد
گویا ہے لحن حضرتِ داؤد با خرد
یارب رکھ اس صدا کو زمانے میں تا ابد
شعبے صدا میں پنکھڑیاں جیسے پھول میں
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول میں
میری طرف سے کوئی بلائیں تو لینے جائے
عین الکمال سے تجھے بچے خدا بچائے
وہ لو ذعی کی جس کی طلاقت دلوں کو بھائے
دو دد دن ایک بوند بھی پانی کہ وہ نہ پائے
غربت میں پڑ گئی ہے مصیبت حسین پر
فاقہ یہ تیسرا ہے مرے نورِ عین پر
صف میں ہوا جو نعرۂ قدقامت الصلوٰۃ
قائم ہوئی نامز اٹھے شاہِ کائنات
وہ نور کی صفیں وہ مصلی ملک صفات
قدموں سے جن کی ملتی تھی آنکھیں رہِ نجات
جلوہ تھا تابہ عرشِ معلیٰ حسین کا
مصحف کی لوح تھی کہ مصلی حسین کا
اک صف میں سب محمد و حیدر کے رشتہ دار
اٹھارہ نوجواں تھے اگر کیجیے شمار
پر سب جگر نگار حق آگاہ خاکسار
پیرہ امام پاک کے داتائے رونار
تسبیح ہر طرف تہ افلاک انہیں کی ہے
جس پر درورد پڑھتے ہیں یہ خاک انہیں کی ہے
دنیا سے اٹھ گیا وہ قیام اور وہ قعود
ان کے لیے تھی بندگی واجب الوجود
وہ عجز وہ طویل رکوع اور وہ سجود
طاعت میں نیست جانتے تھے اپنی ہست و بود
طاقت نہ چلنے پھرنے کی تھی ہاتھ پاؤں میں
گر گر کے سجدے کر گئے تیغوں کی چھاؤں میں
ہاتھ ان کے جب قنوت میں اٹھے سوئے خدا
خود ہوگئے فلک پہ اچابت کے باب وا
تھرائے آسماں بلا عرش کبریا
شہ پر تھے دونوں ہاتھ پے طائر دعا
وہ خاکسار محوِ تضرع تھے فرش پر
روح القدس کی طرح دعائیں تھیں عرش پر
فارغ ہوئے نماز سے جب قبلۂ انام
آئے مصافحے کو جو انان تشنہ کام
چومے کسی نے دستِ شہنشاہ خاص و عام
آنکھٰں ملیں قدم پہ کسی نے با حترام
کیا دل تھے کیا سپاہِ رشید و سعید تھی
باہم مانقے تھے کہ مرنے کی عید تھی
بیٹھے تھے جا نماز پہ شاہِ فلک سریر
ناگہ قریب آ کے گرے تین چار تیر
دیکھا ہر اک نے مڑ کے سوئے لشکرِ شریر
عباس اٹھے تول کے شمشیر بے نظیر
پروانہ تھے سراج امامت کے نور پر
روکی سپر حضور کرامت ظہور پر
اکرب سے مڑکے کہنے لگے سرورِ زماں
تم جا کے کہہ دو خیمے میں یہ اے پدر کی جاں
باندھے ہے سر کشی پر کمر لشکرِ گراں
بچوں کو لے کے صحن سے ہٹ جائیں بیبیاں
غفات میں تیرے کوئی بچہ تلف نہ ہو
ڈر ہے مجھے کہ گردنِ اصغر ہدف نہ ہو
کہتے تھے یہ پسر سے شۂ آسماں سریر
فضہ پکاری ڈیوڑھی سے اے خلق کے امیر
ہے ہے علی کی بیٹیاں کس جا ہوں گو شہ گیر
اصغر کے گاہوارے تک آکر گرے ہیں تیر
گرمی میں ساری رات یہ گھٹ گھٹ کے روئے ہیں
بچے ابھی تو سرد ہوا پا کے سوئے ہیں
باقر کہیں پڑا ہے سکینہ کہیں ہے غش
گرمی کی فصل یہ تب و تاب اور یہ عطش
رو رو کے سو گئے ہیں صغیر ان ماہ وش
بچوں کو لے کے یاں سے کہاں جائیں فاقہ کش
یہ کس خطا پہ تیر پیا پے برستے ہیں
ٹھنڈی ہوا کے واسطے بچے ترستے ہیں
ٹھے یہ شور سن کے امامِ فلک وقار
ڈیوڑھی تک آئے تک ڈھالوں کو رد کے رفیق و یار
فرمایا مڑکے چلتے ہیں اب بہرِ کارزار
کمریں کسو جہاد پہ منگواؤ راہوار
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
امت کے کام سے کہیں جلدی فراغ ہو
فرما کے یہ حرم میں گئے شاہِ بحروبر
ہونے لگیں صفوں میں کمر بندیاں ادھر
جو شن پہن کے حضرتِ عباس نامور
دروازے پہ ٹہلنے لگے مثلِ شیرِ نر
پرتو سے رخ کے برق چمکتی تھی پاک پر
تلوار ہاتھ میں تھی سپرِ دوش پاک پر
شوکت میں رشک تاج سلیمان تھا خودِ سر
کلغی پہ لاکھ بار تصدق ہما کے پر
دستانے دونوں فتح کا مسکن ظفر کا گھر
وہ رعب الامان وہ تہور کہ الحذر
جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آر ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو
خیمے میں جا کے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے تو فق ہیں اور کھلے ہیں سردوں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر النسا کا لال
بانوئے نیک نام کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
آفت میں ہے مسافرِ صحرائے کربال
بے کس پہ یہ چڑھائی ہے سید پہ یہ جفا
غربت میں ٹھن گئی جو لڑائے تو ہوگا کیا
ان ننھے ننھے بچوں پہ کر رہ اے خدا
فاقوں سے جاں بلب ہیں عطش سے ہلاکِ ہیں
یارب ترے رسول کی ہم آلِ پاک ہیں
سر پر نہ اب علی نہ رسولِ فلک وقار
گھر لٹ گیا گذر گئیں خاتونِ روزگار
اماں کے بعد روئی حصن کو میں سوگار
دنیا میں اب حسین ہے ان سب کا یادگار
تو داد دے مری کہ عدالت پناہ ہے
کچھ اس پہ بن گئی تو یہ مجمع تباہ
بولے قریب جا کے شہِ آسماں جناب
مضطر نہ ہو دعائیں ہیں تم سب کی مستجاب
مغرور ہیں خطا پہ ہیں یہ خانماں خراب
خود جا کے میں دکھاتا ہوں ان کو رہِ صواب
موقع بہن نہیں ابھی فریاد و آہ کا
لاؤ تبرکات رسالت پناہ کا
معراج میں رسول نے پہنا تھا جو لباس
کشتی میں لائیں زینب اسے شاہِ دیں کے پاس
سر پر رکھا عمامۂ سردارِ حق شناس
پہنی قبائے پاکِ رسول فلک اساس
برمیں درست و چست تھا جامہ رسول کا
رومال فاطمہ کا عمامہ رسول کا
شملے دو سرے جو پڑے تھے بصد وقار
ثابت یہ تھا کہ دوش پہ گیسو پڑے ہیں چار
بل کھا رہا تھا زلفِ سمن بو کا تار تار
جس کے ہر ایک مو پہ خطا و ختن نثار
مشک و عبیر و عود اگر ہیں تو ہیچ ہیں
سنبل پہ کیا کھلیں گے یہ گیسو کے پیچ میں
کپڑوں سے آ رہی تھی رسولِ زمن کی بو
دولھا نے سونگھی ہوگی نہ ایسی دلہن کو بی
حیدر کی فاطمہ کی حسین و حسن کی بو
پھیلی ہوئی تھی چار طرف پنجتن کی بو
لٹتا تھا عطر دادیِ عنبر سرشت میں
گل جھومتے تھے اغ میں رضواں بہشت میں
پوشاک سب پہن چکے جس دم شۂ زمن
لیکر بلائیں بھائی کی رونے لگی بہن
چلائی ہائے آج نہیں حیدر و حسن
اماں کہاں سے لائے تمہیں اب یہ بے وطن
رخصت ہے اب رسول کے یوسف جمال کی
صدقے گئی بلائیں تولو اپنے لال کی
صندوق اسلحہ کے جو کھلوائے شاہ نے
پیٹا منہ اپنا زینبِ عصمت پناہ نے
پہنی زرہ امامِ فلک بارگاہ نے
بازو پہ جو شنین پڑھے عزو جاہ نے
جوہر بدن کے حسن سے سارے چمک گئے
حلقے تھے جتنے اتنے سارے چمک گئے
یاد آگئے علی نظر آئی جو ذوالفقار
قبضے کو چوم کر شۂ دیں روئے زار زار
تولی جو لے کے ہاتھ میں شمشیرِ آبدار
شوکت نے دی صدا کہ تری شان کے نثار
فتح و ظفر قریب ہو نصرت قریب ہو
زیب اس کی تجھ کو ضرب عدو کو نصیب ہو
باندھی کمر سے تیغ جو زہرا کے لال نے
پھاڑا فلک پہ اپنا گریباں ہلال نے
دستانے پہنے سرورِ قدسی خصال نے
معراج پائی دوش پہ حمزہ کی ڈھال نے
رتبہ بلند تھا کہ سعادت نشان تھی
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھی
ہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
تیار ادھر ہوا علم سید انام
کھولے سروں کو گرد تھی سیدانیاں تمام
روتی تھی تھامے چوب علم خواہرِ امام
تیغیں کمر میں دوش پہ شملے پڑے ہوئے
زینب کے لال زیر علم آکھڑے ہوئے
گردانے دامنوں کو قبا کے وہ گل عذار
مرفق تک آشینوں کو الٹے بصد و قار
جعفر کا رعب دبدبۂ شیر کردگار
بوٹے سے ان کے قد پہ نمودار و نامدار
آنکھیں ملٰن علم کے پھریرے کو چوم کے
رایت کے گرد پھرنے لگے جھوم جھوم کے
گہ ماں کو دیکھتے تھے گہ جانبِ علم
نعرہ کبھی یہ تھا کہ نثارِ شۂ امم
کرتے تھے دونوں بھائی کبھی مشورے بہم
آہستہ پوچھتے کبھی ماں سے وہ ذی حشم
کیا قصد ہے علی ولی کے نشان کا
اماں کسے ملے گا علم نانا جان کا
کچھ مشورہ کریں جو شہنشاہ خوش خصال
ہم بھی محق ہیں آپ کو اس کار ہے خیال
پاس ادب سے عرض کی ہم کو نہیں مجال
اس کا بھی خوف ہے کہ نہ ہو آپ کو ملال
آقا کے ہم غلام ہیں اور جانثار ہیں
عزت طلب ہیں نام کے امیدوار ہیں
بے مثل تھے رسول کے لشکر کے سب جواں
لیکن ہمارے جسد کو نبی نے دیا نشاں
خیبر میں دیکھتا رہا منہ لشکرِ گراں
پایا علم علی نے مگر وقتِ امتحاں
طاقت میں کچھ کمی نہیں گو بھوکے پیاسے ہیں
پوتے انہیں کے ہم ہیں انہیں کے نواسے ہیں
زینب نے تب کہا تمہیں اس سے کیا ہے کام
کیا دخل مجھ کو مالک و مختار ہیں امام
دیکھو نہ کیجو بے ادبانہ کوئی کلام
بگڑوں گی میں جو لوگے ظلم کا زباں سے نام
لو جاؤ بس کھڑے ہو الگ ہاتھ جوڑ کے
کیوں آئے ہو یہاں علی اکبر کو چھوڑ کے
سر کو، ہٹو، بڑھو، نہ کھڑے ہو علم کے پاس
ایسا نہ ہو کہ دیکھ لیں شاہ فلک اساس
کھوتے ہو اور آئے ہو تم مرے حواس
بس قابل قبول نہیں ہے یہ التماس
رونے لگوگے تم جو برا یا بھلا کہوں
اس ضد کو بچنے کے سوا اور کیا کہوں
عمریں قلیل اور ہوس منصب جلیل
اچھا نکالو قد کے بھی بڑھنے کی کچھ سبیل
ماں صدقے جائے گرچہ یہ ہمت کی ہے دلیل
ہاں اپنے ہم سنوں میں تمہارا نہیں عدیل
لازم ہے سوچے غور کرے پیش و پس کرے
جو ہو سکے نہ کیوں بشر اس کی ہوس کرے
ان ننھے منھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم
چھوٹے قدوں میں سب سے سنوں میں سبھوں سے کم
نکلیں تنوں سے سبط نبی کے قدم پہ قدم
عہدہ یہی ہے بس یہی منصب یہ حشم
رخصت طلب اگر ہو تو یہ میرا کام ہے
ماں صدقے جائے آج تو مرنے میں نام ہے
پھر تم کو کیا بزرگ تھے گر فخرِ روزگار
زیبا نہیں ہے جو وصفِ اضافی افتخار
جو ہر وہ ہیں جو تیغ کرے آپ آشکار
دکھلا دو آج حیدر و جعفر کی کارزار
تم کیوں کہو کہ لالہ خدا کے ولی کے ہیں
فوجیں پکاریں خود کہ نواسے علی کے ہیں
کیا کچھ علم سے جعفر طیار کا تھا نام
یہ بھی تھی اک عطائے رسول فلک مقام
بگڑی لڑائیوں میں بن آئے انہیں سے کام
جب کھینچتے تھے تیغ تو ہلتا تھا روم و شام
بے جاں ہوئے تو نخل وغانے ثمر دیے
ہاتھوں بدلے حق نے جواہر کے پردے
لشکر نے تین روز ہزیمت اٹھائی جب
بخشا علم رسول خدا نے علی کو تب
مرحب کو قتل کرکے بڑھا جب وہ شیر رب
دربند کرکے قلعہ کا بھاگی سپاہ سب
اکھڑا وہ یوں گراں تھا جودر سنگِ سخت سے
جس طرح توڑ لے کوئی پتا درخت سے
نرغے میں تین دن سے ہے مشکل کشا کا لال
اماں کا باغ ہوتا ہے جنگل میں پائمال
پوچھا نہ یہ کہ کھولے ہیں تم نے سر کے بال
میں لٹ رہی ہوں اور تمہیں منصب کا ہے خیال
غم خوار تم مرے ہو نہ عاشق امام کے
معلوم ہو گیا مجھے طالب ہو نام کے
ہاتھوں کو جوڑ جوڑ کے بولے وہ لالہ فام
غصے کو آپ تما لیں اے خواہر امام
واللہ کیا مجال جواب لین علم کا نام
کھل جائے گا لڑیں گے جو یہ با وفا غلام
فوجیں بھگا کے گنجِ شہیداں میں سوئیں گے
تب قدر ہوگی آپ کو جب ہم نہ ہوئیں گے
یہ کہہ کے بس ہٹے جو سعادت نشاں پسر
چھاتی بھر آئی ماں نے کہا تھا کہ جگر
دیتے ہو اپنے مرنے کی پایرو مجھے خبر
ٹھہرو ذرا بلائیں تو لے لے یہ نوحہ گر
کیا صدقے جاؤں ماں کی نصیحت بری لگی
بچو یہ کیا کہا کہ جگر پر چھری لگی
زینب کے پاس آکے یہ بولے شۂ زمن
کیوں تم نے دونوں بیٹوں کو باتیں سنیں بہن
شیروں کے شیر عاقل و جرار و صف شکن
زینب وحید عصر ہیں دونوں یہ گل بدن
یوں دیکھنے کو سب میں بزرگوں کے طور ہیں
تیور ہی ان کے اور ارادے ہی اور ہیں
نو دس برس کے سن یہ جرأت یہ ولولے
بچے کسی نے دیکھے ہیں ایسے بھی من چلے
اقبال کیونکہ ار کے نہ قدموں سے منہ ملے
کس گود میں بڑے ہوئے کس دودھ سے پلے
بے شک یہ ورثہ دارِ جنابِ امیر ہیں
پر کیا کہوں کہ دونوں کی عمریں صغیر ہیں
اب تم جسے کہو اسے دیں فوج کا علم
کی عرض جو صلاح شۂ آسماں حشم
فرمایا جب سے اٹھ گئیں زہرائے باکرم
اس دن سے تم کو ماں کی جگہ جانتے ہیں ہم
مالک ہو تم بزرگ کوئی ہو کہ خرد ہو
جس کہو اسی کو یہ عہدہ سپرد ہو
بولیں بہن کہپ آپ بھی تولیں کسی کا نام
ہے کس طرف توجہ سردار خاص و عام
گر مجھ سے پوچھتے ہیں شۂ آسماں مقام
قرآں کے بعد ہے تو ہے بس آپ کا کلام
شوکت میں قد میں شان میں ہم کسر کوئی نہیں
عباس نام دار سے بہتر کوئی نہیں
عاشق غلام خادمِ دیرینہ جاں نثار
فرزند بھائی زینتِ پہلو وفا شعار
جرار یادگارِ پدر فخر روزگار
راحت رساں مطیع نمودار نام دار
صفدر ہے شیر دل ہے بہادر ہے نیک ہے
بے مثل سیکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
آنکھوں میں اشک بھر کے یہ بولے شہ رمن
ہاں تھی یہی علی کی وصیت ابھی اے بہن
اچھا بلائیں آپ کدھر ہے وہ صف شکن
اکبر چچا کے پاس گئے سن کے یہ سخن
کی عرض انتظار ہے شاہِ غیور کو
چلیے پھوپھی نے یاد کیا ہے حضور کو
عباس آئے ہاتھوں کو جوڑے حضورِ شاہ
جاؤ بہن کے پاس یہ بولا وہ دیں پناہ
زینب وہیں علم لیے آئیں بہ عزو جاہ
بولے نشاں کے لے کے شۂ عرش بارگاہ
ان کی خوشی وہ ہے جو رضا پنجتن کی ہے
لو بھائی لو علم پہ عنایت بہن کی ہے
رکھ کر علم پہ ہاتھ جھکا وہ فلک وقار
ہمشیر کے قدم پہ ملا منہ بہ افتخار
زینب بلائیں لے کے یہ بولیں کہ میں نثار
عباس فاطمہ کی کمائی سے ہوشیار
ہو جائے آج صلح کی صورت تو کل چلو
ان آفتوں سے بھائی کو لے کر نکل چلو
کی عرض میرے جس پہ جس وقت تک ہے سر
ممکن نہیں ہے یہہ کہ بڑے فوج بد گہر
تیغیں کھنچیں جو لاکھ تو سینہ کروں سپر
دیکھیں اٹھا کے آنکھ یہ کیا تاب کیا جگر
ساونت ہیں پسر اسدِ ذوالجلال کے
گر شیر ہو تو پھینک دیں آنکھیں نکال کے
منہ کر کے سوئے قبرِ علی پھر کیا خطاب
ذرے کو آج کردیا مولا نے آفتاب
یہ عرض خاکسار کی ہے یا ابوتراب
آقا کے آگے میں ہوں شہادت سے کامیاب
سر تن سے ابنِ فاطمہ کے رو برو گرے
شپیر کے پسینے پہ میرا لہو گرے
یہ سن کے آئی زوجہ عباس نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبط مصطفیٰ کی بلائین بچشمِ تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سے لاکھ کنیزیں تو ہوں فد
بانوے نامور کہ سہاگن رکھے خدا
بچے جییں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر شہ کو لے کے جاہ
یہ شرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ و حشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
ناگاہ آ کے بالی سکینہ نے یہ کہا
کیسا ہے یہ ہجوم کدھر ہیں مرے چچا
عہدہ علم کا ان کو مبارک کرے خدا
لوگو مجھے بلائیں تو لینے دوا اک ذرا
شوقت خدا بڑھائے مرے عمو جان کی
میں بھی تو دیکھوں شان علی کے نشان کی
عباس مسکراکے پکارے کہ آؤ آؤ
عمو نچار پیاس سے کیا حال ہے بتاؤ
بولی لپٹ کے وہ کہ مری مشک لیتے جاؤ
اب تو علم ملا تمہیں پانی مجھے پلاؤ
تحفہ کوئی نہ دیجیے نہ انعام دیجیے
قربان جاؤں پانی کا جام دیجیے
فرمایا آپ نے کہ نہیں فکر کا مقام
باتوں پہ اس کی روتی تھیں سیدانیاں تمام
کی عرض آکے ابنِ حسن نے کہ یا امام
انبوہ ہے بڑھی چلی آتی ہے فوجِ شام
عباس اب علم لیے باہر نکلتے ہیں
ٹھہرو بہن سے مل کے لگے ہم بھی چلتے ہیں
ناگہ بڑھے علم لیے عباس باوفا
دوڑے سب اہلِ بیت کھلے سربرہنہ پا
حضرت نے ہاتھ اٹھا کے یہ اک ایک سے کہا
لو الوداع اے حرم پاک مصطفی
صبحِ شبِ فراق ہے پیاروں کو دیکھ لو
سب مل کے ڈوبت ہوئے تاروں کو دیکھ لو
شہ کے قدم پہ زینبِ زار و حزیں گری
بانو بچھاڑ کھا کے پسر کے قریں گری
کلثوم تھرتھرا کے بروئے زمیں گری
باقر کہیں گرا تو سکینہ کہیں گری
اجڑا چمن ہر اک گلِ تازہ نکل گیا
نکلا علم کہ گھر سے جنازہ نکل گیا
دیکھی جو شانِ حضرتِ عباس عرش جاہ
آگے بڑھی علم کے پس از تہنیت سپاہ
نکلا حرم سرا سے دو عالم کا بادشاہ
نشتر بلد تھی بنت علی کی فغا و آہ
رہ رہ کے اشک بہتے تھے روئے جناب سے
شبنم ٹپک رہی تی گل آفتاب سے
مولا چڑھے فرس پہ محمد کی شان سے
ترکش لگایا ہرے نے پہ کس آن بان سے
نکلا یہ جن و انس و ملک کی زبان سے
اترا ہے پھر زمیں پہ براق آسمان سے
سارا چلن خرام میں کبک روی کا ہے
گھونگھٹ نئی دلہن کا ہے چہرہ پری کا ہے
غصے میں انکھڑیوں کے ابلنے کو دیکھیے
جو بن میں جھوم جھوم کے چلنے کو دیکھیے
سانچے میں جوڑ بند کے ڈھنلنے کو دیکھیے
تم کر کنوتیوں کے بدلنے کو دیکھیے
گردن میں ڈالے ہاتھ یہ پریوں کو شوق ہے
بالا ودی میں اس کو ہما پر بھی فوق ہے
تھم کر ہوا چلی فرسِ خوش قدم بڑھا
جوں جوں وہ سوئے دشتِ بڑھا اور دم بڑھا
گھوڑوں کی لیں سواروں نے باگیں علم بڑھا
رایت بڑھا کہ سروِ ریاضِ ارم بڑھا
پھولوں کو لے کے بادِ بہاری پہونچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہونچ گئی
پنجہ ادھر چمکتا تھا اور آفتاب ادھر
آس کی ضیا تھی خاک پہ ضو اس کی عرش پر
زر ریزی علم پہ ٹھہرتی نہ تھی نظر
دولھا کا رخ تھا سونے کے سہرے میں جلوہ گر
تھے دو طرف جو دو علم اس ارتقاع کے
الجھے ہوئے تھے تار خطوطِ شعاع کے
اللہ ری سپاہ خدا کی شکوہ و شاں
جھکنے لگے جنود ضلالت کے بھی نشاں
کمریں کسے علم کے تلے ہاشمی جواں
دنیا کی زیبِ دین کی عزت جہاں کی جاں
ایک ایک دود ماں علی کا چراغ تھا
جس کی بہشت پر تھا تفوق و باغ تھا
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
حیدر کا رعب نرگسی آنکھوں سے آشکار
کھیلیں جو نیمچوں سے کریں شیر کا شکار
نیزوں کے سمت چاند سے سینے تنے ہوئے
آئے تھے عیدگاہ میں دولھا بنے ہوئے
غرفوں سے حوریں دیکھ کے کرتی تھیں یہ کلام
دنیا کا باغ بھی ہے عجب پرفضا مقام
دیکھو درود پڑھ کے سوئے لشکرِ امام
ہم شکلِ مصطفی ہے یہی عرش اختتام
رایت لیے وہ لال خدا کے ولی کا ہے
اب تک جہاں میں ساتھ نبی و علی کا ہے
دنیا سے اٹھ گئے تھے جو پیغمبرِ زماں
ہم جانتے تھے حسن سے خالی ہے اب جہاں
کیونکر سوئے زمیں نہ جھکے پیر آسماں
پیدا کیا ہے حق نے عجب حسن کا جواں
سب خوبیوں کا خاتمہ بس اس حسیں پہ ہے
محبوب حق ہیں عرش پہ سایہ زمیں پہ ہے
ناگاہ تیر ادھر سے چلے جانب، امام
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
نکلے ادھر سے شہ کے رفیقانِ تشنہ کام
بے سر ہوئے پرون میں سر ان سپاہ شام
بالا کبھی تھی تیغ کبھی زیر تنگ تھی
ایک اک کی جنگ مالک اشتر کی جنگ تھی
نکلے پے جہاد عزیزانِ شاہِ دیں
نعرے کیے کہ خوف سے ہلنے لگی زمیں
روباہ کی صفوں پہ چلے شیر خشم گیں
کھینچی جو تیغ بھول گئے صف کشی لعیں
بجلی گری پروں پہ شمال و جنوب کے
کیا کیا لڑے ہیں شام کے بادل میں ڈوب کے
اللہ رے علی کے نواسوں کی کارزار
دونوں کے نیچے تھے کہ چلتی تھی ذوالفقار
شانہ کٹا کسی نے جو روکا سپر پہ دار
گنتی تھی زخمیوں کی نہ کشتوں کا کچھ شمار
اتنے سوار قتل کیے تھوڑی دیر میں
دونوں کے گھوڑے چھپ گئے لاشوں کے ڈھیر میں
وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ وہ گوری کلائیاں
آفت کی پھرتیاں تھیں غضب کی صفائیاں
ڈر ڈر کے کاٹتے تھے کہاں کش کنائیاں
فوجوں میں تھیں نبی و علی کی دہائیاں
شوکت ہو ہوتھی جنابِ امیر کی
طاقت دکھا دی شیروں نے زینب کے شیر کی
کس حسن س حسن کا جوانِ حسیں لڑا
گھر گھر کے صورت اسد خشم گیں لڑا
وہ دن کی بھول پیاس میں وہ مہ جبیں لڑا
سہرا الٹ کے یوں کوئی دولھا نہیں لڑا
حملے دکھادیے اسدِ کردگار کے
مقتل میں سوئے ازرق شامی کو مار کے
چمکی جو تیغِ حضرت عباس عرش جاہ
روح الامیں پکارکے اللہ کی پناہ
ڈھالوں میں چھپ گیا پسرِ سعد روسیاہ
کشتوں سے بند ہو گی امن و اماں کی راہ
چھٹا جو شیر شوق میں دریا کی سیر کے
لے لی ترائی تیغوں کی موجوں میں تیر کے
بے سر ہوئے موکلِ چشمہ فرات
ہل چل میں مثلِ موج صفوں کو نہ تھا ثبات
دریا مین گر کے فوت ہوئے کتنے بد صفات
گویا حباب ہو گئے تھے نقطۂ نبات
عباس بھر کے مشک کو یاں تشنہ لب لڑے
جس طرح نہر واں میں امیرِ عرب لڑے
آفت بھی حرب و ضرب علی اکبر دلیر
غصے میں جھپٹے صید پہ جیسے گرسنہ شیر
سب سر بلند پست زبردست سب تھے زیر
جنگل میں چار سمت ہوئے زخمیوں کے دھیر
سر ان کے اترے تن سے جو تھے رن چڑھے ہوئے
عباس سے بھی جنگ میں کچھ تھے بڑھے ہوئے
تلواریں برسیں صبح سے نصف النہار تک
ہلتی رہی زمین لرزتے رہے فلک
کانپا کیے پروں کو سمیٹے ہوئے ملک
نعرے نہ پھیر وہ تھے نہ وہ تیغوں کی تھی چمک
ڈھالوں کا دور برچھیوں کا اوج ہوگیا
ہنگامِ ظہر خاتمہ فوج ہوگیا
لاشے سبھوں کے سبطِ نبی خود اٹھا کے لائے
قاتل کسی شہید کا سر کاٹنے نہ پائے
دشمن کو بھی نہ دوست کی فرقت خدا دکھائے
فرماتے تھے بچھڑ گئے سب ہم سے ہائے ہائے
اتنے پہاڑ گر پڑیں جس پر وہ خم نہ ہو
گر سو برس جیوں تو یہ مجمع بہم نہ ہو
لاشے تو سب کے گرد تھے اور بیچ میں امام
ڈوبی ہوئی تھی خوں میں نبی کی قبا تمام
افسردہ و حزیں و پریشان و تشنہ کام
برچھی تھی دل کو فتح کے باجوں کی دھوم دھام
اعدا کسی شہید کا جب نام لیتے تھے
تھرا کے دونوں ہاتھوں سے دل تھام لیتے تھے
پوچھو اسی سے جس کے جگر پر ہوں اتنے داغ
اک عمر کا ریاض تھا جس پر لٹا وہ باغ
فرصت نہ اب بکا سے ہے فراغ
جو گھر کی روشنی تھے وہ گل ہو گئے چراغ
پڑتی تھی دھوپ سب کے تنِ پاش پاش پر
چادر بھی اک نہ تھی علی اکبر کی لاش پر
مقتل سے آئے خیمہ کے در پر شہ زمین
پر شدِ عطش سے نہ تھی طاقتِ سخن
پردے پہ ہاتھ رکھ کے پکارے بصد محن
اصغر کو گاہوارے سے لے آئے اے بہن
پھر ایک بار اس مہ انور کو دیکھ لیں
اکبر کے شیرخوار برادر کو دیکھ لیں
خیمے سے دوڑے آل پیمبر برہنہ سر
اصغر کو لائیں ہاتھوں پہ بانئے نوحہ گر
بچے کو لے کے بیٹھ گئے آپ خاک پر
منہ سے ملے جو ہونٹ تو چونکا وہ سیم بر
غم کی چری چلی جگرِ چاک چاک پر
بٹھلا لیا حسین نے زانوئے پاک پر
بچے سے ملتفت تھے شۂ آسماں سریر
تھا اس طرف کمیں میں بن کا بل شریر
مارا جو تین بھال کا اس بے حیا نے تیر
بس دفعتاً نشانہ ہوئی گردنِ صغیر
تڑپا جو شیرخوار تو حضرت نے آہ کی
معصوم ذبح ہو گیا گودی میں شاہ کی
جس دم تڑپ کے مر گیا وہ طفلِ شیر خوار
چھوٹی سی قبر تیغ سے کھودی بحالِ زار
بچے کو دفن کرکے پکارا وہ ذی وقار
اے خاکِ پاک حرمتِ مہماں نگاہ دار
دامن میں رکھ اسے جو محبت علی کی ہے
دولت ہے فاطمہ کی امانت علی کی ہے
یہ کہہ کے آئے فوج پہ تولے ہوئے حسام
آنکھیں لہو تھیں رونے سے چہرہ تھا سرخ فام
زیبِ بدن گئے تھے بصد عزو احتشام
پیراہنِ مطہر پیغمبر انام
حمزہ کی ڈھال تیغِ شۂ لافتا کی تھی
برمیں زرہ جناب رسول خدا کی تھی
رستم تھا درع پوش کہ پاکھر میں راہوار
جرار بردبار سبک رو وفا شعار
کیا خوشمنا تھا زیں طلا کار و نقرہ کار
اکسیر تھا قدم کا جسے مل گیا غبار
خوش خو تھا خانہ زاد تھا دلد نژاد تھا
شپیر بھی سخی تھے فرس بھی جواد تھا
گرمی کا روزِ جنگ کی کیونکر کروں بیاں
ڈر ہے کہ مثلِ شمع نہ جلنے لگے زباں
وہ لوں کہ الحذر وہ حرارت کہ الاماں
رن کی زمیں تو سرخ تی اور زرد آسماں
آبِ خنک کی خلق ترستی تھی خاک پر
گویا ہوا سے آگ برستی تھی خاک پر
وہ دونوں وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ دن کا مثالِ شب
خود نہرِ حلقہ کے سبھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے تھے جو حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
جھیلوں سے چارپائے نہ اٹھتے تھے تابہ شام
مسکن میں مچھلیوں کے سمندر کا تھا مقام
آہو جو کاہلے تھے تو چیتے سیاہ فام
پتھر پگھل کے رہ گئے تھے مثلِ مومِ خام
سرخی اڑی تھی پھولوں سے سبزہ گیاہ سے
پانی کنوؤں میں اترا تھا سائے کی چاہ سے
کوسوں کسی شجر میں نہ گل تھے نہ برگ و بار
ایک ایک نخل جل رہا تھا صورتِ چنار
ہنستا تھا کوئی گل نہ مہکتا تھا سبزہ زار
کانٹا ہوئی تھی پھول کی ہر شاخ باردار
گرمی یہ تھی کی زیست سے دل سب کے سرد تھے
پتے بھی مثل چہرۂ مدقوق زرد تھے
آبِ رواں سے منہ نہ اٹھاتے تھے جانور
جنگل میں چھپتے پھرتے طائر ادھر ادھر
مردم تھی سات پروں کے اندر عرق میں تر
خسخانۂ مژہ سے نکلتی نہ تھی نظر
گرچشم سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں
پڑ جائیں لاکھوں آبلے پائے نگاہ میں
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرداب پر تھا شعلۂ جوالہ کا گماں
انگارے تھے حباب تو پانی شرر فشاں
منہ سے نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں
تہ پہ تھے سب نہنگ مگر تھی بسوں پہ جال
پانی تھا آگ گرمئ روزِ حساب تھی
ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی
آئینہ فلک کو نہ تھی تاب تب کی تاب
چھپنے کو برق چاہتی تھی دامنِ سحاب
سب سے ہوا تھا گرم مزاجوں کو اضطراب
کافورِ صبح ڈھونڈھتا پھرتا تھا آفتاب
بھڑکی تھی آگ گنبد چرخِ اثیر میں
بادل چھپے تھے سب کرہ زمہریر میں
اس دھوپ میں کھڑے تھے اکیلے شہ امم
نے دامن رسول تھانے سایۂ علم
شعلے جگر سے آہ کے اٹھتے تھے دمبدم
اودے تھے لب زبان میں کانٹے کمر میں خم
بے آپ تیسرا تھا جو دن میہمان کو
ہوتی تھی بات بات میں لکنت زبان کو
گھوڑوں کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و دد کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحطِ آب تھا
سر پر لگائے تھا پسرِ سعد چتر زر
خادم کئی تھے مروحہ جنباں ادھر ادھر
کرتے تھے آب پاش مکرر زمیں کو تر
فرزندِ فاطمہ پہ نہ تھا سایۂ شجر
وہ دھوپ دشت کی وہ جلال آفتاب کا
سونلا گیا تھا رنگ مبارک جناب کا
کہتا تھا ابنِ سعد کہ اے آسماں جناب
بیعت جو کیجیے اب بھی تو حاضر ہے جامِ آب
فرماتے تھے حسین کہ اد خانماں خراب
دریا کو خاک جانتا ہے ابنِ بوتراب
فاسق ہے پاس کچھ تجھے اسلام کا نہیں
آبِ بقا ہو یہ تو مرے کام کا نہیں
کہہ دوں تو خوان لے کے خود آئیں ابھی خلیل
چاہوں تو سلسبیل کو دم میں کروں سبیل
کیا جام آب کا تو مجھے دے گا اور ذلیل
بے آبرو خسیس ستمگردنی بخیل
جس پھول پر پڑے ترا سایہ وہ بو نہ دے
کھلوائے فصد تو تو یا کبھی رگ لہو نہ دے
گر جم کا نام لوں تو ابی جام لے کے آئے
کوثر یہیں رسول کا احکام لے کے آئے
روح الامیں زمیں پہ مرا نام لے کے آئے
لشکر ملک کا فتح کا پیغام لے کے آئے
چاہوں جو انقلاب تو دنیا تمام ہو
الٹے زمین یوں کہ نہ کوفہ نہ شام ہو
فرما کے یہ نگاہ جو کی سوے ذوالفقار
تھرا کے پچھلے پانوں ہٹا وہ ستم شعار
مظلوم پر صفوں سے چلے تیر بے شمار
آواز کوسِ حرب ہوئی آسماں کے پار
نیزے اٹھا کے جنگ پہ اسوار تل گئے
کالے نشان فوجِ سیہ رو کے کھل گئے
وہ دھوم طبلِ جنگ کی وہ بوق کا خروش
کر ہو گئے تھے شور سے کرد بیوں کے گوش
تھرائی یوں زمیں کہ اڑے آسماں کے ہوش
نیزے سے بلا کے نکلے سوار ان درع پوش
ڈھالیں تھیں یوں سروں پہ سوار ان شوم کے
صحرا میں جیسے آئے گھٹا جھوم جھوم کے
لو پڑھ کے چند شعرِ جز شاہ دیں بڑھے
گیتی کے تھام لینے کو روح الامیں بڑھے
مانندِ شیرِ نہ کہیں ٹھہرے کہیں بڑھے
گویا علی الٹے ہوئے آستیں بڑھے
جلوہ دیا جری نے عروسِ مصاف کو
مشکل کشا کی تیغ نے چھوڑا غلاف کو
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنارِ شوق س ہو خوب رو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگِ جاں سے لہو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلیٰ نکل پڑی
آئے حسین یوں کہ عقاب آئے جس طرح
آہو پہ شیرِ شہ زہ غاب آئے جس طرح
تابندہ برق سوئے سحاب آئے جس طرح
دوڑا فرس نشیب میں آب آئے جس طرح
یوں تیغِ تیز کوند گئی اس گروہ پر
بجلی تڑپ کے گرتی ہے جس طرح کوہ پر
گرمی میں تیغ برق جو چمکی شرر اڑے
جھونکا چلا ہوا کا جس سن سے تو سر اڑے
پرکالۂ سپر جو ادھر اور ادھر اڑے
روح الامیں نے صاف یہ جانا کہ پر اڑے
ظاہر نشان اسم عزیمت اثر ہوئے
جن پر علی لکھا تھا وہی پر سپر ہوئے
جس پر چلی وہ تیغ دو پارا کیا اسے
کھینچتے ہی چار ٹکڑے دوبارا کیا کیا
واں تھی جدھر اجل نے اشارا کیا اسے
سختی بھی کچھ پڑی تو گوارا کیا اسے
نے زین تھا فرس پہ نہ اسوار زین پر
کڑیاں زرہ کی بکھری ہوئی تھیں زمین پر
آئی چمک کے غول پہ جب سر گرا گئی
دم میں جمی صفوں کو برابر گرا گئی
ایک ایک فقر تن کو زمین پر گرا گئی
سیل آئی زور شور سے جب گھر گرا گئی
آپہونچا اس کے گھاٹ پہ جو مرکے رہ گیا
دریا لہو کا تیغ کے پانی سے بہ گیا
یہ آبرو یہ شعلہ فشانی خدا کی شاں
پانی میں آگ آگ میں پانی خدا کی شاں
خاموش اور تیز زبانی خدا کی شاں
استادہ آب میں یہ روانی خدا کی شاں
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
لہرائی جب اتر گیا دریا بڑھا ہوا
نیزوں تھا ذوالفقار کا پانی چڑھا ہوا
قلب و جناح میمہ و میسرا تباہ
گردن کشانِ امت خیر الور تباہ
جنباں زمیں صفیں تہ و بالا پر اتباہ
بے جان جسم روحِ مسافر سرا تباہ
بازار بند ہو گئے اکھڑ گئے
فوجیں ہوئی تباہ محلے اجڑ گئے
اللہ ری تیزی و برش اس شعلہ رنگ کی
چمکی سوار پر تو خبر لائی تنگ کی
پیاسی فقط لہو کی طلب گار جنگ کی
حاجت نہ سان کی تی اسے اور نہ سنگ کی
خوں سے فلک کو لاشوں سے مقتل کو بھرتی تھی
سو بار روم میں چرخ پہ چڑھتی اترتی تھی
تیغِ خزاں تھی گلشنِ ہستی سے کیا اسے
گھر جس خود اجڑ گیا بستی سے کیا اسے
وہ حق نما تھی کفر پرستی سے کیا اسے
جو آپ سر بلند ہو پستی سے کیا اسے
کہتے ہیں راستی جسے وہ خم کے ساتھ ہے
تیزی زبان کے ساتھ برش دم کے ساتھ
سینے پہ چل گئی تو کلیجہ لہوا ہوا
گویا جگر میں موت کا ناخن فرد ہوا
چمکی تو الامان کا غل چار سو ہوا
جو اس کے منہ پہ آگیا بے آبرو ہوا
رکتا تھا ایک وار نہ دس سے نہ پانچ سے
چہرے سیاہ ہو گئے تھے اس کی آنچ سے
بچھ بچھ گئیں صفوں پہ صفیں وہ جہاں چلی
چمکی تو اس طرف ادھر آئی وہاں چلی
دونوں طرف کی فوج پکاری کہاں چلی
اس نے کہا یہاں وہ پکارا وہاں چلی
منہ کس طرف ہے تیغ زنوں کو خبر نہ تھی
سرگر رہے تھے اور تنوں کو خبر نہ تھی
دشمن جو گھاٹ پر تھے وہ دھوتے تھے جاں سے ہاتھ
گردن سے سر الگ تھا جدا تھے نشاں سے ہاتھ
توڑا کببھی جگر کبھی چھیدا سناں سے ہاتھ
جب کٹ کے گر پڑیں تو پھر آئیں کہاں سے ہاتھ
اب ہاتھ دستیاب نہیں منہ چھپانے کو
ہاں پاؤں رہ گئے ہیں فقط بھاگ جانے کو
اللہ رے خوفِ تیغ شہ کائنات کا
زہرہ تھا آب خوف کے مارے فرات کا
دریا پہ حال یہ تھا ہر اک بد صفارت کا
چارہ فرار کا تھا نہ یارا ثبات کا
غل تھا کہ برق گرتی ہے ہر درع پوش پر
بھاگو خدا کے قہر کا دریا ہے جوش پر
ہر چند مچھلیاں تھیں زرہ پوش سربسر
منہ کھولے چھپی پھرتی تھیں لیکن ادھر ادھر
بھاگی تھی موج چھوڑ کے گرداب کی سپر
تھے تہ نشیں نہنگ مگر آب تھے جگر
دریا نہ تھمتا خوف سے اس برق تاب کے
لیکن پڑے تھے پاؤں میں چھالے حباب کے
آیا خدا کا قہر جدرھ سن سے آگئی
کانوں میں الاماں کی صدا رن سے آگئی
دو کرکے خود زین پہ جو شن سے آگئی
کھنچتی ہوئی زمین پہ تو سن سے آگئی
بجلی گری جو خاک پہ تیغِ جناب کی
آی صدا زمین س یا بوتراب کی
پس پس کے کشمکش سے کماندار مر گئے
چلے تو سب چڑھے رہے بازو اتر گئے
گوشے کٹے کمانوں کے تیروں کے پر گئے
مقتل میں ہو سکا نہ گذرا گذر گئے
دہشت سے ہوش اڑ گئے تھے مرغِ وہم کے
سوفار کھول دیتے تھے منہ سہم سہم کے
تیر افگنی کا جن کی ہر اک شہر میں تھا شور
گوشہ کہیں نہ ملتا تھا ان کو سوائے گور
تاریک شب میں جن کا نشانہ تھا پائے مور
لشکر میں خوف جاں نے انہیں کردیا تھا کور
ہوش اڑ گئے تھے فوجِ ضلالت نشاں کے
پیکاں میں زہ کو رکھتے تھے سوفار جاں کے
صف پر صفیں پروں پر پرے پیش و پس گرے
اسوار پر سوار فرس پر فرس گرے
اٹھ کر زمیں سے پانچ جو بھاگے تو دس گرے
مخبر پہ پیک پیک پر مرکر گرے
ٹوٹے پر شکست بنائے ستم ہوئی
دنیا میں اس طرح کی بھی افتاد کم ہوئی
غصے تھا شیرِ شہ زۂ صحرائے کربلا
چھوڑے تھا گرگ منزل و ماوائے کربلا
تیغ علی تھی معرکہ آرائے کربلا
خالی نہ تھی سروں سے کہیں جائے کربلا
بستی بسی تھی مردوں کے قریے اجاڑ تھے
لاشوں کی تھی زمین سروں کے پیاز تھے
غازی نے رکھ لیا تھا جو شمشیر کے تلے
تھی طرفہ کشمکش فلک پیر کے تلے
چلے سمٹ کے جاتے تھے رہ گیر کے تلے
چھپتی تھی سر جھکا کے کماں تیر کے تلے
اس تیغِ بے دریغ کا جلوہ کہاں نہ تھا
سہمے تھے سب پہ گوشۃ امن و اماں نہ تھا
چاروں طرف کمان کیانی کی وہ ترنگ
رہ رہ کے ابرِشام سے تھی بارشِ خدنگ
وہ شور و صیحہ ابلق و سرنگ
وہ لوں وہ آفتاب کی تابندگی وہ جنگ
پھنکتا تھا دشتِ کیں کوئی دل تھا نہ چین سے
اس دن کی تاب و ترب کوی پوچھے حسین سے
سقے پکارتے تھے یہ مشکیں لیے ادھر
بازارِ جنگ گرم ہے ڈھلتی ہے دوپہر
پیسا جو ہو وہ پانی سے ٹھنڈا کرے جگر
مشکوں پہ دور دور کے گرتے تھے اہلِ شر
کیا آگ لگ گئی تھی جہانِ خراب کو
پیتے تھے سب حسین تڑپتے تھے آب کو
گرمی میں پیاس تھی کہ پھینکا جاتا تھا جگر
اف کبھی کہا کبھی چہرے پہ لی سپر
آنکھوں میں ٹیس اٹھی جو پڑی دھوپ پر نظر
جھپٹے کبھی ادھر کبھی حملہ کیا ادھر
کثرت عرق کے قطروں کی تھی روئے پاک پر
موتی برستے جاتے تھے مقتل کی خاک پر
سیراب چھپتے پھرتے تھے پیاسے کی جنگ سے
چلتی تھی ایک تیغِ علی لاکھ رنگ سے
چمکی جو فرق پر تو نکل آئی تنگ سے
رکتی تھی نے سپر سے نہ آہن نہ سنگ سے
خالق نے منہ دیا تھا عجب آب و تاب کا
خود اس کے سامنے تھا پھپھولا حباب کا
سہمے ہوئے تھے یوں کہ کسی کو نہ تھی خبر
پیکاں کدھر ہے تیر کا مزار ہے کدھر
مردم کی کشمکش سے کمانوں کو تھا یہ ڈر
گوشوں کی ڈھونڈھتی تھی زمیں پر جھکا کے سر
ترکش سے کھینچے تیر کوئی یہ جگر نہ تھا
سیسر پہ جس نے ہاتھ رکھا تن پہ سر نہ تھا
گھوڑوں کی وہ تڑپ وہ چمک تیغ تیز کی
سوسو صفیں کچل گئین جب جست و خیز کی
لاکھوں مین تھی نہ ایک کو طاقت ستیز کی
تھی چار سمت دھوم گریزا گریز کی
آری جو ہو گئی تھیں وہ سب ذوالفقار سے
تیغوں نے منہ پھرا لیے تھے کارزار سے
گھوڑوں کی جست و خیز سے اٹھا غبار زرد
گردوں میں مثل شیشہ ساعت بھری تھی گرد
تودا بنا تھا خاک کا مینائے لاجورد
کوسوں سیاہ تار تھا شب وادی نبرد
پنہاں نظر سے نیرگیتی فروز تھا
ڈھلتی تھی دوپہر کے نہ شب تھا نہ روز تھا
اللہ ری لڑائی میں شوکت جناب کی
سونلائے رنگ میں تھی ضیا آفتاب کی
سوکھیوہ لب کہ پنکھڑیاں تھیں گلاب کی
تصیور ذو الجناح پہ تی بو تراب کی
ہوتا تھا غل جو کرتے تھے نعرے لڑائی میں
بھاگو کہ شیر گونج رہا ہے ترائی میں
پھر تو یہ غل ہوا کہ دہائی حسین کی
اللہ کا غضب تھا لڑائی حسین کی
دریا حسین کا ہے ترائی حسین کی
دنیا حسین کی ہے خدائی حسین کی
بیڑا بچایا آپ نے طوفاں سے نوح کا
اب رحم واسطہ ملے اکبر کی روح کا
اکبر کا نام سن کے جگر پر لگی سناں
آنسو بھر آئے روک لی رہوار کی عناں
مڑکر پکارے لاش پسر گوشۂ زماں
تم نے نہ دیکھی جنگِ پدر اے پدر کی جاں
قسمیں تمہاری روح کی یہ لوگ دیتے ہیں
لو اب تو ذوالفقار کو ہم روک لیتے ہیں
چلایا ہاتھ مار کے زانو پہ ابنِ سعد
اے وا فضیحاتا یہ ہزیمت ظفر کے بعد
زیبا دلاوروں کو نہیں ہے خلافِ وعد
اک پہلوان یہ سنتے ہی گر جا مثالِ رعد
نعرہ کیا کہ کرتا ہوں حملہ امام پر
اے ابنِ سعد لکھ لے ظفر میرے نام پر
بالا قدو کلفت و تنو مند و خیرہ سر
روئیں تن و سیاہ دروں، آہنی کمر
ناوک پیام مگر کے تکش اجل کا گھر
تیغیں ہزار ٹوٹ گءٰن جس پہ وہ سپر
دل میں بدی طبیعتِ بد میں بگاڑ تھا
گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا
ساتھ اس کے اور اسی قد و قامت کا ایک پل
آنکھیں کبود رنگ سیہ ابرووں پہ بل
بدکار بد شعار ستمگار و پرد غل
جنگ آزما بھگائے ہوئے لشکروں کے دل
بھالے لیے کسے ہوئے کمریں ستیز پر
نازاں وہ ضرب گرز پہ یہ تیغ تیز پر
کھنچ جائے شکلِ حرب وہ تدبیر چاہیے
دشمن بھی سب مقر ہوں وہ تقریر چاہیے
تیزی زبان میں صورتِ شمشیر چاہیے
فولاد کا قلم دمِ تحریر چاہیے
نقشہ کھنچے گا صاف صفِ کار زار کا
پانی دوات چاہتی ہے ذوالفقار کا
لشکر میں اضطراب تھا فوجوں میں کھلبلی
ساونت بے حواس ہراسان دھنی بلی
ڈر تھا کہ لو حسین بڑھے تیغ اب چلی
غل تھا ادھر ہیں مرحب و عنتر ادھر علی
کون آج سر بلند ہو اور کون پست ہو؟
کس کی ظفر ہو دیکھیے کس کی شکست ہو؟
آوازی دی یہ ہاتفِ غیبی نے تب کہ ہاں
بسم اللہ اے امیر عرب کے سرور جاں
اٹھی علی کی تیغ دو دم چاٹ کر زباں
بیٹھے درست ہو کے فرس پہ شۂ زماں
واں سے وہ شور بخت بڑھا نعرہ مار کے
پانی بھر آیا منہ میں ادھر ذوالفقار کے
لشکر کے سب جواں تھے لڑائی میں جی لڑائے
وہ بد نظر تھا آنکھوں میں آنکھیں ادھر گڑائے
ڈھالیں لڑیں سپاہ کی یا ابر گڑگڑا ئے
غصے میں آئے گھوڑے نے کبھی دانت کڑکڑکائے
ماری جو ٹاپ ڈر کے ہٹے ہر لعیں کے پاؤں
ماہی پہ ڈگمگائے گادِ زمیں کے پاؤں
نیزہ ہلا کے شاہ پر آیا وہ خود پسند
بشکل کشا کے لال نے کھولے تمام بند
تیر و کمالں سے بھی نہ وا جب وہ بہرہ مند
چلا ادھر کھنچا کہ چلی تیغ سربلند
وہ تیر کٹ گئے جو در آتے تھے سنگ میں
گوشے نہ تھے کماں میں منہ پیکاں خدنگ میں
ظالم اٹھا کے گرز کو آیا جناب پر
طاری ہوا غضب خلفِ بوتراب نے
مارا جو ہاتھ پاؤں جماکر رکاب پر
بجلی گری شقی کے سرِ پر عتاب پر
بد ہاتھ میں شکست ظفر نیک ہاتھ میں
ہاتھ اڑ کے جا پڑا کئی ہاتھ ایک ہاتھ میں
کچھ دست پاچہ ہو کے چلا تھا وہ نابکار
پنجے سے پر اجل کے کہاں جا سکے شکار
واں اس نے با میں ہاتھ میں لی تیغِ آبدار
یاں سر سے آئی پشت کے فقروں پہ ذوالفقار
قرباں تیغِ تیز شۂ نامدار کے
دو ٹکڑے تھے سوار کے دو رہوار کے
پھر دوسرے پہ گزر اٹھا کر پکارے شاہ
کیوں ضرب ذوالفقار پہ تونے بھی کی نگاہ
سرشار تھا شرابِ تکبر سے رو سیاہ
ج
- meer-anees
چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں
چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں
پھر یہ بیمار کس کے گھر جائیں
آج کا غم بڑی قیامت ہے
آج سب نقش غم ابھر جائیں
ہے بہاروں کی روح سوگ نشیں
سارے اوراق گل بکھر جائیں
ناز پروردہ بے نوا مجبور
جانے والے یہ سب کدھر جائیں
کل کا دن ہائے کل کا دن اے جونؔ
کاش اس رات ہم بھی مر جائیں
ہے شب ماتم مسیحائی
اشک دامن میں تا سحر جائیں
مرنے والے ترے جنازے میں
کیا فقط ہم بہ چشم تر جائیں
کاش دل خون ہو کے بہہ جائے
کاش آنکھیں لہو میں بھر جائیں
چارہ گر بھی جو یوں گزر جائیں
پھر یہ بیمار کس کے گھر جائیں
آج کا غم بڑی قیامت ہے
آج سب نقش غم ابھر جائیں
ہے بہاروں کی روح سوگ نشیں
سارے اوراق گل بکھر جائیں
ناز پروردہ بے نوا مجبور
جانے والے یہ سب کدھر جائیں
کل کا دن ہائے کل کا دن اے جونؔ
کاش اس رات ہم بھی مر جائیں
ہے شب ماتم مسیحائی
اشک دامن میں تا سحر جائیں
مرنے والے ترے جنازے میں
کیا فقط ہم بہ چشم تر جائیں
کاش دل خون ہو کے بہہ جائے
کاش آنکھیں لہو میں بھر جائیں
- jaun-eliya
عرش کے نوری زمیں کے فرش پر آنے کو ہیں
اور اک خاکی کو سیر خلد دکھلانے کو ہیں
باغ جنت کو سدھارا سید عالی مقام
راہ میں اس کی ملائک نور برسانے کو ہیں
وائے حسرت چل دیا دنیا سے وہ محبوب قوم
اور جو باقی ہیں اس کے ہجر میں جانے کو ہیں
ساقیٔ مرحوم تیرے بادہ خواروں کے لیے
خون دل پینے کو اور لخت جگر کھانے کو ہیں
گلشن ملت میں غنچوں نے ابھی کھولی تھی آنکھ
ایک جھونکے سے خزاں کے اب وہ مرجھانے کو ہیں
چھپ گیا وہ روئے رخشاں مہر عالم تاب کا
اب شب یلدا کی ہر سو ظلمتیں چھانے کو ہیں
اے شاہ بے تاج وہ ماتم کی تیرے دھوم ہے
تاج داروں کے علم اس غم سے جھک جانے کو ہیں
دشت میں دوں لگ رہی ہے قیس کے ماتم میں آج
آہوان نجد کی آنکھوں میں اشک آنے کو ہیں
ایک سینے میں تھی سید کے تڑپ اسلام کی
ہم مسلماں سب برائے نام کہلانے کو ہیں
کاروان قوم کا ہنگامہ تیرے دم سے تھا
یہ نہ تھا معلوم حضرت کوچ فرمانے کو ہیں
بوسہ گاہ قوم ہوگا تیرے سنگ آستاں
نقش پا پر تیرے لاکھوں قافلے آنے کو ہیں
ہر زماں ایں رہ گزر را کاروان دیگر است
کشتگان عشق را ہر لخت جان دیگر است
ہائے وہ خورشید انور چہرۂ تاباں ترا
ہائے وہ ماہ منور عارض رخشاں ترا
وہ نگاہیں جاں فزا اور وہ ادائیں دل ربا
وہ جبین دل کشا وہ دل فروز عنواں ترا
ہائے اس ریش مبارک پر وہ بارش نور کی
شام پیری میں بیاض صبح نور افشاں ترا
ہائے وہ جان بصیرت تیرا نورانی دماغ
ہائے وہ کان محبت سینۂ سوزاں ترا
وہ تری شان جلالی وہ ترا رعب جمال
پڑ گئی جس پر نظر تھا بندۂ فرماں ترا
مہدی و مشتاق ہمدم شبلی و حالی ندیم
اور زین العابدیں خاصائی خاصاں ترا
بام و در کالج کے ہیں ماتم میں تیرے سر نگوں
مرثیہ خواں بن گیا ہر کاخ و ہر ایواں ترا
دل سے خشت و سنگ کے کالج میں اٹھتی ہے صدا
کیا ہوا میر عمارت خانۂ ویراں ترا
تا جہاں میں ہے ترے نانا کی امت کو بقا
قوم میں ماتم رہے گا سید احمد خاں ترا
بندہ پرور وقت رخصت یاد فرمایا نہ کیوں
ناظر مہجور تھا وابستۂ داماں ترا
اے چمن پیرائے ملت تیرے شوق دید میں
تھا نواسنج فغاں یہ بلبل بستاں ترا
سر بہ صحرا اب رہیں گے آہ دیوانے تیرے
شمع تربت کا کریں گے طوف پروانے ترے
ہائے بزم قوم میں اب جلوہ فرمائے گا کون
ماہ کے مانند ہالے میں نظر آئے گا کون
اے مسیحا قوم کے تجھ بن عظام خستہ کو
قم بہ اذنی کہہ کے اب جنبش میں پھر لائے گا کون
دیکھ کر چتون تری اٹھتے تھے دل میں ولولے
اس نگاہ گرم سے اب دل کو گرمائے گا کون
تھا ترا روئے منور ایک نجم رہنما
اب وہ نورانی فضا ظلمت میں دکھلائے گا کون
اس شعاع روح پرور سے پھر اے ماہ منیر
دل کے دریا میں وہ رقص موج دکھلائے گا کون
خانہ جنگی ہر طرف ہے معاشر اسلام میں
ہائے تجھ بن ان کے یہ الجھاؤ سلجھائے گا کون
دار و گیر دہر مثل عرصۂ شطرنج ہے
یار شاطر بن کے اس کی چال بتلائے گا کون
جھگیوں کا روپ بھر کر قوم کی اسٹیج پر
ما نمی خواہیم ننگ و نام را گائے گا کون
روٹھ کر جاتا ہے سید آؤ لیں اس کو منا
ورنہ اتنی مشکلیں آسان فرمائے گا کون
دفن کرنا صحن میں کالج کے سر سید کی لاش
اس خلیل اللہ سے کعبہ کو چھڑوائے گا کون
یوں تو لاکھوں آئیں گے اس نجد میں اور جائیں گے
سید احمد سا جنوں ساماں مگر آئے گا کون
اے حریفاں آں قدح بہ شکست و آں ساقی نماند
جرعۂ جز اشک خوں در جام ما باقی نماند
سید مرحوم امت کا بھلا کرتا رہا
فکر ملت روز و شب صبح و مسا کرتا رہا
جو فلاح قوم کی آئی سمجھ میں اس کی بات
برملا کہتا رہا اور برملا کرتا رہا
تھی اسے پرواہ تحسیں اور نہ کچھ نفریں کا ڈر
اس کو جو کرنا تھا بے رو و ریا کرتا رہا
ناسزا سنتا رہا اور مرحبا کہتا رہا
کفر کے فتووں میں کام اسلام کا کرتا رہا
گر ہوئے ناکامیوں سے حوصلے یاروں کے پست
ہمت عالی کا اپنی اقتضا کرتا رہا
قوم میں پھر تازہ ذوق بت پرستی دیکھ کر
اک نیا کعبہ علی گڑھ میں بنا کرتا رہا
اے کہ کالج کے یہ قصر و خاک و ایواں دیکھیے
کام جو شاہوں کا تھا سو یہ گدا کرتا رہا
اس نے کی اسلام اور اوہام باطل میں تمیز
زنگ سے آئینۂ دیں کی جلا کرتا رہا
کفر کے حملوں میں تھا اسلام کی دائم سپر
عالم امت یہ کار انبیا کرتا رہا
شاہد اردو کی زلفوں کے نکالے پیچ و خم
حسن کے غمزوں کو فطرت آشنا کرتا رہا
یہ چلی تھی امت مرحوم سیل غدر میں
موت کے طوفاں میں کار ناخدا کرتا رہا
زندگی سید کی تھی قلب تپاں کی زندگی
تھی جہاں کی زندگی جان جہاں کی زندگی
چھپ گیا وہ مہر تاباں بزم دوراں چھوڑ کر
مطلع امید کا تاریک عنواں چھوڑ کر
فصل گل میں وہ چلا بزم گلستاں چھوڑ کر
شاخ سارے آرزو کے گل بہ داماں چھوڑ کر
نالۂ دل دوز صحن بوستاں میں سر کیا
بلبلان زار نے درس گلستاں چھوڑ کر
آ لیا سیل فنا نے کارواں سالار کو
قافلہ کو دشت حرماں میں پریشاں چھوڑ کر
پیر کنعاں کی جدائی سے جگر ہے پاش پاش
گو چلا ہے مصر میں وہ ماہ کنعاں چھوڑ کر
سو گیا کنج لحد میں شاہ بے تاج و سریر
باغ و راغ و بارگاہ و قصر و ایواں چھوڑ کر
فیض سے تیرے رہی وابستہ حاصل کی امید
تشنہ لب کہتی نہ جائے ابر نیساں چھوڑ کر
یہ تو بتلا دے کہ ہے کس کا سہارا قوم کو
کعبۂ دل قبلۂ جاں تیرا داماں چھوڑ کر
کون ہوگا مرد میداں اب مصاف دہر کا
ہاتھ میں کس کے چلا ہے گو وہ چوگاں چھوڑ کر
بندہ پرور یہ جنون عشق کے شایاں نہ تھا
سیر گلزار ارم خار مغیلاں چھوڑ کر
گاہے گاہے قوم کی حالت پہ بھی کرنا نظر
سیر جنت چھوڑ کر گل گشت رضواں چھوڑ کر
اس چمن میں روح منڈلاتی رہے گی آپ کی
جائے گی بلبل کہاں بزم گلستاں چھوڑ کر
دار فانی کی ہے ناظرؔ گرچہ فانی زندگی
کشتگان عشق کی ہے جاودانی زندگی
اور اک خاکی کو سیر خلد دکھلانے کو ہیں
باغ جنت کو سدھارا سید عالی مقام
راہ میں اس کی ملائک نور برسانے کو ہیں
وائے حسرت چل دیا دنیا سے وہ محبوب قوم
اور جو باقی ہیں اس کے ہجر میں جانے کو ہیں
ساقیٔ مرحوم تیرے بادہ خواروں کے لیے
خون دل پینے کو اور لخت جگر کھانے کو ہیں
گلشن ملت میں غنچوں نے ابھی کھولی تھی آنکھ
ایک جھونکے سے خزاں کے اب وہ مرجھانے کو ہیں
چھپ گیا وہ روئے رخشاں مہر عالم تاب کا
اب شب یلدا کی ہر سو ظلمتیں چھانے کو ہیں
اے شاہ بے تاج وہ ماتم کی تیرے دھوم ہے
تاج داروں کے علم اس غم سے جھک جانے کو ہیں
دشت میں دوں لگ رہی ہے قیس کے ماتم میں آج
آہوان نجد کی آنکھوں میں اشک آنے کو ہیں
ایک سینے میں تھی سید کے تڑپ اسلام کی
ہم مسلماں سب برائے نام کہلانے کو ہیں
کاروان قوم کا ہنگامہ تیرے دم سے تھا
یہ نہ تھا معلوم حضرت کوچ فرمانے کو ہیں
بوسہ گاہ قوم ہوگا تیرے سنگ آستاں
نقش پا پر تیرے لاکھوں قافلے آنے کو ہیں
ہر زماں ایں رہ گزر را کاروان دیگر است
کشتگان عشق را ہر لخت جان دیگر است
ہائے وہ خورشید انور چہرۂ تاباں ترا
ہائے وہ ماہ منور عارض رخشاں ترا
وہ نگاہیں جاں فزا اور وہ ادائیں دل ربا
وہ جبین دل کشا وہ دل فروز عنواں ترا
ہائے اس ریش مبارک پر وہ بارش نور کی
شام پیری میں بیاض صبح نور افشاں ترا
ہائے وہ جان بصیرت تیرا نورانی دماغ
ہائے وہ کان محبت سینۂ سوزاں ترا
وہ تری شان جلالی وہ ترا رعب جمال
پڑ گئی جس پر نظر تھا بندۂ فرماں ترا
مہدی و مشتاق ہمدم شبلی و حالی ندیم
اور زین العابدیں خاصائی خاصاں ترا
بام و در کالج کے ہیں ماتم میں تیرے سر نگوں
مرثیہ خواں بن گیا ہر کاخ و ہر ایواں ترا
دل سے خشت و سنگ کے کالج میں اٹھتی ہے صدا
کیا ہوا میر عمارت خانۂ ویراں ترا
تا جہاں میں ہے ترے نانا کی امت کو بقا
قوم میں ماتم رہے گا سید احمد خاں ترا
بندہ پرور وقت رخصت یاد فرمایا نہ کیوں
ناظر مہجور تھا وابستۂ داماں ترا
اے چمن پیرائے ملت تیرے شوق دید میں
تھا نواسنج فغاں یہ بلبل بستاں ترا
سر بہ صحرا اب رہیں گے آہ دیوانے تیرے
شمع تربت کا کریں گے طوف پروانے ترے
ہائے بزم قوم میں اب جلوہ فرمائے گا کون
ماہ کے مانند ہالے میں نظر آئے گا کون
اے مسیحا قوم کے تجھ بن عظام خستہ کو
قم بہ اذنی کہہ کے اب جنبش میں پھر لائے گا کون
دیکھ کر چتون تری اٹھتے تھے دل میں ولولے
اس نگاہ گرم سے اب دل کو گرمائے گا کون
تھا ترا روئے منور ایک نجم رہنما
اب وہ نورانی فضا ظلمت میں دکھلائے گا کون
اس شعاع روح پرور سے پھر اے ماہ منیر
دل کے دریا میں وہ رقص موج دکھلائے گا کون
خانہ جنگی ہر طرف ہے معاشر اسلام میں
ہائے تجھ بن ان کے یہ الجھاؤ سلجھائے گا کون
دار و گیر دہر مثل عرصۂ شطرنج ہے
یار شاطر بن کے اس کی چال بتلائے گا کون
جھگیوں کا روپ بھر کر قوم کی اسٹیج پر
ما نمی خواہیم ننگ و نام را گائے گا کون
روٹھ کر جاتا ہے سید آؤ لیں اس کو منا
ورنہ اتنی مشکلیں آسان فرمائے گا کون
دفن کرنا صحن میں کالج کے سر سید کی لاش
اس خلیل اللہ سے کعبہ کو چھڑوائے گا کون
یوں تو لاکھوں آئیں گے اس نجد میں اور جائیں گے
سید احمد سا جنوں ساماں مگر آئے گا کون
اے حریفاں آں قدح بہ شکست و آں ساقی نماند
جرعۂ جز اشک خوں در جام ما باقی نماند
سید مرحوم امت کا بھلا کرتا رہا
فکر ملت روز و شب صبح و مسا کرتا رہا
جو فلاح قوم کی آئی سمجھ میں اس کی بات
برملا کہتا رہا اور برملا کرتا رہا
تھی اسے پرواہ تحسیں اور نہ کچھ نفریں کا ڈر
اس کو جو کرنا تھا بے رو و ریا کرتا رہا
ناسزا سنتا رہا اور مرحبا کہتا رہا
کفر کے فتووں میں کام اسلام کا کرتا رہا
گر ہوئے ناکامیوں سے حوصلے یاروں کے پست
ہمت عالی کا اپنی اقتضا کرتا رہا
قوم میں پھر تازہ ذوق بت پرستی دیکھ کر
اک نیا کعبہ علی گڑھ میں بنا کرتا رہا
اے کہ کالج کے یہ قصر و خاک و ایواں دیکھیے
کام جو شاہوں کا تھا سو یہ گدا کرتا رہا
اس نے کی اسلام اور اوہام باطل میں تمیز
زنگ سے آئینۂ دیں کی جلا کرتا رہا
کفر کے حملوں میں تھا اسلام کی دائم سپر
عالم امت یہ کار انبیا کرتا رہا
شاہد اردو کی زلفوں کے نکالے پیچ و خم
حسن کے غمزوں کو فطرت آشنا کرتا رہا
یہ چلی تھی امت مرحوم سیل غدر میں
موت کے طوفاں میں کار ناخدا کرتا رہا
زندگی سید کی تھی قلب تپاں کی زندگی
تھی جہاں کی زندگی جان جہاں کی زندگی
چھپ گیا وہ مہر تاباں بزم دوراں چھوڑ کر
مطلع امید کا تاریک عنواں چھوڑ کر
فصل گل میں وہ چلا بزم گلستاں چھوڑ کر
شاخ سارے آرزو کے گل بہ داماں چھوڑ کر
نالۂ دل دوز صحن بوستاں میں سر کیا
بلبلان زار نے درس گلستاں چھوڑ کر
آ لیا سیل فنا نے کارواں سالار کو
قافلہ کو دشت حرماں میں پریشاں چھوڑ کر
پیر کنعاں کی جدائی سے جگر ہے پاش پاش
گو چلا ہے مصر میں وہ ماہ کنعاں چھوڑ کر
سو گیا کنج لحد میں شاہ بے تاج و سریر
باغ و راغ و بارگاہ و قصر و ایواں چھوڑ کر
فیض سے تیرے رہی وابستہ حاصل کی امید
تشنہ لب کہتی نہ جائے ابر نیساں چھوڑ کر
یہ تو بتلا دے کہ ہے کس کا سہارا قوم کو
کعبۂ دل قبلۂ جاں تیرا داماں چھوڑ کر
کون ہوگا مرد میداں اب مصاف دہر کا
ہاتھ میں کس کے چلا ہے گو وہ چوگاں چھوڑ کر
بندہ پرور یہ جنون عشق کے شایاں نہ تھا
سیر گلزار ارم خار مغیلاں چھوڑ کر
گاہے گاہے قوم کی حالت پہ بھی کرنا نظر
سیر جنت چھوڑ کر گل گشت رضواں چھوڑ کر
اس چمن میں روح منڈلاتی رہے گی آپ کی
جائے گی بلبل کہاں بزم گلستاں چھوڑ کر
دار فانی کی ہے ناظرؔ گرچہ فانی زندگی
کشتگان عشق کی ہے جاودانی زندگی
-
1
نیرنگیٔ ریاض جہاں یادگار ہے
نیزے پہ آفتاب قیامت سوار ہے
زہراؐ کا سر کھلا ہے کفن تار تار ہے
تربت میں بو تراب کے دل پر غبار ہے
بلوہ میں بے نقاب ہے کنبہ بتول کا
بے گور و بے کفن ہے نواسہ رسول کا
2
آب و غذا ہے لشکر کفار کے لیے
درے ہیں آل احمد مختارؐ کے لیے
بے چادری ہے عترت اطہار کے لیے
زنجیر خاردار ہے بیمار کے لیے
کانٹوں سے بے قرار جو ہوتے ہیں آبلے
ہر بار بار پھوٹ پھوٹ کے روتے ہیں آبلے
3
چھالوں کو ربط و ضبط ادھر نوک خار سے
تن گرم اختلاط و محبت بخار سے
دست فگار دست و گریباں مہار سے
دل ہتکڑی کا ہاتھ میں رکھتے ہیں پیار سے
لطف و کرم سمجھتے ہیں ظلم شدید کو
گردن گلے لگاتی ہے طوق حدید کو
4
درے ہیں یا کہ ٹھوکریں کھانے کے واسطے
آگے غبار راہ بتانے کے واسطے
منزل پہ فرش خاک بچھانے کے واسطے
بیڑی ہے شب کو پاؤں دبانے کے واسطے
غش نے گرادیا جو مصیبت نصیب کو
درد جگر نے اٹھ کے سنبھالا غریب کو
5
ایسا مریض بستۂ زنجیر ہائے ہائے
گرنے پہ بے گناہ کو تعزیر ہائے ہائے
سادات کی یہ شان یہ توقیر ہائے ہائے
ہر شہر میں یہ چاند ہوں تشہیر ہائے ہائے
لکھا ہے جس دیار میں یہ قافلہ گیا
ناکے پہ اک ہجوم تماشے کو آ گیا
6
ناقوں کو اس روش سے بھگاتے ہیں نابکار
بچے زمین گرم پہ گرتے ہیں بار بار
دم بھر کہیں ٹھہرنے نہ پاتے تھے بے قرار
مہلت نماز کی بھی نہ ملتی تھی زینہار
دن بھر تو کاہشوں میں وہ مہتاب وار تھے
منزل پہ چین کیا ہو کہ شب زندہ دار تھے
7
گردش میں تھے نصیب کی صورت وہ رشک ماہ
پہنچی قریب شہر حلب شام کی سپاہ
گمراہ خوف شاہ سے ٹھٹکے میان راہ
دہشت سے زرد تھا پسر سعد رو سیاہ
نامہ شہ حلب کو لکھا عز و جاہ سے
کاغذ بھی روسیہ ہوا اس کے گناہ سے
8
اپنے ستم کا عذر بھی لکھا سرور بھی
مضموں خوشامدوں کے بھی الفاظ زور بھی
باطن میں پاس کفر بھی ظاہر میں دور بھی
لفظوں سے انکسار بھی پیدا غرور بھی
مضموں وہ نوک جھونک کے نکتے خراش کے
فقرہ لکھے حسام قلم سے تراش کے
9
لکھا کہ اشتیاق زیارت کمال ہے
ظاہر ہے شکل سے جو طبیعت کا حال ہے
ہنگام خواب بھی یہی دل کو خیال ہے
قدموں سے دور ہوں فقط اتنا ملال ہے
یاں تک پہنچ گیا ہوں بڑے اشتیاق سے
کیا متفق نصیب ہوا اتفاق سے
10
ہر چند آپ کا بھی ہے خادم یہ خیر خواہ
لیکن امیر شام کی طاعت پہ ہے نگاہ
مجھ کو بھی داغ ہے کہ چھپا فاطمہؐ کا ماہ
حاکم کا حکم تھا یہ ملازم ہے بے گناہ
گو لوگ یہ کہیں گے کہ میں نے برا کیا
پر حق یہ ہے کہ حق رفاقت ادا کیا
11
تم بھی نہ غم کرو کہ یہ جائے سرور ہے
خاطر امیر شام کی سب کو ضرور ہے
یاں حق کا پاس عقل و متانت سے دور ہے
اس سے بگاڑنے میں سراسر قصور ہے
ایسا نہ ہو جناب کے حق میں زبون ہو
کیا سرخروئی ہے کہ ہزاروں کا خون ہو
12
آج اس کے زیر حکم ہے وہ شیر دل سپاہ
جس نے کیا کنندۂ خیبر کا گھر تباہ
سکہ تھا جن کی ضرب کا ماہی سے تابہ ماہ
ان پر کیے وہ ظلم کہ اللہ کی پناہ
خنجر سے سر قلم کیا اس بے عدیل کا
کاٹا تھا جس کے باپ نے پر جبرئیل کا
13
وہ مرتضی کہ جن کا دو عالم میں شور تھا
چالیس پہلوانوں کے مانند زور تھا
پیل فلک بھی جن کے مقابل میں مور تھا
بہرام آسماں بھی تلاشیٔ گور تھا
خالق نے جس کو یاد کیا عرش پاک پر
اس کے پسر کی لاش کو چھوڑ آئے خاک پر
14
جب خاک میں ملا دیا گھر بوترابؑ
پھر اور کس کو تاب و تحمل عتاب کا
ہر طرح خیر خواہ ہوں دل سے جناب کا
ایسا نہ ہو کہ ہو کوئی باعث حجاب کا
دولت بھی اقتدار بھی شاہی بھی جائے گی
لشکر بگڑ گیا تو نہ پھر کچھ بن آئے گی
15
دنیا میں جب کہ مال نہیں پھر مآل کیا
زر سے خدا ملے گا نبیؐ اور آل کیا
گو آفتاب رو بھی ہو بے زر جلال کیا
مفلس کا مثل ماہ ہو شہرہ کمال کیا
بے زر پہ جرم بندگی ٔبے نیاز ہیں
نیت تو ہے تنور میں گرم نماز ہیں
16
بے سیم و زر زراعت دیں پائمال ہے
افلاس میں عبادت حق بھی محال ہے
سجدہ میں سر ہے سر میں پریشاں خیال ہے
اعمال ہیں صحیح جو کیسہ میں مال ہے
مفلس کا پاؤں ڈگتا ہے راہ سلوک میں
دانا بھی بھول جاتے ہیں تسبیح بھوک میں
17
زر کی بدولت اہل دول کا وقار ہے
والہ تبار بھی ہے تو بے اعتبار ہے
مفلوک مثل خار نگاہوں میں خار ہے
تھوڑا بھی مال ہو تو بڑا اقتدار ہے
زر تھا تو یہ خلیلؑ نے کعبہ بنالیا
بے مال کیا کسی نے یہاں نام پالیا
18
ہاں میہمان کیجئے فوج امیر کو
آپ آئیے کہ بھیجئے اپنے وزیر کو
بے اطلاع واں نہیں لایا بہیر کو
روکا ہے میں نے راہ میں جم غفیر کو
یاں سے جو کوچ ہو تو وہیں پر مقام ہو
تجویز ہو مقام تو حاضر غلام ہو
19
آراستہ ہو شہر دوکانیں سجیں تمام
ہو آئینہ صفائی میں ہر ایک قصر و بام
ہر ایک جا ہو آمد لشکر کی دھوم دھام
کوچوں میں بہرسیر فراہم ہوں خاص و عام
ہر اک بشر کو آل پیمبرؐ کی دید ہو
قربانٔی حسینؑ کی ہر گھر میں عید ہو
20
باہم ہو خلق بہر تماشہ دم سحر
بلوے میں فاطمہ کو دکھاؤں گا ننگے سر
پہنے ہوئے ہو طوق ید اللہ نامور
نوک سناں پہ ہے سر شبیرؑ خوں میں تر
رہگیر شان رب ہدا آج دیکھ لیں
نیزے پہ شکل صاحب معراجؐ دیکھ لیں
21
تحریر تیرہ دل نے رواں سوئے شاہ کی
ہر لفظ میں بھری تھی سیاہی گناہ کی
پر شاہ کو ولا تھی شہ دیں پناہ کی
یوسفؑ کی طرح چاہ تھی زہراؐ کے ماہ کی
دن رات یاد تھی شہ عالی مقام کی
تسبیح تھی حسین علیہ السلام کی
22
حضرت کے ذکر و فکر میں رہتا تھا صبح و شام
کچھ ملک کا خیال نہ کچھ سلطنت سے کام
دربار میں بھی گر کبھی آیا برائے نام
حضرت ہی کے خیال میں دل سے کیے کلام
اے دل یہ کیا ہوا شہ عالی مقام کو
اللہ خیرت بھی نہ لکھی غلام کو
23
ممنون ہوں میں لطف و عنایات شاہ کا
سبط نبیؐ میں خلق ہے شیر الہ کا
دل سے خیال رکھتے ہیں اس خیر خواہ کا
پر یہ چلن نہ تھا کبھی زہرا کے ماہ کا
بھولے ہیں کیوں مجھے شہ ذی جاہ خیر ہو
پہنچی نہ کیوں خبر مرے اللہ خیر ہو
24
بے التفاتٔی شہ دیں بے سبب نہیں
اکبر کا بیاہ ہو تو کچھ اس کا عجب نہیں
یہ بھی مگر حمیت شاہ عرب نہیں
شادی کے دن میں اور ہماری طلب نہیں
کاموں میں خط کے لکھنے کی فرصت نہیں ملی
ایسے کہیں گھرے ہیں کہ مہلت نہیں ملی
25
درباریوں سے گاہ یہ کہتا تھا وہ حزیں
کیوں صاحبو یہ جائے تعجب ہے یا نہیں
یہ کیا ہوا کہ بھول گئے ہم کو شاہ دیں
کھٹکا یہ ہے کہ آپ کے درپے ہیں اہل کیں
کہنے میں دشمنوں کے نہ آئیں خدا کرے
ایسا نہ ہو حسینؑ سے کوئی دغا کرے
26
زہرا کے چاند کا مجھے صدمہ کمال ہے
خواب و خورش حرام ہے تغیر حال ہے
اس درد و غم میں نیند کا آنا محال ہے
دیکھے ہیں ایسے خواب کہ ہر دم خیال ہے
اک تو غم فراق نے بے جان کردیا
خوابوں نے اور حال پریشان کردیا
27
جھپکی جو شب کو آنکھ تو دیکھا عجیب خواب
دریا کنارے پیٹتا ہے اک جگر کباب
دیکھا نہ تھا کبھی یہ تلاطم یہ انقلاب
دریا قریب اور مسافر پہ قحط آب
پاس اس کے ایک شیر پڑا ہے کچھار میں
پہلو میں مشک خون کا دریا کنار میں
28
رویا وہ شخص یوں کہ فلک تک صدا گئی
آواز درد میرا کلیجہ ہلا گئی
اک لڑکی پیٹتی ہوئی دریا تک آگئی
تھرا کے تب وہ لاش عرق میں نہاگئی
اس سانحہ پہ اور مرا خون گھٹ گیا
بچی قریب آئی تو لاشہ الٹ گیا
29
رویا میان خواب میں نیساں سے بیشتر
اشکوں سے ہوگیا مرا بستر تمام تر
اثنائے خواب پیٹ لیا میں نے اپنا سر
لب پر کبھی فغاں کبھی نوحہ زبان پر
چونکا تو درد اور بھی دو چند ہوگیا
حیرت سے آنکھ کھل گئی منہ بند ہوگیا
30
خواب دوم سے اور زیادہ ہوا قلق
بکھرے ہوئے ہیں خاک پہ قرآن کے ورق
کیا دیکھتا ہوں ایک بیاباں ہے لق دوق
یہ دیکھتے ہی ہوگیا چہرہ کا رنگ فق
ہر چند لاکھ ضبط کیا اضطراب میں
اس حادثہ پہ چونک پڑا عین خواب میں
31
تعبیر سوچ کر مرا سینہ دو نیم ہے
قرآں کی مثل آل رسول کریمؐ ہے
شاہد خود اس سخن پہ الف لام میم ہے
ان حرفوں میں یہ رمز غفور الرحیم ہے
جوان سے پھر گیا وہ مطیع خدا نہیں
قرآن اور آل محمدؐ جدا نہیں
32
خواب سوم نے اور ہلایا مرا جگر
قندیلیں چند ہیں ار کوفہ پہ جلوہ گر
مہتاب و آفتاب سے روشن زیادہ تر
ان سے لہو ٹپکتا ہے ہردم زمین پر
جلوہ کو ان کے دیکھ کر دل داغ داغ تھے
ان کے چراغ نور کے چشم و چراغ تھے
33
آنکھیں کھلی تھیں دیکھ کے وہ نور کے چراغ
چونکا تو میرا دل ہوا صدمہ سے داغ داغ
ڈھونڈا جو میری فکر نے تاویل کا سراغ
فوراً پکاری عقل کہ اے صاحب دماغ
یہ نور اور شے میں ہو امر محال ہے
چشم و چراغ نور پیمبرؐ کی آل ہے
34
آخر کا ہے وہ خواب کہ دل بے قرار ہے
ناقہ پہ ایک حور بہشتی سوار ہے
بیکس کی پشت نوک سناں سے فگار ہے
شال عزا پکارتی ہے سوگوار ہے
بالوں سے منہ چھپا ہوا ہے بے نصیب کا
بازو بندھا ہوا ہے رسن سے غریب کا
35
اس خواب کے خیال نے کھویا ہے میرا چین
دنیا میں حور خلد ہے حیدرؑ کی نور عین
ہمشان فاطمہؐ ہے وہی خواہر حسینؑ
یارب ملال میں نہ ہو بنت شہ حنین
کھٹکا یہ ہے کہ حال شہ دیں نہ غیر ہو
یا بے نیاز بازوئے زینب کی خیر ہو
36
کہتے تھے یہ وزیر نہ گھبرائیے جناب
ہوتے نہیں خیال کے قابل تمام خواب
رہتا ہے اضطراب میں خاطر کو پیچ و تاب
گردش میں فکر رہتی ہے مانند آفتاب
ظاہر میں خود حضور کو جو اضطراب ہیں
دل مطمئن رہے یہ پریشان خواب ہیں
37
خط کے نہ آنے کا بھی سبب آشکار ہے
گرمی غضب کی ہے کہ ہوا بے قرار ہے
خود آسماں کے سر پہ ردائے غبار ہے
پانی پہ لوٹتی ہے زمیں وہ بخار ہے
موجیں ہیں بے قرار کہ حالت تباہ ہے
دریا میں خود صدف کو بھی پانی کی چاہ ہے
38
حدت کا ذکر گر کوئی شاعر کرے رقم
مانند شمع ہاتھ میں جلنے لگے قلم
ڈھونڈے سے بھی دوات میں پائے نہ نام نم
ہر دائرہ میں نائرہ دکھلائے سوز غم
شمع قلم پہ تختہ ٔکاغذ پتنگ ہو
مسطر کے ہر نشان میں بجلی کا رنگ ہو
39
یہ ذکر تھا کہ آکے پکارا یہ اک غلام
حضرت کسی نے آپ کو بھیجا ہے کچھ پیام
قاصد کو اذن ہو تو وہ آئے پئے سلام
نامہ بھی ان کے پاس ہے اے شاہ نیک نام
نامہ کے نام سے ہوا سامان چین کا
سمجھا کہ ہو نہ ہو یہ ہے شقہ حسینؑ کا
40
فرمایا نامہ بر کو بلاؤ مرے حضور
بخشا مرے حضور نے آخر مجھے سرور
لایا ستم شعار کا نامہ وہ بے شعور
ناری کے خط کو دیکھ کے غم کا ہوا وفور
بدلا خیال نامۂ خود کام دیکھ کر
نامہ سے ہاتھ کھینچ لیا نام دیکھ کر
41
منشی سے یہ کہا کہ لفافہ کو چاک کر
پڑھ کر سنا خط پسر سعد بد سیر
سر نامہ چاک کرکے جو نامہ پہ کی نظر
دیکھا وہ حال دور کہ تھرا گیا جگر
جوش بکا سے آنکھوں کے ساغر چھلک پڑے
آواز بند ہوگئی آنسو ٹپک پڑے
42
گھبرا گیا وزیر کہ رونے کی وجہ کیا
کس کی سنانی کا ہے یہ خط کون مرگیا
بولا بڑھا کے ہاتھ کہ دیکھوں تو میں ذرا
مضموں پڑھا تو روکے پکارا وہ باوفا
لو باغ لٹ گیا شہ بدر و حنین کا
سرکٹ گیا حضور تمہارے حسینؑ کا
43
لکھتا ہے فخر سے پسر سعد روسیاہ
میں نے کیا ہے شیر الٰہی کا گھر تباہ
اک دوپہر میں کٹ گئے خویش ورفیق شاہ
اصغر کے بچپنے پہ بھی میں نے نہ کی نگاہ
تیغ جفا سے کاٹ لیا سر حسینؑ کا
بے گور ہے ابھی تن اطہر حسینؑ کا
44
جنگل میں میں نے لوٹ لیا فاطمہؐ کا گھر
نیزہ پہ رکھ کے لایا ہوں سبط نبیؐ کا سر
سیدانیوں کو روز پھراتا ہوں دربدر
قیدی ہے میری قید میں شبیرؑ کا پسر
پھر اس پہ معذرت یہ سنو اس پلید کی
میرا نہیں قصور خطا ہے یزید کی
45
سلطاں نے تاج پھینک کے حالت تباہ کی
ہلنے لگا مکان وہ فریاد وہ آہ کی
سر پیٹ کر پکارا دوہائی الہ کی
محشر ہوا پناہ رسالت پناہ کی
اولاد فاطمہؐ پہ یہ صدمہ گزر گیا
سید کا خون ہوگیا اور میں نہ مرگیا
46
مجھ کو گلا تھا بھول گئے خیر خواہ کو
یہ کیا خبر کہ فوج نے گھیرا ہے شاہ کو
گھر سے بلا کے لوٹ لیا بے گناہ کو
امت نے خود ستایا رسالت پناہ کو
نادم ہوں اپنے فعل پہ اللہ کیا کروں
بہر کمک پہنچ نہ سکا آہ کیا کروں
47
پہنچا حرم سرا میں جو یہ شور بار بار
ڈیوہٹری تک آگئے حرم شاہ نامدار
شہزادیاں تڑپ کے جو ہوتی تھیں بے قرار
پردہ سنبھالتی تھیں کنیزیں یہ حال کال زار
پردہ کے پاس خاص محل کو نہ کل پڑی
ہے ہے حسینؑ کہکے کھلے سر نکل پڑی
48
چادر کو روک کر ہوئی آگے کوئی کنیز
روکر کہا اری مجھے پردہ ہو کیا عزیز
بی بی کے آگے لونڈی کی حرمت ہے کون چیز
زینبؐ ہیں ننگے سر تجھے اتنی نہیں تمیز
ان کی طرح کہاں میں خدا کی عزیز ہوں
بے پردہ وہ ہے آج میں جس کی کنیز ہوں
49
دربار عام میں یہ قیامت تھی آشکار
کون آیا کیا ہوا نہ کھلا کچھ یہ زینہار
بسمل ادھر رئیس ادھر شاہ بے قرار
شہزادیوں میں ہائے حسینا کی تھی پکار
کہتی تھی کوئی شمر نے آفت یہ ڈھائی ہے
بی بی کو میری لوٹ لیا ہے دہائی ہے
50
شاہ حلب تھا جو ہر آئینۂ شرف
بیٹی خدا نے دی تھی اسے درۃ الصدف
سینہ تھا اس کا محو ولائے شہ نجف
یاں درفشاں تھی بزم وہ سوتی تھی اس طرف
یہ شور سن کے چونک پڑی نیم جاں ہوئی
دریائے غم میں ڈوب کے گوہر فشاں ہوئی
51
بولی یہ کیا ہوا کہ قیامت بپا ہوئی
یہ کون مرگیا کہ مرے گھر عزا ہوئی
مخلوق کس کے واسطے محو بکا ہوئی
دولت سرائے خاص بھی ماتم سرا ہوئی
ہے ہے مجھے تو فکر ہے جان بتولؐ کی
بی بی کے لال تجھ کو ضمانت رسولؐ کی
52
چلائی اک کنیز مفصل خبر نہیں
راحت میں تھیں حضور میں بیٹھی رہی نہیں
یہ تو سنا ہے میں نے لڑائی ہوئی کہیں
اک فتح نامہ دیکھ کے سلطاں ہوئے حزیں
ایسا کوئی غریب شہید جفا ہوا
مرنے سے جس کے خلق میں محشر بپا ہوا
53
یہ سن کے مثل درد اٹھی غم کی مبتلا
دروازہ تک گئی تھی کہ دیکھا یہ ماجرا
ماں باپ آرہے ہیں کھلے سر برہنہ پا
دل تھام کر کہا ارے لوگو یہ کیا ہوا
ماں نے کہا ارے مری تقدیر سوگئی
جنگل میں فاطمہ کی بہو رانڈ ہوگئی
54
بولی یہ کیا یہ کیسے یہ کس روز یہ کہاں
چلائی ماں ابھی اسی عشرہ کے درمیاں
دشت بلا میں لٹ گیا زہرا کا بوستاں
بے گور و بے کفن ہیں ابھی تک شہ زماں
نیزے پہ رکھ کے لائے ہیں سر دل ملول کا
ہے ہے اسیر ظلم ہے کنبہ بتولؐ کا
55
مڑ کر پدر کی سمت پکاری وہ دل کباب
کیوں بابا جان سچ ہے یہ مضمون پیچ و تاب
بے گور و بے کفن ہے ابھی ابن بو تراب
ہم پر بھی کچھ ہے حق امام فلک جناب
تم جاؤ کربلا میں سوئے فوج جاتی ہوں
تم تربتیں بناؤ میں سر لے کے آتی ہوں
56
یہ کہکے ساتھ لی سپہ ہمت ووقار
مردانہ بھیس کرکے چلی بہر کارزار
آئی سوئے عدو صفت قہر کردگار
خیمہ میں چھپ گیا پسر سعد نابکار
غل تھا خدا کے دوست تلے انتقام پر
شام حلب کی فوج چڑھی ملک شام پر
57
اک فوج آرزو ہوس انتقام میں
رعب و جلال ایک طرف انتظام میں
محشر کی چال ڈھال ہر اک خوش خرام میں
تائید غیب تیغ کی صورت نیام میں
چہروں کو بحر نور جو کہئے تو آب کیا
کاغذ کی ناؤ ہے ورق آفتاب کیا
58
لشکر پہ آپڑی سپہ درۃ الصدف
دم میں بہائے خون کے دریا ہر اک طرف
بسمل تھا ہر پرا تو پریشاں ہر ایک صف
کیا جوش پر تھی بحر ولائے شہ نجف
دریا بہادئے تھے شہ دیں کی راہ میں
ڈوبے ہوئے تھے ساقی کوثر کی چاہ میں
59
طوفاں میں سر بھی پیر رہے تھے حباب وار
کشتی بنی ہوئی تھی ہر اک تیغ آبدار
ناری تھے ایک وار میں بحر فنا کے پار
دار بقا تلک بھی گئی تھی لہو کی دھار
غنچے اسی کا رنگ دکھاتے ہیں آج تک
دنیا میں سرخ پوش گل آتے ہیں آج تک
60
خونخوار خوار ہو کے لہو میں نہاگئے
ملک حلب کے آئینے جوہر دکھاگئے
دوزخ میں بھاگ بھاگ کے اہل جفا گئے
بدنام ہو کے نام خود اپنا مٹا گئے
نام اک طرف مٹائے نشان مزار بھی
چھانے جو کوئی خاک نہ پائے غبار بھی
61
مردوں کی طرح خود وہ زن نیک خو لڑی
مثل نگاہ شامیوں سے دوبدو لڑی
جوہر دکھائے فوج کو با آبرو لڑی
شاہ حلب کی دختر آئینہ رو لڑی
یوں درۃ الصدف جو لڑی آب و تاب سے
خون شفق کی نہر بہی آفتاب سے
62
تلوار تھی کہ برق لیے تھی وہ نیک زن
زن سے چلی حسام تو بے دم تھے تیغ زن
کس منہ سے تیغ کو کہیں محبوب کم سخن
اس کی زبان تیز سے خود بولتا تھا رن
غل تھا یہ اوج ختم اسی نازنیں پہ ہے
باتیں فلک سے کرتی ہے اور سر زمیں پہ ہے
63
تھی ختم مردمی اسی دختر کے نام پر
برش کا جامہ قطع ہوا اس حسام پر
وہ تیغ جب چمک کے چلی اژدھام پر
غل تھا کہ لو قمر کی چڑھائی ہے شام پر
کھوئی کدورت آئینہ لا جواب نے
ظلمت کے گھر کو لوٹ لیا آفتاب نے
64
کہتی تھی سر پہ شامت اعمال بار بار
اس پر ہی فخر تھا کہ ہیں یکتائے روزگار
ہم سے نہ ور ہوا پسر شیر کردگار
اب وہ غرور کیا ہوا اے فوج نابکار
نامرد عورتوں سے بھی سر بر نہ ہوسکے
پردہ نشینوں کے بھی برابر نہ ہوسکے
65
منہ کو جھلم سے ڈھانپا ہے پاس حیا یہ ہے
مردوں سے ہے بڑھی ہوئی ہمت وفا یہ ہے
کہتے ہیں اس کو رنگ شجاعت وغا یہ ہے
شیریں جھکی ہے کوہ کنی پر مزایہ ہے
پردہ نہ کھل سکا یہ کسی اہل ہوش پر
یوسفؑ کا ہے لباس زلیخا کے دوش پر
66
مریخ کے لباس میں زہرہ ہے جلوہ گر
یا مشتری ہے جلوہ نما صورت قمر
عفت نقاب بن گئی خود روئے پاک پر
مردم سے ہے حجاب نظر کو دم نظر
ظاہر ہے مثل نور بصر اور نہاں بھی ہے
بو کی طرح چھپی ہے مگر پھر عیاں بھی ہے
67
اللہ رے اس کے رخش کی تیزی دم وغا
خود جس کے دیکھنے کی صبا کو رہی ہوا
دیکھا کسی جگہ تو یہ دیکھا یہ جا وہ جا
سم میں قمر کا دور تو خورشید کی ضیا
رکھا جہاں قدم وہاں جلوہ غضب کا تھا
سم چار آئینہ تھے کہ تازی حلب کا تھا
68
گرتے ہیں پھول بن کے شرارے زمین پر
تھے گردباد یا کہ غبارے زمین پر
نقش قدم کے تھے یہ اشارے زمین پر
بکھرے ہوئے ہیں چاند ستارے زمین پر
تھامے ہوئے رکاب سواری میں تھا قمر
نقش قدم کی آئینہ داری میں تھا قمر
69
کہئے جو اس کو حور تو اس میں کہاں یہ چال
لکھئے اگر پری تو کہاں اس میں یہ کمال
مانیں اگر غزال تو ایسی کہاں ہے یال
شاعر کی فکر سمجھیں تو یہ بھی ہے اک خیال
پرنور جوڑ بند ہیں گویا بلور کے
حق نے ہوا کو ڈھالا ہے سانچے میں نور کے
70
گلگوں جو تھا نسیم تو ابر بہار تیغ
برسا رہی تھی خون کا مینہ آبدار تیغ
وہ درۃ الصدف کی جواہر نگار تیغ
غل تھا کہ پھل سے پھول بنی شعلہ بار تیغ
سب پر ہے حسن سبزہ جوہر کھلا ہوا
آئینٔہ حلب پہ ہے مینا کیا ہوا
71
کہئے تھے خود شقی یہ تغافل حذر حذر
اسباب جنگ کی بھی ہمیں تو نہیں خبر
کھولے ابھی نشان نہ باندھی ابھی کمر
اس مرگ ناگہاں کا گماں بھی نہ تھا ادھر
ہم کو یہ دھیان تھا ہمیں یکتا و فرد ہیں
یہ اب کھلا کہ اور بھی دنیا میں مرد ہیں
72
ہم کو یہ فخر تھا کہ ہوے شہ پہ فتحیاب
پر اب کھلی مروت فرزند بوتراب
امت کا پاس کرگئے شاہ فلک جناب
ورنہ قیامت آتی جہاں میں دم عتاب
دیتا بھلا کوئی یہ اذیت حسینؑ کو
منظور تھی خود اپنی شہادت حسینؑ کو
73
ٹکڑے اڑائے دیتی ہے تلوار کیا کریں
لاکھوں کا خون پی گئی خونخوار کیا کریں
حربہ بھی ہاتھ میں نہیں پیکار کیا کریں
مجبور سرجھکاتے ہیں ناچار کیا کریں
اللہ یہ ہمیں کسی عنوان چھوڑ دے
ہم چھوڑ دیں حرم کو جو یہ جان چھوڑ دے
74
بدلی سی اٹھ کے فوج پہ چھائی گھٹا کی طرح
سر پر ڈراتی شکل سے آئی بلا کی طرح
کس کس ادا سے جان نکلای قضا کی طرح
آواز میں بھی اس کی اثر تھا دعا کی طرح
لشکر کو تھا ثبات نہ ہوش گریز تھا
جوہر کا نقش چال میں سیفی سے تیز تھا
75
مانند شمع چرب زبانی ہے تیغ میں
بحر فنا کی تیز روانی ہے تیغ میں
نار سقر کی شعلہ فشانی ہے تیغ میں
کس آگ کا بجھا ہوا پانی ہے تیغ میں
دل جل کے آبلے ہوئے ناسور ہوگئے
شامی سفید پڑگئے کافور ہوگئے
76
ٹپکا لہو سے تیغ کا جو بن لڑائی میں
پھولا ہوا تھا خاک پہ گلشن لڑائی میں
ڈستی تھی موذیوں کو وہ ناگن لڑائی میں
تیغوں سے لڑ رہی تھی جھنا جھن لڑائی میں
جھنکار وہ کہ حشر بپا ہو ہوا پھرے
چھاگل پہن کے جیسے کوئی دلربا پھرے
77
نام آوروں کو بھی نہ رہا پاس نام و ننگ
یہ گرداڑی کہ ہوگیا خاکی ہوا کا رنگ
غفلت یہ ہے کہ پاؤں بھی سوتے ہیں وقت جنگ
صیقل کی طرح مورچہ چھوڑا کہیں نہ زنگ
آتش چھپی زمین میں خاک آسمان میں
جلوہ تھا تربتوں میں اندھیرا جہان میں
78
زخمی ہر اک کا سینہ و سر چور ہاتھ پاؤں
زخموں سے چور چلنے سے معذور ہاتھ پاؤں
گردن سے سر تو جسم سے ہیں دور ہاتھ پاؤں
گویا تھے شمع تیغ سے بے نور ہاتھ پاؤں
خود کام ہاتھوں ہاتھ لحد کو رواں ہوئے
کافور ہو کے قبر کے اندر نہاں ہوئے
79
سر پر پڑی کہ خانۂ زیں پر نظر پڑی
زیں کاٹ کر چلی تو ز میں پر نظر پڑی
گاو زمیں کے قلب حزیں پر نظر پڑی
واں سے اٹھی تو عرش بریں پر نظر پڑی
ہر ایک جا حسام سے محشر عیاں ہوا
حق کے مکان کا بھی لقب لا مکاں ہوا
80
وہ خود پر نہ بکتر و جوشن پہ بند تھی
کیا برق تھی کہ سنگ نہ آہن پہ بند تھی
راکب پہ بند تھی نہ وہ تو سن پہ بند تھی
راہ اماں بھی فرقٔہ رہزن پہ بند تھی
شعلے بلاتے تھے کہ ادھر آؤ ذوق سے
دوزخ کا در کھلا ہے چلے جاؤ شوق سے
81
دل سے کسی کے حسرت دنیا نکل گئی
کافر کی جان لے کے تمنا نکل گئی
ناز و ادا سے جب سوئے اعداد نکل گئی
غل تھا کدھر وہ رشک مسیحا نکل گئی
اللہ رے تیری چال قیامت مچا گئی
ٹھوکر کے اشتیاق میں مردہ جلا گئی
82
بسمل پھڑکتے تھے کہ پھر آئے کسی طرح
اک بار پھر گلے سے لگائے کسی طرح
پھر اک نگاہ ناز دکھائے کسی طرح
زندہ مرے پڑے ہیں جلائے کسی طرح
کتنے رقیب ہوگئے کتنے جلے کٹے
محشر کی چال تھی کہ ہزاروں گلے کٹے
83
جوہر سے یہ ثبوت تھا ہر خوش کلام پر
تسبیح فاطمہؐ ہے زبان حسام پر
دریا کی طرح چڑھتی ہے افواج شام پر
پانی پلارہی ہے شہیدوں کے نام پر
کہتی تھی غیر پر بھی کرم کی نگاہ ہے
قاتل کو جس نے شیر دیا اس سے راہ ہے
84
خیموں کو چھوڑ چھوڑ کے بھاگے وہ اہل شیر
نیزوں کے سر پہ رہ گئے فوج خدا کے سر
دوڑی ہوائے شاہ میں وہ سوختہ جگر
چلائی کس سناں پہ ہواے شاہ بحر و بر
حضرت خطا معاف کہ میں جانتی نہیں
مولا کنیز آپ کو پہچانتی نہیں
85
اک سر کو پھر سناں سے اتارا بہ درد و غم
سینہ پہ رکھ کے بولی کہ اے کشتۂ ستم
روئے ہو اس طرح سے کہ آنکھوں پہ ہے ورم
یہ تو کہو تمہیں ہو شہ آسماں حشم
عباسؑ ہو کہ اکبرؑ یوسفؑ جمال ہو ؟
صدقے گئی تمہیں مری بی بی کے لال ہو؟
86
ماتم کیا کہ منہ پہ جگر آ کے رہ گئے
ساتھی تمام خاک پہ غش کھا کے رہ گئے
وہ بین تھے کہ غیر بھی چلا کے رہ گئے
کشتوں کے سر بھی نیزوں پہ تھرا کے رہ گئے
ماتم ہوا جہاں میں شہ مشرقین کا
نوحہ تھا ہر زبان پہ ہے ہے حسینؑ کا
87
عابد سے روکے زینبؑ ناچار نے کہا
غیروں کو ہے یہ پاس کہ کرتے ہیں یوں عزا
ہے ہے ہمیں تو روح پیمبرؐ سے ہے حیا
ہم نے یہ نہ کچھ نبیؐ کے نواسے کا غم کیا
سمجھے نہ ہم عزیز شہ مشرقین کو
تھم کر نہ دو گھڑی کبھی روئے حسینؑ کو
88
دنیا کی ہے یہ رسم کہ مرتا ہے جب بشر
اس کے عزیز روتے ہیں منہ ڈھانپ ڈھانپ کر
ہم لوگ تو نہ روئے نہ روئیں گے عمر پھر
ہم سے تو غیر بڑھ گئے اے غیرت قمر
اللہ اس کا اجر دے اس نوجوان کو
کس طرح رو رہا ہے مرے بھائی جان کو
89
سجاد ناتواں نے یہ سمجھایا بار بار
مہلت کہاں ہے آپ کو اے آسماں وقار
روتے ہیں خود حسینؑ کو محبوب کردگار
منہ ڈھانپتی ہیں فاطمہ زہرا جگر فگار
روئیں نہ گر حضور تو اس میں گلا نہیں
منہ ڈھانپیں کس طرح سے کہ سر پر ردا نہیں
90
واں درۃ الصدف نے سنی جب کہ یہ صدا
مردانہ وہ لباس اتارا بصد بکا
سر لے کے آئی قیدیوں میں غم کی مبتلا
بولی ارے کوئی یہ بتاؤ مجھے ذرا
پہچانتی نہیں ہوں عجب پیچ و تاب ہیں
زینب ہے جن کا نام کدھر وہ جناب ہیں
91
زینبؐ نے سر جھکا کے کہا اے وفا شعار
تجھ سے بھی اور شاہ سے بھی ہوں میں شرمسار
تعظیم دی تجھے نہ انہیں روئی زینہار
زخمی ہے پشت اٹھ نہیں سکتی نحیف و زار
محرومیٔ عزا سے یہ مضطر محن میں ہے
ماتم ہو کس طرح مرا باز و رسن میں ہے
92
روکر وہ بولی آپ کا احساں ہے خلق پر
امت کی پردہ پوشی کو پھرتی ہو ننگے سر
زیبا ہے ہم جو شرم سے مرجائیں ڈوب کر
ہم سے نہ کچھ ہوئی مدد شاہ بحر و بر
پر یہ بتائیے کہ یہ سرکس ولی کا ہے
عباسؑ کایہ سر ہے کہ سبط نبیؑ کا ہے
93
پہچان کر وہ سر یہ پکاری وہ نوحہ گر
اے بی بی میری گود کے پالے کا ہے یہ سر
ہم صورت رسولؑ ہے یہ غیرت قمر
ہے ہے بڑے دکھوں سے پلا تھا مرا پسر
اک عمر کھو کے لال یہ پایا تھا ہائے ہائے
اٹھارہ سال جوگ کمایا تھا ہائے ہائے
94
شیدائے شاہ پاک نے رو رو کے یہ کہا
بتلائیے مجھے سر سلطان کربلا
گو خواہر حسینؑ کو اٹھنا محال تھا
شور بکا کی طرح اٹھی غم کی مبتلا
نیزہ بتایا ہاتھ کلیجہ پہ مار کے
چھاتی پہ رکھ لیا سر سرور اتار کے
95
پھر منہ کو منہ پر رکھ کے پکاری بہ شور و شین
معلوم ہے کچھ آپ کو اے شاہ مشرقین
یہ تم کو لینے آئی ہے زہرا کے نورعین
جنگل میں چھوڑ جاؤ گے خواہر کو اے حسینؑ
اب کس طرح سے پائیں گے شاہ انام کو
تم کربلا کو جاؤ گے ہم ملک شام کو
96
جاتے تو ہو مگر نہ مجھے بھولیو ذرا
اکبر کو پیار کیجیو اے سرور ہدیٰ
ہم بھی ادھر کو آئیں گے لایا اگر خدا
گر مرگئے تو حشر پہ دیدار پھر رہا
ممکن نہیں کہ چین ہو تم کو زمانے میں
اغلب یہ ہے کہ قبر بھی ہو قید خانے میں
نیرنگیٔ ریاض جہاں یادگار ہے
نیزے پہ آفتاب قیامت سوار ہے
زہراؐ کا سر کھلا ہے کفن تار تار ہے
تربت میں بو تراب کے دل پر غبار ہے
بلوہ میں بے نقاب ہے کنبہ بتول کا
بے گور و بے کفن ہے نواسہ رسول کا
2
آب و غذا ہے لشکر کفار کے لیے
درے ہیں آل احمد مختارؐ کے لیے
بے چادری ہے عترت اطہار کے لیے
زنجیر خاردار ہے بیمار کے لیے
کانٹوں سے بے قرار جو ہوتے ہیں آبلے
ہر بار بار پھوٹ پھوٹ کے روتے ہیں آبلے
3
چھالوں کو ربط و ضبط ادھر نوک خار سے
تن گرم اختلاط و محبت بخار سے
دست فگار دست و گریباں مہار سے
دل ہتکڑی کا ہاتھ میں رکھتے ہیں پیار سے
لطف و کرم سمجھتے ہیں ظلم شدید کو
گردن گلے لگاتی ہے طوق حدید کو
4
درے ہیں یا کہ ٹھوکریں کھانے کے واسطے
آگے غبار راہ بتانے کے واسطے
منزل پہ فرش خاک بچھانے کے واسطے
بیڑی ہے شب کو پاؤں دبانے کے واسطے
غش نے گرادیا جو مصیبت نصیب کو
درد جگر نے اٹھ کے سنبھالا غریب کو
5
ایسا مریض بستۂ زنجیر ہائے ہائے
گرنے پہ بے گناہ کو تعزیر ہائے ہائے
سادات کی یہ شان یہ توقیر ہائے ہائے
ہر شہر میں یہ چاند ہوں تشہیر ہائے ہائے
لکھا ہے جس دیار میں یہ قافلہ گیا
ناکے پہ اک ہجوم تماشے کو آ گیا
6
ناقوں کو اس روش سے بھگاتے ہیں نابکار
بچے زمین گرم پہ گرتے ہیں بار بار
دم بھر کہیں ٹھہرنے نہ پاتے تھے بے قرار
مہلت نماز کی بھی نہ ملتی تھی زینہار
دن بھر تو کاہشوں میں وہ مہتاب وار تھے
منزل پہ چین کیا ہو کہ شب زندہ دار تھے
7
گردش میں تھے نصیب کی صورت وہ رشک ماہ
پہنچی قریب شہر حلب شام کی سپاہ
گمراہ خوف شاہ سے ٹھٹکے میان راہ
دہشت سے زرد تھا پسر سعد رو سیاہ
نامہ شہ حلب کو لکھا عز و جاہ سے
کاغذ بھی روسیہ ہوا اس کے گناہ سے
8
اپنے ستم کا عذر بھی لکھا سرور بھی
مضموں خوشامدوں کے بھی الفاظ زور بھی
باطن میں پاس کفر بھی ظاہر میں دور بھی
لفظوں سے انکسار بھی پیدا غرور بھی
مضموں وہ نوک جھونک کے نکتے خراش کے
فقرہ لکھے حسام قلم سے تراش کے
9
لکھا کہ اشتیاق زیارت کمال ہے
ظاہر ہے شکل سے جو طبیعت کا حال ہے
ہنگام خواب بھی یہی دل کو خیال ہے
قدموں سے دور ہوں فقط اتنا ملال ہے
یاں تک پہنچ گیا ہوں بڑے اشتیاق سے
کیا متفق نصیب ہوا اتفاق سے
10
ہر چند آپ کا بھی ہے خادم یہ خیر خواہ
لیکن امیر شام کی طاعت پہ ہے نگاہ
مجھ کو بھی داغ ہے کہ چھپا فاطمہؐ کا ماہ
حاکم کا حکم تھا یہ ملازم ہے بے گناہ
گو لوگ یہ کہیں گے کہ میں نے برا کیا
پر حق یہ ہے کہ حق رفاقت ادا کیا
11
تم بھی نہ غم کرو کہ یہ جائے سرور ہے
خاطر امیر شام کی سب کو ضرور ہے
یاں حق کا پاس عقل و متانت سے دور ہے
اس سے بگاڑنے میں سراسر قصور ہے
ایسا نہ ہو جناب کے حق میں زبون ہو
کیا سرخروئی ہے کہ ہزاروں کا خون ہو
12
آج اس کے زیر حکم ہے وہ شیر دل سپاہ
جس نے کیا کنندۂ خیبر کا گھر تباہ
سکہ تھا جن کی ضرب کا ماہی سے تابہ ماہ
ان پر کیے وہ ظلم کہ اللہ کی پناہ
خنجر سے سر قلم کیا اس بے عدیل کا
کاٹا تھا جس کے باپ نے پر جبرئیل کا
13
وہ مرتضی کہ جن کا دو عالم میں شور تھا
چالیس پہلوانوں کے مانند زور تھا
پیل فلک بھی جن کے مقابل میں مور تھا
بہرام آسماں بھی تلاشیٔ گور تھا
خالق نے جس کو یاد کیا عرش پاک پر
اس کے پسر کی لاش کو چھوڑ آئے خاک پر
14
جب خاک میں ملا دیا گھر بوترابؑ
پھر اور کس کو تاب و تحمل عتاب کا
ہر طرح خیر خواہ ہوں دل سے جناب کا
ایسا نہ ہو کہ ہو کوئی باعث حجاب کا
دولت بھی اقتدار بھی شاہی بھی جائے گی
لشکر بگڑ گیا تو نہ پھر کچھ بن آئے گی
15
دنیا میں جب کہ مال نہیں پھر مآل کیا
زر سے خدا ملے گا نبیؐ اور آل کیا
گو آفتاب رو بھی ہو بے زر جلال کیا
مفلس کا مثل ماہ ہو شہرہ کمال کیا
بے زر پہ جرم بندگی ٔبے نیاز ہیں
نیت تو ہے تنور میں گرم نماز ہیں
16
بے سیم و زر زراعت دیں پائمال ہے
افلاس میں عبادت حق بھی محال ہے
سجدہ میں سر ہے سر میں پریشاں خیال ہے
اعمال ہیں صحیح جو کیسہ میں مال ہے
مفلس کا پاؤں ڈگتا ہے راہ سلوک میں
دانا بھی بھول جاتے ہیں تسبیح بھوک میں
17
زر کی بدولت اہل دول کا وقار ہے
والہ تبار بھی ہے تو بے اعتبار ہے
مفلوک مثل خار نگاہوں میں خار ہے
تھوڑا بھی مال ہو تو بڑا اقتدار ہے
زر تھا تو یہ خلیلؑ نے کعبہ بنالیا
بے مال کیا کسی نے یہاں نام پالیا
18
ہاں میہمان کیجئے فوج امیر کو
آپ آئیے کہ بھیجئے اپنے وزیر کو
بے اطلاع واں نہیں لایا بہیر کو
روکا ہے میں نے راہ میں جم غفیر کو
یاں سے جو کوچ ہو تو وہیں پر مقام ہو
تجویز ہو مقام تو حاضر غلام ہو
19
آراستہ ہو شہر دوکانیں سجیں تمام
ہو آئینہ صفائی میں ہر ایک قصر و بام
ہر ایک جا ہو آمد لشکر کی دھوم دھام
کوچوں میں بہرسیر فراہم ہوں خاص و عام
ہر اک بشر کو آل پیمبرؐ کی دید ہو
قربانٔی حسینؑ کی ہر گھر میں عید ہو
20
باہم ہو خلق بہر تماشہ دم سحر
بلوے میں فاطمہ کو دکھاؤں گا ننگے سر
پہنے ہوئے ہو طوق ید اللہ نامور
نوک سناں پہ ہے سر شبیرؑ خوں میں تر
رہگیر شان رب ہدا آج دیکھ لیں
نیزے پہ شکل صاحب معراجؐ دیکھ لیں
21
تحریر تیرہ دل نے رواں سوئے شاہ کی
ہر لفظ میں بھری تھی سیاہی گناہ کی
پر شاہ کو ولا تھی شہ دیں پناہ کی
یوسفؑ کی طرح چاہ تھی زہراؐ کے ماہ کی
دن رات یاد تھی شہ عالی مقام کی
تسبیح تھی حسین علیہ السلام کی
22
حضرت کے ذکر و فکر میں رہتا تھا صبح و شام
کچھ ملک کا خیال نہ کچھ سلطنت سے کام
دربار میں بھی گر کبھی آیا برائے نام
حضرت ہی کے خیال میں دل سے کیے کلام
اے دل یہ کیا ہوا شہ عالی مقام کو
اللہ خیرت بھی نہ لکھی غلام کو
23
ممنون ہوں میں لطف و عنایات شاہ کا
سبط نبیؐ میں خلق ہے شیر الہ کا
دل سے خیال رکھتے ہیں اس خیر خواہ کا
پر یہ چلن نہ تھا کبھی زہرا کے ماہ کا
بھولے ہیں کیوں مجھے شہ ذی جاہ خیر ہو
پہنچی نہ کیوں خبر مرے اللہ خیر ہو
24
بے التفاتٔی شہ دیں بے سبب نہیں
اکبر کا بیاہ ہو تو کچھ اس کا عجب نہیں
یہ بھی مگر حمیت شاہ عرب نہیں
شادی کے دن میں اور ہماری طلب نہیں
کاموں میں خط کے لکھنے کی فرصت نہیں ملی
ایسے کہیں گھرے ہیں کہ مہلت نہیں ملی
25
درباریوں سے گاہ یہ کہتا تھا وہ حزیں
کیوں صاحبو یہ جائے تعجب ہے یا نہیں
یہ کیا ہوا کہ بھول گئے ہم کو شاہ دیں
کھٹکا یہ ہے کہ آپ کے درپے ہیں اہل کیں
کہنے میں دشمنوں کے نہ آئیں خدا کرے
ایسا نہ ہو حسینؑ سے کوئی دغا کرے
26
زہرا کے چاند کا مجھے صدمہ کمال ہے
خواب و خورش حرام ہے تغیر حال ہے
اس درد و غم میں نیند کا آنا محال ہے
دیکھے ہیں ایسے خواب کہ ہر دم خیال ہے
اک تو غم فراق نے بے جان کردیا
خوابوں نے اور حال پریشان کردیا
27
جھپکی جو شب کو آنکھ تو دیکھا عجیب خواب
دریا کنارے پیٹتا ہے اک جگر کباب
دیکھا نہ تھا کبھی یہ تلاطم یہ انقلاب
دریا قریب اور مسافر پہ قحط آب
پاس اس کے ایک شیر پڑا ہے کچھار میں
پہلو میں مشک خون کا دریا کنار میں
28
رویا وہ شخص یوں کہ فلک تک صدا گئی
آواز درد میرا کلیجہ ہلا گئی
اک لڑکی پیٹتی ہوئی دریا تک آگئی
تھرا کے تب وہ لاش عرق میں نہاگئی
اس سانحہ پہ اور مرا خون گھٹ گیا
بچی قریب آئی تو لاشہ الٹ گیا
29
رویا میان خواب میں نیساں سے بیشتر
اشکوں سے ہوگیا مرا بستر تمام تر
اثنائے خواب پیٹ لیا میں نے اپنا سر
لب پر کبھی فغاں کبھی نوحہ زبان پر
چونکا تو درد اور بھی دو چند ہوگیا
حیرت سے آنکھ کھل گئی منہ بند ہوگیا
30
خواب دوم سے اور زیادہ ہوا قلق
بکھرے ہوئے ہیں خاک پہ قرآن کے ورق
کیا دیکھتا ہوں ایک بیاباں ہے لق دوق
یہ دیکھتے ہی ہوگیا چہرہ کا رنگ فق
ہر چند لاکھ ضبط کیا اضطراب میں
اس حادثہ پہ چونک پڑا عین خواب میں
31
تعبیر سوچ کر مرا سینہ دو نیم ہے
قرآں کی مثل آل رسول کریمؐ ہے
شاہد خود اس سخن پہ الف لام میم ہے
ان حرفوں میں یہ رمز غفور الرحیم ہے
جوان سے پھر گیا وہ مطیع خدا نہیں
قرآن اور آل محمدؐ جدا نہیں
32
خواب سوم نے اور ہلایا مرا جگر
قندیلیں چند ہیں ار کوفہ پہ جلوہ گر
مہتاب و آفتاب سے روشن زیادہ تر
ان سے لہو ٹپکتا ہے ہردم زمین پر
جلوہ کو ان کے دیکھ کر دل داغ داغ تھے
ان کے چراغ نور کے چشم و چراغ تھے
33
آنکھیں کھلی تھیں دیکھ کے وہ نور کے چراغ
چونکا تو میرا دل ہوا صدمہ سے داغ داغ
ڈھونڈا جو میری فکر نے تاویل کا سراغ
فوراً پکاری عقل کہ اے صاحب دماغ
یہ نور اور شے میں ہو امر محال ہے
چشم و چراغ نور پیمبرؐ کی آل ہے
34
آخر کا ہے وہ خواب کہ دل بے قرار ہے
ناقہ پہ ایک حور بہشتی سوار ہے
بیکس کی پشت نوک سناں سے فگار ہے
شال عزا پکارتی ہے سوگوار ہے
بالوں سے منہ چھپا ہوا ہے بے نصیب کا
بازو بندھا ہوا ہے رسن سے غریب کا
35
اس خواب کے خیال نے کھویا ہے میرا چین
دنیا میں حور خلد ہے حیدرؑ کی نور عین
ہمشان فاطمہؐ ہے وہی خواہر حسینؑ
یارب ملال میں نہ ہو بنت شہ حنین
کھٹکا یہ ہے کہ حال شہ دیں نہ غیر ہو
یا بے نیاز بازوئے زینب کی خیر ہو
36
کہتے تھے یہ وزیر نہ گھبرائیے جناب
ہوتے نہیں خیال کے قابل تمام خواب
رہتا ہے اضطراب میں خاطر کو پیچ و تاب
گردش میں فکر رہتی ہے مانند آفتاب
ظاہر میں خود حضور کو جو اضطراب ہیں
دل مطمئن رہے یہ پریشان خواب ہیں
37
خط کے نہ آنے کا بھی سبب آشکار ہے
گرمی غضب کی ہے کہ ہوا بے قرار ہے
خود آسماں کے سر پہ ردائے غبار ہے
پانی پہ لوٹتی ہے زمیں وہ بخار ہے
موجیں ہیں بے قرار کہ حالت تباہ ہے
دریا میں خود صدف کو بھی پانی کی چاہ ہے
38
حدت کا ذکر گر کوئی شاعر کرے رقم
مانند شمع ہاتھ میں جلنے لگے قلم
ڈھونڈے سے بھی دوات میں پائے نہ نام نم
ہر دائرہ میں نائرہ دکھلائے سوز غم
شمع قلم پہ تختہ ٔکاغذ پتنگ ہو
مسطر کے ہر نشان میں بجلی کا رنگ ہو
39
یہ ذکر تھا کہ آکے پکارا یہ اک غلام
حضرت کسی نے آپ کو بھیجا ہے کچھ پیام
قاصد کو اذن ہو تو وہ آئے پئے سلام
نامہ بھی ان کے پاس ہے اے شاہ نیک نام
نامہ کے نام سے ہوا سامان چین کا
سمجھا کہ ہو نہ ہو یہ ہے شقہ حسینؑ کا
40
فرمایا نامہ بر کو بلاؤ مرے حضور
بخشا مرے حضور نے آخر مجھے سرور
لایا ستم شعار کا نامہ وہ بے شعور
ناری کے خط کو دیکھ کے غم کا ہوا وفور
بدلا خیال نامۂ خود کام دیکھ کر
نامہ سے ہاتھ کھینچ لیا نام دیکھ کر
41
منشی سے یہ کہا کہ لفافہ کو چاک کر
پڑھ کر سنا خط پسر سعد بد سیر
سر نامہ چاک کرکے جو نامہ پہ کی نظر
دیکھا وہ حال دور کہ تھرا گیا جگر
جوش بکا سے آنکھوں کے ساغر چھلک پڑے
آواز بند ہوگئی آنسو ٹپک پڑے
42
گھبرا گیا وزیر کہ رونے کی وجہ کیا
کس کی سنانی کا ہے یہ خط کون مرگیا
بولا بڑھا کے ہاتھ کہ دیکھوں تو میں ذرا
مضموں پڑھا تو روکے پکارا وہ باوفا
لو باغ لٹ گیا شہ بدر و حنین کا
سرکٹ گیا حضور تمہارے حسینؑ کا
43
لکھتا ہے فخر سے پسر سعد روسیاہ
میں نے کیا ہے شیر الٰہی کا گھر تباہ
اک دوپہر میں کٹ گئے خویش ورفیق شاہ
اصغر کے بچپنے پہ بھی میں نے نہ کی نگاہ
تیغ جفا سے کاٹ لیا سر حسینؑ کا
بے گور ہے ابھی تن اطہر حسینؑ کا
44
جنگل میں میں نے لوٹ لیا فاطمہؐ کا گھر
نیزہ پہ رکھ کے لایا ہوں سبط نبیؐ کا سر
سیدانیوں کو روز پھراتا ہوں دربدر
قیدی ہے میری قید میں شبیرؑ کا پسر
پھر اس پہ معذرت یہ سنو اس پلید کی
میرا نہیں قصور خطا ہے یزید کی
45
سلطاں نے تاج پھینک کے حالت تباہ کی
ہلنے لگا مکان وہ فریاد وہ آہ کی
سر پیٹ کر پکارا دوہائی الہ کی
محشر ہوا پناہ رسالت پناہ کی
اولاد فاطمہؐ پہ یہ صدمہ گزر گیا
سید کا خون ہوگیا اور میں نہ مرگیا
46
مجھ کو گلا تھا بھول گئے خیر خواہ کو
یہ کیا خبر کہ فوج نے گھیرا ہے شاہ کو
گھر سے بلا کے لوٹ لیا بے گناہ کو
امت نے خود ستایا رسالت پناہ کو
نادم ہوں اپنے فعل پہ اللہ کیا کروں
بہر کمک پہنچ نہ سکا آہ کیا کروں
47
پہنچا حرم سرا میں جو یہ شور بار بار
ڈیوہٹری تک آگئے حرم شاہ نامدار
شہزادیاں تڑپ کے جو ہوتی تھیں بے قرار
پردہ سنبھالتی تھیں کنیزیں یہ حال کال زار
پردہ کے پاس خاص محل کو نہ کل پڑی
ہے ہے حسینؑ کہکے کھلے سر نکل پڑی
48
چادر کو روک کر ہوئی آگے کوئی کنیز
روکر کہا اری مجھے پردہ ہو کیا عزیز
بی بی کے آگے لونڈی کی حرمت ہے کون چیز
زینبؐ ہیں ننگے سر تجھے اتنی نہیں تمیز
ان کی طرح کہاں میں خدا کی عزیز ہوں
بے پردہ وہ ہے آج میں جس کی کنیز ہوں
49
دربار عام میں یہ قیامت تھی آشکار
کون آیا کیا ہوا نہ کھلا کچھ یہ زینہار
بسمل ادھر رئیس ادھر شاہ بے قرار
شہزادیوں میں ہائے حسینا کی تھی پکار
کہتی تھی کوئی شمر نے آفت یہ ڈھائی ہے
بی بی کو میری لوٹ لیا ہے دہائی ہے
50
شاہ حلب تھا جو ہر آئینۂ شرف
بیٹی خدا نے دی تھی اسے درۃ الصدف
سینہ تھا اس کا محو ولائے شہ نجف
یاں درفشاں تھی بزم وہ سوتی تھی اس طرف
یہ شور سن کے چونک پڑی نیم جاں ہوئی
دریائے غم میں ڈوب کے گوہر فشاں ہوئی
51
بولی یہ کیا ہوا کہ قیامت بپا ہوئی
یہ کون مرگیا کہ مرے گھر عزا ہوئی
مخلوق کس کے واسطے محو بکا ہوئی
دولت سرائے خاص بھی ماتم سرا ہوئی
ہے ہے مجھے تو فکر ہے جان بتولؐ کی
بی بی کے لال تجھ کو ضمانت رسولؐ کی
52
چلائی اک کنیز مفصل خبر نہیں
راحت میں تھیں حضور میں بیٹھی رہی نہیں
یہ تو سنا ہے میں نے لڑائی ہوئی کہیں
اک فتح نامہ دیکھ کے سلطاں ہوئے حزیں
ایسا کوئی غریب شہید جفا ہوا
مرنے سے جس کے خلق میں محشر بپا ہوا
53
یہ سن کے مثل درد اٹھی غم کی مبتلا
دروازہ تک گئی تھی کہ دیکھا یہ ماجرا
ماں باپ آرہے ہیں کھلے سر برہنہ پا
دل تھام کر کہا ارے لوگو یہ کیا ہوا
ماں نے کہا ارے مری تقدیر سوگئی
جنگل میں فاطمہ کی بہو رانڈ ہوگئی
54
بولی یہ کیا یہ کیسے یہ کس روز یہ کہاں
چلائی ماں ابھی اسی عشرہ کے درمیاں
دشت بلا میں لٹ گیا زہرا کا بوستاں
بے گور و بے کفن ہیں ابھی تک شہ زماں
نیزے پہ رکھ کے لائے ہیں سر دل ملول کا
ہے ہے اسیر ظلم ہے کنبہ بتولؐ کا
55
مڑ کر پدر کی سمت پکاری وہ دل کباب
کیوں بابا جان سچ ہے یہ مضمون پیچ و تاب
بے گور و بے کفن ہے ابھی ابن بو تراب
ہم پر بھی کچھ ہے حق امام فلک جناب
تم جاؤ کربلا میں سوئے فوج جاتی ہوں
تم تربتیں بناؤ میں سر لے کے آتی ہوں
56
یہ کہکے ساتھ لی سپہ ہمت ووقار
مردانہ بھیس کرکے چلی بہر کارزار
آئی سوئے عدو صفت قہر کردگار
خیمہ میں چھپ گیا پسر سعد نابکار
غل تھا خدا کے دوست تلے انتقام پر
شام حلب کی فوج چڑھی ملک شام پر
57
اک فوج آرزو ہوس انتقام میں
رعب و جلال ایک طرف انتظام میں
محشر کی چال ڈھال ہر اک خوش خرام میں
تائید غیب تیغ کی صورت نیام میں
چہروں کو بحر نور جو کہئے تو آب کیا
کاغذ کی ناؤ ہے ورق آفتاب کیا
58
لشکر پہ آپڑی سپہ درۃ الصدف
دم میں بہائے خون کے دریا ہر اک طرف
بسمل تھا ہر پرا تو پریشاں ہر ایک صف
کیا جوش پر تھی بحر ولائے شہ نجف
دریا بہادئے تھے شہ دیں کی راہ میں
ڈوبے ہوئے تھے ساقی کوثر کی چاہ میں
59
طوفاں میں سر بھی پیر رہے تھے حباب وار
کشتی بنی ہوئی تھی ہر اک تیغ آبدار
ناری تھے ایک وار میں بحر فنا کے پار
دار بقا تلک بھی گئی تھی لہو کی دھار
غنچے اسی کا رنگ دکھاتے ہیں آج تک
دنیا میں سرخ پوش گل آتے ہیں آج تک
60
خونخوار خوار ہو کے لہو میں نہاگئے
ملک حلب کے آئینے جوہر دکھاگئے
دوزخ میں بھاگ بھاگ کے اہل جفا گئے
بدنام ہو کے نام خود اپنا مٹا گئے
نام اک طرف مٹائے نشان مزار بھی
چھانے جو کوئی خاک نہ پائے غبار بھی
61
مردوں کی طرح خود وہ زن نیک خو لڑی
مثل نگاہ شامیوں سے دوبدو لڑی
جوہر دکھائے فوج کو با آبرو لڑی
شاہ حلب کی دختر آئینہ رو لڑی
یوں درۃ الصدف جو لڑی آب و تاب سے
خون شفق کی نہر بہی آفتاب سے
62
تلوار تھی کہ برق لیے تھی وہ نیک زن
زن سے چلی حسام تو بے دم تھے تیغ زن
کس منہ سے تیغ کو کہیں محبوب کم سخن
اس کی زبان تیز سے خود بولتا تھا رن
غل تھا یہ اوج ختم اسی نازنیں پہ ہے
باتیں فلک سے کرتی ہے اور سر زمیں پہ ہے
63
تھی ختم مردمی اسی دختر کے نام پر
برش کا جامہ قطع ہوا اس حسام پر
وہ تیغ جب چمک کے چلی اژدھام پر
غل تھا کہ لو قمر کی چڑھائی ہے شام پر
کھوئی کدورت آئینہ لا جواب نے
ظلمت کے گھر کو لوٹ لیا آفتاب نے
64
کہتی تھی سر پہ شامت اعمال بار بار
اس پر ہی فخر تھا کہ ہیں یکتائے روزگار
ہم سے نہ ور ہوا پسر شیر کردگار
اب وہ غرور کیا ہوا اے فوج نابکار
نامرد عورتوں سے بھی سر بر نہ ہوسکے
پردہ نشینوں کے بھی برابر نہ ہوسکے
65
منہ کو جھلم سے ڈھانپا ہے پاس حیا یہ ہے
مردوں سے ہے بڑھی ہوئی ہمت وفا یہ ہے
کہتے ہیں اس کو رنگ شجاعت وغا یہ ہے
شیریں جھکی ہے کوہ کنی پر مزایہ ہے
پردہ نہ کھل سکا یہ کسی اہل ہوش پر
یوسفؑ کا ہے لباس زلیخا کے دوش پر
66
مریخ کے لباس میں زہرہ ہے جلوہ گر
یا مشتری ہے جلوہ نما صورت قمر
عفت نقاب بن گئی خود روئے پاک پر
مردم سے ہے حجاب نظر کو دم نظر
ظاہر ہے مثل نور بصر اور نہاں بھی ہے
بو کی طرح چھپی ہے مگر پھر عیاں بھی ہے
67
اللہ رے اس کے رخش کی تیزی دم وغا
خود جس کے دیکھنے کی صبا کو رہی ہوا
دیکھا کسی جگہ تو یہ دیکھا یہ جا وہ جا
سم میں قمر کا دور تو خورشید کی ضیا
رکھا جہاں قدم وہاں جلوہ غضب کا تھا
سم چار آئینہ تھے کہ تازی حلب کا تھا
68
گرتے ہیں پھول بن کے شرارے زمین پر
تھے گردباد یا کہ غبارے زمین پر
نقش قدم کے تھے یہ اشارے زمین پر
بکھرے ہوئے ہیں چاند ستارے زمین پر
تھامے ہوئے رکاب سواری میں تھا قمر
نقش قدم کی آئینہ داری میں تھا قمر
69
کہئے جو اس کو حور تو اس میں کہاں یہ چال
لکھئے اگر پری تو کہاں اس میں یہ کمال
مانیں اگر غزال تو ایسی کہاں ہے یال
شاعر کی فکر سمجھیں تو یہ بھی ہے اک خیال
پرنور جوڑ بند ہیں گویا بلور کے
حق نے ہوا کو ڈھالا ہے سانچے میں نور کے
70
گلگوں جو تھا نسیم تو ابر بہار تیغ
برسا رہی تھی خون کا مینہ آبدار تیغ
وہ درۃ الصدف کی جواہر نگار تیغ
غل تھا کہ پھل سے پھول بنی شعلہ بار تیغ
سب پر ہے حسن سبزہ جوہر کھلا ہوا
آئینٔہ حلب پہ ہے مینا کیا ہوا
71
کہئے تھے خود شقی یہ تغافل حذر حذر
اسباب جنگ کی بھی ہمیں تو نہیں خبر
کھولے ابھی نشان نہ باندھی ابھی کمر
اس مرگ ناگہاں کا گماں بھی نہ تھا ادھر
ہم کو یہ دھیان تھا ہمیں یکتا و فرد ہیں
یہ اب کھلا کہ اور بھی دنیا میں مرد ہیں
72
ہم کو یہ فخر تھا کہ ہوے شہ پہ فتحیاب
پر اب کھلی مروت فرزند بوتراب
امت کا پاس کرگئے شاہ فلک جناب
ورنہ قیامت آتی جہاں میں دم عتاب
دیتا بھلا کوئی یہ اذیت حسینؑ کو
منظور تھی خود اپنی شہادت حسینؑ کو
73
ٹکڑے اڑائے دیتی ہے تلوار کیا کریں
لاکھوں کا خون پی گئی خونخوار کیا کریں
حربہ بھی ہاتھ میں نہیں پیکار کیا کریں
مجبور سرجھکاتے ہیں ناچار کیا کریں
اللہ یہ ہمیں کسی عنوان چھوڑ دے
ہم چھوڑ دیں حرم کو جو یہ جان چھوڑ دے
74
بدلی سی اٹھ کے فوج پہ چھائی گھٹا کی طرح
سر پر ڈراتی شکل سے آئی بلا کی طرح
کس کس ادا سے جان نکلای قضا کی طرح
آواز میں بھی اس کی اثر تھا دعا کی طرح
لشکر کو تھا ثبات نہ ہوش گریز تھا
جوہر کا نقش چال میں سیفی سے تیز تھا
75
مانند شمع چرب زبانی ہے تیغ میں
بحر فنا کی تیز روانی ہے تیغ میں
نار سقر کی شعلہ فشانی ہے تیغ میں
کس آگ کا بجھا ہوا پانی ہے تیغ میں
دل جل کے آبلے ہوئے ناسور ہوگئے
شامی سفید پڑگئے کافور ہوگئے
76
ٹپکا لہو سے تیغ کا جو بن لڑائی میں
پھولا ہوا تھا خاک پہ گلشن لڑائی میں
ڈستی تھی موذیوں کو وہ ناگن لڑائی میں
تیغوں سے لڑ رہی تھی جھنا جھن لڑائی میں
جھنکار وہ کہ حشر بپا ہو ہوا پھرے
چھاگل پہن کے جیسے کوئی دلربا پھرے
77
نام آوروں کو بھی نہ رہا پاس نام و ننگ
یہ گرداڑی کہ ہوگیا خاکی ہوا کا رنگ
غفلت یہ ہے کہ پاؤں بھی سوتے ہیں وقت جنگ
صیقل کی طرح مورچہ چھوڑا کہیں نہ زنگ
آتش چھپی زمین میں خاک آسمان میں
جلوہ تھا تربتوں میں اندھیرا جہان میں
78
زخمی ہر اک کا سینہ و سر چور ہاتھ پاؤں
زخموں سے چور چلنے سے معذور ہاتھ پاؤں
گردن سے سر تو جسم سے ہیں دور ہاتھ پاؤں
گویا تھے شمع تیغ سے بے نور ہاتھ پاؤں
خود کام ہاتھوں ہاتھ لحد کو رواں ہوئے
کافور ہو کے قبر کے اندر نہاں ہوئے
79
سر پر پڑی کہ خانۂ زیں پر نظر پڑی
زیں کاٹ کر چلی تو ز میں پر نظر پڑی
گاو زمیں کے قلب حزیں پر نظر پڑی
واں سے اٹھی تو عرش بریں پر نظر پڑی
ہر ایک جا حسام سے محشر عیاں ہوا
حق کے مکان کا بھی لقب لا مکاں ہوا
80
وہ خود پر نہ بکتر و جوشن پہ بند تھی
کیا برق تھی کہ سنگ نہ آہن پہ بند تھی
راکب پہ بند تھی نہ وہ تو سن پہ بند تھی
راہ اماں بھی فرقٔہ رہزن پہ بند تھی
شعلے بلاتے تھے کہ ادھر آؤ ذوق سے
دوزخ کا در کھلا ہے چلے جاؤ شوق سے
81
دل سے کسی کے حسرت دنیا نکل گئی
کافر کی جان لے کے تمنا نکل گئی
ناز و ادا سے جب سوئے اعداد نکل گئی
غل تھا کدھر وہ رشک مسیحا نکل گئی
اللہ رے تیری چال قیامت مچا گئی
ٹھوکر کے اشتیاق میں مردہ جلا گئی
82
بسمل پھڑکتے تھے کہ پھر آئے کسی طرح
اک بار پھر گلے سے لگائے کسی طرح
پھر اک نگاہ ناز دکھائے کسی طرح
زندہ مرے پڑے ہیں جلائے کسی طرح
کتنے رقیب ہوگئے کتنے جلے کٹے
محشر کی چال تھی کہ ہزاروں گلے کٹے
83
جوہر سے یہ ثبوت تھا ہر خوش کلام پر
تسبیح فاطمہؐ ہے زبان حسام پر
دریا کی طرح چڑھتی ہے افواج شام پر
پانی پلارہی ہے شہیدوں کے نام پر
کہتی تھی غیر پر بھی کرم کی نگاہ ہے
قاتل کو جس نے شیر دیا اس سے راہ ہے
84
خیموں کو چھوڑ چھوڑ کے بھاگے وہ اہل شیر
نیزوں کے سر پہ رہ گئے فوج خدا کے سر
دوڑی ہوائے شاہ میں وہ سوختہ جگر
چلائی کس سناں پہ ہواے شاہ بحر و بر
حضرت خطا معاف کہ میں جانتی نہیں
مولا کنیز آپ کو پہچانتی نہیں
85
اک سر کو پھر سناں سے اتارا بہ درد و غم
سینہ پہ رکھ کے بولی کہ اے کشتۂ ستم
روئے ہو اس طرح سے کہ آنکھوں پہ ہے ورم
یہ تو کہو تمہیں ہو شہ آسماں حشم
عباسؑ ہو کہ اکبرؑ یوسفؑ جمال ہو ؟
صدقے گئی تمہیں مری بی بی کے لال ہو؟
86
ماتم کیا کہ منہ پہ جگر آ کے رہ گئے
ساتھی تمام خاک پہ غش کھا کے رہ گئے
وہ بین تھے کہ غیر بھی چلا کے رہ گئے
کشتوں کے سر بھی نیزوں پہ تھرا کے رہ گئے
ماتم ہوا جہاں میں شہ مشرقین کا
نوحہ تھا ہر زبان پہ ہے ہے حسینؑ کا
87
عابد سے روکے زینبؑ ناچار نے کہا
غیروں کو ہے یہ پاس کہ کرتے ہیں یوں عزا
ہے ہے ہمیں تو روح پیمبرؐ سے ہے حیا
ہم نے یہ نہ کچھ نبیؐ کے نواسے کا غم کیا
سمجھے نہ ہم عزیز شہ مشرقین کو
تھم کر نہ دو گھڑی کبھی روئے حسینؑ کو
88
دنیا کی ہے یہ رسم کہ مرتا ہے جب بشر
اس کے عزیز روتے ہیں منہ ڈھانپ ڈھانپ کر
ہم لوگ تو نہ روئے نہ روئیں گے عمر پھر
ہم سے تو غیر بڑھ گئے اے غیرت قمر
اللہ اس کا اجر دے اس نوجوان کو
کس طرح رو رہا ہے مرے بھائی جان کو
89
سجاد ناتواں نے یہ سمجھایا بار بار
مہلت کہاں ہے آپ کو اے آسماں وقار
روتے ہیں خود حسینؑ کو محبوب کردگار
منہ ڈھانپتی ہیں فاطمہ زہرا جگر فگار
روئیں نہ گر حضور تو اس میں گلا نہیں
منہ ڈھانپیں کس طرح سے کہ سر پر ردا نہیں
90
واں درۃ الصدف نے سنی جب کہ یہ صدا
مردانہ وہ لباس اتارا بصد بکا
سر لے کے آئی قیدیوں میں غم کی مبتلا
بولی ارے کوئی یہ بتاؤ مجھے ذرا
پہچانتی نہیں ہوں عجب پیچ و تاب ہیں
زینب ہے جن کا نام کدھر وہ جناب ہیں
91
زینبؐ نے سر جھکا کے کہا اے وفا شعار
تجھ سے بھی اور شاہ سے بھی ہوں میں شرمسار
تعظیم دی تجھے نہ انہیں روئی زینہار
زخمی ہے پشت اٹھ نہیں سکتی نحیف و زار
محرومیٔ عزا سے یہ مضطر محن میں ہے
ماتم ہو کس طرح مرا باز و رسن میں ہے
92
روکر وہ بولی آپ کا احساں ہے خلق پر
امت کی پردہ پوشی کو پھرتی ہو ننگے سر
زیبا ہے ہم جو شرم سے مرجائیں ڈوب کر
ہم سے نہ کچھ ہوئی مدد شاہ بحر و بر
پر یہ بتائیے کہ یہ سرکس ولی کا ہے
عباسؑ کایہ سر ہے کہ سبط نبیؑ کا ہے
93
پہچان کر وہ سر یہ پکاری وہ نوحہ گر
اے بی بی میری گود کے پالے کا ہے یہ سر
ہم صورت رسولؑ ہے یہ غیرت قمر
ہے ہے بڑے دکھوں سے پلا تھا مرا پسر
اک عمر کھو کے لال یہ پایا تھا ہائے ہائے
اٹھارہ سال جوگ کمایا تھا ہائے ہائے
94
شیدائے شاہ پاک نے رو رو کے یہ کہا
بتلائیے مجھے سر سلطان کربلا
گو خواہر حسینؑ کو اٹھنا محال تھا
شور بکا کی طرح اٹھی غم کی مبتلا
نیزہ بتایا ہاتھ کلیجہ پہ مار کے
چھاتی پہ رکھ لیا سر سرور اتار کے
95
پھر منہ کو منہ پر رکھ کے پکاری بہ شور و شین
معلوم ہے کچھ آپ کو اے شاہ مشرقین
یہ تم کو لینے آئی ہے زہرا کے نورعین
جنگل میں چھوڑ جاؤ گے خواہر کو اے حسینؑ
اب کس طرح سے پائیں گے شاہ انام کو
تم کربلا کو جاؤ گے ہم ملک شام کو
96
جاتے تو ہو مگر نہ مجھے بھولیو ذرا
اکبر کو پیار کیجیو اے سرور ہدیٰ
ہم بھی ادھر کو آئیں گے لایا اگر خدا
گر مرگئے تو حشر پہ دیدار پھر رہا
ممکن نہیں کہ چین ہو تم کو زمانے میں
اغلب یہ ہے کہ قبر بھی ہو قید خانے میں
-
1
شاعری بحر معانی کا تلاطم ہے جمیلؔ
جس میں غلطاں ہیں ستارے یہ وہ قلزم ہے جمیلؔ
رنگ و بو کے جو کنایوں میں خرد گم ہے جمیلؔ
شاعری اس پہ حقیقت کا تبسم ہے جمیلؔ
اہل دانش ہے وہی اہل بصائر ہے وہی
اس تبسم کو جو پہچان لے شاعر ہے وہی
2
شوق ابھی حیرتی ٔشمس و قمر ہے اے دوست
ابھی پردے کے اسی پار نظر ہے اے دوست
کتنا مشکل یہ بصیرت کا سفر ہے اے دوست
جس میں ہر گام پہ منزل کا خطر ہے اے دوست
اس میں منزل کا گماں راہزنی کرتا ہے
رہبری جذبۂ حب الوطنی کرتا ہے
3
اس کو جانا ہے حجابات توہم سے پرے
اس نہاں خانۂ اصوات و تکلم سے پرے
ظلمت و نور کے خاموش تلاطم سے پرے
وطن اس کا ہے دیار مہ و انجم سے پرے
سر راہے جو اسے بوئے وطن آتی ہے
آنکھ بے ساختہ تخیل کی کھل جاتی ہے
4
چشم حیراں کو تو دے دیتا ہے جلوہ بھی فریب
رنگ و نیرنگ مناظر کا تماشہ بھی فریب
بحرعرفان تجلی کا دھندلکا بھی فریب
اور تخلیق مضامیں کا یہ نشہ بھی فریب
کیفیت اس کی جو تا فکر و نظر پھیلی ہو
کیوں نہ پھر لیلیٰ معنی کی ردا میلی ہو
5
نکتہ بینی ہی نہیں فلسفہ دانی بھی حجاب
استعارات و علامات بیانی بھی حجاب
دانش و دیں کے روایات گمانی بھی حجاب
معنی الفاظ تو الفاظ معانی بھی حجاب
ان حجابوں کو جو الٹے وہی جلوہ دیکھے
وہی جلوے کی حقیقت کو سراپا دیکھے
6
ہوا سالیب کی جدت سے جو معنی کا زوال
شاعری پھر تو ہو اک شعبدۂ قال و مقال
اس سے کہہ دو جو ہے گم گشتۂ صحرائے خیال
کہ ترا ذوق ہے نا محرم لیلائے جمال
رنگ و نکہت نے حجاب اپنا اٹھایا ہی نہیں
حسن بے پردہ ترے سامنے آیا ہی نہیں
7
مجھ کو تسلیم ہے الفاظ کی دارائی بھی
دے اگر دیدۂ ادراک کو بینائی بھی
اس کی تاثیر میں شدت بھی ہو گیرائی بھی
اس میں وسعت بھی ہو رفعت بھی ہو گہرائی بھی
شاعری کیا جو سخن ولولہ انگیز نہ ہو
ہاں مگر خوان تکلم میں نمک تیز نہ ہو
8
بوئے گل زور خطابت سے بگولا نہ بنے
داغ پیشانی کا خال رخ زیبا نہ بنے
نالہ آہنگ میں نالہ رہے نغمہ نہ بنے
نغمہ شوریدگی ٔلحن سے نالہ نہ بنے
لفظ و معنی میں توازن ہو سر اونچا نہ اٹھے
آنچ جذبات کی دھیمی رہے شعلہ نہ اٹھے
9
آتنی رنگینی کہ تاثیر بیاں گم ہوجائے
نغمگی اتنی کہ مفہوم فغاں گم ہوجائے
اس قدر نشہ کہ رستے کا نشاں گم ہوجائے
اور نقش قدم راہبراں گم ہوجائے
پھر تو حصے میں ترے بوالعجبی ہے اے دوست
منظر ریگ ہے اور تشنہ لبی ہے اے دوست
10
اب تو الفاظ سے ہے زینت دوکان سخن
وائے برجان سخن وائے برایمان سخن
اللہ اللہ یہ رنگینیٔ دامان سخن
شفق خون تخیل ہے بہ عنوان سخن
آسمانوں کی بلندی پہ نظر ہے پیارے
دل کی گہرائی میں کیا ہے یہ خبر ہے پیارے
11
گوندھتا ہے رگ بلبل میں شرارے کوئی
مانگتا ہے طبق ماہ میں تارے کوئی
گن رہا ہے یم افلاک کے دھارے کوئی
اور سمجھتا نہیں فطرت کے اشارے کوئی
دھوپ کیا کہتی ہے کیا کہتا ہے سایہ سمجھے
کون ہے جو مہ و انجم کا کنایہ سمجھے
12
شاعری کیا ہے فقط قصۂ زلف و رخسار
ہے یہ جذبات کی نقاش تو جذبے ہیں ہزار
جذبۂ حب وطن جذبۂ عزم احرار
جذبۂ مہرو و فا جذبۂ رحم و ایثار
صبر خدام ہو یا غیرت سائل اے دوست
کتنے جذبات ہیں تشریح کے قابل اے دوست
13
کتنے جذبے ہیں کہ شاعر پہ ہے گم جن کا وجود
کتنی آہیں ہیں کہ گھٹتی رہیں دل میں بے دود
شاعری سے ہے اگر شرح محبت مقصود
تو محبت کی بھی قسمیں ہیں یہاں لا محدود
دوستی بھی ہے اخوت بھی ہے شفقت بھی ہے
اور محبت ہی کی اک شکل عقیدت بھی ہے
14
شاعری جذبۂ شفقت کو زباں دے نہ سکی
شاعری درد رفاقت کو زباں دے نہ سکی
زردی چہرۂ محنت کو زباں دے نہ سکی
چشم مفلس کی خجالت کو کو زباں دے نہ سکی
کتنے کانٹے ہیں جو سینے میں کھٹکتے ہی رہے
کتنے جذبے ہیں جو آنکھوں میں سسکتے ہی رہے
15
اور شاعر کو خرافات سے فرصت نہ ملی
ہجر اور وصل کے جذبات سے فرصت نہ ملی
خط و کاکل کی روایات سے فرصت نہ ملی
رنگ و نکہت کی علامات سے فرصت نہ ملی
منفعل جذبہ جنسی کی زبانی کہتے
عمر گزری گل و بلبل کی کہانی کہتے
16
کچھ ہیں ایسے جو فصاحت کو سخن کہتے ہیں
کچھ معانی کی بلاغت کو سخن کہتے ہیں
کچھ تخیل کی غرابت کو سخن کہتے ہیں
کچھ اسالیب کی ندرت کو سخن کہتے ہیں
چوں نہ بینند حقیقت رہ افسانہ زنند
در میخانہ نہ جنبد در مے خانہ زنند
17
ہم بھی میخانہ کا در پیٹ رہے ہیں ساقی
در جو کھلتا نہیں چوکھٹ پہ جھکے ہیں ساقی
اور کچھ آہٹ جو ملی ہے تو اٹھے ہیں ساقی
عالم غور میں خاموش کھڑے ہیں ساقی
صبح ہونے کو ہے پلکیں نہیں جھپکیں شب سے
بے پئے جھوم رہا ہے ترا شاعر کب سے
18
حالت وجد میں گزرے کئی سال اے ساقی
اب تو دے دے مجھ اک جام سفال اے ساقی
پی چکا ہوں میں محبت کا زلال اے ساقی
اب ہے تجھ سے مئے عرفاں کا سوال اے ساقی
ہے مری حسرت تکمیل بھی پیاسی مولا
میں بھی پیاسا مری تخیل بھی پیاسی مولا
19
دے وہ بادہ کہ جسے غالب دانا نے پیا
وحشت و حشرنے چکبست نے رسوا نے پیا
میر و مومن نے پیا آتش و سودا نے پیا
خم پہ منہ رکھ کے انیس سخن آرا نے پیا
میری تقدیر سے جو رہ گئی باقی دے دے
انہیں میخواروں کی جھوٹی مرے ساقی دے دے
20
ہاں وہی جذبہ عرفی میں ہے شدت جس سے
خم شیراز میں ہے تیری امانت جس سے
پیر رومی کو ملی عشق کی دولت جس سے
بڑھی اقبال کے سینے میں حرارت جس سے
شادؔ کا دل ہوا جس سے ترا مینا ساقی
آگیا وقت کے ماتھے پہ پسینہ ساقی
21
کھول میخانے کا در آ مئے کوثر لے کر
روح اسلام کا کھینچا ہوا جوہر لے کر
جس میں سو بحر معانی ہیں وہ ساغر لے کر
آج اٹھوں گا میں ظرف دل بوذر لے کر
تیری مرضی ہو تو قطرے میں سمندر آ جائے
میرے کوزے میں چھلکتا ہوا کوثر آ جائے
22
میرے وجدان تفکر کو اچھال اے ساقی
لا مرے دل کی صراحی میں ابال اے ساقی
دے مرے صید نظر کو پر وبال اے ساقی
دام الفاظ و معانی سے نکال اے ساقی
بھیج دے مجھ کو مری حد نظر سے آگے
اس تبسم کدۂ برق و شرر سے آگے
23
اس سفر سے جو پھروں دیدۂ بینا لے کر
نکہت گیسوئے الہام کا سودا لے کر
شہپر بلبل شیراز کا خامہ لے کر
سینۂ وحی سے سوز دل عیسیٰ لے کر
شمعیں روشن کروں ماضی کے شبستانوں میں
دوں اذاں جا کے تخیل کے صنم خانوں میں
24
پس پردہ جو ہوس ہے اسے رسوا کردوں
پیرہن چھین کے اخلاق کو ننگا کردوں
فکر و احساس کی دنیا تہہ و بالا کردوں
سو رہی ہے جو قیامت اسے برپا کردوں
جوئے خوں مے چکداز حسرت دیرینۂ ما
مے تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
25
آج ہے پھر مری باتوں پہ خرد گم ساقی
لب رحمت پہ ہے گمبھیر تبسم ساقی
کیوں نہ ہو شوخ یہ آہنگ تکلم ساقی
تونے بخشا ہے مرے جام کو قلزم ساقی
جس کی اک موج ہے یہ زمزمہ خوانی میری
تیرا افسانہ سنیں رند زبانی میری
26
میں فدا بخشش ساقی ترے اس بادل کے
جس سے صحرائے تقدس میں بھی دریا چھلکے
گئی مے خانے میں فردوس سے مے ڈھل ڈھل کے
پئیے حوروں نے پیالے ترے ہلکے ہلکے
اک گلابی سی گھٹا عرش تلک چھانے لگی
ڈورے آنکھوں کے شہابی ہوئے نیند آنے لگی
27
قدسیوں نے بھی پیا اہل جناں نے بھی پیا
اور ہر مرسل فردوس مکاں نے بھی پیا
شاخ سدرہ پہ ترے مرتبہ داں نے بھی پیا
تیرے ہاتھوں سے جسے پیر مغاں نے بھی پیا
کچھ کہوں اور تو یہ بات کہاں تک پہنچے
راز میخانہ فرشتوں کی زباں تک پہنچے
28
مختصر یہ کہ ازل میں جو کھینچی تھی ساقی
شب ہجرت تری بالیں پہ دھری تھی ساقی
اور جو صفین میں تا صبح بٹی تھی ساقی
حالت جنگ میں عمار نے پی تھی ساقی
بن گئے شیر وغا مالک اشتر جس سے
ان کے کشتے ترے کشتوں کے برابر جس سے
29
دے وہ بادہ جو کبھی نوح کے طوفاں میں بہا
دشت سینا میں بہا وادئ کنعاں میں بہا
کشت موعود براہیم پہ فاراں میں بہا
تادم عصر شہادت کے گلستاں میں بہا
ظہر کے وقت جسے قین بجلٰی نے پیا
تیر کھا کھا کے رفیقان معلی ٰنے پیا
30
آگیا ذکر شہیدان محبت ساقی
اب سبو کی ہے نہ ساغر کی ضرورت ساقی
اب نگاہوں میں ہے اک وادئ غربت ساقی
دیکھ اک تشنہ دہانوں کی جماعت ساقی
بھول کر خستگی و تشنہ دہانی اپنی
خوں سے لکھتی ہے لب نہر کہانی اپنی
31
اے خرد وقت کی آشفتہ بیانی سن لے
کیوں گلابی ہوا اس نہر کا پانی سن لے
کار زار حق و باطل کی کہانی سن لے
خوں سے تر ریگ بیاباں کی زبانی سن لے
پہنچے اس دشت میں اللہ کے دیوانے چند
پہنچے اور دے دیئے تاریخ کو افسانے چند
32
امتحاں عشق کا تھا عشق کے بندے نکلے
ان کی تیغوں سے لپکتے ہوئے شعلے نکلے
ماں کے ہاتھوں سے کفن باندھ کے بچے نکلے
پشتیں سیدھی کئے تنتے ہوئے بوڑھے نکلے
ہنس کے طے مرحلۂ تیغ و گلو کرنے لگے
دی جو قرنانے اذاں خوں سے وضو کرنے لگے
33
چشم حیرت سے فلک نے یہ تماشا دیکھا
ٹھاٹھیں لیتا ہوا فولاد کا دریا دیکھا
سامنے اس کے بہتّر کو صف آرا دیکھا
پھر بھی نیزوں کے نیستاں کو سرکتا دیکھا
مورچے ٹوٹے اجڑتی ہوئی بستی دیکھی
تادم عصر گھٹا خوں کی برستی دیکھی
34
گونجی نعروں سے زمیں حشر تکلم بھی ہوا
عرصۂ دشت بلا خون کا قلزم بھی ہوا
صفیں بل کھا گئیں دریا میں تلاطم بھی ہوا
آگ اور خون کی لہروں میں تصادم بھی ہوا
جس طرف مڑ گیا سیلاب اسی گھاٹ گئے
مرتے مرتے ہوئے لاشوں سے زمیں پاٹ گئے
35
رن میں پانی پیا دکھلا کے ستمگاروں نے
پونچھا ماتھے سے پسینہ بھی نہ جراروں نے
شرم ایمان وفا رکھ لی وفاداروں نے
پھینک دی تن سے زرہ نوچ کے کراروں نے
سپریں پھینک دیں روکیں نہ حسامیں اپنی
توڑ دیں حملۂ اول میں نیا میں اپنی
36
آگ جنگل میں برستی رہی تلواروں سے
جس طرف مڑگئے سجدے لئے دیواروں سے
بیرقیں چھین لیں لشکر کے نموداروں سے
سوگئے رن کی زمیں چھین کے غداروں سے
ظہر کے وقت منا کا تھا نمونہ جنگل
آنکھ شیروں کی لگی ہوگیا سونا جنگل
37
ان کے سردار کی شان کرم اللہ غنی
ختم جس پر ہوا احساس غریب الوطنی
ہمہ تن پیکر ایثار شجاعت کا دھنی
خلق پر اس کے فدا خلق رسول مدنی
غیظ بھی اس کو بہ عنوان ترحم آیا
زخم جب کھائے تو ہونٹوں پہ تبسم آیا
38
پشت خم ہوگئی یوں لاشوں پہ لاشہ لایا
اور بجز حرف دعا لب پہ نہ شکوا لایا
ایک جب رد نہ ہوا دوسرا تحفہ لایا
طفل معصوم کو ہاتھوں پہ ہمکتا لایا
وہ ہوا ذبح تو مالک کو ودیعت سونپی
خاک میں کوکھ جلی ماں کی امانت سونپی
39
دوپہر میں ہوا بچوں سے بھرا گھر برباد
گودیاں ہوگئیں خالی ہوا صحرا آباد
کس سلیقے سے ادا عشق نے کی رسم جہاد
متبسم تھا نمازی متحیر جلاد
حق کی جو آخری حجت تھی سر انجام ہوئی
تشنگی خنجر قاتل کی بجھی شام ہوئی
40
گونجتا وقت گرجتا ہوا رن ختم ہوا
لہلہاتا ہوا بچوں کا چمن ختم ہوا
گھر جلے مرحلہ ٔدست و رسن ختم ہوا
دن ڈھلا دھوپ چھپی روز محن ختم ہوا
آنسو آنکھوں میں بھرے شام غریباں آئی
اپنے کاندھوں پہ لئے زلف پریشاں آئی
41
تیرگی تجھ کو مبارک ہو یہ عاشور کی شام
عہد ظلمت کی سحر خاتمۂ نور کی شام
شفق افروز ہے خون دل مہجور کی شام
آج کی شام تو ہے زینب رنجور کی شام
آفریں اس پہ بہتر کی عزادار ہے جو
اک لٹے قافلے کی قافلہ سالار ہے جو
42
اس کی سیرت پہ ہو کیا شام غریباں کا اثر
جس نے ظلمت کے گریباں سے نکالی ہو سحر
جس کا ہر مرحلۂ فرض جہاد اکبر
جس کے دامن سے یتیموں کو ملی بوئے پدر
آیت اللہ ہے کردار مکمل جس کا
سایۂ دامن رحمت ہوا آنچل جس کا
43
ایک گرتا ہوا گھر اٹھ کے سنبھالا جس نے
آگ میں پیر کے بچوں کو نکالا جس نے
کردیا صبر کی راہوں میں اجالا جس نے
بھر دیا ظلم کی ہمت کا پیالا جس نے
فتح مظلوم کی عنوان نتیجے کو دیا
حوصلہ صبر کا بیمار بھتیجے کو دیا
44
آج اٹھتا ہے دھواں شام غریباں سے جمیل
شور ماتم ہے عزا خانۂ ویراں سے جمیل
نیکیاں کیوں نہ اگیں مزرع ایماں سے جمیل
آبیاری جو ہوئی خون شہیداں سے جمیل
اس میں ہے خون دل زینب کبریٰ بھی شریک
ان کے آنسو بھی شریک ان کا پسینہ بھی شریک
45
بخدا ناشر احکام خدا تھیں زینب
پانی فلسفۂ رسم عزا تھیں زینب
فاتح معرکۂ صبر و رضا تھیں زینب
شام غربت میں پناہ غربا تھیں زینب
دل پہ خود جبر کیا صبر دلایا سب کو
لا کے اک حلقۂ ماتم میں بٹھایا سب کو
46
گم تھے بچے تو انہیں ڈھونڈتی جنگل میں گئیں
کبھی گھبرائی ہوئی فوج کے بادل میں گئیں
کبھی دریا پہ کبھی خون کے جل تھل میں گئیں
آئی آواز سکینہ کی تو مقتل میں گئیں
مل گئے سب تو اب اشکوں کو پئے بیٹھی ہیں
اپنے سایہ میں یتیموں کو لئے بیٹھی ہیں
47
شام غم شام الم شام غریباں ہے یہ شام
خون سادات سے گلزار بہ داماں ہے یہ شام
مرثیہ خوان شباب گل و ریحاں ہے یہ شام
چند خیمے ابھی جلتے ہیں چراغاں ہے یہ شام
اور سلگتا ہے ادھر زینب و کلثوم کا دل
ام قاسم کا جگر مادر معصوم کا دل
48
فتح ظلمت کی ہوئی جشن منائے گی یہ رات
تیرگیِ دل اشرار بڑھائے گی یہ رات
ان کی جرموں کی نشانی کو چھپائے گی یہ رات
پردہ آثار شہادت پہ گرائے کی یہ رات
لے کے آئی ہے ردا ماجرا پوشی اس کی
کتنی گمبھیر ہے جنگل میں خموشی اس کی
49
دشت میں گنج شہیداں کی بہار ایک طرف
زرد چہروں پہ یتیمی کا غبار ایک طرف
دھیمی دھیمی سی وہ اشکوں کی پھوار ایک طرف
سہمی سہمی ہوئی پانی کی پکار ایک طرف
ہنہناتے ہوئے گھوڑوں کی صدائیں اک سمت
سوکھے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ دعائیں اک سمت
50
فوج شاہی میں ادھر تہنیت فتح کی دھوم
اور ادھر خاک پہ امت کے اسیروں کا ہجوم
بے کفن دشت میں ہر فدیہ ٔرب قیوم
گرد صحرا کی ردا جن کو اڑھاتی ہے سموم
ہو کا عالم ہے فضا چپ ہے بیاباں چپ ہیں
قافلہ وقت کا چلتا ہے خدی خواں چپ ہیں
51
موجیں دریا کی ہیں خاموش ہوا نیند میں ہے
بیکسی چپ ہے گروہ شہدا نیند میں ہے
ہر اسیر الم و رنج و بلا نیند میں ہے
سوئی ہے غیرت حق قہر خدا نیند میں ہے
کون پہرے پہ ہو بنت اسد رب کے سوا
کوئی بیدار نہیں ہے دل زینب کے سوا
52
آنکھیں اشکوں سے ہیں نم روح حزیں قلب اداس
بال چہرے پہ پریشاں ہیں مگر جمع حواس
ہاتھ میں نیزۂ خطی لئے با حالت یاس
کبھی اس لاش کے پاس اور کبھی اس لاش کے پاس
کبھی خیمہ میں ہیں عابد کی چٹائی کے قریب
کبھی عباس کے لاشے پہ ترائی کے قریب
53
کبھی کہتی ہیں کہ حضرت گئے مارے عباس
تم کو نیند آگئی دریا کے کنارے عباس
جو فرائض متعلق تھے تمہارے عباس
ان کا بوجھ اب مرے کاندھے پہ ہے پیارے عباس
بار غم اس کے علاوہ ہے دبی جاتی ہوں
دو سہارا مجھے اٹھ کر جھکی جاتی ہوں
54
کبھی لاش شہ والا سے یہ کرتی ہیں کلام
آپ نے سونپ دیا ہے مجھے عباس کا کام
بھیجئے ان کو کہ ہلکی ہو میری پیٹھ امام
آپ خاموش ہیں کیوں لیجئے زینب کا سلام
لائی ہے شدت غم اشک فشانی کے لئے
اٹھیے آئی ہے بہن فاتحہ خوانی کے لئے
55
کام سونپا ہے تو اب اٹھ کے دعا دیں حضرت
اور مجھے حوصلۂ صبر و رضا دیں حضرت
جذبۂ معرفت امر خدا دیں حضرت
جو ہدایت کے طریقے ہیں بتادیں حضرت
آپ کو اس سر بے مقنع و چادر کی قسم
آپ کو آپ کے درس تہ خنجر کی قسم
56
ہاتھ رکھیے کہ ٹھہرتا نہیں ہمشیر کا دل
ہے یہ زینب کا کلیجہ نہیں شبیر کا دل
کچھ تو قانع بہ تہ دام ہو نخچیر کا دل
شمع کی طرح گھلے زینب دلگیر کا دل
اس کے گھلنے سے ہو ظلمت تہ و بالا بھیا
کچھ تو ہو راہ ہدایت میں اجالا بھیا
57
مجھ کو اکبر کی قسم خالق اکبر کی قسم
قطرۂ خون دل بانوئے مضطر کی قسم
جس پہ جبریل نے سجدہ کیا اس در کی قسم
آپ کے بعد جو لوٹا گیا اس گھر کی قسم
کہ مجھے آپ عزیز آپ کا مقصد بھی عزیز
اور ہے یہ مسلک ایثار اب وجد بھی عزیز
58
وعدہ کرتی ہوں کہ جس راہ میں جاؤں گی میں
اس کے ہر موڑ پہ تاریخ بناؤں گی میں
قوم کو آپ کا پیغام سناؤں گی میں
اس کی سوئی ہوئی غیرت کو جگاؤں گی میں
تربیت یافتہ یا شاہ زمن آپ کی ہوں
یہ سمجھ لیجئے بھیا کہ بہن آپ کی ہوں
59
کہہ کے یہ چپ جو ہوئیں خواہر شاہ دوسرا
سسکیاں لینے لگا رات کا وہ سناٹا
آئی خاتون قیامت کے جو رونے کی صدا
رخ بیاباں کی طرف کرکے یہ زینب نے کہا
آپ اب نیند سے چونکی ہیں دہائی اماں
لٹ چکا گھر تو سواری ادھر آئی اماں
60
دوپہر میں ہوا بی بی یہ بھرا گھر خالی
خیمۂ قاسم و عون و علی اکبر خالی
ہوا بے چوبۂ عباس دلاور خالی
آئیے دیکھئے گہوارۂ اصغر خالی
اب نہ بیٹے ہیں نہ پوتے نہ نواسے اماں
لڑے دو لاکھ سے دو روز کے پیاسے اماں
61
جرأتیں جعفر و حیدر کی دکھائیں سب نے
صفیں میدان میں ہنس ہنس کے جمائیں سب نے
سوکھے ہونٹوں پہ زبانیں نہ پھرائیں سب نے
ندیاں خون کی دریا پہ بہائیں سب نے
کیا کہوں شان علمدار دلاور اماں
مشک تو بھرلی مگر لب نہ کئے تر اماں
62
دوپہر تھی کہ ترائی میں وہ سقا پہونچا
پیر کر خون کی ندی لب دریا پہونچا
مشک لاتا تھا کہ فرمان قضا آ پہونچا
خوں میں تر ہو کے جو اس شیر کا گھوڑا پہونچا
سنی کنبے نے نہ آواز محن بھی اس کی
تھا وہ جیوٹ تو جیالی تھی دلہن بھی اس کی
63
جسم صد پارہ لیے قاسم بے پر آیا
ماں کے آنسو نہ بہے مر کے پسر گھر آیا
باپ کے ہاتھ پہ مردہ علی اصغر آیا
اور پسینہ بھی نہ بھابی کی جبیں پر آیا
اونچا ہاشم کے گھرانے کا بہت نام کیا
آج تو آپ کی بہوؤں نے بڑا کام کیا
64
کیا کہوں جوش غلامان وفادار حسین
آپ کے خوں میں ملا خون نمک خوار حسین
کس زباں سےہو بیاں جرأت انصار حسین
ان کے تیور تھے کہ آئینۂ کردار حسین
حصن مرسوس بہ گرد شہ ذیجاہ تھے وہ
آیت اللہ تھے مامور من اللہ تھے وہ
65
جیئے جب تک سوئے حضرت یہ ستمگار نہ آئے
تھی یہ کوشش کہ ادھر تیروں کی بوچھار نہ آئے
آنچ تیغوں کی سوئے سید ابرار نہ آئے
تیر کیا دھوپ بھی تا عارض سرکار نہ آئے
اور عرق بھی بہ رخ شاہ مدینہ نہ بہے
خوں ہمارا بہے حضرت کا پسینہ نہ بہے
66
بیبیاں ان کی وہ برپاکن روح ایماں
جن کے ایثار کا اللہ و نبی پر احساں
خادمہ آپ کی مخدومہ احرار جہاں
کس بشاشت سے کیا شکر خدائے سبحاں
اپنی مانگ آپ کے کنبے پہ نچھاور کردی
عرق شرم سے زینب کی جبیں تر کردی
67
کس تمنا سے جواں بیٹیوں کو باہر بھیجا
جوش ایماں سے ہتھیلی پہ لئے سر بھیجا
ایک بی بی نے یہ ہدیہ سوئے سرور بھیجا
اپنے چھوٹے سے مجاہد کو سجا کر بھیجا
قد تو چھوٹا تھا مگر تیز تھی رفتار اس کی
صفحہ ٔخاک پہ خط دیتی تھی تلوار اس کی
68
آپ روتی ہیں تو روئیں مگر انصار کو روئیں
روئیں احرار کو جب سید احرار کو روئیں
اس کا احسان ہے ہم پرحر جرار کو روئیں
کون روئے گا اسے جون وفادار کو روئیں
وہ بھی سمجھیں انہیں خاتون جناں روتی ہے
اس طرح روئیے جس طرح سے ماں روتی ہے
69
مانگئے رحمت حق حر ریاحی کے لیے
وہب کلبی و بن قین بجلی کے لیے
جملہ اصحاب یمینی ویساری کے لیے
آئے جنت سے ہوا ان کی تسلی کے لیے
آپ کیجئے جو دعا کاسۂ دل بھر جائیں
حشر سے پہلے یہ پیاسے لب کوثر جائیں
70
آپ کا نور نظر خادم جمہور حسین
فدیۂ بے طلب امت مقہور حسین
بیکس و تشنہ لب و خستہ و رنجور حسین
حق کے انبار امانت کا وہ مزدور حسین
ناز ارمان مشیت کے اٹھانے والا
اپنے بچے کی لحد آپ بنانے والا
71
للہ الحمد کہ وعدے کی وفا کی اس نے
جو امانت تھی خدا کی وہ ادا کی اس نے
شان دکھلائی مسیح دوسرا کی اس نے
دشمنوں کے لئے مقتل میں دعا کی اس نے
کیوں نہ لے رحمت حق اس کی بلائیں اماں
زیر خنجر بھی رہیں لب پہ دعائیں اماں
72
لاش اکبر پہ کیا شکر کا سجدہ اس نے
کس کو کہتے ہیں جہاد آج بتایا اس نے
رکھ لیا شرع کے اس حکم کا پردہ اس نے
کر دیا دیدۂ تاریخ کو بینا اس نے
لفظ اسلام کی سردے کے وضاحت کردی
اپنے ایثار سے توثیق رسالت کردی
73
قوم میں فرض کا احساس جگایا اس نے
چہرۂ وقت کو آئینہ دکھایا اس نے
قرض نانا کی محبت کا چکایا اس نے
کشت اسلام میں خوں اپنا رچایا اس نے
جو بھی پونجی تھی پئے بخشش امت دے دی
آپ کے دود ھ کے ہر قطرے کی قیمت دے دی
74
نوک نیزہ پہ بھی چہرے کی بشاشت نہ گئی
برچھیاں کھائیں مگر رخ کی متانت نہ گئی
خون بن کر جو رگوں میں تھی شجاعت نہ گئی
منزل صبر میں بھی شان جلالت نہ گئی
نام بابا کی شجاعت کا اجالا اس نے
کیا دو لاکھ کا لشکر تہ و بالا اس نے
75
گرچہ سورج تھا سوا نیزے پہ آیا اماں
امتحاں دیتا رہا آپ کا جایا اماں
رد کیا شہپر جبریل کا سایہ اماں
آپ نے عرش کا پایا نہ ہلایا اماں
اب میں سمجھی کہ تھی تدبیر شفاعت پیاری
بڑھ کے بیٹے سے بھی تھی باپ کی امت پیاری
76
آپ کیا قہر خدا بھی تو گراں گوش ہوا
کامراں آپ کا وہ زینت آغوش ہوا
نہ سپر چہرے پہ روکی نہ زرہ پوش ہوا
وعدہ طفلی کا وفا کرکے سبکدوش ہوا
آ کے پہچانئے اس صادق الاقرار کی لاش
ہائے روندی گئی امت کے گنہ گار کی لاش
77
شکوہ کیا لٹ جو گیا خیمۂ عصمت اماں
تھی وہ میراث نبی لے گئی امت اماں
شکر اس کا جو ملا اجر ہدایت اماں
دیکھئے دست و گلو کی مرے زینت اماں
کیوں نہ یہ طوق یہ کنگن مجھے پیارا ہوگا
آپ نے یوں نہ کبھی مجھ کو سنوارا ہوگا
78
چلئے خیمے کی طرف حال نشیمن سنئے
داستاں برق کی افسانۂ خرمن سنئے
خامشی جس کو سناتی ہے وہ شیون سنئے
چلیے چل کر دل بیمار کی دھڑکن سنئے
آئیے خاک پہ لے جاکے بٹھادوں اماں
اب تو چادر بھی نہیں ہے کہ بچھادوں اماں
79
وقت نے سونپ دیا فرض قیادت مجھ کو
ہلنے دیتا نہیں احساس امانت مجھ کو
اب تو رونے کی بھی ملتی نہیں فرصت مجھ کو
کیا کہے گی علی اکبر کی محبت مجھ کو
وہ جو سوئی ہے تو سوئے شہدا آئی ہوں
لوریاں دے کے سکینہ کو سلا آئی ہوں
80
مجھ کو اٹھنے نہیں دیتا کوئی بچہ اماں
میں جو بیٹھوں تو پھرے کون طلایا اماں
اس کو بہلاؤں کہ دوں اس کو دلاسا اماں
وہ اگر باپ کو پوچھیں تو کہوں کیا اماں
یہ تو ممکن ہے کہ لونڈی بنوں دایہ بن جاؤں
کس طرح ان کے لیے باپ کا سایہ بن جاؤں
81
مظہریؔ بس تہ و بالا ہیں دل اہل ولا
ابھی معیار پہ آیا نہیں ذکر شہدا
گھٹ رہے ہیں مرے سینے میں بہت سے دریا
ٹپکے اک بوند قلم سے تو تلاطم ہو بپا
پھول سب ڈھونڈتے ہیں داغ دکھاؤں کس کو
سننے والا نہیں ملتا ہے سناؤں کس کو
شاعری بحر معانی کا تلاطم ہے جمیلؔ
جس میں غلطاں ہیں ستارے یہ وہ قلزم ہے جمیلؔ
رنگ و بو کے جو کنایوں میں خرد گم ہے جمیلؔ
شاعری اس پہ حقیقت کا تبسم ہے جمیلؔ
اہل دانش ہے وہی اہل بصائر ہے وہی
اس تبسم کو جو پہچان لے شاعر ہے وہی
2
شوق ابھی حیرتی ٔشمس و قمر ہے اے دوست
ابھی پردے کے اسی پار نظر ہے اے دوست
کتنا مشکل یہ بصیرت کا سفر ہے اے دوست
جس میں ہر گام پہ منزل کا خطر ہے اے دوست
اس میں منزل کا گماں راہزنی کرتا ہے
رہبری جذبۂ حب الوطنی کرتا ہے
3
اس کو جانا ہے حجابات توہم سے پرے
اس نہاں خانۂ اصوات و تکلم سے پرے
ظلمت و نور کے خاموش تلاطم سے پرے
وطن اس کا ہے دیار مہ و انجم سے پرے
سر راہے جو اسے بوئے وطن آتی ہے
آنکھ بے ساختہ تخیل کی کھل جاتی ہے
4
چشم حیراں کو تو دے دیتا ہے جلوہ بھی فریب
رنگ و نیرنگ مناظر کا تماشہ بھی فریب
بحرعرفان تجلی کا دھندلکا بھی فریب
اور تخلیق مضامیں کا یہ نشہ بھی فریب
کیفیت اس کی جو تا فکر و نظر پھیلی ہو
کیوں نہ پھر لیلیٰ معنی کی ردا میلی ہو
5
نکتہ بینی ہی نہیں فلسفہ دانی بھی حجاب
استعارات و علامات بیانی بھی حجاب
دانش و دیں کے روایات گمانی بھی حجاب
معنی الفاظ تو الفاظ معانی بھی حجاب
ان حجابوں کو جو الٹے وہی جلوہ دیکھے
وہی جلوے کی حقیقت کو سراپا دیکھے
6
ہوا سالیب کی جدت سے جو معنی کا زوال
شاعری پھر تو ہو اک شعبدۂ قال و مقال
اس سے کہہ دو جو ہے گم گشتۂ صحرائے خیال
کہ ترا ذوق ہے نا محرم لیلائے جمال
رنگ و نکہت نے حجاب اپنا اٹھایا ہی نہیں
حسن بے پردہ ترے سامنے آیا ہی نہیں
7
مجھ کو تسلیم ہے الفاظ کی دارائی بھی
دے اگر دیدۂ ادراک کو بینائی بھی
اس کی تاثیر میں شدت بھی ہو گیرائی بھی
اس میں وسعت بھی ہو رفعت بھی ہو گہرائی بھی
شاعری کیا جو سخن ولولہ انگیز نہ ہو
ہاں مگر خوان تکلم میں نمک تیز نہ ہو
8
بوئے گل زور خطابت سے بگولا نہ بنے
داغ پیشانی کا خال رخ زیبا نہ بنے
نالہ آہنگ میں نالہ رہے نغمہ نہ بنے
نغمہ شوریدگی ٔلحن سے نالہ نہ بنے
لفظ و معنی میں توازن ہو سر اونچا نہ اٹھے
آنچ جذبات کی دھیمی رہے شعلہ نہ اٹھے
9
آتنی رنگینی کہ تاثیر بیاں گم ہوجائے
نغمگی اتنی کہ مفہوم فغاں گم ہوجائے
اس قدر نشہ کہ رستے کا نشاں گم ہوجائے
اور نقش قدم راہبراں گم ہوجائے
پھر تو حصے میں ترے بوالعجبی ہے اے دوست
منظر ریگ ہے اور تشنہ لبی ہے اے دوست
10
اب تو الفاظ سے ہے زینت دوکان سخن
وائے برجان سخن وائے برایمان سخن
اللہ اللہ یہ رنگینیٔ دامان سخن
شفق خون تخیل ہے بہ عنوان سخن
آسمانوں کی بلندی پہ نظر ہے پیارے
دل کی گہرائی میں کیا ہے یہ خبر ہے پیارے
11
گوندھتا ہے رگ بلبل میں شرارے کوئی
مانگتا ہے طبق ماہ میں تارے کوئی
گن رہا ہے یم افلاک کے دھارے کوئی
اور سمجھتا نہیں فطرت کے اشارے کوئی
دھوپ کیا کہتی ہے کیا کہتا ہے سایہ سمجھے
کون ہے جو مہ و انجم کا کنایہ سمجھے
12
شاعری کیا ہے فقط قصۂ زلف و رخسار
ہے یہ جذبات کی نقاش تو جذبے ہیں ہزار
جذبۂ حب وطن جذبۂ عزم احرار
جذبۂ مہرو و فا جذبۂ رحم و ایثار
صبر خدام ہو یا غیرت سائل اے دوست
کتنے جذبات ہیں تشریح کے قابل اے دوست
13
کتنے جذبے ہیں کہ شاعر پہ ہے گم جن کا وجود
کتنی آہیں ہیں کہ گھٹتی رہیں دل میں بے دود
شاعری سے ہے اگر شرح محبت مقصود
تو محبت کی بھی قسمیں ہیں یہاں لا محدود
دوستی بھی ہے اخوت بھی ہے شفقت بھی ہے
اور محبت ہی کی اک شکل عقیدت بھی ہے
14
شاعری جذبۂ شفقت کو زباں دے نہ سکی
شاعری درد رفاقت کو زباں دے نہ سکی
زردی چہرۂ محنت کو زباں دے نہ سکی
چشم مفلس کی خجالت کو کو زباں دے نہ سکی
کتنے کانٹے ہیں جو سینے میں کھٹکتے ہی رہے
کتنے جذبے ہیں جو آنکھوں میں سسکتے ہی رہے
15
اور شاعر کو خرافات سے فرصت نہ ملی
ہجر اور وصل کے جذبات سے فرصت نہ ملی
خط و کاکل کی روایات سے فرصت نہ ملی
رنگ و نکہت کی علامات سے فرصت نہ ملی
منفعل جذبہ جنسی کی زبانی کہتے
عمر گزری گل و بلبل کی کہانی کہتے
16
کچھ ہیں ایسے جو فصاحت کو سخن کہتے ہیں
کچھ معانی کی بلاغت کو سخن کہتے ہیں
کچھ تخیل کی غرابت کو سخن کہتے ہیں
کچھ اسالیب کی ندرت کو سخن کہتے ہیں
چوں نہ بینند حقیقت رہ افسانہ زنند
در میخانہ نہ جنبد در مے خانہ زنند
17
ہم بھی میخانہ کا در پیٹ رہے ہیں ساقی
در جو کھلتا نہیں چوکھٹ پہ جھکے ہیں ساقی
اور کچھ آہٹ جو ملی ہے تو اٹھے ہیں ساقی
عالم غور میں خاموش کھڑے ہیں ساقی
صبح ہونے کو ہے پلکیں نہیں جھپکیں شب سے
بے پئے جھوم رہا ہے ترا شاعر کب سے
18
حالت وجد میں گزرے کئی سال اے ساقی
اب تو دے دے مجھ اک جام سفال اے ساقی
پی چکا ہوں میں محبت کا زلال اے ساقی
اب ہے تجھ سے مئے عرفاں کا سوال اے ساقی
ہے مری حسرت تکمیل بھی پیاسی مولا
میں بھی پیاسا مری تخیل بھی پیاسی مولا
19
دے وہ بادہ کہ جسے غالب دانا نے پیا
وحشت و حشرنے چکبست نے رسوا نے پیا
میر و مومن نے پیا آتش و سودا نے پیا
خم پہ منہ رکھ کے انیس سخن آرا نے پیا
میری تقدیر سے جو رہ گئی باقی دے دے
انہیں میخواروں کی جھوٹی مرے ساقی دے دے
20
ہاں وہی جذبہ عرفی میں ہے شدت جس سے
خم شیراز میں ہے تیری امانت جس سے
پیر رومی کو ملی عشق کی دولت جس سے
بڑھی اقبال کے سینے میں حرارت جس سے
شادؔ کا دل ہوا جس سے ترا مینا ساقی
آگیا وقت کے ماتھے پہ پسینہ ساقی
21
کھول میخانے کا در آ مئے کوثر لے کر
روح اسلام کا کھینچا ہوا جوہر لے کر
جس میں سو بحر معانی ہیں وہ ساغر لے کر
آج اٹھوں گا میں ظرف دل بوذر لے کر
تیری مرضی ہو تو قطرے میں سمندر آ جائے
میرے کوزے میں چھلکتا ہوا کوثر آ جائے
22
میرے وجدان تفکر کو اچھال اے ساقی
لا مرے دل کی صراحی میں ابال اے ساقی
دے مرے صید نظر کو پر وبال اے ساقی
دام الفاظ و معانی سے نکال اے ساقی
بھیج دے مجھ کو مری حد نظر سے آگے
اس تبسم کدۂ برق و شرر سے آگے
23
اس سفر سے جو پھروں دیدۂ بینا لے کر
نکہت گیسوئے الہام کا سودا لے کر
شہپر بلبل شیراز کا خامہ لے کر
سینۂ وحی سے سوز دل عیسیٰ لے کر
شمعیں روشن کروں ماضی کے شبستانوں میں
دوں اذاں جا کے تخیل کے صنم خانوں میں
24
پس پردہ جو ہوس ہے اسے رسوا کردوں
پیرہن چھین کے اخلاق کو ننگا کردوں
فکر و احساس کی دنیا تہہ و بالا کردوں
سو رہی ہے جو قیامت اسے برپا کردوں
جوئے خوں مے چکداز حسرت دیرینۂ ما
مے تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
25
آج ہے پھر مری باتوں پہ خرد گم ساقی
لب رحمت پہ ہے گمبھیر تبسم ساقی
کیوں نہ ہو شوخ یہ آہنگ تکلم ساقی
تونے بخشا ہے مرے جام کو قلزم ساقی
جس کی اک موج ہے یہ زمزمہ خوانی میری
تیرا افسانہ سنیں رند زبانی میری
26
میں فدا بخشش ساقی ترے اس بادل کے
جس سے صحرائے تقدس میں بھی دریا چھلکے
گئی مے خانے میں فردوس سے مے ڈھل ڈھل کے
پئیے حوروں نے پیالے ترے ہلکے ہلکے
اک گلابی سی گھٹا عرش تلک چھانے لگی
ڈورے آنکھوں کے شہابی ہوئے نیند آنے لگی
27
قدسیوں نے بھی پیا اہل جناں نے بھی پیا
اور ہر مرسل فردوس مکاں نے بھی پیا
شاخ سدرہ پہ ترے مرتبہ داں نے بھی پیا
تیرے ہاتھوں سے جسے پیر مغاں نے بھی پیا
کچھ کہوں اور تو یہ بات کہاں تک پہنچے
راز میخانہ فرشتوں کی زباں تک پہنچے
28
مختصر یہ کہ ازل میں جو کھینچی تھی ساقی
شب ہجرت تری بالیں پہ دھری تھی ساقی
اور جو صفین میں تا صبح بٹی تھی ساقی
حالت جنگ میں عمار نے پی تھی ساقی
بن گئے شیر وغا مالک اشتر جس سے
ان کے کشتے ترے کشتوں کے برابر جس سے
29
دے وہ بادہ جو کبھی نوح کے طوفاں میں بہا
دشت سینا میں بہا وادئ کنعاں میں بہا
کشت موعود براہیم پہ فاراں میں بہا
تادم عصر شہادت کے گلستاں میں بہا
ظہر کے وقت جسے قین بجلٰی نے پیا
تیر کھا کھا کے رفیقان معلی ٰنے پیا
30
آگیا ذکر شہیدان محبت ساقی
اب سبو کی ہے نہ ساغر کی ضرورت ساقی
اب نگاہوں میں ہے اک وادئ غربت ساقی
دیکھ اک تشنہ دہانوں کی جماعت ساقی
بھول کر خستگی و تشنہ دہانی اپنی
خوں سے لکھتی ہے لب نہر کہانی اپنی
31
اے خرد وقت کی آشفتہ بیانی سن لے
کیوں گلابی ہوا اس نہر کا پانی سن لے
کار زار حق و باطل کی کہانی سن لے
خوں سے تر ریگ بیاباں کی زبانی سن لے
پہنچے اس دشت میں اللہ کے دیوانے چند
پہنچے اور دے دیئے تاریخ کو افسانے چند
32
امتحاں عشق کا تھا عشق کے بندے نکلے
ان کی تیغوں سے لپکتے ہوئے شعلے نکلے
ماں کے ہاتھوں سے کفن باندھ کے بچے نکلے
پشتیں سیدھی کئے تنتے ہوئے بوڑھے نکلے
ہنس کے طے مرحلۂ تیغ و گلو کرنے لگے
دی جو قرنانے اذاں خوں سے وضو کرنے لگے
33
چشم حیرت سے فلک نے یہ تماشا دیکھا
ٹھاٹھیں لیتا ہوا فولاد کا دریا دیکھا
سامنے اس کے بہتّر کو صف آرا دیکھا
پھر بھی نیزوں کے نیستاں کو سرکتا دیکھا
مورچے ٹوٹے اجڑتی ہوئی بستی دیکھی
تادم عصر گھٹا خوں کی برستی دیکھی
34
گونجی نعروں سے زمیں حشر تکلم بھی ہوا
عرصۂ دشت بلا خون کا قلزم بھی ہوا
صفیں بل کھا گئیں دریا میں تلاطم بھی ہوا
آگ اور خون کی لہروں میں تصادم بھی ہوا
جس طرف مڑ گیا سیلاب اسی گھاٹ گئے
مرتے مرتے ہوئے لاشوں سے زمیں پاٹ گئے
35
رن میں پانی پیا دکھلا کے ستمگاروں نے
پونچھا ماتھے سے پسینہ بھی نہ جراروں نے
شرم ایمان وفا رکھ لی وفاداروں نے
پھینک دی تن سے زرہ نوچ کے کراروں نے
سپریں پھینک دیں روکیں نہ حسامیں اپنی
توڑ دیں حملۂ اول میں نیا میں اپنی
36
آگ جنگل میں برستی رہی تلواروں سے
جس طرف مڑگئے سجدے لئے دیواروں سے
بیرقیں چھین لیں لشکر کے نموداروں سے
سوگئے رن کی زمیں چھین کے غداروں سے
ظہر کے وقت منا کا تھا نمونہ جنگل
آنکھ شیروں کی لگی ہوگیا سونا جنگل
37
ان کے سردار کی شان کرم اللہ غنی
ختم جس پر ہوا احساس غریب الوطنی
ہمہ تن پیکر ایثار شجاعت کا دھنی
خلق پر اس کے فدا خلق رسول مدنی
غیظ بھی اس کو بہ عنوان ترحم آیا
زخم جب کھائے تو ہونٹوں پہ تبسم آیا
38
پشت خم ہوگئی یوں لاشوں پہ لاشہ لایا
اور بجز حرف دعا لب پہ نہ شکوا لایا
ایک جب رد نہ ہوا دوسرا تحفہ لایا
طفل معصوم کو ہاتھوں پہ ہمکتا لایا
وہ ہوا ذبح تو مالک کو ودیعت سونپی
خاک میں کوکھ جلی ماں کی امانت سونپی
39
دوپہر میں ہوا بچوں سے بھرا گھر برباد
گودیاں ہوگئیں خالی ہوا صحرا آباد
کس سلیقے سے ادا عشق نے کی رسم جہاد
متبسم تھا نمازی متحیر جلاد
حق کی جو آخری حجت تھی سر انجام ہوئی
تشنگی خنجر قاتل کی بجھی شام ہوئی
40
گونجتا وقت گرجتا ہوا رن ختم ہوا
لہلہاتا ہوا بچوں کا چمن ختم ہوا
گھر جلے مرحلہ ٔدست و رسن ختم ہوا
دن ڈھلا دھوپ چھپی روز محن ختم ہوا
آنسو آنکھوں میں بھرے شام غریباں آئی
اپنے کاندھوں پہ لئے زلف پریشاں آئی
41
تیرگی تجھ کو مبارک ہو یہ عاشور کی شام
عہد ظلمت کی سحر خاتمۂ نور کی شام
شفق افروز ہے خون دل مہجور کی شام
آج کی شام تو ہے زینب رنجور کی شام
آفریں اس پہ بہتر کی عزادار ہے جو
اک لٹے قافلے کی قافلہ سالار ہے جو
42
اس کی سیرت پہ ہو کیا شام غریباں کا اثر
جس نے ظلمت کے گریباں سے نکالی ہو سحر
جس کا ہر مرحلۂ فرض جہاد اکبر
جس کے دامن سے یتیموں کو ملی بوئے پدر
آیت اللہ ہے کردار مکمل جس کا
سایۂ دامن رحمت ہوا آنچل جس کا
43
ایک گرتا ہوا گھر اٹھ کے سنبھالا جس نے
آگ میں پیر کے بچوں کو نکالا جس نے
کردیا صبر کی راہوں میں اجالا جس نے
بھر دیا ظلم کی ہمت کا پیالا جس نے
فتح مظلوم کی عنوان نتیجے کو دیا
حوصلہ صبر کا بیمار بھتیجے کو دیا
44
آج اٹھتا ہے دھواں شام غریباں سے جمیل
شور ماتم ہے عزا خانۂ ویراں سے جمیل
نیکیاں کیوں نہ اگیں مزرع ایماں سے جمیل
آبیاری جو ہوئی خون شہیداں سے جمیل
اس میں ہے خون دل زینب کبریٰ بھی شریک
ان کے آنسو بھی شریک ان کا پسینہ بھی شریک
45
بخدا ناشر احکام خدا تھیں زینب
پانی فلسفۂ رسم عزا تھیں زینب
فاتح معرکۂ صبر و رضا تھیں زینب
شام غربت میں پناہ غربا تھیں زینب
دل پہ خود جبر کیا صبر دلایا سب کو
لا کے اک حلقۂ ماتم میں بٹھایا سب کو
46
گم تھے بچے تو انہیں ڈھونڈتی جنگل میں گئیں
کبھی گھبرائی ہوئی فوج کے بادل میں گئیں
کبھی دریا پہ کبھی خون کے جل تھل میں گئیں
آئی آواز سکینہ کی تو مقتل میں گئیں
مل گئے سب تو اب اشکوں کو پئے بیٹھی ہیں
اپنے سایہ میں یتیموں کو لئے بیٹھی ہیں
47
شام غم شام الم شام غریباں ہے یہ شام
خون سادات سے گلزار بہ داماں ہے یہ شام
مرثیہ خوان شباب گل و ریحاں ہے یہ شام
چند خیمے ابھی جلتے ہیں چراغاں ہے یہ شام
اور سلگتا ہے ادھر زینب و کلثوم کا دل
ام قاسم کا جگر مادر معصوم کا دل
48
فتح ظلمت کی ہوئی جشن منائے گی یہ رات
تیرگیِ دل اشرار بڑھائے گی یہ رات
ان کی جرموں کی نشانی کو چھپائے گی یہ رات
پردہ آثار شہادت پہ گرائے کی یہ رات
لے کے آئی ہے ردا ماجرا پوشی اس کی
کتنی گمبھیر ہے جنگل میں خموشی اس کی
49
دشت میں گنج شہیداں کی بہار ایک طرف
زرد چہروں پہ یتیمی کا غبار ایک طرف
دھیمی دھیمی سی وہ اشکوں کی پھوار ایک طرف
سہمی سہمی ہوئی پانی کی پکار ایک طرف
ہنہناتے ہوئے گھوڑوں کی صدائیں اک سمت
سوکھے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ دعائیں اک سمت
50
فوج شاہی میں ادھر تہنیت فتح کی دھوم
اور ادھر خاک پہ امت کے اسیروں کا ہجوم
بے کفن دشت میں ہر فدیہ ٔرب قیوم
گرد صحرا کی ردا جن کو اڑھاتی ہے سموم
ہو کا عالم ہے فضا چپ ہے بیاباں چپ ہیں
قافلہ وقت کا چلتا ہے خدی خواں چپ ہیں
51
موجیں دریا کی ہیں خاموش ہوا نیند میں ہے
بیکسی چپ ہے گروہ شہدا نیند میں ہے
ہر اسیر الم و رنج و بلا نیند میں ہے
سوئی ہے غیرت حق قہر خدا نیند میں ہے
کون پہرے پہ ہو بنت اسد رب کے سوا
کوئی بیدار نہیں ہے دل زینب کے سوا
52
آنکھیں اشکوں سے ہیں نم روح حزیں قلب اداس
بال چہرے پہ پریشاں ہیں مگر جمع حواس
ہاتھ میں نیزۂ خطی لئے با حالت یاس
کبھی اس لاش کے پاس اور کبھی اس لاش کے پاس
کبھی خیمہ میں ہیں عابد کی چٹائی کے قریب
کبھی عباس کے لاشے پہ ترائی کے قریب
53
کبھی کہتی ہیں کہ حضرت گئے مارے عباس
تم کو نیند آگئی دریا کے کنارے عباس
جو فرائض متعلق تھے تمہارے عباس
ان کا بوجھ اب مرے کاندھے پہ ہے پیارے عباس
بار غم اس کے علاوہ ہے دبی جاتی ہوں
دو سہارا مجھے اٹھ کر جھکی جاتی ہوں
54
کبھی لاش شہ والا سے یہ کرتی ہیں کلام
آپ نے سونپ دیا ہے مجھے عباس کا کام
بھیجئے ان کو کہ ہلکی ہو میری پیٹھ امام
آپ خاموش ہیں کیوں لیجئے زینب کا سلام
لائی ہے شدت غم اشک فشانی کے لئے
اٹھیے آئی ہے بہن فاتحہ خوانی کے لئے
55
کام سونپا ہے تو اب اٹھ کے دعا دیں حضرت
اور مجھے حوصلۂ صبر و رضا دیں حضرت
جذبۂ معرفت امر خدا دیں حضرت
جو ہدایت کے طریقے ہیں بتادیں حضرت
آپ کو اس سر بے مقنع و چادر کی قسم
آپ کو آپ کے درس تہ خنجر کی قسم
56
ہاتھ رکھیے کہ ٹھہرتا نہیں ہمشیر کا دل
ہے یہ زینب کا کلیجہ نہیں شبیر کا دل
کچھ تو قانع بہ تہ دام ہو نخچیر کا دل
شمع کی طرح گھلے زینب دلگیر کا دل
اس کے گھلنے سے ہو ظلمت تہ و بالا بھیا
کچھ تو ہو راہ ہدایت میں اجالا بھیا
57
مجھ کو اکبر کی قسم خالق اکبر کی قسم
قطرۂ خون دل بانوئے مضطر کی قسم
جس پہ جبریل نے سجدہ کیا اس در کی قسم
آپ کے بعد جو لوٹا گیا اس گھر کی قسم
کہ مجھے آپ عزیز آپ کا مقصد بھی عزیز
اور ہے یہ مسلک ایثار اب وجد بھی عزیز
58
وعدہ کرتی ہوں کہ جس راہ میں جاؤں گی میں
اس کے ہر موڑ پہ تاریخ بناؤں گی میں
قوم کو آپ کا پیغام سناؤں گی میں
اس کی سوئی ہوئی غیرت کو جگاؤں گی میں
تربیت یافتہ یا شاہ زمن آپ کی ہوں
یہ سمجھ لیجئے بھیا کہ بہن آپ کی ہوں
59
کہہ کے یہ چپ جو ہوئیں خواہر شاہ دوسرا
سسکیاں لینے لگا رات کا وہ سناٹا
آئی خاتون قیامت کے جو رونے کی صدا
رخ بیاباں کی طرف کرکے یہ زینب نے کہا
آپ اب نیند سے چونکی ہیں دہائی اماں
لٹ چکا گھر تو سواری ادھر آئی اماں
60
دوپہر میں ہوا بی بی یہ بھرا گھر خالی
خیمۂ قاسم و عون و علی اکبر خالی
ہوا بے چوبۂ عباس دلاور خالی
آئیے دیکھئے گہوارۂ اصغر خالی
اب نہ بیٹے ہیں نہ پوتے نہ نواسے اماں
لڑے دو لاکھ سے دو روز کے پیاسے اماں
61
جرأتیں جعفر و حیدر کی دکھائیں سب نے
صفیں میدان میں ہنس ہنس کے جمائیں سب نے
سوکھے ہونٹوں پہ زبانیں نہ پھرائیں سب نے
ندیاں خون کی دریا پہ بہائیں سب نے
کیا کہوں شان علمدار دلاور اماں
مشک تو بھرلی مگر لب نہ کئے تر اماں
62
دوپہر تھی کہ ترائی میں وہ سقا پہونچا
پیر کر خون کی ندی لب دریا پہونچا
مشک لاتا تھا کہ فرمان قضا آ پہونچا
خوں میں تر ہو کے جو اس شیر کا گھوڑا پہونچا
سنی کنبے نے نہ آواز محن بھی اس کی
تھا وہ جیوٹ تو جیالی تھی دلہن بھی اس کی
63
جسم صد پارہ لیے قاسم بے پر آیا
ماں کے آنسو نہ بہے مر کے پسر گھر آیا
باپ کے ہاتھ پہ مردہ علی اصغر آیا
اور پسینہ بھی نہ بھابی کی جبیں پر آیا
اونچا ہاشم کے گھرانے کا بہت نام کیا
آج تو آپ کی بہوؤں نے بڑا کام کیا
64
کیا کہوں جوش غلامان وفادار حسین
آپ کے خوں میں ملا خون نمک خوار حسین
کس زباں سےہو بیاں جرأت انصار حسین
ان کے تیور تھے کہ آئینۂ کردار حسین
حصن مرسوس بہ گرد شہ ذیجاہ تھے وہ
آیت اللہ تھے مامور من اللہ تھے وہ
65
جیئے جب تک سوئے حضرت یہ ستمگار نہ آئے
تھی یہ کوشش کہ ادھر تیروں کی بوچھار نہ آئے
آنچ تیغوں کی سوئے سید ابرار نہ آئے
تیر کیا دھوپ بھی تا عارض سرکار نہ آئے
اور عرق بھی بہ رخ شاہ مدینہ نہ بہے
خوں ہمارا بہے حضرت کا پسینہ نہ بہے
66
بیبیاں ان کی وہ برپاکن روح ایماں
جن کے ایثار کا اللہ و نبی پر احساں
خادمہ آپ کی مخدومہ احرار جہاں
کس بشاشت سے کیا شکر خدائے سبحاں
اپنی مانگ آپ کے کنبے پہ نچھاور کردی
عرق شرم سے زینب کی جبیں تر کردی
67
کس تمنا سے جواں بیٹیوں کو باہر بھیجا
جوش ایماں سے ہتھیلی پہ لئے سر بھیجا
ایک بی بی نے یہ ہدیہ سوئے سرور بھیجا
اپنے چھوٹے سے مجاہد کو سجا کر بھیجا
قد تو چھوٹا تھا مگر تیز تھی رفتار اس کی
صفحہ ٔخاک پہ خط دیتی تھی تلوار اس کی
68
آپ روتی ہیں تو روئیں مگر انصار کو روئیں
روئیں احرار کو جب سید احرار کو روئیں
اس کا احسان ہے ہم پرحر جرار کو روئیں
کون روئے گا اسے جون وفادار کو روئیں
وہ بھی سمجھیں انہیں خاتون جناں روتی ہے
اس طرح روئیے جس طرح سے ماں روتی ہے
69
مانگئے رحمت حق حر ریاحی کے لیے
وہب کلبی و بن قین بجلی کے لیے
جملہ اصحاب یمینی ویساری کے لیے
آئے جنت سے ہوا ان کی تسلی کے لیے
آپ کیجئے جو دعا کاسۂ دل بھر جائیں
حشر سے پہلے یہ پیاسے لب کوثر جائیں
70
آپ کا نور نظر خادم جمہور حسین
فدیۂ بے طلب امت مقہور حسین
بیکس و تشنہ لب و خستہ و رنجور حسین
حق کے انبار امانت کا وہ مزدور حسین
ناز ارمان مشیت کے اٹھانے والا
اپنے بچے کی لحد آپ بنانے والا
71
للہ الحمد کہ وعدے کی وفا کی اس نے
جو امانت تھی خدا کی وہ ادا کی اس نے
شان دکھلائی مسیح دوسرا کی اس نے
دشمنوں کے لئے مقتل میں دعا کی اس نے
کیوں نہ لے رحمت حق اس کی بلائیں اماں
زیر خنجر بھی رہیں لب پہ دعائیں اماں
72
لاش اکبر پہ کیا شکر کا سجدہ اس نے
کس کو کہتے ہیں جہاد آج بتایا اس نے
رکھ لیا شرع کے اس حکم کا پردہ اس نے
کر دیا دیدۂ تاریخ کو بینا اس نے
لفظ اسلام کی سردے کے وضاحت کردی
اپنے ایثار سے توثیق رسالت کردی
73
قوم میں فرض کا احساس جگایا اس نے
چہرۂ وقت کو آئینہ دکھایا اس نے
قرض نانا کی محبت کا چکایا اس نے
کشت اسلام میں خوں اپنا رچایا اس نے
جو بھی پونجی تھی پئے بخشش امت دے دی
آپ کے دود ھ کے ہر قطرے کی قیمت دے دی
74
نوک نیزہ پہ بھی چہرے کی بشاشت نہ گئی
برچھیاں کھائیں مگر رخ کی متانت نہ گئی
خون بن کر جو رگوں میں تھی شجاعت نہ گئی
منزل صبر میں بھی شان جلالت نہ گئی
نام بابا کی شجاعت کا اجالا اس نے
کیا دو لاکھ کا لشکر تہ و بالا اس نے
75
گرچہ سورج تھا سوا نیزے پہ آیا اماں
امتحاں دیتا رہا آپ کا جایا اماں
رد کیا شہپر جبریل کا سایہ اماں
آپ نے عرش کا پایا نہ ہلایا اماں
اب میں سمجھی کہ تھی تدبیر شفاعت پیاری
بڑھ کے بیٹے سے بھی تھی باپ کی امت پیاری
76
آپ کیا قہر خدا بھی تو گراں گوش ہوا
کامراں آپ کا وہ زینت آغوش ہوا
نہ سپر چہرے پہ روکی نہ زرہ پوش ہوا
وعدہ طفلی کا وفا کرکے سبکدوش ہوا
آ کے پہچانئے اس صادق الاقرار کی لاش
ہائے روندی گئی امت کے گنہ گار کی لاش
77
شکوہ کیا لٹ جو گیا خیمۂ عصمت اماں
تھی وہ میراث نبی لے گئی امت اماں
شکر اس کا جو ملا اجر ہدایت اماں
دیکھئے دست و گلو کی مرے زینت اماں
کیوں نہ یہ طوق یہ کنگن مجھے پیارا ہوگا
آپ نے یوں نہ کبھی مجھ کو سنوارا ہوگا
78
چلئے خیمے کی طرف حال نشیمن سنئے
داستاں برق کی افسانۂ خرمن سنئے
خامشی جس کو سناتی ہے وہ شیون سنئے
چلیے چل کر دل بیمار کی دھڑکن سنئے
آئیے خاک پہ لے جاکے بٹھادوں اماں
اب تو چادر بھی نہیں ہے کہ بچھادوں اماں
79
وقت نے سونپ دیا فرض قیادت مجھ کو
ہلنے دیتا نہیں احساس امانت مجھ کو
اب تو رونے کی بھی ملتی نہیں فرصت مجھ کو
کیا کہے گی علی اکبر کی محبت مجھ کو
وہ جو سوئی ہے تو سوئے شہدا آئی ہوں
لوریاں دے کے سکینہ کو سلا آئی ہوں
80
مجھ کو اٹھنے نہیں دیتا کوئی بچہ اماں
میں جو بیٹھوں تو پھرے کون طلایا اماں
اس کو بہلاؤں کہ دوں اس کو دلاسا اماں
وہ اگر باپ کو پوچھیں تو کہوں کیا اماں
یہ تو ممکن ہے کہ لونڈی بنوں دایہ بن جاؤں
کس طرح ان کے لیے باپ کا سایہ بن جاؤں
81
مظہریؔ بس تہ و بالا ہیں دل اہل ولا
ابھی معیار پہ آیا نہیں ذکر شہدا
گھٹ رہے ہیں مرے سینے میں بہت سے دریا
ٹپکے اک بوند قلم سے تو تلاطم ہو بپا
پھول سب ڈھونڈتے ہیں داغ دکھاؤں کس کو
سننے والا نہیں ملتا ہے سناؤں کس کو
-
نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری
شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کردوں
گنگ کو، ماہر انداز تکلم کر دوں
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
اس ثنا خواں کے بزرگوں میں ہیں کیا کیا مداح
جدّ اعلیٰ سے نہ ہوگا کوئی اعلیٰ مداح
باپ مداح کا مداح ہے دادا مداح
عم ذی قدر ثنا خوانوں میں یکتا مداح
جو عنایات الٰہی سے ہوا نیک ہوا
نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا
طبع ہر ایک کی موزوں قد زیبا موزوں
صورت سرو ازل سے ہیں سراپا موزوں
نثربے سجع نہیں، نظم معلیٰ موزوں
کہیں سکتہ نہیں آ سکتا، کجا ناموزوں
تول لے عقل کی میزاں میں جو فہمیدہ ہے
بات جو منہ سے نکلتی ہے وہ سنجیدہ ہے
خلق میں مثل خلیق اور تھا خوش گو کوئی کب
نام لے دھو لے زباں کوثر و تسنیم سے جب
بلبل گلشن زہرا و علی عاشق رب
متبع مرثیہ گوئی میں ہوئے جس کے سبب
ہو اگر ذہن میں جودت ہے کہ موزونی ہے
اس احاطے سے جو باہر ہے وہ بیرونی ہے
بھائی خوش فکرت و خوش لہجہ و پاکیزہ خصال
جن کا سینہ گہر علم سے ہے مالا مال
یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ سلاست یہ کمال
معجزہ گر نہ اسے کہیے تو ہے سحر حلال
اپنے موقع پہ جسے دیکھیے لاثانی ہے
لطف حضرت کا یہ ہے رحمت یزدانی ہے
کیوں نہ ہو بندۂ موروثیٔ مولا ہوں میں
قلزم رحمت معبود کا قطرہ ہوں میں
جس میں لاکھوں در و مرجاں ہیں وہ دریا ہوں میں
مدح خوانِ پسرِ حضرتِ زہرا ہوں میں
وصف جوہر کا کروں یا صفت ذات کروں
اپنے رتبے پہ نہ کیوں آپ مباہات کروں
مبتدی ہوں مجھے توقیر عطا کر یارب
شوقِ مداحیِٔ شپیر عطا کر یارب
سنگ ہو موم وہ تقریر عطا کر یارب
نظم میں رونے کی تاثیر عطاکر یا رب
جد و آبا کے سوا اور کوئی تقلید نہ ہو
لفظ مغلق نہ ہوں گنجلک نہ ہوں تعقید نہ وہ
وہ مرقع ہو کہ دیکھیں اسے گر اہل شعور
ہر ورق میں کہیں سایہ نظر آئے کہیں نور
غل ہو یہ ہے کششِ مو قلم طرۂ حور
صاف ہر رنگ سے ہو صنعت صانع کا ظہور
کوئی ناظر جو یہ نایاب نظیریں سمجھے
نقشِ ارژنگ کو کاواک لکیریں سمجھے
قلمِ فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
شمعِ تصویر پہ گرنے لگیں آ آ کے پتنگ
صاف حیرت زدہ مانیؔ ہو تو بہزادؔ ہو دنگ
خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں صفِ جنگ
رزم ایسی ہو کہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی
بجلیاں تیغوں کی آنکھوں میں چمک جائیں ابھی
روزمرہ شرفا کا ہو سلامت ہو وہی
لب و لہجہ وہی سارا ہو متانت ہو وہی
سامعیں جلد سمجھ لیں جسے، صنعت ہو وہی
یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی
لفظ بھی چست ہوں مضمون بھی عالی ہووے
مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہووے
ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے
تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے
سرمہ زیبا ہے فقط نرگسِ جادو کے لیے
زیب ہے خالِ سیۂ چہرۂ گلرو کے لیے
داند آنکس کہ فصاحت بہ کلامے دارد
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد
بزم کا رنگ جدا، رزم کا میداں ہے جدا
یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا
فہم کامل ہو، تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا
مختصر پڑھ کے رلا دینے کا ساماں ہے جدا
دبدبہ بھی ہو، مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو
دل بھی محفوظ ہوں، رقت بھی ہو تعریف بھی ہو
ماجرا صبحِ شہادت کا بیان کرتا ہوں
رنج و اندوہ و مصیبت کا بیاں کرتا ہوں
تشنہ کاموں کی عبادت کا بیاں کرتا ہوں
جاں نثاروں کی اطاعت کا بیاں کرتا ہوں
جن کا ہمتا نہیں، ایک ایک مصاحب ایسا
ایسے بندے نہ کبھی ہوں گے ، نہ صاحب ایسا
صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یادِ الٰہی میں طیور
مثلِ خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
شش جہت میں رخِ مولا سے ظہور حق تھا
صبح کا ذکر ہے کیا، چاند کا چہرہ فق تھا
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں وہ سحر
دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
اوس نے فرشِ زمرد پہ بچھائے تھے گہر
لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر
دشت سے جھوم کے جب بادِ صبا آتی تھی
صاف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آتی تھی
بلبلوں کی وہ صدائیں، وہ گلوں کی خوشبو
دل کو الجھاتے تھے، سنبل کے وہ پر خم گیسو
قمریاں کہتی تھیں شمشاد پہ یاہو یاہو
فاختہ کی یہ صدا سرو پہ تھی ، کو کو کو
وقت تسبیح کا تھا عشق کا دم بھرتے تھے
اپنے معبود کی سب، حمد و ثنا کرتے تھے
آئے سجادۂ طاعت پہ امامِ دو جہاں
اس طرف طبل بجا یاں ہوئی لشکر میں اذاں
وہ مصلی کہ زباں جن کی حدیث و قرآں
وہ نمازی کہ جو ایماں کے تنِ پاک کی جاں
زاہد ایسے تھے کہ ممتاز تھے، ابراروں میں
عابد ایسے تھے کہ سجدے کیے تلواروں میں
عرشِ اعظم کو ہلاتی تھیں دعائیں ان کی
وجد کرتے تھے ملک، سن کے صدائیں ان کی
وہ عمامے، وہ قبائیں، وہ عبائیں ان کی
حوریں لیتی تھیں بصد شوق بلائیں ان کی
ذکرِ خالق میں لب ان کے جو ہلے جاتے تھے
غنچے فردوس کے شادی سے کھلے جاتے تھے
کیا جوانانِ خوش اطوار تھے، سبحان اللہ
کیا رفیقانِ وفادار تھے، سبحان اللہ
صفدر و غازی و جرار تھے، سبحان اللہ
زاہد و عابد و ابرار تھے، سبحان اللہ
زن و فرزند سے فرقت ہوئی، مسکن چھوڑا
مگر احمد کے نواسے کا نہ دامن چھوڑا
اللہ اللہ عجب فوج عجب غازی تھے
عجب اسوار تھے بے مثل، عجب تازی تھے
لائقِ مدح و سزاوارِ سر افرازی تھے
گو بہت کم تھے، پہ آمادۂِ جاں بازی تھے
پیاس ایسی تھی کہ آ آ گئی جاں ہونٹوں پر
صابر ایسے تھے کہ پھیری نہ زباں ہونٹوں پر
زہد میں حضرت سلماںؔ کے برابر کوئی
دولتِ فقر و قناعت میں ابوذرؔ کوئی
صدقِ گفتار میں عمارؔ کا ہمسر کوئی
حمزۂؔ عصر کوئی مالکِ اشترؔ کوئی
ہوں گے ایسے ہی محمدؔ کے جو شیدا ہوں گے
پھر جہاد ایسا نہ ہوگا، نہ وہ پیدا ہوں گے
گو مصیبت میں تلاطم میں، تباہی میں رہے
سرکٹے پاؤں مگر راہِ الٰہی میں رہے
یوں سرافراز، وہ سب لشکرِ شاہی میں رہے
جس طرح تیغِ دو دم دستِ سپاہی میں رہے
اس مصیبت میں نہ پایا کبھی شاکی ان کو
آبرو ساقیِٔ کوثر نے عطا کی ان کو
وہ تخشع، وہ تضرع، وہ قیام اور وہ قعود
وہ تذلل وہ دعائیں وہ رکوع اور وہ سجود
یادِ حق دل میں، تو سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ درود
یہ دعا خالقِ اکبر سے کہ اے ربِ ودود
یوں لٹیں ہم کہ، نہ آل اور نہ اولاد رہے
مگر احمدؔ کے نواسے کا گھر آباد رہے
موم فولاد ہو آوازوں میں وہ سوز و گداز
اپنے معبود سے سجدوں میں عجب راز و نیاز
سر تو سجادوں پہ تھے عرش معلی پہ نماز
شیر دل منتخبِ دہر وحید و ممتاز
چاند شرمندہ ہو، چہرے متجلی ایسے
نہ امام ایسا ہوا پھر نہ مصلی ایسے
جب فریضے کو ادا کر چکے وہ خوش کردار
کس کے کمروں کو بصد شوق لگائے ہتھیار
جلوہ فرما ہوئے گھوڑے پہ شۂ عرش وقار
علمِ فوج کو عباس نے کھولا اک بار
دشت میں نکہتِ فردوس بریں آنے لگی
عرش تک اس کے پھریرے کی ہوا جانے لگی
لہر وہ سبز پھریرے کی، وہ پنجے کی چمک
شرم سے ابر میں چھپ جاتا تھا خورشید فلک
کہتے تھے صلِ علیٰ چرخ پہ اٹھ اٹھ کے ملک
دنگ تھے سب وہ سماں سے تھا سماں تا بہ فلک
کہیے پستی اسے جو اوج ہما نے دیکھا
وہ سماں پھر نہ کبھی ارض و سما نے دیکھا
اس طرح جب علمِ دلبرِ زہرا جائے
کس سے پھر معرکۂ رزم میں ٹھہرا جائے
سانپ دشمن کی نہ کیوں چھاتی پہ لہرا جائے
لہر میں تا بہ فلک جس کا پھریرا جائے
رفع شر کو، علم خیر بشر آیا تھا
سورۂ نصر پئے فتح و ظفر آیا تھا
وہ علم دار کہ جو شیرِ الٰہی کا خلف
گوہر بحرِ وفا، نیرِ دیں درِ نجف
فخرحمزہؔ سے نمودار کا جعفرؔ کا شرف
کس طرح چاند کہوں، چاند میں ہے عیب کلف
کس نے پایا وہ جو تھا جاہ و حشم ان کے لیے
یہ علم کے لیے تھے اور علم ان کے لیے
سرو شرمائے، قد اس طرح کا، قامت ایسی
اسد اللہ کی تصویر تھے، صورت ایسی
شیر نعروں سے دہل جاتے تھے ، صولت ایسی
جا کے پانی نہ پیا نہر پہ ہمت ایسی
جان جب تک تھی اطاعت میں رہے بھائی کی
تھے علم دار، مگر بچوں کی سقائی کی
وہ بہشتی نے کیا، جس کو وفا کہتے ہیں
ہم انہیں عاشقِ شاہِ شہدا کہتے ہیں
ان کو قبلہ تو انہیں قبلہ نما کہتے ہیں
جو بہادر ہیں، وہ شمشیرِ خدا کہتے ہیں
عشقِ سردار و علمدار کا افسانہ ہے
وہ چراغِ رہِ دیں ہے تو یہ پروانہ ہے
اک طرف اکبرِ مہرو سا جوانِ نایاب
کچھ جو بچپن تھا تو کچھ آمدِ ایام شباب
روشنی چہرے پہ ایسی کہ خجل ہو مہتاب
آنکھیں ایسی کہ رہا، نرگسِ شہلا کو حجاب
جس نے ان گیسوؤں میں رخ کی ضیا کو دیکھا
شبِ معراج میں، محبوبِ خدا کو دیکھا
ؔاے خوشا حسنِ رخِ یوسفِ کنعانِ حسن
ؔراحتِ روحِ حسین، ابن علی، جانِ حسن
ؔجسم میں زورِ علی، طبع میں احسانِ حسن
ؔہمہ تن خلقِ حسن، حسنِ حسن، شانِ حسن
تن پہ کرتی تھی نزاکت سے گرانی پوشاک
کیا بھلی لگتی تھی بچپن میں سہانی پوشاک
اللہ اللہ اسدِ حق کے نواسوں کا جلال
چاند سے چہروں پہ بل کھائے ہوئے زلفوں کے بال
نیمچے کاندھوں پہ رکھے ہوئے، مانندِ ہلال
گرچہ بچپن تھا، پہ رستم کو سمجھتے تھے وہ زال
صف سے گھوڑوں کو بڑھا کر جو پلٹ جاتے تھے
مورچے لشکرِ کفار کے ہٹ جاتے تھے
آستینوں کو چڑھائے ہوئے آمادۂ جنگ
وہی سارا اسد اللہ کا نقشہ، وہی ڈھنگ
سرخ چہرے تھے کہ شیروں کا یہی ہوتا ہے رنگ
ولولہ صف کے الٹنے کا، لڑائی کی امنگ
جسم پر تیر چلیں، نیزۂ خونخوار چلے
شوق اس کا تھا کہ جلدی کہیں تلوار چلے
یک بیک طبل بجا فوج میں گرجے بادل
کوہ تھراے، زمیں ہل گئی گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے تلواروں کے پھل
مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکلِ اجل
واں کے چاؤش بڑھانے لگے دل لشکر کا
فوجِ اسلام میں نعرہ ہوا یا حیدر کا
شور میدانیوں میں تھا، کہ دلیرو نکلو!
نیزہ بازی کرو، رہواروں کو پھیرو نکلو!
نہر قابو میں ہے، اب پیاسوں کو گھیرو نکلو!
غازیو! صف سے بڑھو غول سے شیرو نکلو!
رستمو! دادِ وغا دو، کہ یہ دن داد کا ہے
سامنا حیدر کرار کی اولاد کا ہے
شور سادات میں تھا، یا شۂ مرداں مددے
کعبۂ دیں مددے، قبلۂ ایماں مددے
قوتِ بازوئے پیغمبرِ ذی شاں مددے
دم تائید ہے، اے فخرِ سلیماں مددے
تیسرا فاقہ ہے، طاقت میں کمی ہے مولا!
طلب قوتِ ثابت قدمی ہے مولا!
پیاس میں حرف نہ شکوے کا زباں پر لائیں
دم بدم سینوں پہ فاقوں میں سنانیں کھائیں
دل نہ تڑپے، جو دمِ نزع نہ پانی پائیں
تیرے فرزند کی تائید کریں، مرجائیں
لاشے مقتل میں ہوں لاشِ شہ دلگیر کے پاس
سر ہوں نیزے پہ سرِ حضرتِ شبیر کے پاس
سامنے بڑھ کے یکایک صفِ کفار آئی
جھوم کر تیرہ گھٹا، تاروں پہ اک بار آئی
روزِ روشن کے چھپانے کو شبِ تار آئی
تشنہ کاموں کی طرف، تیروں کی بوچھار آئی
ہنس کے منہ بھائی کا شاہِ شہدا نے دیکھا
اپنے آقا کو بہ حسرت رفقا نے دیکھا
عرض عباسؔ نے کی جوش ہے جراروں کو
تیر سب کھاتے ہیں، تولے ہوئے تلواروں کو
میہمانوں کا نہیں پاس، ستمگاروں کو
مصلحت ہو تو رضا دیجیے، غمخواروں کو
رو سیاہوں کو مٹا دیں کہ بڑھے آتے ہیں
ہم جو خاموش ہیں وہ منہ پہ چڑھے آتے ہیں
یہی ہنگامہ رہا صبح سے، تا وقتِ زوال
لاش پر لاش گری، بھر گیا میدانِ قتال
سرخرو خلق سے اٹھے، اسد اللہ کے لال
مورچے سب تہہ و بالا تھے، پرے سب پامال
کھیت ایسے بھی کسی جنگ میں کم پڑتے ہیں
جو لڑا سب یہی سمجھے کہ علی لڑتے ہیں
قاسم و اکبر و عباس کا اللہ رے جہاد
غل ہر اک ضرب پہ تھا اب ، ہوئی دنیا برباد
الاماں کا تھا کہیں شور کہیں تھی فریاد
دے گئے خلق میں مردانگیٔ حرب کی داد
گو وہ دنیا میں نہیں، عرش مقام ان کا ہے
آج تک عالمِ ایجاد میں نام ان کا ہے
دوپہر میں وہ چمن بادِ خزاں نے لوٹا
پتا پتا ہوا تاراج تو بوٹا بوٹا
باپ بیٹے سے چھٹا، بھائی سے بھائی چھوٹا
ابنِ زہراؔ کی کمر جھک گئی بازو ٹوٹا
پھر سے نہ یاور، نہ وہ جاں باز نہ وہ شیدا تھے
ظہر کے وقت حسینؔ ابنِ علی تنہا تھے
ساتھ جو جو کہ بہادر تھے، وطن سے آئے
سامنے سوتے تھے ریتی پہ سنائیں کھائے
دھوپ میں پیاس سے مثلِ گلِ تر مرجھائے
مرگئے پر نہ غریبوں نے کفن تک پائے
دھوپ پڑتی تھی یہ دن چرخ نے دکھلایا تھا
نہ تو چادرتھی کسی لاش پہ نے سایا تھا
صاحبِ فوج پہ طاری تھا عجب رنج و ملال
زرد تھا رنگ، تو آنکھیں تھیں لہو رونے سے لال
کبھی بھائی کا الم تھا، کبھی بیٹے کا خیال
کبھی دھڑکا تھا کہ لاشیں نہ کہیں ہوں پامال
کبھی بڑھتے تھے وغا کو، کبھی رک جاتے تھے
سیدھے ہوتے تھے کبھی، اور کبھی جھک جاتے تھے
بڑھ کے چلاتے تھے بے درد کہ اب آپ آئیں
جوہر تیغِ شہنشاہِ نجف دکھلائیں
مرنے والے نہیں جیتے جو سنائیں کھائیں
کاٹ لیں آپ کا سر تن سے تو فرصت پائیں
پسرِ سعد سے وعدہ ہے، صلا لینے کا
حکم ہے خیمۂ اقدس کے جلا دینے کا
شہ نے فرمایا، مجھے خود ہے شہادت منظور
نہ لڑائی کی ہوس ہے، نہ شجاعت کا غرور
جنگ منظور نہ تھی ان سے پہ اب ہوں مجبور
خیر، لڑ لو کہ ستاتے ہیں یہ بے جرم و قصور
ذبح کرنے کے لیے لشکرِ ناری آئے
کہیں جلدی مرے سر دینے کی باری آئے
حکم پانا تھا کہ شیروں نے اڑائے تازی
مثل شہباز گیا ایک کے بعد اک غازی
واہ ری حرب، خوشا ضرب، زہے جانبازی
اڑ گیا ہاتھ بڑھا جو پئے دست اندازی
لوٹتے رن میں سر و جسم نظر آتے تھے
ایک حملے میں قدم فوج کے جم جاتے تھے
جس پہ غصہ میں گئے صید پہ شہباز گرا
یہ کماں کٹ کے گری، وہ قدر انداز گرا
جب گرا خاک پہ گھوڑے سے، تو ممتاز گرا
نہ اٹھا پھر کبھی، جو تفرقہ پرداز گرا
ہاتھ منہ کٹ گئے، سر اڑ گئے جی چھوٹ گئے
مورچے ہو گئے پامال، پرے ٹوٹ گئے
بعد غیروں کے عزیزوں نے کیا عزمِ نبرد
سر کو نہیوڑا کے بھرا سبطِ نبیؐ نے دم سرد
ہوک اٹھی کبھی سینے میں، تو دل میں کبھی درد
سرخ ہوتا تھا کبھی چاند سا چہرہ کبھی زرد
کوئی گل رو تو کوئی سرو سہی بالا تھا
وہ بچھڑنے لگے، گودی میں جنہیں پالا تھا
زلفوں والا تھا کوئی، کوئی مرادوں والا
کوئی بھائی کا پسر، کوئی بہن کا پالا
چاند سا منہ جو کسی کا تھا تو گیسو ہالا
کوئی قامت میں بہت کم کوئی قد میں بالا
نوجواں کون سا خوش رو و خوش انداز نہ تھا
کتنے ایسے تھے کہ سبزہ ابھی آغاز نہ تھا
ہاتھ وہ بچوں کا، اور چھوٹی سی وہ تلواریں
موم کردیتی تھیں فولاد کہ جن کی دھاریں
آب ہو شیر کا زہرہ ہے، جسے وہ للکاریں
بجلیاں کوند رہی ہیں کسے نیزہ ماریں
کس بشاشت سے ہزاروں یہ، دلیر آتے ہیں
بچے آتے ہیں کہ بپھرے ہوئے شیر آتے ہیں
شہ نے فرمایا کہ سر کاٹ لو، حاضر ہوں میں
نہ تو لڑنے میں، نہ مرجانے میں قاصر ہوں میں
فوج بھی اب نہیں بے یاور و ناصر ہوں میں
شہر و صحرا بھی تمہارا ہے، مسافر ہوں میں
لوٹ لو پھونک دو، تاراج کرو بہتر ہے
کلمہ گویو! یہ تمہارے ہی نبی کا گھر ہے
کئی سیدانیاں خیمے میں ہیں پردے والی
جن کا رتبہ ہے زمانے میں ہر اک پر حالی
اب نہ وارث کوئی سر پر ہے، نہ کوی والی
ان کو دیجو! کوئی رہ جائے جو خیمہ خالی
یہ نبی زادیاں بے پردہ نہ ہوئیں جس میں
ایک گوشہ ہو کہ سب بیٹھ کے روئیں جس میں
سن کے ان باتوں کا اعدا نے دیا جو کہ جواب
گر لکھوں اس کو تو ہو جائے جگر سنگ کا آب
قلب تھرا گیا ہر گز نہ رہی ضبط کی تاب
دیکھ کر رہ گئے گردوں کو، شۂ عرش جناب
اشک خالی اسے کرتے ہیں جو دل بھر آئے
آپ رونے کے لیے خیمے کے در پر آئے
تھم کے چلائے کہ اے زینبؑ و ام کلثوم
تم سے رخصت کو پھر آیا ہے حسینِ مظلوم
آ مرے قتل کے درپے ہے یہ سب لشکرِ شوم
ہاں جگادو اسے غش ہو جو سکینہ معصوم
نہیں ملتا جو زمانے سے گزر جاتا ہے
کہہ دو عابدؔ سے کہ مرنے کو پدر جاتا ہے
یہ صدا سن کے حرم خیمے سے، مضطر دوڑے
شہ کی آواز پہ سب بے کس و بے پر دوڑے
گر پڑیں سر سے ردائیں تو کھلے سر دوڑے
بچے روتے ہوئے ماؤں کے برابر دوڑے
رو کے چلائی سکینہ شہ والا آؤ!
میں تمہیں ڈھونڈتی تھی، دیر سے بابا آؤ!
آؤ اچھے مرے بابا، میں تمہاری واری
دیکھو تم بن ہیں گلے تک مرے آنسو جاری
آج یہ کیا ہے کہ بھولے مرے خاطر داری
ہاتھ پھیلا کے کہو! آ مری بیٹی پیاری
منہ چھپانے کی ہے کیا وجہ نہ شرماؤ تم
اب میں پانی بھی نہ مانگوں گی، چلے آؤ تم
دیکھ کر پردہ سے یہ کہنے لگی، زینبِؑ زار
ابنِ زہراؔ تری مظلومی و غربت کے نثار
آؤ چادر سے کروں پاک، میں چہرے کا غبار
شہ نے فرمایا، بہن مر گئے سب مونس و یار
تم نے پالا تھا جسے، ہم اسے رو آئے ہیں
علی اکبرؑ سے جگر بند کو کھو آئے ہیں
منہ دکھائیں کسے، سب سے ہے ندامت زینبؔ
گھر میں آنے کی نہیں، بھائی کو مہلت زینبؔ
کھینچ لائی ہے سکینہ کی محبت زینبؔ
بھائی جاتا ہے، دکھا دو ہمیں صورت زینبؔ
نہ تو سر کھولو، نہ منہ پیٹو، نہ فریاد کرو
بھول جاؤ ہمیں، اللہ کو اب یاد کرو
صبر سے خوش ہے خدا، اے مری غم خوار بہن
سہل ہوجاتا ہے، جو امر ہو دشوار بہن
اپنی ماں کا ہے طریقہ، تمہیں درکار بہن
پھر میں کہتا ہوں سکینہ سے خبردار بہن
ناز پرور ہے مرے بعد الم اس پہ نہ ہو
بُندے کانوں سے اتارو کہ ستم اس پہ نہ ہو
کہیو عابد سے یہ پیغام مرا بعد سلام
غش تھے تم پھر گئے دروازے تلک آ کے امام
قید میں پھنس کے نہ گھبرائیو اے گل اندام
کاٹیو صبر و رضا سے، سفرِ کوفہ و شام
ناؤ منجدھار میں ہے شور طلاطم جانو!
نا خدا جاتا ہے، گھر جانے اور اب تم جانو!
کہہ کے یہ باگ پھرآئی طرفِ لشکرِ شام
پڑ گیا خیمۂ ناموس نبی میں کہرام
رن میں گھوڑے کو اڑاتے ہوئے آئے جو امام
رعب سے فوج کے دل ہل گئے کانپے اندام
سر جھکے ان کے جو کامل تھے زباں دانی میں
اڑ گئے ہوش فصیحوں کے رجز خوانی میں
تھا یہ نعرہ کہ محمد کا نواسا ہوں میں
مجھ کو پہچانو! کہ خالق کا شناسا ہوں میں
زخمی ہونے سے نہ مرنے سے ہراسا ہوں میں
تیسرا دن ہے یہ گرمی میں کہ پیاسا ہوں میں
چین کیا چیز ہے، آرام کسے کہتے ہیں؟
اس پہ شکوہ نہیں کچھ، صبر اسے کہتے ہیں
اس کا پیارا ہوں جو ہے ساقیِٔ حوضِ کوثر
اس کا بیٹا ہوں، جو ہے فاتحِ بابِ خیبر
اس کا فرزند ہوں کی جس نے مہم بدر کی سر
اس کا دلبر ہوں میں، دی جس کو نبی نے دختر
صاحبِ تخت ہوئے، تیغ ملی، تاج ملا
دوش احمدؔ پہ انہیں رتبۂ معراج ملا
بے وطن ہوں نہ مسافر کو ستاؤ اللہ
قتل کیوں کرتے ہو تم، کون سا میرا ہے گناہ
اب نہ یاور ہے کوئی ساتھ نہ لشکر نہ سپاہ
تم کو لازم ہے غریبوں پہ ترحم کی نگاہ
ہاتھ آئے گا نہ انعام، نہ زر پاؤگے
یاد رکھو! مرا سر کاٹ کے پچھتاؤگے
نہ بھی ختم ہوئی تھی یہ مسلسل تقریر
حجت اللہ کے فرزند پہ چلنے لگے تیر
چوم کر تیغ کے قبضے کو پکارے شبیر
لو خبردار! چمکتی ہے علیؔ کی شمشیر
پسرِ فاتحِ صفین و حنین آتا ہے
لو صفیں باندھ کے روکو تو حسینؔ آتا ہے
لو کھنچو تیغِ دوسر، فوج پہ آفت آئی
لو ہلا، قائمۂ عرش، قیامت آئی
فتح تسلیم کو، آداب کو نصرت آئی
فخر سے غاشیہ برداری کو شوکت آئی
چوم لوں پاؤں، جلال اس تگ و دو میں آیا
ہاتھ جوڑے ہوئے اقبال جلو میں آیا
آپ سیدھے جو ہوئے رخش نے بدلے تیور
دونوں آنکھیں ابل آئیں کہ ڈرے بانیِٔ شر
تھوتھنی مل گئی سینے سے کیا، دُم کو چنور
مثلِ طاؤس اڑا، گاہ اِدھر، گاہ اُدھر
دم بدم گرد نسیمِ سحری پھرتی تھی
جھوم کر پھرتا تھا، گویا کہ پری پھرتی تھی
ابر ڈھالوں کا اٹھا تیغِ دو پیکر چمکی
برق چھپتی ہے، یہ چمکی تو برابر چمکی
سوئے پستی کبھی کوندی، کبھی سر پر چمکی
کبھی انبوہ کے اندر، کبھی باہر چمکی
جس طرف آئی وہ ناگن اسے ڈستے دیکھا
مینہ سروں کا صفِ دشمن میں برستے دیکھا
دھار ایسی کی رواں ہوتا ہے دھارا جیسے
گھاٹ وہ گھاٹ کہ دریا کا کنارا جیسے
چمک ایسی کہ حسینوں کا اشارا جیسے
روشنی وہ کہ گرے ٹوٹ کے تارا جیسے
کوندنا برق کا شمشیر کی ضو میں دیکھا
کبھی ایسا نہیں دم خم مہ نو میں دیکھا
اک اشارے میں، برابر کوئی دو تھا کوئی چار
نہ پیادہ کوئی بچتا تھا سلامت نہ سوار
برق گرتی تھی کہ چلتی تھی صفوں پر تلوار
غضب اللہ علیہم کے عیاں تھے آثار
موت ہر غول کو برباد کیے جاتی تھی
آگ گھیرے ہوئے دوزخ میں لیے جاتی تھی
تیغیں آری ہوئی ڈھالوں کے اڑے پرکالے
بند سب بھول گئے خوف سے نیزوں والے
جو بڑھے ہاتھ سرِ دست قلم کر ڈالے
تیغ کہتی تھی، یہ سب ہیں مرے دیکھے بھالے
صف بہ صف باندھ کے نیزوں کو عبث تولے ہیں
ایسے عقدے مرے ناخن نے بہت کھولے ہیں
جب کبھی جائزۂِ فوج ستم لیتی ہوں
موت سے رحم نہ کرنے کی قسم لیتی ہوں
دو زبانوں سے سدا کارِ قلم لیتی ہوں
چہرے کٹ چکتے ہیں، لشکر کے تو دم لیتی ہوں
ہر طرف ہو کے، عدم کے سفری ہوتے ہیں
طبقلیں کٹتی ہیں، چہرے نظری ہوتے ہیں
وہ برش وہ چمک اس کی وہ صفائی اس کی
کسی تلوار نے تیزی نہیں پائی اس کی
اس کا بازو جو اڑایا، تو کلائی اس کی
مل گئی جس کے گلے سے اجل آئی اس کی
صورتِ مرگ کسی نے بھی نہ آتے دیکھا
سر پہ چمکی تو کمر سے اسے جاتے دیکھا
کبھی ڈھالوں پہ گری اور کبھی تلواروں پر
پیدلوں پر کبھی آئی کبھی اسواروں پر
کبھی ترکش پہ رکھا منہ، کبھی سوفاروں پر
کبھی سر کاٹ کے آ پہنچی کمانداروں پر
گر کے اس غول سے اٹھی تو اس انبوہ میں تھی
کبھی دریا میں، کبھی بر میں، کبھی کوہ میں تھی
کبھی چہرہ کبھی شانہ، کبھی پیکر کاٹا
کبھی در آئی جگر میں، تو کبھی سر کاٹا
کبھی مغفر، کبھی جوشن، کبھی بکتر کاٹا
طول میں راکب و مرکب کا برابر کاٹا
برشِ تیغ کا غسل، قاف سے تا قاف رہا
پی گئی خون ہزاروں کا، پہ منہ صاف رہا
نہ رکی خود پہ وہ، اور نہ سر پر ٹھہری
نہ کسی تیغ پہ دم بھر، نہ سپر پر ٹھہری
نہ جبیں پر نہ گلے پر، نہ جگر پر ٹھہری
کاٹ کر زین کو، گھوڑے کی کمر پر ٹھہری
جان گھبرا کے تنِ دشمنِ دیں سے نکلی
ہاتھ بھر ڈوب کے تلوار، زمیں سے نکلی
کٹ گئی، تیغ تلے جب صفِ دشمن آئی
یک بیک فصلِ فراقِ سر و گردن آئی
بگڑی اس طرح لڑائی کہ نہ کچھ بن آئی
تیغ کیا آئی کہ اڑتی ہوئی ناگن آئی
غل تھا بھاگو کہ یہ ہنگام ٹھہرنے کا نہیں
زہر اس کا جو چڑھے گا تو اترنے کا نہیں
وہ چمک اس کی، سروں کا وہ برسنا، ہرسو
گھاٹ سے تیغ کے، اک حشر بپا تھا لبِ جو
آب میں صورت آتش تھی، جلا دینے کی خو
اور دم بڑھتا تھا، پیتی تھی جو اعدا کا لہو
کبھی جوشن، تو کبھی صدرِ کشادہ کاٹا
جب چلی ضربتِ سابق سے زیادہ کاٹا
تنِ تنہا شۂ دیں لاکھ سواروں سے لڑے
بے سپر برچھیوں والوں کی قطاروں سے لڑے
صورتِ شیر خدا، ظلم شعاروں سے لڑے
دو سے اک لڑ نہیں سکتا، یہ ہزاروں سے لڑے
گر ہو غالب، تو ہزاروں پہ وہی غالب ہو
جو دل و جانِ علیؔ ابن ابی طالبؔ ہو
تیسرے فاقے میں یہ جنگ، یہ حملے یہ جدال
پیاس وہ پیاس کہ نیلم تھے سراسرلب لعل
دھوپ وہ دھوپ کہ سوکھے ہوئے تھے تازہ نہال
لُو وہ لُو جس کی حرارت سے پگھلتے تھے جبال
سنگ ریزوں میں، تب و تاب تھی انگاروں کی
سر پہ یا دھوپ تھی، یا چھاؤں تھی تلواروں کی
شیر سے تھے کبھی جنگل میں، ترائی میں کبھی
ڈھال کو چہرے پہ روکا نہ لڑائی میں کبھی
تیغ حیدر نے کمی کی نہ صفائی میں کبھی
فرق آیا نہ سر و تن کی جدائی میں کبھی
کبھی ابرو کا بھی ایسا نہ اشارا دیکھا
جس پہ اک وار کیا اس کو دوبارا دیکھا
آنکھ وہ آنکھ کہ شیروں کی جلالت جس میں
رخش وہ رخش، کہ سب برق کی سرعت جس میں
تیغ وہ تیغ، عیاں موت کی صورت جس میں
ہاتھ وہ ہاتھ، ید اللہ کی طاقت جس میں
روک لے دار، جگر کیا کسی بے پیر کا ہے
زور وہ، جس میں اثر فاطمہؔ کے شیر کا ہے
جنگ میں پیاس کا صدمہ شۂ دیں سے پوچھو
تنِ تنہا کی وغا، لشکرِ کیں سے پوچھا
زلزلہ دشت پر آفت کا، زمیں سے پوچھو
ضربِ شمشیر دو سر، روحِ امیں سے پوچھو
باپ اس فوج میں تنہا، پسر اس لشکر میں
کربلا میں یہ تلاطم ہوا، یا خیبر میں
اسد اللہ کے صدقے، شہ والا کے نثار
وہی حملے تھے، وہی زور، وہی تھی تلوار
فتحِ حیدر نے کیا جنگ میں خیبر کا حصار
مورچے فوج کے، حضرت نے بھی توڑے کئی بار
کیوں نہ ہو احمدِ مرسل کے نواسے تھے حسینؔ
فرق اتنا تھا کہ دو روز کے پیاسے تھے حسینؔ
ہر طرف فوج میں غل تھا کہ دہای مولا!
ہم نے دیکھی ترے ہاتھوں کی صفائی مولا!
الاماں خوب سزا جنگ کی پائی مولا!
آپ کرتے ہیں بروں سے بھی بھلائی مولا!
ہاتھ ہم باندھتے ہیں پھینک کے شمشیروں کو
بخشیے امتِ نا اہل کی تقصیروں کو
آتی ہاتف کی یہ آواز کہ اے عرشِ مقام
یہ وغا تیسرے فاقے میں، بشر کا نہیں کام
اے محمدؔ کے جگر بند، امام ابنِ امام
لوحِ محفوظ پہ مرقوم ہے، صابر ترا نام
اب نہیں حکم لعینوں سے وغا کرنے کا
ہاں! یہی وقت ہے وعدے کے وفا کرنے کا
آج ہے آٹھوں بہشتوں کی نئی تیاری
نخل سرسبز ہیں فردوس میں نہریں جاری
شب سے حوریں ہیں مکلل بجواہر ساری
خانۂ دوست میں ہے، دوست کی مہانداری
پیشوائی کو رسول الثقلین آتے ہیں
عرش تک شور یہی ہے کہ حسینؔ آتے ہیں
تھم گئے سن کے یہ آواز شۂ جن و بشر
روک کر تیغ کو فرمایا کہ حاضر ہے یہ سر
عید ہو جلد اگر ذبح کریں بانیِ شر
شمرِؔ اظلم ہے کدھر؟ کھینچ کے آئے خنجر
ہے وہ عاشق جو فدا ہونے کو موجود رہے
بس مری فتح یہی ہے کہ وہ خوشنود رہے
کہہ کے یہ میان میں مولا نے رکھی تیغِ دو دم
ہاتھ اٹھا کر یہ اشارہ کیا گھوڑے کو کہ تھم
رہ گیا سر کو جھکا کر فرسِ تیز قدم
چار جانب سے مسافر پہ چلے تیرِ ستم
نیزے یوں گرد تھے جسے گلِ تر خاروں میں
گھر گئے سبطِ نبی، ظلم کی تلواروں میں
پہلے تیروں سے کمانداروں نے چھاتی چھانی
نیزے پہلو پہ لگاتے تھے ستم کے بانی
سر پہ تلواریں چلیں، زخمی ہوئی پیشانی
خوں سے تر ہو گیا حضرت کا رخِ نورانی
جسم سب چور تھا، پرزے تھے زرہ جامے کے
پیچ کٹ کٹ کے کھلے جاتے تھے عمامے کے
برچھیاں مارتے تھے، گھاٹ پہ جو تھے پہرے
کس طرف جائے، کہاں تیغوں میں بیکس ٹھہرے
ایک ہزار اور کوئی سو زخم تھے تن پر گہرے
دیکھنے والوں کے ہو جاتے تھے، پانی زہرے
خوں میں ڈوبا ہوا وہ مصحفِ رخ سارا تھا
جزو ہر اک تن شبیر کا سی پارا تھا
ہاتھ سے باگ جدا تھی، تو رکابوں سے قدم
غش میں سیدھے کبھی ہوتے تھے فرس پر کبھی خم
بہتے تھے پہلوؤں سے، خوں کے دڑیڑے پیہم
کوئی بیکس کا مددگار نہ تھا ہائے ستم
مارے تلواروں کے مہلت تھی نہ دم لینے کی
کوششیں ہوتی تھیں کعبے کے گرادینے کی
دشت سے آتی تھی زہراؔ کی صدا ہائے حسینؔ
میرے بیکس، میرے بے بس، مرے دکھ پائے حسینؔ
در سے چلاتی تھی زینبؔ مرے ماں جائے حسینؔ
کون تیغوں سے بچا کر تجھے لے آئے حسینؔ
فاطمہؔ رو رہی ہیں، ہاتھوں سے پہلو تھامے
حکم گر ہو تو بہن دوڑ کے بازو تھامے
ہائے سیدا ترا تن اور ستم کے بھالے
کس کو چلاؤں کہ جیتے نہیں مرنے والے
اس پہ یہ ظلم دکھوں سے جسے زہراؔ پالے
کون سر سے ترے تلواروں کی آفت ٹالے
کون فریاد سنے بے سر و سامانوں کی
یاں تو بستی بھی نہیں کوئی مسلمانوں کی
نہ رہا جب کہ ٹھہرنے کا فرس پر یارا
گرپڑا خاک پہ، وہ عرش خدا کا تارا
غش سے کچھ دیر میں چونکا جو علیؔ کا پیارا
نیزہ سینے پہ، سناں ابنِ انس نے مارا
واں تو نیزے کی انی پشت سے باہر نکلی
یاں بہن خیمے کی ڈیوڑھی سے کھلے سر نکلی
کھینچ کر سینے سے نیزہ جو ہٹا دشمنِ دیں
جھک کے حضرت نے رکھی خاک پہ سجدے میں جبیں
تیز کرتا ہوا خنجر کو بڑھا شمر لعیں
آسماں ہل گئے تھرا گئی مقتل کی زمیں
کیا کہوں تیغ کو کس طرح گلے پر رکھا
پاؤں قرآں پہ رکھا، حلق پہ خنجر رکھا
ڈھانپ کر ہاتھوں سے منہ بنتِ علی چلائی
ذبح ہوتے ہو مرے سامنے ہے ہے بھائی
ضربِ اول تھی کہ تکبیر کی آواز آئی
گر پڑی خاک پہ غش کھا کے علی کی جائی
آنکھ کھولی تھی کہ ہنگامۂ محشر دیکھا
سر اٹھایا تو سرِ شہ کو سناں پر دیکھا
رو کے چلائی کہ ہے ہے ہمرے مظلوم حسینؔ
فوجِ اعدا میں، ترے قتل کی ہے دھوم حسینؔ
کچھ مجھے آنکھوں سے ہوتا نہیں معلوم حسینؔ
ہائے میں رہ گئی دیدار سے محروم حسینؔ
مڑ کے دیکھو کہ مصیبت میں پڑی ہوں بھائی
ننگے سر بلوۂ اعدا میں کھڑی ہوں بھائی
بس انیسؔ آگے نہ لکھ زینبِ ناشاد کے بین
قتل ہو جانے پہ بھی دھوپ میں تھی لاشِ حسینؔ
قبر میں بھی نہ ملا احمدِؔ مختار کو چین
گھر جلا، قید ہوئی، آلِ رسول الثقلین
کتنے گھر شاہ کے مر جانے سے برباد ہوئے
لٹ گئے یوں کہ نہ سادات پھر آباد ہوئے
ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری
رنگ اڑتے ہیں وہ رنگیں ہے عبارت میری
شور جس کا ہے وہ دریا ہے طبیعت میری
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرؔ کی مداحی میں
ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کردوں
بحر مواج فصاحت کا تلاطم کر دوں
ماہ کو مہر کروں ذروں کو انجم کردوں
گنگ کو، ماہر انداز تکلم کر دوں
درد سر ہوتا ہے بے رنگ نہ فریاد کریں
بلبلیں مجھ سے گلستاں کا سبق یاد کریں
اس ثنا خواں کے بزرگوں میں ہیں کیا کیا مداح
جدّ اعلیٰ سے نہ ہوگا کوئی اعلیٰ مداح
باپ مداح کا مداح ہے دادا مداح
عم ذی قدر ثنا خوانوں میں یکتا مداح
جو عنایات الٰہی سے ہوا نیک ہوا
نام بڑھتا گیا جب ایک کے بعد ایک ہوا
طبع ہر ایک کی موزوں قد زیبا موزوں
صورت سرو ازل سے ہیں سراپا موزوں
نثربے سجع نہیں، نظم معلیٰ موزوں
کہیں سکتہ نہیں آ سکتا، کجا ناموزوں
تول لے عقل کی میزاں میں جو فہمیدہ ہے
بات جو منہ سے نکلتی ہے وہ سنجیدہ ہے
خلق میں مثل خلیق اور تھا خوش گو کوئی کب
نام لے دھو لے زباں کوثر و تسنیم سے جب
بلبل گلشن زہرا و علی عاشق رب
متبع مرثیہ گوئی میں ہوئے جس کے سبب
ہو اگر ذہن میں جودت ہے کہ موزونی ہے
اس احاطے سے جو باہر ہے وہ بیرونی ہے
بھائی خوش فکرت و خوش لہجہ و پاکیزہ خصال
جن کا سینہ گہر علم سے ہے مالا مال
یہ فصاحت، یہ بلاغت، یہ سلاست یہ کمال
معجزہ گر نہ اسے کہیے تو ہے سحر حلال
اپنے موقع پہ جسے دیکھیے لاثانی ہے
لطف حضرت کا یہ ہے رحمت یزدانی ہے
کیوں نہ ہو بندۂ موروثیٔ مولا ہوں میں
قلزم رحمت معبود کا قطرہ ہوں میں
جس میں لاکھوں در و مرجاں ہیں وہ دریا ہوں میں
مدح خوانِ پسرِ حضرتِ زہرا ہوں میں
وصف جوہر کا کروں یا صفت ذات کروں
اپنے رتبے پہ نہ کیوں آپ مباہات کروں
مبتدی ہوں مجھے توقیر عطا کر یارب
شوقِ مداحیِٔ شپیر عطا کر یارب
سنگ ہو موم وہ تقریر عطا کر یارب
نظم میں رونے کی تاثیر عطاکر یا رب
جد و آبا کے سوا اور کوئی تقلید نہ ہو
لفظ مغلق نہ ہوں گنجلک نہ ہوں تعقید نہ وہ
وہ مرقع ہو کہ دیکھیں اسے گر اہل شعور
ہر ورق میں کہیں سایہ نظر آئے کہیں نور
غل ہو یہ ہے کششِ مو قلم طرۂ حور
صاف ہر رنگ سے ہو صنعت صانع کا ظہور
کوئی ناظر جو یہ نایاب نظیریں سمجھے
نقشِ ارژنگ کو کاواک لکیریں سمجھے
قلمِ فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
شمعِ تصویر پہ گرنے لگیں آ آ کے پتنگ
صاف حیرت زدہ مانیؔ ہو تو بہزادؔ ہو دنگ
خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں صفِ جنگ
رزم ایسی ہو کہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی
بجلیاں تیغوں کی آنکھوں میں چمک جائیں ابھی
روزمرہ شرفا کا ہو سلامت ہو وہی
لب و لہجہ وہی سارا ہو متانت ہو وہی
سامعیں جلد سمجھ لیں جسے، صنعت ہو وہی
یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی
لفظ بھی چست ہوں مضمون بھی عالی ہووے
مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہووے
ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے
تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے
سرمہ زیبا ہے فقط نرگسِ جادو کے لیے
زیب ہے خالِ سیۂ چہرۂ گلرو کے لیے
داند آنکس کہ فصاحت بہ کلامے دارد
ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقامے دارد
بزم کا رنگ جدا، رزم کا میداں ہے جدا
یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا
فہم کامل ہو، تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا
مختصر پڑھ کے رلا دینے کا ساماں ہے جدا
دبدبہ بھی ہو، مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو
دل بھی محفوظ ہوں، رقت بھی ہو تعریف بھی ہو
ماجرا صبحِ شہادت کا بیان کرتا ہوں
رنج و اندوہ و مصیبت کا بیاں کرتا ہوں
تشنہ کاموں کی عبادت کا بیاں کرتا ہوں
جاں نثاروں کی اطاعت کا بیاں کرتا ہوں
جن کا ہمتا نہیں، ایک ایک مصاحب ایسا
ایسے بندے نہ کبھی ہوں گے ، نہ صاحب ایسا
صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور
زمزمے کرنے لگے یادِ الٰہی میں طیور
مثلِ خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور
یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور
شش جہت میں رخِ مولا سے ظہور حق تھا
صبح کا ذکر ہے کیا، چاند کا چہرہ فق تھا
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں وہ سحر
دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
اوس نے فرشِ زمرد پہ بچھائے تھے گہر
لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر
دشت سے جھوم کے جب بادِ صبا آتی تھی
صاف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آتی تھی
بلبلوں کی وہ صدائیں، وہ گلوں کی خوشبو
دل کو الجھاتے تھے، سنبل کے وہ پر خم گیسو
قمریاں کہتی تھیں شمشاد پہ یاہو یاہو
فاختہ کی یہ صدا سرو پہ تھی ، کو کو کو
وقت تسبیح کا تھا عشق کا دم بھرتے تھے
اپنے معبود کی سب، حمد و ثنا کرتے تھے
آئے سجادۂ طاعت پہ امامِ دو جہاں
اس طرف طبل بجا یاں ہوئی لشکر میں اذاں
وہ مصلی کہ زباں جن کی حدیث و قرآں
وہ نمازی کہ جو ایماں کے تنِ پاک کی جاں
زاہد ایسے تھے کہ ممتاز تھے، ابراروں میں
عابد ایسے تھے کہ سجدے کیے تلواروں میں
عرشِ اعظم کو ہلاتی تھیں دعائیں ان کی
وجد کرتے تھے ملک، سن کے صدائیں ان کی
وہ عمامے، وہ قبائیں، وہ عبائیں ان کی
حوریں لیتی تھیں بصد شوق بلائیں ان کی
ذکرِ خالق میں لب ان کے جو ہلے جاتے تھے
غنچے فردوس کے شادی سے کھلے جاتے تھے
کیا جوانانِ خوش اطوار تھے، سبحان اللہ
کیا رفیقانِ وفادار تھے، سبحان اللہ
صفدر و غازی و جرار تھے، سبحان اللہ
زاہد و عابد و ابرار تھے، سبحان اللہ
زن و فرزند سے فرقت ہوئی، مسکن چھوڑا
مگر احمد کے نواسے کا نہ دامن چھوڑا
اللہ اللہ عجب فوج عجب غازی تھے
عجب اسوار تھے بے مثل، عجب تازی تھے
لائقِ مدح و سزاوارِ سر افرازی تھے
گو بہت کم تھے، پہ آمادۂِ جاں بازی تھے
پیاس ایسی تھی کہ آ آ گئی جاں ہونٹوں پر
صابر ایسے تھے کہ پھیری نہ زباں ہونٹوں پر
زہد میں حضرت سلماںؔ کے برابر کوئی
دولتِ فقر و قناعت میں ابوذرؔ کوئی
صدقِ گفتار میں عمارؔ کا ہمسر کوئی
حمزۂؔ عصر کوئی مالکِ اشترؔ کوئی
ہوں گے ایسے ہی محمدؔ کے جو شیدا ہوں گے
پھر جہاد ایسا نہ ہوگا، نہ وہ پیدا ہوں گے
گو مصیبت میں تلاطم میں، تباہی میں رہے
سرکٹے پاؤں مگر راہِ الٰہی میں رہے
یوں سرافراز، وہ سب لشکرِ شاہی میں رہے
جس طرح تیغِ دو دم دستِ سپاہی میں رہے
اس مصیبت میں نہ پایا کبھی شاکی ان کو
آبرو ساقیِٔ کوثر نے عطا کی ان کو
وہ تخشع، وہ تضرع، وہ قیام اور وہ قعود
وہ تذلل وہ دعائیں وہ رکوع اور وہ سجود
یادِ حق دل میں، تو سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ درود
یہ دعا خالقِ اکبر سے کہ اے ربِ ودود
یوں لٹیں ہم کہ، نہ آل اور نہ اولاد رہے
مگر احمدؔ کے نواسے کا گھر آباد رہے
موم فولاد ہو آوازوں میں وہ سوز و گداز
اپنے معبود سے سجدوں میں عجب راز و نیاز
سر تو سجادوں پہ تھے عرش معلی پہ نماز
شیر دل منتخبِ دہر وحید و ممتاز
چاند شرمندہ ہو، چہرے متجلی ایسے
نہ امام ایسا ہوا پھر نہ مصلی ایسے
جب فریضے کو ادا کر چکے وہ خوش کردار
کس کے کمروں کو بصد شوق لگائے ہتھیار
جلوہ فرما ہوئے گھوڑے پہ شۂ عرش وقار
علمِ فوج کو عباس نے کھولا اک بار
دشت میں نکہتِ فردوس بریں آنے لگی
عرش تک اس کے پھریرے کی ہوا جانے لگی
لہر وہ سبز پھریرے کی، وہ پنجے کی چمک
شرم سے ابر میں چھپ جاتا تھا خورشید فلک
کہتے تھے صلِ علیٰ چرخ پہ اٹھ اٹھ کے ملک
دنگ تھے سب وہ سماں سے تھا سماں تا بہ فلک
کہیے پستی اسے جو اوج ہما نے دیکھا
وہ سماں پھر نہ کبھی ارض و سما نے دیکھا
اس طرح جب علمِ دلبرِ زہرا جائے
کس سے پھر معرکۂ رزم میں ٹھہرا جائے
سانپ دشمن کی نہ کیوں چھاتی پہ لہرا جائے
لہر میں تا بہ فلک جس کا پھریرا جائے
رفع شر کو، علم خیر بشر آیا تھا
سورۂ نصر پئے فتح و ظفر آیا تھا
وہ علم دار کہ جو شیرِ الٰہی کا خلف
گوہر بحرِ وفا، نیرِ دیں درِ نجف
فخرحمزہؔ سے نمودار کا جعفرؔ کا شرف
کس طرح چاند کہوں، چاند میں ہے عیب کلف
کس نے پایا وہ جو تھا جاہ و حشم ان کے لیے
یہ علم کے لیے تھے اور علم ان کے لیے
سرو شرمائے، قد اس طرح کا، قامت ایسی
اسد اللہ کی تصویر تھے، صورت ایسی
شیر نعروں سے دہل جاتے تھے ، صولت ایسی
جا کے پانی نہ پیا نہر پہ ہمت ایسی
جان جب تک تھی اطاعت میں رہے بھائی کی
تھے علم دار، مگر بچوں کی سقائی کی
وہ بہشتی نے کیا، جس کو وفا کہتے ہیں
ہم انہیں عاشقِ شاہِ شہدا کہتے ہیں
ان کو قبلہ تو انہیں قبلہ نما کہتے ہیں
جو بہادر ہیں، وہ شمشیرِ خدا کہتے ہیں
عشقِ سردار و علمدار کا افسانہ ہے
وہ چراغِ رہِ دیں ہے تو یہ پروانہ ہے
اک طرف اکبرِ مہرو سا جوانِ نایاب
کچھ جو بچپن تھا تو کچھ آمدِ ایام شباب
روشنی چہرے پہ ایسی کہ خجل ہو مہتاب
آنکھیں ایسی کہ رہا، نرگسِ شہلا کو حجاب
جس نے ان گیسوؤں میں رخ کی ضیا کو دیکھا
شبِ معراج میں، محبوبِ خدا کو دیکھا
ؔاے خوشا حسنِ رخِ یوسفِ کنعانِ حسن
ؔراحتِ روحِ حسین، ابن علی، جانِ حسن
ؔجسم میں زورِ علی، طبع میں احسانِ حسن
ؔہمہ تن خلقِ حسن، حسنِ حسن، شانِ حسن
تن پہ کرتی تھی نزاکت سے گرانی پوشاک
کیا بھلی لگتی تھی بچپن میں سہانی پوشاک
اللہ اللہ اسدِ حق کے نواسوں کا جلال
چاند سے چہروں پہ بل کھائے ہوئے زلفوں کے بال
نیمچے کاندھوں پہ رکھے ہوئے، مانندِ ہلال
گرچہ بچپن تھا، پہ رستم کو سمجھتے تھے وہ زال
صف سے گھوڑوں کو بڑھا کر جو پلٹ جاتے تھے
مورچے لشکرِ کفار کے ہٹ جاتے تھے
آستینوں کو چڑھائے ہوئے آمادۂ جنگ
وہی سارا اسد اللہ کا نقشہ، وہی ڈھنگ
سرخ چہرے تھے کہ شیروں کا یہی ہوتا ہے رنگ
ولولہ صف کے الٹنے کا، لڑائی کی امنگ
جسم پر تیر چلیں، نیزۂ خونخوار چلے
شوق اس کا تھا کہ جلدی کہیں تلوار چلے
یک بیک طبل بجا فوج میں گرجے بادل
کوہ تھراے، زمیں ہل گئی گونجا جنگل
پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے تلواروں کے پھل
مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکلِ اجل
واں کے چاؤش بڑھانے لگے دل لشکر کا
فوجِ اسلام میں نعرہ ہوا یا حیدر کا
شور میدانیوں میں تھا، کہ دلیرو نکلو!
نیزہ بازی کرو، رہواروں کو پھیرو نکلو!
نہر قابو میں ہے، اب پیاسوں کو گھیرو نکلو!
غازیو! صف سے بڑھو غول سے شیرو نکلو!
رستمو! دادِ وغا دو، کہ یہ دن داد کا ہے
سامنا حیدر کرار کی اولاد کا ہے
شور سادات میں تھا، یا شۂ مرداں مددے
کعبۂ دیں مددے، قبلۂ ایماں مددے
قوتِ بازوئے پیغمبرِ ذی شاں مددے
دم تائید ہے، اے فخرِ سلیماں مددے
تیسرا فاقہ ہے، طاقت میں کمی ہے مولا!
طلب قوتِ ثابت قدمی ہے مولا!
پیاس میں حرف نہ شکوے کا زباں پر لائیں
دم بدم سینوں پہ فاقوں میں سنانیں کھائیں
دل نہ تڑپے، جو دمِ نزع نہ پانی پائیں
تیرے فرزند کی تائید کریں، مرجائیں
لاشے مقتل میں ہوں لاشِ شہ دلگیر کے پاس
سر ہوں نیزے پہ سرِ حضرتِ شبیر کے پاس
سامنے بڑھ کے یکایک صفِ کفار آئی
جھوم کر تیرہ گھٹا، تاروں پہ اک بار آئی
روزِ روشن کے چھپانے کو شبِ تار آئی
تشنہ کاموں کی طرف، تیروں کی بوچھار آئی
ہنس کے منہ بھائی کا شاہِ شہدا نے دیکھا
اپنے آقا کو بہ حسرت رفقا نے دیکھا
عرض عباسؔ نے کی جوش ہے جراروں کو
تیر سب کھاتے ہیں، تولے ہوئے تلواروں کو
میہمانوں کا نہیں پاس، ستمگاروں کو
مصلحت ہو تو رضا دیجیے، غمخواروں کو
رو سیاہوں کو مٹا دیں کہ بڑھے آتے ہیں
ہم جو خاموش ہیں وہ منہ پہ چڑھے آتے ہیں
یہی ہنگامہ رہا صبح سے، تا وقتِ زوال
لاش پر لاش گری، بھر گیا میدانِ قتال
سرخرو خلق سے اٹھے، اسد اللہ کے لال
مورچے سب تہہ و بالا تھے، پرے سب پامال
کھیت ایسے بھی کسی جنگ میں کم پڑتے ہیں
جو لڑا سب یہی سمجھے کہ علی لڑتے ہیں
قاسم و اکبر و عباس کا اللہ رے جہاد
غل ہر اک ضرب پہ تھا اب ، ہوئی دنیا برباد
الاماں کا تھا کہیں شور کہیں تھی فریاد
دے گئے خلق میں مردانگیٔ حرب کی داد
گو وہ دنیا میں نہیں، عرش مقام ان کا ہے
آج تک عالمِ ایجاد میں نام ان کا ہے
دوپہر میں وہ چمن بادِ خزاں نے لوٹا
پتا پتا ہوا تاراج تو بوٹا بوٹا
باپ بیٹے سے چھٹا، بھائی سے بھائی چھوٹا
ابنِ زہراؔ کی کمر جھک گئی بازو ٹوٹا
پھر سے نہ یاور، نہ وہ جاں باز نہ وہ شیدا تھے
ظہر کے وقت حسینؔ ابنِ علی تنہا تھے
ساتھ جو جو کہ بہادر تھے، وطن سے آئے
سامنے سوتے تھے ریتی پہ سنائیں کھائے
دھوپ میں پیاس سے مثلِ گلِ تر مرجھائے
مرگئے پر نہ غریبوں نے کفن تک پائے
دھوپ پڑتی تھی یہ دن چرخ نے دکھلایا تھا
نہ تو چادرتھی کسی لاش پہ نے سایا تھا
صاحبِ فوج پہ طاری تھا عجب رنج و ملال
زرد تھا رنگ، تو آنکھیں تھیں لہو رونے سے لال
کبھی بھائی کا الم تھا، کبھی بیٹے کا خیال
کبھی دھڑکا تھا کہ لاشیں نہ کہیں ہوں پامال
کبھی بڑھتے تھے وغا کو، کبھی رک جاتے تھے
سیدھے ہوتے تھے کبھی، اور کبھی جھک جاتے تھے
بڑھ کے چلاتے تھے بے درد کہ اب آپ آئیں
جوہر تیغِ شہنشاہِ نجف دکھلائیں
مرنے والے نہیں جیتے جو سنائیں کھائیں
کاٹ لیں آپ کا سر تن سے تو فرصت پائیں
پسرِ سعد سے وعدہ ہے، صلا لینے کا
حکم ہے خیمۂ اقدس کے جلا دینے کا
شہ نے فرمایا، مجھے خود ہے شہادت منظور
نہ لڑائی کی ہوس ہے، نہ شجاعت کا غرور
جنگ منظور نہ تھی ان سے پہ اب ہوں مجبور
خیر، لڑ لو کہ ستاتے ہیں یہ بے جرم و قصور
ذبح کرنے کے لیے لشکرِ ناری آئے
کہیں جلدی مرے سر دینے کی باری آئے
حکم پانا تھا کہ شیروں نے اڑائے تازی
مثل شہباز گیا ایک کے بعد اک غازی
واہ ری حرب، خوشا ضرب، زہے جانبازی
اڑ گیا ہاتھ بڑھا جو پئے دست اندازی
لوٹتے رن میں سر و جسم نظر آتے تھے
ایک حملے میں قدم فوج کے جم جاتے تھے
جس پہ غصہ میں گئے صید پہ شہباز گرا
یہ کماں کٹ کے گری، وہ قدر انداز گرا
جب گرا خاک پہ گھوڑے سے، تو ممتاز گرا
نہ اٹھا پھر کبھی، جو تفرقہ پرداز گرا
ہاتھ منہ کٹ گئے، سر اڑ گئے جی چھوٹ گئے
مورچے ہو گئے پامال، پرے ٹوٹ گئے
بعد غیروں کے عزیزوں نے کیا عزمِ نبرد
سر کو نہیوڑا کے بھرا سبطِ نبیؐ نے دم سرد
ہوک اٹھی کبھی سینے میں، تو دل میں کبھی درد
سرخ ہوتا تھا کبھی چاند سا چہرہ کبھی زرد
کوئی گل رو تو کوئی سرو سہی بالا تھا
وہ بچھڑنے لگے، گودی میں جنہیں پالا تھا
زلفوں والا تھا کوئی، کوئی مرادوں والا
کوئی بھائی کا پسر، کوئی بہن کا پالا
چاند سا منہ جو کسی کا تھا تو گیسو ہالا
کوئی قامت میں بہت کم کوئی قد میں بالا
نوجواں کون سا خوش رو و خوش انداز نہ تھا
کتنے ایسے تھے کہ سبزہ ابھی آغاز نہ تھا
ہاتھ وہ بچوں کا، اور چھوٹی سی وہ تلواریں
موم کردیتی تھیں فولاد کہ جن کی دھاریں
آب ہو شیر کا زہرہ ہے، جسے وہ للکاریں
بجلیاں کوند رہی ہیں کسے نیزہ ماریں
کس بشاشت سے ہزاروں یہ، دلیر آتے ہیں
بچے آتے ہیں کہ بپھرے ہوئے شیر آتے ہیں
شہ نے فرمایا کہ سر کاٹ لو، حاضر ہوں میں
نہ تو لڑنے میں، نہ مرجانے میں قاصر ہوں میں
فوج بھی اب نہیں بے یاور و ناصر ہوں میں
شہر و صحرا بھی تمہارا ہے، مسافر ہوں میں
لوٹ لو پھونک دو، تاراج کرو بہتر ہے
کلمہ گویو! یہ تمہارے ہی نبی کا گھر ہے
کئی سیدانیاں خیمے میں ہیں پردے والی
جن کا رتبہ ہے زمانے میں ہر اک پر حالی
اب نہ وارث کوئی سر پر ہے، نہ کوی والی
ان کو دیجو! کوئی رہ جائے جو خیمہ خالی
یہ نبی زادیاں بے پردہ نہ ہوئیں جس میں
ایک گوشہ ہو کہ سب بیٹھ کے روئیں جس میں
سن کے ان باتوں کا اعدا نے دیا جو کہ جواب
گر لکھوں اس کو تو ہو جائے جگر سنگ کا آب
قلب تھرا گیا ہر گز نہ رہی ضبط کی تاب
دیکھ کر رہ گئے گردوں کو، شۂ عرش جناب
اشک خالی اسے کرتے ہیں جو دل بھر آئے
آپ رونے کے لیے خیمے کے در پر آئے
تھم کے چلائے کہ اے زینبؑ و ام کلثوم
تم سے رخصت کو پھر آیا ہے حسینِ مظلوم
آ مرے قتل کے درپے ہے یہ سب لشکرِ شوم
ہاں جگادو اسے غش ہو جو سکینہ معصوم
نہیں ملتا جو زمانے سے گزر جاتا ہے
کہہ دو عابدؔ سے کہ مرنے کو پدر جاتا ہے
یہ صدا سن کے حرم خیمے سے، مضطر دوڑے
شہ کی آواز پہ سب بے کس و بے پر دوڑے
گر پڑیں سر سے ردائیں تو کھلے سر دوڑے
بچے روتے ہوئے ماؤں کے برابر دوڑے
رو کے چلائی سکینہ شہ والا آؤ!
میں تمہیں ڈھونڈتی تھی، دیر سے بابا آؤ!
آؤ اچھے مرے بابا، میں تمہاری واری
دیکھو تم بن ہیں گلے تک مرے آنسو جاری
آج یہ کیا ہے کہ بھولے مرے خاطر داری
ہاتھ پھیلا کے کہو! آ مری بیٹی پیاری
منہ چھپانے کی ہے کیا وجہ نہ شرماؤ تم
اب میں پانی بھی نہ مانگوں گی، چلے آؤ تم
دیکھ کر پردہ سے یہ کہنے لگی، زینبِؑ زار
ابنِ زہراؔ تری مظلومی و غربت کے نثار
آؤ چادر سے کروں پاک، میں چہرے کا غبار
شہ نے فرمایا، بہن مر گئے سب مونس و یار
تم نے پالا تھا جسے، ہم اسے رو آئے ہیں
علی اکبرؑ سے جگر بند کو کھو آئے ہیں
منہ دکھائیں کسے، سب سے ہے ندامت زینبؔ
گھر میں آنے کی نہیں، بھائی کو مہلت زینبؔ
کھینچ لائی ہے سکینہ کی محبت زینبؔ
بھائی جاتا ہے، دکھا دو ہمیں صورت زینبؔ
نہ تو سر کھولو، نہ منہ پیٹو، نہ فریاد کرو
بھول جاؤ ہمیں، اللہ کو اب یاد کرو
صبر سے خوش ہے خدا، اے مری غم خوار بہن
سہل ہوجاتا ہے، جو امر ہو دشوار بہن
اپنی ماں کا ہے طریقہ، تمہیں درکار بہن
پھر میں کہتا ہوں سکینہ سے خبردار بہن
ناز پرور ہے مرے بعد الم اس پہ نہ ہو
بُندے کانوں سے اتارو کہ ستم اس پہ نہ ہو
کہیو عابد سے یہ پیغام مرا بعد سلام
غش تھے تم پھر گئے دروازے تلک آ کے امام
قید میں پھنس کے نہ گھبرائیو اے گل اندام
کاٹیو صبر و رضا سے، سفرِ کوفہ و شام
ناؤ منجدھار میں ہے شور طلاطم جانو!
نا خدا جاتا ہے، گھر جانے اور اب تم جانو!
کہہ کے یہ باگ پھرآئی طرفِ لشکرِ شام
پڑ گیا خیمۂ ناموس نبی میں کہرام
رن میں گھوڑے کو اڑاتے ہوئے آئے جو امام
رعب سے فوج کے دل ہل گئے کانپے اندام
سر جھکے ان کے جو کامل تھے زباں دانی میں
اڑ گئے ہوش فصیحوں کے رجز خوانی میں
تھا یہ نعرہ کہ محمد کا نواسا ہوں میں
مجھ کو پہچانو! کہ خالق کا شناسا ہوں میں
زخمی ہونے سے نہ مرنے سے ہراسا ہوں میں
تیسرا دن ہے یہ گرمی میں کہ پیاسا ہوں میں
چین کیا چیز ہے، آرام کسے کہتے ہیں؟
اس پہ شکوہ نہیں کچھ، صبر اسے کہتے ہیں
اس کا پیارا ہوں جو ہے ساقیِٔ حوضِ کوثر
اس کا بیٹا ہوں، جو ہے فاتحِ بابِ خیبر
اس کا فرزند ہوں کی جس نے مہم بدر کی سر
اس کا دلبر ہوں میں، دی جس کو نبی نے دختر
صاحبِ تخت ہوئے، تیغ ملی، تاج ملا
دوش احمدؔ پہ انہیں رتبۂ معراج ملا
بے وطن ہوں نہ مسافر کو ستاؤ اللہ
قتل کیوں کرتے ہو تم، کون سا میرا ہے گناہ
اب نہ یاور ہے کوئی ساتھ نہ لشکر نہ سپاہ
تم کو لازم ہے غریبوں پہ ترحم کی نگاہ
ہاتھ آئے گا نہ انعام، نہ زر پاؤگے
یاد رکھو! مرا سر کاٹ کے پچھتاؤگے
نہ بھی ختم ہوئی تھی یہ مسلسل تقریر
حجت اللہ کے فرزند پہ چلنے لگے تیر
چوم کر تیغ کے قبضے کو پکارے شبیر
لو خبردار! چمکتی ہے علیؔ کی شمشیر
پسرِ فاتحِ صفین و حنین آتا ہے
لو صفیں باندھ کے روکو تو حسینؔ آتا ہے
لو کھنچو تیغِ دوسر، فوج پہ آفت آئی
لو ہلا، قائمۂ عرش، قیامت آئی
فتح تسلیم کو، آداب کو نصرت آئی
فخر سے غاشیہ برداری کو شوکت آئی
چوم لوں پاؤں، جلال اس تگ و دو میں آیا
ہاتھ جوڑے ہوئے اقبال جلو میں آیا
آپ سیدھے جو ہوئے رخش نے بدلے تیور
دونوں آنکھیں ابل آئیں کہ ڈرے بانیِٔ شر
تھوتھنی مل گئی سینے سے کیا، دُم کو چنور
مثلِ طاؤس اڑا، گاہ اِدھر، گاہ اُدھر
دم بدم گرد نسیمِ سحری پھرتی تھی
جھوم کر پھرتا تھا، گویا کہ پری پھرتی تھی
ابر ڈھالوں کا اٹھا تیغِ دو پیکر چمکی
برق چھپتی ہے، یہ چمکی تو برابر چمکی
سوئے پستی کبھی کوندی، کبھی سر پر چمکی
کبھی انبوہ کے اندر، کبھی باہر چمکی
جس طرف آئی وہ ناگن اسے ڈستے دیکھا
مینہ سروں کا صفِ دشمن میں برستے دیکھا
دھار ایسی کی رواں ہوتا ہے دھارا جیسے
گھاٹ وہ گھاٹ کہ دریا کا کنارا جیسے
چمک ایسی کہ حسینوں کا اشارا جیسے
روشنی وہ کہ گرے ٹوٹ کے تارا جیسے
کوندنا برق کا شمشیر کی ضو میں دیکھا
کبھی ایسا نہیں دم خم مہ نو میں دیکھا
اک اشارے میں، برابر کوئی دو تھا کوئی چار
نہ پیادہ کوئی بچتا تھا سلامت نہ سوار
برق گرتی تھی کہ چلتی تھی صفوں پر تلوار
غضب اللہ علیہم کے عیاں تھے آثار
موت ہر غول کو برباد کیے جاتی تھی
آگ گھیرے ہوئے دوزخ میں لیے جاتی تھی
تیغیں آری ہوئی ڈھالوں کے اڑے پرکالے
بند سب بھول گئے خوف سے نیزوں والے
جو بڑھے ہاتھ سرِ دست قلم کر ڈالے
تیغ کہتی تھی، یہ سب ہیں مرے دیکھے بھالے
صف بہ صف باندھ کے نیزوں کو عبث تولے ہیں
ایسے عقدے مرے ناخن نے بہت کھولے ہیں
جب کبھی جائزۂِ فوج ستم لیتی ہوں
موت سے رحم نہ کرنے کی قسم لیتی ہوں
دو زبانوں سے سدا کارِ قلم لیتی ہوں
چہرے کٹ چکتے ہیں، لشکر کے تو دم لیتی ہوں
ہر طرف ہو کے، عدم کے سفری ہوتے ہیں
طبقلیں کٹتی ہیں، چہرے نظری ہوتے ہیں
وہ برش وہ چمک اس کی وہ صفائی اس کی
کسی تلوار نے تیزی نہیں پائی اس کی
اس کا بازو جو اڑایا، تو کلائی اس کی
مل گئی جس کے گلے سے اجل آئی اس کی
صورتِ مرگ کسی نے بھی نہ آتے دیکھا
سر پہ چمکی تو کمر سے اسے جاتے دیکھا
کبھی ڈھالوں پہ گری اور کبھی تلواروں پر
پیدلوں پر کبھی آئی کبھی اسواروں پر
کبھی ترکش پہ رکھا منہ، کبھی سوفاروں پر
کبھی سر کاٹ کے آ پہنچی کمانداروں پر
گر کے اس غول سے اٹھی تو اس انبوہ میں تھی
کبھی دریا میں، کبھی بر میں، کبھی کوہ میں تھی
کبھی چہرہ کبھی شانہ، کبھی پیکر کاٹا
کبھی در آئی جگر میں، تو کبھی سر کاٹا
کبھی مغفر، کبھی جوشن، کبھی بکتر کاٹا
طول میں راکب و مرکب کا برابر کاٹا
برشِ تیغ کا غسل، قاف سے تا قاف رہا
پی گئی خون ہزاروں کا، پہ منہ صاف رہا
نہ رکی خود پہ وہ، اور نہ سر پر ٹھہری
نہ کسی تیغ پہ دم بھر، نہ سپر پر ٹھہری
نہ جبیں پر نہ گلے پر، نہ جگر پر ٹھہری
کاٹ کر زین کو، گھوڑے کی کمر پر ٹھہری
جان گھبرا کے تنِ دشمنِ دیں سے نکلی
ہاتھ بھر ڈوب کے تلوار، زمیں سے نکلی
کٹ گئی، تیغ تلے جب صفِ دشمن آئی
یک بیک فصلِ فراقِ سر و گردن آئی
بگڑی اس طرح لڑائی کہ نہ کچھ بن آئی
تیغ کیا آئی کہ اڑتی ہوئی ناگن آئی
غل تھا بھاگو کہ یہ ہنگام ٹھہرنے کا نہیں
زہر اس کا جو چڑھے گا تو اترنے کا نہیں
وہ چمک اس کی، سروں کا وہ برسنا، ہرسو
گھاٹ سے تیغ کے، اک حشر بپا تھا لبِ جو
آب میں صورت آتش تھی، جلا دینے کی خو
اور دم بڑھتا تھا، پیتی تھی جو اعدا کا لہو
کبھی جوشن، تو کبھی صدرِ کشادہ کاٹا
جب چلی ضربتِ سابق سے زیادہ کاٹا
تنِ تنہا شۂ دیں لاکھ سواروں سے لڑے
بے سپر برچھیوں والوں کی قطاروں سے لڑے
صورتِ شیر خدا، ظلم شعاروں سے لڑے
دو سے اک لڑ نہیں سکتا، یہ ہزاروں سے لڑے
گر ہو غالب، تو ہزاروں پہ وہی غالب ہو
جو دل و جانِ علیؔ ابن ابی طالبؔ ہو
تیسرے فاقے میں یہ جنگ، یہ حملے یہ جدال
پیاس وہ پیاس کہ نیلم تھے سراسرلب لعل
دھوپ وہ دھوپ کہ سوکھے ہوئے تھے تازہ نہال
لُو وہ لُو جس کی حرارت سے پگھلتے تھے جبال
سنگ ریزوں میں، تب و تاب تھی انگاروں کی
سر پہ یا دھوپ تھی، یا چھاؤں تھی تلواروں کی
شیر سے تھے کبھی جنگل میں، ترائی میں کبھی
ڈھال کو چہرے پہ روکا نہ لڑائی میں کبھی
تیغ حیدر نے کمی کی نہ صفائی میں کبھی
فرق آیا نہ سر و تن کی جدائی میں کبھی
کبھی ابرو کا بھی ایسا نہ اشارا دیکھا
جس پہ اک وار کیا اس کو دوبارا دیکھا
آنکھ وہ آنکھ کہ شیروں کی جلالت جس میں
رخش وہ رخش، کہ سب برق کی سرعت جس میں
تیغ وہ تیغ، عیاں موت کی صورت جس میں
ہاتھ وہ ہاتھ، ید اللہ کی طاقت جس میں
روک لے دار، جگر کیا کسی بے پیر کا ہے
زور وہ، جس میں اثر فاطمہؔ کے شیر کا ہے
جنگ میں پیاس کا صدمہ شۂ دیں سے پوچھو
تنِ تنہا کی وغا، لشکرِ کیں سے پوچھا
زلزلہ دشت پر آفت کا، زمیں سے پوچھو
ضربِ شمشیر دو سر، روحِ امیں سے پوچھو
باپ اس فوج میں تنہا، پسر اس لشکر میں
کربلا میں یہ تلاطم ہوا، یا خیبر میں
اسد اللہ کے صدقے، شہ والا کے نثار
وہی حملے تھے، وہی زور، وہی تھی تلوار
فتحِ حیدر نے کیا جنگ میں خیبر کا حصار
مورچے فوج کے، حضرت نے بھی توڑے کئی بار
کیوں نہ ہو احمدِ مرسل کے نواسے تھے حسینؔ
فرق اتنا تھا کہ دو روز کے پیاسے تھے حسینؔ
ہر طرف فوج میں غل تھا کہ دہای مولا!
ہم نے دیکھی ترے ہاتھوں کی صفائی مولا!
الاماں خوب سزا جنگ کی پائی مولا!
آپ کرتے ہیں بروں سے بھی بھلائی مولا!
ہاتھ ہم باندھتے ہیں پھینک کے شمشیروں کو
بخشیے امتِ نا اہل کی تقصیروں کو
آتی ہاتف کی یہ آواز کہ اے عرشِ مقام
یہ وغا تیسرے فاقے میں، بشر کا نہیں کام
اے محمدؔ کے جگر بند، امام ابنِ امام
لوحِ محفوظ پہ مرقوم ہے، صابر ترا نام
اب نہیں حکم لعینوں سے وغا کرنے کا
ہاں! یہی وقت ہے وعدے کے وفا کرنے کا
آج ہے آٹھوں بہشتوں کی نئی تیاری
نخل سرسبز ہیں فردوس میں نہریں جاری
شب سے حوریں ہیں مکلل بجواہر ساری
خانۂ دوست میں ہے، دوست کی مہانداری
پیشوائی کو رسول الثقلین آتے ہیں
عرش تک شور یہی ہے کہ حسینؔ آتے ہیں
تھم گئے سن کے یہ آواز شۂ جن و بشر
روک کر تیغ کو فرمایا کہ حاضر ہے یہ سر
عید ہو جلد اگر ذبح کریں بانیِ شر
شمرِؔ اظلم ہے کدھر؟ کھینچ کے آئے خنجر
ہے وہ عاشق جو فدا ہونے کو موجود رہے
بس مری فتح یہی ہے کہ وہ خوشنود رہے
کہہ کے یہ میان میں مولا نے رکھی تیغِ دو دم
ہاتھ اٹھا کر یہ اشارہ کیا گھوڑے کو کہ تھم
رہ گیا سر کو جھکا کر فرسِ تیز قدم
چار جانب سے مسافر پہ چلے تیرِ ستم
نیزے یوں گرد تھے جسے گلِ تر خاروں میں
گھر گئے سبطِ نبی، ظلم کی تلواروں میں
پہلے تیروں سے کمانداروں نے چھاتی چھانی
نیزے پہلو پہ لگاتے تھے ستم کے بانی
سر پہ تلواریں چلیں، زخمی ہوئی پیشانی
خوں سے تر ہو گیا حضرت کا رخِ نورانی
جسم سب چور تھا، پرزے تھے زرہ جامے کے
پیچ کٹ کٹ کے کھلے جاتے تھے عمامے کے
برچھیاں مارتے تھے، گھاٹ پہ جو تھے پہرے
کس طرف جائے، کہاں تیغوں میں بیکس ٹھہرے
ایک ہزار اور کوئی سو زخم تھے تن پر گہرے
دیکھنے والوں کے ہو جاتے تھے، پانی زہرے
خوں میں ڈوبا ہوا وہ مصحفِ رخ سارا تھا
جزو ہر اک تن شبیر کا سی پارا تھا
ہاتھ سے باگ جدا تھی، تو رکابوں سے قدم
غش میں سیدھے کبھی ہوتے تھے فرس پر کبھی خم
بہتے تھے پہلوؤں سے، خوں کے دڑیڑے پیہم
کوئی بیکس کا مددگار نہ تھا ہائے ستم
مارے تلواروں کے مہلت تھی نہ دم لینے کی
کوششیں ہوتی تھیں کعبے کے گرادینے کی
دشت سے آتی تھی زہراؔ کی صدا ہائے حسینؔ
میرے بیکس، میرے بے بس، مرے دکھ پائے حسینؔ
در سے چلاتی تھی زینبؔ مرے ماں جائے حسینؔ
کون تیغوں سے بچا کر تجھے لے آئے حسینؔ
فاطمہؔ رو رہی ہیں، ہاتھوں سے پہلو تھامے
حکم گر ہو تو بہن دوڑ کے بازو تھامے
ہائے سیدا ترا تن اور ستم کے بھالے
کس کو چلاؤں کہ جیتے نہیں مرنے والے
اس پہ یہ ظلم دکھوں سے جسے زہراؔ پالے
کون سر سے ترے تلواروں کی آفت ٹالے
کون فریاد سنے بے سر و سامانوں کی
یاں تو بستی بھی نہیں کوئی مسلمانوں کی
نہ رہا جب کہ ٹھہرنے کا فرس پر یارا
گرپڑا خاک پہ، وہ عرش خدا کا تارا
غش سے کچھ دیر میں چونکا جو علیؔ کا پیارا
نیزہ سینے پہ، سناں ابنِ انس نے مارا
واں تو نیزے کی انی پشت سے باہر نکلی
یاں بہن خیمے کی ڈیوڑھی سے کھلے سر نکلی
کھینچ کر سینے سے نیزہ جو ہٹا دشمنِ دیں
جھک کے حضرت نے رکھی خاک پہ سجدے میں جبیں
تیز کرتا ہوا خنجر کو بڑھا شمر لعیں
آسماں ہل گئے تھرا گئی مقتل کی زمیں
کیا کہوں تیغ کو کس طرح گلے پر رکھا
پاؤں قرآں پہ رکھا، حلق پہ خنجر رکھا
ڈھانپ کر ہاتھوں سے منہ بنتِ علی چلائی
ذبح ہوتے ہو مرے سامنے ہے ہے بھائی
ضربِ اول تھی کہ تکبیر کی آواز آئی
گر پڑی خاک پہ غش کھا کے علی کی جائی
آنکھ کھولی تھی کہ ہنگامۂ محشر دیکھا
سر اٹھایا تو سرِ شہ کو سناں پر دیکھا
رو کے چلائی کہ ہے ہے ہمرے مظلوم حسینؔ
فوجِ اعدا میں، ترے قتل کی ہے دھوم حسینؔ
کچھ مجھے آنکھوں سے ہوتا نہیں معلوم حسینؔ
ہائے میں رہ گئی دیدار سے محروم حسینؔ
مڑ کے دیکھو کہ مصیبت میں پڑی ہوں بھائی
ننگے سر بلوۂ اعدا میں کھڑی ہوں بھائی
بس انیسؔ آگے نہ لکھ زینبِ ناشاد کے بین
قتل ہو جانے پہ بھی دھوپ میں تھی لاشِ حسینؔ
قبر میں بھی نہ ملا احمدِؔ مختار کو چین
گھر جلا، قید ہوئی، آلِ رسول الثقلین
کتنے گھر شاہ کے مر جانے سے برباد ہوئے
لٹ گئے یوں کہ نہ سادات پھر آباد ہوئے
-
1
جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر
اور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر
ہاتھوں پہ تڑپنے لگا بچہ بھی جو کھا تیر
شہہ ؑنے کہا اس پیاسے کو تھا مارنا کیا تیر
کب ہم نے کہا تھا کہ زبردستی سے لیں گے
اتنا ہی کہا ہوتا کہ ہم پانی نہ دیں گے
2
یہ جانتے تو خیمے سے لاتے نہ اسے ہم
تم نے ہمیں محجوب کیا بانو سے اس دم
یہ کہتے تھے ملعونوں سے بادیدہ پرنم
جو ہاتھوں یہ معصوم تڑپ کر ہوا بے دم
فرمایا اسے پہلوئے اکبر میں لٹا کر
تم ڈریو نہ اب ہم بھی یہیں سوتے ہیں آکر
3
بن ماں تم اکیلے کبھی سوئے نہیں اصغر
جنگل میں اکیلا تمہیں چھوڑوں گا میں کیوں کر
پھر قبلے کی جانب یہ کہا ہاتھ اٹھا کر
سب فانی ہیں تو باقی ہے اے خالق اکبر
کیا کیا ہوئے مجھ پر ہیں ستم اہل جفا سے
پر پاؤں نہیں میرا ڈگا راہ رضا سے
4
کام آئے تری راہ میں انصار بھی سارے
اور بیٹے جو زینب کے تھے بیٹوں سے بھی پیارے
وہ دونوں مری آنکھوں کے آگے گئے مارے
سرپر مرے سر بیٹوں نے مسلم کے بھی مارے
گر کوئی میرا یار و مددگار نہیں ہے
جز تیری مدد کچھ مجھے درکار نہیں ہے
5
جب میرے عزیزوں پہ چلی ظلم کی تلوار
بندہ یہی کہتا رہا جو مرضی غفار
قاسم سے بھی جب پیارے بھتیجے کو لیا مار
اور نہر پہ مارے گئے عباس علمدار
بھائی کے لیے پہلے تو روتا تھا قلق میں
پھر سمجھا کہ بہتر یہی ہوگا مرے حق میں
6
نیزہ علی اکبر کی جو چھاتی میں لگا تھا
روتا ہوا میں لاش یہ اس کی تو گیا تھا
ہمشکل محمدؐ کا وہ فرزند مرا تھا
تیری ہی عنایت تھی مرا سچ ہے کہ کیا تھا
تھی مجھکو جو منظور خوشی ابن علیؑ کی
اٹھارہ برس اور زیارت کی نبیؐ کی
7
اصغر بھی مرا ہوگیا تیروں کا نشانہ
جنت کی طرف کردیا اس کو بھی روانہ
صد شکر کسی کا نہیں اب داغ اٹھانا
اپنا ہی گلا باقی ہے اب مجھکو کٹانا
قاتل جو رواں خنجر بران کرے گا
وہ بھی مری مشکل تو ہی آسان کرے گا
8
کیا کرتا اگر صاحب اولاد نہ ہوتا
ہیں لاولد اکثر ترے بندے مرے مولا
مجھ پر تو عنایت ہی ترا فضل و کرم تھا
بیٹے بھی دیے رتبہ امامت کا بھی بخشا
صابر بھی ہوئے اور انہیں جانباز بھی دیکھا
رفعت سے شہادت کی سرافرار بھی دیکھا
9
ہر مو کی جگہ تن پہ اگر میرے زباں ہو
کب بندہ نوازی کا تری مجھ سے بیاں ہو
راحت ہے اگر حلق پہ خنجر بھی رواں ہو
تیروں کے مزے سے کبھی خاطر نہ نشاں ہو
عرفاں کے مزے کو ہے مرا دل ہی سمجھتا
لذت کو تڑپنے کی ہے بسمل ہی سمجھتا
10
کی بھوک میں اور پیاس میں خاطر مری کیا کیا
فاقے میں طبق خلد سے نعمت کا ہے بھیجا
چھٹپن میں جو روزہ رکھا ماہ رمضان کا
تجھکو یہ گوارا ہوا پیاسا مرا رہنا
رحم آیا تجھے دیکھ صغیری مرے سن کی
خورشید چھپا رات وہیں ہوگئی دن کی
11
اور آج کئی دن کا جوہوں بھوکا پیاسا
کیا جانتے کیا مصلحت اس میں ہے سمجھتا
بندہ ہوں ترے امر میں ہے دخل مجھے کیا
تشویش بھی بے جا ہے تردد بھی ہے بے جا
خوشنودی مجھے تیری ہی مطلوب ہے یارب
جو کچھ تیری مرضی ہے وہی خوب ہے یارب
12
اعدا سے پھر اس طرح سے کہنے لگے سرور
کیا مجھکو سمجھتے نہیں تم سبط پیمبرؑ
میں جھوٹ ہوں کہتا؟ نہیں زہراؑ مری مادر؟
ملعونو! نہیں میں پسر حیدرؑ صفدر
انکار ہے تم کو مری عالی نسبی کا؟
کوئی نہیں شبیرؑ رسول عربی کا؟
13
ملعون سبھی ایک زباں ہوکے پکارے
تم سچ ہے نواسے ہو پیمبرؑ کے ہمارے
اور فاطمہ زہرا کے ہو تم بیٹے پیارے
بابا ہیں چلیؑ اور حسنؑ بھائی تمہارے
بچ جاؤ گے بیعت میں جو حجت نہ کرو گے
اور اس میں تامل ہے جو جیتے نہ بچو گے
14
یہ سن کے سر اس شاہ نے پہلے تو جھکایا
پھر تو عمر و شمر ستمگر کو سنایا
میں تین سوال اس گھڑی تم پاس ہوں لایا
اک ان میں سے یہ کہتا ہوں میں زہراؑ کا جایا
ناموس پیمبرؑ کہیں لے جانے دو مجھکو
اب یاں سے کسی سمت نکل جانے دو مجھکو
15
مارے ہیں جو تم نے مرے خویش و پسر و یار
اس خوں کا عوض تم سے نہیں لینے کا زنہار
اس واسطے اس امر کو کرتا ہوں میں اظہار
تا خون میں اپنے نہ ہوں میں آپ گرفتار
اکبرؑ نہ ہو قاسمؑ نہ ہو عباسؑ نہ ہوئے
وہ خاک جئے جس کے کوئی پاس نہ ہوئے
16
فرما چکے جب شاہ تو ایک ایک یہ بولا
جانے دیں کہیں آپ کو یہ ہم سے نہ ہوگا
مظلومی سے پھر کہنے لگا وہ شہہ والا
گریہ نہ ہو تو پانی پلا دو مجھے تھوڑا
وہ کہنے لگے یہ بھی نہیں ہوئے گا ہم سے
ہاں پانی پلادیں گے دم تیغ دو دم سے
17
شہہ نے کہا ہونٹوں پہ زباں سوکھی پھرا کر
حاضر ہوں کرو ذبح و لے پانی پلا کر
تب بولے لعیں شمر ستمگر کو سنا کر
اک جام پلا دیویں انہیں نہر سے لاکر
وہ بولا جو پانی کی مدد ہوگی ادھر سے
پھر لڑ سکو گے ساقی کوثر کے پسر سے ؟
18
شہہ نے کہا گر پانی پلانا بھی ہے دشوار
تو اس گھڑی حملہ نہ کرو مجھ پہ سب اک بار
ایک ایک لڑو مجھ سے تم اے قوم ستمگار
وہ بولے کہ تم ہو خلف حیدرؑ کرار
کثرت پہ ہے دم اس پہ کسی کے نہیں دم میں
ایک ایک لڑیں تم سے یہ طاقت نہیں ہم میں
19
فرزند ہو تم اس کے جو تھا قاتل عنتر
والد نے تمہارے ہے اکھاڑا در خیبر
پائی ہی نہیں فتح کسی فوج نے اس پر
فرزند سے ایسے کے کوئی لڑ سکے کیوں کر
جرات ہے وہی تم میں وہی شوکت و شاں ہے
قبضے میں تمہارے وہی سیف دو زباں ہے
20
شہہ سمجھے کہ ایک ایک نہیں لڑنے کا ہم سے
کیا غم ہے کہ ہم سب سے اکیلے ہی لڑیں گے
پھر سوئے فلک ہاتھ اٹھا کر لگے کہنے
میں کہہ چکا اعدا سے ترے حکم کے نکتے
اے خالق اکبر کوئی منت نہیں باقی
شاہد مرا تو رہیوکہ حجت نہیں باقی
21
یہ کہہ کے پڑھا فاتحہ اور تیغ علم کی
آنکھوں میں ستمگاروں کی اک بجلی سی چمکی
بھاگی ہوئی سب جمع ہوئی فوج ستم کی
اس وقت کی کیا شان کہوں شاہ امم کی
خیبر میں جو کچھ حیدر کرار کی سج تھی
اس روز وہی زہرا کے دلدار کی سج تھی
22
عمامہ محبوب خدا سر پہ بندھا تھا
پیشانی روشن نہ تھی مہ جلوہ نما تھا
ابرو کو عجب خم ید قدرت کے دیا تھا
آنکھوں پہ دل فاطمہؑ سوجی سے فدا تھا
افروختہ تھا صورت گل روئے مبارک
سنبل سے پڑے دوش پہ گیسوئے مبارک
23
گل برگ سے لب سوکھے ہوئے پیاس کے مارے
کوثر کے قریب اور لب دریا سے کنارے
ہتھیار دلیرانہ لگائے ہوئے سارے
پر دل کو یہ دھڑکا کہ سکینہ نہ پکارے
پیاسی تھی وہ معصومہ جو چوبیس پہر سے
خیمے کی طرف تکتے تھے حسرت کی نظر سے
24
جب فوج نے نرغہ کیا اس شاہ پہ اک بار
تب ان میں دھنسا وہ خلف حیدر کردار
دریا بہا اک خون کا کی ایسی ہی تلوار
گھبرا کے پکارا عمر سعد ستمگار
یوں مت لڑو تلوار نہیں کھانے کا شبیر
تیروں کے سوا مار نہیں کھانے کا شبیر
25
یہ سن کے کمانداروں ہی پر جا پڑے شبیر
اس شاہ پہ پہلے ہی چلے تھے کئی سو تیر
بجلی سی چمکنے جو لگی حیدری شمشیر
آگے سے کہیں بھاگنے پائے نہ وہ بے پیر
کاہے کو کبھی ایسے بہادر سے لڑے تھے
میداں میں کماندار تہی دست پڑے تھے
26
ترکش کہیں بکھرے تھے کہیں تیر زمیں پر
اور ساتھ کمانوں کے گرے ہاتھ بھی کٹ کر
افتادہ کہیں بازو کہیں پاؤں کہیں سر
کچھ پھینک کمانوں کے تئیں بھاگے بد اختر
کچھ ایسے مسلح تھے کہ لوہوں پہ چھپے تھے
پر خوف سے سہمے ہوئے گوشوں میں چھپے تھے
27
تھے تیروں کے تو زخم تن شاہ پہ اکثر
تلواریں بھی اور برچھیاں بھی پڑتی تھیں تن پر
زخموں کے سبب خون میں گھوڑا بھی ہوا تر
کہنے لگے اعدا سے مخاطب ہو یہ سرور
ہر کس بلب مالب ساغر برساند
ساغر بلبش ساقی کوثر برساند
28
اعدا نے کہا پانی کا زنہار نہ لو نام
ہاتھ آوے گا فردوس میں کوثر کا تمہیں جام
گوجان چلی جاتی ہے پر پیاس کو لو تھام
اس بات کو بس سنتے ہی پھر تول کے صمصام
ایسے لڑے جو فوج کئی بار ہٹائی
پانی جو ملا ہوتا تو تھی فتح لڑائی
29
پیاسے نے جو حملے کئے لشکر پہ کئی بار
تھی دھوپ کڑی سوکھ گئے لعل گہربار
اور مارے پسینے کے لگا ہانپنے رہوار
نزدیک تب آکر عمر سعد نے اک بار
ترغیب جو کی لشکر بے پیر کو آکر
پھر گھیر لیا فوج نے شبیر کو آکر
30
کہتا تھا سواروں سے پس پشت یہ ہر دم
پھر تیر جوانو چلیں شبیر پہ پیہم
بے حال ہے نہ پیاس ہے طاقت ہے بہت کم
لڑسکنے کا نہ تم سے نہیں کیجو نہ کچھ غم
گھوڑوں کو بڑھائے رہو پیچھے کو نہ سر کو
غش آتا ہے کوئی آن میں زہرا کے پسر کو
31
یہ سنتے ہی سب تیر لگے مارنے اک بار
اور اس تن تنہا پہ ہوئی تیروں کی بوچھار
تن چھن گیا ہر زخم سے لوہو کی چھٹی دھار
سنبھلا نہ گیا گھوڑے پہ اس زخمی سے زنہار
گہرے تھے زبس زخم تن سرور دیں پر
غش آگیا مظلوم کو گرتے ہی زمیں پر
32
زخمی نے بہت آپ کو اٹھ اٹھ کے سنبھالا
پر ضعف جو تھا لیٹ گیا وہ شہہ والا
غش میں بھی کئی بار لہو منہ سے جو ڈالا
پھر ہل نہ سکا فاطمہ کی گود کا پالا
دکھلا کے عمر کہنے لگا شمر لعیں کو
اب تو حرکت بھی نہیں جسم شہہ دیں کو
33
تو کاٹے اگر تن سے سر سید مظلوم
اخبار میں ہو فتح تیرے نام پر مرقوم
رتبہ جو ترا ہوگا وہ تجھکو نہیں معلوم
حاکم کے جو سر کردے ہیں ہوں گے تیرے محکوم
تو فرق بڑا پاوے گا آگے میں اور اب میں
عزت تری ہوئے گی شجاعان عرب میں
34
یہ سن کے وہ آگے بڑھا کھینچے ہوئے خنجر
اور شہہ کی چڑھا چھاتی پہ گھوڑے سے اتر کر
مظلوم کو جب ذبح لگا کرنے ستمگر
کس بے کسی سے دیکھتا تھا ہائے وہ سرور
قاتل تھا چڑھا سینۂ صد چاک کے اوپر
خنجر سے ٹپکتا تھا لہو خاک کے اوپر
35
جس وقت جدا ہوگیا تن سے سر شبیر
تب گیسو پکڑ شاہ کے وہ ظالم بے پیر
لٹکائے ہوئے سر کو اٹھا کر کے یہ تقریر
خنجر سے ہوا ذبح عجب صاحب شمشیر
دلبند نبی ابن ید اللہ کو مارا
واللہ دو عالم کے شہنشاہ کو مارا
36
یہ کہہ کے چڑھایا سر شبیر سناں پر
وہ چاند سامنہ شاہ کا تھا خون میں سب تر
گالوں یہ لٹکتے ہوئے گیسوئے معنبر
سجدے کا نشاں ماتھے پہ تھا غیرت اختر
نیزے پہ سرافراز تھا خیل شہدا میں
آنکھیں تھیں مندی ہلتے تھے لب یاد خدا میں
37
پھر رن سے چلے خیمہ شبیر پہ اعدا
اور گھیر لیا بیبیوں کو باندھ کے حلقہ
جب بھاگنے کو ان کے نہ رکھا کوئی رستہ
تب آگ قناتوں کو لگا شمر یہ بولا
اب ڈر نہ کوئی لوٹ نہیں منع کسی کو
اب شوق سے سب لوٹ لو ناموس نبی کو
38
ناگاہ لگی آگ قناتوں میں بھڑکنے
اور جل کے سراچوں کے لگے بانس کڑکنے
بیوؤں کے کلیجے لگے سینوں میں دھڑکنے
گرمی سے لگے گودیوں میں بچے پھڑکنے
ناموس نبی پر عجب آفت کی گھڑی تھی
پر بی بی کا پردہ کیے ہر لونڈی کھڑی تھی
39
سجاد یہ کہتا تھا کہ بابا گیا مارا
بس سنتے ہی یہ بانو نے زیور کو اتارا
اسباب ہر اک رانڈ کا لٹنے لگا سارا
جا بیٹھے زرومال سے سب کر کے کنارا
ہاتھوں کے تلے چہرے تھے ناموس نبی کے
چادر بھی رہی نام کو سر پرہ نہ کسی کے
40
جب لوٹ چکے آل محمد کو جفا کار
اور آگ سے بھی جل چکے سب خیمۂ اطہار
پھر اونٹ سواری کے لیے لائے وہ اشرار
سر ننگے ان اونٹوں پہ چڑھی عترت ناچار
اب راہ کا احوال خلیقؔ آگے کہے کیا
کیا ظلم ہوئے رنج اسیروں نے سہے کیا
جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر
اور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر
ہاتھوں پہ تڑپنے لگا بچہ بھی جو کھا تیر
شہہ ؑنے کہا اس پیاسے کو تھا مارنا کیا تیر
کب ہم نے کہا تھا کہ زبردستی سے لیں گے
اتنا ہی کہا ہوتا کہ ہم پانی نہ دیں گے
2
یہ جانتے تو خیمے سے لاتے نہ اسے ہم
تم نے ہمیں محجوب کیا بانو سے اس دم
یہ کہتے تھے ملعونوں سے بادیدہ پرنم
جو ہاتھوں یہ معصوم تڑپ کر ہوا بے دم
فرمایا اسے پہلوئے اکبر میں لٹا کر
تم ڈریو نہ اب ہم بھی یہیں سوتے ہیں آکر
3
بن ماں تم اکیلے کبھی سوئے نہیں اصغر
جنگل میں اکیلا تمہیں چھوڑوں گا میں کیوں کر
پھر قبلے کی جانب یہ کہا ہاتھ اٹھا کر
سب فانی ہیں تو باقی ہے اے خالق اکبر
کیا کیا ہوئے مجھ پر ہیں ستم اہل جفا سے
پر پاؤں نہیں میرا ڈگا راہ رضا سے
4
کام آئے تری راہ میں انصار بھی سارے
اور بیٹے جو زینب کے تھے بیٹوں سے بھی پیارے
وہ دونوں مری آنکھوں کے آگے گئے مارے
سرپر مرے سر بیٹوں نے مسلم کے بھی مارے
گر کوئی میرا یار و مددگار نہیں ہے
جز تیری مدد کچھ مجھے درکار نہیں ہے
5
جب میرے عزیزوں پہ چلی ظلم کی تلوار
بندہ یہی کہتا رہا جو مرضی غفار
قاسم سے بھی جب پیارے بھتیجے کو لیا مار
اور نہر پہ مارے گئے عباس علمدار
بھائی کے لیے پہلے تو روتا تھا قلق میں
پھر سمجھا کہ بہتر یہی ہوگا مرے حق میں
6
نیزہ علی اکبر کی جو چھاتی میں لگا تھا
روتا ہوا میں لاش یہ اس کی تو گیا تھا
ہمشکل محمدؐ کا وہ فرزند مرا تھا
تیری ہی عنایت تھی مرا سچ ہے کہ کیا تھا
تھی مجھکو جو منظور خوشی ابن علیؑ کی
اٹھارہ برس اور زیارت کی نبیؐ کی
7
اصغر بھی مرا ہوگیا تیروں کا نشانہ
جنت کی طرف کردیا اس کو بھی روانہ
صد شکر کسی کا نہیں اب داغ اٹھانا
اپنا ہی گلا باقی ہے اب مجھکو کٹانا
قاتل جو رواں خنجر بران کرے گا
وہ بھی مری مشکل تو ہی آسان کرے گا
8
کیا کرتا اگر صاحب اولاد نہ ہوتا
ہیں لاولد اکثر ترے بندے مرے مولا
مجھ پر تو عنایت ہی ترا فضل و کرم تھا
بیٹے بھی دیے رتبہ امامت کا بھی بخشا
صابر بھی ہوئے اور انہیں جانباز بھی دیکھا
رفعت سے شہادت کی سرافرار بھی دیکھا
9
ہر مو کی جگہ تن پہ اگر میرے زباں ہو
کب بندہ نوازی کا تری مجھ سے بیاں ہو
راحت ہے اگر حلق پہ خنجر بھی رواں ہو
تیروں کے مزے سے کبھی خاطر نہ نشاں ہو
عرفاں کے مزے کو ہے مرا دل ہی سمجھتا
لذت کو تڑپنے کی ہے بسمل ہی سمجھتا
10
کی بھوک میں اور پیاس میں خاطر مری کیا کیا
فاقے میں طبق خلد سے نعمت کا ہے بھیجا
چھٹپن میں جو روزہ رکھا ماہ رمضان کا
تجھکو یہ گوارا ہوا پیاسا مرا رہنا
رحم آیا تجھے دیکھ صغیری مرے سن کی
خورشید چھپا رات وہیں ہوگئی دن کی
11
اور آج کئی دن کا جوہوں بھوکا پیاسا
کیا جانتے کیا مصلحت اس میں ہے سمجھتا
بندہ ہوں ترے امر میں ہے دخل مجھے کیا
تشویش بھی بے جا ہے تردد بھی ہے بے جا
خوشنودی مجھے تیری ہی مطلوب ہے یارب
جو کچھ تیری مرضی ہے وہی خوب ہے یارب
12
اعدا سے پھر اس طرح سے کہنے لگے سرور
کیا مجھکو سمجھتے نہیں تم سبط پیمبرؑ
میں جھوٹ ہوں کہتا؟ نہیں زہراؑ مری مادر؟
ملعونو! نہیں میں پسر حیدرؑ صفدر
انکار ہے تم کو مری عالی نسبی کا؟
کوئی نہیں شبیرؑ رسول عربی کا؟
13
ملعون سبھی ایک زباں ہوکے پکارے
تم سچ ہے نواسے ہو پیمبرؑ کے ہمارے
اور فاطمہ زہرا کے ہو تم بیٹے پیارے
بابا ہیں چلیؑ اور حسنؑ بھائی تمہارے
بچ جاؤ گے بیعت میں جو حجت نہ کرو گے
اور اس میں تامل ہے جو جیتے نہ بچو گے
14
یہ سن کے سر اس شاہ نے پہلے تو جھکایا
پھر تو عمر و شمر ستمگر کو سنایا
میں تین سوال اس گھڑی تم پاس ہوں لایا
اک ان میں سے یہ کہتا ہوں میں زہراؑ کا جایا
ناموس پیمبرؑ کہیں لے جانے دو مجھکو
اب یاں سے کسی سمت نکل جانے دو مجھکو
15
مارے ہیں جو تم نے مرے خویش و پسر و یار
اس خوں کا عوض تم سے نہیں لینے کا زنہار
اس واسطے اس امر کو کرتا ہوں میں اظہار
تا خون میں اپنے نہ ہوں میں آپ گرفتار
اکبرؑ نہ ہو قاسمؑ نہ ہو عباسؑ نہ ہوئے
وہ خاک جئے جس کے کوئی پاس نہ ہوئے
16
فرما چکے جب شاہ تو ایک ایک یہ بولا
جانے دیں کہیں آپ کو یہ ہم سے نہ ہوگا
مظلومی سے پھر کہنے لگا وہ شہہ والا
گریہ نہ ہو تو پانی پلا دو مجھے تھوڑا
وہ کہنے لگے یہ بھی نہیں ہوئے گا ہم سے
ہاں پانی پلادیں گے دم تیغ دو دم سے
17
شہہ نے کہا ہونٹوں پہ زباں سوکھی پھرا کر
حاضر ہوں کرو ذبح و لے پانی پلا کر
تب بولے لعیں شمر ستمگر کو سنا کر
اک جام پلا دیویں انہیں نہر سے لاکر
وہ بولا جو پانی کی مدد ہوگی ادھر سے
پھر لڑ سکو گے ساقی کوثر کے پسر سے ؟
18
شہہ نے کہا گر پانی پلانا بھی ہے دشوار
تو اس گھڑی حملہ نہ کرو مجھ پہ سب اک بار
ایک ایک لڑو مجھ سے تم اے قوم ستمگار
وہ بولے کہ تم ہو خلف حیدرؑ کرار
کثرت پہ ہے دم اس پہ کسی کے نہیں دم میں
ایک ایک لڑیں تم سے یہ طاقت نہیں ہم میں
19
فرزند ہو تم اس کے جو تھا قاتل عنتر
والد نے تمہارے ہے اکھاڑا در خیبر
پائی ہی نہیں فتح کسی فوج نے اس پر
فرزند سے ایسے کے کوئی لڑ سکے کیوں کر
جرات ہے وہی تم میں وہی شوکت و شاں ہے
قبضے میں تمہارے وہی سیف دو زباں ہے
20
شہہ سمجھے کہ ایک ایک نہیں لڑنے کا ہم سے
کیا غم ہے کہ ہم سب سے اکیلے ہی لڑیں گے
پھر سوئے فلک ہاتھ اٹھا کر لگے کہنے
میں کہہ چکا اعدا سے ترے حکم کے نکتے
اے خالق اکبر کوئی منت نہیں باقی
شاہد مرا تو رہیوکہ حجت نہیں باقی
21
یہ کہہ کے پڑھا فاتحہ اور تیغ علم کی
آنکھوں میں ستمگاروں کی اک بجلی سی چمکی
بھاگی ہوئی سب جمع ہوئی فوج ستم کی
اس وقت کی کیا شان کہوں شاہ امم کی
خیبر میں جو کچھ حیدر کرار کی سج تھی
اس روز وہی زہرا کے دلدار کی سج تھی
22
عمامہ محبوب خدا سر پہ بندھا تھا
پیشانی روشن نہ تھی مہ جلوہ نما تھا
ابرو کو عجب خم ید قدرت کے دیا تھا
آنکھوں پہ دل فاطمہؑ سوجی سے فدا تھا
افروختہ تھا صورت گل روئے مبارک
سنبل سے پڑے دوش پہ گیسوئے مبارک
23
گل برگ سے لب سوکھے ہوئے پیاس کے مارے
کوثر کے قریب اور لب دریا سے کنارے
ہتھیار دلیرانہ لگائے ہوئے سارے
پر دل کو یہ دھڑکا کہ سکینہ نہ پکارے
پیاسی تھی وہ معصومہ جو چوبیس پہر سے
خیمے کی طرف تکتے تھے حسرت کی نظر سے
24
جب فوج نے نرغہ کیا اس شاہ پہ اک بار
تب ان میں دھنسا وہ خلف حیدر کردار
دریا بہا اک خون کا کی ایسی ہی تلوار
گھبرا کے پکارا عمر سعد ستمگار
یوں مت لڑو تلوار نہیں کھانے کا شبیر
تیروں کے سوا مار نہیں کھانے کا شبیر
25
یہ سن کے کمانداروں ہی پر جا پڑے شبیر
اس شاہ پہ پہلے ہی چلے تھے کئی سو تیر
بجلی سی چمکنے جو لگی حیدری شمشیر
آگے سے کہیں بھاگنے پائے نہ وہ بے پیر
کاہے کو کبھی ایسے بہادر سے لڑے تھے
میداں میں کماندار تہی دست پڑے تھے
26
ترکش کہیں بکھرے تھے کہیں تیر زمیں پر
اور ساتھ کمانوں کے گرے ہاتھ بھی کٹ کر
افتادہ کہیں بازو کہیں پاؤں کہیں سر
کچھ پھینک کمانوں کے تئیں بھاگے بد اختر
کچھ ایسے مسلح تھے کہ لوہوں پہ چھپے تھے
پر خوف سے سہمے ہوئے گوشوں میں چھپے تھے
27
تھے تیروں کے تو زخم تن شاہ پہ اکثر
تلواریں بھی اور برچھیاں بھی پڑتی تھیں تن پر
زخموں کے سبب خون میں گھوڑا بھی ہوا تر
کہنے لگے اعدا سے مخاطب ہو یہ سرور
ہر کس بلب مالب ساغر برساند
ساغر بلبش ساقی کوثر برساند
28
اعدا نے کہا پانی کا زنہار نہ لو نام
ہاتھ آوے گا فردوس میں کوثر کا تمہیں جام
گوجان چلی جاتی ہے پر پیاس کو لو تھام
اس بات کو بس سنتے ہی پھر تول کے صمصام
ایسے لڑے جو فوج کئی بار ہٹائی
پانی جو ملا ہوتا تو تھی فتح لڑائی
29
پیاسے نے جو حملے کئے لشکر پہ کئی بار
تھی دھوپ کڑی سوکھ گئے لعل گہربار
اور مارے پسینے کے لگا ہانپنے رہوار
نزدیک تب آکر عمر سعد نے اک بار
ترغیب جو کی لشکر بے پیر کو آکر
پھر گھیر لیا فوج نے شبیر کو آکر
30
کہتا تھا سواروں سے پس پشت یہ ہر دم
پھر تیر جوانو چلیں شبیر پہ پیہم
بے حال ہے نہ پیاس ہے طاقت ہے بہت کم
لڑسکنے کا نہ تم سے نہیں کیجو نہ کچھ غم
گھوڑوں کو بڑھائے رہو پیچھے کو نہ سر کو
غش آتا ہے کوئی آن میں زہرا کے پسر کو
31
یہ سنتے ہی سب تیر لگے مارنے اک بار
اور اس تن تنہا پہ ہوئی تیروں کی بوچھار
تن چھن گیا ہر زخم سے لوہو کی چھٹی دھار
سنبھلا نہ گیا گھوڑے پہ اس زخمی سے زنہار
گہرے تھے زبس زخم تن سرور دیں پر
غش آگیا مظلوم کو گرتے ہی زمیں پر
32
زخمی نے بہت آپ کو اٹھ اٹھ کے سنبھالا
پر ضعف جو تھا لیٹ گیا وہ شہہ والا
غش میں بھی کئی بار لہو منہ سے جو ڈالا
پھر ہل نہ سکا فاطمہ کی گود کا پالا
دکھلا کے عمر کہنے لگا شمر لعیں کو
اب تو حرکت بھی نہیں جسم شہہ دیں کو
33
تو کاٹے اگر تن سے سر سید مظلوم
اخبار میں ہو فتح تیرے نام پر مرقوم
رتبہ جو ترا ہوگا وہ تجھکو نہیں معلوم
حاکم کے جو سر کردے ہیں ہوں گے تیرے محکوم
تو فرق بڑا پاوے گا آگے میں اور اب میں
عزت تری ہوئے گی شجاعان عرب میں
34
یہ سن کے وہ آگے بڑھا کھینچے ہوئے خنجر
اور شہہ کی چڑھا چھاتی پہ گھوڑے سے اتر کر
مظلوم کو جب ذبح لگا کرنے ستمگر
کس بے کسی سے دیکھتا تھا ہائے وہ سرور
قاتل تھا چڑھا سینۂ صد چاک کے اوپر
خنجر سے ٹپکتا تھا لہو خاک کے اوپر
35
جس وقت جدا ہوگیا تن سے سر شبیر
تب گیسو پکڑ شاہ کے وہ ظالم بے پیر
لٹکائے ہوئے سر کو اٹھا کر کے یہ تقریر
خنجر سے ہوا ذبح عجب صاحب شمشیر
دلبند نبی ابن ید اللہ کو مارا
واللہ دو عالم کے شہنشاہ کو مارا
36
یہ کہہ کے چڑھایا سر شبیر سناں پر
وہ چاند سامنہ شاہ کا تھا خون میں سب تر
گالوں یہ لٹکتے ہوئے گیسوئے معنبر
سجدے کا نشاں ماتھے پہ تھا غیرت اختر
نیزے پہ سرافراز تھا خیل شہدا میں
آنکھیں تھیں مندی ہلتے تھے لب یاد خدا میں
37
پھر رن سے چلے خیمہ شبیر پہ اعدا
اور گھیر لیا بیبیوں کو باندھ کے حلقہ
جب بھاگنے کو ان کے نہ رکھا کوئی رستہ
تب آگ قناتوں کو لگا شمر یہ بولا
اب ڈر نہ کوئی لوٹ نہیں منع کسی کو
اب شوق سے سب لوٹ لو ناموس نبی کو
38
ناگاہ لگی آگ قناتوں میں بھڑکنے
اور جل کے سراچوں کے لگے بانس کڑکنے
بیوؤں کے کلیجے لگے سینوں میں دھڑکنے
گرمی سے لگے گودیوں میں بچے پھڑکنے
ناموس نبی پر عجب آفت کی گھڑی تھی
پر بی بی کا پردہ کیے ہر لونڈی کھڑی تھی
39
سجاد یہ کہتا تھا کہ بابا گیا مارا
بس سنتے ہی یہ بانو نے زیور کو اتارا
اسباب ہر اک رانڈ کا لٹنے لگا سارا
جا بیٹھے زرومال سے سب کر کے کنارا
ہاتھوں کے تلے چہرے تھے ناموس نبی کے
چادر بھی رہی نام کو سر پرہ نہ کسی کے
40
جب لوٹ چکے آل محمد کو جفا کار
اور آگ سے بھی جل چکے سب خیمۂ اطہار
پھر اونٹ سواری کے لیے لائے وہ اشرار
سر ننگے ان اونٹوں پہ چڑھی عترت ناچار
اب راہ کا احوال خلیقؔ آگے کہے کیا
کیا ظلم ہوئے رنج اسیروں نے سہے کیا
-
۱
ہمراز یہ فسانۂ آہ و فغاں نہ پوچھ
دو دن کی زندگی کا غم این و آں نہ پوچھ
کیا کیا حیات ارض کی ہیں تلخیاں نہ پوچھ
کس درجہ ہولناک ہے یہ داستاں نہ پوچھ
تفصیل سے کہوں تو فلک کانپنے لگے
دوزخ بھی فرط شرم سے منہ ڈھانپنے لگے
۲
دنیا کی ہر خوشی ہے غم و درد سے دو چار
ہر قہقہے کی گونج میں ہے چشم اشکبار
کیا خار و خس کی وہ تو ہیں معتوب روزگار
نسرین و نسترن میں بھی پنہاں ہے نوک خار
نغمے ہیں جنبش دل مضطر لئے ہوئے
گل برگ تک ہے برش خنجر لئے ہوئے
۳
یاران سرفروش و نگاران مہ جبیں
آب نشاط و لعل و لب و زلف عنبریں
کوئے مغان و بوئے گل و روئے دلنشیں
زور و زن و ذکاوت و ذہن و زر و زمیں
جوشے بھی ہے وہ درد کا پہلو لئے ہوئے
ہر گوہر نشاط ہے آنسو لئے ہوئے
۴
بیگانۂ حدود ہے انساں کی آرزو
پیچیدہ ہر نظر میں ہے اک تازہ جستجو
تھمتی نہیں کہیں بھی تمنائے برق خو
ساقی کا وہ کرم ہے کہ بھرتا نہیں سبو
ارماں کی شاہراہ میں منزل نہیں کوئی
اس بحر بے کنار کا ساحل نہیں کوئی
۵
اس لیلئ حیات کی اللہ ری داروگیر
ہر لوچ اک کمان ہے ہر نام ایک تیر
اس کے کرم میں بھی وہ حرارت ہے ہم صفیر
جس کے مقابلے میں جہنم ہے زم ہریر
الجھے جواس کے گیسوئے پیچاں کے جال میں
لگ جائے آگ دامن قطب شمال میں
۶
امراض سے کسی کا بڑھاپا ہے اک و بال
آلام سے کسی کی جوانی ہے پائمال
اس کو ہے خوف ننگ اسے نام کا خیال
روزی سے کوئی تنگ کوئی عشق سے نڈھال
ہر سانس ہے نوید عذاب عظیم کی
گھبرا کے دو دہائی خدائے رحیم کی
۷
اس خوں چکاں حیات کے آلام کیا کہوں
قدرت نہیں فسانۂ ایام کیا کہوں
دارائے کائنات کے انعام کیا کہوں
یہ داستان مرحمت عام کیا کہوں
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے
اور چپ رہوں تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
۸
نوع بشر پہ ہے جو عقوبت نہ پوچھئے
سفاک زندگی کی شقاوت نہ پوچھئے
جور حیات و جبر مشیت نہ پوچھئے
کتنا رفیق ہے دل قدرت نہ پوچھئے
سو سال اگر خزاں کے تو دو دن بہار کے
قربا ں ہجوم رحمت پروردگار کے
۹
یوں تو غم معاش کا سوز نہاں ہے اور
تکلیف جاں گدازئ عشق بتاں ہے اور
لب تشنگئ شیب و عذاب خزاں ہے اور
اعلان امر حق کی مگر داستاں ہے اور
گفتار صدق مایہ آزارمی شود
چوں حرف حق بلند شود دارمی شود (صائبؔ
۱۰
ہاں اس بلا سے کوئی بلا بھی بڑی نہیں
کیا اس کو علم جس پہ یہ بپتا پڑی نہیں
کشتوں کی اس کے لاش بھی اکثر گڑی نہیں
اعلان امر حق سے کوئی شے کڑی نہیں
بے جرم خود کو جرم میں جو راندھ لے وہ آئے
اس راہ میں جو سر سے کفن باندھ لے وہ آئے
۱۱
تکلیف رشد و کاہش تبلیغ الاماں
یہ دائرہ ہے دائرۂ مرگ ناگہاں
پیہم یہاں سروں پہ کڑکتی ہیں بجلیاں
بار الم سے بولنے لگتے ہیں استخواں
ہر گام پر حیات کے چہرے کو فق کرے
مرنا جو چاہتا ہو وہ اعلان حق کرے
۱۲
کیسے کوئی عزیز روایات چھوڑ دے
کچھ کھیل ہے کہ کہنہ حکایات چھوڑ دے
گھٹی میں تھے جو حل وہ خیالات چھوڑدے
ماں کا مزاج باپ کی عادات چھوڑدے
کس جی سے کوئی رشتۂ اوہام چھوڑ دے
ورثے میں جو ملے ہیں وہ اصنام توڑ دے
۱۳
اوہام کا رباب قدامت کا ارغنوں
فرسودگی کا سحر روایات کا فسوں
اقوال کا مراق حکایات کا جنوں
رسم و رواج و صحبت و میراث و نسل و خوں
افسوس یہ وہ حلقۂ دام خیال ہے
جس سے بڑے بڑوں کا نکلنا محال ہے
۱۴
اس بزم ساحری میں جہالت کا ذکر کیا
خود علم کے حواس بھی رہتے نہیں بجا
اوہام جب دلوں میں بجاتے ہیں دائرا
عقلوں کو سوجھتا ہی نہیں رقص کے سوا
تاریخ جھومتی ہے فسانوں کے غول میں
بوڑھے بھی ناچتے ہیں جوانوں کے غول میں
۱۵
جس دائرے میں قصر قدامت کا ہو طواف
جدت کے ’’جرم‘‘ کو کوئی کرتا نہ ہو معاف
بگڑے ہوئے رسوم کا ذہنوں پہ ہو غلاف
آواز کون اٹھائے وہاں جہل کے خلاف
آواز اٹھائے موت کی جو آرزو کرے
ورنہ مجال ہے کہ یہاں گفتگو کرے
۱۶
ہوتا ہے جو سماج میں جو یائے انقلاب
ملتا ہے اس کو مرتد و زندیق کا خطاب
پہلے تو اس کو آنکھ دکھاتے ہیں شیخ و شاب
اس پر بھی وہ نہ چپ ہو تو پھر قوم کا عتاب
بڑھتا ہے ظلم و جو رکے تیور لئے ہوئے
تشنیع و طعن و دشنہ و خنجر لئے ہوئے
۱۷
اٹھتا ہے غلغلہ کہ یہ زندیق نامراد
کج فکر و کج نگاہ و کج اخلاق و کج نہاد
پھیلا رہا ہے عالم اخلاق میں فساد
اے صاحبان جذبۂ دیرینۂ جہاد
ہاں جلد اٹھو تباہی باطل کے واسطے
جنت ہے ایسے شخص کے قاتل کے واسطے
۱۸
اور بالخصوص جب ہو حکومت کا سامنا
رعب و شکوہ و جاہ و جلالت کا سامنا
شاہان کج کلاہ کی ہیبت کا سامنا
قرنا و طبل و ناوک و رایت کا سامنا
لاکھوں میں ہے وہ ایک کروروں میں فرد ہے
اس وقت جو ثبات دکھائے وہ مرد ہے
۱۹
اور بالخصوص بند ہو جب ہر درنجات
حق تشنہ لب ہو دشت میں باطل لب فرات
دست اجل میں ہوزن و فرزند تک کی ذات
حائل ہو مرگ و زیست میں لے دے کے ایک رات
یہ وہ گھڑی ہے کانپ اٹھے شیر نر کا دل
اس تہلکے کو چاہئے فوق البشر کا دل
۲۰
وہ کربلا کی رات وہ ظلمت ڈراؤنی
وہ مرگ بے پناہ کے سائے میں زندگی
خیموں کے گردو پیش وہ پرہول خامشی
خاموشیوں میں دور سے وہ چاپ موت کی
تھی پشت وقت بار الم سے جھکی ہوئی
ارض و سما کی سانس تھی گویا رکی ہوئی
۲۱
وہ اہل حق کی تشنہ دہاں مختصر سپاہ
باطل کا وہ ہجوم کہ اللہ کی پناہ
وہ ظلمتوں کے دام میں زہراؑ کے مہر وماہ
تارے وہ فرط غم سے جھکائے ہوئے نگاہ
وہ دل بجھے ہوئے وہ ہوائیں تھمی ہوئی
وہ اک بہن کی بھائی پہ نظریں جمی ہوئی
۲۲
لبریز زہر جور سے وہ دشت کا ایاغ
دکھتے ہوئے وہ دل وہ تپکتے ہوئے دماغ
آنکھوں کی پتلیوں سے عیاں وہ دلوں کے داغ
پرہول ظلمتوں میں وہ سہمے ہوئے چراغ
بکھرے ہوئے ہوا میں وہ گیسو رسولؐ کے
تاروں کی روشنی میں وہ آنسو بتولؑ کے
۲۳
وہ رات وہ فرات وہ موجوں کا خلفشار
عابد کی کروٹوں پہ وہ بے چارگی کا بار
وہ زلزلوں کی زد پہ خواتین کا وقار
اصغر کا پیچ و تاب وہ جھولے میں بار بار
اصغر میں پیچ و تاب نہ تھا اضطراب کا
وہ دل دھڑک رہا تھا رسالت مآبؐ کا
۲۴
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستان صادق و یاران باصفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے چلا جائے شوق سے
۲۵
اور سنتے ہی یہ بات بصد کرب و اضطراب
شبیرؑ کو دیا تھا یہ انصار نے جواب
دیکھیں جو ہم یہ خواب بھی اے ابن بوترابؑ
واللہ فرط شرم سے ہوجائیں آب آب
قرباں نہ ہو جو آپ سے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پہ تف اس حیات پر
۲۶
کیا آپ کا خیال ہے یہ شاہ ذی حشم
ہم ہیں اسیر سود و زیاں صید کیف و کم
خود دیکھ لیجئے گا کہ گاڑیں گے جب قدم
ہٹنا تو کیا ہلیں گے نہ دشت و غا سے ہم
پتلے ہیں ہم حدید کے پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں پہاڑ ہیں میدان جنگ کے
۲۷
ہاں ہاں وہ رات دہشت و بیم و رجا کی رات
افسون جاں کنی و طلسم قضا کی رات
لب تشنگان ذریت مصطفےؑ کی رات
جو حشر سے عظیم تھی وہ کربلا کی رات
شبیر نے حیات کا عنواں بنا دیا
اس رات کو بھی مہر درخشاں بنا دیا
۲۸
تاریخ دے رہی ہے یہ آواز دم بدم
دشت ثبات و عزم ہے دشت بلاؤ غم
صبر مسیح و جرأت سقراط کی قسم
اس راہ میں ہے صرف اک انسان کا قدم
جس کی رگوں میں آتش بدر و حنین ہے
جس سورما کا اسم گرامی حسینؑ ہے
۲۹
جو صاحب مزاج نبوت تھا وہ حسینؑ
جو وارث ضمیر رسالت تھا وہ حسینؑ
جو خلوتی شاہد قدرت تھا وہ حسینؑ
جس کا وجود فخر مشیت تھا وہ حسینؑ
سانچے میں ڈھالنے کے لئے کائنات کو
جو تولتا تھا نوک مژہ پر حیات کو
۳۰
جو اک نشان تشنہ دہانی تھا وہ حسینؑ
گیتی پر عرش کی جو نشانی تھا وہ حسینؑ
جو خلد کا امیر جوانی تھا وہ حسینؑ
جو اک سن جدید کا بانی تھا وہ حسینؑ
جس کا لہو تلاطم پنہاں لئے ہوئے
ہر بوند میں تھا نوح کا طوفاں لئے ہوئے
۳۱
جو کاروان عزم کا رہبر تھا وہ حسینؑ
خود اپنے خون کا جو شناور تھا وہ حسینؑ
اک دین تازہ کا جو پیمبر تھا وہ حسینؑ
جو کربلا کا داور محشر تھا وہ حسینؑ
جس کی نظر پہ شیوۂ حق کا مدار تھا
جو روح انقلاب کا پرور دگار تھا
۳۲
ہاں اب بھی جو منارۂ عظمت ہے وہ حسینؑ
جس کی نگاہ مرگ حکومت ہے وہ حسینؑ
اب بھی جو محو درس بغاوت ہے وہ حسینؑ
آدم کی جو دلیل شرافت ہے وہ حسینؑ
واحد جو اک نمونہ ہے ذبح عظیم کا
شاہد ہے جو ’’خدا ‘‘ کے مذاق سلیم کا
۳۳
ہاں وہ حسینؑ جس کا ابد آشنا ثبات
کہتا ہے گاہ گاہ حکیموں سے بھی یہ بات
یعنی درون پردۂ صد رنگ کائنات
اک کارساز ذہن ہے اک ذی شعور ذات
سجدوں سے کھینچتا ہے جو ’’مسجود‘‘ کی طرف
تنہا جو اک اشارہ ہے ’’معبود‘‘ کی طرف
۳۴
جس کا وجود عدل و مساوات کی مراد
جو کردگار امن تھا پیغمبرؐ جہاد
تحویل زندگی میں پئے رفع ہر فساد
قدرت کی اک امانت زریں ہے جس کی یاد
سوزاں ہے قلب خاک جو خون مبین سے
اک لو نکل رہی ہے ابھی تک زمین سے
۳۴
عزت پہ جس نے سر کو فدا کر کے دم لیا
صدق و منافقت کو جدا کر کے دم لیا
حق کو ابد کا تاج عطا کر کے دم لیا
جس نے یزیدیت کو فنا کر کے دم لیا
فتنوں کو جس پہ ناز تھا وہ دل بجھا دیا
جس نے چراغ دولت باطل بجھا دیا
۳۵
عالم میں ہو چکا ہے مسلسل یہ تجربا
قوت ہی زندگی کی رہی ہے گرہ کشا
سر ضعف کا ہمیشہ رہا ہے جھکا ہوا
ناطاقتی کی موت ہے طاقت کا سامنا
طاقت سی شے مگر خجل و بدنصیب تھی
ناطاقتی حسینؑ کی کتنی عجیب تھی
۳۶
طاقت سی شے کو خاک میں جس نے ملا دیا
تختہ الٹ کے قصر حکومت کو ڈھا دیا
جس نے ہوا پہ رعب امارت اڑا دیا
ٹھوکر سے جس نے افسر شاہی گرا دیا
اس طرح جس سے ظلم سیہ فام ہوگیا
لفظ یزید داخل دشنام ہوگیا
۳۷
پانی سے تین روز ہوئے جس کے لب نہ تر
تیغ و تبر کو سونپ دیا جس نے گھر کا گھر
جو مرگیا ضمیر کی عزت کے نام پر
ذلت کے آستاں پہ جھکایا مگر نہ سر
لی جس نے سانس رشتۂ شاہی کو توڑ کر
جس نے کلائی موت کی رکھ دی مروڑ کر
۳۸
جس کی جبیں پہ کج ہے خود اپنے لہو کا تاج
جو مرگ و زندگی کا ہے اک طرفہ امتزاج
سردے دیا مگر نہ دیا ظلم کو خراج
جس کے لہو نے رکھ لی تمام انبیاء کی لاج
سنتا نہ کوئی دہر میں صدق و صفا کی بات
جس مرد سرفروش نے رکھ لی خدا کی بات
۳۹
ہر چند اہل جور نے چاہا یہ بارہا
ہوجائے محو یاد شہیدان کربلا
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسینؑ کا
لیکن کسی کا زور عزیز و نہ چل سکا
عباس نامور کے لہو سے دھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
۴۰
یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو
درپردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اس جری کی ہے آواز دوستو
۴۱
جس کا ہجوم درد و علم سے یہ حال تھا
سینہ تھا پاش پاش جگر پائمال تھا
رخ پر تھا تشنگی کا دھواں دل نڈھال تھا
اس کرب میں بھی جس کو فقط یہ خیال تھا
آتش برس رہی ہے تو برسے خیام پر
آنے نہ پائے آنچ مگر حق کے نام پر
۴۲
ہر چند ایک شاخ چمن میں ہری نہ تھی
ماتھا عرق عرق تھا لبوں پر تری نہ تھی
باطل کی ان بلاؤں پہ بھی چاکری نہ تھی
یہ داوری تھی اصل میں پیغمبری نہ تھی
رنگ اڑ گیا حکومت بدعت شعار کا
عزم حسین عزم تھا پروردگار کا
۴۳
تھی جس کے دوش پاک پر اہل و لا کی لاش
انصار سرفروش کی لاش اقرباء کی لاش
عباس سے مجاہد تیغ آزما کی لاش
قاسم سے شاہزادۂ گلگوں قباکی لاش
پھر بھی یہ دھن تھی صبر کی زلفوں سے بل نہ جائے
اس خوف سے کہ حق کا جنازہ نکل جائے
۴۴
زار و نزار و تشنہ و مجروح و ناتواں
تنہا کھڑا ہوا تھا جو لاکھوں کے درمیاں
گھیرے تھے جس کو تیر و تبر ناوک و سناں
اور سورہا تھا موت کے بستر پہ کارواں
اتنا نہ تھا کہ حق رفاقت سے کام لے
گرنے لگیں اگر تو کوئی بڑھ کے تھام لے
۴۵
ہاں وہ حسینؑ خستہ و مجروح و ناتواں
ساکت کھڑا ہوا تھا جو لاشوں کے درمیاں
سنتا رہا سکون سے جو پیر نیم جاں
اکبر سے ماہ روکی جوانی کی ہچکیاں
ہے ہے کی آرہی تھی صدا کائنات سے
پھر بھی قدم ہٹائے نہ راہ ثبات سے
۴۶
ہاں اے حسینؑ تشنہ و رنجور السلام
اے میہمان عرصۂ بے نور السلام
اے شمع حلقۂ شب عاشور السلام
اے سینۂ حیات کے ناسور السلام
اے ساحل فرات کے پیاسے ترے نثار
اے آخری ’’نبیؐ‘‘ کے نواسے ترے نثار
۴۷
ہاں اے حسین بیکس و ناچار السلام
اے کشتگان عشق کے سردار السلام
اے سوگوار یاور و انصار السلام
اے کاروان مردہ کے سالار السلام
افسوس اے وطن سے نکالے ہوئے حسینؑ
اے فاطمہؓ کی گود کے پالے ہوئے حسینؑ
۴۸
تو اور تیرے حلق پہ تلوار ہائے ہائے
زنجیر اور عابد بیمار ہائے ہائے
زینبؑ کا سر کھلے سربازار ہائے ہائے
سر تیرا اور یزید کا دربار ہائے ہائے
انسان اس طرح اتر آئے عناد پر
لعنت خدا کی حشر تک ابن زیاد پر
۴۹
تجھ سا شہید کون ہے عالم میں اے حسینؑ
تو ہے ہر ایک دیدۂ پرنم میں اے حسینؑ
زہا دہی نہیں ہیں ترے غم میں اے حسینؑ
ہم رند بھی ہیں حلقہ ماتم میں اے حسینؑ
آزاد جو خیال میں ہیں اور کلام میں
وہ بھی اسیر ہیں تری زلفوں کے دام میں
۵۰
یوں تو درون سینۂ تاریخ روزگار
دولت ہے بے حساب جواہر ہیں بے شمار
لیکن ترا وجود ہے اے مرد حق شعار
عزم بشر کی واحد و بے مثل یادگار
تکتا ہے تجھ کو وقت جہاں سوز دور سے
تو ہے بلند ضرب سنین و شہور سے
۵۱
اس باغ دہر میں پئے تفسیر رنگ و بو
یوں تو ہے ہر روش پہ اک انبار گفتگو
لیکن برائے گوش حکیمان راز جو
عالم میں صرف ایک سخن گفتنی ہے تو
مردانگی کے طور کا تنہا کلیم ہے
تو سینۂ حیات کا قلب سلیم ہے
۵۲
اے رہبر خجستہ و اے ہادئ غیور
تو حافظے کا ناز ہے تاریخ کا غرور
اب بھی ترے نشان قدم سے ہے وہ سرور
لوح جبین وقت پہ غلطاں ہے موج نور
تو ہے وہ مہر دفتر عزم و ثبات پر
اب تک دمک رہی ہے جو پشت حیات پر
۵۳
ہاں اے حسینؑ ابن علیؑ رہبر انام
اے منبر خودی کے حیات آفریں پیام
اے نطق زندگی کے مقدس ترین نام
اے چرخ انقلاب کے ابر جواں خرام
غازہ ہے تیرا خون رخ کائنات کا
ہر قطرہ ’’کوہ نور‘‘ ہے تاج حیات کا
۵۴
جس بحر ظلم و جور کے گرداب میں تھا تو
نازل پہاڑ پر ہو تو بن جائے آب جو
سینے میں ابر کے نہ رہے روح رنگ و بو
آہن کے جوہروں سے ٹپکنے لگے لہو
یخ تک برنگ آتش دوزخ دہک پڑے
ماتھے سے آگ کے بھی پسینہ ٹپک پڑے
۵۵
اے خنجر برہنہ و اے تیغ بے نیام
اے حق نواز امیر نبوت بدوش امام
اے تیرگی کی بزم میں خورشید کے پیام
اے آسمان درس عمل کے مہ تمام
رہتی ردائے شام کی ظلمت ہی دین پر
ہوتا نہ توتو صبح نہ ہوتی زمین پر
۵۶
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسینؑ
پھر بزم آب و گل میں ہے کہرام اے حسینؑ
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسینؑ
پھر حریت ہے موردالزام اے حسینؑ
ذوق فساد وولولۂ شر لئے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لئے ہوئے
۵۷
ہاں خاتم حیات ابد کا نگیں ہے تو
گردون گیر و دار کا مہر مبیں ہے تو
اک زندہ حد فاصل دنیا و دیں ہے تو
کونین کا تخیل عہد آفریں ہے تو
پھر دشت جنگ کو ہے ترا انتظار اٹھ
اٹھ روز گار تازہ کے پروردگار اٹھ
۵۸
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسینؑ دے
۵۹
پھر گرم ہے فساد کا بازار دوستو
سرمایہ پھر ہے بر سر آزار دوستو
تاکئے یہ خوف اندک و بسیار دوستو
تلوار ہاں اپی ہوئی تلوار دوستو
جو تیز تر ہو خون امارت کو چاٹ کر
رکھ دے جو سیم و زر کے پہاڑوں کو کاٹ کر
۶۰
بل کھا رہے ہیں دہر میں پھر سیم و زر کے ناگ
گونجے ہوئے ہیں گنبد گرداں میں غم کے راگ
پھر موت رخش زیست کی تھامے ہوئے ہے باگ
تا آسماں بلند ہو اے زندگی کی آگ
فتنے کو اپنی آنچ کے جھولے میں جھونک دے
ہاں پھونک دے قبائے امارت کو پھونک دے
۶۱
اے دوستوں فرات کے پانی کا واسطہ
آل نبیؐ کی تشنہ دہانی کا واسطہ
شبیرؑ کے لہو کی روانی کا واسطہ
اکبرؑ کی ناتمام جوانی کا واسطہ
بڑھتی ہوئی جوان امنگوں سے کام لو
ہاں تھام لو حسینؑ کے دامن کو تھام لو
۶۲
آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زین
ہر گام ایک ’’بدر‘‘ ہو ہر سانس اک ’’حنین‘‘
برھتے رہو یوں ہی پئے تسخیر مشرقین
سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ ’’یاحسینؑ
‘‘
تم حیدری ہو سینۂ اژدر کو پھاڑ دو
اس خیبر جدید کا در بھی اکھاڑ دو
۶۳
جاری رہے کچھ اور یوں ہی کاوش ستیز
ہروار بے پناہ ہو ہر ضرب لرزہ خیز
وہ فوج ظلم و جور ہوئی مائل گریز
اے خون اور گرم ہو اے نبض اور تیز
عفریت ظلم کانپ رہا ہے اماں نہ پائے
دیو فساد ہانپ رہا ہے اماں نہ پائے
۶۴
تاخیر کا یہ وقت نہیں ہے دلاورو
آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھو بڑھو
ایسے میں باڑھ پر ہے جوانی بڑھے چلو
گرجو مثال رعد گرج کر برس پڑو
ہاں زخم خوردہ شیر کی ڈہکار دوستو
جھنکار ذوالفقار کی جھنکار دوستو
۶۵
اے حاملان آتش سوزاں، بڑھے چلو
اے پیروان شاہ شہیداں،بڑھے چلو!
اے فاتحان صر صروطوفاں، بڑھے چلو
اے صاحبان ہمت یزداں، بڑھے چلو!
تلوار، شمر عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو، یزید کو دوزخ میں جھونک دو
۶۶
دیکھو وہ ختم، ظلم کی حد ہے، بڑھے چلو
اپنا ہی خود یہ وقت مدد ہے، بڑھے چلو
بڑھنے میں عزت اب وجد ہے بڑھے چلو
وہ سامنے حیات ابد ہے، بڑھے چلو
الٹے رہو کچھ اور یونہیں آستین کو
الٹی ہے آستین تو پلٹ دو زمین کو
۶۷
اے جانشین حیدر کرار المدد
اے منچلوں کے قافلہ سالار المدد
اے امر حق کی گرمئ بازار المدد
اے جنس زندگی کے خریدار المدد
دنیا تری نظیر شہادت لئے ہوئے
اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لئے ہوئے
ہمراز یہ فسانۂ آہ و فغاں نہ پوچھ
دو دن کی زندگی کا غم این و آں نہ پوچھ
کیا کیا حیات ارض کی ہیں تلخیاں نہ پوچھ
کس درجہ ہولناک ہے یہ داستاں نہ پوچھ
تفصیل سے کہوں تو فلک کانپنے لگے
دوزخ بھی فرط شرم سے منہ ڈھانپنے لگے
۲
دنیا کی ہر خوشی ہے غم و درد سے دو چار
ہر قہقہے کی گونج میں ہے چشم اشکبار
کیا خار و خس کی وہ تو ہیں معتوب روزگار
نسرین و نسترن میں بھی پنہاں ہے نوک خار
نغمے ہیں جنبش دل مضطر لئے ہوئے
گل برگ تک ہے برش خنجر لئے ہوئے
۳
یاران سرفروش و نگاران مہ جبیں
آب نشاط و لعل و لب و زلف عنبریں
کوئے مغان و بوئے گل و روئے دلنشیں
زور و زن و ذکاوت و ذہن و زر و زمیں
جوشے بھی ہے وہ درد کا پہلو لئے ہوئے
ہر گوہر نشاط ہے آنسو لئے ہوئے
۴
بیگانۂ حدود ہے انساں کی آرزو
پیچیدہ ہر نظر میں ہے اک تازہ جستجو
تھمتی نہیں کہیں بھی تمنائے برق خو
ساقی کا وہ کرم ہے کہ بھرتا نہیں سبو
ارماں کی شاہراہ میں منزل نہیں کوئی
اس بحر بے کنار کا ساحل نہیں کوئی
۵
اس لیلئ حیات کی اللہ ری داروگیر
ہر لوچ اک کمان ہے ہر نام ایک تیر
اس کے کرم میں بھی وہ حرارت ہے ہم صفیر
جس کے مقابلے میں جہنم ہے زم ہریر
الجھے جواس کے گیسوئے پیچاں کے جال میں
لگ جائے آگ دامن قطب شمال میں
۶
امراض سے کسی کا بڑھاپا ہے اک و بال
آلام سے کسی کی جوانی ہے پائمال
اس کو ہے خوف ننگ اسے نام کا خیال
روزی سے کوئی تنگ کوئی عشق سے نڈھال
ہر سانس ہے نوید عذاب عظیم کی
گھبرا کے دو دہائی خدائے رحیم کی
۷
اس خوں چکاں حیات کے آلام کیا کہوں
قدرت نہیں فسانۂ ایام کیا کہوں
دارائے کائنات کے انعام کیا کہوں
یہ داستان مرحمت عام کیا کہوں
کہہ دوں تو دل سے خون کا چشمہ ابل پڑے
اور چپ رہوں تو منہ سے کلیجہ نکل پڑے
۸
نوع بشر پہ ہے جو عقوبت نہ پوچھئے
سفاک زندگی کی شقاوت نہ پوچھئے
جور حیات و جبر مشیت نہ پوچھئے
کتنا رفیق ہے دل قدرت نہ پوچھئے
سو سال اگر خزاں کے تو دو دن بہار کے
قربا ں ہجوم رحمت پروردگار کے
۹
یوں تو غم معاش کا سوز نہاں ہے اور
تکلیف جاں گدازئ عشق بتاں ہے اور
لب تشنگئ شیب و عذاب خزاں ہے اور
اعلان امر حق کی مگر داستاں ہے اور
گفتار صدق مایہ آزارمی شود
چوں حرف حق بلند شود دارمی شود (صائبؔ
۱۰
ہاں اس بلا سے کوئی بلا بھی بڑی نہیں
کیا اس کو علم جس پہ یہ بپتا پڑی نہیں
کشتوں کی اس کے لاش بھی اکثر گڑی نہیں
اعلان امر حق سے کوئی شے کڑی نہیں
بے جرم خود کو جرم میں جو راندھ لے وہ آئے
اس راہ میں جو سر سے کفن باندھ لے وہ آئے
۱۱
تکلیف رشد و کاہش تبلیغ الاماں
یہ دائرہ ہے دائرۂ مرگ ناگہاں
پیہم یہاں سروں پہ کڑکتی ہیں بجلیاں
بار الم سے بولنے لگتے ہیں استخواں
ہر گام پر حیات کے چہرے کو فق کرے
مرنا جو چاہتا ہو وہ اعلان حق کرے
۱۲
کیسے کوئی عزیز روایات چھوڑ دے
کچھ کھیل ہے کہ کہنہ حکایات چھوڑ دے
گھٹی میں تھے جو حل وہ خیالات چھوڑدے
ماں کا مزاج باپ کی عادات چھوڑدے
کس جی سے کوئی رشتۂ اوہام چھوڑ دے
ورثے میں جو ملے ہیں وہ اصنام توڑ دے
۱۳
اوہام کا رباب قدامت کا ارغنوں
فرسودگی کا سحر روایات کا فسوں
اقوال کا مراق حکایات کا جنوں
رسم و رواج و صحبت و میراث و نسل و خوں
افسوس یہ وہ حلقۂ دام خیال ہے
جس سے بڑے بڑوں کا نکلنا محال ہے
۱۴
اس بزم ساحری میں جہالت کا ذکر کیا
خود علم کے حواس بھی رہتے نہیں بجا
اوہام جب دلوں میں بجاتے ہیں دائرا
عقلوں کو سوجھتا ہی نہیں رقص کے سوا
تاریخ جھومتی ہے فسانوں کے غول میں
بوڑھے بھی ناچتے ہیں جوانوں کے غول میں
۱۵
جس دائرے میں قصر قدامت کا ہو طواف
جدت کے ’’جرم‘‘ کو کوئی کرتا نہ ہو معاف
بگڑے ہوئے رسوم کا ذہنوں پہ ہو غلاف
آواز کون اٹھائے وہاں جہل کے خلاف
آواز اٹھائے موت کی جو آرزو کرے
ورنہ مجال ہے کہ یہاں گفتگو کرے
۱۶
ہوتا ہے جو سماج میں جو یائے انقلاب
ملتا ہے اس کو مرتد و زندیق کا خطاب
پہلے تو اس کو آنکھ دکھاتے ہیں شیخ و شاب
اس پر بھی وہ نہ چپ ہو تو پھر قوم کا عتاب
بڑھتا ہے ظلم و جو رکے تیور لئے ہوئے
تشنیع و طعن و دشنہ و خنجر لئے ہوئے
۱۷
اٹھتا ہے غلغلہ کہ یہ زندیق نامراد
کج فکر و کج نگاہ و کج اخلاق و کج نہاد
پھیلا رہا ہے عالم اخلاق میں فساد
اے صاحبان جذبۂ دیرینۂ جہاد
ہاں جلد اٹھو تباہی باطل کے واسطے
جنت ہے ایسے شخص کے قاتل کے واسطے
۱۸
اور بالخصوص جب ہو حکومت کا سامنا
رعب و شکوہ و جاہ و جلالت کا سامنا
شاہان کج کلاہ کی ہیبت کا سامنا
قرنا و طبل و ناوک و رایت کا سامنا
لاکھوں میں ہے وہ ایک کروروں میں فرد ہے
اس وقت جو ثبات دکھائے وہ مرد ہے
۱۹
اور بالخصوص بند ہو جب ہر درنجات
حق تشنہ لب ہو دشت میں باطل لب فرات
دست اجل میں ہوزن و فرزند تک کی ذات
حائل ہو مرگ و زیست میں لے دے کے ایک رات
یہ وہ گھڑی ہے کانپ اٹھے شیر نر کا دل
اس تہلکے کو چاہئے فوق البشر کا دل
۲۰
وہ کربلا کی رات وہ ظلمت ڈراؤنی
وہ مرگ بے پناہ کے سائے میں زندگی
خیموں کے گردو پیش وہ پرہول خامشی
خاموشیوں میں دور سے وہ چاپ موت کی
تھی پشت وقت بار الم سے جھکی ہوئی
ارض و سما کی سانس تھی گویا رکی ہوئی
۲۱
وہ اہل حق کی تشنہ دہاں مختصر سپاہ
باطل کا وہ ہجوم کہ اللہ کی پناہ
وہ ظلمتوں کے دام میں زہراؑ کے مہر وماہ
تارے وہ فرط غم سے جھکائے ہوئے نگاہ
وہ دل بجھے ہوئے وہ ہوائیں تھمی ہوئی
وہ اک بہن کی بھائی پہ نظریں جمی ہوئی
۲۲
لبریز زہر جور سے وہ دشت کا ایاغ
دکھتے ہوئے وہ دل وہ تپکتے ہوئے دماغ
آنکھوں کی پتلیوں سے عیاں وہ دلوں کے داغ
پرہول ظلمتوں میں وہ سہمے ہوئے چراغ
بکھرے ہوئے ہوا میں وہ گیسو رسولؐ کے
تاروں کی روشنی میں وہ آنسو بتولؑ کے
۲۳
وہ رات وہ فرات وہ موجوں کا خلفشار
عابد کی کروٹوں پہ وہ بے چارگی کا بار
وہ زلزلوں کی زد پہ خواتین کا وقار
اصغر کا پیچ و تاب وہ جھولے میں بار بار
اصغر میں پیچ و تاب نہ تھا اضطراب کا
وہ دل دھڑک رہا تھا رسالت مآبؐ کا
۲۴
وہ رات جب امام کی گونجی تھی یہ صدا
اے دوستان صادق و یاران باصفا
باقی نہیں رہا ہے کوئی اور مرحلہ
اب سامنا ہے موت کا اور صرف موت کا
آنے ہی پر بلائیں ہیں اب تحت و فوق سے
جانا جو چاہتا ہے چلا جائے شوق سے
۲۵
اور سنتے ہی یہ بات بصد کرب و اضطراب
شبیرؑ کو دیا تھا یہ انصار نے جواب
دیکھیں جو ہم یہ خواب بھی اے ابن بوترابؑ
واللہ فرط شرم سے ہوجائیں آب آب
قرباں نہ ہو جو آپ سے والا صفات پر
لعنت اس امن و عیش پہ تف اس حیات پر
۲۶
کیا آپ کا خیال ہے یہ شاہ ذی حشم
ہم ہیں اسیر سود و زیاں صید کیف و کم
خود دیکھ لیجئے گا کہ گاڑیں گے جب قدم
ہٹنا تو کیا ہلیں گے نہ دشت و غا سے ہم
پتلے ہیں ہم حدید کے پیکر ہیں سنگ کے
انساں نہیں پہاڑ ہیں میدان جنگ کے
۲۷
ہاں ہاں وہ رات دہشت و بیم و رجا کی رات
افسون جاں کنی و طلسم قضا کی رات
لب تشنگان ذریت مصطفےؑ کی رات
جو حشر سے عظیم تھی وہ کربلا کی رات
شبیر نے حیات کا عنواں بنا دیا
اس رات کو بھی مہر درخشاں بنا دیا
۲۸
تاریخ دے رہی ہے یہ آواز دم بدم
دشت ثبات و عزم ہے دشت بلاؤ غم
صبر مسیح و جرأت سقراط کی قسم
اس راہ میں ہے صرف اک انسان کا قدم
جس کی رگوں میں آتش بدر و حنین ہے
جس سورما کا اسم گرامی حسینؑ ہے
۲۹
جو صاحب مزاج نبوت تھا وہ حسینؑ
جو وارث ضمیر رسالت تھا وہ حسینؑ
جو خلوتی شاہد قدرت تھا وہ حسینؑ
جس کا وجود فخر مشیت تھا وہ حسینؑ
سانچے میں ڈھالنے کے لئے کائنات کو
جو تولتا تھا نوک مژہ پر حیات کو
۳۰
جو اک نشان تشنہ دہانی تھا وہ حسینؑ
گیتی پر عرش کی جو نشانی تھا وہ حسینؑ
جو خلد کا امیر جوانی تھا وہ حسینؑ
جو اک سن جدید کا بانی تھا وہ حسینؑ
جس کا لہو تلاطم پنہاں لئے ہوئے
ہر بوند میں تھا نوح کا طوفاں لئے ہوئے
۳۱
جو کاروان عزم کا رہبر تھا وہ حسینؑ
خود اپنے خون کا جو شناور تھا وہ حسینؑ
اک دین تازہ کا جو پیمبر تھا وہ حسینؑ
جو کربلا کا داور محشر تھا وہ حسینؑ
جس کی نظر پہ شیوۂ حق کا مدار تھا
جو روح انقلاب کا پرور دگار تھا
۳۲
ہاں اب بھی جو منارۂ عظمت ہے وہ حسینؑ
جس کی نگاہ مرگ حکومت ہے وہ حسینؑ
اب بھی جو محو درس بغاوت ہے وہ حسینؑ
آدم کی جو دلیل شرافت ہے وہ حسینؑ
واحد جو اک نمونہ ہے ذبح عظیم کا
شاہد ہے جو ’’خدا ‘‘ کے مذاق سلیم کا
۳۳
ہاں وہ حسینؑ جس کا ابد آشنا ثبات
کہتا ہے گاہ گاہ حکیموں سے بھی یہ بات
یعنی درون پردۂ صد رنگ کائنات
اک کارساز ذہن ہے اک ذی شعور ذات
سجدوں سے کھینچتا ہے جو ’’مسجود‘‘ کی طرف
تنہا جو اک اشارہ ہے ’’معبود‘‘ کی طرف
۳۴
جس کا وجود عدل و مساوات کی مراد
جو کردگار امن تھا پیغمبرؐ جہاد
تحویل زندگی میں پئے رفع ہر فساد
قدرت کی اک امانت زریں ہے جس کی یاد
سوزاں ہے قلب خاک جو خون مبین سے
اک لو نکل رہی ہے ابھی تک زمین سے
۳۴
عزت پہ جس نے سر کو فدا کر کے دم لیا
صدق و منافقت کو جدا کر کے دم لیا
حق کو ابد کا تاج عطا کر کے دم لیا
جس نے یزیدیت کو فنا کر کے دم لیا
فتنوں کو جس پہ ناز تھا وہ دل بجھا دیا
جس نے چراغ دولت باطل بجھا دیا
۳۵
عالم میں ہو چکا ہے مسلسل یہ تجربا
قوت ہی زندگی کی رہی ہے گرہ کشا
سر ضعف کا ہمیشہ رہا ہے جھکا ہوا
ناطاقتی کی موت ہے طاقت کا سامنا
طاقت سی شے مگر خجل و بدنصیب تھی
ناطاقتی حسینؑ کی کتنی عجیب تھی
۳۶
طاقت سی شے کو خاک میں جس نے ملا دیا
تختہ الٹ کے قصر حکومت کو ڈھا دیا
جس نے ہوا پہ رعب امارت اڑا دیا
ٹھوکر سے جس نے افسر شاہی گرا دیا
اس طرح جس سے ظلم سیہ فام ہوگیا
لفظ یزید داخل دشنام ہوگیا
۳۷
پانی سے تین روز ہوئے جس کے لب نہ تر
تیغ و تبر کو سونپ دیا جس نے گھر کا گھر
جو مرگیا ضمیر کی عزت کے نام پر
ذلت کے آستاں پہ جھکایا مگر نہ سر
لی جس نے سانس رشتۂ شاہی کو توڑ کر
جس نے کلائی موت کی رکھ دی مروڑ کر
۳۸
جس کی جبیں پہ کج ہے خود اپنے لہو کا تاج
جو مرگ و زندگی کا ہے اک طرفہ امتزاج
سردے دیا مگر نہ دیا ظلم کو خراج
جس کے لہو نے رکھ لی تمام انبیاء کی لاج
سنتا نہ کوئی دہر میں صدق و صفا کی بات
جس مرد سرفروش نے رکھ لی خدا کی بات
۳۹
ہر چند اہل جور نے چاہا یہ بارہا
ہوجائے محو یاد شہیدان کربلا
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسینؑ کا
لیکن کسی کا زور عزیز و نہ چل سکا
عباس نامور کے لہو سے دھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
۴۰
یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو
درپردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اس جری کی ہے آواز دوستو
۴۱
جس کا ہجوم درد و علم سے یہ حال تھا
سینہ تھا پاش پاش جگر پائمال تھا
رخ پر تھا تشنگی کا دھواں دل نڈھال تھا
اس کرب میں بھی جس کو فقط یہ خیال تھا
آتش برس رہی ہے تو برسے خیام پر
آنے نہ پائے آنچ مگر حق کے نام پر
۴۲
ہر چند ایک شاخ چمن میں ہری نہ تھی
ماتھا عرق عرق تھا لبوں پر تری نہ تھی
باطل کی ان بلاؤں پہ بھی چاکری نہ تھی
یہ داوری تھی اصل میں پیغمبری نہ تھی
رنگ اڑ گیا حکومت بدعت شعار کا
عزم حسین عزم تھا پروردگار کا
۴۳
تھی جس کے دوش پاک پر اہل و لا کی لاش
انصار سرفروش کی لاش اقرباء کی لاش
عباس سے مجاہد تیغ آزما کی لاش
قاسم سے شاہزادۂ گلگوں قباکی لاش
پھر بھی یہ دھن تھی صبر کی زلفوں سے بل نہ جائے
اس خوف سے کہ حق کا جنازہ نکل جائے
۴۴
زار و نزار و تشنہ و مجروح و ناتواں
تنہا کھڑا ہوا تھا جو لاکھوں کے درمیاں
گھیرے تھے جس کو تیر و تبر ناوک و سناں
اور سورہا تھا موت کے بستر پہ کارواں
اتنا نہ تھا کہ حق رفاقت سے کام لے
گرنے لگیں اگر تو کوئی بڑھ کے تھام لے
۴۵
ہاں وہ حسینؑ خستہ و مجروح و ناتواں
ساکت کھڑا ہوا تھا جو لاشوں کے درمیاں
سنتا رہا سکون سے جو پیر نیم جاں
اکبر سے ماہ روکی جوانی کی ہچکیاں
ہے ہے کی آرہی تھی صدا کائنات سے
پھر بھی قدم ہٹائے نہ راہ ثبات سے
۴۶
ہاں اے حسینؑ تشنہ و رنجور السلام
اے میہمان عرصۂ بے نور السلام
اے شمع حلقۂ شب عاشور السلام
اے سینۂ حیات کے ناسور السلام
اے ساحل فرات کے پیاسے ترے نثار
اے آخری ’’نبیؐ‘‘ کے نواسے ترے نثار
۴۷
ہاں اے حسین بیکس و ناچار السلام
اے کشتگان عشق کے سردار السلام
اے سوگوار یاور و انصار السلام
اے کاروان مردہ کے سالار السلام
افسوس اے وطن سے نکالے ہوئے حسینؑ
اے فاطمہؓ کی گود کے پالے ہوئے حسینؑ
۴۸
تو اور تیرے حلق پہ تلوار ہائے ہائے
زنجیر اور عابد بیمار ہائے ہائے
زینبؑ کا سر کھلے سربازار ہائے ہائے
سر تیرا اور یزید کا دربار ہائے ہائے
انسان اس طرح اتر آئے عناد پر
لعنت خدا کی حشر تک ابن زیاد پر
۴۹
تجھ سا شہید کون ہے عالم میں اے حسینؑ
تو ہے ہر ایک دیدۂ پرنم میں اے حسینؑ
زہا دہی نہیں ہیں ترے غم میں اے حسینؑ
ہم رند بھی ہیں حلقہ ماتم میں اے حسینؑ
آزاد جو خیال میں ہیں اور کلام میں
وہ بھی اسیر ہیں تری زلفوں کے دام میں
۵۰
یوں تو درون سینۂ تاریخ روزگار
دولت ہے بے حساب جواہر ہیں بے شمار
لیکن ترا وجود ہے اے مرد حق شعار
عزم بشر کی واحد و بے مثل یادگار
تکتا ہے تجھ کو وقت جہاں سوز دور سے
تو ہے بلند ضرب سنین و شہور سے
۵۱
اس باغ دہر میں پئے تفسیر رنگ و بو
یوں تو ہے ہر روش پہ اک انبار گفتگو
لیکن برائے گوش حکیمان راز جو
عالم میں صرف ایک سخن گفتنی ہے تو
مردانگی کے طور کا تنہا کلیم ہے
تو سینۂ حیات کا قلب سلیم ہے
۵۲
اے رہبر خجستہ و اے ہادئ غیور
تو حافظے کا ناز ہے تاریخ کا غرور
اب بھی ترے نشان قدم سے ہے وہ سرور
لوح جبین وقت پہ غلطاں ہے موج نور
تو ہے وہ مہر دفتر عزم و ثبات پر
اب تک دمک رہی ہے جو پشت حیات پر
۵۳
ہاں اے حسینؑ ابن علیؑ رہبر انام
اے منبر خودی کے حیات آفریں پیام
اے نطق زندگی کے مقدس ترین نام
اے چرخ انقلاب کے ابر جواں خرام
غازہ ہے تیرا خون رخ کائنات کا
ہر قطرہ ’’کوہ نور‘‘ ہے تاج حیات کا
۵۴
جس بحر ظلم و جور کے گرداب میں تھا تو
نازل پہاڑ پر ہو تو بن جائے آب جو
سینے میں ابر کے نہ رہے روح رنگ و بو
آہن کے جوہروں سے ٹپکنے لگے لہو
یخ تک برنگ آتش دوزخ دہک پڑے
ماتھے سے آگ کے بھی پسینہ ٹپک پڑے
۵۵
اے خنجر برہنہ و اے تیغ بے نیام
اے حق نواز امیر نبوت بدوش امام
اے تیرگی کی بزم میں خورشید کے پیام
اے آسمان درس عمل کے مہ تمام
رہتی ردائے شام کی ظلمت ہی دین پر
ہوتا نہ توتو صبح نہ ہوتی زمین پر
۵۶
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسینؑ
پھر بزم آب و گل میں ہے کہرام اے حسینؑ
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسینؑ
پھر حریت ہے موردالزام اے حسینؑ
ذوق فساد وولولۂ شر لئے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لئے ہوئے
۵۷
ہاں خاتم حیات ابد کا نگیں ہے تو
گردون گیر و دار کا مہر مبیں ہے تو
اک زندہ حد فاصل دنیا و دیں ہے تو
کونین کا تخیل عہد آفریں ہے تو
پھر دشت جنگ کو ہے ترا انتظار اٹھ
اٹھ روز گار تازہ کے پروردگار اٹھ
۵۸
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسینؑ دے
۵۹
پھر گرم ہے فساد کا بازار دوستو
سرمایہ پھر ہے بر سر آزار دوستو
تاکئے یہ خوف اندک و بسیار دوستو
تلوار ہاں اپی ہوئی تلوار دوستو
جو تیز تر ہو خون امارت کو چاٹ کر
رکھ دے جو سیم و زر کے پہاڑوں کو کاٹ کر
۶۰
بل کھا رہے ہیں دہر میں پھر سیم و زر کے ناگ
گونجے ہوئے ہیں گنبد گرداں میں غم کے راگ
پھر موت رخش زیست کی تھامے ہوئے ہے باگ
تا آسماں بلند ہو اے زندگی کی آگ
فتنے کو اپنی آنچ کے جھولے میں جھونک دے
ہاں پھونک دے قبائے امارت کو پھونک دے
۶۱
اے دوستوں فرات کے پانی کا واسطہ
آل نبیؐ کی تشنہ دہانی کا واسطہ
شبیرؑ کے لہو کی روانی کا واسطہ
اکبرؑ کی ناتمام جوانی کا واسطہ
بڑھتی ہوئی جوان امنگوں سے کام لو
ہاں تھام لو حسینؑ کے دامن کو تھام لو
۶۲
آئین کشمکش سے ہے دنیا کی زیب و زین
ہر گام ایک ’’بدر‘‘ ہو ہر سانس اک ’’حنین‘‘
برھتے رہو یوں ہی پئے تسخیر مشرقین
سینوں میں بجلیاں ہوں زبانوں پہ ’’یاحسینؑ
‘‘
تم حیدری ہو سینۂ اژدر کو پھاڑ دو
اس خیبر جدید کا در بھی اکھاڑ دو
۶۳
جاری رہے کچھ اور یوں ہی کاوش ستیز
ہروار بے پناہ ہو ہر ضرب لرزہ خیز
وہ فوج ظلم و جور ہوئی مائل گریز
اے خون اور گرم ہو اے نبض اور تیز
عفریت ظلم کانپ رہا ہے اماں نہ پائے
دیو فساد ہانپ رہا ہے اماں نہ پائے
۶۴
تاخیر کا یہ وقت نہیں ہے دلاورو
آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھو بڑھو
ایسے میں باڑھ پر ہے جوانی بڑھے چلو
گرجو مثال رعد گرج کر برس پڑو
ہاں زخم خوردہ شیر کی ڈہکار دوستو
جھنکار ذوالفقار کی جھنکار دوستو
۶۵
اے حاملان آتش سوزاں، بڑھے چلو
اے پیروان شاہ شہیداں،بڑھے چلو!
اے فاتحان صر صروطوفاں، بڑھے چلو
اے صاحبان ہمت یزداں، بڑھے چلو!
تلوار، شمر عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو، یزید کو دوزخ میں جھونک دو
۶۶
دیکھو وہ ختم، ظلم کی حد ہے، بڑھے چلو
اپنا ہی خود یہ وقت مدد ہے، بڑھے چلو
بڑھنے میں عزت اب وجد ہے بڑھے چلو
وہ سامنے حیات ابد ہے، بڑھے چلو
الٹے رہو کچھ اور یونہیں آستین کو
الٹی ہے آستین تو پلٹ دو زمین کو
۶۷
اے جانشین حیدر کرار المدد
اے منچلوں کے قافلہ سالار المدد
اے امر حق کی گرمئ بازار المدد
اے جنس زندگی کے خریدار المدد
دنیا تری نظیر شہادت لئے ہوئے
اب تک کھڑی ہے شمع ہدایت لئے ہوئے
-
فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
سادات کی بستی کے اجڑنے کی خبر ہے
در پیش ہے وہ غم، کہ جہاں زیر و زبر ہے
گل چاک گریباں ہیں صبا خاک بہ سر ہے
گل رو صفتِ غنچہ کمر بستہ گھڑے ہیں
سب ایک جگہ صورتِ گلدستہ کھڑے ہیں
آراستہ ہیں بہر سفر، سروِ قبا پوش
عمامے سروں پر ہیں عبائیں بسر دوش
یارانِ وطن ہوتے ہیں آپس میں ہم آغوش
حیراں کوئی تصویر کی صورت کوئی خاموش
منہ ملتا ہے رو کر کوئی سرور کے قدم پر
گر پڑتا ہے کوئی علیؔ اکبر کے قدم پر
عباسؔ کا منہ دیکھ کے کہتا ہے کوئی آہ
اب آنکھوں سے چھپ جائے گی تصویر یداللہ
کہتے ہیں گلے مل کے یہ قاسم کے ہوا خواہ
واللہ دلوں پر ہے عجب صدمۂ جانکاہ
ہم لوگوں سے شیریں سخنی کون کرے گا
یہ انس، یہ خُلقِ حسنی کون کرے گا
روتے ہیں وہ، جو عون و محمد کے ہیں، ہم سن
کہتے ہیں کہ مکتب میں نہ جی بہلے گا تم بن
اس داغ سے چین آئے ہمیں، یہ نہیں ممکن
گرمی کا مہینہ ہے سفر کے یہ نہیں دن
تم حضرتِ شبیرؔ کے سایے میں پلے ہو
کیوں دھوپ کی تکلیف اٹھانے کو چلے ہو
ہم جولیوں سے کہتے تھے وہ دونوں برادر
ہاں بھائیو تم بھی ہمیں یاد آؤ گے اکثر
پالا ہے ہمیں شاہ نے، ہم جائیں نہ کیوں کر
ماموں رہیں جنگل میں تو اپنا ہے وہی گھر
وہ دن ہو کہ ہم حقِّ غلامی سے ادا ہوں
تم بھی یہ دعا مانگو کہ ہم شہ پہ فدا ہوں
رخصت کے لئے لوگ چلے آتے ہیں باہم
ہر قلب حزیں ہے، تو ہر اک چشم ہے پُر نم
ایسا نہیں گھر کوئی کہ جس میں نہیں ماتم
غل ہے کہ چلا دلبرِ مخدومۂ عالم
خدام کھڑے پیٹتے ہیں قبر نبی کے
روضہ پہ اداسی ہے رسولِ عربی کے
ہے جب سے کھلا حالِ سفر بند ہے بازار
یہ جنسِ غم ارزاں ہے کہ روتے ہیں دکاں دار
خاک ارتی ہے ویرانیِ یثرب کے ہیں آثار
ہر کوچے میں ہے شور، کہ ہے ہے شہِ ابرار
اب یاں کوئی والی نہ رہا آہ ہمارا
جاتا ہے مدینے سے شہنشاہ ہمارا
تدبیر سفر میں ہیں ادھر سبطِ پیمبر
گھر میں کبھی آتے ہیں کبھی جاتے ہیں باہر
اسباب نکلواتے ہیں عباسؔ دلاور
تقسیم سواری کے تردد میں ہیں اکبرؔ
شہ کو جنہیں لے جانا ہے، وہ پاتے ہیں گھوڑے
خالی ہوا اصطبل، چلے آتے ہیں گھوڑے
حاضر درِ دولت پہ ہیں، سب یاور و انصار
کوئی تو کمر باندھتا ہے اور کوئی ہتھیار
ہودج بھی کسے جاتے ہیں، محمل بھی ہیں تیار
چلاتے ہیں درباں، کؤی آئے نہ خبردار
ہر محمل و ہودج پہ گھٹا ٹوپ پڑے ہیں
پردے کی قناتیں لئے فراش کھڑے ہیں
عوراتِ محلہ چلی آتی ہیں بصد غم
کہتی ہیں یہ دن رحلتِ زہراؔ سے نہیں کم
پُرسے کی طرح رونے کا غل ہوتا ہے ہر دم
فرش اٹھتا ہے کیا بچھتی ہے گویا صفِ ماتم
غل ہوتا ہے ہر سمت، جدا ہوتی ہے زینبؔ
ہر اک کے گلے ملتی ہے اور روتی ہے زینبؔ
لے لے کے بلائیں یہی سب کرتی ہیں تقریر
اس گرمی کے موسم میں کہاں جاتے ہیں شبیرؔ
سمجھاتی نہیں بھائی کو اے شاہ کی ہمشیر
مسلم کا خط آ لے تو کریں کوچ کی تدبیر
للّٰلہ ابھی قبر پیمبرؐ کو نہ چھوڑیں
گھر فاطمہؔ زہرا کا ہے اس گھر کو نہ چھوڑیں
وہ گھر ہے ملک رہتے تھے جس گھر کے نگہباں
کیوں اپنے بزرگوں کا مکاں کرتے ہیں ویراں
کوفے کی بھی خلقت تو نہیں صاحب ایماں
بی بی یہ مدینے کی تباہی کا ہے ساماں
ایک ایک شقی دشمنِ اولادِ علیؔ ہے
شمشیر ستم واں سرِ حیدر پہ چلی ہے
اجڑے گا مدینہ جو یہ گھر ہوئے گا خالی
بربادیِ یثرب کی بنا چرخ نے ڈالی
کیا جانیں پھر آئیں کہ نہ آئیں شہِ عالی
حضرت کے سوا کون ہے اس شہر کا والی
زہراؔ ہیں نہ حیدرؔ نہ پیمبر نہ حسنؔ ہیں
اب ان کی جگہ آپ ہیں یا شاہِ زمن ہیں
گرمی کا یہ دن اور پہاڑوں کا سفر آہ
ان چھوٹے سے بچوں کا نگہبان ہے اللہ
رستے کی مشقت سے کہاں ہیں ابھی آگاہ
ان کو تو نہ لے جائیں سفر میں شہِ ذی جاہ
قطرہ بھی دمِ تشنہ دہانی نہیں ملتا
کوسوں تلک اس راہ میں پانی نہیں ملتا
منہ دیکھ کے اصغر کا چلا آتا ہے رونا
آرام سے مادر کی کہاں گود میں سونا
جھولا یہ کہاں اور کہاں نرم بچھونا
لکھا تھا اسی سن میں مسافر انہیں ہونا
کیا ہوگا جو میداں میں ہوا گرم چلے گی
یہ پھول سے کمھلائیں گے، ماں ہاتھ ملے گی
ان بیبیوں سے کہتی تھی یہ شاہ کی ہمشیر
بہنوں ہمیں یثرب سے لئے جاتی ہے تقدیر
اس شہر میں رہنا نہیں ملتا کسی تدبیر
یہ خط پہ خط آئے ہیں کہ مجبور ہیں شبیرؔ
مجھ کو بھی ہے رنج ایسا کہ کچھ کہہ نہیں سکتی
بھائی سے جدا ہو کے مگر رہ نہیں سکتی
اماں کی لحد چھوڑ کے میں یاں سے نہ جاتی
فاقے بھی اگر ہوتے تو غم اس کا نہ کھاتی
بھائی کی طرف دیکھ کے شق ہوتی ہے چھاتی
بے جائے، مجھے بات کوئی بن نہیں آتی
ظاہر میں تو مابین لحد سوتی ہیں اماں
میں خواب میں جب دیکھتی ہوں روتی ہیں اماں
ہے روح پہ اماں کی قلق کرتی ہیں زاری
سر پیٹتے میں نے انہیں دیکھا کئی باری
روداد بیاں کر گئی ہیں مجھ سے وہ ساری
فرماتی تھیں بھائی سے خبر دار میں واری
غم خوار ہے تو اور خدا حافظِ جاں ہے
نہ باپ ہے سر پر مرے بچے کے نہ ماں ہے
یاد آتی ہے ہر دم مجھے اماں کی مصیبت
کچھ جان کی تھی فکر نہ ان کو دمِ رحلت
آہستہ یہ فرماتی تھیں باصد غم و حسرت
شبیرؔ سدھارے جو سوئے وادیِٔ غربت
اس دن مری تربت سے بھی منہ موڑیو زینبؔ
اس بھائی کو تنہا نہ کبھی چھوڑیو زینبؔ
اماں کی وصیت کو بجا لاؤں نہ کیوں کر
گھر بھائی سے تھا بھائی نہ ہوگا تو کہاں گھر
دو بہنیں ہیں ماں جائیاں اور ایک برادر
رسی سے بندھے ہاتھ کہ بلوے میں کھلے سر
جو ہووے سو ہو بھائی کے ہمراہ ہے زینبؔ
اس کوچ کے انجام سے آگاہ ہے زینبؔ
یہ کہتی تھی زینبؔ کہ پکارے شہِ عادل
تیار ہیں دروزاے پہ سب ہودج و محمل
طے شام تلک ہوگی کہیں آج کی منزل
رخصت کرو لوگوں کو بس اب رونے سے حاصل
چلتی ہے ہوا سرد ابھی وقت سحر ہے
بچے کئی ہمراہ ہیں گرمی کا سفر ہے
رخصت کرو ان کو جو کہ ہیں ملنے کو آئے
کہہ دو کوئی گہوارۂ اصغر کو بھی لائے
نادان سکینہؔ کہیں آنسو نہ بہائے
جانے کی خبر میری نہ صغراؔ کہیں پائے
ڈر ہے کہیں گھبرا کے نہ دم اس کا نکل جائے
باتیں کرو ایسی کہ وہ بیمار بہل جائے
رخصت کو ابھی قبر پیمبر پہ ہے جانا
کیا جانیے پھر ہو کہ نہ ہوئے مرا آنا
اماں کی لحد پر ہے ابھی اشک بہانا
اس مرقدِ انور کو ہے آنکھوں سے لگانا
آخر تو لئے جاتی ہے، تقدیر وطن سے
چلتے ہوئے ملنا ہے ابھی قبرِ حسن سے
سن کر یہ سخن بانوئے ناشاد پکاری
میں لٹتی ہوں کیسا سفر اور کیسی سواری
غش ہو گئی ہے فاطمہؔ صغرا مری پیاری
یہ کس کے لئے کرتے ہیں سب گریہ و زاری
اب کس پہ میں اس صاحبِ آزار کو چھوڑوں
اس حال میں کس طرح سے بیمار کو چھوڑوں
ماں ہوں میں، کلیجہ نہیں، سینہ میں سنبھلتا
صاحب مرے دل کو ہے کوئی ہاتھوں سے ملتا
میں تو اسے لے چلتی، یہ کچھ بس نہیں چلتا
رہ جاتیں جو بہنیں بھی تو دل اس کا بہلتا
دروازے پہ تیار سواری پہ کھڑی ہے
پر اب تو مجھے جان کی صغراؔ کی پڑی ہے
چلاتی تھی کبراؔ کہ بہن آنکھ تو کھولو
کہتی تھی سکینہؔ کہ ذرا منہ سے تو بولو
ہم جاتے ہیں تم اٹھ کے بغل گیر تو ہو لو
چھاتی سے لگو باپ کی دل کھول کے رو لو
تم جس کی ہو شیدا وہ برادر نہ ملے گا
گھر بھر میں جو ڈھونڈو گی تو اکبر نہ ملے گا
ہشیار ہو کیا صبح سے بیہوش ہے خواہر
اصغرؔ کو کرو پیار کلیجے سے لگا کر
چھاتی سے لگو اٹھ کے کھڑی روتی ہیں مادر
ہم روتے ہیں دیکھو تو ذرا آنکھ اٹھا کر
افسوس، اسی طور سے غفلت میں رہو گی
کیا آخری بابا کی زیارت نہ کرو گی
سن کر یہ سخن شاہ کے آنسو نکل آئے
بیمار کے نزدیک گئے سر کو جھکائے
منہ دیکھ کے بانو کا سخن لب پہ یہ لائے
کیا ضعف و نقاہت ہے، خدا اس کو بچائے
جس صاحبِ آزار کا یہ حال ہو گھر میں
دانستہ میں کیوں کر اسے لے جاؤں سفر میں
کہہ کر یہ سخن بیٹھ گئے سید خوش خو
اور سورۂ الحمد پڑھا تھام کے بازو
بیمار نے پائی گلِ زہراؔ کی جو خوش بو
آنکھوں کو تو کھولا پہ ٹپکنے لگے آنسو
ماں سے کہا مجھ میں جو حواس آئے ہیں اماں
کیا میرے مسیحا مرے پاس آئے ہیں اماں
ماں نے کہا ہاں ہاں وہی آئے ہیں مری جاں
جو کہنا ہو کہہ لو کہ یہاں اور ہے ساماں
دیکھو تو ادھر روتے ہیں بی بی شہِ ذی شاں
صغراؔ نے کہا ان کی محبت کے میں قرباں
وہ کون سا ساماں ہے جو یوں روتے ہیں بابا
کھل کر کہو مجھ سے کہ جدا ہوتے ہیں بابا
یہ گھر کا سب اسباب گیا کس لئے باہر
نہ فرش، نہ ہے مسندِ فرزند پیمبر
دالان سے کیا ہوگیا گہورۂ اصغرؔ
اجڑا ہوا لوگو نظر آتا ہے مجھے گھر
کچھ منہ سے تو بولو مرا دم گھٹتا ہے اماں
کیا سبطِ پیمبر سے وطن چھٹتا ہے اماں
شبیرؔ کا منہ تکنے لگی بانوئے مغموم
صغراؔ کے لئے رونے لگیں زینبؔ و کلثومؔ
بیٹی سے یہ فرمانے لگی سیدِ مظلوم
پردہ رہا اب کیا تمہیں خود ہوگیا معلوم
تم چھٹتی ہو اس واسطے سب روتے ہیں صغراؔ
ہم آج سے آوارہ وطن ہوتے ہیں صغراؔ
اب شہر میں اک دم ہے ٹھہرنا مجھے دشوار
میں پا بہ رکاب، اور ہو تم صاحبِ آزار
پھر آتا ہے وہ گھر میں، سفر میں جو ہو بیمار
تکلیف تمہیں دوں یہ مناسب نہیں زنہار
غربت میں بشر کے لئے سو طرح کا ڈر ہے
میرا تو سفر رنج و مصیبت کا سفر ہے
لُو چلتی ہے خاک اڑتی ہے گرمی کے ہیں ایام
جنگل مین نہ راحت، نہ کہیں راہ میں آرام
بستی میں کہیں صبح، تو جنگل میں کہیں شام
دریا کہیں حائل، کہیں پانی کا نہیں نام
صحّت میں گوارا ہے جو تکلیف گذر جائے
اس طرح کا بیمار نہ مرتا ہو تو مرجائے
صغراؔ نے کہا کھانے سے خود ہے مجھے انکار
پانی جو کہیں راہ میں مانگوں تو گنہگار
کچھ بھوک کا شکوہ نہیں کرنے کی یہ بیمار
تبرید فقط آپ کا ہے شربتِ دیدار
گرمی میں بھی راحت سے گزر جائے گی بابا
آئے گا پسینہ تپ اتر جائے گی بابا
کیا تاب اگر منہ سے کہوں درد ہے سر میں
اف تک نہ کروں، بھڑکے اگر آگ جگر میں
بھولے سے بھی شب کو نہ کراہوں گی سفر میں
قربان گئی، چھوڑ نہ جاؤ مجھے گھر میں
ہو جانا خفا راہ میں گر روئے گی صغراؔ
یاں نیند کب آتی ہے جو واں سوئے گی صغراؔ
وہ بات نہ ہوگی، کہ جو بے چین ہوں مادر
ہر صبح میں پی لوں گی دوا آپ بنا کر
دن بھر، مری گودی میں رہیں گے علی اصغرؔ
لونڈی ہوں سکینہؔ کی، نہ سمجھو مجھے دختر
میں یہ نہیں کہتی کہ عماری میں بٹھا دو
بابا مجھے فضہ کی سواری میں بٹھا دو
شہہ بولے کہ واقف ہے مرے حال سے اللہ
میں کہہ نہیں سکتا مجھے درپیش ہے جو راہ
کھل جائے گا یہ راز بھی، گو تم نہیں آگاہ
ایسا بھی کوئی ہے جسے بیٹی کی نہ ہو چاہ
ناچار یہ فرقت کا الم سہتا ہوں صغراؔ
ہے مصلحتِ حق یہی جو کہتا ہوں صغراؔ
اے نورِ بصر آنکھوں پہ لے کر تجھے چلنا
تو مجھ سے بہلتی، مرا دل تجھ سے بہلتا
تپ ہے تجھے، اور غم سے جگر ہے مرا جلتا
یہ ضعف کہ دم تک نہیں سینے میں سنبھلتا
جز ہجر علاج اور کوئی ہو نہیں سکتا
دانستہ تمہیں ہاتھ سے میں کھو نہیں سکتا
منہ تکنے لگی ماں کا وہ بیمار بصد غم
چتون سے عیاں تھا کہ چلیں آپ موئے ہم
ماں کہتی تھی مختار ہیں، بی بی شہ عالم
میرے تو کلیجے پہ چھری چلتی ہے اس دم
وہ درد ہے جس درد سے چارا نہیں صغراؔ
تقدیر سے کچھ زور ہمارا نہیں صغراؔ
صغراؔ نے کہا کوئی کسی کا نہیں زنہار
سب کی یہی مرضی ہے کہ مر جائے یہ بیمار
اللہ نہ وہ آنکھ کسی کی ہے، نہ وہ پیار
اک ہم ہیں کہ ہیں، سب پہ فدا سب کے ہیں غم خوار
بیزار ہیں سب ایک بھی شفقت نہیں کرتا
سچ ہے کوئی مردے سے محبت نہیں کرتا
ہمشیر کے عاشق ہیں سلامت رہیں اکبرؔ
اتنا نہ کہا مر گئی یا جیتی ہے خواہر
میں گھر میں تڑپتی ہوں وہ ہیں صبح سے باہر
وہ کیا کریں برگشتہ ہے اپنا ہی مقدر
پوچھا نہ کسی نے کہ وہ بیمار کدھر ہے
نہ بھائیوں کو دھیان نہ بہنوں کو خبر ہے
کیا ان کو پڑی تھی جو وہ غم کھانے کو آتے
میں کون جو صورت مجھے دکھلانے کو آتے
ہوتی جو غرض چھاتی سے لپٹانے کو آتے
زلفیں جو الجھتی تو، سلجھوانے کو آتے
کل تک تو مرے حالِ پریشاں پہ نظر تھی
تقدیر کے اس پیچ کی مجھ کو نہ خبر تھی
مانوس سکینہؔ سے ہیں عباسؔ دلاور
میں کون ہوں جو میری خبر پوچھتے آ کر
سرسبز رہے خلق میں نو بادۂ شبّر
شادی میں بلائیں مجھے یہ بھی نہیں باور
بے دولہا بنے منہ کو چھپاتے ہیں ابھی سے
میں جیتی ہوں اور آنکھ چراتے ہیں ابھی سے
کس سے کہوں اس درد کو میں بیکس و رنجور
بہنیں بھی الگ مجھ سے ہیں اور بھائی بھی ہیں دور
اماں کا سخن یہ ہے کہ بیٹی میں ہوں مجبور
ہمراہیٔ بیمار کسی کو نہیں منظور
دنیا سے سفر، رنج و مصیبت میں لکھا تھا
تنہائی کا مرنا مری قسمت میں لکھا تھا
سب بیبیاں رونے لگیں سن سن کے یہ تقریر
چھاتی سے لگا کر اسے کہنے لگے شبیرؔ
لو صبر کرو، کوچ میں اب ہوتی ہے تاخیر
منہ دیکھ کے چپ رہ گئی وہ بیکس و دلگیر
نزدیک تھا دل چیر کے پہلو نکل آئے
اچھا تو کہا منہ سے پہ آنسو نکل آئے
بانو کو اشارہ کیا حضرت نے کہ جاؤ
اکبر کو بلاؤ، علیؔ اصغر کو بھی لاؤ
آئے علیؔ اکبر تو کہا شاہ نے آؤ
روٹھی ہے بہن تم سے گلے اس کو لگاؤ
چلتے ہوئے جی بھر کے ذرا پیار تو کر لو
لینے انہیں کب آؤ گے اقرار تو کر لو
پاس آن کے اکبرؔ نے یہ کی پیار کی تقریر
کیا مجھ سے خفا ہوگئیں صغراؔ مری تقصیر
چلانے لگی، چھاتی پہ منہ رکھ کے، وہ دلگیر
محبوب برادر ترے قربان یہ ہمشیر
صدقے ترے سر پر سے اتارے مجھے کوئی
بل کھائی ہوئی زلفوں پہ وارے مجھے کوئی
رخساروں پہ سبزے کے نکلنے کے میں صدقے
تلوار لئے شان سے چلنے کے میں صدقے
افسوس سے ان ہاتھوں کے ملنے کے میں صدقے
کیوں روتے ہو اشک آنکھوں سے ڈھلنے کے میں صدقے
جلد آن کے بھینا کی خبر لیجیو بھائی
بے میرے کہیں بیاہ نہ کر لیجیو بھائی
لکھنا مجھے نسبت کا اگر ہو کہیں سامان
حقدار ہوں میں نیگ کی میرا بھی رہے دھیان
اور مر گئی پیچھے تو رہے دل میں سب ارمان
لے آنا دولہن کو مری تربت پہ میں قربان
خوشنود مری روح کو کر دیجیو بھائی
حق نیگ کا تم قبر پہ دھر دیجیو بھائی
پیارے مرے بھیا مرے مہ رو، علیؔ اکبر
چھپ جائیں گے آنکھوں سے یہ گیسو، علیؔ اکبر
یاد آئے گی یہ جسم کی خوشبو، علیؔ اکبر
ڈھونڈھیں گی یہ آنکھیں تمہیں، ہر سو علیؔ اکبر
دل سینے میں کیوں کر تہہ و بالا نہ رہے گا
جب چاند چھپے گا تو اجالا نہ رہے گا
کیا گذرے گی جب گھر سے چلے جاؤ گے بھائی
کیسے مجھے ہر بات میں یاد آؤ گے بھائی
تشریف خدا جانیے کب لاؤ گے بھائی
کی دیر تو جیتا نہ ہمیں پاؤ گے بھائی
کیا دم کا بھروسہ کہ چراغِ سحری ہیں
تم آج مسافر ہو تو ہم کل سفری ہیں
ہا سچ ہے کہ بیمار کا بہتر نہیں جانا
صحت سے جو ہیں ان میں کہاں میرا ٹھکانا
بھیا جو اب آنا تو مری قبر پہ آنا
ہم گور کی منزل کی طرف ہوں گے روانا
کیا لطف کسی کو نہیں گر چاہ ہماری
وہ راہ تمہاری ہے تو یہ راہ ہماری
مرنا تو مقدم ہے، غم اس کا نہیں زنہار
ڈھڑکا ہے کہ جب ہوں گے عیاں موت کے آثار
قبلہ کی طرف، کون کرے گا رخِ بیمار
یٰسین بھی پڑھنے کو نہ ہوگا کوئی غم خوار
سانس اکھڑے گی جس وقت تو فریاد کروں گی
میں ہچکیاں لے لے کے تمہیں یاد کروں گی
ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغراؔ ترے قربان
گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جان
بیکس مری بچی، ترا اللہ نگہبان
صحّت ہو تجھے میری دعا ہے یہی ہر آن
کیا بھائی جدا بہنوں سے ہوتے نہیں بیٹا
کنبے کے لئے جان کو کھوتے نہیں بیٹا
میں صدقے گئی بس نہ کرو گریہ و زاری
اصغرؔ مرا روتا ہے صدا سن کے تمہاری
وہ کانپتے ہاتھوں کو اٹھا کر یہ پکاری
آ آ مرے ننھے سے مسافر ترے واری
چھٹتی ہے یہ بیمار بہن جان گئے تم
اصغرؔ مری آواز کو پہچان گئے تم
تم جاتے ہو اور ساتھ بہن جا نہیں سکتی
تپ ہے تمہیں چھاتی سے میں لپٹا نہیں سکتی
جو دل میں ہے لب پر وہ سخن لا نہیں سکتی
رکھ لوں تمہیں اماں کو بھی سمجھا نہیں سکتی
بیکس ہوں مرا کوئی مددگار نہیں ہے
تم ہو سو تمہیں طاقتِ گفتار نہیں ہے
معصوم نے جس دم یہ سنی درد کی گفتار
صغراؔ کی طرف ہاتھوں کو لٹکا دیا اک بار
لے لے کے بلائیں یہ لگی کہنے وہ بیمار
جھک جھک کے دکھاتے ہو مجھے آخری دیدار
دنیا سے کوئی دن میں گذر جائے گی صغراؔ
تم بھی یہ سمجھتے ہو کہ مر جائے گی صغراؔ
عباس نے اتنے میں یہ ڈیوڑھی سے پکارا
چلنے کو ہے اب قافلہ تیار ہمارا
لپٹا کے گلے فاطمہؔ صغرا کو دوبارا
اٹھے شہِ دیں، گھر تہہ و بالا ہوا سارا
جس چشم کو دیکھا سو وہ پر نم نظر آئی
اک مجلسِ ماتم تھی، کہ برہم نظر آئی
بیت الشرفِ خاص سے نکلے شہِ ابرار
روتے ہوئے ڈیوڑھی پہ گئے عترتِ اطہار
فراشوں کو عباس پکارے یہ بہ تکرار
پردے کی قناتوں سے خبردار! خبردار
باہر حرم آتے ہیں، رسول دوسرا کے
شقہ کوئی جھک جائے نہ جھونکے سے ہوا کے
لڑکا بھی جو کوٹھے پہ چڑھا ہو وہ اتر جائے
آتا ہو ادھر جو وہ، اسی جا پہ ٹھہر جائے
ناقے پہ بھی کوئی نہ برابر سے گذر جائے
دیتے رہو آواز جہاں تک کہ نظر جائے
مریمؔ سے سوا حق نے شرف ان کو دیئے ہیں
افلاک پہ آنکھوں کو ملک بند کیے ہیں
عباسؔ علی سے علیؔ اکبر نے کہا تب
ہیں قافلہ سالارِ حرم حضرت زینبؔ
پہلے وہ ہوں اسوار تو محمل میں چڑھیں سب
حضرت نے کہا ہاں یہی میرا بھی ہے مطلب
گھر میں مرنے زہراؔ کی جگہ بنتِ علیؔ ہے
میں جانتا ہوں ماں مرے ہمراہ چلی ہے
پہنچی جو ہیں ناقے کے قریں دخترِ حیدرؔ
خود ہاتھ پکڑنے کو بڑھے سبطِ پیمبر
فضہ تو سنبھالے ہوئے تھی گوشۂ چادر
تھے پردۂ محمل کو اٹھائے علیؔ اکبر
فرزند کمر بستہ چپ و راس کھڑے تھے
نعلین اٹھا لینے کو عباسؔ کھڑے تھے
اک دن تو مہیا تھا، یہ سامانِ سواری
اک روز تھا وہ، گرد تھے نیزے لئے ناری
محمل تھا، نہ ہودج، نہ کجاوہ، نہ عماری
بے پردہ تھی وہ حیدر کرار کی پیاری
ننھے کئی بچوں کے گلے ساتھ بندھے تھے
تھے بال کھلے چہروں پہ اور ہاتھ بندھے تھے
زینت دہِ محمل جو ہوئی دخترِزہراؓ
ناقوں پہ چڑھے سب حرمِ سیدِ والا
آنے لگے رہوار، کھلا گرد کا پردا
عباسؔ سے بولے یہ شہِ یثرب و بطحا
صدمہ ہے بچھڑنے کا مرے روحِ نبی پر
رخصت کو چلو قبرِ رسولِ عربی پر
ہے قبر پہ نانا کی مقدم مجھے جانا
کیا جانیے پھر ہو کہ نہ ہو شہر میں آنا
اماں کی ہے تربت پہ ابھی اشک بہانا
اس مرقدِ انور کو ہے آنکھوں سے لگانا
آخر تو لیے جاتی ہے تقدیرِ وطن سے
چلتے ہوئے ملنا ہے ابھی قبرِ حسنؔ سے
پیدل شہِ دیں روضۂ احمد کو سدھارے
تربت سے صدا آئی کہ آ آ مرے پیارے
تعویذ سے شبیرؔ لپٹ کر یہ پکارے
ملتا نہیں آرام نواسے کو تمہارے
خط کیا ہیں اجل کا یہ پیام آیا ہے نانا
آج آخری رخصت کو غلام آیا ہے نانا
خادم کو کہیں امن کی اب جا نہیں ملتی
راحت کوئی ساعت مرے مولا نہیں ملتی
دکھ کون سا اور کون سی ایذا نہیں ملتی
ہیں آپ جہاں، راہ وہ اصلا نہیں ملتی
پابندِ مصیبت ہوں گرفتارِ بلا ہوں
خود پاؤں سے اپنے طرفِ قبر چلا ہوں
میں اک تنِ تنہا ہوں ستم گار ہزاروں
اک جان ہے اور درپئے آزار ہزاروں
اک پھول سے رکھتے ہیں، خلشِ خار ہزاروں
اک سر ہے فقط اور خریدار ہزاروں
واں جمع کئی شہر کے خوں ریز ہوئے ہیں
خنجر مری گردن کے لئے تیز ہوئے ہیں
فرمایے اب جائے کدھر آپ کا شبیرؔ
یاں قید کی ہے فکر ادھر قتل کی تدبیر
تیغیں ہیں کہیں میرے لئے اور کہیں زنجیر
خوں ریزی کو کعبہ تلک آ پہنچے ہیں بے پیر
بچ جاؤں، جو پاس اپنے بلا لیجئے نانا
تربت میں نواسے کو چھپا لیجئے نانا
یہ کہہ کے مَلا قبر سے شہہ نے جو رخِ پاک
ہلنے لگا صدمے سے مزارِ شہِ لولاک
جنبش جو ہوئی قبر کو تھرا گئے افلاک
کانپی جو زمیں صحنِ مقدس میں اڑی خاک
اس شور میں آئی یہ صدا روضۂ جد سے
تم آگے چلو ہم بھی نکلتے ہیں لحد سے
باتوں نے تری دل کو مرے کر دیا مجروح
تو شہر سے جاتا ہے تڑپتی ہے مری روح
بے تیغ کیا، خنجرِ غم نے ترے مذبوح
ہے کشتیِٔ امت پہ تباہی، کہ چلا نوح
افلاکِ امامت کا تجھے بدر نہ سمجھے
بے قدر ہیں ظالم کہ تری قدر نہ سمجھے
مارا گیا جس روز سے شبرؔ مرا پیارا
اس روز سے ٹکڑے ہے کلیجہ مرا سارا
اب قتل میں ہوتا ہوں ترے ساتھ دوبارا
امت نے کیا پاسِ ادب خوب ہمارا
زہراؔ کی جو بستی کو اجاڑیں تو عجب کیا
اعدا مجھے تربت سے اکھاڑیں تو عجب کیا
اس ذکر پہ رویا کیے شہہ سر کو جھکائے
واں سے جو اٹھے فاطمہؔ کی قبر پہ آئے
پائینِ لحد گر کے بہت اشک بہائے
آواز یہ آئی کہ میں صدقے مرے جائے
ہے شور ترے کوچ کا جس دن سے وطن میں
پیارے میں اسی دن سے تڑپتی ہوں کفن میں
تربت میں جو کی میں نے بہت گریہ و زاری
گھبرا کے علیؔ آئے نجف سے کئی باری
کہتے تھے کہ اے احمدِ مختار کی پیاری
تم پاس ہو تربت ہے بہت دور ہماری
گھر لٹتا ہے کیوں کر ہمیں چین آئے گا زہراؓ
کیا ہم سے نہ رخصت کو حسینؔ آئے گا زہراؓ
میں نے جو کہا قبر سے کیوں نکلے ہو باہر
نہ سر پہ عمامہ ہے نہ ہے دوش پہ چادر
فرمایا کہ ماتم میں ہوں اے بنتِ پیمبر
مرنے کو پسر جاتا ہے برباد ہوا گھر
ترسیں گے وہ پانی کو جو نازوں کے پلے ہیں
تلواریں ہیں اب اور مرے بچوں کے گلے ہیں
پھرتا ہے مری آنکھوں میں شبیرؔ کا مقتل
وہ نہرِ فرات اور کئی کوس کا جنگل
وہ بجلیاں تلواروں کی اور شام کا بادل
دریا سے وہ پیاسوں کے ہٹا دینے کی ہلچل
شبیرؔ کے سر پر سے یہ آفت نہ ٹلے گی
دسویں کو محرم کی چھری مجھ پہ چلے گی
سن کر یہ بیاں باپ کا مادر کی زبانی
رو رو کے پکارا اسد اللہ کا جانی
ہاں والدہ سچ ہے نہ ملے گا مجھے پانی
پیاسے ہیں مرے خون کے یہ ظلم کے بانی
بچپن میں کیا تھا، مرا ماتم شہ دیں نے
نانا کو خبر دی تھی مری روح امیں نے
پہلو میں جو تھی فاطمہؔ کے تربتِ شبرؔ
اس قبر سے لپٹے بہ محبت شہِ صفدر
چلائے کہ شبیرؔ کی رخصت ہے برادر
حضرت کو تو پہلو ہوا اماں کا میسر
قبریں بھی جدا ہیں تہِ افلاک ہماری
دیکھیں ہمیں لے جائے کہاں خاک ہماری
یہ کہہ کے چلے قبر حسن سے شہِ مظلوم
رہوار جو مانگا تو سواری کی ہوئی دھوم
یارانِ وطن گرد تھے افسردۂ مغموم
چلاتے تھے خادم کہ چلا خلق کا مخدوم
خالی ہوا گھر آج رسول عربی کا
تابوت اسی دھوم سے نکلا تھا بنی کا
جب اٹھ گئی تھیں خلق سے مخدومۂ عالم
سر پیٹتے تھے لوگ اسی طرح سے باہم
برپا تھا جنازے پہ علیؔ کے یونہیں ماتم
تھا رحلتِ شبرؔ میں محبوں کا یہی غم
بس آج سے بے وارث و والی ہے مدینہ
اب پنجتن پاک سے خالی ہے مدینہ
چلاتی تھیں رانڈیں کہ چلی شہہ کی سواری
لے گا خبر اب کون مصیبت میں ہماری
آنکھوں سے یتیموں کی دُرِ اشک تھا جاری
مضطر تھے اپاہج ضعفا کرتے تھے زاری
کہتے تھے گدا، ہم کو غنی کون کرے گا
محتاجوں کی فاقہ شکنی کون کرے گا
تھا، ناکے تلک شہر کے اک شورِ قیامت
سمجھاتے ہوئے سب کو چلے جاتے تھے حضرت
رو رو کے وہ کہتا تھا جسے کرتے تھے رخصت
پائیں گے کہاں ہم، یہ غنیمت ہے زیارت
آخر تو بچھڑ کر کفِ افسوس ملیں گے
دس بیس قدم اور بھی ہمراہ چلیں گے
قسمیں انہیں دے دے کے کہا شہ نے کہ جاؤ
تکلیف تمہیں ہوتی ہے اب ساتھ نہ آؤ
اللہ کو سونپا تمہیں آنسو نہ بہاؤ
پھرنے کے نہیں، ہم سے بس اب ہاتھ اٹھاؤ
اس بیکس و تنہا کی خبر پوچھتے رہنا
یارو مری صغراؔ کی خبر پوچھتے رہنا
روتے ہوئے وہ لوگ پھرے شاہ سدھارے
جو صاحبِ قسمت تھے وہ ہمراہ سدھارے
کس شوق سے مردانِ حق آگاہ سدھارے
عابد طرفِ خانۂ اللہ سدھارے
اترے نہ مسافر کسی مخلوق کے گھر میں
عاشق کو کشش لے گئی معشوق کے گھر میں
روشن ہوئی کعبہ کی زمیں نورِ خدا سے
مکہ نے شرف اور بھی پایا شرفا سے
جھک جھک کے ملے، سبطِ پیمبر غربا سے
آباد ہوا شہر، نمازوں کی صدا سے
خوش ہو کے ہوا خواہ یہ کہتے تھے علیؓ کے
سب باپ کی خو بو ہے نواسے میں نبی کے
کعبے مین بھی اک دن نہ ملا شاہ کو آرام
کوفے سے چلے آتے تھے نامے سحر و شام
اعدا نے گذرنے نہ دیے، حج کے بھی ایام
کھولا پسرِ فاطمہ نے باندھ کے احرام
عازم طرفِ راہِ الٰہی ہوئے حضرت
تھی ہشتم ذی الحجہ کہ راہی ہوئے حضرت
جاتے تھے دل افسردہ و غمگیں شہِ ابرار
ہر گام پہ ہوتے تھے عیاں موت کے آثار
قبریں نظر آتیں کسی صحرا میں جو دو چار
فرماتے تھے شہ فاعتبرو یا اولی الابصار
جز خاک نہ ہوئے گا نشان بھی بدنوں کا
انجام یہ ہے ہم سے غریب الوطنوں کا
احباب کہیں، گھر ہے کہیں، آپ کہیں ہیں
آگے تو زمیں پر تھے پر اب زیرِ زمیں ہیں
خالی ہیں مکاں آپ تہِ خاک مکیں ہیں
جو دور نہ رہتے تھے وہ اب پاس نہیں ہیں
حسرت یہ رہی ہوگی کہ پہنچے نہ وطن میں
کیا منہ کو لپیٹے ہوئے سوتے ہیں کفن میں
باتیں تھیں یہی یاس کی اور درد کی تقریر
منزل پہ بھی آرام سے سوتے تھے نہ شبیرؔ
شب کو کہیں اترے، تو سحر کو ہوئے رہگیر
جلدی تھی کہ، ہو جائے شہادت میں نہ تاخیر
مقتل کا یہ تھا شوق شہِ جن و بشر کو
جس طرح سے ڈھونڈھے کوئی معشوق کے گھر کو
ملتا تھا کوئی مرد مسافر جو سر راہ
یوں پوچھتے تھے اس سے بہ حسرت شہہ ذی جاہ
ایسا کوئی صحرا بھی ہے اے بندۂ اللہ
اک نہر سوا جس میں ہو چشمہ نہ کوئی چاہ
کیا ملتا ہے، اس دشت میں اور کیا نہیں ملتا
ہم ڈھونڈھتے پھرتے ہیں، وہ صحرا نہیں ملتا
وہ عرض یہ کرتا تھا کہ سبطِ شہِ لولاک
ہے سخت پُر اندوہ، وہ صحرا تہہ افلاک
ہنستا ہوا واں جائے تو ہو جاتا ہے غمناک
سنتا ہوں وہاں دن کو اڑاتا ہے کوئی خاک
واں راتوں کو آتی ہے صدا سینہ زنی کی
درویش کی ممکن ہے سکونت نہ غنی کی
چلاتی ہے عورت کوئی ہے ہے مرے فرزند
اس دشت میں ہو جائے گا تو خاک کا پیوند
تلواروں سے ٹکرے یہیں ہوں گے ترے دلبند
پانی یہیں ہو جائے گا بچوں پہ ترے بند
پیارے تو اسی خاک پہ گھوڑے سے گرے گا
ہے ہے یہیں خنجر تری گردن پہ پھرے گا
اک شیر ترائی میں یہ چلاتا ہے دن رات
کٹ جائیں گے یاں ہاتھ مرے لال کے ہیہات
کیا حال کہوں نہر کا، اے شاہِ خوش اوقات
پانی تو نہیں شور، پہ مشہور ہے یہ بات
طائر بھی دمِ تشنہ دہانی نہیں پیتے
وحشی کبھی واں آن کے پانی نہیں پیتے
اس جا نہ اترتا ہے نہ دم لیتا ہے رہ گیر
ہے شور کہ اس آب میں ہے آگ کی تاثیر
پیاسوں کے لئے اس کی ہر اک موج ہے شمشیر
اس طرح ہوا چلتی ہے جس طرح چلیں تیر
بجھتی نہیں واں پیاس کس تشنہ گلو کی
بو آتی ہے اس نہر کے پانی میں لہو کی
اس شخص سے یہ کہہ کے چلے قبلۂ عالم
اللہ نے چاہا تو بسائیں گے اسے ہم
عاشق پہ بلا بعد بلا آتی ہے ہر دم
غم اور بڑھا، وصل کا عرصہ جو رہا کم
آفت یہ نئی فوج شہنشاہ میں آئی
مسلم کی شہادت کی خبر راہ میں آئی
غربت میں نہ ماتم کی سنائے خبر اللہ
طاری ہوا حضرت پہ عجب صدمۂ جانکاہ
گوندھے ہوئے سر کھول کے پیٹے حرمِ شاہ
فرماتے تھے شہ سب کو ہے درپیش یہی راہ
ہو گا وہی اللہ کو جو مدِ نظر ہے
آج ان کا ہوا کوچ، کل اپنا بھی سفر ہے
وارث کے لئے زوجۂ مسلم کا تھا یہ حال
محمل سے گری پڑتی تھی بکھرائے ہوئے بال
روتے تھے بہن کے لئے عباس خوش اقبال
وہ کہتی تھی ساتھ آئے تھے چھوٹے مرے دو لال
پوچھو تو کدھر وہ مرے پیارے گئے دونوں
فرماتے تھے شبیرؔ کہ مارے گئے دونوں
محمل تھے سب اس بی بی کے ہودج کے برابر
تھا شور کہ بیوہ ہوئی شبیرؔ کی خواہر
گھبرا گئی تھی مسلمِؔ مظلوم کی دختر
ہر بار یہی پوچھتی تھی ماں سے لپٹ کر
کیوں پیٹتی ہو کون جدا ہو گیا اماں
غربت میں مرے باپ پہ کیا ہو گیا اماں
اس دن سے تو اک ابر ستم فوج پہ چھایا
کھانا کئی دن قافلہ والوں نے نہ کھایا
رستے میں ابھی تھا اسداللہ کا جایا
جو چاند محرم کا فلک پر نظر آیا
سب نے مہِ نو لشکرِ شبیرؔ میں دیکھا
منہ شاہ نے آئینۂ شمشیر میں دیکھا
خویش و رفقا چاند کی تسلیم کو آئے
مجرے کو جھکے اور سخن لب پہ یہ لائے
یہ چاند مبارک ہو یداللہ کے جائے
کفار پہ تو فتح، اسی چاند میں پائے
رتبہ مہہ و خورشید سے بالا رہے تیرا
تا حشر زمانے میں اجالا رہے تیرا
حضرت نے دعا پڑھ کے یہ کی حق سے مناجات
کر رحم گنہگاروں پہ اے قاضیِٔ حاجات
سر دینے کا مشتاق ہوں عالِم ہے تری ذات
خنجر مری آنکھوں میں پھرا کرتا ہے دن رات
باقی ہیں جو راتیں وہ عبادت میں بسر ہوں
یہ زیست کے دس دن تری طاعت میں بسر ہوں
پہنچا دے مجھے جلدی بس اے خالقِ افلاک
اُس خاک پہ جس خاک سے ملتی ہے مری خاک
طالب ہے ترے قرب کا سبطِ شہہ لولاک
نہ ملک کی خواہش ہے نہ درکار ہے املاک
بیتاب ہے دل صبر کا یارا نہیں مجھ کو
اب فصل بجز وصل گوارا نہیں مجھو کو
اتنے میں یہ فضہؔ علیؔ اکبر کو پکاری
لو دیکھ چکی چاند ید اللہ کی پیاری
عادت ہے کہ وہ دیکھتی ہیں شکل تمہاری
آنکھوں کو کیے بند یہ فرماتی ہیں واری
آئے تو رخِ اکبرِ ذی قدر کو دیکھوں
شکل مہِ نو دیکھ چکی بدر کو دیکھوں
شہ داخلِ خیمہ ہوئے فرزند کے ہمراہ
منہ دیکھ چکی چاند ید اللہ کی پیاری
یہ چاند ہے کس طرح کا اے فاطمہؓ کے ماہ
فرمانے لگے رو کے بہن سے شہہِ ذی جاہ
سر تن سے مرا اس مہِ پُر غم میں کٹے گا
زینبؔ یہ مہینہ تمہیں ماتم میں کٹے گا
یہ آل نبی کی ہے مصیبت کا مہینا
یہ ظلم کا عشرہ ہے یہ آفت کا مہینا
پہنچا ہے غریبوں کی شہادت کا مہینا
آخر ہے بس اب عمر کی مدت کا مہینا
یہ بار امامت مری گردن سے اتر جائے
ہو خاتمہ بالخیر جو سر تن سے اتر جائے
گردوں پہ مہِ نو جو نمایاں ہے یہ ہمشیر
چڑھتی ہے مرے سر کے لئے چرخ پہ شمشیر
اس چاند میں کٹ جائے گا سب لشکرِ شبیر
نیزہ کوئی کھائے گا کلیجہ پہ، کوئی تیر
برچھی کسی جانباز کے پہلو میں لگے گی
شمشیر، کسی شیر کے پہلو میں لگے گی
خیمے کو جلا دیں گے، لٹے گا زر و زیور
اس ماہ میں ہوں گے نہ پدر اور نہ برادر
ماؤں سے پسر چھوٹیں گے بہنوں سے برادر
بیوہ کئی سیدانیاں ہوویں گی مقرر
گھڑکیں گے ستمگار جو رووے گی سکینہؔ
اس ماہ میں بے باپ کی ہووے گی سکینہؔ
دولہا کوئی ٹاپوں کے تلے ہوئے گا پامال
پیٹے گی کوئی تازہ دلہن کھولے ہوئے بال
تیروں سے کسی ماں کا جگر ہووئے گا غربال
نکلے گی کوئی کہتی ہوئی ہائے مرا لال
معصوموں کے سونے کی جگہ پائیں گے خالی
بچوں سے بھری گودیاں ہو جائیں گی خالی
اس عشرۂ اوّل میں نہ ہوئیں گے بہن ہم
تاریخِ سفر ہے دہم ماہِ محرم
عشرہ یہ وہ عشرہ ہے کہ اے زینبِؔ پُر غم
جس لال کی عاشق ہو وہ ہو جائے گا بے دم
دیکھو گی نہ پھر منہ علیؔ اکبر سے پسر کا
اب شام میں ہوئے گا تمہیں چاند صفر کا
رونے کے لئے حق نے بنائے ہیں یہ دس دن
ان روزوں خوشی ہو کہ کسی کو نہیں ممکن
لیویں گے مرا تعزیہ ہر شہر کے ساکن
اکبر کو جواں روئیں گے معصوموں کو کم سن
بھولیں ہمیں ایسے نہیں غم خوار ہمارے
ہوئیں گے سیہ پوش عزادار ہمارے
غش ہو گئی سن کر یہ بیاں زینبؔ پُر غم
خیمے میں اسی رات سے برپا ہوا ماتم
بیدار رہیں صبح تلک بیبیاں باہم
خیموں کو اکھڑوا کے چلے قبلۂ عالم
آخر وہی صحرا، وہی جنگل نظر آیا
تھی دوسری تاریخ کہ مقتل نظر آیا
اترے اسی میدانِ بلا خیز میں سرور
استادہ ہوئے، خیمۂ ناموسِ پیمبر
صحرا کی طرف دیکھ کے خوش ہو گئے اکبرؔ
دریا پہ ٹہلنے لگے عباسِؔ دلاور
شہہ بولے ہوا نہر کی بھائی تمہیں بھائی
ہاں شیر ہو دریا کی ترائی تمہیں بھائی
خامے کو بس اب روک انیسؔ جگر افگار
خالق سے دعا مانگ کہ اے ایزدِ غفار
زندہ رہیں دنیا میں شہہ دیں کے عزادار
غیر از غمِ شہ، ان کو نہ غم ہو کوئی زنہار
آنکھوں سے مزارِ شہِ دلگیر کو دیکھیں
اس سال میں بس روضۂ شبیرؔ کو دیکھیں
سادات کی بستی کے اجڑنے کی خبر ہے
در پیش ہے وہ غم، کہ جہاں زیر و زبر ہے
گل چاک گریباں ہیں صبا خاک بہ سر ہے
گل رو صفتِ غنچہ کمر بستہ گھڑے ہیں
سب ایک جگہ صورتِ گلدستہ کھڑے ہیں
آراستہ ہیں بہر سفر، سروِ قبا پوش
عمامے سروں پر ہیں عبائیں بسر دوش
یارانِ وطن ہوتے ہیں آپس میں ہم آغوش
حیراں کوئی تصویر کی صورت کوئی خاموش
منہ ملتا ہے رو کر کوئی سرور کے قدم پر
گر پڑتا ہے کوئی علیؔ اکبر کے قدم پر
عباسؔ کا منہ دیکھ کے کہتا ہے کوئی آہ
اب آنکھوں سے چھپ جائے گی تصویر یداللہ
کہتے ہیں گلے مل کے یہ قاسم کے ہوا خواہ
واللہ دلوں پر ہے عجب صدمۂ جانکاہ
ہم لوگوں سے شیریں سخنی کون کرے گا
یہ انس، یہ خُلقِ حسنی کون کرے گا
روتے ہیں وہ، جو عون و محمد کے ہیں، ہم سن
کہتے ہیں کہ مکتب میں نہ جی بہلے گا تم بن
اس داغ سے چین آئے ہمیں، یہ نہیں ممکن
گرمی کا مہینہ ہے سفر کے یہ نہیں دن
تم حضرتِ شبیرؔ کے سایے میں پلے ہو
کیوں دھوپ کی تکلیف اٹھانے کو چلے ہو
ہم جولیوں سے کہتے تھے وہ دونوں برادر
ہاں بھائیو تم بھی ہمیں یاد آؤ گے اکثر
پالا ہے ہمیں شاہ نے، ہم جائیں نہ کیوں کر
ماموں رہیں جنگل میں تو اپنا ہے وہی گھر
وہ دن ہو کہ ہم حقِّ غلامی سے ادا ہوں
تم بھی یہ دعا مانگو کہ ہم شہ پہ فدا ہوں
رخصت کے لئے لوگ چلے آتے ہیں باہم
ہر قلب حزیں ہے، تو ہر اک چشم ہے پُر نم
ایسا نہیں گھر کوئی کہ جس میں نہیں ماتم
غل ہے کہ چلا دلبرِ مخدومۂ عالم
خدام کھڑے پیٹتے ہیں قبر نبی کے
روضہ پہ اداسی ہے رسولِ عربی کے
ہے جب سے کھلا حالِ سفر بند ہے بازار
یہ جنسِ غم ارزاں ہے کہ روتے ہیں دکاں دار
خاک ارتی ہے ویرانیِ یثرب کے ہیں آثار
ہر کوچے میں ہے شور، کہ ہے ہے شہِ ابرار
اب یاں کوئی والی نہ رہا آہ ہمارا
جاتا ہے مدینے سے شہنشاہ ہمارا
تدبیر سفر میں ہیں ادھر سبطِ پیمبر
گھر میں کبھی آتے ہیں کبھی جاتے ہیں باہر
اسباب نکلواتے ہیں عباسؔ دلاور
تقسیم سواری کے تردد میں ہیں اکبرؔ
شہ کو جنہیں لے جانا ہے، وہ پاتے ہیں گھوڑے
خالی ہوا اصطبل، چلے آتے ہیں گھوڑے
حاضر درِ دولت پہ ہیں، سب یاور و انصار
کوئی تو کمر باندھتا ہے اور کوئی ہتھیار
ہودج بھی کسے جاتے ہیں، محمل بھی ہیں تیار
چلاتے ہیں درباں، کؤی آئے نہ خبردار
ہر محمل و ہودج پہ گھٹا ٹوپ پڑے ہیں
پردے کی قناتیں لئے فراش کھڑے ہیں
عوراتِ محلہ چلی آتی ہیں بصد غم
کہتی ہیں یہ دن رحلتِ زہراؔ سے نہیں کم
پُرسے کی طرح رونے کا غل ہوتا ہے ہر دم
فرش اٹھتا ہے کیا بچھتی ہے گویا صفِ ماتم
غل ہوتا ہے ہر سمت، جدا ہوتی ہے زینبؔ
ہر اک کے گلے ملتی ہے اور روتی ہے زینبؔ
لے لے کے بلائیں یہی سب کرتی ہیں تقریر
اس گرمی کے موسم میں کہاں جاتے ہیں شبیرؔ
سمجھاتی نہیں بھائی کو اے شاہ کی ہمشیر
مسلم کا خط آ لے تو کریں کوچ کی تدبیر
للّٰلہ ابھی قبر پیمبرؐ کو نہ چھوڑیں
گھر فاطمہؔ زہرا کا ہے اس گھر کو نہ چھوڑیں
وہ گھر ہے ملک رہتے تھے جس گھر کے نگہباں
کیوں اپنے بزرگوں کا مکاں کرتے ہیں ویراں
کوفے کی بھی خلقت تو نہیں صاحب ایماں
بی بی یہ مدینے کی تباہی کا ہے ساماں
ایک ایک شقی دشمنِ اولادِ علیؔ ہے
شمشیر ستم واں سرِ حیدر پہ چلی ہے
اجڑے گا مدینہ جو یہ گھر ہوئے گا خالی
بربادیِ یثرب کی بنا چرخ نے ڈالی
کیا جانیں پھر آئیں کہ نہ آئیں شہِ عالی
حضرت کے سوا کون ہے اس شہر کا والی
زہراؔ ہیں نہ حیدرؔ نہ پیمبر نہ حسنؔ ہیں
اب ان کی جگہ آپ ہیں یا شاہِ زمن ہیں
گرمی کا یہ دن اور پہاڑوں کا سفر آہ
ان چھوٹے سے بچوں کا نگہبان ہے اللہ
رستے کی مشقت سے کہاں ہیں ابھی آگاہ
ان کو تو نہ لے جائیں سفر میں شہِ ذی جاہ
قطرہ بھی دمِ تشنہ دہانی نہیں ملتا
کوسوں تلک اس راہ میں پانی نہیں ملتا
منہ دیکھ کے اصغر کا چلا آتا ہے رونا
آرام سے مادر کی کہاں گود میں سونا
جھولا یہ کہاں اور کہاں نرم بچھونا
لکھا تھا اسی سن میں مسافر انہیں ہونا
کیا ہوگا جو میداں میں ہوا گرم چلے گی
یہ پھول سے کمھلائیں گے، ماں ہاتھ ملے گی
ان بیبیوں سے کہتی تھی یہ شاہ کی ہمشیر
بہنوں ہمیں یثرب سے لئے جاتی ہے تقدیر
اس شہر میں رہنا نہیں ملتا کسی تدبیر
یہ خط پہ خط آئے ہیں کہ مجبور ہیں شبیرؔ
مجھ کو بھی ہے رنج ایسا کہ کچھ کہہ نہیں سکتی
بھائی سے جدا ہو کے مگر رہ نہیں سکتی
اماں کی لحد چھوڑ کے میں یاں سے نہ جاتی
فاقے بھی اگر ہوتے تو غم اس کا نہ کھاتی
بھائی کی طرف دیکھ کے شق ہوتی ہے چھاتی
بے جائے، مجھے بات کوئی بن نہیں آتی
ظاہر میں تو مابین لحد سوتی ہیں اماں
میں خواب میں جب دیکھتی ہوں روتی ہیں اماں
ہے روح پہ اماں کی قلق کرتی ہیں زاری
سر پیٹتے میں نے انہیں دیکھا کئی باری
روداد بیاں کر گئی ہیں مجھ سے وہ ساری
فرماتی تھیں بھائی سے خبر دار میں واری
غم خوار ہے تو اور خدا حافظِ جاں ہے
نہ باپ ہے سر پر مرے بچے کے نہ ماں ہے
یاد آتی ہے ہر دم مجھے اماں کی مصیبت
کچھ جان کی تھی فکر نہ ان کو دمِ رحلت
آہستہ یہ فرماتی تھیں باصد غم و حسرت
شبیرؔ سدھارے جو سوئے وادیِٔ غربت
اس دن مری تربت سے بھی منہ موڑیو زینبؔ
اس بھائی کو تنہا نہ کبھی چھوڑیو زینبؔ
اماں کی وصیت کو بجا لاؤں نہ کیوں کر
گھر بھائی سے تھا بھائی نہ ہوگا تو کہاں گھر
دو بہنیں ہیں ماں جائیاں اور ایک برادر
رسی سے بندھے ہاتھ کہ بلوے میں کھلے سر
جو ہووے سو ہو بھائی کے ہمراہ ہے زینبؔ
اس کوچ کے انجام سے آگاہ ہے زینبؔ
یہ کہتی تھی زینبؔ کہ پکارے شہِ عادل
تیار ہیں دروزاے پہ سب ہودج و محمل
طے شام تلک ہوگی کہیں آج کی منزل
رخصت کرو لوگوں کو بس اب رونے سے حاصل
چلتی ہے ہوا سرد ابھی وقت سحر ہے
بچے کئی ہمراہ ہیں گرمی کا سفر ہے
رخصت کرو ان کو جو کہ ہیں ملنے کو آئے
کہہ دو کوئی گہوارۂ اصغر کو بھی لائے
نادان سکینہؔ کہیں آنسو نہ بہائے
جانے کی خبر میری نہ صغراؔ کہیں پائے
ڈر ہے کہیں گھبرا کے نہ دم اس کا نکل جائے
باتیں کرو ایسی کہ وہ بیمار بہل جائے
رخصت کو ابھی قبر پیمبر پہ ہے جانا
کیا جانیے پھر ہو کہ نہ ہوئے مرا آنا
اماں کی لحد پر ہے ابھی اشک بہانا
اس مرقدِ انور کو ہے آنکھوں سے لگانا
آخر تو لئے جاتی ہے، تقدیر وطن سے
چلتے ہوئے ملنا ہے ابھی قبرِ حسن سے
سن کر یہ سخن بانوئے ناشاد پکاری
میں لٹتی ہوں کیسا سفر اور کیسی سواری
غش ہو گئی ہے فاطمہؔ صغرا مری پیاری
یہ کس کے لئے کرتے ہیں سب گریہ و زاری
اب کس پہ میں اس صاحبِ آزار کو چھوڑوں
اس حال میں کس طرح سے بیمار کو چھوڑوں
ماں ہوں میں، کلیجہ نہیں، سینہ میں سنبھلتا
صاحب مرے دل کو ہے کوئی ہاتھوں سے ملتا
میں تو اسے لے چلتی، یہ کچھ بس نہیں چلتا
رہ جاتیں جو بہنیں بھی تو دل اس کا بہلتا
دروازے پہ تیار سواری پہ کھڑی ہے
پر اب تو مجھے جان کی صغراؔ کی پڑی ہے
چلاتی تھی کبراؔ کہ بہن آنکھ تو کھولو
کہتی تھی سکینہؔ کہ ذرا منہ سے تو بولو
ہم جاتے ہیں تم اٹھ کے بغل گیر تو ہو لو
چھاتی سے لگو باپ کی دل کھول کے رو لو
تم جس کی ہو شیدا وہ برادر نہ ملے گا
گھر بھر میں جو ڈھونڈو گی تو اکبر نہ ملے گا
ہشیار ہو کیا صبح سے بیہوش ہے خواہر
اصغرؔ کو کرو پیار کلیجے سے لگا کر
چھاتی سے لگو اٹھ کے کھڑی روتی ہیں مادر
ہم روتے ہیں دیکھو تو ذرا آنکھ اٹھا کر
افسوس، اسی طور سے غفلت میں رہو گی
کیا آخری بابا کی زیارت نہ کرو گی
سن کر یہ سخن شاہ کے آنسو نکل آئے
بیمار کے نزدیک گئے سر کو جھکائے
منہ دیکھ کے بانو کا سخن لب پہ یہ لائے
کیا ضعف و نقاہت ہے، خدا اس کو بچائے
جس صاحبِ آزار کا یہ حال ہو گھر میں
دانستہ میں کیوں کر اسے لے جاؤں سفر میں
کہہ کر یہ سخن بیٹھ گئے سید خوش خو
اور سورۂ الحمد پڑھا تھام کے بازو
بیمار نے پائی گلِ زہراؔ کی جو خوش بو
آنکھوں کو تو کھولا پہ ٹپکنے لگے آنسو
ماں سے کہا مجھ میں جو حواس آئے ہیں اماں
کیا میرے مسیحا مرے پاس آئے ہیں اماں
ماں نے کہا ہاں ہاں وہی آئے ہیں مری جاں
جو کہنا ہو کہہ لو کہ یہاں اور ہے ساماں
دیکھو تو ادھر روتے ہیں بی بی شہِ ذی شاں
صغراؔ نے کہا ان کی محبت کے میں قرباں
وہ کون سا ساماں ہے جو یوں روتے ہیں بابا
کھل کر کہو مجھ سے کہ جدا ہوتے ہیں بابا
یہ گھر کا سب اسباب گیا کس لئے باہر
نہ فرش، نہ ہے مسندِ فرزند پیمبر
دالان سے کیا ہوگیا گہورۂ اصغرؔ
اجڑا ہوا لوگو نظر آتا ہے مجھے گھر
کچھ منہ سے تو بولو مرا دم گھٹتا ہے اماں
کیا سبطِ پیمبر سے وطن چھٹتا ہے اماں
شبیرؔ کا منہ تکنے لگی بانوئے مغموم
صغراؔ کے لئے رونے لگیں زینبؔ و کلثومؔ
بیٹی سے یہ فرمانے لگی سیدِ مظلوم
پردہ رہا اب کیا تمہیں خود ہوگیا معلوم
تم چھٹتی ہو اس واسطے سب روتے ہیں صغراؔ
ہم آج سے آوارہ وطن ہوتے ہیں صغراؔ
اب شہر میں اک دم ہے ٹھہرنا مجھے دشوار
میں پا بہ رکاب، اور ہو تم صاحبِ آزار
پھر آتا ہے وہ گھر میں، سفر میں جو ہو بیمار
تکلیف تمہیں دوں یہ مناسب نہیں زنہار
غربت میں بشر کے لئے سو طرح کا ڈر ہے
میرا تو سفر رنج و مصیبت کا سفر ہے
لُو چلتی ہے خاک اڑتی ہے گرمی کے ہیں ایام
جنگل مین نہ راحت، نہ کہیں راہ میں آرام
بستی میں کہیں صبح، تو جنگل میں کہیں شام
دریا کہیں حائل، کہیں پانی کا نہیں نام
صحّت میں گوارا ہے جو تکلیف گذر جائے
اس طرح کا بیمار نہ مرتا ہو تو مرجائے
صغراؔ نے کہا کھانے سے خود ہے مجھے انکار
پانی جو کہیں راہ میں مانگوں تو گنہگار
کچھ بھوک کا شکوہ نہیں کرنے کی یہ بیمار
تبرید فقط آپ کا ہے شربتِ دیدار
گرمی میں بھی راحت سے گزر جائے گی بابا
آئے گا پسینہ تپ اتر جائے گی بابا
کیا تاب اگر منہ سے کہوں درد ہے سر میں
اف تک نہ کروں، بھڑکے اگر آگ جگر میں
بھولے سے بھی شب کو نہ کراہوں گی سفر میں
قربان گئی، چھوڑ نہ جاؤ مجھے گھر میں
ہو جانا خفا راہ میں گر روئے گی صغراؔ
یاں نیند کب آتی ہے جو واں سوئے گی صغراؔ
وہ بات نہ ہوگی، کہ جو بے چین ہوں مادر
ہر صبح میں پی لوں گی دوا آپ بنا کر
دن بھر، مری گودی میں رہیں گے علی اصغرؔ
لونڈی ہوں سکینہؔ کی، نہ سمجھو مجھے دختر
میں یہ نہیں کہتی کہ عماری میں بٹھا دو
بابا مجھے فضہ کی سواری میں بٹھا دو
شہہ بولے کہ واقف ہے مرے حال سے اللہ
میں کہہ نہیں سکتا مجھے درپیش ہے جو راہ
کھل جائے گا یہ راز بھی، گو تم نہیں آگاہ
ایسا بھی کوئی ہے جسے بیٹی کی نہ ہو چاہ
ناچار یہ فرقت کا الم سہتا ہوں صغراؔ
ہے مصلحتِ حق یہی جو کہتا ہوں صغراؔ
اے نورِ بصر آنکھوں پہ لے کر تجھے چلنا
تو مجھ سے بہلتی، مرا دل تجھ سے بہلتا
تپ ہے تجھے، اور غم سے جگر ہے مرا جلتا
یہ ضعف کہ دم تک نہیں سینے میں سنبھلتا
جز ہجر علاج اور کوئی ہو نہیں سکتا
دانستہ تمہیں ہاتھ سے میں کھو نہیں سکتا
منہ تکنے لگی ماں کا وہ بیمار بصد غم
چتون سے عیاں تھا کہ چلیں آپ موئے ہم
ماں کہتی تھی مختار ہیں، بی بی شہ عالم
میرے تو کلیجے پہ چھری چلتی ہے اس دم
وہ درد ہے جس درد سے چارا نہیں صغراؔ
تقدیر سے کچھ زور ہمارا نہیں صغراؔ
صغراؔ نے کہا کوئی کسی کا نہیں زنہار
سب کی یہی مرضی ہے کہ مر جائے یہ بیمار
اللہ نہ وہ آنکھ کسی کی ہے، نہ وہ پیار
اک ہم ہیں کہ ہیں، سب پہ فدا سب کے ہیں غم خوار
بیزار ہیں سب ایک بھی شفقت نہیں کرتا
سچ ہے کوئی مردے سے محبت نہیں کرتا
ہمشیر کے عاشق ہیں سلامت رہیں اکبرؔ
اتنا نہ کہا مر گئی یا جیتی ہے خواہر
میں گھر میں تڑپتی ہوں وہ ہیں صبح سے باہر
وہ کیا کریں برگشتہ ہے اپنا ہی مقدر
پوچھا نہ کسی نے کہ وہ بیمار کدھر ہے
نہ بھائیوں کو دھیان نہ بہنوں کو خبر ہے
کیا ان کو پڑی تھی جو وہ غم کھانے کو آتے
میں کون جو صورت مجھے دکھلانے کو آتے
ہوتی جو غرض چھاتی سے لپٹانے کو آتے
زلفیں جو الجھتی تو، سلجھوانے کو آتے
کل تک تو مرے حالِ پریشاں پہ نظر تھی
تقدیر کے اس پیچ کی مجھ کو نہ خبر تھی
مانوس سکینہؔ سے ہیں عباسؔ دلاور
میں کون ہوں جو میری خبر پوچھتے آ کر
سرسبز رہے خلق میں نو بادۂ شبّر
شادی میں بلائیں مجھے یہ بھی نہیں باور
بے دولہا بنے منہ کو چھپاتے ہیں ابھی سے
میں جیتی ہوں اور آنکھ چراتے ہیں ابھی سے
کس سے کہوں اس درد کو میں بیکس و رنجور
بہنیں بھی الگ مجھ سے ہیں اور بھائی بھی ہیں دور
اماں کا سخن یہ ہے کہ بیٹی میں ہوں مجبور
ہمراہیٔ بیمار کسی کو نہیں منظور
دنیا سے سفر، رنج و مصیبت میں لکھا تھا
تنہائی کا مرنا مری قسمت میں لکھا تھا
سب بیبیاں رونے لگیں سن سن کے یہ تقریر
چھاتی سے لگا کر اسے کہنے لگے شبیرؔ
لو صبر کرو، کوچ میں اب ہوتی ہے تاخیر
منہ دیکھ کے چپ رہ گئی وہ بیکس و دلگیر
نزدیک تھا دل چیر کے پہلو نکل آئے
اچھا تو کہا منہ سے پہ آنسو نکل آئے
بانو کو اشارہ کیا حضرت نے کہ جاؤ
اکبر کو بلاؤ، علیؔ اصغر کو بھی لاؤ
آئے علیؔ اکبر تو کہا شاہ نے آؤ
روٹھی ہے بہن تم سے گلے اس کو لگاؤ
چلتے ہوئے جی بھر کے ذرا پیار تو کر لو
لینے انہیں کب آؤ گے اقرار تو کر لو
پاس آن کے اکبرؔ نے یہ کی پیار کی تقریر
کیا مجھ سے خفا ہوگئیں صغراؔ مری تقصیر
چلانے لگی، چھاتی پہ منہ رکھ کے، وہ دلگیر
محبوب برادر ترے قربان یہ ہمشیر
صدقے ترے سر پر سے اتارے مجھے کوئی
بل کھائی ہوئی زلفوں پہ وارے مجھے کوئی
رخساروں پہ سبزے کے نکلنے کے میں صدقے
تلوار لئے شان سے چلنے کے میں صدقے
افسوس سے ان ہاتھوں کے ملنے کے میں صدقے
کیوں روتے ہو اشک آنکھوں سے ڈھلنے کے میں صدقے
جلد آن کے بھینا کی خبر لیجیو بھائی
بے میرے کہیں بیاہ نہ کر لیجیو بھائی
لکھنا مجھے نسبت کا اگر ہو کہیں سامان
حقدار ہوں میں نیگ کی میرا بھی رہے دھیان
اور مر گئی پیچھے تو رہے دل میں سب ارمان
لے آنا دولہن کو مری تربت پہ میں قربان
خوشنود مری روح کو کر دیجیو بھائی
حق نیگ کا تم قبر پہ دھر دیجیو بھائی
پیارے مرے بھیا مرے مہ رو، علیؔ اکبر
چھپ جائیں گے آنکھوں سے یہ گیسو، علیؔ اکبر
یاد آئے گی یہ جسم کی خوشبو، علیؔ اکبر
ڈھونڈھیں گی یہ آنکھیں تمہیں، ہر سو علیؔ اکبر
دل سینے میں کیوں کر تہہ و بالا نہ رہے گا
جب چاند چھپے گا تو اجالا نہ رہے گا
کیا گذرے گی جب گھر سے چلے جاؤ گے بھائی
کیسے مجھے ہر بات میں یاد آؤ گے بھائی
تشریف خدا جانیے کب لاؤ گے بھائی
کی دیر تو جیتا نہ ہمیں پاؤ گے بھائی
کیا دم کا بھروسہ کہ چراغِ سحری ہیں
تم آج مسافر ہو تو ہم کل سفری ہیں
ہا سچ ہے کہ بیمار کا بہتر نہیں جانا
صحت سے جو ہیں ان میں کہاں میرا ٹھکانا
بھیا جو اب آنا تو مری قبر پہ آنا
ہم گور کی منزل کی طرف ہوں گے روانا
کیا لطف کسی کو نہیں گر چاہ ہماری
وہ راہ تمہاری ہے تو یہ راہ ہماری
مرنا تو مقدم ہے، غم اس کا نہیں زنہار
ڈھڑکا ہے کہ جب ہوں گے عیاں موت کے آثار
قبلہ کی طرف، کون کرے گا رخِ بیمار
یٰسین بھی پڑھنے کو نہ ہوگا کوئی غم خوار
سانس اکھڑے گی جس وقت تو فریاد کروں گی
میں ہچکیاں لے لے کے تمہیں یاد کروں گی
ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغراؔ ترے قربان
گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جان
بیکس مری بچی، ترا اللہ نگہبان
صحّت ہو تجھے میری دعا ہے یہی ہر آن
کیا بھائی جدا بہنوں سے ہوتے نہیں بیٹا
کنبے کے لئے جان کو کھوتے نہیں بیٹا
میں صدقے گئی بس نہ کرو گریہ و زاری
اصغرؔ مرا روتا ہے صدا سن کے تمہاری
وہ کانپتے ہاتھوں کو اٹھا کر یہ پکاری
آ آ مرے ننھے سے مسافر ترے واری
چھٹتی ہے یہ بیمار بہن جان گئے تم
اصغرؔ مری آواز کو پہچان گئے تم
تم جاتے ہو اور ساتھ بہن جا نہیں سکتی
تپ ہے تمہیں چھاتی سے میں لپٹا نہیں سکتی
جو دل میں ہے لب پر وہ سخن لا نہیں سکتی
رکھ لوں تمہیں اماں کو بھی سمجھا نہیں سکتی
بیکس ہوں مرا کوئی مددگار نہیں ہے
تم ہو سو تمہیں طاقتِ گفتار نہیں ہے
معصوم نے جس دم یہ سنی درد کی گفتار
صغراؔ کی طرف ہاتھوں کو لٹکا دیا اک بار
لے لے کے بلائیں یہ لگی کہنے وہ بیمار
جھک جھک کے دکھاتے ہو مجھے آخری دیدار
دنیا سے کوئی دن میں گذر جائے گی صغراؔ
تم بھی یہ سمجھتے ہو کہ مر جائے گی صغراؔ
عباس نے اتنے میں یہ ڈیوڑھی سے پکارا
چلنے کو ہے اب قافلہ تیار ہمارا
لپٹا کے گلے فاطمہؔ صغرا کو دوبارا
اٹھے شہِ دیں، گھر تہہ و بالا ہوا سارا
جس چشم کو دیکھا سو وہ پر نم نظر آئی
اک مجلسِ ماتم تھی، کہ برہم نظر آئی
بیت الشرفِ خاص سے نکلے شہِ ابرار
روتے ہوئے ڈیوڑھی پہ گئے عترتِ اطہار
فراشوں کو عباس پکارے یہ بہ تکرار
پردے کی قناتوں سے خبردار! خبردار
باہر حرم آتے ہیں، رسول دوسرا کے
شقہ کوئی جھک جائے نہ جھونکے سے ہوا کے
لڑکا بھی جو کوٹھے پہ چڑھا ہو وہ اتر جائے
آتا ہو ادھر جو وہ، اسی جا پہ ٹھہر جائے
ناقے پہ بھی کوئی نہ برابر سے گذر جائے
دیتے رہو آواز جہاں تک کہ نظر جائے
مریمؔ سے سوا حق نے شرف ان کو دیئے ہیں
افلاک پہ آنکھوں کو ملک بند کیے ہیں
عباسؔ علی سے علیؔ اکبر نے کہا تب
ہیں قافلہ سالارِ حرم حضرت زینبؔ
پہلے وہ ہوں اسوار تو محمل میں چڑھیں سب
حضرت نے کہا ہاں یہی میرا بھی ہے مطلب
گھر میں مرنے زہراؔ کی جگہ بنتِ علیؔ ہے
میں جانتا ہوں ماں مرے ہمراہ چلی ہے
پہنچی جو ہیں ناقے کے قریں دخترِ حیدرؔ
خود ہاتھ پکڑنے کو بڑھے سبطِ پیمبر
فضہ تو سنبھالے ہوئے تھی گوشۂ چادر
تھے پردۂ محمل کو اٹھائے علیؔ اکبر
فرزند کمر بستہ چپ و راس کھڑے تھے
نعلین اٹھا لینے کو عباسؔ کھڑے تھے
اک دن تو مہیا تھا، یہ سامانِ سواری
اک روز تھا وہ، گرد تھے نیزے لئے ناری
محمل تھا، نہ ہودج، نہ کجاوہ، نہ عماری
بے پردہ تھی وہ حیدر کرار کی پیاری
ننھے کئی بچوں کے گلے ساتھ بندھے تھے
تھے بال کھلے چہروں پہ اور ہاتھ بندھے تھے
زینت دہِ محمل جو ہوئی دخترِزہراؓ
ناقوں پہ چڑھے سب حرمِ سیدِ والا
آنے لگے رہوار، کھلا گرد کا پردا
عباسؔ سے بولے یہ شہِ یثرب و بطحا
صدمہ ہے بچھڑنے کا مرے روحِ نبی پر
رخصت کو چلو قبرِ رسولِ عربی پر
ہے قبر پہ نانا کی مقدم مجھے جانا
کیا جانیے پھر ہو کہ نہ ہو شہر میں آنا
اماں کی ہے تربت پہ ابھی اشک بہانا
اس مرقدِ انور کو ہے آنکھوں سے لگانا
آخر تو لیے جاتی ہے تقدیرِ وطن سے
چلتے ہوئے ملنا ہے ابھی قبرِ حسنؔ سے
پیدل شہِ دیں روضۂ احمد کو سدھارے
تربت سے صدا آئی کہ آ آ مرے پیارے
تعویذ سے شبیرؔ لپٹ کر یہ پکارے
ملتا نہیں آرام نواسے کو تمہارے
خط کیا ہیں اجل کا یہ پیام آیا ہے نانا
آج آخری رخصت کو غلام آیا ہے نانا
خادم کو کہیں امن کی اب جا نہیں ملتی
راحت کوئی ساعت مرے مولا نہیں ملتی
دکھ کون سا اور کون سی ایذا نہیں ملتی
ہیں آپ جہاں، راہ وہ اصلا نہیں ملتی
پابندِ مصیبت ہوں گرفتارِ بلا ہوں
خود پاؤں سے اپنے طرفِ قبر چلا ہوں
میں اک تنِ تنہا ہوں ستم گار ہزاروں
اک جان ہے اور درپئے آزار ہزاروں
اک پھول سے رکھتے ہیں، خلشِ خار ہزاروں
اک سر ہے فقط اور خریدار ہزاروں
واں جمع کئی شہر کے خوں ریز ہوئے ہیں
خنجر مری گردن کے لئے تیز ہوئے ہیں
فرمایے اب جائے کدھر آپ کا شبیرؔ
یاں قید کی ہے فکر ادھر قتل کی تدبیر
تیغیں ہیں کہیں میرے لئے اور کہیں زنجیر
خوں ریزی کو کعبہ تلک آ پہنچے ہیں بے پیر
بچ جاؤں، جو پاس اپنے بلا لیجئے نانا
تربت میں نواسے کو چھپا لیجئے نانا
یہ کہہ کے مَلا قبر سے شہہ نے جو رخِ پاک
ہلنے لگا صدمے سے مزارِ شہِ لولاک
جنبش جو ہوئی قبر کو تھرا گئے افلاک
کانپی جو زمیں صحنِ مقدس میں اڑی خاک
اس شور میں آئی یہ صدا روضۂ جد سے
تم آگے چلو ہم بھی نکلتے ہیں لحد سے
باتوں نے تری دل کو مرے کر دیا مجروح
تو شہر سے جاتا ہے تڑپتی ہے مری روح
بے تیغ کیا، خنجرِ غم نے ترے مذبوح
ہے کشتیِٔ امت پہ تباہی، کہ چلا نوح
افلاکِ امامت کا تجھے بدر نہ سمجھے
بے قدر ہیں ظالم کہ تری قدر نہ سمجھے
مارا گیا جس روز سے شبرؔ مرا پیارا
اس روز سے ٹکڑے ہے کلیجہ مرا سارا
اب قتل میں ہوتا ہوں ترے ساتھ دوبارا
امت نے کیا پاسِ ادب خوب ہمارا
زہراؔ کی جو بستی کو اجاڑیں تو عجب کیا
اعدا مجھے تربت سے اکھاڑیں تو عجب کیا
اس ذکر پہ رویا کیے شہہ سر کو جھکائے
واں سے جو اٹھے فاطمہؔ کی قبر پہ آئے
پائینِ لحد گر کے بہت اشک بہائے
آواز یہ آئی کہ میں صدقے مرے جائے
ہے شور ترے کوچ کا جس دن سے وطن میں
پیارے میں اسی دن سے تڑپتی ہوں کفن میں
تربت میں جو کی میں نے بہت گریہ و زاری
گھبرا کے علیؔ آئے نجف سے کئی باری
کہتے تھے کہ اے احمدِ مختار کی پیاری
تم پاس ہو تربت ہے بہت دور ہماری
گھر لٹتا ہے کیوں کر ہمیں چین آئے گا زہراؓ
کیا ہم سے نہ رخصت کو حسینؔ آئے گا زہراؓ
میں نے جو کہا قبر سے کیوں نکلے ہو باہر
نہ سر پہ عمامہ ہے نہ ہے دوش پہ چادر
فرمایا کہ ماتم میں ہوں اے بنتِ پیمبر
مرنے کو پسر جاتا ہے برباد ہوا گھر
ترسیں گے وہ پانی کو جو نازوں کے پلے ہیں
تلواریں ہیں اب اور مرے بچوں کے گلے ہیں
پھرتا ہے مری آنکھوں میں شبیرؔ کا مقتل
وہ نہرِ فرات اور کئی کوس کا جنگل
وہ بجلیاں تلواروں کی اور شام کا بادل
دریا سے وہ پیاسوں کے ہٹا دینے کی ہلچل
شبیرؔ کے سر پر سے یہ آفت نہ ٹلے گی
دسویں کو محرم کی چھری مجھ پہ چلے گی
سن کر یہ بیاں باپ کا مادر کی زبانی
رو رو کے پکارا اسد اللہ کا جانی
ہاں والدہ سچ ہے نہ ملے گا مجھے پانی
پیاسے ہیں مرے خون کے یہ ظلم کے بانی
بچپن میں کیا تھا، مرا ماتم شہ دیں نے
نانا کو خبر دی تھی مری روح امیں نے
پہلو میں جو تھی فاطمہؔ کے تربتِ شبرؔ
اس قبر سے لپٹے بہ محبت شہِ صفدر
چلائے کہ شبیرؔ کی رخصت ہے برادر
حضرت کو تو پہلو ہوا اماں کا میسر
قبریں بھی جدا ہیں تہِ افلاک ہماری
دیکھیں ہمیں لے جائے کہاں خاک ہماری
یہ کہہ کے چلے قبر حسن سے شہِ مظلوم
رہوار جو مانگا تو سواری کی ہوئی دھوم
یارانِ وطن گرد تھے افسردۂ مغموم
چلاتے تھے خادم کہ چلا خلق کا مخدوم
خالی ہوا گھر آج رسول عربی کا
تابوت اسی دھوم سے نکلا تھا بنی کا
جب اٹھ گئی تھیں خلق سے مخدومۂ عالم
سر پیٹتے تھے لوگ اسی طرح سے باہم
برپا تھا جنازے پہ علیؔ کے یونہیں ماتم
تھا رحلتِ شبرؔ میں محبوں کا یہی غم
بس آج سے بے وارث و والی ہے مدینہ
اب پنجتن پاک سے خالی ہے مدینہ
چلاتی تھیں رانڈیں کہ چلی شہہ کی سواری
لے گا خبر اب کون مصیبت میں ہماری
آنکھوں سے یتیموں کی دُرِ اشک تھا جاری
مضطر تھے اپاہج ضعفا کرتے تھے زاری
کہتے تھے گدا، ہم کو غنی کون کرے گا
محتاجوں کی فاقہ شکنی کون کرے گا
تھا، ناکے تلک شہر کے اک شورِ قیامت
سمجھاتے ہوئے سب کو چلے جاتے تھے حضرت
رو رو کے وہ کہتا تھا جسے کرتے تھے رخصت
پائیں گے کہاں ہم، یہ غنیمت ہے زیارت
آخر تو بچھڑ کر کفِ افسوس ملیں گے
دس بیس قدم اور بھی ہمراہ چلیں گے
قسمیں انہیں دے دے کے کہا شہ نے کہ جاؤ
تکلیف تمہیں ہوتی ہے اب ساتھ نہ آؤ
اللہ کو سونپا تمہیں آنسو نہ بہاؤ
پھرنے کے نہیں، ہم سے بس اب ہاتھ اٹھاؤ
اس بیکس و تنہا کی خبر پوچھتے رہنا
یارو مری صغراؔ کی خبر پوچھتے رہنا
روتے ہوئے وہ لوگ پھرے شاہ سدھارے
جو صاحبِ قسمت تھے وہ ہمراہ سدھارے
کس شوق سے مردانِ حق آگاہ سدھارے
عابد طرفِ خانۂ اللہ سدھارے
اترے نہ مسافر کسی مخلوق کے گھر میں
عاشق کو کشش لے گئی معشوق کے گھر میں
روشن ہوئی کعبہ کی زمیں نورِ خدا سے
مکہ نے شرف اور بھی پایا شرفا سے
جھک جھک کے ملے، سبطِ پیمبر غربا سے
آباد ہوا شہر، نمازوں کی صدا سے
خوش ہو کے ہوا خواہ یہ کہتے تھے علیؓ کے
سب باپ کی خو بو ہے نواسے میں نبی کے
کعبے مین بھی اک دن نہ ملا شاہ کو آرام
کوفے سے چلے آتے تھے نامے سحر و شام
اعدا نے گذرنے نہ دیے، حج کے بھی ایام
کھولا پسرِ فاطمہ نے باندھ کے احرام
عازم طرفِ راہِ الٰہی ہوئے حضرت
تھی ہشتم ذی الحجہ کہ راہی ہوئے حضرت
جاتے تھے دل افسردہ و غمگیں شہِ ابرار
ہر گام پہ ہوتے تھے عیاں موت کے آثار
قبریں نظر آتیں کسی صحرا میں جو دو چار
فرماتے تھے شہ فاعتبرو یا اولی الابصار
جز خاک نہ ہوئے گا نشان بھی بدنوں کا
انجام یہ ہے ہم سے غریب الوطنوں کا
احباب کہیں، گھر ہے کہیں، آپ کہیں ہیں
آگے تو زمیں پر تھے پر اب زیرِ زمیں ہیں
خالی ہیں مکاں آپ تہِ خاک مکیں ہیں
جو دور نہ رہتے تھے وہ اب پاس نہیں ہیں
حسرت یہ رہی ہوگی کہ پہنچے نہ وطن میں
کیا منہ کو لپیٹے ہوئے سوتے ہیں کفن میں
باتیں تھیں یہی یاس کی اور درد کی تقریر
منزل پہ بھی آرام سے سوتے تھے نہ شبیرؔ
شب کو کہیں اترے، تو سحر کو ہوئے رہگیر
جلدی تھی کہ، ہو جائے شہادت میں نہ تاخیر
مقتل کا یہ تھا شوق شہِ جن و بشر کو
جس طرح سے ڈھونڈھے کوئی معشوق کے گھر کو
ملتا تھا کوئی مرد مسافر جو سر راہ
یوں پوچھتے تھے اس سے بہ حسرت شہہ ذی جاہ
ایسا کوئی صحرا بھی ہے اے بندۂ اللہ
اک نہر سوا جس میں ہو چشمہ نہ کوئی چاہ
کیا ملتا ہے، اس دشت میں اور کیا نہیں ملتا
ہم ڈھونڈھتے پھرتے ہیں، وہ صحرا نہیں ملتا
وہ عرض یہ کرتا تھا کہ سبطِ شہِ لولاک
ہے سخت پُر اندوہ، وہ صحرا تہہ افلاک
ہنستا ہوا واں جائے تو ہو جاتا ہے غمناک
سنتا ہوں وہاں دن کو اڑاتا ہے کوئی خاک
واں راتوں کو آتی ہے صدا سینہ زنی کی
درویش کی ممکن ہے سکونت نہ غنی کی
چلاتی ہے عورت کوئی ہے ہے مرے فرزند
اس دشت میں ہو جائے گا تو خاک کا پیوند
تلواروں سے ٹکرے یہیں ہوں گے ترے دلبند
پانی یہیں ہو جائے گا بچوں پہ ترے بند
پیارے تو اسی خاک پہ گھوڑے سے گرے گا
ہے ہے یہیں خنجر تری گردن پہ پھرے گا
اک شیر ترائی میں یہ چلاتا ہے دن رات
کٹ جائیں گے یاں ہاتھ مرے لال کے ہیہات
کیا حال کہوں نہر کا، اے شاہِ خوش اوقات
پانی تو نہیں شور، پہ مشہور ہے یہ بات
طائر بھی دمِ تشنہ دہانی نہیں پیتے
وحشی کبھی واں آن کے پانی نہیں پیتے
اس جا نہ اترتا ہے نہ دم لیتا ہے رہ گیر
ہے شور کہ اس آب میں ہے آگ کی تاثیر
پیاسوں کے لئے اس کی ہر اک موج ہے شمشیر
اس طرح ہوا چلتی ہے جس طرح چلیں تیر
بجھتی نہیں واں پیاس کس تشنہ گلو کی
بو آتی ہے اس نہر کے پانی میں لہو کی
اس شخص سے یہ کہہ کے چلے قبلۂ عالم
اللہ نے چاہا تو بسائیں گے اسے ہم
عاشق پہ بلا بعد بلا آتی ہے ہر دم
غم اور بڑھا، وصل کا عرصہ جو رہا کم
آفت یہ نئی فوج شہنشاہ میں آئی
مسلم کی شہادت کی خبر راہ میں آئی
غربت میں نہ ماتم کی سنائے خبر اللہ
طاری ہوا حضرت پہ عجب صدمۂ جانکاہ
گوندھے ہوئے سر کھول کے پیٹے حرمِ شاہ
فرماتے تھے شہ سب کو ہے درپیش یہی راہ
ہو گا وہی اللہ کو جو مدِ نظر ہے
آج ان کا ہوا کوچ، کل اپنا بھی سفر ہے
وارث کے لئے زوجۂ مسلم کا تھا یہ حال
محمل سے گری پڑتی تھی بکھرائے ہوئے بال
روتے تھے بہن کے لئے عباس خوش اقبال
وہ کہتی تھی ساتھ آئے تھے چھوٹے مرے دو لال
پوچھو تو کدھر وہ مرے پیارے گئے دونوں
فرماتے تھے شبیرؔ کہ مارے گئے دونوں
محمل تھے سب اس بی بی کے ہودج کے برابر
تھا شور کہ بیوہ ہوئی شبیرؔ کی خواہر
گھبرا گئی تھی مسلمِؔ مظلوم کی دختر
ہر بار یہی پوچھتی تھی ماں سے لپٹ کر
کیوں پیٹتی ہو کون جدا ہو گیا اماں
غربت میں مرے باپ پہ کیا ہو گیا اماں
اس دن سے تو اک ابر ستم فوج پہ چھایا
کھانا کئی دن قافلہ والوں نے نہ کھایا
رستے میں ابھی تھا اسداللہ کا جایا
جو چاند محرم کا فلک پر نظر آیا
سب نے مہِ نو لشکرِ شبیرؔ میں دیکھا
منہ شاہ نے آئینۂ شمشیر میں دیکھا
خویش و رفقا چاند کی تسلیم کو آئے
مجرے کو جھکے اور سخن لب پہ یہ لائے
یہ چاند مبارک ہو یداللہ کے جائے
کفار پہ تو فتح، اسی چاند میں پائے
رتبہ مہہ و خورشید سے بالا رہے تیرا
تا حشر زمانے میں اجالا رہے تیرا
حضرت نے دعا پڑھ کے یہ کی حق سے مناجات
کر رحم گنہگاروں پہ اے قاضیِٔ حاجات
سر دینے کا مشتاق ہوں عالِم ہے تری ذات
خنجر مری آنکھوں میں پھرا کرتا ہے دن رات
باقی ہیں جو راتیں وہ عبادت میں بسر ہوں
یہ زیست کے دس دن تری طاعت میں بسر ہوں
پہنچا دے مجھے جلدی بس اے خالقِ افلاک
اُس خاک پہ جس خاک سے ملتی ہے مری خاک
طالب ہے ترے قرب کا سبطِ شہہ لولاک
نہ ملک کی خواہش ہے نہ درکار ہے املاک
بیتاب ہے دل صبر کا یارا نہیں مجھ کو
اب فصل بجز وصل گوارا نہیں مجھو کو
اتنے میں یہ فضہؔ علیؔ اکبر کو پکاری
لو دیکھ چکی چاند ید اللہ کی پیاری
عادت ہے کہ وہ دیکھتی ہیں شکل تمہاری
آنکھوں کو کیے بند یہ فرماتی ہیں واری
آئے تو رخِ اکبرِ ذی قدر کو دیکھوں
شکل مہِ نو دیکھ چکی بدر کو دیکھوں
شہ داخلِ خیمہ ہوئے فرزند کے ہمراہ
منہ دیکھ چکی چاند ید اللہ کی پیاری
یہ چاند ہے کس طرح کا اے فاطمہؓ کے ماہ
فرمانے لگے رو کے بہن سے شہہِ ذی جاہ
سر تن سے مرا اس مہِ پُر غم میں کٹے گا
زینبؔ یہ مہینہ تمہیں ماتم میں کٹے گا
یہ آل نبی کی ہے مصیبت کا مہینا
یہ ظلم کا عشرہ ہے یہ آفت کا مہینا
پہنچا ہے غریبوں کی شہادت کا مہینا
آخر ہے بس اب عمر کی مدت کا مہینا
یہ بار امامت مری گردن سے اتر جائے
ہو خاتمہ بالخیر جو سر تن سے اتر جائے
گردوں پہ مہِ نو جو نمایاں ہے یہ ہمشیر
چڑھتی ہے مرے سر کے لئے چرخ پہ شمشیر
اس چاند میں کٹ جائے گا سب لشکرِ شبیر
نیزہ کوئی کھائے گا کلیجہ پہ، کوئی تیر
برچھی کسی جانباز کے پہلو میں لگے گی
شمشیر، کسی شیر کے پہلو میں لگے گی
خیمے کو جلا دیں گے، لٹے گا زر و زیور
اس ماہ میں ہوں گے نہ پدر اور نہ برادر
ماؤں سے پسر چھوٹیں گے بہنوں سے برادر
بیوہ کئی سیدانیاں ہوویں گی مقرر
گھڑکیں گے ستمگار جو رووے گی سکینہؔ
اس ماہ میں بے باپ کی ہووے گی سکینہؔ
دولہا کوئی ٹاپوں کے تلے ہوئے گا پامال
پیٹے گی کوئی تازہ دلہن کھولے ہوئے بال
تیروں سے کسی ماں کا جگر ہووئے گا غربال
نکلے گی کوئی کہتی ہوئی ہائے مرا لال
معصوموں کے سونے کی جگہ پائیں گے خالی
بچوں سے بھری گودیاں ہو جائیں گی خالی
اس عشرۂ اوّل میں نہ ہوئیں گے بہن ہم
تاریخِ سفر ہے دہم ماہِ محرم
عشرہ یہ وہ عشرہ ہے کہ اے زینبِؔ پُر غم
جس لال کی عاشق ہو وہ ہو جائے گا بے دم
دیکھو گی نہ پھر منہ علیؔ اکبر سے پسر کا
اب شام میں ہوئے گا تمہیں چاند صفر کا
رونے کے لئے حق نے بنائے ہیں یہ دس دن
ان روزوں خوشی ہو کہ کسی کو نہیں ممکن
لیویں گے مرا تعزیہ ہر شہر کے ساکن
اکبر کو جواں روئیں گے معصوموں کو کم سن
بھولیں ہمیں ایسے نہیں غم خوار ہمارے
ہوئیں گے سیہ پوش عزادار ہمارے
غش ہو گئی سن کر یہ بیاں زینبؔ پُر غم
خیمے میں اسی رات سے برپا ہوا ماتم
بیدار رہیں صبح تلک بیبیاں باہم
خیموں کو اکھڑوا کے چلے قبلۂ عالم
آخر وہی صحرا، وہی جنگل نظر آیا
تھی دوسری تاریخ کہ مقتل نظر آیا
اترے اسی میدانِ بلا خیز میں سرور
استادہ ہوئے، خیمۂ ناموسِ پیمبر
صحرا کی طرف دیکھ کے خوش ہو گئے اکبرؔ
دریا پہ ٹہلنے لگے عباسِؔ دلاور
شہہ بولے ہوا نہر کی بھائی تمہیں بھائی
ہاں شیر ہو دریا کی ترائی تمہیں بھائی
خامے کو بس اب روک انیسؔ جگر افگار
خالق سے دعا مانگ کہ اے ایزدِ غفار
زندہ رہیں دنیا میں شہہ دیں کے عزادار
غیر از غمِ شہ، ان کو نہ غم ہو کوئی زنہار
آنکھوں سے مزارِ شہِ دلگیر کو دیکھیں
اس سال میں بس روضۂ شبیرؔ کو دیکھیں
-
ہنگامہ چرخ تو نے جفا کا اٹھا دیا
شیوہ ستم کا تیرہ دلوں کو سکھا دیا
خیمہ انھوں نے ابن علی کا جلا دیا
پردہ سا رہ گیا تھا کچھ اک سو اٹھا دیا
کیا تونے آنکھیں موندلیں اے تیرے سر پہ خاک
ماں اس کی فاطمہ گئی عالم سے دردناک
باپ اس کا بوتراب ہوا کوفے میں ہلاک
بھائی حسن کو زہر پلا کر سلا دیا
ہے نقش وہ جو کھینچ گیا ہے کدورتیں
بیٹا بھتیجا دونوں تھے گویا کہ مورتیں
تھیں آب و رنگ صفحۂ عالم وہ صورتیں
سو بات کہتے تونے انھوں کو مٹا دیا
آزار تیرے جور سے انواع پا گیا
یاقوت پارے خاک میں اپنے ملا گیا
کیا کیا زیاں حسین جہاں میں اٹھا گیا
ناموس دی بہ باد جدا سر جدا دیا
مرنا حسین کا ہے فلک یوں نہ جائے گا
حلق بریدہ سے جو وہ عرصے میں آئے گا
ہر گام ایک تازہ قیامت اٹھائے گا
یہ وہ نہ ہو کہ خون کیا پھر دبا دیا
آنکھوں میں اس کی ہو نہ جہاں کس طرح سیاہ
کیا سوجھے اس کو چہرے پہ کس کے کرے نگاہ
اکبر اندھیرے گھر کا اجالا تھا اس کے آہ
باد ستم نے تس کو دیا سا بجھا دیا
اصغر کو خیمہ گاہ سے لایا تھا تشنہ کام
سو کام ایک تیر میں اس کا ہوا تمام
پانی کا پھر حسین نے ہرگز لیا نہ نام
دیکھا کہ طفل شیر کو لوہو چٹا دیا
ہمدم جو تھے حسین کے مارے گئے سبھی
یاری کی یاوری کی نہ مہلت کسو کو دی
عباس جس سے بازو امامت کا تھا قوی
تیغ جفا سے بازو ہی اس کا کٹا دیا
قاسم چراغ بھائی کا آیا بتنگ ہو
کہنے لگا کہ میرے تئیں حکم جنگ ہو
تاچند زندگانی وبال اور ننگ ہو
افسردگی کہاں تئیں جیسے بجھا دیا
بولا چچا کہ دل میں جو کرتا ہوں میں تمیز
پاتا ہوں اپنے بیٹوں سے بھی تیرے تیں عزیز
تیرے عوض جہاں کو اگر دیں تو کیا ہے چیز
ہونے نے تیرے بھائی کے غم کو بھلا دیا
دل تنگ دیکھتا ہوں تو لاچار میں تجھے
ورنہ نہ دیکھوں بیکس و بے یار میں تجھے
اس آگ میں نہ جانے دوں زنہار میں تجھے
مت جان کو جلا تجھے کٹے لگا دیا
اس ماجرے کو گرچہ دیا اس جواں نے طول
پر بات اس کی آگے چچا کے نہ ہوئی قبول
جب دیکھا مدعا نہیں ہوتا ہے یوں حصول
بازو سے کھول باپ کا اپنے لکھا دیا
پوچھا کہ کیا ہے یہ تو کہا کیجیے نظر
لکھ دے گیا تھا مجھ کو دم مرگ یہ پدر
پڑھتے ہی اس کے خون ہوا غم سے سب جگر
مغموم ہو کے فرق مبارک جھکا دیا
اس میں لکھا تھا یہ کہ سن اے مایۂ حیات
میں تو موا پہ یاد رہے تجھ کو میری بات
ایسا نہ کیجیوکہ کہے سن کے کائنات
ابن حسن نے ساتھ چچا کا بھلا دیا
القصہ پڑھ کے ساتھ بھتیجے کے تیں لیا
اہل حرم کو خیمے میں جا ایک جا کیا
اک جامہ بیش قیمتی اپنا اسے دیا
رو رو نکاح بیٹی کا اس سے پڑھا دیا
رسمیں ہنوز باقی تھیں جو آئی اک صدا
کاے سیدو مگر نہیں تم میں کوئی رہا
حاضر براے جنگ ہو قاسم جو اٹھ چلا
چلنے نے ایسے اس کے سبھوں کو رلا دیا
آیا دلھن سے حشر کا وعدہ جو درمیاں
کہنے لگی کہ ڈھونڈھوں تو واں پاؤں میں کہاں
بولا کہ پیش فاطمہ بولی کہ کچھ نشاں
چاک آستیں کا ہاتھ اٹھا کر دکھا دیا
نکلا جو خیمہ گاہ سے یہ مستعدکار
اک ابر سامنے سے اٹھا اس کے فتنہ بار
تیروں کی بارش اس سے تھی یا تیغ آبدار
طوفاں ہوا کہ اس کو یکایک ڈبا دیا
صرفہ کیا نہ شہ نے بھی پھر اپنی جان کا
سینہ کے تیں سپر کیا تیغ و سنان کا
جو تاج سر تھا فرق شہان جہان کا
اس طرح تونے خاک میں اس کو ملا دیا
پر بیکسانہ جی سے گیا ہے وہ بے وطن
یار و رفیق سب کے ہیں بے سر پڑے بدن
کوئی نہیں رہا ہے کہ دیوے اسے کفن
سب دار و دستہ کاٹ کے اس کا گرا دیا
کیا کیں تھا اہل شام کو اس آفتاب سے
کرتے رہے مضائقہ اک چلو آب سے
آخر کیا حجاب نہ کچھ بوتراب سے
سر کاٹ کر غریب کا نیزے چڑھا دیا
خیمہ جہاں تھا اس کا ہوئے خیمہ گاہ خصم
اسباب عترتوں کا گئی لے سپاہ خصم
تن اس کے دوستوں کے ہوئے فرش راہ خصم
ظلم و ستم سے مار کے سب کو بچھادیا
مظلوم سیدوں کا نہ ثابت ہوا گناہ
آل نبی کا پاس کیا خوب واہ واہ
مارا جہاں کہ وھاں نہ ملا قطرہ آب آہ
لوہو سے ان پیاسوں کے دریا بہا دیا
ناموس خاندان نبوت گئی بباد
گھر بار لوٹ لے گئے اعداے بدنہاد
واماندگاں پہ حد سے تعدی ہوئی زیاد
ان بیکسوں کا واہ رے انصاف کیا دیا
احوال عابدیں سے کریں ہم سو کیا مقال
آگے ہی تھا بدن کا مرض سے تباہ حال
قیدی جو راہ جاتے ہوا اور پائمال
ناموس کی خرابی نے دونا سکھا دیا
غیرت رہا تھا جو حرم کبریا کی گھر
باشندگاں کو واں کے نکالا برہنہ سر
جاویں ادب سے جس کے کنے ہاتھ باندھ کر
اس عابدیں کا ہاتھ رسن سے بندھا دیا
ناچار جس طرح سے گیا وہ نہ کوئی جائے
دیکھا جو کچھ کہ ان نے کسو کو نہ حق دکھائے
آیا جو اس نزار سے ایوبؑ سے نہ آئے
ہر ہر قدم پہ ضعف بدن نے اڑا دیا
کیا کچھ کیا نہ تونے فلک اس کے باب میں
زنداں میں اہل بیت رہے پیچ و تاب میں
بیٹی نے اس کی دیکھا اسے واں جو خواب میں
اس واقعے کی دھوم نے دشمن جگا دیا
شورش کی وجہ سن کے برا اپنے دل میں مان
اٹھ بیٹھ روسیاہ نے سوتے سے اس ہی آن
رکھ کر سر بریدہ کو کسوایا ایک خوان
سربستہ پھر وہ خوان اسے واں منگا دیا
کھولا جو خوان کو تو ہر اک نیم جاں ہوئی
ازبسکہ گرم نالہ و آہ و فغاں ہوئی
چلائی بیٹی ایسی کہ محشر عیاں ہوئی
جی کو غم پدر میں پھر ان نے کھپا دیا
کیا چال تھی سپہر جو تیں اختیار کی
بنیاد کھود ڈالی حرم کے جدار کی
کچھ فکر ہے تجھے بھی سرانجام کار کی
ظالم کسے بگاڑ کے کس کو بنا دیا
گھر پر علیؓ کے ایسی مصیبت تھی جب پڑی
ہر پردگی نکل کے ہوئی بے ردا کھڑی
کیدھر تھے تیرے دیدۂ مہر و مہ اس گھڑی
مل کر زمیں سے تونے نہ ان کو چھپا دیا
اس کم سپہ کو خصم سے آخر لڑا رکھا
لاشے کو اس کے خاک میں بے سر پڑا رکھا
سقف منقش اپنی کو تونے کھڑا رکھا
گھر اہل بیت ختم رسلؐ کا بٹھا دیا
خس کے لیے کوئی بھی الٹ دیوے ہے پہاڑ
کس جا خزف کے واسطے دیں ہیں گہر کو گاڑ
گلبن کو بہر خار کہاں ڈالے ہیں اکھاڑ
ویرانہ گھر علی کا کیا کعبہ ڈھا دیا
بس میرؔ اب تو خامۂ آتش زباں کو تھام
سوز جگر سے تیرے جلے جا ہیں دل تمام
مانند شمع کشتہ خموشی سے کر کلام
کیا کہیے گردش فلکی نے رجھا دیا
شیوہ ستم کا تیرہ دلوں کو سکھا دیا
خیمہ انھوں نے ابن علی کا جلا دیا
پردہ سا رہ گیا تھا کچھ اک سو اٹھا دیا
کیا تونے آنکھیں موندلیں اے تیرے سر پہ خاک
ماں اس کی فاطمہ گئی عالم سے دردناک
باپ اس کا بوتراب ہوا کوفے میں ہلاک
بھائی حسن کو زہر پلا کر سلا دیا
ہے نقش وہ جو کھینچ گیا ہے کدورتیں
بیٹا بھتیجا دونوں تھے گویا کہ مورتیں
تھیں آب و رنگ صفحۂ عالم وہ صورتیں
سو بات کہتے تونے انھوں کو مٹا دیا
آزار تیرے جور سے انواع پا گیا
یاقوت پارے خاک میں اپنے ملا گیا
کیا کیا زیاں حسین جہاں میں اٹھا گیا
ناموس دی بہ باد جدا سر جدا دیا
مرنا حسین کا ہے فلک یوں نہ جائے گا
حلق بریدہ سے جو وہ عرصے میں آئے گا
ہر گام ایک تازہ قیامت اٹھائے گا
یہ وہ نہ ہو کہ خون کیا پھر دبا دیا
آنکھوں میں اس کی ہو نہ جہاں کس طرح سیاہ
کیا سوجھے اس کو چہرے پہ کس کے کرے نگاہ
اکبر اندھیرے گھر کا اجالا تھا اس کے آہ
باد ستم نے تس کو دیا سا بجھا دیا
اصغر کو خیمہ گاہ سے لایا تھا تشنہ کام
سو کام ایک تیر میں اس کا ہوا تمام
پانی کا پھر حسین نے ہرگز لیا نہ نام
دیکھا کہ طفل شیر کو لوہو چٹا دیا
ہمدم جو تھے حسین کے مارے گئے سبھی
یاری کی یاوری کی نہ مہلت کسو کو دی
عباس جس سے بازو امامت کا تھا قوی
تیغ جفا سے بازو ہی اس کا کٹا دیا
قاسم چراغ بھائی کا آیا بتنگ ہو
کہنے لگا کہ میرے تئیں حکم جنگ ہو
تاچند زندگانی وبال اور ننگ ہو
افسردگی کہاں تئیں جیسے بجھا دیا
بولا چچا کہ دل میں جو کرتا ہوں میں تمیز
پاتا ہوں اپنے بیٹوں سے بھی تیرے تیں عزیز
تیرے عوض جہاں کو اگر دیں تو کیا ہے چیز
ہونے نے تیرے بھائی کے غم کو بھلا دیا
دل تنگ دیکھتا ہوں تو لاچار میں تجھے
ورنہ نہ دیکھوں بیکس و بے یار میں تجھے
اس آگ میں نہ جانے دوں زنہار میں تجھے
مت جان کو جلا تجھے کٹے لگا دیا
اس ماجرے کو گرچہ دیا اس جواں نے طول
پر بات اس کی آگے چچا کے نہ ہوئی قبول
جب دیکھا مدعا نہیں ہوتا ہے یوں حصول
بازو سے کھول باپ کا اپنے لکھا دیا
پوچھا کہ کیا ہے یہ تو کہا کیجیے نظر
لکھ دے گیا تھا مجھ کو دم مرگ یہ پدر
پڑھتے ہی اس کے خون ہوا غم سے سب جگر
مغموم ہو کے فرق مبارک جھکا دیا
اس میں لکھا تھا یہ کہ سن اے مایۂ حیات
میں تو موا پہ یاد رہے تجھ کو میری بات
ایسا نہ کیجیوکہ کہے سن کے کائنات
ابن حسن نے ساتھ چچا کا بھلا دیا
القصہ پڑھ کے ساتھ بھتیجے کے تیں لیا
اہل حرم کو خیمے میں جا ایک جا کیا
اک جامہ بیش قیمتی اپنا اسے دیا
رو رو نکاح بیٹی کا اس سے پڑھا دیا
رسمیں ہنوز باقی تھیں جو آئی اک صدا
کاے سیدو مگر نہیں تم میں کوئی رہا
حاضر براے جنگ ہو قاسم جو اٹھ چلا
چلنے نے ایسے اس کے سبھوں کو رلا دیا
آیا دلھن سے حشر کا وعدہ جو درمیاں
کہنے لگی کہ ڈھونڈھوں تو واں پاؤں میں کہاں
بولا کہ پیش فاطمہ بولی کہ کچھ نشاں
چاک آستیں کا ہاتھ اٹھا کر دکھا دیا
نکلا جو خیمہ گاہ سے یہ مستعدکار
اک ابر سامنے سے اٹھا اس کے فتنہ بار
تیروں کی بارش اس سے تھی یا تیغ آبدار
طوفاں ہوا کہ اس کو یکایک ڈبا دیا
صرفہ کیا نہ شہ نے بھی پھر اپنی جان کا
سینہ کے تیں سپر کیا تیغ و سنان کا
جو تاج سر تھا فرق شہان جہان کا
اس طرح تونے خاک میں اس کو ملا دیا
پر بیکسانہ جی سے گیا ہے وہ بے وطن
یار و رفیق سب کے ہیں بے سر پڑے بدن
کوئی نہیں رہا ہے کہ دیوے اسے کفن
سب دار و دستہ کاٹ کے اس کا گرا دیا
کیا کیں تھا اہل شام کو اس آفتاب سے
کرتے رہے مضائقہ اک چلو آب سے
آخر کیا حجاب نہ کچھ بوتراب سے
سر کاٹ کر غریب کا نیزے چڑھا دیا
خیمہ جہاں تھا اس کا ہوئے خیمہ گاہ خصم
اسباب عترتوں کا گئی لے سپاہ خصم
تن اس کے دوستوں کے ہوئے فرش راہ خصم
ظلم و ستم سے مار کے سب کو بچھادیا
مظلوم سیدوں کا نہ ثابت ہوا گناہ
آل نبی کا پاس کیا خوب واہ واہ
مارا جہاں کہ وھاں نہ ملا قطرہ آب آہ
لوہو سے ان پیاسوں کے دریا بہا دیا
ناموس خاندان نبوت گئی بباد
گھر بار لوٹ لے گئے اعداے بدنہاد
واماندگاں پہ حد سے تعدی ہوئی زیاد
ان بیکسوں کا واہ رے انصاف کیا دیا
احوال عابدیں سے کریں ہم سو کیا مقال
آگے ہی تھا بدن کا مرض سے تباہ حال
قیدی جو راہ جاتے ہوا اور پائمال
ناموس کی خرابی نے دونا سکھا دیا
غیرت رہا تھا جو حرم کبریا کی گھر
باشندگاں کو واں کے نکالا برہنہ سر
جاویں ادب سے جس کے کنے ہاتھ باندھ کر
اس عابدیں کا ہاتھ رسن سے بندھا دیا
ناچار جس طرح سے گیا وہ نہ کوئی جائے
دیکھا جو کچھ کہ ان نے کسو کو نہ حق دکھائے
آیا جو اس نزار سے ایوبؑ سے نہ آئے
ہر ہر قدم پہ ضعف بدن نے اڑا دیا
کیا کچھ کیا نہ تونے فلک اس کے باب میں
زنداں میں اہل بیت رہے پیچ و تاب میں
بیٹی نے اس کی دیکھا اسے واں جو خواب میں
اس واقعے کی دھوم نے دشمن جگا دیا
شورش کی وجہ سن کے برا اپنے دل میں مان
اٹھ بیٹھ روسیاہ نے سوتے سے اس ہی آن
رکھ کر سر بریدہ کو کسوایا ایک خوان
سربستہ پھر وہ خوان اسے واں منگا دیا
کھولا جو خوان کو تو ہر اک نیم جاں ہوئی
ازبسکہ گرم نالہ و آہ و فغاں ہوئی
چلائی بیٹی ایسی کہ محشر عیاں ہوئی
جی کو غم پدر میں پھر ان نے کھپا دیا
کیا چال تھی سپہر جو تیں اختیار کی
بنیاد کھود ڈالی حرم کے جدار کی
کچھ فکر ہے تجھے بھی سرانجام کار کی
ظالم کسے بگاڑ کے کس کو بنا دیا
گھر پر علیؓ کے ایسی مصیبت تھی جب پڑی
ہر پردگی نکل کے ہوئی بے ردا کھڑی
کیدھر تھے تیرے دیدۂ مہر و مہ اس گھڑی
مل کر زمیں سے تونے نہ ان کو چھپا دیا
اس کم سپہ کو خصم سے آخر لڑا رکھا
لاشے کو اس کے خاک میں بے سر پڑا رکھا
سقف منقش اپنی کو تونے کھڑا رکھا
گھر اہل بیت ختم رسلؐ کا بٹھا دیا
خس کے لیے کوئی بھی الٹ دیوے ہے پہاڑ
کس جا خزف کے واسطے دیں ہیں گہر کو گاڑ
گلبن کو بہر خار کہاں ڈالے ہیں اکھاڑ
ویرانہ گھر علی کا کیا کعبہ ڈھا دیا
بس میرؔ اب تو خامۂ آتش زباں کو تھام
سوز جگر سے تیرے جلے جا ہیں دل تمام
مانند شمع کشتہ خموشی سے کر کلام
کیا کہیے گردش فلکی نے رجھا دیا
-
نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا
لاشہ ہے آفتاب میں اس کا پڑا ہوا
عابد اسیر ہو کے چلا ہے بندھا ہوا
ناموس ساتھ قافلہ جیسے لٹا ہوا
بیمار و زار پاؤں میں طاقت تنک نہیں
مرگ پدر کے غم سے فراغت تنک نہیں
پھر جور اہل شام سے فرصت تنک نہیں
جاتا ہے جی قدم قدم اوپر چلا ہوا
ناموس کو جو دیکھے ہے حال خراب سے
آنکھیں نہیں کسو سے ملاتا حجاب سے
جس وقت گر پڑے ہے کہیں اضطراب سے
رہ جا ہے دیر دیر تلک پھر گرا ہوا
جاتا ہے سوے شام دن اپنا سیاہ کر
گرتا ہے گام گام پر اک دل سے آہ کر
مانند آفتاب قیامت نگاہ کر
سر کو پدر کے راہ میں نیزے چڑھا ہوا
اس لشکر شکستہ و خستہ کا ایک بار
میداں میں کارزار کے ہوکر ہوا گذار
دیکھا جو خاک و خوں میں کٹا سر وہ تاجدار
کہنے لگا ہر ایک کہ اے شہ یہ کیا ہوا
کل تک تو بزم ناز کا مسندنشیں تھا تو
اسلامیوں کی رونق ایمان و دیں تھا تو
مسجود خلق و قبلۂ اہل یقیں تھا تو
ہنگامہ تیرے سر پہ یہ کیسا بپا ہوا
امت نے کیوں نبیؐ کی کیا تجھ کو یوں ہلاک
تھا کیا سبب کہ بستر راحت ہوئی ہے خاک
کچھ وجہ بھی کہ دھوپ میں جلتا ہے جسم پاک
رویت علیؓ کی جاتی رہی کیا بلا ہوا
اکبر جو تھا شبیہ محمدؐ سو ووں گیا
اصغر تڑپ کے تشنہ دہانی سے یوں گیا
جانے کو اپنے آپ تو جانے ہے جوں گیا
گھر کا ترے گئے پہ عجب ماجرا ہوا
خیموں پہ تیرے دوڑ پڑے ناگہاں کئی
اسباب میں ردا نہ ہمارے کنے رہی
بے پردہ ہوکے ہم نے ہر اک کی جفا سہی
عابد ضعیف در تئیں آیا کھنچا ہوا
ارمان کیسے کیسے گئے ساتھ لے جواں
ہر لحظہ ایک ماتم تازہ رہا ہے یاں
شادی اگر رچی تھی تو اس طرح اپنے ہاں
قاسم شہید آن کے جوں کدخدا ہوا
اعوان یوں تلف ہوئے کٹتی ہے جیسے گھاس
انصار اس طرح کٹے وحشی ہوں جوں اداس
اسباب ظاہری نہ رہا کچھ کسو کے پاس
وابستہ تھا جو کوئی ترا سو گدا ہوا
کیوں غرق خون ہوکے ہمیں تو ڈبو گیا
کیوں ہم سے بے علاقہ و فارغ سا ہوگیا
میداں میں کارزار کے کیا آکے سوگیا
آیا نہ پھر جو گھر کی طرف تو گیا ہوا
آتے بھی ہیں جو اٹھتے ہیں اپنے مکان سے
دل تنگ ہوکے جاتے بھی ہیں پر نہ جان سے
تو اٹھ کے جو گیا سو گیا پھر جہان سے
کیا جانے تو کہ گھر پہ ترے پیچھے کیا ہوا
فرزند و زن اسیر ہوئے ٹک تو آنکھ کھول
خیمے گرے پڑے ہیں کھڑے غول کے ہیں غول
حیرت سے ہم تو چپ ہیں بھلا تو تنک تو بول
اک شور ہے جو منھ مندے تو ہے پڑا ہوا
غارت علی العموم تھی تھا حکم قتل عام
مارے گئے چنانچہ ترے اقربا تمام
واماندگاں چلے ہیں اسیرانہ سوے شام
ہے اک چراغ خانہ سو جاوے بجھا ہوا
یعنی وہ سخت سست ہے بیمار عابدیں
تس پر بندھا ہے جیسے گنہگار عابدیں
ناموس کو جو دیکھے ہے یوں خوار عابدیں
گریاں برنگ ابر ہے آگے کھڑا ہوا
روتی ہے جب سکینہ تو روتا ہے زار زار
آخر کو گر پڑے ہے وہ بے تاب ڈاڑھ مار
جاتی ہے چھوٹ ہاتھ سے اونٹوں کی گر مہار
کیا کیا سنے ہے غیروں سے چھاتی جلا ہوا
کیا کہیے تیرے غم سے جگر ہو گیا گداز
تجھ پیشوا کی لاش کو ہے خاک و خوں سے ساز
کر ذبح تجھ کو دوڑے ہیں شامی پئے نماز
خوب ان سے تیرا حق امامت ادا ہوا
سینے تمام داغ ہیں دل میں ہیں آبلے
ہرگز نہ اس چمن میں گل آرزو کھلے
جی چاہتا تھا مسند عزت تجھے ملے
سو ہم نے تجھ کو خاک میں دیکھا ملا ہوا
بیگانگی نہ طبع میں تھی تیرے اس قدر
سو بار تجھ سے ہوتے تھے آپس میں حرف سر
کیا ہوگیا کہ تجھ کو ادھر اب نہیں نظر
یا وہ تپاک تھا کہ یہ ناآشنا ہوا
آزردہ ہم میں کس سے ہے تو کیا ملال ہے
وہ کون تیرا باعث رنج و نکال ہے
رنجش ہی کا دماغ میں اب تک خیال ہے
جاتا ہے ہم سبھوں سے ترا سر جدا ہوا
کچھ گرم رو نہیں ہے سناں پر ترا ہی سر
ہم پر بھی تیرے پیچھے ہے درپیش اک سفر
کیا بے مروتی ہے بھلا منھ تو کر ادھر
یہ قافلہ بھی سر سے ہے تیرے لگا ہوا
اس واقعے کے بعد بھی تھا دل میں یہ خیال
ماتم رکھیں گے دیر بہت کھینچیں گے ملال
گاڑیں گے تیری لاش بصد عزت و جلال
سو خاک میں بھی تجھ کو نہ دیکھا چھپا ہوا
چاہا ترے محبوں کا ہرگز ہوا نہ آہ
بے آب یہ جہاز ہوا دشت میں تباہ
دریا بہے لہو کے جہاں تک گئی نگاہ
دشمن کے حسب خواہش دل مدعا ہوا
کیا نقل کریے حالت دشوار بعد جنگ
دم بھی لیا گیا نہ ہوا کام ایسا تنگ
القصہ زندگانی ہوئی ہم سبھوں کو ننگ
تو کوئی دم جو آگے گیا تھا بھلا ہوا
خیمے جلے اسیر ہوئے دیر تک گھرے
لوٹے گئے ردائیں گئیں مضطرب پھرے
کیا کیا نہ پیش آیا ہمیں جاتے ہی ترے
پوشیدہ کیا ہے یہ جو ستم برملا ہوا
برباد اس طرح سے نہیں جاتے گھر کہیں
ملتے نہیں ہیں خاک میں یوں در تر کہیں
چلتی نہیں ہے تیغ جفا اس قدر کہیں
جو تن نظر پڑے ہے تو ہے سر کٹا ہوا
کیا ظلم ہے کہ ابن علی تشنہ لب مرے
اور اس کی لاش کو نہ کوئی قبر میں دھرے
آب حیات پانی جنھوں کا بھرا کرے
سو نام اس گروہ کا وارث موا ہوا
عمر دراز جان کی اپنی ہوئی وبال
اتنا نہ جیتے ہم تو نہ یہ کھینچتے ملال
دیکھا علی کے بیٹے کو اس طرح پائمال
جس کا نہ نام لیں وہ سنا بادشا ہوا
کہتے تھے ہم حسین کو دیکھیں گے بادشاہ
گرد اس کی رہ کی جائے گی تا چرخ رو سیاہ
سو اس کو خاک و خون میں دیکھا طپیدہ آہ
تڑپے بہت ولے نہ ہمارا کہا ہوا
تھے لاش سے یہ حرف جگرسوز درمیاں
جو مانع درنگ ہوئے جورپیشگاں
ناچار واں سے گریہ کناں سب ہوئے رواں
اس کارواں کا عابد نالاں درا ہوا
ہرچند شاعری میں نہیں ہے تری نظیر
اس فن کے پہلوانوں نے مانا تجھی کو میرؔ
پر ان دنوں ہوا ہے بہت تو ضعیف و پیر
کہنے لگا جو مرثیہ اکثر بجا ہوا
لاشہ ہے آفتاب میں اس کا پڑا ہوا
عابد اسیر ہو کے چلا ہے بندھا ہوا
ناموس ساتھ قافلہ جیسے لٹا ہوا
بیمار و زار پاؤں میں طاقت تنک نہیں
مرگ پدر کے غم سے فراغت تنک نہیں
پھر جور اہل شام سے فرصت تنک نہیں
جاتا ہے جی قدم قدم اوپر چلا ہوا
ناموس کو جو دیکھے ہے حال خراب سے
آنکھیں نہیں کسو سے ملاتا حجاب سے
جس وقت گر پڑے ہے کہیں اضطراب سے
رہ جا ہے دیر دیر تلک پھر گرا ہوا
جاتا ہے سوے شام دن اپنا سیاہ کر
گرتا ہے گام گام پر اک دل سے آہ کر
مانند آفتاب قیامت نگاہ کر
سر کو پدر کے راہ میں نیزے چڑھا ہوا
اس لشکر شکستہ و خستہ کا ایک بار
میداں میں کارزار کے ہوکر ہوا گذار
دیکھا جو خاک و خوں میں کٹا سر وہ تاجدار
کہنے لگا ہر ایک کہ اے شہ یہ کیا ہوا
کل تک تو بزم ناز کا مسندنشیں تھا تو
اسلامیوں کی رونق ایمان و دیں تھا تو
مسجود خلق و قبلۂ اہل یقیں تھا تو
ہنگامہ تیرے سر پہ یہ کیسا بپا ہوا
امت نے کیوں نبیؐ کی کیا تجھ کو یوں ہلاک
تھا کیا سبب کہ بستر راحت ہوئی ہے خاک
کچھ وجہ بھی کہ دھوپ میں جلتا ہے جسم پاک
رویت علیؓ کی جاتی رہی کیا بلا ہوا
اکبر جو تھا شبیہ محمدؐ سو ووں گیا
اصغر تڑپ کے تشنہ دہانی سے یوں گیا
جانے کو اپنے آپ تو جانے ہے جوں گیا
گھر کا ترے گئے پہ عجب ماجرا ہوا
خیموں پہ تیرے دوڑ پڑے ناگہاں کئی
اسباب میں ردا نہ ہمارے کنے رہی
بے پردہ ہوکے ہم نے ہر اک کی جفا سہی
عابد ضعیف در تئیں آیا کھنچا ہوا
ارمان کیسے کیسے گئے ساتھ لے جواں
ہر لحظہ ایک ماتم تازہ رہا ہے یاں
شادی اگر رچی تھی تو اس طرح اپنے ہاں
قاسم شہید آن کے جوں کدخدا ہوا
اعوان یوں تلف ہوئے کٹتی ہے جیسے گھاس
انصار اس طرح کٹے وحشی ہوں جوں اداس
اسباب ظاہری نہ رہا کچھ کسو کے پاس
وابستہ تھا جو کوئی ترا سو گدا ہوا
کیوں غرق خون ہوکے ہمیں تو ڈبو گیا
کیوں ہم سے بے علاقہ و فارغ سا ہوگیا
میداں میں کارزار کے کیا آکے سوگیا
آیا نہ پھر جو گھر کی طرف تو گیا ہوا
آتے بھی ہیں جو اٹھتے ہیں اپنے مکان سے
دل تنگ ہوکے جاتے بھی ہیں پر نہ جان سے
تو اٹھ کے جو گیا سو گیا پھر جہان سے
کیا جانے تو کہ گھر پہ ترے پیچھے کیا ہوا
فرزند و زن اسیر ہوئے ٹک تو آنکھ کھول
خیمے گرے پڑے ہیں کھڑے غول کے ہیں غول
حیرت سے ہم تو چپ ہیں بھلا تو تنک تو بول
اک شور ہے جو منھ مندے تو ہے پڑا ہوا
غارت علی العموم تھی تھا حکم قتل عام
مارے گئے چنانچہ ترے اقربا تمام
واماندگاں چلے ہیں اسیرانہ سوے شام
ہے اک چراغ خانہ سو جاوے بجھا ہوا
یعنی وہ سخت سست ہے بیمار عابدیں
تس پر بندھا ہے جیسے گنہگار عابدیں
ناموس کو جو دیکھے ہے یوں خوار عابدیں
گریاں برنگ ابر ہے آگے کھڑا ہوا
روتی ہے جب سکینہ تو روتا ہے زار زار
آخر کو گر پڑے ہے وہ بے تاب ڈاڑھ مار
جاتی ہے چھوٹ ہاتھ سے اونٹوں کی گر مہار
کیا کیا سنے ہے غیروں سے چھاتی جلا ہوا
کیا کہیے تیرے غم سے جگر ہو گیا گداز
تجھ پیشوا کی لاش کو ہے خاک و خوں سے ساز
کر ذبح تجھ کو دوڑے ہیں شامی پئے نماز
خوب ان سے تیرا حق امامت ادا ہوا
سینے تمام داغ ہیں دل میں ہیں آبلے
ہرگز نہ اس چمن میں گل آرزو کھلے
جی چاہتا تھا مسند عزت تجھے ملے
سو ہم نے تجھ کو خاک میں دیکھا ملا ہوا
بیگانگی نہ طبع میں تھی تیرے اس قدر
سو بار تجھ سے ہوتے تھے آپس میں حرف سر
کیا ہوگیا کہ تجھ کو ادھر اب نہیں نظر
یا وہ تپاک تھا کہ یہ ناآشنا ہوا
آزردہ ہم میں کس سے ہے تو کیا ملال ہے
وہ کون تیرا باعث رنج و نکال ہے
رنجش ہی کا دماغ میں اب تک خیال ہے
جاتا ہے ہم سبھوں سے ترا سر جدا ہوا
کچھ گرم رو نہیں ہے سناں پر ترا ہی سر
ہم پر بھی تیرے پیچھے ہے درپیش اک سفر
کیا بے مروتی ہے بھلا منھ تو کر ادھر
یہ قافلہ بھی سر سے ہے تیرے لگا ہوا
اس واقعے کے بعد بھی تھا دل میں یہ خیال
ماتم رکھیں گے دیر بہت کھینچیں گے ملال
گاڑیں گے تیری لاش بصد عزت و جلال
سو خاک میں بھی تجھ کو نہ دیکھا چھپا ہوا
چاہا ترے محبوں کا ہرگز ہوا نہ آہ
بے آب یہ جہاز ہوا دشت میں تباہ
دریا بہے لہو کے جہاں تک گئی نگاہ
دشمن کے حسب خواہش دل مدعا ہوا
کیا نقل کریے حالت دشوار بعد جنگ
دم بھی لیا گیا نہ ہوا کام ایسا تنگ
القصہ زندگانی ہوئی ہم سبھوں کو ننگ
تو کوئی دم جو آگے گیا تھا بھلا ہوا
خیمے جلے اسیر ہوئے دیر تک گھرے
لوٹے گئے ردائیں گئیں مضطرب پھرے
کیا کیا نہ پیش آیا ہمیں جاتے ہی ترے
پوشیدہ کیا ہے یہ جو ستم برملا ہوا
برباد اس طرح سے نہیں جاتے گھر کہیں
ملتے نہیں ہیں خاک میں یوں در تر کہیں
چلتی نہیں ہے تیغ جفا اس قدر کہیں
جو تن نظر پڑے ہے تو ہے سر کٹا ہوا
کیا ظلم ہے کہ ابن علی تشنہ لب مرے
اور اس کی لاش کو نہ کوئی قبر میں دھرے
آب حیات پانی جنھوں کا بھرا کرے
سو نام اس گروہ کا وارث موا ہوا
عمر دراز جان کی اپنی ہوئی وبال
اتنا نہ جیتے ہم تو نہ یہ کھینچتے ملال
دیکھا علی کے بیٹے کو اس طرح پائمال
جس کا نہ نام لیں وہ سنا بادشا ہوا
کہتے تھے ہم حسین کو دیکھیں گے بادشاہ
گرد اس کی رہ کی جائے گی تا چرخ رو سیاہ
سو اس کو خاک و خون میں دیکھا طپیدہ آہ
تڑپے بہت ولے نہ ہمارا کہا ہوا
تھے لاش سے یہ حرف جگرسوز درمیاں
جو مانع درنگ ہوئے جورپیشگاں
ناچار واں سے گریہ کناں سب ہوئے رواں
اس کارواں کا عابد نالاں درا ہوا
ہرچند شاعری میں نہیں ہے تری نظیر
اس فن کے پہلوانوں نے مانا تجھی کو میرؔ
پر ان دنوں ہوا ہے بہت تو ضعیف و پیر
کہنے لگا جو مرثیہ اکثر بجا ہوا
-
دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسین
ناموس اپنے ساتھ لیے سب اٹھا حسین
لوگوں نے یہ کہا بھی کہ یاں سے نہ جا حسین
لیکن گیا حسین سو جی سے گیا حسین
رکھتے ہی پاؤں رہ میں بلا سے ہوا دوچار
فتنے کا ہر چہار طرف سے اٹھا غبار
ہر گام گرچہ آتے تھے درپیش غم ہزار
لیکن نہ دیکھتا تھا تنک سر اٹھا حسین
طے کرکے مرحلوں کو گیا کوفے کے قریب
پیماں سے اپنے پھر گئے وے سارے بے نصیب
بدعہدی ان کی دیکھ کے آگے چلا غریب
تھا ساتھ اک ثبات کے پر وہ نہ تھا حسین
ناچار ہو کے کوچ کیا اس مقام سے
کاوش کی طرح پڑتی چلی اہل شام سے
سر کھینچتی تھی تازہ بلا گام گام سے
تاآنکہ رفتہ رفتہ گیا کربلا حسین
واں پہنچتے ہی اور زمانے کا رنگ تھا
اک جمع روسیاہ مہیاے جنگ تھا
ہر طعن تھا سنان و ہر اک حرف سنگ تھا
کنبے سمیت اپنے وہیں گھر گیا حسین
تھی چشم خیر جن سے نظر آئے ان کے بیر
گل پھول سارے سوکھ گئے پانی کے بغیر
دو روز اپنے باغ میں کی ان نے خوب سیر
کیا کیا نہ رنگ دیکھ کے یاں سے گیا حسین
احوال بیکسی کے ہو نظارگی موئے
انصار کھینچ پیاس کی لاچارگی موئے
پیادے سوار جتنے تھے یک بارگی موئے
مرگ ان سبھوں کی دیکھتا تھا چپ کھڑا حسین
بیٹا جوان ایک نظر سے چلا گیا
اک گودی میں جو تھا سو وہ چھاتی جلا گیا
قاسم کہ دی تھی بیٹی جسے وہ جدا گیا
اوقات تنگ ہوگئی تنہا رہا حسین
کیا کیا ستم نہ قلب المناک پر سہے
دریا لہو کے آنکھوں کے آگے سے ہو بہے
تا نقش یہ زمانے میں مدت تئیں رہے
میداں میں صاف ہو کے کھڑا مر مٹا حسین
سیلاب اس کے خون سے اس خاک پر بہا
انصاف کر کنھوں نے نہ افسوس ہی کہا
وارث نہ کوئی عابد بیمار بن رہا
سو وہ ضعیف و مضطرب و لب پہ وا حسین
نیزے پہ سر پدر کا مقابل نظر کے تھا
آشوب لوٹ مار کا اطراف گھر کے تھا
منھ غم کا دل کی اور کہ جانب جگر کے تھا
کہتا تھا میرے حق میں یہ کیا کر گیا حسین
پڑتی نہیں ہے چہرۂ پرنور پر نگاہ
عالم تمام آنکھ میں میری ہوا سیاہ
چھاتی کے اپنے داغ دکھاؤں کسے کہ آہ
روپوش جا کے مجھ سے کہاں تو ہوا حسین
میں ناتوان و ساتھ مرے ایک کارواں
تس پر کہیں ہیں راہ چلا چل دواں دواں
میں درد دل کو جا کے الٰہی کہوں کہاں
ہوتا تو کان رکھ کے یہ سنتا بتھا حسین
جیدھر نگاہ جاتی ہے دشمن ہی ہیں کھڑے
اعوان دوست جتنے تھے سب ہیں موئے پڑے
پھر ہم اسیر ہیں سو بہم جیسے ہیں لڑے
ہر ایک چلنے پائے مصیبت سے کیا حسین
جاتا ہے قافلہ جو کہیں کو تو جمع ہو
نے ایک ہے کہیں تو کہیں مر رہے ہیں دو
ہمراہیوں کا حال کہوں کیا ہے گومگو
جاتا ہے تجھ رئیس کا سر یوں جدا حسین
نے بھائی نے بھتیجے نہ بیٹے نہ اپنے لوگ
مارے گئے تمام غم ان کے ہیں جی کے روگ
پرسے کو کون پوچھے گا جو لیجیے بھی سوگ
کنبہ تو تیرے آگے ہی سب ہوچکا حسین
اے اس شکستہ حال کے خستہ جگر پدر
کیا کہہ کے تجھ کو روئیے خوں ہوگئے جگر
بیکس تو ہوکے مرتے ہیں سب پر نہ اس قدر
مردے پہ تیرے منع ہے کرنا بکا حسین
نازل جنھوں کی شان میں تھی آیۂ حجاب
سر ان کے ہیں برہنہ منھوں پر نہیں نقاب
پردہ کریں سو کاہے کا جنگل میں ہیں خراب
چھوڑی نہیں ہے ایک کے سر پر ردا حسین
کیا جانتے تھے ہم کہ یہ ایسا ستائیں گے
گھر بار کو علی کے کھڑے ہو لٹائیں گے
سبط نبی کے سر کے تئیں یوں کٹائیں گے
اسلامیوں سے ہم کو گماں یہ نہ تھا حسین
بیگانہ وار تو اے شہ کم سپہ گیا
چلتے ہوئے کسو سے نہ اک حرف کہہ گیا
ناچار تیرے منھ کو ہر اک دیکھ رہ گیا
صد رنگ تجھ سے رکھتے ہیں ہم سب گلہ حسین
خیمے جلے اسیر ہوئے گھر لٹا گیا
چھوٹا جو ایک مرنے کے تیں سو بندھا گیا
بے آبی میں جہاز یہ ڈوبا بہا گیا
تیرے گئے نہ کوئی رہا آشنا حسین
بیٹھے جو ہیں سو بال کھلے پیٹتے ہیں سر
ناموس کو جگہ جو ملی ہے سو رہگذر
پتھر کے لاؤں جاکے کہاں سے دل و جگر
جو ایسے ظلم دیکھوں کھڑا برملا حسین
جنگل میں سربرہنہ بہت خوار ہم ہوئے
زنجیر طوق جیسے گنہگار ہم ہوئے
پھر اور ظلم کے جو سزاوار ہم ہوئے
مرنا ترا تھا ہم پہ یہ تھوڑی جفا حسین
ہوتی ہیں وہ جفائیں جو کرتے نہیں ہیں گبر
ہر آن ہم اسیروں پہ ہے قہر اور جبر
چارہ نہیں رہا ہے ہمیں غیر شکر و صبر
بد حال تونے چاہا ہے یوں تو بھلا حسین
انصاف کر کہ غم کے ہوں تاچند پائمال
شرمندگی ہے زندگی یہ جان ہے وبال
مرنا خدا سے چاہتے ہیں ہم خراب حال
پر کیا کریں قبول نہ ہو جو دعا حسین
باہر تھا یہ سلوک تو تیرا قیاس سے
پھر ان سے جو کہ جیتے ہوں تیری ہی آس سے
اک بار تو تو ایسا گیا اٹھ کے پاس سے
ہوتا ہے جیسے کوئی کسو سے خفا حسین
درپیش اپنے آئی ہے اب طرفہ راہ ایک
ہر ہر قدم جگر سے نکلتی ہے آہ ایک
ہرگز ادھر کو کرتے نہیں وے نگاہ ایک
جن مردماں سے رکھتے تھے چشم وفا حسین
اس درد دیں کو دیکھ جگر ہوگئے گداز
سبط نبی پہ دست ستم کر چکے دراز
افسوس ہے نہ باندھ کے صف وے پڑھیں نماز
لوہو میں اپنے سجدہ کرے تو ادا حسین
خوں ہوگئی دلوں میں ہوس تیری چاہ کی
کہتے تھے گرد کحل کریں تجھ سپاہ کی
تن پر ترے سو دیکھی منوں خاک راہ کی
کانوں سنا نہ ہم نے تجھے بادشا حسین
مجھ بن رہا نہیں ہے کوئی وارثوں میں مرد
سو میں کروں ہوں دم بدم اک دل سے آہ سرد
بیمار و زار ایک تو میں تھا ہی پھر یہ درد
عارض ہوا ہے میرے تئیں لا دوا حسین
اس طور چاہتا ہے کوئی جینے کو کہیں
وارث نہیں شفیق نہیں لطف کچھ نہیں
ہر اک کو آرزو ہے کہ مر جایئے یہیں
لیکن نہیں پہنچتی ہماری قضا حسین
جیسی تھی زندگی میں ہمیں تجھ سے بندگی
غالب کہ تابہ حشر عقیدہ رہے یہی
صورت ہو کوئی جاتی نہیں اپنی پیروی
اب سر ترا ہمارا ہوا پیشوا حسین
لے سب اسیر شام کی جانب کو ہیں رواں
ناچار ان کے ساتھ ہوں میں زار و ناتواں
کر جاؤں تیری فکر سو فرصت مجھے کہاں
حافظ نگاہبان ہے تیرا خدا حسین
اشجار تیرے باغ کے یک بارگی کٹے
گل اور بوٹے جور کے آروں سے سب چھٹے
آہیں کریں کہاں تئیں سینے تو سب پھٹے
کچھ اور ہوگئی ہے یکایک ہوا حسین
مردہ کہیں پڑا ہے کہیں سر کہیں ہے پا
ہر گام پر ہے ایک جواں جان سے گیا
القصہ پاؤں رکھنے کو ملتی نہیں ہے جا
جنگل تمام مرنے سے تیرے بسا حسین
بنتا نہیں غرض یہ کہ تجھ کو اٹھا کے جائیں
افسوس تجھ سے شخص سے منھ کو چھپا کے جائیں
تدبیر کیا کریں کہ کھڑے ہو گڑا کے جائیں
سنتا نہیں ہے کوئی ہمارا کہا حسین
جانے میں جی سے تیرے بہت آئے ہم بتنگ
عائد ہوئے ہزاروں طرح کے ادھر کو ننگ
کچھ زندگی کا ڈھنگ بھی ہے مت کرے درنگ
پاس اپنے ٹک ہمیں بھی شتابی بلا حسین
بندی ہوئے چلے ہیں کسو اور بے نصیب
سجاد دست بستہ بھی ہمراہ ہے غریب
وقت وداع پہنچا ہے آکر بہت قریب
دے تجھ کو خواب مرگ سے کوئی جگا حسین
دو حرف تیرے منھ کے بھی تا سن کے جایئے
دل کو نہیں قرار تسلی تو پایئے
کیا جانیے کہ اب یہاں پھر کیونکے آیئے
بیدرد روزگار تو ہم سے پھرا حسین
آگے گیا یہ کہہ کے اسیروں کا قافلہ
باتوں کا لاعلاج یہیں چھوڑ سلسلہ
بس میرؔ تو بھی چپ ہو ہوا دل تو آبلہ
مر رہ زباں دراز کہیں کہہ کے یاحسین
ناموس اپنے ساتھ لیے سب اٹھا حسین
لوگوں نے یہ کہا بھی کہ یاں سے نہ جا حسین
لیکن گیا حسین سو جی سے گیا حسین
رکھتے ہی پاؤں رہ میں بلا سے ہوا دوچار
فتنے کا ہر چہار طرف سے اٹھا غبار
ہر گام گرچہ آتے تھے درپیش غم ہزار
لیکن نہ دیکھتا تھا تنک سر اٹھا حسین
طے کرکے مرحلوں کو گیا کوفے کے قریب
پیماں سے اپنے پھر گئے وے سارے بے نصیب
بدعہدی ان کی دیکھ کے آگے چلا غریب
تھا ساتھ اک ثبات کے پر وہ نہ تھا حسین
ناچار ہو کے کوچ کیا اس مقام سے
کاوش کی طرح پڑتی چلی اہل شام سے
سر کھینچتی تھی تازہ بلا گام گام سے
تاآنکہ رفتہ رفتہ گیا کربلا حسین
واں پہنچتے ہی اور زمانے کا رنگ تھا
اک جمع روسیاہ مہیاے جنگ تھا
ہر طعن تھا سنان و ہر اک حرف سنگ تھا
کنبے سمیت اپنے وہیں گھر گیا حسین
تھی چشم خیر جن سے نظر آئے ان کے بیر
گل پھول سارے سوکھ گئے پانی کے بغیر
دو روز اپنے باغ میں کی ان نے خوب سیر
کیا کیا نہ رنگ دیکھ کے یاں سے گیا حسین
احوال بیکسی کے ہو نظارگی موئے
انصار کھینچ پیاس کی لاچارگی موئے
پیادے سوار جتنے تھے یک بارگی موئے
مرگ ان سبھوں کی دیکھتا تھا چپ کھڑا حسین
بیٹا جوان ایک نظر سے چلا گیا
اک گودی میں جو تھا سو وہ چھاتی جلا گیا
قاسم کہ دی تھی بیٹی جسے وہ جدا گیا
اوقات تنگ ہوگئی تنہا رہا حسین
کیا کیا ستم نہ قلب المناک پر سہے
دریا لہو کے آنکھوں کے آگے سے ہو بہے
تا نقش یہ زمانے میں مدت تئیں رہے
میداں میں صاف ہو کے کھڑا مر مٹا حسین
سیلاب اس کے خون سے اس خاک پر بہا
انصاف کر کنھوں نے نہ افسوس ہی کہا
وارث نہ کوئی عابد بیمار بن رہا
سو وہ ضعیف و مضطرب و لب پہ وا حسین
نیزے پہ سر پدر کا مقابل نظر کے تھا
آشوب لوٹ مار کا اطراف گھر کے تھا
منھ غم کا دل کی اور کہ جانب جگر کے تھا
کہتا تھا میرے حق میں یہ کیا کر گیا حسین
پڑتی نہیں ہے چہرۂ پرنور پر نگاہ
عالم تمام آنکھ میں میری ہوا سیاہ
چھاتی کے اپنے داغ دکھاؤں کسے کہ آہ
روپوش جا کے مجھ سے کہاں تو ہوا حسین
میں ناتوان و ساتھ مرے ایک کارواں
تس پر کہیں ہیں راہ چلا چل دواں دواں
میں درد دل کو جا کے الٰہی کہوں کہاں
ہوتا تو کان رکھ کے یہ سنتا بتھا حسین
جیدھر نگاہ جاتی ہے دشمن ہی ہیں کھڑے
اعوان دوست جتنے تھے سب ہیں موئے پڑے
پھر ہم اسیر ہیں سو بہم جیسے ہیں لڑے
ہر ایک چلنے پائے مصیبت سے کیا حسین
جاتا ہے قافلہ جو کہیں کو تو جمع ہو
نے ایک ہے کہیں تو کہیں مر رہے ہیں دو
ہمراہیوں کا حال کہوں کیا ہے گومگو
جاتا ہے تجھ رئیس کا سر یوں جدا حسین
نے بھائی نے بھتیجے نہ بیٹے نہ اپنے لوگ
مارے گئے تمام غم ان کے ہیں جی کے روگ
پرسے کو کون پوچھے گا جو لیجیے بھی سوگ
کنبہ تو تیرے آگے ہی سب ہوچکا حسین
اے اس شکستہ حال کے خستہ جگر پدر
کیا کہہ کے تجھ کو روئیے خوں ہوگئے جگر
بیکس تو ہوکے مرتے ہیں سب پر نہ اس قدر
مردے پہ تیرے منع ہے کرنا بکا حسین
نازل جنھوں کی شان میں تھی آیۂ حجاب
سر ان کے ہیں برہنہ منھوں پر نہیں نقاب
پردہ کریں سو کاہے کا جنگل میں ہیں خراب
چھوڑی نہیں ہے ایک کے سر پر ردا حسین
کیا جانتے تھے ہم کہ یہ ایسا ستائیں گے
گھر بار کو علی کے کھڑے ہو لٹائیں گے
سبط نبی کے سر کے تئیں یوں کٹائیں گے
اسلامیوں سے ہم کو گماں یہ نہ تھا حسین
بیگانہ وار تو اے شہ کم سپہ گیا
چلتے ہوئے کسو سے نہ اک حرف کہہ گیا
ناچار تیرے منھ کو ہر اک دیکھ رہ گیا
صد رنگ تجھ سے رکھتے ہیں ہم سب گلہ حسین
خیمے جلے اسیر ہوئے گھر لٹا گیا
چھوٹا جو ایک مرنے کے تیں سو بندھا گیا
بے آبی میں جہاز یہ ڈوبا بہا گیا
تیرے گئے نہ کوئی رہا آشنا حسین
بیٹھے جو ہیں سو بال کھلے پیٹتے ہیں سر
ناموس کو جگہ جو ملی ہے سو رہگذر
پتھر کے لاؤں جاکے کہاں سے دل و جگر
جو ایسے ظلم دیکھوں کھڑا برملا حسین
جنگل میں سربرہنہ بہت خوار ہم ہوئے
زنجیر طوق جیسے گنہگار ہم ہوئے
پھر اور ظلم کے جو سزاوار ہم ہوئے
مرنا ترا تھا ہم پہ یہ تھوڑی جفا حسین
ہوتی ہیں وہ جفائیں جو کرتے نہیں ہیں گبر
ہر آن ہم اسیروں پہ ہے قہر اور جبر
چارہ نہیں رہا ہے ہمیں غیر شکر و صبر
بد حال تونے چاہا ہے یوں تو بھلا حسین
انصاف کر کہ غم کے ہوں تاچند پائمال
شرمندگی ہے زندگی یہ جان ہے وبال
مرنا خدا سے چاہتے ہیں ہم خراب حال
پر کیا کریں قبول نہ ہو جو دعا حسین
باہر تھا یہ سلوک تو تیرا قیاس سے
پھر ان سے جو کہ جیتے ہوں تیری ہی آس سے
اک بار تو تو ایسا گیا اٹھ کے پاس سے
ہوتا ہے جیسے کوئی کسو سے خفا حسین
درپیش اپنے آئی ہے اب طرفہ راہ ایک
ہر ہر قدم جگر سے نکلتی ہے آہ ایک
ہرگز ادھر کو کرتے نہیں وے نگاہ ایک
جن مردماں سے رکھتے تھے چشم وفا حسین
اس درد دیں کو دیکھ جگر ہوگئے گداز
سبط نبی پہ دست ستم کر چکے دراز
افسوس ہے نہ باندھ کے صف وے پڑھیں نماز
لوہو میں اپنے سجدہ کرے تو ادا حسین
خوں ہوگئی دلوں میں ہوس تیری چاہ کی
کہتے تھے گرد کحل کریں تجھ سپاہ کی
تن پر ترے سو دیکھی منوں خاک راہ کی
کانوں سنا نہ ہم نے تجھے بادشا حسین
مجھ بن رہا نہیں ہے کوئی وارثوں میں مرد
سو میں کروں ہوں دم بدم اک دل سے آہ سرد
بیمار و زار ایک تو میں تھا ہی پھر یہ درد
عارض ہوا ہے میرے تئیں لا دوا حسین
اس طور چاہتا ہے کوئی جینے کو کہیں
وارث نہیں شفیق نہیں لطف کچھ نہیں
ہر اک کو آرزو ہے کہ مر جایئے یہیں
لیکن نہیں پہنچتی ہماری قضا حسین
جیسی تھی زندگی میں ہمیں تجھ سے بندگی
غالب کہ تابہ حشر عقیدہ رہے یہی
صورت ہو کوئی جاتی نہیں اپنی پیروی
اب سر ترا ہمارا ہوا پیشوا حسین
لے سب اسیر شام کی جانب کو ہیں رواں
ناچار ان کے ساتھ ہوں میں زار و ناتواں
کر جاؤں تیری فکر سو فرصت مجھے کہاں
حافظ نگاہبان ہے تیرا خدا حسین
اشجار تیرے باغ کے یک بارگی کٹے
گل اور بوٹے جور کے آروں سے سب چھٹے
آہیں کریں کہاں تئیں سینے تو سب پھٹے
کچھ اور ہوگئی ہے یکایک ہوا حسین
مردہ کہیں پڑا ہے کہیں سر کہیں ہے پا
ہر گام پر ہے ایک جواں جان سے گیا
القصہ پاؤں رکھنے کو ملتی نہیں ہے جا
جنگل تمام مرنے سے تیرے بسا حسین
بنتا نہیں غرض یہ کہ تجھ کو اٹھا کے جائیں
افسوس تجھ سے شخص سے منھ کو چھپا کے جائیں
تدبیر کیا کریں کہ کھڑے ہو گڑا کے جائیں
سنتا نہیں ہے کوئی ہمارا کہا حسین
جانے میں جی سے تیرے بہت آئے ہم بتنگ
عائد ہوئے ہزاروں طرح کے ادھر کو ننگ
کچھ زندگی کا ڈھنگ بھی ہے مت کرے درنگ
پاس اپنے ٹک ہمیں بھی شتابی بلا حسین
بندی ہوئے چلے ہیں کسو اور بے نصیب
سجاد دست بستہ بھی ہمراہ ہے غریب
وقت وداع پہنچا ہے آکر بہت قریب
دے تجھ کو خواب مرگ سے کوئی جگا حسین
دو حرف تیرے منھ کے بھی تا سن کے جایئے
دل کو نہیں قرار تسلی تو پایئے
کیا جانیے کہ اب یہاں پھر کیونکے آیئے
بیدرد روزگار تو ہم سے پھرا حسین
آگے گیا یہ کہہ کے اسیروں کا قافلہ
باتوں کا لاعلاج یہیں چھوڑ سلسلہ
بس میرؔ تو بھی چپ ہو ہوا دل تو آبلہ
مر رہ زباں دراز کہیں کہہ کے یاحسین
-
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
احوال زار شاہ شہیدان کربلا
باآنکہ تھا فرات پہ میدان کربلا
پیاسا ہوا ہلاک وہ مہمان کربلا
انصاف کی نہ ایک نے کی چشم نیم باز
کھولے ستم کے ہاتھ زبانیں کیاں دراز
قتل امام مقصد و تیاری نماز
بدتر تھے کافروں سے مسلمان کربلا
سیلاب تھا بلا کا ہر اک سمت گرم جوش
فریاد بیکساں کی طرف کم کسو کے گوش
آل نبی تمام ہوئی خوں سے سرخ پوش
صلواۃ بر حسین و جوانان کربلا
انواع جور مدعی ایجاد کر گئے
تخت و کلاہ احمدی برباد کر گئے
کیا تیرہ روز شامی بھی بیداد کر گئے
پایا زبون مور سلیمان کربلا
منصف تھے ہائے کتنے دروں تیرہ اہل شام
خوش تشنہ لب جنھوں نے کیا کشتن امام
فخر بشر کا نور دل و دیدہ تشنہ کام
سیراب وحش و طائر و حیوان کربلا
یارب نہ تھا سپہر پہ اس وقت کوئی بھی کیا
جب سر پہ اہل بیت کے تھی اس قدر جفا
ہوتا کوئی تو دیکھتا ہی سر کو ٹک جھکا
تا لامکاں تھا شور غریبان کربلا
نوک سناں پہ رکھ کے چلے لے سر امام
ناموس کے جو لوگ تھے بندی ہوئے تمام
ٹکڑے جگر کے ہوتے تھے کرتا تھا جب کلام
بے خانماں وہ جمع پریشان کربلا
بیٹے بھتیجے اس کے جواں مارے سب پڑے
ہو ٹکڑے ٹکڑے سامنے بیکس بہت لڑے
فرصت نہ اتنی دی کہ کوئی خاک میں گڑے
پوشیدہ کیا ہے ظلم نمایان کربلا
سر اس کا کٹ کے نیزے پہ جس دم رکھا گیا
نونیزہ پانی چڑھ کے جیوں کو ڈبا گیا
ہرچند بوند پانی کی کوئی نہ پا گیا
لیکن خدا کا قہر تھا طوفان کربلا
تھی عابدیں کے لب پہ شکایت یہ خونچکاں
کاے چرخ آہ کیونکے نبھے گا یہ کارواں
یہ سب ہیں زیربار الم میں ہوں ناتواں
طے کس طرح سے کریے بیابان کربلا
مشفق پدر تو رخت سفر کر گیا ہے بار
بھائی کو اس سے آگے ہی دشمن گئے تھے مار
ہوں میں برہنہ پا سو مرض سے نحیف و زار
پھر ہر قدم پہ خار مغیلان کربلا
ہے تودہ تودہ لاشوں پہ جن کی یہ خاک دھول
سب یہ شگفتہ رو تھے نگاہوں میں جیسے پھول
منھ دیکھ ان کے کہتے تھے صلواۃ بر رسولؐ
گلزار تھی یہ وادی ویران کربلا
اب سب ہی خاک و خون میں وے ہیں اٹے پڑے
اشجار و نونہال ہیں سارے کٹے پڑے
دل ہیں فگار سینے ہیں سب کے پھٹے پڑے
مسلخ سے کم نہیں یہ گلستان کربلا
جل جل کے ایک ایک سے اس کا تھا یہ خطاب
کاے قوم بس بہت ہوئی اب کم ہے جی میں تاب
پہلو سے میرے ہے جگر دشت بھی کباب
رکھ ہاتھ دیکھ سینۂ بریان کربلا
یہ آگے جانتے نہ تھے دیکھیں گے یہ ستم
خون پدر گرے گا زمیں پر رکیں گے دم
اندوہ و درد و رنج و الم اب ہے اور ہم
خرد و کلاں ہیں کشتۂ احسان کربلا
موقوف ہوگی غم کشی یہ جب نہ ہوں گا میں
مدت تلک مصیبتیں اپنی کہوں گا میں
جیتا رہوں گا جب تئیں روتا رہوں گا میں
اب تھم چکے یہ دیدۂ گریان کربلا
زینب کے لب سے حرف نکلتے تھے شکوہ ناک
آشفتہ مو وہ سر میں کھڑی ڈالتی تھی خاک
کہتی تھی تا سپہر مگر اے خداے پاک
جاتے نہیں یہ نالہ و افغان کربلا
شاید غبار رکھتی ہیں چشمان مہر و ماہ
احوال پر ہمارے نہیں مطلقاً نگاہ
پردہ رہے جو گر پڑے گردون روسیاہ
ہیں سربرہنہ خاک نشینان کربلا
باد شمال ظلم ادھر کو جو آگئی
ایک ایک کرکے دین کی شمعیں بجھا گئی
دل داغ سارے کر گئی سینے جلا گئی
سب اڑ گئی وہ خوبی ایوان کربلا
پیٹے ہیں ہم حسین کو جو کھول کھول بال
کیا خاطروں سے جاتے رہیں گے ہمارے حال
اشجار بید کے جو ہیں سو سالہاے سال
دیویں گے یاد یہ سر عریان کربلا
کرتے جو نوحہ لاشوں پہ ہم جمع آ ہوئے
آنکھوں سے دل کے ٹکڑے گرے بال وا ہوئے
بے جا ہمارے شور سے وحشی بجا ہوئے
دیواں ہوا ہے حشر کا دیوان کربلا
اس لوٹے کاروان کا دیکھے کوئی گذار
یہ سانحہ ہوا ہے زمانے کا یادگار
عترت نبیؐ کی اونٹوں پہ ہے ننگے سر سوار
سجاد نالہ کش ہے حدی خوان کربلا
وارث کے پیچھے جانیں گئیں وسوسوں سے ہائے
کیا طرحیں چرخ کرتے ہیں ہم بیکسوں سے ہائے
کیسی کمی اٹھائی ہے ہم نے خسوں سے ہائے
کس سے کہیں یہ درد فراوان کربلا
ناگہ نگہ جو لاش پہ قاسم کی جا پڑی
ساعت وہ گذری اہل حرم پر بہت کڑی
ماں اس کی سر کو پیٹتی کہتی تھی یہ کھڑی
ہے دیدنی یہ نوشہ بے جان کربلا
چن چن کے دشمنوں نے عزیزوں کے کاٹے سر
مارا پڑا رئیس تلف ہوگئے پسر
سر پر نہ عورتوں کے ردا تھی نہ ان کو گھر
آئی نہ کام ہمت مردان کربلا
آیا جو شاہ یاں تو یہیں کا یہیں رہا
انواع جور و ظلم و ستم جان پر سہا
آخر کو خون اس کا اسی خاک پر بہا
نکلا نہ پھر وہ یوسف زندان کربلا
آنکھوں کو جس کی رہ میں بچھایا کیے ہیں ہم
منت سے جس کے ناز اٹھایا کیے ہیں ہم
مسند پہ جس کو ناز کی پایا کیے ہیں ہم
سو خاک میں پڑا ہے وہ سلطان کربلا
یہ مردمی تو دیکھو کہ دریا بہا کیا
خیمہ کھڑا کنارے پر اس کے رہا کیا
شہ بہر طفل پانی ہی پانی کہا کیا
پیاسا موا ندان وہ نادان کربلا
بالفرض دشمنوں نے نہ کی اس طرف نظر
کینہ سے ہونٹ سوکھے ہمارے نہ چاہے تر
اک ابر بھی نہ آن کے برسا تنک ادھر
تا آسماں تھی شورش عطشان کربلا
کلثوم یوں تھی لاش پہ بھائی کی حرف زن
سر کیا ہوا کہ خاک میں پامال ہے بدن
پھر وجہ کیا کہ اب نہیں ملتا تجھے کفن
اے بادشاہ بے سر و سامان کربلا
ہم کچھ کریں جو فکر سو قدرت نہیں ہمیں
ماتم میں تیرے بیٹھیں سو فرصت نہیں ہمیں
میت کی رسمیں کرتے سو مہلت نہیں ہمیں
رسوائی کر رہے ہیں نگہبان کربلا
مہمانی ہم مسافروں کی کیا رہی ہے یاں
لخت دل و جگر تھے جو مارے پڑے جواں
جانا نہ ہم نے یاں کا دم آب و پارہ ناں
دیکھی سو اب یہ نعمت الوان کربلا
اس خاک پر اترتے نہ فرصت تجھے رہی
درپیش ہر قدم پہ قیامت تجھے رہی
بے ڈولیوں سے یاں کی کدورت تجھے رہی
شائستگی مگر نہ تھی شایان کربلا
ہو دلخوشی کسو کو تو ہو بھی شگفتہ رو
شادی ہو جان کو تو کرے ہنس کے گفتگو
تھی رونے کی جگہ کہ بخود ہم نہ تھے نہ تو
لب ہاے زخم تھے لب خندان کربلا
ہفتم سے آب و دانہ کا قدغن ہوا تھا یاں
جز ذکر تیغ تیز کچھ آیا نہ درمیاں
سادات کشتہ جانتے ہیں یا انھوں کی جاں
جو دیکھ کر موئے ہیں یہ حرمان کربلا
کروبیوں کے گوش مگر کر تھے اس گھڑی
جس وقت کشت و خون کی یاں دھوم تھی پڑی
صف عورتوں کی لاشوں پہ چلاتی تھی کھڑی
محشر بہ بر تھا ہر دل نالان کربلا
یاں سے نہیں چلے ہیں ہم ایسے ہو پائمال
جو خاطروں سے اپنے فراموش ہو یہ حال
اب جاچکی دلوں سے یہ حیرانی و ملال
رہیے گا زندگی تئیں حیران کربلا
القصہ پیٹ روکے گئے آگے وے اسیر
دل چاک سر میں خاک جواں اور خرد و پیر
بس تو بھی اپنے ہاتھ سے رکھ کر قلم کو میرؔ
کہہ باد سے کہ ہووے گل افشان کربلا
بعد از نماز و سجدہ کرے در پہ التماس
کاے شاہ بندہ پرور و قدر گداشناس
مقصود میرؔ یہ ہے کہ اب ترک کر لباس
جوں زائران چاک گریبان کربلا
ہندوستاں سے قطرہ زن آوے چلا ہوا
مانند ابر چند پھرے دل بھرا ہوا
تو ملتفت ہوا کہ یہ مطلب روا ہوا
دیوے گا پھر نہ ہاتھ سے دامان کربلا
احوال زار شاہ شہیدان کربلا
باآنکہ تھا فرات پہ میدان کربلا
پیاسا ہوا ہلاک وہ مہمان کربلا
انصاف کی نہ ایک نے کی چشم نیم باز
کھولے ستم کے ہاتھ زبانیں کیاں دراز
قتل امام مقصد و تیاری نماز
بدتر تھے کافروں سے مسلمان کربلا
سیلاب تھا بلا کا ہر اک سمت گرم جوش
فریاد بیکساں کی طرف کم کسو کے گوش
آل نبی تمام ہوئی خوں سے سرخ پوش
صلواۃ بر حسین و جوانان کربلا
انواع جور مدعی ایجاد کر گئے
تخت و کلاہ احمدی برباد کر گئے
کیا تیرہ روز شامی بھی بیداد کر گئے
پایا زبون مور سلیمان کربلا
منصف تھے ہائے کتنے دروں تیرہ اہل شام
خوش تشنہ لب جنھوں نے کیا کشتن امام
فخر بشر کا نور دل و دیدہ تشنہ کام
سیراب وحش و طائر و حیوان کربلا
یارب نہ تھا سپہر پہ اس وقت کوئی بھی کیا
جب سر پہ اہل بیت کے تھی اس قدر جفا
ہوتا کوئی تو دیکھتا ہی سر کو ٹک جھکا
تا لامکاں تھا شور غریبان کربلا
نوک سناں پہ رکھ کے چلے لے سر امام
ناموس کے جو لوگ تھے بندی ہوئے تمام
ٹکڑے جگر کے ہوتے تھے کرتا تھا جب کلام
بے خانماں وہ جمع پریشان کربلا
بیٹے بھتیجے اس کے جواں مارے سب پڑے
ہو ٹکڑے ٹکڑے سامنے بیکس بہت لڑے
فرصت نہ اتنی دی کہ کوئی خاک میں گڑے
پوشیدہ کیا ہے ظلم نمایان کربلا
سر اس کا کٹ کے نیزے پہ جس دم رکھا گیا
نونیزہ پانی چڑھ کے جیوں کو ڈبا گیا
ہرچند بوند پانی کی کوئی نہ پا گیا
لیکن خدا کا قہر تھا طوفان کربلا
تھی عابدیں کے لب پہ شکایت یہ خونچکاں
کاے چرخ آہ کیونکے نبھے گا یہ کارواں
یہ سب ہیں زیربار الم میں ہوں ناتواں
طے کس طرح سے کریے بیابان کربلا
مشفق پدر تو رخت سفر کر گیا ہے بار
بھائی کو اس سے آگے ہی دشمن گئے تھے مار
ہوں میں برہنہ پا سو مرض سے نحیف و زار
پھر ہر قدم پہ خار مغیلان کربلا
ہے تودہ تودہ لاشوں پہ جن کی یہ خاک دھول
سب یہ شگفتہ رو تھے نگاہوں میں جیسے پھول
منھ دیکھ ان کے کہتے تھے صلواۃ بر رسولؐ
گلزار تھی یہ وادی ویران کربلا
اب سب ہی خاک و خون میں وے ہیں اٹے پڑے
اشجار و نونہال ہیں سارے کٹے پڑے
دل ہیں فگار سینے ہیں سب کے پھٹے پڑے
مسلخ سے کم نہیں یہ گلستان کربلا
جل جل کے ایک ایک سے اس کا تھا یہ خطاب
کاے قوم بس بہت ہوئی اب کم ہے جی میں تاب
پہلو سے میرے ہے جگر دشت بھی کباب
رکھ ہاتھ دیکھ سینۂ بریان کربلا
یہ آگے جانتے نہ تھے دیکھیں گے یہ ستم
خون پدر گرے گا زمیں پر رکیں گے دم
اندوہ و درد و رنج و الم اب ہے اور ہم
خرد و کلاں ہیں کشتۂ احسان کربلا
موقوف ہوگی غم کشی یہ جب نہ ہوں گا میں
مدت تلک مصیبتیں اپنی کہوں گا میں
جیتا رہوں گا جب تئیں روتا رہوں گا میں
اب تھم چکے یہ دیدۂ گریان کربلا
زینب کے لب سے حرف نکلتے تھے شکوہ ناک
آشفتہ مو وہ سر میں کھڑی ڈالتی تھی خاک
کہتی تھی تا سپہر مگر اے خداے پاک
جاتے نہیں یہ نالہ و افغان کربلا
شاید غبار رکھتی ہیں چشمان مہر و ماہ
احوال پر ہمارے نہیں مطلقاً نگاہ
پردہ رہے جو گر پڑے گردون روسیاہ
ہیں سربرہنہ خاک نشینان کربلا
باد شمال ظلم ادھر کو جو آگئی
ایک ایک کرکے دین کی شمعیں بجھا گئی
دل داغ سارے کر گئی سینے جلا گئی
سب اڑ گئی وہ خوبی ایوان کربلا
پیٹے ہیں ہم حسین کو جو کھول کھول بال
کیا خاطروں سے جاتے رہیں گے ہمارے حال
اشجار بید کے جو ہیں سو سالہاے سال
دیویں گے یاد یہ سر عریان کربلا
کرتے جو نوحہ لاشوں پہ ہم جمع آ ہوئے
آنکھوں سے دل کے ٹکڑے گرے بال وا ہوئے
بے جا ہمارے شور سے وحشی بجا ہوئے
دیواں ہوا ہے حشر کا دیوان کربلا
اس لوٹے کاروان کا دیکھے کوئی گذار
یہ سانحہ ہوا ہے زمانے کا یادگار
عترت نبیؐ کی اونٹوں پہ ہے ننگے سر سوار
سجاد نالہ کش ہے حدی خوان کربلا
وارث کے پیچھے جانیں گئیں وسوسوں سے ہائے
کیا طرحیں چرخ کرتے ہیں ہم بیکسوں سے ہائے
کیسی کمی اٹھائی ہے ہم نے خسوں سے ہائے
کس سے کہیں یہ درد فراوان کربلا
ناگہ نگہ جو لاش پہ قاسم کی جا پڑی
ساعت وہ گذری اہل حرم پر بہت کڑی
ماں اس کی سر کو پیٹتی کہتی تھی یہ کھڑی
ہے دیدنی یہ نوشہ بے جان کربلا
چن چن کے دشمنوں نے عزیزوں کے کاٹے سر
مارا پڑا رئیس تلف ہوگئے پسر
سر پر نہ عورتوں کے ردا تھی نہ ان کو گھر
آئی نہ کام ہمت مردان کربلا
آیا جو شاہ یاں تو یہیں کا یہیں رہا
انواع جور و ظلم و ستم جان پر سہا
آخر کو خون اس کا اسی خاک پر بہا
نکلا نہ پھر وہ یوسف زندان کربلا
آنکھوں کو جس کی رہ میں بچھایا کیے ہیں ہم
منت سے جس کے ناز اٹھایا کیے ہیں ہم
مسند پہ جس کو ناز کی پایا کیے ہیں ہم
سو خاک میں پڑا ہے وہ سلطان کربلا
یہ مردمی تو دیکھو کہ دریا بہا کیا
خیمہ کھڑا کنارے پر اس کے رہا کیا
شہ بہر طفل پانی ہی پانی کہا کیا
پیاسا موا ندان وہ نادان کربلا
بالفرض دشمنوں نے نہ کی اس طرف نظر
کینہ سے ہونٹ سوکھے ہمارے نہ چاہے تر
اک ابر بھی نہ آن کے برسا تنک ادھر
تا آسماں تھی شورش عطشان کربلا
کلثوم یوں تھی لاش پہ بھائی کی حرف زن
سر کیا ہوا کہ خاک میں پامال ہے بدن
پھر وجہ کیا کہ اب نہیں ملتا تجھے کفن
اے بادشاہ بے سر و سامان کربلا
ہم کچھ کریں جو فکر سو قدرت نہیں ہمیں
ماتم میں تیرے بیٹھیں سو فرصت نہیں ہمیں
میت کی رسمیں کرتے سو مہلت نہیں ہمیں
رسوائی کر رہے ہیں نگہبان کربلا
مہمانی ہم مسافروں کی کیا رہی ہے یاں
لخت دل و جگر تھے جو مارے پڑے جواں
جانا نہ ہم نے یاں کا دم آب و پارہ ناں
دیکھی سو اب یہ نعمت الوان کربلا
اس خاک پر اترتے نہ فرصت تجھے رہی
درپیش ہر قدم پہ قیامت تجھے رہی
بے ڈولیوں سے یاں کی کدورت تجھے رہی
شائستگی مگر نہ تھی شایان کربلا
ہو دلخوشی کسو کو تو ہو بھی شگفتہ رو
شادی ہو جان کو تو کرے ہنس کے گفتگو
تھی رونے کی جگہ کہ بخود ہم نہ تھے نہ تو
لب ہاے زخم تھے لب خندان کربلا
ہفتم سے آب و دانہ کا قدغن ہوا تھا یاں
جز ذکر تیغ تیز کچھ آیا نہ درمیاں
سادات کشتہ جانتے ہیں یا انھوں کی جاں
جو دیکھ کر موئے ہیں یہ حرمان کربلا
کروبیوں کے گوش مگر کر تھے اس گھڑی
جس وقت کشت و خون کی یاں دھوم تھی پڑی
صف عورتوں کی لاشوں پہ چلاتی تھی کھڑی
محشر بہ بر تھا ہر دل نالان کربلا
یاں سے نہیں چلے ہیں ہم ایسے ہو پائمال
جو خاطروں سے اپنے فراموش ہو یہ حال
اب جاچکی دلوں سے یہ حیرانی و ملال
رہیے گا زندگی تئیں حیران کربلا
القصہ پیٹ روکے گئے آگے وے اسیر
دل چاک سر میں خاک جواں اور خرد و پیر
بس تو بھی اپنے ہاتھ سے رکھ کر قلم کو میرؔ
کہہ باد سے کہ ہووے گل افشان کربلا
بعد از نماز و سجدہ کرے در پہ التماس
کاے شاہ بندہ پرور و قدر گداشناس
مقصود میرؔ یہ ہے کہ اب ترک کر لباس
جوں زائران چاک گریبان کربلا
ہندوستاں سے قطرہ زن آوے چلا ہوا
مانند ابر چند پھرے دل بھرا ہوا
تو ملتفت ہوا کہ یہ مطلب روا ہوا
دیوے گا پھر نہ ہاتھ سے دامان کربلا
-
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے (ردیف .. ن)
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے
ذروں میں روشنئ تجلئ طور ہے
اک آفتاب رخ کی ضیا دور دور ہے
کوسوں زمین عکس سے دریائے نور ہے
اللہ رے حسن طبقۂ عنبر سرشت کا
میدان کربلا ہے نمونہ بہشت کا
حیراں زمیں کے نور سے ہے چرخ لاجورد
مانند کہربا ہے رخ آفتاب زرد
ہے روکش فضائے ارم وادی نبرد
اٹھتا ہے خاک سے تتق نور جائے گرد
حیرت سے حاملان فلک ان کو تکتے ہیں
ذرے نہیں زمیں پہ ستارے چمکتے ہیں
ہے آب نہر صورت آئینہ جلوہ گر
تاباں ہے مثل چشمۂ خورشید ہر بھنور
لہریں بسان برق چمکتی ہیں سر بہ سر
پانی پہ مچھلیوں کی ٹھہرتی نہیں نظر
یہ آب و تاب ہے کہ گہر آب آب ہیں
دریا تو آسماں ہیں ستارے حباب ہیں
پرتو فگن ہوا جو رخ قبلۂ انام
مشہور ہو گئی وہ زمیں عرش احتشام
اور سنگ ریزے در نجف بن گئے تمام
صحرا کو مل گیا شرف وادی السلام
کعبہ سے اور نجف سے بھی عزت سوا ہوئی
خاک اس زمین پاک کی خاک شفا ہوئی
پھیلا جو نور مہر امامت دم زوال
ذروں سے واں کے آنکھ ملانا ہوا محال
سارے نہال فیض قدم سے ہوئے نہال
اختر بنے جو پھول تو شاخیں بنیں ہلال
پتے تمام آئینۂ نور ہو گئے
صحرا کے نخل سب شجر طور ہو گئے
غل تھا زہے حسین کی شوکت زہے وقار
گویا کھڑے ہیں جنگ کو محبوب کردگار
رخ سے عیاں ہے دبدبۂ شاہ ذو الفقار
ہے نور حق جبین منور سے آشکار
کیونکر چھپے نہ ماہ دوہفتہ حجاب سے
چودہ طبق میں نور ہے اس آفتاب سے
یہ روئے روشن اور یہ گیسوئے مشک فام
یاں شام میں تو صبح ہے اور صبح میں ہے شام
ہالے میں یوں نظر نہیں آتا ہے مہ تمام
قدرت خدا کی نور کا ظلمت میں ہے مقام
زلفوں میں جلوہ گر نہیں چہرہ جناب کا
ہے نصف شب میں آج ظہور آفتاب کا
قرباں کمان ابروئے مولا پہ جان و دل
گر ماہ نو کہیں تو ہے تشبیہ مبتذل
چشم غزال دشت ختن چشم سے خجل
دیکھا جسے کرم سے خطائیں ہوئیں بحل
پتلی بسان قبلہ نما بے قرار ہے
گریاں ہیں وہ یہ گردش لیل و نہار ہے
رخسار ہیں ضیا میں قمر سے زیادہ تر
جن پر ٹھہر سکی نہ کبھی شمس کی نظر
ریش مخضب اور یہ رخ شاہ بحر و بر
پیدا ہیں صاف معنی و اللیل و القمر
قرآن سے عیاں ہے بزرگی امام کی
کھائی قسم خدا نے اسی صبح و شام کی
کس منہ سے کیجئے لب جان بخش کا بیاں
چوسی جنہوں نے احمد مختار کی زباں
کیا در آب دار ہیں اس درج میں نہاں
گویا کہ موتیوں کا خزانہ ہے یہ دہاں
ذرے زمیں پہ عکس سے سارے چمک گئے
جس وقت یہ کھلے تو ستار چمک گئے
شمع حریم لم یزل تھا گلوئے شاہ
تاریک شب میں جیسے ہویدا ہو نور ماہ
اے چرخ بے مدار یہ کیسا ستم ہے آہ
شمشیر شمر اور محمد کی بوسہ گاہ
جس پر رسول ہونٹوں کو ملتے ہوں پیار سے
کٹ جائے کربلا میں وہ خنجر کی دھار سے
منظور یاں تھی مدح گلوئے شہ امم
یاد آ گئی مگر یہ حدیث غم و الم
مسجد میں جلوہ گر تھے رسول فلک حشم
ملتے تھے ذکر حق میں لب پاک دم بہ دم
روشن تھے بام و در رخ روشن کے نور سے
آئینہ بن گئی تھی زمیں تن کے نور سے
تھا جو ستوں کہ رکن رسالت کا تکیہ گاہ
کرسی بھی اس کی پشت کی تھی ڈھونڈھتی پناہ
تھا جس حصیر پر وہ دو عالم کا بادشاہ
حسرت سے عرش کرتا تھا اس فرش پر نگاہ
اوج زمیں بہشت بریں سے دو چند تھا
منبر کا نہ فلک سے بھی پایہ بلند تھا
اصحاب خاص گرد تھے انجم کی طرح سب
تاباں تھا بیچ میں وہ مہ ہاشمی لقب
سر پر ملک صفات مگس راں تھے دو عرب
جبریل تہ کیے ہوئے تھے زانوئے ادب
خادم بلال و قنبر گروں اساس تھا
نعلین اس کے پاس عصا اس کے پاس تھا
گیسو تھے وہ مفسر و اللیل اذا سجا
رخ سے عیاں تھے معنی و الشمس و الضحا
وہ ریش پاک اور رخ سردار انبیا
گویا دھرا تھا رحل پہ قرآں کھلا ہوا
اوڑھے سیہ عبا جو وہ عالم پناہ تھا
کعبہ کا صاف حاجیوں کو اشتباہ تھا
پہلو میں بادشاہ کے تھا جلوہ گر وزیر
سردار دیں علی ولی خلق کا امیر
دونوں جہاں میں کوئی نہ دونوں کا تھا نظیر
احمد تھے آفتاب تو حیدر مہ منیر
ظاہر میں ایک نور کا دو جا ظہور تھا
گر غور کیجیے تو وہی ایک نور تھا
مصروف وعظ و پند تھے سلطان مشرقین
جو گھر سے نکلے کھیلتے زہرا کے نور عین
نانا بغیر دونوں نواسوں کو تھا نہ چین
بڑھ جاتے تھے حسن کبھی آگے کبھی حسین
کہتے تھے دیکھیں کون قدم جلد اٹھاتا ہے
نانا کے پاس کون بھلا پہلے جاتا ہے
وہ گورے گورے چہروں پہ زلفیں ادھر ادھر
اختر سے وہ چمکتے ہوئے کان کے گہر
رشک ہلال طوق گلے غیرت قمر
ہیکل پہ نقش نام خدائے جلیل کے
تعویذ گردنوں پہ پر جبرئیل کے
مسجد میں آئے ہنستے ہوئے جب وہ گل بدن
خوشبو سے صحن مسجد جامع بنا چمن
تسلیم کو حسین سے پہلے جھکے حسن
خوش ہو کے مسکرانے لگے سرور زمن
بڑھ بڑھ کے خم سلام کو چھوٹے بڑے ہوئے
بیٹھے رہے رسول ملک اٹھ کھڑے ہوئے
بیٹوں کو تھا علی کا اشارہ کہ بیٹھ جاؤ
لازم نہیں کہ وعظ میں نانا کو تم ستاؤ
پھیلا کے ہاتھ بولے محمد کہ آؤ آؤ
شبیر نے کہا ہمیں پہلے گلے لگاؤ
بھائی حسن جو آپ کی گودی میں آئیں گے
ہم تم سے نانا جان ابھی روٹھ جائیں گے
بولے حسن کہ واہ ہمیں اور کریں نہ پیار
اقرار کے چکے ہیں شہنشاہ نام دار
بولے بہ چشم نم یہ حسین فلک وقار
دیکھیں تو کون کاندھے پہ ہوتا ہے اب سوار
سب سے سوا جو ہیں سو ہمیں ان کے پیارے ہیں
آگے نہ بڑھیے آپ کہ نانا ہمارے ہیں
بھائی سے تب کہا یہ حسن نے بہ التفات
بے وجہ ہم سے روٹھے ہو تم اے نکو صفات
نانا ہمارے کیا نہیں سلطان کائنات
ہوتی ہے ناگوار تمہیں تو ذرا سی بات
غصہ نہ اتنا چاہیئے خوش خو کے واسطے
مچلے تھے یوں ہی بچۂ آہو کے واسطے
یہ سن کے منہ علی کا لگے دیکھنے رسول
ہنس کر کہا یہ دونوں ہیں میرے چمن کے پھول
میں چاہتا ہوں ایک کی خاطر نہ ہو ملول
روئیں گے یہ تو گھر سے نکل آئے گی بتول
ہووے نہ رنج میرے کسی نور عین کو
تم لو حسن کو گود میں میں لوں حسین کو
شبر سے پھر اشارہ کیا ہو کے بے قرار
غصہ نہ کھاؤ پہلے تمہیں کو کریں گے پیار
پھر بولے دیکھ کر سوئے شبیر نامدار
آ اے حسین آ تری باتوں کے میں نثار
چھاتی سے ہم لگائیں گے جان اپنی جان کر
دیکھیں تو پہلے کون لپٹتا ہے آن کر
دوڑے یہ بات سن کے برابر وہ خوش سیر
پاس آئے آفتاب رسالت کے دو قمر
لپٹے حسین ہنس کے ادھر اور حسن ادھر
تھے پانوں زانوؤں پہ تو بالائے دوش سر
نانا کے ساتھ پیار میں دونوں کا ساتھ تھا
گردن میں ایک ان کا اور ان کا ہاتھ تھا
پھر پھر کے دیکھتے تھے شہنشاہ مشرقین
گہہ جانب حسن تو کبھی جانب حسین
بیٹھے جو زانوؤں پہ وہ زہرا کے نور عین
تھا تن کو لطف قلب کو راحت جگر کو چین
جھک جھک کے منہ رسول زمن چومنے لگے
ان کا گلا تو ان کا دہن چومنے لگے
شبیر چاہتے تھے کہ چومیں مرے بھی لب
پر کچھ گلے کے بوسوں کا کھلتا نہ تھا سبب
نانا کے منہ کے پاس یہ لاتے تھے منہ کو جب
جھک جھک کے چومتے تھے گلا سید عرب
بھائی کو دیکھ کر جو حسن مسکراتے تھے
غیرت سے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے
اٹھے حسین زانوئے احمد سے خشمگیں
غصے سے رنگ زرد اور آنکھوں پہ آستیں
رخ پر پسینہ جسم میں رعشہ جبیں پہ چیں
پوچھا کدھر چلے تو یہ بولے کہیں نہیں
گھر میں اکیلے تیوری چڑھائے چلے گئے
دیکھا نہ پھر کے سر کو جھکائے چلے گئے
بیت الشرف میں آئے جو شبیر نام دار
کرتے کو منہ پہ رکھ کے لگے رونے زارزار
دوڑیں یہ کہہ کے فاطمہ زہرا جگر فگار
ہے ہے حسین کیا ہوا تو کیوں ہے اشک بار
تجھ کو رلا کے غم میں مجھے مبتلا کیا
قربان ہو گئی تجھے کس نے خفا کیا
میرا کلیجہ پھٹتا ہے اے دل ربا نہ رو
زہرا ہزار جان سے تجھ پہ فدا نہ رو
سر میں نہ درد ہو کہیں اے مہ لقا نہ رو
بس بس نہ رو حسین برائے خدا نہ رو
میری طرف تو دیکھو کہ بیتاب ہوتی ہوں
چادر سے منہ کو ڈھانپ کے لو میں بھی روتی ہوں
تو منہ تو کھول اے مرے شبیر خوش خصال
تر ہو گئے ہیں آنسوؤں سے گورے گورے گال
مل مل کے پشت دست سے آنکھ کرو نہ لال
سلجھاؤں آؤ الجھے ہوئے گیسوؤں کے بال
گھر سے گئے تھے ساتھ جدا ہو کے آئے ہو
سمجھی میں کچھ حسن سے خفا ہو کے آئے ہو
تم چپ رہو وہ گھر میں تو مسجد سے پھر کے آئیں
گزری میں کھیل سے مرے بچے کو کیوں رلائیں
ان سے نہ بولیو وہ تمہیں لاکھ گر منائیں
لو آؤ جانے دو تمہیں چھاتی سے ہم لگائیں
واری اگر حسن نے رلایا برا کیا
پوچھوں گی کیا نہ میں مرے پیارے نے کیا کیا
بولے حسین ہم تو ہیں اس بات پر خفا
نانا نے چومے بھائی کے ہونٹ اور مرا گلا
تم اماں جان منہ کو تو سونگھو مرے ذرا
کچھ بوئے ناگوار ہے میرے دہن میں کیا
بھائی کے لب سے اپنے لبوں کو ملاتے ہیں
اب ہم نہ جائیں گے ہمیں نانا رلاتے ہیں
منہ رکھ کے منہ پہ بولی یہ زہرا جگر فگار
بوئے گلاب آتی ہے اے میرے گلغدار
چوما اگر گلا تو خفا ہو نہ میں نثار
تم کو زباں چوساتے تھے محبوب کردگار
یہ مشک میں مہک نہ گل یاسمن میں ہے
خوش بو اسی دہن کی تمہارے دہن میں ہے
کہنے لگے حسین یہ ماں سے بہ چشم نم
کیا جانو تم حسن سے ہمیں چاہتے ہیں کم
یہ کیا انہیں پہ لطف و عنایت ہے دم بہ دم
معلوم ہو گیا انہیں پیارے نہیں ہیں ہم
رو رو کے آج جان ہم اپنی گنوائیں گے
پانی نہ اب پئیں گے نہ کھانے کو کھائیں گے
یہ بات سن کے ہو گیا زہرا کا رنگ فق
بولی پسر سے رو کے وہ بنت رسول حق
صدقے گئی کرو نہ کلیجے کو میرے شق
ہے ہے یہ کیا کہا مجھے ہوتا ہے اب قلق
میرا لہو بہے گا جو آنسو بہاؤ گے
کاہے کو ماں جیے گی جو کھانا نہ کھاؤگے
یہ کہہ کے اوڑھ لی سر پر نور پر ردا
موزے پہن کے گود میں شبیر کو لیا
در تک گئی جو گھر سے وہ دل بند مصطفا
فضہ نے بڑھ کے بوزر و سلماں کو دی صدا
پیش نبی حسین کو گودی میں لاتی ہیں
ہٹ جاؤ سب کہ فاطمہ مسجد میں آتی ہیں
اللہ رے آمد آمد زہرا کا بندوبست
ساتوں فلک تھے اوج شرافت سے جس کے پست
احمد کے گرد و پیش سے اٹھے خدا پرست
انساں تو کیا ملک کو نہ تھی قدرت نشست
آئیں تو شاد شاد رسول زمن ہوئے
گھر میں خدا کے ایک جگہ پنج تن ہوئے
تعظیم فاطمہ کو اٹھے سید البشر
دیکھا کہ چشم فاطمہ ہے آنسوؤں سے تر
غم تھے حسین دوش پہ ماں کے جھکائے سر
تھا اک ہلال مہر کے پہلو میں جلوہ گر
ماں کہتی تھی نہ رؤو مگر چپ نہ ہوتے تھے
آنکھیں تھیں بند ہچکیاں لے لے کے روتے تھے
گھبرا کے پوچھنے لگے محبوب ذو الجلال
روتا ہے کیوں حسین یہ کیا ہے تمہارا حال
بولیں بتول آج قلق ہے مجھے کمال
رویا ہے یہ حسین کہ آنکھیں ہیں دونوں لال
آتے ہیں ہنستے روتے ہوئے گھر میں جاتے ہیں
شفقت بھی آپ ہی کرتے ہیں آپ ہی رلاتے ہیں
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں یا شاہ بحر و بر
شفقت کی اس کے حال پہ ہر دم رہے نظر
رونے سے اس کے ہوتا ہے ٹکڑے مرا جگر
مجھ فاقہ کش غریب کا پیارا ہے یہ پسر
حیدر سے پوچھیے مرے عسرت کے حال کو
کس کس دکھوں سے پالا ہے اس نونہال کو
اشک اس کے جتنے ٹپکے ہیں یا شاہ نیک خو
اتنا ہی گھٹ گیا ہے مرے جسم کا لہو
روئے ہیں پھوٹ پھوٹ کے یہ میرے رو بہ رو
تر ہو گیا ہے آنسوؤں سے چاند سا گلو
دیکھا نہ تھا یہ میں نے جو حال اس کا آج ہے
حضرت تو جانتے ہیں کہ نازک مزاج ہے
شفقت سے آج آپ نے چومے حسن کے لب
بوسہ لیا نہ ان کے لبوں کا یہ کیا سبب
رتبے میں دونوں ایک ہیں یا سرور عرب
میں سچ کہوں یہ سن کے مجھے بھی ہوا عجب
اس کو جو ہو خوشی تو دل اس کا بھی شاد ہو
چھوٹے سے چاہیئے کہ محبت زیاد ہو
آپ ان کے ناز اٹھاتے ہیں یا شاہ بحر و بر
پھر کس سے روٹھیں آپ سے روٹھیں نہ یہ اگر
اکثر انہیں چڑھایا ہے حضرت نے دوش پر
گیسو دئیے ہیں ننھے سے ہاتھوں میں بیشتر
روٹھے تھے یہ سو قدموں پہ سر دھرنے آئے ہیں
منہ کے نہ چومنے کا گلا کرنے آئے ہیں
یہ کہہ کے پھر حسین سے بولیں بہ چشم تر
لو جا کے اب نبی کے قدم پر جھکاؤ سر
آئے حسین ہاتھ جو ننھے سے جوڑ کر
بے اختیار رونے لگے سید البشر
رہ رہ کے دیکھتے تھے علی و بتول کو
نزدیک تھا قلق سے غش آئے رسول کو
تھی آنسوؤں سے ریش مبارک تمام نم
فرط بکا سے خاک پہ جھکتے تھے دم بہ دم
گاہے ستوں سے لگ کے ہوئے راست گاہ خم
ہر لحظہ اضطراب زیادہ تھا صبر کم
ہو سکتا تھا نہ ضبط شۂ مشرقین سے
روتے تھے بار بار لپٹ کر حسین سے
شبیر رو کے کہتے تھے نانا نہ روئیے
روئیں گے اب نہ ہم شۂ والا نہ روئیے
ہلنے لگے گا عرش معلےٰ نہ روئیے
پھٹتا ہے اب ہمارا کلیجہ نہ روئیے
سو بار دن میں ہم تو منہ اشکوں سے دھوتے ہیں
حضرت ہمارے رونے پہ کاہے کو روتے ہیں
گھبرا گئے علی ولی شاہ بحر و بر
کی عرض فاطمہ نے جھکا کے قدم پہ سر
بیٹی نثار ہو گئی یا سید البشر
کیا وجہ ہے جو آپ ہیں اس طرح نوحہ گر
جلدی بتائیے کہ مجھے تاب اب نہیں
رونا خدا کے دوست کا یہ بے سبب نہیں
حضرت کو علم غیب ہے یا شاہ انس و جاں
آئندہ و گزشتہ کا سب حال ہے عیاں
کیا آئی آج وحی خداوند دو جہاں
ہونا ہے جو حسین پہ مجھ سے کرو بیاں
فاقوں سے کاٹتی ہوں مصیبت جہان کی
کیوں بابا جان خیر تو ہے اس کی جان کی
بولے جگر کو تھام کے محبوب ذو الجلال
تجھ سے سنا نہ جائے گا اے فاطمہ یہ حال
کس منہ سے میں کہوں کہ قلق ہے مجھے کمال
زہرا شہید ہوئے ہوویں گے تیرے یہ دونوں لال
ماتم کی یہ خبر ابھی جبریل لائے تھے
سارے ملک حسین کے پرسے کو آئے تھے
الماس پی کے ہوئے گا بے جاں ترا حسن
یہ وجہ ہے کہ چومتا ہوں اس کا میں دہن
بھر جائے گا کلیجوں کے ٹکڑوں سے سب لگن
ہوگا زمردی ترے اس لال کا بدن
سوئے بہشت جب یہ جہاں سے سدھاریں گے
بد کیش تیر اس کے جنازے پہ ماریں گے
زہرا مجھے کلام کی طاقت نہیں ہے اب
حلق حسین چومنے کا کیا کہوں سبب
اک بن میں تین روز رہیں گے یہ تشنہ لب
کٹ جائے گا گلا یہی خنجر سے ہے غضب
نیزے پہ سر چڑھے گا ترے نور عین کا
گھوڑوں سے روند ڈالیں گے لاشہ حسین کا
روئے خبر یہ کہہ کے جو محبوب ذو المنن
گھبرا کے منہ حسین کا تکنے لگے حسن
زہرا پکاری ہائے لٹے گا مرا چمن
میں مر گئی دہائی ہے یا سرور زمن
یہ کیسی آگ ہے کہ مری کوکھ جل گئی
ہے ہے چھری کلیجے پہ زہرا کے چل گئی
فریاد یا نبی شۂ ابرار الغیاث
اے مرسلان حق کے مددگار الغیاث
اے بے کسوں کے وارث و سردار الغیاث
قدرت ہے سب طرح کی شۂ مشرقین کو
حضرت سے لوں گی اپنے حسن اور حسین کو
کس جرم پر یہ لال مرے قتل ہوں گے آہ
رو کر کہا رسول خدا نے کہ بے گناہ
کی عرض فاطمہ نے کہ اے عرش بارگاہ
بچوں کو میرے کیا نہ ملے گی کہیں پناہ
تلواریں کھینچ کھینچ کے ظالم جو آئیں گے
حضرت نہ کیا نواسوں کو اپنے بچائیں گے
آساں ہے کیا جو قتل کریں گے ستم شعار
کیا شیر حق کمر سے نہ کھینچیں گے ذو الفقار
اعدا پہ کیا چلے گا نہ دست خدا کا وار
بالوں کو کیا نہ کھولے گی زہرا جگر فگار
ٹکڑے جگر جو ہوئے گا مجھ دل دو نیم کا
پایہ نہ کیا ہلاؤں گی عرش عظیم کا
زہرا سے رو کے کہنے لگے شاہ نیک خو
بیٹی مجھے ستائیں گے تربت میں کینہ جو
اس وقت قتل ہوئیں گے یہ دونوں ماہ رو
دنیا میں جب نہ ہوگا علی اور نہ میں نہ تو
لاشے پہ مجتبیٰ کے تو شبیر روئے گا
شبیر جب مرے گا تو کوئی نہ ہوئے گا
چلائی سر پٹک کے یہ زہرا کہ ہے ستم
پیٹے گا کون تن سے جو نکلے گا اس کا دم
ماتم کی صف بچھائے گا کون اے شہ امم
پرسے کو کون آئے گا اس کے بہ چشم نم
ہم میں سے ایسے وقت جو کوئی نہ ہوئے گا
ہے ہے مرے حسین کو پھر کون روئے گا
بچے کی میرے تعزیہ داری کرے گا کون
منہ ڈھانپ ڈھانپ گریہ و زاری کرے گا کون
دریائے اشک چشم سے جاری کرے گا کون
امداد بعد مرگ ہماری کرے گا کون
ہوگا کہاں نبی کے نواسے کا فاتحہ
شربت پہ کون دیوے گا پیاسے کا فاتحہ
بولے نبی کہ آپ کو زہرا نہ کر ہلاک
فرما چکا ہے مجھ سے یہ وعدہ خدائے پاک
پیدا کریں گے قوم اک ایسی بہ روئے خاک
جو رات دن رہیں گے اسی غم میں درد ناک
بزم عزا میں آئیں گے وہ دور دور سے
تن خاک سے بنائیں گے دل ان کے نور سے
ہوگی انہیں سے مجلس ماتم کی زیب و زین
دیں گے انہیں وہ لب کہ رہے جس پہ وا حسین
آنکھیں وہ دیں گے رونے کو سمجھیں جو فرض عین
ہاتھ ایسے غیر سینہ زنی ہو جنہیں نہ چین
سامان تعزیت کے کبھی کم نہ ہوئیں گے
وہ حشر تک حسین کے ماتم میں روئیں گے
ہوگا عیاں فلک پہ محرم کا جب ہلال
رخت سیاہ پہنیں گے بر میں وہ خوش خصال
کھولیں گی بیبیاں بھی سب اپنے سروں کے بال
ہر گھر میں ہوگا شور کہ ہے ہے علی کا لال
لیں گے صلے میں خلد ترے نور عین سے
آنسو عزیز وہ نہ کریں گے حسین سے
پیاسا شہید ہوگا جو تیرا یہ دل ربا
مومن سبیلیں رکھیں گے پانی کی جا بجا
ہووے گی شاد روح شہیدان کربلا
بھر بھر کے آب سرد پکاریں گے برملا
محبوب کبریا کے نواسے کی نذر ہے
پیاسے نہ جائیو کہ یہ پیاسے کی نذر ہے
کہنے لگی نبی سے بتول فلک جناب
ہے ہے میں کیا کروں مرے دل کو نہیں ہے تاب
اے بادشاہ کون و مکاں مالک الرقاب
درگاہ حق میں آپ کی ہے عرض مستجاب
کیجے دعا کہ خالق اکبر مدد کرے
اللہ یہ بلا مرے بچے کی رد کرے
بیٹی سے رو کے کہنے لگے شاہ کائنات
روح الامیں نے مجھ سے تو یہ بھی کہی ہے بات
چاہو تو رد کرے یہ بلا رب پاک ذات
لیکن نہ ہوے گی مرے امت کی پھر نجات
محبوب حق نثار ترے نور عین پر
موقوف ہے یہ امر تو قتل حسین پر
اللہ رے صبر دختر محبوب کردگار
امت کا نام سن کے جھکایا سر ایک بار
خوشنود ہو کے کہنے لگے شاہ ذوالفقار
صدقے حسن حسین تصدق علی نثار
اس راہ میں نہ مال نہ دولت عزیز ہے
پیارے پسر نہیں ہمیں امت عزیز ہے
کہنے لگے حسین سے پھر شاہ بحر و بر
بتلا مجھے کہ کیا تری مرضی ہے اے پسر
نانا سے بولے چھوٹے سے ہاتھوں کو جوڑ کر
امت کے کام آئے تو حاضر ابھی ہے سر
وعدہ کو ہم نہ بھولیں گے گو خورد سال ہیں
چھوٹے نہیں ہیں مخبر صادق کے لال ہیں
روتے ہیں آپ کس لیے یا سید امم
راضی ہیں ہم پہ راہ خدا میں ہوں جو ستم
تلواریں بھی چلیں تو نہیں مارنے کے دم
امت پہ اپنے سر کو تصدق کریں گے ہم
ہم راست گو ہیں بات پہ جس وقت آتے ہیں
کہتے ہیں جو زباں سے وہی کر دکھاتے ہیں
بچپن میں جو زباں سے کہا تھا کیا وہ کام
جس وقت رن میں ٹوٹ پڑے شہ پہ فوج شام
گردن جھکا کے برچھیاں کھایا کیے امام
خوں میں قبا رسول کی تر ہو گئی تمام
تیغیں علی کے لال کے شانے پہ چل گئیں
چھاتی کے پار نیزوں کی نوکیں نکل گئیں
پھیری نہ تھی جو پشت مبارک دم مصاف
تھے دو ہزار زخم فقط سر سے تا بہ ناف
سید سے بے وطن سے زمانہ تھا بر خلاف
غل تھا کہ آج ہوتا ہے گھر فاطمہ کا صاف
سنبھلا نہ جائے گا خلف بو تراب سے
لو وہ قدم حسین کے نکلے رکاب سے
مینہ کی طرح برسنے لگے شاہ دیں پہ تیر
تھرا رہے تھے لگ کے تن نازنیں پہ تیر
دامن پہ تیر جیب پہ تیر آستیں پہ تیر
پہلو پہ تیغ سینہ پہ نیزہ جبیں پہ تیر
داغوں سے خوں کے رخت بدن لالہ زار تھا
شکل ضریح سینۂ اقدس فگار تھا
تر تھی لہو میں زلف شکن در شکن جدا
مجروح لعل لب تھے جدا اور دہن جدا
درپئے تھے نیزہ دار جدا تیغ زن جدا
کٹ کٹ کے ہو گیا تھا ہر اک عضو تن جدا
سی پارہ تھا نہ صدر فقط اس جناب کا
پرزے ورق ورق تھا خدا کی کتاب کا
کرتا تھا وار برچھیوں والوں کا جب پرا
تیغوں سے دم بھی لینے کی مہلت نہ تھی ذرا
نیزوں میں خوں نبی کے نواسے کا تھا بھرا
شمشیر و تیر نیزہ و خنجر کے ماورا
تھیں سختیاں ستم کی شہ خوش خصال پر
چلتے تھے سنگ فاطمہ زہرا کے لال پر
تھے دو ہزار جسم شۂ بحر و بر پہ زخم
ماتھے پہ زخم تیر کے تیغوں کے سر پہ زخم
گردن پہ زخم سینہ پہ زخم اور کمر پہ زخم
اور اس کے ماورا تھے بہتر جگر پہ زخم
گھوڑے پہ گہہ سنبھلتے تھے گہہ ڈگمگاتے تھے
غش آتا تھا تو ہرنے پہ سر کو جھکاتے تھے
گھوڑے پہ جب سنبھلنے کی مطلق رہی نہ تاب
ہاتھوں سے باگ چھوٹ گئی اور پاؤں سے رکاب
گرنے لگا جو خاک پہ وہ آسماں جناب
مرقد میں بے قرار ہوئی روح بو تراب
غل تھا کہ خاک پر شہ کون و مکاں گرا
بس اب زمیں الٹ گئی اور آسماں گرا
جلتی ہوئی زمیں پہ تڑپنے لگے امام
بے کس پہ ظالموں نے کیا اور اژدہام
اس وقت شمر سے یہ عمر نے کیا کلام
ہاں تن سے جلد کاٹ سر سرور انام
ڈریو نہ سن کے فاطمہ زہرا کی آہ کو
گل کر دے شمع قبر رسالت پناہ کو
یہ سنتے ہی چڑھائی ستمگر نے آستیں
خنجر کمر سے کھینچ کے آگے بڑھا لیں
تھے قبلہ رو جھکے ہوئے سجدے میں شاہ دیں
لب ہلتے دیکھے شاہ کے آیا وہ جب قریں
سمجھا کہ تشنگی سے جو صدمے گزرتے ہیں
اس وقت بد دعا مجھے شبیر کرتے ہیں
جھک کر قریب کان جو لایا تو یہ سنا
حق میں گناہ گاروں کے کرتے ہیں شہ دعا
جاری زبان خشک پہ یہ ہے کہ اے خدا
کر حاجتوں کو میرے محبوں کی تو روا
شیعوں کا حشر روز جزا میرے ساتھ ہو
میرا یہ خوں بہا ہے کہ ان کی نجات ہو
یہ سن کے مستعد ہوا وہ شہ کے قتل پر
زانو رکھا حسین کے سینے پہ بے خطر
گردن پہ پھیرنے لگا خنجر جو بد گہر
آئی صدا علی کی کہ ہے ہے مرے پسر
زہرا پکاری کچھ بھی نبی سے حجاب ہے
ظالم یہ بوسہ گاہ رسالت مآب ہے
کیوں ذبح میرے لال کو کرتا ہے بے گناہ
کیوں کاٹتا ہے میرے کلیجے کو رو سیاہ
کشتی کو اہل بیت نبی کی نہ کر تباہ
میں فاطمہ ہوں عرش ہلائے گی میری آہ
ہوئے گا حشر قتل جو یہ بے وطن ہوا
یہ مر گیا تو خاتمہ پنج تن ہوا
آواز اپنی ماں کی یہ زینب نے جب سنی
دوڑی نکل کے خیمے سے سر پیٹتی ہوئی
دیکھا کہ ذبح کرتا ہے حضرت کو وہ شقی
سر پیٹ کر یہ کہنے لگی وہ جگر جلی
ہے ہے نہ تین روز کے پیاسے کو ذبح کر
ظالم نہ مصطفی کے نواسے کو ذبح کر
بانو پکارتی تھی یہ کیا کرتا ہے لعیں
پیاسا ہے تین روز سے حیدر کا جا نشیں
چلاتی تھی سکینہ کہ جینے کی میں نہیں
بابا کو ذبح کرتا ہے کیوں اے عدوئے دیں
خنجر نہ پھیر چاند سی گردن پہ رحم کر
ابا کو چھوڑ دے مرے بچپن پہ رحم کر
زخموں سے چور چور ہے زہرا کا یادگار
جس چھاتی پر میں سوتی تھی اس پر ہے تو سوار
بابا کے حلق پر نہ پھرا اب چھری کی دھار
بدلے پدر کے سر کو مرے تن سے تو اتار
سید پہ تشنہ لب پہ ستم اس قدر نہ کر
پوتی ہوں فاطمہ کی مجھے بے پدر نہ کر
رو کر بیاں یہ کرتی تھی وہ سوختہ جگر
دے کر دہائی اہل حرم پیٹتے تھے سر
کرتا تھا ذبح شہ کو وہاں شمر بد گہر
فرماتے تھے یہ شاہ کہ پیاسا ہوں رحم کر
پانی دیا نہ ہائے نبی کے نواسے کو
جلاد ذبح کرنے لگا بھوکے پیاسے کو
آخر سر امام امم تن سے کٹ گیا
چلا کے فاطمہ نے یہ زینب کو دی صدا
میداں سے جلد لے کے سکینہ کو گھر میں جا
بے جرم کٹ گیا ترے ماں جائے کا گلا
مارا بظلم شمر نے پیاسے کو جان سے
میں لٹ گئی حسین سدھارے جہان سے
بس اے انیسؔ بزم میں ہے نالہ و فغاں
پوچھ ان کے دل سے جو ہیں سخن فہم نکتہ داں
حق ہے سنا نہیں کبھی اس حسن کا بیاں
گویا کہ یہ خلیق کی ہے سر بہ سر زباں
سچ ہے کہ اس زباں کو کوئی جانتا نہیں
جو جانتا ہے اور کو وہ مانتا نہیں
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے
ذروں میں روشنئ تجلئ طور ہے
اک آفتاب رخ کی ضیا دور دور ہے
کوسوں زمین عکس سے دریائے نور ہے
اللہ رے حسن طبقۂ عنبر سرشت کا
میدان کربلا ہے نمونہ بہشت کا
حیراں زمیں کے نور سے ہے چرخ لاجورد
مانند کہربا ہے رخ آفتاب زرد
ہے روکش فضائے ارم وادی نبرد
اٹھتا ہے خاک سے تتق نور جائے گرد
حیرت سے حاملان فلک ان کو تکتے ہیں
ذرے نہیں زمیں پہ ستارے چمکتے ہیں
ہے آب نہر صورت آئینہ جلوہ گر
تاباں ہے مثل چشمۂ خورشید ہر بھنور
لہریں بسان برق چمکتی ہیں سر بہ سر
پانی پہ مچھلیوں کی ٹھہرتی نہیں نظر
یہ آب و تاب ہے کہ گہر آب آب ہیں
دریا تو آسماں ہیں ستارے حباب ہیں
پرتو فگن ہوا جو رخ قبلۂ انام
مشہور ہو گئی وہ زمیں عرش احتشام
اور سنگ ریزے در نجف بن گئے تمام
صحرا کو مل گیا شرف وادی السلام
کعبہ سے اور نجف سے بھی عزت سوا ہوئی
خاک اس زمین پاک کی خاک شفا ہوئی
پھیلا جو نور مہر امامت دم زوال
ذروں سے واں کے آنکھ ملانا ہوا محال
سارے نہال فیض قدم سے ہوئے نہال
اختر بنے جو پھول تو شاخیں بنیں ہلال
پتے تمام آئینۂ نور ہو گئے
صحرا کے نخل سب شجر طور ہو گئے
غل تھا زہے حسین کی شوکت زہے وقار
گویا کھڑے ہیں جنگ کو محبوب کردگار
رخ سے عیاں ہے دبدبۂ شاہ ذو الفقار
ہے نور حق جبین منور سے آشکار
کیونکر چھپے نہ ماہ دوہفتہ حجاب سے
چودہ طبق میں نور ہے اس آفتاب سے
یہ روئے روشن اور یہ گیسوئے مشک فام
یاں شام میں تو صبح ہے اور صبح میں ہے شام
ہالے میں یوں نظر نہیں آتا ہے مہ تمام
قدرت خدا کی نور کا ظلمت میں ہے مقام
زلفوں میں جلوہ گر نہیں چہرہ جناب کا
ہے نصف شب میں آج ظہور آفتاب کا
قرباں کمان ابروئے مولا پہ جان و دل
گر ماہ نو کہیں تو ہے تشبیہ مبتذل
چشم غزال دشت ختن چشم سے خجل
دیکھا جسے کرم سے خطائیں ہوئیں بحل
پتلی بسان قبلہ نما بے قرار ہے
گریاں ہیں وہ یہ گردش لیل و نہار ہے
رخسار ہیں ضیا میں قمر سے زیادہ تر
جن پر ٹھہر سکی نہ کبھی شمس کی نظر
ریش مخضب اور یہ رخ شاہ بحر و بر
پیدا ہیں صاف معنی و اللیل و القمر
قرآن سے عیاں ہے بزرگی امام کی
کھائی قسم خدا نے اسی صبح و شام کی
کس منہ سے کیجئے لب جان بخش کا بیاں
چوسی جنہوں نے احمد مختار کی زباں
کیا در آب دار ہیں اس درج میں نہاں
گویا کہ موتیوں کا خزانہ ہے یہ دہاں
ذرے زمیں پہ عکس سے سارے چمک گئے
جس وقت یہ کھلے تو ستار چمک گئے
شمع حریم لم یزل تھا گلوئے شاہ
تاریک شب میں جیسے ہویدا ہو نور ماہ
اے چرخ بے مدار یہ کیسا ستم ہے آہ
شمشیر شمر اور محمد کی بوسہ گاہ
جس پر رسول ہونٹوں کو ملتے ہوں پیار سے
کٹ جائے کربلا میں وہ خنجر کی دھار سے
منظور یاں تھی مدح گلوئے شہ امم
یاد آ گئی مگر یہ حدیث غم و الم
مسجد میں جلوہ گر تھے رسول فلک حشم
ملتے تھے ذکر حق میں لب پاک دم بہ دم
روشن تھے بام و در رخ روشن کے نور سے
آئینہ بن گئی تھی زمیں تن کے نور سے
تھا جو ستوں کہ رکن رسالت کا تکیہ گاہ
کرسی بھی اس کی پشت کی تھی ڈھونڈھتی پناہ
تھا جس حصیر پر وہ دو عالم کا بادشاہ
حسرت سے عرش کرتا تھا اس فرش پر نگاہ
اوج زمیں بہشت بریں سے دو چند تھا
منبر کا نہ فلک سے بھی پایہ بلند تھا
اصحاب خاص گرد تھے انجم کی طرح سب
تاباں تھا بیچ میں وہ مہ ہاشمی لقب
سر پر ملک صفات مگس راں تھے دو عرب
جبریل تہ کیے ہوئے تھے زانوئے ادب
خادم بلال و قنبر گروں اساس تھا
نعلین اس کے پاس عصا اس کے پاس تھا
گیسو تھے وہ مفسر و اللیل اذا سجا
رخ سے عیاں تھے معنی و الشمس و الضحا
وہ ریش پاک اور رخ سردار انبیا
گویا دھرا تھا رحل پہ قرآں کھلا ہوا
اوڑھے سیہ عبا جو وہ عالم پناہ تھا
کعبہ کا صاف حاجیوں کو اشتباہ تھا
پہلو میں بادشاہ کے تھا جلوہ گر وزیر
سردار دیں علی ولی خلق کا امیر
دونوں جہاں میں کوئی نہ دونوں کا تھا نظیر
احمد تھے آفتاب تو حیدر مہ منیر
ظاہر میں ایک نور کا دو جا ظہور تھا
گر غور کیجیے تو وہی ایک نور تھا
مصروف وعظ و پند تھے سلطان مشرقین
جو گھر سے نکلے کھیلتے زہرا کے نور عین
نانا بغیر دونوں نواسوں کو تھا نہ چین
بڑھ جاتے تھے حسن کبھی آگے کبھی حسین
کہتے تھے دیکھیں کون قدم جلد اٹھاتا ہے
نانا کے پاس کون بھلا پہلے جاتا ہے
وہ گورے گورے چہروں پہ زلفیں ادھر ادھر
اختر سے وہ چمکتے ہوئے کان کے گہر
رشک ہلال طوق گلے غیرت قمر
ہیکل پہ نقش نام خدائے جلیل کے
تعویذ گردنوں پہ پر جبرئیل کے
مسجد میں آئے ہنستے ہوئے جب وہ گل بدن
خوشبو سے صحن مسجد جامع بنا چمن
تسلیم کو حسین سے پہلے جھکے حسن
خوش ہو کے مسکرانے لگے سرور زمن
بڑھ بڑھ کے خم سلام کو چھوٹے بڑے ہوئے
بیٹھے رہے رسول ملک اٹھ کھڑے ہوئے
بیٹوں کو تھا علی کا اشارہ کہ بیٹھ جاؤ
لازم نہیں کہ وعظ میں نانا کو تم ستاؤ
پھیلا کے ہاتھ بولے محمد کہ آؤ آؤ
شبیر نے کہا ہمیں پہلے گلے لگاؤ
بھائی حسن جو آپ کی گودی میں آئیں گے
ہم تم سے نانا جان ابھی روٹھ جائیں گے
بولے حسن کہ واہ ہمیں اور کریں نہ پیار
اقرار کے چکے ہیں شہنشاہ نام دار
بولے بہ چشم نم یہ حسین فلک وقار
دیکھیں تو کون کاندھے پہ ہوتا ہے اب سوار
سب سے سوا جو ہیں سو ہمیں ان کے پیارے ہیں
آگے نہ بڑھیے آپ کہ نانا ہمارے ہیں
بھائی سے تب کہا یہ حسن نے بہ التفات
بے وجہ ہم سے روٹھے ہو تم اے نکو صفات
نانا ہمارے کیا نہیں سلطان کائنات
ہوتی ہے ناگوار تمہیں تو ذرا سی بات
غصہ نہ اتنا چاہیئے خوش خو کے واسطے
مچلے تھے یوں ہی بچۂ آہو کے واسطے
یہ سن کے منہ علی کا لگے دیکھنے رسول
ہنس کر کہا یہ دونوں ہیں میرے چمن کے پھول
میں چاہتا ہوں ایک کی خاطر نہ ہو ملول
روئیں گے یہ تو گھر سے نکل آئے گی بتول
ہووے نہ رنج میرے کسی نور عین کو
تم لو حسن کو گود میں میں لوں حسین کو
شبر سے پھر اشارہ کیا ہو کے بے قرار
غصہ نہ کھاؤ پہلے تمہیں کو کریں گے پیار
پھر بولے دیکھ کر سوئے شبیر نامدار
آ اے حسین آ تری باتوں کے میں نثار
چھاتی سے ہم لگائیں گے جان اپنی جان کر
دیکھیں تو پہلے کون لپٹتا ہے آن کر
دوڑے یہ بات سن کے برابر وہ خوش سیر
پاس آئے آفتاب رسالت کے دو قمر
لپٹے حسین ہنس کے ادھر اور حسن ادھر
تھے پانوں زانوؤں پہ تو بالائے دوش سر
نانا کے ساتھ پیار میں دونوں کا ساتھ تھا
گردن میں ایک ان کا اور ان کا ہاتھ تھا
پھر پھر کے دیکھتے تھے شہنشاہ مشرقین
گہہ جانب حسن تو کبھی جانب حسین
بیٹھے جو زانوؤں پہ وہ زہرا کے نور عین
تھا تن کو لطف قلب کو راحت جگر کو چین
جھک جھک کے منہ رسول زمن چومنے لگے
ان کا گلا تو ان کا دہن چومنے لگے
شبیر چاہتے تھے کہ چومیں مرے بھی لب
پر کچھ گلے کے بوسوں کا کھلتا نہ تھا سبب
نانا کے منہ کے پاس یہ لاتے تھے منہ کو جب
جھک جھک کے چومتے تھے گلا سید عرب
بھائی کو دیکھ کر جو حسن مسکراتے تھے
غیرت سے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے
اٹھے حسین زانوئے احمد سے خشمگیں
غصے سے رنگ زرد اور آنکھوں پہ آستیں
رخ پر پسینہ جسم میں رعشہ جبیں پہ چیں
پوچھا کدھر چلے تو یہ بولے کہیں نہیں
گھر میں اکیلے تیوری چڑھائے چلے گئے
دیکھا نہ پھر کے سر کو جھکائے چلے گئے
بیت الشرف میں آئے جو شبیر نام دار
کرتے کو منہ پہ رکھ کے لگے رونے زارزار
دوڑیں یہ کہہ کے فاطمہ زہرا جگر فگار
ہے ہے حسین کیا ہوا تو کیوں ہے اشک بار
تجھ کو رلا کے غم میں مجھے مبتلا کیا
قربان ہو گئی تجھے کس نے خفا کیا
میرا کلیجہ پھٹتا ہے اے دل ربا نہ رو
زہرا ہزار جان سے تجھ پہ فدا نہ رو
سر میں نہ درد ہو کہیں اے مہ لقا نہ رو
بس بس نہ رو حسین برائے خدا نہ رو
میری طرف تو دیکھو کہ بیتاب ہوتی ہوں
چادر سے منہ کو ڈھانپ کے لو میں بھی روتی ہوں
تو منہ تو کھول اے مرے شبیر خوش خصال
تر ہو گئے ہیں آنسوؤں سے گورے گورے گال
مل مل کے پشت دست سے آنکھ کرو نہ لال
سلجھاؤں آؤ الجھے ہوئے گیسوؤں کے بال
گھر سے گئے تھے ساتھ جدا ہو کے آئے ہو
سمجھی میں کچھ حسن سے خفا ہو کے آئے ہو
تم چپ رہو وہ گھر میں تو مسجد سے پھر کے آئیں
گزری میں کھیل سے مرے بچے کو کیوں رلائیں
ان سے نہ بولیو وہ تمہیں لاکھ گر منائیں
لو آؤ جانے دو تمہیں چھاتی سے ہم لگائیں
واری اگر حسن نے رلایا برا کیا
پوچھوں گی کیا نہ میں مرے پیارے نے کیا کیا
بولے حسین ہم تو ہیں اس بات پر خفا
نانا نے چومے بھائی کے ہونٹ اور مرا گلا
تم اماں جان منہ کو تو سونگھو مرے ذرا
کچھ بوئے ناگوار ہے میرے دہن میں کیا
بھائی کے لب سے اپنے لبوں کو ملاتے ہیں
اب ہم نہ جائیں گے ہمیں نانا رلاتے ہیں
منہ رکھ کے منہ پہ بولی یہ زہرا جگر فگار
بوئے گلاب آتی ہے اے میرے گلغدار
چوما اگر گلا تو خفا ہو نہ میں نثار
تم کو زباں چوساتے تھے محبوب کردگار
یہ مشک میں مہک نہ گل یاسمن میں ہے
خوش بو اسی دہن کی تمہارے دہن میں ہے
کہنے لگے حسین یہ ماں سے بہ چشم نم
کیا جانو تم حسن سے ہمیں چاہتے ہیں کم
یہ کیا انہیں پہ لطف و عنایت ہے دم بہ دم
معلوم ہو گیا انہیں پیارے نہیں ہیں ہم
رو رو کے آج جان ہم اپنی گنوائیں گے
پانی نہ اب پئیں گے نہ کھانے کو کھائیں گے
یہ بات سن کے ہو گیا زہرا کا رنگ فق
بولی پسر سے رو کے وہ بنت رسول حق
صدقے گئی کرو نہ کلیجے کو میرے شق
ہے ہے یہ کیا کہا مجھے ہوتا ہے اب قلق
میرا لہو بہے گا جو آنسو بہاؤ گے
کاہے کو ماں جیے گی جو کھانا نہ کھاؤگے
یہ کہہ کے اوڑھ لی سر پر نور پر ردا
موزے پہن کے گود میں شبیر کو لیا
در تک گئی جو گھر سے وہ دل بند مصطفا
فضہ نے بڑھ کے بوزر و سلماں کو دی صدا
پیش نبی حسین کو گودی میں لاتی ہیں
ہٹ جاؤ سب کہ فاطمہ مسجد میں آتی ہیں
اللہ رے آمد آمد زہرا کا بندوبست
ساتوں فلک تھے اوج شرافت سے جس کے پست
احمد کے گرد و پیش سے اٹھے خدا پرست
انساں تو کیا ملک کو نہ تھی قدرت نشست
آئیں تو شاد شاد رسول زمن ہوئے
گھر میں خدا کے ایک جگہ پنج تن ہوئے
تعظیم فاطمہ کو اٹھے سید البشر
دیکھا کہ چشم فاطمہ ہے آنسوؤں سے تر
غم تھے حسین دوش پہ ماں کے جھکائے سر
تھا اک ہلال مہر کے پہلو میں جلوہ گر
ماں کہتی تھی نہ رؤو مگر چپ نہ ہوتے تھے
آنکھیں تھیں بند ہچکیاں لے لے کے روتے تھے
گھبرا کے پوچھنے لگے محبوب ذو الجلال
روتا ہے کیوں حسین یہ کیا ہے تمہارا حال
بولیں بتول آج قلق ہے مجھے کمال
رویا ہے یہ حسین کہ آنکھیں ہیں دونوں لال
آتے ہیں ہنستے روتے ہوئے گھر میں جاتے ہیں
شفقت بھی آپ ہی کرتے ہیں آپ ہی رلاتے ہیں
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں یا شاہ بحر و بر
شفقت کی اس کے حال پہ ہر دم رہے نظر
رونے سے اس کے ہوتا ہے ٹکڑے مرا جگر
مجھ فاقہ کش غریب کا پیارا ہے یہ پسر
حیدر سے پوچھیے مرے عسرت کے حال کو
کس کس دکھوں سے پالا ہے اس نونہال کو
اشک اس کے جتنے ٹپکے ہیں یا شاہ نیک خو
اتنا ہی گھٹ گیا ہے مرے جسم کا لہو
روئے ہیں پھوٹ پھوٹ کے یہ میرے رو بہ رو
تر ہو گیا ہے آنسوؤں سے چاند سا گلو
دیکھا نہ تھا یہ میں نے جو حال اس کا آج ہے
حضرت تو جانتے ہیں کہ نازک مزاج ہے
شفقت سے آج آپ نے چومے حسن کے لب
بوسہ لیا نہ ان کے لبوں کا یہ کیا سبب
رتبے میں دونوں ایک ہیں یا سرور عرب
میں سچ کہوں یہ سن کے مجھے بھی ہوا عجب
اس کو جو ہو خوشی تو دل اس کا بھی شاد ہو
چھوٹے سے چاہیئے کہ محبت زیاد ہو
آپ ان کے ناز اٹھاتے ہیں یا شاہ بحر و بر
پھر کس سے روٹھیں آپ سے روٹھیں نہ یہ اگر
اکثر انہیں چڑھایا ہے حضرت نے دوش پر
گیسو دئیے ہیں ننھے سے ہاتھوں میں بیشتر
روٹھے تھے یہ سو قدموں پہ سر دھرنے آئے ہیں
منہ کے نہ چومنے کا گلا کرنے آئے ہیں
یہ کہہ کے پھر حسین سے بولیں بہ چشم تر
لو جا کے اب نبی کے قدم پر جھکاؤ سر
آئے حسین ہاتھ جو ننھے سے جوڑ کر
بے اختیار رونے لگے سید البشر
رہ رہ کے دیکھتے تھے علی و بتول کو
نزدیک تھا قلق سے غش آئے رسول کو
تھی آنسوؤں سے ریش مبارک تمام نم
فرط بکا سے خاک پہ جھکتے تھے دم بہ دم
گاہے ستوں سے لگ کے ہوئے راست گاہ خم
ہر لحظہ اضطراب زیادہ تھا صبر کم
ہو سکتا تھا نہ ضبط شۂ مشرقین سے
روتے تھے بار بار لپٹ کر حسین سے
شبیر رو کے کہتے تھے نانا نہ روئیے
روئیں گے اب نہ ہم شۂ والا نہ روئیے
ہلنے لگے گا عرش معلےٰ نہ روئیے
پھٹتا ہے اب ہمارا کلیجہ نہ روئیے
سو بار دن میں ہم تو منہ اشکوں سے دھوتے ہیں
حضرت ہمارے رونے پہ کاہے کو روتے ہیں
گھبرا گئے علی ولی شاہ بحر و بر
کی عرض فاطمہ نے جھکا کے قدم پہ سر
بیٹی نثار ہو گئی یا سید البشر
کیا وجہ ہے جو آپ ہیں اس طرح نوحہ گر
جلدی بتائیے کہ مجھے تاب اب نہیں
رونا خدا کے دوست کا یہ بے سبب نہیں
حضرت کو علم غیب ہے یا شاہ انس و جاں
آئندہ و گزشتہ کا سب حال ہے عیاں
کیا آئی آج وحی خداوند دو جہاں
ہونا ہے جو حسین پہ مجھ سے کرو بیاں
فاقوں سے کاٹتی ہوں مصیبت جہان کی
کیوں بابا جان خیر تو ہے اس کی جان کی
بولے جگر کو تھام کے محبوب ذو الجلال
تجھ سے سنا نہ جائے گا اے فاطمہ یہ حال
کس منہ سے میں کہوں کہ قلق ہے مجھے کمال
زہرا شہید ہوئے ہوویں گے تیرے یہ دونوں لال
ماتم کی یہ خبر ابھی جبریل لائے تھے
سارے ملک حسین کے پرسے کو آئے تھے
الماس پی کے ہوئے گا بے جاں ترا حسن
یہ وجہ ہے کہ چومتا ہوں اس کا میں دہن
بھر جائے گا کلیجوں کے ٹکڑوں سے سب لگن
ہوگا زمردی ترے اس لال کا بدن
سوئے بہشت جب یہ جہاں سے سدھاریں گے
بد کیش تیر اس کے جنازے پہ ماریں گے
زہرا مجھے کلام کی طاقت نہیں ہے اب
حلق حسین چومنے کا کیا کہوں سبب
اک بن میں تین روز رہیں گے یہ تشنہ لب
کٹ جائے گا گلا یہی خنجر سے ہے غضب
نیزے پہ سر چڑھے گا ترے نور عین کا
گھوڑوں سے روند ڈالیں گے لاشہ حسین کا
روئے خبر یہ کہہ کے جو محبوب ذو المنن
گھبرا کے منہ حسین کا تکنے لگے حسن
زہرا پکاری ہائے لٹے گا مرا چمن
میں مر گئی دہائی ہے یا سرور زمن
یہ کیسی آگ ہے کہ مری کوکھ جل گئی
ہے ہے چھری کلیجے پہ زہرا کے چل گئی
فریاد یا نبی شۂ ابرار الغیاث
اے مرسلان حق کے مددگار الغیاث
اے بے کسوں کے وارث و سردار الغیاث
قدرت ہے سب طرح کی شۂ مشرقین کو
حضرت سے لوں گی اپنے حسن اور حسین کو
کس جرم پر یہ لال مرے قتل ہوں گے آہ
رو کر کہا رسول خدا نے کہ بے گناہ
کی عرض فاطمہ نے کہ اے عرش بارگاہ
بچوں کو میرے کیا نہ ملے گی کہیں پناہ
تلواریں کھینچ کھینچ کے ظالم جو آئیں گے
حضرت نہ کیا نواسوں کو اپنے بچائیں گے
آساں ہے کیا جو قتل کریں گے ستم شعار
کیا شیر حق کمر سے نہ کھینچیں گے ذو الفقار
اعدا پہ کیا چلے گا نہ دست خدا کا وار
بالوں کو کیا نہ کھولے گی زہرا جگر فگار
ٹکڑے جگر جو ہوئے گا مجھ دل دو نیم کا
پایہ نہ کیا ہلاؤں گی عرش عظیم کا
زہرا سے رو کے کہنے لگے شاہ نیک خو
بیٹی مجھے ستائیں گے تربت میں کینہ جو
اس وقت قتل ہوئیں گے یہ دونوں ماہ رو
دنیا میں جب نہ ہوگا علی اور نہ میں نہ تو
لاشے پہ مجتبیٰ کے تو شبیر روئے گا
شبیر جب مرے گا تو کوئی نہ ہوئے گا
چلائی سر پٹک کے یہ زہرا کہ ہے ستم
پیٹے گا کون تن سے جو نکلے گا اس کا دم
ماتم کی صف بچھائے گا کون اے شہ امم
پرسے کو کون آئے گا اس کے بہ چشم نم
ہم میں سے ایسے وقت جو کوئی نہ ہوئے گا
ہے ہے مرے حسین کو پھر کون روئے گا
بچے کی میرے تعزیہ داری کرے گا کون
منہ ڈھانپ ڈھانپ گریہ و زاری کرے گا کون
دریائے اشک چشم سے جاری کرے گا کون
امداد بعد مرگ ہماری کرے گا کون
ہوگا کہاں نبی کے نواسے کا فاتحہ
شربت پہ کون دیوے گا پیاسے کا فاتحہ
بولے نبی کہ آپ کو زہرا نہ کر ہلاک
فرما چکا ہے مجھ سے یہ وعدہ خدائے پاک
پیدا کریں گے قوم اک ایسی بہ روئے خاک
جو رات دن رہیں گے اسی غم میں درد ناک
بزم عزا میں آئیں گے وہ دور دور سے
تن خاک سے بنائیں گے دل ان کے نور سے
ہوگی انہیں سے مجلس ماتم کی زیب و زین
دیں گے انہیں وہ لب کہ رہے جس پہ وا حسین
آنکھیں وہ دیں گے رونے کو سمجھیں جو فرض عین
ہاتھ ایسے غیر سینہ زنی ہو جنہیں نہ چین
سامان تعزیت کے کبھی کم نہ ہوئیں گے
وہ حشر تک حسین کے ماتم میں روئیں گے
ہوگا عیاں فلک پہ محرم کا جب ہلال
رخت سیاہ پہنیں گے بر میں وہ خوش خصال
کھولیں گی بیبیاں بھی سب اپنے سروں کے بال
ہر گھر میں ہوگا شور کہ ہے ہے علی کا لال
لیں گے صلے میں خلد ترے نور عین سے
آنسو عزیز وہ نہ کریں گے حسین سے
پیاسا شہید ہوگا جو تیرا یہ دل ربا
مومن سبیلیں رکھیں گے پانی کی جا بجا
ہووے گی شاد روح شہیدان کربلا
بھر بھر کے آب سرد پکاریں گے برملا
محبوب کبریا کے نواسے کی نذر ہے
پیاسے نہ جائیو کہ یہ پیاسے کی نذر ہے
کہنے لگی نبی سے بتول فلک جناب
ہے ہے میں کیا کروں مرے دل کو نہیں ہے تاب
اے بادشاہ کون و مکاں مالک الرقاب
درگاہ حق میں آپ کی ہے عرض مستجاب
کیجے دعا کہ خالق اکبر مدد کرے
اللہ یہ بلا مرے بچے کی رد کرے
بیٹی سے رو کے کہنے لگے شاہ کائنات
روح الامیں نے مجھ سے تو یہ بھی کہی ہے بات
چاہو تو رد کرے یہ بلا رب پاک ذات
لیکن نہ ہوے گی مرے امت کی پھر نجات
محبوب حق نثار ترے نور عین پر
موقوف ہے یہ امر تو قتل حسین پر
اللہ رے صبر دختر محبوب کردگار
امت کا نام سن کے جھکایا سر ایک بار
خوشنود ہو کے کہنے لگے شاہ ذوالفقار
صدقے حسن حسین تصدق علی نثار
اس راہ میں نہ مال نہ دولت عزیز ہے
پیارے پسر نہیں ہمیں امت عزیز ہے
کہنے لگے حسین سے پھر شاہ بحر و بر
بتلا مجھے کہ کیا تری مرضی ہے اے پسر
نانا سے بولے چھوٹے سے ہاتھوں کو جوڑ کر
امت کے کام آئے تو حاضر ابھی ہے سر
وعدہ کو ہم نہ بھولیں گے گو خورد سال ہیں
چھوٹے نہیں ہیں مخبر صادق کے لال ہیں
روتے ہیں آپ کس لیے یا سید امم
راضی ہیں ہم پہ راہ خدا میں ہوں جو ستم
تلواریں بھی چلیں تو نہیں مارنے کے دم
امت پہ اپنے سر کو تصدق کریں گے ہم
ہم راست گو ہیں بات پہ جس وقت آتے ہیں
کہتے ہیں جو زباں سے وہی کر دکھاتے ہیں
بچپن میں جو زباں سے کہا تھا کیا وہ کام
جس وقت رن میں ٹوٹ پڑے شہ پہ فوج شام
گردن جھکا کے برچھیاں کھایا کیے امام
خوں میں قبا رسول کی تر ہو گئی تمام
تیغیں علی کے لال کے شانے پہ چل گئیں
چھاتی کے پار نیزوں کی نوکیں نکل گئیں
پھیری نہ تھی جو پشت مبارک دم مصاف
تھے دو ہزار زخم فقط سر سے تا بہ ناف
سید سے بے وطن سے زمانہ تھا بر خلاف
غل تھا کہ آج ہوتا ہے گھر فاطمہ کا صاف
سنبھلا نہ جائے گا خلف بو تراب سے
لو وہ قدم حسین کے نکلے رکاب سے
مینہ کی طرح برسنے لگے شاہ دیں پہ تیر
تھرا رہے تھے لگ کے تن نازنیں پہ تیر
دامن پہ تیر جیب پہ تیر آستیں پہ تیر
پہلو پہ تیغ سینہ پہ نیزہ جبیں پہ تیر
داغوں سے خوں کے رخت بدن لالہ زار تھا
شکل ضریح سینۂ اقدس فگار تھا
تر تھی لہو میں زلف شکن در شکن جدا
مجروح لعل لب تھے جدا اور دہن جدا
درپئے تھے نیزہ دار جدا تیغ زن جدا
کٹ کٹ کے ہو گیا تھا ہر اک عضو تن جدا
سی پارہ تھا نہ صدر فقط اس جناب کا
پرزے ورق ورق تھا خدا کی کتاب کا
کرتا تھا وار برچھیوں والوں کا جب پرا
تیغوں سے دم بھی لینے کی مہلت نہ تھی ذرا
نیزوں میں خوں نبی کے نواسے کا تھا بھرا
شمشیر و تیر نیزہ و خنجر کے ماورا
تھیں سختیاں ستم کی شہ خوش خصال پر
چلتے تھے سنگ فاطمہ زہرا کے لال پر
تھے دو ہزار جسم شۂ بحر و بر پہ زخم
ماتھے پہ زخم تیر کے تیغوں کے سر پہ زخم
گردن پہ زخم سینہ پہ زخم اور کمر پہ زخم
اور اس کے ماورا تھے بہتر جگر پہ زخم
گھوڑے پہ گہہ سنبھلتے تھے گہہ ڈگمگاتے تھے
غش آتا تھا تو ہرنے پہ سر کو جھکاتے تھے
گھوڑے پہ جب سنبھلنے کی مطلق رہی نہ تاب
ہاتھوں سے باگ چھوٹ گئی اور پاؤں سے رکاب
گرنے لگا جو خاک پہ وہ آسماں جناب
مرقد میں بے قرار ہوئی روح بو تراب
غل تھا کہ خاک پر شہ کون و مکاں گرا
بس اب زمیں الٹ گئی اور آسماں گرا
جلتی ہوئی زمیں پہ تڑپنے لگے امام
بے کس پہ ظالموں نے کیا اور اژدہام
اس وقت شمر سے یہ عمر نے کیا کلام
ہاں تن سے جلد کاٹ سر سرور انام
ڈریو نہ سن کے فاطمہ زہرا کی آہ کو
گل کر دے شمع قبر رسالت پناہ کو
یہ سنتے ہی چڑھائی ستمگر نے آستیں
خنجر کمر سے کھینچ کے آگے بڑھا لیں
تھے قبلہ رو جھکے ہوئے سجدے میں شاہ دیں
لب ہلتے دیکھے شاہ کے آیا وہ جب قریں
سمجھا کہ تشنگی سے جو صدمے گزرتے ہیں
اس وقت بد دعا مجھے شبیر کرتے ہیں
جھک کر قریب کان جو لایا تو یہ سنا
حق میں گناہ گاروں کے کرتے ہیں شہ دعا
جاری زبان خشک پہ یہ ہے کہ اے خدا
کر حاجتوں کو میرے محبوں کی تو روا
شیعوں کا حشر روز جزا میرے ساتھ ہو
میرا یہ خوں بہا ہے کہ ان کی نجات ہو
یہ سن کے مستعد ہوا وہ شہ کے قتل پر
زانو رکھا حسین کے سینے پہ بے خطر
گردن پہ پھیرنے لگا خنجر جو بد گہر
آئی صدا علی کی کہ ہے ہے مرے پسر
زہرا پکاری کچھ بھی نبی سے حجاب ہے
ظالم یہ بوسہ گاہ رسالت مآب ہے
کیوں ذبح میرے لال کو کرتا ہے بے گناہ
کیوں کاٹتا ہے میرے کلیجے کو رو سیاہ
کشتی کو اہل بیت نبی کی نہ کر تباہ
میں فاطمہ ہوں عرش ہلائے گی میری آہ
ہوئے گا حشر قتل جو یہ بے وطن ہوا
یہ مر گیا تو خاتمہ پنج تن ہوا
آواز اپنی ماں کی یہ زینب نے جب سنی
دوڑی نکل کے خیمے سے سر پیٹتی ہوئی
دیکھا کہ ذبح کرتا ہے حضرت کو وہ شقی
سر پیٹ کر یہ کہنے لگی وہ جگر جلی
ہے ہے نہ تین روز کے پیاسے کو ذبح کر
ظالم نہ مصطفی کے نواسے کو ذبح کر
بانو پکارتی تھی یہ کیا کرتا ہے لعیں
پیاسا ہے تین روز سے حیدر کا جا نشیں
چلاتی تھی سکینہ کہ جینے کی میں نہیں
بابا کو ذبح کرتا ہے کیوں اے عدوئے دیں
خنجر نہ پھیر چاند سی گردن پہ رحم کر
ابا کو چھوڑ دے مرے بچپن پہ رحم کر
زخموں سے چور چور ہے زہرا کا یادگار
جس چھاتی پر میں سوتی تھی اس پر ہے تو سوار
بابا کے حلق پر نہ پھرا اب چھری کی دھار
بدلے پدر کے سر کو مرے تن سے تو اتار
سید پہ تشنہ لب پہ ستم اس قدر نہ کر
پوتی ہوں فاطمہ کی مجھے بے پدر نہ کر
رو کر بیاں یہ کرتی تھی وہ سوختہ جگر
دے کر دہائی اہل حرم پیٹتے تھے سر
کرتا تھا ذبح شہ کو وہاں شمر بد گہر
فرماتے تھے یہ شاہ کہ پیاسا ہوں رحم کر
پانی دیا نہ ہائے نبی کے نواسے کو
جلاد ذبح کرنے لگا بھوکے پیاسے کو
آخر سر امام امم تن سے کٹ گیا
چلا کے فاطمہ نے یہ زینب کو دی صدا
میداں سے جلد لے کے سکینہ کو گھر میں جا
بے جرم کٹ گیا ترے ماں جائے کا گلا
مارا بظلم شمر نے پیاسے کو جان سے
میں لٹ گئی حسین سدھارے جہان سے
بس اے انیسؔ بزم میں ہے نالہ و فغاں
پوچھ ان کے دل سے جو ہیں سخن فہم نکتہ داں
حق ہے سنا نہیں کبھی اس حسن کا بیاں
گویا کہ یہ خلیق کی ہے سر بہ سر زباں
سچ ہے کہ اس زباں کو کوئی جانتا نہیں
جو جانتا ہے اور کو وہ مانتا نہیں
-