مثنوی شاعری

کونوں کی کھوبیوں کی پنکتیاں

مثنوی شاعری کی لہر جوش میں غومے، ایک اندازوں کی شکل جو اپنی ساختیب کی شائستگی کے ساتھ موہ لینے والی ہے۔ مثنوی شاعری میں ہر شیر ایک منفرد کہانی کہتا ہے، آپکو شخصیت اور شائستگی سے بھری اشعار کی تلاش کی ایک سیر پر چلاتا ہے۔ مثنوی شاعری کی لہردار شاعری آپ کے احساسات کو موہ لینے اور آپکو ایک شاعری بلس کی دنیا میں منتقل کرنے دیں۔

ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری
کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر
حمد حق و مدحت پیمبر


پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے
یعنی کہ مطیع پنج تن ہے
ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی
کرتا ہے زباں کی پیش دستی


خواستگاری جناب باری سے مثنوی گلزار نسیم کی ترتیب کے واسطے
یارب! میرے خامے کو زباں دے
منقار ہزار داستاں دے
افسانہ گل بکاولی کا


افسوں ہو بہار عاشقی کا
ہر چند سنا گیا ہے اس کو
اردو کی زباں میں سخن گو
وہ نثر ہے، داد نظم دوں میں


اس مے کو دو آتشہ کروں میں
ہر چند اگلے جو اہل فن تھے
سلطان قلمروسخن تھے
آگے ان کے فروغ پانا:


سورج کو چراغ ہے دکھانا
پر، عجز سخن سدا ہے باقی
دریا نہیں کار بند ساقی
طعنے سے زبان نکتہ چیں روک


رکھ لے مری اہل خامہ میں نوک
خوبی سے کرے دلوں کو تسخیر
نیرنگ نسیم باغ کشمیر
نقطے، ہوں سپند خوش بیانی


جدول، ہو حصار بحر خوانی
جو نکتہ لکھوں کہیں نہ حرف آئے
مرکز پہ کشش مری پہنچ جائے
داستان تاج الملوک شاہ زادے اور زین الملوک باشاہ مشرق کی


روداد زمان پاستانی
یوں نقل ہے خامے کی زبانی
پورب میں ایک تھا شہنشاہ
سلطان زین الملوک ذی جاہ


لشکر کش و تاج دار تھا وہ
دشمن کش و شہر یار تھا وہ
خالق نے دیے تھے چار فرزند
دانا، عاقل، ذکی، خردمند


نقشہ ایک اور نے جمایا
پس ماندہ کا پیش خیمہ آیا
امید کے نخل نے دیا بار
خورشید حمل ہوا نمودار


وہ نور کہ صدقے مہرانور
وہ رخ کہ نہ ٹھہرے آنکھ جس پر
نور آنکھ کا کہتے ہیں پسر کو
چشمک تھی نصیب اس پدر کو


خوش ہوتے ہی طفل مہ جبیں سے
ثابت یہ ہوا ستارہ بیں سے
پیارا یہ وہ ہے کہ دیکھ اسی کو
پھر دیکھ نہ سکیے گا کسی کو


نظروں سے گرا وہ طفل ابتر
مانند سر شک دیدہ تر
پردے سے نہ دایہ نے نکالا
پتلی سا نگاہ رکھ کے پالا


تھا افسر خسرواں وہ گل فام
پالا، تاج الملوک رکھ نام
جب نام خدا جواں ہوا وہ
مانند نظرواں ہوا وہ


آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پدرنے ناگاہ
صاد آنکھوں کے دیکھ کے پسر کی
بینائی کے چہرے پر نظر کی


مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشمک پوشی
دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کے بھائی


ہر چند کے بادشاہ نے ٹالا
اس ماہ کو شہر سے نکالا
گھر یہی ذکر تھا یہی شور
خارج ہوا نور دیدہ کور


آیا کوئی لے کے نسخہ نور
لایا کوئی جاکے سرمۂ طور
تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور
بینہ نہ ہوا وہ دیدہ کور


ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے، جس طرح نبا ہے
جانا چاروں شاہ زادوں کا بہ تجویز کحال تلاش گل بکاولی کو
پایا جو سفید چشم صفحا


یوں میل قلم نے سرمہ کھینچا
تھا اک کحال پیر دیریں
عیسی کی تھیں اس نے آنکھیں دیکھیں
وہ مرد خدا بہت کراہا


سلطاں سے ملا، کہا کہ شاہا!
ہے باغ بکاولی میں اک گل
پلکوں سے اسی پہ مار چنگل
خورشید میں یہ ضیا کرن کی


ہے مہر گیا اسی چمن کی
اس نے تو گل ارم بتایا
لوگوں کو شگوفہ ہاتھ آیا
شہ زادے ہوئے وہ چاروں تیار


رخصت کیے شہ نے چار ناچار
شاہانہ چلے وہ لے کے ہمراہ
لشکر، اسباب، خیمے، خرگاہ
وہ بادیہ گرد خانہ برباد


یعنی تاج الملوک ناشاد
میدان میں خاک اڑا رہا تھا
دیکھا تو وہ لشکر آرہا تھا
پوچھا تم لوگ خیل کے خیل


جاتے ہو کدھر کو صورت سیل؟
بولا لشکر کا اک سپاہی
جاتی ہے ارم کو فوج شاہی
سلطاں زین الملوک شہ زور


دیدار پسر سے ہوگیا کور
منظور علاج روشنی ہے
مطلوب گل بکاولی ہے
گل کی جو خبر سنائی اس نے


گلشن کی ہوا سمائی اس کو
ہمرہ کسی لشکری کے ہوکر
قسمت پہ چلا یہ نیک اختر
غلام ہونا چاروں شاہ زادوں کا چوسر کھیل کر دلبر بیسوا سے


نقطوں سے قلم کی مہر ہ بازی
یوں لاتی ہے رنگ بد طرازی

یک چند پھرا کیا وہ انبوہ


صحرا صحرا و کوہ در کوہ
بلبل ہوئے سب ہزار جی سے
گل کا نہ پتا لگا کسی سے
وارد ہوئے ایک جگہ سر شام


فردوس تھا اس مقام کا نام
اک نہر تھی شہر کے برابر
ٹھٹکے سیارے کہکشاں پر
اک باغ تھا نہر کے کنارے


جویاے گل اس طرف سدھارے
دلبر نام ایک بیسوا تھی
اس ماہ کی واں محل سرا تھی
دروازے سے فاصلے پہ گھر تھا


نقارہ چو بدار در تھا
بے جا و بجا نہ سمجھے ان جان
نقارہ بجا کے ٹھہرے نادان
آواز پہ وہ لگی ہوئی تھی


آپ آن کے ٹھاٹھ دیکھتی تھی
جس شخص کو مال دار پاتی
باہر سے اسے لگا کے لاتی
بٹھلا کے، جوے کا ذکر اٹھا کر


چوسر میں وہ لوٹتی سراسر
جیت اس کی تھی، ہاتھ جو کچھ آتا
اس کا کوئی ہتکھنڈا نہ پاتا
بلی کا سر چراغ داں تھا


چوہا پاسے کا پاسباں تھا
الٹاتے اڑی پہ، قسمت آسا
بلی، جو دیا موش، پاسا
جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں


قسمت نے پھنسائے یہ بھی چاروں
صیادنی لائی پھانس کر صید
کرسی پہ بٹھائے نقش امید
گھاتیں ہوئیں دل ربائیوں کی


باتیں ہوئیں آشانائیوں کی
رنگ اس کا جما، تو لا کے چوسر
کھیلی وہ کھلاڑ بازی بد کر
وہ چھوٹ پہ تھی، یہ میل سمجھے


بازی چوسر کی کھیل سمجھے
مغرور تھے مال و زر پہ کھیلے
ساماں ہارے تو سر پہ کھیلے
بدبختی سے آخر جوا تھا


بندہ ہونا بدا ہوا تھا
دو ہاتھ میں چاروں اس نے لوٹے
پنچے میں پھنسے تو چھکے چھوٹے
ایک ایک سے رات بھر نہ چھوٹا


پوپھٹتے ہی جگ ان کا ٹوٹا
زنداں کو چلے مچل مچل کر
نردوں کی طرح پھرے نہ چل کر
لشکر میں سے جوگیا سوئے شہر


پانی سا پھرا نہ جانب نہر
جیتنا تاج الملوک کا دلبر بیسوا کو اور چھوڑ کر روانہ ہونا تلاش گل بکاولی میں
لانا زر گل جو ہے ارم سے
یوں صفحے سے نقش ہے قلم سے


وہ ریگ رواں کا گرد لشکر
یعنی تاج الملوک ابتر
حیران ہوا کہ یا الٰہی!
لشکر پہ یہ کیا پڑی تباہی


اٹھا کہ خبر تو لیجے چل کر
گزرا در باغ بیسوا پر
حیران تھا یہ بلند پایہ
نکلی اندر سے ایک دایہ


لڑکا کوئی گھو گیا تھا اس کا
ہم شکل یہ مہ لقا تھا اس کا
بولی وہ کہ نام کیا ہے تیرا
فرزند اسی شکل کا تھا میرا


بولا وہ کہ نام تو نہیں یاد
طفلی میں ہوا ہوں خانہ برباد
لیکن یہ میں جانتا ہوں دل گیر
مادر تھی مری بھی ایسی ہی پیر


بیٹا وہ سمجھ کے جی سے اس کو
گھر لائی ہنسی خوشی سے اس کو
چلتے تھے ادھر سے دو جواری
ایک ایک کی کر رہا تھا خواری


کہتے تھے: فریب دو گے کیا تم
شہ زادے نہ ہم، نہ بیسوا تم
ذکر اپنے برادروں کا سن کر
بولا وہ عزیز، سن تو مادر!


کون ایسی کھلاڑ بیسوا ہے
شہ زادوں کو جس نے زچ کیا ہے؟
بولی وہ کہ ہاں جوا ہے بدکام
دلبر اک بیسوا ہے خود کام


بلی پہ چراغ رکھ کےشب کو
چوسر میں وہ لوٹتی ہے سب کو
پاسے کی ہے کل چراغ کے ساتھ
وہ بلی کے سر، یہ چوہے کے ہاتھ


شہ زادے کہیں کے تھے بد اقبال
بندے ہوئے، ہار کر زر و مال
بھائی، جوش خوں کہاں جائے
صدمہ ہوا، درد سے کہا ہائے!


پاسے کا، چراغ کا الٹ پھیر
سوجھا نہ اانھیں، یہ دیکھو اندھیر
سوچا وہ کہ اب تو ہم ہیں آگاہ
جیتے ہیں، تو جیت لیں گے ناگاہ


اک بلی جھپٹی چوہے کو بھانپ
نیولے تے بھگا دیا دکھا سانپ
سمجھا وہ کہ ہے شگوں نرالا
نیولا پکڑ آستیں میں پالا


چوسر ہی کے سیکھنے کو اکثر
گھوما وہ بہ رنگ نرد گھر گھر
اک روز اسے مل گیا امیر ایک
وہ صاحب جاہ دل سے تھا نیک


اشراف سجمھ کے لے گیا گھر
بخشا اسے اسپ و جامہ و زر
اس گل کے ہاتھ میں جو زر آیا
جاں بازی کو سوے دلبر آیا


ملتی تھی کھلاڑ ڈنکے کی چوٹ
نقارہ و چوب میں چلی چوٹ
آواز وہ سن کے در پر آئی
ہمرہ اسے لے کے اندر آئی


کام اس کا تھا بس کہ کھیل کھانا
چوسر کا جما وہ کارخانہ
وہ چشم و چراغ بیسوا کے
کرنے لگے تاک جھانک آ کے


نیولا، کہ وہ مار آستیں تھا
چٹکی کے بجاتے ہی وہیں تھا
بلی تو چراغ پا تھی خاموش
بل ہو گیا موش کو فراموش


ہنس ہنس کے حریف نے رلایا
مانند چراغ اسے جلایا
بارے بہ ہزار بددماغی
لی خضر نے غول سے چراغی


پا سے چلی نہ جعل سازی
اجڑی وہ، بسا بسا کے بازی
سب ہار کے نقد و جنس، بارے
جیتے ہوئے بندے بد کے ہارے


بنیاد جو کچھ تھی، جب گنوائی
تب خود وہ کھلاڑ، مہرے آئی
پھر پاسے کی نہ پاس داری
ہمت کی طرح وہ دل سے ہاری


پاسے کی بدی ہے آشکارا
راجانل سلطنت ہی ہارا
دانا تو کرے کب اس طرف میل
ہارا ہے جوے کے نام سے بیل


ہارے، دیکھا جو بیسوا نے
بندہ کیا غیر کا خدا نے
سوچی کہ نہ اب بھی چال رہیے
شادی کا مزہ نکال رہیے


بولی نہ ہزار عجز و زاری
تم جیتے میاں میں تم سے ہاری
لونڈی ہوں، نہیں عدول مجھ کو
خدمت میں کرو قبول مجھ کو


بولا وہ کہ سن، یہ ہتکھنڈے چھوڑ
نقارہ در کو چوب سے توڑ
یہ مال، یہ زر، یہ جیتے بندے
یوں ہی یہیں رکھ بجنس چندے


بالفعل ارم کو جاتے ہیں ہم
انشاء اللہ آتے ہیں ہم
بولی وہ۔ سنو تو بندہ پرور!
گلزار ارم ہے پریوں کا گھر


انسان و پری کا سامنا کیا!
مٹھی میں ہوا کا تھا منا کیا!
شہ زادہ ہنسا، کہا کہ دلبر!
کچھ بات نہیں، جو رکھیے دل پر


انسان کی عقل اگر نہ ہو گم
ہے چشم پری میں جاے مردم
یہ کہہ کے اٹھا، کہا کہ لو جان!
جاتے ہیں، کہا: خدا نگہ بان!


دولت تھی اگر چہ اختیاری
پا مردی سے اس پہ لات ماری
جز جیب، نہ مال پر پڑا ہاتھ
جز سایہ، نہ کوئی بھی لیا ساتھ


درویش تھا بندۂ خدا وہ
اللہ کے نام پر چلا ہو
پہنچنا تاج الملوک کا سرنگ کھدواکر باغ بکاولی میں اور گل لے کر پھرنا
کرتا ہے جو طے سواد نامہ


یوں حرف، ہیں نقش پاے خامہ
وہ دامن دشت شوق کا خار
یعنی تاج الملوک دل زار
اک جنگلے میں جا پڑا جہاں گرد


صحراے عدم بھی تھا جہاں، گرو
سایے کو پتا نہ تھا شجر کا
عنقا تھا، نام جانور کا
مرغان ہوا تھے ہوش راہی


نقش کف پا تھے ریگ ماہی
وہ دشت کہ جس میں پر تگ و دو
یا ریگ رواں تھی یا وہ رہ رو
ڈانڈا تھا ارم کے بادشاہ کا


اک دیو تھا پاسباں بلا کا
دانت اس کے: گور کن قضا کے
دو نتھنے: رہ عدم کے ناکے
سر پر پایا بلا کو اس نے


تسلیم کیا قضا کو اس نے
بھوکا کئی دن کا تھا وہ ناپاک
فاقوں سے رہا تھا پھانک کر خاک
بے ریشہ یہ طفل نوجواں تھا


حلوا بے دود بے گماں تھا
بولا کہ چھکوں گاہیں یہ انساں
اللہ اللہ! شکر، احساں!
شہ زادہ کہ منہ میں تھا اجل کے


اندیشے سے رہ گیا دہل کے
پل مارنے کی ہوئی جو دیری
سبحان اللہ شان تیری!
اشتر کئی جاتے تھے ادھر سے


پر آردو روغن و شکر سے
وہ دیو لپک کے مار لایا
غراتے ہوئے شکار لایا
اونٹوں کی جو لو تھیں دیو لایا


دم اس کا نہ اس گھڑی سمایا
تیورا کے وہیں وہ بار بر دوش
بیٹھا تو گرا، گرا تو بے ہوش
چاہا اس نے کہ مار ڈالو


یا بھاگ سکو تو راستہ لو
وہ اونٹ تھے کاروانیوں کے
سب ٹھاٹھ تھے میہانیوں کے
میدہ بھی، شکر بھی، گھی بھی پایا


خاطر میں یہ اس بشر کی آیا
میٹھا اس دیو کو کھلاؤ
گڑ سے جو مرے، تو زہر کیوں دو
حلوے کی پکا کے اک کڑھائی


شیرینی دیو کو چڑھائی
ہر چند کہ تھا وہ دیو کڑوا
حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا
کہنے لگا: کیا مزہ ہے دل خواہ!


اے آدمی زاد واہ وا واہ!
چیز اچھی کھلائی تو نے مجھ کو
کیا اس کے عوض میں دوں میں تجھ کو
بولا وہ کہ پہلے قول دیجے


پھر جو میں کہوں، قبول کیجے
وہ ہاتھ پر اس کے مار کر ہاتھ
بولا کہ ہے قول جان کے ساتھ
بولا وہ کہ قول اگر یہی ہے


بد عہدی کی پر نہیں سہی ہے
گلزار ارم کی ہے مجھے دھن
بولا وہ: ارے بشر وہ گلبن!
خورشید کے ہم نظر نہیں ہے


اندیشے کا واں گزر نہیں ہے
واں موج ہوا: ہوا پہ اژدر
واں ریگ زمیں: زمیں پہ اخگر
ہوتا نہ جو قول کا سہارا


بچتانہ یہیں تو خیر، ہارا
رہ جا، میرا بھائی ایک ہے اور
شاید کچھ اس سے بن پڑے طور
اک ٹیکرے پر گیا، بلایا


وہ مثل صدائے کوہ آیا
حال اس سے کہا کہ قول ہارا
ہے پیر، یہ نوجواں ہمارا
مشتاق ارم کی سیر کا ہے


کوشش کرو، کم خیر کا ہے
حمالہ نام دیونی ایک
چھوٹی بہن اس کی تھی بڑی نیک
خط اس کو لکھا بہ ایں عبارت


اے خواہر مہرباں! سلامت
پیارا ہے یہ میرا آدمی زاد
رکھیو اسے، جس طرح مری یاد
انسان ہے، چاہے کچھ جو سازش


مہمان ہے، کیجیو نوازش
خط لے کے، بشر کو لے اڑا دیو
پہنچا حمالہ پاس بے ریو
بھائی کا جو خط بہن نے پایا


بھیجے ہوئے کو گلے لگایا
اس دیونی پاس اک حسیں تھی
زنبور کے گھر میں انگبیں تھی
محمودہ نام، دخت آدم


لے ائی تھی دیونی دے کے دم
جوڑا ہم جنس کے ہاتھ آیا
محمودہ کے گلے لگایا
دن بھر تو الگ تھلگ ہی تھے وہ


دو وقت سے شام کو ملے وہ
تھے ضببط و حیا کے امتحاں میں
پردہ رہا ماہ میں، کتاں میں
آپس میں کھلے نہ شرم سے وہ


خاطر کی طرح گرہ رہے وہ
بولا وہ فسردہ دل سحر گاہ
کیا سرد ہوا ہے واہ وا واہ!
بولی وہ کہ ہونے کو ہوا ہے


جو غنچے کو گل کرے، صبا ہے
بولا وہ، یہی تو چاہتا ہوں
گل پاؤں، تو میں ابھی ہوا ہوں
پیراہن گل کی بو، تھی مطلوب


یوسف نے کہا وہ حال یعقوب
اول کہی بد نگاہی اپنی
بعد اس کے وہ سب تباہی اپنی
کھولی تھی زبان منہ اندھیرے


کہتے سنتے اٹھے سویرے
پوچھا حمالہ نے: میری جان!
ہم جنس ملا، نکالے ارمان
بولی وہ کہ کہتے آتی ہے شرم


دل سرد رہا، بغل ہوئی گرم
ناکامی کے جب وہ طور سمجھی
وہم اس کو ہوا، کچھ اور سمجھی
پوچھا کہ بتا تو درد، لیکن


تم چاہو، تو ہے دوا بھی ممکن
وہ بولی: جو تو کہے زباں سے
تارے لے آؤں آسماں سے
چہرے کو چھپا کے زیر چادر


محمودہ نے کہا کہ مادر!
باپ اس کا ہے اندھے پن سے مجہول
مطلوب بکاولی کا ہے پھول
دل داغ اس کا براے گل ہے


نرگس کے لیے ہواے گل ہے
ساعی تھی بہ دل یہ کہنے والی
راہ اس نے سرنگ کی نکالی
دیووں کہا کہ چوہے بن جاؤ


تا باغ ارم سرنگ پہنچاؤ
سن حاجت نقب بہر گل گشت
کترا چوہوں نے دامن دشت
پوشیدہ زمیں کے دل میں کی راہ


حد باندھ کے، خوش پھرے اسی راہ
جب مہر تہ زمیں سمایا
اس نقب کی رہ وہ آدم آیا
صحن چمن ارم میں اک جا


بوٹا سا تہ زمیں سے نکلا
کھٹکا جو نگاہ بانوں کا تھا
دھڑکا یہی دل کا کہہ رہا تھا
گوشے میں کوئی لگا نہ ہووے!


خوشہ کوئی تاکتا نہ ہووے!
گو باغ کے پاسباں غضب تھے
خوابیدہ بہ رنگ سبزہ سب تھے
نرگس کی کھلی نہ آنکھ یک چند


سو سن کی زباں خدانے کی بند
خوش قدر وہ چلا گل وہ سمن میں
شمشاد رواں ہوا چمن میں
ایوان بکاولی جدھر تھا


حوض آئنہ دار بام و در تھا
رکھتا تھا وہ آب سے سوا تاب
چندے خورشید، چندے مہتاب
پھول اس کا، اندھے کی دوا تھا


رشک جام جہاں نما تھا
پانی کے جو بلبلوں میں تھا گل
پہنچا لب حوض سے نہ چنگل
پوشاک اتار، اتر کے لایا


پھولا نہ وہ جامے میں سمایا
گل لے کے بڑھا ایاغ برکف
چوری سے چلا چراغ برکف
بالا دری واں جو سوتے کی تھی


سو خواب گہہ بکاولی تھی
گول اس کے ستوں: تھے ساعد حور
چلمن: مژگان چشم مخمور
دکھلاتا تھا وہ مکان جادو


محراب سے ، درسے چشم و ابرو
پردہ جو حجاب سا اٹھایا
آرام میں اس پری کو پایا
بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی


چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی
سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی
برجوں پہ سے چاندنی تھی سر کی
لپٹے تھے جو بال کروٹوں میں


بل کھا گئی تھی کمر، لٹوں میں
چاہا کہ بلا گلے لگائے
سوتے ہوئے فتنے کو جگائے
سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی


ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی
یہ پھول، انھی اژدہوں کا ہے من
یہ کالے، چراغ کے ہیں دشمن
گل چھن کے، ہنسی نہ ہوئے بلکل


خندہ نہ ہو برق حاصل گل
پھر سمجھیں گے، ہے جو زندگانی
کچھ نام کو رکھ چلو نشانی
انگشتری اپنی اس سے بدلی


مہر خط عاشقی سندلی
آہستہ پھر وہ سر و بالا
سایہ بھی نہ اس پری پہ ڈالا
ہیبت سا زمیں کے دل میں آیا


اندیشے کی طرح سے سمایا
جب نقب افق سے مہر تاباں
نکلا، تو وہ ماہ روشتاباں
گل ہاتھ میں مثل دست انساں


دونوں تھیں اس کی منتظرواں
گل لے کے جب آملا وہ گل چیں
اس نقب کی رخنہ بندیاں کیں
آوارہ ہونا بکاولی کا تاج الملوک گل چیں کی تلاش میں


گل کا جو الم چمن چمن ہے
یوں بلبل خامہ نعرہ زن ہے
کل چیں نے وہ پھول جب اڑایا
اور غنچہ صبح کھل کھلایا


وہ سبزہ باغ خواب آرام
یعنی وہ بکاولی گل اندام
جاگی مرغ سحر کے غل سے
اٹھی نکہت سی فرش گل سے


منہ دھونے جو آنکھ ملتی آئی
پرآب وہ چشم حوض پائی
دیکھا، تو وہ گل ہوا ہوا ہے
کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے


گھبرائی کہ ہیں! کدھر گیا گل!
جھنجلائی کہ کون دے گیا جل
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون!
ہے ہے مجھے خار دے گیا کون


ہاتھ اس پہ اگر پڑا نہیں ہے
بو ہو کے تو پھول اڑا نہیں ہے
نرگس! تو دکھا کدھر گیا گل؟
سوسن! تو بتا کدھر گیا گل؟


سنبل! مرا تازیانہ لانا
شمشاد! انھیں سولی پر چڑھانا
تھرائیں خواصیں صورت بید
ایک ایک سے پوچھنے لگی بھید


نرگس نے نگاہ بازیاں کیں
سوسن نے زباں درازیاں کیں
پتا بھی پتے کو جب نہ پایا
کہنے لگیں: کیا ہوا خدایا!


اپنوں میں سے پھول لے گیا کون
بیگانہ تھا سبزے کو سوا کون!
شبنم کے سوا چرانے والا
اوپر کا تھا کون آنے والا


جس کف میں وہ گل ہو، داغ ہو جائے
جس گھر میں ہو، گل چراغ ہو جائے
بولی وہ بکاولی کہ افسوس!
غفلت سے یہ پھول پر پڑی اوس


آنکھوں سے عزیز گل مرا تھا
پتلی وہی چشم حوض کا تھا
نام اس کا صبا! نہ لیتی تھی میں
اس گل کو ہوا نہ دیتی تھی میں


گل چیں کا جو ہائے ہاتھ ٹوٹا
غنچے کے بھی منہ سے کچھ نہ پھوٹا
اوخار! پڑا نہ تیرا چنگل
مشکیں کس لیں نہ تو نے سنبل!


او باد صبا! ہوا نہ بتلا
خوش بو ہی سنگھا، پتا نہ بتلا
بلبل! تو چہک، اگر خبر ہے
گل! تو ہی مہک، بتا کدھر ہے؟


لرزاں تھی زمیں یہ دیکھ کہرام
تھی سبزے سے راست مو بر اندام
انگلی لب جو پہ رکھ کے شمشاد
تھا دم بہ خود، اس کی سن کے فریاد


جو نخل تھا، سوچ میں کھڑا تھا
جو برگ تھا، ہاتھ مل رہا تھا
رنگ اس کا عرض لگا بدلنے
گل برگ سے کف لگی ہو ملنے


بدلے کی انگوٹھی ڈھیلی پائی
دست آویز اس کے ہاتھ آئی
خاتم، تھی نام کی نشانی
انسان کی دست برد جانی


ہاتھوں کو ملا، کہا کہ ہیہات!
خاتم بھی بدل گیا ہے بدذات
جس نے مجھے ہاتھ ہے لگایا
وہ ہاتھ لگے کہیں خدایا!


عریاں مجھے دیکھ کر گیا ہے
کھال اس کی جو کھینچے، سزا ہے
یہ کہہ کے، جنون میں غضب ناک
خوں روئی، لباس کو کیا چاک


گل کا سا لہو بھرا گریباں
سبزے کا سا تار تار داماں
دکھلا کے کہا سمن پری کو
اب چین کہاں بکاولی کو


تھی بس کہ غبار سے بھری وہ
آندھی سی اٹھی، ہوا ہوئی وہ
کہتی تھی پری کہ اڑکے جاتی
گل چیں کا کہیں پتا لگاتی


ہر باغ میں پھولتی پھری وہ
ہر شاخ پہ جھولتی پھری وہ
جس تختے میں مثل باد جاتی
اس رنگ کے گل کی بو نہ پاتی


بے وقت کسی کو کچھ ملا ہے!
پتا کہیں حکم بن ہلا ہے!
پہنچنا تاج الملوک کا ایک اندھے فقیر کے تکیے پر اور آزمانا گل کا
پھر نا جو وطن کا، مدعا ہے


اب صفحے پہ یو ں قلم پھرا ہے
وہ گلشن مدعا کا گل چیں
یعنی تاج الملوک حق بیں
جس وقت گل اس چمن سے لایا


محمودہ خوش ہوئی کہ آیا
کہنے لگی: لو مراد پائی
بولا وہ: جو یاں سے ہو رہائی
گل کی وہ عرض کر آشکارا


جوبن کی طرح اسے ابھارا
جب دیو سیاہ شب سے ماہتاب
رخصت ہوا، جیسے چشم سے خواب
اور گل لیے آفتاب تاباں


ہنگام سحر ہوا شتاباں
وہ مہر وش اور اوہ ماہ پیکر
اس دیونی پاس آتے مضطر
گل کی وہ عرض جتائی اس کو


رخصت کی طلب سنائی اس کو
کیا کہتی وہ دیونی، کہا: جاؤ
دیووں سے کہا کہ تخت لے آؤ
بولے کہ کدھر چلو گے، کہہ دو


فردوس کے رخ، کہا، ادھر کو
وہ مڑ کے، ادھر کو اڑاکے آئے
گلزار میں بیسوا کے لائے
وقت سحر اور خنک ہوا تھی


گل گشت چمن مین بیسوا تھی
چار آنکھیں ہوئیں تو تھی شناسا
قدموں پہ گری وہ سایہ آسا
صدقے ہو کر کہا: خوش آئے


جس گل کی ہوا لگی تھی، لائے؟
ہمراہ یہ کون دوسری ہے؟
سایہ ہے کہ ہم قدم پری ہے!
بولا شہ زادہ: شکر ہے، ہاں


پر ہے گل آرزو سے داماں
محمودہ نام یہ جو ہیں ساتھ
پھول ان کے سبب سے آگیا ہاتھ
جیتا جو پھرا وہ رشک شمشاد


قیدی کیے بیسوا نے آزاد
جھوٹوں اس نے تھا ان کو تایا
سچوں، کھوٹوں نے داغ کھایا
دغا، تو چلے تفنگ سے وہ


چھوٹے قید فرنگ سے وہ
چھوڑا ہوس گل و چمن کو
چاروں داغی پھرے وطن کو
بندوں کو کشتیوں پہ کر بار


سونپا سب ناخدا کو گھر بار
جب متصل آگیا وطن کے
خندے یاد آئے مرد و زن کے
سوچا کہ میں خود ہوں خانہ برباد


کیا جانیے کیا پڑے گی افتاد
لازم ہے گل اپنے ہاتھ رکھیے
موقع نہیں بھیڑ ساتھ رکھیے
لنگر کا انہیں کیا اشارہ


خود کشتی سے کر گیا کنارہ
وہ پوربی، کر کے جو گیا بھیس
جنگلے کی راہ سے چلا دیس
تکیے پہ فقیر، پیر، اندھا


اک گوشے میں آنکھیں مانگتا تھا
تھا نقش قدم سا خاک رہ پر
ٹھہرا وہ مسافر اس جگہ پر
بے تجربہ تھی نمایش گل


واجب تھی آزمایش گل
پتلی پہ زر گل آزمایا
سونے کو کسوٹی پر چڑھایا
گل سے ہوئیں چشم کور تاباں


ہو جیسے چراغ سے چراغاں
منہ دیکھ کے اس نے دیں دعائیں
پنجے سے مژہ کے لیں بلائیں
گل کے جو اثرسے شادماں تھا


گل چیں وہ ہوا سے ہم عناں تھا
ملنا چاروں شہ زادوں کا اور چھن جانا گل بکاولی کا
تاج الملوک سے اور بینا ہونا چشم زین الملوک کا
ہے بس کہ یہ چرخ جور پیشہ


یوں خار رہ قلم ہے ریشہ
یہ جا کے، اسی جگہ پہ ناگاہ
آپہنچے وہ چاروں غول گم راہ
کہتے تھے کہ واہ رے مقدر!


کس شک سے پھر کے جاتے ہیں گھر

کیا رنگ زمانے نے دکھائے!
گل لینے گئے تھے، داغ لائے


کس منہ سے پدر کے آگے جائیں
کیوں کر بے پھول منہ دکھائیں
ٹھہرائی کہ اور پھول لے جایئں
کحال کو بے وقوف بنایئں


اک باد ہوائی توڑ کر پھول
کہنے لگے پھول پھول کر غول
کیا پھول ہے! کیا اثر ہے اس میں!
ہو جاتی ہیں روشن اندھی آنکھیں


وہ کور کہ ہو چکا تھا بینا
دیکھا اس نے جو یہ قرینا
بولا کہ یہ گل، وہ گل نہیں ہے
اس پھول کی اور گل زمیں ہے


وہ جوگی جو جاتے ہیں، اگر آئیں
دکھلائیں وہ گل، تو آنکھیں کھل جائیں
میں کور، ابھی ہو چکا ہوں بینا
اندھا نہیں اب ہوا ہوں بینا


چاروں کو تھی حسرت گل تر
چو بائی ہوا کی طرح چل کر
اس جوگی کے جب برابر آئے
باہم کہا: دیکھو پھول لائے


گل ہے کہ علاج نور ہے یہ!
گل ہے کہ چراغ طور ہے یہ!
جوگی، یعنی وہ شاہ زادہ
بولا کہ بکو نہیں زیادہ


پاتے اگر اس درخت کی چھاؤں
رکھتے ہی نہ تم زمین پر پاؤں
ڈینگ آپ کی سب فضول ہے یہ
وہ گل یہ نہیں، وہ پھول ہے یہ


یہ کہہ کے، جو جیب سے نکالا
ان مفت بروں نے ہاتھ ڈالا
قوت میں وہ چارتھے، یہ بے کس
شورش میں وہ چار، موج، یہ خس


غولوں نے بہ زور پھول اڑایا
اس خضر کو راستہ بتایا
گل پانے سے بس کہ سرخ رو تھے
گھوڑوں پہ ہوا کے مثل بو تھے


تعجیل سے رو بہ راہ آئے
گل لے کے حضور شاہ آئے
گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ
آنکھوں کی طرح پھڑک گیا شاہ


پنجے سے پلک کے پھول اٹھایا
اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا
نور آ گیا چشم آرزو میں
آیا پھر آب رفتہ جو میں


خورشید بصر گہن سے چھوٹا
خیرات کے در کا قفل ٹوٹا
دولت جو پاس تھی، لٹائی
زر بخشا گل کی رونمائی


ایک ایک کو اس قدر دیا زر
محتاج، گدا، ہوئے تو نگر
سجوائے طرب کے کار خانے
بجوائے خوشی کے شادیانے


پہنچنا بکاولی کا دارالخلافت زین الملوک میں اور وزیر ہو کر تاج الملوک کی تلاش میں رہنا
گل چیں کا جو اب پتا ملا ہے
یو شاخ قلم سے گل کھلا ہے
وہ باد چمن چمن خراماں


یعنی وہ بکاولی پریشاں
گلشن سے جو خاک اڑاتی آئی
اس شہر میں آتی آتی آئی
دیکھا تو خوشی کے چہچہے تھے


گل چیں کے شگوفے کھل رہے تھے
گلبانگ زناں تھا، جو جہاں تھا
ایک ایک، ہزار داستاں تھا
پاتے ہی پتا، خوشی سے پھولی


شاد ایسی ہوئی کہ رنج بھولی
جادو سے بنی وہ آدمی زاد
انسانوں میں آ ملی پری زاد
سلطاں کی سواری آرہی تھی


صورت جو نگاہ کی، پری تھی
پوچھا: اے آدم پری رو!
انساں ہے، پری ہے، کون ہے تو؟
کیا نام ہے اور وطن کدھر ہے؟


ہے کون سا گل، چمن کدھر ہے؟
دی اس نے دعا، کہا بہ صد سوز
فرخ ہو شہا! میں ابن فیروز
گل ہوں، تو کوئی چمن بتاؤں!


غربت زدہ کیا وطن بتاؤں!
گھر بار سے کیا فقیر کو کام
کیا لیجیے چھوڑے گاؤں کا نام
پوچھا کہ سبب؟ کہا کہ قسمت


پوچھا کہ طلب؟ کہا: قناعت
باتوں پہ فدا ہوا شہنشاہ
لایا بہ صد امتیاز ہمراہ
چہرے سے امیرزادہ پایا


گھر لا کے، وزیر اسے بنایا
نذریں لیے بندگان درگاہ
دستور سے آملے بہ صد جاہ
دربار میں چاروں شاہ زادے


دیکھے، تو کھلے وہ دل کے سادے
چاہا، گل چیں کا امتحاں لے
پوچھا کہ نگیں جو لے، کہاں لے؟
بتلانے لگے وہ چاروں ناداں


کوئی یمن اور کوئی بدخشاں
جانا کہ جو گل یہ لائے ہوتے
خاتم کے نگیں بتائے ہوتے
تجویز میں تھا یہ صاحب فکر


آیا تاج الملوک کا ذکر
نقش اس کو ہوا کہ بس وہی ہے
ان سادوں سے کندہ کب ہوئی ہے
ظاہر نہ کیا بطون اپنا


طالع سے لیا شگون اپنا
منزل گہ رہ رواں بنا کے
شام و سحر اس میں آپ آکے
رہ رو کو دیا بہ لطف و اکرام


آتے آرام، جاتے پیغام
آباد ہونا تاج الملوک کا گلشن نگاریں بنوا کے اور شہرہ ہونا
تعمیر مکاں کے ہیں جو آثار
یوں خامہ ہے بہر بیت، معمار


شہ زادہ کہ عازم وطن تھا
گل پانے سے خوش چمن چمن تھا
اندھے کو کیا جب اس نے بینا
اور داغیوں نے وہ پھول چھینا


سوچا کہ خوشی خدا کی، غم کھاؤ
حمالہ دیونی کو بلواؤ
نقل ارم ایک مکاں بنا کے
رکھوں پریوں کو اپنی لاکے


بال آگ پہ رکھتے، آندھی آئی
وہ دیونی بال باندھی آئی
تنہا اسے دیکھ کر کہا: ہیں!
محمودہ کیا ہوئیں؟ کہا: ہیں


دریا پہ ہوں ان کو چھوڑ آیا
مسکن کے لیے تمھیں بلایا
لیکن وہ مکاں، وہ حوض، وہ باغ
جو باغ بکاولی کو دے داغ


حمالہ نے دیووں کو کیا یاد
آئے تو کہا: یہ بن، ہو آباد
ویرانے کو گل زمیں بناؤ
گلزار جو اہریں بناؤ


صناع طلسم کار تھے وہ
گلشن کے لیے بہار تھے وہ
دیووں نے ادھر محل بنایا
کشتی سے وہ دخت رز کو لایا


حمالہ اس کی مادر پیر
محمودہ سے ہوئی بغل گیر
کچھ دیووں کو چھوڑ کر وہیں پر
رخصت ہو کر چلی گئی گھر


گلشن میں سمن بڑوں کو لایا
نسریں بدنوں سے گھر بسایا
دونوں کو محل میں لا کے رکھا
پھل نخل مواصلت کا چکھا


دیووں کو کہا کہ بہر تمکیں
آباد ہو گلشن نگاریں
دیو، آدمی بن کے بن میں آئے
آتے جاتے کو گھیر لائے


جو سن کے خبر، گیا ادھر کو
جنت سے وہ پھر پھرا نہ گھر کو
ازبس کہ قریب شہر تھا باغ
خورشید افق نظر پڑا باغ


مفلس، زردار، امیر، قلاش
نوکر، تاجر، فقیر، خوش باش
گھر چھوڑ کے چل بسے سب انساں
پھر تن میں نہ آئے صورت جاں


ملاقات ٹھہرنی زین الملوک اور تاج الملوک کی آپس میں
گلشن جو بنا جواہر آگیں
یوں صفحہ قلم سے ہے نگاریں
ساعد نام ایک مہ لقا تھا


دلبر کا غالام با وفا تھا
صحرا سے جو سیر کر کے آیا
لکڑی کے چکا کے بو جھ لایا
دلوائے ہر ایک کو پے قوت


الماس و عقیق و لعل و یاقوت
تھی بس کہ وہ جا خلاصہ دہر
کچھ ٹھہرے، کچھ آئے جانب شہر
کف میں جو وہ لعل بے بہا تھے


من پاتے ہی، لوگ اژدہا تھے
شحنے نے سنا، پکڑ بلایا
لے کر اظہار، ساتھ آیا
دیکھا تو وہ جلوہ گاہ امید


اک دائرہ تھا بہ رنگ خورشید
دروازے پہ دیووں کا تھا پہرا
بھجوا کے خبر، وہ شحنہ ٹھہرا
جب واں سے طلب ہوا، تو درباں


لائے اسے پیشگاہ سلطاں
آداب کیا، ادب سے ٹھہرا
ہیبت زدہ دور سب سے ٹھہرا
ان لوگوں کو لے گیا تھا ہمراہ


معروض کیا کہ یا شہنشاہ!
کم مایہ یہ لوگ ہیں بہ ظاہر
چوری کے تو یہ نہیں جواہر
ساعد نے کہا کہ ہے یہ حاسد


نیت ہوئی ہوگی اس کی فاسد
حضرت! یہ وہی تو تبردار
جا، ان سے نہ بولیو، خبردار!
پھر کر انھی پاؤں شحنہ بے آس


آیا زین الملوک کے پاس
کی عرض کہ باغ اک بنا ہے
یہ شہر اجڑا ہے، وہ بسا ہے
جو کوئی ہے اس جگہ پہ جاتا


ڈھیروں ہے جواہرات پاتا
حضرت نے کہا کہ بک نہ خیرہ
قاروں کا وہیں ہے کیا ذخیرہ!
فرخ کہ وزیر باخرد تھا


سلطاں مشیر نیک و بد تھا
بولا کہ شہا! یہ بات کیا ہے
نیرنگ و فسوں کا گھر بڑا ہے
ہر چند کہ طرفہ حال ہے یہ


کچھ دور نہیں، مثال ہے یہ
حکایت ایک عورت کے مرد بن جانے کی دیو کے جادو سے
اک ملک میں ایک صاحب فوج
رکھتا تھا محل میں بارور زوج


تھا داغ پسر مقدر اس کو
جننی تھی ہمیشہ دختر اس کو
از بس کہ وہ شاہ تھا بد اختر
کرتا تھا حسد سے قتل دختر


اک بار محل میں پھر حمل تھا
وہ شاہ کہ ظلم میں مثل تھا
کھا بیٹھا قسم کہ اب کی باری
بیٹا جو نہ دے جناب باری


اقبال کا کچھ نہ جانے اوج
کر ڈالیے ذبح دختر و زوج
کنیا تھی غرض کہ راس اس کی
پوری نہ ہوئی وہ آس اس کی


سلطاں کا جو عہد بے خلل تھا
گھر والوں کو خوف کا محل تھا
ملحوظ بہ دل تھا پردہ راز
سیارہ شناسوں سے کیا ساز


ہر چند ستارہ مال کا تھا ماند
تھی چاندنی، شہرہ کر دیا چان
بیٹے کا وہ زائچہ بنا کے
گویا ہوئے دست بستہ آ کے


حضرت! یہ پسر ہے نیک اختر
بدیمن مگر ہے ایک اختر
جب تک نہ چلے یہ اپنے پاؤں
حضرت نہ پسر کے سامنے ہوں


حلیہ کر کے چھپا کے یک چند
بے تاب ہوا جب آرزومند
وہ گندم جو نما تھی بالی
مردانہ لباس سے نکالی


خوش ہو کے پدر نے بہر شادی
ٹھہرائی کہیں کی شاہ زادی
بن ٹھن کے عروس شک داماد
شادی کو چلی بہ جان ناشاد


اک شب کسی دشت میں تھے ڈیرے
اور روز نکاح تھا سویرے
خیمے سے وہ بے قرار نکلی
اس چھالے سے مثل خار نکلی


دیکھا تو اندھیری رات سنسان
اک عالم ہو ہے اور بیابان
ایک دیو وہاں پہ گشت میں تھا
جویاے شکار دشت میں تھا


دیکھا تو کہا: خضر ملے، آؤ
منہ کھولو، عدم کی راہ بتلاؤ
بولا وہ کہ سن تو آدمی زاد!
کیوں تنگ ہے جی سے، کیا ہے بیداد؟


اے مرد خدا! خدا کی سوگند
کہہ، جس لیے تو ہے آرزو مند
بولی وہ کہ یہ خیال، ہے خام
خنجر کا ہو کیا نیام سے کام


کہہ کر کھلے بندوں جی کی تنگی
بے ننگ، ہوئی وہ شوخ، ننگی
آنکھیں جھپکا کے دیو بولا
تو کیا کھلی، پردہ تو نے کھولا


خاطر تری، لے طلسم دکھلاؤں
تو مجھ سی بنے، میں تجھ سا بن جاؤں
موند آنکھ کہا، تو موند لی آنکھ
کھول آنکھ کہا، تو کھول دی آنکھ


پائے مردانگی کے پر تو
دامن میں سے دی چراغ نے لو
تھا لے میں یہاں اگا صنوبر
واں شیشہ، رہا ترش کے، ساغر


اب یاں سے ہے قصہ مختصر طول
فرخ کہ وہ تھا وزیر معقول
بولا کہ شہا! جو یہ ہوا ہے
اس بات کا پھر وجود کیا ہے


شہ نے کہا: سن وزیر دانا
بے دیکھے، سنے کو کس نے مانا
یاد آئی مجھے بھی اک روایت
یہ کہہ کے، بیان کی حکایت


حکایت نصیحت گری مرغ اسیر و نافہمی صیاد کی
اک مرغ ہوا اسیر صیاد
دانا تھا وہ طاہر چمن زاد
بولا جب اس نے باندھے بازو


کھلتا نہیں کس طمع پہ ہے تو
بیجا، تو ٹکے کا جانور ہوں
گر ذبح کیا، تو مشت پر ہوں
پالا، تو مفارقت ہے انجام


دانا ہو، تو مجھ سے لے مرے دام
بازو میں نہ تو مرے گرہ باندھ
سمجھاؤں جو پند، اسے گرہ باندھ
سن، کوئی ہزار کچھ سنائے


کیجے وہی جو سمجھ میں آئے
قابو ہو، تو کیجئے نہ غفلت
عاجز ہو، تو ہاریے نہ ہمت
آتا ہو، تو ہاتھ سے نہ دیجے


جاتا ہو، تو اس کا غم نہ کیجے
طائر کے یہ سن کلام، صیاد
بن داموں ہوا غلام صیاد
بازو کے جو بند کھول ڈالے


طائر نے تڑپ کے پر نکالے
اک شاخ پہ جا، چہک کے بولا
کیوں، پر مرا کیا سمجھ کے کھولا؟
ہمت نے مری، تجھے اڑایا


غفلت نے تری، مجھے چھڑایا
دولت نہ نصیب میں تھی تیرے
تھا لعل نہاں شگم میں میرے
دے کر صیاد نے دلاسا


چاہا، پھر کچھ لگائے لاسا
بولا وہ کہ دیکھ، کر گیا جعل
طائر بھی کہیں نگلتے ہیں لعل!
ارباب عرض کی بات سن کر


کر لیجیے یک بہ یک نہ باور
فرخ! یہ وہی مثل نہ ہوئے!
دیکھ آ، جو تجھے دہل نہ ہوئے
مشتاق تو تھا، چلا وہ دستور


دکھلائی دیا وہ بقعہ نور
نقشے میں وہ گلشن نگاریں
گلزار ارم سے تھا خوش آئیں
حیرت تھی کہ یہ طلسم کیا ہے!


پردیس میں ہوں کہ گھر مرا ہے!
اس سوچ میں تخت گہ تک آیا
حیراں وہ وزیر، شہ تک آیا
آداب اک کر کے حسب دستور


ٹھہرا، تو وہ بادشاہ مستور
سمجھا کہ حسین آدمی ہے
کیا جانے کہ خود بکاولی ہے
پوچھا کہ کدھر سے آئے، کیا نام؟


بولا وہ کہ نام سے ہے کیا کام
انسان ہوں، بندہ خدا ہوں
بھیجا زین الملوک کا ہوں
گستاخی معاف، آپ آئے


بن گھیر لیا، مکاں بنائے
بہکا کے بسائے مردم شہر
حضرت کا بڑا ہے آپ پر قہر
دعویٰ یہ ہے، یاں زمیں دابی


آبادی میں آئی ہے خرابی
خیر، اب بھی رفع شر جو چاہو
سر آنکھوں سے چل کے جبہہ سا ہو
بولا وہ کہ فتنہ گر نہیں ہم


شرجن سے ہو، وہ بشر نہیں ہم
درویشی میں دل کے بادشا ہیں
مسند کے تکیے پر گدا ہیں
دستور کہ عرض کر چکا تھا


مثل دل بد گماں رکا تھا
بولا: چلو صلح درمیاں ہو
باہم مہ و مہر کا قراں ہو
بولا وہ: فقیر کی بلا جائے


مشتاق جو ہو، وہ شوق سے آئے
بولا وہ کہ خیر، تابہ فردا
اٹھ جائے گا درمیاں سے پردا
یہ کہہ کے پھرا وزیر، آیا


پہنچا تو وہ شہر خالی پایا
شہ زادہ و شہ محل میں تھے واں
بر ہم زدہ بزم کے چراغاں
شہ نے جو وزیر آتے دیکھا


فرخ، فرخ پکار اٹھا
سلطاں کے نثار ہو کے دستور
بولا کہ بلاے شاہ ہو دور!
دیکھ آیا میں وہ مکان یاقوت


ہے معدن لعل و کان یاقوت
تختہ ہے زمردیں کہ مینو!
گلشن ہے جواہریں کہ جادو!
نقشہ کہوں کیا، نگار خانہ!


جادو کا تمام کار خانہ!
دیووں کی بنائی ہے وہ بنیاد
رہنے والے ہیں آدمی زاد
واں صاحب تاج و تخت جو ہے


درویش ہے، شاہ نام کو ہے
دیو اس کے عمل میں آگئے ہیں
جادو کے محل بنا گئے ہیں
کل آپ بھی چل کے کیجئے سیر


وعدہ کر آیا ہوں، کہا: خیر
بھید کھلنا چھپے ہوؤں کا ایک ایک پر
اب خامے سے وا شگاف یوں ہے
دل ملنے کی راہ صاف یوں ہے


فرخ جو گیا، تو شاہ زادہ
سوچا کہ ہوں ٹھاٹھ کل زیادہ
رکھا آتش پہ دوسرا بال
حاضر ہوئی دیونی قوی بال


دعوت کی اسے خبر سنائی
دیووں کے رخ اس نے آنکھ اٹھائی
ہم چشموں نے چتون اس کی تاڑی
پلکوں سے زمین بن کی جھاڑی


غولوں سے بھرا جو تھا بیاباں
پھولوں سے بنا دیا خیاباں
صناعی انھوں نے رات بھر کی
مشتاق نے واں وہ شب سحر کی


بجتے ہی گجر وہ شاہ ذی جاہ
چاروں شہ زادے لے کے ہمراہ
جو جو امرا تھے، سب بلا کے
فرخ کو خواصی میں بٹھا کے


مشرق سے رواں ہوا دلاور
جس طرح افق سے شاہ خاور
بجلی سے جو زرق برق آئے
فرش، ابر کی طرح بچھتے پائے


دیکھا تو تمام دشت گلزار
دائیں بائیں دورستہ بازار
شہ کہتے تھے: دشت پر خسک تھا
فرخ کہتا تھا: کل تلک تھا


غافل تھے کہ سبز باغ ہے یہ
اپنے ہی جگر کا داغ ہے یہ
تجویز رہے تھے سب کے سب دنگ
جادو، افسوں، طلسم، نیرنگ


کیا لشکر اور کیا شہنشاہ
سناٹے میں تھے کہ اللہ اللہ!
دیکھے جو جواہرات کے ڈھیر
سب من کی ہوس سے ہو گئے سیر


شہ زادے نے آمد ان کی پائی
کی تادر خانہ پیشوائی
دونوں میں ہوئیں جو چار آنکھیں
دولت کی کھلی ہزار آنکھیں


ایوان جواہریں میں آئے
الماس کی شبہ نشیں میں آئے
وہ چتر کے زیر سایہ بیٹھے
افسر سب پایہ پایہ بیٹھے


جو جو کہ تو اضعات ہیں عام
لے آئے خواص نازک اندام
چکنی ڈلی، عطر، الائچی، پان
نقل و مے و جام و خوان انوان


رغبت سے انہیں کھلا پلا کے
بولا شہ زادہ مسکرا کے
اس تاج شہی میں کے نگیں ہیں؟
کے نام و نشان دل نشیں ہیں؟


سلطاں نے کہا بہ صد لطافت
یہ چار ہیں عنصر خلافت
ایک اور ہوا تھا قابل خشم
وہ نور بصر، تھا دشمن چشم


جب لائے یہ گل بکاولی کا
نکلا تب خار روشنی کا
پوچھا اس نے: وہ اب کدھر ہے؟
سلطاں نے کہا کہ کیا خبر ہے!


ایک ان میں سے چشم آشنا تھا
کو کہ اسی شاہ زادے کا تھا
بولا کہ حضور ادھر تو دیکھیں
دیکھا، تو کہا: مری نظر میں


صورت وہی، رنگ رو وہی ہے
لہجہ وہی، گفتگو وہی ہے
یہ سنتے ہی، اس نے خندہ کر کے
سر، پاؤں پہ رکھ دیا پدر کے


سر، قدموں سے شاہ نے اٹھایا
فرزند کو چھاتی سے لگایا
لے لے کے بلائیں کاکلوں کی
پیشانی چومی، پیٹھ ٹھونکی


عرض اس نے کیا کہ دو پرستار
پا بوسی شہ کی ہیں طلب گار
حضرت نے کہا: بلائیے خیر
اٹھ جائیں، جو بیٹھے ہوں یہاں غیر


شہ زادے نے اک مکاں بتایا
ایک ایک اٹھا، ادھر کو آیا
سب اٹھ گئے، پر وہ چاروں باغی
بیٹھے رہے فرش گل پہ داغی


شہ زادہ اٹھا، محل میں آیا
پردے تلک ان کو ساتھ لایا
دلبر سے کہا: میں جب کہوں، آؤ
تو کہیو، یہ چاروں داغی اٹھواؤ


درپردہ سکھا کے، باہر آیا
بے پردہ حضور شہ بلایا
دلبر نے کہا: لجاؤں گی میں
قربان گئی، نہ آؤں گی میں


اٹھ جائیں یہ چاروں سست بنیاد
داغے ہوئے ہیں غلام، آزاد
چاروں کا، جو سنتے ہی، اڑا رنگ
یک بار گی شاہ ہوگیا دنگ


دکھلائی دیے جو بیٹے بے رخ
دیکھا تاج الملوک کے رخ
یاں دل پہ تھے داغ، واں سریں پر
یاں نام پہ حرف، واں نگیں پر


وہ جعل، وہ ہار، وہ غلامی
وہ گھات، وہ جیتنا تمامی
وہ دسترس اور وہ پائے مردی
وہ بے کسی اور وہ دشت گردی


وہ دیو کی بھوک اور وہ تقریر
وہ حلوے کی چاٹ اور وہ تحریر
وہ سعی، وہ دیونی کی صحبت
محمودہ کی وہ آدمیت


تجویز کے وہ سرنگ کی راہ
اور موش دوانیاں وہ دل خواہ
وہ سیر چمن، وہ پھول لینا
وہ عزم وطن، وہ داغ دینا


وہ کور کے حق میں خضر ہونا
وہ غولوں سے مل کے پھول کھونا
وہ بال کو آگ کا دکھانا
وعدے پہ وہ دیونی کا آنا


وہ نزہت گلشن نگاریں
وہ دعوت بادشا، وہ تمکیں
گزرا تھا جو کچھ، بیاں کیا سب
پنہاں تھا جو کچھ، عیاں کیا سب


انگشتری پری دکھا کر
کھلوئی سریں کی مہر محضر
پہلے تو بہت وہ منہ چڑھے ڈھیٹھ
آخر داغی دکھا گئے پیٹھ


اٹھوا کے انہیں، وہ دو خوشی آئیں
پا بوسی شہ کو سر سے آئیں
حضرت نے سمجھ کے حسن خدمت
دونوں کو دیے خطاب و خلعت


نذریں ان دونوں نے دکھائیں
رخصت ہو کر محل میں آئیں
مسند سے شہ اٹھ کے بے محابا
بولا بیٹے سے: جان بابا!


روشن کیا دیدہ ٔپدر کو
مادر کے بھی چل کے آنسو پوچھو
مشتاق کو روبہ راہ پایا
ہمراہ اسے تابہ خانہ لایا


ماں نے دیکھا جو وہ دلاور
اشکوں کے گہر کیے نچھاور
وہ طفل بھی گر پڑا قدم پر
مانند سر شک چشم مادر


ہر خویش ویگانہ سے ملا وہ
پھر اپنی جگہ پہ آگیا وہ
غائب ہو جانا فرخ یعنی بکاولی کا اور بلوانا تاج الملوک
کو گلشن نگاریں سے اور متفق ہو کر گلزار ارم میں رہنا


کھلنے پہ جو ہے طلسم تقدیر
اب خامے نے یو کیا ہے تحریر
فرخ، وہ بادشا کا دستور
یعنی وہ بکاولی مستور


مطلوب کا سن سمجھ کے سب حال
چاہی کہ نکالے کچھ پر وبال
سوچی کو دلا! شتاب کیا ہے
پھر سمجھیں گے، اضطراب کیا ہے


اس وضع کا پاس کر گئی وہ
تغیر لباس کر گئی وہ
فرخ کہنے تک آدمی تھی
پھر وہ ہی بکاولی پری تھی


غربت سے چلی، وطن میں آئی
صحرا سے اڑی، چمن میں آئی
پژ مردہ خواصوں پڑی جان
صدقے ہوئی کوئی، کوئی قربان


اس غنچے میں اک سمن پری تھی
وہ ہم نفس بکاولی تھی
بولی: کہو کیا کیا، کہا: خوب
بے کچھ کیے پھر بھی آئی، کیا خوب!


مانگا کاغذ، دوات، خامہ
لکھا گل چیں کے نام نامہ
اے یوسف چشم زخم یعقوب!
وے رشک برادران منکوب!


اے دل بر دلبرد غل باز!
وے دیو سوار عرش پرواز!
اے آب تہ زمین نیرنگ!
وے نقب دوان باغ گل رنگ!


اے پردہ کشاے بے حجابی!
وے دزد حناے دست یابی!
اے رہ رو رو بہ رہ نہادہ!
وے صر صر گل بہ باد دادہ!


اے بے سر و برگ گلشن آرا!
وے لعل نماے سنگ خارا!
اے بے خبر طلسم صورت!
وے بے بصر رخ ضرورت!


اے باعث عزم میہمانی!
وے صاحب بزم میزبانی!
اے آئنہ دار خود نمائی!
وے سرمہ چشم آشنائی!


اے پردہ کشاے روے پنہاں!
وے داغ نماے پشت اخواں!
تو باغ ارم سے لے گیا گل
تو مجھ سی پری کو دے گیا جل


بے رخ ترے واسطے ہوئی میں
فرخ ترے واسطے ہوئی میں
تجھ کو ترے باپ سے ملایا
مجھ کو یہ ملا کہ تجھ کو پایا


جو جو اسرار تھے نہانی
سب تجھ سے سنے تری زبانی
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو ہو جو سر پہ چڑھ کے بولے


چاہا تھا، کروں سرے سے پامال
کر شکر، سمجھ کہ تھا خوش اقبال
کیا کہیے کہ صورت اور کچھ تھی
وقت اور، ضرورت اور کچھ تھی


اب تک ہیں وہ خارجی کے جی میں
جلد آ کہ ہے مصلحت اسی میں
آئے گا، تو در گذر کروں گی
ورنہ میں بہت ساشر کروں گی


داغوں پہ دیے ہیں داغ تو نے
دکھلائے ہیں سبز باغ تو نے
کانٹوں میں اگر نہ ہو الجھنا
تھوڑا لکھا بہت سمجھنا


پھر خط کی نہ ہو امیدواری
القط ہے قلم کی دوست واری
یہ لکھ کے، کہا سمن پری کو
چالاک ہے تو ہی قاصدی کو


یہ خط، یہ انگوٹھی لے، ابھی جا
پورب کی سمت کو چلی جا
رستے میں ہے گلشن نگاریں
رہتا ہے وہیں مرا وہ گل چیں


خاتم کے نشاں سے نامہ دیجو
ٹھہری رہیو، جواب لیجو
خط، خاتم لے کے وہ ہوائی
پتا ہوئی اور پتے پہ آئی


وہ باغ کہ تھا جواہر آگیں
ثابت ہوا گلشن نگاریں
وہ آدم حوروش، پری رو
یعنی تاج الملوک خوش خو


گل گشت میں تھا کسی روش پر
محمودہ دائیں، بائیں دلبر
قاصد نے جو رخ پری دکھایا
دھیان اس کو بکاولی کا آیا


پہچانتے ہی نگین خاتم
بے شبہ ہوا یقیں کا عالم
پر تو پہ وہ یوں چلا تڑپ کے
انگارے پہ جیسے کبک لپکے


دھوکا تھا فقط بکاولی کا
قاصد نے دیا وہ خط پری کا
گو سرمہ خموشی نے کھلایا
تحریر کو آنکھوں سے لگایا


قاصد سے کلام لطف بولا
خط صورت چشم شوق کھولا
وہ نامہ کہ عنبریں رقم تھا
قسمت کا نوشتہ یک قلم تھا


تحریر تھی سر گذشت ساری
کچھ یاس تھی، کچھ امیدواری
منگوا کے وہیں دوات و خامہ
تحریر کیا جواب نامہ


اے شاہ ارم کی دخت گل فام!
فرخ لقب و بکاولی نام
اس نام کے، اس لقب کے صدقے
اس نامے کے، اس طلب کے صدقے


میں نے جو غرض سے جی چرایا
تو نے کیوں آ کے منہ چھپایا؟
میری جو بدی ہوئی تھی کچھ یوں
تو نیک ہے، بے ملے گئی کیوں؟


تو جائے، تو کیوں نہ آئے افسوس
افسوس، افسوس، ہاے افسوس!
تقدیر پھری، پھری نہیں تو،
امید گئی، گئی نہیں تو


اے کاش! میں کچھ بھی سانس پاتا
جی کھول کے داغ دل دکھاتا
معلوم تو ہے کہ شوق کیا تھا
جو کھینچ کے یاں سے لے گیا تھا


اب مجھ میں وہ دم اجی کہاں ہے
وہ دل، وہ جگر، وہ جی کہاں ہے
مر جاؤں اگر طلب میں تیری
میں کیا، کہ خبر نہ پہنچے میری


قابل واں آنے کے کہاں ہوں
یاں بھی جو رہا، تو نیم جاں ہوں
تجھ سے میری خاطر اب کہاں جمع
تو نشتر شعلہ، میں رگ شمع


تو برق دماں، میں خرمن خار
تو سیل رواں، میں خستہ دیوار
تو جوشش یم، میں مور بے پر
میں نقش قدم، تو باد صرصر


دھڑکا ہے یہی، تو جان دوں گا
مرجاؤں گا، اب نہ میں جیوں گا
ہو تجھ سی پری جو خصم جانی
انساں کی ہے مرگ، زندگانی


منظور جو ہو حیات میری
تو مان لے ایک بات میری
حمالہ کو بھیج، آ کے لے جائے
شاید مجھے زندہ پا کے پہنچائے


بھیجا نہ اسے، تو جان لینا
آسان ہے یاں بھی جان دینا
یہ لکھ کے، جو خط سے ہاتھ اٹھایا
قاصد نے لیا جو اب، لایا


مطلوب کا خط وہ پڑھ رہی تھی
دیکھا تو وہ دیونی کھڑی تھی
پوچھا کہ اری! تجھے خبر ہے
گل چیں مرا کون سا بشر ہے؟


وہ صدقے ہوئی، کہا: بلا لوں
بے دیکھے کسی کا نام کیا لوں!
یہ سن کے، وہ شعلہ، ہو بھبوکا
بولی کہ تجھے لگاؤں لوکا


تیرا ہی تو ہے فساد مردار!
داماد کو گل دیا، مجھے خار
گل نقب کی راہ لے گیا چور
زندہ کروں اس موئے کو درگور


حمالہ! جلی ہوں، کیا کہوں میں
داماد کو لا، تو ٹھنڈی ہوں میں
آگاہی جو دیونی نے پائی
بگڑی ہوئی بات یوں بنائی


محمودہ ہے کنیز زادی
انساں سے ہوئی ہے اس کی شا

- pandit-daya-shankar-naseem-lakhnavi


کروں پہلے توحید یزداں رقم
جھکا جس کے سجدے کو اول قلم
سر لوح پر رکھ بیاض جبیں
کہا: دوسرا کوئی تجھ سا نہیں


قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا
ہوا حرف زن یوں کہ: رب العلا!
نہیں کوئی تیرا، نہ ہوگا شریک
تری ذات ہے وحدہٗ لا شریک


پرستش کے قابل ہے تواے کریم!
کہ ہے ذات تیری غفور رحیم
رہ حمد میں تیری عزّ و جل!
تجھے سجدہ کرتا چلوں سر کے بل


وہ، الحق کہ ایسا ہی معبود ہے
قلم جو لکھے، اس سے افزود ہے
سبھوں کا وہی دین و ایمان ہے
یے دل ہیں تمام اور وہی جان ہے


تر و تازہ ہے اس سے گلزار خلق
وہ ابر کرم، ہے ہوا دار خلق
اگرچہ وہ بے فکر و غیّور ہے
ولے پرورش سب کی منظور ہے


کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جاں
جو وہ مہرباں ہو، تو گل مہرباں
اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں
پر، اس بن تو کوئی کسی کا نہیں


موئے پر نہیں اس سے رفت و گزشت
اسی کی طرف سب کی ہے بازگشت
رہا کون اور کس کی بابت رہی
موئے اور جیتے وہی ہے وہی


نہاں سب میں، اور سب میں ہے آشکار
یہ سب اس کے عالم ہیں ہژدہ ہزار
ڈرے سب ہیں اس سے، وہی سب سے پیش
ہمیشہ سے ہے اور رہے گا ہمیش


چمن میں، ہے وحدت کے، یکتا وہ گل
کہ مشتاق ہیں اس کے سب جز و کُل
اسی سے ہے کعبہ، اسی سے کنشت
اسی کا ہے دوزخ، اسی کا بہشت


جسے چاہے جنت میں دیوے مقام
جسے چاہے دوزخ میں رکھے مدام
وہ ہے مالکُ الملک دنیا و دیں
ہے قبضے میں اس کے زمان و زمیں


سدا بے نمودوں کی اس سے نمود
دل بستگاں کی ہے اس سے کشود
اسی کی نظر سے ہے ہم سب کی دید
اسی کے سخن پر ہے سب کی شنید


وہی نور، ہے سب طرف جلوہ گر
اسی کے یہ ذرے ہیں شمس و قمر
نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں، پر ہر اک شے میں ہے


نہ گوہر میں ہے وہ، نہ ہے سنگ میں
و لیکن چمکتا ہے ہر اک رنگ میں
وہ ظاہر میں ہر چند ظاہر نہیں
پہ، ظاہر کوئی، اس سے باہر نہیں


تامل سے کیجے اگر غور کچھ
تو سب کچھ وہی ہے، نہیں اور کچھ
اسی گل کی بو سے ہے خوش بو گلاب
پھرے ہے لیے ساتھ دریا، حباب


پر، اس جوش میں آ کے، بہنا نہیں
سمجھنے کی ہے بات، کہنا نہیں
قلم، گو زباں لاوے اپنی ہزار
لکھے کس طرح حمد پروردگار


کہ عاجز ہے یاں انبیا کی زباں
زبان قلم کو یہ قدرت کہاں!
اس عہدے سے کوئی بھی نکلا کہیں!
سوا عجز، درپیش یاں کچھ نہیں


وہ معبود یکتا، خدائے جہاں
کہ جس نے کیا ’’کن‘‘ میں کون و مکاں
دیا عقل و ادراک اس نے ہمیں
کیا خاک سے پاک اس نے ہمیں


پیمبر کو بھیجا ہمارے لیے
وصی اور امام اس نے پیدا کیے
جہاں کو انھوں نے دیا انتظام
برائی بھلائی سجھائی تمام


دکھائی انھوں نے ہمیں راہ راست
کہ تا، ہو نہ، اس راہ کی باز خواست
سو وہ کون سی راہ؟ شرع نبی
کہ رستے کو جنت کے سیدھی گئی


نعت حضرت رسالت پناہ کی
نبی کون، یعنی رسول کریم
نبوت کے دریا کا در یتیم
ہوا گو کہ ظاہر میں امی لقب


پہ، علم لدنی کھلا دل پہ سب
بغیر از لکھے، اور کیے بے رقم
چلے حکم پر اس کے لوح و قلم
ہوا علم دیں اس کا جو آشکار


گزشتہ ہوئے حکم، تقویم پار
اٹھا کفر اسلام ظاہر کیا
بتوں کو خدائی سے باہر کیا
کیا حق نے نبیوں کا سردار اسے


بنایا نبوت کا حق دار اسے
نبوت جو کی اس پہ حق نے تمام
لکھا: اشرفُ الناس، خیرُ الانام
بنایا سمجھ بوجھ کر خوب اسے


خدا نے کیا اپنا محبوب اسے
کروں اس کے رتبے کا کیا میں بیاں
کھڑے ہوں جہاں باندھ صف مرسلاں
مسیح اس کی خر گاہ کا پارہ دوز


تجلیٔ طور اس کی مشعل فروز
خلیل اس کے گلزار کا باغباں
سلیماں سے کئی مہر دار اس کے یاں
خضر اس کی سرکار کا آبدار


زرہ ساز داؤد سے دس ہزار
محمد کی مانند جگ میں نہیں
ہوا ہے نہ ایسا، نہ ہو گا کہیں
یہ تھی رمز، جو اس کے سایہ نہ تھا


کہ رنگ دوئی واں تک آیا نہ تھا
نہ ہونے کا سایے کا تھا یہ سبب
ہوا صَرف پوشش میں کعبے کی سب
وہ قد اس لیے تھا نہ سایہ فگن


کہ تھا گل وہ اک معجزے کا بدن
بنا سایہ اس کا لطیف اس قدر
نہ آیا لطافت کے باعث نظر
عجب کیا جو اس گل کا سایہ نہ ہو


کہ تھا وہ، گل قدرت حق کی بو
خوش آیا نہ، سایے کو، ہونا جدا
اسی نور حق کے رہا زیر پا
نہ ڈالی کسی شخص پر اپنی چھانو


کسی کا نہ منہ دیکھا، دیکھ اس کے پانو
وہ ہوتا زمیں گیر کیا فرش پر
قدم اس کے سایے کا تھا عرش پر
نہ ہونے کی سایے کے اک وجہ اور


مجھے خوب سوجھی، پہ ہے شرط غور
جہاں تک کہ تھے یاں کے اہل نظر
سمجھ مایۂ نور، کحلُ البصر
سبھوں نے لیا پتلیوں پر اٹھا


زمیں پر نہ سایے کو گرنے دیا
سیاہی کا پتلی کی ہے یہ سبب
وہی سایہ پھرتا ہے آنکھوں میں اب
وگرنہ یہ تھی چشم اپنی کہاں


اسی سے یہ روشن ہے سارا جہاں
نظر سے جو غائب وہ سایا رہا
ملائک کے دل میں سمایا رہا
نہیں ہمسر اس کا کوئی، جو علی


کہ بھائی کا بھائی، وصی کا وصی
ہوئی جو نبوت نبی پر تمام
ہوئی نعمت اس کے وصی پر تمام
جہاں فیض سے ان کے ہے کام یاب


نبی آفتاب و علی ماہتاب
منقبت حضرت امیرالمومنین کی
علی دین و دنیا کا سردار ہے
کہ مختار کے گھر کا مختار ہے


دیار امامت کے گلشن کا گل
بہار ولایت کا باغ سبل
علی راز دار خدا و نبی
خبردار سر خفی و جلی


علی بندۂ خاص درگاہ حق
علی سالک و رہبر راہ حق
علیّ ولی، ابن عمّ رسول
لقب شاہ مردان و زوج بتول


کہے یوں جو چاہے کوئی بیر سے
پہ نسبت علی کو نہیں غیر سے
خدا نفس پیغبرش خداندہ است
دگر افضلیت بہ کس ماندہ است؟


یہاں بات کی بھی سمائی نہیں
نبی و علی میں جدائی نہیں
نبی و علی، ہر دو نسبت بہم
دُو تا و یکے، چوں زبان قلم


علی کا عدوٗ: دوزخی، دوزخی
علی کا محب: جنتی، جنتی
نبی اور علی، فاطمہ اور حسن
حسین ابن حیدر، یہ ہیں پنج تن


ہوئی ان پہ دو جگ کی خوبی تمام
انہوں پر درود اور انہوں پر سلام
علی سے لگا تا بہ مہدیٔ دیں
یہ ہیں ایک نور خدائے بریں


اُنہوں سے ہے قائم امامت کا گھر
کہ بارہ ستوں ہیں یہ اثنا عشر
صغیرہ، کبیرہ سے یہ پاک ہیں
حساب عمل سے یہ بے باک ہیں


ہوا یاں سے ظاہر کمال رسول
کہ بہتر ہوئی سب سے آل رسول
سلام ان پہ جو ان کے اصحاب ہیں
وہ اصحاب کیسے، کہ احباب ہیں


خدا نے انہوں کو کہا مومنیں
وہ ہیں زینت آسمان و زمیں
خدا ان سے راضی، رسول ان سے خوش
علی ان سے راضی، بتول ان سے خوش


ہوئی فرض ان کی ہمیں دوستی
کہ ہیں دل سے وہ جاں نثار نبی
مناجات
الٰہی! بہ حق رسول امیں


بہ حق علی و بہ اصحاب دیں
بہ حق بتول و بہ آل رسول
کروں عرض جو میں، سو ہوئے قبول
الٰہی! میں بندہ گنہگار ہوں


گناہوں میں اپنے گراں بار ہوں
مجھے بخشیو میرے پروردگار!
کہ ہے تو کریم اور آمرزگار
مری عرض یہ ہے کہ جب تک جیوں


شراب محبت کو تیری پیوں
سوا تیری الفت کے، اور سب ہے ہیچ
یہی ہو، نہ ہو اور کچھ ایچ پیچ
جو غم ہو، تو ہو آل احمد کا غم


سوا اس الم کے نہ ہو کچھ الم
رہے سب طرف سے مرے دل کو چین
بہ حق حسن اور بہ حق حسین
کسی سے نہ کرنی پڑے التجا


تو کر خود بہ خود میری حاجت روا
صحیح اور سالم سدا مجھ کو رکھ
خوشی سے ہمیشہ خدا! مجھ کو رکھ
مری آل اولاد کو شاد رکھ


مرے دوستوں کو تو آباد رکھ
میں کھاتا ہوں جس کا نمک اے کریم!
سدا رحم کر اس پہ تو اے رحیم!
جیوں آبرو اور حرمت کے ساتھ


رہوں میں عزیزوں میں عزت کے ساتھ
بر آویں مرے دین و دنیا کے کام
بہ حق محمد علیہ السلام
تعیریف سخن کی


پلا مجھ کو ساقی! شراب سخن
کہ مفتوح ہو جس سے باب سخن
سخن کی مجھے فکر دن رات ہے
سخن ہی تو ہے، اور کیا بات ہے


سخن کے طلب گار ہیں عقل مند
سخن سے ہے نام نکو یاں بلند
سخن کی کریں قدر مردان کار
سخن، نام ان کا رکھے برقرار


سخن سے وہی شخص رکھتے ہیں کام
جنہیں چاہیے ساتھ نیکی کے نام
سخن سے سلف کی بھلائی رہی
زبان قلم سے بڑائی رہی


کہاں رستم و گیو و افراسیاب
سخن سے رہی یاد یہ نقل خواب
سخن کا صلہ یار دیتے رہے
جواہر سدا مول لیتے رہے


سخن کا سدا گرم بازار ہے
سخن سنج اس کا خریدار ہے
رہے جب تلک داستان سخن
الٰہی! رہے قدردان سخن


مدح شاہ عالم بادشاہ کی
خدیو فلک شاہ عالی گہر
زمیں بوس ہوں جس کے شمس و قمر
جہاں اس کے پرتو سے ہے کام یاب


وہ ہے برج اقلیم میں آفتاب
اسی مہر سے ہے منور یہ ماہ
جہاں ہووے اور ہو جہاں دار شاہ
وہ مہر منور، یہ ماہ منیر


اور اس کا یہ نجم سعادت وزیر
مدح وزیر آصف الدولہ کی
فلک رتبہ نوّاب عالی جناب
کہ ہے آصف الدولہ جس کا خطاب


وزیر جہاں، حاکم عدل و داد
ہے آبادیٔ ملک جس کی مراد
جہاں، عدل سے اس کے آباد ہے
غریبوں، فقیروں کا دل شاد ہے


پھرے بھاگتا مور سے فیل مست
زبردست ظالم، پہ ہے زیردست
کتاں پر کرے مہ اگر بد نظر
تو آدھا ادھر ہووے آدھا ادھر


کسی کا اگر مفت لے زلف دل
تو کھایا کرے پیچ وہ متصل
وہ انصاف سے جو گزرتا نہیں
کسی پر کوئی شخص مرتا نہیں


تو ہو باگ، بکری میں کچھ گفتگو
اگر اس کا چیتا نہ ہووے کبھو
گر آواز سن صید کی، کچھ کہے
تو باز آئے چپّک کہ بہری رہے


پھرے شمع کے گرد گر آ کے چور
صبا کھینچ لے جاوے اس کو بہ زور
نہ لے جب تلک شمع پروانگی
پتنگے کے پر کو نہ چھیڑے کبھی


اگر آپ سے اس پہ وہ آ گرے
تو فانوس میں شمع چھپتی پھرے
گر احیاناً اس کے جلیں بال و پر
تو گل گیر، لے شمع کا کاٹ سر


اسے عدل کی جو طرح یاد ہے
کسے یاد ہے؟ یہ خدا داد ہے
ستم اس کے ہاتھو سے رویا کرے
سدا فتنۂ دہر سویا کرے


گھروں میں فراغت سے سوتے ہیں سب
پڑے گھر میں چور اپنے روتے ہیں سب
وہ ہے باعث امن خرد و کلاں
کہ ہے نام سے اس کے مشق اماں


بیان سخاوت کروں گر رقم
تو در ریز کاغذ پہ ہووے قلم
نظر سے توجہ کی دیکھا جدھر
دیا مثل نرگس اسے سیم و زر


سخاوت یہ ادنیٰ سی ایک اس کی ہے
کہ اک دں دو شالے دیے سات سے
سوا اس کے، ہے اور یہ داستاں
کہ ہو جس پہ قربان حاتم کی جاں


ہوئی کم جو اک بار کچھ برشگال
گرانی سی ہونے لگی ایک سال
غریبوں کا دم سا نکلنے لگا
توکل کا بھی پانو چلنے لگا


وزیرالممالک نے تدبیر کر
خدا کی دیا راہ پر مال و زر
محلے محلے کیا حکم یہ
کہ باڑے کی اس غم کے کھولیں گرہ


یہ چاہا کہ خلقت کسی ڈھب جیے
ٹکے لاکھ لاکھ ایک دن میں دیے
یہ لغزش پڑی ملک میں جو تمام
لیا ہاتھ نے اس کے گرتوں کو تھام


یہ بندہ نوازی، یہ جاں پروری
یہ آئین سرداری و سروری
ہوئے ذات پر اس سخی کی تمام
تکلف ہے آگے سخاوت کا نام


فقیروں کی بھی یاں تلک تو بنی
کہ اک اک یہاں ہو گیا ہے غنی
یہ کیا دخل آواز دے جو گدا
چٹکنے کی گل کے نہ ہووے صدا


قدح لے کے نرگس جو ہووے کھڑی
تو خجلت سے جاوے زمیں میں گڑی
نہ ہو اس کا شامل جو ابر کرم
اثر ابر نیساں سے ہووے عدم


ہر اک کام اس کا: جہاں کی مراد
فلاطوں طبیعت، ارسطو نژاد
جب ایسا وہ پیدا ہوا ہے بشر
تب اس کو دیا ہے یہ کچھ مال و زر


لکھوں گر شجاعت کا اس کی بیاں
قلم ہو مرا رستم داستاں
غضب سے وہ ہاتھ اپنا جس پر اٹھائے
اجل کا طمانچہ قسم اس کی کھائے


کرے جس جگہ زور اس کا نمود
دل آہن کا اس جا پہ ہووے گبود
چلے تیغ گر اس کی زور مصاف
نظر آوے دشمن کا میدان صاف


اگر بے حیائی سے کوئی عدو
ملا دیوے اس تیغ سے منہ کبھو
تو ایسے ہی کھا کر گرے سر کے بل
کہ سر پر کھڑی اس کے رووے اجل


نہ ہو کیونکے وہ تیغ برق غضب
کہ برش کی تشدید، جوہر ہیں سب
لگاوے اگر کوہ پر ایک بار
گزر جائے یوں، جیسے صابن میں تار


ہوئی ہم قسم اس سے تیغ اجل
نکل آئے یہ، گر پڑے وہ اگل
غضب سے، غضب، اس کے کانپا کرے
تہور بھی ہیبت سے اس کی ڈرے


اور اس زور پر ہے یہ علم و حیا
کہ ہے خلق کا جیسے دریا بہا
جہاں تک کہ ہیں علم و نسب و کمال
ہر اک فن میں ماہر ہے وہ خوش خصال


سخن داں، سخن سنج، شیریں زباں
وزیر جہان و وحید زماں
سخن کی نہیں اس سے پوشیدہ بات
غوامض ہیں سب سہل اس کے نکات


سلیقہ ہر اک فن میں، ہر بات میں
نکلتی نئی بات دن رات میں
سدا سیر پر اور تماشے پہ دل
کشادہ دلی اور خوشی متصل


نہ ہو اس کو کیوں کر ہواے شکار
تہور شعاروں کا ہے یہ شعار
دلیروں کے تئیں، ہے دلیروں سے کام
کہ رہتا ہے شیروں کو شیروں سے کام


شہاں را ضروراست مشق شکار
کہ آید پئے صید دل ہا بہ کار
کھلے، بند جتنے ہیں صحرا میں صید
ہیں نواب کے دام الفت میں قید


زمہرش دل آہواں سوختہ
بہ فتراک او چشمہا دوختہ
شجاعت کا، ہمت کا یہ، کام ہے
درم ہاتھ میں ہے کہ یا دام ہے


نہ ہوتا اگر اس کو عزم شکار
درندوں سے بچتا نہ شہر و دیار
نہ بچتے جہاں بیچ خرد و بزرگ
یہ ہو جاتے سب لقمۂ شیر و گرگ


یہ انسان پر اس کا احسان ہے
کہ بے خوف انسان کی جان ہے
بنائی جہاں اس نے نخچیر گاہ
رہے صید واں آکے شام و پگاہ


رکھا صید بحری پہ جس دم خیال
لیا پشت پر اپنی ماہی نے جال
مگر اپنا دیتے ہیں جی جان کر
کہ ٹاپو پہ گرتے ہیں آن آن کر


نہ سمجھو نکلتے ہیں دریا میں سوس
خوشی سے اچھلتے ہیں دریا میں سوس
چرندوں کا دل اس طرف ہے لگا
پرندوں کو رہتی ہے اس کی ہوا


پلنگوں کا ہے بلکہ چیتا یہی
کمر آ بندھاوے ہماری وہی
کھڑے اَرنے ہوتے ہیں سر جوڑ جوڑ
کہ جی کون دیتا ہے بد بد کے ہوڑ


خبر اس کی سن کر نہ گینڈا چلے
کہ ہاتھی بھی ہو مست، اینڈا چلے
جو کچھ دل میں گینڈے کے آوے خیال
تو بھاگے اس آگے سپر اپنی ڈال


اطاعت کے حلقے سے بھاگے جو فیل
پلک، اس کی آنکھوں میں، ہو تفتہ میل
سو وہ تو اطاعت میں یک دست ہیں
نشے میں محبت کے سب مست ہیں


اسی کے لیے گو کہ ہیں وے پہاڑ
قدم اپنے رکھتے ہیں سب گاڑ گاڑ
کہ شاید مشرف سواری سے ہوں
سر افراز چل کر عماری سے ہوں


چلن جب یہ کچھ ہوویں حیوان کے
تو پھر حق بہ جانب ہے انسان کے
کسے ہو نہ صحبت کی اس کی ہوس
ولے کیا کرے، جو نہ ہو دسترس


فلک بار گاہا، ملک در گہا!
جدا میں جو قدموں سے تیرے رہا
نہ کچھ عقل نے اور نہ تدبیر نے
رکھا مجھ کو محروم تقدیر نے


پراب عقل نے میرے کھولے ہیں گوش
دیا ہے مدد سے تری مجھ کو ہوش
سو میں، اک کہانی بنا کر نئی
در فکر سے گوندھ لڑیاں کئی


لے آیا ہوں خدمت میں بہر نیاز
یہ امید ہے پھر، کہ ہوں سرفراز
مرے عذر تقصیر ہوویں قبول
بہ حق علی و بہ آل رسول


رہے جاہ و حشمت یہ تیری مدام
بہ حق محمد، علیہ السلام
رہیں شاد و آباد کل خیر خواہ
پھریں اس گھرانے کے دشمن تباہ


اب آگے کہانی کی ہے داستاں
ذرا سنیو دل دے کے اس کا بیاں
آغاز داستاں
کسی شہر میں تھا کوئی بادشاہ


کہ تھا وہ شہنشاہ گیتی پناہ
ملک خو، ملک شاہ رکھتا تھا نام
فلک پر مہ و مہر اس کے غلام
بہت حشمت و جاہ و مال و منال


بہت فوج سے اپنی فرخندہ حال
کئی بادشاہ اس کو دیتے تھے باج
خطا اور ختن سے وہ لیتا خراج
کوئی دیکھتا آ کے جب اس کی فوج


تو کہتا کہ: ہے بحر ہستی کی موج
طویلے کے اس کے جو ادنی تھے خر
انھیں نعل بندی میں ملتا تھا زر
جہاں تک کہ سرکش تھے اطراف کے


وہ اس شہ کے رہتے تھے قدموں لگے
رعیت تھی آسودہ و بے خطر
نہ غم مفلسی کا، نہ چوری کا ڈر
عجب شہر تھا اس کا مینو سواد


کہ قدرت خدائی کی آتی تھی یاد
لگے تھے ہر اک جا پہ وہاں سنگ و خشت
ہر اک کوچہ اس کا، تھا رشک بہشت
زمیں سبز و سیراب عالم تمام


نظر کو طراوت وہاں صبح و شام
کہیں چاہ و منبع، کہیں حوض و نہر
ہر اک جا پہ آب لطافت کی لہر
عمارت تھی گچ کی وہاں پیش تر


کہ گزرے صفائی سے جس پر نظر
کروں اس کی وسعت کا کیا میں بیاں
کہ جوں اصفہاں، تھا وہ نصف جہاں
ہنر مند واں اہل حرفہ تمام


ہر اک نوع کی خلق کا ازدحام
یہ دل چسپ بازار تھا چوک کا
کہ ٹھہرے جہاں، بس وہیں دل لگا
جہاں تک یہ رستے تھے بازار کے


کہے تو کہ تختے تھے گلزار کے
صفا پر جو اس کی نظر کر گئے
اسے دیکھ کر سنگ مرمر گئے
کہوں قلعے کی اس کے کیا میں شکوہ


گئے دب، بلندی کو دیکھ اس کی، کوہ
وہ دولت سرا خانۂ نور تھا
سدا عیش و عشرت سے معمور تھا
ہمیشہ خوشی، رات دن سیر باغ


نہ دیکھا کسی دل پہ، جز لالہ، داغ
سدا عیش و عشرت، سدا راگ و رنگ
نہ تھا زیست سے کوئی اپنی بہ تنگ
غنی وہاں وا، جو کہ آیا تباہ


عجب شہر تھا وہ عجب بادشاہ
نہ دیکھا کسی نے کوئی واں فقیر
ہوئے اس کی دولت سے گھر گھر امیر
کہاں تک کہوں اس کا جاہ و حشم


محل و مکاں اس کا رشک ارم
ہزاروں پری پیکر اس کے غلام
کمر بستہ خدمت میں حاضر مدام
سدا ماہ رویوں سے صحبت اسے


سدا جامہ زیبوں سے رغبت اسے
کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم
مگر ایک اولاد کا تھا الم
اسی بات کا اس کے تھا دل پہ داغ


نہ رکھتا تھا وہ اپنے گھر کا چراغ
دنوں کا عجب اس کے یہ پھیر تھا
کہ اس روشنی پہ یہ اندھیر تھا
وزیروں کو اک روز اس نے بلا


جو کچھ دل کا احوال تھا، سو کہا
کہ میں کیا کروں گا یہ مال و منال
فقیری کا ہے میرے دل کو خیال
فقیر اب نہ ہوں، تو کروں کیا علاج


نہ پیدا ہوا وارث تخت و تاج
جوانی مری ہو گئی سب بسر
نمودار پیری ہوئی سر بہ سر
دریغا کہ عہد جوانی گذشت


جوانی مگو، زندگانی گذشت
بہت ملک پر جان کھویا کیا
بہت فکر دنیا میں رویا کیا
زہے بے تمیزی و بے حاصلی


کہ از فکر دنیا، ز دیں غافلی
وزیروں نے کی عرض کہ اے آفتاب!
نہ ہو تجھ کو ذرہ کبھی اضطراب
فقیری جو کیجے تو دنیا کے ساتھ


نہیں خوب، جانا ادھر خالی ہاتھ
کرو سلطنت، لے کے اعمال نیک
کہ تا دو جہاں میں رہے حال نیک
جو عاقل ہوں، وے سوچ میں ٹک رہیں


کہ ایسا نہ ہووے کہ پھر سب کہیں
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ بر آسماں نیز پرداختی
یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت


فقیری میں ضائع کرو اس کو مت
عبادت سے اس کشت کو آب دو
وہاں جا کے خرمن ہی تیار لو
رکھو یاد عدل و سخاوت کی بات


کہ اس فیض سے ہے تمہاری نجات
مگر ہاں، یہ اولاد کا ہے جو غم
سو اس کا تردد بھی کرتے ہیں ہم
عجب کیا کہ ہووے تمہارے خلف


کرو تم نہ اوقات اپنی تلف
نہ لاؤ کبھی یاس کی گفتگو
کہ قرآں میں آیا ہے: لا تقنطو
بلاتے ہیں ہم اہل تنجیم کو


نصیبوں کو اپنے ذرا دیکھ لو
تسلی تو دی شاہ کو اس نمط
ولے اہل تنجیم کو بھیجے خط
نجومی و رَمّال اور برہمن


غرض یاد تھا جن کو اس ڈھب کا فن
بلا کر انہیں شہ کنے لے گئے
جوں ہی رو بہ رو شہ کے سب وے گئے
پڑا جب نظر وہ شہ تاج و تخت


دعا دی کہ ہوں شہ کے بیدار بخت
کیا قاعدے سے نہڑ کر سلام
کہا شہ نے: میں تم سے رکھتا ہوں کام
نکالو ذرا اپنی اپنی کتاب


مرا ہے سوال، اس کا لکھو جواب
نصیبوں میں دیکھو تو میرے کہیں
کسی سے بھی اولاد ہے یا نہیں
یہ سن کر، وے رمال طالع شناس


لگے کھینچنے زائچے بے قیاس
دھرے تختے آگے، لیا قرعہ ہاتھ
لگا دھیان اولاد کا اس کے ساتھ
جو پھینکیں، تو شکلیں کئی بیٹھیں مل


کئی شکل سے دل گیا ان کا کھل
جماعت نے رمال کی عرض کی
کہ ہے گھر میں امید کے کچھ خوشی
یہ سن ہم سے اے عالموں کے شفیق


بہت ہم نے تکرار کی ہر طریق
بیاض اپنی دیکھی جو اس رَمل کی
تو ایک ایک نکتہ، ہے فرد خوشی
ہے اس بات پر اجتماع تمام


کہ طالع میں فرزند ہے تیرے نام
زن و زوج کے گھر میں ہے گی فرح
پیا کر مے وصل کا تو قدح
نجومی بھی کہنے لگے در جواب


کہ ہم نے بھی دیکھی ہے اپنی کتاب
نحوست کے دن سب گئے ہیں نکل
عمل اپنا سب کر چکا ہے زحل
ستارے نے طالع کے، بدلے ہیں طور


خوشی کا کوئی دن میں آتا ہے دور
نظر کی جو تسدیس و تثلیث پر
تو دیکھا کہ ہے نیک سب کی نظر
کیا پنڈتوں نے جو اپنا بچار


تو کچھ انگلیوں پر کیا پھر شمار
جنم پترا شاہ کا دیکھ کر
تُلا اور بِرچھک پہ کر کر نظر
کہا: رام جی کی ہے تم پر دیا


چندرما سا بالک ترے ہووے گا
نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن
نہ ہو گر خوشی، تو نہ ہوں برہمن
مہاراج کے ہوں گے مقصد شتاب


کہ آیا ہے اب پانچواں آفتاب
نصیبوں نے کی آپ کے یاوری
کہ آئی ہے اب ساتویں مشتری
مقرر ترے، چاہیے، ہو پسر


کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر
وہ لیکن مقدر ہے کچھ اور بھی
کہ ہیں اس بھلے میں، برے طور بھی
یہ لڑکا تو ہو گا، ولے کیا کہیں


خطر ہے اسے بارھویں برس میں
نہ آوے یہ خورشید بالائے بام
بلندی سے خطرہ ہے اس کو تمام
نہ نکلے یہ بارہ برس رشک مہ


رہے برج میں یہ مہ چاردہ
کہا شہ نے یہ سن کے، ان کے تئیں
کہو، جی کا خطرہ تو اس کو نہیں؟
کہا: جان کی سب طرح خیر ہے


مگر دشت غربت کی کچھ سیر ہے
کوئی اس پہ عاشق ہو جن و پری
کوئی اس کی معشوق ہو استری
کچھ ایسا نکلتا ہے پوتھی میں اب


خرابی ہو اس پر کسی کے سبب
ہوئی کچھ خوشی شہ کو اور کچھ الم
کہ دنیا میں توام ہیں شادی و غم
کہا شہ نے: اس پر نہیں اعتبار


جو چاہے کرے میرا پروردگار
یہ فرما، محل میں در آمد ہوئے
منجم وہاں سے بر آمد ہوئے
خدا پر زبس اس کا تھا اعتقاد


لگا مانگنے اپنی حق سے مراد
خدا سے لگا کرنے وہ التجا
لگا آپ مسجد میں رکھنے دیا
نکالا مرادوں کا آخر سراغ


لگائی ادھر لَو، تو پایا چراغ
سحاب کرم نے کیا جو اثر
ہوئی کشت امید کی بارور
اسی سال میں، یہ تماشا سنو


رہا حمل اک زوجۂ شاہ کو
جو کچھ دل پہ گزرے تھے رنج و تعب
مبدّل ہوئے وے خوشی ساتھ سب
خوشی سے پلا مجھ کو ساقی! شراب


کوئی دم میں بجتا ہے چنگ و رباب
کروں نغمۂ تنہنیت کو شروع
کہ اک نیک اختر کرے ہے طلوع
داستان تولد ہونے کی شاہ زادہ بے نظیر کے


گئے نو مہینے جب اس پر گزر
ہوا گھر میں شہ کے تولد پسر
عجب صاحب حسن پیدا ہوا
جسے مہرومہ دیکھ شیدا ہوا


نظر کو نہ ہو حسن پر اُس کے تاب
اسے دیکھ، بے تاب ہو آفتاب
ہوا وہ جو اُس شکل سے دل پذیر
رکھا نام اس کا شہ بے نظیر


خواصوں نے، خواجہ سراؤں نے جا
کئی نذریں گزرانیاں اور کہا
مبارک تجھے اے شہ نیک بخت!
کہ پیدا ہوا وارث تاج و تخت


سکندر نژاد اور دارا حشم
فلک مرتبت اور عطارد رقم
رہے اس کے اقلیم زیر نگیں
غلامی کریں اس کی خاقان چیں


یہ سنتے ہی مژدہ، بچھا جا نماز
کیے لاکھ سجدے، کہ اے بے نیاز!
تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار
نہ ہو تجھ سے مایوس، امید دار


دوگانہ غرض شکر کا کر ادا
تہیہ کیا شاہ نے جشن کا
وے نذریں خواصوں کی، خوجوں کی لے
انہیں خلعت و زر کا انعام دے


کہا: جاؤ، جو کچھ کہ درکار ہو
کہو خانساماں سے تیار ہو
نقیبوں کو بلوا کے یہ کہ دیا
کہ نقار خانے میں دو حکم جا


کہ نوبت خوشی کی بجاویں تمام
خبر سن کے یہ شاد ہوں خاص و عام
یہ مژدہ جو پہنچا، تو نقارچی
لگا ہر جگہ بادلا اور زری


بنا ٹھاٹھ نقار خانے کا سب
مہیا کر اسباب عیش و طرب
غلاف اس پہ بانات پر زر کے ٹانک
شتابی سے نقاروں کو سینک سانک


دیا چوب کو پہلے بم سے ملا
لگی پھیلنے ہر طرف کو صدا
کہا زیر سے بم نے بہر شگوں
کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں


بجے شادیانے جو واں اس گھڑی
ہوئی گرد و پیش آ کے خلقت کھڑی
بہم مل کے بیٹھے جو شہنا نواز
بنا منہ سے پھرکی، لگا اس پہ ساز


سروں پر وے سر پیچ معمول کے
خوشی سے، ہوئے گال گل، پھول کے
لگے لینے اپجیں خوشی سے نئی
اڑانا لگا بجنے اور سگھڑئی


ٹکوروں میں نوبت کے شہنا کی دھن
سگھڑ سننے والوں کو کرتی تھی سن
ترھی اور قرنائے شادی کے دم
لگے بھرنے زیل اور کھرج میں بہم


سنی جھانجھ نے جو خوشی کی نوا
تھرکنے لگا، تالیوں کو بجا
نئے سر سے عالم کو عشرت ہوئی
کہ لڑکے کے ہونے کی نوبت ہوئی


محل سے لگا تابہ دیوان عام
عجب طرح کا اک ہوا ازدحام
چلے لے کے نذریں وزیر و امیر
لگے کھینچنے زر کے تودے فقیر


دیے شاہ نے شاہزادے کے نانو
مشائخ کو اور پیر زادوں کو گانو
امیروں کو جاگیر، لشکر کو زر
وزیروں کو الماس و لعل و گہر


خواصوں کو، خوجوں کو جوڑے دیے
پیادے جو تھے، ان کو گھوڑے دیے
خوشی سے کیا یاں تلک زر نثار
جسے ایک دینا تھا، بخشے ہزار


کیا بھانڈ اور بھکتیوں نے ہجوم
ہوئی ’’آہے آہے مبارک‘‘ کی دھوم
لگا کنچنی، چونا پزنی تمام
کہاں تک میں لوں نرت کاروں کا نام


جہاں تک کہ سازندے تھے ساز کے
دھنی دست کے اور آواز کے
جہاں تک کہ تھے گایک اور تنت کار
لگے گانے اور ناچنے ایک بار


لگے بجنے قانون و بین و رباب
بہا ہر طرف جوئے عشرت کا آب
لگی تھاپ طبلوں پہ مردنگ کی
صدا اونچی ہونے لی چنگ کی


کمانچوں کو، سارنگیوں کو بنا
خوشی سے ہر اک ان کی تربیں ملا
لگا تار پر موم مرچنگ کے
ملا سر طنبوروں کے یک رنگ کے


ستاروں کے پردے بنا کر درست
بجانے لگے سب وے چالاک و چست
گئی بائیں کی آسماں پر گمک
اٹھا گنبد چرخ سارا دھمک


خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط
لگے ناچنے اس پہ اہل نشاط
کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے
دو پانوں میں گھنگرو جھنکتے ہوئے


وہ گھٹنا، وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ
دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
دو بالے چمکتے ہوئے کان میں
پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں


کبھی دل کو پاؤں سے مل ڈالنا
نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا
دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا
کبھی اپنی انگیا کو لینا چھپا


کسی کے وہ مکھڑے پہ نتھ کی پھبن
کسی کے چمکتے ہوئے نورتن
وہ دانتوں کی مسی، وہ گل برگ تر
شفق میں عیاں جیسے شام و سحر


وہ گرمی کے چہرے، کہ جوں آفتاب
جسے دیکھ کر دل کو ہو اضطراب
چمکنا گلوں کا صفا کے سبب
وہ گردن کے ڈورے قیامت، غضب


کبھی منہ کے تئیں پھیر لینا ادھر
کبھی چوری چوری سے کرنا نظر
دوپٹے کو کرنا کبھی منہ کی اوٹ
کہ پردے میں ہو جائیں دل لوٹ پوٹ


ہر اک تان میں ان کو ارمان یہ
کہ دل لیجئے تان کی جان یہ
کوئی فن میں سنگیت کے شعلہ رو
برم، جوگ، لچھمی کی لے، پر ملو


کوئی ڈیڑھ گت ہی میں پانوں تلے
کھڑی عاشقوں کے دلوں کو ملے
کوئی دائرے میں بجا کر پرن
کوئی ڈھمڈھمی میں دکھا اپنا فن


غرض ہر طرح دل کو لینا انہیں
نئی طرح سے داغ دینا انہیں
کبھی مار ٹھوکر، کریں قتل عام
کبھی ہاتھ اٹھا، لیویں گرتے کو تھام


کہیں دھرپت اور گیت کا شور و غل
کہیں قول و قلبانہ و نقش و گل
کہیں بھانڈ کے ولولوں کا سماں
کہیں ناچ کشمیریوں کا وہاں


منجیرا، پکھاوج، گلے ڈال ڈھول
بجاتے تھے اس جا کھڑے، باندھ غول
محل میں جو دیکھو تو اک ازدحام
مبارک سلامت کی تھی دھوم دھام


وہاں بھی تو تھی عیش و عشرت کی دھوم
پری پیکروں کا ہر اک جا ہجوم
چھٹی تک غرض تھی خوشی ہی کی بات
کہ دن عید اور رات تھی شب برات


بڑھے ابر ہی ابر میں جوں ہلال
محل میں لگا پلنے وہ نو نہال
برس گانٹھ جس سال اس کی ہوئی
دل بستگاں کی گرہ کھل گئی


وہ گل جب کہ چوتھے برس میں لگا
بڑھایا گیا دودھ اس ماہ کا
ہوئی تھی جو کچھ پہلے شادی کی دھوم
اسی طرح سے پھر ہوا وہ ہجوم


طوائف وہی اور وہی راگ و رنگ
ہوئی بلکہ دونی خوشی کی ترنگ
وہ گل پانو سے اپنے جس جا چلا
وہاں آنکھ کو نرگسوں نے ملا


لگا پھرنے وہ سرو جب پانو پانو
کیے بَردے آزاد تب اس کے نانو
داستان تیاری میں باغ کی
مے ارغوانی پلا ساقیا!


کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا
دیا شہ نے ترتیب اک خانہ باغ
ہوا رشک سے جس کے، لالے کو داغ
عمارت کی خوبی، دروں کی وہ شان


لگے جس میں زر بفت کے سا یبان
چقیں اور پردے بندھے زر نگار
دروں پر کھڑی دست بستہ بہار
کوئی دور سے در پر اٹکا ہوا


کوئی زہ پہ خوبی سے لٹکا ہوا
وہ مقیش کی ڈوریاں سر بہ سر
کہ مہ کا بندھا جس میں تار نظر
چقوں کا تماشا، تھا انکھوں کا جال


نگہ کو وہاں سے گزرنا محال
سنہری، مغرق چھتیں ساریاں
وہ دیوار اور در کی گل کاریاں
دیے چار سو آئنے جو لگا


گیا چوگنا لطف اس میں سما
وہ مخمل کا فرش اس میں ستھرا کہ بس
بڑھے جس کے آگے نہ پاے ہوس
رہیں لخلخے اس میں روشن مدام


معطر شب و روز جس سے مشام
چھپر کھٹ مرصع کا دالان میں
چمکتا تھا اس طرح ہر آن میں
زمیں پر تھی اس طور اس کی جھلک


ستاروں کی جیسے فلک پر چمک
زمیں کا کروں دھاں کی کیا میں بیا ں
کہ صندل کا اک پارچہ تھا عیاں
بنی سنگ مر مر سے چو پڑ کی نہر


گئی چارسو، اس کے پانی کی لہر
قرینے سے گرد اس کے سروسہی
کچھ اک دور دور اس سے سیب و بہی
کہوں کیا میں کیفیت دار بست


لگائے رہیں تاک وہاں مے پرست
ہواے بہاری سے گل لہلہے
چمن سارے شاداب اور ڈہڈ ہے
زمرد کی مانند سبزے کا رنگ


روش کا، جواہر ہوا جس سے سنگ
روش کی صفائی پہ بے اختیار
گل اشرفی نے کیا زر نثار
چمن سے بھرا باغ، گل سے چمن


کہیں نرگس و گل، کہیں یاسمن
چنبیلی کہیں اور کہیں موتیا
کہیں راے بیل اور کہیں موگرا
کھڑے شاخ شبو کے ہر جانشان


مدن بان کی اور ہی آن بان
کہیں ارغواں اور کہیں لالہ زار
جدی اپنے موسم میں سب کی بہار
کہیں چاندنی میں گلوں کی بہار


ہر اک گل سفیدی سے مہتاب وار
کھڑے سرو کی طرح چمپے کے جھاڑ
کہے تو کہ خوش بوئیوں کے پہاڑ
کہیں زرد نسریں، کہیں نسترن


عجب رنگ پر زعفرانی چمن
پڑی آبجو، ہر طرف کو بہے
کریں قمریاں سرو پر چہچہے
گلوں کا لب نہر پر جھومنا


اسی اپنے عالم میں منہ چومنا
وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر
نشے کا سا عالم گلستان پر
لیے بیلچے ہاتھ میں مالنے


چمن کو لگیں دیکھنے بھالنے
کہیں تخم پاشی کریں کھود کر
پنیری جماویں کہیں گود کر
کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال


رہیں ہاتھ جوں مست گردن پہ ڈال
لب جو کے آئینے میں دیکھ قد
اکڑنا کھڑے سرو کا جد نہ تد
خراماں صبا صحن میں چار سو


دماغوں کو دیتی پھرے گل کی بو
کھڑے نہر پر قاز اور قر قرے
لیے ساتھ مرغابیوں کے پرے
صدا قر قروں کی، بطوں کا وہ شور


درختوں پہ بگلے، منڈیروں پہ مور
چمن آتش گل سے دہکا ہوا
ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا
صبا جو گئی ڈھیریاں کر کے بھول


پڑے ہر طرف مونسریوں کے پھول
وہ کیلوں کی اور مونسریوں کی چھانو
لگی جائیں آنکھیں لیے جن کا نانو
خوشی سے گلوں پر سدا بلبلیں


تعشق کی آپس میں باتیں کریں
درختوں نے برگوں کے کھولے ورق
کہ لیں طوطیاں بوستاں کا سبق
سماں قمریاں دیکھ اس آن کا


بڑھیں باب پنجم گلستان کا
دوا، دائیاں اور مغلانیاں
پھریں ہر طرف اس میں جلوہ کناں
خواصوں کا اور لونڈیوں کا ہجوم


محل کی وہ چہلیں، وہ آپس کی دھوم
تکلف کے پہنے پھریں سب لباس
رہیں رات دن شاہ زادے کے پاس
کنیزان مہ رو کی ہر طرف ریل


چنبیلی کوئی اور کوئی راے بیل
شگوفہ کوئی اور کوئی کام روپ
کوئی چت لگن اور کوئی سیام روپ
کوئی کیتکی اور کوئی گلاب


کوئی مہ رتن اور کوئی ماہتاب
کوئی سیوتی اور ہنس مکھ کوئی
کوئی دل لگن اور تن سکھ کوئی
ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں


پھریں اپنے جوبن میں اتراتیاں
کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں
کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں
کہیں اپنی پٹی سنوارے کوئی


اری اور تری کہہ پکارے کوئی
بجاتی پھرے کوئی اپنے کڑے
کہیں ’’ہوئے رے‘‘ اور کہیں ’’واچھڑے‘‘
دکھاوے کوئی گو کھرو موڑ موڑ


کہیں سوت بونٹی، کہیں تار توڑ
ادا سے کوئی بیٹھی حقہ پیے
دم دوستی کوئی بھر بھر جیے
کوئی حوض میں جاکے غوطہ لگائے


کوئی نہر پر پانو بیٹھی ہلائے
کوئی اپنے توتے کی لیوے خبر
کوئی اپنی مینا پہ رکھے نظر
کسی کو کوئی دھول مارے کہیں


کوئی جان کو اپنی وارے کہیں
کوئی آرسی اپنے آگے دھرے
ادا سے کہیں بیٹھی کنگھی کرے
مقابا کوئی کھول مسی لگائے


لبوں پر دھڑی کوئی بیٹھی جمائے
ہوا ان گلوں سے دوبالا سماں
اسی باغ میں یہ بھی باغ رواں
غرض لوگ تھے یہ جو ہر کام کے


سو سب واسطے اس کے آرام کے
پلا جب وہ اس ناز و نعمت کے ساتھ
پدر اور مادر کی شفقت کے ساتھ
ہوئی اس کے مکتب کی شادی عیاں


ہوا پھر انہیں شادیوں کا سماں
معلم، اتالیق، منشی، ادیب
ہر اک فن کے استاد بیٹھے قریب
کیا قاعدے سے شروع کلام


پڑھانے لگے علم اس کو تمام
دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا
کئی برس میں علم سب پڑھ چکا
معانی و منطق، بیان و ادب


پڑھے اس نے منقول و معقول سب
خبردار حکمت کے مضمون سے
غرض جو پڑھا اس نے، قانون سے
لگا ہیئت و ہندسہ تا نجوم


زمیں آسماں میں پڑی اس کی دھوم
کیے علم نوک زباں حرف حرف
اسی نحوسے عمر کی اس نے صرف
عطارد کو اس کی لگی آنے ریس


ہوا سادہ لوحی میں وہ خوش نویس
ہوا جب کہ نو خط وہ شیریں رقم
بڑھا کر لکھے سات سے، نو قلم
لیا ہاتھ جب خامۂ مشک بار


لکھا نسخ و ریحان و خط غبار
عروس الخطوط اور ثلث و رقاع
خفی و جلی مثل خط شعاع
شکستہ لکھا اور تعلیق جب


رہے دیکھ، حیراں، اتالیق سب
کیا خط گلزار سے جب فراغ
ہوا صفحۂ قطعہ، گلزار باغ
کروں علم کو اس کے کیا میں عیاں


کروں مختصر یاں سے اب یہ بیاں
کماں کے جو درپے ہوا بے نظیر
لیا کھینچ چلے میں سب فن تیر
صفائی میں سو فار، پیکاں کیا


گیا جب کہ تودے پہ، طوفاں کیا
رکھا چھوٹتے ہی جو لکڑی پہ من
لیا اپنے قبضے میں سب اس کا فن
ہوئیں دست و بازو کی سر سائیاں


اڑائیں کئی ہاتھ میں گھائیاں
رکھا موسیقی پر بھی کچھ جو خیال
کیے قید سب اس نے ہاتھوں میں تال
طبیعت گئی کچھ جو تصویر پر


رکھے رنگ سب اس نے مد نظر
کئی دن میں سیکھا یہ کسب تفنگ
کہ حیراں ہوئے دیکھ، اہل فرنگ
سو ان کمالوں کے، کتنے کمال


مروت کی خو، آدمیت کی چال
رذالوں سے، نفروں سے نفرت اسے
غرض قابلوں ہی سے صحبت اسے
گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر


ہر اک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر
داستان سواری کی تیاری کے حکم میں
پلا ساقیا! مجھ کو اک جام مل
جوانی پر آیا ہے ایام گل


غنیمت شمر صحبت دوستاں
کہ گل پنج روز است در بوستاں
ثمر لے بھلائی کا، گر ہو سکے
شتابی سے بو لے، جو کچھ بو سکے


کہ رنگ چمن پر نہیں اعتبار
یہاں چرخ میں ہے خزان و بہار
پڑی جب گرہ بارہویں سال کی
کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی


کہا شہ نے بلوا نقیبوں کو شام
کہ ہوں صبح حاضر سبھی خاص و عام
سواری تکلف سے تیار ہو
مہیا کریں، جو کہ درکار ہو


کریں شہر کو مل کے آئینہ ہند
سواری کا ہو لطف جس سے دو چند
رعیت کے خوش ہوں صغیر و کبیر
کہ نکلے گا کل شہر میں بے نظیر


یہ فرما، محل میں گئے بادشاہ
نقیبوں نے سن حکم، لی اپنی راہ
ہوئی شب، لیا مہ نے جام شراب
گیا سجدۂ شکر میں آفتاب


خوشی سے گئی جلد جو شب گزر
ہوئی سامنے سے نمایاں سحر
عجب شب تھی وہ جوں سحر روسپید
عجب روز تھا مثل روز امید


گیا مژدۂ صبح لے ماہتاب
اٹھا سورج آنکھوں کو ملتا شتاب
کہا شاہ نے اپنے فرزند کو
کہ بابا! نہا دھو کے تیار ہو


داستان حمام کے نہانے کی لطافت میں
پلا آتشیں آب پیر مغاں!
کہ بھولے مجھے گرم و سرد جہاں
اگر چاہتا ہے مرے دل کا چین


نہ دینا وہ ساغر جو ہو قلتین
کدورت مرے دل کی دھو ساقیا
ذرا شیشئہ مے کو دھو دھا کے لا
کہ سر گرم حمام ہے بے نظیر


گیا ہے نہانے کو ماہ منیر
ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں
عرق آ گیا اس کے اندام میں
تن نازنیں نم ہوا س کا گل


کہ جس طرح ڈوبے ہے شبنم میں گل
پرستار، باندھے ہوئے لنگیاں
مہ و مہر سے طاس لے کر وہاں
لگے ملنے اس گل بدن کا بدن


ہوا ڈہڈہا آب سے وہ چمن
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
لبوں پر جو پانی پھرا سر بہ سر


نظر آئے، جیسے دو گل برگ تر
ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس
کہے تو، پڑے جیسے نرگس پہ اوس
لگا ہونے ظاہر جو اعجاز حسن


ٹپکنے لگا اس سے انداز حسن
گیا حوض میں جو شہ بے نظیر
پڑا آب میں عکس ماہ منیر
وہ گورا بدن اور بال اس کے تر


کہے تو کہ ساون کی شام و سحر
نمی کا تھا بالوں کی عالم عجب
نہ دیکھی کوئی خوب تر اس سے شب
کہوں اس کی خوبی کی کیا تجھ سے بات


کہ جوں بھیگتی جاوے صحبت میں رات
زمیں پر تھا اک موجۂ نور خیز
ہوا جب وہ فوارہ ساں آب ریز
زمرد کے لے ہاتھ میں سنگ پا


کیا خادموں نے جو آہنگ پا
ہنسا کھلکھلا وہ گل نو بہار
لیا کھینچ پانوں کو بے اختیار
عجب عالم اس نازنیں پر ہوا


اثر گد گدی کا جبیں پر ہوا
ہنسا اس ادا سے کہ سب ہنس پڑے
ہوئے جی سے قربان چھوٹے بڑے
دعائیں لگے دینے بے اختیار


کہا: خوش رکھے تجھ کو پرور دگار
کہ تیری خوشی سے، ہے سب کی خوشی
مبارک تجھے روز و شب کی خوشی!
نہ آوے کبھی تیری خاطر پہ میل


چمکتا رہے یہ فلک کا سہیل
کیا غسل جب اس لطافت کے ساتھ
اڑھا کھیس، لائے اسے ہاتھوں ہاتھ
نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح


کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح
غرض شاہ زادے کو نہلا دھلا
دیا خلعت خسروانہ پنہا
جواہر سراسر پنہایا اسے


جواہر کا دریا بنایا اسے
لڑی، لٹکن اور کلغی اور نورتن
عدد ایک سے ایک زیب بدن
مرصع کا سر پیچ جوں موج آب


مصفّا بہ شکل گل آفتاب
وہ موتی کے مالے بہ صد زیب و زین
کہیں جس کو آرام جاں، دل کا چین
جواہر کا تن پر عجب تھا ظہور


کہ ایک ایک عدد اس کا، تھا کوہ طور
غرض ہو کے اس طرح آراستہ
خراماں ہوا سرو نوخاستہ
نکل گھر سے جس دم ہوا وہ سوار


کیے خوان گوہر کے اس پر نثار
زبس تھا سواری کا باہر ہجوم
ہوا جب کہ ڈنکا، پڑی سب میں دھوم
برابر برابر کھڑے تھے سوار


ہزاروں ہی تھی ہاتھیوں کی قطار
سنہری، رپہری تھیں عماریاں
شب و روز کی سی طرح داریاں
چمکتے ہوئے بادلوں کے نشان


سواروں کے غٹ اور بھالوں کی شان
ہزاروں تھی اطراف میں پالکی
جھلا بور کی جگمگی نالکی
کہاروں کی زر بفت کی کرتیاں


اور ان کے دبے پانو کی پھرتیاں
بندھیں پگڑیاں تاش کی سر اوپر
چکا چوندھ میں جس سے آوے نظر
وہ ہاتھوں میں سونے کے موٹے کڑے


جھلک جس کی ہر ہر قدم پر پڑے
وہ ماہی مراتب، وہ تخت رواں
وہ نوبت، کہ دولھا کا جس سے سماں
وہ شہنائیوں کی صدا خوش نوا


سہانی وہ نوبت کی اس میں صدا
وہ آہستہ گھوڑوں پہ نقارچی
قدم با قدم بالباس زری
بجاتے ہوئے شادیا نے تمام


چلے آگے آگے ملے، شاد کام
سوار اور پیادے، صغیر و کبیر
جلو میں تمامی امیر و وزیر
وے نذریں کہ جس جس نے تھیں ٹھانیاں


شہ و شاہ زادے کو گزرانیاں
ہوئے حکم سے شاہ کے پھر سوار
چلے سب قرینے سے باندھے قطار
سجے اور سجائے سبھی خاص و عام


لباس زری میں ملبس تمام
طرق کے طرق اورپرے کے پرے
کچھ ایدھر ادھر، کچھ ورے، کچھ پرے
مرصع کے سازوں سے کوتل سمند


کہ خوبی میں روح الفرس سے دو چند
وہ فیلوں کی اور میگ ڈمبر کی شان
جھلکتے وہ مقیش کے سایبان
چلی پایۂ تخت کے ہو قریب


بہ دستور شاہانہ نپتی جریب
سواری کے آگے کیے اہتمام
لیے سونے روپے کے عاصے تمام
نقیب اور جلو دار اور چوبدار


یہ آپس میں کہتے تھے ہر دم پکار
اسی اپنے معمول و دستور سے
ادب سے تفاوت سے اور دور سے
یلو! نوجوانو! بڑھے جائیو


دو جانب سے باگیں لیے آئیو
بڑھے جائیں آگے سے، چلتے قدم
بڑھے عمر و دولت قدم با قدم
غرض اس طرح سے سواری چلی


کہے تو کہ باد بہاری چلی
تماشائیوں کا جدا تھا ہجوم
ہر اک طرف تھی ایک عالم کی دھوم
لگا قلعے سے شہر کی حد تلک


دکانوں پہ تھی بادلے کی جھلک
کیا تھا زبس شہر آئینہ بند
ہوا چوک کا لطف واں چار چند
منڈھے تھے تمامی سے دیوار و در


تمامی وہ تھا شہر، سونے کا گھر
رعیت کی کثرت، ہجوم سپاہ
گزرتی تھی رک رک کے ہر جانگاہ
ہوئے جمع کھوٹھوں پہ جو مردوزن


ہر اک سطح تھی جوں زمین چمن
یہ خالق کی سن قدرت کا ملہ
تماشے کو نکلی زن حاملہ
لگا لنج سے تا ضعیف و نحیف


تماشے کو نکلے وضیع و شریف
وحوشوں، طیوروں تلک بے خلل
پڑے آشیانوں سے اپنے نکل
نہ پہنچا جو اک مرغ قبلہ نما


سو وہ آشیانے میں تڑپھا کیا
زبس شاہ زادہ بہت تھا حسیں
ہوئے دیکھ عاشق کہین و مہیں
نظر جس کو آیا وہ ماہ تمام


کیا اس نے جھک جھک کے اس کو سلام
دعا شاہ کو دی کہ بار الٰہ!
سدا یہ سلامت رہے مہر و ماہ
یہ خوش اپنے مہ سے رہے شہر یار


کہ روشن رہے شہر، پروردگار!
غرض شہر سے باہر اک سمت کو
کوئی باغ تھا شہ کا، اس میں سے ہو
گھڑی چار تک خوب سی سیر کر


رعیت کو دکھلا کے اپنا پسر
اسی کثرت فوج سے ہو سوار
پھر اشہر کی طرف وہ شہر یار
سواری کو پہنچا گئی فوج، ادھر


گئے اپنی منزل میں شمس و قمر
جہاں تک کہ تھیں خادمان محل
خوشی سے وہ ڈیوڑھی تک آئیں نکل
قدم اپنے حجروں سے باہر نکال


لیا سب نے، آپیشوا، حال حال
بلائیں لگیں لینے سب ایک بار
کیا جی کو یک دست سب نے نثار
گیا جب محل میں وہ سر و رواں


بندھا ناچ اور راگ کا پھر سماں
پہر رات تک، پہنے پوشاک وہ
رہا ساتھ سب کے طرب ناک وہ
قضارا وہ شب، تھی شب چار دہ


پڑا جلوہ لیتا تھا ہر طرف مہ
نظارے سے تھا اس کے، دل کو سرور
عجب عالم نور کا تھا ظہور
عجب جوش تھا نور مہتاب کا


کہے تو کہ دریا تھا سیماب کا
ہوا شاہ زادے کا دل بے قرار
یہ دیکھی جو واں چاندنی کی بہار
کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ


کہا: آج کوٹھے پہ بچھے پلنگ
خواصوں نے جا شاہ سے عرض کی
کہ شہ زادے کی آج یوں ہے خوشی
ارادہ ہے کوٹھے پر آرام کا


کہ بھایا ہے عالم لب بام کا
کہا شہ نے: اب تو گئے دن نکل
اگر یوں ہے مرضی تو کیا ہے خلل
پر اتنا ہے، اس سے خبردار ہوں


جنھوں کی ہے چوکی، وہ بیدار ہوں
لب بام پر جب یہ سووے صنم
کریں سورۂ نور کو اس پہ دم
تمھارا مرا بول بالا رہے


یہ اس گھر کا قائم اجالا رہے
کہا تب خواصوں نے: حق سے امید
یہی ہے کہ ہم بھی رہیں رو سفید
پھریں حکم لے وہاں سے پھر شاہ کا


بچھونا کیا جا کے اس ماہ کا
قضارا وہ دن تھا اسی سال کا
غلط وہم ماضی میں تھا حال کا
سخن مولوی کا یہ سچ ہے قدیم


کہ آگے قضا کے، ہو احمق حکیم
پڑے اپنے اپنے جو سب عیش بیچ
نہ سوجھی زمانے کی کچھ اونچ نیچ
یہ جانا کہ یوں ہی رہے گا یہ دور


زمانے کا سمجھا انہوں نے نہ طور
کہ اس بے وفا کی نئی ہے ترنگ
یہ گرگٹ بدلتا ہے ہر دم میں رنگ
کرا بادۂ عیش درجام ریخت


کہ صد شام بر فرق صبحش نہ پیخت
نداری تعجب ز نیرنگ دہر
کہ آرد زیک حقہ تریاک و زہر
داستان شاہ زادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اڑا کر لے جانے کی


شتابی سے اٹھ ساقی بے خبر!
کہ چاروں طرف ماہ ہے جلوہ گر
بلوریں گلابی میں دے بھر کے جام
کہ آیا بلندی پہ ماہ تمام


جوانی کہاں اور کہاں پھر یہ سن
مثل ہےکہ ہے چاندنی چار دن
اگر مے کے دینے میں کچھ دیر ہے
تو پھر جان یہ تو کہ اندھیر ہے


وہ سونے کا جو تھا جڑاؤ پلنگ
کہ سیمیں تنوں کو ہو جس پر امنگ
کھنچی چادر ایک اس پہ شبنم کی صاف
کہ ہو چاندنی، جس صفا کی غلاف


دھرے اس پہ تکیے کئی نرم نرم
کہ مخمل کو ہو جس کے دیکھے سے شرم
کہاں تک کوئی اس کی خوبی کو پائے
جسے دیکھ، آنکھوں کو آرام آئے


کسے اس پہ کسنے وہ مقیش کے
کہ جھبوں میں تھے جس کے موتی لگے
سراسر ادقچے رزی باف کے
کہ تھے رشک آئینہ صاف کے


وہ گل تکیے اس کے جو تھے رشک ماہ
کہ ہر وجہ تھی ان کو خوبی میں راہ
کہوں اس کے گل تکیوں کا کیا بیاں
کہ بے وجہ رکھتا نہ تھا گال واں


کبھی نیند میں جب کہ ہوتا تھا وہ
تو رخسار رکھ اپنا، سوتا تھا وہ
چھپائے سے ہوتا نہ، حسن اس کا ماند
کہے تو، لگائے تھے مکھڑے پہ چاند


زبس نیند میں تھا جو وہ ہورہا
بچھونے پہ آتے ہی بس سورہا
وہ سویا جو اس آن سے بے نظیر
رہا پاسباں اس کا ماہ منیر


ہوا اس کے سونے پہ عاشق جو ماہ
لگا دی ادھر اپنی اس نے نگاہ
وہ مہ اس کے کوٹھے کا ہالا ہوا
غرض واں کا عالم دو بالا ہوا


وہ پھولوں کی خوش بو، وہ ستھرا پلنگ
جوانی کی نیند اور وہ سونے کا رنگ
جہاں تک کہ چوکی کے تھے باری دار
ہوا جو چلی، سو گئے ایک بار


غرض سب کو واں عالم خواب تھا
مگر جاگتا ایک مہتاب تھا
قضارا ہوا اک پری کا گزر
پڑی شاہ زادے پہ اس کی نظر


بھبھوکا سا دیکھا جو اس کا بدن
جلا آتش عشق سے اس کا تن
ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار
وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اتار


جو دیکھا، تو عالم عجب ہے یہاں
منور ہے سارا زمیں آسماں
دوپٹے کو اس مہ کے منہ سے اٹھا
دیا گال سے گال اپنا م

- meer-hasan


فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ
چلے آئے ہیں جو کہ سینہ بہ سینہ
نہ ان کو نباتات سے آگہی ہے
نہ اصلاً خبر معدنیات کی ہے


نہ تشریح کی لے کسی پر کھلی ہے
نہ علم طبیعی نہ کیمسٹری ہے
نہ پانی کا علم اور نہ علم ہوا ہے
مریضوں کا ان کے نگہباں خدا ہے


نہ قانون میں ان کے کوئی خطا ہے
نہ مخزن میں انگشت رکھنے کی جا ہے
سیدی میں لکھا ہے جو کچھ بجا ہے
نفیسی کے ہر قول پر جاں فدا ہے


سلف لکھ گئے جو قیاس اور گماں سے
صحیفے ہیں اترے ہوئے آسماں سے
وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بد تر


زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر
ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا
وہ علموں میں علم ادب ہے ہمارا


برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے
عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے
مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے


گنہ گار واں چھوٹ جائیں گے سارے
جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

- altaf-hussain-hali


ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری
کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر
حمد حق و مدحت پیمبر


پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے
یعنی کہ مطیع پنج تن ہے
ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی
کرتا ہے زباں کی پیش دستی


خواستگاری جناب باری سے مثنوی گلزار نسیم کی ترتیب کے واسطے
یارب! میرے خامے کو زباں دے
منقار ہزار داستاں دے
افسانہ گل بکاولی کا


افسوں ہو بہار عاشقی کا
ہر چند سنا گیا ہے اس کو
اردو کی زباں میں سخن گو
وہ نثر ہے، داد نظم دوں میں


اس مے کو دو آتشہ کروں میں
ہر چند اگلے جو اہل فن تھے
سلطان قلمروسخن تھے
آگے ان کے فروغ پانا:


سورج کو چراغ ہے دکھانا
پر، عجز سخن سدا ہے باقی
دریا نہیں کار بند ساقی
طعنے سے زبان نکتہ چیں روک


رکھ لے مری اہل خامہ میں نوک
خوبی سے کرے دلوں کو تسخیر
نیرنگ نسیم باغ کشمیر
نقطے، ہوں سپند خوش بیانی


جدول، ہو حصار بحر خوانی
جو نکتہ لکھوں کہیں نہ حرف آئے
مرکز پہ کشش مری پہنچ جائے
داستان تاج الملوک شاہ زادے اور زین الملوک باشاہ مشرق کی


روداد زمان پاستانی
یوں نقل ہے خامے کی زبانی
پورب میں ایک تھا شہنشاہ
سلطان زین الملوک ذی جاہ


لشکر کش و تاج دار تھا وہ
دشمن کش و شہر یار تھا وہ
خالق نے دیے تھے چار فرزند
دانا، عاقل، ذکی، خردمند


نقشہ ایک اور نے جمایا
پس ماندہ کا پیش خیمہ آیا
امید کے نخل نے دیا بار
خورشید حمل ہوا نمودار


وہ نور کہ صدقے مہرانور
وہ رخ کہ نہ ٹھہرے آنکھ جس پر
نور آنکھ کا کہتے ہیں پسر کو
چشمک تھی نصیب اس پدر کو


خوش ہوتے ہی طفل مہ جبیں سے
ثابت یہ ہوا ستارہ بیں سے
پیارا یہ وہ ہے کہ دیکھ اسی کو
پھر دیکھ نہ سکیے گا کسی کو


نظروں سے گرا وہ طفل ابتر
مانند سر شک دیدہ تر
پردے سے نہ دایہ نے نکالا
پتلی سا نگاہ رکھ کے پالا


تھا افسر خسرواں وہ گل فام
پالا، تاج الملوک رکھ نام
جب نام خدا جواں ہوا وہ
مانند نظرواں ہوا وہ


آتا تھا شکار گاہ سے شاہ
نظارہ کیا پدرنے ناگاہ
صاد آنکھوں کے دیکھ کے پسر کی
بینائی کے چہرے پر نظر کی


مہر لب شہ ہوئی خموشی
کی نور بصر سے چشمک پوشی
دی آنکھ جو شہ نے رونمائی
چشمک سے نہ بھائیوں کے بھائی


ہر چند کے بادشاہ نے ٹالا
اس ماہ کو شہر سے نکالا
گھر یہی ذکر تھا یہی شور
خارج ہوا نور دیدہ کور


آیا کوئی لے کے نسخہ نور
لایا کوئی جاکے سرمۂ طور
تقدیر سے چل سکا نہ کچھ زور
بینہ نہ ہوا وہ دیدہ کور


ہوتا ہے وہی خدا جو چاہے
مختار ہے، جس طرح نبا ہے
جانا چاروں شاہ زادوں کا بہ تجویز کحال تلاش گل بکاولی کو
پایا جو سفید چشم صفحا


یوں میل قلم نے سرمہ کھینچا
تھا اک کحال پیر دیریں
عیسی کی تھیں اس نے آنکھیں دیکھیں
وہ مرد خدا بہت کراہا


سلطاں سے ملا، کہا کہ شاہا!
ہے باغ بکاولی میں اک گل
پلکوں سے اسی پہ مار چنگل
خورشید میں یہ ضیا کرن کی


ہے مہر گیا اسی چمن کی
اس نے تو گل ارم بتایا
لوگوں کو شگوفہ ہاتھ آیا
شہ زادے ہوئے وہ چاروں تیار


رخصت کیے شہ نے چار ناچار
شاہانہ چلے وہ لے کے ہمراہ
لشکر، اسباب، خیمے، خرگاہ
وہ بادیہ گرد خانہ برباد


یعنی تاج الملوک ناشاد
میدان میں خاک اڑا رہا تھا
دیکھا تو وہ لشکر آرہا تھا
پوچھا تم لوگ خیل کے خیل


جاتے ہو کدھر کو صورت سیل؟
بولا لشکر کا اک سپاہی
جاتی ہے ارم کو فوج شاہی
سلطاں زین الملوک شہ زور


دیدار پسر سے ہوگیا کور
منظور علاج روشنی ہے
مطلوب گل بکاولی ہے
گل کی جو خبر سنائی اس نے


گلشن کی ہوا سمائی اس کو
ہمرہ کسی لشکری کے ہوکر
قسمت پہ چلا یہ نیک اختر
غلام ہونا چاروں شاہ زادوں کا چوسر کھیل کر دلبر بیسوا سے


نقطوں سے قلم کی مہر ہ بازی
یوں لاتی ہے رنگ بد طرازی

یک چند پھرا کیا وہ انبوہ


صحرا صحرا و کوہ در کوہ
بلبل ہوئے سب ہزار جی سے
گل کا نہ پتا لگا کسی سے
وارد ہوئے ایک جگہ سر شام


فردوس تھا اس مقام کا نام
اک نہر تھی شہر کے برابر
ٹھٹکے سیارے کہکشاں پر
اک باغ تھا نہر کے کنارے


جویاے گل اس طرف سدھارے
دلبر نام ایک بیسوا تھی
اس ماہ کی واں محل سرا تھی
دروازے سے فاصلے پہ گھر تھا


نقارہ چو بدار در تھا
بے جا و بجا نہ سمجھے ان جان
نقارہ بجا کے ٹھہرے نادان
آواز پہ وہ لگی ہوئی تھی


آپ آن کے ٹھاٹھ دیکھتی تھی
جس شخص کو مال دار پاتی
باہر سے اسے لگا کے لاتی
بٹھلا کے، جوے کا ذکر اٹھا کر


چوسر میں وہ لوٹتی سراسر
جیت اس کی تھی، ہاتھ جو کچھ آتا
اس کا کوئی ہتکھنڈا نہ پاتا
بلی کا سر چراغ داں تھا


چوہا پاسے کا پاسباں تھا
الٹاتے اڑی پہ، قسمت آسا
بلی، جو دیا موش، پاسا
جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں


قسمت نے پھنسائے یہ بھی چاروں
صیادنی لائی پھانس کر صید
کرسی پہ بٹھائے نقش امید
گھاتیں ہوئیں دل ربائیوں کی


باتیں ہوئیں آشانائیوں کی
رنگ اس کا جما، تو لا کے چوسر
کھیلی وہ کھلاڑ بازی بد کر
وہ چھوٹ پہ تھی، یہ میل سمجھے


بازی چوسر کی کھیل سمجھے
مغرور تھے مال و زر پہ کھیلے
ساماں ہارے تو سر پہ کھیلے
بدبختی سے آخر جوا تھا


بندہ ہونا بدا ہوا تھا
دو ہاتھ میں چاروں اس نے لوٹے
پنچے میں پھنسے تو چھکے چھوٹے
ایک ایک سے رات بھر نہ چھوٹا


پوپھٹتے ہی جگ ان کا ٹوٹا
زنداں کو چلے مچل مچل کر
نردوں کی طرح پھرے نہ چل کر
لشکر میں سے جوگیا سوئے شہر


پانی سا پھرا نہ جانب نہر
جیتنا تاج الملوک کا دلبر بیسوا کو اور چھوڑ کر روانہ ہونا تلاش گل بکاولی میں
لانا زر گل جو ہے ارم سے
یوں صفحے سے نقش ہے قلم سے


وہ ریگ رواں کا گرد لشکر
یعنی تاج الملوک ابتر
حیران ہوا کہ یا الٰہی!
لشکر پہ یہ کیا پڑی تباہی


اٹھا کہ خبر تو لیجے چل کر
گزرا در باغ بیسوا پر
حیران تھا یہ بلند پایہ
نکلی اندر سے ایک دایہ


لڑکا کوئی گھو گیا تھا اس کا
ہم شکل یہ مہ لقا تھا اس کا
بولی وہ کہ نام کیا ہے تیرا
فرزند اسی شکل کا تھا میرا


بولا وہ کہ نام تو نہیں یاد
طفلی میں ہوا ہوں خانہ برباد
لیکن یہ میں جانتا ہوں دل گیر
مادر تھی مری بھی ایسی ہی پیر


بیٹا وہ سمجھ کے جی سے اس کو
گھر لائی ہنسی خوشی سے اس کو
چلتے تھے ادھر سے دو جواری
ایک ایک کی کر رہا تھا خواری


کہتے تھے: فریب دو گے کیا تم
شہ زادے نہ ہم، نہ بیسوا تم
ذکر اپنے برادروں کا سن کر
بولا وہ عزیز، سن تو مادر!


کون ایسی کھلاڑ بیسوا ہے
شہ زادوں کو جس نے زچ کیا ہے؟
بولی وہ کہ ہاں جوا ہے بدکام
دلبر اک بیسوا ہے خود کام


بلی پہ چراغ رکھ کےشب کو
چوسر میں وہ لوٹتی ہے سب کو
پاسے کی ہے کل چراغ کے ساتھ
وہ بلی کے سر، یہ چوہے کے ہاتھ


شہ زادے کہیں کے تھے بد اقبال
بندے ہوئے، ہار کر زر و مال
بھائی، جوش خوں کہاں جائے
صدمہ ہوا، درد سے کہا ہائے!


پاسے کا، چراغ کا الٹ پھیر
سوجھا نہ اانھیں، یہ دیکھو اندھیر
سوچا وہ کہ اب تو ہم ہیں آگاہ
جیتے ہیں، تو جیت لیں گے ناگاہ


اک بلی جھپٹی چوہے کو بھانپ
نیولے تے بھگا دیا دکھا سانپ
سمجھا وہ کہ ہے شگوں نرالا
نیولا پکڑ آستیں میں پالا


چوسر ہی کے سیکھنے کو اکثر
گھوما وہ بہ رنگ نرد گھر گھر
اک روز اسے مل گیا امیر ایک
وہ صاحب جاہ دل سے تھا نیک


اشراف سجمھ کے لے گیا گھر
بخشا اسے اسپ و جامہ و زر
اس گل کے ہاتھ میں جو زر آیا
جاں بازی کو سوے دلبر آیا


ملتی تھی کھلاڑ ڈنکے کی چوٹ
نقارہ و چوب میں چلی چوٹ
آواز وہ سن کے در پر آئی
ہمرہ اسے لے کے اندر آئی


کام اس کا تھا بس کہ کھیل کھانا
چوسر کا جما وہ کارخانہ
وہ چشم و چراغ بیسوا کے
کرنے لگے تاک جھانک آ کے


نیولا، کہ وہ مار آستیں تھا
چٹکی کے بجاتے ہی وہیں تھا
بلی تو چراغ پا تھی خاموش
بل ہو گیا موش کو فراموش


ہنس ہنس کے حریف نے رلایا
مانند چراغ اسے جلایا
بارے بہ ہزار بددماغی
لی خضر نے غول سے چراغی


پا سے چلی نہ جعل سازی
اجڑی وہ، بسا بسا کے بازی
سب ہار کے نقد و جنس، بارے
جیتے ہوئے بندے بد کے ہارے


بنیاد جو کچھ تھی، جب گنوائی
تب خود وہ کھلاڑ، مہرے آئی
پھر پاسے کی نہ پاس داری
ہمت کی طرح وہ دل سے ہاری


پاسے کی بدی ہے آشکارا
راجانل سلطنت ہی ہارا
دانا تو کرے کب اس طرف میل
ہارا ہے جوے کے نام سے بیل


ہارے، دیکھا جو بیسوا نے
بندہ کیا غیر کا خدا نے
سوچی کہ نہ اب بھی چال رہیے
شادی کا مزہ نکال رہیے


بولی نہ ہزار عجز و زاری
تم جیتے میاں میں تم سے ہاری
لونڈی ہوں، نہیں عدول مجھ کو
خدمت میں کرو قبول مجھ کو


بولا وہ کہ سن، یہ ہتکھنڈے چھوڑ
نقارہ در کو چوب سے توڑ
یہ مال، یہ زر، یہ جیتے بندے
یوں ہی یہیں رکھ بجنس چندے


بالفعل ارم کو جاتے ہیں ہم
انشاء اللہ آتے ہیں ہم
بولی وہ۔ سنو تو بندہ پرور!
گلزار ارم ہے پریوں کا گھر


انسان و پری کا سامنا کیا!
مٹھی میں ہوا کا تھا منا کیا!
شہ زادہ ہنسا، کہا کہ دلبر!
کچھ بات نہیں، جو رکھیے دل پر


انسان کی عقل اگر نہ ہو گم
ہے چشم پری میں جاے مردم
یہ کہہ کے اٹھا، کہا کہ لو جان!
جاتے ہیں، کہا: خدا نگہ بان!


دولت تھی اگر چہ اختیاری
پا مردی سے اس پہ لات ماری
جز جیب، نہ مال پر پڑا ہاتھ
جز سایہ، نہ کوئی بھی لیا ساتھ


درویش تھا بندۂ خدا وہ
اللہ کے نام پر چلا ہو
پہنچنا تاج الملوک کا سرنگ کھدواکر باغ بکاولی میں اور گل لے کر پھرنا
کرتا ہے جو طے سواد نامہ


یوں حرف، ہیں نقش پاے خامہ
وہ دامن دشت شوق کا خار
یعنی تاج الملوک دل زار
اک جنگلے میں جا پڑا جہاں گرد


صحراے عدم بھی تھا جہاں، گرو
سایے کو پتا نہ تھا شجر کا
عنقا تھا، نام جانور کا
مرغان ہوا تھے ہوش راہی


نقش کف پا تھے ریگ ماہی
وہ دشت کہ جس میں پر تگ و دو
یا ریگ رواں تھی یا وہ رہ رو
ڈانڈا تھا ارم کے بادشاہ کا


اک دیو تھا پاسباں بلا کا
دانت اس کے: گور کن قضا کے
دو نتھنے: رہ عدم کے ناکے
سر پر پایا بلا کو اس نے


تسلیم کیا قضا کو اس نے
بھوکا کئی دن کا تھا وہ ناپاک
فاقوں سے رہا تھا پھانک کر خاک
بے ریشہ یہ طفل نوجواں تھا


حلوا بے دود بے گماں تھا
بولا کہ چھکوں گاہیں یہ انساں
اللہ اللہ! شکر، احساں!
شہ زادہ کہ منہ میں تھا اجل کے


اندیشے سے رہ گیا دہل کے
پل مارنے کی ہوئی جو دیری
سبحان اللہ شان تیری!
اشتر کئی جاتے تھے ادھر سے


پر آردو روغن و شکر سے
وہ دیو لپک کے مار لایا
غراتے ہوئے شکار لایا
اونٹوں کی جو لو تھیں دیو لایا


دم اس کا نہ اس گھڑی سمایا
تیورا کے وہیں وہ بار بر دوش
بیٹھا تو گرا، گرا تو بے ہوش
چاہا اس نے کہ مار ڈالو


یا بھاگ سکو تو راستہ لو
وہ اونٹ تھے کاروانیوں کے
سب ٹھاٹھ تھے میہانیوں کے
میدہ بھی، شکر بھی، گھی بھی پایا


خاطر میں یہ اس بشر کی آیا
میٹھا اس دیو کو کھلاؤ
گڑ سے جو مرے، تو زہر کیوں دو
حلوے کی پکا کے اک کڑھائی


شیرینی دیو کو چڑھائی
ہر چند کہ تھا وہ دیو کڑوا
حلوے سے کیا منہ اس کا میٹھا
کہنے لگا: کیا مزہ ہے دل خواہ!


اے آدمی زاد واہ وا واہ!
چیز اچھی کھلائی تو نے مجھ کو
کیا اس کے عوض میں دوں میں تجھ کو
بولا وہ کہ پہلے قول دیجے


پھر جو میں کہوں، قبول کیجے
وہ ہاتھ پر اس کے مار کر ہاتھ
بولا کہ ہے قول جان کے ساتھ
بولا وہ کہ قول اگر یہی ہے


بد عہدی کی پر نہیں سہی ہے
گلزار ارم کی ہے مجھے دھن
بولا وہ: ارے بشر وہ گلبن!
خورشید کے ہم نظر نہیں ہے


اندیشے کا واں گزر نہیں ہے
واں موج ہوا: ہوا پہ اژدر
واں ریگ زمیں: زمیں پہ اخگر
ہوتا نہ جو قول کا سہارا


بچتانہ یہیں تو خیر، ہارا
رہ جا، میرا بھائی ایک ہے اور
شاید کچھ اس سے بن پڑے طور
اک ٹیکرے پر گیا، بلایا


وہ مثل صدائے کوہ آیا
حال اس سے کہا کہ قول ہارا
ہے پیر، یہ نوجواں ہمارا
مشتاق ارم کی سیر کا ہے


کوشش کرو، کم خیر کا ہے
حمالہ نام دیونی ایک
چھوٹی بہن اس کی تھی بڑی نیک
خط اس کو لکھا بہ ایں عبارت


اے خواہر مہرباں! سلامت
پیارا ہے یہ میرا آدمی زاد
رکھیو اسے، جس طرح مری یاد
انسان ہے، چاہے کچھ جو سازش


مہمان ہے، کیجیو نوازش
خط لے کے، بشر کو لے اڑا دیو
پہنچا حمالہ پاس بے ریو
بھائی کا جو خط بہن نے پایا


بھیجے ہوئے کو گلے لگایا
اس دیونی پاس اک حسیں تھی
زنبور کے گھر میں انگبیں تھی
محمودہ نام، دخت آدم


لے ائی تھی دیونی دے کے دم
جوڑا ہم جنس کے ہاتھ آیا
محمودہ کے گلے لگایا
دن بھر تو الگ تھلگ ہی تھے وہ


دو وقت سے شام کو ملے وہ
تھے ضببط و حیا کے امتحاں میں
پردہ رہا ماہ میں، کتاں میں
آپس میں کھلے نہ شرم سے وہ


خاطر کی طرح گرہ رہے وہ
بولا وہ فسردہ دل سحر گاہ
کیا سرد ہوا ہے واہ وا واہ!
بولی وہ کہ ہونے کو ہوا ہے


جو غنچے کو گل کرے، صبا ہے
بولا وہ، یہی تو چاہتا ہوں
گل پاؤں، تو میں ابھی ہوا ہوں
پیراہن گل کی بو، تھی مطلوب


یوسف نے کہا وہ حال یعقوب
اول کہی بد نگاہی اپنی
بعد اس کے وہ سب تباہی اپنی
کھولی تھی زبان منہ اندھیرے


کہتے سنتے اٹھے سویرے
پوچھا حمالہ نے: میری جان!
ہم جنس ملا، نکالے ارمان
بولی وہ کہ کہتے آتی ہے شرم


دل سرد رہا، بغل ہوئی گرم
ناکامی کے جب وہ طور سمجھی
وہم اس کو ہوا، کچھ اور سمجھی
پوچھا کہ بتا تو درد، لیکن


تم چاہو، تو ہے دوا بھی ممکن
وہ بولی: جو تو کہے زباں سے
تارے لے آؤں آسماں سے
چہرے کو چھپا کے زیر چادر


محمودہ نے کہا کہ مادر!
باپ اس کا ہے اندھے پن سے مجہول
مطلوب بکاولی کا ہے پھول
دل داغ اس کا براے گل ہے


نرگس کے لیے ہواے گل ہے
ساعی تھی بہ دل یہ کہنے والی
راہ اس نے سرنگ کی نکالی
دیووں کہا کہ چوہے بن جاؤ


تا باغ ارم سرنگ پہنچاؤ
سن حاجت نقب بہر گل گشت
کترا چوہوں نے دامن دشت
پوشیدہ زمیں کے دل میں کی راہ


حد باندھ کے، خوش پھرے اسی راہ
جب مہر تہ زمیں سمایا
اس نقب کی رہ وہ آدم آیا
صحن چمن ارم میں اک جا


بوٹا سا تہ زمیں سے نکلا
کھٹکا جو نگاہ بانوں کا تھا
دھڑکا یہی دل کا کہہ رہا تھا
گوشے میں کوئی لگا نہ ہووے!


خوشہ کوئی تاکتا نہ ہووے!
گو باغ کے پاسباں غضب تھے
خوابیدہ بہ رنگ سبزہ سب تھے
نرگس کی کھلی نہ آنکھ یک چند


سو سن کی زباں خدانے کی بند
خوش قدر وہ چلا گل وہ سمن میں
شمشاد رواں ہوا چمن میں
ایوان بکاولی جدھر تھا


حوض آئنہ دار بام و در تھا
رکھتا تھا وہ آب سے سوا تاب
چندے خورشید، چندے مہتاب
پھول اس کا، اندھے کی دوا تھا


رشک جام جہاں نما تھا
پانی کے جو بلبلوں میں تھا گل
پہنچا لب حوض سے نہ چنگل
پوشاک اتار، اتر کے لایا


پھولا نہ وہ جامے میں سمایا
گل لے کے بڑھا ایاغ برکف
چوری سے چلا چراغ برکف
بالا دری واں جو سوتے کی تھی


سو خواب گہہ بکاولی تھی
گول اس کے ستوں: تھے ساعد حور
چلمن: مژگان چشم مخمور
دکھلاتا تھا وہ مکان جادو


محراب سے ، درسے چشم و ابرو
پردہ جو حجاب سا اٹھایا
آرام میں اس پری کو پایا
بند اس کی وہ چشم نرگسی تھی


چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی
سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی
برجوں پہ سے چاندنی تھی سر کی
لپٹے تھے جو بال کروٹوں میں


بل کھا گئی تھی کمر، لٹوں میں
چاہا کہ بلا گلے لگائے
سوتے ہوئے فتنے کو جگائے
سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی


ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی
یہ پھول، انھی اژدہوں کا ہے من
یہ کالے، چراغ کے ہیں دشمن
گل چھن کے، ہنسی نہ ہوئے بلکل


خندہ نہ ہو برق حاصل گل
پھر سمجھیں گے، ہے جو زندگانی
کچھ نام کو رکھ چلو نشانی
انگشتری اپنی اس سے بدلی


مہر خط عاشقی سندلی
آہستہ پھر وہ سر و بالا
سایہ بھی نہ اس پری پہ ڈالا
ہیبت سا زمیں کے دل میں آیا


اندیشے کی طرح سے سمایا
جب نقب افق سے مہر تاباں
نکلا، تو وہ ماہ روشتاباں
گل ہاتھ میں مثل دست انساں


دونوں تھیں اس کی منتظرواں
گل لے کے جب آملا وہ گل چیں
اس نقب کی رخنہ بندیاں کیں
آوارہ ہونا بکاولی کا تاج الملوک گل چیں کی تلاش میں


گل کا جو الم چمن چمن ہے
یوں بلبل خامہ نعرہ زن ہے
کل چیں نے وہ پھول جب اڑایا
اور غنچہ صبح کھل کھلایا


وہ سبزہ باغ خواب آرام
یعنی وہ بکاولی گل اندام
جاگی مرغ سحر کے غل سے
اٹھی نکہت سی فرش گل سے


منہ دھونے جو آنکھ ملتی آئی
پرآب وہ چشم حوض پائی
دیکھا، تو وہ گل ہوا ہوا ہے
کچھ اور ہی گل کھلا ہوا ہے


گھبرائی کہ ہیں! کدھر گیا گل!
جھنجلائی کہ کون دے گیا جل
ہے ہے مرا پھول لے گیا کون!
ہے ہے مجھے خار دے گیا کون


ہاتھ اس پہ اگر پڑا نہیں ہے
بو ہو کے تو پھول اڑا نہیں ہے
نرگس! تو دکھا کدھر گیا گل؟
سوسن! تو بتا کدھر گیا گل؟


سنبل! مرا تازیانہ لانا
شمشاد! انھیں سولی پر چڑھانا
تھرائیں خواصیں صورت بید
ایک ایک سے پوچھنے لگی بھید


نرگس نے نگاہ بازیاں کیں
سوسن نے زباں درازیاں کیں
پتا بھی پتے کو جب نہ پایا
کہنے لگیں: کیا ہوا خدایا!


اپنوں میں سے پھول لے گیا کون
بیگانہ تھا سبزے کو سوا کون!
شبنم کے سوا چرانے والا
اوپر کا تھا کون آنے والا


جس کف میں وہ گل ہو، داغ ہو جائے
جس گھر میں ہو، گل چراغ ہو جائے
بولی وہ بکاولی کہ افسوس!
غفلت سے یہ پھول پر پڑی اوس


آنکھوں سے عزیز گل مرا تھا
پتلی وہی چشم حوض کا تھا
نام اس کا صبا! نہ لیتی تھی میں
اس گل کو ہوا نہ دیتی تھی میں


گل چیں کا جو ہائے ہاتھ ٹوٹا
غنچے کے بھی منہ سے کچھ نہ پھوٹا
اوخار! پڑا نہ تیرا چنگل
مشکیں کس لیں نہ تو نے سنبل!


او باد صبا! ہوا نہ بتلا
خوش بو ہی سنگھا، پتا نہ بتلا
بلبل! تو چہک، اگر خبر ہے
گل! تو ہی مہک، بتا کدھر ہے؟


لرزاں تھی زمیں یہ دیکھ کہرام
تھی سبزے سے راست مو بر اندام
انگلی لب جو پہ رکھ کے شمشاد
تھا دم بہ خود، اس کی سن کے فریاد


جو نخل تھا، سوچ میں کھڑا تھا
جو برگ تھا، ہاتھ مل رہا تھا
رنگ اس کا عرض لگا بدلنے
گل برگ سے کف لگی ہو ملنے


بدلے کی انگوٹھی ڈھیلی پائی
دست آویز اس کے ہاتھ آئی
خاتم، تھی نام کی نشانی
انسان کی دست برد جانی


ہاتھوں کو ملا، کہا کہ ہیہات!
خاتم بھی بدل گیا ہے بدذات
جس نے مجھے ہاتھ ہے لگایا
وہ ہاتھ لگے کہیں خدایا!


عریاں مجھے دیکھ کر گیا ہے
کھال اس کی جو کھینچے، سزا ہے
یہ کہہ کے، جنون میں غضب ناک
خوں روئی، لباس کو کیا چاک


گل کا سا لہو بھرا گریباں
سبزے کا سا تار تار داماں
دکھلا کے کہا سمن پری کو
اب چین کہاں بکاولی کو


تھی بس کہ غبار سے بھری وہ
آندھی سی اٹھی، ہوا ہوئی وہ
کہتی تھی پری کہ اڑکے جاتی
گل چیں کا کہیں پتا لگاتی


ہر باغ میں پھولتی پھری وہ
ہر شاخ پہ جھولتی پھری وہ
جس تختے میں مثل باد جاتی
اس رنگ کے گل کی بو نہ پاتی


بے وقت کسی کو کچھ ملا ہے!
پتا کہیں حکم بن ہلا ہے!
پہنچنا تاج الملوک کا ایک اندھے فقیر کے تکیے پر اور آزمانا گل کا
پھر نا جو وطن کا، مدعا ہے


اب صفحے پہ یو ں قلم پھرا ہے
وہ گلشن مدعا کا گل چیں
یعنی تاج الملوک حق بیں
جس وقت گل اس چمن سے لایا


محمودہ خوش ہوئی کہ آیا
کہنے لگی: لو مراد پائی
بولا وہ: جو یاں سے ہو رہائی
گل کی وہ عرض کر آشکارا


جوبن کی طرح اسے ابھارا
جب دیو سیاہ شب سے ماہتاب
رخصت ہوا، جیسے چشم سے خواب
اور گل لیے آفتاب تاباں


ہنگام سحر ہوا شتاباں
وہ مہر وش اور اوہ ماہ پیکر
اس دیونی پاس آتے مضطر
گل کی وہ عرض جتائی اس کو


رخصت کی طلب سنائی اس کو
کیا کہتی وہ دیونی، کہا: جاؤ
دیووں سے کہا کہ تخت لے آؤ
بولے کہ کدھر چلو گے، کہہ دو


فردوس کے رخ، کہا، ادھر کو
وہ مڑ کے، ادھر کو اڑاکے آئے
گلزار میں بیسوا کے لائے
وقت سحر اور خنک ہوا تھی


گل گشت چمن مین بیسوا تھی
چار آنکھیں ہوئیں تو تھی شناسا
قدموں پہ گری وہ سایہ آسا
صدقے ہو کر کہا: خوش آئے


جس گل کی ہوا لگی تھی، لائے؟
ہمراہ یہ کون دوسری ہے؟
سایہ ہے کہ ہم قدم پری ہے!
بولا شہ زادہ: شکر ہے، ہاں


پر ہے گل آرزو سے داماں
محمودہ نام یہ جو ہیں ساتھ
پھول ان کے سبب سے آگیا ہاتھ
جیتا جو پھرا وہ رشک شمشاد


قیدی کیے بیسوا نے آزاد
جھوٹوں اس نے تھا ان کو تایا
سچوں، کھوٹوں نے داغ کھایا
دغا، تو چلے تفنگ سے وہ


چھوٹے قید فرنگ سے وہ
چھوڑا ہوس گل و چمن کو
چاروں داغی پھرے وطن کو
بندوں کو کشتیوں پہ کر بار


سونپا سب ناخدا کو گھر بار
جب متصل آگیا وطن کے
خندے یاد آئے مرد و زن کے
سوچا کہ میں خود ہوں خانہ برباد


کیا جانیے کیا پڑے گی افتاد
لازم ہے گل اپنے ہاتھ رکھیے
موقع نہیں بھیڑ ساتھ رکھیے
لنگر کا انہیں کیا اشارہ


خود کشتی سے کر گیا کنارہ
وہ پوربی، کر کے جو گیا بھیس
جنگلے کی راہ سے چلا دیس
تکیے پہ فقیر، پیر، اندھا


اک گوشے میں آنکھیں مانگتا تھا
تھا نقش قدم سا خاک رہ پر
ٹھہرا وہ مسافر اس جگہ پر
بے تجربہ تھی نمایش گل


واجب تھی آزمایش گل
پتلی پہ زر گل آزمایا
سونے کو کسوٹی پر چڑھایا
گل سے ہوئیں چشم کور تاباں


ہو جیسے چراغ سے چراغاں
منہ دیکھ کے اس نے دیں دعائیں
پنجے سے مژہ کے لیں بلائیں
گل کے جو اثرسے شادماں تھا


گل چیں وہ ہوا سے ہم عناں تھا
ملنا چاروں شہ زادوں کا اور چھن جانا گل بکاولی کا
تاج الملوک سے اور بینا ہونا چشم زین الملوک کا
ہے بس کہ یہ چرخ جور پیشہ


یوں خار رہ قلم ہے ریشہ
یہ جا کے، اسی جگہ پہ ناگاہ
آپہنچے وہ چاروں غول گم راہ
کہتے تھے کہ واہ رے مقدر!


کس شک سے پھر کے جاتے ہیں گھر

کیا رنگ زمانے نے دکھائے!
گل لینے گئے تھے، داغ لائے


کس منہ سے پدر کے آگے جائیں
کیوں کر بے پھول منہ دکھائیں
ٹھہرائی کہ اور پھول لے جایئں
کحال کو بے وقوف بنایئں


اک باد ہوائی توڑ کر پھول
کہنے لگے پھول پھول کر غول
کیا پھول ہے! کیا اثر ہے اس میں!
ہو جاتی ہیں روشن اندھی آنکھیں


وہ کور کہ ہو چکا تھا بینا
دیکھا اس نے جو یہ قرینا
بولا کہ یہ گل، وہ گل نہیں ہے
اس پھول کی اور گل زمیں ہے


وہ جوگی جو جاتے ہیں، اگر آئیں
دکھلائیں وہ گل، تو آنکھیں کھل جائیں
میں کور، ابھی ہو چکا ہوں بینا
اندھا نہیں اب ہوا ہوں بینا


چاروں کو تھی حسرت گل تر
چو بائی ہوا کی طرح چل کر
اس جوگی کے جب برابر آئے
باہم کہا: دیکھو پھول لائے


گل ہے کہ علاج نور ہے یہ!
گل ہے کہ چراغ طور ہے یہ!
جوگی، یعنی وہ شاہ زادہ
بولا کہ بکو نہیں زیادہ


پاتے اگر اس درخت کی چھاؤں
رکھتے ہی نہ تم زمین پر پاؤں
ڈینگ آپ کی سب فضول ہے یہ
وہ گل یہ نہیں، وہ پھول ہے یہ


یہ کہہ کے، جو جیب سے نکالا
ان مفت بروں نے ہاتھ ڈالا
قوت میں وہ چارتھے، یہ بے کس
شورش میں وہ چار، موج، یہ خس


غولوں نے بہ زور پھول اڑایا
اس خضر کو راستہ بتایا
گل پانے سے بس کہ سرخ رو تھے
گھوڑوں پہ ہوا کے مثل بو تھے


تعجیل سے رو بہ راہ آئے
گل لے کے حضور شاہ آئے
گل لائے جو نور دیدہ دل خواہ
آنکھوں کی طرح پھڑک گیا شاہ


پنجے سے پلک کے پھول اٹھایا
اندھے نے گل آنکھوں سے لگایا
نور آ گیا چشم آرزو میں
آیا پھر آب رفتہ جو میں


خورشید بصر گہن سے چھوٹا
خیرات کے در کا قفل ٹوٹا
دولت جو پاس تھی، لٹائی
زر بخشا گل کی رونمائی


ایک ایک کو اس قدر دیا زر
محتاج، گدا، ہوئے تو نگر
سجوائے طرب کے کار خانے
بجوائے خوشی کے شادیانے


پہنچنا بکاولی کا دارالخلافت زین الملوک میں اور وزیر ہو کر تاج الملوک کی تلاش میں رہنا
گل چیں کا جو اب پتا ملا ہے
یو شاخ قلم سے گل کھلا ہے
وہ باد چمن چمن خراماں


یعنی وہ بکاولی پریشاں
گلشن سے جو خاک اڑاتی آئی
اس شہر میں آتی آتی آئی
دیکھا تو خوشی کے چہچہے تھے


گل چیں کے شگوفے کھل رہے تھے
گلبانگ زناں تھا، جو جہاں تھا
ایک ایک، ہزار داستاں تھا
پاتے ہی پتا، خوشی سے پھولی


شاد ایسی ہوئی کہ رنج بھولی
جادو سے بنی وہ آدمی زاد
انسانوں میں آ ملی پری زاد
سلطاں کی سواری آرہی تھی


صورت جو نگاہ کی، پری تھی
پوچھا: اے آدم پری رو!
انساں ہے، پری ہے، کون ہے تو؟
کیا نام ہے اور وطن کدھر ہے؟


ہے کون سا گل، چمن کدھر ہے؟
دی اس نے دعا، کہا بہ صد سوز
فرخ ہو شہا! میں ابن فیروز
گل ہوں، تو کوئی چمن بتاؤں!


غربت زدہ کیا وطن بتاؤں!
گھر بار سے کیا فقیر کو کام
کیا لیجیے چھوڑے گاؤں کا نام
پوچھا کہ سبب؟ کہا کہ قسمت


پوچھا کہ طلب؟ کہا: قناعت
باتوں پہ فدا ہوا شہنشاہ
لایا بہ صد امتیاز ہمراہ
چہرے سے امیرزادہ پایا


گھر لا کے، وزیر اسے بنایا
نذریں لیے بندگان درگاہ
دستور سے آملے بہ صد جاہ
دربار میں چاروں شاہ زادے


دیکھے، تو کھلے وہ دل کے سادے
چاہا، گل چیں کا امتحاں لے
پوچھا کہ نگیں جو لے، کہاں لے؟
بتلانے لگے وہ چاروں ناداں


کوئی یمن اور کوئی بدخشاں
جانا کہ جو گل یہ لائے ہوتے
خاتم کے نگیں بتائے ہوتے
تجویز میں تھا یہ صاحب فکر


آیا تاج الملوک کا ذکر
نقش اس کو ہوا کہ بس وہی ہے
ان سادوں سے کندہ کب ہوئی ہے
ظاہر نہ کیا بطون اپنا


طالع سے لیا شگون اپنا
منزل گہ رہ رواں بنا کے
شام و سحر اس میں آپ آکے
رہ رو کو دیا بہ لطف و اکرام


آتے آرام، جاتے پیغام
آباد ہونا تاج الملوک کا گلشن نگاریں بنوا کے اور شہرہ ہونا
تعمیر مکاں کے ہیں جو آثار
یوں خامہ ہے بہر بیت، معمار


شہ زادہ کہ عازم وطن تھا
گل پانے سے خوش چمن چمن تھا
اندھے کو کیا جب اس نے بینا
اور داغیوں نے وہ پھول چھینا


سوچا کہ خوشی خدا کی، غم کھاؤ
حمالہ دیونی کو بلواؤ
نقل ارم ایک مکاں بنا کے
رکھوں پریوں کو اپنی لاکے


بال آگ پہ رکھتے، آندھی آئی
وہ دیونی بال باندھی آئی
تنہا اسے دیکھ کر کہا: ہیں!
محمودہ کیا ہوئیں؟ کہا: ہیں


دریا پہ ہوں ان کو چھوڑ آیا
مسکن کے لیے تمھیں بلایا
لیکن وہ مکاں، وہ حوض، وہ باغ
جو باغ بکاولی کو دے داغ


حمالہ نے دیووں کو کیا یاد
آئے تو کہا: یہ بن، ہو آباد
ویرانے کو گل زمیں بناؤ
گلزار جو اہریں بناؤ


صناع طلسم کار تھے وہ
گلشن کے لیے بہار تھے وہ
دیووں نے ادھر محل بنایا
کشتی سے وہ دخت رز کو لایا


حمالہ اس کی مادر پیر
محمودہ سے ہوئی بغل گیر
کچھ دیووں کو چھوڑ کر وہیں پر
رخصت ہو کر چلی گئی گھر


گلشن میں سمن بڑوں کو لایا
نسریں بدنوں سے گھر بسایا
دونوں کو محل میں لا کے رکھا
پھل نخل مواصلت کا چکھا


دیووں کو کہا کہ بہر تمکیں
آباد ہو گلشن نگاریں
دیو، آدمی بن کے بن میں آئے
آتے جاتے کو گھیر لائے


جو سن کے خبر، گیا ادھر کو
جنت سے وہ پھر پھرا نہ گھر کو
ازبس کہ قریب شہر تھا باغ
خورشید افق نظر پڑا باغ


مفلس، زردار، امیر، قلاش
نوکر، تاجر، فقیر، خوش باش
گھر چھوڑ کے چل بسے سب انساں
پھر تن میں نہ آئے صورت جاں


ملاقات ٹھہرنی زین الملوک اور تاج الملوک کی آپس میں
گلشن جو بنا جواہر آگیں
یوں صفحہ قلم سے ہے نگاریں
ساعد نام ایک مہ لقا تھا


دلبر کا غالام با وفا تھا
صحرا سے جو سیر کر کے آیا
لکڑی کے چکا کے بو جھ لایا
دلوائے ہر ایک کو پے قوت


الماس و عقیق و لعل و یاقوت
تھی بس کہ وہ جا خلاصہ دہر
کچھ ٹھہرے، کچھ آئے جانب شہر
کف میں جو وہ لعل بے بہا تھے


من پاتے ہی، لوگ اژدہا تھے
شحنے نے سنا، پکڑ بلایا
لے کر اظہار، ساتھ آیا
دیکھا تو وہ جلوہ گاہ امید


اک دائرہ تھا بہ رنگ خورشید
دروازے پہ دیووں کا تھا پہرا
بھجوا کے خبر، وہ شحنہ ٹھہرا
جب واں سے طلب ہوا، تو درباں


لائے اسے پیشگاہ سلطاں
آداب کیا، ادب سے ٹھہرا
ہیبت زدہ دور سب سے ٹھہرا
ان لوگوں کو لے گیا تھا ہمراہ


معروض کیا کہ یا شہنشاہ!
کم مایہ یہ لوگ ہیں بہ ظاہر
چوری کے تو یہ نہیں جواہر
ساعد نے کہا کہ ہے یہ حاسد


نیت ہوئی ہوگی اس کی فاسد
حضرت! یہ وہی تو تبردار
جا، ان سے نہ بولیو، خبردار!
پھر کر انھی پاؤں شحنہ بے آس


آیا زین الملوک کے پاس
کی عرض کہ باغ اک بنا ہے
یہ شہر اجڑا ہے، وہ بسا ہے
جو کوئی ہے اس جگہ پہ جاتا


ڈھیروں ہے جواہرات پاتا
حضرت نے کہا کہ بک نہ خیرہ
قاروں کا وہیں ہے کیا ذخیرہ!
فرخ کہ وزیر باخرد تھا


سلطاں مشیر نیک و بد تھا
بولا کہ شہا! یہ بات کیا ہے
نیرنگ و فسوں کا گھر بڑا ہے
ہر چند کہ طرفہ حال ہے یہ


کچھ دور نہیں، مثال ہے یہ
حکایت ایک عورت کے مرد بن جانے کی دیو کے جادو سے
اک ملک میں ایک صاحب فوج
رکھتا تھا محل میں بارور زوج


تھا داغ پسر مقدر اس کو
جننی تھی ہمیشہ دختر اس کو
از بس کہ وہ شاہ تھا بد اختر
کرتا تھا حسد سے قتل دختر


اک بار محل میں پھر حمل تھا
وہ شاہ کہ ظلم میں مثل تھا
کھا بیٹھا قسم کہ اب کی باری
بیٹا جو نہ دے جناب باری


اقبال کا کچھ نہ جانے اوج
کر ڈالیے ذبح دختر و زوج
کنیا تھی غرض کہ راس اس کی
پوری نہ ہوئی وہ آس اس کی


سلطاں کا جو عہد بے خلل تھا
گھر والوں کو خوف کا محل تھا
ملحوظ بہ دل تھا پردہ راز
سیارہ شناسوں سے کیا ساز


ہر چند ستارہ مال کا تھا ماند
تھی چاندنی، شہرہ کر دیا چان
بیٹے کا وہ زائچہ بنا کے
گویا ہوئے دست بستہ آ کے


حضرت! یہ پسر ہے نیک اختر
بدیمن مگر ہے ایک اختر
جب تک نہ چلے یہ اپنے پاؤں
حضرت نہ پسر کے سامنے ہوں


حلیہ کر کے چھپا کے یک چند
بے تاب ہوا جب آرزومند
وہ گندم جو نما تھی بالی
مردانہ لباس سے نکالی


خوش ہو کے پدر نے بہر شادی
ٹھہرائی کہیں کی شاہ زادی
بن ٹھن کے عروس شک داماد
شادی کو چلی بہ جان ناشاد


اک شب کسی دشت میں تھے ڈیرے
اور روز نکاح تھا سویرے
خیمے سے وہ بے قرار نکلی
اس چھالے سے مثل خار نکلی


دیکھا تو اندھیری رات سنسان
اک عالم ہو ہے اور بیابان
ایک دیو وہاں پہ گشت میں تھا
جویاے شکار دشت میں تھا


دیکھا تو کہا: خضر ملے، آؤ
منہ کھولو، عدم کی راہ بتلاؤ
بولا وہ کہ سن تو آدمی زاد!
کیوں تنگ ہے جی سے، کیا ہے بیداد؟


اے مرد خدا! خدا کی سوگند
کہہ، جس لیے تو ہے آرزو مند
بولی وہ کہ یہ خیال، ہے خام
خنجر کا ہو کیا نیام سے کام


کہہ کر کھلے بندوں جی کی تنگی
بے ننگ، ہوئی وہ شوخ، ننگی
آنکھیں جھپکا کے دیو بولا
تو کیا کھلی، پردہ تو نے کھولا


خاطر تری، لے طلسم دکھلاؤں
تو مجھ سی بنے، میں تجھ سا بن جاؤں
موند آنکھ کہا، تو موند لی آنکھ
کھول آنکھ کہا، تو کھول دی آنکھ


پائے مردانگی کے پر تو
دامن میں سے دی چراغ نے لو
تھا لے میں یہاں اگا صنوبر
واں شیشہ، رہا ترش کے، ساغر


اب یاں سے ہے قصہ مختصر طول
فرخ کہ وہ تھا وزیر معقول
بولا کہ شہا! جو یہ ہوا ہے
اس بات کا پھر وجود کیا ہے


شہ نے کہا: سن وزیر دانا
بے دیکھے، سنے کو کس نے مانا
یاد آئی مجھے بھی اک روایت
یہ کہہ کے، بیان کی حکایت


حکایت نصیحت گری مرغ اسیر و نافہمی صیاد کی
اک مرغ ہوا اسیر صیاد
دانا تھا وہ طاہر چمن زاد
بولا جب اس نے باندھے بازو


کھلتا نہیں کس طمع پہ ہے تو
بیجا، تو ٹکے کا جانور ہوں
گر ذبح کیا، تو مشت پر ہوں
پالا، تو مفارقت ہے انجام


دانا ہو، تو مجھ سے لے مرے دام
بازو میں نہ تو مرے گرہ باندھ
سمجھاؤں جو پند، اسے گرہ باندھ
سن، کوئی ہزار کچھ سنائے


کیجے وہی جو سمجھ میں آئے
قابو ہو، تو کیجئے نہ غفلت
عاجز ہو، تو ہاریے نہ ہمت
آتا ہو، تو ہاتھ سے نہ دیجے


جاتا ہو، تو اس کا غم نہ کیجے
طائر کے یہ سن کلام، صیاد
بن داموں ہوا غلام صیاد
بازو کے جو بند کھول ڈالے


طائر نے تڑپ کے پر نکالے
اک شاخ پہ جا، چہک کے بولا
کیوں، پر مرا کیا سمجھ کے کھولا؟
ہمت نے مری، تجھے اڑایا


غفلت نے تری، مجھے چھڑایا
دولت نہ نصیب میں تھی تیرے
تھا لعل نہاں شگم میں میرے
دے کر صیاد نے دلاسا


چاہا، پھر کچھ لگائے لاسا
بولا وہ کہ دیکھ، کر گیا جعل
طائر بھی کہیں نگلتے ہیں لعل!
ارباب عرض کی بات سن کر


کر لیجیے یک بہ یک نہ باور
فرخ! یہ وہی مثل نہ ہوئے!
دیکھ آ، جو تجھے دہل نہ ہوئے
مشتاق تو تھا، چلا وہ دستور


دکھلائی دیا وہ بقعہ نور
نقشے میں وہ گلشن نگاریں
گلزار ارم سے تھا خوش آئیں
حیرت تھی کہ یہ طلسم کیا ہے!


پردیس میں ہوں کہ گھر مرا ہے!
اس سوچ میں تخت گہ تک آیا
حیراں وہ وزیر، شہ تک آیا
آداب اک کر کے حسب دستور


ٹھہرا، تو وہ بادشاہ مستور
سمجھا کہ حسین آدمی ہے
کیا جانے کہ خود بکاولی ہے
پوچھا کہ کدھر سے آئے، کیا نام؟


بولا وہ کہ نام سے ہے کیا کام
انسان ہوں، بندہ خدا ہوں
بھیجا زین الملوک کا ہوں
گستاخی معاف، آپ آئے


بن گھیر لیا، مکاں بنائے
بہکا کے بسائے مردم شہر
حضرت کا بڑا ہے آپ پر قہر
دعویٰ یہ ہے، یاں زمیں دابی


آبادی میں آئی ہے خرابی
خیر، اب بھی رفع شر جو چاہو
سر آنکھوں سے چل کے جبہہ سا ہو
بولا وہ کہ فتنہ گر نہیں ہم


شرجن سے ہو، وہ بشر نہیں ہم
درویشی میں دل کے بادشا ہیں
مسند کے تکیے پر گدا ہیں
دستور کہ عرض کر چکا تھا


مثل دل بد گماں رکا تھا
بولا: چلو صلح درمیاں ہو
باہم مہ و مہر کا قراں ہو
بولا وہ: فقیر کی بلا جائے


مشتاق جو ہو، وہ شوق سے آئے
بولا وہ کہ خیر، تابہ فردا
اٹھ جائے گا درمیاں سے پردا
یہ کہہ کے پھرا وزیر، آیا


پہنچا تو وہ شہر خالی پایا
شہ زادہ و شہ محل میں تھے واں
بر ہم زدہ بزم کے چراغاں
شہ نے جو وزیر آتے دیکھا


فرخ، فرخ پکار اٹھا
سلطاں کے نثار ہو کے دستور
بولا کہ بلاے شاہ ہو دور!
دیکھ آیا میں وہ مکان یاقوت


ہے معدن لعل و کان یاقوت
تختہ ہے زمردیں کہ مینو!
گلشن ہے جواہریں کہ جادو!
نقشہ کہوں کیا، نگار خانہ!


جادو کا تمام کار خانہ!
دیووں کی بنائی ہے وہ بنیاد
رہنے والے ہیں آدمی زاد
واں صاحب تاج و تخت جو ہے


درویش ہے، شاہ نام کو ہے
دیو اس کے عمل میں آگئے ہیں
جادو کے محل بنا گئے ہیں
کل آپ بھی چل کے کیجئے سیر


وعدہ کر آیا ہوں، کہا: خیر
بھید کھلنا چھپے ہوؤں کا ایک ایک پر
اب خامے سے وا شگاف یوں ہے
دل ملنے کی راہ صاف یوں ہے


فرخ جو گیا، تو شاہ زادہ
سوچا کہ ہوں ٹھاٹھ کل زیادہ
رکھا آتش پہ دوسرا بال
حاضر ہوئی دیونی قوی بال


دعوت کی اسے خبر سنائی
دیووں کے رخ اس نے آنکھ اٹھائی
ہم چشموں نے چتون اس کی تاڑی
پلکوں سے زمین بن کی جھاڑی


غولوں سے بھرا جو تھا بیاباں
پھولوں سے بنا دیا خیاباں
صناعی انھوں نے رات بھر کی
مشتاق نے واں وہ شب سحر کی


بجتے ہی گجر وہ شاہ ذی جاہ
چاروں شہ زادے لے کے ہمراہ
جو جو امرا تھے، سب بلا کے
فرخ کو خواصی میں بٹھا کے


مشرق سے رواں ہوا دلاور
جس طرح افق سے شاہ خاور
بجلی سے جو زرق برق آئے
فرش، ابر کی طرح بچھتے پائے


دیکھا تو تمام دشت گلزار
دائیں بائیں دورستہ بازار
شہ کہتے تھے: دشت پر خسک تھا
فرخ کہتا تھا: کل تلک تھا


غافل تھے کہ سبز باغ ہے یہ
اپنے ہی جگر کا داغ ہے یہ
تجویز رہے تھے سب کے سب دنگ
جادو، افسوں، طلسم، نیرنگ


کیا لشکر اور کیا شہنشاہ
سناٹے میں تھے کہ اللہ اللہ!
دیکھے جو جواہرات کے ڈھیر
سب من کی ہوس سے ہو گئے سیر


شہ زادے نے آمد ان کی پائی
کی تادر خانہ پیشوائی
دونوں میں ہوئیں جو چار آنکھیں
دولت کی کھلی ہزار آنکھیں


ایوان جواہریں میں آئے
الماس کی شبہ نشیں میں آئے
وہ چتر کے زیر سایہ بیٹھے
افسر سب پایہ پایہ بیٹھے


جو جو کہ تو اضعات ہیں عام
لے آئے خواص نازک اندام
چکنی ڈلی، عطر، الائچی، پان
نقل و مے و جام و خوان انوان


رغبت سے انہیں کھلا پلا کے
بولا شہ زادہ مسکرا کے
اس تاج شہی میں کے نگیں ہیں؟
کے نام و نشان دل نشیں ہیں؟


سلطاں نے کہا بہ صد لطافت
یہ چار ہیں عنصر خلافت
ایک اور ہوا تھا قابل خشم
وہ نور بصر، تھا دشمن چشم


جب لائے یہ گل بکاولی کا
نکلا تب خار روشنی کا
پوچھا اس نے: وہ اب کدھر ہے؟
سلطاں نے کہا کہ کیا خبر ہے!


ایک ان میں سے چشم آشنا تھا
کو کہ اسی شاہ زادے کا تھا
بولا کہ حضور ادھر تو دیکھیں
دیکھا، تو کہا: مری نظر میں


صورت وہی، رنگ رو وہی ہے
لہجہ وہی، گفتگو وہی ہے
یہ سنتے ہی، اس نے خندہ کر کے
سر، پاؤں پہ رکھ دیا پدر کے


سر، قدموں سے شاہ نے اٹھایا
فرزند کو چھاتی سے لگایا
لے لے کے بلائیں کاکلوں کی
پیشانی چومی، پیٹھ ٹھونکی


عرض اس نے کیا کہ دو پرستار
پا بوسی شہ کی ہیں طلب گار
حضرت نے کہا: بلائیے خیر
اٹھ جائیں، جو بیٹھے ہوں یہاں غیر


شہ زادے نے اک مکاں بتایا
ایک ایک اٹھا، ادھر کو آیا
سب اٹھ گئے، پر وہ چاروں باغی
بیٹھے رہے فرش گل پہ داغی


شہ زادہ اٹھا، محل میں آیا
پردے تلک ان کو ساتھ لایا
دلبر سے کہا: میں جب کہوں، آؤ
تو کہیو، یہ چاروں داغی اٹھواؤ


درپردہ سکھا کے، باہر آیا
بے پردہ حضور شہ بلایا
دلبر نے کہا: لجاؤں گی میں
قربان گئی، نہ آؤں گی میں


اٹھ جائیں یہ چاروں سست بنیاد
داغے ہوئے ہیں غلام، آزاد
چاروں کا، جو سنتے ہی، اڑا رنگ
یک بار گی شاہ ہوگیا دنگ


دکھلائی دیے جو بیٹے بے رخ
دیکھا تاج الملوک کے رخ
یاں دل پہ تھے داغ، واں سریں پر
یاں نام پہ حرف، واں نگیں پر


وہ جعل، وہ ہار، وہ غلامی
وہ گھات، وہ جیتنا تمامی
وہ دسترس اور وہ پائے مردی
وہ بے کسی اور وہ دشت گردی


وہ دیو کی بھوک اور وہ تقریر
وہ حلوے کی چاٹ اور وہ تحریر
وہ سعی، وہ دیونی کی صحبت
محمودہ کی وہ آدمیت


تجویز کے وہ سرنگ کی راہ
اور موش دوانیاں وہ دل خواہ
وہ سیر چمن، وہ پھول لینا
وہ عزم وطن، وہ داغ دینا


وہ کور کے حق میں خضر ہونا
وہ غولوں سے مل کے پھول کھونا
وہ بال کو آگ کا دکھانا
وعدے پہ وہ دیونی کا آنا


وہ نزہت گلشن نگاریں
وہ دعوت بادشا، وہ تمکیں
گزرا تھا جو کچھ، بیاں کیا سب
پنہاں تھا جو کچھ، عیاں کیا سب


انگشتری پری دکھا کر
کھلوئی سریں کی مہر محضر
پہلے تو بہت وہ منہ چڑھے ڈھیٹھ
آخر داغی دکھا گئے پیٹھ


اٹھوا کے انہیں، وہ دو خوشی آئیں
پا بوسی شہ کو سر سے آئیں
حضرت نے سمجھ کے حسن خدمت
دونوں کو دیے خطاب و خلعت


نذریں ان دونوں نے دکھائیں
رخصت ہو کر محل میں آئیں
مسند سے شہ اٹھ کے بے محابا
بولا بیٹے سے: جان بابا!


روشن کیا دیدہ ٔپدر کو
مادر کے بھی چل کے آنسو پوچھو
مشتاق کو روبہ راہ پایا
ہمراہ اسے تابہ خانہ لایا


ماں نے دیکھا جو وہ دلاور
اشکوں کے گہر کیے نچھاور
وہ طفل بھی گر پڑا قدم پر
مانند سر شک چشم مادر


ہر خویش ویگانہ سے ملا وہ
پھر اپنی جگہ پہ آگیا وہ
غائب ہو جانا فرخ یعنی بکاولی کا اور بلوانا تاج الملوک
کو گلشن نگاریں سے اور متفق ہو کر گلزار ارم میں رہنا


کھلنے پہ جو ہے طلسم تقدیر
اب خامے نے یو کیا ہے تحریر
فرخ، وہ بادشا کا دستور
یعنی وہ بکاولی مستور


مطلوب کا سن سمجھ کے سب حال
چاہی کہ نکالے کچھ پر وبال
سوچی کو دلا! شتاب کیا ہے
پھر سمجھیں گے، اضطراب کیا ہے


اس وضع کا پاس کر گئی وہ
تغیر لباس کر گئی وہ
فرخ کہنے تک آدمی تھی
پھر وہ ہی بکاولی پری تھی


غربت سے چلی، وطن میں آئی
صحرا سے اڑی، چمن میں آئی
پژ مردہ خواصوں پڑی جان
صدقے ہوئی کوئی، کوئی قربان


اس غنچے میں اک سمن پری تھی
وہ ہم نفس بکاولی تھی
بولی: کہو کیا کیا، کہا: خوب
بے کچھ کیے پھر بھی آئی، کیا خوب!


مانگا کاغذ، دوات، خامہ
لکھا گل چیں کے نام نامہ
اے یوسف چشم زخم یعقوب!
وے رشک برادران منکوب!


اے دل بر دلبرد غل باز!
وے دیو سوار عرش پرواز!
اے آب تہ زمین نیرنگ!
وے نقب دوان باغ گل رنگ!


اے پردہ کشاے بے حجابی!
وے دزد حناے دست یابی!
اے رہ رو رو بہ رہ نہادہ!
وے صر صر گل بہ باد دادہ!


اے بے سر و برگ گلشن آرا!
وے لعل نماے سنگ خارا!
اے بے خبر طلسم صورت!
وے بے بصر رخ ضرورت!


اے باعث عزم میہمانی!
وے صاحب بزم میزبانی!
اے آئنہ دار خود نمائی!
وے سرمہ چشم آشنائی!


اے پردہ کشاے روے پنہاں!
وے داغ نماے پشت اخواں!
تو باغ ارم سے لے گیا گل
تو مجھ سی پری کو دے گیا جل


بے رخ ترے واسطے ہوئی میں
فرخ ترے واسطے ہوئی میں
تجھ کو ترے باپ سے ملایا
مجھ کو یہ ملا کہ تجھ کو پایا


جو جو اسرار تھے نہانی
سب تجھ سے سنے تری زبانی
کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو ہو جو سر پہ چڑھ کے بولے


چاہا تھا، کروں سرے سے پامال
کر شکر، سمجھ کہ تھا خوش اقبال
کیا کہیے کہ صورت اور کچھ تھی
وقت اور، ضرورت اور کچھ تھی


اب تک ہیں وہ خارجی کے جی میں
جلد آ کہ ہے مصلحت اسی میں
آئے گا، تو در گذر کروں گی
ورنہ میں بہت ساشر کروں گی


داغوں پہ دیے ہیں داغ تو نے
دکھلائے ہیں سبز باغ تو نے
کانٹوں میں اگر نہ ہو الجھنا
تھوڑا لکھا بہت سمجھنا


پھر خط کی نہ ہو امیدواری
القط ہے قلم کی دوست واری
یہ لکھ کے، کہا سمن پری کو
چالاک ہے تو ہی قاصدی کو


یہ خط، یہ انگوٹھی لے، ابھی جا
پورب کی سمت کو چلی جا
رستے میں ہے گلشن نگاریں
رہتا ہے وہیں مرا وہ گل چیں


خاتم کے نشاں سے نامہ دیجو
ٹھہری رہیو، جواب لیجو
خط، خاتم لے کے وہ ہوائی
پتا ہوئی اور پتے پہ آئی


وہ باغ کہ تھا جواہر آگیں
ثابت ہوا گلشن نگاریں
وہ آدم حوروش، پری رو
یعنی تاج الملوک خوش خو


گل گشت میں تھا کسی روش پر
محمودہ دائیں، بائیں دلبر
قاصد نے جو رخ پری دکھایا
دھیان اس کو بکاولی کا آیا


پہچانتے ہی نگین خاتم
بے شبہ ہوا یقیں کا عالم
پر تو پہ وہ یوں چلا تڑپ کے
انگارے پہ جیسے کبک لپکے


دھوکا تھا فقط بکاولی کا
قاصد نے دیا وہ خط پری کا
گو سرمہ خموشی نے کھلایا
تحریر کو آنکھوں سے لگایا


قاصد سے کلام لطف بولا
خط صورت چشم شوق کھولا
وہ نامہ کہ عنبریں رقم تھا
قسمت کا نوشتہ یک قلم تھا


تحریر تھی سر گذشت ساری
کچھ یاس تھی، کچھ امیدواری
منگوا کے وہیں دوات و خامہ
تحریر کیا جواب نامہ


اے شاہ ارم کی دخت گل فام!
فرخ لقب و بکاولی نام
اس نام کے، اس لقب کے صدقے
اس نامے کے، اس طلب کے صدقے


میں نے جو غرض سے جی چرایا
تو نے کیوں آ کے منہ چھپایا؟
میری جو بدی ہوئی تھی کچھ یوں
تو نیک ہے، بے ملے گئی کیوں؟


تو جائے، تو کیوں نہ آئے افسوس
افسوس، افسوس، ہاے افسوس!
تقدیر پھری، پھری نہیں تو،
امید گئی، گئی نہیں تو


اے کاش! میں کچھ بھی سانس پاتا
جی کھول کے داغ دل دکھاتا
معلوم تو ہے کہ شوق کیا تھا
جو کھینچ کے یاں سے لے گیا تھا


اب مجھ میں وہ دم اجی کہاں ہے
وہ دل، وہ جگر، وہ جی کہاں ہے
مر جاؤں اگر طلب میں تیری
میں کیا، کہ خبر نہ پہنچے میری


قابل واں آنے کے کہاں ہوں
یاں بھی جو رہا، تو نیم جاں ہوں
تجھ سے میری خاطر اب کہاں جمع
تو نشتر شعلہ، میں رگ شمع


تو برق دماں، میں خرمن خار
تو سیل رواں، میں خستہ دیوار
تو جوشش یم، میں مور بے پر
میں نقش قدم، تو باد صرصر


دھڑکا ہے یہی، تو جان دوں گا
مرجاؤں گا، اب نہ میں جیوں گا
ہو تجھ سی پری جو خصم جانی
انساں کی ہے مرگ، زندگانی


منظور جو ہو حیات میری
تو مان لے ایک بات میری
حمالہ کو بھیج، آ کے لے جائے
شاید مجھے زندہ پا کے پہنچائے


بھیجا نہ اسے، تو جان لینا
آسان ہے یاں بھی جان دینا
یہ لکھ کے، جو خط سے ہاتھ اٹھایا
قاصد نے لیا جو اب، لایا


مطلوب کا خط وہ پڑھ رہی تھی
دیکھا تو وہ دیونی کھڑی تھی
پوچھا کہ اری! تجھے خبر ہے
گل چیں مرا کون سا بشر ہے؟


وہ صدقے ہوئی، کہا: بلا لوں
بے دیکھے کسی کا نام کیا لوں!
یہ سن کے، وہ شعلہ، ہو بھبوکا
بولی کہ تجھے لگاؤں لوکا


تیرا ہی تو ہے فساد مردار!
داماد کو گل دیا، مجھے خار
گل نقب کی راہ لے گیا چور
زندہ کروں اس موئے کو درگور


حمالہ! جلی ہوں، کیا کہوں میں
داماد کو لا، تو ٹھنڈی ہوں میں
آگاہی جو دیونی نے پائی
بگڑی ہوئی بات یوں بنائی


محمودہ ہے کنیز زادی
انساں سے ہوئی ہے اس کی شا

- pandit-daya-shankar-naseem-lakhnavi


کروں پہلے توحید یزداں رقم
جھکا جس کے سجدے کو اول قلم
سر لوح پر رکھ بیاض جبیں
کہا: دوسرا کوئی تجھ سا نہیں


قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا
ہوا حرف زن یوں کہ: رب العلا!
نہیں کوئی تیرا، نہ ہوگا شریک
تری ذات ہے وحدہٗ لا شریک


پرستش کے قابل ہے تواے کریم!
کہ ہے ذات تیری غفور رحیم
رہ حمد میں تیری عزّ و جل!
تجھے سجدہ کرتا چلوں سر کے بل


وہ، الحق کہ ایسا ہی معبود ہے
قلم جو لکھے، اس سے افزود ہے
سبھوں کا وہی دین و ایمان ہے
یے دل ہیں تمام اور وہی جان ہے


تر و تازہ ہے اس سے گلزار خلق
وہ ابر کرم، ہے ہوا دار خلق
اگرچہ وہ بے فکر و غیّور ہے
ولے پرورش سب کی منظور ہے


کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جاں
جو وہ مہرباں ہو، تو گل مہرباں
اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں
پر، اس بن تو کوئی کسی کا نہیں


موئے پر نہیں اس سے رفت و گزشت
اسی کی طرف سب کی ہے بازگشت
رہا کون اور کس کی بابت رہی
موئے اور جیتے وہی ہے وہی


نہاں سب میں، اور سب میں ہے آشکار
یہ سب اس کے عالم ہیں ہژدہ ہزار
ڈرے سب ہیں اس سے، وہی سب سے پیش
ہمیشہ سے ہے اور رہے گا ہمیش


چمن میں، ہے وحدت کے، یکتا وہ گل
کہ مشتاق ہیں اس کے سب جز و کُل
اسی سے ہے کعبہ، اسی سے کنشت
اسی کا ہے دوزخ، اسی کا بہشت


جسے چاہے جنت میں دیوے مقام
جسے چاہے دوزخ میں رکھے مدام
وہ ہے مالکُ الملک دنیا و دیں
ہے قبضے میں اس کے زمان و زمیں


سدا بے نمودوں کی اس سے نمود
دل بستگاں کی ہے اس سے کشود
اسی کی نظر سے ہے ہم سب کی دید
اسی کے سخن پر ہے سب کی شنید


وہی نور، ہے سب طرف جلوہ گر
اسی کے یہ ذرے ہیں شمس و قمر
نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں، پر ہر اک شے میں ہے


نہ گوہر میں ہے وہ، نہ ہے سنگ میں
و لیکن چمکتا ہے ہر اک رنگ میں
وہ ظاہر میں ہر چند ظاہر نہیں
پہ، ظاہر کوئی، اس سے باہر نہیں


تامل سے کیجے اگر غور کچھ
تو سب کچھ وہی ہے، نہیں اور کچھ
اسی گل کی بو سے ہے خوش بو گلاب
پھرے ہے لیے ساتھ دریا، حباب


پر، اس جوش میں آ کے، بہنا نہیں
سمجھنے کی ہے بات، کہنا نہیں
قلم، گو زباں لاوے اپنی ہزار
لکھے کس طرح حمد پروردگار


کہ عاجز ہے یاں انبیا کی زباں
زبان قلم کو یہ قدرت کہاں!
اس عہدے سے کوئی بھی نکلا کہیں!
سوا عجز، درپیش یاں کچھ نہیں


وہ معبود یکتا، خدائے جہاں
کہ جس نے کیا ’’کن‘‘ میں کون و مکاں
دیا عقل و ادراک اس نے ہمیں
کیا خاک سے پاک اس نے ہمیں


پیمبر کو بھیجا ہمارے لیے
وصی اور امام اس نے پیدا کیے
جہاں کو انھوں نے دیا انتظام
برائی بھلائی سجھائی تمام


دکھائی انھوں نے ہمیں راہ راست
کہ تا، ہو نہ، اس راہ کی باز خواست
سو وہ کون سی راہ؟ شرع نبی
کہ رستے کو جنت کے سیدھی گئی


نعت حضرت رسالت پناہ کی
نبی کون، یعنی رسول کریم
نبوت کے دریا کا در یتیم
ہوا گو کہ ظاہر میں امی لقب


پہ، علم لدنی کھلا دل پہ سب
بغیر از لکھے، اور کیے بے رقم
چلے حکم پر اس کے لوح و قلم
ہوا علم دیں اس کا جو آشکار


گزشتہ ہوئے حکم، تقویم پار
اٹھا کفر اسلام ظاہر کیا
بتوں کو خدائی سے باہر کیا
کیا حق نے نبیوں کا سردار اسے


بنایا نبوت کا حق دار اسے
نبوت جو کی اس پہ حق نے تمام
لکھا: اشرفُ الناس، خیرُ الانام
بنایا سمجھ بوجھ کر خوب اسے


خدا نے کیا اپنا محبوب اسے
کروں اس کے رتبے کا کیا میں بیاں
کھڑے ہوں جہاں باندھ صف مرسلاں
مسیح اس کی خر گاہ کا پارہ دوز


تجلیٔ طور اس کی مشعل فروز
خلیل اس کے گلزار کا باغباں
سلیماں سے کئی مہر دار اس کے یاں
خضر اس کی سرکار کا آبدار


زرہ ساز داؤد سے دس ہزار
محمد کی مانند جگ میں نہیں
ہوا ہے نہ ایسا، نہ ہو گا کہیں
یہ تھی رمز، جو اس کے سایہ نہ تھا


کہ رنگ دوئی واں تک آیا نہ تھا
نہ ہونے کا سایے کا تھا یہ سبب
ہوا صَرف پوشش میں کعبے کی سب
وہ قد اس لیے تھا نہ سایہ فگن


کہ تھا گل وہ اک معجزے کا بدن
بنا سایہ اس کا لطیف اس قدر
نہ آیا لطافت کے باعث نظر
عجب کیا جو اس گل کا سایہ نہ ہو


کہ تھا وہ، گل قدرت حق کی بو
خوش آیا نہ، سایے کو، ہونا جدا
اسی نور حق کے رہا زیر پا
نہ ڈالی کسی شخص پر اپنی چھانو


کسی کا نہ منہ دیکھا، دیکھ اس کے پانو
وہ ہوتا زمیں گیر کیا فرش پر
قدم اس کے سایے کا تھا عرش پر
نہ ہونے کی سایے کے اک وجہ اور


مجھے خوب سوجھی، پہ ہے شرط غور
جہاں تک کہ تھے یاں کے اہل نظر
سمجھ مایۂ نور، کحلُ البصر
سبھوں نے لیا پتلیوں پر اٹھا


زمیں پر نہ سایے کو گرنے دیا
سیاہی کا پتلی کی ہے یہ سبب
وہی سایہ پھرتا ہے آنکھوں میں اب
وگرنہ یہ تھی چشم اپنی کہاں


اسی سے یہ روشن ہے سارا جہاں
نظر سے جو غائب وہ سایا رہا
ملائک کے دل میں سمایا رہا
نہیں ہمسر اس کا کوئی، جو علی


کہ بھائی کا بھائی، وصی کا وصی
ہوئی جو نبوت نبی پر تمام
ہوئی نعمت اس کے وصی پر تمام
جہاں فیض سے ان کے ہے کام یاب


نبی آفتاب و علی ماہتاب
منقبت حضرت امیرالمومنین کی
علی دین و دنیا کا سردار ہے
کہ مختار کے گھر کا مختار ہے


دیار امامت کے گلشن کا گل
بہار ولایت کا باغ سبل
علی راز دار خدا و نبی
خبردار سر خفی و جلی


علی بندۂ خاص درگاہ حق
علی سالک و رہبر راہ حق
علیّ ولی، ابن عمّ رسول
لقب شاہ مردان و زوج بتول


کہے یوں جو چاہے کوئی بیر سے
پہ نسبت علی کو نہیں غیر سے
خدا نفس پیغبرش خداندہ است
دگر افضلیت بہ کس ماندہ است؟


یہاں بات کی بھی سمائی نہیں
نبی و علی میں جدائی نہیں
نبی و علی، ہر دو نسبت بہم
دُو تا و یکے، چوں زبان قلم


علی کا عدوٗ: دوزخی، دوزخی
علی کا محب: جنتی، جنتی
نبی اور علی، فاطمہ اور حسن
حسین ابن حیدر، یہ ہیں پنج تن


ہوئی ان پہ دو جگ کی خوبی تمام
انہوں پر درود اور انہوں پر سلام
علی سے لگا تا بہ مہدیٔ دیں
یہ ہیں ایک نور خدائے بریں


اُنہوں سے ہے قائم امامت کا گھر
کہ بارہ ستوں ہیں یہ اثنا عشر
صغیرہ، کبیرہ سے یہ پاک ہیں
حساب عمل سے یہ بے باک ہیں


ہوا یاں سے ظاہر کمال رسول
کہ بہتر ہوئی سب سے آل رسول
سلام ان پہ جو ان کے اصحاب ہیں
وہ اصحاب کیسے، کہ احباب ہیں


خدا نے انہوں کو کہا مومنیں
وہ ہیں زینت آسمان و زمیں
خدا ان سے راضی، رسول ان سے خوش
علی ان سے راضی، بتول ان سے خوش


ہوئی فرض ان کی ہمیں دوستی
کہ ہیں دل سے وہ جاں نثار نبی
مناجات
الٰہی! بہ حق رسول امیں


بہ حق علی و بہ اصحاب دیں
بہ حق بتول و بہ آل رسول
کروں عرض جو میں، سو ہوئے قبول
الٰہی! میں بندہ گنہگار ہوں


گناہوں میں اپنے گراں بار ہوں
مجھے بخشیو میرے پروردگار!
کہ ہے تو کریم اور آمرزگار
مری عرض یہ ہے کہ جب تک جیوں


شراب محبت کو تیری پیوں
سوا تیری الفت کے، اور سب ہے ہیچ
یہی ہو، نہ ہو اور کچھ ایچ پیچ
جو غم ہو، تو ہو آل احمد کا غم


سوا اس الم کے نہ ہو کچھ الم
رہے سب طرف سے مرے دل کو چین
بہ حق حسن اور بہ حق حسین
کسی سے نہ کرنی پڑے التجا


تو کر خود بہ خود میری حاجت روا
صحیح اور سالم سدا مجھ کو رکھ
خوشی سے ہمیشہ خدا! مجھ کو رکھ
مری آل اولاد کو شاد رکھ


مرے دوستوں کو تو آباد رکھ
میں کھاتا ہوں جس کا نمک اے کریم!
سدا رحم کر اس پہ تو اے رحیم!
جیوں آبرو اور حرمت کے ساتھ


رہوں میں عزیزوں میں عزت کے ساتھ
بر آویں مرے دین و دنیا کے کام
بہ حق محمد علیہ السلام
تعیریف سخن کی


پلا مجھ کو ساقی! شراب سخن
کہ مفتوح ہو جس سے باب سخن
سخن کی مجھے فکر دن رات ہے
سخن ہی تو ہے، اور کیا بات ہے


سخن کے طلب گار ہیں عقل مند
سخن سے ہے نام نکو یاں بلند
سخن کی کریں قدر مردان کار
سخن، نام ان کا رکھے برقرار


سخن سے وہی شخص رکھتے ہیں کام
جنہیں چاہیے ساتھ نیکی کے نام
سخن سے سلف کی بھلائی رہی
زبان قلم سے بڑائی رہی


کہاں رستم و گیو و افراسیاب
سخن سے رہی یاد یہ نقل خواب
سخن کا صلہ یار دیتے رہے
جواہر سدا مول لیتے رہے


سخن کا سدا گرم بازار ہے
سخن سنج اس کا خریدار ہے
رہے جب تلک داستان سخن
الٰہی! رہے قدردان سخن


مدح شاہ عالم بادشاہ کی
خدیو فلک شاہ عالی گہر
زمیں بوس ہوں جس کے شمس و قمر
جہاں اس کے پرتو سے ہے کام یاب


وہ ہے برج اقلیم میں آفتاب
اسی مہر سے ہے منور یہ ماہ
جہاں ہووے اور ہو جہاں دار شاہ
وہ مہر منور، یہ ماہ منیر


اور اس کا یہ نجم سعادت وزیر
مدح وزیر آصف الدولہ کی
فلک رتبہ نوّاب عالی جناب
کہ ہے آصف الدولہ جس کا خطاب


وزیر جہاں، حاکم عدل و داد
ہے آبادیٔ ملک جس کی مراد
جہاں، عدل سے اس کے آباد ہے
غریبوں، فقیروں کا دل شاد ہے


پھرے بھاگتا مور سے فیل مست
زبردست ظالم، پہ ہے زیردست
کتاں پر کرے مہ اگر بد نظر
تو آدھا ادھر ہووے آدھا ادھر


کسی کا اگر مفت لے زلف دل
تو کھایا کرے پیچ وہ متصل
وہ انصاف سے جو گزرتا نہیں
کسی پر کوئی شخص مرتا نہیں


تو ہو باگ، بکری میں کچھ گفتگو
اگر اس کا چیتا نہ ہووے کبھو
گر آواز سن صید کی، کچھ کہے
تو باز آئے چپّک کہ بہری رہے


پھرے شمع کے گرد گر آ کے چور
صبا کھینچ لے جاوے اس کو بہ زور
نہ لے جب تلک شمع پروانگی
پتنگے کے پر کو نہ چھیڑے کبھی


اگر آپ سے اس پہ وہ آ گرے
تو فانوس میں شمع چھپتی پھرے
گر احیاناً اس کے جلیں بال و پر
تو گل گیر، لے شمع کا کاٹ سر


اسے عدل کی جو طرح یاد ہے
کسے یاد ہے؟ یہ خدا داد ہے
ستم اس کے ہاتھو سے رویا کرے
سدا فتنۂ دہر سویا کرے


گھروں میں فراغت سے سوتے ہیں سب
پڑے گھر میں چور اپنے روتے ہیں سب
وہ ہے باعث امن خرد و کلاں
کہ ہے نام سے اس کے مشق اماں


بیان سخاوت کروں گر رقم
تو در ریز کاغذ پہ ہووے قلم
نظر سے توجہ کی دیکھا جدھر
دیا مثل نرگس اسے سیم و زر


سخاوت یہ ادنیٰ سی ایک اس کی ہے
کہ اک دں دو شالے دیے سات سے
سوا اس کے، ہے اور یہ داستاں
کہ ہو جس پہ قربان حاتم کی جاں


ہوئی کم جو اک بار کچھ برشگال
گرانی سی ہونے لگی ایک سال
غریبوں کا دم سا نکلنے لگا
توکل کا بھی پانو چلنے لگا


وزیرالممالک نے تدبیر کر
خدا کی دیا راہ پر مال و زر
محلے محلے کیا حکم یہ
کہ باڑے کی اس غم کے کھولیں گرہ


یہ چاہا کہ خلقت کسی ڈھب جیے
ٹکے لاکھ لاکھ ایک دن میں دیے
یہ لغزش پڑی ملک میں جو تمام
لیا ہاتھ نے اس کے گرتوں کو تھام


یہ بندہ نوازی، یہ جاں پروری
یہ آئین سرداری و سروری
ہوئے ذات پر اس سخی کی تمام
تکلف ہے آگے سخاوت کا نام


فقیروں کی بھی یاں تلک تو بنی
کہ اک اک یہاں ہو گیا ہے غنی
یہ کیا دخل آواز دے جو گدا
چٹکنے کی گل کے نہ ہووے صدا


قدح لے کے نرگس جو ہووے کھڑی
تو خجلت سے جاوے زمیں میں گڑی
نہ ہو اس کا شامل جو ابر کرم
اثر ابر نیساں سے ہووے عدم


ہر اک کام اس کا: جہاں کی مراد
فلاطوں طبیعت، ارسطو نژاد
جب ایسا وہ پیدا ہوا ہے بشر
تب اس کو دیا ہے یہ کچھ مال و زر


لکھوں گر شجاعت کا اس کی بیاں
قلم ہو مرا رستم داستاں
غضب سے وہ ہاتھ اپنا جس پر اٹھائے
اجل کا طمانچہ قسم اس کی کھائے


کرے جس جگہ زور اس کا نمود
دل آہن کا اس جا پہ ہووے گبود
چلے تیغ گر اس کی زور مصاف
نظر آوے دشمن کا میدان صاف


اگر بے حیائی سے کوئی عدو
ملا دیوے اس تیغ سے منہ کبھو
تو ایسے ہی کھا کر گرے سر کے بل
کہ سر پر کھڑی اس کے رووے اجل


نہ ہو کیونکے وہ تیغ برق غضب
کہ برش کی تشدید، جوہر ہیں سب
لگاوے اگر کوہ پر ایک بار
گزر جائے یوں، جیسے صابن میں تار


ہوئی ہم قسم اس سے تیغ اجل
نکل آئے یہ، گر پڑے وہ اگل
غضب سے، غضب، اس کے کانپا کرے
تہور بھی ہیبت سے اس کی ڈرے


اور اس زور پر ہے یہ علم و حیا
کہ ہے خلق کا جیسے دریا بہا
جہاں تک کہ ہیں علم و نسب و کمال
ہر اک فن میں ماہر ہے وہ خوش خصال


سخن داں، سخن سنج، شیریں زباں
وزیر جہان و وحید زماں
سخن کی نہیں اس سے پوشیدہ بات
غوامض ہیں سب سہل اس کے نکات


سلیقہ ہر اک فن میں، ہر بات میں
نکلتی نئی بات دن رات میں
سدا سیر پر اور تماشے پہ دل
کشادہ دلی اور خوشی متصل


نہ ہو اس کو کیوں کر ہواے شکار
تہور شعاروں کا ہے یہ شعار
دلیروں کے تئیں، ہے دلیروں سے کام
کہ رہتا ہے شیروں کو شیروں سے کام


شہاں را ضروراست مشق شکار
کہ آید پئے صید دل ہا بہ کار
کھلے، بند جتنے ہیں صحرا میں صید
ہیں نواب کے دام الفت میں قید


زمہرش دل آہواں سوختہ
بہ فتراک او چشمہا دوختہ
شجاعت کا، ہمت کا یہ، کام ہے
درم ہاتھ میں ہے کہ یا دام ہے


نہ ہوتا اگر اس کو عزم شکار
درندوں سے بچتا نہ شہر و دیار
نہ بچتے جہاں بیچ خرد و بزرگ
یہ ہو جاتے سب لقمۂ شیر و گرگ


یہ انسان پر اس کا احسان ہے
کہ بے خوف انسان کی جان ہے
بنائی جہاں اس نے نخچیر گاہ
رہے صید واں آکے شام و پگاہ


رکھا صید بحری پہ جس دم خیال
لیا پشت پر اپنی ماہی نے جال
مگر اپنا دیتے ہیں جی جان کر
کہ ٹاپو پہ گرتے ہیں آن آن کر


نہ سمجھو نکلتے ہیں دریا میں سوس
خوشی سے اچھلتے ہیں دریا میں سوس
چرندوں کا دل اس طرف ہے لگا
پرندوں کو رہتی ہے اس کی ہوا


پلنگوں کا ہے بلکہ چیتا یہی
کمر آ بندھاوے ہماری وہی
کھڑے اَرنے ہوتے ہیں سر جوڑ جوڑ
کہ جی کون دیتا ہے بد بد کے ہوڑ


خبر اس کی سن کر نہ گینڈا چلے
کہ ہاتھی بھی ہو مست، اینڈا چلے
جو کچھ دل میں گینڈے کے آوے خیال
تو بھاگے اس آگے سپر اپنی ڈال


اطاعت کے حلقے سے بھاگے جو فیل
پلک، اس کی آنکھوں میں، ہو تفتہ میل
سو وہ تو اطاعت میں یک دست ہیں
نشے میں محبت کے سب مست ہیں


اسی کے لیے گو کہ ہیں وے پہاڑ
قدم اپنے رکھتے ہیں سب گاڑ گاڑ
کہ شاید مشرف سواری سے ہوں
سر افراز چل کر عماری سے ہوں


چلن جب یہ کچھ ہوویں حیوان کے
تو پھر حق بہ جانب ہے انسان کے
کسے ہو نہ صحبت کی اس کی ہوس
ولے کیا کرے، جو نہ ہو دسترس


فلک بار گاہا، ملک در گہا!
جدا میں جو قدموں سے تیرے رہا
نہ کچھ عقل نے اور نہ تدبیر نے
رکھا مجھ کو محروم تقدیر نے


پراب عقل نے میرے کھولے ہیں گوش
دیا ہے مدد سے تری مجھ کو ہوش
سو میں، اک کہانی بنا کر نئی
در فکر سے گوندھ لڑیاں کئی


لے آیا ہوں خدمت میں بہر نیاز
یہ امید ہے پھر، کہ ہوں سرفراز
مرے عذر تقصیر ہوویں قبول
بہ حق علی و بہ آل رسول


رہے جاہ و حشمت یہ تیری مدام
بہ حق محمد، علیہ السلام
رہیں شاد و آباد کل خیر خواہ
پھریں اس گھرانے کے دشمن تباہ


اب آگے کہانی کی ہے داستاں
ذرا سنیو دل دے کے اس کا بیاں
آغاز داستاں
کسی شہر میں تھا کوئی بادشاہ


کہ تھا وہ شہنشاہ گیتی پناہ
ملک خو، ملک شاہ رکھتا تھا نام
فلک پر مہ و مہر اس کے غلام
بہت حشمت و جاہ و مال و منال


بہت فوج سے اپنی فرخندہ حال
کئی بادشاہ اس کو دیتے تھے باج
خطا اور ختن سے وہ لیتا خراج
کوئی دیکھتا آ کے جب اس کی فوج


تو کہتا کہ: ہے بحر ہستی کی موج
طویلے کے اس کے جو ادنی تھے خر
انھیں نعل بندی میں ملتا تھا زر
جہاں تک کہ سرکش تھے اطراف کے


وہ اس شہ کے رہتے تھے قدموں لگے
رعیت تھی آسودہ و بے خطر
نہ غم مفلسی کا، نہ چوری کا ڈر
عجب شہر تھا اس کا مینو سواد


کہ قدرت خدائی کی آتی تھی یاد
لگے تھے ہر اک جا پہ وہاں سنگ و خشت
ہر اک کوچہ اس کا، تھا رشک بہشت
زمیں سبز و سیراب عالم تمام


نظر کو طراوت وہاں صبح و شام
کہیں چاہ و منبع، کہیں حوض و نہر
ہر اک جا پہ آب لطافت کی لہر
عمارت تھی گچ کی وہاں پیش تر


کہ گزرے صفائی سے جس پر نظر
کروں اس کی وسعت کا کیا میں بیاں
کہ جوں اصفہاں، تھا وہ نصف جہاں
ہنر مند واں اہل حرفہ تمام


ہر اک نوع کی خلق کا ازدحام
یہ دل چسپ بازار تھا چوک کا
کہ ٹھہرے جہاں، بس وہیں دل لگا
جہاں تک یہ رستے تھے بازار کے


کہے تو کہ تختے تھے گلزار کے
صفا پر جو اس کی نظر کر گئے
اسے دیکھ کر سنگ مرمر گئے
کہوں قلعے کی اس کے کیا میں شکوہ


گئے دب، بلندی کو دیکھ اس کی، کوہ
وہ دولت سرا خانۂ نور تھا
سدا عیش و عشرت سے معمور تھا
ہمیشہ خوشی، رات دن سیر باغ


نہ دیکھا کسی دل پہ، جز لالہ، داغ
سدا عیش و عشرت، سدا راگ و رنگ
نہ تھا زیست سے کوئی اپنی بہ تنگ
غنی وہاں وا، جو کہ آیا تباہ


عجب شہر تھا وہ عجب بادشاہ
نہ دیکھا کسی نے کوئی واں فقیر
ہوئے اس کی دولت سے گھر گھر امیر
کہاں تک کہوں اس کا جاہ و حشم


محل و مکاں اس کا رشک ارم
ہزاروں پری پیکر اس کے غلام
کمر بستہ خدمت میں حاضر مدام
سدا ماہ رویوں سے صحبت اسے


سدا جامہ زیبوں سے رغبت اسے
کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم
مگر ایک اولاد کا تھا الم
اسی بات کا اس کے تھا دل پہ داغ


نہ رکھتا تھا وہ اپنے گھر کا چراغ
دنوں کا عجب اس کے یہ پھیر تھا
کہ اس روشنی پہ یہ اندھیر تھا
وزیروں کو اک روز اس نے بلا


جو کچھ دل کا احوال تھا، سو کہا
کہ میں کیا کروں گا یہ مال و منال
فقیری کا ہے میرے دل کو خیال
فقیر اب نہ ہوں، تو کروں کیا علاج


نہ پیدا ہوا وارث تخت و تاج
جوانی مری ہو گئی سب بسر
نمودار پیری ہوئی سر بہ سر
دریغا کہ عہد جوانی گذشت


جوانی مگو، زندگانی گذشت
بہت ملک پر جان کھویا کیا
بہت فکر دنیا میں رویا کیا
زہے بے تمیزی و بے حاصلی


کہ از فکر دنیا، ز دیں غافلی
وزیروں نے کی عرض کہ اے آفتاب!
نہ ہو تجھ کو ذرہ کبھی اضطراب
فقیری جو کیجے تو دنیا کے ساتھ


نہیں خوب، جانا ادھر خالی ہاتھ
کرو سلطنت، لے کے اعمال نیک
کہ تا دو جہاں میں رہے حال نیک
جو عاقل ہوں، وے سوچ میں ٹک رہیں


کہ ایسا نہ ہووے کہ پھر سب کہیں
تو کار زمیں را نکو ساختی
کہ بر آسماں نیز پرداختی
یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت


فقیری میں ضائع کرو اس کو مت
عبادت سے اس کشت کو آب دو
وہاں جا کے خرمن ہی تیار لو
رکھو یاد عدل و سخاوت کی بات


کہ اس فیض سے ہے تمہاری نجات
مگر ہاں، یہ اولاد کا ہے جو غم
سو اس کا تردد بھی کرتے ہیں ہم
عجب کیا کہ ہووے تمہارے خلف


کرو تم نہ اوقات اپنی تلف
نہ لاؤ کبھی یاس کی گفتگو
کہ قرآں میں آیا ہے: لا تقنطو
بلاتے ہیں ہم اہل تنجیم کو


نصیبوں کو اپنے ذرا دیکھ لو
تسلی تو دی شاہ کو اس نمط
ولے اہل تنجیم کو بھیجے خط
نجومی و رَمّال اور برہمن


غرض یاد تھا جن کو اس ڈھب کا فن
بلا کر انہیں شہ کنے لے گئے
جوں ہی رو بہ رو شہ کے سب وے گئے
پڑا جب نظر وہ شہ تاج و تخت


دعا دی کہ ہوں شہ کے بیدار بخت
کیا قاعدے سے نہڑ کر سلام
کہا شہ نے: میں تم سے رکھتا ہوں کام
نکالو ذرا اپنی اپنی کتاب


مرا ہے سوال، اس کا لکھو جواب
نصیبوں میں دیکھو تو میرے کہیں
کسی سے بھی اولاد ہے یا نہیں
یہ سن کر، وے رمال طالع شناس


لگے کھینچنے زائچے بے قیاس
دھرے تختے آگے، لیا قرعہ ہاتھ
لگا دھیان اولاد کا اس کے ساتھ
جو پھینکیں، تو شکلیں کئی بیٹھیں مل


کئی شکل سے دل گیا ان کا کھل
جماعت نے رمال کی عرض کی
کہ ہے گھر میں امید کے کچھ خوشی
یہ سن ہم سے اے عالموں کے شفیق


بہت ہم نے تکرار کی ہر طریق
بیاض اپنی دیکھی جو اس رَمل کی
تو ایک ایک نکتہ، ہے فرد خوشی
ہے اس بات پر اجتماع تمام


کہ طالع میں فرزند ہے تیرے نام
زن و زوج کے گھر میں ہے گی فرح
پیا کر مے وصل کا تو قدح
نجومی بھی کہنے لگے در جواب


کہ ہم نے بھی دیکھی ہے اپنی کتاب
نحوست کے دن سب گئے ہیں نکل
عمل اپنا سب کر چکا ہے زحل
ستارے نے طالع کے، بدلے ہیں طور


خوشی کا کوئی دن میں آتا ہے دور
نظر کی جو تسدیس و تثلیث پر
تو دیکھا کہ ہے نیک سب کی نظر
کیا پنڈتوں نے جو اپنا بچار


تو کچھ انگلیوں پر کیا پھر شمار
جنم پترا شاہ کا دیکھ کر
تُلا اور بِرچھک پہ کر کر نظر
کہا: رام جی کی ہے تم پر دیا


چندرما سا بالک ترے ہووے گا
نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن
نہ ہو گر خوشی، تو نہ ہوں برہمن
مہاراج کے ہوں گے مقصد شتاب


کہ آیا ہے اب پانچواں آفتاب
نصیبوں نے کی آپ کے یاوری
کہ آئی ہے اب ساتویں مشتری
مقرر ترے، چاہیے، ہو پسر


کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر
وہ لیکن مقدر ہے کچھ اور بھی
کہ ہیں اس بھلے میں، برے طور بھی
یہ لڑکا تو ہو گا، ولے کیا کہیں


خطر ہے اسے بارھویں برس میں
نہ آوے یہ خورشید بالائے بام
بلندی سے خطرہ ہے اس کو تمام
نہ نکلے یہ بارہ برس رشک مہ


رہے برج میں یہ مہ چاردہ
کہا شہ نے یہ سن کے، ان کے تئیں
کہو، جی کا خطرہ تو اس کو نہیں؟
کہا: جان کی سب طرح خیر ہے


مگر دشت غربت کی کچھ سیر ہے
کوئی اس پہ عاشق ہو جن و پری
کوئی اس کی معشوق ہو استری
کچھ ایسا نکلتا ہے پوتھی میں اب


خرابی ہو اس پر کسی کے سبب
ہوئی کچھ خوشی شہ کو اور کچھ الم
کہ دنیا میں توام ہیں شادی و غم
کہا شہ نے: اس پر نہیں اعتبار


جو چاہے کرے میرا پروردگار
یہ فرما، محل میں در آمد ہوئے
منجم وہاں سے بر آمد ہوئے
خدا پر زبس اس کا تھا اعتقاد


لگا مانگنے اپنی حق سے مراد
خدا سے لگا کرنے وہ التجا
لگا آپ مسجد میں رکھنے دیا
نکالا مرادوں کا آخر سراغ


لگائی ادھر لَو، تو پایا چراغ
سحاب کرم نے کیا جو اثر
ہوئی کشت امید کی بارور
اسی سال میں، یہ تماشا سنو


رہا حمل اک زوجۂ شاہ کو
جو کچھ دل پہ گزرے تھے رنج و تعب
مبدّل ہوئے وے خوشی ساتھ سب
خوشی سے پلا مجھ کو ساقی! شراب


کوئی دم میں بجتا ہے چنگ و رباب
کروں نغمۂ تنہنیت کو شروع
کہ اک نیک اختر کرے ہے طلوع
داستان تولد ہونے کی شاہ زادہ بے نظیر کے


گئے نو مہینے جب اس پر گزر
ہوا گھر میں شہ کے تولد پسر
عجب صاحب حسن پیدا ہوا
جسے مہرومہ دیکھ شیدا ہوا


نظر کو نہ ہو حسن پر اُس کے تاب
اسے دیکھ، بے تاب ہو آفتاب
ہوا وہ جو اُس شکل سے دل پذیر
رکھا نام اس کا شہ بے نظیر


خواصوں نے، خواجہ سراؤں نے جا
کئی نذریں گزرانیاں اور کہا
مبارک تجھے اے شہ نیک بخت!
کہ پیدا ہوا وارث تاج و تخت


سکندر نژاد اور دارا حشم
فلک مرتبت اور عطارد رقم
رہے اس کے اقلیم زیر نگیں
غلامی کریں اس کی خاقان چیں


یہ سنتے ہی مژدہ، بچھا جا نماز
کیے لاکھ سجدے، کہ اے بے نیاز!
تجھے فضل کرتے نہیں لگتی بار
نہ ہو تجھ سے مایوس، امید دار


دوگانہ غرض شکر کا کر ادا
تہیہ کیا شاہ نے جشن کا
وے نذریں خواصوں کی، خوجوں کی لے
انہیں خلعت و زر کا انعام دے


کہا: جاؤ، جو کچھ کہ درکار ہو
کہو خانساماں سے تیار ہو
نقیبوں کو بلوا کے یہ کہ دیا
کہ نقار خانے میں دو حکم جا


کہ نوبت خوشی کی بجاویں تمام
خبر سن کے یہ شاد ہوں خاص و عام
یہ مژدہ جو پہنچا، تو نقارچی
لگا ہر جگہ بادلا اور زری


بنا ٹھاٹھ نقار خانے کا سب
مہیا کر اسباب عیش و طرب
غلاف اس پہ بانات پر زر کے ٹانک
شتابی سے نقاروں کو سینک سانک


دیا چوب کو پہلے بم سے ملا
لگی پھیلنے ہر طرف کو صدا
کہا زیر سے بم نے بہر شگوں
کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں


بجے شادیانے جو واں اس گھڑی
ہوئی گرد و پیش آ کے خلقت کھڑی
بہم مل کے بیٹھے جو شہنا نواز
بنا منہ سے پھرکی، لگا اس پہ ساز


سروں پر وے سر پیچ معمول کے
خوشی سے، ہوئے گال گل، پھول کے
لگے لینے اپجیں خوشی سے نئی
اڑانا لگا بجنے اور سگھڑئی


ٹکوروں میں نوبت کے شہنا کی دھن
سگھڑ سننے والوں کو کرتی تھی سن
ترھی اور قرنائے شادی کے دم
لگے بھرنے زیل اور کھرج میں بہم


سنی جھانجھ نے جو خوشی کی نوا
تھرکنے لگا، تالیوں کو بجا
نئے سر سے عالم کو عشرت ہوئی
کہ لڑکے کے ہونے کی نوبت ہوئی


محل سے لگا تابہ دیوان عام
عجب طرح کا اک ہوا ازدحام
چلے لے کے نذریں وزیر و امیر
لگے کھینچنے زر کے تودے فقیر


دیے شاہ نے شاہزادے کے نانو
مشائخ کو اور پیر زادوں کو گانو
امیروں کو جاگیر، لشکر کو زر
وزیروں کو الماس و لعل و گہر


خواصوں کو، خوجوں کو جوڑے دیے
پیادے جو تھے، ان کو گھوڑے دیے
خوشی سے کیا یاں تلک زر نثار
جسے ایک دینا تھا، بخشے ہزار


کیا بھانڈ اور بھکتیوں نے ہجوم
ہوئی ’’آہے آہے مبارک‘‘ کی دھوم
لگا کنچنی، چونا پزنی تمام
کہاں تک میں لوں نرت کاروں کا نام


جہاں تک کہ سازندے تھے ساز کے
دھنی دست کے اور آواز کے
جہاں تک کہ تھے گایک اور تنت کار
لگے گانے اور ناچنے ایک بار


لگے بجنے قانون و بین و رباب
بہا ہر طرف جوئے عشرت کا آب
لگی تھاپ طبلوں پہ مردنگ کی
صدا اونچی ہونے لی چنگ کی


کمانچوں کو، سارنگیوں کو بنا
خوشی سے ہر اک ان کی تربیں ملا
لگا تار پر موم مرچنگ کے
ملا سر طنبوروں کے یک رنگ کے


ستاروں کے پردے بنا کر درست
بجانے لگے سب وے چالاک و چست
گئی بائیں کی آسماں پر گمک
اٹھا گنبد چرخ سارا دھمک


خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط
لگے ناچنے اس پہ اہل نشاط
کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے
دو پانوں میں گھنگرو جھنکتے ہوئے


وہ گھٹنا، وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ
دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
دو بالے چمکتے ہوئے کان میں
پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں


کبھی دل کو پاؤں سے مل ڈالنا
نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا
دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا
کبھی اپنی انگیا کو لینا چھپا


کسی کے وہ مکھڑے پہ نتھ کی پھبن
کسی کے چمکتے ہوئے نورتن
وہ دانتوں کی مسی، وہ گل برگ تر
شفق میں عیاں جیسے شام و سحر


وہ گرمی کے چہرے، کہ جوں آفتاب
جسے دیکھ کر دل کو ہو اضطراب
چمکنا گلوں کا صفا کے سبب
وہ گردن کے ڈورے قیامت، غضب


کبھی منہ کے تئیں پھیر لینا ادھر
کبھی چوری چوری سے کرنا نظر
دوپٹے کو کرنا کبھی منہ کی اوٹ
کہ پردے میں ہو جائیں دل لوٹ پوٹ


ہر اک تان میں ان کو ارمان یہ
کہ دل لیجئے تان کی جان یہ
کوئی فن میں سنگیت کے شعلہ رو
برم، جوگ، لچھمی کی لے، پر ملو


کوئی ڈیڑھ گت ہی میں پانوں تلے
کھڑی عاشقوں کے دلوں کو ملے
کوئی دائرے میں بجا کر پرن
کوئی ڈھمڈھمی میں دکھا اپنا فن


غرض ہر طرح دل کو لینا انہیں
نئی طرح سے داغ دینا انہیں
کبھی مار ٹھوکر، کریں قتل عام
کبھی ہاتھ اٹھا، لیویں گرتے کو تھام


کہیں دھرپت اور گیت کا شور و غل
کہیں قول و قلبانہ و نقش و گل
کہیں بھانڈ کے ولولوں کا سماں
کہیں ناچ کشمیریوں کا وہاں


منجیرا، پکھاوج، گلے ڈال ڈھول
بجاتے تھے اس جا کھڑے، باندھ غول
محل میں جو دیکھو تو اک ازدحام
مبارک سلامت کی تھی دھوم دھام


وہاں بھی تو تھی عیش و عشرت کی دھوم
پری پیکروں کا ہر اک جا ہجوم
چھٹی تک غرض تھی خوشی ہی کی بات
کہ دن عید اور رات تھی شب برات


بڑھے ابر ہی ابر میں جوں ہلال
محل میں لگا پلنے وہ نو نہال
برس گانٹھ جس سال اس کی ہوئی
دل بستگاں کی گرہ کھل گئی


وہ گل جب کہ چوتھے برس میں لگا
بڑھایا گیا دودھ اس ماہ کا
ہوئی تھی جو کچھ پہلے شادی کی دھوم
اسی طرح سے پھر ہوا وہ ہجوم


طوائف وہی اور وہی راگ و رنگ
ہوئی بلکہ دونی خوشی کی ترنگ
وہ گل پانو سے اپنے جس جا چلا
وہاں آنکھ کو نرگسوں نے ملا


لگا پھرنے وہ سرو جب پانو پانو
کیے بَردے آزاد تب اس کے نانو
داستان تیاری میں باغ کی
مے ارغوانی پلا ساقیا!


کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا
دیا شہ نے ترتیب اک خانہ باغ
ہوا رشک سے جس کے، لالے کو داغ
عمارت کی خوبی، دروں کی وہ شان


لگے جس میں زر بفت کے سا یبان
چقیں اور پردے بندھے زر نگار
دروں پر کھڑی دست بستہ بہار
کوئی دور سے در پر اٹکا ہوا


کوئی زہ پہ خوبی سے لٹکا ہوا
وہ مقیش کی ڈوریاں سر بہ سر
کہ مہ کا بندھا جس میں تار نظر
چقوں کا تماشا، تھا انکھوں کا جال


نگہ کو وہاں سے گزرنا محال
سنہری، مغرق چھتیں ساریاں
وہ دیوار اور در کی گل کاریاں
دیے چار سو آئنے جو لگا


گیا چوگنا لطف اس میں سما
وہ مخمل کا فرش اس میں ستھرا کہ بس
بڑھے جس کے آگے نہ پاے ہوس
رہیں لخلخے اس میں روشن مدام


معطر شب و روز جس سے مشام
چھپر کھٹ مرصع کا دالان میں
چمکتا تھا اس طرح ہر آن میں
زمیں پر تھی اس طور اس کی جھلک


ستاروں کی جیسے فلک پر چمک
زمیں کا کروں دھاں کی کیا میں بیا ں
کہ صندل کا اک پارچہ تھا عیاں
بنی سنگ مر مر سے چو پڑ کی نہر


گئی چارسو، اس کے پانی کی لہر
قرینے سے گرد اس کے سروسہی
کچھ اک دور دور اس سے سیب و بہی
کہوں کیا میں کیفیت دار بست


لگائے رہیں تاک وہاں مے پرست
ہواے بہاری سے گل لہلہے
چمن سارے شاداب اور ڈہڈ ہے
زمرد کی مانند سبزے کا رنگ


روش کا، جواہر ہوا جس سے سنگ
روش کی صفائی پہ بے اختیار
گل اشرفی نے کیا زر نثار
چمن سے بھرا باغ، گل سے چمن


کہیں نرگس و گل، کہیں یاسمن
چنبیلی کہیں اور کہیں موتیا
کہیں راے بیل اور کہیں موگرا
کھڑے شاخ شبو کے ہر جانشان


مدن بان کی اور ہی آن بان
کہیں ارغواں اور کہیں لالہ زار
جدی اپنے موسم میں سب کی بہار
کہیں چاندنی میں گلوں کی بہار


ہر اک گل سفیدی سے مہتاب وار
کھڑے سرو کی طرح چمپے کے جھاڑ
کہے تو کہ خوش بوئیوں کے پہاڑ
کہیں زرد نسریں، کہیں نسترن


عجب رنگ پر زعفرانی چمن
پڑی آبجو، ہر طرف کو بہے
کریں قمریاں سرو پر چہچہے
گلوں کا لب نہر پر جھومنا


اسی اپنے عالم میں منہ چومنا
وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر
نشے کا سا عالم گلستان پر
لیے بیلچے ہاتھ میں مالنے


چمن کو لگیں دیکھنے بھالنے
کہیں تخم پاشی کریں کھود کر
پنیری جماویں کہیں گود کر
کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال


رہیں ہاتھ جوں مست گردن پہ ڈال
لب جو کے آئینے میں دیکھ قد
اکڑنا کھڑے سرو کا جد نہ تد
خراماں صبا صحن میں چار سو


دماغوں کو دیتی پھرے گل کی بو
کھڑے نہر پر قاز اور قر قرے
لیے ساتھ مرغابیوں کے پرے
صدا قر قروں کی، بطوں کا وہ شور


درختوں پہ بگلے، منڈیروں پہ مور
چمن آتش گل سے دہکا ہوا
ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا
صبا جو گئی ڈھیریاں کر کے بھول


پڑے ہر طرف مونسریوں کے پھول
وہ کیلوں کی اور مونسریوں کی چھانو
لگی جائیں آنکھیں لیے جن کا نانو
خوشی سے گلوں پر سدا بلبلیں


تعشق کی آپس میں باتیں کریں
درختوں نے برگوں کے کھولے ورق
کہ لیں طوطیاں بوستاں کا سبق
سماں قمریاں دیکھ اس آن کا


بڑھیں باب پنجم گلستان کا
دوا، دائیاں اور مغلانیاں
پھریں ہر طرف اس میں جلوہ کناں
خواصوں کا اور لونڈیوں کا ہجوم


محل کی وہ چہلیں، وہ آپس کی دھوم
تکلف کے پہنے پھریں سب لباس
رہیں رات دن شاہ زادے کے پاس
کنیزان مہ رو کی ہر طرف ریل


چنبیلی کوئی اور کوئی راے بیل
شگوفہ کوئی اور کوئی کام روپ
کوئی چت لگن اور کوئی سیام روپ
کوئی کیتکی اور کوئی گلاب


کوئی مہ رتن اور کوئی ماہتاب
کوئی سیوتی اور ہنس مکھ کوئی
کوئی دل لگن اور تن سکھ کوئی
ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں


پھریں اپنے جوبن میں اتراتیاں
کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں
کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں
کہیں اپنی پٹی سنوارے کوئی


اری اور تری کہہ پکارے کوئی
بجاتی پھرے کوئی اپنے کڑے
کہیں ’’ہوئے رے‘‘ اور کہیں ’’واچھڑے‘‘
دکھاوے کوئی گو کھرو موڑ موڑ


کہیں سوت بونٹی، کہیں تار توڑ
ادا سے کوئی بیٹھی حقہ پیے
دم دوستی کوئی بھر بھر جیے
کوئی حوض میں جاکے غوطہ لگائے


کوئی نہر پر پانو بیٹھی ہلائے
کوئی اپنے توتے کی لیوے خبر
کوئی اپنی مینا پہ رکھے نظر
کسی کو کوئی دھول مارے کہیں


کوئی جان کو اپنی وارے کہیں
کوئی آرسی اپنے آگے دھرے
ادا سے کہیں بیٹھی کنگھی کرے
مقابا کوئی کھول مسی لگائے


لبوں پر دھڑی کوئی بیٹھی جمائے
ہوا ان گلوں سے دوبالا سماں
اسی باغ میں یہ بھی باغ رواں
غرض لوگ تھے یہ جو ہر کام کے


سو سب واسطے اس کے آرام کے
پلا جب وہ اس ناز و نعمت کے ساتھ
پدر اور مادر کی شفقت کے ساتھ
ہوئی اس کے مکتب کی شادی عیاں


ہوا پھر انہیں شادیوں کا سماں
معلم، اتالیق، منشی، ادیب
ہر اک فن کے استاد بیٹھے قریب
کیا قاعدے سے شروع کلام


پڑھانے لگے علم اس کو تمام
دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا
کئی برس میں علم سب پڑھ چکا
معانی و منطق، بیان و ادب


پڑھے اس نے منقول و معقول سب
خبردار حکمت کے مضمون سے
غرض جو پڑھا اس نے، قانون سے
لگا ہیئت و ہندسہ تا نجوم


زمیں آسماں میں پڑی اس کی دھوم
کیے علم نوک زباں حرف حرف
اسی نحوسے عمر کی اس نے صرف
عطارد کو اس کی لگی آنے ریس


ہوا سادہ لوحی میں وہ خوش نویس
ہوا جب کہ نو خط وہ شیریں رقم
بڑھا کر لکھے سات سے، نو قلم
لیا ہاتھ جب خامۂ مشک بار


لکھا نسخ و ریحان و خط غبار
عروس الخطوط اور ثلث و رقاع
خفی و جلی مثل خط شعاع
شکستہ لکھا اور تعلیق جب


رہے دیکھ، حیراں، اتالیق سب
کیا خط گلزار سے جب فراغ
ہوا صفحۂ قطعہ، گلزار باغ
کروں علم کو اس کے کیا میں عیاں


کروں مختصر یاں سے اب یہ بیاں
کماں کے جو درپے ہوا بے نظیر
لیا کھینچ چلے میں سب فن تیر
صفائی میں سو فار، پیکاں کیا


گیا جب کہ تودے پہ، طوفاں کیا
رکھا چھوٹتے ہی جو لکڑی پہ من
لیا اپنے قبضے میں سب اس کا فن
ہوئیں دست و بازو کی سر سائیاں


اڑائیں کئی ہاتھ میں گھائیاں
رکھا موسیقی پر بھی کچھ جو خیال
کیے قید سب اس نے ہاتھوں میں تال
طبیعت گئی کچھ جو تصویر پر


رکھے رنگ سب اس نے مد نظر
کئی دن میں سیکھا یہ کسب تفنگ
کہ حیراں ہوئے دیکھ، اہل فرنگ
سو ان کمالوں کے، کتنے کمال


مروت کی خو، آدمیت کی چال
رذالوں سے، نفروں سے نفرت اسے
غرض قابلوں ہی سے صحبت اسے
گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر


ہر اک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر
داستان سواری کی تیاری کے حکم میں
پلا ساقیا! مجھ کو اک جام مل
جوانی پر آیا ہے ایام گل


غنیمت شمر صحبت دوستاں
کہ گل پنج روز است در بوستاں
ثمر لے بھلائی کا، گر ہو سکے
شتابی سے بو لے، جو کچھ بو سکے


کہ رنگ چمن پر نہیں اعتبار
یہاں چرخ میں ہے خزان و بہار
پڑی جب گرہ بارہویں سال کی
کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی


کہا شہ نے بلوا نقیبوں کو شام
کہ ہوں صبح حاضر سبھی خاص و عام
سواری تکلف سے تیار ہو
مہیا کریں، جو کہ درکار ہو


کریں شہر کو مل کے آئینہ ہند
سواری کا ہو لطف جس سے دو چند
رعیت کے خوش ہوں صغیر و کبیر
کہ نکلے گا کل شہر میں بے نظیر


یہ فرما، محل میں گئے بادشاہ
نقیبوں نے سن حکم، لی اپنی راہ
ہوئی شب، لیا مہ نے جام شراب
گیا سجدۂ شکر میں آفتاب


خوشی سے گئی جلد جو شب گزر
ہوئی سامنے سے نمایاں سحر
عجب شب تھی وہ جوں سحر روسپید
عجب روز تھا مثل روز امید


گیا مژدۂ صبح لے ماہتاب
اٹھا سورج آنکھوں کو ملتا شتاب
کہا شاہ نے اپنے فرزند کو
کہ بابا! نہا دھو کے تیار ہو


داستان حمام کے نہانے کی لطافت میں
پلا آتشیں آب پیر مغاں!
کہ بھولے مجھے گرم و سرد جہاں
اگر چاہتا ہے مرے دل کا چین


نہ دینا وہ ساغر جو ہو قلتین
کدورت مرے دل کی دھو ساقیا
ذرا شیشئہ مے کو دھو دھا کے لا
کہ سر گرم حمام ہے بے نظیر


گیا ہے نہانے کو ماہ منیر
ہوا جب کہ داخل وہ حمام میں
عرق آ گیا اس کے اندام میں
تن نازنیں نم ہوا س کا گل


کہ جس طرح ڈوبے ہے شبنم میں گل
پرستار، باندھے ہوئے لنگیاں
مہ و مہر سے طاس لے کر وہاں
لگے ملنے اس گل بدن کا بدن


ہوا ڈہڈہا آب سے وہ چمن
نہانے میں یوں تھی بدن کی دمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
لبوں پر جو پانی پھرا سر بہ سر


نظر آئے، جیسے دو گل برگ تر
ہوا قطرۂ آب یوں چشم بوس
کہے تو، پڑے جیسے نرگس پہ اوس
لگا ہونے ظاہر جو اعجاز حسن


ٹپکنے لگا اس سے انداز حسن
گیا حوض میں جو شہ بے نظیر
پڑا آب میں عکس ماہ منیر
وہ گورا بدن اور بال اس کے تر


کہے تو کہ ساون کی شام و سحر
نمی کا تھا بالوں کی عالم عجب
نہ دیکھی کوئی خوب تر اس سے شب
کہوں اس کی خوبی کی کیا تجھ سے بات


کہ جوں بھیگتی جاوے صحبت میں رات
زمیں پر تھا اک موجۂ نور خیز
ہوا جب وہ فوارہ ساں آب ریز
زمرد کے لے ہاتھ میں سنگ پا


کیا خادموں نے جو آہنگ پا
ہنسا کھلکھلا وہ گل نو بہار
لیا کھینچ پانوں کو بے اختیار
عجب عالم اس نازنیں پر ہوا


اثر گد گدی کا جبیں پر ہوا
ہنسا اس ادا سے کہ سب ہنس پڑے
ہوئے جی سے قربان چھوٹے بڑے
دعائیں لگے دینے بے اختیار


کہا: خوش رکھے تجھ کو پرور دگار
کہ تیری خوشی سے، ہے سب کی خوشی
مبارک تجھے روز و شب کی خوشی!
نہ آوے کبھی تیری خاطر پہ میل


چمکتا رہے یہ فلک کا سہیل
کیا غسل جب اس لطافت کے ساتھ
اڑھا کھیس، لائے اسے ہاتھوں ہاتھ
نہا دھو کے نکلا وہ گل اس طرح


کہ بدلی سے نکلے ہے مہ جس طرح
غرض شاہ زادے کو نہلا دھلا
دیا خلعت خسروانہ پنہا
جواہر سراسر پنہایا اسے


جواہر کا دریا بنایا اسے
لڑی، لٹکن اور کلغی اور نورتن
عدد ایک سے ایک زیب بدن
مرصع کا سر پیچ جوں موج آب


مصفّا بہ شکل گل آفتاب
وہ موتی کے مالے بہ صد زیب و زین
کہیں جس کو آرام جاں، دل کا چین
جواہر کا تن پر عجب تھا ظہور


کہ ایک ایک عدد اس کا، تھا کوہ طور
غرض ہو کے اس طرح آراستہ
خراماں ہوا سرو نوخاستہ
نکل گھر سے جس دم ہوا وہ سوار


کیے خوان گوہر کے اس پر نثار
زبس تھا سواری کا باہر ہجوم
ہوا جب کہ ڈنکا، پڑی سب میں دھوم
برابر برابر کھڑے تھے سوار


ہزاروں ہی تھی ہاتھیوں کی قطار
سنہری، رپہری تھیں عماریاں
شب و روز کی سی طرح داریاں
چمکتے ہوئے بادلوں کے نشان


سواروں کے غٹ اور بھالوں کی شان
ہزاروں تھی اطراف میں پالکی
جھلا بور کی جگمگی نالکی
کہاروں کی زر بفت کی کرتیاں


اور ان کے دبے پانو کی پھرتیاں
بندھیں پگڑیاں تاش کی سر اوپر
چکا چوندھ میں جس سے آوے نظر
وہ ہاتھوں میں سونے کے موٹے کڑے


جھلک جس کی ہر ہر قدم پر پڑے
وہ ماہی مراتب، وہ تخت رواں
وہ نوبت، کہ دولھا کا جس سے سماں
وہ شہنائیوں کی صدا خوش نوا


سہانی وہ نوبت کی اس میں صدا
وہ آہستہ گھوڑوں پہ نقارچی
قدم با قدم بالباس زری
بجاتے ہوئے شادیا نے تمام


چلے آگے آگے ملے، شاد کام
سوار اور پیادے، صغیر و کبیر
جلو میں تمامی امیر و وزیر
وے نذریں کہ جس جس نے تھیں ٹھانیاں


شہ و شاہ زادے کو گزرانیاں
ہوئے حکم سے شاہ کے پھر سوار
چلے سب قرینے سے باندھے قطار
سجے اور سجائے سبھی خاص و عام


لباس زری میں ملبس تمام
طرق کے طرق اورپرے کے پرے
کچھ ایدھر ادھر، کچھ ورے، کچھ پرے
مرصع کے سازوں سے کوتل سمند


کہ خوبی میں روح الفرس سے دو چند
وہ فیلوں کی اور میگ ڈمبر کی شان
جھلکتے وہ مقیش کے سایبان
چلی پایۂ تخت کے ہو قریب


بہ دستور شاہانہ نپتی جریب
سواری کے آگے کیے اہتمام
لیے سونے روپے کے عاصے تمام
نقیب اور جلو دار اور چوبدار


یہ آپس میں کہتے تھے ہر دم پکار
اسی اپنے معمول و دستور سے
ادب سے تفاوت سے اور دور سے
یلو! نوجوانو! بڑھے جائیو


دو جانب سے باگیں لیے آئیو
بڑھے جائیں آگے سے، چلتے قدم
بڑھے عمر و دولت قدم با قدم
غرض اس طرح سے سواری چلی


کہے تو کہ باد بہاری چلی
تماشائیوں کا جدا تھا ہجوم
ہر اک طرف تھی ایک عالم کی دھوم
لگا قلعے سے شہر کی حد تلک


دکانوں پہ تھی بادلے کی جھلک
کیا تھا زبس شہر آئینہ بند
ہوا چوک کا لطف واں چار چند
منڈھے تھے تمامی سے دیوار و در


تمامی وہ تھا شہر، سونے کا گھر
رعیت کی کثرت، ہجوم سپاہ
گزرتی تھی رک رک کے ہر جانگاہ
ہوئے جمع کھوٹھوں پہ جو مردوزن


ہر اک سطح تھی جوں زمین چمن
یہ خالق کی سن قدرت کا ملہ
تماشے کو نکلی زن حاملہ
لگا لنج سے تا ضعیف و نحیف


تماشے کو نکلے وضیع و شریف
وحوشوں، طیوروں تلک بے خلل
پڑے آشیانوں سے اپنے نکل
نہ پہنچا جو اک مرغ قبلہ نما


سو وہ آشیانے میں تڑپھا کیا
زبس شاہ زادہ بہت تھا حسیں
ہوئے دیکھ عاشق کہین و مہیں
نظر جس کو آیا وہ ماہ تمام


کیا اس نے جھک جھک کے اس کو سلام
دعا شاہ کو دی کہ بار الٰہ!
سدا یہ سلامت رہے مہر و ماہ
یہ خوش اپنے مہ سے رہے شہر یار


کہ روشن رہے شہر، پروردگار!
غرض شہر سے باہر اک سمت کو
کوئی باغ تھا شہ کا، اس میں سے ہو
گھڑی چار تک خوب سی سیر کر


رعیت کو دکھلا کے اپنا پسر
اسی کثرت فوج سے ہو سوار
پھر اشہر کی طرف وہ شہر یار
سواری کو پہنچا گئی فوج، ادھر


گئے اپنی منزل میں شمس و قمر
جہاں تک کہ تھیں خادمان محل
خوشی سے وہ ڈیوڑھی تک آئیں نکل
قدم اپنے حجروں سے باہر نکال


لیا سب نے، آپیشوا، حال حال
بلائیں لگیں لینے سب ایک بار
کیا جی کو یک دست سب نے نثار
گیا جب محل میں وہ سر و رواں


بندھا ناچ اور راگ کا پھر سماں
پہر رات تک، پہنے پوشاک وہ
رہا ساتھ سب کے طرب ناک وہ
قضارا وہ شب، تھی شب چار دہ


پڑا جلوہ لیتا تھا ہر طرف مہ
نظارے سے تھا اس کے، دل کو سرور
عجب عالم نور کا تھا ظہور
عجب جوش تھا نور مہتاب کا


کہے تو کہ دریا تھا سیماب کا
ہوا شاہ زادے کا دل بے قرار
یہ دیکھی جو واں چاندنی کی بہار
کچھ آئی جو اس مہ کے جی میں ترنگ


کہا: آج کوٹھے پہ بچھے پلنگ
خواصوں نے جا شاہ سے عرض کی
کہ شہ زادے کی آج یوں ہے خوشی
ارادہ ہے کوٹھے پر آرام کا


کہ بھایا ہے عالم لب بام کا
کہا شہ نے: اب تو گئے دن نکل
اگر یوں ہے مرضی تو کیا ہے خلل
پر اتنا ہے، اس سے خبردار ہوں


جنھوں کی ہے چوکی، وہ بیدار ہوں
لب بام پر جب یہ سووے صنم
کریں سورۂ نور کو اس پہ دم
تمھارا مرا بول بالا رہے


یہ اس گھر کا قائم اجالا رہے
کہا تب خواصوں نے: حق سے امید
یہی ہے کہ ہم بھی رہیں رو سفید
پھریں حکم لے وہاں سے پھر شاہ کا


بچھونا کیا جا کے اس ماہ کا
قضارا وہ دن تھا اسی سال کا
غلط وہم ماضی میں تھا حال کا
سخن مولوی کا یہ سچ ہے قدیم


کہ آگے قضا کے، ہو احمق حکیم
پڑے اپنے اپنے جو سب عیش بیچ
نہ سوجھی زمانے کی کچھ اونچ نیچ
یہ جانا کہ یوں ہی رہے گا یہ دور


زمانے کا سمجھا انہوں نے نہ طور
کہ اس بے وفا کی نئی ہے ترنگ
یہ گرگٹ بدلتا ہے ہر دم میں رنگ
کرا بادۂ عیش درجام ریخت


کہ صد شام بر فرق صبحش نہ پیخت
نداری تعجب ز نیرنگ دہر
کہ آرد زیک حقہ تریاک و زہر
داستان شاہ زادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اڑا کر لے جانے کی


شتابی سے اٹھ ساقی بے خبر!
کہ چاروں طرف ماہ ہے جلوہ گر
بلوریں گلابی میں دے بھر کے جام
کہ آیا بلندی پہ ماہ تمام


جوانی کہاں اور کہاں پھر یہ سن
مثل ہےکہ ہے چاندنی چار دن
اگر مے کے دینے میں کچھ دیر ہے
تو پھر جان یہ تو کہ اندھیر ہے


وہ سونے کا جو تھا جڑاؤ پلنگ
کہ سیمیں تنوں کو ہو جس پر امنگ
کھنچی چادر ایک اس پہ شبنم کی صاف
کہ ہو چاندنی، جس صفا کی غلاف


دھرے اس پہ تکیے کئی نرم نرم
کہ مخمل کو ہو جس کے دیکھے سے شرم
کہاں تک کوئی اس کی خوبی کو پائے
جسے دیکھ، آنکھوں کو آرام آئے


کسے اس پہ کسنے وہ مقیش کے
کہ جھبوں میں تھے جس کے موتی لگے
سراسر ادقچے رزی باف کے
کہ تھے رشک آئینہ صاف کے


وہ گل تکیے اس کے جو تھے رشک ماہ
کہ ہر وجہ تھی ان کو خوبی میں راہ
کہوں اس کے گل تکیوں کا کیا بیاں
کہ بے وجہ رکھتا نہ تھا گال واں


کبھی نیند میں جب کہ ہوتا تھا وہ
تو رخسار رکھ اپنا، سوتا تھا وہ
چھپائے سے ہوتا نہ، حسن اس کا ماند
کہے تو، لگائے تھے مکھڑے پہ چاند


زبس نیند میں تھا جو وہ ہورہا
بچھونے پہ آتے ہی بس سورہا
وہ سویا جو اس آن سے بے نظیر
رہا پاسباں اس کا ماہ منیر


ہوا اس کے سونے پہ عاشق جو ماہ
لگا دی ادھر اپنی اس نے نگاہ
وہ مہ اس کے کوٹھے کا ہالا ہوا
غرض واں کا عالم دو بالا ہوا


وہ پھولوں کی خوش بو، وہ ستھرا پلنگ
جوانی کی نیند اور وہ سونے کا رنگ
جہاں تک کہ چوکی کے تھے باری دار
ہوا جو چلی، سو گئے ایک بار


غرض سب کو واں عالم خواب تھا
مگر جاگتا ایک مہتاب تھا
قضارا ہوا اک پری کا گزر
پڑی شاہ زادے پہ اس کی نظر


بھبھوکا سا دیکھا جو اس کا بدن
جلا آتش عشق سے اس کا تن
ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار
وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اتار


جو دیکھا، تو عالم عجب ہے یہاں
منور ہے سارا زمیں آسماں
دوپٹے کو اس مہ کے منہ سے اٹھا
دیا گال سے گال اپنا م

- meer-hasan


لکھ قلم پہلے حمد رب ودود
کہ ہر اک جا پہ ہے وہی موجود
ذات معبود جاودانی ہے
باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے


ہمسر اس کا نہیں ندیم نہیں
سب ہیں حادث کوئی قدیم نہیں
نعت
مدح احمد زباں پہ کیونکر آئے


بحر کوزے میں کس طرح سے سمائے
ذات احمد کو کوئی کیا جانے
یا علی جانے یا خدا جانے
منقبت


مدح حیدر میں کھولئے جو دہن
اس سے آگے نہیں ہے جائے سخن
کوئی حیدر کا مرتبہ سمجھا
کوئی بندہ کوئی خدا سمجھا


بیان عشق
ہے بنا جب سے گلشن ایجاد
ہوئی ہر شے ہر ایک کو امداد
رنگ خوبی عطا کیا گل کو


نالۂ و درد بخشا بلبل کو
ماہ کو نور لطف ہالے کو
چشم نرگس کو داغ لالے کو
راستی کی عطا صنوبر کو


پیچ سنبل کو آب گوہر کو
سختی ساری بتوں کے دل میں دی
الفت انساں کے آب و گل میں دی
عشق سے کون ہے بشر خالی


کر دیئے جس نے گھر کے گھر خالی
پڑتے ہیں اس میں جان کے لالے
ڈالتا ہے جگر میں بت خانے
جو کہ واقف تھے سب قرینوں سے


خاک چھنوائی ان حسینوں سے
اس سے امید رکھنا ہے بے جا
بھائی مجنوں سے کیا سلوک کیا
منہ سے کرنے نہ دی فغاں اس نے


مارے چن چن کے نوجواں اس نے
اس نے جس سے ذرا تپاک کیا
سب سے پہلے اسے ہلاک کیا
آتش ہجر سے رلاتا ہے


آگ پانی میں یہ لگاتا ہے
مار ڈالا تماش بینوں کو
زہر کھلوا دیا حسینوں کو
بس میں ڈالے نہ کبریا اس کے


رحم دل میں نہیں ذرا اس کے
آغاز داستان
ایک قصہ غریب لکھتا ہوں
داستان عجیب لکھتا ہوں


تازہ اس طرح کی حکایت ہے
سننے والوں کو جس سے حیرت ہے
جس محلے میں تھا ہمارا گھر
وہیں رہتا تھا ایک سوداگر


مرد اشراف صاحب دولت
تاجروں میں کمال ذی عزت
غم نہ تھا کچھ فراغ بالی سے
تھا بہت خاندان عالی سے


ایک دختر تھی اس کی ماہ جبیںؔ
شادی اس کی نہیں ہوئی تھی کہیں
ثانی رکھتی نہ تھی وہ صورت میں
غیرت حور تھی حقیقت میں


سبز نخل گل جوانی تھا
حسن یوسف فقط کہانی تھا
اس سن و سال پر کمال خلیق
چال ڈھال انتہا کی نستعلیق


چشم بد دور وہ حسیں آنکھیں
رشک چشم غزال چیں آنکھیں
تھا جو ماں باپ کو نظر کا ڈر
آنکھ بھر کر نہ دیکھتے تھے ادھر


تھی زمانے میں بے عدیل و نظیر
خوش گلو، خوش جمال خوش تقریر
تھا نہ اس شہر میں جواب اس کا
حسن لاکھوں میں انتخاب اس کا


شعر گوئی سے ذوق رہتا تھا
لکھنے پڑھنے کا شوق رہتا تھا
رخ پہ گیسو کی لہر آفت تھی
جو ادا اس کی تھی قیامت تھی


تھا یہ اس گل کا جامہ زیب بدن
سادی پوشاک میں تھے سو جوبن
سارا گھر اس پہ رہتا تھا قرباں
روح گر ماں کی تھی تو باپ کی جاں


نور آنکھوں کا دل کا چین تھی وہ
راحت جان والدین تھی وہ
پہلی نظر
ایک دن چرخ پر جو ابر آیا


کچھ اندھیرا سا ہر طرف چھایا
کھل گیا جب برس کے وہ بادل
قوس تب آسماں پہ آئی نکل
دل مرا بیٹھے بیٹھے گھبرایا


سیر کرنے کو بام پر آیا
خفقاں دل کا جو بہلنے لگا
اس طرف اس طرف ٹہلنے لگا
دیکھا اک سمت جو اٹھا کے نظر


سامنے تھی وہ دخت سوداگر
ساتھ ہجمولیاں بھی تھیں دو چار
دیکھتی تھیں وہ آسماں کی بہار
بام سے کچھ اترتی جاتی تھیں


چہلیں آپس میں کرتی جاتی تھیں
رہ گئی جب اکیلی وہ گل رو
نگراں سیر کو ہوئی ہر سو
ہوئی میری جو اس کی چار نگاہ


منہ سے بے ساختہ نکل گئی آہ
حال دل کا نہیں کہا جاتا
خوب سنبھلا، نہیں غش آ جاتا
نہ ہوا گو کلام فی ما بین


روح قالب میں ہو گئی بے چین
تیر الفت جو تھا لگا کاری
اشک بے ساختہ ہوئے جاری
سامنے وہ کھڑی تھی ماہ منیر


چپ کھڑا تھا میں صورت تصویر
تاب نظارہ اتنی لا نہ سکا
کہ اشارے سے بھی بلا نہ سکا
دیکھتا اس کو بار بار تھا میں


محو حسن و جمال یار تھا میں
گو میں روکے ہوئے ہزار رہا
دل پہ لیکن نہ اختیار رہا
اسی صورت سے ہو گئی جب شام


لائی پاس اس کے اک کنیز پیام
بیٹھی ناحق بھی ہولیں کھاتی ہیں
امی جان آپ کی بلاتی ہیں
گیسو رخ پر ہوا سے ہلتے ہیں


چلئے اب دونوں وقت ملتے ہیں
سن کے لونڈی کے منہ سے یہ پیغام
گئی کوٹھے کے نیچے وہ گلفام
اس کا جلوہ نہ جب نظر آیا


میں بھی روتا ہوا اتر آیا
شام سے پھر سحر کی مر مر کے
شب وہ کاٹی خدا خدا کر کے
اضطراب عاشق


پڑ گیا دل میں غم سے اک ناسور
یہی اس دن سے پڑ گیا دستور
دن میں سو بار بام پر جانا
دیکھنا بھالنا چلے آنا


جب نہ دیکھا وہاں پہ وہ گل رو
فرط غم سے نکل پڑے آنسو
لاکھ چاہا نہ ہو سکا دل سخت
پئے تسکیں رہی یہ آمد و رفت


گزرے کچھ دن تو رنج کے مارے
زر درخسار ہو گئے سارے
ہو گئی پھر تو ایسی حالت زار
جیسے برسوں کا ہو کوئی بیمار


دل کو تھی غم سے خود فراموشی
لگ گئی لب پہ مہر خاموشی
نہ رہا دل کو ضبط کا یارا
سر جہاں پایا دھڑ سے دے مارا


رنج لاکھوں طرح کے سہتے تھے
لب تھے خاموش اشک بہتے تھے
ہجر سے غیر ہوگئی حالت
غم سے بالکل بدل گئی صورت


ہوا حیران اپنا بیگانہ
جس نے دیکھا مجھے نہ پہچانا
ماں باپ کی فہمائش
دیکھے ماں باپ نے جو یہ انداز


روح قالب سے کر گئی پرواز
پوچھا مجھ سے یہ کیا ہے حال ترا
کس طرف ہے بندھا خیال ترا
سچ بتا دے کہ دھیان کس کا ہے


دل میں غم میری جان کسی کا ہے
رنج کس شعلہ رو کا کھاتے ہو
شمع کی طرح پگھلے جاتے ہو
زرد چہرہ ہے ارغواں کی طرح


ٹکڑے پوشاک ہے کتاں کی طرح
کون سی ماہ رو پہ مرتے ہو
سچ کہو کس کو پیار کرتے ہو
یہ کہو مہ جبیں ملا ہے کون؟


تم کو ایسا حسیں ملا ہے کون؟
کھاتے ہو پیتے ہو نہ سوتے ہو
روز اٹھ اٹھ کے شب کو روتے ہو
نہیں معلوم کون ہے وہ چھنال


کر دیا میرے لال کا یہ حال
میرے بچے کی جو کڑھائے جان
سات بار اس کو میں کروں قربان
اللہ آمیں سے ہم تو یوں پالیں


آپ آفت میں جاں کو یوں ڈالیں
تیرے پیچھے کی تلخ سب اوقات
دن کو دن سمجھی اور نہ رات کو رات
پالا کس کس طرح تمہیں جانی


کون منت تھی جو نہیں مانی
روشنی مسجدوں میں کرتی تھی
جا کے درگاہ چوکی بھرتی تھی
اب جو نام خدا جوان ہوئے


ایسے مختار میری جان ہوئے
ہاں میاں سچ ہے یہ خدا کی شان
تم کرو جان بوجھ کر ہلکان
ہم تو یوں پھونک پھونک رکھیں قدم


آپ دیتے پھریں ہر ایک پہ دم
ہم یہاں رنج و غم میں روتے ہیں
آپ غیروں پہ جان کھوتے ہیں
یوں مٹاؤ گے جان کر ہم کو


تھی نہ اس روز کی خبر ہم کو
دیکھتی ہوں جو تیرا حال زبوں
خشک ہوتا ہے میرے جسم کا خون
یوں تو برباد تو شباب نہ کر


مٹی ماں باپ کی خراب نہ کر
کچھ تو کہہ ہم سے اپنے قلب کا حال
کس کا بھایا ہے تجھ کو حسن و جمال
دل ہوا تیرا شیفتہ کس کا


سچ بتا ہے فریفتہ کس کا
کیسا دو دن میں جی نڈھال ہوا
دائی بندی کا کیا یہ حال ہوا
آئینہ تو اٹھا کے دیکھ ذرا


ست گیا دو ہی دن میں منہ کیسا
سدھ نہ کھانے کی ہے نہ پینے کی
کونسی پھر امید جینے کی
کس کی الفت میں ہے یہ حال کیا


کچھ نہ ماں باپ کا خیال کیا
دل پہ گزرا ہے کیا ملال تو کہہ
منہ سے ناشدنی اپنا حال تو کہہ
یوں ہی گر ہو گیا تو سودائی


دور پہونچے گی اس کی رسوائی
ایسے دیوانے کو بھرے گا کون؟
شادی اور بیاہ پھر کرے گا کون؟
کردیا کس نے ایسا آوارہ


کہ نہیں بنتا اب کوئی چارہ
آگے تو یہ نہ تھا ترا دستور
کس سے سیکھا ہے اس طرح کے امور
میرے تو دیکھ کر گئے اوسان


لیلیٰ مجنوں کے تونے کاٹے کان
باتیں یہ والدین کی سن کر
اور اک قلب پر لگا نشتر
شرم کے مارے منہ کو ڈھانپ لیا


کچھ نہ ماں باپ کو جواب دیا
گزرا یاں تک تو یہ ہمارا حال
اب بیان اس کا ہوتا ہے احوال
میں تو کھائے ہوئے تھا عشق کا تیر


پر ہوئی اس کے دل پہ بھی تاثیر
چھلکے آنکھوں کے دونوں پیمانے
دل لگا آپ ہی آپ گھبرانے
آتش عشق سے اٹھا جو دھواں


باتوں باتوں میں بڑھ گیا خفتاں
گوش فریاد قلب سننے لگے
خود بخود ہاتھ پاؤں دھننے لگے
درد و غم دل کو آ گیا جو پسند


سونا راتوں کا ہو گیا سوگند
موج الفت اسے ڈبونے لگی
ایک الجھن سی دل کو ہونے لگی
گھٹنے طاقت لگی جو روز بروز


آتش ہجر ہو گئی دل سوز
داغ جوں جوں جگر کے جلتے تھے
اشک گرم آنکھ سے نکلتے تھے
گرم نالے تھے لب پہ آہ سرد


دل میں ہوتا تھا میٹھا میٹھا درد
یوں تڑپتا تھا اس کے سینے میں دل
جس طرح لوٹے طائر بسمل
ہو گئی جب کمال حالت زار


جی میں باقی رہا نہ صبر و قرار
نامۂ حسن
لکھنے پڑھنے سے تھا جو اس کو ذوق
سو چ کر دل میں لکھا اک خط شوق


بھیجا مجھ کو وہ بے خطر نامہ
ڈر سے لکھا مگر نہ سرنامہ
ایک ماما نے آ کے چپکے سے
خط دیا ان کا ہاتھ میں میرے


کھول کر میں نے جو اسے دیکھا
کچھ عجب درد سے یہ لکھا تھا
ہو یہ معلوم تم کو بعد سلام
غم فرقت سے دل ہے بے آرام


اپنے کوٹھے پہ تو نہیں آتا
دل ہمارا بہت ہے گھبراتا
شکل دکھلا دے کبریا کے لئے
بام پر آ ذرا خدا کے لئے


اس محبت پہ ہو خدا کی مار
جس نے یوں کر دیا مجھے نا چار
سارے الفت نے کھو دیئے اوسان
ورنہ یہ لکھتی میں خدا کی شان


اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
جواب عشق
پڑھ کے میں نے لکھا یہ اس کو جواب


کیا لکھوں تم کو اپنا حال خراب
بن گئی یاں تو جان پر میری
خوب لی آپ نے خبر میری
ہجر میں مر کے زندگانی کی


اب بھی پوچھا تو مہربانی کی
جب سے دیکھا ہے آپ کا دیدار
دل سے جاتا رہا ہے صبر و قرار
روز تپ سے بخار رہتا ہے


سر پہ اک جن سوار رہتا ہے
تیرے قدموں کی ہوں قسم کھاتا
ہوش دو دو پہر نہیں آتا
پوچھتا ہے جو کوئی آ کے حال


اور ہوتا ہے میرے دل کو ملال
کہوں کس کس سے اس کہانی کو
آگ لگ جائے اس جوانی کو
ہوگئی ہے کچھ ایسی طاقت طاق


اٹھ نہیں سکتا بار رنج فراق
ہل کے پانی پیا نہیں جاتا
ورنہ حکم آپ کا بجا لاتا
پاتا طاقت جو طالب دیدار


بام پر آتا دن میں سو سو بار
پہنچا جس وقت سے ترا مکتوب
زندگی کا بندھا ہے کچھ اسلوب
رنج راحت سے گر بدل جائے


کیا عجب ہے جو دل سنبھل جائے
پیش قدمی جو تم نے کی مرے ساتھ
اس میں ذلت کی کون سی ہے بات
نہیں کچھ اس میں آپ کا ہے قصور


میری الفت کا یہ اثر ہے ضرور
عشق کا ہے اثر مرے واللہ
ورنہ تم لکھتیں یہ معاذ اللہ
تم تو وہ لوگ ہوتے ہو جلاد


نہیں سنتے کوئی کرے فریاد
ہو بلا سے کسی کا حال برا
کوئی مرجائے تم کو کیا پروا
نہیں ممکن تمہارا بل جائے


دم بھی عاشق کا گر نکل جائے
اب میں لکھتا ہوں آپ کو یہ حضور
وصل کی فکر چاہیئے ہے ضرور
اس میں غفلت جو تو نے کی اے ماہ


حال ہو گا مرا کمال تباہ
غیر ہے ہجر سے مری حالت
غم اٹھانے کی اب نہیں طاقت
دل پہ آفت عجیب آئی ہے


جان بچ جائے تو خدائی ہے
جان کو کس گھڑی قرار آیا
غش نے فرصت جو دی بخار آیا
تپش دل نے گر کیا ہشیار


وہم آنے لگے ہزار ہزار
دل کی وحشت نے کچھ جو مارا جوش
وہ بھی جاتے رہے جو آئے تھے ہوش
آشنا دوست آ گئے جو کبھو


جس نے دیکھا نکل پڑے آنسو
جھوٹ سمجھیں اسے حضور نہیں
جان جاتی رہے تو دور نہیں
مر گئے ہم تو رنج فرقت سے


پر خبر کی نہ اپنی حالت سے
اب جو بھیجی یہ آپ نے تحریر
ہے یہ لازم کہ وہ کرو تدبیر
سختیاں ہجر کی بدل جائیں


دل کی سب حسرتیں نکل جائیں
دے کے خط میں نے یہ کہا اس سے
جلد اس کا جواب لا اس سے
پہونچا جب اس تلک مرا مکتوب


ہنس کے بولی کہ واہ وا کیا خوب
جواب خط
پھر کیا یہ جواب میں تحریر
''کچھ قضا تو نہیں ہے دامن گیر''


ذکر ان باتوں کا یہاں کیا تھا
چھیڑنے کو ترے یہ لکھا تھا
ایسی باتیں تھیں کب یہاں منظور
تھا فقط تیرا امتحاں منظور


یہ تو لکھے تھے سب ہنسی کے کلام
ورنہ ان باتوں سے مجھے کیا کام
مجھ کو ایسی تھی کیا تری پروا
بام پر تو بلا سے آ کہ نہ آ


بات تھی یہ کمال عقل سے دور
جھوٹ لکھنے پہ ہوگئے مغرور
تم پہ مرتی میں کیا قیامت تھی
کیا مرے دشمنوں کی شامت تھی


میری جانب سے یہ گماں کیا خوب
جھوٹ جم جم سے ہے بہت مرغوب
یہ نہ سمجھا کہ ماجرا کیا ہے؟
یوں بھی کوئی کسی کو لکھتا ہے


کالا دانا ذرا اتر والو
رائی لون اس سمجھ پہ کر ڈالو
تجھ پہ مرتے بھی گر مرے بد خواہ
یوں نہ لکھتی کبھی معاذ اللہ


جان پا پوش سے نکل جاتی
پر طبیعت نہ یوں بدل جاتی
ایسی باتوں میں ہوتا ہے بدنام
اب نہ لکھیئے گا اس طرح کے کلام


رنج آ جاتا ہے اسی کد سے
نہ بڑھے آدمی کبھی حد سے
کیا سمجھ کر لکھا تھا یہ مضمون
اچھی ہوتی نہیں ہے اتنی دون


جی میں ٹھانی ہے کیا بتاؤ تو؟
خانگی کسبی کوئی سمجھے ہو
مال زادی نہیں یہاں کوئی
جو کرے تم سے گرمیاں کوئی


دیکھ تحریر فیل لائے آپ
خوب جلدی مزے میں آئے آپ
طالب وصل جو ہوئے ہم سے
ہے گا سادہ مزاج جم جم سے


وصال دوست
رہی کچھ روز تو یہی تحریر
پھر موافق ہوئی مری تقدیر
ہوئے اس گل سے وصل کے اقرار


اٹھ گئی درمیاں سے سب تکرار
جو کہا تھا ادا کیا اس نے
وعدہ اک دن وفا کیا اس نے
رات بھر میرے گھر میں رہ کے گئی


صبح کے وقت پھر یہ کہہ کے گئی
بات اس دم کی یاد رکھئے گا
ایک دن یہ مزا بھی چکھئے گا
بگڑے گی جب نہ کچھ بن آئے گی


آپ کے پیچھے جان جائے گی
لو مری جان جاتی ہوں اب تو
یاد رکھئے گا میری صحبت کو
جو خدا پھر ملائے گا تم سے


تو کہوں گی میں حال آ تم سے
سن کے میں نے دیا یہ اس کو جواب
نہ کرو دل کو اس قدر بے تاب
کہتی تم کیا ہو یہ خدا نہ کرے


یہ ستم ہووے کبریا نہ کرے
عمر بھر ہم وفا نہ توڑیں گے
زندگی بھر نہ منہ کو موڑیں گے
پیار کرتی جو تھی وہ غیرت حور


رکھا ملنے کا اس نے یہ دستور
پنج شنبہ کو جاتی تھی درگاہ
واں سے آتی تھی میرے گھر وہ ماہ
عیش ہونے لگے مرے ان کے


غیر جلنے لگے یہ سن سن کے
آتش ہجر
اتفاق ایسا پھر ہوا ناگاہ
دو مہینے تلک نہ آئی وہ ماہ


قطع سب ہو گئے پیام و سلام
نہ رہی شکل راحت و آرام
طبع کو ہو گئی پریشانی
عقل کو تھی عجیب حیرانی


دل کو تشویش تھی یہ حد سے زیاد
دفعتاً پڑ گئی یہ کیا افتاد
تھی نہ مجھ سے یہاں کسی کو لاگ
کس نے اس طرح کی لگائی آگ


دل میں کس نے یہ اس کے بل ڈالا
جو مرے عیش میں خلل ڈالا
کچھ تو ایسا ہوا ہے افسانہ
جو یہاں تک نہ ہو سکا آنا


نہیں معلوم کیا پڑی افتاد
جو فراموش کی ہماری یاد
کون ایسا ہے جائے گھر اس کے
کس کو بھیجوں مکان پر اس کے


کیوں نہ بیزار ہوں میں جینے سے
نہیں دیکھا ہے دو مہینے سے
جان آنکھوں میں کھنچ کے آئی ہے
اب نہیں طاقت جدائی ہے


کرلیا ہو سکا جہاں تک صبر
اب کہو دل کرے کہاں تک صبر
دو مہینے نہ دیکھے جب گل کو
چین کس طرح آئے بلبل کو


رات پھر کس طرح گزاری جائے
کسی طرح دل کی بے قراری جائے
طبع کس طرح پھر بہل جائے
جسم سے روح جب نکل جائے


آخری ملاقات
آئی نوچندی اتنے میں ناگاہ
اس بہانے سے آئی وہ درگاہ
بس کہ مرتی تھی نام پر میرے


چھپ کے آئی وہاں سے گھر میرے
تھی نہ فرصت جو اشکباری سے
اتری روتی ہوئی سواری سے
پھر لپٹ کر مرے گلے اک بار


حال کرنے لگی وہ یوں اظہار
اقربا میرے ہوگئے آگاہ
تم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہ
مشورے یہ ہوئے ہیں آپس میں


بھیجتے ہیں مجھے بنارس میں
وہ چھٹے ہم سے جس کو پیار کریں
جبر کیونکر یہ اختیار کریں
گو ٹھکانے نہیں ہیں ہوش و حواس


پر یہ کہنے کو آئی ہوں ترے پاس
آخری التماس
جائے عبرت سرائے فانی ہے
مورد مرگ ناگہانی ہے


اونچے اونچے مکان تھے جن کے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
کل جہاں پر شگوفہ و گل تھے
آج دیکھا تو خار بالکل تھے


جس چمن میں تھا بلبلوں کا ہجوم
آج اس جا ہے آشیانۂ بوم
بات کل کی ہے نوجواں تھے جو
صاحب نوبت و نشاں تھے جو


آج خود ہیں نہ ہے مکاں باقی
نام کو بھی نہیں نشاں باقی
غیرت حورمہ جبیں نہ رہے
ہیں مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے


جو کہ تھے بادشاہ ہفت اقلیم
ہوئے جا جا کے زیر خاک مقیم
کوئی لیتا نہیں اب اس کا نام
کون سی گور میں گیا بہرام


اب نہ رستم نہ سام باقی ہے
اک فقط نام نام باقی ہے
کل جو رکھتے تھے اپنے فرق پہ تاج
آج ہیں فاتحہ کو وہ محتاج


تھے جو خود سر جہان میں مشہور
خاک میں مل گیا سب ان کا غرور
عطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے
نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے


گردش چرخ سے ہلاک ہوئے
استخواں تک بھی ان کے خاک ہوئے
تھے جو مشہور قیصر و مغفور
باقی ان کا نہیں نشان قبور


تاج میں جن کے ٹکتے تھے گوہر
ٹھوکریں کھاتے ہیں وہ کاسۂ سر
رشک یوسف جو تھے جہاں میں حسیں
کھا گئے ان کو آسمان و زمیں


ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے
یہی دنیا کا کارخانہ ہے
ہے نہ شیریں نہ کوہکن کا پتا
نہ کسی جا ہے نل دمن کا پتا


بوئے الفت تمام پھیلی ہے
باقی اب قیس ہے نہ لیلی ہے
صبح کو طائران خوش الحان
پڑھتے ہیں کل من علیہا فان


موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
زندگی بے ثبات ہے اس میں
موت عین حیات ہے اس میں


ہم بھی گر جان دے دیں کھا کر سم
تم نہ رونا ہمارے سر کی قسم
دل کو ہمجولیوں میں بہلانا
یا مری قبر پر چلے آنا


جا کے رہنا نہ اس مکان سے دور
ہم جو مرجائیں تیری جان سے دور
روح بھٹکے گی گر نہ پائے گی
ڈھونڈھنے کس طرف کو جائے گی


روکے رہنا بہت طبیعت کو
یاد رکھنا مری وصیت کو
ضبط کرنا اگر ملال رہے
میری رسوائی کا خیال رہے


میرے مرنے کی جب خبر پانا
یوں نہ دوڑے ہوئے چلے آنا
جمع ہولیں سب اقربا جس دم
رکھنا اس وقت تم وہاں پہ قدم


کہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تم
ساتھ تابوت کے نہ رونا تم
ہو گئے تم اگرچہ سودائی
دور پہونچے گی میری رسوائی


لاکھ تم کچھ کہو نہ مانیں گے
لوگ عاشق ہمارا جانیں گے
طعنہ زن ہوں گے سب غریب و امیر
قبر پر بیٹھنا نہ ہو کے فقیر


سامنا ہو ہزار آفت کا
پاس رکھنا ہماری عزت کا
جب جنازہ مرا عزیز اٹھائیں
آپ بیٹھے وہاں نہ اشک بہائیں


میری منت پہ دھیان رکھئیے گا
بند اپنی زبان رکھئے گا
تذکرہ کچھ نہ کیجئے گا مرا
نام منہ سے نہ لیجئے گا مرا


اشک آنکھوں سے مت بہائیے گا
ساتھ غیروں کی طرح جائیے گا
آپ کاندھا نہ دیجئے گا مجھے
سب میں رسوا نہ کیجئے گا مجھے


رنگ دل کے بدل نہ جائیں کہیں
منہ سے نالے نکل نہ جائیں کہیں
ساتھ چلنا نہ سر کے بال کھلے
تا کسی شخص پر نہ حال کھلے


ہوتے آتش کے ہیں یہ پر کالے
تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے
ہو بیاں گر کسی جگہ مرا حال
تم نہ کرنا کچھ اس طرف کو خیال


ذکر سن کر مرا نہ رو دینا
میری عزت نہ یوں ڈبو دینا
رنج فرقت مرا اٹھا لینا
جی کسی اور جا لگا لینا


ہوگا کچھ میری یاد سے نہ حصول
دل کو کر لینا اور سے مشغول
رنج کرنا نہ میرا میں قربان
سن لو گر اپنی جان ہے تو جہان


دے نہ اس کو خدا کبھی کوئی درد
ہو تا نازک کمال ہے دل مرد
دل میں کڑھنا نہ مجھ سے چھوٹ کے تو
رونا مت سینہ کوٹ کوٹ کے تو


آ کے رو لینا میری قبر کے پاس
تا نکل جائے تیرے دل کی بھڑاس
آنسو چپکے سے دو بہا لینا
قبر میری گلے لگا لینا


اگر آ جائے کچھ طبیعت پر
پڑھنا قرآن میری تربت پر
غنچۂ دل مرا کھلا جانا
پھول تربت پہ دو چڑھا جانا


رو کے کرنا نہ اپنا حال زبوں
تا نہ ہو جائے دشمنوں کو جنوں
دیکھئے کس طرح پڑے گی کل
سخت ہوتی ہے منزل اول


میرے مرقد پہ روز آنا تم
فاتحہ سے نہ ہاتھ اٹھانا تم
ہے یہ حاصل سب اتنی باتوں سے
مٹی دینا تم اپنے ہاتوں سے


عمر بھر کون کس کو روتا ہے
کون صاحب کسی کا ہوتا ہے
کبھی آ جائے گر ہمارا دھیان
جاننا ہم پہ ہو گئی قربان


دل میں کچھ آنے دیجیو نہ ملال
خواب دیکھا تھا کیجیو یہ خیال
رنج و راحت جہاں میں تو ام ہے
کہیں شادی ہے اور کہیں غم ہے


ہے کسی جا پہ جشن شام و پگاہ
ہے کسی جا صدائے نالہ و آہ
مرگ کا کس کو انتظار نہیں
زندگی کا کچھ اعتبار نہیں


پھر ملاقات دیکھیں ہو کہ نہ ہو
آج دل کھول کر گلے مل لو
خوب سا آج دیکھ بھال لو تم
دل کی سب حسرتیں نکال لو تم


آؤ اچھی طرح سے کر لو پیار
کہ نکل جائے کچھ تو دل کا بخار
دل میں باقی رہے نہ کچھ ارمان
خوب مل لو گلے سے میں قربان


حشر تک ہو گی پھر یہ بات کہاں
ہم کہاں تم کہاں یہ رات کہاں
کہہ لو سن لو جو کچھ کہ جی میں آئے
پھر خدا جانے کیا نصیب دکھائے


دل کو اپنے کرو ملول نہیں
رونے دھونے سے کچھ حصول نہیں
ہم کو گاڑے جو اپنے دل کو کڑھائے
ہم کو ہے ہے کرے جو اچک بہائے


عمر تم کو تو ہے ابھی کھینا
دن بہت سے پڑے ہیں رو لینا
باہیں دونوں گلے میں ڈال لو آج
جو جو ارمان ہوں نکال لو آج


پھر خدا جانے کیا مشیت ہے
اتنی صحبت بہت غنیمت ہے
کل کسے بیٹھ کر کرو گے پیار
کس کی لو گے بلائیں تم ہر بار


کل گلے سے کسے لگاؤ گے
یوں کسے گود میں بٹھاؤ گے
حال کس کا سنائے گی آ کر
کس کی ماما بلائے گی آ کر


ہم تو اٹھتے ہیں اس مکاں سے کل
اب تو جاتے ہیں اس جہاں سے کل
یاد اپنی تمہیں دلاتے جائیں
پان کل کے لئے لگاتے جائیں


ہو چکا آج جو کہ تھا ہونا
کل بسائیں گے قبر کا کونا
خاک میں ملتی ہے یہ صورت عیش
پھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت عیش


دیکھ لو آج ہم کو جی بھر کے
کوئی آتا نہیں ہے پھر مر کے
ختم ہوتی ہے زندگانی آج
خاک میں ملتی ہے جوانی آج


چپ رہو کیوں عبث بھی روتے ہو
مفت کاہے کو جان کھوتے ہو
سمجو اس شب کو شب برات کی رات
ہم ہیں مہماں تمہارے رات کی رات


چین دل کو نہ آئے گا تجھ بن
اب کے بچھڑے ملیں گے حشر کے دن
اب تم اتنی دعا کرو مری جان
کل کی مشکل خدا کرے آسان


پھل اٹھایا نہ زندگانی کا
نہ ملا کچھ مزا جوانی کا
دل مین لے کر تمہاری یاد چلے
باغ عالم سے نا مراد چلے


کہتی ہے بار بار ہمت عشق
ہے یہی مقتضائے غیرت عشق
چارپائی پہ کون پڑ کے مرے
کون یوں ایڑیاں رگڑ کے مرے


عشق کا نام کیوں ڈبو جائیں
آج ہی جان کیوں نہ کھو جائیں
جب تلک چرخ بے مدار رہے
یہ فسانہ بھی یادگار رہے


بولی گھبرا کے پھر ٹھہر مری جان
کچھ سنا بھی کہ کیا بجا اس آن
حسرت دل نگوڑی باقی ہے
اور یہاں رات تھوڑی باقی ہے


گود میں اپنی پھر بٹھا لو جان
پھر گلے سے ہمیں لگا لو جان
ڈال دو پھر گلے میں باہوں کو
پھر گلوری چبا کے منہ میں دو


پھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت یار
کر لو پھر ہم کو بھینچ بھینچ کے پیار
پھر مرے سر پہ رکھ دو سر اپنا
گال پھر رکھ دو گال پر اپنا


پھر اسی طرح منہ کو منہ سے ملو
پھر وہی باتیں پیار کی کر لو
لہر پھر چڑھ رہی ہے کالوں کی
بو سنگھا دو تم اپنے بالوں کی


پھر ہم اٹھنے لگیں بٹھا لو تم
پھر بگڑ جائیں ہم منا لو تم
پھر لبوں کو چبا کے بات کرو
پھر ذرا مسکرا کے بات کرو


پھر بلائیں تمہاری یار لیں ہم
آؤ پھر سر سے سر اتار لیں ہم
رو نہ اس طرح سے تو زار و قطار
دشمنوں کو کہیں چڑھے نہ بخار


آپ اچھے بھلے بچھڑ جائیں
اور لینے کے دینے پڑ جائیں
کاٹ لے کوئی دھڑ سے سر میرا
بال بیکا نہ ہو مگر تیرا


میں دل و جاں سے ہوں فدا تیری
لے کے مر جاؤں میں بلا تیری
اب تو کیوں ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہے
کیوں مرے دل کے ٹکڑے کرتا ہے


میں ابھی تو نہیں گئی ہوں مر
کیوں سجائی ہیں آنکھیں رو رو کر
اس قدر ہو رہا ہے کیوں غمگیں
کیوں مٹاتا ہے اپنی جان حزیں


کر نہ رو رو کے اپنا حال زبوں
ارے ظالم ابھی تو جیتی ہوں
اشک بہتے ہیں ناگوار ترے
تو نہ رو ہو گئی نثار ترے


ایسے قصے ہزار ہوتے ہیں
یوں کہیں مردوے بھی روتے ہیں
یوں تو آنسو نہ تو بہا اپنے
دل کو مضبوط رکھ ذرا اپنے


رنج سے میرے کچھ اداس نہ ہو
یوں تو للہ بد حواس نہ ہو
تم تو اتنے میں ہو گئے رنجور
تھک گئے اور ابھی ہے منزل دور


اسی غم نے تو مجھ کو مارا ہے
صدمہ تیرا نہیں گوارا ہے
اپنے مرنے کا کچھ نہیں ہے الم
دل میں میرے فقط ہے اس کا غم


جان ہم نے تو اس طرح کھوئی
کون تیری کرے گا دل جوئی
آ کے سمجھائے گا بجھائے گا کون
اس طرح سے گلے لگائے گا کون


کون رو کے گا اس طبیعت کو
کس سے کہہ جاؤں اس وصیت کو
گو کہ بے جا ترا ہراس نہیں
کوئی دل سوز بھی تو پاس نہیں


میں کہاں ہوں جو ساتھ دوں تیرا
ہاتھ میں کس کے ہاتھ دوں تیرا
یوں تسلی تری کرے گا کون
میری صورت بھلا مرے گا کون


کون یوں خوش کرے گا دل تیرا
دل ہے اس غم سے مضمحل تیرا
جی لگے گا نہ ساتھ میں اس کا
دل لئے رہنا ہاتھ میں اس کا


پر میں اب اس کا کیا کروں کمبخت
آسماں دور ہے زمیں ہے سخت
گو کہ عقبیٰ میں رو سیاہ چلی
مگر اپنی سی میں نباہ چلی


جی کو تم پر فدا کیا میں نے
حق وفا کا ادا کیا میں نے
بولی پھر زانوؤں پہ مار کے ہاتھ
نہیں معلوم اب ہے کتنی رات


جوں جوں گھڑیال واں بجاتا تھا
جی مرا سنسنایا جاتا تھا
یوں تو کوئی نہ درد و غم میں کڑھے
پھولے جاتے ہیں ہاتھ پاؤں مرے


کچھ عجب ہو رہا ہے جان کا طور
کہتی ہوں کچھ نکلتا ہے کچھ اور
آنسو آنکھوں میں بھر بھر آتے ہیں
دست و پا سارے تھرتھراتے ہیں


دل کو سمجھاتی ہوں میں بہتیرا
پر سنبھلتا نہیں ہے جی میرا
گو تو بیٹھا ہوا ہے پاس مرے
پر ٹھکانے نہیں حواس مرے


ہوش آئے ہوئے بھی جاتے ہیں
دل میں کیا کیا خیال آتے ہیں
پیش یوں فرقت حبیب نہ ہو
کسی دشمن کو بھی نصیب نہ ہو


دوسرا اب یہ اور ماتم ہے
سانگ باقی بہت ہیں شب کم ہے
خاک تسکین جان زار کریں
اب وصیت کریں کہ پیار کریں


سن کے میں نے دیا یہ اس کو جواب
دل کو میرے بس اب کرو نہ کباب
تم تو یوں اپنی جان دو مری جان
میں وصیت سنوں خدا کی شان


دل سے رکھنا ذرا یہ اپنے دور
کون کمبخت یہ کرے گا امور
مجھ پہ یہ دن تو کبریا نہ کرے
تم مرو میں جیوں خدا نہ کرے


جان دے دو گی تم جو کھا کر سم
میں بھی مرجاؤں گا خدا کی قسم
جو یہ دیکھے گا خوب روئے گا
آگے پیچھے جنازہ ہوئے گا


اک ذرا مجھ سے تو کہو یہ حال
جی میں کیا آیا آپ کے یہ خیال
دل ہی دل میں الم اٹھاتی ہو
جان دیتی ہو، زہر کھاتی ہو


پہونچا ماں باپ سے اگر ہے الم
اس کا کرنا نہ چاہئیے تمہیں غم
جو کہ ہوتے ہیں قوم کے اشراف
یوں ہی کرتے ہیں وہ قصور معاف


کچھ تمہیں پر نہیں ہے یہ افتاد
سب کے ماں باپ ہوتے ہیں جلاد
صدمہ ہر اک پہ یہ گزرتا ہے
زہر کھا کھا کے کوئی مرتا ہے


شکوہ ماں باپ کا تو ناحق ہے
ان کا اولاد پر بڑا حق ہے
ہوں جو ناراض یہ قیامت ہے
ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے


تم تو نام خدا سے ہو دانا
اس پہ رتبہ نہ ان کا پہچانا
کیا بھروسہ حیات کا ان کی
نہ برا مانو بات کا ان کی


ہوش رہتے نہیں ہیں اس سن کے
یہ تو مہمان ہیں کوئی دن کے
اتنی سی بات کا غبار ہے کیا
ان کے کہنے کا اعتبار ہے کیا


غور سے کیجئے جو دل میں خیال
ان کا غصہ نہیں ہے جائے ملال
سن کے اس نے دیا یہ مجھ کو جواب
ہم نے دیکھی نہیں ہے چشم عتاب


بے حیا ایسی زندگی کو سلام
منہ پہ آئے نہ تھے کبھی یہ کلام
طعنے سنتی ہوں دو مہینے سے
موت بہتر ہے ایسے جینے سے


خون دل کب تلک پیے کوئی
بے حیا بن کے کیا جیے کوئی
نوج انسان بے حمیت ہو
آدمی کیا نہ جس کو غیرت ہو


بات وہ کس طرح بشر سے اٹھے
نہ سنی ہو کبھی جو کانوں سے
وہ سنے جس کو اس کی عادت ہے
اس میں کیا اپنی اپنی غیرت ہے


پر مرے جیتے جی تو بہر خدا
اپنے مرنے کا ذکر منہ پہ نہ لا
کون سا پڑ گیا ہے رنج و محن
جان کیوں دیں گے آپ کے دشمن


تم نے جی دینے کی جو کی تدبیر
حشر کے روز ہوں گی دامن گیر
تو سلامت جہاں میں رہ مری جاں
نکلیں ماں باپ کے ترے ارماں


واسطے میرے اپنا دل نہ کڑھا
چاند سی بنو گھر میں بیاہ کے لا
ہے یہی لطف زندگانی کا
دیکھ سکھ اپنی نوجوانی کا


چار دن ہے یہ نالہ و فریاد
عمر بھر کون کس کو کرتا ہے یاد
لطف دینا کے جب اٹھاؤ گے
ہم کو دو دن میں بھول جاؤ گے


آخری گھڑیاں
تھا یہی ذکر جو بجا گھڑیال
سنتے ہی اس کے ہو گئی بے حال
ہو گیا فرط غم سے چہرہ زرد


دست و پا تھرتھرا کے ہو گئے سرد
مردنی رخ پہ چھا گئی اس کے
دل میں وحشت سما گئی اس کے
دل میں گزرا جو اس کے صبح کا شک


ہوئی استادہ جا کے زیر فلک
ٹھنڈی جس دم چلی نسیم سحر
ہو گیا حال اور بھی ابتر
اتنے میں صبح کی بجی وردی


دونی چہرے کی ہو گئی زردی
ہوئے ثابت جو صبح کے آثار
ہو گئی اور اس کی حالت زار
بید کی طرح جسم تھرایا


سر سے لے پاؤں تک عرق آیا
باتیں کرنی جو تھیں سو بھول گئی
دم لگا چڑھنے سانس پھول گئی
بولی گھبرا کے رہیو اس کے گواہ


اور کہا لا الہ الا اللہ
اب فقط یہ ہے خوں بہا میرا
بخش دیجو کہا سنا میرا
کہہ کے وہ پھر چمٹ گئی اک بار


اور کیا خوب بھینچ بھینچ کے پیار
سر سے لے کر بلائیں تا بہ قدم
بولی تم پر نثار ہوتے ہیں ہم
آگ لگ جائے وہ گھڑی کمبخت


بام پر آئی تھی میں کون سے وقت
پھر یہ بولی وہ پوچھ کر آنسو
میرے سر کی قسم نہ کڑھیو تو
آزماتی تھی تجھ کو کستی تھی


میں ترے چھیڑنے کو ہنستی تھی
مفارقت
کہہ کے یہ بات ہو گئی وہ سوار
یاں بندھا آنسوؤں کا آنکھ سے تار


آتش غم بھڑک گئی دونی
تپش قلب نے کی افزونی
یاد آتی تھی جب وصیت یار
وہم لاتا تھا دل ہزار ہزار


تھی مصیبت جو یہ بلا انگیز
دھیان آتے تھے کیا کیا وحشت خیز
دل میں کہنے کا اس کے تھا جو ملال
آتے تھے ذہن میں عجیب خیال


کون روکے گا جا کے گھر بیٹھے
جو کہا ہے وہی نہ کر بیٹھے
ہر گھڑی تھا جو اضطراب فزوں
چپکا روتا تھا بیٹھا میں محزوں


کہ اٹھا ایک سمت سے وہ غل
ہوش جس سے کہ اڑ گئے بالکل
شعلہ اک آگ کا بھڑکنے لگا
مثل بسمل کے دل تڑپنے لگا


یوں تو گزرے تھے دوپہر روتے
اور ہاتھوں کے اڑ گئے توتے
ہو گیا دل کو اس طرح کا ہراس
آئے سو سو طریق کے وسواس


کہا اک دوست سے کہ تم جا کر
جلد اس شور و غل کی لاؤ خبر
روتے ہیں ہم سے بد نصیب کوئی
مر گیا ان کا کیا حبیب کوئی


یوں جو اپنی یہ جان کھوتے ہیں
کون ہیں کس لیے یہ روتے ہیں
کیا ہوا ان پہ صدمۂ جاں کاہ
یہ جو کرتے ہیں ایسے نالہ و آہ


دوڑے آخر ادھر مرے احباب
لے کر آئے خبر وہاں سے شتاب
کیا اس طرح آ کے مجھ سے بیاں
کہ یہاں سے ہے اک قریب مکاں


باغ کے پاس جو بنا ہے گھر
واں فروکش ہے ایک سوداگر
یوں تو اک شور راہ بھر میں ہے
پر یہ آفت انہیں کے گھر میں ہے


صاف کھلتا نہیں ہے یہ اسرار
مر گیا کوئی یا کہ ہے بیمار
پر یہ ہوتا ہے عقل سے ادراک
کہ نہیں بے سبب اڑاتے خاک


کچھ نہ کچھ تو ہے ایسی ہی روداد
کہ یہ ہے شور نالہ و فریاد
نہیں برپا یہ بے سبب ماتم
ہے نکلتا کسی جوان کا دم


ہر بشر ہو رہا ہے دیوانہ
کوئی مرتا ہے صاحب خانہ
نہیں قابو میں ہے کسی کا دل
پیٹتے سر ہیں صاحبان محل


نہیں دیتا سنائی کچھ بالکل
ہے فقط ایک ہائے ہائے کا غل
تھمتا اک دم بھی واں خروش نہیں
کس سے پوچھیں کسی میں ہوش نہیں


روتے جس درد سے ہیں وہ اس دم
دیکھا جاتا نہیں خدا کی قسم
کہہ گئی تھی جو وہ کہ کھاؤں گی زہر
میں یہ سمجھا کہ ہو گیا وہی قہر


گو حیا سے نہ اس کا نام لیا
دونوں ہاتھوں سے دل کو تھام لیا
دوستوں نے جو دیکھی یہ صورت
بولے اس طرح از رہ الفت


حال دل یوں تمہارا غیر تو ہے
مگر اس وقت کیا ہے خیر تو ہے
بے سبب کس لئے ہوئے ہو اداس
اڑ گئے کیوں تمہارے ہوش و حواس


کون سی آفت آ گئی اس دم
مردنی منہ پہ چھا گئی اس دم
کیا ہے جو اتنے بے قرار ہو اب
کوئی مرجائے تم سے کیا مطلب


ایسی حالت جو بیچ و تاب کی ہے
تم کو کیا وجہ اضطراب کی ہے
شہر میں لوگ روز مرتے ہیں
خفقان اس کا کوئی کرتے ہیں


فکر کرنا ہے اس طرح کی زبوں
یونہی ہو جاتا ہے بشر مجنوں
سن کے ماں باپ کیا کہیں گے بتاؤ
ہوش پکڑو ذرا حواس میں آؤ


تم کو کیا ہے جو جان کھوتے ہو
بے سبب آپ ہی آپ روتے ہو
ہو رہے ہو ملول کس غم سے
حال دل کا تو کچھ کہو ہم سے


طعنہ آمیز دوستوں کے بیاں
ہوئے معلوم نشتر رگ جاں
نہ دیا ان کو مارے غم کے جواب
ڈھانپ کر منہ کیا بہانۂ خواب


اٹھ گئے دوست آشنا جس دم
کھول کر منہ کو چپکے اٹھے ہم
حال دل سینہ میں ہوا جو تباہ
بیٹھا کمرے سے آن کر سر راہ


دیکھا برپا ہے ایک حشر کا غل
بھیڑ سے بند راہ ہے بالکل
اس طرف سے جو لوگ آتے ہیں
یہی آپس میں کہتے جاتے ہیں


والدین کا ماتم
حال ان کا بھی جائے رقت ہے
داغ اولاد کا قیامت ہے
نوچ ڈالے ہیں سارے سر کے بال


کیا پریشاں ہے والدین کا حال
آفت تازہ سر پہ ہے آئی
بک رہے ہیں مثال سودائی
دھیان ان کی طرف جو جاتا ہے


غم سے منہ کو کلیجہ آتا ہے
جو کہ تھے ان میں صاحب اولاد
حال ابتر تھا ان کا حد سے زیاد
کہتے تھے کوٹ کر سر و سینہ


کیوں نہ دشوار ان کو ہو جینا
مرگ اولاد کا وہ ماتم ہے
رنج و غم جس قدر کریں کم ہے
کوئی کہتا تھا کیسی آفت ہے


نوجواں مرنا بھی قیامت ہے
یوں تو ہے از پئے زمانا مرگ
نہ مرے پر کوئی جوانا مرگ
آتش غم سے دل ہوا ہے کباب


ہے تپاں مثل ماہئ بے آب
چشمہ جاری ہے چشم گریاں کا
ہوش باقی نہیں تن و جاں کا
نہیں دم بھر کسی کو واں آرام


دیکھنے والے رو رہے ہیں تمام
پھوڑ ڈالے ہیں سب نے سر اپنے
سر و پا کی نہیں خبر اپنے
بنئے بقال جان کھوتے ہیں


سارے دوکان دار روتے ہیں
حال دیکھا جو میں یہ اٹھ کر
ہل گیا سینے میں دل مضطر
نہ رہی تاب رنج کے مارے


لگے تھرانے دست و پا سارے
بحر الفت نے دل میں مارا جوش
گر پڑا ہو کے خاک پر بے ہوش
عشق کی تھی جو دل کو بیماری


غش کا عالم سا ہو گیا طاری
دو گھڑی بعد پھر جو آیا ہوش
دیکھا برپا عجب ہے جوش و خروش
محبوب کا جنازہ


آگے آگے ہے کچھ جلوس رواں
سر کھلے کچھ ہیں پیچھے پیر و جواں
سن رسیدہ ہیں عورتیں کچھ ساتھ
سینہ و سر پہ مارتی ہیں ہاتھ


کوئی ماما ہے کوئی دائی ہے
کوئی انا کوئی کھلائی ہے
جب وہ بھرتی ہیں غم سے آہ سرد
سننے والوں کے دل میں ہوتا ہے درد


ہوتا غیروں کو ہے ملال ان کا
دیکھا جاتا نہیں ہے حال ان کا
کچھ بیاں ایسے ہوتے جاتے ہیں
راستے والے روتے جاتے ہیں


اس کے پیچھے پڑی پھر اس پہ نگاہ
کہ نہ دیکھے بشر معاذاللہ
شامیانہ نیا زری کا ہے
نیچے تابوت اس پری کا ہے


سہرا اس پر بندھا ہے اک زرتار
جیسے گلشن کی آخر ہو بہار
تھی پڑی اس پہ ایک چادر گل
جس سے خوشبو نکلتی تھی بالکل


عود سوز آگے آگے روشن تھے
مر گئے پر بھی لاکھ جوبن تھے
بھیڑ تابوت کے تھی ایسی ساتھ
جیسے آئے کسی دلہن کی برات


سب وضیع و شریف تھے ہمراہ
بھیڑ تھی اس قدر کہ تنگ تھی راہ
ساتھ تھے خویش و اقربا سارے
رو رہے تھے غریب بے چارے


پیچھے پیچھے تھا سب سے سوداگر
مو پریشاں، اداس، خاک بسر
آگے آگے جنازہ جاتا تھا
غش اسے ہر قدم پہ آتا تھا


ہاتھ تھامے تھے اقربا سارے
تا کسی جا پہ سر نہ دے مارے
حال اس درجہ ہو رہا تھا زبوں
بہتا جاتا تھا سر کے زخم سے خوں


سب امیر و فقیر روتے تھے
دیکھ کر راہ گیر روتے تھے
پیچھے سب کے پنس میں تھی مادر
کہتی جاتی تھی اس طرح رو کر


تیری میت پہ ہو گئی میں نثار
کم سخن ہائے میری غیرت دار
دل پہ جو گزری کچھ بیان نہ کی
کچھ وصیت بھی میری جان نہ کی


کچھ نہیں ماں کی اب خبر تم کو
کس کی یہ کھا گئی نظر تم کو
دل ضعیفی میں میرا توڑ گئیں
بیٹا اس ماں کو کس پہ چھوڑ گئیں


تازہ پیدا جگر پہ داغ ہوا
گھر مرا آج بے چراغ ہوا
دل کو ہاتھوں سے کوئی ملتا ہے
جی سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے


زہر دے دے کوئی میں کھا جاؤں
یا زمیں شق ہو میں سما جاؤں
داغ تیرا جگر جلاتا ہے
چاند سا مکھڑا یاد آتا ہے


مٹ گیا لطف زندگانی کا
دل کو غم ہے تری جوانی کا
بیاہ تیرا رچانے پائی نہ میں
کوئی منت بڑھانے پ]ائی نہ میں


تیری صورت پہ ہوگئی قرباں
چلیں دنیا سے کیسی پر ارماں
ہوئیں کس بات پر خفا بولو
اماں واری ذرا جواب تو دو


بولتیں تم نہیں پکارے سے
اب جیوں گی میں کس سہارے سے
کیا قضا نے جگر پہ داغ دیا
آج گھر میرا بے چراغ کیا


نکلا ماں باپ کا نہ کچھ ارمان
ہائے بیٹا نہ تم چڑھیں پروان
ایسی اس ماں سے ہوگئیں بیزار
لی نہ خدمت بھی پڑ کے کچھ بیمار


نہ جیؤں گی ترے فراق میں میں
دل تڑپتا ہے آنکھیں ڈھونڈتی ہیں
کس مصیبت میں پڑ گئی بیٹا
کوکھ میری اجڑ گئی بیٹا


عمر کٹنی تھی ایسے صدمے میں
ٹھوکریں تھیں لکھی بڑھاپے میں
سن کے اس طرح اس کی ماں کے بین
اور سینے میں دل ہوا بے چین


تھی وصیت جو اس پری کی یاد
سب کے پیچھے میں ہو لیا ناشاد
گو یہ طاقت نہ تھی کہ چلتا راہ
لے چلا جذب عشق پر ہمراہ


پیچھے ان سب کے جو رواں تھا میں
صورت گرد کارواں تھا میں
گہ تڑپتا تھا صورت بسمل
بیٹھ جاتا تھا گاہ تھام کے دل


جوں جوں کرتا تھا ضبط میں نالہ
دل ہوا جاتا تھا تہ و بالا
مرغ بسمل کی میری صورت تھی
یاں گرا واں گرا یہ حالت تھی


العرض پہنچا ساتھ ان کے وہاں
دفن کا اس کے تھا مقام جہاں
قبر کھدتی جو واں نظر آئی
لاکھ روکا پہ چشم بھر آئی


دیکھ کر یہ جو لوگ رونے لگے
ٹکڑے ٹکڑے جگر کے ہونے لگے
طاقت ضبط گر یہ جب نہ رہی
دل سے اپنے یہ میں نے بات کہی


کہہ کے کیا مر گئی وہ جان تجھے
کچھ وصیت کا بھی ہے دھیان تجھے
ہو نہ للہ بے قرار اتنا
ضبط کر نالہ ہو سکے جتنا


دل کو سمجھا کے یہ گیا میں وہاں
جمع سب ان کے اقربا تھے جہاں
دل آفت زدہ کو بہلا کر
چپکا بیٹھا میں اک طرف جا کر


اشک آنکھوں سے گو نہ بہتے تھے
لوگ پر دیکھ کر یہ کہتے تھے
حال چہرے کا آج کیسا ہے؟
خیر تو ہے مزاج کیسا ہے؟


لال آنکھیں ہیں تمتمائے ہیں گال؟
وجہ کیا ہے بیان کیجئے حال؟
منہ پہ اک مردنی سی چھائی ہے
چہرے پر چھٹ رہی ہوائی ہے


بولا میں اور کچھ نہیں ہے بات
شب کو سویا نہیں میں ساری رات
اس پہ پیدل جو آیا میں مجبور
رنگ چہرے کا ہو گیا کافور


ترک عادت بھی اک عداوت ہے
رات کا جاگنا قیامت ہے
دل کا شک ان کے سب نکال دیا
یہی کہہ سن کے ان کو ٹال دیا


غل ہوا اتنے میں سب آتے جائیں
فاتحہ پڑھتے جائیں جاتے جائیں
سن کے یہ سب گئے وہاں احباب
بخشا پڑھ پڑھ کے فاتحہ کا ثواب


جب کہ اس سے بھی ہو گئی فرصت
آئے جتنے تھے ہو گئے رخصت
پائی تنہا جو میں نے یار کی قبر
دل کو باقی رہی نہ طاقت صبر


تھا جو اس شمع رو کا پروانہ
دوڑا کر آیا مثل دیوانہ
گر پڑا آ کے قبر پر اک بار
اور رونے لگا میں زار و قطار


نہ رہا تھا جو اختیار میں دل
لوٹا تربت پہ صورت بسمل
مر گئی تھی جو مجھ پہ وہ گلفام
زندگی ہو گئی مجھے بھی حرام


دیکھا آنکھوں سے تھا جو ایسا قہر
کھا گیا میں بھی گھر میں آ کر زہر
دوپہر تک تو قے رہی جاری
بعد پھراس کے غش ہوا طاری


تین دن تک رہی وہ بے ہوشی
ہو گئی جس سے خود فراموشی
عین غفلت میں پھر یہ دیکھا خواب
کہ یہ کہتی ہے وہ بچشم عتاب


سن تو رے تو نے زہر کیوں کھایا
کچھ وصیت کا بھی نہ پاس آیا
ہوئے خود رفتہ ایسے حد سے زیادہ
دو ہی دن میں بھلا دی میری یاد


دل سے میرا بھلا دیا کہنا
ہاں یہی چاہیئے تھا کیا کہنا
کہہ کے یہ جب وہ ہو گئی روپوش
کھل گئی آنکھ، آ گیا مجھے ہوش


زہر کا پھر نہ کچھ اثر پایا
اک تعجب سا مجھ کو یہ آیا
آشنا دوست سب کا تھا یہ بیان
مردے جی اٹھے لو خدا کی شان


ہو گیا والدین کو یہ سرورر
بڑھ گیا دل کا چین چشم کا نور
اقربا سن کے ہو گئے دل شاد
آ کے دینے لگے مبارکباد


حاصل اتنا تھا اس کہانی سے
ہم رہے جیتے سخت جانی سے
عشق میں ہم نے یہ کمائی کی
دل دیا غم سے آشنائی کی


-


مہیا سب ہے اب اسباب ہولی
اٹھو یارو بھرو رنگوں سے جھولی
ادھر یار اور ادھر خوباں صف آرا
تماشہ ہے تماشہ ہے تماشہ


چمن میں دھوم و غل چاروں طرف ہے
ادھر ڈھولک ادھر آواز دف ہے
ادھر عاشق ادھر معشوق کی صف
نشے میں مست و ہر یک جام بکف


گلال ابرق سے سب بھر بھر کے جھولی
پکارے یک بہ یک ہولی ہے ہولی
لگی پچکاریوں کی مار ہونے
ہر اک سوں رنگ کی بوچھار ہونے


کوئی ہے سانوری کوئی ہے گوری
کوئی چمپا برن عمروں میں تھوڑی

-


آج ہے روز وسنت اے دوستاں
سرو قد ہے بوستاں کے درمیاں
باغ میں ہے عیش و عشرت رات دن
گل رخاں بن نئیں گزرتی ایک دن


سب کے تن میں ہے لباس کیسری
کرتے ہیں صد برگ سوں لب ہم سری
خوب رو سب بن رہے ہیں لال زرد
باغ کا بازار ہے اس وقت سرد


چاند جیسا ہے شفق بھیتر عیاں
چہرہ سب کا از گلال آتش فشاں
ہر چھبیلی از لباس کیسری
تازہ کرتی ہے بہار جعفری


ناچتی گا گا کے ہولی دم بدم
جیوں سبھا اندر کی در باغ ارم
از کبیر و رنگ کیسر اور گلال
ابر چھایا ہے سفید و زرد و لال


جیوں جھڑی ہر سو ہے پچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کے سار
جوش عشرت گھر بہ گھر ہے ہر طرف
ناچتی ہیں سب تکلف بر طرف


-


ہاں دل دردمند زمزمہ ساز
کیوں نہ کھولے در خزینۂ راز
خامے کا صفحے پر رواں ہونا
شاخ گل کا ہے گلفشاں ہونا


مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے
نکتہ ہاے خرد فزا لکھیے
بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے
خامہ نخل رطب فشاں ہوجائے


آم کا کون مرد میداں ہے
ثمر و شاخ گوے و چوگاں ہے
تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں
آئے یہ گوے اور یہ میداں


آم کے آگے پیش جاوے خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپولے تاک
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادۂ ناب بن گیا انگور


یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے


نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ نہ بار
جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار
اور دوڑائیے قیاس کہاں
جان شیریں میں یہ مٹھاس کہاں


جان میں ہوتی گریہ شیرینی
کوہکن باوجود غمگینی
جان دینے میں اس کو یکتا جان
پر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان


نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دواخانۂ ازل میں مگر
آتش گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام


یہ یہ ہو گا کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغ جنت سے
انگبیں کے بحکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس


یا لگا کر خضر نے شاخ نبات
مدتوں تک دیا ہے آب حیات
تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل


تھا ترنج زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد پر کہاں بو باس
آم کو دیکھتا اگر اک بار
پھینک دیتا طلاے دست افشار


رونق کار گاہ برگ و نوا
نازش دودمان آب و ہوا
رہرو راہ خلد کا توشہ
طوبی و سدرہ کا جگر گوشہ


صاحب شاخ و برگ و بار ہے آم
ناز پروردۂ بہار ہے آم
خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو
نو بر نخل باغ سلطاں ہو


وہ کہ ہے والی ولایت عہد
عدل سے اس کے ہے حمایت عہد
فخر دیں عز شان و جاہ جلال
زینت طینت و جمال کمال


کار فرماے دین و دولت و بخت
چہرہ آراے تاج و مسند و تخت
سایہ اس کا ہما کا سایہ ہے
خلق پر وہ خدا کا سایہ ہے


اے مفیض وجود سایہ و نور
جب تلک ہے نمود سایہ و نور
اس خداوند بندہ پرور کو
وارث گنج و تخت و افسر کو


شاد و دلشاد و شادماں رکھیو
اور غالب پہ مہرباں رکھیو

-


عشق ہے تازہ کار و تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال
دل میں جاکر کہیں تو درد ہوا
کہیں سینے میں آہ سرد ہوا


کہیں آنکھوں سے خون ہوکے بہا
کہیں سر میں جنون ہو کے رہا
کہیں رونا ہوا ندامت کا
کہیں ہنسنا ہوا جراحت کا


گہ نمک اس کو داغ کا پایا
گہ پتنگا چراغ کا پایا
واں طپیدن ہوا جگر کے بیچ
یاں تبسم ہے زخم تر کے بیچ


کہیں آنسو کی یہ سرایت ہے
کہیں یہ خوں چکاں حکایت ہے
تھا کسی دل میں نالۂ جاں کاہ
ہے کسو لب پہ ناتواں اک آہ


تھا کسو کی پلک کی نم ناکی
ہے کسو خاطروں کی غم ناکی
کہیں باعث ہے دل کی تنگی کا
کہیں موجب شکستہ رنگی کا


کہیں اندوہ جان آگہ تھا
سوزش سینہ ایک جاگہ تھا
کہیں عشاق کی نیاز ہوا
کہیں اندوہ جاں گداز ہوا


ہے کہیں دل جگر کی بے تابی
تھا کسو مضطرب کی بے خوابی
کسو چہرے کا رنگ زرد ہوا
کسو محمل کی رہ کی گرد ہوا


طور پر جا کے شعلہ پیشہ رہا
بے ستوں میں شرار تیشہ رہا
کہیں نے بست کو لگائی آگ
کہیں تیغ و گلو میں رکھی لاگ


کبھو افغان مرغ گلشن تھا
کبھو قمری کا طوق گردن تھا
کسو مسلخ میں جا قنارہ ہوا
کوئی دل ہو کے پارہ پارہ ہوا


ایک عالم میں دردمندی کی
ایک محفل میں جا سپندی کی
ایک دل سے اٹھے ہے ہوکر دود
ایک لب پر سخن ہے خون آلود


اک زمانے میں دل کی خواہش تھا
اک سمیں میں جگر کی کاہش تھا
کہیں بیٹھے ہے جی میں ہوکر چاہ
کہیں رہتا ہے قتل تک ہمراہ


خارخار دل غریباں ہے
انتظار بلانصیباں ہے
کہیں شیون ہے اہل ماتم کا
کہیں نوحہ ہے جان پر غم کا


آرزو تھا امیدواروں کی
دردمندی جگر فگاروں کی
نمک زخم سینہ ریشاں ہے
نگہ یاس مہرکیشاں ہے


حسرت آلود آہ تھا یہ کہیں
شوق کی یک نگاہ تھا یہ کہیں
کشش اس کی ہے ایک اعجوبہ
ڈوبا عاشق تو یار بھی ڈوبا


کوئی محروم وصل یاں سے گیا
کہ نہ یار اس کا پھر جہاں سے گیا
کام میں اپنے عشق پکا ہے
ہاں یہ نیرنگ ساز یکہ ہے


جس کو ہو اس کی التفات نصیب
ہے وہ مہمان چندروزہ غریب
ایسی تقریب ڈھونڈھ لاتا ہے
کہ وہ ناچار جی سے جاتا ہے


آغاز قصۂ جاں گداز
ایک جا اک جوان رعنا تھا
لالہ رخسار و سروبالا تھا
عشق رکھتا تھا اس کی چھاتی گرم


دل وہ رکھتا تھا موم سے بھی نرم
شوق تھا اس کو صورت خوش سے
انس رکھتا تھا وضع دل کش سے
تھا طرح دار آپ بھی لیکن


رہ نہ سکتا تھا اچھی صورت بن
کوئی ترکیب اگر نظر آتی
صورت حال اور ہو جاتی
دیکھتا گر وہ کوئی خوش پرکار


رہتا خمیازہ کش ہی لیل و نہار
زلف ہوتی کسو کی گر برہم
دیکھتے اس کے حال کو درہم
دیکھتا گر کہیں وہ چشم سیاہ


دل سے بے اختیار کرتا آہ
سر میں تھا شور شوق دل میں تھا
عشق ہی اس کے آب و گل میں تھا
الغرض وہ جوان خوش اسلوب


ناشکیبا رہے تھا بے محبوب
ایک دن بے کلی سے گھبرایا
سیر کرنے کو باغ میں آیا
کسو گل پاس وہ صنم ٹھہرا


کہیں سبزے میں ایک دم ٹھہرا
اک خیابان میں سے ہو نکلا
ایک سائے تلے سے رو نکلا
نہ تسلی ہوا دل بے تاب


نہ تھما چشم تر سے خون ناب
دل کی واشد سے بے توقع ہو
ہر شجر کے تلے بہت سا رو
دیکھ گلشن کو ناامیدانہ


منھ کیا ان نے جانب خانہ
دل کے رکنے کا اس کو اک غم تھا
راہ چلنے میں خیال درہم تھا
ناگہ اس کوچہ سے گذار ہوا


آفت تازہ سے دوچار ہوا
ایک غرفے سے ایک مہ پارہ
تھی طرف اس کے گرم نظارہ
پڑ گئی اس پہ اک نظر اس کی


پھر نہ آئی اسے خبر اس کی
تھی نظر یاکہ جی کی آفت تھی
وہ نظر ہی وداع طاقت تھی
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ


صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
بے قراری نے کج ادائی کی
تاب و طاقت نے بے وفائی کی
منھ جو اس کا طرف سے اس کے پھرا


مضطرب ہوکے خاک پر یہ گرا
وہ تو رکھتی نہ تھی خیال اس کا
بے طرح ہووے گوکہ حال اس کا
جھاڑ دامن کے تیں وہ مہ پارہ


اٹھ گئی سامنے سے یک بارہ
وہ گئی اس کے سر بلا آئی
خاک میں مل گئی وہ رعنائی
دل پہ کرنے لگا طپیدن ناز


رنگ چہرے سے کر چلا پرواز
ہاتھ جانے لگا گریباں تک
چاک کے پھیلے پاؤں داماں تک
طبع نے اک جنوں کیا پیدا


اشک نے رنگ خوں کیا پیدا
سوزش دل نے جی میں جاگہ کی
داغ نے آ جگر کو آتش دی
بستر خاک پر گرا وہ زار


درد کا گھر ہوا دل بیمار
خاطر افگار خار خار ہوئی
جاں تمناکش نگار ہوئی
اس کے منھ پر پڑی جو اس کی نگاہ


ناامیدی کے ساتھ ہی سر کی آہ
خو ہوئی نالۂ حزیں کے ساتھ
رابطہ آہ آتشیں کے ساتھ
ہونٹھ سوکھے تو خون ناب ملا


خواب و خور دونوں کو جواب ملا
خلق اس کی ہوئی تماشائی
پر نہ وہ دیکھنے کبھو آئی
کچھ کہا گر کسو نے شفقت سے


رو دیا ان نے ایک حسرت سے
جاکے اس کے قریب در بیٹھا
قصد مرنے کا اپنے کر بیٹھا
دل نہ سمجھا کہ اضطراب کیا


شوق نے کام کو خراب کیا
جوکہ سمجھے تھے اس کو دیوانہ
رحم کرتے تھے آشنایانہ
عاشق اس کو کسو کا جان گئے


سب برا اس ادا کو مان گئے
کیونکہ باہم معاش تھی سب کی
ایک جا بود و باش تھی سب کی
وارث اس کے بھی بدگمان ہوئے


درپئے دشمنی جان ہوئے
مشورت تھی کہ مار ہی ڈالیں
دفعتہً اس بلا کے تیں ٹالیں
پھر یہ ٹھہری کہ ہوں گے ہم بدنام


سن کے آخر کہیں گے خاص و عام
کیا گنہ تھا کہ یہ جواں مارا
کن نے مارا اسے کہاں مارا
ہووے یہ خون خفتہ گر بیدار


کھینچنی ہووے خفت بسیار
کیجیے ایک ڈھب سے اس کو تنگ
تا نہ عائد ہو اپنی جانب ننگ
تہمت خبط رکھیے اس کے سر


کیجیے سنگ سار اس کو پھر
دے کے دیوانہ اس جواں کو قرار
ہوگئے سارے درپئے آزار
ایک نے سخت کہہ کے تنگ کیا


ایک نے آکے زیر سنگ کیا
ایک آیا تو ہاتھ میں شمشیر
ایک بولا کہ اب ہے کیا تاخیر
کی اشارت کہ کودکان شہر


آئے لبریز غصہ و پرقہر
گرچہ ہنگامہ اس کے سر پر تھا
لیک روے دل اس کا اودھر تھا
محو تھا اس کے یہ خیال کے بیچ


تھا گرفتار اپنے حال کے بیچ
ہونٹھ پر حسن کا بیاں اس کا
تھا سر و سنگ آستاں اس کا
ایک دم آہ سرد بھر اٹھنا


نالۂ گرم گاہ کر اٹھنا
جی میں کہتا کہ آہ مشکل ہے
اس طرف یک نگاہ مشکل ہے
دوست کو میرے نام سے ہے ننگ


دشمنوں سے ہے جی پہ عرصہ تنگ
چشم تر سے لہو بہا کرتا
صبح کی باد سے کہا کرتا
کاے نسیم سحر یہ اس سے کہہ


مت تغافل کر اور غافل رہ
ان بلاؤں میں کوئی کیونکے جیے
جان پر آ بنی ہے تیرے لیے
جان دوں تیرے واسطے سو تو


آنکھ اٹھاکر ادھر نہ دیکھے کبھو
رفتہ رفتہ ہوا ہوں سودائی
دور پہنچی ہے میری رسوائی
نام کو بھی ترے نہ جانا آہ


تجھ سے کیونکر سخن کی نکلے راہ
ناامیدانہ گر کروں ہوں نگاہ
دیکھتا ہوں ہزار روز سیاہ
سخت مشکل ہے سخت ہے بیداد


ایک میں خوں گرفتہ سو جلاد
کوئی مشفق نہیں کہ ہووے شفیق
بیکسی بن نہیں ہے کوئی رفیق
نالہ ہوتا ہے گر کبھی دلجو


گریہ آنکھوں سے پونچھتا ہے رو
آہ جو ہمدمی سی کرتی ہے
اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
چشم رکھتا ہے وصل کی یہ دل


جی ہے اس سے اسیر آب و گل
ورنہ ترکیب یہ کہاں ہوتی
صورت اک معنی نہاں ہوتی
اب ٹھہرتا نہیں ہے پاے ثبات


ایک میں اور کتنے تصدیعات
سنگ باراں سے سخت ہوں دل تنگ
شیشۂ دل نہیں ہے پارۂ سنگ
محرم یک نگاہ بیش نہیں


کم ہے سینے میں جاکہ ریش نہیں
کیونکے کہیے کہ تو نہیں آگاہ
اک قیامت بپا ہے یاں سر راہ
کچھ چھپا تو نہیں رہا یہ راز


اک جہاں اس سے ہے خبر پرداز
پس تغافل ہوا ترحم کر
گوش دل جانب تظلم کر
کون کہتا ہے رہ نہ محو ناز


پر نہ اتنا کہ جی سے جائے نیاز
ان بلاؤں پہ ان نے صبر کیا
اختیار اپنے جی پہ جبر کیا
اس طرف کا نہ دیکھنا چھوڑا


اس کے اندوہ سے نہ منھ موڑا
اور یہ ماجرا ہوا مشہور
شور رسوائیوں کا پہنچا دور
دیکھ کر اس کو بے خور و بے خواب


جانا ہر اک نے عاشق بے تاب
منھ پر اس کے جو رنگ خون نہیں
عشق ہے اس کو یہ جنون نہیں
ہے نگاہ اس کی جس طرف مائل


اس طرف ہی گیا ہے اس کا دل
جب ہوا ذکر اقل و اکثر میں
چاہ ثابت ہوئی اسے گھر میں
عشق بے پردہ جب فسانہ ہوا


مضطرب کدخداے خانہ ہوا
گھر میں جا بہر دفع رسوائی
بیٹھ کر مشورت یہ ٹھہرائی
یاں سے یہ غیرت مہ تاباں


جا کے چندے کہیں رہے پنہاں
شب محافے میں اس کو کرکے سوار
ساتھ دے ایک دایۂ غدار
پار دریا کے جلد رخصت کی


اس طرح فکر رفع تہمت کی
گھر تھا اک آشنا کا مدنگاہ
واں ہو روپوش تا یہ غیرت ماہ
ہووے جب اس بلا سے خاطر جمع


نورافزاے خانہ ہو جوں شمع
گھر سے باہر محافہ جو نکلا
اس جواں ہی کے پاس ہو نکلا
طپش دل سے ہو کے یہ آگاہ


ہو لیا ساتھ اس کے بھر کر آہ
واں کے رہنے سے اس کو کام نہ تھا
وہ گلی اس کا کچھ مقام نہ تھا
جس سے جی کو کمال ہو الفت


جس سے دل کی درست ہو نسبت
جنبش اس کی پلک کو گرداں ہو
دل میں یاں کاوش نمایاں ہو
واں اگر موشکست کا ہو باب


یاں رگ جاں کو ہووے پیچ و تاب
واں اگر پاؤں میں لگے ہے خار
دل سے یاں سر نکالے ہے یک بار
یار کو درد چشم اگر ہووے


چشم عاشق لہو میں تر ہووے
چاک دامن میں واں پئے زینت
یاں گریباں ہے چاک گل کی صفت
واں دہن تنگ یاں ہے دل تنگی


حسن اور عشق میں ہے یک رنگی
دست افشاں وہ پاے کوباں یہ
تھا محافے کے ساتھ گرم رہ
قطرہ زن اشک سا وہ راہ تمام


درپئے یار تھا وہ بے آرام
ہر قدم تھا زبان پر جاری
خواب ہے یاکہ ہے یہ بیداری
ہمسری اس کی تھی میسر کب


ہے مجھے بخت واژگوں سے عجب
شوق مفرط نے بے تہی کی سخت
نوشکیبی نے دل سے باندھا رخت
رفتہ رفتہ سخن ہوئے نالے


اڑنے لاگے جگر کے پرکالے
اضطراب دلی نے زور کیا
ان نے بے اختیار شور کیا
دل کے غم کو زبان پر لایا


آفت تازہ جان پر لایا
کاے جفا پیشہ و تغافل کیش
اک نظر سے زیاں نہیں کچھ بیش
منھ چھپایا ہے تونے اس پر بھی


نگہ التفات ایدھر بھی
صبر کس کس بلا سے کر گذروں
چارہ اس بن نہیں کہ مر گذروں
منزل وصل دور میں کم پا


تجھ کو اس مرتبے میں استغنا
ہے تو نزدیک دل سے اے طناز
لیک تجھ تک سفر ہے دور دراز
ناز نے یک نفس نہ رخصت دی


آئینے نے تجھے نہ فرصت دی
تو تو واں زلف کو بنایا کی
جان یاں پیچ و تاب کھایا کی
تجھ کو تھی اپنے خال رخ پہ نگاہ


دل مرا مبتلاے داغ سیاہ
تجھ کو مدنظر تھی اپنی چال
میں ستم کش ہوا کیا پامال
بستر خواب پر تجھے آرام


مجھ کو خمیازہ کھینچنے سے کام
واں لب لعل تیرے خنداں تھے
یاں فشردہ جگر پہ دنداں تھے
ناز و خوبی نے دل دیا نہ تجھے


رحم سے آشنا کیا نہ تجھے
اب تغافل نہ کر تلطف کر
حال پر میرے ٹک تاسف کر
گوش زد دایہ کے ہوئے یہ سخن


تھی وہ استاد کار حیلہ و فن
پاس اس کو بلا تسلی کی
وعدۂ وصل سے تشفی کی
کاے ستم دیدۂ غم دوری


ہوچکا اب زمان مہجوری
زار نالی نہ کر شکیبا ہو
عشق کا راز تا نہ رسوا ہو
دل قوی رکھ نہ جی کو کاہش دے


چل کوئی دم کو داد خواہش دے
سخت دل تنگ تھی یہ غیرت ماہ
قطع تجھ بن نہ ہوسکی تھی راہ
گرچہ یہ حسن اتفاق سے ہے


اس کی بھی جذب اشتیاق سے ہے
تیرے آنے سے دل کشادہ ہوا
نشۂ دوستی زیادہ ہوا
بزم عشرت کریں گے باہم ساز


ہوجو اب اپنے دوست کا دم ساز
دے کر اس کو فریب ساتھ لیا
دل عاشق کو اپنے ہاتھ لیا
لیک در پردہ ان نے یہ ٹھانی


کیجیے اس سے خصمی جانی
یہ تو دل تفتۂ محبت تھا
سخت وارفتۂ محبت تھا
وقت نزدیک تھا جو آپہنچا


تا سر آب پا بہ پا پہنچا
آب کیسا کہ بحر تھا ذخار
تند و مواج و تیرہ و تہ دار
موج کا ہر کنایہ طوفاں پر


مارے چشمک حباب عماں پر
ہم کنار بلا ہر اک گرداب
لجہ سرمایہ بخش تیرہ سحاب
گذر موج جب نہ تب دیکھا


ساحل اس کا نہ خشک لب دیکھا
کشتی اک آن کر ہوئی موجود
ہو فلک سے ہلال جیسے نمود
کی کنارے پہ لاکے استادہ


تھا محافہ رکوب آمادہ
اس سفینے میں جلد جا پہنچا
یہ بھی واں ساتھ ہی لگا پہنچا
بیچ دریا میں دایہ نے جاکر


کفش اس گل کی اس کو دکھلاکر
پھینکی پانی کی سطح پر اک بار
اور بولی کہ او جگرافگار
حیف تیرے نگار کی پاپوش


موج دریا سے ہووے ہم آغوش
غیرت عشق ہے تو لا اس کو
چھوڑ مت یوں برہنہ پا اس کو
اس طرف اس کے تیں اترنا ہے


اس نواحی کی سیر کرنا ہے
پاؤں اس کے جو ہیں نگار آلود
ظلم ہے ہوویں گر غبارآلود
جس کف پا کو رنگ گل ہو بار


منصفی ہے کہ خار سے ہو فگار
ان پہ نرمی میں گل سے ہوں جو پرے
آبلہ چشم کو سیاہ کرے
یہ روا ہے تو اپنے حال پہ رو


مفت ناموس عشق کو مت کھو
جی اگر تھا عزیز اے ناکام
کیوں عبث عشق کو کیا بدنام
سن کے یہ حرف دایۂ مکار


دل سے اس کے گیا شکیب و قرار
بے خبر کار عشق کی تہ سے
جست کی ان نے اپنی جاگہ سے
تھا سفینے میں یا کہ دریا میں


موج زنجیر ہوگئی پا میں
کھنچ گیا قعر کو یہ گوہر ناب
تھی کشش عشق کی مگر تہ آب
کہتے ہیں ڈوبتے اچھلتے ہیں


لیکن ایسے کوئی نکلتے ہیں
ڈوبے جو یوں کہیں وہ جا نکلے
غرق دریاے عشق کیا نکلے
عشق نے آہ کھو دیا اس کو


آخر آخر ڈبو دیا اس کو
جب کہ دریا میں ڈوب کر وہ جواں
کھو گیا گوہر گرامی جاں
دایۂ حیلہ گر ہوئی دل شاد


واں سے کشتی چلی بہ رنگ باد
خارخار دلی سے فارغ ہو
لے گئی پار اس گل نو کو
یہ نہ سمجھی کہ عشق آفت ہے


فتنہ سازی میں اک قیامت ہے
خاک ہو کیوں نہ عاشق بے دل
کام سے اپنے یہ نہیں غافل
وصل جیتے نہ ہو میسر اگر


لادے معشوق کو یہ تربت پر
یاں سے عاشق اگر گئے ناشاد
خاک خوباں بھی ان نے دی برباد
قصہ کوتاہ بعد یک ہفتہ


آئی وہ رشک مہ زخود رفتہ
کہنے لاگی کہ اب تو اے دایہ
ہوگیا غرق وہ فرومایہ
اب تو وہ ننگ درمیاں سے گیا


آرزومند اس جہاں سے گیا
تھے جو ہنگامے اس کے حد سے زیاد
ساتھ اس کے گئے وہ شور و فساد
شور فتنے تھے اس تلک سارے


اب تو بدنامیاں نہیں بارے
دل تڑپتا ہے متصل میرا
مرغ بسمل ہے یاکہ دل میرا
وحشت طبع اب تو افزوں ہے


حال جی کا مرے دگرگوں ہے
بے دماغی کمال ہوتی ہے
جان تن کے وبال ہوتی ہے
دل کوئی دم میں خون ہووے گا


آج کل میں جنون ہووے گا
بے کلی جی کو تاب دیتی ہے
طاقت دل جواب دیتی ہے
جی میں آتا ہے ہوں بیابانی


پر کہوں ہوں کہ ہے یہ نادانی
مصلحت ہے کہ مجھ کو لے چل گھر
ایک دو دم رہیں گے دریا پر
گاہ باشد کہ دل مرا وا ہو


ورنہ کیا جانیے کہ پھر کیا ہو
دایہ بولی کہ اے سراپا ناز
حسن کا در پہ تیرے روے نیاز
اب تو میں فتنے کو سلایا ہے


اس بلا کے تئیں بٹھایا ہے
کون مانع ہے گھر کے چلنے کا
سد رہ کون ہے نکلنے کا
ہو محافے میں دل خوشی سے سوار


شاد شاداں کر آب سے تو گذار
دل سے اپنے پدر کے غم کم کر
مادر مہرباں کو خرم کر
کر ملاقات ہمدموں سے تو


گرم بازی ہو محرموں سے تو
یہ نہ سوچی کہ بدبلا ہے عشق
گھات میں اپنی لگ رہا ہے عشق
جس کسو سے یہ پیار رکھتا ہے


عاقبت اس کو مار رکھتا ہے
جذب سے اپنے جب کرے ہے کام
عاشق مردہ سے بھی لے ہے کام
صبح گاہاں وہ غیرت خورشید


اس جگہ سے رواں ہوئی نومید
پہنچی نصف النہار دریا پر
روئی بے اختیار دریا پر
حد سے افزوں جو بے قرار ہوئی


دایہ کشتی میں لے سوار ہوئی
حرف زن یوں ہوئی کہ اے دایہ
یاں گرا تھا کہاں وہ کم مایہ
موج سے تھا کدھر کو ہم آغوش


تھا تلاطم سے کس طرف ہم دوش
تجھ کو آیا نظر کہاں آکر
پھر جو ڈوبا تو کس جگہ جاکر
مجھ کو دیجو نشان اس جا کا


میں بھی دیکھوں خروش دریا کا
ہوں میں ناآشناے سیر آب
ناشناساے موجہ و گرداب
لجہ کیا لطمہ کس کو کہتے ہیں


گھر میں ہم نام سنتے رہتے ہیں
ہیں میسر کہاں یہ سیر عبور
اتفاقی ہیں اس طرح کے امور
مکر میں گرچہ دایہ تھی کامل


لیک تہ سے سخن کے تھی غافل
یہ نہ سمجھی کہ ہے فریب عشق
ہے یہ مہ پارہ ناشکیب عشق
بیچ دریا کے جا کہا یہ حرف


یاں ہوا تھا وہ ماجراے شگرف
یاں وہ بیٹھا حباب کے مانند
پھر نہ تھا کچھ سراب کے مانند
سنتے ہی یہ کہاں کہاں کر کر


گر پڑی قصد ترک جاں کر کر
موج ہر اک کمند شوق تھی آہ
لپٹی اس کو بہ رنگ مار سیاہ
دام گستر دہ عشق تھا تہ آب


جس کے حلقے تمام تھے گرداب
حسن موجوں میں یوں نظر آوے
نور مہتاب جیسے لہراوے
تھیں وہ اس کی حنائی انگشتاں


غیرت افزاے پنجۂ مرجاں
سر پہ جس دم کہ آب ہو کے بہا
سطح پانی کا آئینہ سا رہا
کشش عشق آخر اس مہ کو


لے گئی کھینچتی ہوئی تہ کو
کودے غواص و آشنا سارے
تابہ مقدور دست و پا مارے
کھینچ کر کوفت سب ہوئے بیتاب


نہ لگا ہاتھ وہ در نایاب
جا ہم آغوش مردہ یار ہوئی
تہ میں دریا کے ہم کنار ہوئی
پاک کی زندگی کی آلائش


ہو کے دست و بغل کی آسائش
سر پٹکتی جو گھر گئی دایہ
آفت اک لے گئی نئی دایہ
اب و عم مادر و برادر سب


خاک افشان و آہ و نالہ بہ لب
دار و دستہ تمام اس گل کا
ترک آئین کر تحمل کا
سوے دریا رواں ہوئے گریاں


آتش غم سے دل جگر بریاں
خلق یک جا ہوئی کنارے پر
حشر برپا ہوئی کنارے پر
دام داروں سے سب نے کام لیا


آخر ان کو اسیر دام کیا
نکلے باہم ولے موئے نکلے
دونوں دست و بغل ہوئے نکلے
ربط چسپاں بہم ہویدا تھا


مر گئے پر بھی شوق پیدا تھا
ایک کا ہاتھ ایک کی بالیں
ایک کے لب سے ایک کو تسکیں
جو نظر ان کو آن کرتے تھے


ایک قالب گمان کرتے تھے
کیا لکھوں مل رہے وہ وصلی وار
ہم دگر سے جدا ہوئے دشوار
کیوں نہ دشوار ہووے ان کا فصل


جان دے دے ہوا ہو جن کا وصل
حیرت کار عشق سے مردم
شکل تصویر آپ میں تھے گم
مقولۂ شاعر


میرؔ اب شاعری کو کر موقوف
عشق ہے ایک فتنۂ معروف
قدرت اپنی جہاں دکھاتا ہے
اس سے جو تو کہے سو آتا ہے


کتنی وسعت ترے بیاں میں ہے
کتنی طاقت تری زباں میں ہے
لب پہ اب مہر خامشی بہتر
یاں سخن کی فرامشی بہتر


-


ہے جہان کہن تماشاگاہ
آصف الدولہ کا رچا ہے بیاہ
آؤ ساقی کہ کدخدائی ہے
طبع نواب ادھر کو آئی ہے


دل خوش احباب و شاد بہر دہر
بستہ آئیں دو راستہ ہے شہر
نئے سر سے جواں ہوا ہے جہاں
عیش و عشرت کے محو خرد و کلاں


ہر طرف شہر میں ہے آرائش
رہرواں کی نہیں ہے گنجائش
شیشہ باز فلک ہے آتش باز
کہکشاں سے ہوا ہوائی ساز


ماہ سے ماہتاب کی ہے طرح
کس سے ہو لطف روشنی کی شرح
نہیں رستوں میں روشنی کے دیے
نجم ہیں چشم روشنی کے لیے


کیا ستاروں کا چھوٹنا کہیے
آسماں کی طرف ہی تک رہیے
شب شادی کی دھوم کی کیا بات
روز روشن تھی روشنی سے رات


دو طرف چھوٹتے جو ہیں گے انار
راہ و رستے ہوئے ہیں باغ و بہار
آؤ ساقی کہ جمع ہیں احباب
سب مہیا ہیں عیش کے اسباب


لا وہ جوں آفتاب ساغر زر
آب گل رنگ سے لبالب کر
آج جھوما ہے ابر بخشش زور
کچھ نظر ہے تجھے ہوا کی اور


دست دستور ابر نیساں ہے
یعنی یک دست گوہرافشاں ہے
کر چمن زار دست و دل کی سیر
ہیں نہال آج آشنا و غیر


گل نمط دل شگفتہ سب کے کیے
خلعت فاخرہ سبھوں کو دیے
لا کہاں ہے وہ لالہ رنگ شراب
جس سے مست گذارہ ہوں احباب


آؤ مطرب لیے رباب و چنگ
کاڑھ منھ سے نواے سیرآہنگ
ہر طرف رقص میں ہیں گل رویاں
پاے کوباں ہیں سلسلہ مویاں


شادمانی سے ہو نواپرداز
دے بہار گذشتہ کو آواز
گل و لالہ سے چشم باز کرے
رنگ صحبت کو دیکھ ناز کرے


چھیڑ ساز طرب نوا کے تئیں
باندھ آواز سے ہوا کے تئیں
وجد میں لاؤ مے پرستوں کو
یاد دے ٹک سرود مستوں کو


آؤ ساقی کہ روشنی ہے خوب
محو آرائش آج ہیں محبوب
کاغذیں باغ کیا تماشا ہے
پھول کترا کہ گل تراشا ہے


بکّے سی مشعلوں کا ہوں بندہ
نور کا ماہ نے کیا چندہ
شیشہ شیشہ شراب ہے درکار
صحبت عیش کو چھکا یک بار


لالہ رنگ رخ نکویاں کو
مایۂ ناز خوب رویاں کو
اس پری کو نکال شیشے سے
رنگ مجلس میں ڈال شیشے سے


ہوئے سرمست ہو تماشائی
حکم کش ہے سپہر مینائی
چھوڑ آئین بردباری کا
سیر کرلے تزک سواری کا


چل گلابی کو ہاتھ میں لے لے
ایک دم جام متصل دے لے
ہے سواری کے فیل کی وہ دھوم
جیسے ابر بہار آوے جھوم


آئے دولت سرا سے ہو کے سوار
لعل ناب و گہر ہیں صرف نثار
اک مہابت کے ساتھ فیل نشاں
آگے مانند کوہ زر کے رواں


اور ہاتھی ہیں جھومتے جاتے
جیسے آویں جوان مدھ ماتے
جل زربفت کی ہے ساری شب
روکش انجم فلک ہیں سب


پلٹنیں جاتی ہیں برابر یوں
صف ہو مژگان دلبروں کی جوں
بال بستہ رکاب میں ہیں سرنگ
جن کے دیکھے کمیت چرخ ہے دنگ


خوش سواری و خوش جلو خوش راہ
باگ اچکی تو پھر نہ ٹھہری نگاہ
گردنوں میں پڑی حمائل گل
ہے جلو میں بصد شمائل گل


تھا بہت تیزگام اسپ خیال
رہ گیا دیکھ کر انھوں کی چال
تھے پری زاد چھیڑے اڑ جاویں
آنکھ پھیرو تو کل سے مڑ جاویں


کسمسانے میں باؤ سے آگے
ہاں کہے جیسے وہم جا لاگے
نوبتی اب طبیعتوں کو رجھاؤ
چل سواری کا ٹک اصول بجاؤ


چوب نقارے پر لگا اس ڈھب
کہ رکھیں گوش اس صدا پر سب
ایک دو دم بجائے جاؤ یوں ہی
دل کش آواز گائے جاؤ یوں ہی


پھینکتے ہیں جو دستہ دستہ گل
رہگذر میں ہیں رستہ رستہ گل
وہ جو دیوے تو کیا لیا جاوے
خوشہ خوشہ گہر دیا جاوے


ساقیا دے وہ مے جو باقی ہے
شادی ایسی بھی اتفاقی ہے
ہو مبارک یہ جشن خوش انجام
دور گردوں بہ کام عیش مدام


آ مغنی غزل سرائی کر
کچھ مزے سے بھی آشنائی کر
پڑھ غزل میرؔ کی جو ہووے یاد
ان کو تو اس میں کہتے ہیں استاد


غزل
موسم ابر ہو سبو بھی ہو
گل ہو گلشن ہو اور تو بھی ہو
کب تک آئینے کا یہ حسن قبول


منھ ترا اس طرف کبھو بھی ہو
ہو جو تیرا سا رنگ گل گاہے
ریجھیں ہم تب جب ایسی بو بھی ہو
ہے غرض عشق صرف ہے لیکن


شرط یہ ہے کہ جستجو بھی ہو
سرکشی گل کی خوش نہیں آتی
ناز کرنے کو ویسا رو بھی ہو
کس کو بلبل ہے دم کشی کا دماغ


ہو تو گل ہی کی گفتگو بھی ہو
دل تمناکدہ تو ہے پر میرؔ
ہو تو اس کی ہی آرزو بھی ہو

-


کیا کہوں اب کی کیسی ہے برسات
جوش باراں سے بہہ گئی ہے بات
بوند تھمتی نہیں ہے اب کی سال
چرخ گویا ہے آب در غربال


وہی یکساں اندھیر برسے ہے
آسماں چشم وا کو ترسے ہے
ماہ و خورشید اب نکلتے نہیں
تارے ڈوبے ہوئے اچھلتے نہیں


آب بن کوئی بولتا ہی نہیں
آسماں دیدہ کھولتا ہی نہیں
چرخ تک ہوگیا ہے پانی جو
ماہ و ماہی ہیں ایک جا ہر دو


لے زمیں سے ہے تا فلک غرقاب
چشمۂ آفتاب ہیں گرداب
خشک بن اب کی بار سبز ہوئے
موش دشتی کے خار سبز ہوئے


ابر کس کس سیاہ مستی سے
ہوتے جا ہیں بلند پستی سے
لڑکوں نے کی زمانہ سازی ہے
خاک بازی اب آب بازی ہے


ابر کرتا ہے قطرہ افشانی
پانی پانی رہے ہے بارانی
تنک آبی سے جان مت اغراق
ڈوبنے پر ہے کشتی آفاق


عقل مینہوں نے سب کی کھوئی ہے
بات باراں نے یاں ڈبوئی ہے
کیسا طوفان مینھ چھایا ہے
زخم دل نے بھی آب اٹھایا ہے


بیٹھے اٹھتے نہیں ہیں بام و در
یہ خرابی ہے شہر کے اندر
سقف آماج بوند پیکاں ہے
مینھ ہے یاکہ تیر باراں ہے


جیسے دریا ابلتے دیکھے ہیں
یاں سو پرنالے چلتے دیکھے ہیں
ابر رحمت ہے یاکہ زحمت ہے
ایک عالم غریق رحمت ہے


لے گئے ہیں جہان کو سیلاب
نقشہ عالم کا نقش تھا برآب
نہ ہے جلسہ نہ ربط یاراں ہے
شہر میں ہے تو باد و باراں ہے


روز و شب یاں ہمیشہ جھمکا ہے
ان دنوں رنگ برق چمکا ہے
بڑی بوندوں کی چوٹ سے ڈریے
سنگ باراں جہاں ہو واں مریے


پڑھتے ہیں یار درس حیرانی
آرسی کے بھی گھر میں ہے پانی
آدمی ہیں سو کب نکلتے ہیں
مردم آبی پھرتے چلتے ہیں


کتے ڈوبے گئے کہاں ہیں اب
سگ آبی ہی ہیں جہاں ہیں اب
وسعت آب پوچھ مت کچھ یار
کوچے موجوں کے ہوگئے بازار


معبد اب سارے گرتے آتے ہیں
زاہد خشک ڈوبے جاتے ہیں
تھا ٹھہرنا برابر ان کے شاق
مسجدوں میں کیا ہے استغراق


مینھ تو یاں لگے ہی رہتے ہیں
سارے عالم کے کان بہتے ہیں
غرق ہے چڑیا اور گلہری ہے
خشکی کا جانور بھی بہری ہے


مینھ ازبسکہ بہبہا ہے گا
اک جہاں کو ڈبو رہا ہے گا
تر ہیں جو خشک اور تروں میں ہیں
جانیں اک سوکھتی گھروں میں ہیں


شعر کی بحر میں بھی ہے پانی
بہتی پھرتی ہے اب غزل خوانی
لائی بارندگی کی چالاکی
آب خشک گہر پہ نمناکی


ہے زراعت جو پانی نے ماری
ہوگئی آبخست ترکاری
آب ہے گا جہاں کے سر تا سر
خوف سے سوکھتا ہے میوۂ تر


مست ہو ہوگئے ہیں مست شراب
غوطے کھاتے پھرے ہیں عالم آب
مستی ہے اب جو چاہیں سیر آبی
بط مے تو ہوئی ہے مرغابی


جتنی قحبائیں خشک تھیں مشہور
ان کی فرجوں سے سیل ہیں محشور
بھینگ خشتک انھوں کی تھیلا ہے
یہ خرابہ برے میں پھیلا ہے


دست غم اس قدر بہ طغیاں ہے
کہ ہر اک گوشہ بیچ طوفاں ہے
سیل دیکھے ہیں کوہساراں کے
لیے کشتی گدا ہیں باراں کے


جزر و مد جس کا تا فلک جا ہے
جو ہے تالاب قہر دریا ہے
ہر طرف ہیں نظر میں ابر سیاہ
پانی ہے جس طرف کو کریے نگاہ


سیل ہا در رکاب دیدۂ ماست
چشم تا کار می کند دریاست
پانی عالم کے تا بہ سر ہے گا
خشک مغزوں کا مغز تر ہے گا


خضر کیوں کرکے زیست کرتا ہے
آب حیواں میں پانی مرتا ہے
لکھے کیا میرؔ مینھ کی طغیانی
ہوگئی ہے سیاہی بھی پانی


-


چمن سے عنایت کے بادام وار
الٰہی زباں دے مجھے مغزدار
صفت عشق کی تا کروں میں بیاں
رہوں عشق کہنے سے میں تر زباں


عجب عشق ہے مرد کارآمد
جہاں دونوں اس کے ہیں برہم زدہ
جہاں جنگ صف کی یہ ظالم لڑا
صف الٹی جہاں ایک مارا پڑا


اگر لوگ مارے گئے سر بسر
ولے فتح اس کی ہے یہ طرفہ تر
کوئی کشتنی جو طرف ہوگیا
تہ تیغ اس کے تلف گیا


جہاں جس کسو سے اسے چاہ ہے
وہیں اس کے تا قتل ہمراہ ہے
کسو سے اگر ہوگئی لاگ سی
درونے میں اس کے لگی آگ سی


ہوا ملتفت یہ کسو سے کہیں
تو نام و نشاں اس کا پھر داں نہیں
وفاق اس کا نکلا سراسر نفاق
پڑا عاشقوں میں عجب اتفاق


جواں کیسے کیسے موئے عشق میں
بہت گھر خرابے ہوئے عشق میں
بہت عشق میں لوگ روگی ہوئے
بہت خاک مل منہ پہ جوگی ہوئے


گئے دشت میں کچھ نمد مو ہوئے
کچھ اک شہر میں پھر کے یکسو ہوئے
نہ مرغہی ہے نالاں و زار
گئے داغ کہسار سے لالہ وار


کسو کا جگر غم سے خوں ہوگیا
کسو کوہکن کو جنوں ہوگیا
کوئی زار باراں بہت رو چکا
کوئی برق سا جل بجھا ہوچکا


غرض عشق کا ہر طرف شور ہے
نئی روز شہروں میں اک گور ہے
بہت جان ناکام دیتے گئے
تمناے دل ساتھ لیتے گئے


بہت اہل اسلام کافر ہوئے
بہت اول عشق آخر ہوئے
بہت جرم الفت پہ مارے گئے
جوا عشق بازی کا ہارے گئے


ہوئے خانداں کیسے کیسے خراب
جواں جوں جوانی گئے کیا شتاب
کیا عشق جس دن سے مرتے رہے
جیوں ہی کا اندیشہ کرتے رہے


کسے عشق نے جی سے مارا نہیں
یہی درد ہے درد چارہ نہیں
دوا عشق کی سخت نایاب ہے
سر عاشقاں سنگ کا باب ہے


جو ہو عشق عارض تو پھر یاس ہے
عبث کوئی دن جینے کا پاس ہے
محبت ہے نیرنگ ساز عجیب
فسانے ہیں اس کے عجیب و غریب


کوئی عشق کرنا دھرا تھا درے
گئے مے کدے سے بھی صوفی پرے
نہ واں مکرو نے شیدو طامات ہے
خرابات جانا کرامات ہے


کہیں عشق نے آرزو کش کیے
گئے خوش جو عاشق سو ناخوش کیے
کہیں سہل تر یار مرنے لگے
کہیں لوگ دشوار مرنے لگے


کہیں کام ان نے کیے ہیں عجب
فسانہ ہوئی بزم عیش وطرب
کہیں بادشہ اس سے درویش ہیں
کہیں اس سے درویش دل ریش ہیں


لیا کاہ کا کوہ سے کیں کہیں
ملائے کہیں آسماں و زمیں
کہیں پڑگئے اس سے فتنے فساد
رہے زیر شمشیر حد سے زیاد


یہ عالم کا آشوب ہے دہر سے
مراد خطرگہ ہے اس شہر سے
ہوئے عشق میں زہد کیشاں خراب
رہے دل شکستہ پریشاں خراب


اٹھا عشق سے مجلس حال دہر
تواجد لگے کرنے شیخان شہر
کیا عشق میں ترک صوم و صلوٰۃ
گئے اہل مسجد سوے سومنات


مسلماں ہوئے عشق میں برہمن
گئے کعبہ کو چھوڑ دین کہن
نہ سبحہ نہ زنار نے کفر و دیں
جہاں سب ہے عشق اور کچھ بھی نہیں


محبت کے ساغرکش اہل صلاح
یہ بے ہوش دارو ہے ان کی فلاح
کوئی ہوش میں اپنے رہتا نہیں
ہر اک چپ ہے کچھ کوئی کہتا نہیں


رباطی ہیں خانہ سیہ عشق میں
مصلے ہوئے ان کے تہ عشق میں
ہمہ خاندان تفاوت خراب
خرابے سے ہیں بے تفاوت خراب


یہی عشق جس کے کہ حاصل ہے کام
یہی عشق ہے جس سے نکلا ہے نام
اسی عشق جس سے کہ حاصل ہے کام
یہی عشق ہے جس سے نکلا ہے نام


اسی عشق ہے عقدۂ دل ہے یہ
یہی عشق حلال مشکل ہے یہ
کہیں اس کو لڑنے سے پایا معاف
کہیں ان نے میدان مارے ہیں صاف


کہیں مومنانہ اسے درد دیں
کہیں کافرانہ ہوا بے یقیں
غرض عشق ہے طرفہ نیرنگ ساز
کہیں ناز یکسر کہیں ہے نیاز


-


کچھ حقیقت نہ پوچھو کیا ہے عشق
حق اگر سمجھو تو خدا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے نہیں ہے کچھ
عشق بن تم کہو کہیں ہے کچھ


عشق تھا جو رسول ہو آیا
ان نے پیغام عشق پہنچایا
عشق حق ہے کہیں نبی ہے کہیں
ہے محمدؐ کہیں علیؓ ہے کہیں


عشق عالی جناب رکھتا ہے
جبرئیل و کتاب رکھتا ہے
عشق حاضر ہے عشق غائب ہے
عشق ہی مظہر عجائب ہے


عشق کیا کیا مصیبتیں لایا
روز کو رات کرکے دکھلایا
عشق میں لوگ زہر کھاتے ہیں
عشق سے رنگ سبز پاتے ہیں


عشق سر تا قدم امید ہوا
زیر تیغ ستم شہید ہوا
مجھ سے مت پوچھ یہ کنھیں ہے عشق
عشق ہے ان ہی کو جنھیں ہے عشق


عشق سے رنگ زرد ہوتا ہے
عشق سے دل میں درد ہوتا ہے
رہتے ہیں عشق ہی میں مژگاں تر
یہیں دیکھی ہیں آنکھیں آتے بھر


عشق ہی کا خراب ہے کنعاں
عشق ہے ایک خانہ آباداں
عشق لایا ہے آفتیں کیا کیا
اس سے آئیں قیامتیں کیا کیا


قیس کیا رنج کھینچ کھینچ موا
سر پہ فرہاد کے سنا جو ہوا
عشق نے چھاتیاں جلائی ہیں
آگیں کس کس جگہ لگائی ہیں


عشق میں ایک جی کو کھو بیٹھے
ایک آنکھوں کو روکے رو بیٹھے
ایکوں کا جیب تا بہ دامن چاک
ایک ڈالے ہے سر کے اوپر خاک


شان ارفع ہیں جن کی خوار ہیں یاں
عقل والے جنوں شعار ہیں یاں
خستۂ عشق کچھ نہ میرؔ ہوئے
بادشہ عشق میں فقیر ہوئے


کوئی دل تنگ ہو کنویں میں گرا
کوئی ڈوبا کوئی گیا نہ پھرا
جب پتنگا ہوا تھا اس سے داغ
تب دیا جی کو ان نے پیش چراغ


عشق کی فاختہ ستم کش ہے
عشق سے عندلیب دم کش ہے
عشق باعث ہوا وطن چھوٹے
مرغ پکڑے گئے چمن چھوٹے


مایۂ درد و رنج سب ہے عشق
متصل رونے کا سبب ہے عشق
پڑ گئے دل جگر میں آخر چھید
کچھ نہ پایا کنھوں نے عشق کا بھید


اپنی تیغ ستم جو اینچے عشق
جامے بہتوں کے خوں میں کھینچے عشق
عشق سے قمری ہے حریف سرو
مہ سے آنکھیں لڑا رہا ہے تدرو


عشق کے دل فگار سارے ہیں
ان نے کیا کیا جوان مارے ہیں
کہیں حق ناحق ان نے خون کیے
کہیں سر پر کھڑا ہے تیغ لیے


کوئی محو گزاف ہیں اس سے
کہیں میدان صاف ہیں اس سے
اس سے یک جمع نے لیا ہے جوگ
ایک فرقے کا ہے یہ جی کا روگ


ایک کے لب پہ آہ ہے اس سے
ایک کا دن سیاہ ہے اس سے
ایک کا شیوہ اس سے نالہ کشی
ایک کو بے دمی ہے جیسے غشی


ایک ناشاد زندگانی سے
ایکوں کے دل گداز پانی سے
ایک کے پھول گل پہ نالے ہیں
ایک کے جان ہی کے لالے ہیں


ایک نے کوہ اس سے توڑ دیے
ایک تنکا کر ان نے چھوڑ دیے
چپ لگی ہے کسو کو اس کے سبب
بند رہتے نہیں کسو کے لب


کوئی باتیں کرے ہے شوق کے ساتھ
کوئی چپکا ہوا ہے ذوق کے ساتھ
ہے تواجد کسی کو حال کہیں
کہیں نقصان ہے کمال کہیں


ایک محو لباس عریانی
ایک سرگرم دامن افشانی
کسو کا ذکر کوئی ذاکر ہے
کوئی صابر ہے کوئی شاکر ہے


کہیں وسعت کہیں ہے تنگ اوقات
عشق کے ہیں گے مختلف حالات
سیر قابل ہیں اس کے دیوانے
سننے کے گوں ہیں اس کے افسانے


وصل میں جن کے دل رہیں بے جا
فصل ہو تو انھوں کا حال ہو کیا
اس بلا سے مجھے بھی کام ہوا
عاشق زار میرا نام ہوا


قصہ میرا بھی سانحہ ہے عجب
کس پہ گذرا ہے یہ ستم یہ غضب
معاملۂ اول
ایک صاحب سے جی لگا میرا


ان کے عشووں نے دل ٹھگا میرا
ابتدا میں تو یہ رہی صحبت
نام سے ان کے تھی مجھے الفت
خوبی ان کی جو سب کہا کرتے


گوش میرے ادھر رہا کرتے
بخت برگشتہ پھر جو یار ہوئے
اک طرح مجھ سے وے دوچار ہوئے
کیا کہوں طرز دیکھنے کی آہ


دل جگر سے گذر گئی وہ نگاہ
چپکے منھ ان کا دیکھ رہتا میں
جی میں کیا کیا یہ کچھ نہ کہتا میں
وے تو ہر چند اپنے طور کے تھے


پر تصرف میں ایک اور کے تھے
کرتے ظاہر میں احتیاط بہت
مجھ سے بھی رکھتے اختلاط بہت
بات کی طرز میری ہی بھاتی


میری آزردگی نہ خوش آتی
پیار چتون سے پھر نکلنے لگا
دیکھنا دل کو میرے ملنے لگا
کہیں دیکھوں تو بات دیر کہیں


بے دماغ اور بے گمان رہیں
کچھ کچھ آزار مجھ کو دینے لگے
قسم اقسام مجھ سے لینے لگے
میں جو کھاتا قسم تو ہو برہم


کہنے لگتے کہ کیا گدا کی قسم
ایک دو دن میں بعد رفع ملال
لطف سے پوچھتے کہو کچھ حال
جو گذرتی تھی مجھ پہ میں کہتا


یا کوئی اشک آنکھ سے بہتا
دیکھ کر روتے آپ بھی روتے
دل دہی کرتے جب تلک سوتے
معاملۂ دوم


ایک مدت تلک یہ صحبت تھی
کبھو الفت کبھو یہ کلفت تھی
رفتہ رفتہ سلوک بیچ آیا
ہاتھ پاؤں کو اپنے لگوایا


گاہ بے گاہ پاؤں پھیلاتے
میری آنکھوں سے تلوے ملواتے
چل کر آتے تھے جب کبھو ایدھر
پاؤں رکھتے تھے میری آنکھوں پر


دیکھنے میں تو پائمالی تھی
حسن سے چال یہ نہ خالی تھی
جلتی چھاتی تو ہوتا میں سائل
کہ ٹک اے سرو ہو ادھر مائل


کف پا رکھیے یاں تو احساں ہے
تیرے پاؤں تلے مری جاں ہے
ہنس کے سینے پہ پاؤں رکھ دیتے
دل مرا یوں بھی ہاتھ میں لیتے


کیا کہوں کیسا قد بالا ہے
قالب آرزو میں ڈھالا ہے
ایک جاگہ سے ایک جاگہ خوب
پیکر نازک اس کے سب محبوب


موے سر ایسے جی بھی کریے نیاز
بل ہی کھایا کرے یہ عمر دراز
اس کے کاکل سے حرف سر نہ کرو
کاکل صبح پر نظر نہ کرو


کچھ بھی نسبت ہے تم کو سودا ہے
کالے کوسوں کی بات کا کیا ہے
اس کی زلفوں میں دل گئے نہ پھرے
رہے سنبل کے پیچ پاچ دھرے


اس جبیں سے ہے دل کی کب جاذب
صبح صادق کے دعوے ہیں کاذب
ویسی بھوئیں کشیدہ بھی ہیں کہیں
یہ کمانیں کسو سے کھنچتی نہیں


پھری پلکوں کی اور سب کی نگاہ
چشم پر میری تیری چشم سیاہ
کہوں چتون کے دیکھنے کے طور
اس قیامت پہ وہ قیامت اور


سطح رخسار آئینے سے صاف
جو نہ ٹھہرے نگہ تو رکھیے معاف
لطف بینی کا فہم ہے دشوار
ایک باریک بینی ہے درکار


کیا جھمکتا ہے ہائے رنگ قبول
جیسے مکھڑا گلاب کا سا پھول
ہے دہن تنگی سے سخن کوتاہ
کچھ نکلتی نہیں سخن کی راہ


اس سے گل کیا چنے کوئی ہمدم
غنچۂ ناشگفتہ سے بھی کم
برگ گل سے زباں ہے نازک تر
پھول جھڑتے ہیں بات بات اوپر


کیا کہوں کم ہیں ایسے شیریں گو
وہ زباں کاش میرے منھ میں ہو
دم بدم سوے گوش اشارۂ صبح
گوہر گوش یا ستارۂ صبح


جب بناگوش ان نے دکھلایا
صبح کا سا سماں نظر آیا
ان لبوں کا مزا لیا سو بھانت
تس کے اوپر ہمارا بھی ہے دانت


تم نہ گل برگ و لعل ناب کہو
بات جب تک نہ ٹھہرے چپکے رہو
کوئی جاں بخش یوں کہے سو کہے
ہم تو مرتے ہی ان لبوں پہ رہے


کنج لب آرزوے جان و دل
آگے چلنا نگاہ کو مشکل
ان لبوں سے جو کوئی کام رکھے
قند و مصری کو کیوں نہ نام رکھے


جو حلاوت انھوں کی کہیے اب
ہم دگر سے جدا نہ ہوویں لب
جب وے کھاتے ہیں بیڑۂ پاں کو
رو نہیں دیتے لعل و مرجاں کو


ایسی ہوتی نہیں ہے سرخ لبی
رنگ گویا ٹپک پڑے گا ابھی
ہو تبسم سے لعل کا دل خوں
ہنستے دیکھا تھا سو مجھے ہے جنوں


نہیں دیکھے مسی ملے دنداں
برق ابر سیہ ہے تب خنداں
کیسے کیسے چمکتی ہے بے تہ
جگ ہنسائی کرے ہے اپنی یہ


بو اگر کیجے اس زنخ کا سیب
جائے سر سے جنون کا آسیب
رہے گردن میں ان کی میرا ہاتھ
یہ تو یارب ہے میرے جی کے ساتھ


بس چلے تو گلے لگا ہی رہوں
تیغ سے پھر جدا کریں تو نہ ہوں
اس میں ہرچند جی کا نقصاں ہے
مدعا اختلاط چسپاں ہے


خوش و پرکار کب پری ان سی
اور ہو تو کہاں ہے ہم جنسی
دیکھے ازبس برآمدہ سینے
ایسا معلوم دل جو یوں چھینے


کیا نظرگاہ کی کروں خوبی
نظریں اٹھتی نہیں یہ محبوبی
شانہ و دست و ساعد و بازو
دلکشی میں تمام یک پہلو


اس کے تو پہلو سے میں ہوکے جدا
درد پہلو سے تنگ دل ہی رہا
ہائے اس سے خدا جدا نہ کرے
دور اس سے جیوں خدا نہ کرے


یوں نہیں سرخ اس کی ہر انگشت
ڈوبی ہیں میرے خون میں یک مشت
وہ کف دست راحت جاں ہے
کاش سینے پہ رکھ دے غم یاں ہے


کیا بیاں خوبی شکم کو کرے
دیکھنے سے کبھو نہ پیٹ بھرے
صدر کے ناحیے سے لے تا ناف
چپ کی جاگہ ہے کیونکے کہیے صاف


اس سے پھر آگے غنچۂ گل ہے
یاں سخن بابت تامل ہے
پردے میں بھی جو کچھ کہا جاوے
آپ سے تو نہ ٹک رہا جاوے


گئی نظروں سے وہ کمر باریک
ہو نہ آنکھوں میں کیوں جہاں تاریک
اور کیا دل زدے کو بات آوے
کہیں یارب شتاب ہاتھ آوے


نازکی اس میاں کی کیا کہیے
بنے تو ہاتھوں میں لیے رہیے
ٹک اگر لچکے تو قیامت ہے
پھر قیامت تلک ندامت ہے


کیوں پڑی ران پر نظر تا ساق
اس بن اب زندگی ہوئی ہے شاق
پاے جاناں سے گفتگو ہے اب
خاک میں ملنے کا یہی ہے ڈھب


وہ قدم کاش فرق سر پر ہو
ساق سیمیں مری کمر پر ہو
وہ کف پا قریب ہو میرے
ٹھوکر اس کی نصیب ہو میرے


پنڈلی نازک ہے شاخ سنبل کی
پشت پا پنکھڑی سی ہے گل کی
یوں نصیبوں سے ہو حنا کا ناؤں
ورنہ ڈوبے ہیں میرے خوں سے پاؤں


ناخن پا حنائی ہیں ایسے
برگ گل پاے سرو ہوں جیسے
ہو خراماں تو اس طرف نگہیں
گل کفش اس کی لوگ دیکھ رہیں


گل و بلبل سبھی تماشائی
آگئے جس طرف بہار آئی
رنگ رفتار دیکھ مجنوں ہو
طرز گفتار جیسے افسوں ہو


سر سے پاؤں تلک وہ محبوبی
ساتھ ان خوبیوں کے یہ خوبی
کہ بہت دل ہے آشناے رحم
دردمندوں کو جانے جاے رحم


اب جو ثابت ہوئی ہے میری چاہ
اس کو مدنظر ہے مجھ سے نباہ
طعن و تعریض بیچ میں آئے
کچھ نہ خاطر میں وہ مجھے لائے


رستے میں اک طرف وفا کے لیے
چلے جاتے ہیں مجھ پہ لطف کیے
نہیں آزار کی رواداری
مہرورزی ہے یا وفاداری


پر جو معشوقی آب و گل میں ہے
چھیڑ رکھنے کا شوق دل میں ہے
میں کروں تو کہیں خوش آتا ہے
تیرا آزار جی سے بھاتا ہے


خواہ ناخواہ وہ نہیں منظور
کہ رہے دل شدہ مرا رنجور
یہ بھی شوخی سے ہے گہے گاہے
پر اس انداز سے کہ جی چاہے


معاملۂ سوم
ایک دن فرش پر تھا میرا ہاتھ
باتیں کرتے تھے وے بھی میرے ساتھ
پاؤں سے ایک انگلی مل ڈالی


لطف سے درد وہ نہ تھا خالی
درد سے کی جو میں نے بے تابی
دست نازک سے دیر تک دابی
یاد آتے ہیں ایسے لطف جو اب


گذرے ہیں جان غم زدہ پہ غضب
تن بدن دیکھ جی نہ رہتا تھا
میں جو گستاخ ہوکے کہتا تھا
کہ یہ جاگہ تم اس فقیر کو دو


متبسم ہو کہتے وے یہ لو
یہ بھی کیا کیا خیال رکھتے ہیں
آرزوے محال رکھتے ہیں
پھر گھڑی بھر میں کہتے ہو نہ ملول


مار کھانے کی باتیں سب ہیں قبول
جب سلوک ان کا یاد آتا ہے
کیا کہوں جی ہی بھول جاتا ہے
معاملۂ چہارم


ایک دن پان وے چباتے تھے
سرخ لب ان کے مجھ کو بھاتے تھے
کہہ اٹھا میں اگر اگال مجھے
منھ سے دو تو کرو نہال مجھے


بولے یوں ہی ہے میں کہا ہاں سچ
جھوٹا کھاتے ہیں میٹھے کی لالچ
ہنس کے اس وقت مجھ کو ٹال دیا
پھر اسی رنگ سے اگال دیا


ایسی صدرنگ مہربانی تھی
تب سیہ رو کی زندگانی تھی
اب کے سے رنگ گر فلک لاتا
خاک کے رنگ میں مجھے پاتا


معاملۂ پنجم
منقبت ایک مجھ سے کہوایا
جس کا میں نے صلہ انھیں پایا
پھر وہی کرتے میں جو کچھ کہتا


ایک پردہ سا بیچ میں رہتا
دوستی رابطہ وفا اخلاص
ساتھ میرے تھا ان کو رابطہ خاص
میں تقاضائی ملنے کا رہتا


مختلط ہونے کو سدا کہتا
میری تسکیں تھی ہر زماں منظور
آپ بھی کرتے ملنے کا مذکور
وصل کے وعدے ہی رہا کرتے


آج کل رات دن کہا کرتے
دل تو تھا رحم آشنا ازبس
کڑھتے تھے جان کر مجھے بے کس
جانتے تھے کہ ہے یہ دل دادہ


سید خستہ خاک افتادہ
دیکھتے مجھ کو جو پریشاں دل
کہتے اے میرؔ کچھ نہیں حاصل
دیکھ ٹک تو ہی تیرا حال ہے کیا


جانے دے اب بھی یہ خیال ہے کیا
آفت جاں ہے دوستی کرنا
کب تلک گھٹ کے اس طرح مرنا
میں جو دیوانہ ان کے رو کا تھا


شیفتہ پیچ دار مو کا تھا
کچھ نہ سمجھی گئی کہن ان کی
اب جدائی جو ہے کٹھن ان کی
یاد کرتا ہوں اور روتا ہوں


وعدہ بن ہی ہلاک ہوتا ہوں
معاملۂ ششم
گل روؤں بن جگر ہے داغ کباب
گیسوؤں بن ہے جی کو پیچ و تاب


صورت ان کی خیال میں ہردم
خواب میں جو ہوں وہ مژہ باہم
میں تو بستر پہ دل شکستہ اداس
چاند سا منھ انھوں کا تکیے پاس


میں بچھونے پہ بے خود و بے خواب
ایک پیکر پری کا سا ہم خواب
فرش پر پاؤں یہ غبار آلود
ان میں وے دونوں پا نگارآلود


میں تو افتادہ محو عجز و نیاز
بازو میرے کسو کی بالش ناز
جلتی آنکھوں کنے گل رخسار
جس پہ کچھ بکھرے موے عنبربار


پاس منھ کے وے لال تر نازک
دست گستاخ پر کمر نازک
فرش اس گل بدن سے سب بویا
پھول میں نے بچھائے تھے گویا


شب کٹی صورت خیالی سے
دن کو ہوں میں شکستہ حالی سے
گرچہ روزانہ بھی تصور تھا
لیکن اندوہ سے مکدر تھا


کہیں تصویر سی نظر آئی
کہیں منھ پھیر جیسے شرمائی
کبھی دل ان کے روومو میں رہے
کبھی ملنے کی آرزو میں رہے


صورت حال اور کچھ ہر دم
گاہ لب خشک گاہ مژگاں نم
میں بھی مقدور تک وفا کی ہے
جان غمناک پر جفا کی ہے


برسوں تک میں پھرا ہوں سرگرداں
روز و شب دونوں تھے مجھے یکساں
نے فقط جان سے جہاں سے گیا
زن و فرزند خانماں سے گیا


کیچ پانی ہو مینھ ہو یا برسات
روز روشن ہو یا اندھیری رات
ان تلک میرے تیں پہنچ رہنا
بیٹھے منھ دیکھنا نہ کچھ کہنا


آشنا یار سارے بیگانے
کہ ہوئے میرؔ جی تو دیوانے
رشتۂ ربط انھوں نے توڑ دیا
ملنا جلنا سبھوں نے چھوڑ دیا


نظر آتے نہیں ہیں مدت سے
انس پیدا کیا ہے وحشت سے
صبح ہوتے ہی گھر سے چلتے ہیں
جیسے کھوئے گئے نکلتے ہیں


چلتے جاتے ہیں دیکھتے ہی راہ
پر کہیں کی کہیں پڑے ہے نگاہ
مل گیا جو کوئی تو بچ نکلے
سڑی خبطی دوانے سچ نکلے


شوق سے ان کے حال دیگرگوں
پارہ پارہ دل و جگر سب خوں
رنگ ہر دم مزاج کا کچھ اور
کل کا کچھ اور آج کا کچھ اور


کیا بیاں کریے بے قراری کا
ذکر کیا حال اضطراری کا
جی پڑا ترسے ساتھ سونے کو
دل پریشان جمع ہونے کو


پاس ان کے رہوں تو دل کو قرار
پھر نہ ٹھہرے ٹک ایک کریے ہزار
گئی برباد عزت ان کے لیے
جلف لوگوں نے منھ پہ طعنے دیے


گھورے پر سے جو اٹھ نہ سکتے تھے
وے بھی کناس پوچ بکتے تھے
سفر آیا جو ان کے تیں درپیش
ساتھ اس رنج میں بھی تھا درویش


کیا کہوں جو اذیتیں دیکھیں
ہر قدم پر قیامتیں دیکھیں
جو پڑھے گا تسنگ نامہ یاں
ہوگی ساری حقیقت اس پہ عیاں


یاں نہ تفصیل کرنے کا تھا مقام
کہ محبت سے یاں ہے حرف کلام
معاملۂ ہفتم
بارے کچھ بڑھ گیا ہمارا ربط


ہوسکا پھر نہ دو طرف سے ضبط
تب ہوا بیچ سے یہ رفع حجاب
جب بدن میں رہی نہ مطلق تاب
ایک دن ہم وے متصل بیٹھے


اپنے دل خواہ دونوں مل بیٹھے
شوق کا سب کہا قبول ہوا
یعنی مقصود دل حصول ہوا
واسطے جس کے تھا میں آوارہ


ہاتھ آئی مرے وہ مہ پارہ
گہ گہے دست دی ہم آغوشی
ہم سری ہم کناری ہم دوشی
چند روز اس طرح رہی صحبت


پیار اخلاص رابطہ الفت
کچھ کہوں جو انھوں کی ہو تقصیر
نارسائی تھی طالعوں کی میرؔ
ہوگئے بخت اپنے برگشتہ


پھر کیا آسماں نے سرگشتہ
بات ایسی ہی اتفاق پڑی
کہ ہوئی سر پہ فرقت آن کھڑی
لگی کہنے کہ مصلحت ہے یہ


کتنے روزوں جدا تو مجھ سے رہ
یوں بھی آتا ہے عشق میں درپیش
کہ نشان بلا ہوں الفت کیش
میں اٹھایا نہیں ہے تجھ سے ہاتھ


کڑھیو مت تو ہے میری جان کے ساتھ
اس جدائی کا مجھ کو بھی غم ہے
کیا کروں آبرو مقدم ہے
میں کہوں کیا مجھے نہ اپنا ہوش


جیسے تصویر سامنے خاموش
آنسو آنکھوں میں پر پیے جاؤں
وے کہیں کچھ تو ہاں کیے جاؤں
ان سے رخصت ہوئے جو بعد شام


تیرہ دیکھا جہان کو ہر گام
دل ٹھہرتا نہ تھا ملالت تھی
جان کو رفتگی کی حالت تھی
یوں ہوا ان کے کوچے سے آنا


جیسے ہووے جہان سے جانا
اب جو گھر میں ہوں تو فسردہ سا
چارپائی پہ ہوں تو مردہ سا
جی انھوں میں فسردہ قالب یاں


متحرک ہو کیا تن بے جاں
حال دل کا کہوں جو ہمدم ہو
کروں پیغام کچھ جو محرم ہو
جی میں کچھ آیا رو کے بیٹھ رہا


دل زدہ چپکا ہوکے بیٹھ رہا
کوئی آیا جو واں سے جی آیا
سو نہ آیا کبھی کبھی آیا
دیکھیے چند یوں رہیں گے جدا


چاہے ہے کیا ہمارے حق میں خدا
خون دل کب تلک پئیں گے ہم
رنگ یہ ہے تو کیا جئیں گے ہم
آہ کیا کیا بیاں کروں خوبی


دل دہی حال پرسی محبوبی
تند ہوکر نہ بات کو کہنا
ملتفت حال زار پر رہنا
لطف مبذول حال پر ہر آن


تازہ ہر دم مروت و احسان
لب سے جاں بخش حرف سے دل جو
لطف سے پوچھنا کہ خوش ہے تو
یاد کر روؤں ان کی کون سی بات


کس طرح کاٹوں ہجر کے اوقات
ملنا ان سے ہو پھر گھٹے غم بھی
آئے جیتوں میں جانیے ہم بھی
مدت ہجر اگر تمام ہوئی


ورنہ اپنی تو صبح شام ہوئی

-


ایک دن مثل پتنگ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی
خود بخود کچھ ہم سے کنیانے لگا
اس قدر بگڑا کے سر کھانے لگا


میں کہا اے دل ہوائے دلبراں
بس کہ تیرے حق میں کہتی ہے زباں
پیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کسو کے یار غار


گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر
اب تو مل جائے گی تیری ان سے سانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ


سخت مشکل ہوگا سلجھانا تجھے
قہر ہے دل ان سے الجھانا تجھے
یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اڑاتے ہیں تجھے


ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں
دل نے سن کر کانپ کر کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر دیا کٹ کر جواب


رشتہ در گرد نم افگندہ دوست
می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست

-


ثناے جہاں آفریں ہے محال
زباں اس میں جنبش کرے کیا مجال
کمالات اس کے ہیں سب پر عیاں
کرے کوئی حمد اس کی سو کیا بیاں


کہوں کیا میں اس کی صفات کمال
کہ ہے عقل کل یاں پریشاں خیال
خرد کنہ میں اس کی حیران ہے
گماں یاں پریشاں پشیمان ہے


زمین و فلک سب ہیں اس کے حضور
مہ و خور ہیں اس سے ہی لبریز نور
یہ صنعت گری اس ہی صانع سے آئے
کف خاک کو آدمی کر دکھائے


نہ آوے کسی کے جو ادراک میں
سو رکھ جائے وہ اس کف خاک میں
بری ہے گا تمثیل و تشبیہ سے
منزہ ہے وہ بلکہ تنزیہ سے


وہی حاصل مزرع آسماں
کیے ان نے دانے میں خرمن نہاں
سفید و سیہ کو نہیں اس کی بار
ورے ہے زمانے کی لیل و نہار


در توحید انشا طراز حسینے کہ فقرۂ یکتائی او بہ عالم دویدہ
سوا اس کے نقصاں ہے گر دیکھیے
کمال اس کے ہی ہیں جدھر دیکھیے
سر رشتہ ہے خلق کا اس کے ہاتھ


وہ شب باز ان پتلیوں کے ہے ساتھ
سبھوں میں نمود اس کی ہی شان ہے
یہ قالب ہیں سارے وہی جان ہے
گل و غنچہ و رنگ و بو و بہار


یہ سب رنگ اللہ ہی کے ہیں یار
اگرچہ ہیں یاں سب کی طرحیں جدا
یہ سب طرحیں ہیں ایک نام خدا
سما ارض و خورشید یا ماہ ہے


جدھر دیکھو اللہ ہی اللہ ہے
نظر کرکے ٹک دیکھ ہر جا ہے وہ
نہان و عیاں سب میں پیدا ہے وہ
بہرصورت آئینہ ہے گا جہاں


یہ سب عکس اس کے ہی پڑتے ہیں یاں
ملک جن و حیواں جماد و نبات
جو اس بن ہیں تو حیف ہے کائنات
وجود و عدم اس سے دونوں ہیں شاد


وہی ہے گا مبدا وہی ہے معاد
مجھے ساقی دے کوئی جام عقیق
ولیکن لبالب ہو اس میں رحیق
رکھے آپ میں جس کی آمد مجھے


کہ درپیش ہے نعت احمدؐ مجھے
در نعت سید المرسلین
ثنا جان پاک محمدؐ کے تیں
درود و تحیات احمدؐ کے تیں


رسول خدا و سر انبیا
زہے حشمت و جاہ صل علےٰ
دیا مجلس کبریا کا ہے وہ
شرف دودمان قضا کا ہے وہ


سب اس صفحے میں ہیں ظہور خدا
پر اس سے عبارت ہے نور خدا
جہاں وہ ہے واں جبرئیل امیں
اڑے حشر تک تو پہنچتا نہیں


کروں اس کی قربت کا کیا میں بیاں
کہ تھا قاب قوسین ادنیٰ مکاں
مرا زیر پا اس کے فرق نیاز
کیا جس کی خلقت پہ صانع نے ناز


بہ صورت اگر عبد مشہود ہے
حقیقت کو پہنچو تو معبود ہے
نہیں پاشکستوں کا اب دست گیر
محمدؐ بن اور آل بن اس کے میرؔ


گنہگار ہوں چشم لیک اس سے ہے
توقع شفاعت کی ایک اس سے ہے
درود آل پر اس کے ہر صبح و شام
وہ ہے شافع حشر و خیر انام


پلا ساقیا بادۂ لعل گوں
کہ ہوجائیں سرخ آنکھیں مانند خوں
ہے اب حرف مستانہ کا دل میں جوش
کر آویزۂ گوش گر کچھ ہے ہوش


مناجات بہ طور عاشقان زار در بلاے جدائی گرفتار
مرا زخم یارب نمایاں رہے
پس از مرگ صد سال خنداں رہے
رہے دشمنی جیب سے چاک کو


صبا دوست رکھے مری خاک کو
مژہ اشک خونیں سے سازش کرے
غم دل بھی مجھ پر نوازش کرے
جگر سے طپیدن موافق رہے


مرا درد دل مجھ پہ عاشق رہے
جو نالہ ہو شب گیر کا روشناس
وہ آٹھوں پہر ہی رہے میرے پاس
مژہ گرم افسوس و نم ناک ہو


کہ سیلاب آتش پہ خاشاک ہو
کرے نیزہ بازی یہ آہ سحر
کہ خورشید کی پھوٹ جاوے سپر
خموشی سے مجھ کو رہے گفتگو


اڑے پر لگاکر مرا رنگ رو
نہ مرہم سے افسردہ ہو داغ دل
شگفتہ رہے یہ گل باغ دل
سدا چشم حیرت سے نسبت رہے


مجھے دیکھ رہنے کی فرصت رہے
اگر ضعف ٹک کسب طاقت کرے
مری ناتوانی قیامت کرے
مری بیکسی ناز بردار ہو


مروں میں تو مرنے کو تیار ہو
بیاباں میں آشفتہ حالی کروں
کہیں تو دل پر کو خالی کروں
کریں دونوں عالم ملامت مجھے


ڈبو دیوے اشک ندامت مجھے
مرا ہاتھ ہو چاک کا دستیار
کہ تا جیب و دامن ہو قرب و جوار
جنوں میرے سر پر سلامت رہے


بیاباں میں مجھ سے قیامت رہے
بہکنے سے مجھ کو نہ ہو وارہی
بھلا دے خضر کو مری گمرہی
جو ہو گرم رہ پاے پرآبلہ


تو ہوجائے سرد آتش قافلہ
ارے ساقی اے غیرت آفتاب
کہاں تک ہمیں خون دل کی شراب
کبھو ساغر بادہ کا دید ہو


محرم ہمارا کبھو عید ہو
در تعریف عشق خانماں آباد و آزادگان برنا نہاد
زہے عشق نیرنگ سازی تری
کہ ہے کھیلنا جی پہ بازی تری


تجھی سے ہے آب رخ زرد زرد
تجھی سے مرے دل میں اٹھتا ہے درد
تجھے ربط کفار و دیں دار سے
تجھے رشتہ تسبیح و زنار سے


تجھی سے ہے بلبل کو نوحہ گری
تجھی پر ہے قمری بھی خاکستری
ترا جذب دریا کو بہنے نہ دے
ترا شور صحرا کو رہنے نہ دے


تجھی سے دل شاد غم ناک ہے
تجھی سے مرا سینہ صد چاک ہے
تمنا کو تونے کیا ہے شہید
تجھی سے نہ برآئی میری امید


تجھی سے ہے مجنون صحرانورد
تجھی سے ہے فرہاد کوہوں پہ مرد
تجھی سے گلوبند ہے خستگی
تجھی سے ہے وابستہ دل بستگی


تجھی سے دل عاشقاں ہے کباب
تجھی سے ہے پروانہ آتش کا باب
ترا کام دینا ہے بدنامیاں
تری ریجھ دیکھے ہے ناکامیاں


تجھی سے سراسیمہ ہیں یار لوگ
تری تیغ سے قیمہ ہیں یار لوگ
تجھی میں ہیں یہ کارپردازیاں
تجھی پر ہیں موقوف جانبازیاں


مجھے اس کے چھپنے کا سودا رہا
ولیکن ترا راز رسوا رہا
لہو اپنا عاشق پیا ہی کیے
ترے جرم پر جی دیا ہی کیے


ترا ہی نمک خوار ہے زخم دل
کہ مرہم سے بیزار ہے زخم دل
تجھے اک ہے مژگاں سے یہ ربط اشک
کہ مشکل ہوا ہے مجھے ضبط اشک


کدھر ہے تو اے ساقی لالہ فام
نہ لغزش ہے تجھ بن نہ بہکا کلام
کہاں تک کوئی خون دل کو پیے
کوئی کیونکے اس رنگ ظالم جیے


زبانی درویش جگر ریش کہ ایں بلا در سفر آمدش پیش
کسو معتبر سے روایت ہے ایک
کہ درویش سے یہ حکایت ہے ایک
کہ اک ملک میں میں قضارا گیا


جواں ایک واں مفت مارا گیا
وہ جس طور مارا گیا اب کہوں
تعجب میں اس کے کہاں تک رہوں
سن اب آ جو کچھ اس کے جی پر ہوا


مصیبت زدہ بن اجل ہی موا
اٹھا سیر کرنے کو میں ایک روز
پشیمانی اس کی ہے مجھ کو ہنوز
نظر جا پڑی جو مری ایک سو


سر راہ بیٹھا تھا اک خوب رو
فقیروں کی سی جھولی ایک اس کے پاس
گلے میں نہایت مکلف لباس
سر اوپر تھا ہنگامہ اک اس کے جمع


پتنگے اکٹھے ہوں جوں گرد شمع
لقب اس کا دیوانۂ عشق تھا
کہ شہرت میں افسانۂ عشق تھا
جوانی کے گلشن کا وہ تازہ گل


کرے جس کی خاک قدم غازہ گل
اسی کی سی مقدور تک سب کہیں
سدا اس کا منھ دیکھتے ہی رہیں
وہ اک دودماں کا تھا روشن چراغ


جلاتے تھے سارے اسی پر دماغ
ولے اس کے دل میں اک آتش نہاں
کہ دیجے جلا اس سے سارا جہاں
سب آرام چاہیں اسے اضطرار


سراپا تلک ایک دل بے قرار
نہ کچھ ہوش گھر جانے کا اس کو تھا
تشتت نہ مرجانے کا اس کو تھا
نہ طاقت تھی تن میں نہ کچھ جی میں تاب


نہ دل پاس نے صبر و آرام و خواب
سر راہ دل قیمہ قیمہ لیے
یہ کہتا تھا مرجایئے بس جیے
سن اس نوگل عشق کی بے کلی


رہا کرتی ماتم سرا وہ گلی
دل و صبر و ہوش و توان و حواس
رہیں اس کی وحشت سے سارے اداس
نہ ناموس کا ننگ نے نام کا


بلا دوست دشمن تھا آرام کا
شب و روز فریاد کرنا اسے
کئی بار اک دم میں مرنا اسے
تماشے کا دیوانہ پیدا ہوا


زمانے کو چندے تماشا ہوا
جو دم لے طپش تو شتابی کرے
تسلی دل کی خرابی کرے
کرے طرح داغوں سے وہ باغ کو


روائی اسی سے زر داغ کو
دل غم زدہ سے محبت اسے
قیامت خوشی سے عداوت اسے
وہ بے تابیوں سے بہت کم فراغ


کہاں صبر کرنے کا اس کو دماغ
اٹھے اس کے جی سے فغاں کے شرر
رہے برچھیاں سہتی آہ سحر
وہ ہرچند ہر صبح کو ہو ملول


ولیکن دعا اس کی کیا ہو قبول
نہ آنسو کو اس کے تھی اس پر نظر
نہ آہ سحر میں تھا اس کے اثر
کہے رنگ رو کیوں مرا زرد ہے


رکھے ہاتھ دل پر کہ کچھ درد ہے
کرے دیدۂ اشک افشاں پہ ناز
بدے لخت دل رونے کی کچھ نیاز
وہ کاندھے پہ نعش تمنا کے تیں


کرے تعزیت خانہ دنیا کے تیں
سنے نہ کسو کی نہ اپنی کہے
بیاں اس کا کچھ گو مگو ہی رہے
لے آ ساقی گر بادۂ شوق ہے


سیہ مستی کا ہم کو بھی ذوق ہے
کھلا چاہتا ہے گل راز عشق
کہ پردے میں کب تک بجے ساز عشق
رفتن درویش پیش آں جوان رفتہ از خویش و دل دہی کردن او بیش از بیش


یہ قصہ جہاں میں فسانہ ہوا
مجھے بھی سخن کا بہانہ ہوا
ولے گاہ وہ شمع مجلس فروز
کئی بیتیں پڑھتا تھا وہ سینہ سوز


کہ جن کا یہ مضمون تھا دوستاں
جلے ہے گی تقریر کرتے زباں
بڑی آتش عشق سرکش ہے یاں
جگر کیوں نہ جل جائے آتش ہے یاں


نظر آ کہیں جارہا ہے یہ جی
کہ آنکھوں میں اب آرہا ہے یہ جی
زن و مرد کی ہوں زباں سے بتنگ
ہوا ہوں میں سارے قبیلے کا ننگ


سدا خون دل میں طپیدہ ہوں میں
کہ آہ بہ لب نارسیدہ ہوں میں
تری دوری میں پہنچی ہے اے حبیب
وداع دم واپسیں بھی قریب


جگر تو ہو پانی بہا غم کے بیچ
یہ دم بھی ہوا ہے کوئی دم کے بیچ
سمجھنا یہ بھی اے مرے سر پہ خاک
کس امید پر میں ہوا ہوں ہلاک


تو جب سے در اوپر نظر آگئی
رہیں آفتیں میرے سر پر نئی
نہ نامہ نہ پیغام نے رسم و راہ
یونہی ہوتی جاتی ہے حالت تباہ


دل و دیدہ سب مدعی ہوگئے
تماشائی مجھ پر بہت رو گئے
کئی بار جاں لب پر آ پھر گئی
کہاں ہے تو اے گل ہوا پھر گئی


یہ حیران ہوں صبر آتا نہیں
تصور ترا جی سے جاتا نہیں
خراش جگر سے ہے چھاتی میں درد
کہ جس سے ہوا جائے ہے رنگ زرد


رہا کرتی ہے داد بیداد یاں
دل شب سے گذرے ہے فریاد یاں
سر رہ تک آ دیکھ یہ خستہ حال
کہ ہے نقش پا کی طرح پائمال


ترے دور غم میں تو جوں کیمیا
سنا ہی گیا نام مہر و وفا
نہ آنا نظر ہی ادا ہے ولیک
نہ اتنا کہ جاتا رہے جی سے ایک


ترے غم میں اے آفت روزگار
ہزاروں بلائیں ہیں یاں روبکار
کہاں ہے تو محمل نشین حیا
سر راہ نالاں ہوں مثل درا


کہہ اس طرز سے حال دل کا تمام
خموشی کو پھر اس نے فرمایا کام
کہاں ہے تو اے ساقی گل عذار
کہ دے مجھ کو جام مئے خوش گوار


کہوں قصۂ عشق بے کیف و کم
قلم بے خودانہ کرے کچھ رقم
مجھے آہ اک اس کے دل کی لگی
کہے تو کہ سینے میں برچھی لگی


گیا زہرۂ تاب دل آب ہو
کہا آگے جاکر میں بے تاب ہو
کہ اے نازپرورد مہر و وفا
کوئی اپنے جی پر کرے ہے جفا


مثل ہے کہ جی ہے تو ہے گا جہاں
وگرنہ موئے پر ہے کیا میری جاں
تلف یوں نہیں جان کرتا کوئی
نہیں اس سلیقے سے مرتا کوئی


تہ دل ہو معلوم تا بول ٹک
تو مژگان خوں بستہ کو کھول ٹک
سخن حسرت آلود کہنے پہ آ
کچھ اک دل کی باتیں زباں پر بھی لا


وگرنہ تو رک رک کے مرجائے گا
یہ ہے عشق کام اپنا کر جائے گا
تو ہے صرصر غم سے آتش بجاں
دیا سا نہ بجھ جائیو اے جواں


تو اے شمع خامش زباں ٹک ہلا
کہ کس مجلس افروز سے تو جلا
تو کس آتش تند پر ہے سپند
ترا دود دل یہ ہوا ہے بلند


جلاتی ہے آتش تری میرے تیں
کیا داغ کس شعلے نے تیرے تیں
گھٹا پاتے ہیں تجھ کو ہر صبح و شام
نہ کاہیدہ ہو تو ہے ماہ تمام


ترا درد پنہاں ہے گو آشکار
یہ مجھ سے بیاں کر کہ ہوں رازدار
کہیں دل لگا ہو تو یہ مجھ سے کہہ
کہوں اس سے جاکر غمیں تو نہ رہ


جہاں کو تو بھیجے وہاں جاؤں میں
کہے کام جو تو بجا لاؤں میں
جو حور بہشتی بھی ہو تیری یار
کروں میں ملک کی طرح واں گذار


خدا جانے کیا جی میں بات آگئی
کہ یہ میری دل جوئی ہی بھا گئی
یہ سن کر جوان زخود رفتہ نے
جگر سوختہ اور دل تفتہ نے


کیا سوز دل کو لبوں پر نمود
زباں تاب کھانے لگی جیسے دود
سخن ہونے لاگے نمودار کچھ
لگا کرنے پیچیدہ گفتار کچھ


کہ جس سے یہ معنی ہوئے مستفاد
کہ اے غم گسار دل نامراد
جو دل جوئی میری ہے مدنظر
تو یاں اک محلہ ہے ٹک قصد کر


نہیں اس کو درکار کچھ جستجو
سرا ایک ترسا کی ہے قبلہ رو
زبانی مری در پہ یہ جا کے کہہ
کہ احوال سے میرے غافل نہ رہ


ترے واسطے خوب رسوا ہوا
مرے سر پہ ہنگامہ برپا ہوا
تسلی شکیبائی مطلق نہیں
پر اب تاب تنہائی مطلق نہیں


رہی جب تلک تن میں تاب و تواں
اٹھایا تحمل کا بار گراں
شتابی سے دے ساقیا جام عشق
کہ لکھنے لگا ہوں میں پیغام عشق


ہوا آخر اب دل کا سب خون ناب
پیوں کب تلک اک گلابی شراب
کہے سے جواں کے غرض قصد کر
گیا بندہ ترسا کے دروازے پر


سن آواز دستک کی اک رشک حور
مہ چاردہ سی نپٹ باشعور
دوچار آکے مجھ سے ہوئی ایک بار
گیا جس کے دیکھے سے صبر و قرار


ہوئی دیکھے سے جب حقیقت عیاں
کہا میں کہ تاجر پسر تھا جہاں
بشر کیا ہے دیکھ ایسی آفت کے تیں
فرشتہ بھی رو بیٹھے عصمت کے تیں


کہا میں نے پیغام جو آیا بن
پہ خوبی سے اس کی کروں کیا سخن
مژہ بخت عاشق کی برگشتگی
نگہ ایک عالم کی سرگشتگی


قد و قامت اس کا کروں کیا بیاں
قیامت کا ٹکڑا ہوا تھا عیاں
وہ نازاں جدھر آتی تھی اچپلی
قیامت بھی آتی جلو میں چلی


میں سودائی اس زلف تاریک کا
ہر اک مو سبب رنج باریک کا
شکن اس کی کاکل کا دام بلا
ہر اک حلقۂ زلف کام بلا


بھووں کی کمانوں سے لگ زلف تار
الٹتے تھے اڑ اڑ کے جوں تیرمار
اگر ابرو اس کی جھمک جاتی تھی
مہ نو کی گردن ڈھلک جاتی تھی


ہلے اس کے ابرو جدھر کرکے ناز
کرے اس طرف ایک عالم نماز
کمان اس کے ابرو کی عاشق کمیں
خدنگ اس کی مژگاں کے سب دل نشیں


نہ آنکھوں کی مستی کی اس کو خبر
خرابی نہ عاشق کی مدنظر
نگہدار تھی سرخی چشم کی
طرفدار تھی اپنے ہی خشم کی


شہید اس کی چشمک کے دل خستگاں
نشانے نگاہوں کے دل بستگاں
مژہ موجب قتل جمع کثیر
غرض سب تھے یہ ایک ترکش کے تیر


چھپیں اس کے غمزے میں کتنی سناں
نمایاں ہوئی سب پہ مرگ جہاں
جبیں کھول دی اس پری زاد نے
کہ چیں مانی خوبان نوشاد نے


رواں اس شب افروز سے اشک شمع
یہیں سے ہے روشن کہ تھی رشک شمع
وہ مردوں کو زندہ دوبارہ کرے
مسیحا جہاں سے کنارہ کرے


پری منفعل رنگ رخسار سے
خجل کبک انداز رفتار سے
خضر تشنہ اس کے ہے دیدار کا
مسیحا شہید اس کے بیمار کا


سوا اس کی باتوں کے سب باتیں ہیں
جسے سن کے مردے بھی جی جاتے ہیں
غرض اور سب یونہی کہنے کو ہیں
مسیحا کے لب یونہی کہنے کو ہیں


لب سرخ اس کے وہ گل برگ تر
چھپیں جن میں دنداں کے سلک گہر
تبسم میں اپنے وہ برق بہار
دم حرف ہوتے گئے آبدار


دہن غنچۂ ناشگفتہ سے کم
سخن رہرو راہ تنگ عدم
تبسم ٹک اک گر وہ دلکش کرے
تو گلشن میں گل صد چمن غش کرے


نہ دیکھا کسی نے جو تن اس کا صاف
نظر گر نہ ٹھہرے تو کیجے معاف
کمر اس کی ممکن نہیں ہاتھ آئے
مگر صاحب دست غیب اس کو پائے


نہ رنگ صفا ہی فقط تن پہ تھا
کہ مینا کا خون اس کی گردن پہ تھا
کیا ان نے پامال فتنوں کا خوں
حنا اس کے ہاتھوں میں کتنوں کا خوں


ادا اس کی عاشق کے جی کی بلا
نہ میری تمھاری سبھی کی بلا
اگر جلوہ گر ہو وہ محشر خرام
تو معلوم ہے پھر جہاں کا قیام


خراماں خراماں جدھر آگئی
قیامت ہی گویا ادھر آگئی
اسے لغزش پا مئے ناز سے
وہ مست سر انداز انداز سے


نہ ہووے وہ دن جس میں ہووے نقاب
چلا جائے پردے ہی میں آفتاب
اسی بت کا ہر اک تئیں ذکر ہے
خدا کو خدائی کا اب فکر ہے


چڑھاوے اگر ہاتھ سے آستیں
تو پھر دست موسیٰ بھی کچھ ہے نہیں
ہوئیں طرح اس سے جفاکاریاں
نکالی ہیں ان نے دل آزاریاں


ترحم کو پاؤں تلے وہ ملے
ستم اس کے کوچے سے بچ کر چلے
جو آمد ہو اس کی نصیب چمن
کرے ترک گل عندلیب چمن


گلی اس کی فردوس کا تھی شرف
بہشت اک گنہگار سی اک طرف
زمیں اس کی یک دست گلزار تھی
نسیم چمن واں گرفتار تھی


گلی اس کی وہ قتل گاہ عجیب
شہادت وہاں خضر کو ہو نصیب
وہی جاے باش دل عاشقاں
اسی پر معاش دل عاشقاں


صبا گر اڑا دے تنک واں کی خاک
تو نکلے زمیں سے دل چاک چاک
کئی نعرہ کش واں کئی نعرہ زن
کئی خوں گرفتہ کئی بے کفن


کئی بے وطن واں سفر کر گئے
سسکتے ہیں کتنے کئی مر گئے
ہر اک جان ہر شخص ناکام کی
ہوادار اس کے لب بام کی


پھروں گرد ساقی نشے میں ترے
گلابی ہی منھ کو لگادے مرے
مجھے مست آب سیہ دے کے کر
چلوں جوں قلم پھر میں مطلب اپر


سنا وہ جگرسوز پیغام جب
کیے آشنا حرف سے لعل لب
پڑھی اک رباعی نہ کر اعتنا
کہ مضمون جس کا یہ موزوں ہوا


کہ ہجراں میں جو بے قراری کرے
سر راہ فریاد و زاری کرے
نہ سونے دے نالوں سے ہمسایہ کو
بھلی مرگ ایسے فرومایہ کو


محبت کی رہ میں یہ پہلا ہے کام
کہ سر سے گذر جائیے شاد کام
نہیں شرط الفت میں چین جبیں
اگر پیش آوے دم واپسیں


جو پھوٹا ہی پڑتا ہو جوں آبلہ
وہ ہے دم میں واماندۂ قافلہ
نہ جو ہوسکے ہجر کا پائمال
تو بہتر ہے ہونا ہی اس کا وصال


گیا میں جواب اس سے لے کر ادھر
سر رہ تھا پامال غم وہ جدھر
حقیقت بیاں کی سب اس جاے کی
جواں نے یہ سنتے ہی اک ہائے کی


گئی ساتھ اس ہائے کے اس کی جاں
گرا خاک پر ہوکے بے دم جواں
تکے تھا مگر رہ سفر کر گیا
کہ اک بات کی بات میں مر گیا


نہ دیر اس کو ہوتے ہوئے جی سے سیر
مجھے بات کے کہتے لاگی بھی دیر
مری بات میں خون بلبل ہوا
دیا سا وہ جلتا جو تھا گل ہوا


میں یہ واقعہ دیکھ گھبرا گیا
کہ یوں یہ گل تازہ مرجھا گیا
نہ سوجھا مجھے اور کچھ اس سوا
کہ کریے بیاں طرف ثانی سے جا


ملامت کروں اس کو میں یک جہاں
کہ اے بے حقیقت گئی اس کی جاں
ترے ناز بیجا کا تو کیا گیا
پر اک بے گنہ اس میں مارا گیا


رہی گھر میں خوبی پہ تجھ کو نظر
سر رہ گیا ایک جی سے گذر
ہے اب مشت خاک اس کی ذلت کا باب
ترے آستاں بن ہے مٹی خراب


یہ ٹھہرا میں اودھر روانہ ہوا
ادھر مرنا اس کا فسانہ ہوا
پلا ساقی ماہ وش ایک جام
گیا کاستن ہی میں ماہ تمام


کہاں ہے وہ خون کبوتر سی مے
کہ پی کر فغاں کیجیے مثل نے
غرض جوں توں کر قطع میں راہ کی
گیا تھی جہاں منزل اس ماہ کی


کی آواز دستک کہ بار دگر
ہوئی گھر میں القصہ میری خبر
در خانہ پر آئی اک پیر زن
لگی کرنے عشق جواں سے سخن


کہ کیوں دوسری بار آیا ہے تو
شگوفہ مگر اور لایا ہے تو
کوئی رہ گیا تھا پیام جواں
جو تو پھر شتابی سے آیا یہاں


بیاں کر جو کہنا ہو تجھ کو شتاب
کہ ہے منتظر غیرت آفتاب
کہا میں نے اے پیر زن کیا کہوں
عزادار اس نوجواں کا میں ہوں


پیام اس کا لایا تھا میں اس لیے
کہ وہ بے اجل مرتا ہے ٹک جیے
سو یاں سے گیا لے کر ایسا جواب
کہ جس سے نکلتا تھا ناز و عتاب


نہ تھی تاب حرف درشت اس کے تیں
کیا غم نے تھا نیم کشت اس کے تیں
نہ مشغول یوں ہی وہ زاری سے تھا
وہ بے تاب بے اختیاری سے تھا


نہ سمجھی یہ رشک پری اس کے تیں
دکھائی دی عشوہ گری اس کے تیں
چڑھا ان نے تیوری اک انداز سے
کہا بے مزہ ہو کے یوں ناز سے


کہ جس کو نہ ہو تاب لانے کی تاب
شتابی سے مرنا ہے اس کا صواب
ہوا سامنے اس کے میں حرف زن
یہ اس کی زباں سے کہا میں سخن


جواں سنتے ہی کرکے ایدھر نگاہ
سفر کر گیا جان سے بھر کر آہ
یہی ماجرا کہنے آیا ہوں یاں
خبر اس کے مرنے کی لایا ہوں یاں


کہہ اس سے کہ اے کشتۂ غم کی جاں
گیا آخرالامر جی سے جواں
یہ کہہ دس قدم واں سے میں تھا چلا
کہ اک شور کانوں میں میرے پڑا


گذرنے لگی دل سے آواز آہ
لگا ہونے آنکھوں میں عالم سیاہ
صدا ایک نوحے کی آنے لگی
کہ یعنی وہ دختر ٹھکانے لگی


محبت نے کام اپنا پورا کیا
کہ ان دونوں لعلوں کو چورا کیا
فقیر آن کر سخت نادم ہوا
کہ میرے سبب دونوں کا جی گیا


یہ بھی جاے گریہ ہے ساقی سنا
کہ بدلے گزک کے ہے یاں دل بھنا
تھوڑی(۱) دارو دے سایۂ تاک میں
بہ رنگ گل اب لوٹیے خاک میں


مقولۂ شاعر
عجب کی نہیں جا نہ کھا پیچ و تاب
یہ اے میرؔ ہے عشق خانہ خراب
سنا ہے کہ فرہاد پر کیا ہوا


پھر اس عشق نے شیریں سے کیا کیا
عزا کا ہے مجنوں کی نوحہ پڑا
سیہ خیمہ لیلیٰ کا بھی ہے کھڑا
گئی جان وامق کی کس رنگ سے


ہوا چاک عذرا کا سر سنگ سے
گئی آہ نل کی فلک سے ادھر
دمن ہے بگولہ زمیں کے اپر
بہت عشق کی آگ میں جل گئے


بہت اٹھتے جاتے ہیں شعلے نئے
گئی جل کے آخر پتنگوں کی جاں
چراغوں سے اک دود دل ہے کشاں
ہے بے تاب ذرہ اسی سے کباب


جلے ہے اسی آگ میں آفتاب
دل اس داغ سے مہ کا بھنتا ہی ہے
کتاں کا جگر چاک سنتا ہی ہے
سیہ رنگ اگتا ہے سرو سہی


وہی رنگ قمری ہے خاکستری
بھنور کے بھی جی پر پڑے گل کئی
کنول کی کھلی آنکھ پھر مند گئی
کوئی نالہ بلبل سے ہے یادگار


خزاں اس چمن میں ہے گل کی بہار
کہیں ساقی دے آب گل رنگ کو
کشادہ بھی کر اس دل تنگ کو
گلے لگ کے مینا کے ٹک رویئے


فسانہ بھی آخر ہے اب سویئے

-


ہے قابل حمد وہ سرانداز
جو سب میں ہوا ہے جلوہ پرداز
اس کو مئے حسن نے چھکایا
ہستی کا نشہ اسی سے آیا


پی ان نے شراب خودپرستی
طاری ہوئی اس پہ زور مستی
وہ مست شراب ناز ہے فرد
خورشید ہے اس کا جام پرورد


ہے گردش چشم اس سے افسوں
پھر جائے ہے جس کے ساتھ گردوں
ظلمت ہے دوئی کی تجھ سے احول
آخر ہے وہی وہی ہے اول


عالم ہے قرابۂ مئے خام
ہے دور سپہر گردش جام
مشہور جہاں جو کیف و کم ہے
بے نشہ جو ہووے تو ستم ہے


وہ مست نیاز ہے حرم میں
وہ رفتۂ ناز ہے صنم میں
ہے آب رخ زمانہ اس سے
روشن ہے تمام خانہ اس سے


مینا میں جو سرکشی ہے وہ ہے
صہبا میں جو دلکشی ہے وہ ہے
شمشاد ہے سرفراز اس سے
گل دیدۂ نیم باز اس سے


خوگر اسے نازپیشگی ہے
وہ ہے کہ جسے ہمیشگی ہے
عکس اس کا پڑا ہے جام مے میں
آتی ہے صدا اسی کی نے میں


ہے جلوہ گری میں یاں بصد ناز
وہ مست گزارہ و سرانداز
سو رنگ ہیں اس کے یاد رکھ تو
ہر جلوہ سے دل کو شاد رکھ تو


عالم میں جو کچھ نمود میں ہے
ہر لحظہ اسے سجود میں ہے
کر یاد اسی کو اور مے پی
جیتا رہے کوئی دن تو خوش جی


اب روے سخن چمن کو کریے
میناے دل اور مے سے بھریے
آئی ہے بہار مے گساراں
پھولے ہیں چمن میں گل ہزاراں


آئی ہے بہار و ہر خیاباں
ہے لطف ہوا سے گل بہ داماں
آئی ہے بہار زہدکیشاں
ہے توبۂ بادہ دل پریشاں


آئی ہے بہار مرغ گلزار
کرتا ہے نواے سینہ افگار
لایا ہے بہ زور اس کا نالہ
مجھ کو بھی براے سیر لالہ


ساقی جو کروں میں بے ادائی
معذور رکھ اب بہار آئی
گل باد صبا کے تا کمر ہے
دامان بلند ابر تر ہے


غنچہ کی گلابیاں بھری ہیں
تکلیف کی منتظر دھری ہیں
ظالم مئے ناب دے ہوا ہے
یک جرعہ شراب دے ہوا ہے


ہر سر میں ہے شور فصل دے کا
جھمکے ہے ہوا سے رنگ مے کا
اطراف چمن کھلا ہے لالہ
ہر پھول شراب کا ہے پیالہ


آیا ہے چمن پہ ابر جوشاں
آب رخ کار سبزپوشاں
تحریک نسیم دم بہ دم ہے
تکلیف ہواے گل ستم ہے


ابروں نے بھی کی ہے مے پرستی
اٹھتے ہیں بصد سیاہ مستی
بوندوں کا جو لگ رہا ہے جھمکا
رنگ گل و لالہ زور چمکا


ہے گل کی ہوا سبو کشی میں
بلبل کا دماغ بوکشی میں
ہر شاخ ہے شوخ جام در دست
نرگس ہے کسو کی نرگس مست


ہے رنگ ہوا کا آفتابی
جھومیں ہیں نہال جوں شرابی
ہے سرو جوان نشہ در سر
لوٹے ہے روش پہ سبزۂ تر


چشمک کرے ہے حباب جو کا
یعنی کہ ہے دور اب سبو کا
ساقی قدحے کہ ذوق مل ہے
مطرب غزلے کہ فصل گل ہے


غزل
شب وہ جو پیے شراب نکلا
جانا یہ کہ آفتاب نکلا
قربان پیالۂ مئے ناب


جس سے کہ ترا حجاب نکلا
تجھ بن جو پیا تھا قرط مے کا
آنکھوں سے ہو خون ناب نکلا
مستی میں شراب کی جو دیکھا


عالم یہ تمام خواب نکلا
شیخ آتے تو مے کدے میں آیا
پر ہو کے بہت خراب نکلا
یک جرعہ شراب ہی میں واعظ


ہر مسخرگی کا باب نکلا
تھا غیرت بادہ عکس گل سے
جس جوے چمن سے آب نکلا
ہو صرف شراب کاش ساقی


یہ شیشۂ عمر ہے جو باقی
بے ساغر مے خنک ہے جینا
رکھتا ہے شگوں شراب پینا
لا بادۂ کہنہ سال نو ہے


سجادہ بھی بابت گرو ہے
دروازۂ مے کدہ کھلا ہے
ہر پیر و جواں کو الصلا ہے
اینڈے ہے ہر ایک مست جوں تاک


لیتے نہیں نام دامن پاک
ہر مغبچہ فتنہ زیر سر ہے
ہر گوشے میں عالم دگر ہے
مستی نگاہ عقل دشمن


خوبی خرام مرد افگن
کہتے گئے صاحب کرامات
ہم ہی نہیں قابل خرابات
جو لوگ کہ اس جگہ سے اٹھے


کب حلقہ و خانقہ سے اٹھے
یاں پیتے ہیں جام بے خودی کا
ہے دور تمام بے خودی کا
مستی سے ہر ایک صبح صد بار


خورشید کا سر ہے اور دیوار
ہے قابل سیر خرقہ پوشاں
دریا دلی شراب نوشاں
ان لوگوں کی ہر کمینہ صف میں


کشتی ہے شہ و گدا کی کف میں
ہر کوچے میں رہتی تھی منادی
تا رسم خردوری اٹھا دی
از خود شدن اک مقام ہے گا


وہ مرتبہ یاں مدام ہے گا
ہرچند ہے دور پر کہاں تک
اک لغزش پا میں یاں سے واں تک
بے خود ہو کہ یہ حجاب اٹھے


دل یاں سے کہیں شتاب اٹھے
پہنچیں ہیں فنا کو بے خودی سے
پاتے ہیں خدا کو بے خودی سے
پی جرعہ و ہوش کو دعا کہہ


ہر بادہ فروش کو دعا کہہ
جوشش میں ہے بادۂ کہن سال
عبرت ہو جسے خوش اس کا احوال
اب دل میں مرے بھی جوش آیا


اب وقت وداع ہوش آیا
کھینچوں میں کہاں تلک دم سرد
ساقی وہ شراب شعلہ پرورد
وہ داروے درد بے حضوراں


وہ مایۂ نور چشم کوراں
سرمایۂ عمر جاودانی
یعنی وہی آب زندگانی
وہ میوۂ خوش رسیدہ بارے


وہ عیش دل گزیدہ بارے
آئینۂ حسن خودپسنداں
زینت دہ عنبریں کمنداں
وہ رنگ رخ بہار یعنی


وہ بادۂ خوش گوار یعنی
یاقوت گداز دادۂ عشق
یعنی وہی جام بادۂ عشق
وہ لطف ہوا وہ سیر مہتاب


وہ شعلۂ غوطہ خورد در آب
وہ کام دل سبو بدوشاں
یعنی کہ وہی شراب جوشاں
وہ موجب دل خوشی کہاں ہے


وہ داروے بے ہشی کہاں ہے
وہ جس کی طرف کو ہے تہ دل
یعنی وہی ماہ شیشہ منزل
وہ آتش تیز آب آمیز


وہ عربدہ جو وہ فتنہ انگیز
وہ مقصد جان ناامیداں
وہ روسیہی روسفیداں
وہ رونق کارگاہ شیشہ


وہ شوکت بارگاہ شیشہ
وہ جس سے ہے توبہ موپریشاں
وہ جس سے ہو گفتگو پریشاں
وہ دامن خشک جس سے جل جائے


ثابت قدموں کا پاؤں چل جائے
وہ سرخی چشم خوب رویاں
اسباب خرابی نکویاں
وہ دلبر خودسر و شلائیں


وہ رہزن راہ دین و آئیں
وہ جس سے غبار دل سے دھوؤں
مینا کے گلے سے لگ کے روؤں
مستی کی مجھے بھی خواہشیں ہیں


اس عقل سے دل کو کاہشیں ہیں
لا اس کو جو آستین جھاڑوں
پھر ہاتھ چلے تو جیب پھاڑوں
بے ہوش شراب ناب رہیے


یوں تا بہ کجا کباب رہیے
ہے مستی بے خودی ضروری
کھل جائے مقام بے شعوری
دل غم سے بھرا ہے زور میرا


تا عرش گیا ہے شور میرا
ہے دل میں کہ گل کی اور رو ہو
شیشہ ہو بغل میں اور تو ہو
ہر گام پہ لغزش قدم ہو


تکلیف شراب دم بہ دم ہو
جب سجدہ کناں ہوں صبح خیزاں
جب کاکل صبح ہو پریشاں
جب نکلے ستارۂ سحرگہ


کر نعرۂ الصبوح یک رہ
ہے ذوق شراب صبح گاہی
بے لطف نہیں ہے روسیاہی
جب ہووے نشہ ترنگ آوے


مستی مجھے باغ میں لٹاوے
شیشہ مرے منھ کو تو لگاوے
کر ایسی نگاہ جو چھکاوے
جب بے خودی تمام آوے


سر پر مرے ہوش رو کے جاوے
رخصت ہے تجھے کہ میں نہ ہوں گا
بے ہوش و خرد ہی پھر رہوں گا
بیٹھا تو کروں گا شکر تیرا


ہو ورنہ قبول عذر میرا
مقولۂ شاعر
کیا میرؔ شراب تونے پی ہے
بیہودہ یہ گفتگو جو کی ہے


یا آب سیہ ترے قلم نے
یہ تجھ سے عجب کیا ہے ہم نے
تو کاہے کو اتنا ہرزہ گو تھا
کب در گرو شراب تو تھا


بس مے سے زباں کو اب نہ تر کر
مستی سخن پہ ٹک نظر کر
ہے نشۂ سامعہ دوبالا
پھر حرف نہ جائے گا سنبھالا


-


دشت سے بستی میں آیا ایک مور
زور تھا واں حسن کا رانی کے شور
اڑ کے گھر راجا کے پہنچا بے قرار
دیکھ اس کو ہوگیا حیران کار


جاذبہ تھا حسن کا اس کے کمال
جانور بھی ہوگیا محو جمال
تھی نگہ رخسار پر حیرت کے ساتھ
چشم تھی رفتار پر الفت کے ساتھ


گر خرام ناز سے جی لے گئی
خوش نگاہی جان تازہ دے گئی
خستۂ انداز اس کا ہر بشر
رفتہ اس کے ناز کا ہر جانور


دیکھتا تھا سیر میں جلوہ گری
جا نشینہ میں جو بیٹھی وہ پری
روبرو جاکر ہوا وہ بھی کھڑا
ٹک ٹھہر کر مضطرب ہو گر پڑا


اضطراب عشق نے تاثیر کی
دل دہی کرنے اٹھی دل گیر کی
پیار سے کہنے لگی مت ہو اداس
پاس رہ میرے کروں گی میں بھی پاس


تو ہے وحشی اس قدر مانوس ہے
انس انساں کو نہ ہو افسوس ہے
ہے مزاج اپنے پرائے سے نفور
بھاگوں ہوں مانند وحشی سب سے دور


پاس رہنے سے ترے ہے دل خوشی
ہے بلا اس بال و پر میں دلکشی
اس کشش کی تھی نہ مجھ کو کچھ خبر
ہوش اڑا کر لے گئی یہ مشت پر


اب تو دل بھی لگ گیا ہے تیرے ساتھ
یک بیک سب سے اٹھایا میں نے ہاتھ
پاس رہ کر پاس ظاہر ہے ضرور
آوے راجا گھر میں تو پھر دور دور


وہ مبادا ربط سے ہو بدگماں
دوستی ہو جاوے تیری خصم جاں
رنگ رنگ اس عشق کے ہیں گے سلوک
رنگ ہردم بدلے ہے کین ملوک


رنگ صحبت دیکھ کر رنگ اور لائے
اس کو چسپاں اختلاطی خوش نہ آئے
دل ہی راجا کا جو بدبر ہو تو پھر
ترک ہی کرنا پڑے دونوں کو سر


دل بلاے بد ہے جو چاہے کرے
کچھ نہیں پروا اسے کوئی مرے
دل نہ ہوتا تو نہ جاتی دل کی تاب
دل بدن میں ایک ہے خانہ خراب


دل سے کیسے کیسے گھر ویراں ہوئے
لوگ کیا کیا بے سر و ساماں ہوئے
دل اچٹے شہ فقیری کر گئے
جنگلوں میں شہر سے جا مر گئے


مرغ گلشن دل لگی آئے بگیر
بے کلی سے اس کے ظاہر ہیں اسیر
دل نہ ہوتا کاشکے اجسام میں
کرنی تھی ایسی عطا اجرام میں


کرتے تا معلوم قدر عافیت
ہوتی اس عالم کی بھی ایسی ہی گت
مختلط رہنے سے بعد ازچند روز
شور بدنامی اٹھا اک سینہ سوز


کھل گئی غماز لوگوں کی زباں
سب پہ ظاہر ہوگیا راز نہاں
کان راجا کے بھرے دشمن ہوا
بدگمان و بدبر و بدظن ہوا


کار ظن بد کھنچا اک طول کو
سمجھا نامعقول وہ معقول کو
اب یوں ہی کرتا ہے ظاہرداریاں
ورنہ ہیں کینہ کی باتیں ساریاں


دھوم رسوائی کی ہوئی اقران میں
کسر شاں اس کی ہوئی اعیان میں
آنا جانا گھر میں کا اب ہوچکا
پاس ربط و رابطہ سب ہوچکا


بدگمانی سے ہوا ہے کینہ ورز
ہے نمودار آنکھ سے خصمی کی طرز
گھر میں لاتے ہیں کبھو تو گھیر کر
بات کہتا ہے تو منھ کو پھیر کر


راہ میں ہے یا کبھو پھر جائے ہے
پھر گیا تو دیر میں پھر آئے ہے
چار سو چھوٹے ہوئے جاسوس ہیں
ہم دگر کے درپئے ناموس ہیں


مصلحت ہے دور رہ ٹک آج کل
اس میں شاید مٹ بھی جاوے کل مکل
سر پہ لایا ہے بلا آفت کا ربط
جی بچے ہیں شوق کا گر ہووے ضبط


دل لگی تو اک خدا کا ہے غضب
اس سے پھر یارب ہے لب پر روز و شب
دل گرفتہ دل شکستہ دل زدہ
ان نے مارے مرد کیا کارآمدہ


بے دلاں بے دل رہے تو خوب ہے
تن بدن میں ایسے اک آشوب ہے
دل کے جائے ہی ملے ہے امتیاز
اہل دل کہتے ہیں جو ہو دل گداز


دل بلاے جاں ہے اے طاؤس ہائے
اس کے پہلو سے ہے لب پر ہائے وائے
ہے گی یہ دل بستگی خانہ خراب
دربدر پھرنے کا کر دیوے ہے باب


خانہ ویرانی نہیں میری ہی اب
ہے خرابی جہاں کا دل سبب
اپنے تو گھر بار کا ہے ہی فسوس
گھر ترا بھی ویسے ہے بار خروس


کیا اڑایا ہے تجھے اے مشت پر
خاک سے لے کر گیا افلاک پر
واں سے پٹکے دیکھیے کیونکر تجھے
ساتھ آوارہ کرے کیدھر مجھے


سن کھڑا طاؤس سب سنتا رہا
درد و غم سے دیر سر دھنتا رہا
بے زبانی تھی نہ کچھ کہنا بنا
چپکے ہی آزردہ دل رہنا بنا


حزن کے ساتھ اک حزیں آواز کی
گرتے پڑتے دوقدم پرواز کی
دیر سر دیوار سے مارا کیا
صبر سے ناچار پھر چارہ کیا


پاس سے کچھ دور ہی رہنے لگا
جور ہجر یار کے سہنے لگا
بے دل و آزردہ گاہے ہے کھڑا
سر جھکائے گاہ یک سو ہے پڑا


مضطرب ہو شور کرتا ہے گہے
دل پہ رکھ دیتا ہے سر تا ٹک رہے
دور دور اس سے پھرے الفت کے ساتھ
پھر کے دیکھے اس طرف حسرت کے ساتھ


آوے راجا یا نہ آوے یہ گیا
صبر کرنا اس کو اس بن ہے بنا
نوشکیبی دل لگی پر ہے عذاب
جی ملے ڈالے ہیں غم کے پیچ و تاب


عشق و بے صبری بہت مشکل ہے کام
مرگ عاشق کا ہے یہ بھی ایک نام
جی کے گھبرائے ہوا تھا پرفشاں
طاقت پرواز اس میں تھی کہاں


فرط دل تنگی سے ہوکر دل گرا
اک پرافشانی میں سر کے بل گرا
پاؤں میں نے زور تھا نے سر میں شور
ناتواں طاؤس تھا مانند مور


دوڑی محبوبہ یہ اس کا حال دیکھ
رہ سکی نہ عاشقانہ چال دیکھ
اشک ریزاں سر پہ اس کے رو رکھا
خوف طعن خلق کا یک سو رکھا


ہو تسلی جاتے بارے رہ گیا
جان کا بھی ڈر کنارے رہ گیا
چشم وا ہونے لگی اس زار سے
کی نظر رانی کے منھ پر پیار سے


سب لگے کہنے کہ اب تو یہ جیا
جان رفتہ نے منھ ایدھر پھر کیا
ہوگئی چتون بھی اس کی اب درست
پانی چھڑکو تاکہ ہووے گرم و چست


چھرچھراوے پانی چھڑکے بال و پر
اڑچلا رانی کا کہنا یاد کر
کی نظر جاتے ادھر الفت بھری
الفت ایسی جوکہ ہو حسرت بھری


اس نظر سے رانی نے بھی رو دیا
ہوش سر سے صبر دل سے کھو دیا
روتے روتے خواب گہ میں جا گری
پھر نہ اس گھر میں کوئی دن آ پھری


یہ گیا ہو پرفشاں دیوار پر
بیٹھا لیکن منھ ادھر سے پھیر کر
لوگ تا جانیں کہ یہ بھی ہے اداس
پھر نہ آوے شاید اب رانی کے پاس


واں سے اڑ کر ایک کوٹھے پر گیا
گم ہوا واں ایسا جیسے مر گیا
یاں کھلی نمام لوگوں کی زباں
کہتے تھے راجا سے جا کیا کیا نہاں


اختلاط ان دونوں کا ظاہر کیا
اس حقیقت کا اسے ماہر کیا
وہ تو کافر آگے ہی تھا سنگ دل
اور ان کے کہنے سے ہو تنگ دل


کہہ اٹھا میں فکر میں ہوں آج کل
صاف دیتا ہوں مٹا سارا خلل
جان سے ماروں گا میں اس مور کو
پھر نہ سنیے گا کبھی اس شور کو


ہے یہی ہنگامہ آرا جانور
قطع کے شایاں تھے اس کے بال و پر
تا نہ آتا شہر میں یہ دشت سے
باز رہتا ایسے سیر و گشت سے


یوز کاش اس کو کوئی کرتا شکار
شیربچہ اس کو رکھتا کوئی مار
چشم سے ہردم پڑا ٹپکے ہے زہر
اس کی چتون ہے بلاے شہر و دہر


کج خرامی کا ہے فتنہ پیش خیز
چلنا اس کا جوں چلے شمشیر تیز
مت اسے حیوان صاحب جانیو
بدبلا اس کو کہیں تو مانیو


رقص سے ہنگامہ پردازی کرے
پرفشاں ہو تو بداندازی کرے
بولے تو آواز اس کی دل خراش
کرم خوار و مار خوار و بدمعاش


رانی تھی ناقص جو خود مائل ہوئی
مفت لعن و طعن کی قائل ہوئی
بن ملے اس کے رہے ہے وہ اداس
میں کھڑا رہنے نہ دوں اپنے تو پاس


گھر میں آکر ان نے جو کی بود و باش
تھی اسے خانہ خرابی کی تلاش
رانی نے جو منھ لگایا سر چڑھا
قدر سے مقدار سے آگے بڑھا


پاؤں پھیلا گھر کا مالک ہوگیا
اس روش سے اپنا ہالک ہوگیا
اب نہ کریے اس کے تیں جب تک ہلاک
گھر نہیں ہوتا نظر آتا ہے پاک


اس میں گو رانی بھی جاوے جان سے
وہ بھی خوش ہو میری کسر شان سے
فکر میں طاؤس کی راجا رہا
منھ پہ رانی کے نہ ہرگز کچھ کہا


کی تسلی اور تا کھاکر فریب
ہو شکیبا کوئی دن یہ ناشکیب
قصہ کوتہ اڑ گیا یاں سے جو مور
منھ چھپا ایسا گیا جیسے کہ چور


کس طرف جاتا رہا ہو پرفشاں
کچھ نہ پیدا پھر ہوا اس کا نشاں
کچھ خبر اس کی نہیں کیدھر گیا
یاں کہیں جیتا ہے وہ یا مر گیا


یہ تاسف رانی کا جی کھا گیا
دل جو اس کا گل تھا سو مرجھا گیا
کس سے پوچھے کس کنے جاکر کہے
جوں خزاں کا پھول مرجھائی رہے


کیا بہار عشق کے دیکھے ہے رنگ
زرد اس کا ہے گل تر دل ہے تنگ
آنکھیں اس کی دو گل عنبر عجب
سو خبر کی راہ پر وا روز و شب


آوے جو کوئی منھ اس کا تک رہے
دیکھیں حیرانی اسے کب تک رہے
وہ تو گم گشتہ کہیں پیدا نہیں
یاں تسلی یہ دل شیدا نہیں


بے کلی اس گل کو رہتی ہے کمال
رنگ اڑے ہے مور کا کرتے خیال
ہوش سر سے جائے ہے پرواز کر
ہوتی ہے بے خود حزیں آواز کر


غش پڑی رہتی ہے اس اوسیر میں
پھر بحال آتی ہے ٹک تو دیر میں
دل کی حالت ہے وہی اندوہ میں
وہم لے جاتا ہے دشت و کوہ میں


کہتی رہتی تھی کہ اے باد سحر
لا کبھو طاؤس کی مجھ کو خبر
جی اسے ڈھونڈے ہے پر پاتی نہیں
اڑتی سی بھی یاں خبر آتی نہیں


دل انھیں دو طرحوں میں ٹھہرے صبا
یا اسے لا یا مجھے واں لے کے جا
ناقبول عشق ہوں میں تو ملول
اس طرف آتی ہے گر باد قبول


سن کے میرا حال ہوجاتی ہے سن
گرم رفتن ہوتی ہے پھر سر کو دھن
کام اس سے بھی نکلتا کچھ نہیں
مجھ کو وہ ناکام چھوڑے ہے یہیں


آئے ہے جو اس طرف باد دبور
کچھ کچھ اس سے بھی کہا ہے بالضرور
ان غموں کا کچھ نہ دے کر وہ جواب
سر جھکائے یاں سے نکلے ہے شتاب


باد صرصر سے بھی درد دل کہا
سرسری سا ان نے بھی کچھ سن لیا
جھکڑ آیا اس سے بھی تھی گفتگو
پھر نہ ایدھر رو کیا ان نے کبھو


لگ چلے ہے مجھ سے گر رنگ ہوا
گرم ہوکر اس سے میں کیا کیا کہا
کہتے کہتے میں ہوئی یوں ہی سبک
کی نہ ان باؤں نے تسکیں دل کی ٹک


بے قراری دل کی میرے ہے وہی
درہمی ہے حال کی سو ہے یہی
صبر ہوسکتا نہیں میں کیا کروں
کب تلک بے طاقتی سے دن بھروں


جی تو ٹک آتے ہی آتے رک گیا
تن بدن آتش سے غم کی پھک گیا
بے قراری سے کہوں کیا اے صبا
جو نہ کہنا تھا سو تجھ سے میں کہا


صبح کو جو آنکلتی ہے نسیم
اس سے بھی ہے درمیاں حال سقیم
وہ بھی کچھ کرتی نہیں دل کی دوا
سن کے سب ہوجاتی ہے ووہیں ہوا


جذب عشق اس جانور کا ہے بلا
مجھ کو برگ خشک سا دے ہے اڑا
جی کھنچا جاتا ہے میرا اس طرف
کر رہے گا جاذبہ اس کا تلف


آپ کو کھویا گیا پر مجھ کو بھی
کر گیا کھویا گیا سا چلتے ہی
رات دن آرام اب مجھ کو نہیں
خواب و خور سے کام اب مجھ کو نہیں


چت چڑھے گلہاے بال و پر ہیں اب
چپ کہ بلبل میں ہوں نالاں روز و شب
درہمی حال طاؤس اب سنو
عشق ہے تم کو بھی تو ٹک سر دھنو


یاں سے وہ واسوختہ اڑتا گیا
دیر اس کا منھ ادھر مڑتا گیا
پھر نہ ظاہر کچھ ہوا کیدھر گیا
وادی آبادی کہیں جا مر گیا


الغرض اک بن میں جا پنہاں رہا
دل جو آگے ہی گیا تھا یاں رہا
آب و دانے کی نہ کرتا تھا تلاش
دل ہی کے غم سے کیا کرتا معاش


سرنگوں افتادہ رہتا دیر دیر
غم سے محبوبہ کے ہی ہوتا تھا سیر
حیرتی عشق واں رہتا رہے
آتی جاتی باؤ سے کہتا رہے


جائے تو رانی سے کہیو واشگاف
پھیکے خط کے حرف سا مٹتا ہوں صاف
کیا لکھوں میں تو نہیں دست و قلم
پھر نہیں ہے محرم آلام و غم


اب تلک جیتا تو ہوں پر زندگی
دور تجھ سے ہوگئی شرمندگی
آنکھیں رہتی ہیں لگی تیری ہی اور
کرتا ہوں اندھا سا میں فریاد و شور


شور و فریاد آہ دونوں بے اثر
تجھ تلک پہنچیں تو دے مجھ کو خبر
صبر ٹک کرتا نہیں میں ناصبور
اب کھنچا ہے کام بیتابی کا دور


باؤ اودھر کی جو آتی ہے کبھو
منھ ادھر کرتی نہیں بیگانہ خو
یاں سے جز صرصر کوئی جاتا نہیں
سرسری بھی پھر ادھر آتا نہیں


اڑ کے پہنچوں کس طرح تیرے کنے
سست بال و پر دل و جاں انمنے
شوق ہردم کھینچے ہے اودھر مجھے
ہے نصیبوں میں تو دیکھوں گا تجھے


کوئی جھکڑ آنکلتا ہے کبھو
دیر اس سے رہتی ہے یہ گفتگو
کہیو جو ہو اس طرف تیرا گذر
مور اک جنگل میں کرتا تھا بسر


سر میں اس کے عشق کا سا شور ہے
مضطرب دن رات نالاں زور ہے
زارنالی سے طیور اس دشت کے
ترک کرنے پر ہیں سیر و گشت کے


شور سے ہوتا ہے جب وہ نالہ کش
طائر اس جنگل کے کر جاتے ہیں غش
اب کوئی اس راہ سے جاتا نہیں
جانکلتا ہے تو پھر آتا نہیں


صبح اس کے نالوں سے ہے دھوم دھام
طائروں کا شام تک ہے ازدحام
شور کرتے کرتے پھاٹا ہے گلا
اب جو نالے کرتا ہے سو تلملا


پاؤں پر پھیلاکے جب کھینچے ہے دم
آہوان دشت کر جاتے ہیں رم
روکے درندہ کسو کے کب رکے
خاک کے نیچے گزندہ جا چھپے


شور الحاصل ہے اس کا چار سو
شہر و دہ میں اب یہی ہے گفتگو
راو راجا سب کے ہاں مذکور ہے
مور کا سررفتہ پر مشہور ہے


رفتہ رفتہ یہ خبر یاں آگئی
رانی بھی سن گن کہیں سے پا گئی
آئی دل میں فکر جاں طاؤس کی
کشتہ مردہ ہوگئی افسوس کی


کین راجا کا خیال آیا اسے
کیا کہوں کیا کیا ملال آیا اسے
گر پڑی غش کر گئی مرجھا گئی
ناگہاں مانند گل کمھلا گئی


کیا خبر آئی کہ وہ تھی بے خبر
چوٹ کیسی پڑگئی تھی جان پر
بات منھ سے کچھ نکلتی ہی نہ تھی
دیر گذری تھی سنبھلتی ہی نہ تھی


کھل گئیں آنکھیں جو دل پر تھا بہت
کیا کرے ہاتھوں تلے رکھا بہت
ہر طرف کی حسرت آلودہ نگاہ
لب پہ آئی ناتواں سینے سے آہ


آہ کر پوچھا کہ راجا ہیں کہاں
ان کے کینے سے مجھے ہے خوف جاں
یہ خبر ان کو نہ پہنچی ہووے کاش
وے تو جی ماریں گے اس کا کر تلاش


بدگمانی کا کھنچا ہے دور کام
مور کا لیتا نہیں کینے سے نام
مجھ پہ بھی اس جرم سے آیا غضب
کشت و خوں کے سب ہیں درپے اس سبب


یہ لگائی لاگ سے لوگوں نے آگ
گھر جلاتی رہتی ہے آگے سے لاگ
دیکھیے کیا درمیاں آوے سلوک
آگ ہے بھڑکی ہوئی کین ملوک


لوگوں کی پھر اشتعالک دم بدم
قہر ہے بیداد ہے ظلم و ستم
آج کل سے یہ تو آئی ہے خبر
جب نہ تب ہیں گوش راجا کے ادھر


کلول ایسے جان پر سے کیا ٹلے
کیا عجب آنکھیں ملے پاؤں تلے
ہم کو پاتا ہے چھری پاتا نہیں
کب پئے خوں ریز یاں آتا نہیں


دشمنی کی بات ہی کچھ اور ہے
نے ترحم ہے نہ مطلق غور ہے
جانور کا انس کچھ ثابت نہیں
انس انساں کی سی یہ تہمت نہیں


غیرت اپنی بھی نہیں ہے مقتضی
جیتی رہتی عشق کی ہو تہمتی
زندگانی کیا ہے جب غیرت گئی
مفت ذلت ہوگئی عزت گئی


جب تلک آئی نہیں جیتے ہیں ہم
لوہو اپنا ہر زماں پیتے ہیں ہم
جو مخاطب تھا کہا ان نے کہ ہاں
اس خبر کا اب نہیں اودھم کہاں


سن کے راجا نے کہا یہ اس کی دھوم
دامداروں کو بلا کاے قوم شوم
لو خبر ہے کس طرف وہ خارزار
آپ جاؤں گا ادھر بہر شکار


گوکہ ہو وہ بادیہ پر شر و شور
راہ چلتے ہوں عصا سے مار و مور
ہر طرف راجا کے پہنچے دامدار
ہو تلاشی تا کدھر ہے دشت خار


صیدپیشہ وے گئے ہر چار اور
دیکھیں کس جنگل میں ہے وہ مورشور
کس بیاباں میں ہے اس کی بود و باش
کون سے ہے دشت و بر میں بدمعاش


راہ میں ان سب کو یہ آئی خبر
جس بیاباں میں ہے وہ تفتہ جگر
خار کا جنگل نہیں ہے دشت مار
روز روشن میں بھی ہے تیرہ و تار


دم کش اژدر نکلے ہے گر سیر کو
دور سے کھینچے ہے وحش و طیر کو
جلتے ہیں آتش زبانی سے بہت
پتلے ہوجاتے ہیں پانی سے بہت


یعنی دم سے طیر ہوتے ہیں گداز
ہے زبانہ آگ کا اس کی دراز
ایسے ایسے سو پھریں ہیں واں سدا
جن کی وحش و طیر ہے اکثر غذا


اور بھی رہتے ہیں واں اقسام مار
گھر انھوں کے ہیں اسی جنگل کے غار
ہے عجب ماروں میں مور آکر رہے
مار بھی پھر کیسے اژدر اژدہے


مرغ کر جاتے ہیں مرغ انداز دس
کیا کریں اک مور کے کھانے سے بس
مار کھاجا مور کا ہے یاں کے مار
مور دس دس کھا گئے ہیں ایک بار


گرد ہے اس دشت کے کوہ گراں
اس سے اژدر جھانکے ہے پیدا نہاں
جانور اڑتے جو ڈھب پر آگئے
چار چار ایک ایک ان کو کھا گئے


ہے زمانے سے بھی دھیمی ان کی چال
جن کے ہیں کیڑے مکوڑے پائمال
جیب کو اپنی گزوں تک دیں ہیں طول
خشت و سنگ و خاک تک کھاویں اکول


ان کے چاٹے دشت میں کم ہیں درخت
چٹ کیے ہیں کوہ تک کے سنگ سخت
ماریے پتھرچٹے مشہور ہیں
ریزہ دنداں ان کے پتھر چور ہیں


قدرت حق سے رہا ہے ان میں مور
پھر قیامت کا سا اس کے سر میں شور
مور کیا چوری چھپے آیا ہے یاں
عشق کا اعجاز اسے لایا ہے یاں


فتنہ در سر عشق کے یہ کام ہیں
مور اژدر رانی راجا نام ہیں
عشق ہے ہنگامہ ساز شور و شر
قصے قضیے عشق سے ہیں مختصر


دشت ماراں خاک ہوگا جل جلا
اژدہے مر جائیں گے سب تلملا
بھیڑ لے کر ساتھ راجا آئے گا
کل مکل میں مور مارا جائے گا


خاک میں مل جائے گا کوہ گراں
خاک سی اڑ جائے گی آخر کو واں
رانی ہوگی فرط غیرت سے ستی
جانور کے عشق کی ہے تہمتی


طعن مردم سے ہوئی ہے بسکہ تنگ
زندگی کو جانتی ہے اپنا ننگ
رفتہ رفتہ راجا کا گھر جائے گا
عشق کام ان پردوں میں کر جائے گا


لے گئے القصہ جاسوساں خبر
جیتے مرتے پہنچے کچھ راجا کے گھر
کی حقیقت اس جگہ کی تب بیاں
حال واں کا ہوگیا سب پر عیاں


راہ کی مشکل گذاری سب کہی
سننے والے لوگوں کو حیرت رہی
جنگلوں میں خارزاری نقل کی
راہ واں نکلی نہ ہرگز عقل کی


دشت ہر یک خارزار لق و دق
پاؤں چلتے چلتے جاسوسوں کے شق
سختی سنگستاں کی بیش از بیش تھی
سالکوں کی واں کف پا ریش تھی


غنچہ غنچہ اک بیاباں میں تھے خار
غیر گل خار وھاں برگ اور نہ بار
پاؤں ریگستاں میں تا زانو جلے
راہ سر کے بھل کوئی کیوں کر چلے


گرم تر اک دشت میں تھا آفتاب
سایہ واں پیدا نہ تھا نے قطرہ آب
تشنگی سے کیا عجب ہے غش بھی ہو
آب تو واں تھا نہ جو لب چش بھی ہو


شہری اس کے شور سے یکسر تھے داغ
نکلے تھے دس بیس ہم بہر سراغ
پھرتے پھرتے جنگلوں میں تھک گئے
کتنوں کے تیں شیر و اژدر بھک گئے


چلتے چلتے دور تک آئے نکل
پڑ گئے تھے آبلے تلووں میں چل
اور ابھی جنگل بڑے درپیش ہیں
پاؤں دونوں شل ہیں تلوے ریش ہیں


دیکھیے ہوتا ہے واں کیونکر نباہ
ہے بہت مشکل گذر کانٹوں سے راہ
ہر قدم خطرہ کہ ہیں شیر و پلنگ
اس پہ سر ماریں کہ رہ پرخار و سنگ


پھر تراکم چار سو اشجار کا
پھر ہراس اس میں گڑھے کا غار کا
ہاتھی ارنے خوک کی واں باش و بود
کرگدن کی دھوم سے اکثر نمود


ہیں بیاباں مہلکی یہ تو سبھی
زندگی کیونکر کرے واں آدمی
قافلہ جاسوسوں کا اودھر چلا
آدھا پر واں سو گیا گذرا کھپا


زندگی سے جمع یہ مایوس ہے
ہر خطرگہ خانۂ جاسوس ہے
کیا کرے جو رزق یوں مقسوم ہے
واں ملے مرنا جہاں معلوم ہے


کچھ ہو دشت مار تک جانا ہمیں
مور کی واں سے خبر لانا ہمیں
آب و دانہ لے چلا ہے اب تو واں
آب و دانہ کچھ نہیں ملتا جہاں


دیکھیے جانا ہو کیونکر اتفاق
بھوکوں مرنا راہ چلنے میں ہے شاق
سوچ کر آپس میں وے آگے گئے
دن گئے تھے رات بھی جاگے گئے


راہ میں دو چار فاقے بھی کیے
کتنے ان میں سے موئے کتنے جیے
طے ہوئے وے دشت جوں ہی ہولناک
دشت ماراں پہنچے کچھ بے خوف و باک


دیکھی اس کے ناحیہ میں ایک دھوم
تھا چرندوں کا درندوں کا ہجوم
جمع رہتے تھے طیور دشت بھی
صبح سے تھی ترک سیر و گشت بھی


شور بیتابی سے بعضے تھے دہم
سن کے نالے بعضے کر جاتے تھے رم
حزن سے ہوتا ہے جس دم نالہ کش
پاس ہی کچھ جانور کرتے ہیں غش


دیکھ وا منقار اس کی رحم کر
کچھ نہ کچھ رکھ دیتے منھ میں جانور
کوئی دانہ بوند پانی گھاس پات
کاٹتا تھا اس طرح دن اور رات


یا رکا تو سست سی پرواز کی
اس بیاباں میں حزیں آواز کی
کچھ اڑا بیتاب کچھ رکنے لگا
سنگریزے کنکری چکنے لگا


گر کہیں دوچار دانے پا گیا
شکر کر اپنی زباں میں کھا گیا
جو کسو تالاب سے پانی پیا
آسماں کی اور منھ اپنا کیا


تو نہ دے تو یعنی مجھ کو کون دے
پرشکستہ کی خبر یوں کون لے
سن کے راجا یہ خبر شاداں ہوا
خشمگیں تر خانہ آباداں ہوا


حکم کش لوگوں سے اپنے یہ کہا
دیر اس موذی کے غم میں میں رہا
اب یہ مژدہ لائے ہیں جاسوس جا
ان بنوں میں ایک بن میں وہ بھی تھا


مجھ کو جانا اس طرف کا ہے اہم
کھا گیا ہے جان اس دشمن کا غم
لوگ میرے گرچہ ہیں حاضریراق
پھر رکھو کچھ اور بھی بہر یساق


جنگ حیوانات سے ہے بیشتر
ہیں طرف اژدر نمر شیراں شتر
یہ لڑائی طول کو گر کھنچ گئی
ہمت مردانہ سنیو ہچ گئی


ہے لڑائی سخت کوہستان کی
پھر بہم حیوان اور انسان کی
منھ پسارے اژدہے ہیں گرم جنگ
کھینچ کر نگلے ہیں دم سے خشت و سنگ


آئے ہاتھی بھی اتر گر کوہ سے
ہوسکے گا پھر نہ کچھ انبوہ سے
ہوگیا باراہ سد راہ گر
لیویں گے جاکر نفر راہ دگر


ہو اگر جاموش دشتی سے مصاف
تو کوئی دم ہی کو ہے میدان صاف
کرگدن آکر اگر ہوگا طرف
تو الٹ دیوے گا کوئی صف کی صف


منھ چڑھیں گے اس کے مردم کم بہت
اک طرف ہو جاوے گا عالم بہت
ہوگئی گر خرس سے استادگی
درمیاں آجائے گی افتادگی


منھ اگر گرگ بغل زن آگیا
دیکھیو پیٹھ اک جہاں دکھلا گیا
یوز و گرگ و شیر اگر آجائیں گے
بددلوں کی فوج کو کھا جائیں گے


مست ہاتھی ہوگئے چہرہ اگر
منھ چھپا لیں گے سپاہی بیشتر
سامنے ہوگا اگر مار سیاہ
سامنے اس کے نہ ہووے گی سپاہ


گرم کیں اژدر کوئی گر آگیا
کھا گیا چٹ کر گیا جیتا گیا
لوگ رکھو الغرض صاحب جگر
پہنچیں سر پر مدعی کے بیشتر


جدول ان کی تیغ کی جاری رہے
ان کی تردستی سے وہ عاری رہے
ساتھ راجا کے گیا جم غفیر
ہم صغیر و ہم جوان و ہم کبیر


راوراجا ساتھ جب سارے گئے
کچھ نہ بولے شرم کے مارے گئے
منزلیں طے ہوکے آئے دشت و در
اترے واں جا لوگ لشکر سربسر


بھڑکی آتش عشق کی جنگل جلے
دوں لگا وہ طائر و اژدر چلے
آگ پھیلی ان بنوں میں دور تک
جل گئے حیواں کئی لنگور تک


مار و اژدر اژدہے بھلسے گئے
شیر و گرگ و کرگدن جھلسے گئے
جل گیا طاؤس بھی اس آگ میں
جی گئے بہتیرے دل کی لاگ میں


مور کا مردہ گیا راجا کے پاس
اور جھلسے بھلسے طائر بے حواس
پھر پڑی جو آگ سب لشکر جلا
اور راجا کا بھی اودھر گھر جلا


یعنی رانی نے سنی جو یہ خبر
آتش غم سے جلا اس کا جگر
کھینچ آہ سرد یہ کہنے لگی
عشق کی بھی آگ کیا بہنے لگی


بن جلا کر بستیوں میں آلگی
پھیل کر یاں دل جگر کو جالگی
جمع کر خاشاک و خار و خس شتاب
جل گئی دے آگ وہ بھی بس شتاب


کیا لگی تھی دل کو رانی جل گئی
خاک ہوکر خاک ہی میں رل گئی
عشق ہی کی ہیں یہ تازہ کاریاں
عشق نے پردے میں جانیں ماریاں


مور کے بدلے جلایا دشت مار
مار و اژدر جل گئے چندیں ہزار
جل کے لشکر ہوگیا تھا بے چراغ
یہ خبر سن ہوگیا راجا بھی داغ


عشق سے کیا میرؔ اتنی گفت و گو
خاک اڑا دی عشق نے ہر چار سو
درمیاں نے کوہ نے انبوہ ہے
رانی کا راجا کا اب اندوہ ہے


طائر و طاؤس و حیواں اژدہے
سب کھپے کیا عشق کی کوئی کہے
یہ فسانہ رہ گیا عالم کے بیچ
بازماندہ ان کے ہیں سب غم کے بیچ


-


مکرر ہے نواب کو قصد صید
بیابان پہناور اب ہوں گے قید
رواں بحر لشکر ہوا موج موج
گئی چشم خورشید تک گرد فوج


بحار و صحاری پہ ہے عرصہ تنگ
مگر یاں سراسیمہ ہیں واں پلنگ
پہن بیٹھے ہیں شیر ببری لباس
کریں لوگ شاید فقیری کا پاس


چکارے ہرن دونوں اندیشہ مند
دلوں میں ہراس کمان و کمند
کہیں گرگ وادی کو فکر گریز
نظر ایدھر اودھر کرے شیر تیز


بنوں میں ہے آشوب کوہوں میں ڈر
بیاباں وطن سارے گرم سفر
کہیں امن ہو تو کہوں واں گئے
نکل آکھروں سے پریشاں گئے


اسد کی نہ شیرانہ ہنکار ہے
نہ کفتار کو تاب رفتار ہے
جہاں کے تہاں فکر میں ہیں کھڑے
کہ دنگل سے جنگل میں کیا بن پڑے


ہوا دود باروت سے تیرہ رنگ
صداے تفنگ و صداے تفنگ
وحوش و ستوراں کو وحشت غضب
ہوا ہیں کھڑکتے ہی پتے کے سب


ہزاروں ہی بندوق ہر دم چلے
ہوا ہی میں پنچھی پکھیرو جلے
گئے بادخور آسماں میں پلٹ
کلنگوں کی صف باز نے دی الٹ


اڑے ہاتھ دوچار جرے کہاں
رہے مرغ آبی جہاں کے تہاں
پر تیر جس دم کشادہ ہوئے
بزے صید حد سے زیادہ ہوئے


بنوں میں مچی دھوم سی آکے دھوم
جہاں دیکھیے ہے قیامت ہجوم
کہیں ارنے مارے غضنفر کہیں
کہیں ہاتھی نکلا ہے اژدر کہیں


پڑے مست ہاتھی جو تھے من چلے
سن اس شور کو چھوڑ کر بن چلے
نہ تیرہ ہے روز گوزنان و گور
کہ شیروں کو بھی قشعریرہ ہے زور


لب آب جاکر جو کھیلے شکار
اسد واں کے تھے کودک نے سوار
ہوئے قرقرے صید ہو ہو کے ڈھیر
ہوا میں سے بھاگا عقاب دلیر


زغن ان بنوں میں نہ پائی گئی
نہ تغدار کی لاش اٹھائی گئی
ہوا ہے یہی تو یہ ہونی نہیں
کہ ہو خاد آکر سیہ یاں کہیں


جگر کیا کہ پرزن ہو اس بن میں زاغ
یہ زہرہ نہیں رکھتے کوہی کلاغ
شترمرغ سیمرغ ازبس ہراس
نہیں آتے کوہ شمالی کے پاس


غزل کہہ کہ ہے میرؔ لطف ہوا
بیاباں خوش آئندہ و خوش فضا
غزل
سبزہ ہے آبجو ہے فصل بہار بھی ہے


سرگرم جلوہ دیکھو پہلو میں یار بھی ہے
یہ تو نہیں کہ ہم پر ہر دم ہے بے دماغی
آنکھیں دکھاتے ہیں تو چتون میں پیار بھی ہے
گل ہم کنار ہوگا ہنس کر کبھو چمن میں


پر کم بغل ہے بلبل اس کو قرار بھی ہے
ہوں وعدہ گاہ میں تو پر میں ہی جانتا ہوں
کچھ اضطراب بھی ہے کچھ انتظار بھی ہے
جوں موج ہم بغل ہوں نایاب اس گہر سے


دریا کی سیر بھی ہے بوس و کنار بھی ہے
ہم جبریوں سے کیا ہو بے دست و پا و عاجز
کہنے کو کہتے ہیں تو کچھ اختیار بھی ہے
کون اس بھبھوکے سا ہے دیکھو نہ ٹک بھی تو وہ


شمع و چراغ و شعلہ برق و شرار بھی ہے
جانا مسلم آیا اس خاکداں سے گو پھر
مشکل گذر ہے رستہ گرد و غبار بھی ہے
دل تنگ میرؔ کیوں ہے ہمرہ وزیر کے تو


دریا فضا ہوا ہے سیر و شکار بھی ہے
اٹھا فوج میں سے یہ گرد و غبار
کہ منھ پر تھا خورشید آئینہ وار
فلک کہرے سے تھا دھواں سا نمود


سماں شب کا رکھتا تھا ملک شہود
زمیں تھی سو تھی فرش بالاے آب
تحلحل سے مطلق نہ رکھتی تھی تاب
نہ پوچھو کہ لوگوں کا کیا حال تھا


جو رکھے قدم واں تو بھونچال تھا
روندے لگے چلنے تیزی سے چال
ہوا مذہب شیعیاں اعتزال
کسی ڈھب سے جوں توں کے چلنا ہوا


عجب مہلکے سے نکلنا ہوا
اتر لوگ دریا سے آگے گئے
ہزبران خونخوار بھاگے گئے
پلنگان مردم در ایسے ڈرے


کہ جاتے ہیں کوہوں کے چھوڑے درے
بیاباں میں مرنا کہاں سر دھریں
نہ لیں راہ بر عرب کیا کریں
غزل میرؔ یاں کہہ اگر ہو دماغ


رکے دل ہمارے بھی ہوں باغ باغ
غزل
تھی باد بھی آنے کی چمن میں نہ روادار
پر کیجیے کیا گل کی صبا بھی ہے ہوادار


شائستۂ دیدن ہے مرے یار کی صحبت
وہ صاحب ناخواہ ہے بندہ ہے وفادار
کیا خوب ہو کیا زشت ہو رو دیوے ہے سب کو
اس عرصہ میں آئینہ کو دیکھا ہے ہوادار


کس طور سے یک رنگ ہوں یے عاشق و معشوق
ہے گل کنے زر بلبل بے برگ ہے نادار
کیا بیکسی سے میرؔ نے رحلت کی جہاں سے
رویا نہ کوئی اس پہ نہ کوئی ہے عزادار


بنوں میں پھرا کرتے ہیں ہم تو دیر
نہیں بولتے ڈر سے غرندہ شیر
رہے تھے جو فیلان مست آن کر
گئے کجلی بن یاں سے ڈر مان کر


جو ان میں سے آکر لڑا پھر دیا
سو کٹھ بندھنوں سے ہوا فیل پا
گریوے کہیں تھے بلند اور پست
پھر اڑتے تھے واں جیسے پیلان مست


بہی تیغ نواب اس طور سے
بہے جدول تیز جس طور سے
بہت رہ گئے زیر شمشیر و تیر
بہت آئے لشکر میں ہو کر اسیر


لدے ہاتھیوں پر جو ہوکر شکار
ہوئیں بوجھ سے پشت فیلاں فگار
کیے گم جو گینڈے نے اپنے حواس
کھڑا ہو رہا آکے بھینسوں کے پاس


کہ بھینس اس کو بھی جان کر لشکری
چلے جائیں صرصر نمط سرسری
نہ چھوڑا ہے طیر ایک عصفور تک
نہ وحشی کپی اور لنگور تک


لگے جاکے شاہین دستور یوں
پڑے بکریوں میں کہن گرگ جیوں
کلنگ ایسے بازوں سے آئے ستوہ
کہ کابل سے آگے گئے صد کروہ


نہیں قوچ سرزن نہ ایل نہ رنگ
ہوئے قید یا صید کیا بے درنگ
غضب کرگئے جرے نواب کے
اڑا کھا گئے خیل سرخاب کے


نہ لگ لگ نہ تیتر رہا دشت میں
نہ غم خوارک آیا نظر گشت میں
سبھوں میں جو تھے قاز و سارس سرس
ہوئے صید یوں جن پہ آیا ترس


حواصل کو ہوتا اگر حوصلہ
تو گرتا نہ کھیتوں میں ہو دہ دلہ
کہیں سارے طاؤس مرتے گئے
ادھر لوگ افسوس کرتے گئے


کہیں جی اٹھی تھی زمیں بعد مرگ
نہال اس کے خوش قد بسیار برگ
نہ بستی سے صحرا تلک سبز تھے
نظر جائے جس جا تلک سبز تھے


ہوا دلکش و ہر طرف سبزہ زار
کہ سرسوں نے کی تھی قیامت بہار
کھڑے لوگ محو تماشا تھے واں
کہ کہنے لگی بلبل خوش زباں


کہ خاطر جنوں سے نہ رکھتے نچنت
خبر بھی ہے تم کو کہ آئی بسنت
یہ عہد جنوں ہے جنوں کیجیے
جگر کو غزل کہتے خوں کیجیے


غزل
بلبل کے بولنے سے آزار دل نے پایا
کیا کہہ گئی کہ ہم کو سنتے ہی غش سا آیا
نخچیرگہ میں اس کے جاتا نہیں ہے کوئی


ہم کو تو شوق مفرط واں کا لگا کے لایا
انواع رنج ہم نے کھینچے تھے عاشقی میں
پر ہجر کے الم نے چنگا بہت بنایا
صوفی صاف مشرب بے ہوش و بے خرد ہیں


مستی نے اس نگہ کی مجلس کے تیں چھکایا
مہر و وفا و الفت کرتے تھے لوگ باہم
رحمت خدا کی تم نے اس رسم کو اٹھایا
سر مارے تو پری کو ایسی روش نہ آئے


کس ناز سے زمیں پر پڑتا ہے اس کا سایا
یہ جانتا تو ہرگز بازار میں نہ جاتا
یوسفؑ کے طور میں بھی سستا بہت بکایا
غیرت سے عاشقی کے جاتا نہیں ہوں میں تو


وہ خود بہ خود ہی آوے کاش اس طرف خدایا
معشوق تو ہے پر وہ اوباش کج روش ہے
کیا کہیے میرؔ جی سے دل کو کہاں لگایا
کسو ایسے جنگل میں جانا ہوا


کہ مشکل قدم کا اٹھانا ہوا
نظر گرد لشکر پہ تھی دم بہ دم
نہ تھا واں کے ضیغم کو کچھ اور غم
کوئی ارسلاں بھیجتا گر رسول


تو شاید کہ الحاح ہوتی قبول
سو وے خوں گرفتہ تو بھولے ہوئے
بہت اپنے زوروں پہ پھولے ہوئے
چلے ہر طرف اب جو آکر تفنگ


نہ اوقات صلح و نہ ہنگام جنگ
لگی آگ جنگل میں چارہ گیا
بن آئی نہ کچھ مفت مارا گیا
ہوا چہرہ کوئی تو جوں شیر سنگ


نہ شیری دلیری نہ چہرے پہ رنگ
لگی گولی پڑنے نہ پھر چل سکا
نہ جاگہ سے اکسا نہ ٹک ہل سکا
چلے ہم جو بہڑاچ سے پیشتر


ہوئے صید دریا کے واں بیشتر
بھرے فرط ہی سے تو دیہات شہر
کہے تو کہ سوتے رہے رود و نہر
گھٹے گولیوں سے مگر بے شمار


رہے سونس گھڑیال چندیں ہزار
جو کچھ زخم پانی میں لے کر گئے
وہیں ہو کے ناسور مر مر گئے
لگا کہنے باخہ سر اپنا جھکا


کہ پانی تو جالوں سے سارا رکا
اگر جایئے تہ کو دھنس جایئے
وگر گاڑیے سر تو پھنس جایئے
عجب مخمصہ ہے بچے کیونکے جان


یہی موت ہے سوجھتی ہے ندان
جواب اس کا گھڑیال نے یوں دیا
گھڑی ایک دو کا ہے قصہ رہا
پڑی سر پہ بجتی ہے فرصت نہیں


پہر اس کو کھنچتے ہیں اب کیا کہیں
تحمل ہو کچھ بھی تو تدبیر ہو
کریں کیا اگر یوں ہی تقدیر ہو
کوئی دشت یک دست نے زار تھا


رکھے واں قدم پاؤں افگار تھا
یہی سینک یا کانس پانی کی گھاس
زمین و ہوا آب و آتش اداس
کہیں دوں لگی ہے تمامی ہے دود


کہیں دو شجر ہیں سو کیا بدنمود
نہ پتہ نہ شاخیں نہ کچھ ان کو بار
سراپا ہے خشک و زبوں زرد و زار
نہ سائے سے ان کے کوئی بہرہ مند


نہ دیکھا چرندہ نہ آیا پرند
سیاہی نہ ہرنوں کی ڈاروں نے کی
نہ چشمک کہیں سے چکاروں نے کی
کہیں لپٹے آپس میں دو چار نے


کہیں ہاتھی آیا کہیں شیر نے
کہیں سرپتا سر پہ تھا جیسے تیغ
روندوں کے پاؤں پہ آیا دریغ
نہ بلبل غزل خواں نہ طیروں کا شور


سبھی دیکھتے میرؔ کے منھ کی اور
سو ان نے غزل سست سی یہ کہی
ولے دل کو لوگوں کے لگتی رہی
غزل


ذوق شکار اس کو ہے اتنا کہ حد نہیں
کس اس کے تیغ کش پہ ملک کو حسد نہیں
خالی پڑے ہیں صید سے وادی و کوہسار
رہنے دو وحش و طیر کو اب دام و دد نہیں


بے جد و کد جو اس سے ملاقات ہو تو ہو
تم کد سے دیکھو ہو کہ ہمیں اس کی کد نہیں
کچھ اور شے ہے خوب جو دیکھو رخ نگار
ہرچند گل بھی تازہ کھلا اتنا بد نہیں


اس بیکسی سے کون جہاں میں موا کہ میں
جز داغ سینہ آج چراغ لحد نہیں
کیا سرو و گل سے ہووے تسلی کہ اہل شوق
گل منھ نہیں ہے یار کا سرو اس کا قد نہیں


بے سوز دل کنھوں نے کہا ریختہ تو کیا
گفتار خام پیش عزیزاں سند نہیں
سو بار مست کعبے میں پکڑے گئے ہیں ہم
رسوائی کے طریق کے کچھ نابلد نہیں


لطف سخن بھی پیری میں رہتا نہیں ہے میرؔ
اب شعر ہم پڑھیں ہیں تو وہ شد و مد نہیں
کسو ایسے بن سے نکلنا ہوا
کہ کوسوں تلک اس میں چلنا ہوا


کشیدہ قد اس بن کے سارے درخت
چمن کے سے نوباوگاں سبز بخت
برابر برابر کھڑے سر بہ سر
پھرے دیر اودھر کو جاکر نظر


پرے چل کے آیا تراکم بہت
حواس اس میں جاکر ہوئے گم بہت
کہیں راہ نکلی تو چلتے پڑے
رہے پال و پرتل بہت واں کھڑے


کہ شاخوں نے جھک جھک ملائے تھے سر
بہت آگے جا جا کے آئے تھے پھر
وہی راہ درپیش و کثرت ہوئی
قیامت کے اوپر قیامت ہوئی


سروں پر ادھر توپ آئی چلی
پڑی تھی ادھر لوگوں میں کھلبلی
کہیں اسپ و اشتر کہیں فیل مست
زمیں ہر سر گام بالا و پست


گذر جس طرح اس طرح سے کیا
روندوں نے خون جگر ہی پیا
وہیں بیچ آیا میانہ مرا
کوئی دیکھتا رنج اٹھانا مرا


سواری سے مجھ کو ندامت ہوئی
کہ چاروں طرف سے ملامت ہوئی
لگے کہنے آیا فرنگی کہاں
کہ چوپالے کی رسم چھوڑے ہے یاں


جسے دیکھو چار ان نے رکھ کر کہار
لگا ہونے ہر صبح اس پر سوار
چلو ہی چلو ہے کہ بچ جائیو
کہ چوپالے کے پاس تم آئیو


روندے ادھر کے ادھر ہیں خراب
یہ جاتے ہیں مجرے کو بھاگے شتاب
چڑھے چار کے کاندھے جیتے ہی جی
لیا اٹکل اس سودے میں نفع بھی


کہ گھوڑے دیے چھوڑ یک بارگی
میانوں میں کرتے ہیں آوارگی
نہ اس حال سے اہل دفتر خبر
توجہ نہ عمدوں کی کچھ ہے ادھر


وگرنہ ہو قدغن کہ اب اہل کار
نہ رہنے دیں لشکر میں ڈولی سوار
نہ مانیں تو چوپالے دیویں الٹ
ابھی گھوڑے لیں ڈپٹیں ایک ہی ڈپٹ


کرو میرؔ بحر اور اب اختیار
مگر اس سے نکلیں در آبدار
غزل
جوجو ظلم کیے ہیں تم نے سو سو ہم نے اٹھائے ہیں


داغ جگر پہ جلائے ہیں چھاتی پہ جراحت کھائے ہیں
تیغ دریغ نہیں ہے اس کی بسمل گہ میں کسو سے بھی
ہیں تو شکار لاغر ہم پر ایک امید پر آئے ہیں
ٹل کر سامنے یوں بھی اب جو تیر ترازو ہو اس کا


کیا کیا لوہو پی کر دل کو اس پلے پر لائے ہیں
خم سے لگی میخانہ کے دیوار بھی اپنے گھر کی ہے
لطف پیر مغاں سے عجب کیا ہم آخر ہمسائے ہیں
شوق غم میں بے صبری ہے آہ کسو کو کیا کہیے


اچھے اپنے جی کو ہم نے آپ ہی روگ لگائے ہیں
محو سخن ہم فکر سخن میں رفتہ ہی بیٹھے رہتے ہیں
آپ کو جب کھویا ہے ہم نے تب یہ گوہر پائے ہیں
دیکھیں طرف ہے کون سی جس سے تیغ ناز بلند کرے


ہم نے بھی تو اس ہی جہت سے فرق نیاز جھکائے ہیں
تب تھے سپاہی اب ہیں جوگی آہ جوانی یوں کاٹی
ایسی تھوڑی رات میں ہم نے کیا کیا سوانگ بنائے ہیں
کس کو ایسی بے خبری تھی جس کے بولے تو چونکا


سو ٹھوکر نے ان پلکوں کی کتنے فتنے جگائے ہیں
کون وہ ایسا ظالم تھا استاد فن عیاری کا
اتنے سن میں جن نے تجھ کو ایسے فریب سکھائے ہیں
میرؔ مقدس آدمی ہیں تھے سبحہ بہ کف میخانے میں


صبح جو ہم بھی جا نکلے تو دیکھ کے کیا شرمائے ہیں
کیا ایک نالے سے ہم نے گذر
ہوئی قائم اس جا پہ حشر دگر
گرے گاڑی چھکڑے پیادے سوار


کہ مقصد تھا سب کا عبور ایک بار
گذارا جو فیلوں کا پہلا ہوا
ملا خاک میں آب چہلا ہوا
کمر تک لگے پھنسنے دلدل کے بیچ


کہ نالے کا پانی تھا یک دست کیچ
پھنسے گاؤ اشتر گرے بارخر
ہوئے اسپ و اشتر بھی زیر و زبر
اگرچند باندھے تھے وہ جسر خام


ہوئے ایک ریلے میں دونوں تمام
نہ دیکھے تھے آگے کبھو یہ سمیں
ولیکن خدا نے اتارا ہمیں
سلامت رہا اپنا اسباب سب


رہے لوگ لشکر کے کرتے عجب
چلے واں سے آگے بنڈیلا ملا
کیا ان نے ایک ایک کو دہ دلہ
عجب راہ پرخوف مشکل گزار


نہ ہوتے تھے معلوم ہاتھی سوار
خطر شیر کا شور بنگاہ کا
تعب واں کے جانے کا غم راہ کا
کہ جا و زمیں کچھ ہویدا نہ تھی


کہیں اس میں پگڈنڈی پیدا نہ تھی
گڑھے غار پاؤں کی لغزش بلا
چلی باؤ تو نے کی لرزش بلا
صدا برگ نے کی نہایت مہیب


طریق عجیب و مسافر غریب
جنوں پیشہ وہ دشت وحشت شعار
کہ فیل اس کے طفلان بازی مدار
کہیں پانی آیا سو حالت خراب


کہ تھا زیر کاہ اس میں ہر جاے آب
نہ ہاتھی نہ اسباب اپنے کنے
یہی اک میانہ بنے سو بنے
چنانچہ گئے راوتی کے کنار


نہ ربط آشنائی کسو سے نہ پیار
کھڑے ہم رہے ہاتھ پر رکھ کے ہاتھ
کریں پار جانے کی کس منھ سے بات
کہار اک میانے میں اپنے دیے


پھر اس کے جو تھے چاروں ہم نے لیے
چڑھ ان کے سر آں روے دریا ہوئے
ہوئے پانی پانی کہ رسوا ہوئے
نہ جانا کہ آتا ہے کس کا قدم


کہ صید بیاباں گئے کرکے رم
گوزن ایک دو مار لائے کبھو
اڑے باز جرے کہیں ایک سو
نہ صید ایک دیکھا بھرے لاکھ رنگ


غزل میرؔ نے بھی کہی اور ڈھنگ
غزل
اک درج موتیوں کے عوض ہاتھ آگیا
یوسفؑ ہزار حیف کہ سستا بکا گیا


جانا نہ تھا سرہانے سے مجھ مختصر کے ہائے
کیا وقت رہ گیا تھا کہ وہ منھ چھپا گیا
آشفتہ سر ہیں سرو و گریباں دریدہ گل
بیٹھا کہاں چمن میں کہ فتنہ اٹھا گیا


گل برگ سے بھرے تھے کہے تو کنار و جیب
کیا کیا سمیں نہ گریۂ خونیں دکھا گیا
خط بھیج کے بھی شوق کی باتیں چلی گئیں
قاصد کے پیچھے دور تلک میں لگا گیا


روتا ہوں یوں کہ برسے ہے شدت سے جیسے مینھ
جوں ابر میرے دل پہ غم عشق چھا گیا
جو نقش روزگار کے صفحے سے محو ہو
صورت پذیر پھر نہیں ہوتا مٹا گیا


ہستی مری کہ ہیچ تھی میں منفعل رہا
اس شرم سے ندان زمیں میں سما گیا
داغ دل خراب شبوں کو جلے ہے میرؔ
عشق اس خرابے میں بھی چراغ اک جلا گیا


چلے صبح گہ دامن کوہ کو
تماشاکناں فوج و انبوہ کو
درختوں میں چلنا تو دشوار تھا
ولے راستہ بھی قدم وار تھا


گزارا ہوا یوں ہی اک آدھ کوس
پٹیلے پہ ہنگامہ آرا تھی اوس
نیستاں میں چھپتا تھا گھوڑے سوار
اگر ہو تو واں شیر کا ہو شکار


نہ رہتے تھے سو شیر شرزہ بھی واں
نہ ہاتھی کے پاؤں کا پایا نشاں
عجب کشمکش درمیاں آگئی
بہیر اک بلا تھی جہاں آگئی


نہ ہلنے کی جاگہ نہ چلنے کو راہ
سروں پر کھڑے اسپ و فیل سپاہ
خطر فیل دشتی کا ہر ہر قدم
گئے شیر کے ہر قدم پر قدم


کنار آب کے لوگ اترے تمام
ہوئے دامن کوہ میں کچھ مقام
سر کوہ کیونکر نہ ہو چرخ ساے
کہ نواب واں سیر کرنے کو جائے


رہے آب پر فرش چوکی و تخت
خہے رود کوہ و زہے ان کے بخت
ہمارا تو جانے کو چاہا نہ جی
کہ تھے پیر ہم واں ہوا خوب تھی


رہی منعقد بزم تھا ناچ راگ
نہ ہو کچھ تو کیونکر ہو یہ دل کی لاگ
کہی اور ہی بحر میں یہ غزل
مگر میرؔ کو ہے دماغی خلل


غزل
کر لطف عارض مت چھپا عاشق سے اے یار اس قدر
یک جان کو یہ عارضے یک دل کو افکار اس قدر
جو کچھ ہے سو دل کے سبب غم غصہ و رنج و تعب


تھے چاہنے سے پیشتر کاہے کو بیمار اس قدر
ہر دم جو اس کے ابرواں جنبش میں ہیں کانپے ہے جاں
یعنی ہیں آنکھیں جھپتیاں چلتی ہے تلوار اس قدر
شب نالہ و زاری رہے دن خستگی خواری رہے


وہ دل نہیں باقی رہا کھینچے جو آزار اس قدر
وے دل زدے ہیں خستہ جاں مر جاتے ہیں جو ناگہاں
ورنہ قضا کس شخص کی پہنچی ہے یک بار اس قدر
طرے سے طراری کرے مستی میں ہشیاری کرے


آیا نظر اب تک نہیں طرار و عیار اس قدر
الفت کہاں کلفت ہے یاں یہ بھی عجب صحبت ہے میاں
بیزار وہ اس مرتبہ جس سے ہمیں پیار اس قدر
تم آگے کب تھے بدگماں سب حجت و یکسر زباں


اب اک سخن پر مہرباں کرتے ہو تکرار اس قدر
آنکھیں کھلی ہیں میرؔ کی جب دیکھو تب آئینہ ساں
آدم نہیں ہوتے کہیں مشتاق دیدار اس قدر
بہا سنگ ریزوں پہ اس رنگ آب


کہ قدر ان کی جوں قدر یاقوت ناب
لیے عمدے ہاتھوں میں دیکھیں بہار
کہ ہر شے کا ہے وقت لیل و نہار
اسی آب کا رابتی یاں ہے نام


ہمیں ساتھ اس کے ہے ربط تمام
کنارے کنارے اسی کے ہے راہ
چلے جاتے ہیں جو نہ ہووے پناہ
جہاں تک ہے آب و خور اب جائیں گے


سمیں دیکھیں گے جو نظر آئیں گے
جبل سے ہوئے ظاہر آثار آب
برسنے لگا قطرہ قطرہ سحاب
ہمیں پر نہیں کچھ ہوا کا ستم


کہیں گرگ وادی کو بھی ہے یہ غم
کہیں ایسے سکڑے ہیں حیوان دشت
کہ ٹکڑے کرو تو نہ ہوں گرم گشت
نہ نکلے ہے ہاتھی نہ بولے ہے شیر


کوئی یوز پکڑا ہے سو بعد دیر
اسد یک طرف یوز یک سو رہے
عجب یہ ہے باندھے گئے اژدہے
نہ پوچھو کھنچا دور کار شکار


نہ اب دشت و در میں نمر ہے نہ مار
شکارافگناں راہ کرتے تھے طے
ملے جاتے تھے خاک میں دشت نے
نہ ببروں کو جنگل میں طاقت رہی


نہ مگروں کو پانی میں فرصت رہی
اسد مارے جاتے تھے سگ کی مثال
بندھے آتے تھے یوز و گرگ و غزال
ملا ایک چقر اگر یا گڑھا


تو کثرت سے نو نیزہ پانی چڑھا
بہت مشکلوں سے کیا ہے عبور
کہ یک گام راہ اور سو سو فتور
غزل بحر کامل میں تہ دار کہہ


کہ اڑ جائے میرؔ اس بحیرے کی تہ
غزل
نہ دماغ ہے کہ کسو سے ہم کریں گفتگو غم یار میں
نہ فراغ ہے کہ فقیروں سے ملیں جا کے دلی دیار میں


نہ چمن میں جاتے رہا ہے دل نہ بنوں میں پھرنے لگا ہے دل
وہی بے کلی رہی جان کو رہے سیر میں نہ شکار میں
کہے کون صید رمیدہ سے کہ ادھر بھی پھر کے نظر کرے
کہ نقاب الٹے سوار ہے ترے پیچھے کوئی غبار میں


ترے شام خط کے قریب کی جو صفا میں دیکھی میں خوبیاں
نہ سمیں پہ گل میں نظر پڑے نہ یہ رنگ صبح بہار میں
کوئی شعلہ ہے کہ شرارہ ہے کہ ہوا ہے یہ کہ ستارہ ہے
یہی دل جو لے کے گڑیں گے ہم تو لگے گی آگ مزار میں


جھکی کچھ کہ جی میں چبھی سبھی ہلی ٹک کہ دل میں کھبی سبھی
یہ جو لاگ پلکوں میں اس کے ہے نہ چھری میں ہے نہ کٹار میں
مرے ایک دل میں جو غم یہ ہے سو فزوں ہے میرے شمار سے
نہ تو دس میں یہ نہ پچاس میں نہ تو سو میں یہ نہ ہزار میں


بڑے جانور خوار کیا کیا ہوئے
بندھے پاے فیلاں سے رسوا ہوئے
بہت نالے کھولے پکھالے گئے
بحیروں سے روہو نکالے گئے


مگر کی پس از مرگ عزت ہوئی
کہ ہاتھی پہ چڑھنے کی رخصت ہوئی
کشف کا ہوا ہے یہ اوصاف اب
کہ جھینگوں نے کی شرح کشاف اب


نہ تیتر بٹیر اور کبوتر ملا
دیے باز جروں کو سارے کھلا
کہیں بحری پانی میں یوں جا لگے
کہ پنجوں میں بے صید ادھر آ لگے


ہوا میں سے یوں کر اتارے کلنگ
کہ بازوں نے چڑیا سے مارے کلنگ
کسو اور ارنوں کو دیکھا کھڑے
کہے تو بیاباں میں ہاتھی پڑے


جگر کرکے جاتے تھے مردان کار
تو وہ ایک دو کر ہی لاتے شکار
وگرنہ بشر کا نہ مقدور تھا
قریب اس کے جانا بہت دور تھا


نہ ان چارشانوں کا روکش ہے شیر
نہ سو فیل دوچار رکھتے ہیں گھیر
مددگار تھے حضرت زندہ پیل
پکڑ لاتے تھے لوگ تب ژندہ پیل


بحیرہ نہ دریاے اعظم سے کم
اٹھا کرتے تھے لجے لطمے بہم
ہر اک موج اس کی سمندر کی لہر
کنارے پہ گرداب غرقاب قہر


یہی جنگل اس جھیل کے آس پاس
درختوں کا انبوہ نے کا اگاس
اسی بن میں شیر اور یوز و پلنگ
اسی بن میں گور و گوزن اور رنگ


اسی بن میں ہاتھی وہیں کرگدن
وہیں قوچ سرزن اسی میں ہرن
اسی بن میں لنگور بندر بھی تھے
وہیں ایک دو ہم قلندر بھی تھے


اسی بن میں پاڑھا وہیں نیل گاؤ
اسی بن میں یہ صیدبندی کا چاؤ
اسی بن میں تھے حضرت بوحمید
اسی بن میں نسناس ان کے مرید


اسی بن میں تھے خوک جاموش رنگ
کیا اس سوربن نے لوگوں کو تنگ
اسی بن میں رہنا اسی بن میں راہ
وہیں شام کا حسن لطف پگاہ


اسی بن میں وہ جھیل گہری بہت
ہوئے صید بری و بحری بہت
وہیں مچھلی بکتی تھی دمڑی کی سیر
ولیکن نہ کھاتا تھا ہو کوئی سیر


کہ اس آب کا ہضم دشوار تھا
کہ جوں آب شمشیر دم دار تھا
شغال اور خرگوش جی سے گئے
شکاری سگ ان کو اچک لے گئے


غزل سے لگا ہے بہت میرؔ دل
کہ اس مثنوی میں کہیں متصل
غزل
ہے گی طلب شرط یاں کچھ تو کیا چاہیے


بیٹھے نہیں بنتی میاں کچھ تو کیا چاہیے
عشق میں اے ہمرہاں کچھ تو کیا چاہیے
گریہ و شور و فغاں کچھ تو کیا چاہیے
ہاتھ رکھے ہاتھ پر بیٹھے ہو کیا بے خبر


چلنے کو ہے کارواں کچھ تو کیا چاہیے
میں جو کہا تنگ ہوں مار مروں کیا کروں
وہ بھی لگا کہنے ہاں کچھ تو کیا چاہیے
سون کسے رہنے کی کس نے بدی ہے بھلا


لطف و غضب مہرباں کچھ تو کیا چاہیے
کام اب اپنا ہے یاں کندن جاں ہر زماں
کیا کریں ہم ناتواں کچھ تو کیا چاہیے
کیا کروں دل خوں کروں شعر ہی موزوں کروں


چلتی ہے اب تک زباں کچھ تو کیا چاہیے
ہو نہ سکے گر نماز دل کی طرف کر نیاز
وقت گیا پھر کہاں کچھ تو کیا چاہیے
چاہوں کسو سے دعا دل کی کروں اب دوا


نفع ہو پھر یا زیاں کچھ تو کیا چاہیے
عمر گئی لغو سب وقت بہت کم ہے اب
کچھ نہ کیا ہائے میاں کچھ تو کیا چاہیے
یہ تو نہیں دوستی ہم سے جو تم کو رہی


پاس دل دوستاں کچھ تو کیا چاہیے
تونے کماں کی ہے زہ پر ہوں نہ یوں صید میں
میری بھی خاطر نشاں کچھ تو کیا چاہیے
میرؔ نہیں پیر تم کاہلی اللہ رے


نام خدا ہو جواں کچھ تو کیا چاہیے
کنارے پہ تھی اس کے اک گل زمیں
سراسر ہری جوں زمردنگیں
جہاں تک نظر جائے شاداب تھی


کہ یک دست واقع لب آب تھی
وہیں خیمے سب کے ہوئے تھے کھڑے
وہیں دام رہتے تھے اکثر پڑے
نواڑوں کی سیر اس میں ہر شام گہ


وہی سیرگاہ و وہی دام گہ
وہیں صید ہوں مرغ و ماہی تمام
مقام ایسے ہوویں تو کریے مقام
ہوا خیمہ آکر جو نواب کا


فلک ساے تھا فرق اس آب کا
ہوا ہوتا واں کاش دو آب رز
ہوئے جیسے شائستۂ سیر نز
عجب ڈھب سے کی روشنی صد عجب


کہ دیں چھوڑ ناویں دیے بھر کے سب
جدا ہوویں تو غنچہ غنچہ چراغ
ملے جیسے عاشق کی چھاتی کے داغ
ورے روشنی شعلہ انگیز نار


پرے سطح پانی کا آئینہ وار
ہوئیں کشتیاں کچھ ورے سے پرے
چراغوں سے موجوں کے کوچے بھرے
حبابوں میں تھی جو چراغوں کی تاب


حبابی تھا آئینہ سب سطح آب
نمودار چرخ پر انجم تھی شب
دیوں سے وہ پھیلاؤ پانی کا سب
غرض روشنی کی عجب کچھ تھی لاگ


لگا دی ہے گویاکہ پانی میں آگ
غزل میرؔ کوئی کہا چاہیے
کسو تو زمیں پر رہا چاہیے
غزل


کب آوے گا کیا جانے وہ سروقامت
ہمارے تو سر پر ابھی ہے قیامت
نماز سفر ہے اشارت اسی سے
کہ تھوڑا بہت یاں ہے وقت اقامت


رہا رابطہ غارت دل تلک بس
نہیں اب تو بندے سے صاحب سلامت
گریباں کو گل چاک کرنے لگیں گے
کھلے رکھ گلستاں میں بند قبا مت


اٹھاکر نہ یک زخم شمشیر اس کا
غزال حرم نے اٹھائی ملامت
بگڑتی ہے صورت علاقے سے دل کے
کسو بے وفا سے دل اپنا لگا مت


کوئی فصل گل میں بھی توبہ کرے ہے
رہے گی ہمیں دیر اس کی ندامت
کہیں دل کی لاگیں لگیں چھپتیاں ہیں
کہ چہرے کی زردی بڑی ہے علامت


گئی سو گئی پیشتر تھی جوانی
رہ عشق میں میرؔ آئندہ جا مت
زمانے میں ہے رسم کہنے کی کچھ
امید اس سے ہے نام رہنے کی کچھ


کسو سے ہوئی شاہنامے کی فکر
کہ محمود کا لوگ کرتے ہیں ذکر
گیا شاجہاں نامہ کہہ کر کلیم
دل شاعراں رشک سے ہے دونیم


کنھوں نے کہی عشق کی داستاں
ہوا کوئی کہانی سے ہم داستاں
پئے آصف الدولہ میں نے بھی میرؔ
کہے صیدنامے بہت بے نظیر


مگر نام نامی یہ مشہور ہو
گئے پر بھی لوگوں میں مذکور ہو
زہے آصف الدولۂ دادگر
سخنورنواز اور عاشق ہنر


دہش سے جہاں اس کے رونق پذیر
وزیر ابن دستور ابن وزیر
کریمی کرے تو جہاں در جہاں
کف جود خورشید سا زرفشاں


سراپاے احساں تمامی ہمم
ہمہ تن مروت سراسر کرم
ہمیشہ رہے گرم سیروشکار
یہ حرف و حکایت بھی ہے یادگار


قفاے غزل اک رباعی کہو
سخن آگے موقوف چپکے رہو
بہت کچھ کہا ہے کرو میرؔ بس
کہ اللہ بس اور باقی ہوس


جواہر تو کیا کیا دکھایا گیا
خریدار لیکن نہ پایا گیا
متاع ہنر پھیر لے کر چلو
بہت لکھنؤ میں رہے گھر چلو


غزل
کرو تامل کہ حال ہم میں رہا نہیں ہے غموں کے مارے
جو کچھ بھروسا جنھوں پہ تھا سو شکیب و تاب و تواں سدھارے
ہوئے ہیں غائر قیامت اب تو گئے جگر تک گئے ہیں دل تک


جو ٹک بھی دیکھے وہ غور سے تو جراحت اس کو دکھائیں سارے
ہماری آنکھیں بہی ہیں اتنی کہ اب ہے دریا محیط عالم
کہیں کہیں جو رہیں ہیں مردم سو بیٹھے ہیں وے کیے کنارے
کریں تحمل سو کاہے پر ہم مدام بے خود ہمیشہ غش ہے


گئی ہے طاقت دلوں سے شاید نہیں ہے آیا جگر ہمارے
کبھو سروں پر ہے تیغ نالہ کبھو سنان فغاں جگر پر
کسو سے کہنے کا کچھ بھی حاصل گئے ہیں جوں توں کے وقت بارے
بھری تھی آتش کہاں کی یارب دل و جگر میں کہ نصف شب کو


لگا جو رونے تو جاے آنسو مری مژہ سے گرے شرارے
قبول عشق و محبت اتنا ہوا ہے اے میرؔ سیر قابل
مدام جاتے دکھائی دوں ہوں کبھو نہ ان نے کہا کہ آرے
رباعی


چلنے کو ہوئے بادیے سے ہم جو کڑے
مل چلنے کے اتفاق بہتیرے پڑے
مجنوں نے کہا تھا میں بھی آتا ہوں میرؔ
آیا نہ رہے راہ میں ہم دیر کھڑے


-


آؤ ساقی کہ بزم عشرت ہے
چشم بد دور خوب صحبت ہے
ازسرنو جواں ہوا ہے جہاں
کدخدائی بشن سنگھ ہے یھاں


فرط شادی سے دل ہے جشن آباد
ہر طرف ہے بہم مبارک باد
باؤ کرتی پھرے ہے پھول نثار
گلشن دہر میں ہے تازہ بہار


آؤ مطرب لیے رباب اور چنگ
کاڑھ منھ سے نواے سیرآہنگ
شادمانی سے ہو نواپرداز
اہل مجلس ہیں گوش بر آواز


یاں سوا دل خوشی کے کام نہیں
چپکے رہنے کا یہ مقام نہیں
آؤ ساقی کہ جمع ہیں احباب
سب مہیا ہیں عیش کے اسباب


لا وہ جوں آفتاب ساغر زر
آب گل رنگ سے لبالب کر
آج جھوما ہے ابر بخشش زور
کچھ نظر ہے تجھے ہوا کی اور


دست راجا ہیں ابر نیسانی
متصل کرتے ہیں درافشانی
کر چمن زار و دشت دلکش سیر
ہیں نہال آج آشنا و غیر


گل نمط دل شگفتہ سب کے کیے
خلعت فاخرہ سبھوں کو دیے
زر و گوہر دیے زبس ساقی
کچھ نہیں بحر و کان میں باقی


لا کہاں ہے وہ لالہ رنگ شراب
جس سے مست گزارہ ہوں احباب
آ مغنی غزل سرائی کر
کچھ مزہ سے بھی آشنائی کر


پڑھ غزل میرؔ کی جو ہووے یاد
اس کو اس فن میں کہتے ہیں استاد
غزل
ساقیا موسم جوانی ہے


گرو بادہ کامرانی ہے
دے پیالہ کہ نقل مجلس عیش
خوب رویاں کی بدزبانی ہے
لاؤ آب کشادہ دل کو گھول


عین الطاف و مہربانی ہے
روے خوباں سے بزم کا ہے فروغ
شمع خجلت سے پانی پانی ہے
رشک گلزار ہے یہ صحبت عیش


شش جہت جوش گل فشانی ہے
آؤ مطرب ہوں زمزمہ پرداز
دے بہار گذشتہ کو آواز
گل و لالہ پہ چشم باز کرے


رنگ صحبت کو دیکھ ناز کرے
چھیڑ ساز طرب نوا کے تئیں
باندھ آواز سے ہوا کے تئیں
وجد میں لاؤ مے پرستوں کو


یاد دے ٹک سرودمستوں کو
آؤ ساقی کہ روشنی ہے خوب
گرم عشرت ہیں ہر طرف محبوب
نار مشعل نے نائرہ کھینچا


نور کو مہ نے دائرہ کھینچا
کثرت روشنی سے شب ہے روز
خشت سیمیں ہے ماہ دل افروز
صبح صادق کے منھ پہ کب ہے فروغ


اس کو دعویٰ جو تھا وہ سب ہے دروغ
اب تو شیشہ شراب لا ساقی
صحبت عیش کو چھکا ساقی
لاؤ رنگ رخ نکویاں کو


مایۂ ناز خوب رویاں کو
چاہیے ہے گلابی مئے ناب
جام ہے چشم روشنی کا باب
اس پری کو نکال شیشہ سے


رنگ مجلس میں ڈال شیشہ سے
لطف کر ٹک وہ دل کی آسائش
تا نظر آوے لطف آرائش
آؤ ساقی کہ ہوں تماشائی


گرم خدمت ہے چرخ مینائی
چل ہوائی سے شعلہ خیزی دیکھ
آسماں کی ستارہ ریزی دیکھ
متصل چھوٹتے جو ہیں گے انار


راہ و رستے ہوئے ہیں باغ و بہار
عشق ہے تازہ کار آتش باز
پھول گل میں ہے رنگ رنگ اعجاز
دیکھ صنعت گری صنعت گر


گل کاغذ ہے غیرت گل تر
دیکھ ساقی تزک سواری کا
چھوڑ آئین بردباری کا
چل گلابی کو ہاتھ میں لے لے


ایک دو جام متصل دے لے
فیل یوں ہیں گے جھومتے جاتے
جیسے آویں جوان مدھ ماتے
نوبتی اپنی اپنی نوبت ہے


صرف کر جو ہنر کی طاقت ہے
دور ہے اب سپہر کا دلخواہ
ہیں وضیع و شریف سب ہمراہ
آ سواری کا ٹک اصول بجاؤ


طبع موزون اہتزاز میں لاؤ
ساتھ راجا سوار ہوتا ہے
شہر باغ و بہار ہوتا ہے
جل زربفت سے ہے فیل و نشاں


آگے مانند کوہ زر کے رواں
زور گوہر نثار کرتے ہیں
خلق کو مایہ دار کرتے ہیں
دیوے راجا تو کیا لیا چاہے


خوشہ خوشہ گہر دیا چاہے
پھینکتے ہیں جو دستہ دستہ گل
رہگذر میں ہیں رستہ رستہ گل
برق پارہ جو جستہ جستہ ہیں


سینکڑوں ویسے بال بستہ ہیں
گردنوں میں پڑیں حمائل گل
ہیں جلو میں بصد شمائل گل
لاؤ ساقی گل گلاب شراب


دے مجھے اب کہیں شتاب شراب
ہے شگفتہ دماغ دل وا ہے
نشہ اس عیش کا دوبالا ہے
رائے صاحب لباس زر در بر


نشۂ عیش و دلکشی در سر
زیر راں ایک اسپ خوش رفتار
گرم رفتن ہو تو ہے برق شعار
خوش سواری و خوش جلو خوش راہ


چھیڑ دیجے تو پھر نہ ٹھہرے نگاہ
کسمسانے میں ران کے اڑ جائے
ہاتھ ہلتے میں جیسے کل مڑ جائے
ہے تو گلگوں بہار کا خوش رنگ


کام ہے اس پہ اس کے حسن سے تنگ
دوردو ہے اگرچہ اسپ خیال
بھول جاتا ہے اس کے آگے چال
ہیں مرصع جو اس کی زین و لگام


چشم کرتی ہے خیرگی ہر گام
باگ اس کی جو ٹک اچک جائے
پارۂ برق سا چمک جائے
دے نہ وہ شیشہ اب جو باقی ہے


حسن ایسا بھی اتفاقی ہے
جب سے ہے اس جہاں کی آبادی
تب سے ایسی نہیں ہوئی شادی
ہو مبارک یہ جشن خوش انجام


دور گردوں بہ کام عیش مدام
آؤ ساقی پڑھیں غزل کوئی
درمیاں اب نہیں خلل کوئی
غزل


موسم ابر ہے سبو بھی ہو
گل ہو گلشن ہو ایک تو بھی ہو
کب تک آئینہ کا یہ حسن قبول
منھ ترا اس طرف کبھو بھی ہو


کس کو بلبل ہے دم کشی کا دماغ
ہو تو گل ہی کی گفتگو بھی ہو
ہے غرض عشق صرف ہے لیکن
شرط ہے یہ کہ جستجو بھی ہو


ہو جو تیرا سا رنگ گل گاہے
ریجھیں ہم تب جب ایسی بو بھی ہو
دل تمناکدہ تو ہے پر یھاں
ہو تو تیری ہی آرزو بھی ہو


سرکشی گل کی خوش نہیں آتی
ناز کرنے کو ویسا رو بھی ہو
پا سکے اس کمر کو دست شوق
جو نمایاں بقدر مو بھی ہو


رو کش میرؔ ہوتے ناشاعر
جب انھیں ویسی آبرو بھی ہو

-


خدا ایک فرقے میں مانا ہے عشق
کہ نظم کل ان سب نے جانا ہے عشق
نہ ہو عشق تو انس باہم نہ ہو
نہ ہو درمیاں یہ تو عالم نہ ہو


یہ آفت زمانے کی معروف ہے
زمانے میں جو ہے سو ماؤف ہے
نہیں اس سے خالی جہاں میں بشر
سبھوں میں ہے ساری یہی فتنہ گر


کہیں داغ ہوکر جگر پر جلا
کہیں زخم سینہ ہوا برملا
مزہ ہے یہ عاشق جہاں ہوگیا
عزا ہے جو ان دونوں پر رو گیا


کسو دل میں جاکر ہوا درد یہ
کسو چہرے کو کر گیا زرد یہ
کسو کے لیے ہے بیاباں نورد
کسو کی رہ دور کا ہے یہ گرد


کسو جان میں ہے تمناے وصل
کسو دل سے اٹھا مہیاے فصل
کہیں سبزے میں چشمک گل ہوا
کہیں نالۂ زار بلبل ہوا


کہیں سرو برچیدہ دامن ہے یہ
کہیں قمری کا طوق گردن ہے یہ
کہیں پھول لالے کا ہے داغ دار
کہیں اس سے ہے مضطرب لالہ زار


کہیں عشق و عاشق ہے معشوق ہے
کہیں خالق و خلق مخلوق ہے
یہی عشق خلوت میں وحدت کے ہے
یہی عشق پردے میں کثرت کے ہے


عجب عشق یہ شعبدہ باز ہے
موافق گہے گاہ ناساز ہے
غرض طرفہ ہنگامہ آرا ہے عشق
تماشائی عشق و تماشا ہے عشق


مساعد نہ تھا ایک سے روزگار
کیا ان نے ترک وطن اختیار
پریشانی لائی کہیں سے کہیں
بجز بیکسی ساتھ کوئی نہیں


سرا ایک تھی شہر کے درمیاں
فرود آیا واں یہ مسافرجواں
ہوا آب گردش سے بیمار یہ
رہا اس سبب کوئی دن اس جگہ


کھنچا طول کو رفتہ رفتہ مرض
دواے طبیباں سے آئے عرض
مراعات اسباب کی چند روز
دوا سے بڑھا اور کچھ دل کا سوز


کیا ترک نومید ہوکر علاج
کہا لوگوں سے خوش ہے میرا مزاج
مجھے حال ہی پر مرے چھوڑ دو
نہ لکھ پڑھ کے دل کو مرے توڑ دو


دوا چھوڑی غیرت سے وحشت ہوئی
جنوں کرنے کی اس پہ تہمت ہوئی
خیال اس کا لوگوں نے چھوڑا ندان
تعرض نہ کرتے تھے دیوانہ جان


پھرا کرتا تھا ایدھر اودھر خموش
نہ کچھ دل میں طاقت نہ کچھ سر میں ہوش
شب و روز اپنے بسر یوں کرے
معیشت زمانے میں جوں توں کرے


یکایک ہوا قافلہ اک نمود
قریب اس کے حجروں میں آیا فرود
تھی ساتھ اس کے اک دختر بے مثال
گلستان خوبی کی تازہ نہال


پری شرم گیں اس کے رخسار سے
غشی حور کو اس کی رفتار سے
قیامت ادا فتنہ در سر تھی وہ
عجب طرح کی آہ دلبر تھی وہ


نکلتی نہ پلکوں سے کم راہ تھی
نگہ لیک تا قتل ہمراہ تھی
نظرگاہ کا جوکہ مفتون ہو
گریباں کرے چاک مجنون ہو


قنات آگے حجروں کے لی کھینچ سب
لگی رہنے وہ رشک مہ روز و شب
پدر مادر اس کے نہ تھے درمیاں
قبیلے کے کچھ لوگ لائے تھے یاں


کہ شادی کہیں اس کی کر دیجیے
گئے لوگوں کا چندے غم کیجیے
سو نسبت ہوئی ہے کسی سے درست
اہم کتخدائی ہے اس کی نخست


عروس اور داماد بعد از فراغ
وطن ان کو لے جائیں گے خوش دماغ
معونت کو دونوں کے ملک و معاش
کفایت ہے بے کوشش و بے تلاش


مسافر ہوا اس پری سے دوچار
ہوا اس پہ سو جان و دل سے نثار
پری دار سا آنے جانے لگا
جنوں کرتے شور اک اٹھانے لگا


کبھی بات کرتے جو اس کو سنا
بڑی دیر تک ان نے سر کو دھنا
کبھی چلتے پھرتے جو آئی نظر
روش سے ہوئی اس کی حسرت دگر


بہت نازک اندام و شیریں کلام
قد و قامت اس کا قیامت تمام
نگہ دل زدے کو مسل ڈالتی
طرح سے جگر جان مل ڈالتی


ادا اک غضب ناز اک قہر تھا
کرشمہ خرابی کن شہر تھا
سخن عشوہ غمزے سے کیا کوئی کرے
کہ آنکھ اس کی اک پل پڑے تو مرے


بلا زیر سر فتنہ گر ناز تھا
چمک برق خاطف کی انداز تھا
مژہ اس کے برگشتہ جی میں کھبے
نگہ اس کی سرتیز دل میں چبے


کشیدہ بھویں دو کمانیں تھیں پاک
جھکیں جب حریفاں بہت ہوں ہلاک
صفا سے وہ رخسار آئینہ وار
دکھائی دے منھ ان میں ہوتے دوچار


دہن غنچہ لب اس کے گل برگ تر
دل آویز گیسو و عنبر نظر
گل اندام گل پیرہن گل بدن
دل آرام و دلچسپ دلکش سخن


سراپا سے اس کے یہ حیرت رہے
کھڑی اس کی ہر جاے صورت رہے
مسافر بھی حیران رفتار تھا
بکا جاتا تھا جو خریدار تھا


لپک کر جو چلتی دل آویز تھی
کفک پاؤں کی کیا بلاخیز تھی
اس آفت نے اک روز مہندی لگا
سر پا سے فتنے ہزاروں جگا


دیے چھاپ شوخی سے دیوار و در
رہا نازک ان انگلیوں کا اثر
اٹھے نقش پنجوں کے اس ڈھنگ سے
کہ چھاپے کے گل کب ہوں اس رنگ سے


جو نقاش وہ نقش کرتا نظر
تو رہ جاتا ہاتھوں کو بھی کھینچ کر
کئی دن میں شادی قریب آ رہی
سرا میں سے اٹھ شہر میں جا رہی


یہ افسانہ یھاں کا یہیں رہ گیا
مسافر سے عشق اس کا کیا کہہ گیا
پریشاں دلی اس کی اس حد ہوئی
کہ طبع خوش اس سے بہت بد ہوئی


پھرے تو پھرے جیسے آفت زدہ
رہے تو رہے جیسے محنت زدہ
چلے تو پریشاں پری دار سا
گرے فرش پر سست بیمار سا


جو سونے کو ہو تو کہاں اس کو خواب
پری یاد آوے ہوں آنکھیں پرآب
نہ سایہ خوش آوے نہ دھوپ اس کو بھائے
جہاں جائے وحشت لیے ساتھ جائے


کبھو جیسے دیوانہ رووے ہنسے
کبھو شہر سے دشت میں جا بسے
کھڑا ہے کہیں ہو پریشان سا
کہیں دیکھتا ہے تو حیران سا


کسی سے کرے بات تو دل کہیں
نہ ہرگز کہے دل کی مشکل کہیں
جو آنکھیں تھیں اس کی نظر میں سو تھیں
جو پلکیں چبھی تھیں جگر میں سو تھیں


شب و روز اس کو یہی تھا خیال
کہ کیا خوب صورت ہیں کیا لمبے بال
کہوں خوبی کب تک کہ ہر جا سے خوب
تکلف نہیں کچھ سراپا سے خوب


قیامت ہے اس کی کمر کی لچک
سرکتی تھی دھچکے سے سر کی لچک
نظر سیمیں ساعد پہ کیا جا پڑے
کہ بجلی سی ایدھر چمک آ پڑے


کف دست سینے پہ رکھے نہاں
تو راحت اٹھاوے گی صد رنگ جاں
قیامت کا ٹکڑا تھا وہ قد راست
یہ حرف و سخن ہیں مرے راست راست


خرام اس کا دل ہاتھ سے لے گیا
کلام اس کا مردوں کو جی دے گیا
سخن کرنے لگتی وہ محبوب جب
تو دلکش قیامت تھی تحریک لب


اگر ہنستی آئے ہے وہ کامنی
تو یوں دانت چمکے ہیں جوں دامنی
نہال قد اس کا تھا گلبن مثال
کف پا تھے گلبرگ پاے نہال


سرا میں مسافر جو شب آرہا
وہیں مہترانی نے جاکر کہا
کہ اے نوسفر عشق کی راہ کے
جدائی کش اس غیرت ماہ کے


تو اس حجرے میں جو رہا چند ماہ
سو گلخن سا ہے حال حجرہ تباہ
نہ لیپا گیا ہے نہ جھاڑا گیا
خرابہ سا ہے وہ اکھاڑا گیا


ہوا مزبلہ سا خس و خار سے
کہ صحبت رہی تجھ سے بیمار سے
تو اس حجرے میں چار دن جاکے رہ
رہی تھی جہاں آکے وہ رشک مہ


کروں سیم کل جھاڑ خاشاک و خاک
یہ گھر بھی ہو پرنور و صاف اور پاک
پھر آرہیو اس میں ترا ہے مکاں
کوئی کھینچ کر لے گیا اس کی جاں


مسافر اسی گھر میں اٹھ جا رہا
سکونت کو ان نے جہاں تھا کہا
منقش نظر آئے دیوار و در
حنائی انھیں پنجوں کا تھا اثر


نشاں اس کے ہاتھوں کا دل لے گیا
ہر اک نقش صدرنگ غم دے گیا
کہیں حیرتی نقش دیوار سا
کہیں عشق سے سست بیمار سا


اکیلا جو اس حجرے میں پا گیا
غم عشق اسے زندہ ہی کھا گیا
اٹھا اونٹ کر خوں ز جوش جنوں
یہ ہوتا چلا زرد و زار و زبوں


ہوا فرش خواب اس کا فرش مرض
کہ تھی عشق کو مرگ اس کی غرض
بڑھی ناتوانی نہ طاقت رہی
نہ اک بات کرنے کی فرصت رہی


کئی دن رہا بس طلب چشم وا
وہیں شوق کش جی عدم کو گیا
مسافر سرا سے نہ واں اٹھ گیا
یہ جی اس سرا ہی میں اس کا اٹھا


گیا چھوڑ پایاں سرا نوسفر
لیے ساتھ ہجراں میں داغ جگر
نہ وارث تھا کوئی کہ اس کو اٹھائے
رکھے نعش کاندھے پہ تا گور جائے


کچھ اس مہترانی نے تزئین کی
مروت سے تجہیز و تکفین کی
جنازہ نکالا بڑی شان سے
نماز اس کی کی سو مسلمان سے


کیا اس سرا ہی میں مدفوں اسے
کیا تھا محبت نے مجنوں اسے
سیوم کرکے اس کا نہ ماتم کیا
تمام اس سفرکردہ کا غم کیا


نہ وارث تھا کوئی جو لے تعزیہ
کیا کچھ تو للہ سب نے کیا
سنا جب کہ یہ واقعہ ہوچکا
تو شادی سے وہ جمع فارغ ہوا


زن و شو وطن کے تئیں جائیں گے
کوئی روز رہ کر یہاں آئیں گے
سرا کے ہے سب لوگوں کو انتظار
کہ کب آوے گی رشک باغ و بہار


سرا اس کے رہنے سے گلزار تھی
کرم خصلت و لطف کردار تھی
کہا شو نے منزل کریں گے جہاں
کوئی دن رہیں گے ضرورت کو وھاں


پھر اس میں سرا ہو مکاں ہو کوئی
بیاباں ہو یا گلستاں ہو کوئی
ہمیں اس سرا میں نہ جانا ہے خوب
جہاں سے اٹھے پر نہ آنا ہے خوب


مبارک نہیں رجعت قہقریٰ
خدا جانے پیش آوے ہم سب کو کیا
زن اصرار کر اس ہی جا میں گئی
کشش عشق کی لے سرا میں گئی


اترتے دگرگوں ہوا حال دل
وہی کوٹھری میں تھی پتھر کی سل
کھنچا عشق کے جذب سے یہ تعب
کہ مطلق نہ ملتے تھے وہ لعل لب


وہ آنکھیں کہ تھیں رشک چشم غزال
ٹھٹھک رہ گئیں آئینے کی مثال
وہ گوندھے ہوئے بال الجھے کیے
پریشاں ہوئے پھر نہ سلجھے کیے


گل سرخ رخسار مرجھا چلے
شکن کھا بہار اس کی لٹوا چلے
گیا طائر رنگ پرواز کر
ملامت رہی عشق کی سازگر


لگی رونے آزردہ ہو زار زار
گیا جذب الفت سے صبر و قرار
جگر چھن گیا عشق سے سو طرف
ندان ایسی آفت میں ہوگئی تلف


طرح اس کی جینے کی سی اب نہیں
کوئی دم نہیں دل کی تسکیں کہیں
وہی مضطرب ہے وہی بے حواس
وہی جذب سے عشق کے ہے اداس


سفرکردہ کا حال پرساں ہوئی
بہت سی بہت دل پریشاں ہوئی
کہا سو کہا مہترانی سے یہ
کہ وہ یھاں جو رہتا تھا کیدھر ہے کہہ


خیال اس کا جاں سے مجھے لے گیا
مسافر عجب داغ اک دے گیا
سرا میں فرود آئی میں کس گھڑی
مسافر کی صورت تھی آکے کھڑی


جہاں دیکھتی ہوں پلک میں اٹھا
اسی کی ہے ترکیب جلوہ نما
ادھر دیکھے ہے ایک حسرت کے ساتھ
کھڑا ہے خموش ایک حیرت کے ساتھ


جدھر جاؤں وہ بھی چلا جاوے ہے
مرے ساتھ پرچھائیں سا جاوے ہے
جگر جان و دل میں نہیں رہتی تاب
نہ ہے چین دن کو نہ ہے شب کو خواب


جو میں جانتی اس سرا کے یہ ڈھنگ
تو کیوں آ اترتی مسافر کے رنگ
نہ جا سکتی ہوں اب نہ رہ سکتی ہوں
پشیمانی سے کچھ نہ کہہ سکتی ہوں


مگر شو سے مجھ کو ندامت ہوئی
مری جان پر یھاں قیامت ہوئی
کیا عشق سو دنگ ہوں میں بہت
کہ اس جینے سے تنگ ہوں میں بہت


نشاں دے ترے پاس رہتا تھا وہ
سدا درد دل تجھ سے کہتا تھا وہ
گیا یھاں سے اٹھ کر تو کیدھر گیا
کہیں جا کے جیتا ہے یا مر گیا


کہا مہترانی نے بے تاب دیکھ
کہ قربان میں اب نہ یہ خواب دیکھ
مسافر سرا میں رہا مر گیا
جدا تجھ سے کام اپنا وہ کر گیا


کیا تیری فرقت نے اس کو ہلاک
ہوا میرے ہاتھوں سے وہ زیر خاک
تو ضائع نہ کر آپ کو صبر کر
غم و غصے سے جی پہ مت جبر کر


سن اس واقعے کو بہت غم کیا
عزا میں بہت حال درہم کیا
کہا حیف صد حیف بیکس موا
گڑھاگور پھر یوں میسر ہوا


چپ اب عشق کا راز رسوا نہ ہو
خدا جانے ظاہر جو کیا کیا نہ ہو
ترے چپکے رہنے سے ممنون ہوں
میں اس منت احساں کی مرہون ہوں


مبادا سنے شوے ناساز کچھ
لگاویں اسے اور غماز کچھ
سن اس زشت کاری کو ناچار ہو
مجھے ذبح کرنے کو تیار ہو


شفاعت سے کوئی نہ پھر پیش آئے
عبث جان پرآرزو میری جائے
شتاب اس کی تربت پہ لے چل مجھے
کشش اس کی رکھتی ہے بے کل مجھے


مخاطب چلی لے کے غافل اسے
کہ جاذب ہے وہ جذب کامل اسے
کمیں میں ہے مالوف کش اشتیاق
ہوئی زندگی مردہ ساں اس کو شاق


جنازے پہ آئی نہ تھی وہ پری
ہوئی گور پر اس کی جلوہ گری
برابر گئے شق ہوئی اس کی قبر
گیا اس کے دل سے سکوں اور صبر


شتابی گئی ساتھ والی کو چھوڑ
لیا مردہ عاشق نے گویا مروڑ
کھنچی جو گئی گرد اس گور سے
مسافر بھی آیا بہت دور سے


بغل گیر عاشق ہوئی زیر خاک
ہوئی ہمکناری میں آخر ہلاک
زمیں مل گئی جب یہ آخر ہوئی
مسافر سے مل کر مسافر ہوئی


گیا ہوش اس کا جو ہمراہ تھی
زباں پر فغاں تھی بلب آہ تھی
اچنبھا سا یہ سانحہ ہوگیا
عجب طور کا واقعہ ہوگیا


حواس اڑ گئے اس کے جن نے سنا
ٹھٹھک ہی گیا دیر تک سر دھنا
سرا میں گئی شور سے غم کیا
بہت حال کو اپنے درہم کیا


خبر شوے ناساز کو بھی ہوئی
کہ وہ نازنیں جا سرا میں موئی
گریباں دراں خاک افشاں گیا
لب گور خاطرپریشاں گیا


کہا گور کھولیں پھر اب بیلدار
کہ بن آنکھوں دیکھے نہیں ہے قرار
کھلی گور دیکھا تو چسپاں تھی وہ
گلے لگ رہی تھی پہ بے جاں تھی وہ


جدا کرتے مشکل جدا وہ ہوئی
کمال اشتیاق اس کو تھا جو موئی
نئی گور کر دفن اس دم کیا
نہ غیرت سے شوہر نے ماتم کیا


بنا ایک روضہ پئے صالحہ
موافق کیا رسم کے فاتحہ
گیا شو گیا شہر سے بھی گیا
کہ ہمسر کے یوں مرنے کے تھا جیا


یہ ہے میرؔ وہ عشق خانہ خراب
کہ جی جن نے مارے ہیں یھاں بے حساب
محابا کسو کا اسے کچھ نہیں
رہا بے محابا سدا ہر کہیں


-


اے جہاں آفریں خداے کریم
صانع ہفت چرخ و ہفت اقلیم
نام مکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بہ صد نشاط و سرور


عمر و دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں

-


اے جھوٹھ آج شہر میں تیرا ہی دور ہے
شیوہ یہی سبھوں کا یہی سب کا طور ہے
اے جھوٹھ تو شعار ہوا ساری خلق کا
کیا شہ کا کیا وزیر کا کیا اہل دلق کا


اے جھوٹھ تجھ سے ایک خرابی میں شہر ہے
اے جھوٹھ تو غضب ہے قیامت ہے قہر ہے
اے جھوٹھ رفتہ رفتہ ترا ہوگیا رواج
تیری متاع باب ہے ہر چار سو میں آج


اے جھوٹھ کیا کہوں کہ بلازیر سر ہے تو
اے جھوٹھ سچ یہ ہے کہ عجب فتنہ گر ہے تو
اے جھوٹھ کب ہے عرصہ میں تجھ سا حریف اب
تیرے ہی حکم کش ہیں وضیع و شریف اب


اے جھوٹھ تیرے شہر میں ہیں تابعیں سبھی
مر جائے کیوں نہ کوئی وے سچ بولیں نے کبھی
کہنے سے آج ان کے کوئی دل نہ شاد ہو
فردا کہیں تو اس سے قیامت مراد ہو


وعدے گھڑی کے پہروں کے سب آزماچکے
برسوں تک انتظار کیا جی ہی جاچکے
اے جھوٹھ رنگ تیرے کرے کوئی کیا بیاں
رکھتا ہے جیسے غنچہ زباں تو تہ زباں


یوسف کہ تھا نبی و صداقت شعار تھا
پھر حسن ظاہری سے بھی باغ و بہار تھا
پایان کار تیرے سبب چاک پیرہن
زنداں میں جا کے برسوں رہا چھوڑ کر وطن


اے جھوٹھ تو تو ایک دل آویز ہے بلا
آشوب گاہ تجھ سے زمانہ رہا سدا
کس جاں کنی سے کوہ کنی کوہ کن نے کی
تصویر کھود شیریں کی پیش نظر رکھی


نزدیک جب ہوا کہ وہ مطلوب سے ملے
اب صبح و شام غنچۂ مقصود دل کھلے
دلالہ کے تو پردے میں آ کام کر گیا
دو باتوں میں وہ عاشق دل خستہ مر گیا


اے جھوٹھ تجھ سے فتنے ہزاروں اٹھا کیے
ہنگامہ و فساد ہی ہر سو رہا کیے
اے جھوٹھ راستی سے نہیں گفتگو کہیں
کہنے کو ہاں کہیں ہیں حقیقت میں ہے نہیں


اے جھوٹھ اس طرح ہیں بہت جی سے جاچکے
وعدوں میں آہ لوگوں کے وعدے ہی آچکے
اے جھوٹھ اس زمانے میں کیونکر چلے معاش
ہے تنگ جھوٹھ بولنے سے عرصۂ تلاش


سردار جس سے سب متعلق ہے کاروبار
سچ بولنا ہے اس کے تئیں سخت ننگ و عار
پھر سب مدار کار دروغی و مفتری
صدق و صفا و راستی کے عیب سے بری


جھوٹا سوار دولت ابھی کا ہے یہ امیر
ورنہ قسم کسو کی بھی تھی حرف بارگیر
مشکل حصول کام ہے یاں حاصل کلام
باتوں ہی باتوں کام ہوا خلق کا تمام


اے جھوٹھ دل مرا بھی بہت دردناک ہے
ان کاذبوں سے صبح نمط جیب چاک ہے
اک فرد دستخطی تھی مری ایک شخص پاس
دیکھا جو خوب اس کو تو مطلق نہیں حواس


تھا میں فقیر پر نہ گیا شاہ کے حضور
اتنے لیے کہ رتبۂ عزت مرا ہے دور
آداب سلطنت سے نہیں مجھ کو رابطہ
حرکت نہ ہوئے مجھ سے کوئی غیر ضابطہ


مرزائی مجھ سے کھنچتی نہیں ہر عزیز کی
پھر شعر و شاعری بھی نہیں ہے تمیز کی
صحبت خدا ہی جانے پڑے کیسی اتفاق
کیا بات آوے بیچ میں بے رتبگی ہے شاق


میں مضطرب گھر اس کے گیا اٹھ کے پانچ بار
کہنے لگا زباں سے یہ ہوتے ہی وہ دوچار
تقصیر میری اس میں نہ کریے گا کچھ خیال
صاحب کہیں خموشی کروں میں یہ کیا مجال


لیکن یہ حرف اس بھی سیہ رو کا رکھیے یاد
انداز سے یہ لوگ سخن کرتے ہیں زیاد
بہتیری ایسی فردیں یہ رکھتے ہیں جیب میں
رکھتے ہیں یوں ہی لوگوں کو برسوں فریب میں


دکھلاؤں گا چلا ہوں سوال آپ کا لیے
میں نے کہا فقیر کہو کس طرح جیے
بولا نہ ہوگا سعی میں ایدھر سے کچھ قصور
پھر دیکھیے کہ پردے سے کرتا ہے کیا ظہور


اک آدھ ایسی بات بناکر کھسک گیا
دل اس خبر کے سننے سے میرا دھڑک گیا
یہ عرضیاں حضور کو بھیجیں میں صبح و شام
دستخط جو ہوکے آئے کوئی سو اسی کے نام


یعنی وہ اب کی آن کے کچھ دیوے گا شتاب
دل جمع رکھیں کاہے کو کرتے ہیں اضطراب
دو چار بار آیا بھی وہ پر نہ کچھ ہوا
مجھ کو جو اضطرار تھا میں بے اجل موا


مدت مدید گذری مجھے کرتے انتظار
خجلت ہوئی جو حال لکھا میں نے بار بار
اس فرد دستخطی کو ہے یہ ماہ ہفتمیں
تنخواہ کا نہیں ہے ٹھکانہ ابھی کہیں


آیا جو وہ لطیفۂ غیبی اب اپنے گھر
میں مضطرب ہو آپ گیا ملنے اس کے گھر
بارے نہ اتفاق ہوا یہ کہ ہو ملاپ
کھویا تھا اضطرار سے عز و وقار آپ


گھر آ کے ایک بھائی کو بھیجا پیام دے
آئے وے اس کے پاس سے جو کچھ جواب لے
حضرت سے کہیو پہلے بہت بندگی مری
پھر کہیو اب اترتی ہے شرمندگی مری


دو چار دن میں بھیجے گا کچھ گھر ہی آپ کے
درپے نہ اتنے ہوجیے میرے ملاپ کے
تب سے وے بھائی جاتے ہیں ہر روز صبح و شام
اب تک تو ملتوی ہے زمانے زدے کا کام


دن دیکھتے ہیں وعدے کے بھی ہیں بہت قریب
پھر ترک شہر کیجیے گا کہہ کے یانصیب
برسوں ہوئے مہینوں کے وعدے ہوئے وعید
سچ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ان جھوٹھوں سے بعید


-


کہتے ہیں جو غم نداری بز بخر
سو ہی لی میں ایک بکری ڈھونڈھ کر
شعر زور طبع سے کہتا ہوں چار
دزدی بزگیری نہیں اپنا شعار


دزد ہے شائستہ خوں ریزی کا یاں
بلکہ بابت ہے بزآویزی کا یاں
میں پڑھوں ہوں اس کے آگے شعر گہ
اپنے ہاں گویا بز اخفش ہے یہ


بکروں کی داڑھی کے تیں جانے ہیں سب
تکہ ریشی بکری کی ہے بوالعجب
رنگ سر سے پاؤں تک اس کا سیاہ
چکنی ایسی جس پہ کم ٹھہرے نگاہ


چار پستاں اس کے آئے دید میں
دو جہاں ہوتے ہیں دو ہیں جید میں
ایک میں ان میں سے تھا مطلق نہ شیر
ایک کو کہتے ہیں اندھے خرد و پیر


اس پہ کالے بکرے دو خیلا جنے
نازنخرے سے رہے پھر انمنے
چارہ بیٹھے کھاتے اک انداز سے
دیتی پٹھ تو ہوتے خوش اس ناز سے


دودھ ہو چوچی میں تو بچہ پیے
بیٹھا دیکھے اس طرف منھ کو کیے
بھوک سے گرم تظلم وے ہوئے
اپنے شایان ترحم وے ہوئے


دودھ منگوایا کیے بازار سے
پھوہوں سے دینا کیا انفار سے
گھاس دانہ بارے کچھ کھانے لگے
گرتے پڑتے پاس بھی آنے لگے


پرورش سے حق کی بارے جی گئے
آب و دانہ دوڑ کر کھا پی گئے
اب جوانی پر جو ہیں وہ شیر مست
کودتے ہیں ہر زماں ہر دم ہیں جست


مستی اپنی ماں پہ کرتے شاد ہیں
عاقبت بکرے ہی کی اولاد ہیں
زور و قوت سے حریفوں کے ہیں ڈھینگ
آہوے جنگی کو دکھلاتے ہیں سینگ


ٹکر ان کی کیا جگر مینڈھا اٹھائے
قوچ سرزن سامنے ہرگز نہ آئے
سرزنی میں شہرۂ آفاق ہیں
لوگ بزگیری کے سب مشتاق ہیں


رنگ کو اس جنگ کا کیا ڈھنگ ہے
دھنستے ہی میداں کا عرصہ تنگ ہے
ہوتے ہی استادہ طاری ہو غشی
کیا بز کوہی سے ہو میداں کشی


تیس ان کی دھاک سن کر مر گیا
غم گوزنوں کو انھوں کا چر گیا
گووہ ٹکر کھا جو ڈکراتا رہا
بزدلی سے گرگ بھی جاتا رہا


مارے پانی پانی کر بکرے اصیل
لکھنؤ سے غل ہے تا بکرے کی جھیل
پاس جانا ان کے اب مسدود ہے
ذبح کرنے کو ہر اک موجود ہے


اس ادا سے جائیں گے چھریوں تلے
کاشکے ہوتے نہ ہاتھوں میں پلے

-


ایک بلی موہنی تھا اس کا نام
ان نے میرے گھر کیا آکر قیام
ایک دو سے ہوگئی الفت گزیں
کم بہت جانے لگی اٹھ کر کہیں


ربط پھر پیدا کیا میرے بھی ساتھ
دیکھتی رہنے لگی میرا ہی ہاتھ
آئے ہے مجھ پاس یہ اٹھ کر سویر
گربۂ زرد فلک نکلے ہے دیر


یعنی وقت گرگ و میش آئے ہے پاس
پھر مرا پہروں کیا ہے ان نے پاس
چھیچھڑا ٹکڑا جو کچھ پایا کرے
فقر میرا دیکھ کر کھایا کرے


بختوں سے ٹوٹا ہے چھینکا بھی اگر
ان نے اودھر کی نہیں مطلق نظر
دخل کیا ہے جھانکے یہ چھینکے کی اور
ٹکڑے کو دیکھے نہ گو بھوکی ہو زور


اس مروت پیشہ سے کیا ہے گلہ
خوف سے آپھی گہے چوہا ملا
ایک بلی کچھ گئی تھی آکے چکھ
یہ لڑی تو منھ پہ پنجہ اپنے رکھ


برسوں یاد آوے گی یہ پاکیزہ خو
آگے آئی ہی نہیں چلتے کبھو
لانگھی ہو جو گھر سے جاتے تد رہوں
چلتے چھینکا ہو کبھو تو کچھ کہوں


تھی جو ظاہر جوں کڑاہی تیرہ رنگ
پر تماشا کردنی تھے اس کے ڈھنگ
شوق میں ہمسائیاں اس کے رہیں
جو گئی بھی ٹک تو مانگے سے کہیں


پھرنے کو تو پھرتی کیا دلی نہ تھی
پر جلے پاؤں کی یہ بلی نہ تھی
رفتہ رفتہ کوٹھوں پر جانے لگی
پہروں پہروں میں یہ پھر آنے لگی


حاملہ ہوکر کئی بچے دیے
ایک دو بھی سو نہ ان میں سے جیے
متصل ایسا ہوا جو اتفاق
مرگ ان بچوں کی گذری سب پہ شاق


حفظ اس کی کوکھ کا لازم ہوا
جھاڑے پھونکے کا ہر اک عازم ہوا
نذریں مانیں نقش لائے ڈھونڈھ کر
نیل کے ڈوروں میں باندھے پیٹ پر


چھیچھڑوں میں بعضوں نے افسوں لکھے
بعضوں نے تعویذ لے کر خوں لکھے
بی بلائی سے بہت کی التجا
گربۂ محراب سے چاہی دعا


گوشت کی چیلوں کو پھینکیں بوٹیاں
ماش کی موٹی پکائیں روٹیاں
لڑکیاں بٹھلائیاں کھاٹوں تلے
اس طرح جوں دبکی بلی کم ہلے


دیتے ٹکڑا منھ کو ہر اک کھولتے
اور بولی بلیوں کی بولتے
صدقے اترے چھیچھڑے جو ڈھیر ڈھیر
گربۂ لاوہ نے کھائے ہو کے سیر


کیں مناجاتیں دل شب لاتعد
گربۂ زاہد سے بھی چاہی مدد
بوہریرہ کے تئیں مانا بہت
بلیوں کو بھی دیا کھانا بہت


مدح جس بلی کی کرتا تھا عبید
تھی دعاگوئی میں وہ بے مکر و شید
خواجہ عصمت کرتے تھے طاعت جہاں
ایک بلی بیٹھی تھی آکر وہاں


صبح دم ہوتی وہی گرم سجود
گہ قیام اس کے تئیں تھا گہ قعود
چاہی ہمت اس سے اٹھ کر ہر سحر
کچھ تو باطن نے کیا اس کے اثر


پانچ بچے اس نے اس نوبت دیے
بارے سب وے قدرت حق سے جیے
کیوں نہ ایسی ہووے امداد سترگ
بی بلائی بوہریرہ سب بزرگ


اک توجہ رکھے تھے ظاہر کی اور
آرزو بر لائے یہ باطن کی زور
اپنی ماں کے رات دن سینے لگے
پانچوں بچے دودھ کچھ پینے لگے


دودھ کتنا جو کہ بس ہو سب کے تیں
میں بھی منگوانے لگا کچھ شب کے تیں
دودھ پی کر گائے بکری کا چلے
روز و شب لوگوں کی آنکھوں کے تلے


دیر میں میں نے جو یہ ٹک غور کی
بلیاں پانچوں ہیں یہ اک طور کی
دو مہینے تک بہت تھی احتیاط
کتے بلی سب سے موقوف اختلاط


کوئی کتا آگیا ایدھر اگر
لوگ دوڑے شیر سے منھ پھاڑ کر
در سے نکلیں سب ہوئے بازی کے گرم
زرد زرد ان کی دمیں منھ نرم نرم


لچھے ریشم کے سے چندیں رنگ خال
کچھ سفید و کچھ سیہ کچھ زرد و لال
آ نکلتی تھیں جدھر یہ پانچ چار
وہ طرف ہوجاتی تھی باغ و بہار


ایک عالم عاشق و بے تاب تھا
ان کی خاطر بے خور و بے خواب تھا
لے گئے ایک ایک کر سب تین تو
منی مانی رہ گئیں مجھ پاس دو


منی کی پھر ایک صاحب نے پسند
تھی بھی نازک ایسی ہی طالع بلند
مانی کچھ بھاری تھی نکلی بردبار
رہ گئی یاں فقر کو کر اختیار


بوریے پر میرے اس کی خواب گاہ
دل سے میرے خاص اس کو ایک راہ
میں نہ ہوں تو راہ دیکھے کچھ نہ کھائے
جان پاوے سن مری آواز پاے


سب سے آگے آن پہنچے در تلک
دیکھے میرے پاؤں سے لے سر تلک
آنکھ سے معلوم ہو مشتاق ہے
بلی یا اعجوبۂ آفاق ہے


بلیاں ہوتی ہیں اچھی ہر کہیں
یہ تماشا سا ہے بلی تو نہیں
گردرو باندھے تو چہرہ حور کا
چاندنی میں ہو تو بکا نور کا


گرم شوخی ہو اگر یہ مثل برق
بجلی میں اس میں نہ کچھ کرسکیے فرق
یا پری اس پردے میں ہے جلوہ گر
اٹھتی اودھر سے نہیں ہرگز نظر


کیسی ہی بلی ولایت کی ہو زور
خوب دیکھو تو ہے اس کے صدقے حور
ربط ہے اپنے بھی جی کو اس کے ساتھ
بیٹھے ہے تو پیٹھ پر میرا ہے ہاتھ


ایک دن جاکر کہیں ٹک سو گئی
مانی مانی سارے گھر میں ہوگئی
بلی کا ہوتا نہیں اسلوب یہ
ہے کبودی چشم یک محبوب یہ


دیکھے جس دم یک ذرا کوئی اس کو گھور
چشم شور آفتاب اس دم ہو کور
حسن کیا کیا مانی کے کریے بیاں
سو جہاں جب تک یہ ہووے درمیاں


خوبی منی کی نہ کوئی کہہ سکے
دیکھے اس کو تو نہ اس بن رہ سکے
داغ گلزاری سے اس کے تازہ باغ
اس زمان تیرہ کی چشم و چراغ


کیا دماغ اعلیٰ طبیعت کیا نفیس
کیا مصاحب بے بدل کیسی جلیس
یہ نفاست یہ لطافت یہ تمیز
آنکھ دوڑے ہی نہ ہو کیسی ہی چیز


اس کو گر کعبے میں یہ ہو شوخ و چست
ہے کبوتر مارنا واں کا درست
چوہا چڑیاں ان نے کچھ کھایا نہیں
حج کو جانا اس کے تیں آیا نہیں


حب ہرہ جوکہ ہے ایمان میں
ہے اسی بلی کی شاید شان میں
تھا بہت منی کا جننا آرزو
سو جنی دو بلیاں ہیں ماہ رو


خال ہیں ان پر بھی ماں کے سے عیاں
پر وہ خوبی اور محبوبی کہاں
موہنی اور سوہنی ہے ان کا نام
پھرتی ہیں پھندنا سی دونوں صبح و شام


نیلے دھاگے گردنوں میں ہیں پڑے
لوگ آنکھوں میں ہی رہتے ہیں کھڑے
حفظ ابھی بلوں سے ان کا ہے ضرور
رہیو ان دونوں سے چشم شور دور


دیکھے ان کی اور جو ٹک کرکے خشم
کاڑھ کر دیں بلیوں کو اس کی چشم
قصہ کوتہ موہنی آگے موئی
یک قیامت جان پر اس بن ہوئی


صبر بن چارہ نہ تھا آخر کیا
بلی ماروں میں اسے گڑوا دیا
شاد وہ جس کے رہیں قائم مقام
وائے اس پر جس کسو کا لیں نہ نام


-