مزیدار مزاحیہ شاعری
شاعری کے خوبصورت الفاظ کے ذریعے ہنسی پھیلانا
مزیدار مزاحیہ شاعری کی دنیا میں داخل ہوں، جہاں ہنسی اور خوشی ہر پنکتی میں موجود ہیں۔ یہ شاعری کا مجموعہ منگنی اور دل لگی کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو آپکو روزانہ کی مشغلہوں سے آرام دیتا ہے۔ مزیدار مزاحیہ شاعری کی چبکنی اور ہوشیاری سے بھری باتوں کی مدد سے اپنے دن کو روشن کریں اور اپنے چہرے پر ایک مسکان لائیں۔
یہ محفل سخن تھی مئی کے مہینے میں
شاعر سبھی نہائے ہوئے تھے پسینے میں
زندہ رہیں گے حشر تک ان شاعروں کے نام
جو اس مشاعرہ میں سنائے گئے کلام
صدر مشاعرہ کہ جناب خمارؔ تھے
بیکس تھے بے وطن تھے غریب الدیار تھے
ماہرؔ تھے بے قرار تو احقرؔ تھے بد حواس
کوثرؔ پکارتے تھے کہ پانی کا اک گلاس
شوقؔ و نشورؔ و ساحرؔ و شاعرؔ فگارؔ و رازؔ
اک مقبرہ میں دفن تھے جملہ شہید ناز
ایسا بھی ایک وقت نظر سے گزر گیا
جب صابریؔ کے صبر کا پیمانہ بھر گیا
یہ میہماں تھے اور کوئی میزباں نہ تھا
ان ''آل انڈیوں'' کا کوئی قدرداں نہ تھا
گرمی سے دل گرفتہ نہ تھا صرف اک امیرؔ
کتنے ہی شاعروں کا وہاں اٹھ گیا خمیر
رو رو کے کہہ رہا تھا اک استاد دھامپور
''مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور''
القصہ شاعروں کی وہ مٹی ہوئی پلید
شاعر سمجھ رہے تھے کہ ہم اب ہوئے شہید
وہ شاعروں کا جم غفیر ایک ہال میں
دم توڑتے ہوں جیسے مریض اسپتال میں
وہ تشنگی وہ حبس وہ گرمی کہ الاماں
منہ سے نکل پڑی تھی اک استاد کی زباں
شاعر تھے بند ایک سنما کے حال میں
پنچھی پھنسے ہوئے تھے شکاری کے جال میں
وہ پیاس تھی کہ جام قضا مانگتے تھے لوگ
''وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ''
موسم کچھ ایسا گرم کچھ اتنا خراب تھا
شاعر جو بزم شعر میں آیا کباب تھا
بزم سخن کی رات قیامت کی رات تھی
ہم شاعروں کے حق میں شہادت کی رات تھی
کچھ اہل ذوق لائے تھے ساتھ اپنے تولیا
ننگے بدن ہی بیٹھے تھے کچھ پیر و اولیا
پاجامہ و قمیص نہ آیا بدن کو راس
بیٹھے تھے لوگ پہنے ہوئے قدرتی لباس
کیسے کہوں وہ اہل ادب بے وقوف تھے
اتنا ضرور ہے کہ وہ موسم پروف تھے
گرمی سے مضطرب تھے یہ شاعر یہ سامعین
کہتے تھے ہم پہ رحم کر اے رب عالمین
یہ آخری گناہ تو ہو جائے در گزر
اب ہم مشاعرہ میں نہ جائیں گے بھول کر
یہ ہوش کس کو تھا کہ وہاں کس نے کیا کیا
سب کو یہ فکر تھی کہ ملے جلد خوں بہا
حالانکہ جان بچنے کی صورت نہ تھی کوئی
حکم خدا کہ اپنی قضا ملتوی ہوئی
شاعر سبھی نہائے ہوئے تھے پسینے میں
زندہ رہیں گے حشر تک ان شاعروں کے نام
جو اس مشاعرہ میں سنائے گئے کلام
صدر مشاعرہ کہ جناب خمارؔ تھے
بیکس تھے بے وطن تھے غریب الدیار تھے
ماہرؔ تھے بے قرار تو احقرؔ تھے بد حواس
کوثرؔ پکارتے تھے کہ پانی کا اک گلاس
شوقؔ و نشورؔ و ساحرؔ و شاعرؔ فگارؔ و رازؔ
اک مقبرہ میں دفن تھے جملہ شہید ناز
ایسا بھی ایک وقت نظر سے گزر گیا
جب صابریؔ کے صبر کا پیمانہ بھر گیا
یہ میہماں تھے اور کوئی میزباں نہ تھا
ان ''آل انڈیوں'' کا کوئی قدرداں نہ تھا
گرمی سے دل گرفتہ نہ تھا صرف اک امیرؔ
کتنے ہی شاعروں کا وہاں اٹھ گیا خمیر
رو رو کے کہہ رہا تھا اک استاد دھامپور
''مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور''
القصہ شاعروں کی وہ مٹی ہوئی پلید
شاعر سمجھ رہے تھے کہ ہم اب ہوئے شہید
وہ شاعروں کا جم غفیر ایک ہال میں
دم توڑتے ہوں جیسے مریض اسپتال میں
وہ تشنگی وہ حبس وہ گرمی کہ الاماں
منہ سے نکل پڑی تھی اک استاد کی زباں
شاعر تھے بند ایک سنما کے حال میں
پنچھی پھنسے ہوئے تھے شکاری کے جال میں
وہ پیاس تھی کہ جام قضا مانگتے تھے لوگ
''وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ''
موسم کچھ ایسا گرم کچھ اتنا خراب تھا
شاعر جو بزم شعر میں آیا کباب تھا
بزم سخن کی رات قیامت کی رات تھی
ہم شاعروں کے حق میں شہادت کی رات تھی
کچھ اہل ذوق لائے تھے ساتھ اپنے تولیا
ننگے بدن ہی بیٹھے تھے کچھ پیر و اولیا
پاجامہ و قمیص نہ آیا بدن کو راس
بیٹھے تھے لوگ پہنے ہوئے قدرتی لباس
کیسے کہوں وہ اہل ادب بے وقوف تھے
اتنا ضرور ہے کہ وہ موسم پروف تھے
گرمی سے مضطرب تھے یہ شاعر یہ سامعین
کہتے تھے ہم پہ رحم کر اے رب عالمین
یہ آخری گناہ تو ہو جائے در گزر
اب ہم مشاعرہ میں نہ جائیں گے بھول کر
یہ ہوش کس کو تھا کہ وہاں کس نے کیا کیا
سب کو یہ فکر تھی کہ ملے جلد خوں بہا
حالانکہ جان بچنے کی صورت نہ تھی کوئی
حکم خدا کہ اپنی قضا ملتوی ہوئی
- dilawar-figar
کہوں تو کیا میں کہوں پیاری پیاری آنکھوں کو
سبو کہوں کہ صراحی تمہاری آنکھوں کو
کچھ ایسا چھایا ہے دل پر مرے غبار الم
گلوں کے سائے بھی لگتے ہیں بھاری آنکھوں کو
جھلک رہے ہیں وہ پلکوں پہ آنسوؤں کی طرح
وہ غم جو تم نے دئیے ہیں ہماری آنکھوں کو
جھکیں جو پلکیں تو رک جائیں دھڑکنیں دل کی
اٹھیں تو چوم لیں تارے تمہاری آنکھوں کو
لہو گلوں کا بہا ہے بصورت آنسو
خزاں نے لوٹا ہے جب بھی ہماری آنکھوں کو
دعائیں کرتے ہیں نرگس کے پھول گلشن میں
نظر لگے نہ کسی کی تمہاری آنکھوں کو
سلگتی رات کے سینے پہ برف سی رکھ دی
غزل میں ڈھال کے گویا تمہاری آنکھوں کو
مہکتے پھول سنکتی ہوا یہ موسم گل
چمن میں دیکھتے ہیں سب تمہاری آنکھوں کو
سبو کہوں کہ صراحی تمہاری آنکھوں کو
کچھ ایسا چھایا ہے دل پر مرے غبار الم
گلوں کے سائے بھی لگتے ہیں بھاری آنکھوں کو
جھلک رہے ہیں وہ پلکوں پہ آنسوؤں کی طرح
وہ غم جو تم نے دئیے ہیں ہماری آنکھوں کو
جھکیں جو پلکیں تو رک جائیں دھڑکنیں دل کی
اٹھیں تو چوم لیں تارے تمہاری آنکھوں کو
لہو گلوں کا بہا ہے بصورت آنسو
خزاں نے لوٹا ہے جب بھی ہماری آنکھوں کو
دعائیں کرتے ہیں نرگس کے پھول گلشن میں
نظر لگے نہ کسی کی تمہاری آنکھوں کو
سلگتی رات کے سینے پہ برف سی رکھ دی
غزل میں ڈھال کے گویا تمہاری آنکھوں کو
مہکتے پھول سنکتی ہوا یہ موسم گل
چمن میں دیکھتے ہیں سب تمہاری آنکھوں کو
- saghar-khayyami
تصویر آج دیکھ کے عہد شباب کی
اتنا ہنسا کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے
اتنا ہنسا کہ آنکھ سے آنسو نکل پڑے
- saghar-khayyami
رحیم اللہ ہوا اچھا تو اس نے
یہ دیکھا ہو چکی ہے ''پارٹیشن''
گئے کچھ بھاگ اور کچھ مر چکے ہیں
نہ نیتا سنگھ باقی ہے نہ بھیشن
سنے اس داستاں کے جب فسانے
تو غصے نے بنایا اس کو مجنوں
تڑپ اٹھا کہ لے کیسے وہ بدلہ
پیے ان کافروں کا کس طرح خوں
نہ کیوں کہلا سکا وہ مرد غازی
نہ جب یہ مل سکا وہ خوب رویا
یکا یک اس کے سب پلٹے خیالات
تو اس نے دامن اسلام چھوڑا
کنارہ کش ہوا سب بھائیوں سے
نئے مذہب سے رشتہ اپنا جوڑا
کئی دن بعد جب نکلا وہ گھر سے
تو اس کے منہ پہ داڑھی سر پہ تھے بال
نہالا سنگھ اب تھا نام اس کا
لیے کرپان وہ غصے سے تھا لال
ہزاروں خوں فشاں ارمان لے کے
کھڑا تھا آج وہ مسجد کے آگے
پکڑنے کے لیے اس کو نمازی
نمازیں چھوڑ کر مسجد سے بھاگے
لگا کر ایک نعرہ وحشت آلود
وہی کرپان جھٹ اس نے نکالی
لگا کر قہقہہ پھر اک فلک رس
معاً سینے میں اپنے گھونپ ڈالی
تمنا تھی کہ اک سکھ میں بھی ماروں
یہ پوری تو نے کی اللہ تعالی
بہت خوش ہوں رحیم اللہ خاں نے
نہالا سنگھ جی کو مار ڈالا
یہ دیکھا ہو چکی ہے ''پارٹیشن''
گئے کچھ بھاگ اور کچھ مر چکے ہیں
نہ نیتا سنگھ باقی ہے نہ بھیشن
سنے اس داستاں کے جب فسانے
تو غصے نے بنایا اس کو مجنوں
تڑپ اٹھا کہ لے کیسے وہ بدلہ
پیے ان کافروں کا کس طرح خوں
نہ کیوں کہلا سکا وہ مرد غازی
نہ جب یہ مل سکا وہ خوب رویا
یکا یک اس کے سب پلٹے خیالات
تو اس نے دامن اسلام چھوڑا
کنارہ کش ہوا سب بھائیوں سے
نئے مذہب سے رشتہ اپنا جوڑا
کئی دن بعد جب نکلا وہ گھر سے
تو اس کے منہ پہ داڑھی سر پہ تھے بال
نہالا سنگھ اب تھا نام اس کا
لیے کرپان وہ غصے سے تھا لال
ہزاروں خوں فشاں ارمان لے کے
کھڑا تھا آج وہ مسجد کے آگے
پکڑنے کے لیے اس کو نمازی
نمازیں چھوڑ کر مسجد سے بھاگے
لگا کر ایک نعرہ وحشت آلود
وہی کرپان جھٹ اس نے نکالی
لگا کر قہقہہ پھر اک فلک رس
معاً سینے میں اپنے گھونپ ڈالی
تمنا تھی کہ اک سکھ میں بھی ماروں
یہ پوری تو نے کی اللہ تعالی
بہت خوش ہوں رحیم اللہ خاں نے
نہالا سنگھ جی کو مار ڈالا
- raja-mehdi-ali-khan
غالبؔ نے کی یہ عرض خداوند ذو الجلال
جنت سے کچھ دنوں کے لیے کر مجھے بحال
مہ وش مرے کلام کو سازوں پہ گائے ہیں
قسمت نے بعد مرنے کے کیا دن دکھائے ہیں
شاعر جو منحرف تھے وہ مرعوب ہو گئے
ایواں جو میرے نام سے منسوب ہو گئے
خادم کا اس ادارے سے رشتہ ہے باہمی
اک بار میں بھی دیکھ لوں غالب اکادمی
ہر شخص کے حضور میں پھیلائے ہات تھا
نا قدریوں کے دور میں فدوی حیات تھا
حکم خدا ہوا کہ ذرا جلد جائیے
دنیا کو جا کے پھر سے ذرا دیکھ آئیے
ساغرؔ بہ احترام خدا کے وکیل نے
دلی میں لا کے چھوڑ دیا جبرئیل نے
اک ساتھ دو بسیں جو بھنا بھن گزر گئیں
حوروں نے جو سنواری تھیں زلفیں بکھر گئیں
کاندھے سے کاندھا مار کے مہ وش نکل گیا
اولی سے ثانی شعر کا میٹر بدل گیا
بیٹھے جو بس میں اور ہوئے ہوش باختہ
جنت کی سمت اڑتی نظر آئی فاختہ
جھٹکے سے بس کے ریشمی پوشاک پھٹ گئی
جھرمٹ میں لڑکیوں کے تھے اور جیب کٹ گئی
دیکھا جو ہپیوں کو تو دل شاد ہو گئے
سمجھے کہ قیدی قید سے آزاد ہو گئے
خفیہ پولس بھی عادت و اطوار دیکھ کر
پیچھے لگی تھی جبہ و دستار دیکھ کر
غالبؔ کی جو نگاہ ادھر سے ادھر گئی
اردو کی اک کتاب نظر سے گزر گئی
اردو کے زر نگار کسی آفتاب نے
طوطے کو ''ت'' سے لکھا تھا خانہ خراب نے
غالبؔ یہ سمجھے یار کہیں پوپلا نہ ہو
تصنیف کرنے والا کہیں توتلا نہ ہو
یہ داغ دھل سکیں گے نہ اشکوں کے دھوئے سے
تا عمر میں نے لکھا ہے طوطے کو ''ط'' سے
واللہ بے بلائے براتی سے ہو گئی
غالبؔ کی بھینٹ ایک صحافی سے ہو گئی
بولے بڑے وقار سے غالبؔ ہے میرا نام
جنت سے ساتھ آئے ہیں جبریل ذی مقام
بولے کہ کتنے لوگوں پہ غالبؔ کا بھوت ہے
ہیں آپ واقعی کوئی اس کا ثبوت ہے
بے نور جو چراغ ہیں وہ آفتاب ہیں
کس کس کو ہم بتائیں کہ غالبؔ جناب ہیں
واللہ جھوم جائے گی دنیا حضور کی
جنت سے ساتھ لایا ہوں تصویر حور کی
تصویر دیکھ کر کہا سنئے بڑے میاں
اس شکل کی ملیں گی ہزاروں ہی لڑکیاں
حوروں سے گاہ گاہ جو خط میں نے پائے ہیں
جبریل اپنے ساتھ وہ سب لے کے آئے ہیں
خط پڑھ کے بولے واہ یہی خط ہیں کیا جناب
جن میں نہ سوز و ساز نہ شکوے نہ اضطراب
یہ خط بھی پڑھ کے دیکھیے جو میرے پاس ہیں
حوروں سے بڑھ کے لڑکیاں یاں ایڈوانس ہیں
ہر آرزوئے دل کو بہ تصویر لکھتی ہیں
ماتا پتا کو پاؤں کی زنجیر لکھتی ہیں
آئے تھے چار روز کو جلدی گزر گئے
غالبؔ وفور شرم سے دو دن میں مر گئے
پوچھا خدا نے حال تو غالبؔ نے یہ کہا
جنت سے اب نہ جائے گا یہ بندۂ خدا
جینا زمانے والوں نے دشوار کر دیا
پہچاننے سے بھی مرے انکار کر دیا
آئی صدائے حق کہ یہی بند و بست ہیں
تیرے وطن کے لوگ تو مردہ پرست ہیں
جنت سے کچھ دنوں کے لیے کر مجھے بحال
مہ وش مرے کلام کو سازوں پہ گائے ہیں
قسمت نے بعد مرنے کے کیا دن دکھائے ہیں
شاعر جو منحرف تھے وہ مرعوب ہو گئے
ایواں جو میرے نام سے منسوب ہو گئے
خادم کا اس ادارے سے رشتہ ہے باہمی
اک بار میں بھی دیکھ لوں غالب اکادمی
ہر شخص کے حضور میں پھیلائے ہات تھا
نا قدریوں کے دور میں فدوی حیات تھا
حکم خدا ہوا کہ ذرا جلد جائیے
دنیا کو جا کے پھر سے ذرا دیکھ آئیے
ساغرؔ بہ احترام خدا کے وکیل نے
دلی میں لا کے چھوڑ دیا جبرئیل نے
اک ساتھ دو بسیں جو بھنا بھن گزر گئیں
حوروں نے جو سنواری تھیں زلفیں بکھر گئیں
کاندھے سے کاندھا مار کے مہ وش نکل گیا
اولی سے ثانی شعر کا میٹر بدل گیا
بیٹھے جو بس میں اور ہوئے ہوش باختہ
جنت کی سمت اڑتی نظر آئی فاختہ
جھٹکے سے بس کے ریشمی پوشاک پھٹ گئی
جھرمٹ میں لڑکیوں کے تھے اور جیب کٹ گئی
دیکھا جو ہپیوں کو تو دل شاد ہو گئے
سمجھے کہ قیدی قید سے آزاد ہو گئے
خفیہ پولس بھی عادت و اطوار دیکھ کر
پیچھے لگی تھی جبہ و دستار دیکھ کر
غالبؔ کی جو نگاہ ادھر سے ادھر گئی
اردو کی اک کتاب نظر سے گزر گئی
اردو کے زر نگار کسی آفتاب نے
طوطے کو ''ت'' سے لکھا تھا خانہ خراب نے
غالبؔ یہ سمجھے یار کہیں پوپلا نہ ہو
تصنیف کرنے والا کہیں توتلا نہ ہو
یہ داغ دھل سکیں گے نہ اشکوں کے دھوئے سے
تا عمر میں نے لکھا ہے طوطے کو ''ط'' سے
واللہ بے بلائے براتی سے ہو گئی
غالبؔ کی بھینٹ ایک صحافی سے ہو گئی
بولے بڑے وقار سے غالبؔ ہے میرا نام
جنت سے ساتھ آئے ہیں جبریل ذی مقام
بولے کہ کتنے لوگوں پہ غالبؔ کا بھوت ہے
ہیں آپ واقعی کوئی اس کا ثبوت ہے
بے نور جو چراغ ہیں وہ آفتاب ہیں
کس کس کو ہم بتائیں کہ غالبؔ جناب ہیں
واللہ جھوم جائے گی دنیا حضور کی
جنت سے ساتھ لایا ہوں تصویر حور کی
تصویر دیکھ کر کہا سنئے بڑے میاں
اس شکل کی ملیں گی ہزاروں ہی لڑکیاں
حوروں سے گاہ گاہ جو خط میں نے پائے ہیں
جبریل اپنے ساتھ وہ سب لے کے آئے ہیں
خط پڑھ کے بولے واہ یہی خط ہیں کیا جناب
جن میں نہ سوز و ساز نہ شکوے نہ اضطراب
یہ خط بھی پڑھ کے دیکھیے جو میرے پاس ہیں
حوروں سے بڑھ کے لڑکیاں یاں ایڈوانس ہیں
ہر آرزوئے دل کو بہ تصویر لکھتی ہیں
ماتا پتا کو پاؤں کی زنجیر لکھتی ہیں
آئے تھے چار روز کو جلدی گزر گئے
غالبؔ وفور شرم سے دو دن میں مر گئے
پوچھا خدا نے حال تو غالبؔ نے یہ کہا
جنت سے اب نہ جائے گا یہ بندۂ خدا
جینا زمانے والوں نے دشوار کر دیا
پہچاننے سے بھی مرے انکار کر دیا
آئی صدائے حق کہ یہی بند و بست ہیں
تیرے وطن کے لوگ تو مردہ پرست ہیں
- saghar-khayyami
لہنگاؔ سنگھا کلمہ پڑھ
لاالہ آگے پڑھ
آگے آپ بتا دیجے
میری جان بچا لیجے
آگے مجھے اگر آتا
تم سے میں کیوں پڑھواتا
سوچ نہ اب بیکار رحیمؔ
مار اس کو تلوار رحیم
دور ہوں اس کے سب دکھڑے
کر دے اس کے دو ٹکڑے
لاالہ آگے پڑھ
آگے آپ بتا دیجے
میری جان بچا لیجے
آگے مجھے اگر آتا
تم سے میں کیوں پڑھواتا
سوچ نہ اب بیکار رحیمؔ
مار اس کو تلوار رحیم
دور ہوں اس کے سب دکھڑے
کر دے اس کے دو ٹکڑے
- raja-mehdi-ali-khan
شیخ صاحب کی نصیحت بھری باتوں کے لئے
کتنا رنگین جواب آپ کی انگڑائی ہے
کتنا رنگین جواب آپ کی انگڑائی ہے
- saghar-khayyami
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
- raza-naqvi-vahi
عورت کو چاہئے کہ عدالت کا رخ کرے
جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو
جب آدمی کو صرف خدا کا خیال ہو
- dilawar-figar
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب
بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
- ameerul-islam-hashmi
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
کہیں میں صوفے پہ بیٹھا کہیں چٹائی پر
کہیں ٹکایا گیا کھری چارپائی پر
کہیں سے نکلا کسی لعل کی پٹائی پر
کسی عزیز نے ٹرخا دیا مٹھائی پر
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
نہ کوئی شام مری اپنی شام ہوتی تھی
کہ میری شام تو بچوں کے نام ہوتی تھی
پہ جب کسی کی ممی ہم کلام ہوتی تھی
تو میرے علم کی ترکی تمام ہوتی تھی
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
جو چھوٹا بھائی بھی شاگرد کا کوئی ہوتا
تو وہ بھی آن کے میری ہی گود میں سوتا
بڑے کے پٹنے پہ چھوٹا جو پھوٹ کر روتا
میں شیروانی کے دھبوں کو دیر تک دھوتا
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
ہر اک قماش کے بچے پڑھا دیے میں نے
متاع علم کے نلکے لگا دیے میں نے
جو کھوٹے سکے تھے وہ بھی چلا دیے میں نے
جو اے ایس ایس تھے سی ایس ایس بنا دیے میں نے
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
نہ قدر داں نہ کوئی صاحب نظر پایا
نہ گھاٹ ہی کا رہا میں نہ کوئی گھر پایا
خطاب پایا تو سوکھا سڑا سا ''سر'' پایا
میں اپنی قوم کے بچے پڑھا کے بھر پایا
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
کہیں میں صوفے پہ بیٹھا کہیں چٹائی پر
کہیں ٹکایا گیا کھری چارپائی پر
کہیں سے نکلا کسی لعل کی پٹائی پر
کسی عزیز نے ٹرخا دیا مٹھائی پر
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
نہ کوئی شام مری اپنی شام ہوتی تھی
کہ میری شام تو بچوں کے نام ہوتی تھی
پہ جب کسی کی ممی ہم کلام ہوتی تھی
تو میرے علم کی ترکی تمام ہوتی تھی
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
جو چھوٹا بھائی بھی شاگرد کا کوئی ہوتا
تو وہ بھی آن کے میری ہی گود میں سوتا
بڑے کے پٹنے پہ چھوٹا جو پھوٹ کر روتا
میں شیروانی کے دھبوں کو دیر تک دھوتا
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
ہر اک قماش کے بچے پڑھا دیے میں نے
متاع علم کے نلکے لگا دیے میں نے
جو کھوٹے سکے تھے وہ بھی چلا دیے میں نے
جو اے ایس ایس تھے سی ایس ایس بنا دیے میں نے
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
نہ قدر داں نہ کوئی صاحب نظر پایا
نہ گھاٹ ہی کا رہا میں نہ کوئی گھر پایا
خطاب پایا تو سوکھا سڑا سا ''سر'' پایا
میں اپنی قوم کے بچے پڑھا کے بھر پایا
میں ٹیوٹر تھا میں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
- inayat-ali-khan
میرے دوست کے چار عدد جو بچے ہیں
عقل کے یوں تو چاروں ہی کچھ کچے ہیں
لیکن بعضی بات ایسی کہہ جاتے ہیں
اماں باوا حیرت میں رہ جاتے ہیں
اک دن بولے آ کر اپنے ابو سے
ہم میں سے دو کون سے والے ہیں اچھے
ان کو تو اسکول میں داخل کروا دیں
دو کو واپس اللہ کے گھر پہنچا دیں
بلکہ چاروں ہی کو واپس کروا دیں
اور امی کو بہبودگی میں لگوا دیں
گھر میں جب دو دو تنخواہیں آئیں گی
آپ کی جیبیں نوٹوں سے بھر جائیں گی
امی کا بھی موڈ اچھا ہو جائے گا
ٹی وی کا بھی دل ٹھنڈا ہو جائے گا
عقل کے یوں تو چاروں ہی کچھ کچے ہیں
لیکن بعضی بات ایسی کہہ جاتے ہیں
اماں باوا حیرت میں رہ جاتے ہیں
اک دن بولے آ کر اپنے ابو سے
ہم میں سے دو کون سے والے ہیں اچھے
ان کو تو اسکول میں داخل کروا دیں
دو کو واپس اللہ کے گھر پہنچا دیں
بلکہ چاروں ہی کو واپس کروا دیں
اور امی کو بہبودگی میں لگوا دیں
گھر میں جب دو دو تنخواہیں آئیں گی
آپ کی جیبیں نوٹوں سے بھر جائیں گی
امی کا بھی موڈ اچھا ہو جائے گا
ٹی وی کا بھی دل ٹھنڈا ہو جائے گا
- inayat-ali-khan
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
کچھ ہوتا رہے گا یوں ہی ہر سال ندارد
تبت کبھی غائب کبھی نیپال ندارد
رومال جو ملتے تھے تو تھی رال ندارد
اب رال ٹپکتی ہے تو رومال ندارد
تحقیق کیا ان کا جو شجرہ تو یہ پایا
کچھ یوں ہی سی ننھیال ہے ددھیال ندارد
ہے اس بت کافر کا شباب اپنا بڑھاپا
ماضی ہے ادھر گول ادھر حال ندارد
تعداد میں ہیں عورتیں مردوں سے زیادہ
قوالیاں موجود ہیں قوال ندارد
بیوی کی بھی جوتی کے تلے ہو گئے غائب
شوہر کے اگر سر سے ہوئے بال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
کچھ ہوتا رہے گا یوں ہی ہر سال ندارد
تبت کبھی غائب کبھی نیپال ندارد
رومال جو ملتے تھے تو تھی رال ندارد
اب رال ٹپکتی ہے تو رومال ندارد
تحقیق کیا ان کا جو شجرہ تو یہ پایا
کچھ یوں ہی سی ننھیال ہے ددھیال ندارد
ہے اس بت کافر کا شباب اپنا بڑھاپا
ماضی ہے ادھر گول ادھر حال ندارد
تعداد میں ہیں عورتیں مردوں سے زیادہ
قوالیاں موجود ہیں قوال ندارد
بیوی کی بھی جوتی کے تلے ہو گئے غائب
شوہر کے اگر سر سے ہوئے بال ندارد
- machis-lakhnavi
''دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی''
اک غزل میں نے بھی کہی ہے ابھی
چھوڑ دوں میں ابھی وزارت کیوں
اک تجوری فقط بھری ہے ابھی
چور ڈاکو پہنچ گئے پہلے
جبکہ بستی نہیں بسی ہے ابھی
بینک سے لی تھی لیز پر گاڑی
بیچ کر قسط اک بھری ہے ابھی
چھوڑ سکتی نہیں ابھی وہ مجھے
ایک کوٹھی مری بچی ہے ابھی
جاگ جائے گی قوم بھی اک دن
''غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی''
اک غزل میں نے بھی کہی ہے ابھی
چھوڑ دوں میں ابھی وزارت کیوں
اک تجوری فقط بھری ہے ابھی
چور ڈاکو پہنچ گئے پہلے
جبکہ بستی نہیں بسی ہے ابھی
بینک سے لی تھی لیز پر گاڑی
بیچ کر قسط اک بھری ہے ابھی
چھوڑ سکتی نہیں ابھی وہ مجھے
ایک کوٹھی مری بچی ہے ابھی
جاگ جائے گی قوم بھی اک دن
''غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی''
- amjad-ali-raja
مرا پڑوسی کوئی مال دار تھوڑی ہے
یہ کار بینک کی ہے اس کی کار تھوڑی ہے
ہر ایک ملک میں جائیں گے کھائیں گے جوتے
کہ بزدلوں میں ہمارا شمار تھوڑی ہے
خدا کا شکر ہے چکر کئی سے ہیں اپنے
بس ایک بیوی پہ دار و مدار تھوڑی ہے
گلے میں ڈال کے باہیں سڑک پہ گھومیں گے
ہے نقد عشق ہمارا ادھار تھوڑی ہے
ہمارا پیار جو قاضی نکاح تک پہونچے
ہمارے بیچ کوئی اتنا پیار تھوڑی ہے''
جو فون بند رکھوں کال نہ اٹھاؤں میں
کسی کے باپ کا مجھ پہ ادھار تھوڑی ہے
یہ کار بینک کی ہے اس کی کار تھوڑی ہے
ہر ایک ملک میں جائیں گے کھائیں گے جوتے
کہ بزدلوں میں ہمارا شمار تھوڑی ہے
خدا کا شکر ہے چکر کئی سے ہیں اپنے
بس ایک بیوی پہ دار و مدار تھوڑی ہے
گلے میں ڈال کے باہیں سڑک پہ گھومیں گے
ہے نقد عشق ہمارا ادھار تھوڑی ہے
ہمارا پیار جو قاضی نکاح تک پہونچے
ہمارے بیچ کوئی اتنا پیار تھوڑی ہے''
جو فون بند رکھوں کال نہ اٹھاؤں میں
کسی کے باپ کا مجھ پہ ادھار تھوڑی ہے
- ahmad-alvi
صدر صاحب چار ماہ دو روز کی رخصت میں ہیں
اور بظاہر وہ پشاور میں ابھی فرصت میں ہیں
ان کو لیلیٰ کی صدارت کی جدائی کا ہے غم
گھر سے باہر کیسے نکلیں وہ ابھی عدت میں ہیں
اور بظاہر وہ پشاور میں ابھی فرصت میں ہیں
ان کو لیلیٰ کی صدارت کی جدائی کا ہے غم
گھر سے باہر کیسے نکلیں وہ ابھی عدت میں ہیں
- zia-ul-haq-qasmi
کسمسانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ایک رقاص نے گا گا کے سنائی یہ خبر
ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے اندیشۂ فردا کی جوئیں جھڑتی ہیں
سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے تجدید تمنا کی ہوا آتی ہے
دم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
یہ شریعت کا نہیں گیس کا بل ہے بیگم
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
ایک رقاص نے گا گا کے سنائی یہ خبر
ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے اندیشۂ فردا کی جوئیں جھڑتی ہیں
سر کھجانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس سے تجدید تمنا کی ہوا آتی ہے
دم ہلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
اس کے رخسار پہ ہے اور ترے ہونٹ پہ تل
تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
یہ شریعت کا نہیں گیس کا بل ہے بیگم
بلبلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی
- inayat-ali-khan
پروفیسر ہی جب آتے ہوں ہفتہ وار کالج میں
تو اونچا کیوں نہ ہو تعلیم کا معیار کالج میں
تو اونچا کیوں نہ ہو تعلیم کا معیار کالج میں
- inam-ul-haq-javed
مری مجبوریوں نے نازکی کا خون کر ڈالا
ہر اک گوبھی بدن کو گل بدن لکھنا پڑا مجھ کو
ہر اک گوبھی بدن کو گل بدن لکھنا پڑا مجھ کو
- ameerul-islam-hashmi
جب پڑھا جور و جفا میں نے تو آئی یہ صدا
ٹھیک سے پڑھ اسے جورو ہے جفا سے پہلے
ٹھیک سے پڑھ اسے جورو ہے جفا سے پہلے
- ameerul-islam-hashmi
ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن
ایک دو تین چار حد کر دی
ایک دو تین چار حد کر دی
- dilawar-figar
مرد ہونی چاہیے خاتون ہونا چاہیے
اب گرامر کا یہی قانون ہونا چاہیے
رات کو بچے پڑھائی کی اذیت سے بچے
ان کو ٹی وی کا بہت ممنون ہونا چاہیے
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے
نرسری کا داخلہ بھی سرسری مت جانئے
آپ کے بچے کو افلاطون ہونا چاہیے
صرف محنت کیا ہے انورؔ کامیابی کے لئے
کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہیے
اب گرامر کا یہی قانون ہونا چاہیے
رات کو بچے پڑھائی کی اذیت سے بچے
ان کو ٹی وی کا بہت ممنون ہونا چاہیے
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے
نرسری کا داخلہ بھی سرسری مت جانئے
آپ کے بچے کو افلاطون ہونا چاہیے
صرف محنت کیا ہے انورؔ کامیابی کے لئے
کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہیے
- anwar-masood
شش جہت نہ فلک آئیں گے نظر دو بٹا تین
چھ بٹا نو کے برابر ہے اگر دو بٹا تین
دو کھلونے جو کبھی ہم نے تپائی پہ دھرے
آ گئے صاف مہندس کو نظر دو بٹا تین
طالب خیر نہ ہوں گے کبھی انسان سے ہم
نام اس کا ہے بشر اس میں ہے شر دو بٹا تین
منحصر قوت بازو پہ ہے دولت مندی
دیکھ لو زور میں موجود ہے زر دو بٹا تین
ملک الموت سے دنیا میں ہراساں نہیں کون
جس کو کہتے ہیں نڈر اس میں ہے ڈر دو بٹا تین
بیسویں رات مہینے کی جب آ جاتی ہے
غم میں رہ جاتا ہے گھل گھل کے قمر دو بٹا تین
ظالمو خوف کرو آہ کو سمجھو نہ حقیر
لفظ اللہ میں ہے اس کا اثر دو بٹا تین
کھوٹی منزل کئے دیتی ہے تری یاد ندیم
راہ رو کا ابھی باقی ہے سفر دو بٹا تین
دو بٹا تین کی رکھی ہے جو اے جوشؔ ردیف
شعر بھی نکلے ہیں مقبول نظر دو بٹا تین
چھ بٹا نو کے برابر ہے اگر دو بٹا تین
دو کھلونے جو کبھی ہم نے تپائی پہ دھرے
آ گئے صاف مہندس کو نظر دو بٹا تین
طالب خیر نہ ہوں گے کبھی انسان سے ہم
نام اس کا ہے بشر اس میں ہے شر دو بٹا تین
منحصر قوت بازو پہ ہے دولت مندی
دیکھ لو زور میں موجود ہے زر دو بٹا تین
ملک الموت سے دنیا میں ہراساں نہیں کون
جس کو کہتے ہیں نڈر اس میں ہے ڈر دو بٹا تین
بیسویں رات مہینے کی جب آ جاتی ہے
غم میں رہ جاتا ہے گھل گھل کے قمر دو بٹا تین
ظالمو خوف کرو آہ کو سمجھو نہ حقیر
لفظ اللہ میں ہے اس کا اثر دو بٹا تین
کھوٹی منزل کئے دیتی ہے تری یاد ندیم
راہ رو کا ابھی باقی ہے سفر دو بٹا تین
دو بٹا تین کی رکھی ہے جو اے جوشؔ ردیف
شعر بھی نکلے ہیں مقبول نظر دو بٹا تین
- josh-malsiani
مثال آئینہ یارو نکھر گیا کل شب
عجیب سانحہ دل پہ گزر گیا کل شب
بساط دشت پہ یوں چاندنی تھی رقص کناں
کہ جیسے چاند کا ہر زخم بھر گیا کل شب
سیاہ رات کا وہ راہب چراغ بکف
سنو وہ کرمک شب تاب بھر گیا کل شب
کچھ اتنا چہرہ بھیانک تھا خواب میں اس کا
کہ اپنے آپ سے پاشاؔ بھی ڈر گیا کل شب
عجیب سانحہ دل پہ گزر گیا کل شب
بساط دشت پہ یوں چاندنی تھی رقص کناں
کہ جیسے چاند کا ہر زخم بھر گیا کل شب
سیاہ رات کا وہ راہب چراغ بکف
سنو وہ کرمک شب تاب بھر گیا کل شب
کچھ اتنا چہرہ بھیانک تھا خواب میں اس کا
کہ اپنے آپ سے پاشاؔ بھی ڈر گیا کل شب
- pasha-rahman
محشر میں گئے شیخ تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
- machis-lakhnavi