مخمس شاعری

شاعری میں فن کا اشاعت

مخمس شاعری کی فنونی دنیا میں دھکیلیں، جہاں ہر پنکتی ایک جذبات اور خوبصورتی کی ایک کرسور شان سے ہے۔ اس کالکشن میں ہر پنکتی ایک چہری اموٹنس اور خوبصورتی کا ویووز بناتی ہے جو مخمس شاعری کی واجبات کا تجسس کرانے کے لیے دعوت دیتی ہے۔

گزرے وہ جھلاتے ہوئے جھمکا مرے آگے
لاکٹ کبھی کنگن کبھی چھلا مرے آگے
رہتا ہے ہمیشہ ہی یہ خطرہ مرے آگے
لڑکی مرے آگے ہے کہ لڑکا مرے آگے


ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
بدلی ہیں یہاں آج محبت کی وہ رسمیں
شیریں نہ رہی اب کسی فرہاد کے بس میں
سوہنی کے لگے تیر مہینوال کی نس میں


کھاتی ہے یہاں ہیر کسی اور کی قسمیں
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
سنتے ہو اجی کہتی تھی حوا کی یہ دختر
وہ طرز تخاطب تھا یہ چاہت کا سمندر


اب دور مساوات ہے دونوں ہیں برابر
شوہر کو پکارے ہے وہ اب نام ہی لے کر
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
رکھنا تھا محبت کو چھپا دل کی کلی میں


وعدہ تھا نبھانے کا بری اور بھلی میں
کھجلی ہوئی شاید ترے پیروں کی تلی میں
پکڑی جو گئی آج رقیبوں کی گلی میں
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے


ابا جو ترے عشق کی روداد سمجھتے
مجنوں کا یقیناً ہمیں ہم زاد سمجھتے
اور غیب سے بھیجی ہوئی امداد سمجھتے
سینے سے لگاتے ہمیں داماد سمجھتے


کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے

- shaukat-jamal


کنجشک و درنا تازہ دم لالہ کنول اور نسترن
وہ بلبل و طاؤس و گل وہ کوکب اور وہ یاسمن
گل ہائے صد رنگیں قبا مرغان صد شیریں دہن
''گلشن کہو تم یا چمن ہے اہل دل کی انجمن


صد بلبل شوریدہ سر صد لالۂ خونیں کفن''
وہ باغ یک مینو صفت گنجینۂ سرو و سمن
مسحور کن وہ چہچہے صد فخر داؤدی لحن
ہے عنبریں جس کی فضا مشک ختن جس کی پون


''اس باغ میں آتی ہے اک محبوبۂ گل پیرہن
شیریں نوا شیریں ادا شیریں سخن شیریں دہن''
وہ ہے علاج درد دل دل کی مگر ہلچل بھی ہے
وہ آشنائے غم بھی ہے لیکن بہت چنچل بھی ہے


وہ جلوۂ ماہ مبیں وہ نازنیں سانول بھی ہے
''وہ گل بھی ہے سورج بھی ہے بجلی بھی ہے بادل بھی ہے
دیکھا نہ تھا پہلے کبھی ایسا حسیں بانکا سجن''
ایسے وہ آیا ماہ رو اوسان سب کے آ لئے


نوک اور پلک اب شعر کی کیا دیکھیے کیا بھالیے
عش عش کے اس طوفان کو آخر کہاں تک ٹالیے
''پیکر کو اس کے شعر کے پیکر میں کیونکر ڈھالیے
خاموش ہیں حیران ہیں سب شہریاران سخن''


بلبل سی وہ نغمہ کناں مسکان غنچہ کی چٹک
تیور وہ بجلی کی لپک لعلیں وہ عارض کی دھنک
زلفوں میں عنبر کی مہک آنکھوں میں تاروں کی دمک
''پیشانیٔ سیمیں ہے یا صبح تخیل کی چمک


شائستگیٔ فکر و فن اس کے تبسم کی کرن''
وہ حسن سا پایندہ ہے وہ ماہ سا رخشندہ ہے
بے حد ہی وہ بخشندہ ہے اور سب سے ہی زیبندہ ہے
جو دیکھ لے فرخندہ ہے چاہے جو اس کو زندہ ہے


''حور و پری شرمندہ ہے وہ اس قدر تابندہ ہے
دیکھے سے نکھرے رنگ رخ چھونے سے میلا ہو بدن''
چاہو بہت سنتے رہو اس زندگی کے ساز کو
دل میں ہی بس رکھو مگر تم انس کے اس راز کو


جو کچھ بھی ہو تم چھونا مت اس پیکر انداز کو
''بس دور سے دیکھا کرو اس شمع بزم ناز کو
وہ رونق کاشانۂ دل حیرت صد انجمن''
باتوں میں اس کی ہے عیاں واضح یہ مبہم کون ہے


سوچوں میں اس کی دم بہ دم موجود پیہم کون ہے
تنہائی کے اس دشت میں یہ اس کا ہمدم کون ہے
''آؤ چلیں دیکھیں ذرا وہ جان عالم کون ہے
سردارؔ کے شعروں میں ہے زلف معنبر کی شکن''


- ain-seen


علاج ہجر ذرا اور کرکے دیکھتے ہیں
نظارے ہم کسی رشک قمر کے دیکھتے ہیں
خمار دید سے ہم بھی سنور کے دیکھتے ہیں
''سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں


سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں''
ہمیں کسک سی جو لاحق ہے چند سالوں سے
نجات پانے کو جاتے ہیں ان ملالوں سے
ہلاک ہوتے ہیں اس کی نگہ کے بھالوں سے


''سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں
سبو مزاج ہے صد چشم نغمہ ساز اس کی
وہ بے نیاز نگہ ہے سخن طراز اس کی


دل شقی سے تو اچھی ہے ساز باز اس کی
''سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں''
غزل سنانے کا اس کو ہمیں ملا ہے شرف


سخن میں ہم نے بنایا جو اس کو اپنا ہدف
تو اٹھ بھی سکتی ہے اس کی نظر ہماری طرف
''سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں''


وہ مسکرائے تو رخ پر گڑھے سے پڑتے ہیں
لبوں کو چھوتے ہیں الفاظ تو سنورتے ہیں
جو لمس پاتے ہیں ہونٹوں کا تو نکھرتے ہیں
''سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں


یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں''
وہی تو ہے جسے ہر ایک چاند کہتا ہے
وہ جس کے نور میں سورج کرن سا بہتا ہے
وہ جس کے ہجر کو سورج بھی چھپ کے سہتا ہے


''سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں''
کہ اس کی زلف پہ تو بدلیاں کھل آتی ہیں
اسی کی دید پہ یہ قمریاں بھی گاتی ہیں


اسی کے نور میں تو بجلیاں نہاتی ہیں
''سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں''
بہت حسین ہیں اس کی خیال سی آنکھیں


وفور بادہ سے رنگیں گلال سی آنکھیں
جو ان میں جھانک کے دیکھو تو ڈھال سی آنکھیں
''سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں''


کہ رسمسا کے ثناگر ہیں کونپلیں اس کی
سنا ہے کیف کا محور ہیں محفلیں اس کی
سنا ہے شوق سے برتر ہیں منزلیں اس کی
''سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اس کی


سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں''
سنا ہے غنچہ دہن سر صد ملاحت ہے
سنا ہے جان غزل سربسر صباحت ہے
سنا ہے اس کی عجب رستخیز قامت ہے


''سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں''
جو مسکرائے تو یاقوت لب بہلتے ہیں
سنا ہے اس کے تبسم سے دل پگھلتے ہیں


عقیق ہونٹوں پہ جب قہقہے مچلتے ہیں
''سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں''
ہے بات اور ہی اور ہر ادا حسیں اس کی


صبا کے دوش پہ وہ زلف عنبریں اس کی
کہ دل پہ قہر ہیں باتیں وہ دل نشیں اس کی
''سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں''


کہ دیکھتے جو ہیں خود کو وہ اس کے درپن میں
ہوئے ہیں اتنے وہ مسحور اس کی بن ٹھن میں
وہ خود کو بھول کے کھوئے ہیں اک نئے پن میں
''سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں


مزاج اور ہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں''
سنا ہے لمس کو پانے کے اس کے ارماں میں
وفور کیف کے افسوں میں شوق جاناں میں
اسی خیال میں کھو کر کبھی شبستاں میں


''سنا ہے چشم تصور سے دشت امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں''
غرور حسن کے پھولوں کی ایسی تیسی ہے
گو خوشبو ان کی بھی بالکل اسی کے جیسی ہے


پر ان کی آن یہاں پاش پاش کیسی ہے
''سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں''
نظیر کوئی بھی اس کا سر بلاد نہیں


کوئی بھی حسن میں اس حسن سے زیاد نہیں
نہیں جو دیکھ کے اس کو کوئی جو شاد نہیں
''وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں''


عجیب چیز ہے جلوہ جمال کامل کا
ہٹے کبھی کہ جو پردہ ہے اس کے محمل کا
خیال پھر نہیں رہتا ہے کوئی منزل کا
''بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا


سو رہروان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں''
سنا ہے اس کے شبستاں سے منفعل ہے بہشت
سنا ہے اس کے شبستاں سے مضمحل ہے بہشت
سنا ہے اس کے شبستاں سے مندمل ہے بہشت


''سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں''
چلے تو گردشیں سب اعتراف کرتی ہیں
چلے تو راستہ اس کا وہ صاف کرتی ہیں


چلے تو اس کے سلیقے کا لاف کرتی ہیں
''رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں''
خیال و خواب کی اک انجمن اسے دیکھے


اور اس طرح کہ بہ دیوانہ پن اسے دیکھے
کبھی دریچہ سے گزری پون اسے دیکھے
''کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں''


عجب جنوں کے یہ اپنے معالجے ہی سہی
دل غریب کے اپنے مغالطے ہی سہی
یہ بالک ہٹ کے سبب کے مطالبے ہی سہی
''کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی


اگر وہ خواب ہے تعبیر کرکے دیکھتے ہیں''
اسی کے کوچہ میں رہ لیں کہ در بدر جائیں
اسی کے در پہ ہی بیٹھیں یا اپنے گھر جائیں
اب اس کے شہر کو چھوڑیں یا اس میں مر جائیں


''اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں''

- ain-seen


نہ قید شرع باقی ہے نہ آزادی کی ہے کچھ حد
نہیں کچھ گفتگو اس باب میں یہ نیک ہے یا بد
بزرگوں کا بھی فتویٰ ہے کہ پڑھ قانون سر سید
بہ می سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید


کہ سالک بے خبر نہ بود ز راہ و رسم منزلہا

-


گھستے گھستے پانو میں زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا کاش کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
کھنچ کے قاتل جب تری شمشیر آدھی رہ گئی


غم سے جان عاشق دلگیر آدھی رہ گئی
بیٹھ رہتا لے کے چشم پر نم اس کے رو برو
کیوں کہا تو نے کہ کہہ دل کا غم اس کے رو برو
بات کرنے میں نکلتا ہے دم اس کے رو برو


کہہ سکے ساری حقیقت ہم نہ اس کے رو برو
ہم نشیں آدھی ہوئی تقریر آدھی رہ گئی
تو نے دیکھا مجھ پہ کیسی بن گئی اے راز دار
خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار


مثل زخم آنکھوں کو سی دیتا جو ہوتا ہوشیار
کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویر یار
جاگ اٹھا میں کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی
غم نے جب گھیرا تو چاہا ہم نے یوں اے دلنواز


مستی چشم سیہ سے چل کے ہو ویں چارہ ساز
تو صداے پا سے جاگا تھا جو محو خواب ناز
دیکھتے ہی اے ستمگر تیری چشم نیم باز
کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر آدھی رہ گئی


اس بت مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات
جس کے حسن روز افزوں کی یہ اک ادنی ہے بات
ماہ نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات
اس رخ روشن کے آگے ماہ یک ہفتہ کی رات


تابش خرشید پر تنویر آدھی رہ گئی
تا مجھے پہنچائے کاہش بخت بد ہے گھات میں
ہاں فراوانی اگر کچھ ہے تو ہے آفات میں
جز غم و رنج و الم گھاٹا ہے ہر یک بات میں


کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں
آتے ہی خاصیت اکسیر آدھی رہ گئی
سب سے یہ گوشہ کنارے ہے گلے لگ جا مرے
آدمی کو کیوں پکارے ہے گلے لگ جا مرے


سر سے گر چادر اتارے ہے گلے لگ جا مرے
مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے گلے لگ جا مرے
وصل کی شب اے بت بے پیر آدھی رہ گئی
میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھر گئے


پر نصیب اپنا انھیں جاتا سنا جوں پھر گئے
دیکھنا قسمت وہ آئے اور پھر یوں پھر گئے
آکے آدھی دور میرے گھر سے وہ کیوں پھر گئے
کیا کشش میں دل کی اب تاثیر آدھی رہ گئی


ناگہاں یاد آگئی ہے مجھ کو یارب کب کی بات
کچھ نہیں کہتا کسی سے سن رہا ہوں سب کی بات
کس لیے تجھ سے چھپاؤں ہاں وہ پرسوں شب کی بات
نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات


خط میں آدھی ہو سکی تحریر آدھی رہ گئی
ہو تجلی برق کی صورت میں ہے یہ بھی غضب
ہاں چھ گھنٹے کی تو ہوتی فرصت عیش و طرب
شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب


پاس میرے وہ جو آئے بھی تو بعد از نصف شب
نکلی آدھی حسرت تقریر آدھی رہ گئی
تم جو فرماتے ہو دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر
ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے گیا کیوں اس کے گھر


جان کی پاؤں اماں باتیں یہ سب سچ ہیں مگر
دل نے کی ساری خرابی لے گیا مجھ کو ظفر
واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی

-