نظم شاعری
ادبی اظہار میں دلچسپی لینا
شاعری کی محسور کن دنیا میں گوم ہوں، جہاں ہر پنکتی ایک منفرد کہانی کہتی ہے اور مختلف جذبات اور تاثرات کو سنوارتی ہے۔ پیداوار کے سنگ و سراب میں، نظم شاعری آدمی کے تجربات کی مشقوتل زندگی کی حقایق کو بنا دیتی ہے، جس نے شاعری کی لذت پیدا کی ہے۔
نظر پڑتی ہے جس پر بھی درخشاں دیکھتا ہوں میں
فضاؤں میں خوشی کا رقص عریاں دیکھتا ہوں میں
وطن کو اس گھڑی فرحت بداماں دیکھتا ہوں میں
علاج تنگیٔ دامان یاراں چاہتا ہوں میں
نفاق کفر و ایماں کو گریزاں چاہتا ہوں میں
منور سینہ ہو جائے فروغ شمع الفت سے
دل اہل وطن کو بھی فروزاں چاہتا ہوں میں
اندھیرا گھر میں ہو باہر اجالا ہو تو کیا حاصل
وطن والو دلوں میں بھی اجالا چاہتا ہوں میں
- abdul-qayyum-zaki-aurangabadi
مجھے تم غور سے دیکھو
مری آنکھوں میں جھانکو تم
مری زلفوں سے الجھو تم
تقاضے روح کے اپنے
تقاضے جسم کے اپنے
کرو پورے اجازت ہے
مگر تم کو اجازت یہ
فقط خوابوں کی حد تک ہے
- abdul-mannan-samadi
دھوپ میں سب کے چہرے کالے
کیسی گرمی کیسی دھوپ
سب نے بدلا اپنا روپ
تھوڑی دیر ٹھہر کر چلنا
ٹھنڈا پانی منہ پر ملنا
سر پر اپنے کپڑا رکھنا
رکھشا لے کر آگے بڑھنا
گرمی سے بے حال ہوئے ہیں
سوکھے سارے تال ہوئے ہیں
پیٹ کا ایندھن یوں نہ بھرنا
ایسے ویسے کام نہ کرنا
نام خدا کا ہر دم لینا
اس کی قدرت روزی دینا
رکشے والے رکشے والے
دھوپ میں سب کے چہرے کالے
- abdul-mannan-samadi
تو یہ سوچتا ہوں
کہ کیوں سبز آنکھیں
تمہاری مجھے دیکھتی ہیں
اگر ہو سکے تو انہیں یہ
بتا دو
کہ محرم نہیں ہوں
میں ان کے لیے
- abdul-mannan-samadi
نگاہیں تک رہی ہیں
کیوں
مجھے کیوں دیر سے سب کی
اسی میں
سوچ میں گم تھا
اچانک پھر
کسی نے کان میں
آ کر
کہا دھیرے سے
یہ مجھ سے
ارے منانؔ
عینک
کہیں گم ہو گئی
کیا
- abdul-mannan-samadi
یعنی سب کی آنکھ کا تارا میرا چھوٹا بھائی ہے
بندر بن کر بھالو بن کر
سب کو ناچ دکھاتا ہے
گلی گلی کا اک اک بچہ
اس کا ساتھ نبھاتا ہے
آنگن آنگن شور مچا کر
دل سب کا بہلاتا ہے
بالنگ کرنا سیکھ گیا ہے
بیٹنگ کرنا سیکھ گیا ہے
چوکے چھکے مار رہا ہے
جیت رہا ہے ہار رہا ہے
اس کی صبح ہے اس کی شام
گھر گھر جانا اس کا کام
گھر والوں کی جان ہے وہ
خود اپنی پہچان ہے وہ
ننھا منا پیارا پیارا میرا چھوٹا بھائی ہے
یعنی سب کی آنکھ کا تارا میرا چھوٹا بھائی ہے
- abdul-mannan-samadi
کیا میں گڑیا دکھائی دیتی ہوں
میرا اپنا وجود کوئی نہیں
میری گویائی میری بینائی
صرف دھوکہ نظر کا دھوکہ ہے
بھر گیا دل تو طاق میں رکھ کر
بھول جاتے ہو تم
کہ میں کیا ہوں
- abdul-mannan-samadi
کہ میرے بے سبب
ہنسنے کی آخر وجہ کیا ہے
جانتے ہو تم
کہ دیوانہ نہیں ہوں میں
مگر پھر بھی کبھی غمگیں نہیں ہوتا
اداسی میرے چہرے سے
کبھی ظاہر نہیں ہوتی
میں خود حیران ہوں
کیا ہے
بلا ہے
یا خدا کا معجزہ ہے
- abdul-mannan-samadi
جو اکثر مجھ سے ملتی ہے
جس کا کہ نورانی چہرہ
جس کی نیلی نیلی آنکھیں
تم سے ملتی جلتی ہیں
سوچ رہا ہوں
تم سے پوچھوں
کون ہے وہ
تم یا اور کوئی
- abdul-mannan-samadi
تمہیں دیکھا نہیں ہے
ایک مدت سے
مگر میں پوچھتا ہوں
اپنے دل سے
چھلک اٹھتی ہیں کیوں آنکھیں
تمہاری یاد آتے ہی
- abdul-mannan-samadi
زندگی تیری ضیا
روشنی یا سائباں
آسمانوں سی ردا
زندگی اک شور ہے
خامشی بھی اک صدا
بندگی بھی تشنگی
کس قدر دل کش ادا
یہ جہاں تسخیر کر لے
وہ جہاں ہے ماورا
- ahmar-sahaab
صداقت سے اپنے وطن کو سجاؤ
تمہارے لیے نعمتیں ہیں جہاں کی
چلو ساتھ مل کے نصیب آزماؤ
خودی بھی تمہاری خدا بھی تمہارا
خدا کے لیے جان پر کھیل جاؤ
تمہیں رحمتوں کا سہارا ملے گا
محبت سے محنت کا جادو جگاؤ
پھر آواز افلاس کی آ رہی ہے
بڑھو اپنی دھرتی پہ سونا اگاؤ
خیالات کو ایک مرکز پہ لاؤ
اٹھو نوجوانو وطن کو بچاؤ
یہ امن و اماں کے طلب گار بندے
یہ مزدور بندے یہ جی دار بندے
یہ صابر یہ شاکر یہ ذاکر یہ زاہد
یہ دین الہٰی کے معمار بندے
ابھی رو رہے تھے ابھی ہنس رہے ہیں
یہ مجبور بندے یہ مختار بندے
نگاہوں میں اپنے سمائے ہوئے ہیں
فریب نظر میں گرفتار بندے
گلستاں میں ہیں جو گلوں کے محافظ
انہیں آج ان کی حقیقت بتاؤ
گئے وقت کا آئینہ بھی دکھاؤ
اٹھو نوجوانو وطن کو بچاؤ
محبت میں نفرت سے بچ کر چلیں گے
کدورت مٹے گی تو ساغر چلیں گے
زبردست ہیں زیر دستوں پہ حاوی
کہ تیغوں کے سائے میں خنجر چلیں گے
محبت کو بھی حرف آخر نہ سمجھو
محبت سے آگے بھی سوز سخن ہے
جہنم کے شعلے بھڑکنے سے پہلے
صدا آ رہی ہے کہ تن کو بچاؤ
خرابے سے صحن چمن کو بچاؤ
اٹھو نوجوانو وطن کو بچاؤ
ادھر انقلابی تقدس بڑھے گا
ادھر چاند تاروں کے چکر چلیں گے
اجالے میں ہر کھیل کھیلو خوشی سے
اندھیرے سے پہلے مگر چل چلیں گے
در مے کدہ بند ہونے نہ دینا
اگر توڑ سکتے نہیں ٹوٹ جاؤ
پھر اپنے خدا کو سہارا بناؤ
اٹھو نوجوانو وطن کو بچاؤ
یہی پاک دھرتی ہمارا وطن ہے
اسی کی ترقی ہماری لگن ہے
جیالے جوانوں کی دانشوروں کی
یہی انجمن ہے یہی انجمن ہے
شجاعت کے قصے کہاں تک سناؤں
جوانی کی خوشبو چمن در چمن ہے
- abul-fitrat-meer-zaidi
ہر ایک باوفا ملا
جسے تھا پاس دوستی
وہی اٹھا بڑھا ملا
نشست جس کی دور تھی
قریب آ گیا ملا
پشاور آنے کا مجھے
سہی جو لطف تھا ملا
ہنسی ملی خوشی ملی
خودی ملی خدا ملا
رقیب تھا کھچا کھچا
حبیب تھا گھلا ملا
نظر نظر ادا ادا
میں دیکھتا چلا گیا
گلوں میں زندگی ملی
چمن میں دل کشی ملی
خوشی گلے لگی ملی
ملی ہنسی خوشی ملی
چمن چمن روش روش
بہار حسن کی ملی
کہیں بناوٹیں ملیں
کہیں پہ سادگی ملی
کہیں پہ ظلمتیں ملیں
کہیں پہ روشنی ملی
نظر کسی نگاہ سے
کبھی ہٹی کبھی ملی
نہ تھا کوئی جو ٹوکتا
میں دیکھتا چلا گیا
ہر ایک سمت خان ہیں
شکیل ہیں جوان ہیں
نہ نون ہیں نہ نان ہیں
یہ سب کے سب پٹھان ہیں
جہاد ان کی شان ہے
جہاد کی یہ شان ہیں
یہ غازیوں کے ہیں پسر
مجاہدوں کی جان ہیں
یہ سب خدا پرست ہیں
خودی کے ترجمان ہیں
بڑی بڑی حویلیاں
بڑے بڑے نشان ہیں
نظارہ ہائے دل ربا
میں دیکھتا چلا گیا
عجیب چیز ہے یہاں
حسین رات کا سماں
نگاہ جس طرف کرو
چمک رہی ہیں بجلیاں
حسین لوگ چار سو
سڑک پہ ہیں رواں دواں
عمارتوں کے سامنے
جھکا ہوا ہے آسماں
کہ دیکھنے کی چیز ہیں
ادھر ادھر یہاں وہاں
سکٹریوں کی موٹریں
کمشنروں کی کوٹھیاں
بہار تھی نکھار تھا
میں دیکھتا چلا گیا
یہ خوش لباس لڑکیاں
حسیں حسیں جواں جواں
حصول علم کے لیے
قدم قدم رواں دواں
خوشی سے دل مہک اٹھے
نظر پڑی جہاں جہاں
کھلی ہوئی کتاب میں
شرافتوں کی داستاں
حقیقتیں سمٹ گئیں
ٹھہر کے دم لیا جہاں
شراب کی مثال ہیں
شباب کی یہ سرخیاں
یہ انقلاب کی ادا
میں دیکھتا چلا گیا
حکیم بھی ہیں پیر بھی
امیر بھی کبیر بھی
اسمبلی میں جلوہ گر
بڑے بڑے وزیر بھی
کہ جن کے ووٹروں میں ہیں
اقیل بھی کثیر بھی
انہیں کے دم سے آج ہے
یہ شہر بے نظیر بھی
ہمارے لیڈروں میں ہیں
شہیر بھی بصیر بھی
مقیم اس مقام پر
ہیں ایک دو سفیر بھی
یوںہی بس اتفاق تھا
میں دیکھتا چلا گیا
غریب لوگ با وفا
امین غیرت و حیا
دھنی ہیں اپنی بات کے
نہیں ہے خوف جان کا
مسرتوں کی بات کر
مصیبتوں کا ذکر کیا
کبھی جو وقت آ پڑا
برا بھلا گزر گیا
دہی قدیم بات ہے
نہ کچھ گھٹا نہ کچھ بڑھا
کہ شکر جن کی شان ہے
شکایتوں سے ان کو کیا
پھٹا ہوا لباس تھا
میں دیکھتا چلا گیا
یہ شاعروں کی بزم ہے
کہ عرصہ گاہ رزم ہے
طرح طرح کی بولیاں
الگ الگ ہیں ٹولیاں
سخن میں کوئی فرد ہے
کسی کا رنگ زرد ہے
ہیں ان میں شہسوار بھی
بزرگ با وقار بھی
سبھی میں یہ کمال ہے
ہر اک جگہ یہ حال ہے
مریض ہو کہ ہو مرض
مجھے کسی سے کیا غرض
مشاعرہ ضرور تھا
میں دیکھتا چلا گیا
- abul-fitrat-meer-zaidi
محبت دین فطرت کی زباں ہے
محبت جذبۂ صدق و یقیں ہے
محبت ہی محبت کی امیں ہے
محبت طالب حسن و جوانی
محبت پھول کانٹوں کی کہانی
محبت شاہد وحدانیت ہے
محبت جذبۂ انسانیت ہے
محبت حرف شیریں کی امانت
محبت جذبۂ دل کی صداقت
محبت جسم بھی ہے جان بھی ہے
محبت فطرت انسان بھی ہے
کہا جس کو فرشتوں نے عبادت
محبت ہے محبت ہے محبت
محبت دشمن رہبانیت ہے
محبت کلمۂ انسانیت ہے
محبت رہنمائے آدمی ہے
محبت سوز و ساز زندگی ہے
محبت عشق کا طوفان بھی ہے
محبت حسن کا ایمان بھی ہے
محبت فلسفہ ہے دوستی کا
محبت میں سبق ہے زندگی کا
محبت فاتح و مفتوح بھی ہے
محبت حامد و ممدوح بھی ہے
محبت ہے یقین کامرانی
محبت دار کی بھی ہے کہانی
محبت دین و دنیا کی طلب ہے
محبت فکر ہے علم و ادب ہے
محبت طرز بھی انداز بھی ہے
محبت ساز بھی آواز بھی ہے
محبت جاں نثاروں کی خوشی ہے
محبت حسن کی زندہ دلی ہے
محبت کا نہیں ہے ایک پہلو
محبت پر نہ پایا دل نے قابو
محبت نغمۂ روز ازل ہے
محبت قاضیٔ شہر عمل ہے
محبت درد ہے دیوانگی ہے
محبت فرض ہے مردانگی ہے
محبت امتحان زندگی ہے
محبت دیوتا کی مورتی ہے
محبت رحمتوں کی داستاں ہے
محبت مرد مومن کی اذاں ہے
محبت رونق دنیا و دیں ہے
محبت چاند سورج کی زمیں ہے
محبت گل بھی ہے اور گلستاں بھی
محبت خارزاروں کی زباں بھی
محبت دعوت رنج و الم بھی
محبت ہے نوید فکر و غم بھی
محبت ولولوں کی انتہا بھی
بڑھاپے میں جوانی کی صدا بھی
محبت ہی خوشی کا راستہ ہے
محبت ہی میں دنیا کا بھلا ہے
محبت قصۂ جام و سبو ہے
محبت زندگی کی جستجو ہے
محبت آدم و حوا نے کی ہے
محبت روح کی پاکیزگی ہے
محبت چین ہے صبر و سکوں ہے
محبت راحت اہل جنوں ہے
محبت سے ہے رونق محفلوں کی
محبت کب خطا ہے تھڑ دلوں کی
محبت ہر سلیقے کا نشاں ہے
محبت ہر نفس کی داستاں ہے
محبت معنیٔ حسن سخن ہے
محبت اللہ والوں کا چلن ہے
محبت صاحب علم الیقیں بھی
محبت روح بھی روح الامیں بھی
محبت عشق ہے ضرب خودی ہے
محبت ذوالفقار حیدری ہے
محبت بھید کھولے آرزو کے
محبت زندگی کے غم سمیٹے
محبت نفسیاتی الجھنوں سے
ورق الٹے صداقت کے جنوں کے
محبت ہے علاج ضبط انساں
محبت امتحان ضبط انساں
محبت کی الگ سب سے ہے بولی
محبت کی گرہ فطرت نے کھولی
محبت صاحب فکر و نظر ہے
محبت میں رقابت کا بھی ڈر ہے
محبت دو جہاں میں سرخ رو بھی
محبت گل محبت رنگ و بو بھی
محبت ماہتابوں سے بنی ہے
محبت انقلابوں سے بنی ہے
محبت کا نشہ ہے سب سے بہتر
محبت پارۂ تسنیم و کوثر
محبت شعلہ ہے شعلہ نما ہے
محبت ہی حقیقت میں خدا ہے
- abul-fitrat-meer-zaidi
صحرا میں گلزار کو دیکھا
مجبوروں کے پیٹ کو دیکھا
قائد اعظم گیٹ کو دیکھا
کیا سمجھے کیا جانے دیکھا
سب کو سینہ تانے دیکھا
شلواروں سے عاری دیکھا
تہ بندوں کو جاری دیکھا
کلیوں کو شرماتے دیکھا
کھل کر ڈھولا گاتے دیکھا
ہوٹل والے عرش پہ دیکھے
ہوٹل سارے فرش پہ دیکھے
گاہک اور بیوپاری دیکھے
دبلے دیکھے بھاری دیکھے
صاف اور پھیلے پھیلے دیکھے
کپڑے میلے میلے دیکھے
لڑکے چھیل چھبیلے دیکھے
ہر سو ریت کے ٹیلے دیکھے
ٹوٹے پھوٹے نالے دیکھے
مخلص تانگے والے دیکھے
بستی رستی بستی دیکھی
ملکوں کی بھی ہستی دیکھی
گلی گلی دل افزا دیکھی
تھل والوں کی دنیا دیکھی
مزدوروں کی محفل دیکھی
دور سے کپڑے کی مل دیکھی
بیگم دیکھی باندی دیکھی
دھن والوں کی چاندی دیکھی
دولت عزت والی دیکھی
جیب غریب کی خالی دیکھی
رحم کے طالب بندے دیکھے
زرداروں کے پھندے دیکھے
علم و ادب کے پالے دیکھے
شہرت کے متوالے دیکھے
شاعر شعر سناتے دیکھے
سامع سردی کھاتے دیکھے
دل بڑھتے دل گھٹتے دیکھے
مرغ بٹیرے بٹتے دیکھے
حال میں دونگڑا پڑتے دیکھے
بھوکے شیر کو لڑتے دیکھے
اک تصویر نرالی دیکھی
دانے بھوننے والی دیکھی
شعلہ دیکھا شبنم دیکھی
پھولوں میں خوشبو کم دیکھی
دنیا آنکھیں ملتے دیکھی
وقت کی چکی چلتے دیکھی
ناسوروں کو رستے دیکھا
انسانوں کو پستے دیکھا
کچھ شطرنج کی بازی دیکھی
کچھ مہمان نوازی دیکھی
ایک طرف انسان کو دیکھا
شیخ کو دیکھا خان کو دیکھا
پیاروں کے انداز کو دیکھا
صوفی جی کے ناز کو دیکھا
ایک ادائے خاص کو دیکھا
لوگوں کے اخلاص کو دیکھا
شیر افضل کی شان کو دیکھا
مومن کے ایمان کو دیکھا
عدمؔ نے چھپ کر ساقی دیکھا
ہم نے سب کچھ باقی دیکھا
- abul-fitrat-meer-zaidi
(رومیؔ)
پھر اک دن ایسا آئے گا
آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے
ہاتھوں کے کنول کمھلائیں گے
اور برگ زباں سے نطق و صدا
کی ہر تتلی اڑ جائے گی
اک کالے سمندر کی تہ میں
کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی
پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی
ساری شکلیں کھو جائیں گی
خوں کی گردش دل کی دھڑکن
سب راگنیاں سو جائیں گی
اور نیلی فضا کی مخمل پر
ہنستی ہوئی ہیرے کی یہ کنی
یہ میری جنت میری زمیں
اس کی صبحیں اس کی شامیں
بے جانے ہوئے بے سمجھے ہوئے
اک مشت غبار انساں پر
شبنم کی طرح رو جائیں گی
ہر چیز بھلا دی جائے گی
یادوں کے حسیں بت خانے سے
ہر چیز اٹھا دی جائے گی
پھر کوئی نہیں یہ پوچھے گا
سردارؔ کہاں ہے محفل میں
لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا
جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں
اور کونپلیں اپنی انگلی سے
مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی
میں پتی پتی کلی کلی
اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا
سر سبز ہتھیلی پر لے کر
شبنم کے قطرے تولوں گا
میں رنگ حنا آہنگ غزل
انداز سخن بن جاؤں گا
رخسار عروس نو کی طرح
ہر آنچل سے چھن جاؤں گا
جاڑوں کی ہوائیں دامن میں
جب فصل خزاں کو لائیں گی
رہ رو کے جواں قدموں کے تلے
سوکھے ہوئے پتوں سے میرے
ہنسنے کی صدائیں آئیں گی
دھرتی کی سنہری سب ندیاں
آکاش کی نیلی سب جھیلیں
ہستی سے مری بھر جائیں گی
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ مرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردارؔ یہاں
ہر معشوقہ سلطانہؔ ہے
میں ایک گریزاں لمحہ ہوں
ایام کے افسوں خانے میں
میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں
مصروف سفر جو رہتا ہے
ماضی کی صراحی کے دل سے
مستقبل کے پیمانے میں
میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں
اور جاگ کے پھر سو جاتا ہوں
صدیوں کا پرانا کھیل ہوں میں
میں مر کے امر ہو جاتا ہوں
- richard-j.-cohen
پینے آئے ٹھنڈی کافی
اک دو پیکٹ بسکٹ کھائے
ٹھونس گئے دو درجن ٹافی
آلو چھولے کھا کر بولے
برفی ایک کلو ہے کافی
امی جی کی بات نہ مانی
ابو سے کی وعدہ خلافی
پیٹ ہوا آپے سے باہر
سہما کر سب نا انصافی
ایسا کھٹکا پیٹ کا مٹکا
اللہ معافی اللہ معافی
- ahmad-hatib-siddiqi
دودھ پئیں نہ انڈے کھائیں
پھل ترکاری ایک نہ بھائے
غصے میں بس ہونٹ چبائیں
دیکھ کے دستر خوان پہ مچھلی
پاؤں پٹختے بھاگے جائیں
چاول روٹی گوشت کی بوٹی
دیکھیں تو نخرے دکھلائیں
دن کا ہو یا رات کا کھانا
روئیں پیٹیں شور مچائیں
دبلے پتلے روکھے سوکھے
بات کرو تو لڑنے آئیں
اتنے ہلکے پھلکے سے ہیں
فین چلے تو اڑ ہی جائیں
- ahmad-hatib-siddiqi
چوزہ اٹھ کر پڑھتا ہے
چوں چوں چوں چوں
چوں چوں چوں چوں
پہلے بسم اللہ کہوں
پھر میں اپنا سبق پڑھوں
صبح سویرے اٹھتے ہی
اپنے رب کو یاد کروں
کھانے پینے سے پہلے
چونچ رگڑ کر صاف کروں
اتنا تو ہے یاد مجھے
امی آگے کیا سیکھوں
مرغی کٹ کٹ کرتی ہے
خوش ہو کر یوں کہتی ہے
میرا چو چو شاد رہے
شاد رہے آباد رہے
پڑھنے ہی سے عزت ہے
بات یہ بیٹا یاد رہے
جاہل لوگ زمانے میں
خوار ہوئے برباد رہے
سیکھیں اور سکھائیں جو
بن کر وہ استاد رہے
بس تو بھی محنت سے پڑھ
سب لوگوں سے آگے بڑھ
- ahmad-hatib-siddiqi
ہنسی کی ہلکی پھوار بھی ہو تو کام چل جائے آدمی کا
مزاح کی گر ذرا بھی حس ہے ہنسی کو اور قہقہے کو چھوڑو
چمن میں گر پھول مسکرا دے تو دل بہل جائے آدمی کا
مصیبتوں کا مقابلہ جو ہمیشہ ہنستے ہوئے کرے گا
جو وقت مشکل میں آنے والا تو وہ بھی ٹل جائے آدمی کا
کسی کو گرنے سے ٹوکنا مت درشت لہجے میں یاد رکھو
تبسم آمیز ہو نصیحت قدم سنبھل جائے آدمی کا
زمانہ اچھا گزر گیا تو یہ دن برے بھی نہیں رہیں گے
نہ ہو اگر یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
گناہ گاروں اور عاصیوں کو عذاب دوزخ سے واعظو تم
ڈراؤ بے شک مگر نہ اتنا کہ دل دہل جائے آدمی کا
عبادتوں کے معاوضے میں ملے گی جو عابدوں کو جنت
تم اس کا نقشہ کچھ ایسا کھینچو کہ دل پھسل جائے آدمی کا
نزع سے پہلے کرے جو توبہ وہ اپنی رحمت سے بخش دے گا
عجب نہیں ہے کہ مرتے مرتے بھی دل بدل جائے آدمی کا
یہ دور میک اپ کا آ گیا ہے وہ حسن سادہ کہاں ملے اب
کہ جس کی بس اک جھلک کو دیکھے تو دل مچل جائے آدمی کا
فضائے مسموم میں سانس لے کر کوئی جیا بھی تو کیا کرے گا
ضعیف ہونے سے قبل ہی جب شباب ڈھل جائے آدمی کا
نہ اتنی آسان شاعری ہو کہ جس کا مفہوم ہی نہ نکلے
نہ اتنی مشکل کہ جس کو سن کر ذہن پگھل جائے آدمی کا
یہ زندگی ؔخواہ مخواہ اتنی عذاب جاں اور طویل بھی ہے
اگر نہ ہوں محفلیں ہنسی کی تو دم نکل جائے آدمی کا
- ghaus-khah-makhah-hyderabadi
کوئی کیوں کر حریف علم و فن ہے ہم نہیں سمجھے
کسی بھی شمع سے بے زار کیوں ہو کوئی پروانہ
یہ کیا اس دور کا دیوانہ پن ہے ہم نہیں سمجھے
بہت سمجھے تھے ہم اس دور کی فرقہ پرستی کو
زباں بھی آج شیخ و برہمن ہے ہم نہیں سمجھے
اگر اردو پہ بھی الزام ہے باہر سے آنے کا
تو پھر ہندوستاں کس کا وطن ہے ہم نہیں سمجھے
چمن کا حسن تو ہر رنگ کے پھولوں سے ہے راشدؔ
کوئی بھی پھول کیوں ننگ چمن ہے ہم نہیں سمجھے
- rashid-banarasi
سر خوشی کا ایک لمحہ یا خوشی کا ایک دن
کر دیا ہے شورش عالم نے دیوانہ مجھے
ہے بساط دہر وحشت ناک ویرانہ مجھے
اک نئی دنیا کی خلقت ہے مری تخئیل میں
جو معاون ہو سکے انسان کی تکمیل میں
اہتمام زندگی جس میں بطور خاص ہو
آسماں جس کا محبت ہو زمیں اخلاص ہو
کرشن کی آج یاد رفتہ محفل زندہ کرو
برج و گوکل کی بجھی شمعوں کو تابندہ کرو
خشکیٔ گنگ و جمن کی آبیاری کے لئے
دعوتیں دو گوپیوں کو رنگ باری کے لئے
از سر نو پھر مرتب ہو جہان رنگ و بو
خار و خس سے پھر ہو پیدا کارخانے رنگ و بو
پریم رس سے لاؤ بھر کر خوش نما پچکاریاں
ہوں نئی دامان ہستی پر لطافت باریاں
روح کی آواز ہم آئیں گے ساز و چنگ ہو
جو پڑے انساں پہ وہ انسانیت کا رنگ ہو
چاہتا ہوں یوں ہو رنگیں پیرہن اور ساریاں
شست و شو سے بھی نہ زائل ہو سکیں گل کاریاں
جسم کی صورت رہے دل بھی مسرت میں شریک
روح آزادی بھی ہو جائے حقیقت میں شریک
چاہتا ہوں گلشن کہنہ پر آ جائے شباب
تنکا تنکا پھول ہو اور پتا پتا آفتاب
تازگی وجہ شگفت خاطر عالم رہے
میری دنیا میں ہمیشہ ایک ہی موسم رہے
شاعر و صناع ہو فکر و خلش سے بے نیاز
خواجہ و مزدور میں باقی نہ ہو کچھ امتیاز
ارتقا کے رنگ سے لبریز جھولی ہو میری
انقلاب ایسا کوئی ہو لے تو ہولی ہو میری
- seemab-akbarabadi
کہ روٹھے ملتے ہیں آپس میں یار ہولی میں
مچی ہے رنگ کی کیسی بہار ہولی میں
ہوا ہے زور چمن آشکار ہولی میں
عجب یہ ہند کی دیکھی بہار ہولی میں
اب اس مہینے میں پہنچی ہے یاں تلک یہ چال
فلک کا جامہ پہن سرخیٔ شفق سے لال
بنا کے چاند کے سورج کے آسماں پر تھال
فرشتے کھیلیں ہیں ہولی بنا عبیر و گلال
تو آدمی کا بھلا کیا شمار ہولی میں
سنا کے ہولی جو زہرہ بجاتی ہے طبنور
تو اس کے راگ سے بارہ بروج ہیں معمور
چھوؤں ستاروں کے اوپر پڑا ہے رنگ کا نور
سبھوں کے سر پہ یہ ہر دم پکارتی ہے حور
جو گھر کے ابر کبھی اس مزے میں آتا ہے
تو بادلوں میں وہ کیا کیا ہی رنگ لاتا ہے
خوشی سے رعد بھی ڈھولک کی گت لگاتا ہے
ہوا کو ہولیاں گا گا کے کیا نچاتا ہے
تمام رنگ سے پر ہے بہار ہولی میں
چمن میں دیکھو تو دن رات ہولی رہتی ہے
شراب ناب کی گلشن میں نہر بہتی ہے
نسیم پیار سے غنچے کا ہاتھ گہتی ہے
تو باغبان سے بلبل کھڑی یہ کہتی ہے
نہ چھیڑ مجھ کو تو اے بد شعار ہولی میں
گلوں نے پہنے ہیں کیا کیا ہی جوڑے رنگ برنگ
کہ جیسے لڑکے یہ معشوق پہنتے ہیں تنگ
ہوا سے پتوں کے بجتے ہیں تال اور مردنگ
تمام باغ میں کھیلیں ہیں ہولی گل کے سنگ
عجب طرح کی مچی ہے بہار ہولی میں
امیر جتنے ہیں سب اپنے گھر میں ہیں خوش حال
قبائیں پہنے ہوئے تنگ تنگ گل کی مثال
بنا کے گہری طرح حوض مل کے سب فی الحال
مچائے ہولیاں آپس میں لے عبیر و گلال
بنے ہیں رنگ سے رنگیں نگار ہولی میں
یہ سیر ہولی کی ہم نے تو برج میں دیکھی
کہیں نہ ہووے گی اس لطف کی میاں ہولی
کوئی تو ڈوبا ہے دامن سے لے کے تا چولی
کوئی تو مرلی بجاتا ہے کہہ کنہیا جی
ہے دھوم دھام پہ بے اختیار ہولی میں
گھروں سے سانوری اور گوریاں نکل چلیاں
کسنبی اوڑھنی اور مست کرتی اچھلیاں
جدھر کو دیکھیں ادھر مچ رہی ہیں رنگ رلیاں
تمام برج کی پریوں سے بھر رہیں گلیاں
مزا ہے سیر ہے در ہر کنار ہولی میں
جو کچھ کہانی ہے ابلا بہت پیا ماری
چلی ہے اپنے پیا پاس لے کے پچکاری
گلال دیکھ کے پھر چھاتی کھول دی ساری
پیا کی چھاتی سے لگتی وہ چاؤ کی ماری
نہ تاب دل کو رہی نے قرار ہولی میں
جو کوئی سیانی ہے ان میں تو کوئی ہے نا کند
وہ شور بور تھی سب رنگ سے نپٹ یک چند
کوئی دلاتی ہے ساتھن کو یار کی سوگند
کہ اب تو جامہ و انگیا کے ٹولے ہیں سب بند
پھر آ کے کھلیں گے ہو کر دو چار ہولی میں
نظیرؔ ہولی کا موسم جو جگ میں آتا ہے
وہ ایسا کون ہے ہولی نہیں مناتا ہے
کوئی تو رنگ چھڑکتا ہے کوئی گاتا ہے
جو خالی رہتا ہے وہ دیکھنے کو جاتا ہے
جو عیش چاہو سو ملتا ہے یار ہولی میں
- nazeer-akbarabadi
ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے جب سکھ ساگر چھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جگ جگ سے ہم سب مرمر کے جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
دولت کے لئے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کچلا جائے گا غیرت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
بیتیں گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بیکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائے جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں میں بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انساں نہ جلائے جائیں گے
سینے کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا جب سورگ بتائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
- sahir-ludhianvi
کبھی جوتا نہیں ملتا
کئی رنگوں کے موزے ہیں مگر اچھے نہیں لگتے
ادھڑتی جا رہی ہے شرٹ جیون کی طرح
گردن سے لے کر آستینوں تک
بچھڑنے سے ذرا پہلے
جو طارق روڈ سے ہم نے خریدی تھی
تمھارے بعد کیفیت بدلتی جا رہی ہے رکھ رکھاؤ کی
پتا چلتا نہیں کچھ دن گزرنے کا نہ موسم کے بدلنے کا
تمھارے ہاتھ سے لکھے ہوئے خط پڑھتا رہتا ہوں
لفافے پر خود اپنا نام لکھ کر پوسٹ کر دیتا ہوں دوبارہ
اور اس کے بعد دن بھر ڈاکئے کی راہ تکتا ہوں
- tuaqeer-chughtai