قصیدہ شاعری

ایستادگی اور جوانت

قصیدہ شاعری کی دلفریب دنیا میں غوطہ لیں، جہاں ہر پنکتی اعیانیت، جوانت، اور عمیق خوبصورتی کا عکاسی کرتی ہے۔ ایک شاعری شجرہ کا حیرت انگیز چمکدار چمک اور متن سے پر متعجب کے سیلسلے کا کھمک بناتی ہے جو قصیدہ شاعری کی حقیقت کی طے میں مدد کرے گی۔

ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغاے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زنار تسبیح سلیمانی
ہنر پیدا کر اول ترک کیجو تب لباس اپنا
نہ ہو جوں تیغ بے جوہر وگرنہ ننگ عریانی


فراہم زر کا کرنا باعث اندوہ دل ہووے
نہیں کچھ جمع سے غنچے کو حاصل حز پریشانی
خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہل دولت کی
نہ جھاڑے آستین کہکشاں شاہوں کی پیشانی


عروج دست ہمت کو نہیں کچھ قدر بیش و کم
سدا خورشید کی جگ پر مساوی ہے زرا فشانی
کرے ہے کلفت ایام ضائع قدر مردوں کی
ہوئی جب تیغ زنگ آلود کم جاتی ہے پہچانی


اکیلا ہو کے رہ دنیا میں گر جینا بہت چاہے
ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی
اذیت وصل میں دونی جدائی سے ہے عاشق کو
بہت رہتا ہے نالاں فصل گل میں مرغ بستانی


موقر جان ارباب ہنر کو بے لباسی میں
کہ ہو جو تیغ با جوہر اسے عزت ہے عریانی
بہ رنگ کوہ رہ خاموش حرف نا سزا سن کر
کہ تابدگو صداے غیب سے کھینچے پشیمانی


نہیں غیر از ہوا کوئی ترقی بخش آتش کا
نفس جب تک ہے داغ دل سے فرصت کیوں کے ہو پانی
یہ روشن ہے بہ رنگ شمع ربط یاد و آتش سے
موافق گر نہ ہو وے دوست ہے وہ دشمن جانی


کرے ہے دہر زینت ظالموں پر تیرہ روزی کو
کہ زیب ترک چشم یار سرمہ ہے صفا ہائی
طلوع مہر ہو پامال حیرت آسماں اوپر
لکھوں بہر غزل گر اس زمیں میں مطلع ثانی


مطلع ثانی
عجب ناداں ہیں وہ جن کو ہے عجب تاج سلطانی
فلک بال ہما کو پل میں سونپے ہے مگس رانی
نہیں معلوم ان نے خاک میں کیا کیا ملا دیکھا


کہ چشم نقش پا سے تا عدم نکلی نہ حیرانی
ہماری آہ تیرا دل نہ نرماوے تو یا قسمت
وگرنہ دیکھ آئینے کو پتھر ہوگئے پانی
تری زلفوں سے اپنی روسیا ہی کہ نہیں سکتا


کہ ہے جمعیت خاطر مجھے ان کی پریشانی
زمانے میں نہیں کھلتا ہے کار بستہ حیراں ہوں
گرہ غنچوں کی کھولے ہے صبا کیوں کر بہ آسانی
جنوں کے ہاتھ سے سرتا قدم کاہیدہ اتنا ہوں


کہ اعضا دیدۂ زنجیر کی کرتے ہیں مژگانی
نہ رکھا جگ میں رسم دوستی اندوہ روزی نے
مگر زانو سے اب باقی رہا ہے ربط پیشانی
سیہ بختی میں اے سوداؔ نہیں طول سخن لازم


نمط خامے کے سر کٹوائے گی ایسی زباں دانی
سمجھ اے تا قباحت فہم کب تک یہ بیاں ہوگا
اداے چین پیشانی و لطف زلف طولانی
نہیں ہے ان سے ہرگز فائدہ غیر از پشیمانی


نظر رکھنے سے حاصل ان کی چشم و زلف کے اوپر
مگر بیمار ہووے ضعف یا کھینچے پریشانی
نکال اس کفر کو دل سے کہ اب وہ وقت آیا ہے
برہمن کو صنم کرتا ہے تکلیف مسلمانی


زہے دین محدم پیروی میں اس کی جو ہوویں
رہے خاک قدم سے ان کی چشم عرش نورانی
ملک سجدہ نہ کرتے آدم خاکی کو گر اس کی
امانت دار نور احمدیؐ ہوتی نہ پیشانی


اسی کو آدم و حوا کی خلقت سے کیا پیدا
مراد الفاظ سے معنی ہے تا آیات قرآنی
خیال خلق گر اس کا شفیع کافراں ہووے
رکھیں بخشش کے سر منت یہودی اور نصرانی


زباں پر اس کی گزرے حرف جس جا گہہ شفاعت کا
کرے واں ناز آمرزش پہ ہریک فاسق و زانی
رکھا جب سے قدم مسند پہ آ ان نے شریعت کی
کرے ہے موج بحر معدلت تب سے یہ طغیانی


اگر نقصان پر خس کے شرر کا ٹک ارادہ ہو
کرے کو آگ کے دو ہیں کرے غرق آن کر پانی
موافق گر نہ کرتا عدل اس کا آب و آتش کو
تو کوئی سنگ سے بندھتی تھی شکل لعل رمانی


یہ کیا انصاف ہے یارب کہ طیر و وحش تک جگ میں
اس امن و عیش سے اپنی بسر اوقات لے جانی
پلے ہے آشیاں میں باز کے بچہ کبوتر کا
شباں نے گرگ کو گلے کی سونپی ہے نگہ بانی


ہما آسا ہے پرداز ملخ اوج سعادت پر
کرے ہے مور چڑھ کر سینہ دد پر سلیمانی
کھلے ہیں غنچہ گل باغ میں خاطر سے بلبل کی
جو اب اوراق جمعیت کو ہوتی ہے پریشانی


جہاں انصاف سے ہر گاہ اب معمور ہے اتنا
تو اس کے آگے ہوگی عدل کی کیا کچھ فراوانی
ہزار افسوس اے دل ہم نہ تھے اس وقت دنیا میں
وگرنہ کرتے یہ آنکھیں جمال اس کے سے نورانی


نہ ہونے سے جدا سایے کے اس قامت سے پیدا ہے
قیامت ہوئے گا دلچسپ وہ محبوب سبحانی
جسے یہ صورت و سیرت کرامت حق نے کی ہووے
بجا ہے کہیے ایسے کو اگر اب یوسف ثانی


معاذ اللہ یہ کیا لفظ بے موقع ہوا سرزد
جو اس کو پھر کہوں تو ہوؤں مردود مسلمانی
کدھر اب فہم ناقص لے گیا مجھ کو نہ یہ سمجھا
کہ وہ مہر الوہیت ہے یہ ہے ماہ کنعانی


جو صورت اس کی ہے لاریب ہے وہ صورت ایزد
جو معنی اس میں ہیں بے شک وہ ہیں معنی ربانی
حدیث من رآنی دال ہے اس گفتگو اوپر
کہ دیکھا جن نے اس کو ان نے دیکھی شکل یزدانی


غرض مشکل ہمیں ہوتی کہ پیدا کرکے ایسے کو
خدا گریہ نہ فرماتا نہیں کوئی مرا ثانی
بس آگے مت چل اے سوداؔ میں دیکھا فہم کو تیرے
کر استغفار اب اس منہ سے ویسے کی ثنا خوانی


-


ہوا کیے ہیں زبس شکوۂ فلک تحریر
سیہ ہے کاغذ مشقی کے رنگ لوح ضمیر
کروں نہ شکر جفاہاے آسماں کیوں کر
مری خرابی میں ان نے نہ کی کبھو تقصیر


دیا ہزاروں کو دست ان نے خانہ سازی کا
دل شکستہ کو میرے کیا نہ ٹک تعمیر
جو میں نے چاہا کہ جلد اپنا کام کریے تمام
تو روسیاہ نے اس کام میں بھی کی تاخیر


سیا تھا چشم طمع کو میں اک سحر اس پر
سو جام خون دیا ان نے جاے کاسۂ شیر
دماغ رفتہ شگفتن سے آشنا نہ ہوا
کہ اس چمن میں رکھا ان نے غنچۂ دل گیر


در قبول سے نومید پہنچی میری دعا
پھرایا عرش سے نالے کو میرے بے تاثیر
نہ دیکھا صفحۂ عالم کو میں کہ ان نے رکھا
ہمیشہ اپنا ہی حیران کار جوں تصویر


براے یک لب ناں مجھ ضعیف کو ان نے
ہلال وار کیا سارے شہر میں تشہیر
فلک کے شکوے میں تھا میں کہ ہم نشیں بولا
کہ اے جوان ستم کشتۂ سپہر پیر


غزل نہ لطف کی اک تونے میرؔ صاحب کی
سنی نہ ہم نے کوئی آشیانہ سوز صفیر
یہ سن کے فکر نے کی مطلع غزل کی فکر
فلک نے صفحۂ کاغذ پہ جو کیا تحریر


غزل [مطلع ثانی]
ہماری یار سے صحبت ہو کس طرح درگیر
گرہ میں نالۂ آتش فشاں سو بے تاثیر
سمجھ کے زلف کے کوچہ میں پاؤں رکھیو نسیم


کہ نکلی ہے یہیں سے راہ خانۂ زنجیر
ہزار قافلے یوں مصر سے چلے لیکن
کیا نہ ایک نے کنعاں کی سمت کو شب گیر
کھلا نہ منھ پہ ہمارے کہ ہے زباں پر آہ


بہ رنگ خامۂ شنجرف خوں چکاں تقریر
جگر ہے رشک کی جا اس شکار کا تیرے
کہ صیدگاہ میں پہلے ہی آگیا سرتیر
جہاں میں اہل جہاں کو ہو کشمکش بن کیا


کہ ایک تنگ قفس اور جس میں اتنے اسیر
سفر ہے دور کا درپیش آ ٹک آئینہ رو
کہ زاد راہ عدم ہو نگاہ وقت اخیر
نہیں تو دیر محبت کی رسم سے آگاہ


کرے ہیں کعبے کے سکاں کی بھی یہاں تکفیر
تمام نالہ ہوں اس بن مگرکہ روز نخست
کیا تھا تن کا مرے سودۂ جگر سے خمیر
غزل کو سن کے کہا ہم نشیں نے تجھ سا شخص


بجا ہو خاک ہو گر پیش آستان وزیر
وہ آستانہ کہ گویا ہے راستوں کی جبیں
کرے ہے سجدہ جسے آن کر صغیر و کبیر
شرف ہے جس سے یہ اس آستاں کو کیسا ہے


وزیر کہیے کہ فرماں روا ہے کوئی امیر
غرض جلیس سے شب کو کہ غم شریک جو تھا
یہ سن کے اے گنہ آمرز اور عذرپذیر
مطلع ثالث


خلل پذیر ہوا ہے دماغ خامۂ میرؔ
کہ تیری مدح میں کھولا زباں کو کر تقصیر
تمام قدرت و آصف صفت سلیماں جاہ
سوار دولت و گنجینہ بخش و دشمن گیر


فلک شکوہ و ستارہ حشم خدیو جہاں
ترے جلال کو کن لفظوں میں کروں تعبیر
زہے یہ حشمت و جاہ و جلال و قدرت و زور
کہ تیرے حکم کے آگے ہے سہل امر خطیر


ترے محرر دفتر کا ہے سدا محتاج
جہاں میں شہرہ عطارد جو ہے فلک کا دبیر
زہے علوے مراتب کہ در پہ بار نہ پائے
ہزار بار اگر چرخ مارے چرخ اثیر


شریک مشورۂ کارخانۂ عالم
کیا ہے تجھ کو قضا و قدر ہیں تیرے مشیر
رواں ہو صبح کا گر مرکب ظفرپیکر
تو تابہ شام کرے روم و شام تک تسخیر


کف سخا کی تری ریزش کرم کے حضور
گیا ہے قطرہ زناں شرمگیں ہو ابر مطیر
ہمم کو تیری بیاں کیا کروں کہ اے ممدوح
ہوئے ہیں خلق ترے بخشنے کو تاج و سریر


کروں میں عرض سو کیا ہفت گنج خسرو کو
کہ تیرے بخش دیے کے نہیں ہیں عشر عشیر
لکھوں سو کیا ترے خدام کی سخاوت کو
نہ پاوے وقت دہش رتبۂ قلیل و کثیر


ثبات حرف کو تیرے قلم کی کیا لکھیے
کہے تو خامۂ فولاد سے کیا تحریر
برات روزی کسو کی شرف کو دستخط کے
پہنچتی ہے تو نہیں مٹتی جوں خط تقدیر


نہیں ہے شہر میں نام و نشان منہیات
رہی ہے نے کوئی جنگل میں سو براے حصیر
مزاج رفع پہ بدعت کے ہو تو پھر نہ اٹھے
صداے نے کا تو کیا ذکر ہے قلم کی صریر


نسق کو کام تو فرماوے ایک آن اگر
تو پھر زمانہ قیامت تلک نہ پاوے تغیر
گیا ہے شور ترے عدل کا جو گردوں تک
کتاں سے آنکھ جھپکتا رہے ہے بدر منیر


بغیر غمزۂ خوباں رہا نہیں اب ایک
جہاں کے پردے پہ اوباش خانہ جنگ و شریر
جو چاہے تو کہ رہے فرش چاندنی دن کو
اٹھا کے تہ کرے پردے ظلام کے شب قیر


کرے ہے قطع امید آپ سے ووہیں دشمن
سنے ہے مجھ سے تری جب کہ صولت شمشیر
جو نکلے میان سے تو نامۂ فنا کہیے
کہ پہنچے جس کو اسے مٹنے سے نہیں ہے گزیر


رہے تو زخم لگا اس کا بہ نہ ہووے مگر
فلک زمیں سے ملے تب ہو اندمال پذیر
نہیں ہے فیل کہ زربفت پوش کوہ ہے وہ
کروں شکوہ کو اس کے سو کس روش تسطیر


رواں رکاب میں ہے آسمان زر گویا
ستارے جھول کے ایک ایک آفتاب نظیر
کمیت خامہ مرے ہاتھ کی ہے ران تلے
صفت کروں میں سمند وزیر کی تحریر


کسو کی آنکھ نہ پڑ سکتی تھی چھلاوے میں
پھرے تھا سطح زمیں پر وہ یوں سپہرمسیر
نظر جو ایک مصور کی آگیا جاتے
یہ ان نے ریجھ کے چاہا کہ کھینچئے تصویر


خیال دور سے دوڑا کے رہ گیا آخر
ہوا نہ گرد میں گردا بھی اس کا شکل پذیر
سن اس قماش کی مدحت کو مت سمجھیو یہ
کہ ہے غرض خز و دیبا و پرنیان و حریر


غرض یہ ہے کہ تری خاک آستان زہے
کہ اس کے رتبے کو ہرگز نہ پہنچے پھر اکسیر
وہ آستاں کہ گدا و غنی کا ہے مسجود
بقیہ عمر کرے صرف اس پہ یہ بھی فقیر


ہمیشہ ساتھ ترے دوستوں کے ہو اقبال
ترے عدو کی سدا مدبری کرے تدبیر

-


اک شب کیا تھا یار تری زلف کا خیال
اب تک ہے دشمنی میں مری میرا بال بال
میں مر گیا فراق میں پر اب یہ کیا ہے ظلم
جیتی گڑی ہے ساتھ مرے حسرت وصال


جنبش ہوئی مژہ کو ادھر گر گئی سناں
ابرو ہلے ترے کہ ادھر کٹ گیا ہلال
آیا ہے یاد قیس بہت اب کہ ہوں بتنگ
اس کے بھلاوے مجھ کو نہیں چھوڑتے غزال


خوش وقت ٹک تو ہوں پہ کہیں کا نہیں ہوں پھر
آزردہ ہوئے مجھ سے اگر خاطر ملال
رنگ اڑ گیا تبھی کہ ہوا تجھ سے چہرہ گل
رکھے ہے اب نسیم کی سیلی سے منھ کو لال


دوزخ ہے میرے شرم گنہ کے عرق میں غرق
لیکن نہیں ہنوز مجھے ٹک بھی انفعال
خوش قامتی کو آہ کے کب پہنچتا ہے سرو
ہے یہ تو باغ رنگ شکستہ کا نونہال


حیرت بساہی جان کو اپنی تمام عمر
ٹک چشم آئینہ نے ترا دیکھ کر جمال
یک روز بے نقاب ہوا تھا تو صبح کو
اب تک ہے آفتاب جہاں تاب پر زوال


تھی سیر تیرے کوچے میں عشاق کی معاش
کتنے شکستہ دل تھے بہت تھے خراب حال
جتنے غرض تھے سب کو یقیں تھا کہ مرچکے
کوئی نہ تھا کہ جس کو ہو جینے کا احتمال


کب تک صفت بتوں کی خدا سے تو خوف کر
اے طبع رہ نہ اتنی بھی پابند خط و خال
پڑھ منقبت یہ شاہ کی جس سے نجات ہو
وہ شاہ جس کے ایک گدا کو ہے یہ کمال


بخشش سے جس کی حرف طلب محو ہوگیا
کم اس کے وقت میں ہے بہت نوبت سوال
ہے معن اس کے مطبخ عالی کا کاسہ لیس
دستارخواں کا اس کے ہے حاتم اک آشمال


آوے اگر عطا و کرم پر وہ ایک دم
خسرو کے ہفت گنج تو پھر کیا ہیں چیز مال
کہتا ہوں اب میں مطلع ثانی کہ ہوں بتنگ
وسعت رکھے ہے بس کہ یہ میدان قیل و قال


مطلع ثانی
اے نائب مصاحب دادار بے ہمال
وے مشورت شریک خداوند لایزال
تو ہے کہ تیرے عدل کی نظم و نسق کو سن


اٹھ جائے دفعتہ ہی مزاجوں سے اختلال
چاہے خدانخواستہ اس کا اگر تو رغم
تو منحرف مقام سے ہو خط اعتدال
شاہا ترا غلام ہو ایک اور اک طرف


سنگیں ہو فوج دشمن اگر کوہ کی مثال
تیر و کماں کو ہاتھ میں لے جب ہو سامنے
ہے اس کو اپنے زور شجاعت سے یہ کمال
جس دم کہ زور بازو سے آکر لگاوے تیر


پھوٹیں دوسار ہوویں اگر آہنیں جبال
چٹکی سے اس کی ہو کے جدا تیر پر لگائے
جو اس کے سامنے ہو اسے اڑ کے لاگے بھال
اٹکل سے جس کے سینے میں مارے ہو تیرتخش


منھ دیکھو مدعی جو رکھے اپنے تیں سنبھال
پشت عدو کی اور ہو پیکان یوں نمود
جیسے کہ سانپ بیٹھے ہے بانبی سے سر نکال
بالفرض اس پہ چوٹ کرے آکے مدعی


خالی دے اس کے وار کو دیوے زمیں پہ ڈال
اس جھوک ہی میں ہاتھ مع تیغ ٹوٹ جائے
گردن کٹادے مفت گرے بس کہ ہو نڈھال
سنتے تھے وہ مثل سو یہیں ہوتی ہے درست


دست شکستہ اپنی ہی گردن کا ہے وبال
جو کوہ آہنیں ہوں ترے مدعی شہا
تنہا ترا غلام لے تلوار اور ڈھال
دو ہاتھ ایسے گڑ کے کرے سب کو دے اکھاڑ


مارے زمیں پہ جس کو پکڑ کر کمر دوال
ٹھہرے ورے پرے تو نہایت غریب ہے
تحت الثریٰ سے گر نہ پرے جائے بدسگال
یوں دیکھ ایک دو کو کنارہ کرے شتاب


میدان کارزار سے رستم بہ رنگ زال
شیر فلک کو راہ بھلا دیوے وہ دھمک
اس زلزلے میں گاو زمیں سیکھ جائے چال
من بعد اور باقی رہیں جتنے کشتنی


کر جمع ان کو زور شجاعت سے پیل پال
تلوار لے پھرے وہ تو پھر جائے روزگار
نعرہ کرے تو تن سے کرے روح انتقال
اہل سلاح ترس سے گر گر پڑیں بہت


جتنوں کے ہو گلے میں زرہ ان کا ہو یہ حال
نعرے سے اس کے لیویں بہت یوں رہ گریز
بھاگے ہیں جیسے شیر کی آوازسے شغال
حصہ رسد کوئی ہو وہ رکھ جائے ایک تیغ


گذرے نہ ایک دم بھی کہ قضیہ ہے انفصال
زخم اس کے ہاتھ کا جو لگے بہ نہ ہو کبھی
مٹ جائے کائنات مگر تب ہو اندمال
تر ہوگئی ہے بس کہ لہو میں گل زمیں


گر خشک ہووے خاک کہیں بعد ماہ و سال
ہو پھر گذار باد صبا سے یہ واں کا رنگ
اڑتا ہے جیسے ہولی کے ایام میں گلال
میلان طبع مطلع ثالث کی اور ہے


تا خیر پر قصیدۂ غرا کا ہو مآل
مطلع ثالث
لائق تری صفت کے صفت میری ہے محال
آشفتہ طبع شاعر خستہ کی کیا مجال


تو وہ در مدینۂ علم علیم ہے
جس شخص کو نہ آوے الف بے تے دال ذال
آوے تری جناب مقدس میں ایک دم
کرتے ہیں واں تو وقف سبھی طرز کے مقال


عالم ہو اس قدر کہ بیاں کیا کرے کوئی
پھر بحث اس سے عقل فلاطون پر ہے دال
لیتے ہیں تیرے در سے گدا پوست تخت فقر
پاتے ہیں تیرے در سے شہا مکنت و جلال


جب تک جیوں میں دل میں مرے آرزو ہے یہ
ہوں سر سے تیرے زائر درگہ کا پائمال
پھر بعد مرگ حوض پہ کوثر کے یا علیؓ
جاگہ مری ہو حشر کی تیری صف نعال


جب ہوں میں گرم راہ ترے سائے میں شہا
ہوجائے سرد آتش دوزخ کی اشتعال
جب تک جیے گا محو ثنا ہی رہے گا میرؔ
ہے تیری منقبت سے نپٹ اس کو اشتغال


ہوئے حرام تیرے محبوں کو درد و غم
شمشیر دوستاں پہ ہو خون عدو حلال

-


غنچے ہو دل پر آتے ہیں اندوہ اب مدام
پہنچے ہے مجھ کو داغ گل جنگ صبح و شام
اے کج روش تو نامہ نہ لکھ بھیج مت پیام
قاصد کا میرے سیدھی طرح سے تو لے سلام


دل میں نہیں ہے قطرۂ خوں آنکھیں ہیں گی تر
خالی پڑا ہے شیشۂ مے بھر رہے ہیں جام
ناکامیوں سے کام رکھا میں تمام عمر
گو کام دل حصول نہ ہو مجھ کو کیا ہے کام


اے رشک ماہ عید نہ کر انتظارکش
مکھڑا دکھادے چاند سا ٹک آکے پشت بام
زنجیر پا ہے اس کی تری زلف غالباً
مدت ہوئی نسیم نہیں کرتی ابتسام


چلتا ہے تو تو جاتے ہیں کتنوں کے جی چلے
آ اب کسو کی مان لے موقوف کر خرام
آوارگی سے دل ہی کی آسودگی کو چھوڑ
ناموس عافیت کو اڑا کیسا ننگ و نام


گر جانتا مژہ کو تری تیغ کیں تو میں
دو چار جانیں اور بھی کر لاتا قرض و وام
رونے کا تار باندھ تفرج نہیں ہے خوب
ہے آنسوؤں کا سلک گہر کا سا انتظام


اک دم تری گلی میں گیا تھا میں سیر کو
لبریز بوے خوں سے ہے اب تک مرا مشام
صیاد نے اسیر کیا مجھ کو پر عبث
میں ٹک جیا نہ فرط تپیدن سے زیر دام


آنکھوں سے اس کی چشم وفا میرؔ ہے غلط
وحشی ہیں یہ غزال نہ ہوں گے کسی سے رام
چشم طمع کو سی لے ہما تو کہ جیتے جی
سرمہ ہوئے ہیں پس کے الم سے مرے عظام


اے طبع اتنی ہرزہ درائی جرس کی طرز
اس گفتگو کا فائدہ کہہ حاصل کلام
یعنی امیر شاہ نجف کی صفت پر آ
وہ شاہ جس پہ سارے کمالات ہیں تمام


وہ شاہ ہے کہ بعد نبیؐ کے وہی ہے پھر
وہ شاہ ہے کہ حق ہے وہی اولیں امام
گر چاہے دل گرفتہ جہاں میں نہ ہو کوئی
کر دے یہ تنگ غنچۂ پیکاں کو ابتسام


ورنہ شگفتگی یہ بلاے عظیم ہے
چھوڑے نہ زخم سینۂ عاشق تک التیام
مطلع ثانی
شاہا ترے گدا کا ہے مشہور احتشام


شاہان سرفراز ہیں سب اس کے پائے نام
ہو اسپ پر سوار کرے عزم جنگ اگر
میدان کارزار میں ادنیٰ ترا غلام
جو لاں کرے جدھر کو رہے اس طرف نہ خاک


اڑ جائے خاک ادھر کی جدھر کو پھرے لگام
پامال اس قدر ہوں کہ معلوم بھی نہ ہوں
افراسیاب کون ہے رستم ہے یاں کدام
شمشیر اس کی خرمن اعدا کی ہے جو برق


آوے جو اس کے ہاتھ میں یک لحظہ بے نیام
ہل جائے اور ٹک صف اعدا کی اور کو
بے سر ہیں پھر تو مدنظر تک بدن تمام
یہ بات میں کہوں ہوں نظر کرکے مایؤل


گر آسماں پہ جائے تہ خاک ہے مدام
شاہا ترے غلام کے حملے کی کس کو تاب
گو پہلواں ہزاروں لیے آئے اس پہ سام
وہ سام بن نریماں کہ اب تک جہاں کے بیچ


افسانے اس کے زور کے کرتے ہیں دھوم دھام
ایک ایک کو زمین میں دے گاڑ اس سمیت
تحت الثریٰ کو جائے مع اپنے ازدحام
طبقہ زمیں کا جائے اکھڑ اس کے زور سے


چنداں عجب نہیں کہ ہوا ہووے تیرہ فام
از بس اڑے ہے خاک جدھر دیکھوں تس طرف
جاتے ہیں کورچشم تماشائی ہو عوام
مطلع کروں ہوں اور بھی موزوں میں اس جگہ


تا ہو بہ خیر و خوبی قصیدے کا اختتام
مطلع ثالث
اے بعد فوت ختم رسلؐ صاحب اہتمام
وے اولیں امام و سزاوار احترام


از بس کہ تیرے نقش سے گم ہیں محرمات
رسام کھینچے خفت اگر چاہے ارتسام
عصفور کس شمار میں پر تیرے عدل سے
گنتی نہیں ہے باز شکاری کی اعتصام


تو ہے کہ تجھ کو ذات خدا سے ہے ربط خاص
تو ہے کہ ساری خلق پہ تیرا ہے فیض عام
تو ہے کہ تیرے مہر کے سائے میں روز حشر
محفوظ آفتاب قیامت سے ہوں انام


ہیں سہل تیرے خشم کے آگے خرابیاں
مشکل یہ ہے کہ ہووے فلک کا نہ انہدام
چاہے تو اعتدال زمانہ ٹک ایک اگر
ایک ہی ہوا ہے پھر تو جہاں میں علی الدوام


چاہے اگر تو یہ کہ نہ روپوش ہووے روز
تہ کرکے شب اٹھا ہی رکھے پردۂ ظلام
گرمی کرے تنک بھی اعانت تری تو پھر
آجائے پختگی پہ مرا یہ خیال خام


یعنی کہ دیکھوں حضرت دہلی کی جا نواح
معلوم ہے سواے ترے حاصل کلام
ہرگز نہ ہو حلال عدو پر ترے خوشی
ہووے تمام تیرے محبوں پہ غم حرام


-


کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام
فرمانرواے کشور پنجاب کو سلام
حق گوے و حق پرست و حق اندیش و حق شناس
نواب مستطاب امیر شہ احتشام


جم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وقت رزم
ترک فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں حسام
جس بزم میں کہ ہو انھیں آہنگ میکشی
واں آسمان شیشہ بنے آفتاب جام


چاہا تھا میں نے تم کو مہ چاردہ کہوں
دل نے کہا کہ یہ بھی ہے تیرا خیال خام
دو رات میں تمام ہے ہنگامہ ماہ کا
حضرت کا عز و جاہ رہے گا علی الدوام


سچ ہے تم آفتاب ہو جس کے فروغ سے
دریاے نور ہے فلک آبگینہ فام
میری سنو کہ آج تم اس سر زمین پر
حق کے تفضلات سے ہو مرجع انام


اخبار لودھیانہ میں میری نظر پڑی
تحریر ایک جس سے ہوا بندہ تلخ کام
ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے تحریر کو جگر
کاتب کی آستیں ہے مگر تیغ کا نیام


وہ فرد جس میں نام ہے میرا غلط لکھا
جب یاد آگئی ہے کلیجا لیا ہے تھام
سب صورتیں بدل گئیں ناگاہ یک قلم
لمبر رہا نہ نذر نہ خلعت کا انتظام


ستر برس کی عمر میں یہ داغ جانگداز
جس نے جلا کے راکھ مجھے کردیا تمام
تھی جنوری مہینے کی تاریخ تیرہویں
استادہ ہو گئے لب دریا پہ جب خیام


اس بزم پر فروغ میں اس تیرہ بخت کو
لمبر ملا نشیب میں از روے اہتمام
سمجھا اسے گراب ہوا پاش پاش دل
دربار میں جو مجھ پہ چلی چشمک عوام


عزت پہ اہل نام کی ہستی کی ہے بنا
عزت جہاں گئی تو نہ ہستی رہی نہ نام
تھا ایک گونہ ناز جو اپنے کمال پر
اس ناز کا فلک نے لیا مجھ سے انتقام


آیا تھا وقت ریل کے کھلنے کا بھی قریب
تھا بارگاہ خاص میں خلقت کا ازدحام
اس کشمکش میں آپ کا مداح درد مند
آقاے نامور سے نہ کچھ کر سکا کلام


جو واں نہ کہہ سکا وہ لکھا ہے حضور کو
دیں آپ میری داد کہ ہوں فائز المرام
ملک و سپہ نہ ہو تو نہ ہو کچھ ضرر نہیں
سلطان بر و بحر کے در کا ہوں میں غلام


وکٹوریا کا دہر میں جو مدح خوان ہو
شاہان عصر چاہیے لیں عزت اس سے دام
خود ہے تدارک اس کا گورمنٹ کو ضرور
بے وجہ کیوں ذلیل ہو غالبؔ ہے جس کا نام


امر جدید کا تو نہیں ہے مجھے سوال
بارے قدیم قاعدے کا چاہیے قیام
ہے بندے کو اعادۂ عزت کی آرزو
چاہیں اگر حضور تو مشکل نہیں یہ کام


دستور فن شعر یہی ہے قدیم سے
یعنی دعا پہ مدح کا کرتے ہیں اختتام
ہے یہ دعا کہ زیر نگیں آپ کے رہے
اقلیم ہند و سند سے تا ملک روم و شام


-


اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گونہ بشارت
جو عقدہ دشوار کہ کوشش سے نہ وا ہو
تو وا کرے اس عقدے کو سو بھی بہ اشارت


ممکن ہے کرے خضر سکندر سے ترا ذکر
گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت
آصف کو سلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخر سلیماں جو کرے تیری وزارت


ہے نقش مریدی ترا فرمان الہی
ہے داغ غلامی ترا توقیع امارت
تو آب سے گر سلب کرے طاقت سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تاب شرارت


ڈھونڈے نہ ملے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتش سوزاں میں حرارت
ہے گرچہ مجھے نکتہ سرائی میں توغل
ہے گرچہ مجھے سحر طرازی میں مہارت


کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم دعا پر
قاصر ہے ستایش میں تری میری عبارت
نو روز ہے آج اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگی صنعت حق اہل بصارت


تجھ کو شرف مہر جہاں تاب مبارک
غالبؔ کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت

-


ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح
یہی انداز اور یہی اندام


بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز ہے گردش ایام
اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام


مرحبا اے سرور خاص خواص
حبذا اے نشاط عام عوام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام


اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام
ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام


راز دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمام
جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امید گاہ انام


میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام
جانتا ہوں کہ جانتا ہے تو
تب کہا ہے بہ طرز استفہام


مہر تاباں کو ہو تو ہو اے ماہ
قرب ہر روزہ بر سبیل دوام
**
تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا


جز بہ تقریب عید ماہ صیام
جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہ تمام
ماہ بن ماہتاب بن میں کون


مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام
میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام
ہے مجھے آرزوے بحشش خاص


گر تجھے ہے امید رحمت عام
جو کہ بخشے گا تجھ کو فر فروغ
کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام
جب کہ چودہ منازل فلکی


کرچکے قطع تیری تیزی گام
تیرے پر تو سے ہوں فروغ پذیر
کوے و مشکوے و صحن و منظر و بام
دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز


اپنی صورت کا ایک بلوریں جام
پھر غزل کی روش پہ چل نکلا
توسن طبع چاہتا تھا لگام
زہر غم کر چکا تھا میرا ...


تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام
مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں
غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام
بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے


کہ نہ سمجھیں وہ لذت دشنام
کعبے میں جا بجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دیر میں احرام
اس قدح کا ہے دور مجھ کو نقد


چرخ نے لی ہے جس سے گردش وام
بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار
دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام
چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آے


کیوں رکھوں ورنہ غالب اپنا نام
کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ
اے پری چہرہ پیک تیز خرام
کون ہے جس کے در پہ ناصبہ سا


ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام
تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نام شاہنشہ بلند مقام
قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ


مظہر ذوالجلال و الاکرام
شہسوار طریقۂ انصاف
نو بہار حدیقۂ اسلام
جس کا ہر فعل صورت اعجاز


جس کا ہر قول معنی الہام
بزم میں میزبان قیصر و جم
رزم میں اوستاد رستم و سام
اے ترا لطف زندگی افزا


اے ترا عہد فرخی فرجام
چشم بد دور خسروانہ شکوہ
لؤحش اللہ عارفانہ کلام
جاں نثاروں میں تیرے قیصر روم


جرعہ خواروں میں تیرے مرشد جام
وارث ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام
زور بازو میں مانتے ہیں تجھے


گیو و گودرز و بیژن و رہام
مرحبا موشگافی ناوک
آفریں آب داری صمصام
تیر کو تیرے تیر غیر ہدف


تیغ کو تیری تیغ خصم نیام
رعد کا کررہی ہے کیا دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا الزام
تیرے فیل گراں جسد کی صدا


تیرے رخش سبک عناں کا خرام
فن صورت گری میں تیرا گزر
گر نہ رکھتا ہو دست گاہ تمام
اس کے مضروب کے سر و تن سے


کیوں نمایاں ہو صورت ادغام
جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفحہ ہاے لیالی و ایام
اور ان اوراق میں بہ کلک قضا


مجملاً مندرج ہوئے احکام
لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کش
لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام
آسماں کو کہا گیا کہ کہیں


گنبد تیز گرد نیلی فام
حکم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام
آتش و آب و باد و خاک نے لی


وضع سوز و نم و رم و آرام
مہر رخشاں کا نام خسرو روز
ماہ تاباں کا اسم شحنۂ شام
تیری توقیع سلطنت کو بھی


دی بدستور صورت ارقام
کاتب حکم نے بموجب حکم
اس رقم کو دیا طراز دوام
ہے ازل سے روائی آغاز


ہو ابد تک رسائی انجام

-


مرحبا سال فرخی آئیں
عید شوال و ماہ فرور دیں
شب و روز افتخار لیل و نہار
مہ و سال اشرف ہفتہ بعد نہیں


سو اس اکیس دن میں ہولی کی
مجلسیں جا بجا ہوئیں رنگیں
شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگارخانۂ چیں


تین تیوہار اور ایسے خوب
جمع ہرگز ہوے نہ ہونگے کہیں
پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد محفل نشاط قریں


محفل غسل صحت نواب
رونق افزاے مسند تمکیں
بزم گہ میں امیر شاہ نشاں
رزم گہ میں حریف شیر کمیں


پیش گاہ حضور شوکت و جاہ
خیر خواہ جناب دولت و دیں
جن کی مسند کا آسماں گوشہ
جن کی خاتم کا آفتاب نگیں


جن کی دیوار قصر کے نیچے
آسماں ہے گداے سایہ نشیں
دہر میں اس طرح کی بزم سرور
نہ ہوئی ہو کبھی بروے زمیں


انجم چرخ گوہر آگیں فرش
نور مے ماہ ساغر سیمیں
راجہ اندر کا جو اکھاڑا ہے
ہے وہ بالاے سطح چرخ بریں


وہ نظرگاہ اہل وہم و خیال
یہ ضیا بخش چشم اہل یقیں
واں کہاں یہ عطا و بذل و کرم
کہ جہاں گدیہ گر کا نام نہیں


یاں زمیں پر نظر جہاں تک جائے
ژالہ آما بچھے ہیں در ثمیں
نغمۂ مطربان زہرہ نوا
جلوۂ لولیان ماہ جبیں


اس اکھاڑے میں جو کہ ہے مظنوں
یاں وہ دیکھا بچشم صورت بیں
سرور مہر فر ہوا جو سوار
بکمال تجمل و تزئیں


سب نے جانا کہ ہے پری توسن
اور بال پری ہے دامن زیں
نقش سم سمند سے یکسر
بن گیا دشت دامن گلچیں


فوج کی گرد راہ مشک فشاں
رہرووں کے مشام عطر آگیں
بس کہ بخشی ہے فوج کو عزت
فوج کا ہر پیادہ ہے فرزیں


موکب خاص یوں زمیں پر تھا
جس طرح ہے سپہر پر پرویں
چھوڑ دیتا تھا گور کو بہرام
ران پر داغ تازہ دے کے وہیں


اور داغ آپ کی غلامی کا
خاص بہرام کا ہے زیب سریں
بندہ پرور ثنا طرازی سے
مدعا عرض فن شعر نہیں


آپ کی مدح اور میرا منھ
گر کہوں بھی تو کس کو آئے یقیں
اور پھر اب کہ ضعف پیری سے
ہو گیا ہوں نزار و زارو حزیں


پیری و نیستی خدا کی پناہ
دست خالی و خاطر غمگیں
صرف اظہار ہے ارادت کا
ہے قلم کی جو سجدہ ریز جبیں


مدح گستر نہیں دعاگو ہے
غالبؔ عاجز نیاز آگیں
ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں
تم رہو زندہ جاوداں آمیں


-


رات کو مطلق نہ تھی یاں جی کو تاب
آشنا ہوتا نہ تھا آنکھوں سے خواب
لوٹتا تھا سوز غم سے آگ میں
دل جگر سکتے تھے دونوں جوں کباب


ہر زماں تھی ساتھ اپنے گفتگو
کیا کروں شہر اور میں دونوں خراب
تھا کرم شیوہ جنھوں کا اٹھ گئے
بیٹھے بیٹھے کھینچئے کب تک عذاب


جایئے کس کے در اوپر کون ہے
ملیے کس سے کون ملنے کا ہے باب
لے جوانی سے پھرے پیری تلک
امتحاں میں آگئے سب شیخ و شاب


ناگہاں مجھ سے لگا کہنے سروش
رہگذر سے لطف کی کر کر خطاب
ہے کریم اب بھی وزیر ابن وزیر
آصف الدولہ فلک قدر و جناب


آسماں رتبہ ہے جس کا آستاں
ناز کر طالع پہ جو ہو باریاب
اس کی ہمت سے سخن کیا سر کروں
بات کہتے دے در و یاقوت ناب


اس کے دست و دل کے رشک و شرم سے
خون ہے دل کان کا دریا ہے آب
جم حشم انجم سپہ گردوں شکوہ
مرجع خرد و کلاں عالم مآب


دست ہمت اس کا گر دربار ہو
پانی پانی شرم سے ہووے سحاب
مال کیا ہے ہفت گنج خسروی
اک ہی کو نواب بخشے ہے شتاب


فخر سام و رستم اس کی بندگی
داخل خدام یاں افراسیاب
جس سحر جرأت سے کھینچی ان نے تیغ
ڈھال رکھے منھ پہ نکلا آفتاب


رزم کے عرصے میں ہلچل پڑ گئی
آسماں کے خیمے کی کانپی طناب
مدعی گر کوہ تھا مارا اکھاڑ
ور زمیں تھا بے سکوں پایا شتاب


خرمن آسا جل گیا انبوہ خصم
چل پڑی جو اس کی تیغ برق تاب
دیو تھے گو معرکے میں بے شمار
ایک ٹھہرا ہو مقابل کیا حساب


زین رکھا جائے مرکب پر اگر
راجا پرجا آن کر دابیں رکاب
زلزلہ پڑ جائے سارے ملک میں
ملک داروں سے کہیں ہاں سرحساب


مطلع ثانی کی اب مائل ہے طبع
کفر ہے حرف و سخن سے اجتناب
مطلع ثانی
اے ترے ڈر سے جگر شیروں کے آب


دشمنوں کو روبہانہ اضطراب
مدعی کی صف ہے کونجوں کی قطار
لشکری اس فوج کا ہر اک عقاب
موج زن جیدھر ہو وہ دریاے فوج


بستیاں اس سمت کی جیسے حباب
گرد اس لشکر کی گر ہووے بلند
پھر زمین و آسماں میں ہے حجاب
جاوے دشمن جوں سگ پاسوختہ


وقت گرگ و میش لے منھ پر نقاب
داوری و منصفی سن دلبراں
چھوڑ دیں عشاق پر کرنا عتاب
رفع بدعت چاہے تو پھر کیا مجال


اٹھ سکے جو نغمۂ چنگ و رباب
منع مے ہووے تو پھر قدرت ہے کیا
جو گلے سے شیشے کے اترے شراب
بحر کیا ہے جو کرے تہ سے سوال


کوہ تیرے حلم کا کیا دے جواب
خوبیاں ہی خوبیاں سر تا قدم
تب کیا صانع نے تجھ کو انتخاب
لطف طبع صاحب مجلس کہوں


یا لکھوں پاکیزہ اس صحبت کا داب
نکلی مستعمل نہایت ورنہ شب
چاندنی کی جاے بچھتی ماہتاب
گر نہ ہو ممدوح علم ظاہری


پر نہیں ہوتی ہے یہ رائے صواب
جو کہے تو چاہیے وہ لکھ رکھیں
حرف ہر یک تیرے منھ کا ہے کتاب
کر دعا پر میرؔ اب ختم سخن


تو کہے جو کچھ کرے حق مستجاب
زیردست اس کے رہیں گردن کشاں
تا قیامت وہ رہے مالک رقاب
دوست اس کے جوش زن جیسے محیط


خاک بر سر مدعی جیسے سراب

-


جو پہنچی قیامت تو آہ و فغاں ہے
مرے ہاتھ میں دامن آسماں ہے
کوئی آج سے ہے فلک مدعی کیا
ہمیشہ مرے حال پر مہرباں ہے


کدورت بیاں کیا کروں میں کہے تو
یہ دل گرد کلفت کا یک کارواں ہے
جو روتا بھی ہوں میں غبار دلی سے
تو آنسو کا سیلاب ریگ رواں ہے


جو دل میں ہے آتا ہے کہنے میں بھی وہ
زباں میری دل کی مگر ترجماں ہے
عجب مخمصے میں ہوں جور فلک سے
حوادث کے تیروں کا سینہ نشاں ہے


سحر جام خوں ہے جو منھ دھو چکوں ہوں
یہ مفلوک ایسے کے گھر میہماں ہے
رمق ایک جی ہے سو ایک آدھ دم کا
اسے قصد اب تک مرا امتحاں ہے


اس احوال کا رنگ رو بس ہے شاہد
جو دل میں ہے میرے سو منھ پر عیاں ہے
یہ شکوہ تھا درپیش مجھ کو کہ ناگہ
پکاری خرد ہوش تیرا کہاں ہے


تو مر جائے گا یوں تو رکتے ہی رکتے
کہ اندوہ و غم آفت ناگہاں ہے
غزل لطف کر میرؔ صاحب کی کوئی
کہ ان کی زباں بیچ سحر بیاں ہے


کہا میں نے مطلع غزل کا یہ سن کر
کہ ہر طرف سے جس کے لوہو رواں ہے
غزل [مطلع ثانی]
ترے ہاتھ جب تک کہ تیر و کماں ہے


شکار زبوں کی بھی خاطرنشاں ہے
کہے تو کہ شکل مثالی ہوں اپنی
مرا جسم اس لطف سے ناتواں ہے
تری اور اے سادہ رو بعد میرے


مرا نامہ ننوشتہ ہر استخواں ہے
اسیری میں سارا قفس بوے گل سے
معطر ہوا گو دماغ اب کہاں ہے(۱)
نہ پوچھ اس طلسمات عالم کی صنعت


کہ اس آشکارا میں کیا کیا نہاں ہے
خوشا مرگ بلبل کہ سائے میں گل کے
کہیں مشت پر ہے کہیں آشیاں ہے
درود اس کے تیں دیکھ کر بھیجتے ہیں


وہ نوگل بھی صل علیٰ کیا جواں ہے(۱)
لگے ہے نہ اب عطرداں اس کے منھ کو
نہ اس بوے خوش سا یہ گل کا دہاں ہے
غرور خرابات چل شیخ دیکھیں


جو ترسابچہ ہے سو پیر مغاں ہے
ہے بس شاہد حال رنگ شکستہ
جو دل میں ہے میرے سو منھ پر عیاں ہے(۲)
نہ کہہ خانوادے تھے یاں کیسے کیسے


خرابہ ہی ہے جب تلک یہ جہاں ہے
دم امتحاں میرؔ ہم کیا کریں گے
ہماری گرہ میں تو اک نیم جاں ہے
چل اے طبع مشتاق وصف بتاں پر


کہ غم ان کا دل میں مرے یک جہاں ہے
یہی شغل ہیں خوب پیش فقیراں
کہ ذکر خدا ہے کہ وصف بتاں ہے
نہ جا اس کے خاموش رہنے پہ بلبل


زباں غنچۂ گل کے زیر زباں ہے
نہ دے جان شیریں کو تلخی سے ناحق
تری محنت اے کوہکن رائیگاں ہے
میں پس ماندۂ قافلہ دل جلا ہوں


کہے تو کہ یہ آتش کارواں ہے
جو ہو راہ گم گشتہ یاں ہوکے جاوے
کہ مجھ پاس یک داغ دل سوز یھاں ہے
سموم آوے ہے سایۂ برگ گل میں


مگر خاک مرغ چمن پرفشاں ہے
مری آہ کیا برچھیاں مارتی ہے
دل شب سے ہر دم صدا الاماں ہے
جگر پر جو ہیں داغ ہجراں پریشاں


یہ گویا خزاں دیدہ اک گلستاں ہے
رخ زرد پر اشک سرخ آگئے ہیں
ادھر بھی اک ابر بہاری سماں ہے
خط و زلف و کاکل میں دل جاکے الجھا


نہ سمجھا یہ ناداں کہ ہندوستاں ہے
چمن زار عالم کی خوبی پہ مت جا
دل اس بے ثباتی پہ خندہ زناں ہے
کہ یک رنگ یاں کا نہیں ہے قراری


بہار آئی ایدھر کہ فصل خزاں ہے
حقارت سے مت دیکھ یہ پھوٹی گوریں
کہ ہر اک فلاں بن فلاں بن فلاں ہے
خیال اور مت کر کہ مجھ میں نہیں کچھ


مری جاں ترا وہم ہے یا گماں ہے
اٹھی رسم صوم و صلوٰۃ اس کے دیکھے
خرابی یہ مسجد پہ جو ہے ازاں ہے
گریباں کفن کا تو رہنے دے ثابت


مری خاک سے کیوں تو دامن کشاں ہے
رگ گل رگ جاں کمر سے نہیں ہے
تو کہتا ہے کیا یاں سخن درمیاں ہے
خط کنج لب گوشۂ چشم و کاکل


رہے شاد وہ غم زدہ دل جہاں ہے
نہیں فرصت واشدن اس چمن میں
گل اس غم سے اپنا گریباں دراں ہے
بہت ہرزہ خواں ہے گا اے میرؔ تو بھی


وظیفہ ترا کیا یہ ذکر بتاں ہے
جو مرکوز خاطر ہے اس پر بھی آجا
فراغت کا عرصہ یہی اک زماں ہے
سن اے ہم نشیں شخص غائب کی خاطر


یہ مطلع کہ مطلب سے جو تواماں ہے
مطلع ثالث
قلم چل ابھی چلتی تیری زباں ہے
کہ پھر بات کہنے کی فرصت کہاں ہے


ولیکن تجاوز نہ ہووے ادب سے
کہ ممدوح اب شاہ ہندوستاں ہے
دماغ اب نہیں ہے جو تمہید کریے
کہ کل رات ہے اور یہ داستاں ہے


بھٹئی تیری کیجے یہ دل چاہتا ہے
ترے شکر نعمت میں قاصر زباں ہے
ترا عہد یک سرخوشی ہے جو ہے بھی
گنہگار سا یک غم مہوشاں ہے


ترے یاں ہے سب راستی و درستی
مگر ما صدق سچ کا یہ خانداں ہے
زیارت کیے صدق آتا ہے جس کی
ترا جبہۂ راستاں آستاں ہے


لکھے کیا شہا کوئی ہمت کو تیری
جہاں صبح اس خوان پر میہماں ہے
زیادہ ہو یہ وسعت رزق تیری
کہ مشرق سے تا غرب دستار خواں ہے


کرے ہم سری کیا وہ خورشید اوپر
فلک پاس کیا ہے یہی ایک ناں ہے
ترے ہاتھ کی ریزش جود آگے
خجالت سے یہ ابر قطرہ زناں ہے


تجھے مرجع کل کیا ہے جہاں کا
ترا دست ہے فرق خرد و کلاں ہے
ولی نعمتا عدل سے تیرے اب یاں
کتاں تھا سو مہ ہے جو مہ تھا کتاں ہے


ترے ہوش کے آگے ہے طفل ناداں
اگرچہ یہ پیر خرد کارداں ہے
سن اے خامہ آ مطلع چارمیں لکھ
کہ ممدوح کے زور کا اب بیاں ہے


مطلع رابع
ترے زور بازو کی طاقت عیاں ہے
کہ بز جس کی قوت سے شیر ژیاں ہے
ترے زور کا سکہ ہے اس چمن میں


گل اشرفی غنچۂ مہرگاں ہے
ترا ہاتھ پڑ جائے گر رستم اوپر
جہاں میں وہ مشہور کیا پہلواں ہے
اٹھاتا نہیں اس کو سن کوئی گردن


وہ اس عرصے میں ایک سنگ گراں ہے
تو یوں پھینک دے جیسے سنگ فلاخن
جہاں جاکے گڑ جائے سنگ نشاں ہے
کہ جو کوئی اس راہ نکلے سو دیکھے


یہ افسانہ ہر شہر کا ارمغاں ہے
ثنا کے ترے عرصے میں کریے جولاں
کمیت قلم ہاتھ کے زیر راں ہے
اچک لے جہاں باگ کیا کیا مزے ہیں


یہ نام خدا اسپ کیا خوش عناں ہے
سبک سیر کی تیرے کیا کہیے جلدی
پھر اس فربہی پر کہ تخت رواں ہے
ازل سے ابد تک ہے جولاں گہ اس کی


قدم ایک یاں اک قدم اس کا واں ہے
جو اس میں سوار اس کا چاہے کہ ڈپٹے
ارادے میں اس کے ابھی حرف ہاں ہے
نہ پہنچے وہ ہونٹوں تلک اس کے ہرگز


کہ یہ بادپیما کہاں کا کہاں ہے
جو میدان میں جنگ کے ہو یہ اشہب
تو گھوڑا نہ کہیو کہ پیل دماں ہے
لگے گر کہیں ٹاپ طبق زمیں پر


فلک صدمے سے آں سوے لامکاں ہے
دعا پر کروں ختم اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں تو چنیں ہے چناں ہے
رہے وقت ایسا ہی روز جزا تک


کہ جو دوست تیرا ہے تو شادماں ہے
تری عمر ہو میرے طول امل سی
کرم کا سا سررشتہ اک تیری ہاں ہے

-


بہ گمان قطع زحمت نہ دو چار خامشی ہو
کہ زبان سرمہ آلود نہیں تیغ اصفہانی
بہ فریب آشنائی بہ خیال بے وفائی
نہ رکھ آپ سے تعلق مگر ایک بدگمانی


نظرے سوے کہستاں نہیں غیر شیشہ ساماں
جو گداز دل ہو مطلب تو چمن ہے سنگ جانی
بہ فراز گاہ عبرت چہ بہارو کو تماشا
کہ نگاہ ہے سیہ پوش بہ عزاے زندگانی


بہ فراق رفتہ یاراں خط و حرف مو پریشاں
دل غافل از حقیقت ہمہ ذوق قصہ خوانی
تپش دل شکستہ پئے عبرت آگہی ہے
کہ نہ دے عنان فرصت بہ کشاکش زبانی


نہ وفا کو آبرو ہے نہ جفا تمیز جو ہے
چہ حساب جانفشانی چہ غرور دلستانی
بہ شکنج جستجوہا بہ سراب گفتگو ہا
تگ و تاز آرزو ہا بہ فریب شادمانی


نہیں شاہراہ اوہام بجز آں سوے سیدن
تری سادگی ہے غافل در دل پہ پاسبانی
چہ امید و نا امیدی چہ نگاہ و بے نگاہی
ہمہ عرض نا شکیبی ہمہ ساز جاں ستانی


اگر آرزو ہے راحت تو عبث بہ خوں تپیدن
کہ خیال ہو تعب کش بہ ہواے کامرانی
شر و شور آرزو سے تب و تاب عجز بہتر
نہ کرے اگر ہوس پر غم بیدلی گرانی


ہوس فروختن ہا تب و تاب سوختن ہا
سر شمع نقش پا ہے بسپاس ناتوانی
شرر اسیر دل کو ملے اوج عرض اظہار
جو بہ صورت چراغاں کرے شعلہ نرد بانی


ہوے مشق جرأت ناز رہ و رسم طرح آداب
خم پشت خوشنما تھا بہ گزارش جوانی
اگر آرزو رسا ہو پے درد دل دوا ہو
وہ اجل کہ خوں بہا ہو بہ شہید ناتوانی


غم عجز کا سفینہ بہ کنار بیدلی ہے
مگر ایک شہپر مور کرے ساز بادبانی
مجھے انتعاش غم نے پے عرض حال بخشی
ہوس غزل سرائی تپش فسانہ خوانی


**
دل نا امید کیونکر بہ تسلی آشنا ہو
جو امیدوار رہیے نہ بہ مرگ ناگہانی
مجھے بادۂ طرب سے بہ خمار گاہ قسمت


جو ملی تو تلخ کامی جو ہوئی تو سرگرانی
نہ ستم کر اب تو مجھ پر کہ وہ دن گئے کہ ہاں تھی
مجھے طاقت آزمانی تجھے الفت آزمانی
بہ ہزار امیدواری رہی ایک اشک باری


نہ ہوا حصول زاری بجز آستیں فشانی
کروں عذر ترک صحبت سو کہاں وہ بے دماغی
نہ غرور میر زائی نہ فریب ناتوانی
ہمہ یک نفس تپش سے تب و تاب ہجر مت پوچھ


کہ ستم کش جنوں ہوں نہ بقدر زندگانی
کف موجۂ حیا ہوں بہ گزار عرض مطلب
کہ سر شک قطرہ زن ہے بہ پیام دل رسانی
یہی بار بار جی میں مرے آئے ہے کہ غالبؔ


کروں خوان گفتگو پر دل و جاں کی میہمانی

-


جب سے خورشید ہوا ہے چمن افروز حمل
رنگ گل جھمکے ہے ہر پات ہرے کے اوجھل
وقت وہ ہے کہ زبس شوق سے چشم بلبل
خوبی دلکش گل دیکھنے کو ہو احول


جوش گل یہ ہے جہاں تک کرے ہے کام نظر
لالہ و نرگس و گل سے ہیں بھرے دشت و جبل
لطف روئیدگی مت پوچھ کہ میں شبہے میں ہوں
سبزہ غلطاں ہے لب جو پہ کہ خواب مخمل


چشم رکھتا ہے تو چل فیض ہوا کو ٹک دیکھ
نرگس اگتی ہے جہاں بوئی تھی دہقاں نے بصل
سیر کر تازگی و خرمی و شادابی
خشک بھی شاخ نے اب سبز نکالی کوپل


خون خمیازہ کش عاشقی و پنجۂ گل
دونوں نکلے ہیں تہ خاک سے اب دست و بغل
برگ گل فیض ہوا کرتا ہے ہر اخگر کو
آگ کی گر کہیں سلگا کے رکھے ہیں منقل


بیت بحثی کے تئیں مرغ چمن آئے ہزار
کسو گلبن کے تلے آپ بھی اب پڑھیے غزل
غزل [مطلع ثانی]
نکلے ہے لالہ زبس چاک کر اب سینۂ تل


آتش گل سے جلا کرتا ہے سارا جنگل
تیرگی اپنے ستارے کی ہے سب پر روشن
آفتاب آوے ہے یاں دن کو جلاکر مشعل
آمد گریہ قیامت ہے اگن میں جی کی


مارے ڈالے ہے یہ برسات ہماری کی کہل
غنچۂ خام کو جوں پھونک سے کھولے ہے طفل
یوں بھی کر دیکھا پہ دل عقدہ ہے مالاینحل
تو یونہی کھینچے ہے یہ نقش برآب اے منعم


کیسی محبوب گئیں صورتیں اس خاک میں رل
جنس دل مفت ہے سینے میں عجب کیا ہے جولے
غمزے وے دزد ہیں آنکھوں سے چرا لیں کاجل
شیخ کے قد کی درازی کے تئیں حال میں دیکھ


یاد آتا ہے جوانوں کے تئیں رقص جمل
کودنے کو جو اٹھا سر پہ اٹھالی مجلس
دیکھیے بیٹھے جو پھر اونٹ تو بیٹھے کس کل
پردے میں دوستی کے میرؔ کا جی تک تو لیا


مدعی کتنے تھے اس کے یہ محبت بیتل
کیا ہیں اندھیر فلک کے کہ نہیں ملتی داد
روز خورشید نکلتا ہے جلاکر مشعل
جو ہے سو دست بہ دل خاک بسر ہے اس سے


میں بھی نکلوں ہوں سدا منھ پہ کف خاک کو مل
موے سر تک تو عدو دیدۂ شور اس کا ہے
آج دیکھے کسو سر پر تو اسے چاہے کل
پنجۂ خور کو زراندود کیا ان نے جسے


مرتعش باندھے ہیں اکثر شعرا بعضے شل
سرخ رہتی ہے مژہ خط شعاعی سی ہنوز
چشم خورشید سے کھوئی نہ کبھو ان نے سبل
درد سر میں ہے جو موجود ہے دور اس کے میں


صبح نکلے ہے سدا ماتھے کو مل کر صندل
وقت ہے اپنے نصیری کی مدد کا یا شاہ
روز و شب رہتی ہے اس موذی ہی سے جنگ و جدل
مطلع ثالث


اے کہ اک تو ہی ہوا عالم اسرار ازل
اے کہ سو جان سے عاشق ہے ترا حسن عمل
تیری وہ ذات مقدس ہے کہ لیتے ہوئے نام
منھ سے ناخواستہ بھی صل علیٰ جائے نکل


تیری درگاہ میں جبریل کے پر کیوں نہ جلیں
یہیں ہے نور جلالی خدا عزوجل
دور ازبس کہ کھنچا عرش سے رتبہ تیرا
حرف تیرا ہے ترے شیعوں کو وحی منزل


مرحبا شاہی تری صل علیٰ جاہ ترا
کہ ہوا تخت ترا دوش نبی مرسلؐ
فرش ہونا ترے زائر کا سعادت تھی ولے
کیا کرے چادر مہتاب کہ تھی مستعمل


وہ نخستیں خرد اے عالم اسرار الٰہ
مانتے جس کو گئے دہر کے کامل اکمل
آخر اب آکے ترے درس میں نکتہ یہ کھلا
ناقص محض چلا جائے تھا عقل اول


جی میں گذرے بھی تو نکلے ہے ترے درس کے بیچ
معنی تازہ سے بدلا ہوا لفظ مہمل
رفع بدعت پہ جب آوے تری طبع اقدس
کیا عجب شعلۂ آواز سے جل جا نرسل


لقمۂ ظلم نہیں پچتا عدالت میں تری
باز نگلی ہوئی چڑیا کے تئیں دے ہے اگل
حالت نزع میں گر نام زباں پر ہو ترا
یک رمق جان حیات ابدی سے ہو بدل


بس کہ غالب ہے ترا سعد ستارہ ہے عجب
پہنچے گر حشر تلک نوبت شاہی زحل
کیا ترے کشف بیاں کرنے کی کہیے تاثیر
طبع گوئندہ پہ یاں حال ہوا مستقبل


تو غضب ہوئے مبادا کسو اوپر کہ شہا
مرگ ٹلتی بھی ہے پر ٹلتی نہیں یہ کلول
تب ہوا دین محمدؐ کا بہ زور شمشیر
تونے برہم کیے جب کتنے ہی ادیان و ملل


حبذا حق سے یہ نسبت کہ رہی بھی موقوف
تجھی پر مصلحت کار خداوند اجل
سن کے یہ نظم و نسق دہر میں جو تونے کیا
جمع ہوجاتے ہیں شاعر کے حواس مختل


کوئی یوں سرکشی سے اپنی کہے کچھ لیکن
سجدہ ہی کیجے تجھے یہ ہے ترا قدر و محل
جی میں ہے اور بھی مطلع کے تئیں کریے نمود
دل کو تسکین نہیں بخشتا وصف مجمل


مطلع رابع
اے کہ طاقت ہے زمانے میں تری ضرب مثل
پنجۂ زور کے آگے ترے یہ چرخ نبل
یک طرف میں نے کیا فرض ترے بندے کو


دوسری سمت کیا جمع عدو کا دنگل
کشتنی مدعی کی اور کی میں کیسے کہوں
ہر جواں برج سا پھر کوہ کے مانند اچل
میان سے جب کہ گھسیٹی ادھر ان نے تلوار


باعث تیرگی چشم تھی وہ برق اچپل
درہمی آگئی یک بار صف اعدا میں
ایک دو ہاتھ کے چلنے میں پڑی یہ ہلچل
تیرگی بخش جہاں بس کہ ہوا سرمۂ گرد


چشم خورشید فلک پر تھی مثال مکحل
رستم و سام جسے فرض کرے تو دل میں
نعرہ کر سامنے آواز کیا جب اٹکل
کھل گیا دوش سے لے تاکمر اللہ اللہ


ایک ہی زخم ہے دشمن کے گلے کی ہیکل
برہمی کارگہ رزم کی مت پوچھ کہ تھا
کوہ پر کوہ فلک پر تھی زمیں دل پر دل
جمع ہو آیا تھا اس ایک پر اک جم غفیر


اکثر اس میں سے گئے مارے کچھ اک بھاگے دہل
کرکے سرگوشی جسے پوچھتے ہیں بھاگے ہوئے
آتی ہے غیب سے آواز ہوا وہ فیصل
یہ ہے یا خالی ہے میدان مگر اس کی تیغ


اژدہا تھی کہ گئی خلق کو یک دم میں نگل
کیا بیاں کیجیے اب لشکر اعدا کی معاش
مخرج خوں ہے دہاں زخم کا ہے گا مدخل
چھوٹے ہے زخم سے ہر ایک کے فوارۂ خوں


ہر طرف دشت میں جاری ہے لہو کی جدول
سرخ تر چشم شجاعاں میں نظر آتی ہے
خون سے مسلخ قصاب کی خاک مقتل
کیا لکھوں اسپ سبک سیر کی اس کے تعریف


ادہم خامہ بھی لکھتے ہوئے جاتا ہے اچھل
جب عناں اس کی اچک لیتا ہے اس کا راکب
جلدی پویہ میں دکھلاوے ہے کیا کیا چھل بل
اس فلک سیر کا میدان مقرر ہے گا


تگ و پو کے لیے اثناے ابد اور ازل
آگیا اس میں نظر جانا کسو شخص کو تو
مارتے پل کے گیا اس کو چھلاوا سا چھل
قابو پانے کے لیے اس کے سوار اس پہ سدا


کہتے ہیں مدعی اس اسپ کے تیں ماریے چل
راکب اس کا کرے ہے سن کے تبسم یہ بات
یعنی ان گیدیوں کے کچھ ہے دماغوں میں خلل
جان یہ ہے ترے گھوڑے میں کہ تا روز جزا


گرد کو اس کے نہ پہنچے گی کبھو اس کی اجل
اک مصور نے اسے دیکھ کے دوڑایا خیال
دیکھوں اس باد کی مجھ سے بھی سکے شکل نکل
سر و سینہ کو کمر تک تو بنایا رکھ ہاتھ


اڑ گیا صفحۂ کاغذ پہ سے چھوتے ہی کفل
آبلے جیسے ستارے ہیں مرے دل کے بیچ
بس کہ اس چرخ سیہ رو سے رہا ہوں میں جل
آج تجھ نیر اعظم کی خلافت کا ہے روز


داد دے میری کہ دیکھوں میں اسے مستاصل
صاف ہو زنگ دل میرؔ کہ احباب میں ہے
واسطے تیرے مخالف کے ہیں تیغیں صیقل

-


صبح دم دروازۂ خاور کھلا
مہر عالم تاب کا منظر کھلا
خسرو انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا


وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو راز مہ و اختر کھلا
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا


سطح گردوں پر پڑا تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک نگار آتشیں رخ سر کھلا


تھی نظر بندی کیا جب رد سحر
بادۂ گلرنگ کا ساغر کھلا
لا کے ساقی نے صبوحی کے لیے
رکھ دیا ایک جام زر کھلا


بزم سلطانی ہوئی آراستہ
کعبۂ امن و اماں کا در کھلا
تاج زریں مہر تاباں سے سوا
خسرو آفاق کے منہ پر کھلا


شاہ روشن دل بہادر شہ کو ہے
راز ہستی اس پر سر تا سر کھلا
وہ کہ جس کی صورت تکوین میں
مقصد نہ چرخ و ہفت اختر کھلا


وہ کہ جس کے ناخن تاویل سے
عقدہ احکام پیغمبر کھلا
پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام
اس کے سرہنگوں کا جب دفتر کھلا


روشناسوں کی جہاں فہرست ہے
واں لکھا ہے چہرۂ قیصر کھلا
*
توسن شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب


تھان سے وہ غیرت صرصر کھلا
نقش پا کی صورتیں وہ دلفریب
تو کہے بت خانہ آزر کھلا
مجھ پہ فیض تربیت سے شاہ کے


منصب مہر و مہ و محور کھلا
لاکھ عقدے دل میں تھے لیکن ہر ایک
میری حد وسع سے باہر کھلا
تھا دل وابستہ قفل بے کلید


کس نے کھولا کب کھلا کیوں کر کھلا
باغ معنی کی دکھاؤں گا بہار
مجھ سے گر شاہ سخن گستر کھلا
ہو جہاں گرم غزالخوانی نفس


لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا

-


ملاذ کشور و لشکر پناہ شہر و سپاہ
جناب عالی ایلن بردن والا جاہ
بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر
کہ باج تاج سے لیتا ہے جس کا طرف کلاہ


وہ محض رحمت و رافت کہ بہر اہل جہاں
نیابت دم عیسی کرے ہے جس کی نگاہ
وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی
بنے ہے شعلۂ آتش انیس پرۂ کاہ


زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے بجاے غبار
جہاں ہو توسن حشمت کا اس کے جولاں گاہ
وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں الٰہی شکر
وہ خشمگیں ہو تو گردوں کہے خدا کی پناہ


یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش
کہ دشت و کوہ کے اطراف میں بہر سر راہ
ہزبز پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا
کبھی جو ہوتی ہے الجھی ہوئی دم روباہ


نہ آفتاب ولے آفتاب کا ہم چشم
نہ بادشاہ ولے مرتبے میں ہمسر شاہ
خدا نے اس کو دیا ایک خوبرو فرزند
ستارہ جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوے ماہ


زہے ستارۂ روشن کہ جو اسے دیکھے
شعاع مہر درخشاں ہو اس کا تار نگاہ
خدا سے ہے یہ توقع کہ عہد طفلی میں
بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاہ


جوان ہو کے کرے گا یہ وہ جہانبانی
کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاہ
کہے گی خلق اسے داور سپہر شکوہ
لکھیں گے لوگ اسے خسرو ستارہ سپاہ


عطا کرے گا خداوند کارساز اسے
روان روشن و خوے خوش و دل آگاہ
ملے گی اس کو وہ عقل نہفتہ داں کہ اسے
پڑے نہ قطع خصومت میں احتیاج گواہ


یہ ترکتاز سے برہم کرے گا کشور روس
یہ لے گا بادشہ چیں سے چھین تخت و کلاہ
سنین عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون
یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے شام و پگاہ


یہ جتنے سینکڑے ہیں سب ہزار ہو جاویں
دراز اس کی ہو عمر اس قدر سخن کوتاہ
امیدوار عنایات شیو ناراین
کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواہ


یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عز و جاہ کے ساتھ
تمہیں اور اس کو سلامت رکھے سدا اللہ

-


جہاں میں کون ہے جس کو کسی سے الفت ہے
خراب کوچہ و بازار یاں محبت ہے
نفاق خانہ برانداز بسکہ ہے رائج
دل اتفاق کا زیر غبار کلفت ہے


باتفاق اگر دو عزیز مل بیٹھیں
زبان مردم بد سے انھوں پر آفت ہے
کروں میں ہجو اگر روز ایسے عالم کی
بجا ہے ان سے کہ میرے تئیں شکایت ہے


دروغ گوئی سے دو آشنا لڑا دینا
کہاں کی رسم ہے یہ گر یہی مروت ہے
تو چھوڑ شہر کی یہ تنگنا نکل جاویں
کہ گوشہ ہاے بیاباں میں بسکہ وسعت ہے


نہ دیکھوں منھ میں انھوں کا اگر ہوں آئینہ
اسی لیے تو مرے دل نشین عزلت ہے
کہوں میں مطلع ثانی کہ طور یاراں سے
دل شکستہ مرا تنگ اب نہایت ہے


مطلع ثانی
منھوں پہ صاف ہیں لیکن نہ حفظ غیبت ہے
مثال آئینہ دیکھے ہی کی یہ ملت ہے
اگر سخن کی مرے رشک ان کی ہے جاں سوز


وگر دلوں میں انھوں کے غرور دولت ہے
حریف میرے یہ ان باتوں سے نہیں ہوتے
کہ راہ راست پہ ہوں میں انھیں ضلالت ہے
سخن کی خوبی کے میدان کا ہوں میں رستم


مقابلے کو مرے ان میں کس کی طاقت ہے
رہا غرور زر و مال ان کا اب باقی
سو ان کا ہونے کو روکش مری شرافت ہے
بہ خالقے کہ زمیں اور آسماں کی بنا


نظر میں سب کی اسی کا ظہور قدرت ہے
بہ احمدے کہ بلا میم اس کو کہتے ہیں
اسی کی شرق سے لے تا بہ غرب امت ہے
بہ مرتضےٰ کہ پیمبرؐ سے اس کو ہے خویشی


بہ فاطمہ کہ کنیز اس کی ایک عصمت ہے
بہ آں امام کہ قسمت میں اس کی زہر ہوا
بہ آں حسین کہ وہ بیکس شہادت ہے
بہ ذوالفقار کہ وقت نبرد غازی کے


زباں میں نام سے اس کے ہوئی یہ حالت ہے
کہ گر وہ بات کہے صف میں کافروں کی جا
تو سر کو تن پہ خوارج کے کب یہ فرصت ہے
کہ ایک دم میں نہ پیوند ہو جدا اس کا


ملے نہ خاک میں جب تک کہاں فراغت ہے
کہوں میں مطلع ثالث کہے ہے ہاتف غیب
کہ تیرے صدق کی شاہد تری ہی ہمت ہے
مطلع ثالث


بہ زلف یار کہ مجھ پر اسی سے شامت ہے
بہ زہرمار جو جینے میں کچھ حلاوت ہے
بہ ذوق وصل کہ اک دم نہیں ہے مجھ کو قرار
بہ اضطراب کہ وہ خانہ زاد فرقت ہے


بہ سوز شمع کہ جلتی ہے وہ بھی میری طرح
بہ انجمن کہ وہ کثرت میں رشک خلوت ہے
بہ انتظار کہ آنکھیں سفید اس میں ہوئیں
بہ نور شمع کہ وہ پائمال حیرت ہے


بہ طوف کعبہ کہ بے سعی واں نہیں ہے گذار
بہ عشق دیر کہ واں برہمن سعادت ہے
بہ غربتے کہ ہے دوری راہ اس میں رفیق
بہ منزلے کہ پہنچنا وہاں قیامت ہے


بہ طاقتے کہ اسے ضعف سے ہے ربط قدیم
بہ خاطرے کہ وہ منت کش مصیبت ہے
بہ مشہدے کہ چراغ اس کا چشم آہو ہو
بہ چشمکے کہ وہ خوں ریز اہل حسرت ہے


بہ ہمتے کہ نہ دیکھا ہو ان نے خست کو
بہ خستے کہ سراپا عدوے ہمت ہے
بہ زورقے کہ جو وہ نوح کی پناہ ہوئی
بہ ملتے کہ وہ طوفاں سے غرق خجلت ہے


بہ محنتے کہ وہ آزردہ ہوئے راحت سے
بہ راحتے کہ حقیقت میں رنج و محنت ہے
بہ عزتے کہ جو سنتی ہو نام ذلت کا
بہ ذلتے کہ وہ کہتی ہو کیسی عزت ہے


قسم ہے میرے تئیں ان تمام قسموں کی
جو میں نے کچھ بھی کہا ہو یہ مجھ پہ تہمت ہے
جو کچھ کہا ہے کنھوں نے غلط کہا ہے گا
کسو سے رنجش بیجا نہ میری طینت ہے


اگر یہ عذر ہو مقبول تو تو خیر ارنہ
حریف ہونے کا میرے نتیجہ خفت ہے
کہاں تلک میں کروں اس نفاق کا شکوہ
خموشی اب تو ہے اولیٰ کہ اس میں راحت ہے


-


سازیک ذرہ نہیں فیض چمن سے بے کار
سایۂ لالۂ بے داغ سویداے بہار
مستی باد صبا سے ہے بہ عرض سبزہ
ریزۂ شیشۂ مے جوہر تیغ کہسار


سنگ یہ کار گہ ربط نزاکت ہے کہ ہے
خندۂ بے خودی کبک بدندان شرار
سبز ہے جام زمرد کی طرح داغ پلنگ
تازہ ہے ریشۂ نارنج صفت روے شرار


کشتۂ افعی زلف سیہ شیریں کو
بے ستوں سبزے سے ہے سنگ زمرد کا مزار
حسرت جلوۂ ساقی ہے کہ ہر پارۂ ابر
سینہ بے تابی سے ملتا ہے بہ تیغ کہسار


دشمن حسرت عاشق ہے رگ ابر سیاہ
جس نے برباد کیا ریشۂ چندیں شب تار
مستی ابر سے گلچین طرب ہے حسرت
کہ اس آغوس میں ممکن ہے دو عالم کا فشار


کوہ و صحرا ہمہ معموری شوق بلبل
راہ خوابیدہ ہوی حندۂ گل سے بیدار
چشم بر چشم چنے ہے بہ تماشا مجنوں
ہر دو سوخانۂ زنجیر نگہ کا بازار


خانۂ تنگ ہجوم دو جہاں کیفیت
جام جمشید ہے یاں قالب خشت دیوار
سونپے ہے فیض ہوا صورت مژگان یتیم
سرنوشت دو جہاں ابر بیک سطر غبار


کف ہر خاک بگر دوں شدہ قمری پرواز
دام ہر کاغذ آتش زدہ طاؤس شکار
سنبل و دام کمیں خانۂ خواب صیاد
نرگس و جام سیہ مستی چشم بیدار


طرہ ہا بس کہ گرفتار صبا ہیں شانہ
زانوے آئنہ پرمارے ہے دست بے کار
بس کہ یک رنگ ہیں دل کرتی ہے ایجاد نسیم
لالے کے داغ سے جوں نقطہ و خط سنبل زار


اے خوشا فیض ہواے چمن نشو و نما
بادہ پر زور و نفس مست و مسیحا بیمار
کاٹ کر پھینکیے ناخن تو با انداز ہلال
قوت نامیہ اس کو بھی نہ چھوڑے بیکار


ہمت و نشو و نما میں یہ بلندی ہے کہ سرد
پر قمری سے کرے صیقل تیغ کہسار
ہر کف خاک جگر تشنۂ صد رنگ ظہور
غنچے کے میکدے میں مست تامل ہے بہار


کس قدر عرض کروں ساغر شبنم یارب
موجۂ سبزۂ نوخیز ہے لبریز خمار
غنچۂ لالہ سیہ مست جوانی ہے ہنوز
شبنم صبح ہوئی رعشۂ اعضاے بہار


جوش بیداد تپش سے ہوئی عریاں آخر
شاخ گلبن پہ صبا چھوڑ کے پیراہن خار
ساز عریانی کیفیت دل ہے لیکن
یہ مئے تند نہیں موج خرام اظہار


موج مے پر ہے برات نگرانی امید
گل نرگس سے کف جام پہ ہے چشم بہار
گلشن و میکدہ سیلابی یک موج خیال
نشہ و جلوۂ گل برسر ہم فتنہ غبار


میکدے میں ہو اگر آرزوے گل چینی
بھول جا یک قدح بادہ بہ طاق گلزار
موج گل ڈھونڈھ بہ خلوت کدۂ غنچۂ باغ
گم کرے گوشۂ میخانہ میں گر تو دستار


پشت لب تہمت خط کھینچے ہے بے جا یعنی
سبز ہے موج تبسم بہ ہواے گفتار
کھینچے گر مانی اندیشہ چمن کی تصویر
سبز مثل خط نوخیز ہو خط پرکار


جاے حیرت ہے کہ گلبازی اندیشۂ شوق
اس زمیں میں نہ کرے سبز قلم کی رفتار
طلع ثانی
لعل سی کی ہے پئے زمزمہ مدحت شاہ


طوطی سبزہ کہسار نے پیدا منقار
کسوت تاک میں ہے نشۂ ایجاد ازل
سبحہ عرض دو عالم بکف آبلہ دار
بہ نظر گاہ گلستان خیال ساقی


بیخودی دام رگ گل سے ہے پیمانہ شکار
بہ ہواے چمن جلوہ ہے طاؤس پرست
باندھے ہے پیر فلک موج شفق سے زنار
یک چمن جلوۂ یوسف ہے بچشم یعقوب


لالہ ہا داغ برافگندہ و گل ہا بے خار
بیضۂ قمری کے آئینے میں پنہاں صیقل
سرو بیدل سے عیاں عکس خیال قد یار
عکس موج گل و سر شاری انداز حباب


نگہ آئنہ کیفیت دل سے دوچار
کس قدر ساز دوعالم کو ملی جرأت ناز
کہ ہوا ساغر بے حوصلۂ دل سرشار
ورنہ وہ ناز ہے جس گلشن بیداد سے تھا


طور مشعل بکف از جلوۂ تنزیہ بہار
سایۂ تیغ کو دیکھ اس کے بہ ذوق یک زخم
سینۂ سنگ پہ کھینچے ہے الف بال شرار
بت کدہ بہر پرستش گری قبلۂ ناز


باندھے زنار رگ سنگ میان کہسار
سبحہ گرواں ہے اسی کی کف امید کا ابر
بیم سے جس کے صبا توڑے ہے صد جا زنار
رنگریز گل و جام دوجہاں ناز و نیاز


اولیں دور امامت طرب ایجاد بہار
جوش طوفان کرم ساقی کوثر ساغر
نہ فلک آئنہ ایجاد کف گوہر بار
پہنے ہے پیرہن کاغذ ابری نیساں


یہ تنک مایہ ہے فریادی جوش ایثار
وہ شہنشاہ کہ جس کی پئے تعمیر سرا
چشم جبریل ہوئی قالب خشت دیوار
فلک العرش ہجوم خم دوش مزدور


رشتۂ فیض ازل ساز طناب معمار
سبزہ نہ چمن ویک خط پشت لب بام
رفعت ہمت صد عارف و یک اوج حصار
واں کی خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرکاہ


وہ رہے مروحۂ بال پری سے بے زار
پر یہ دولت تھی نصیب نگہ معنی ناز
کہ ہوا صورت آئینہ میں جوہر بیدار
ذرہ اس گرد کا خرشید کو آئینہ ناز


گرد اس دشت کی امید کو احرام بہار
خاک صحراے نجف جوہر سیر عرفا
چشم نقش قدم آئینہ بخت بیدار
اے خوشا مکتب شوق و بلدستان مراد


سبق نازکی ہے عجز کو صد جا تکرار
مشقی نقش قدم نسخۂ آب حیواں
جادۂ دشت نجف عمر خضر کا طومار
جلوۂ تمثال ہے ہر ذرہ نیرنگ سواد


بزم آئینہ تصویر نما مشت غبار
دو جہاں طالب دیدار تھا یارب کہ ہنوز
چشمک ذرہ سے ہے گرم نگہ کا بازار
ہے نفس مایۂ شوق دو جہاں ریگ رواں


پاے رفتار کم و حسرت جولاں بسیار
آفرینش کو ہے واں سے طلب مستی ناز
عرض خمیازہ ایجاد ہے ہر موج غبار
دشت الفت چمن و آبلہ مہماں پرور


دل جبریل کف پا پہ ملے ہے رخسار
یاں تک انصاف نوازی کہ اگر ریزۂ سنگ
بے خبر دے بکف پاے مسافر آزار
یک بیاباں تپش بال شرر سے صحرا


مغز کہسار میں کرتا ہے فرو نشتر خار
فرش اس دشت تمنا میں نہ ہوتا گر عدل
گرمی شعلۂ رفتار سے جلتے خس و خار
ابر نیساں سے ملے موج گہر کا تاواں


خلوت آبلہ میں گم کرے گر تو رفتار
یک جہاں بسمل انداز پر افشانی ہے
دام سے اس کے قضا کو ہے رہائی دشوار
موج طوفان غضب چشمہ نہ چرخ حباب


ذوالفقار شہ مرداں خط قدرت آثار
موج ابروے قضا جس کے تصور سے دو نیم
بیم سے جس کے دل شحنۂ تقدیر فگار
شعلہ تحریر سے اس برق کی ہے کلک قضا


بال جبریل سے مسطر کش سطر زنہار
موج طوفاں ہو اگر خون دو عالم ہستی
ہے حنا کو سر ناخن سے گزرنا دشوار
دشت تسخیر ہو گر گرد خرام دلدل


نعل در آتش ہر ذرہ ہے تیغ کہسار
بال رعنائی دم موجۂ گلبند قبا
گردش کاسۂ سم چشم پری آئنہ دار
گرد رہ اس کی بھریں شیشۂ ساعت میں اگر


ہر نفس راہ میں ٹوٹے نفس لیل و نہار
نرم رفتار ہو جس کوہ پہ وہ برق گداز
رفتن رنگ حنا ہے تپش بال شرار
ہے سراسر روی عالم ایجاد اسے


جیب خلوت کدۂ غنچہ میں جولان بہار
جس کے حیرت کدۂ نقش قدم میں مانی
خون صد برق سے باندھے بکف دست نگار
ذوق تسلیم تمنا سے بہ گلزار حضور


عرض تسخیر تماشا سے بہ دام اظہار
مطلع تازہ ہوا موجۂ کیفیت دل
جام سرشار مے و غنچۂ لبریز بہار
مطلع ثالث


فیض سے تیرے ہے اے شمع شبستان بہار
دل پروانہ چراغاں پر بلبل گلزار
شکل طاؤس کرے آئنہ خانہ پرواز
ذوق میں جلوے کے تیرے بہ ہواے دیدار


گرد جولاں سے ہے تیری بگریبان خرام
جلوۂ طور نمک سودۂ زخم تکرار
جس چمن میں ہو ترا جلوۂ محروم نواز
پر طاؤس کرے گرم نگہ کا بازار


جس ادب گاہ میں تو آئنہ شوخی ہو
جلوہ ہے ساقی مخموری تاب دیوار
تو وہ ساقی ہے کہ ہر موج محیط تنزیہہ
کھینچے خمیازے میں تیرے لب ساغر کا خمار


گرد باد آئنہ فتراک دماغ دل ہا
تیرا صحراے طلب محفل پیمانہ شکار
ذوق بے تابی دیدار سے تیرے ہے ہنوز
جوش جوہر سے دل آئنہ گلدستۂ خار


تیری اولاد کے غم سے ہے بروے گردوں
سلک اختر میں مہ نو مژۂ گوہر بار
مدح میں تیری نہاں زمزمۂ نعت نبی
جام تیرے عیاں بادۂ جوش اسرار


ہم عبادت کو ترا نقش قدم مہر نماز
ہم ریاضت کو ترے حوصلے سے استظہار
تیرا پیمانۂ مے نسخہ ادوار ظہور
تیرا نقش قدم آئینہ شان اظہار


آیت رحمت حق بسملۂ مصحف ناز
مسطر موجۂ دیباچۂ درس اسرار
قبلۂ نور نظر کعبۂ اعجاز مسیح
مژۂ دیدۂ نخچیر سے نبض بیمار


تہمت بے خودی کفر نہ کھینچے یارب
کمی ربط نیاز و خط ناز بسیار
ناز پروردۂ صد رنگ تمنا ہوں ولے
پرورش پائی ہے جوں غنچہ بہ خون اظہار


تنگی حوصلہ گرداب دو عالم آداب
دید یک غنچہ سے ہوں بسمل نقصان بہار
رشک نظارہ تھی یک برق تجلی کہ ہنوز
تشنۂ خون دو عالم ہوں بہ عرض تکرار


وحشت فرصت یک جیب کشش نے کھویا
صورت رنگ حنا ہاتھ سے دامان بہار
شعلہ آغاز ولے حیرت داغ انجام
موج مے لیک زسر تا قدم آغوش خمار


ہے اسیر ستم کشمکش دام وفا
دل وارستۂ ہفتا دو دو ملت بیزار
مژۂ خواب سے کرتا ہوں بآسایش درد
بخیۂ زخم دل چاک بہ یک دستہ شرار


محرم درد گرفتاری مستی معلوم
ہوں نفس سے صفت نغمہ بہ بند رگ تار
تھا سر سلسلہ جنبانی صد عمر ابد
سازہا مفت بہ ریشم کدۂ نالۂ زار


لیکن اس رشتۂ تحریر میں سر تا سر فکر
ہوں بہ قدر عدد حرف علی سبحہ شمار
جوہر دست دعا آئنہ یعنی تاثیر
یک طرف نازش مژگان و دگر سو غم خار


مردمک سے ہو عزا خانۂ اقبال نگاہ
خاک در کی ترے جو چشم نہ ہو آئنہ دار
دشمن آل نبی کو بطرب خانۂ دہر
عرض خمیازۂ سیلاب ہو طاق دیوار


دوست اس سلسلۂ ناز کے جوں سنبل و گل
ابر میخانہ کریں ساغر خرشید شکار
لنگر عیش پہ سرشار تماشاے دوام
کہ رہے خون خزاں سے بہ حنا پاے بہار


زلف معشوق کشش سلسلۂ وحشت ناز
دل عاشق شکن آموز خم طرۂ یار
مئے تمثال پری نشۂ مینا آزاد
دل آئینہ طرب ساغر بخت بیدار


دید تا دل اسدؔ آئینۂ یک پر تو شوق
فیض معنی سے خط ساغر راقم سرشار

-


فلک کے جور و جفا نے کیا ہے مجھ کو شکار
ہزار کوس پہ ہے جاے اک تپیدن وار
خراب کوہ و بیابان بیکسی ہوں میں
بہ رنگ صوت جرس ہر طرف ہے میرا گذار


بغیر خوردن خوں کب نہار ٹوٹے ہے
سواے گریۂ صبح اب کہاں ہے آب خمار
لگیں نہ داغ سو کیوں پھیکے میرے سینے پر
نمک نہیں نظر آتا بجز رخ دلدار


سو وہ بھی دیکھنا ملتا نہیں ہے گھر بیٹھے
مگر ہوں ہند میں رسواے کوچہ و بازار
سواے نالۂ جاں سوز کون ہے دل سوز
بغیر آہ سحرگاہ کون ہے غم خوار


جنوں میں جب سے خوش آیا لباس عریانی
نہیں ہے دامن صحرا میں تب سے مجھ کو قرار
ہمیشہ ساتھ ہے دامن سوار لڑکوں کے
مگرکہ خاک وفا سے بنا ہے میرا غبار


عجب ہے مجھ کو جو تو دیکھنے نہیں آتا
رہا ہوں ایک تری انکھڑیوں کا میں بیمار
مطلع ثانی
ہوا ہوں جور فلک سے نپٹ ہی زار و نزار


پہنچیو یا خلف الصدق حیدر کرار
شہا غلام کو تیرے یہ زور بازو ہے
کہ وقت جنگ جو لے کر کماں کو ہووے سوار
اگر پہاڑ ہو دشمن تو اس کے سینے میں


کماں سے چھوٹتے ہی تیر بند ہو سوفار
لگاوے پھر وہیں دوچار ایسی پے درپے
کہ ایک کا ہو نشاں دوسرے کی جاے قرار
کرے ہے فخر بہت اوج پر فلک شاہا


رضا جو ہو تو کروں تیرے روضے کا بستار
کہ انفعال ہو لاف و گزاف سے اس کو
زمیں ہے صحن کی جس کے یہ گنبد دوار
کرے ہے جوہر اول نگاہ جس ساعت


تو ایک ہاتھ سے تھانبے ہے سر اپر دستار
امام ہر دوجہاں جس کی آستاں کی خاک
رکھے ہے رتبۂ کحل جواہر الابصار
زہے وہ روضہ جہاں دیدۂ ملک ہیں فرش


قدم کو رکھتے ہوئے ان پہ آتے ہیں زوار
اگر طلوع ہو خورشید سامنے اس کے
ہر ایک ذرے کو واں کے ہے یہ لب گفتار
کوئی کہے کہ یہ کیا شوخ چشم شپر ہے


کوئی کہے کہ یہ ہے موش کور ناہموار
لیا ہے روز سیہ نے بہت اسے گھبرا
چلی ہے چھوڑ کے حیراں ہو رخنۂ دیوار
شعاع روضے کے قبے کی ہے گی عالمگیر


پھرے گا سایۂ شب اب جہاں میں ہوتا خوار
بہ صانعے کہ یہ نقاشیاں ہیں سب اس کی
زمیں ہو یا ہو فلک یا حجر ہوں یا اشجار
بہ احمدےؐ کہ نبوت ہوئی ہے اس پر ختم


بہ فاطمہؓ کہ وہ ہے بنت سید مختار
بہ مرتضےٰؓ کہ ولایت مسخر ان نے کی
بہادری ہے غلاموں کی جس کے فن و شعار
بہ آں امام کہ کشتہ ہے زہر قاتل کا


گرے ہیں لخت دل اس کے زمیں پہ کٹ کے ہزار
بہ آں شہید کہ تشنہ لب و شکستہ دل
موا ہے دشت بلا میں ہیں اب تلک آثار
کہ جب ہلال محرم نمود ہوتا ہے


جہاں میں کرتے قیامت ہیں اس کے ماتم دار
بہ سینہ سوزی داغ و بہ آتش ہجراں
بہ آہ سرد سحرگاہی و بہ نالۂ زار
بہ سردمہری شیریں بہ کینۂ خسرو


بہ گرم جوشی فرہاد و سختی کہسار
بہ عشق دیر بہ طوف حرم بہ سعی تمام
بہ لوح مشہد عاشق بہ سوز شمع مزار
بہ آب و رنگ گلستاں بہ بیکسی اسیر


کہ اس کو کنج قفس میں رہے ہے باد بہار
بہ ساغر مئے گلگوں بہ توبۂ سنگیں
بہ دل نوازی ساقی بہ ابر دریابار
بہ دستگیری چاک و بہ بے قراری جیب


بہ سینہ کاوی دشنہ بہ زخم دامن دار
بہ حیرت رخ جاناں بہ چشم واماندہ
بہ سعی باطل ناخن بہ عقدۂ دل کار
بہ قلقل و بہ سبو و بہ لغزش ہر دم


بہ مستی مئے ناب و بہ خاطر ہشیار
بہ پوچ گوئی و بے تابی و بہ بے خوابی
بہ کم زبانی صبر و بہ دیدۂ بیدار
بہ دیر و برہمن و کفر و یاصنم گوئی


بہ شیخ و مسجد و تسبیح و رشتۂ زنار
بہ سیل خانہ خراب و بہ وادی مجنوں
بہ جرگہ جرگہ غزالاں بہ دیدۂ خونبار
بہ خوشہ خوشہ سرشک و بہ داربست مژہ


بہ قطرہ قطرہ شراب و بہ جام دست یار
بہ ضعف جسم نزار و بہ طاقت سرکش
بہ جان عاشق مسکیں کہ یار پر ہے نثار
بہ خاک عاشق بے خانماں کہ باد صبا


نہیں دکھاتی اسے بعد مرگ کوچۂ یار
بہ اضطراب چراغ و بہ دشمنی نسیم
بہ خاطر دم آخر کہ اس سے ہے بیزار
بہ دور گردی رنگ قبول و یاس دعا


بہ اعتزاز اجابت بہ حلقۂ اذکار
بہ خیل خیل خرابی بہ گوشۂ صحرا
بہ خوش سوادی شہر و بہ قریہ و بہ دیار
بہ شوق وصل نگار و بہ جان مایوسی


بہ آرزوے ہم آغوشی و بہ بخت کنار
بہ سینہ کوبی زخم جگر بہ ماتم میرؔ
بہ جاں کنی گلوگیر و حسرت دیدار
قسم ہے میرے تئیں ان تمام قسموں کی


کہ تجھ کو علم ہے ان سب کا کیا کروں میں شمار
یہ آرزو ہے مرے دل میں مدتوں سے شہا
رہے نہ بعد مرے ہند میں یہ مشت غبار
اڑا دے اس کو صبا یاں تلک کہ لے پہنچے


تجھ آستان کے آگے کہ ہے فلک کردار
رہے ہمیشہ ترے دوستوں کے ساتھ اقبال
عدو کو تیرے نہ دے فرصت ایک دم ادبار

-


گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
ابھی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرہ
گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بروز شمار
ہوا کرے گی ہر اک سال آشکار گرہ


یقین جان برس گانٹھ کا جو تاگا ہے
یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گرہ
گرہ سے اور گرہ کی امید کیوں نہ بڑھے
کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ


دکھا کے رشتہ کسی جوتشی سے پوچھا تھا
کہ دیکھ کتنی اٹھا لاے گا یہ تار گرہ
کہا کہ چرخ پہ ہم نے گنی ہیں نو گرہیں
جو یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرہ


خود آسماں ہے مہا راؤ راجہ پر صدقے
کرے گا سینکڑوں اس تار پر نثار گرہ
وہ راؤ راجہ بہادر کہ حکم سے جن کے
رواں ہو تار پہ فی الفور دانہ وار گرہ


انھیں کی سال گرہ کے لیے سال بسال
کہ لائے غیب سے غنچوں کی نو بہار گرہ
انھیں کی سالگرہ کے لیے بناتا ہے
ہوا میں بوند کو ابر تگرگ بار گرہ


انھیں کی سالگرہ کی یہ شادمانی ہے
کہ ہو گئے ہیں گہر ہاے شاہوار گرہ
انھیں کی سالگرہ کے لیے ہے یہ توقیر
کہ بن گئے ہیں ثمر ہاے شاخسار گرہ


سن اے ندیم برس گانٹھ کے یہ تاگے نے
پئے دعاے بقاے جناب فیض مآب
لگے گی اس میں ثوابت کی استوار گرہ
ہزار دانے کی تسبیح چاہتا ہے بنے


بلا مبالغہ درکار ہے ہزار گرہ
عطا کیا ہے خدا نے وہ جاذبہ اس کو
کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گرہ
کشادہ رخ نہ پھرے کیوں کہ اس زمانے میں


بچی نہ از پئے بند نقاب یار گرہ
متاع عیش کا ہے قافلہ چلا آتا
کہ جادہ رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گرہ
خدا نے دی ہے وہ غالبؔ کو دستگاہ سخن


کڑوڑوں ڈھونڈھ کے لاتا یہ خاکسار گرہ
کہاں مجال سخن سانس لے نہیں سکتا
پڑی ہے غم کی مرے دل میں پیچ دار گرہ
گرہ کا نام لیا پر نہ کر سکا کچھ بات


زباں تک آ کے ہوئی اور استوار گرہ
کھلے یہ گانٹھ تو البتہ دم نکل جاوے
بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گرہ
ادھر نہ ہوگی توجہ حضور کی جب تک


کبھی کسی سے کھلے گی نہ زینہار گرہ
دعا یہ ہے کہ مخالف کے دل میں از رہ بغض
پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گرہ
دل اس کا پھوڑ کے نکلے بہ شکل پھوڑے کے


خدا کرے کہ کرے اس طرح ابھار گرہ

-


دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
توڑے ہے عجز تنک حوصلہ بر روے زمیں
سجدہ تمثال وہ آئینہ کہیں جس کو جبیں


توڑے ہے نالہ سر رشتۂ پاس انفاس
سر کرے ہے دل حیرت زدہ شغل تسکیں
بے دلی ہاے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہاے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں


ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم
لغو ہے آئنۂ فرق جنون و تمکیں
یاس تمثال بہار آئنۂ استغنا
وہم آئینۂ پیدائی تمثال یقیں


خوں ہوا جوش تمنا سے دو عالم کا دماغ
بزم یاس آں سوے پیدائی و اخفار نگیں
مثل مضمون وفا باد بدست تسلیم
صورت نقش قدم خاک بہ فرق تمکیں


خانہ ویرانی امید و پریشانی بیم
جوش دوزخ ہے خزان چمن خلد بریں
لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم
درد یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں


باد افسانۂ بیمار ہے عیسی کا نفس
استخواں ریزۂ موراں ہے سلیماں کا نگیں
نقش معنی ہمہ خمیازۂ عرض صورت
سخن حق ہمہ پیمانۂ ذوق تحسیں


عشق بے ربطی شیرازۂ اجزاے حواس
وصل زنگار رخ آئنۂ حسن یقیں
کوہ کن گر سنہ مزدور طرب گاہ رقیب
بے ستوں آئنۂ خواب گران شیریں


موج خمیازۂ یک نشہ چہ اسلام و چہ کفر
کجی یک خط مسطر چہ توہم چہ یقیں
قبلہ و ابروے بت یک رہ خوابیدۂ شوق
کعبہ و بت کدہ یک محمل خواب رنگیں


کس نے دیکھا نفس اہل وفا آتش خیز
کس نے پایا اثر نالۂ دل ہاے حزیں
عیش بسمل کدۂ عید حریفاں معلوم
خوں ہو آئینہ کہ ہو جامۂ طفلاں رنگیں


سامع زمزمۂ اہل جہاں ہوں لیکن
نہ سر و برگ ستایش نہ دماغ نفریں
نزع مخمور ہوں اس دید کی دھن میں کہ مجھے
رشتۂ ساز ازل ہے نگہ باز پسیں


حیرت آفت زدۂ عرض دو عالم نیرنگ
موم آئینۂ ایجاد ہے مغز تمکیں
وحشت دل سے پریشاں ہیں چراغان خیال
باندھوں ہوں آئنے پر چشم پری سے آئیں


کوچہ دیتا ہے پریشاں نظری پر صحرا
رم آہو کو ہے ہر ذرے کی چشمک میں کمیں
چشم امید سے گرتے ہیں دو عالم جوں اشک
یاس پیمانہ کش گریۂ مستانہ نہیں


کس قدر فکر کو ہے نال قلم موے دماغ
کہ ہوا خوں نگہ شوق میں نقش تمکیں
عذر لنگ آفت جولان ہوس ہے یارب
جل اٹھے گرمی رفتار سے پاے چوبیں


نہ تمنا نہ تماشا نہ تحیر نہ نگاہ
گرد جوہر میں ہے آئینۂ دل پردہ نشیں
کھینچوں ہوں آئنے پر خندۂ گل سے مسطر
نامہ عنوان بیان دل آزردہ نہیں


رنج تعظیم مسیحا نہیں اٹھتا مجھ سے
درد ہوتا ہے مرے دل میں جو توڑوں بالیں
بس کہ گستاخی ارباب جہاں سے ہوں ملول
پر پروانہ مری بزم میں ہے خنجر کیں


اے عبارت تجھے کس خط سے ہے درس نیرنگ
اے نگہ تجھ کو کہے کس نقطے میں مشق تسکیں
کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں


جلوۂ ریگ رواں دیکھ کے گردوں ہر صبح
خاک پر توڑے ہے آئینۂ ناز پرویں
شور اوہام سے مت ہو شب خون انصاف
گفتگو بے مزہ و زخم تمنا نمکیں


ختم کر ایک اشارت میں عبارات نیاز
جوں مہ نو ہے نہاں گوشہ ابرو میں جبیں
نقش لاحول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی عرض کر اے فطرت وسواس قریں


معنی لفظ کرم بسملۂ نسخۂ حسن
قبلۂ اہل نظر کعبۂ ارباب یقیں
جلوہ رفتار سر جادۂ شرع تسلیم
نقش پا جس کا ہے توحید کو معراج جبیں


کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب
شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں
ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرم خرام
ہر کف خاک ہے واں گروۂ تصویر زمیں


مظہر فیض خدا جان و دل ختم رسل
قبلۂ آل نبی کعبۂ ایجاد یقیں
نسبت نام سے اس کے ہے یہ رتبہ کہ رہے
ابدا پشت فلک خم شدۂ ناز زمیں


جلوہ پرواز ہو نقش قدم اس کا جس جا
وہ کف خاک ہے ناموس دو عالم کی امیں
فیض خلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا
بوے گل سے نفس باد صبا عطر آگیں


برش تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہوجائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں
کوہ کو بیم سے اس کے ہے جگر باختگی
نہ کرے نذر صدا ورنہ متاع تمکیں


کفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگ عاشق کی طرح رونق بت خانۂ چیں
وصف دلدل ہے مرے مطلع ثانی کی بہار
جنت نقش قدم سے ہوں میں اس کی گلچیں


مطلع (ثانی
گرد رہ سرمہ کش دیدۂ ارباب یقیں
نقش ہر گام دو عالم صفہاں زیر نگیں
برگ گل کا ہو جو طوفان ہوا میں عالم


اس کے جولاں میں نظر آے ہے یوں دامن زیں
اس کی شوخی سے بہ حیرت کدہ نقش خیال
فکر کو حوصلۂ فرصت ادراک نہیں
جلوۂ برق سے ہوجائے نگہ عکس پذیر


اگر آئینہ بنے حیرت صورت گرچیں
جاں پناہا دل و جاں فیض رسانا شاہا
وصی ختم رسل تو ہے بفتواے یقیں
ذوق گلچینی نقش کف پا سے تیرے


عرش چاہے ہے کہ ہو در پہ ترے خاک نشیں
تجھ میں اور غیر میں نسبت ہے و لیکن بہ تضاد
وصی ختم رسل تو ہے باثبات یقیں
جسم اطہر کو ترے دوش پیمبر منبر


نام نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں
تیری مدحت کے لیے ہیں دل و جاں کام و زباں
تیری تسلیم کو ہیں لوح و قلم دست و جبیں
آستاں پر ہے ترے جوہر آئینۂ سنگ


رقم بندگی حضرت جبریل امیں
تیرے در کے کیے اسباب نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں
داد دیوانگی دل کہ ترا مدحت گر


ذرے سے باندھے ہے خرشید فلک پر آئیں
کس سے ہوسکتی ہے مداحی ممدوح خدا
کس سے ہوسکتی ہے آرایش فردوس بریں
جنس بازار معاصی اسد اللہ اسدؔ


کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں
شوخی عرض مطالب میں ہے گستاخ طلب
ہے ترے حوصلۂ فضل پر از بس کہ یقیں
دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسن قبول


کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں
غم شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خون جگر سے مری آنکھیں رنگیں
طبع کو الفت دلدل میں یہ سرگرمی شوق


کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں
دل الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہ جلوہ پرست و نفس صدق گزیں
صرف اعدا اثر شعلہ و دود دوزخ


وقف احباب گل و سنبل فردوس بریں

-