غمگین شاعری
غم کی گہرائیوں میں ڈوب کر
غمگین شاعری کے عالم میں ڈوبیں، جہاں ہر شعر گہرے افسوس، نقصان، اور جذبات کو بیان کرتا ہے ۔ اس شاعری مجموعہ میں ماہیت ، بیشکی، اور انسانی حس و جذبات کی گہرائی کا احساس ہوتا ہے۔
اے شہ عالی مقام تجھ پہ درود و سلام
بعد ہزاراں سلام تجھ پہ درود و سلام
اے شہ من الوداع وے مہ من الفراق
اے گل تر السلام تجھ پہ درود و سلام
آوے ہے بے اختیار صل علیٰ لب پہ ساتھ
لیتے ہیں جب تیرا نام تجھ پہ درود و سلام
راہرو راہ راست قطرہ زناں گریہ ناک
کہتے گئے گام گام تجھ پہ درود و سلام
بھیجتے ہیں صبح و شام بعد قعود و قیام
اہل مساجد تمام تجھ پہ درود و سلام
کیا کہے غیر از سکوت داور محشر اگر
چاہیں ترا انتقام تجھ پہ دورد و سلام
واہ رے اسلام و دیں سبط محمدؐ سے کیں
قتل بھی پھر قتل عام تجھ پہ درود و سلام
آہ لب آب سب تجھ پہ یہ رنج و تعب
جی سے گیا تشنہ کام تجھ پہ درود و سلام
کیا کہیں ہم یا امام دل کے تئیں تھام تھام
کہتے ہیں ہر صبح و شام تجھ پہ درود و سلام
حرف ہو کچھ تو کہیں تیرے تقدس کے بیچ
کہتے ہیں ہم لاکلام تجھ پہ درود و سلام
مردم پیشیں سے گر پیچھے ہے تیرا ظہور
پر تو ہے سب کا امام تجھ پہ درود و سلام
روکے ترے رنگ سے خوبی تھی اس باغ کی
اے گل خیرالانام تجھ پہ درود و سلام
جی سے گیا اپنے تو ہوکے کھڑا جس جگہ
واں تھا قیامت قیام تجھ پہ درود و سلام(۱)
اب کہے سو کیا کہے میرؔ زمانہ زدہ
روز و شب و صبح و شام تجھ پہ درود و سلام
بعد ہزاراں سلام تجھ پہ درود و سلام
اے شہ من الوداع وے مہ من الفراق
اے گل تر السلام تجھ پہ درود و سلام
آوے ہے بے اختیار صل علیٰ لب پہ ساتھ
لیتے ہیں جب تیرا نام تجھ پہ درود و سلام
راہرو راہ راست قطرہ زناں گریہ ناک
کہتے گئے گام گام تجھ پہ درود و سلام
بھیجتے ہیں صبح و شام بعد قعود و قیام
اہل مساجد تمام تجھ پہ درود و سلام
کیا کہے غیر از سکوت داور محشر اگر
چاہیں ترا انتقام تجھ پہ دورد و سلام
واہ رے اسلام و دیں سبط محمدؐ سے کیں
قتل بھی پھر قتل عام تجھ پہ درود و سلام
آہ لب آب سب تجھ پہ یہ رنج و تعب
جی سے گیا تشنہ کام تجھ پہ درود و سلام
کیا کہیں ہم یا امام دل کے تئیں تھام تھام
کہتے ہیں ہر صبح و شام تجھ پہ درود و سلام
حرف ہو کچھ تو کہیں تیرے تقدس کے بیچ
کہتے ہیں ہم لاکلام تجھ پہ درود و سلام
مردم پیشیں سے گر پیچھے ہے تیرا ظہور
پر تو ہے سب کا امام تجھ پہ درود و سلام
روکے ترے رنگ سے خوبی تھی اس باغ کی
اے گل خیرالانام تجھ پہ درود و سلام
جی سے گیا اپنے تو ہوکے کھڑا جس جگہ
واں تھا قیامت قیام تجھ پہ درود و سلام(۱)
اب کہے سو کیا کہے میرؔ زمانہ زدہ
روز و شب و صبح و شام تجھ پہ درود و سلام
-
سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اس سے سوا کہیں اس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستایش ہے
کہو کہ خامس آل عبا کہیں اس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی
کہو کہ رہبر راہ خدا کہیں اس کو
خدا کا بندہ خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند کیا کہیں اس کو
فروغ جوہر ایماں حسین ابن علی
کہ شمع انجمن کبریا کہیں اس کو
کفیل بحشش امت ہے بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافع روز جزا کہیں اس کو
مسیح جس سے کرے اخذ فیض جاں بخشی
ستم ہے کشتۂ تیغ جفا کہیں اس کو
وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہید تشنہ لب کربلا کہیں اس کو
عدو کے سمع رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جن و انس و ملک سب بجا کہیں اس کو
بہت ہے پایۂ گرد رہ حسین بلند
بقدر فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو
نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرہ خاک
کہ لوگ جوہر تیغ قضا کہیں اس کو
ہمارے درد کی یارب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اس کو
ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسن صبر کی داد
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اس کو
زمام ناقہ کف اس کے میں ہے کہ اہل یقیں
پس از حسین علی پیشوا کہیں اس کو
وہ ریگ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبان خدا رہنما کہیں اس کو
امام وقت کی یہ قدر ہے کہ اہل عناد
پیادہ لے چلیں اور نا سزا کہیں اس کو
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں
علی سے آ کے لڑے اور خطا کہیں اس کو
یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
برا نہ مانیے گر ہم برا کہیں اس کو
علی کے بعد حسن اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے برائی بھلا کہیں اس کو
نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض کیا کہیں اس کو
بھرا ہے غالبؔ دلخستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اس سے سوا کہیں اس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستایش ہے
کہو کہ خامس آل عبا کہیں اس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی
کہو کہ رہبر راہ خدا کہیں اس کو
خدا کا بندہ خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند کیا کہیں اس کو
فروغ جوہر ایماں حسین ابن علی
کہ شمع انجمن کبریا کہیں اس کو
کفیل بحشش امت ہے بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافع روز جزا کہیں اس کو
مسیح جس سے کرے اخذ فیض جاں بخشی
ستم ہے کشتۂ تیغ جفا کہیں اس کو
وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہید تشنہ لب کربلا کہیں اس کو
عدو کے سمع رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جن و انس و ملک سب بجا کہیں اس کو
بہت ہے پایۂ گرد رہ حسین بلند
بقدر فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو
نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرہ خاک
کہ لوگ جوہر تیغ قضا کہیں اس کو
ہمارے درد کی یارب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اس کو
ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسن صبر کی داد
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اس کو
زمام ناقہ کف اس کے میں ہے کہ اہل یقیں
پس از حسین علی پیشوا کہیں اس کو
وہ ریگ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبان خدا رہنما کہیں اس کو
امام وقت کی یہ قدر ہے کہ اہل عناد
پیادہ لے چلیں اور نا سزا کہیں اس کو
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں
علی سے آ کے لڑے اور خطا کہیں اس کو
یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
برا نہ مانیے گر ہم برا کہیں اس کو
علی کے بعد حسن اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے برائی بھلا کہیں اس کو
نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض کیا کہیں اس کو
بھرا ہے غالبؔ دلخستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اس کو
-
اے گل خوش رنگ گلزار شہادت السلام
تیری مظلومی کی سب دیں گے شہادت السلام
جور دیکھے تونے کیا کیا لال سنگ جور سے
اے کہ گذری تیرے اوپر سخت حالت السلام
شام کے لوگوں نے تجھ کو یوں مکدر کردیا
اے مہ تابندۂ برج امامت السلام
کارواں در کارواں بار الم تجھ سے کھنچا
حوصلہ کس کا جو کھینچے یہ ملالت السلام
قامت دلکش ترا بے سر پڑا تھا خاک میں
کربلا میں تجھ پہ گذری ہے قیامت السلام
ہائے غیبت میں تری عالم سیہ سب ہوگیا
اے فروغ چہرۂ صبح سعادت السلام
تند باد ظلم نے تجھ کو دیا سا گل کیا
اے کہ تو تھا زیب ایوان رسالت السلام
کب عقیدے میں محبوں کے برابر ہوسکے
ایک سجدے سے ترے صدسالہ طاعت السلام
میرؔ کم گو کبریا تیری بیاں کب کرسکے
تو ہی اپنی جانے ہے قدر و جلالت السلام
تیری مظلومی کی سب دیں گے شہادت السلام
جور دیکھے تونے کیا کیا لال سنگ جور سے
اے کہ گذری تیرے اوپر سخت حالت السلام
شام کے لوگوں نے تجھ کو یوں مکدر کردیا
اے مہ تابندۂ برج امامت السلام
کارواں در کارواں بار الم تجھ سے کھنچا
حوصلہ کس کا جو کھینچے یہ ملالت السلام
قامت دلکش ترا بے سر پڑا تھا خاک میں
کربلا میں تجھ پہ گذری ہے قیامت السلام
ہائے غیبت میں تری عالم سیہ سب ہوگیا
اے فروغ چہرۂ صبح سعادت السلام
تند باد ظلم نے تجھ کو دیا سا گل کیا
اے کہ تو تھا زیب ایوان رسالت السلام
کب عقیدے میں محبوں کے برابر ہوسکے
ایک سجدے سے ترے صدسالہ طاعت السلام
میرؔ کم گو کبریا تیری بیاں کب کرسکے
تو ہی اپنی جانے ہے قدر و جلالت السلام
-
اے سبط مصطفےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
اے جان مرتضےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
اے حکم کش قضا کے تجھ کو سلام پہنچے
اے غمزدہ سدا کے تجھ کو سلام پہنچے
بابا شہ ولایت نانا کی خلق امت
دریا کنارے اترے سارے وہ بے مروت
تو تشنہ کام تنہا یہ رنج یہ مصیبت
اے مبتلا بلا کے تجھ کو سلام پہنچے
بیٹے بھتیجے بھائی یار و رفیق سارے
ساقی کوثر آگے کیا تشنہ لب سدھارے
پانی جو تونے مانگا سو تیر تجھ کو مارے
اے خستہ دل جفا کے تجھ کو سلام پہنچے
اللہ ری تیری عزت مرنا جو تونے ٹھانا
زنہار منھ نہ پھیرا گو پھر گیا زمانہ
آتا ہے کس سے ایسا بیکس ہو مارے جانا
اے دل زدہ رضا کے تجھ کو سلام پہنچے
برسا کی تیغ لیکن تونے سپر نہ رکھی
دریا بہا کیا پر تونے نظر نہ رکھی
کیا کہیے جب توجہ ٹک جان پر نہ رکھی
کشتہ ہیں اس وفا کے تجھ کو سلام پہنچے
تسلیم کا رضا کا دیکھا ترا عجب ڈھب
وقت بریدن سر سجدے میں تھا مودب
یہ بندگی الٰہی یہ انکسار یارب
اے شوق کش خدا کے تجھ کو سلام پہنچے
مجلس میں گر پڑا تھا گرم آش کا پیالہ
چھینٹیں پڑیں جو تجھ پر سہما وہ لانے والا
غصے کو کھا گیا تو منھ سے نہ کچھ نکالا
اے صاحب اس حیا کے تجھ کو سلام پہنچے
تعریف سے ہے باہر سید ترا یہ ساکا
شائستہ معرکے میں تو ہی تھا اپنی جا کا
اب نقش ہے دلوں پر تیرے ثبات پا کا
اے باب صد ثنا کے تجھ کو سلام پہنچے
درویش بے بضاعت ہے میرؔ دست کوتہ
غیر از سلام تحفہ رکھتا نہیں ہے کچھ وہ
ہر لحظہ اور ہر دم ہر گاہ اور بے گہ
اے شاہ دوسرا کے تجھ کو سلام پہنچے
اے جان مرتضےٰ کے تجھ کو سلام پہنچے
اے حکم کش قضا کے تجھ کو سلام پہنچے
اے غمزدہ سدا کے تجھ کو سلام پہنچے
بابا شہ ولایت نانا کی خلق امت
دریا کنارے اترے سارے وہ بے مروت
تو تشنہ کام تنہا یہ رنج یہ مصیبت
اے مبتلا بلا کے تجھ کو سلام پہنچے
بیٹے بھتیجے بھائی یار و رفیق سارے
ساقی کوثر آگے کیا تشنہ لب سدھارے
پانی جو تونے مانگا سو تیر تجھ کو مارے
اے خستہ دل جفا کے تجھ کو سلام پہنچے
اللہ ری تیری عزت مرنا جو تونے ٹھانا
زنہار منھ نہ پھیرا گو پھر گیا زمانہ
آتا ہے کس سے ایسا بیکس ہو مارے جانا
اے دل زدہ رضا کے تجھ کو سلام پہنچے
برسا کی تیغ لیکن تونے سپر نہ رکھی
دریا بہا کیا پر تونے نظر نہ رکھی
کیا کہیے جب توجہ ٹک جان پر نہ رکھی
کشتہ ہیں اس وفا کے تجھ کو سلام پہنچے
تسلیم کا رضا کا دیکھا ترا عجب ڈھب
وقت بریدن سر سجدے میں تھا مودب
یہ بندگی الٰہی یہ انکسار یارب
اے شوق کش خدا کے تجھ کو سلام پہنچے
مجلس میں گر پڑا تھا گرم آش کا پیالہ
چھینٹیں پڑیں جو تجھ پر سہما وہ لانے والا
غصے کو کھا گیا تو منھ سے نہ کچھ نکالا
اے صاحب اس حیا کے تجھ کو سلام پہنچے
تعریف سے ہے باہر سید ترا یہ ساکا
شائستہ معرکے میں تو ہی تھا اپنی جا کا
اب نقش ہے دلوں پر تیرے ثبات پا کا
اے باب صد ثنا کے تجھ کو سلام پہنچے
درویش بے بضاعت ہے میرؔ دست کوتہ
غیر از سلام تحفہ رکھتا نہیں ہے کچھ وہ
ہر لحظہ اور ہر دم ہر گاہ اور بے گہ
اے شاہ دوسرا کے تجھ کو سلام پہنچے
-
اے شہ اقلیم شوکت السلام
رونق تخت خلافت السلام
اختر چرخ سیادت الصلوٰۃ
نیر برج سعادت السلام
تو جو ناگہ خانہ روشن کر گیا
تیرہ ہے بزم رسالت السلام
مقتدا تو پیشواؤں کا رہا
تجھ کو زیبا تھی امامت السلام
تو ہے جس پر دم بہ دم بھیجیں درود
یا کہیں ساعت بہ ساعت السلام
کربلا میں تو جہاں قائم رہا
تھا قیام اس جا قیامت السلام
بات کہتے جان اپنی دے گیا
اے تمامی جود و ہمت السلام
امتحان حق سے یوں نکلا ہے کون
اللہ اللہ تیری غیرت السلام
وادی بے آب میں تو کیا کھلا
اے گل باغ شہادت السلام
غم میں تیرے خاک ہو کیونکر نہ میرؔ
سخت تھی اس کو کدورت السلام
رونق تخت خلافت السلام
اختر چرخ سیادت الصلوٰۃ
نیر برج سعادت السلام
تو جو ناگہ خانہ روشن کر گیا
تیرہ ہے بزم رسالت السلام
مقتدا تو پیشواؤں کا رہا
تجھ کو زیبا تھی امامت السلام
تو ہے جس پر دم بہ دم بھیجیں درود
یا کہیں ساعت بہ ساعت السلام
کربلا میں تو جہاں قائم رہا
تھا قیام اس جا قیامت السلام
بات کہتے جان اپنی دے گیا
اے تمامی جود و ہمت السلام
امتحان حق سے یوں نکلا ہے کون
اللہ اللہ تیری غیرت السلام
وادی بے آب میں تو کیا کھلا
اے گل باغ شہادت السلام
غم میں تیرے خاک ہو کیونکر نہ میرؔ
سخت تھی اس کو کدورت السلام
-
ساقی کوثر کے پیارے السلام
تشنہ لب سید ہمارے السلام
صبح تیرے قتل کی تھی صبح قیر
شام کے لوگوں کے مارے السلام
آسماں خم ہے تری تعظیم میں
تیرے ساجد ہیں ستارے السلام
تھے ہزاروں خصم جانی اس طرف
تم گئے بیکس بچارے السلام
فوج دشمن کی جو چڑھ آئی تمام
تم ہوئے ایک ایک اتارے السلام(۱)
بحر خوں میں غرق ہو چھوٹے بڑے
لگ گئے تم سب کنارے السلام
گور میں لاشیں تمھاری بے نماز
تم امام دیں تھے سارے السلام
راہ حق میں تجھ سے جانبازی ہوئی
بے خطر سر دینے ہارے السلام
کیا کہے اب میرؔ غم کش اس سوا
کاے ہمیشہ کے دکھارے السلام
تشنہ لب سید ہمارے السلام
صبح تیرے قتل کی تھی صبح قیر
شام کے لوگوں کے مارے السلام
آسماں خم ہے تری تعظیم میں
تیرے ساجد ہیں ستارے السلام
تھے ہزاروں خصم جانی اس طرف
تم گئے بیکس بچارے السلام
فوج دشمن کی جو چڑھ آئی تمام
تم ہوئے ایک ایک اتارے السلام(۱)
بحر خوں میں غرق ہو چھوٹے بڑے
لگ گئے تم سب کنارے السلام
گور میں لاشیں تمھاری بے نماز
تم امام دیں تھے سارے السلام
راہ حق میں تجھ سے جانبازی ہوئی
بے خطر سر دینے ہارے السلام
کیا کہے اب میرؔ غم کش اس سوا
کاے ہمیشہ کے دکھارے السلام
-
اے بدخشان نبیؐ کے لعل احمر السلام
وے گلستان علی کے لالۂ تر السلام
ایک ساعت ہی میں امت پھر گئی نانا کی سب
کیا قیامت لائی تیرے سر کے اوپر السلام
بوند بھر پانی نہ دریا پر تجھے پینے دیا
اے تمناے دل ساقی کوثر السلام
سب کنارے لگ گئے تو بحر خوں میں غرق ہے
اے کنار مصطفےٰؐ کے نازپرور السلام
تو تو شاہ دیں تھا ایسا ہو کے بیکس کیوں موا
اب نہ تن پر سر ہے نے سر پر ہے افسر السلام
بات کو بے پردہ کہیے کس طرح اب تجھ سے ہائے
ہیں حرم کے لوگ سب محتاج چادر السلام
کیا ستم کشیاں بیاں تیری کرے دل خستہ میرؔ
نام تیرا سن کے آنکھیں ہوتی ہیں تر السلام
وے گلستان علی کے لالۂ تر السلام
ایک ساعت ہی میں امت پھر گئی نانا کی سب
کیا قیامت لائی تیرے سر کے اوپر السلام
بوند بھر پانی نہ دریا پر تجھے پینے دیا
اے تمناے دل ساقی کوثر السلام
سب کنارے لگ گئے تو بحر خوں میں غرق ہے
اے کنار مصطفےٰؐ کے نازپرور السلام
تو تو شاہ دیں تھا ایسا ہو کے بیکس کیوں موا
اب نہ تن پر سر ہے نے سر پر ہے افسر السلام
بات کو بے پردہ کہیے کس طرح اب تجھ سے ہائے
ہیں حرم کے لوگ سب محتاج چادر السلام
کیا ستم کشیاں بیاں تیری کرے دل خستہ میرؔ
نام تیرا سن کے آنکھیں ہوتی ہیں تر السلام
-
السلام اے کام جان مصطفےٰؐ
السلام اے یادگار مرتضےٰ
السلام اے مقصد خیرالنسا
السلام اے پیشواے دوسرا
کیا ستم ہے خیمے دریا پر ہوئے
اور بے جاں پانی پانی کر ہوئے
لب نہ اک قطرے سے تیرے تر ہوئے
السلام اے تشنہ کام کربلا
زندگانی کی ہے تونے کیا کٹھن
آ مدینے سے ہوا غربت وطن
مر گئے پر اب نہ تربت نے کفن
السلام اے کشتۂ تیغ جفا
چارہ گر سب تیرے بیچارے گئے
دونوں بیٹے کیا ترے پیارے گئے
یار بھائی سب ترے مارے گئے
السلام اے بیکس دشت وغا
گھر ترا یک بار ویراں ہوگیا
دم نہ مارا گوکہ بے جاں ہوگیا
خاک سے مل کر تو یکساں ہوگیا
السلام اے رفتۂ راہ رضا
ماجرا تیرا نہایت ہے شگرف
رنج میں طاقت ہوئی سب تیری صرف
خوں ہوا دل پر نہ نکلا منھ سے حرف
السلام اے غنچۂ باغ حیا
شان کیا کیسی امارت تیرے بعد
ہوگیا اسباب غارت تیرے بعد
پچھلوں کی اب ہے حقارت تیرے بعد
السلام اے لائق مدح و ثنا
گوش زد ایسا نہیں ظلم عیاں
طعن کے ہمراہ پھر تیغ و سناں
غم سا تیرا غم ہو تو کریے بیاں
السلام اے مبتلاے صدبلا
کس جگہ آیا کہ یوں حیراں ہوا
کن سیہ کاسوں کا تو مہماں ہوا
کس قدر محتاج آب و ناں ہوا
السلام اے خلق کے حاجت روا
تجھ سے خوبی امامت چارچند
تیرا رایت تھا ولایت میں بلند
تیرے در کا ہر گدا اقبال مند
السلام اے شاہ اقلیم ولا
تیرے سجدے میں سدا اہل یقیں
صبح خیزوں کی ترے در پر جبیں
وائے شامی جن کو تجھ سے بغض و کیں
السلام اے قبلۂ اہل صفا
حیف تو افسوس تو اے آہ تو
نے نے رحمت تو زہے تو واہ تو
جی سے گذرا فی سبیل اللہ تو
السلام اے عاشق طرز فنا
سانحہ تیرا بھی یاں ہے یادگار
دل جگر لے کر گیا دونوں فگار
اک پسر چھوڑا ہے سو بیمار و زار
السلام اے دردمندوں کی دوا
دل کو تیری آرزو ہر صبح و شام
جی کو تیری ہی تمنا ہے مدام
جان و دل صدقے کیے حاصل کلام
السلام اے جان و دل کے مدعا
چشم رکھیں تجھ سے سب درویش و شاہ
کج رکھیں تیرے بھروسے پر کلاہ
آفتاب حشر سے دے تو پناہ
السلام اے سایۂ لطف خدا
میرؔ داخل ظلم کے ماروں میں ہے
یعنی تیرے تعزیت داروں میں ہے
مرحمت کر گو گنہگاروں میں ہے
السلام اے شافع روز جزا
السلام اے یادگار مرتضےٰ
السلام اے مقصد خیرالنسا
السلام اے پیشواے دوسرا
کیا ستم ہے خیمے دریا پر ہوئے
اور بے جاں پانی پانی کر ہوئے
لب نہ اک قطرے سے تیرے تر ہوئے
السلام اے تشنہ کام کربلا
زندگانی کی ہے تونے کیا کٹھن
آ مدینے سے ہوا غربت وطن
مر گئے پر اب نہ تربت نے کفن
السلام اے کشتۂ تیغ جفا
چارہ گر سب تیرے بیچارے گئے
دونوں بیٹے کیا ترے پیارے گئے
یار بھائی سب ترے مارے گئے
السلام اے بیکس دشت وغا
گھر ترا یک بار ویراں ہوگیا
دم نہ مارا گوکہ بے جاں ہوگیا
خاک سے مل کر تو یکساں ہوگیا
السلام اے رفتۂ راہ رضا
ماجرا تیرا نہایت ہے شگرف
رنج میں طاقت ہوئی سب تیری صرف
خوں ہوا دل پر نہ نکلا منھ سے حرف
السلام اے غنچۂ باغ حیا
شان کیا کیسی امارت تیرے بعد
ہوگیا اسباب غارت تیرے بعد
پچھلوں کی اب ہے حقارت تیرے بعد
السلام اے لائق مدح و ثنا
گوش زد ایسا نہیں ظلم عیاں
طعن کے ہمراہ پھر تیغ و سناں
غم سا تیرا غم ہو تو کریے بیاں
السلام اے مبتلاے صدبلا
کس جگہ آیا کہ یوں حیراں ہوا
کن سیہ کاسوں کا تو مہماں ہوا
کس قدر محتاج آب و ناں ہوا
السلام اے خلق کے حاجت روا
تجھ سے خوبی امامت چارچند
تیرا رایت تھا ولایت میں بلند
تیرے در کا ہر گدا اقبال مند
السلام اے شاہ اقلیم ولا
تیرے سجدے میں سدا اہل یقیں
صبح خیزوں کی ترے در پر جبیں
وائے شامی جن کو تجھ سے بغض و کیں
السلام اے قبلۂ اہل صفا
حیف تو افسوس تو اے آہ تو
نے نے رحمت تو زہے تو واہ تو
جی سے گذرا فی سبیل اللہ تو
السلام اے عاشق طرز فنا
سانحہ تیرا بھی یاں ہے یادگار
دل جگر لے کر گیا دونوں فگار
اک پسر چھوڑا ہے سو بیمار و زار
السلام اے دردمندوں کی دوا
دل کو تیری آرزو ہر صبح و شام
جی کو تیری ہی تمنا ہے مدام
جان و دل صدقے کیے حاصل کلام
السلام اے جان و دل کے مدعا
چشم رکھیں تجھ سے سب درویش و شاہ
کج رکھیں تیرے بھروسے پر کلاہ
آفتاب حشر سے دے تو پناہ
السلام اے سایۂ لطف خدا
میرؔ داخل ظلم کے ماروں میں ہے
یعنی تیرے تعزیت داروں میں ہے
مرحمت کر گو گنہگاروں میں ہے
السلام اے شافع روز جزا
-