دل کو چھو جانے والی کہانیاں شاعری
احساسات کا جادو محسوس کریں
کہانیوں سے متاثرہ شاعری کی دنیا میں غوطہ ڈالیں، جہاں اشعار احتیاط سے بنائے گئے ہیں تاکہ جذبات کو پیش کیا جائے اور کہانیوں کی خوشبو کے ساتھ ممکنہ ہو۔ اس شاعری کو اپنی روح کو چھونے اور آپ کے اندر مختلف جذبات کی لہر بحرانے دیں۔
(۱)
وہ آدمی جس کے ضمیر میں کانٹا ہے
(ایک غیر ملکی قونصل کے مکتوب جو اس نے اپنے افسر اعلیٰ کو کلکتہ سے روانہ کئے)
۸ اگست ۱۹۴۳ء کلایو اسٹریٹ، مون شائین لا۔
جناب والا،
کلکتہ، ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ہوڑہ پل ہندوستان کا سب سے عجیب و غریب پل ہے۔ بنگالی قوم ہندوستان کی سب سے ذہین قوم ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی ہندوستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ کلکتہ کا ’’سونا گاچی‘‘ ہندوستان میں طوائفوں کا سب سے بڑا بازار ہے۔ کلکتہ کا سندر بن چیتوں کی سب سے بڑی شکار گاہ ہے۔ کلکتہ جوٹ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ کلکتہ کی سب سے بڑھیا مٹھائی کا نام ’’رشوگلا‘‘ ہے۔ کہتے ہیں ایک طوائف نے ایجاد کیا تھا۔ لیکن شومئی قسمت سے وہ اسے پیٹنٹ نہ کراسکی۔ کیوں کہ ان دنوں ہندوستان میں کوئی ایسا قانون موجود نہ تھا۔ اسی لئے وہ طوائف اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھیک مانگتے مری۔ ایک الگ پارسل میں حضور پر نور کی ضیافت طبع کے لئے دو سو ’’روشو گلے‘‘ بھیج رہا ہوں۔ اگر انھیں قیمے کے ساتھ کھایا جائے تو بہت مزا دیتے ہیں۔ میں نے خود تجربہ کیا ہے۔
میں ہوں جناب کا ادنٰی ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخا
قونصل مملکت سانڈ وگھاس برائے کلکتہ۔
9 اگست کلایو اسٹریٹ
جناب والا،
حضور پر نور کی منجھلی بیٹی نے مجھ سے سپیرے کی بین کی فرمائش کی تھی۔ آج شام بازار میں مجھے ایک سپیرا مل گیا۔ پچیس ڈالر دے کر میں نے ایک خوبصورت بین خرید لی ہے۔ یہ بین اسفنج کی طرح ہلکی اور سبک اندام ہے۔ یہ ایک ہندوستانی پھل سے جسے ’’لوکی‘‘ کہتے ہیں، تیار کی جاتی ہے۔ یہ بین بالکل ہاتھ کی بنی ہوئی ہے اور اسے تیار کرتے وقت کسی مشین سے کام نہیں لیا گیا۔ میں نے اس بین پر پالش کرایا اور اسے ساگوان کے ایک خوشنما بکس میں بند کر کے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے بطور تحفہ ارسال کر رہا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی ۔ پٹاخا
۱۰ اگست
کلکتہ میں ہمارے ملک کی طرح راشننگ نہیں ہے۔ غذا کے معاملہ میں ہر شخص کو مکمل شخصی آزادی ہے۔ وہ بازار سے جتنا اناج چاہے خرید لے۔ کل مملکت ٹلی کے قونصل نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ چھبیس قسم کے گوشت کے سالن تھے۔ سبزیوں اور میٹھی چیزوں کے دو درجن کورس تیار کئے گئے تھے۔ (نہایت عمدہ شراب تھی) ہمارے ہاں جیسا کہ حضور اچھی طرح جانتے ہیں پیاز تک کی راشننگ ہے اس لحاظ سے کلکتہ کے باشندے بڑے خوش قسمت ہیں۔
کھانے پر ایک ہندوستانی انجینئر بھی مدعو تھے۔ یہ انجینئر ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ کلکتہ میں قحط پڑا ہوا ہے۔ اس پر ٹلی کا قونصل قہقہہ مار کر ہنسنے لگا اور مجھے بھی اس ہنسی میں شریک ہونا پڑا۔ دراصل یہ پڑھے لکھے، ہندوستانی بھی بڑے جاہل ہوتے ہیں۔کتابی علم سے قطع نظر انھیں اپنے ملک کی صحیح حالت کا کوئی اندازہ نہیں۔ ہندوستان کی دوتہائی آبادی دن رات غلّہ اور بچے پیدا کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
اس لئے یہاں پر غلّے اور بچوں کی کمی کبھی نہیں ہونے پاتی، بلکہ جنگ سے پیشتر تو بہت سا غلہ دساور کو جاتا تھا اور بچے قلی بنا کر جنوبی افریقہ بھیج دیئے جاتے تھے۔ اب ایک عرصے سے قلیوں کا باہر بھیجنا بند کر دیا گیا ہے اور ہندوستانی صوبوں کو ’’ہوم رول‘‘ دے دیا گیا ہے۔ مجھے یہ ہندوستانی انجینئر تو کوئی ایجی ٹیٹر قسم کا خطرناک آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی کے قونصل سے اس کا تذکرہ چھیڑا تو موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی نے بڑے غور و خوض کے بعد یہ رائے دی کہ ہندوستانی اپنے ملک پر حکومت کی قطعاً اہلیت نہیں رکھتا۔ چوں کہ موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقومی معاملات میں ایک خاص مرتبہ حاصل ہے۔ اس لئے میں ان کی رائے وقیع سمجھتا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی۔ پی
۱۱ اگست
آج صبح بولپور سے واپس آیا ہوں۔ وہاں ڈاکٹر ٹیگور کا ’’شانتی نکیتاں‘‘ دیکھا۔ کہنے کو تو یہ ایک یونیورسٹی ہے۔ لیکن پڑھائی کا یہ عالم ہے کہ طالب علموں کو بیٹھنے کے لئے ایک بنچ نہیں۔ استاد اور طالب علم سب ہی درختوں کے نیچے آلتی پالتی مارے بیٹھے رہتے ہیں اور خدا جانے کچھ پڑھتے بھی ہیں یا یوں ہی اونگھتے ہیں۔ میں وہاں سے بہت جلد آیا کیوں کہ دھوپ بہت تیز تھی اور اوپر درختوں کی شاخوں پر چڑیاں شور مچا رہی تھیں۔
ف۔ ب۔ پ
۱۲ اگست
آج چینی قونصل کے ہاں لنچ پر پھر کسی نے کہا کہ کلکتہ میں سخت قحط پڑا ہوا ہے۔ لیکن وثوق سے کچھ نہ کہہ سکا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ ہم سب لوگ حکومت بنگال کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اعلان کے جاری ہوتے ہی حضور کو مزید حالات سے مطلع کروں گا۔ بیگ میں حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے ایک جوتی بھی ارسال کر رہا ہوں۔ یہ جوتی سبز رنگ کے سانپ کی جلد سے بنائی گئی ہے۔ سبز رنگ کے سانپ برما میں بہت ہوتے ہیں، امید ہے کہ جب برما دوبارہ حکومت انگلشیہ کی عملداری میں آ جائے گا تو ان جوتوں کی تجارت کو بہت فروغ حاصل ہو سکے گا۔
میں ہوں جناب کا وغیرہ وغیرہ۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۳ اگست
آج ہمارے سفارت خانے کے باہر دو عورتوں کی لاشیں پائی گئ ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھیں۔ شاید ’’سکھیا‘‘ کی بیماری میں مبتلا تھیں ادھر بنگال میں اور غالباً سارے ہندوستان میں ’’سکھیا‘‘ کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ اس عارضے میں انسان گھلتا جاتا ہے اور آخر میں سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر مر جاتا ہے۔ یہ بڑی خوفناک بیماری ہے۔ لیکن ابھی تک اس کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوا۔ کونین کثرت سے مفت تقسیم کی جا رہی ہے۔ لیکن کونین میگنیشیا یا کسی اور مغربی دوا سے اس عارضے کی شدت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دراصل ایشیائی بیماریوں کو نوعیت مغربی امراض سے مختلف ہے۔ بہت مختلف ہے، یہ اختلاف اس مفروضے کا بدیہی ثبوت ہے کہ ایشیائی اور مغربی دو مختلف انسان ہیں۔
حضور پر نور کی رفیقۂ حیات کے باسٹھویں جنم دن کی خوشی میں بدھ کا ایک مرمر کا بت ارسال کر رہا ہوں۔ اسے میں نے پانسو ڈالر میں خریدا ہے۔ یہ مہاراجہ بندھو سار کے زمانے کا ہے اور مقدس راہب خانے کی زینت تھا۔ حضور پرنور کی رفیقۂ حیات کے ملاقاتیوں کے کمرے میں خوب سجے گا۔
مکرر عرض ہے کہ سفارت خانے کے باہر پڑی ہوئی لاشوں میں ایک بچہ بھی تھا جو اپنی مردہ ماں سے دودھ چوسنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے ہسپتال بھجوا دیا ہے۔
حضور پر نور کا غلام
ایف۔ بی۔ پی
۱۴ اگست
ڈاکٹر نے بچے کو ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بچہ ابھی سفارت خانہ میں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ حضور پر نور کی ہدایت کا انتظار ہے۔ ٹلی کے قونصل نے مشورہ دیا ہے کہ اس بچے کو جہاں سے پایا تھا۔ وہیں چھوڑ دوں۔ لیکن میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ اپنے حکومت کے صدر سے مشورہ کئے بغیر کوئی ایسا اقدام کروں جس کے سیاسی نتائج بھی نہ جانے کتنے مہلک ثابت ہوں۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۶ اگست
آج سفارت خانے کے باہر پھر لاشیں پائی گئیں۔ یہ سب لوگ اسی بیماری کا شکار معلوم ہوتے تھے۔ جس کا میں اپنے گزشتہ مکتوبات میں ذکر کر چکا ہوں۔ میں نے بچے کو انہی لاشوں میں چپکے سے رکھ دیا ہے۔ اور پولیس کو ٹیلی فون کر دیا ہے کہ وہ انھیں سفار خانے کی سیڑھیوں سے اٹھانے کا بندو بست کرے۔ امید ہے آج شام تک سب لاشیں اٹھ جائیں گی۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۷ اگست
کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’سٹیٹسمین‘‘ نے اپنے افتتاحیہ میں آج اس امر کا اعلان کیا ہے کہ کلکتہ میں سخت قحط پھیلا ہوا ہے۔ یہ اخبار چند روز سے قحط زدگان کی تصاویر بھی شائع کر رہا ہے۔ ابھی تک وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فوٹو اصلی ہیں یا نقلی۔ بظاہر تو یہ فوٹو سوکھیا کی بیماری کے پرانیوں کے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن تمام غیر ملکی قونصل اپنی رائے ’’محفوظ‘‘ رکھ رہے ہیں۔
ایف۔ بی۔ پی
۲۰ اگست
سوکھیا کی بیماری کے مریضوں کو اب ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف کلکتہ میں روز دو ڈھائی سو آدمی اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اب یہ بیماری ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ڈاکٹر لوگ بہت پریشان ہیں کیوں کہ کونین کھلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مرض میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوتی۔ ہاضمے کا مکچر میگنیشیا مکسچر اور ٹنکچر آیوڈین پورا برٹش فارما کوپیا بیکار ہے۔
چند مریضوں کا خون لے کر مغربی سائنسدانوں کے پاس بغرض تحقیق بھیجا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ کسی غیر معمولی مغربی ایکسپرٹ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں یا ایک رائل کمیشن بٹھا دیا جائے جو چار پانچ سال میں اچھی طرح چھان بین کر کے اس امر کے متعلق اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر ے۔ الغرض ان غریب مریضوں کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ شد و مد کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے کہ سارے بنگال میں قحط کا دور دورہ ہے اور ہزاروں آدمی ہر ہفتے غذا کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن ہماری نوکرانی (جو خود بنگالن ہے) کا خیال ہے کہ یہ اخبارچی جھوٹ بولتے ہیں۔ جب وہ بازار میں چیزیں خریدنے جاتی ہے تو اسے ہر چیز مل جاتی ہے۔ دام بے شک بڑھ گئے ہیں۔ لیکن یہ مہنگائی تو جنگ کی وجہ سے ناگزیر ہے۔
ایف۔ بی۔ پی۔
۲۵ اگست
آج سیاسی حلقوں نے قحط کی تردید کر دی ہے۔ بنگال اسمبلی نے جس میں ہندوستانی ممبروں اور وزراء کی کثرت ہے۔ آج اعلان کر دیا ہے کہ کلکتہ اور بنگال کا علاقہ ’’قحط زدہ علاقہ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ بنگال میں فی الحال راشننگ نہ ہو گا۔ یہ خبر سن کر غیر ملکی قونصلوں کے دل میں اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اگر بنگال قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا جاتا تو ضرور راشننگ کا فی الفور نفاذ نہ ہوتا اور۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اگر راشننگ کا نفاذ ہوتا تو اس کا اثر ہم لوگوں پر بھی پڑتا۔ موسیوسی گل جو فرنچ قونصل میں کل ہی مجھ سے کہہ رہے تھے کہ عین ممکن ہے کہ راشننگ ہو جائے۔ اس لئے تم ابھی سے شراب کا بندوبست کر لو۔ میں چندر نگر سے فرانسیسی شراب منگوانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ سنا ہے کہ چندر نگر میں کئی سو سال پرانی شراب بھی دستیاب ہوتی ہے۔ بلکہ اکثر شرابیں تو انقلاب فرانس سے بھی پہلے کی ہیں۔ اگر حضور پرنور مطلع فرمائیں تو چند بوتلیں چکھنے کے لئے بھیج دوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ اگست
کل ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں نے نیومارکیٹ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کے لئے چند کھلونے خریدے۔ ان میں ایک چینی کی گڑیا بہت ہی حسین تھی۔ اور ماریا کو بہت پسند تھی۔ میں نے ڈیڑھ ڈالر دے کر وہ گڑیا بھی خرید لی اور ماریا کو انگلی سے لگائے باہر آگیا۔ کار میں بیٹھنے کو تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کی بنگالی عورت نے میرا کوٹ پکڑ کر مجھے بنگالی زبان میں کچھ کہا۔
میں نے اس سے اپنا دامن چھڑا لیا اور کار میں بیٹھ کر اپنے بنگالی شوفر سے پوچھا،’’یہ کیا چاہتی ہے؟‘‘
ڈرائیور بنگالی عورت سے بات کر نے لگا۔ اس عورت نے جواب دیتے ہوئے اپنی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جسے وہ اپنے شانے سے لگائے کھڑی تھی۔ بڑی بڑی موٹی آنکھوں والی زرد زرد بچی بالکل چینی کی گڑیا معلوم ہوتی تھی اور ماریا کی طرف گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔
پھر بنگالی عورت نے تیزی سے کچھ کہا۔ بنگالی ڈرائیور نے اسی سرعت سے جواب دیا۔
’’کیا کہتی ہے یہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ڈرائیور نے اس عورت کی ہتھیلی پر چند سکے رکھے اور کار آگے بڑھائی۔ کار چلاتے چلاتے بولا، ’’حضور یہ اپنی بچی کو بیچنا چاہتی تھی۔ ڈیڑھ روپے میں۔‘‘
’’ڈیڑھ روپے میں، یعنی نصف ڈالر میں؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ارے نصف ڈالر میں تو چینی کی گڑیا بھی نہیں آتی؟‘‘
’’آج کل نصف ڈالر میں بلکہ اس سے بھی کم قیمت پر ایک بنگالی بچی مل سکتی ہے۔‘‘
میں حیرت سے اپنے ڈرائیور کو تکتا رہ گیا۔
اس وقت مجھے اپنے وطن کی تاریخ کا وہ باب یاد آیا۔ جب ہمارے آباو اجداد افریقہ سے حبشیوں کو زبردستی جہاز میں لاد کر اپنے ملک میں لے آتے تھے اور منڈیوں میں غلاموں کی خرید و فروخت کر تے تھے۔ ان دنوں ایک معمولی سے معمولی حبشی بھی پچیس تیس ڈالر سے کم میں نہ بکتا تھا۔ افوہ، کس قدر غلطی ہوئی۔ ہمارے بزرگ اگر افریقہ کے بجائے ہندوستان کا رخ کرتے تو بہت سستے داموں غلام حاصل کر سکتے تھے۔ حبشیوں کے بجائے اگر وہ ہندوستانیوں کی تجارت کرتے تو لاکھوں ڈالر کی بچت ہو جاتی۔ ایک ہندوستانی لڑکی صرف نصف ڈالر میں ! اور ہندوستان کی بھی آبادی چالیس کروڑ ہے۔ گویا بیس کروڑ ڈالر میں ہم پورے ہندوستان کی آبادی کو خرید سکتے تھے۔ ذرا خیال تو فرمائیے کہ بیس کروڑ ڈالر ہوتے ہی کتنے ہیں۔ اس سے زیادہ رقم تو ہمارے وطن میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔
اگر حضور پرنور کی منجھلی بیٹی کو یہ پسند ہو تو میں ایک درجن بنگالی لڑکیاں خرید کر بذریعہ ہوائی جہاز پارسل کر دوں۔ تب شوفر نے بتایا کہ آج کل ’’سونا گاچی‘‘ جہاں کلکتہ کی طوائفیں رہتی ہیں۔ اس قسم کی بردہ فروشی کا اڈہ ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں لڑکیاں شب و روز فروخت کی جا رہی ہیں۔
لڑکیوں کے والدین فروخت کرتے ہیں اور رنڈیاں خریدتی ہیں۔ عام نرخ سوا روپیہ ہے۔ لیکن اگر بچی قبول صورت ہو تو چار پانچ بلکہ دس روپے بھی مل جاتے ہیں۔ چاول آج کل بازار میں ساٹھ ستر روپے فی من ملتا ہے۔ اس حساب سے اگر ایک کنبہ اپنی دو بچیاں بھی فروخت کر دے تو کم از کم آٹھ دس دن اور زندگی کا دھندا کیا جا سکتا ہے۔ اور اوسطاً بنگالی کنبے میں لڑکیوں کی تعداد دو سے زیادہ ہوتی ہے۔
کل مئیر آف کلکتہ نے شام کے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ وہاں یقیناً بہت ہی دلچسپ باتیں سننے میں آئیں گی۔
ف۔ ب۔ پ
۲۹ اگست
میئر آف کلکتہ کا خیال ہے کہ بنگال میں شدید قحط ہے اور حالت بے حد خطرناک ہے۔ اس نے مجھ سے اپیل کی کہ میں اپنی حکومت کو بنگال کی مدد کے لئے آمادہ کروں۔ میں نے اسے اپنی حکومت کی ہمدردی کا یقین دلایا۔ لیکن یہ امر بھی اس پر واضح کر دیا کہ یہ قحط ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور ہماری حکومت کسی دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتی۔ ہم سچے جمہوریت پسند ہیں اور کوئی سچا جمہوریہ آپ کی آزادی کو سلب کرنا نہیں چاہتا۔ ہر ہندوستانی کو جینے یا مرنے کا اختیار ہے۔ یہ ایک شخصی یا زیادہ سے زیادہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کی نوعیت بین الاقوامی نہیں۔ اس موقعہ پر موسیوژاں ژاں تریپ بھی بحث میں شامل ہو گئے اور کہنے لگے۔
جب آپ کی اسمبلی نے بنگال کو قحط زدہ علاقہ famine area ہی نہیں قرار دیا تو اس صورت میں آپ دوسری حکومتوں سے مدد کیوں کر طلب کر سکتے ہیں۔ اس پر میئر آف کلکتہ خاموش ہو گئے اور رس گلے کھانے لگے۔
ف۔ ب۔ پ
30 اگست
مسٹر ایمری نے جو برطانوی وزیر ہندو ہیں۔ ہاؤس آف کامنز میں ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں آبادی کا تناسب غذائی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے۔ ہندوستان کی آبادی میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ در حالیکہ زمینی پیداوار بہت کم بڑھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہندوستانی بہت کھاتے ہیں۔
یہ تو حضور میں نے بھی آزمایا ہے کہ ہندوستانی لوگ دن میں دوبار بلکہ اکثر حالتوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اس قدر کھاتے ہیں کہ ہم مغربی لوگ دن میں پانچ بار بھی اس قدر نہیں کھاسکتے۔ موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں شرح اموات کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا پیٹو پن ہے۔ یہ لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں تو پیٹ پھٹ جاتا ہے اور وہ جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ہندوستانی کبھی منھ پھٹ نہیں ہوتا لیکن پیٹ پھٹ ضرور ہوتا ہے بلکہ اکثر حالتوں میں تلی پھٹ بھی پایا۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانیوں اور چوہوں کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اکثر حالتوں میں ان دونوں میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جتنی جلدی پیدا ہوتے ہیں اتنی جلدی مر جاتے ہیں۔ اگر چوہوں کو پلیگ ہوتی ہے تو ہندوستانیوں کو ’’سوکھیا‘‘ بلکہ عموماً پلیگ اور سوکھیا دونوں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بہر حال جب تک چوہے اپنے بل میں رہیں اور دنیا کو پریشان نہ کریں۔ ہمیں ان کے نجی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔
غذائی محکمے کے ممبر حالات کی جانچ پڑتال کے لئے تشریف لائے ہیں۔ بنگالی حلقوں میں یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ آنر بیل ممبر پر اب یہ واضح ہو جائے گا کہ بنگال میں واقعی قحط ہے اور شرح اموات کے بڑھنے کا سبب بنگالیوں کہ انار کسٹانہ حرکات نہیں بلکہ غذائی بحران ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ ستمبر
آنریبل ممبر تحقیقات کے بعد واپس چلے گئے ہیں۔ سنا ہے، وہاں حضور وائیسرائے بہادر سے ملاقات کریں گے اور اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھیں گے۔
۲۵ ستمبر
لندن کے انگریزی اخباروں کی اطلاع کے مطابق ہر روز کلکتہ کی گلیوں اور سڑکوں، فٹ پاتھوں پر لوگ مر جاتے ہیں۔ بہر حال یہ سب اخباری اطلاعیں ہیں۔ سرکاری طور پر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ بنگال میں قحط ہے۔ سب پریشان ہیں۔ چینی قونصل کل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ بنگال کے فاقہ کشوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھولنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کوئی کہتا ہے کہ قحط ہے کوئی کہتا ہے قحط نہیں ہے۔ میں نے اسے سمجھایا، بیوقوف نہ بنو۔ اس وقت تک ہمارے پاس مصدقہ اطلاع یہی ہے کہ غذائی بحران اس لئے ہے کہ ہندوستانی بہت زیادہ کھاتے ہیں۔ اب تم ان لوگوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھول کر گویا ان کے پیٹوپن کو اور شہ دو گے۔ یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن چینی قونصل میری تشریحات سے غیر مطمئن معلوم ہوتا تھا۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ ستمبر
دلی میں غذائی مسئلے پر غور کرنے کے لئے ایک کانفرنس بلائی جا رہی ہے۔ آج پھر یہاں کئی سو لوگ ’’سوکھیا‘‘ سے مر گئے۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ مختلف صوبائی حکومتوں نے رعایا میں اناج تقسیم کرنے کی جوا سکیم بنائی ہے۔ اس سے انھوں نے کئی لاکھ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔ اس میں بنگال کی حکومت بھی شامل ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ اکتوبر
کل گرانڈ ہوٹل میں ’’یوم بنگال‘‘ منایا گیا۔ کلکتہ کے یوروپین امراء و شرفاء کے علاوہ حکام اعلیٰ، شہر کے بڑے سیٹھ اور مہاراجے بھی اس دلچسپ تفریح میں شریک تھے۔ ڈانس کا انتظام خاص طور پر اچھا تھا۔ میں نے مسز جیولٹ تریپ کے ساتھ دو مرتبہ ڈانس کیا (مسز تریپ کے منھ سے لہسن کی بو آتی تھی۔ نہ جانے کیوں؟‘‘) مسز تریپ سے معلوم ہوا کہ اس سہن ماہتابی کے موقعہ پر یوم بنگال کے سلسلہ میں نو لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا ہے۔
مسز تریپ بار بار چاند کی خوب صورت اور رات کی سیاہ ملائمت کا ذکر کر رہی تھیں اور ان کے منھ سے لہسن کے بھپارے اٹھ رہے تھے۔ جب مجھے ان کے ساتھ دو بارہ ڈانس کرنا پڑا تو میرا جی چاہتا تھا کہ ان کے منھ پر لائی سول یا فینائل چھڑک کر ڈانس کروں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مسز جیولٹ تریپ موسیو ژاں ژاں تریپ کی باوقار بیوی ہیں اور موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقوامی معاملات میں ایک قابل رشک مرتبہ حاصل ہے۔
ہندوستانی خواتین میں مس سنیہہ سے تعارف ہوا۔ بڑی قبول صورت ہے اور بے حد اچھا ناچتی ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۶ اکتوبر
مسٹر منشی حکومت بمبئی کے ایک سابق وزیر کا اندازہ ہے کہ بنگالی میں ہر ہفتے قریباً ایک لاکھ افراد قحط کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ سرکاری اطلاع نہیں ہے۔ قونصل خانے کے باہر آج پھر چند لاشیں پائی گئیں۔ شوفر نے بتایا کہ یہ ایک پورا خاندان تھا جو دیہات سے روٹی کی تلاش میں کلکتہ آیا تھا۔ پرسوں بھی اسی طرح میں نے ایک مغنی کی لاش دیکھی تھی۔ ایک ہاتھ میں وہ اپنی ستار پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں لکڑی کا ایک جھنجھنا سمجھ نہیں آیا۔ اس کا کیا مطلب تھا۔ بیچارے چوہے کس طرح چپ چاپ مر جاتے ہیں اور زبان سے اف تک بھی نہیں کرتے۔
میں نے ہندوستانیوں سے زیادہ شریف چوہے دنیا میں اور کہیں نہیں دیکھے۔ اگر امن پسندی کے لئے نوبل پرائز کسی قوم کو مل سکتا ہے۔ تو وہ ہندوستانی ہیں۔ یعنی لاکھوں کی تعداد میں بھوکے مر جاتے ہیں لیکن زبان پر ایک کلمۂ شکایت نہیں لائیں گے۔ صرف بے روح، بے نور آنکھوں سے آسمان کی طرف تاکتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں۔ ان داتا، ان داتا۔! کل رات پھر مجھے اس مغنی کی خاموش شکایت سے معمور، جا مدو ساکت پتھریلی بے نور سی نگاہیں پریشان کرتی رہیں۔
ف۔ ب۔ پ
۵ نومبر
نئے حضور وائسرائے بہادر تشریف لائے ہیں۔ سنا ہے کہ انھوں نے فوج کو قحط زدہ لوگوں کی امداد پر مامور کیا ہے اور جو لوگ کلکتہ کے گلی کو چوں میں مرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے باہر مضافات میں مرکز کھول دیئے گئے ہیں۔ جہاں ان کی آسائش کے لئے سب سامان بہم پہنچایا جائے گا۔
ف۔ ب۔ پ
۱۰ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ بنگال میں واقعی قحط ہو اور سوکھیا کی بیماری کی اطلاعیں غلط ہوں۔ غیر ملکی قونصل خانوں میں اس ریمارک سے ہل چل مچ گئی ہے۔ مملکت گوبیا، لوبیا اور مٹرسلووکیا کے قونصلوں کا خیال ہے کہ موسیوژاں ژاں تریپ کا یہ جملہ کسی آنے والی خوفناک جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ یورپی اور ایشیائی ملکوں سے بھاگے ہوئے لوگوں میں آج کل ہندوستان میں مقیم ہیں ۔
وائسرائے کی اسکیم کے متعلق مختلف شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ اگر بنگال واقعی قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا تو ان کے الاؤنس کا کیا بنے گا؟ وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ میں حضور پر نور کی توجہ اس سیاسی الجھن کی طرف دلانا چاہتا ہوں، جو وائسرائے بہادر کے اعلان سے پیدا ہو گئی ہے۔ مغرب کے ملکوں کے رفیوجیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کیا ہمیں سینہ سپر ہو کر نہ لڑنا چاہیے۔ مغربی تہذیب کلچر اور تمدن کے کیا تقاضے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ میں اس سلسلہ میں حضور پرنور کے احکام کا منتظر ہوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۵ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط نہیں ہے۔ موسیو فاں فاں فنگ چینی قونصل کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ حضور نے مجھے جس کام کےلئے کلکتہ کے قونصل خانے میں تعینات کیا تھا۔ وہ کام میں گزشتہ تین ماہ میں بھی پورا نہ کر سکا۔ میرے پاس اس امر کی ایک بھی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ بنگال میں قحط ہے یا نہیں ہے۔ تین ماہ کی مسلسل کاوش کے بعد بھی مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ صحیح ڈپلومیٹک پوزیشن کیا ہے۔ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں، شرمندہ ہوں۔ معافی چاہتا ہوں۔
نیز عرض ہے کہ حضور پر نور کی منجھلی بیٹی کو مجھ سے اور مجھے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے عشق ہے۔ اس لئے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ حضور پر نور مجھے کلکتہ کے سفارت خانے سے واپس بلالیں اور میری شادی اپنی بیٹی۔۔۔ مطلب ہے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے کر دیں اور حضور پر نور مجھے کسی ممتاز سفارت خانے میں سفیر اعلی کا مرتبہ بخش دیں؟ اس نوازش کے لئے میں حضور پر نور کا تاقیامت شکر گزار ہو ں گا۔
ایڈتھ کے لئے ایک نیلم کی انگوٹھی ارسال کر رہا ہوں۔ اسے مہاراجہ اشوک کی بیٹی پہنا کرتی تھی۔
میں ہوں جناب کا حقیر ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخہ
قونصل مملکت سانڈوگھاس برائے کلکتہ
(۲)
وہ آدمی جو مر چکا ہے
صبح ناشتہ پر جب اس نے اخبار کھولا تو اس نے بنگال کے فاقہ کشوں کی تصاویر دیکھیں جو سڑکوں پر، درختوں کے نیچے، گلیوں میں، کھیتوں میں بازاروں میں، گھروں میں ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ آملیٹ کھاتے کھاتے اس نے سوچا کہ ان غریبوں کی امداد کس طرح ممکن ہے۔ یہ غریب جو ناامیدی کی منزل سے آگے جا چکے ہیں اور موت کی بحرانی کیفیت سے ہمکنار ہیں۔ انھیں زندگی کی طرف واپس لانا، زندگی کی صعوبتوں سے دوبارہ آشنا کرنا، ان سے ہمدردی نہیں دشمنی ہو گی۔
اس نے جلدی میں اخبار کا ورق الٹا اور توس پر مربہ لگا کر کھانے لگا۔ تو س نرم گرم اور کر کرا تھا اور مربے کی مٹھاس اور اس کی ہلکی سی ترشی نے اس کے ذائقہ کو اور بھی نکھار دیا تھا۔ جیسے غازے کا غبار عورت کے حسن کونکھار دیتا ہے۔ یکایک اسے سنیہ کا خیال آیا۔ سنیہ ابھی تک نہ آئی تھی۔ گو اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صبح کے ناشتہ پر اس کے ساتھ موجود ہو گی۔ سو رہی ہو گی بیچاری اب کیا وقت ہو گا۔ اس نے اپنی سونے کی گھڑی سے پوچھا جو اس کی گوری کلائی میں جس پر سیاہ بالوں کی ایک ہلکی سی ریشمیں لائین تھی۔ ایک سیاہ ریشمی فیتے سے بندھی تھی۔ گھڑی، قمیض کے بٹن اور ٹائی کا پن، یہی تین زیور مرد پہن سکتا ہے اور عورتوں کو دیکھیئے کہ جسم کو زیور سے ڈھک لیتی۔ کان کے لئے زیور، پاؤں کے لئے زیور، کمر کے لئے زیور، ناک کے لئے زیور، سر کے لئے زیور، گلے کے لئے زیور باہوں کے لئے زیور اور مرد بے چارے کے لئے صرف تین زیور بلکہ دو ہی سمجھئے کیوں کہ ٹائی کا پن اب فیشن سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ نہ جانے مردوں کو زیادہ زیور پہننے سے کیوں منع کیا گیا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے وہ دلیا کھانے لگا۔ دلئے سے الائچی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ اس کے نتھنے، اس کے پاکیزہ تعطر سے مصفٰی ہو گئے اور یکایک اس کے نتھنوں میں گزشتہ رات کے عطر کی خوشبو تازہ ہو گئی۔ وہ عطر جو سنیہ نے اپنی ساڑھی، اپنے بالوں میں لگا رکھا تھا۔ گزشتہ رات کا دلفریب رقص اس کی آنکھوں کے آگے گھومتا گیا۔ گرانڈ ہوٹل میں ناچ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ اس کا اور سنیہ کا جوڑا کتنا اچھا ہے۔ سارے ہال کی نگاہیں ان پر جمی ہوئی تھیں۔
دونوں کانوں میں گول گول طلائی آویزے پہنے ہوئے تھی۔ جو اس کی لوووں کو چھپا رہے تھے۔ ہونٹوں پر جوانی کا تبسم اور میکس فیکٹر کی لالی کا معجزہ اور سینے کے سمن زاروں پر موتیوں کی مالا چمکتی، دمکتی، لچکتی ناگن کی طرح سوبل کھاتی ہوئی۔ رمبا ناچ کوئی سنیہ سے سیکھے، اس کے جسم کی روانی اور ریشمی بنارسی ساڑی کا پر شور بہاؤ جیسے سمندر کی لہریں چاندنی رات میں ساحل سے اٹھکھیلیاں کر رہی ہوں۔ لہر آگے آتی ہے۔ ساحل کو چھو کر واپس چلی جاتی ہے۔ مدھم سی سرسراہٹ پیدا ہوتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ شور مدھم ہو جاتا ہے۔ شور قریب آ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ لہر چاندنی میں نہائے ہوئے ساحل کو چوم رہی ہے۔
سنیہ کے لب نیم وا تھے۔ جن میں دانتوں کی لڑی سپید موتیوں کی مالا کی طرح لرزتی نظر آتی تھی۔۔۔ یکایک وہاں کی بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ سے ہونٹ سے ہونٹ ملائے، جسم سے جسم لگائے آنکھیں بند کئے رقص کے تال پر ناچتے رہے۔ ان سروں کی مدھم سی روانی، وہ رسیلا میٹھا تمون رواں دواں، رواں دواں موت کی سی پاکیزگی۔ نیند اور خمار اور نشہ جیسے جسم نہ ہو، جیسے زندگی نہ ہو، جیسے تو نہ ہو، جیسے میں نہ ہوں، صرف ایک بوسہ ہو۔ صرف ایک گیت ہو۔ اک لہر ہو۔ رواں دواں، رواں دواں۔۔۔ اس نے سیب کے قتلے کئے اور کانٹے سے اٹھا کر کھانے لگا۔ پیالی میں چائے انڈیلتے ہوئے اس نے سوچا سنیہ کا جسم کتنا خوب صورت ہے۔ اس کی روح کتنی حسین ہے۔ اس کا دماغ کس قدر کھوکھلا ہے۔ اسے پر مغز عورتیں بالکل پسند نہ تھیں۔
جب دیکھو اشتراکیت، سامراجیت اور مارکسیت پر بحث کر رہی ہیں۔ آزادی تعلیم نسواں، نوکری، یہ نئی عورت، عورت نہیں فلسفے کی کتاب ہے۔ بھئی ایسی عورت سے ملنے یا شادی کرنے کی بجائے تو یہی بہتر ہے کہ آدمی ارسطو پڑھا کرے۔ اس نے بیقرار ہو کر ایک بار پھر گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ سنیہ ابھی تک نہ آتی تھی۔ چرچل اور اسٹالن اور روز ویلٹ طہران میں دنیا کا نقشہ بدل رہے تھے اور بنگال میں لاکھوں آدمی بھوک سے مر رہے تھے۔ دنیا کو اطلا نتک چار ٹر دیا جا رہا تھا اور بنگال میں چاول کا ایک دانہ بھی نہ تھا۔ اسے ہندوستان کی غربت پر اتنا ترس آیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ہم غریب ہیں بے بس ہیں نادار ہیں۔ مجبور ہیں۔ ہمارے گھر کا وہی حال ہے جو میرکے گھر کا حال تھا۔ جس کا ذکر انھوں نے چوتھی جماعت میں پڑھا تھا اور جو ہر وقت فریاد کرتا رہتا تھا۔ جس کی دیواریں سیلی سیلی اور گری ہوئی تھیں اور جس کی چھت ہمیشہ ٹپک ٹپک کر روتی رہتی تھی۔ اس نے سوچا ہندوستان بھی ہمیشہ روتا رہتا ہے۔ کبھی روٹی نہیں ملتی، کبھی کپڑا نہیں ملتا۔ کبھی بارش نہیں ہوتی۔ کبھی وبا پھیل جاتی ہے۔ اب بنگال کے بیٹوں کو دیکھو، ہڈیوں کے ڈھانچے آنکھوں میں ابدی افسردگی، لبوں پر بھکا ری کی صدا، روٹی، چاول کا ایک دانہ۔ یکایک چائے کا گھونٹ اسے اپنے حلق میں تلخ محسوس ہوا اور اس نے سوچا کہ وہ ضرور اپنے ہم وطنوں کی مدد کرے گا۔ وہ چندہ اکٹھا کرے گا۔سارے ہندوستان کا دورہ کریگا۔اور چیخ چیخ کر اس کے ضمیر کو بیدار کریگا۔ دورہ، جلسے، والنٹیر، چندہ، اناج اور زندگی کی ایک لہر ملک میں اس سر ے سے دوسرے سرے تک پھیل جائے گی۔ برقی روکی طرح۔ یکایک اس نے اپنا نام جلی سرخیوں میں دیکھا۔ ملک کا ہر اخبار اس کی خدمات کو سراہ رہا تھا اور خود، اس اخبار میں جسے وہ اب پڑھ رہا تھا۔ اسے اپنی تصویر جھانکتی نظر آئی ۔کھدر کا لباس اور جواہر لال جیکیٹ اور ہاں ویسی ہی خوب صورت مسکراہٹ۔ ہاں بس یہ ٹھیک ہے۔ اس نے بیرے کو آواز دی اسے ایک اور آملیٹ لانے کو کہا۔
آج سے وہ اپنی زندگی بدل ڈالے گا۔ اپنی حیات کا ہر لمحہ ان بھوکے ننگے، پیاسے، مرتے ہوئے ہم وطنوں کی خدمت میں صرف کر دے گا۔ وہ اپنی جان بھی ان کے لئے قربان کر دیگا۔ یکایک اس نے اپنے آپ کو پھانسی کی کوٹھری میں بند دیکھا، وہ پھانسی کے تختے کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا تھا۔ جلاد نے چہرے پر غلاف اڑھا دیا اور اس نے اس کھردرے موٹے غلاف کے اندر سے چلا کر کہا، ’’میں مر رہا ہوں۔ اپنے بھوکے پیاسے ننگے وطن کے لئے، یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو پھر بھر آئے اور دو ایک گرم گرم نمکین بوندیں چائے کی پیالی میں بھی گر پڑیں اور اس نے رومال سے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ یکایک ایک کا رپورچ میں رکی اور موٹر کا پٹ کھول کر سنیہ مسکراتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر آتی ہوئی اسے ہیلو کہتی ہوئی۔ اس نے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کے رخسار کو پھول کی طرح اپنے عطر بیز ہونٹوں سے چومتی ہوئی نظر آئی، بجلی، گرمی، روشنی، مسرت سب کچھ ایک تبسم میں تھا اور پھر زہر، سنیہ کی آنکھوں میں زہر تھا۔ اس کی زلفوں میں زہر تھا۔ اس کی مدھم ہلکی سانس کی ہر جنبش میں زہر تھا۔ وہ اجنتا کی تصویر تھی، جس کے خد و خال تصور نے زہر سے ابھارے تھے۔
اس نے پوچھا، ’’ناشتہ کروگی؟‘‘
’’نہیں میں ناشتہ کر کے آئی ہوں،‘‘ پھر سنیہ نے اس کی پلکوں میں آنسو چھلکتے دیکھ بولی،’’تم آج اداس کیوں ہو؟‘‘
وہ بولا، ’’کچھ نہیں۔ یونہی بنگال کے فاقہ کشوں کا حال پڑھ رہا تھا۔ سنیہ، ہمیں بنگال کے لئے کچھ کرنا چاہیئے۔‘‘
’’door darlings‘‘ سنیہ نے آہ بھر کر اور جیبی آئینے کی مدد سے اپنے ہونٹوں کی سرخی ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگ ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ ماسوا اس کے کہ ان کی روحوں کے لئے پر ماتما سے شانتی مانگیں۔‘‘
’’کانوونٹ کی تعلیم ہے نا آخر؟‘‘ اس نے اپنے خوب صورت سپید دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
وہ سوچ کر بولا،’’ہمیں ایک ریزولیوشن بھی پاس کرنا چاہیئے۔‘‘
’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
سنیہ نے نہایت معصومانہ انداز میں پوچھا اور اپنی ساڑھی کا پلو درست کرنے لگی۔
’’اب یہ تو مجھے ٹھیک طرح سے معلوم نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب کبھی ملک پر کوئی آفت آتی ہے۔ ریزولیوشن ضرور پاس کیا جاتا ہے۔ سنا ہے ریزولیوشن پاس کر دینے سے سب کام خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔۔۔ میرا خیال ہے۔ بس ابھی ٹیلی فون کر کے شہر کے کسی رہنما سے دباغ فن کے بارے میں پوچھتا ہوں۔‘‘
’’رہنے بھی دو ڈارلنگ!‘‘ سنیہ نے مسکرا کر کہا۔
’’دیکھو، جوڑے میں پھول ٹھیک سجا ہے؟‘‘
اس نے نیلراج کی نازک ڈنڈی کو جوڑے کے اندر تھوڑا سا دبا دیا۔
’’بے حد پیارا پھول ہے، نیلا جیسے کرشن کا جسم، جیسے ناگ کا پھن۔ جیسے زہر کا رنگ!‘‘
پھر سوچ کر بولا،’’نہیں کچھ بھی ہو۔ ریزولیوشن ضرور پاس ہونا چاہیئے۔ میں ابھی ٹیلی فون کرتا ہوں۔‘‘
سنیہ نے اسے اپنے ہاتھ کی ایک ہلکی سی جنبش سے روک لیا۔ گداز انگلیوں کا لمس ایک ریشمی رو کی طرح اس کے جسم کی رگوں اور عروق میں پھیلتا گیا۔ رواں دواں۔ رواں دواں۔۔۔ اس لہر نے اسے بالکل بے بس کر دیا اور وہ ساحل کی طرح بے حس و حرکت ہو گیا۔
’’آخری رمبا کتنا اچھا تھا!‘‘ سنیہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
اور اس کے ذہن میں پھر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ بنگالی فاقہ مستوں کی قطار میں اندر گھستی چلی آ رہی تھیں۔ وہ انھیں باہر نکالنے کی کوشش میں کامیاب ہوا۔ بولا،’’میں کہتا ہوں سنیہ، ریزولیشن پاس کرنے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں اس کے بعد ہمیں قحط زدہ علاقے کا دورہ کرنا چاہیئے کیوں؟‘‘
’’بہت دماغی محنت سے کام لے رہے ہو اس وقت۔‘‘ سنیہ نے قدرے تشویشناک لہجہ میں کہا۔
’’بیمار ہو جاؤ گے! جانے دو۔ وہ بے چارے تو مر رہے ہیں۔ انھیں آرام سے مرنے دو تم کیوں مفت میں پریشان ہوتےہو ؟‘‘
’’قحط زدہ علاقے کا دورہ کروں گا۔ یہ ٹھیک ہے۔ سنیہ، تم بھی ساتھ چلو گی نا؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’بنگال کے دیہات میں۔‘‘
’’ضرور۔ مگر وہاں کس ہوٹل میں ٹھہریں گے؟‘‘
ہوٹل کا ذکر سن کر اس نے اپنی تجویز کو وہیں اپنے ذہن میں قتل، کر ڈالا اور قبر کھود کر وہیں اندر دفنا دیا۔ خدا جانے اس کا ذہن اس قسم کی کتنی ناپختہ تمناؤں اور آرزؤں کا قبرستان بن چکا ہے۔
وہ بچے کی طرح روٹھا ہوا تھا، اپنی زندگی سے بیزار۔ سنیہ نے کہا، ’’میں تمہیں بتاؤں۔ ایک شاندار ناچ پارٹی ہو جائے۔ گرانڈ میں۔ دو روپیہ فی ٹکٹ اور شراب کے پیسے الگ رہے اور جو رقم اس طرح اکٹھی ہو جائے وہ بنگال ریلیف فنڈ میں۔۔۔‘‘
’’ارے رررے۔۔۔‘‘ اس نے کرسی سے اچھل کر سنیہ کو اپنے گلے لگایا۔ اے جان تمنا، تمہاری روح کتنی حسین ہے۔‘‘
’’جب ہی تم نے کل رات آخری رمبا کے بعد مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی۔‘‘ سنیہ نے ہنس کر کہا۔
’’اور تم نے کیا جواب دیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں نے انکار کر دیا تھا۔‘‘ سنیہ نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’بہت اچھا کیا۔‘‘ وہ بولا، ’’میں اس وقت شراب کے نشے میں تھا۔ ‘‘
کار،جیوتی رام، میونی رام، پیونی رام بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان پر رکی، سامنے گرانڈ ہوٹل کی عمارت تھی۔ کسی مغلئی مقبرے کی طرح وسیع اور پر شکوہ۔
اس نے کہا، ’’تمہارے لئے کون سے سگریٹ لے لوں!‘‘
’’روز۔ مجھے اس کی خوشبو پسند ہے۔‘‘ سنیہ نے کہا۔
’’امی دو دن کھیتے پائی نی کی چھوکھیتے داؤ۔‘‘
ایک بنگالی لڑکا دھوتی پہنے ہوئے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ میلی کچیلی، خاک میں اٹی ہوئی، آنکھیں غلیظ اور آدھ مندی ۔سنیہ نے کراہیت سے منھ پھیر لیا۔
’’میم صائب ایکٹاپوئے شاداؤ۔‘‘ لڑکا گڑ گڑا رہا تھا۔
’’تو میں روز ہی لے آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جیونی رام۔ میونی رام۔ بیونی رام، بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان کے اندر غائب ہو گیا۔
سنیہ کار میں بیٹھی لیکن بنگال کی بھوکی مکھیاں اس کے دماغ میں بھن بھناتی رہیں۔ میم صاحب۔۔۔میم صاحب۔ میم صاحب۔ میم صاحب نے دو ایک بار انہیں جھڑک دیا۔ لیکن بھوک جھڑکنے سے کہاں دور ہوتی ہے۔ وہ اور بھی قریب آ جاتی ہے۔ لڑکی نے ڈرتے ڈرتے اپنے ننھے ننھے ہاتھ سنیہ کی ساڑی سے لگا دئیے۔اور اس کا پلو پکڑ کر لجاجت سے کہنے لگی، ’’میم صاحب۔۔۔ میم صاحب۔میم صائب بورڈ کھیدے پیچھ۔ کی چھودا۔‘‘
سنیہ اب بالکل زچ ہو گئی تھی۔ اس نے جلدی سے پلو چھڑا لیا۔ اتنے میں وہ آ گیا۔ سنیہ بولی،’’یہ گدا گر کیوں اس قدر پریشان کرتے ہیں۔ کارپوریشن کوئی انتظام نہیں کر سکتی ہے کیا؟ جب سے تم دوکان کے اندر داخل ہوئے ہو۔یہ۔۔۔‘‘
اس نے گدا گر لڑکے کو زور سے چپت لگایا اور کار گھبرا کر گرانڈ ہوٹل کے پورچ میں لے آیا۔
بنگالی لڑکی جو ایک جھٹکے کے ساتھ دور جا پڑی تھی۔ وہیں فرش خاک پر کراہنے لگی۔ لڑکے نے چھوٹی بہن کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،
’’تمار کو تھاؤ لاگے نے تو۔‘‘
لڑکی سسکنے لگی۔ ناچ عروج پر تھا۔ سنیہ اور وہ ایک میز کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔
سنیہ نے پوچھا، ’’کتنے روپے اکٹھے ہوئے؟‘‘
’’ساڑھے چھ ہزار۔‘‘
’’ابھی تو ناچ عروج پر ہے۔ صبح چار بجے تک۔۔۔‘‘
’’نو ہزار روپیہ ہو جائے گا۔‘‘ وہ بولا۔
’’آج تم نے بہت کام کیا ہے!‘‘ سنیہ نے اس کی انگلیوں کو چھو کر کہا۔
’’کیا پیوگی؟‘‘
’’تم کیا پیو گے؟‘‘
’’جن اور سوڈا۔‘‘
سنیہ بولی، ’’بیرا۔ صاحب کے لئے ایک لارج جن لاؤ اور سوڈا۔‘‘
’’ناچتے ناچتے اور پیتے پیتے پریشان ہو گئی ہوں۔‘‘
’’اپنے وطن کی خاطر سب کچھ کرنا پڑتا ہے ڈارلنگ۔‘‘ اس نے سنیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’اوہ مجھے امپریلزم سے کس قدر نفرت ہے۔‘‘ سنیہ نے پر خلوص لہجہ میں کہا۔
’’بیرا، میرے لئے ایک ورجن لاؤ۔‘‘
بیرے نے’’ورجن‘‘ کا جام لاکر سامنے رکھ دیا۔ جن کی سپیدی میں ور موتھ کی لالی اس طرح نظر آتی تھی جیسے سنیہ کے عنبریں چہرے پر اس کے لب لعلیں۔ سنیہ نے جام ہلایا اور کاک ٹیل کا رنگ شفقی ہو گیا۔ سنیہ نے جام اٹھایا اور بجلی کی روشنی نے اس کے جام میں گھل کر یاقوت کی سی چمک پیدا کر دی۔ یاقوت سنیہ کی انگلیوں میں تھرا رہا تھا۔ یاقوت جو خون کی طرح سرخ تھا۔
ناچ عروج پر تھا اور وہ اور سنیہ ناچ رہے تھے۔ ایک گت، ایک تال ایک لے، سمندر دور،بہت دور۔کہیں نیچے چلا گیا تھا۔اور زمین گم ہو گئی تھی۔اور وہ ہوا میں اڑ رہے تھے۔اور سنیہ کا چہرہ اس کے کندھے پر تھا اور سنیہ کے بالوں میں بسی ہوئی خوشبو اسے بلا رہی تھی۔ بال بنانے کا انداز کوئی سنیہ سے سیکھے۔ یہ عام ہندوستانی لڑکیاں تو بیچ میں سے یا ایک طرف مانگ نکال لیتی اور تیل چپڑ کر بالوں میں کنگھی کر لیتی ہیں۔ بہت ہوا تو دو چوٹیاں کر ڈالیں اور اپنی دانست میں فیشن کی شہزادی بن بیٹھیں ۔مگر یہ سنیہ ہی جانتی ہے کہ بالوں کی ایک الگ ہستی ہوتی ہے۔ ان کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ ان کی مشاطگی عورت کی نسائیت کی معراج ہے۔ جیسے کوئی مصور سادہ تختے پر حسن کی نازک خطوط کھینچتا ہے۔ اسی طرح سنیہ بھی اپنے بال سنوارتی تھی۔ کبھی اس کے بال کنول کے پھول بن جاتے کبھی کانوں پر ناگن کےپھن۔ وہ کبھی چاند کا ہالہ ہو جاتے کبھی ان بالوں میں ہمالیہ کی وادیوں کے سے نشیب و فراز پیدا ہو جاتے۔ سنیہ اپنے بالوں کی آرائش میں ایسے جمالیاتی ذوق اور جودت طبع کا ثبوت دیتی تھی کہ معلوم ہوتا تھا سنیہ کی عقل اس کے دماغ میں نہیں، اس کے بالوں میں ہے۔
ناچ عروج پر تھا اور یہ بال اس کے رخساروں سے مس ہو رہے تھے۔ اس کے رگ و پے میں رقص کی روانی تھی اور نتھنوں میں اس خوشبو کا تعطر اس کا جسم اور سنیہ کا جسم پگھل کر ایک ہو گئے تھے اور ایک شعلے کی طرح ساز کی دھن پر لہرا رہے تھے۔ ایک شعلہ، ایک پھن، ایک زہر۔ایک لہر۔ لہریں۔لہریں، ہلکی ہلکی، گرم مدورسی لہریں ساحل کو چومتی ہوئی۔ لوریاں دے کر تھپک تھپک کر سلاتی ہوئی۔ سو جاؤ موت میں زندگی ہے۔ حرکت نہ کرو۔ سکون میں زندگی ہے۔ آزادی نہ طلب کرو۔ غلامی ہی زندگی ہے۔ چاروں طرف ہال میں ایک میٹھا سا زہر بسا ہوا تھا۔ شراب میں،عورت میں، ناچ میں۔ سنیہ کے نیلے سائے میں۔ اس کے پراسرار تبسم میں، اس کے نیم وا لبوں کے اندر کانپتی ہوئی موتیوں کی لڑی میں، زہر۔۔۔ زہر اور نیند اور سنیہ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے، بند ہوتے ہوئے لب، اور نغمے کا زہر، سو جاؤ۔سو جاؤ۔ سو جاؤ۔ یکایک ہال میں بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے، اس کے جسم سے جسم لگائے۔ مدھم مدھم دھیمے دھیمے ہولے ناچ کے جھولے میں گہرے، گداز، گرم آغوش میں کھو گیا۔ بہہ گیا۔ سو گیا، مرگیا۔
(۳)
وہ آدمی جو ابھی زندہ ہے
میں مر چکا ہوں؟ میں زندہ ہوں؟ میری پھٹی پھٹی بے نور بے بصر آنکھیں آسمان کی پہنائیوں میں کسے ڈھونڈ رہی ہیں؟ آؤپل بھر کے لئے اس قونصل خانے کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاؤ اور میری داستان سنتے جاؤ۔ جب تک پولیس، سیواسمتی، یا انجمن خدا م المسلمین میری لاش کو یہاں سے اٹھا نہ لے جائیں۔ تم میری داستان سن لو۔ نفرت سے منھ پھیرو۔ میں بھی تمہاری طرح گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اب میرے جسم پر گوشت کم اور پوست زیادہ نظر آتا ہے اور اس میں بھی سڑاند پیدا ہو رہی ہے اور ناک سے پانی کے بلبلے سے اٹھ رہے ہیں۔
لیکن یہ تو سائنس کا ایک معمولی سا عملیہ ہے۔ تمہارے جسم اور میرے جسم میں صرف اتنا فرق ہے کہ میرے دل کی حرکت بند ہو گئی ہے۔ دماغ نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پیٹ ابھی تک بھوکا ہے۔ یعنی اب بھی اس قدر بھوکا ہے کہ میں سوچتا ہوں، اگر تم چاول کا ایک ہی دانا میرے پیٹ میں پہنچا دو تو وہ پھر سے کام شروع کر دیگا۔ آزما کر دیکھ لو۔ کدھر چلے۔ ٹھہرو، ٹھہرو، ٹھہرو نہ جاؤ۔ میں تو یونہی مزاق کر رہا تھا۔ تم گھر ا گئے کہ کلکتہ کے مردے بھی بھیک مانگتے ہیں؟ خدا کے لئے نہ جاؤ میری داستان سن لو۔ ہاں ہاں اس چاول کے دانے کو اپنی مٹھی میں سنبھال کر رکھو۔ میں اب تم سے بھیک نہیں طلب کروں گا۔ کیوں کہ میرا جسم اب گل چکا ہے۔ اسے چاول کی دانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب یہ خود ایک دن چاول کا دانہ بن جائیگا۔ نرم نرم گداز مٹی میں جس کے ہر مسام میں ندی کا پانی رچا ہوگا۔ یہ جسم گھل جائے گا۔ اپنے اندر دھان کی پنیری اگتے ہوئے دیکھے گا اور پھر یہ ایک دن پانی کی پتلی تہہ سے اوپر سر نکال کر اپنے سبز سبز خوشوں کو ہوا میں لہرائے گا، مسکرائے گا، ہنسے گا، کھلکھلائے گا۔ کرنوں سے کھیلے گا۔ چاندنی میں نہائے گا۔ پرندوں کے چہچہوں اور خنک ہوا کے جھونکوں کے شہد آ گیں بوسوں سے اس کی حیات کے بند بند میں ایک نئی رعنائی ایک نیا حسن، ایک نیا نغمہ پیدا ہو گا۔ چاول کا ایک دانہ ہو گا۔ صدف کے موتی کی طرح اجلا، معصوم اور خوب صورت۔۔۔ آج میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا راز، وہ راز جو تمھیں ایک مردہ ہی بتا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے دعا کرو۔ وہ تمھیں انسان نہ بنائے۔ چاول کا ایک دانہ بنا دے۔ گو زندگی انسان میں بھی ہے اور چاول کے دانے میں بھی۔ لیکن جو زندگی چاول کے دانے میں ہے۔ وہ انسان کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ خوبصورت ہے۔ پاک ہے اور انسان کے پاس بھی اس زندگی کے سوا اور ہے کیا۔
انسان کی جائیداد اس کا جسم، اس کا باغ اس کا گھر نہیں بلکہ یہی اس کی زندگی ہے۔ اس کا اپنا آپ، وہ ان سب چیزوں کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے اپنے جسم کو، اپنی زمین کو، اپنے گھر کو اس کے دل میں چند تصویریں ہوتی ہیں۔ چند خیال آگ کے چند انگارے ایک مسکراہٹ وہ ان ہی پر جیتا ہے۔ اورجب مر جاتا ہے تو صرف انھیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
چاول کے دانے کی زندگی تم دیکھ چکے۔ اب آؤ میں تمھیں اپنی زندگی دکھاؤں ،نفرت سے منھ نہ پھیر لو۔ کیا ہوا؟ اگر میرا جسم مردہ ہے۔ میری روح تو زندہ ہے میری روح تو بیدار ہے اور بیشتر اس کے کہ وہ بھی سو جائے، وہ تمھیں ان چند دنوں کی کہانی سنانا چاہتی ہے۔ جب روح جسم ایک ساتھ چلتے پھرتے ناچتے گاتے ہنستے بولتے تھے۔ روح اور جسم، دو میں مزا ہے، دو میں حرکت ہے، دو میں زندگی ہے، دو میں تخلیق ہے۔ جب دھرتی اور پانی ملتے ہیں تو چاول کا دانہ پیدا ہوتا ہے۔
جب عورت اور مرد ملتے ہیں تو ایک خوبصورت ہنستا ہوا بچہ ظہور میں آتا ہے۔ جب روح اور جسم ملتے ہیں تو زندگی پیدا ہوتی ہے اور جب روح الگ ہوتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے۔ اگر غور سے دیکھو گے تو تمہیں اس دھوئیں میں میرے ماضی کی تصاویر لرزتی، دمکتی، گم ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔۔۔ یہ تجلی کیا تھی۔ ۔۔یہ میری بیوی کی مسکراہٹ تھی۔ یہ میری بیوی ہے۔ شرماؤ نہیں سامنے آ جاؤ، اے جان تمنا۔ اسے دیکھا آپ نے؟ یہ سانولی سلونی مورت یہ گھنے بال کمر تک لہراتے ہوئے۔ یہ شرمیلا تبسم۔ یہ جھکی جھکی حیران حیران آنکھیں۔
یہ آج سے تین سال پہلے کی لڑکی ہے۔ جب میں نے اسے اتا پارا کے ساحلی گاؤں میں سمندر کے کنارے دو پہر کی سوئی ہوئی فضا میں دیکھا تھا۔ میں ان دنوں اجات قصبے میں زمیندار کی لڑکی کو ستار سکھاتا تھا اور یہاں اتا پارا میں دو دن کی چھٹی لے کر اپنی بڑی موسی سے ملنے کے لئے آیا تھا۔ یہ خاموش گاؤں سمندر کے کنارے بانسوں کے جھنڈ اور ناریل کے درختوں سے گھرا ہوا اپنی اداسی میں گم تھا۔ نہ جانے ہمارے بنگالی گاؤں میں اتنی اداسی کہاں سے آ جاتی ہے۔ بانس کے چھپروں کے اندر اندھیرا ہے۔ سیلن ہے۔ بانس کی ہانڈیوں میں چاول دبے پڑے ہیں۔ مچھلی کی بو ہے۔ تالاب کا پانی کائی سے سبز ہے۔ دھان کے کھیتوں میں پانی ٹھہرا ہوا ہے۔ ناریل کا درخت ایک نکیلی برچھی کی طرح آسمان کے سینے میں گہرا گھاؤ ڈالے کھڑا ہے۔ ہر جگہ، ہر وقت درد کا احساس ہے۔ ٹھہرا کا احساس ہے۔ حزن کا احساس ہے۔ سکون،جمود اور موت کا احساس ہے۔ یہ اداسی جو تم ہماری محبت، ہمارے سماج ،ہمارے ادب اور نغمے میں دیکھتے ہو۔ یہ اداسی ہمارے گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور پھر ساری دھرتی پرپھیل جاتی ہے۔ جب میں نے اسے پہلے پہل دیکھا تو یہ مجھے ایک جل پری کی طرح حسین نظر آئی۔ یہ اس وقت پانی میں تیر رہی تھی اور میں ساحل کی ریت پر ٹہل رہا تھا اور ایک نئی دھن میں سوچ رہا تھا۔ یکایک میرے کانوں میں ایک شیریں نسوانی آواز سنائی دی،
’’پرے ہٹ جاؤ، میں کنارے پر آنا چ
وہ آدمی جس کے ضمیر میں کانٹا ہے
(ایک غیر ملکی قونصل کے مکتوب جو اس نے اپنے افسر اعلیٰ کو کلکتہ سے روانہ کئے)
۸ اگست ۱۹۴۳ء کلایو اسٹریٹ، مون شائین لا۔
جناب والا،
کلکتہ، ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ہوڑہ پل ہندوستان کا سب سے عجیب و غریب پل ہے۔ بنگالی قوم ہندوستان کی سب سے ذہین قوم ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی ہندوستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ کلکتہ کا ’’سونا گاچی‘‘ ہندوستان میں طوائفوں کا سب سے بڑا بازار ہے۔ کلکتہ کا سندر بن چیتوں کی سب سے بڑی شکار گاہ ہے۔ کلکتہ جوٹ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ کلکتہ کی سب سے بڑھیا مٹھائی کا نام ’’رشوگلا‘‘ ہے۔ کہتے ہیں ایک طوائف نے ایجاد کیا تھا۔ لیکن شومئی قسمت سے وہ اسے پیٹنٹ نہ کراسکی۔ کیوں کہ ان دنوں ہندوستان میں کوئی ایسا قانون موجود نہ تھا۔ اسی لئے وہ طوائف اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھیک مانگتے مری۔ ایک الگ پارسل میں حضور پر نور کی ضیافت طبع کے لئے دو سو ’’روشو گلے‘‘ بھیج رہا ہوں۔ اگر انھیں قیمے کے ساتھ کھایا جائے تو بہت مزا دیتے ہیں۔ میں نے خود تجربہ کیا ہے۔
میں ہوں جناب کا ادنٰی ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخا
قونصل مملکت سانڈ وگھاس برائے کلکتہ۔
9 اگست کلایو اسٹریٹ
جناب والا،
حضور پر نور کی منجھلی بیٹی نے مجھ سے سپیرے کی بین کی فرمائش کی تھی۔ آج شام بازار میں مجھے ایک سپیرا مل گیا۔ پچیس ڈالر دے کر میں نے ایک خوبصورت بین خرید لی ہے۔ یہ بین اسفنج کی طرح ہلکی اور سبک اندام ہے۔ یہ ایک ہندوستانی پھل سے جسے ’’لوکی‘‘ کہتے ہیں، تیار کی جاتی ہے۔ یہ بین بالکل ہاتھ کی بنی ہوئی ہے اور اسے تیار کرتے وقت کسی مشین سے کام نہیں لیا گیا۔ میں نے اس بین پر پالش کرایا اور اسے ساگوان کے ایک خوشنما بکس میں بند کر کے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے بطور تحفہ ارسال کر رہا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی ۔ پٹاخا
۱۰ اگست
کلکتہ میں ہمارے ملک کی طرح راشننگ نہیں ہے۔ غذا کے معاملہ میں ہر شخص کو مکمل شخصی آزادی ہے۔ وہ بازار سے جتنا اناج چاہے خرید لے۔ کل مملکت ٹلی کے قونصل نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ چھبیس قسم کے گوشت کے سالن تھے۔ سبزیوں اور میٹھی چیزوں کے دو درجن کورس تیار کئے گئے تھے۔ (نہایت عمدہ شراب تھی) ہمارے ہاں جیسا کہ حضور اچھی طرح جانتے ہیں پیاز تک کی راشننگ ہے اس لحاظ سے کلکتہ کے باشندے بڑے خوش قسمت ہیں۔
کھانے پر ایک ہندوستانی انجینئر بھی مدعو تھے۔ یہ انجینئر ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ کلکتہ میں قحط پڑا ہوا ہے۔ اس پر ٹلی کا قونصل قہقہہ مار کر ہنسنے لگا اور مجھے بھی اس ہنسی میں شریک ہونا پڑا۔ دراصل یہ پڑھے لکھے، ہندوستانی بھی بڑے جاہل ہوتے ہیں۔کتابی علم سے قطع نظر انھیں اپنے ملک کی صحیح حالت کا کوئی اندازہ نہیں۔ ہندوستان کی دوتہائی آبادی دن رات غلّہ اور بچے پیدا کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
اس لئے یہاں پر غلّے اور بچوں کی کمی کبھی نہیں ہونے پاتی، بلکہ جنگ سے پیشتر تو بہت سا غلہ دساور کو جاتا تھا اور بچے قلی بنا کر جنوبی افریقہ بھیج دیئے جاتے تھے۔ اب ایک عرصے سے قلیوں کا باہر بھیجنا بند کر دیا گیا ہے اور ہندوستانی صوبوں کو ’’ہوم رول‘‘ دے دیا گیا ہے۔ مجھے یہ ہندوستانی انجینئر تو کوئی ایجی ٹیٹر قسم کا خطرناک آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی کے قونصل سے اس کا تذکرہ چھیڑا تو موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی نے بڑے غور و خوض کے بعد یہ رائے دی کہ ہندوستانی اپنے ملک پر حکومت کی قطعاً اہلیت نہیں رکھتا۔ چوں کہ موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقومی معاملات میں ایک خاص مرتبہ حاصل ہے۔ اس لئے میں ان کی رائے وقیع سمجھتا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی۔ پی
۱۱ اگست
آج صبح بولپور سے واپس آیا ہوں۔ وہاں ڈاکٹر ٹیگور کا ’’شانتی نکیتاں‘‘ دیکھا۔ کہنے کو تو یہ ایک یونیورسٹی ہے۔ لیکن پڑھائی کا یہ عالم ہے کہ طالب علموں کو بیٹھنے کے لئے ایک بنچ نہیں۔ استاد اور طالب علم سب ہی درختوں کے نیچے آلتی پالتی مارے بیٹھے رہتے ہیں اور خدا جانے کچھ پڑھتے بھی ہیں یا یوں ہی اونگھتے ہیں۔ میں وہاں سے بہت جلد آیا کیوں کہ دھوپ بہت تیز تھی اور اوپر درختوں کی شاخوں پر چڑیاں شور مچا رہی تھیں۔
ف۔ ب۔ پ
۱۲ اگست
آج چینی قونصل کے ہاں لنچ پر پھر کسی نے کہا کہ کلکتہ میں سخت قحط پڑا ہوا ہے۔ لیکن وثوق سے کچھ نہ کہہ سکا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ ہم سب لوگ حکومت بنگال کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اعلان کے جاری ہوتے ہی حضور کو مزید حالات سے مطلع کروں گا۔ بیگ میں حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے ایک جوتی بھی ارسال کر رہا ہوں۔ یہ جوتی سبز رنگ کے سانپ کی جلد سے بنائی گئی ہے۔ سبز رنگ کے سانپ برما میں بہت ہوتے ہیں، امید ہے کہ جب برما دوبارہ حکومت انگلشیہ کی عملداری میں آ جائے گا تو ان جوتوں کی تجارت کو بہت فروغ حاصل ہو سکے گا۔
میں ہوں جناب کا وغیرہ وغیرہ۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۳ اگست
آج ہمارے سفارت خانے کے باہر دو عورتوں کی لاشیں پائی گئ ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھیں۔ شاید ’’سکھیا‘‘ کی بیماری میں مبتلا تھیں ادھر بنگال میں اور غالباً سارے ہندوستان میں ’’سکھیا‘‘ کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ اس عارضے میں انسان گھلتا جاتا ہے اور آخر میں سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر مر جاتا ہے۔ یہ بڑی خوفناک بیماری ہے۔ لیکن ابھی تک اس کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوا۔ کونین کثرت سے مفت تقسیم کی جا رہی ہے۔ لیکن کونین میگنیشیا یا کسی اور مغربی دوا سے اس عارضے کی شدت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دراصل ایشیائی بیماریوں کو نوعیت مغربی امراض سے مختلف ہے۔ بہت مختلف ہے، یہ اختلاف اس مفروضے کا بدیہی ثبوت ہے کہ ایشیائی اور مغربی دو مختلف انسان ہیں۔
حضور پر نور کی رفیقۂ حیات کے باسٹھویں جنم دن کی خوشی میں بدھ کا ایک مرمر کا بت ارسال کر رہا ہوں۔ اسے میں نے پانسو ڈالر میں خریدا ہے۔ یہ مہاراجہ بندھو سار کے زمانے کا ہے اور مقدس راہب خانے کی زینت تھا۔ حضور پرنور کی رفیقۂ حیات کے ملاقاتیوں کے کمرے میں خوب سجے گا۔
مکرر عرض ہے کہ سفارت خانے کے باہر پڑی ہوئی لاشوں میں ایک بچہ بھی تھا جو اپنی مردہ ماں سے دودھ چوسنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے ہسپتال بھجوا دیا ہے۔
حضور پر نور کا غلام
ایف۔ بی۔ پی
۱۴ اگست
ڈاکٹر نے بچے کو ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بچہ ابھی سفارت خانہ میں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ حضور پر نور کی ہدایت کا انتظار ہے۔ ٹلی کے قونصل نے مشورہ دیا ہے کہ اس بچے کو جہاں سے پایا تھا۔ وہیں چھوڑ دوں۔ لیکن میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ اپنے حکومت کے صدر سے مشورہ کئے بغیر کوئی ایسا اقدام کروں جس کے سیاسی نتائج بھی نہ جانے کتنے مہلک ثابت ہوں۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۶ اگست
آج سفارت خانے کے باہر پھر لاشیں پائی گئیں۔ یہ سب لوگ اسی بیماری کا شکار معلوم ہوتے تھے۔ جس کا میں اپنے گزشتہ مکتوبات میں ذکر کر چکا ہوں۔ میں نے بچے کو انہی لاشوں میں چپکے سے رکھ دیا ہے۔ اور پولیس کو ٹیلی فون کر دیا ہے کہ وہ انھیں سفار خانے کی سیڑھیوں سے اٹھانے کا بندو بست کرے۔ امید ہے آج شام تک سب لاشیں اٹھ جائیں گی۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۷ اگست
کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’سٹیٹسمین‘‘ نے اپنے افتتاحیہ میں آج اس امر کا اعلان کیا ہے کہ کلکتہ میں سخت قحط پھیلا ہوا ہے۔ یہ اخبار چند روز سے قحط زدگان کی تصاویر بھی شائع کر رہا ہے۔ ابھی تک وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فوٹو اصلی ہیں یا نقلی۔ بظاہر تو یہ فوٹو سوکھیا کی بیماری کے پرانیوں کے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن تمام غیر ملکی قونصل اپنی رائے ’’محفوظ‘‘ رکھ رہے ہیں۔
ایف۔ بی۔ پی
۲۰ اگست
سوکھیا کی بیماری کے مریضوں کو اب ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف کلکتہ میں روز دو ڈھائی سو آدمی اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اب یہ بیماری ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ڈاکٹر لوگ بہت پریشان ہیں کیوں کہ کونین کھلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مرض میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوتی۔ ہاضمے کا مکچر میگنیشیا مکسچر اور ٹنکچر آیوڈین پورا برٹش فارما کوپیا بیکار ہے۔
چند مریضوں کا خون لے کر مغربی سائنسدانوں کے پاس بغرض تحقیق بھیجا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ کسی غیر معمولی مغربی ایکسپرٹ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں یا ایک رائل کمیشن بٹھا دیا جائے جو چار پانچ سال میں اچھی طرح چھان بین کر کے اس امر کے متعلق اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر ے۔ الغرض ان غریب مریضوں کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ شد و مد کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے کہ سارے بنگال میں قحط کا دور دورہ ہے اور ہزاروں آدمی ہر ہفتے غذا کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن ہماری نوکرانی (جو خود بنگالن ہے) کا خیال ہے کہ یہ اخبارچی جھوٹ بولتے ہیں۔ جب وہ بازار میں چیزیں خریدنے جاتی ہے تو اسے ہر چیز مل جاتی ہے۔ دام بے شک بڑھ گئے ہیں۔ لیکن یہ مہنگائی تو جنگ کی وجہ سے ناگزیر ہے۔
ایف۔ بی۔ پی۔
۲۵ اگست
آج سیاسی حلقوں نے قحط کی تردید کر دی ہے۔ بنگال اسمبلی نے جس میں ہندوستانی ممبروں اور وزراء کی کثرت ہے۔ آج اعلان کر دیا ہے کہ کلکتہ اور بنگال کا علاقہ ’’قحط زدہ علاقہ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ بنگال میں فی الحال راشننگ نہ ہو گا۔ یہ خبر سن کر غیر ملکی قونصلوں کے دل میں اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اگر بنگال قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا جاتا تو ضرور راشننگ کا فی الفور نفاذ نہ ہوتا اور۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اگر راشننگ کا نفاذ ہوتا تو اس کا اثر ہم لوگوں پر بھی پڑتا۔ موسیوسی گل جو فرنچ قونصل میں کل ہی مجھ سے کہہ رہے تھے کہ عین ممکن ہے کہ راشننگ ہو جائے۔ اس لئے تم ابھی سے شراب کا بندوبست کر لو۔ میں چندر نگر سے فرانسیسی شراب منگوانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ سنا ہے کہ چندر نگر میں کئی سو سال پرانی شراب بھی دستیاب ہوتی ہے۔ بلکہ اکثر شرابیں تو انقلاب فرانس سے بھی پہلے کی ہیں۔ اگر حضور پرنور مطلع فرمائیں تو چند بوتلیں چکھنے کے لئے بھیج دوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ اگست
کل ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں نے نیومارکیٹ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کے لئے چند کھلونے خریدے۔ ان میں ایک چینی کی گڑیا بہت ہی حسین تھی۔ اور ماریا کو بہت پسند تھی۔ میں نے ڈیڑھ ڈالر دے کر وہ گڑیا بھی خرید لی اور ماریا کو انگلی سے لگائے باہر آگیا۔ کار میں بیٹھنے کو تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کی بنگالی عورت نے میرا کوٹ پکڑ کر مجھے بنگالی زبان میں کچھ کہا۔
میں نے اس سے اپنا دامن چھڑا لیا اور کار میں بیٹھ کر اپنے بنگالی شوفر سے پوچھا،’’یہ کیا چاہتی ہے؟‘‘
ڈرائیور بنگالی عورت سے بات کر نے لگا۔ اس عورت نے جواب دیتے ہوئے اپنی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جسے وہ اپنے شانے سے لگائے کھڑی تھی۔ بڑی بڑی موٹی آنکھوں والی زرد زرد بچی بالکل چینی کی گڑیا معلوم ہوتی تھی اور ماریا کی طرف گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔
پھر بنگالی عورت نے تیزی سے کچھ کہا۔ بنگالی ڈرائیور نے اسی سرعت سے جواب دیا۔
’’کیا کہتی ہے یہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ڈرائیور نے اس عورت کی ہتھیلی پر چند سکے رکھے اور کار آگے بڑھائی۔ کار چلاتے چلاتے بولا، ’’حضور یہ اپنی بچی کو بیچنا چاہتی تھی۔ ڈیڑھ روپے میں۔‘‘
’’ڈیڑھ روپے میں، یعنی نصف ڈالر میں؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ارے نصف ڈالر میں تو چینی کی گڑیا بھی نہیں آتی؟‘‘
’’آج کل نصف ڈالر میں بلکہ اس سے بھی کم قیمت پر ایک بنگالی بچی مل سکتی ہے۔‘‘
میں حیرت سے اپنے ڈرائیور کو تکتا رہ گیا۔
اس وقت مجھے اپنے وطن کی تاریخ کا وہ باب یاد آیا۔ جب ہمارے آباو اجداد افریقہ سے حبشیوں کو زبردستی جہاز میں لاد کر اپنے ملک میں لے آتے تھے اور منڈیوں میں غلاموں کی خرید و فروخت کر تے تھے۔ ان دنوں ایک معمولی سے معمولی حبشی بھی پچیس تیس ڈالر سے کم میں نہ بکتا تھا۔ افوہ، کس قدر غلطی ہوئی۔ ہمارے بزرگ اگر افریقہ کے بجائے ہندوستان کا رخ کرتے تو بہت سستے داموں غلام حاصل کر سکتے تھے۔ حبشیوں کے بجائے اگر وہ ہندوستانیوں کی تجارت کرتے تو لاکھوں ڈالر کی بچت ہو جاتی۔ ایک ہندوستانی لڑکی صرف نصف ڈالر میں ! اور ہندوستان کی بھی آبادی چالیس کروڑ ہے۔ گویا بیس کروڑ ڈالر میں ہم پورے ہندوستان کی آبادی کو خرید سکتے تھے۔ ذرا خیال تو فرمائیے کہ بیس کروڑ ڈالر ہوتے ہی کتنے ہیں۔ اس سے زیادہ رقم تو ہمارے وطن میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔
اگر حضور پرنور کی منجھلی بیٹی کو یہ پسند ہو تو میں ایک درجن بنگالی لڑکیاں خرید کر بذریعہ ہوائی جہاز پارسل کر دوں۔ تب شوفر نے بتایا کہ آج کل ’’سونا گاچی‘‘ جہاں کلکتہ کی طوائفیں رہتی ہیں۔ اس قسم کی بردہ فروشی کا اڈہ ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں لڑکیاں شب و روز فروخت کی جا رہی ہیں۔
لڑکیوں کے والدین فروخت کرتے ہیں اور رنڈیاں خریدتی ہیں۔ عام نرخ سوا روپیہ ہے۔ لیکن اگر بچی قبول صورت ہو تو چار پانچ بلکہ دس روپے بھی مل جاتے ہیں۔ چاول آج کل بازار میں ساٹھ ستر روپے فی من ملتا ہے۔ اس حساب سے اگر ایک کنبہ اپنی دو بچیاں بھی فروخت کر دے تو کم از کم آٹھ دس دن اور زندگی کا دھندا کیا جا سکتا ہے۔ اور اوسطاً بنگالی کنبے میں لڑکیوں کی تعداد دو سے زیادہ ہوتی ہے۔
کل مئیر آف کلکتہ نے شام کے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ وہاں یقیناً بہت ہی دلچسپ باتیں سننے میں آئیں گی۔
ف۔ ب۔ پ
۲۹ اگست
میئر آف کلکتہ کا خیال ہے کہ بنگال میں شدید قحط ہے اور حالت بے حد خطرناک ہے۔ اس نے مجھ سے اپیل کی کہ میں اپنی حکومت کو بنگال کی مدد کے لئے آمادہ کروں۔ میں نے اسے اپنی حکومت کی ہمدردی کا یقین دلایا۔ لیکن یہ امر بھی اس پر واضح کر دیا کہ یہ قحط ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور ہماری حکومت کسی دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتی۔ ہم سچے جمہوریت پسند ہیں اور کوئی سچا جمہوریہ آپ کی آزادی کو سلب کرنا نہیں چاہتا۔ ہر ہندوستانی کو جینے یا مرنے کا اختیار ہے۔ یہ ایک شخصی یا زیادہ سے زیادہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کی نوعیت بین الاقوامی نہیں۔ اس موقعہ پر موسیوژاں ژاں تریپ بھی بحث میں شامل ہو گئے اور کہنے لگے۔
جب آپ کی اسمبلی نے بنگال کو قحط زدہ علاقہ famine area ہی نہیں قرار دیا تو اس صورت میں آپ دوسری حکومتوں سے مدد کیوں کر طلب کر سکتے ہیں۔ اس پر میئر آف کلکتہ خاموش ہو گئے اور رس گلے کھانے لگے۔
ف۔ ب۔ پ
30 اگست
مسٹر ایمری نے جو برطانوی وزیر ہندو ہیں۔ ہاؤس آف کامنز میں ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں آبادی کا تناسب غذائی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے۔ ہندوستان کی آبادی میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ در حالیکہ زمینی پیداوار بہت کم بڑھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہندوستانی بہت کھاتے ہیں۔
یہ تو حضور میں نے بھی آزمایا ہے کہ ہندوستانی لوگ دن میں دوبار بلکہ اکثر حالتوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اس قدر کھاتے ہیں کہ ہم مغربی لوگ دن میں پانچ بار بھی اس قدر نہیں کھاسکتے۔ موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں شرح اموات کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا پیٹو پن ہے۔ یہ لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں تو پیٹ پھٹ جاتا ہے اور وہ جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ہندوستانی کبھی منھ پھٹ نہیں ہوتا لیکن پیٹ پھٹ ضرور ہوتا ہے بلکہ اکثر حالتوں میں تلی پھٹ بھی پایا۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانیوں اور چوہوں کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اکثر حالتوں میں ان دونوں میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جتنی جلدی پیدا ہوتے ہیں اتنی جلدی مر جاتے ہیں۔ اگر چوہوں کو پلیگ ہوتی ہے تو ہندوستانیوں کو ’’سوکھیا‘‘ بلکہ عموماً پلیگ اور سوکھیا دونوں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بہر حال جب تک چوہے اپنے بل میں رہیں اور دنیا کو پریشان نہ کریں۔ ہمیں ان کے نجی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔
غذائی محکمے کے ممبر حالات کی جانچ پڑتال کے لئے تشریف لائے ہیں۔ بنگالی حلقوں میں یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ آنر بیل ممبر پر اب یہ واضح ہو جائے گا کہ بنگال میں واقعی قحط ہے اور شرح اموات کے بڑھنے کا سبب بنگالیوں کہ انار کسٹانہ حرکات نہیں بلکہ غذائی بحران ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ ستمبر
آنریبل ممبر تحقیقات کے بعد واپس چلے گئے ہیں۔ سنا ہے، وہاں حضور وائیسرائے بہادر سے ملاقات کریں گے اور اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھیں گے۔
۲۵ ستمبر
لندن کے انگریزی اخباروں کی اطلاع کے مطابق ہر روز کلکتہ کی گلیوں اور سڑکوں، فٹ پاتھوں پر لوگ مر جاتے ہیں۔ بہر حال یہ سب اخباری اطلاعیں ہیں۔ سرکاری طور پر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ بنگال میں قحط ہے۔ سب پریشان ہیں۔ چینی قونصل کل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ بنگال کے فاقہ کشوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھولنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کوئی کہتا ہے کہ قحط ہے کوئی کہتا ہے قحط نہیں ہے۔ میں نے اسے سمجھایا، بیوقوف نہ بنو۔ اس وقت تک ہمارے پاس مصدقہ اطلاع یہی ہے کہ غذائی بحران اس لئے ہے کہ ہندوستانی بہت زیادہ کھاتے ہیں۔ اب تم ان لوگوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھول کر گویا ان کے پیٹوپن کو اور شہ دو گے۔ یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن چینی قونصل میری تشریحات سے غیر مطمئن معلوم ہوتا تھا۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ ستمبر
دلی میں غذائی مسئلے پر غور کرنے کے لئے ایک کانفرنس بلائی جا رہی ہے۔ آج پھر یہاں کئی سو لوگ ’’سوکھیا‘‘ سے مر گئے۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ مختلف صوبائی حکومتوں نے رعایا میں اناج تقسیم کرنے کی جوا سکیم بنائی ہے۔ اس سے انھوں نے کئی لاکھ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔ اس میں بنگال کی حکومت بھی شامل ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ اکتوبر
کل گرانڈ ہوٹل میں ’’یوم بنگال‘‘ منایا گیا۔ کلکتہ کے یوروپین امراء و شرفاء کے علاوہ حکام اعلیٰ، شہر کے بڑے سیٹھ اور مہاراجے بھی اس دلچسپ تفریح میں شریک تھے۔ ڈانس کا انتظام خاص طور پر اچھا تھا۔ میں نے مسز جیولٹ تریپ کے ساتھ دو مرتبہ ڈانس کیا (مسز تریپ کے منھ سے لہسن کی بو آتی تھی۔ نہ جانے کیوں؟‘‘) مسز تریپ سے معلوم ہوا کہ اس سہن ماہتابی کے موقعہ پر یوم بنگال کے سلسلہ میں نو لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا ہے۔
مسز تریپ بار بار چاند کی خوب صورت اور رات کی سیاہ ملائمت کا ذکر کر رہی تھیں اور ان کے منھ سے لہسن کے بھپارے اٹھ رہے تھے۔ جب مجھے ان کے ساتھ دو بارہ ڈانس کرنا پڑا تو میرا جی چاہتا تھا کہ ان کے منھ پر لائی سول یا فینائل چھڑک کر ڈانس کروں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مسز جیولٹ تریپ موسیو ژاں ژاں تریپ کی باوقار بیوی ہیں اور موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقوامی معاملات میں ایک قابل رشک مرتبہ حاصل ہے۔
ہندوستانی خواتین میں مس سنیہہ سے تعارف ہوا۔ بڑی قبول صورت ہے اور بے حد اچھا ناچتی ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۶ اکتوبر
مسٹر منشی حکومت بمبئی کے ایک سابق وزیر کا اندازہ ہے کہ بنگالی میں ہر ہفتے قریباً ایک لاکھ افراد قحط کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ سرکاری اطلاع نہیں ہے۔ قونصل خانے کے باہر آج پھر چند لاشیں پائی گئیں۔ شوفر نے بتایا کہ یہ ایک پورا خاندان تھا جو دیہات سے روٹی کی تلاش میں کلکتہ آیا تھا۔ پرسوں بھی اسی طرح میں نے ایک مغنی کی لاش دیکھی تھی۔ ایک ہاتھ میں وہ اپنی ستار پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں لکڑی کا ایک جھنجھنا سمجھ نہیں آیا۔ اس کا کیا مطلب تھا۔ بیچارے چوہے کس طرح چپ چاپ مر جاتے ہیں اور زبان سے اف تک بھی نہیں کرتے۔
میں نے ہندوستانیوں سے زیادہ شریف چوہے دنیا میں اور کہیں نہیں دیکھے۔ اگر امن پسندی کے لئے نوبل پرائز کسی قوم کو مل سکتا ہے۔ تو وہ ہندوستانی ہیں۔ یعنی لاکھوں کی تعداد میں بھوکے مر جاتے ہیں لیکن زبان پر ایک کلمۂ شکایت نہیں لائیں گے۔ صرف بے روح، بے نور آنکھوں سے آسمان کی طرف تاکتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں۔ ان داتا، ان داتا۔! کل رات پھر مجھے اس مغنی کی خاموش شکایت سے معمور، جا مدو ساکت پتھریلی بے نور سی نگاہیں پریشان کرتی رہیں۔
ف۔ ب۔ پ
۵ نومبر
نئے حضور وائسرائے بہادر تشریف لائے ہیں۔ سنا ہے کہ انھوں نے فوج کو قحط زدہ لوگوں کی امداد پر مامور کیا ہے اور جو لوگ کلکتہ کے گلی کو چوں میں مرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے باہر مضافات میں مرکز کھول دیئے گئے ہیں۔ جہاں ان کی آسائش کے لئے سب سامان بہم پہنچایا جائے گا۔
ف۔ ب۔ پ
۱۰ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ بنگال میں واقعی قحط ہو اور سوکھیا کی بیماری کی اطلاعیں غلط ہوں۔ غیر ملکی قونصل خانوں میں اس ریمارک سے ہل چل مچ گئی ہے۔ مملکت گوبیا، لوبیا اور مٹرسلووکیا کے قونصلوں کا خیال ہے کہ موسیوژاں ژاں تریپ کا یہ جملہ کسی آنے والی خوفناک جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ یورپی اور ایشیائی ملکوں سے بھاگے ہوئے لوگوں میں آج کل ہندوستان میں مقیم ہیں ۔
وائسرائے کی اسکیم کے متعلق مختلف شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ اگر بنگال واقعی قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا تو ان کے الاؤنس کا کیا بنے گا؟ وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ میں حضور پر نور کی توجہ اس سیاسی الجھن کی طرف دلانا چاہتا ہوں، جو وائسرائے بہادر کے اعلان سے پیدا ہو گئی ہے۔ مغرب کے ملکوں کے رفیوجیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کیا ہمیں سینہ سپر ہو کر نہ لڑنا چاہیے۔ مغربی تہذیب کلچر اور تمدن کے کیا تقاضے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ میں اس سلسلہ میں حضور پرنور کے احکام کا منتظر ہوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۵ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط نہیں ہے۔ موسیو فاں فاں فنگ چینی قونصل کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ حضور نے مجھے جس کام کےلئے کلکتہ کے قونصل خانے میں تعینات کیا تھا۔ وہ کام میں گزشتہ تین ماہ میں بھی پورا نہ کر سکا۔ میرے پاس اس امر کی ایک بھی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ بنگال میں قحط ہے یا نہیں ہے۔ تین ماہ کی مسلسل کاوش کے بعد بھی مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ صحیح ڈپلومیٹک پوزیشن کیا ہے۔ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں، شرمندہ ہوں۔ معافی چاہتا ہوں۔
نیز عرض ہے کہ حضور پر نور کی منجھلی بیٹی کو مجھ سے اور مجھے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے عشق ہے۔ اس لئے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ حضور پر نور مجھے کلکتہ کے سفارت خانے سے واپس بلالیں اور میری شادی اپنی بیٹی۔۔۔ مطلب ہے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے کر دیں اور حضور پر نور مجھے کسی ممتاز سفارت خانے میں سفیر اعلی کا مرتبہ بخش دیں؟ اس نوازش کے لئے میں حضور پر نور کا تاقیامت شکر گزار ہو ں گا۔
ایڈتھ کے لئے ایک نیلم کی انگوٹھی ارسال کر رہا ہوں۔ اسے مہاراجہ اشوک کی بیٹی پہنا کرتی تھی۔
میں ہوں جناب کا حقیر ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخہ
قونصل مملکت سانڈوگھاس برائے کلکتہ
(۲)
وہ آدمی جو مر چکا ہے
صبح ناشتہ پر جب اس نے اخبار کھولا تو اس نے بنگال کے فاقہ کشوں کی تصاویر دیکھیں جو سڑکوں پر، درختوں کے نیچے، گلیوں میں، کھیتوں میں بازاروں میں، گھروں میں ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ آملیٹ کھاتے کھاتے اس نے سوچا کہ ان غریبوں کی امداد کس طرح ممکن ہے۔ یہ غریب جو ناامیدی کی منزل سے آگے جا چکے ہیں اور موت کی بحرانی کیفیت سے ہمکنار ہیں۔ انھیں زندگی کی طرف واپس لانا، زندگی کی صعوبتوں سے دوبارہ آشنا کرنا، ان سے ہمدردی نہیں دشمنی ہو گی۔
اس نے جلدی میں اخبار کا ورق الٹا اور توس پر مربہ لگا کر کھانے لگا۔ تو س نرم گرم اور کر کرا تھا اور مربے کی مٹھاس اور اس کی ہلکی سی ترشی نے اس کے ذائقہ کو اور بھی نکھار دیا تھا۔ جیسے غازے کا غبار عورت کے حسن کونکھار دیتا ہے۔ یکایک اسے سنیہ کا خیال آیا۔ سنیہ ابھی تک نہ آئی تھی۔ گو اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صبح کے ناشتہ پر اس کے ساتھ موجود ہو گی۔ سو رہی ہو گی بیچاری اب کیا وقت ہو گا۔ اس نے اپنی سونے کی گھڑی سے پوچھا جو اس کی گوری کلائی میں جس پر سیاہ بالوں کی ایک ہلکی سی ریشمیں لائین تھی۔ ایک سیاہ ریشمی فیتے سے بندھی تھی۔ گھڑی، قمیض کے بٹن اور ٹائی کا پن، یہی تین زیور مرد پہن سکتا ہے اور عورتوں کو دیکھیئے کہ جسم کو زیور سے ڈھک لیتی۔ کان کے لئے زیور، پاؤں کے لئے زیور، کمر کے لئے زیور، ناک کے لئے زیور، سر کے لئے زیور، گلے کے لئے زیور باہوں کے لئے زیور اور مرد بے چارے کے لئے صرف تین زیور بلکہ دو ہی سمجھئے کیوں کہ ٹائی کا پن اب فیشن سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ نہ جانے مردوں کو زیادہ زیور پہننے سے کیوں منع کیا گیا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے وہ دلیا کھانے لگا۔ دلئے سے الائچی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ اس کے نتھنے، اس کے پاکیزہ تعطر سے مصفٰی ہو گئے اور یکایک اس کے نتھنوں میں گزشتہ رات کے عطر کی خوشبو تازہ ہو گئی۔ وہ عطر جو سنیہ نے اپنی ساڑھی، اپنے بالوں میں لگا رکھا تھا۔ گزشتہ رات کا دلفریب رقص اس کی آنکھوں کے آگے گھومتا گیا۔ گرانڈ ہوٹل میں ناچ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ اس کا اور سنیہ کا جوڑا کتنا اچھا ہے۔ سارے ہال کی نگاہیں ان پر جمی ہوئی تھیں۔
دونوں کانوں میں گول گول طلائی آویزے پہنے ہوئے تھی۔ جو اس کی لوووں کو چھپا رہے تھے۔ ہونٹوں پر جوانی کا تبسم اور میکس فیکٹر کی لالی کا معجزہ اور سینے کے سمن زاروں پر موتیوں کی مالا چمکتی، دمکتی، لچکتی ناگن کی طرح سوبل کھاتی ہوئی۔ رمبا ناچ کوئی سنیہ سے سیکھے، اس کے جسم کی روانی اور ریشمی بنارسی ساڑی کا پر شور بہاؤ جیسے سمندر کی لہریں چاندنی رات میں ساحل سے اٹھکھیلیاں کر رہی ہوں۔ لہر آگے آتی ہے۔ ساحل کو چھو کر واپس چلی جاتی ہے۔ مدھم سی سرسراہٹ پیدا ہوتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ شور مدھم ہو جاتا ہے۔ شور قریب آ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ لہر چاندنی میں نہائے ہوئے ساحل کو چوم رہی ہے۔
سنیہ کے لب نیم وا تھے۔ جن میں دانتوں کی لڑی سپید موتیوں کی مالا کی طرح لرزتی نظر آتی تھی۔۔۔ یکایک وہاں کی بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ سے ہونٹ سے ہونٹ ملائے، جسم سے جسم لگائے آنکھیں بند کئے رقص کے تال پر ناچتے رہے۔ ان سروں کی مدھم سی روانی، وہ رسیلا میٹھا تمون رواں دواں، رواں دواں موت کی سی پاکیزگی۔ نیند اور خمار اور نشہ جیسے جسم نہ ہو، جیسے زندگی نہ ہو، جیسے تو نہ ہو، جیسے میں نہ ہوں، صرف ایک بوسہ ہو۔ صرف ایک گیت ہو۔ اک لہر ہو۔ رواں دواں، رواں دواں۔۔۔ اس نے سیب کے قتلے کئے اور کانٹے سے اٹھا کر کھانے لگا۔ پیالی میں چائے انڈیلتے ہوئے اس نے سوچا سنیہ کا جسم کتنا خوب صورت ہے۔ اس کی روح کتنی حسین ہے۔ اس کا دماغ کس قدر کھوکھلا ہے۔ اسے پر مغز عورتیں بالکل پسند نہ تھیں۔
جب دیکھو اشتراکیت، سامراجیت اور مارکسیت پر بحث کر رہی ہیں۔ آزادی تعلیم نسواں، نوکری، یہ نئی عورت، عورت نہیں فلسفے کی کتاب ہے۔ بھئی ایسی عورت سے ملنے یا شادی کرنے کی بجائے تو یہی بہتر ہے کہ آدمی ارسطو پڑھا کرے۔ اس نے بیقرار ہو کر ایک بار پھر گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ سنیہ ابھی تک نہ آتی تھی۔ چرچل اور اسٹالن اور روز ویلٹ طہران میں دنیا کا نقشہ بدل رہے تھے اور بنگال میں لاکھوں آدمی بھوک سے مر رہے تھے۔ دنیا کو اطلا نتک چار ٹر دیا جا رہا تھا اور بنگال میں چاول کا ایک دانہ بھی نہ تھا۔ اسے ہندوستان کی غربت پر اتنا ترس آیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ہم غریب ہیں بے بس ہیں نادار ہیں۔ مجبور ہیں۔ ہمارے گھر کا وہی حال ہے جو میرکے گھر کا حال تھا۔ جس کا ذکر انھوں نے چوتھی جماعت میں پڑھا تھا اور جو ہر وقت فریاد کرتا رہتا تھا۔ جس کی دیواریں سیلی سیلی اور گری ہوئی تھیں اور جس کی چھت ہمیشہ ٹپک ٹپک کر روتی رہتی تھی۔ اس نے سوچا ہندوستان بھی ہمیشہ روتا رہتا ہے۔ کبھی روٹی نہیں ملتی، کبھی کپڑا نہیں ملتا۔ کبھی بارش نہیں ہوتی۔ کبھی وبا پھیل جاتی ہے۔ اب بنگال کے بیٹوں کو دیکھو، ہڈیوں کے ڈھانچے آنکھوں میں ابدی افسردگی، لبوں پر بھکا ری کی صدا، روٹی، چاول کا ایک دانہ۔ یکایک چائے کا گھونٹ اسے اپنے حلق میں تلخ محسوس ہوا اور اس نے سوچا کہ وہ ضرور اپنے ہم وطنوں کی مدد کرے گا۔ وہ چندہ اکٹھا کرے گا۔سارے ہندوستان کا دورہ کریگا۔اور چیخ چیخ کر اس کے ضمیر کو بیدار کریگا۔ دورہ، جلسے، والنٹیر، چندہ، اناج اور زندگی کی ایک لہر ملک میں اس سر ے سے دوسرے سرے تک پھیل جائے گی۔ برقی روکی طرح۔ یکایک اس نے اپنا نام جلی سرخیوں میں دیکھا۔ ملک کا ہر اخبار اس کی خدمات کو سراہ رہا تھا اور خود، اس اخبار میں جسے وہ اب پڑھ رہا تھا۔ اسے اپنی تصویر جھانکتی نظر آئی ۔کھدر کا لباس اور جواہر لال جیکیٹ اور ہاں ویسی ہی خوب صورت مسکراہٹ۔ ہاں بس یہ ٹھیک ہے۔ اس نے بیرے کو آواز دی اسے ایک اور آملیٹ لانے کو کہا۔
آج سے وہ اپنی زندگی بدل ڈالے گا۔ اپنی حیات کا ہر لمحہ ان بھوکے ننگے، پیاسے، مرتے ہوئے ہم وطنوں کی خدمت میں صرف کر دے گا۔ وہ اپنی جان بھی ان کے لئے قربان کر دیگا۔ یکایک اس نے اپنے آپ کو پھانسی کی کوٹھری میں بند دیکھا، وہ پھانسی کے تختے کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا تھا۔ جلاد نے چہرے پر غلاف اڑھا دیا اور اس نے اس کھردرے موٹے غلاف کے اندر سے چلا کر کہا، ’’میں مر رہا ہوں۔ اپنے بھوکے پیاسے ننگے وطن کے لئے، یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو پھر بھر آئے اور دو ایک گرم گرم نمکین بوندیں چائے کی پیالی میں بھی گر پڑیں اور اس نے رومال سے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ یکایک ایک کا رپورچ میں رکی اور موٹر کا پٹ کھول کر سنیہ مسکراتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر آتی ہوئی اسے ہیلو کہتی ہوئی۔ اس نے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کے رخسار کو پھول کی طرح اپنے عطر بیز ہونٹوں سے چومتی ہوئی نظر آئی، بجلی، گرمی، روشنی، مسرت سب کچھ ایک تبسم میں تھا اور پھر زہر، سنیہ کی آنکھوں میں زہر تھا۔ اس کی زلفوں میں زہر تھا۔ اس کی مدھم ہلکی سانس کی ہر جنبش میں زہر تھا۔ وہ اجنتا کی تصویر تھی، جس کے خد و خال تصور نے زہر سے ابھارے تھے۔
اس نے پوچھا، ’’ناشتہ کروگی؟‘‘
’’نہیں میں ناشتہ کر کے آئی ہوں،‘‘ پھر سنیہ نے اس کی پلکوں میں آنسو چھلکتے دیکھ بولی،’’تم آج اداس کیوں ہو؟‘‘
وہ بولا، ’’کچھ نہیں۔ یونہی بنگال کے فاقہ کشوں کا حال پڑھ رہا تھا۔ سنیہ، ہمیں بنگال کے لئے کچھ کرنا چاہیئے۔‘‘
’’door darlings‘‘ سنیہ نے آہ بھر کر اور جیبی آئینے کی مدد سے اپنے ہونٹوں کی سرخی ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگ ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ ماسوا اس کے کہ ان کی روحوں کے لئے پر ماتما سے شانتی مانگیں۔‘‘
’’کانوونٹ کی تعلیم ہے نا آخر؟‘‘ اس نے اپنے خوب صورت سپید دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
وہ سوچ کر بولا،’’ہمیں ایک ریزولیوشن بھی پاس کرنا چاہیئے۔‘‘
’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
سنیہ نے نہایت معصومانہ انداز میں پوچھا اور اپنی ساڑھی کا پلو درست کرنے لگی۔
’’اب یہ تو مجھے ٹھیک طرح سے معلوم نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب کبھی ملک پر کوئی آفت آتی ہے۔ ریزولیوشن ضرور پاس کیا جاتا ہے۔ سنا ہے ریزولیوشن پاس کر دینے سے سب کام خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔۔۔ میرا خیال ہے۔ بس ابھی ٹیلی فون کر کے شہر کے کسی رہنما سے دباغ فن کے بارے میں پوچھتا ہوں۔‘‘
’’رہنے بھی دو ڈارلنگ!‘‘ سنیہ نے مسکرا کر کہا۔
’’دیکھو، جوڑے میں پھول ٹھیک سجا ہے؟‘‘
اس نے نیلراج کی نازک ڈنڈی کو جوڑے کے اندر تھوڑا سا دبا دیا۔
’’بے حد پیارا پھول ہے، نیلا جیسے کرشن کا جسم، جیسے ناگ کا پھن۔ جیسے زہر کا رنگ!‘‘
پھر سوچ کر بولا،’’نہیں کچھ بھی ہو۔ ریزولیوشن ضرور پاس ہونا چاہیئے۔ میں ابھی ٹیلی فون کرتا ہوں۔‘‘
سنیہ نے اسے اپنے ہاتھ کی ایک ہلکی سی جنبش سے روک لیا۔ گداز انگلیوں کا لمس ایک ریشمی رو کی طرح اس کے جسم کی رگوں اور عروق میں پھیلتا گیا۔ رواں دواں۔ رواں دواں۔۔۔ اس لہر نے اسے بالکل بے بس کر دیا اور وہ ساحل کی طرح بے حس و حرکت ہو گیا۔
’’آخری رمبا کتنا اچھا تھا!‘‘ سنیہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
اور اس کے ذہن میں پھر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ بنگالی فاقہ مستوں کی قطار میں اندر گھستی چلی آ رہی تھیں۔ وہ انھیں باہر نکالنے کی کوشش میں کامیاب ہوا۔ بولا،’’میں کہتا ہوں سنیہ، ریزولیشن پاس کرنے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں اس کے بعد ہمیں قحط زدہ علاقے کا دورہ کرنا چاہیئے کیوں؟‘‘
’’بہت دماغی محنت سے کام لے رہے ہو اس وقت۔‘‘ سنیہ نے قدرے تشویشناک لہجہ میں کہا۔
’’بیمار ہو جاؤ گے! جانے دو۔ وہ بے چارے تو مر رہے ہیں۔ انھیں آرام سے مرنے دو تم کیوں مفت میں پریشان ہوتےہو ؟‘‘
’’قحط زدہ علاقے کا دورہ کروں گا۔ یہ ٹھیک ہے۔ سنیہ، تم بھی ساتھ چلو گی نا؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’بنگال کے دیہات میں۔‘‘
’’ضرور۔ مگر وہاں کس ہوٹل میں ٹھہریں گے؟‘‘
ہوٹل کا ذکر سن کر اس نے اپنی تجویز کو وہیں اپنے ذہن میں قتل، کر ڈالا اور قبر کھود کر وہیں اندر دفنا دیا۔ خدا جانے اس کا ذہن اس قسم کی کتنی ناپختہ تمناؤں اور آرزؤں کا قبرستان بن چکا ہے۔
وہ بچے کی طرح روٹھا ہوا تھا، اپنی زندگی سے بیزار۔ سنیہ نے کہا، ’’میں تمہیں بتاؤں۔ ایک شاندار ناچ پارٹی ہو جائے۔ گرانڈ میں۔ دو روپیہ فی ٹکٹ اور شراب کے پیسے الگ رہے اور جو رقم اس طرح اکٹھی ہو جائے وہ بنگال ریلیف فنڈ میں۔۔۔‘‘
’’ارے رررے۔۔۔‘‘ اس نے کرسی سے اچھل کر سنیہ کو اپنے گلے لگایا۔ اے جان تمنا، تمہاری روح کتنی حسین ہے۔‘‘
’’جب ہی تم نے کل رات آخری رمبا کے بعد مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی۔‘‘ سنیہ نے ہنس کر کہا۔
’’اور تم نے کیا جواب دیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں نے انکار کر دیا تھا۔‘‘ سنیہ نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’بہت اچھا کیا۔‘‘ وہ بولا، ’’میں اس وقت شراب کے نشے میں تھا۔ ‘‘
کار،جیوتی رام، میونی رام، پیونی رام بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان پر رکی، سامنے گرانڈ ہوٹل کی عمارت تھی۔ کسی مغلئی مقبرے کی طرح وسیع اور پر شکوہ۔
اس نے کہا، ’’تمہارے لئے کون سے سگریٹ لے لوں!‘‘
’’روز۔ مجھے اس کی خوشبو پسند ہے۔‘‘ سنیہ نے کہا۔
’’امی دو دن کھیتے پائی نی کی چھوکھیتے داؤ۔‘‘
ایک بنگالی لڑکا دھوتی پہنے ہوئے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ میلی کچیلی، خاک میں اٹی ہوئی، آنکھیں غلیظ اور آدھ مندی ۔سنیہ نے کراہیت سے منھ پھیر لیا۔
’’میم صائب ایکٹاپوئے شاداؤ۔‘‘ لڑکا گڑ گڑا رہا تھا۔
’’تو میں روز ہی لے آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جیونی رام۔ میونی رام۔ بیونی رام، بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان کے اندر غائب ہو گیا۔
سنیہ کار میں بیٹھی لیکن بنگال کی بھوکی مکھیاں اس کے دماغ میں بھن بھناتی رہیں۔ میم صاحب۔۔۔میم صاحب۔ میم صاحب۔ میم صاحب نے دو ایک بار انہیں جھڑک دیا۔ لیکن بھوک جھڑکنے سے کہاں دور ہوتی ہے۔ وہ اور بھی قریب آ جاتی ہے۔ لڑکی نے ڈرتے ڈرتے اپنے ننھے ننھے ہاتھ سنیہ کی ساڑی سے لگا دئیے۔اور اس کا پلو پکڑ کر لجاجت سے کہنے لگی، ’’میم صاحب۔۔۔ میم صاحب۔میم صائب بورڈ کھیدے پیچھ۔ کی چھودا۔‘‘
سنیہ اب بالکل زچ ہو گئی تھی۔ اس نے جلدی سے پلو چھڑا لیا۔ اتنے میں وہ آ گیا۔ سنیہ بولی،’’یہ گدا گر کیوں اس قدر پریشان کرتے ہیں۔ کارپوریشن کوئی انتظام نہیں کر سکتی ہے کیا؟ جب سے تم دوکان کے اندر داخل ہوئے ہو۔یہ۔۔۔‘‘
اس نے گدا گر لڑکے کو زور سے چپت لگایا اور کار گھبرا کر گرانڈ ہوٹل کے پورچ میں لے آیا۔
بنگالی لڑکی جو ایک جھٹکے کے ساتھ دور جا پڑی تھی۔ وہیں فرش خاک پر کراہنے لگی۔ لڑکے نے چھوٹی بہن کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،
’’تمار کو تھاؤ لاگے نے تو۔‘‘
لڑکی سسکنے لگی۔ ناچ عروج پر تھا۔ سنیہ اور وہ ایک میز کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔
سنیہ نے پوچھا، ’’کتنے روپے اکٹھے ہوئے؟‘‘
’’ساڑھے چھ ہزار۔‘‘
’’ابھی تو ناچ عروج پر ہے۔ صبح چار بجے تک۔۔۔‘‘
’’نو ہزار روپیہ ہو جائے گا۔‘‘ وہ بولا۔
’’آج تم نے بہت کام کیا ہے!‘‘ سنیہ نے اس کی انگلیوں کو چھو کر کہا۔
’’کیا پیوگی؟‘‘
’’تم کیا پیو گے؟‘‘
’’جن اور سوڈا۔‘‘
سنیہ بولی، ’’بیرا۔ صاحب کے لئے ایک لارج جن لاؤ اور سوڈا۔‘‘
’’ناچتے ناچتے اور پیتے پیتے پریشان ہو گئی ہوں۔‘‘
’’اپنے وطن کی خاطر سب کچھ کرنا پڑتا ہے ڈارلنگ۔‘‘ اس نے سنیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’اوہ مجھے امپریلزم سے کس قدر نفرت ہے۔‘‘ سنیہ نے پر خلوص لہجہ میں کہا۔
’’بیرا، میرے لئے ایک ورجن لاؤ۔‘‘
بیرے نے’’ورجن‘‘ کا جام لاکر سامنے رکھ دیا۔ جن کی سپیدی میں ور موتھ کی لالی اس طرح نظر آتی تھی جیسے سنیہ کے عنبریں چہرے پر اس کے لب لعلیں۔ سنیہ نے جام ہلایا اور کاک ٹیل کا رنگ شفقی ہو گیا۔ سنیہ نے جام اٹھایا اور بجلی کی روشنی نے اس کے جام میں گھل کر یاقوت کی سی چمک پیدا کر دی۔ یاقوت سنیہ کی انگلیوں میں تھرا رہا تھا۔ یاقوت جو خون کی طرح سرخ تھا۔
ناچ عروج پر تھا اور وہ اور سنیہ ناچ رہے تھے۔ ایک گت، ایک تال ایک لے، سمندر دور،بہت دور۔کہیں نیچے چلا گیا تھا۔اور زمین گم ہو گئی تھی۔اور وہ ہوا میں اڑ رہے تھے۔اور سنیہ کا چہرہ اس کے کندھے پر تھا اور سنیہ کے بالوں میں بسی ہوئی خوشبو اسے بلا رہی تھی۔ بال بنانے کا انداز کوئی سنیہ سے سیکھے۔ یہ عام ہندوستانی لڑکیاں تو بیچ میں سے یا ایک طرف مانگ نکال لیتی اور تیل چپڑ کر بالوں میں کنگھی کر لیتی ہیں۔ بہت ہوا تو دو چوٹیاں کر ڈالیں اور اپنی دانست میں فیشن کی شہزادی بن بیٹھیں ۔مگر یہ سنیہ ہی جانتی ہے کہ بالوں کی ایک الگ ہستی ہوتی ہے۔ ان کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ ان کی مشاطگی عورت کی نسائیت کی معراج ہے۔ جیسے کوئی مصور سادہ تختے پر حسن کی نازک خطوط کھینچتا ہے۔ اسی طرح سنیہ بھی اپنے بال سنوارتی تھی۔ کبھی اس کے بال کنول کے پھول بن جاتے کبھی کانوں پر ناگن کےپھن۔ وہ کبھی چاند کا ہالہ ہو جاتے کبھی ان بالوں میں ہمالیہ کی وادیوں کے سے نشیب و فراز پیدا ہو جاتے۔ سنیہ اپنے بالوں کی آرائش میں ایسے جمالیاتی ذوق اور جودت طبع کا ثبوت دیتی تھی کہ معلوم ہوتا تھا سنیہ کی عقل اس کے دماغ میں نہیں، اس کے بالوں میں ہے۔
ناچ عروج پر تھا اور یہ بال اس کے رخساروں سے مس ہو رہے تھے۔ اس کے رگ و پے میں رقص کی روانی تھی اور نتھنوں میں اس خوشبو کا تعطر اس کا جسم اور سنیہ کا جسم پگھل کر ایک ہو گئے تھے اور ایک شعلے کی طرح ساز کی دھن پر لہرا رہے تھے۔ ایک شعلہ، ایک پھن، ایک زہر۔ایک لہر۔ لہریں۔لہریں، ہلکی ہلکی، گرم مدورسی لہریں ساحل کو چومتی ہوئی۔ لوریاں دے کر تھپک تھپک کر سلاتی ہوئی۔ سو جاؤ موت میں زندگی ہے۔ حرکت نہ کرو۔ سکون میں زندگی ہے۔ آزادی نہ طلب کرو۔ غلامی ہی زندگی ہے۔ چاروں طرف ہال میں ایک میٹھا سا زہر بسا ہوا تھا۔ شراب میں،عورت میں، ناچ میں۔ سنیہ کے نیلے سائے میں۔ اس کے پراسرار تبسم میں، اس کے نیم وا لبوں کے اندر کانپتی ہوئی موتیوں کی لڑی میں، زہر۔۔۔ زہر اور نیند اور سنیہ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے، بند ہوتے ہوئے لب، اور نغمے کا زہر، سو جاؤ۔سو جاؤ۔ سو جاؤ۔ یکایک ہال میں بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے، اس کے جسم سے جسم لگائے۔ مدھم مدھم دھیمے دھیمے ہولے ناچ کے جھولے میں گہرے، گداز، گرم آغوش میں کھو گیا۔ بہہ گیا۔ سو گیا، مرگیا۔
(۳)
وہ آدمی جو ابھی زندہ ہے
میں مر چکا ہوں؟ میں زندہ ہوں؟ میری پھٹی پھٹی بے نور بے بصر آنکھیں آسمان کی پہنائیوں میں کسے ڈھونڈ رہی ہیں؟ آؤپل بھر کے لئے اس قونصل خانے کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاؤ اور میری داستان سنتے جاؤ۔ جب تک پولیس، سیواسمتی، یا انجمن خدا م المسلمین میری لاش کو یہاں سے اٹھا نہ لے جائیں۔ تم میری داستان سن لو۔ نفرت سے منھ پھیرو۔ میں بھی تمہاری طرح گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اب میرے جسم پر گوشت کم اور پوست زیادہ نظر آتا ہے اور اس میں بھی سڑاند پیدا ہو رہی ہے اور ناک سے پانی کے بلبلے سے اٹھ رہے ہیں۔
لیکن یہ تو سائنس کا ایک معمولی سا عملیہ ہے۔ تمہارے جسم اور میرے جسم میں صرف اتنا فرق ہے کہ میرے دل کی حرکت بند ہو گئی ہے۔ دماغ نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پیٹ ابھی تک بھوکا ہے۔ یعنی اب بھی اس قدر بھوکا ہے کہ میں سوچتا ہوں، اگر تم چاول کا ایک ہی دانا میرے پیٹ میں پہنچا دو تو وہ پھر سے کام شروع کر دیگا۔ آزما کر دیکھ لو۔ کدھر چلے۔ ٹھہرو، ٹھہرو، ٹھہرو نہ جاؤ۔ میں تو یونہی مزاق کر رہا تھا۔ تم گھر ا گئے کہ کلکتہ کے مردے بھی بھیک مانگتے ہیں؟ خدا کے لئے نہ جاؤ میری داستان سن لو۔ ہاں ہاں اس چاول کے دانے کو اپنی مٹھی میں سنبھال کر رکھو۔ میں اب تم سے بھیک نہیں طلب کروں گا۔ کیوں کہ میرا جسم اب گل چکا ہے۔ اسے چاول کی دانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب یہ خود ایک دن چاول کا دانہ بن جائیگا۔ نرم نرم گداز مٹی میں جس کے ہر مسام میں ندی کا پانی رچا ہوگا۔ یہ جسم گھل جائے گا۔ اپنے اندر دھان کی پنیری اگتے ہوئے دیکھے گا اور پھر یہ ایک دن پانی کی پتلی تہہ سے اوپر سر نکال کر اپنے سبز سبز خوشوں کو ہوا میں لہرائے گا، مسکرائے گا، ہنسے گا، کھلکھلائے گا۔ کرنوں سے کھیلے گا۔ چاندنی میں نہائے گا۔ پرندوں کے چہچہوں اور خنک ہوا کے جھونکوں کے شہد آ گیں بوسوں سے اس کی حیات کے بند بند میں ایک نئی رعنائی ایک نیا حسن، ایک نیا نغمہ پیدا ہو گا۔ چاول کا ایک دانہ ہو گا۔ صدف کے موتی کی طرح اجلا، معصوم اور خوب صورت۔۔۔ آج میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا راز، وہ راز جو تمھیں ایک مردہ ہی بتا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے دعا کرو۔ وہ تمھیں انسان نہ بنائے۔ چاول کا ایک دانہ بنا دے۔ گو زندگی انسان میں بھی ہے اور چاول کے دانے میں بھی۔ لیکن جو زندگی چاول کے دانے میں ہے۔ وہ انسان کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ خوبصورت ہے۔ پاک ہے اور انسان کے پاس بھی اس زندگی کے سوا اور ہے کیا۔
انسان کی جائیداد اس کا جسم، اس کا باغ اس کا گھر نہیں بلکہ یہی اس کی زندگی ہے۔ اس کا اپنا آپ، وہ ان سب چیزوں کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے اپنے جسم کو، اپنی زمین کو، اپنے گھر کو اس کے دل میں چند تصویریں ہوتی ہیں۔ چند خیال آگ کے چند انگارے ایک مسکراہٹ وہ ان ہی پر جیتا ہے۔ اورجب مر جاتا ہے تو صرف انھیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
چاول کے دانے کی زندگی تم دیکھ چکے۔ اب آؤ میں تمھیں اپنی زندگی دکھاؤں ،نفرت سے منھ نہ پھیر لو۔ کیا ہوا؟ اگر میرا جسم مردہ ہے۔ میری روح تو زندہ ہے میری روح تو بیدار ہے اور بیشتر اس کے کہ وہ بھی سو جائے، وہ تمھیں ان چند دنوں کی کہانی سنانا چاہتی ہے۔ جب روح جسم ایک ساتھ چلتے پھرتے ناچتے گاتے ہنستے بولتے تھے۔ روح اور جسم، دو میں مزا ہے، دو میں حرکت ہے، دو میں زندگی ہے، دو میں تخلیق ہے۔ جب دھرتی اور پانی ملتے ہیں تو چاول کا دانہ پیدا ہوتا ہے۔
جب عورت اور مرد ملتے ہیں تو ایک خوبصورت ہنستا ہوا بچہ ظہور میں آتا ہے۔ جب روح اور جسم ملتے ہیں تو زندگی پیدا ہوتی ہے اور جب روح الگ ہوتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے۔ اگر غور سے دیکھو گے تو تمہیں اس دھوئیں میں میرے ماضی کی تصاویر لرزتی، دمکتی، گم ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔۔۔ یہ تجلی کیا تھی۔ ۔۔یہ میری بیوی کی مسکراہٹ تھی۔ یہ میری بیوی ہے۔ شرماؤ نہیں سامنے آ جاؤ، اے جان تمنا۔ اسے دیکھا آپ نے؟ یہ سانولی سلونی مورت یہ گھنے بال کمر تک لہراتے ہوئے۔ یہ شرمیلا تبسم۔ یہ جھکی جھکی حیران حیران آنکھیں۔
یہ آج سے تین سال پہلے کی لڑکی ہے۔ جب میں نے اسے اتا پارا کے ساحلی گاؤں میں سمندر کے کنارے دو پہر کی سوئی ہوئی فضا میں دیکھا تھا۔ میں ان دنوں اجات قصبے میں زمیندار کی لڑکی کو ستار سکھاتا تھا اور یہاں اتا پارا میں دو دن کی چھٹی لے کر اپنی بڑی موسی سے ملنے کے لئے آیا تھا۔ یہ خاموش گاؤں سمندر کے کنارے بانسوں کے جھنڈ اور ناریل کے درختوں سے گھرا ہوا اپنی اداسی میں گم تھا۔ نہ جانے ہمارے بنگالی گاؤں میں اتنی اداسی کہاں سے آ جاتی ہے۔ بانس کے چھپروں کے اندر اندھیرا ہے۔ سیلن ہے۔ بانس کی ہانڈیوں میں چاول دبے پڑے ہیں۔ مچھلی کی بو ہے۔ تالاب کا پانی کائی سے سبز ہے۔ دھان کے کھیتوں میں پانی ٹھہرا ہوا ہے۔ ناریل کا درخت ایک نکیلی برچھی کی طرح آسمان کے سینے میں گہرا گھاؤ ڈالے کھڑا ہے۔ ہر جگہ، ہر وقت درد کا احساس ہے۔ ٹھہرا کا احساس ہے۔ حزن کا احساس ہے۔ سکون،جمود اور موت کا احساس ہے۔ یہ اداسی جو تم ہماری محبت، ہمارے سماج ،ہمارے ادب اور نغمے میں دیکھتے ہو۔ یہ اداسی ہمارے گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور پھر ساری دھرتی پرپھیل جاتی ہے۔ جب میں نے اسے پہلے پہل دیکھا تو یہ مجھے ایک جل پری کی طرح حسین نظر آئی۔ یہ اس وقت پانی میں تیر رہی تھی اور میں ساحل کی ریت پر ٹہل رہا تھا اور ایک نئی دھن میں سوچ رہا تھا۔ یکایک میرے کانوں میں ایک شیریں نسوانی آواز سنائی دی،
’’پرے ہٹ جاؤ، میں کنارے پر آنا چ
- कृष्ण-चंदर
پریوں کی سرزمین کو ایک راستہ جاتا ہے شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگلوں میں سے گزرتا ہوا جہاں روپہلی ندیوں کے کنارے چیری اور بادام کے سایوں میں خوب صورت چرواہے چھوٹی چھوٹی بانسریوں پر خوابوں کے نغمے الاپتے ہیں۔ یہ سنہرے چاند کی وادی ہے۔ never never land کے مغرور اور خوب صورت شہزادے۔ پیٹر پین کا ملک جہاں ہمیشہ ساری باتیں اچھی اچھی ہوا کرتی ہیں۔ آئس کریم کی برف پڑتی ہے۔ چوکلیٹ اور پلم کیک کے مکانوں میں رہا جاتا ہے۔ موٹریں پٹرول کے بجائے چائے سے چلتی ہیں۔ بغیر پڑھے ڈگریاں مل جاتی ہیں۔
اور کہانیوں کے اس ملک کو جانے والے راستے کے کنارے کنارے بہت سے سائن پوسٹ کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے ’’صرف موٹروں کے لیے‘‘
’’یہ عام راستہ نہیں‘‘ اور شام کے اندھیرے میں زناٹے سے آتی ہوئی کاروں کی تیز روشنی میں نرگس کے پھولوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں سے جھانکتے ہوئے یہ الفاظ جگمگا اٹھتے ہیں، ’’پلیز آہستہ چلائیے۔۔۔ شکریہ!‘‘
اور بہار کی شگفتہ اور روشن دوپہروں میں سنہرے بالوں والی کر لی لوکس، سنڈریلا اور اسنو وائٹ چھوٹی چھوٹی پھولوں کی ٹوکریاں لے کر اس راستے پر چیری کے شگوفے اور ستارۂ سحری کی کلیاں جمع کرنے آیا کرتی تھیں۔
ایک روز کیا ہوا کہ ایک انتہائی ڈیشنگ شہ سوار راستہ بھول کر صنوبروں کی اس وادی میں آ نکلا جو دور دراز کی سرزمینوں سے بڑے بڑے عظیم الشان معرکے سر کر کے چلا آ رہا تھا۔ اس نے اپنے شان دار گھوڑے پر سے جھک کر کہا، ’’مائی ڈیر ینگ لیڈی کیسی خوش گوار صبح ہے!‘‘کر لی لوکس نے بے تعلقی سے جواب دیا، ’’اچھا، واقعی؟ تو پھر کیا ہوا؟‘‘
شہ سوار کی خواب ناک آنکھوں نے خاموشی سے کہا، ’’پسند کرو ہمیں۔‘‘ کر لی لوکس کی بڑی بڑی روشن اور نیلی آنکھوں میں بے نیازی جھلملا اٹھی۔ ’’جناب عالی ہم بالکل نوٹس نہیں لیتے۔‘‘ شہ سوار نے اپنی خصوصیات بتائیں۔ ایک شان دار سی امپیریل سروس کے مقابلے میں ٹاپ کیا ہے۔ اب تک ایک سو پینتیس ڈوئیل لڑ چکا ہوں۔ بہترین قسم کا heart breakerہو ں۔ کر لی لوکس نے غصے سے اپنی سنہری لٹیں جھٹک دیں اور اپنے بادامی ناخنوں کے برگنڈی کیوٹیکس کو غور سے دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ سنڈریلا اور اسنو وائٹ پگڈنڈی کے کنارے اسٹرابری چنتی رہیں۔ اور ڈیشنگ شہ سوار نے بڑے ڈرامائی انداز سے جھک کر نرسری کا ایک پرانا گیت یاد دلایا،
کر لی لوکس کر لی لوکس
یعنی اے میری پیاری چینی کی گڑیا۔
تمھیں برتن صاف کرنے نہیں پڑیں گے۔
اور بطخوں کو لے کر چراگاہ میں جانا نہیں ہو گا۔
بلکہ تم کشنوں پر بیٹھی بیٹھی اسٹرابری کھایا کرو گی۔
اے میری سنہرے گھنگھریالے بالوں والی مغرور شہزادی ایمیلیا ہنری ایٹامرایا۔۔۔ دو نینا متوارے تمھارے ہم پر ظلم کریں۔
اور پھر وہ ڈیشنگ شہ سوار اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوسری سرزمینوں کی طرف نکل گیا جہاں اور بھی زیادہ عظیم الشان اور زبردست معرکے اس کے منتظر تھے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازِ بازگشت پہاڑی راستوں اور وادیوں میں گونجتی رہی۔
پھر ایک اور بات ہوئی جس کی وجہ سے چاند کی وادی کے باسی غمگین رہنے لگے کیوں کہ ایک خوش گوار صبح معصوم کوک روبن ستارۂ سحری کے سبزے پر مقتول پایا گیا۔ مرحوم پر کسی ظالم نے تیر چلایا تھا۔ سنڈریلا رونے لگی۔ بے چارا میرا سرخ اور نیلے پروں والا گڈّو سا پرندہ۔ پرستان کی ساری چڑیوں، خرگوشوں اور گلہریوں نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد پتا چلا لیا اور بالاتفاق رائے اس کی بے وقت اور جوان مرگی پر تعزیت کی قرارداد منظور کی گئی۔ یونی ورسٹی میں کوک روبن ڈے منایا گیا لیکن عقل مند پوسی کیٹ نے، جو فل بوٹ پہن کر ملکہ سے ملنے لندن جایا کرتی تھی، سنڈریلا سے کہا، ’’روؤ مت میری گڑیا، یہ کوک روبن تو یوں ہی مرا کرتا ہے اور پھر فرسٹ ایڈ ملتے ہی فوراً زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور کوک روبن سچ مچ زندہ ہو گیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اور ہمیشہ کی طرح وادی کے سبزے پر بکھرے ہوئے بھیڑوں کے گلے کی ننھی مُنّی گھنٹیاں اور دور سمندر کے کنارے شفق میں کھوئے ہوئے پرانے عبادت خانوں کے گھنٹے آہستہ آہستہ بجتے رہے۔۔۔ ڈنگ ڈونگ، ڈنگ ڈونگ بل، پوسی ان وَ ویل۔
ڈنگ ڈونگ۔ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ جیسے کر لی لوکس کہہ رہی ہو، نہیں، نہیں، نہیں، نہیں!
اور اس نے کہا۔ نہیں نہیں۔ یہ تو پریوں کے ملک کی باتیں تھیں۔ میں کوک روبن نہیں ہوں، نہ آپ کر لی لوکس یا سنڈریلا ہیں۔ ناموں کی ٹوکری میں سے جو پرچی میرے ہاتھ پڑی ہے اس پر ریٹ بٹلر لکھا ہے لہٰذا آپ کو اسکارٹ اوہارا ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر آپ جو لیٹ یا کلیوپٹرا ہیں تو رومیو یا انطونی صاحب کو تلاش فرمائیے اور میں قاعدے سے مس اوہارا کی فکر کروں گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ جو لیٹ یا بیٹرس یا ماری انطونی نہیں ہیں اور میں قطعی ریٹ بٹلر نہیں ہو سکتا، کاش آپ محض آپ ہوتیں اور میں صرف میں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی اپنی تلاش شروع کریں۔
ہم سب کے راستے یوں ہی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے پھر الگ الگ چلے جاتے ہیں، لیکن پرستان کی طرف تو ان میں سے کوئی راستہ بھی نہیں جاتا۔
چوکو بارز کی اسٹالوں اور لکی ڈپ کے خیمے کے رنگین دھاری دار پردوں کے پیچھے چاندی کی ننھی منی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ پوسی بے چاری کنویں میں گر گئی اور ٹوم اسٹاؤٹ بے فکری سے چوکو بارز کھاتا رہا۔ پھر وہ سب زندگی کی ٹریجڈی میں غور کرنے میں مصروف ہو گیےکیوں کہ وہ چاند کی وادی کے باسی نہیں تھے لیکن اتنے احمق تھے کہ پرستان کی پگڈنڈی پر موسمِ گل کے پہلے سفید شگوفے تلاش کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے اور اس کوشش میں انھیں ہمیشہ کسی نہ کسی اجنبی ساحل، کسی نہ کسی ان دیکھی، اَن جانی چٹان پر فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑتی تھی۔
وہ کئی تھے۔ ڈک ڈنگٹن جسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اسے فل بوٹ پہننے والی وہ پوسی کیٹ مل ہی جائے گی جو اسے خوابوں کے شہر کی طرف اپنے ساتھ لے جائے اور اسے یقین تھا کہ خوابوں کے شہر میں ایک نیلی آنکھوں والی ایلس اپنے ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور وہ افسانہ نگار جو سوچتا تھا کہ کسی رو پہلے راج ہنس کے پروں پر بیٹھ کر اگر وہ زندگی کے اس پار کہانیوں کی سرزمین میں پہنچ جائے جہاں چاند کے قلعے میں خیالوں کی شہزادی رہتی ہے تو وہ اس سے کہے، ’’میری مغرور شہزادی! میں نے تمھارے لیے اتنی کہانیاں، اتنے اوپیرا اور اتنی نظمیں لکھی ہیں۔ میرے ساتھ دنیا کو چلو تو دنیا کتنی خوب صورت، زندہ، رہنے اور محبت کرنے کے قابل جگہ بن جائے۔‘‘
لیکن روپہلا راج ہنس اسے کہیں نہ ملتا تھا اور وہ اپنے باغ میں بیٹھا بیٹھا کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا تھا اور جو خوب صورت اور عقل مند لڑکی اس سے ملتی،، اسے ایک لمحے کے لیے یقین ہو جاتا کہ خیالوں کی شہزادی چاند کے ایوانوں میں سے نکل آئی ہے لیکن دوسرے لمحے یہ عقل مند لڑکی ہنس کر کہتی کہ افوہ بھئی فن کار صاحب! کیا cynicism بھی اس قدر الٹرا فیشن ایبل چیز بن گئی ہے اور آپ کو یہ مغالطہ کب سے ہو گیا ہے کہ آپ جینیس بھی ہیں اور اس کے نقرئی قہقہے کے ساتھ چاند کی کرنوں کی وہ ساری سیڑھیاں ٹوٹ کر گر پڑتیں جن کے ذریعے وہ اپنی نظموں میں خیالستان کے محلوں تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی۔ اندھیری، ٹھنڈی اور بد صورت۔۔۔ اور سنڈریلا جو ہمیشہ اپنا ایک بلوریں سینڈل رات کے اختتام پر خوابوں کی جھلملاتی رقص گاہ میں بھول آتی تھی، اور وہ ڈیشنگ شہ سوار جو پرستان کی خاموش، شفق کے رنگوں میں کھوئی ہوئی پگڈنڈیوں پر اکیلے اکیلے ہی ٹہلا کرتا تھا اور برف جیسے رنگ اور سرخ انگارہ جیسے ہونٹوں والی اسنو وائٹ جو رقص کرتی تھی تو بوڑھے بادشاہ کول کے دربار کے تینوں پری زاد مغنی اپنے وائلن بجانا بھول جاتے تھے۔
’’اور‘‘ ریٹ بٹلر نے اس سے کہا، ’’مس اوہارا آپ کو کون سا رقص زیادہ پسند ہے۔ ٹینگو۔۔۔ فوکس ٹروٹ۔۔۔ رومبا۔۔۔ آئیے لیمبتھ واک کریں۔‘‘
اور افروز اپنے پارٹنر کے ساتھ رقص میں مصروف ہو گئی، حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکارلٹ اور ہارا نہیں ہے کیوں کہ وہ چاند کی دنیا کی باسی نہیں تھی۔ سبزے پر رقص ہو رہا تھا۔ روش کی دوسری طرف ایک درخت کے نیچے، لکڑی کے عارضی پلیٹ فارم پر چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا اپنی پوری سوئنگ میں تیزی سے بج رہا تھا۔۔۔ اور پھر ایک دم سے قطعے کے دوسرے کنارے پر ایستادہ لاؤڈ اسپیکر میں کارمن میرانڈا کا ریکارڈ چیخنے لگا، ’’تم آج کی رات کسی کے بازوؤں میں ہونا چاہتی ہو؟‘‘ لکی ڈپ اور ’’عارضی کافی ہاؤس‘‘ کے رنگین خیموں پر بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بجتی رہیں اور کسی نے اس کے دل میں آہستہ آہستہ کہا، موسیقی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ زندگی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ شوپاں کے نغمے۔۔۔ ’’جپسی مون۔‘‘ اور خدا!
اس نے اپنے ہم رقص کے مضبوط، پراعتماد، مغرور بازوؤں پر اپنا بوجھ ڈال کر ناچ کے ایک کوئیک اسٹیپ کا ٹرن لیتے ہوئے اس کے شانوں پر دیکھا۔ سبزے پر اس جیسے کتنے انسان اس کی طرح دو دو کے رقص کی ٹکڑیوں میں منتشر تھے۔ ’’جولیٹ‘‘ اور ’’رومیو‘‘، ’’وکٹوریہ‘‘ اور ’’البرٹ‘‘، ’’بیٹرس‘‘ اور ’’دانتے‘‘ ایک دوسرے کو خوب صورت دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی اس مصنوعی، عارضی، چاند کی وادی میں کتنے خوش تھے وہ سب کے سب۔۔۔! بہار کے پہلے شگوفوں کی متلاشی اور کاغذی کلیوں پر قانع اور مطمئن۔۔۔ زندگی کے تعاقب میں پریشان و سرگرداں زندگی۔۔۔ ہُنہ۔۔۔ شوپاں کی موسیقی، سفید گلاب کے پھول، اور اچھی کتابیں۔ کاش! زندگی میں صرف یہی ہوتا۔
چاند کی وادی کے اس افسانہ نگار اویناش نے ایک مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ہُنہ۔۔۔ کتنا بنتے ہو اویناش! ابھی سامنے سے ایک خوب صورت لڑکی گزر جائے اور تم اپنی ساری تخیل پرستیاں بھول کر سوچنے لگو گے کہ اس کے بغیر تمھاری زندگی میں کتنی بڑی کمی ہے۔۔۔ اور اویناش نے کہا تھا، کاش جو ہم سوچتے وہی ہوا کرتا، جو ہم چاہتے وہی ملتا۔۔۔ ہائے یہ زندگی کا لکی ڈپ۔۔۔! زندگی، جس کا جواب مونا لیزا کا تبسم ہے جس میں نرسری کے خوب صورت گیت اور چاند ستارے ترشتی ہوئی کہانیاں تمھارا مذاق اڑاتی، تمھارا منہ چڑاتی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، جہاں کوک روبن پھر سے زندہ ہونے کے لیے روز نئے نئے تیروں سے مرتا رہتا ہے۔۔۔ اور کر لی لوکس ریشمیں کشنوں کے انبار پر کبھی نہیں چڑھ پاتی۔ کاش افروز تم— اور پھر وہ خاموش ہو گیا تھا کیوں کہ اسے یاد آگیا تھا کہ افروز کو ’’کاش۔۔۔‘‘ اس سستے اور جذباتی لفظ سے سخت چڑ ہے۔ اس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جیسے تمھیں خود پر اعتماد، بھروسہ، یقین نہیں۔
اور افروز لیبتھ واک کی اچھل کود سے تھک گئی۔ کیسا بے ہودہ سا ناچ ہے۔ کس قدر بے معنی اور فضول سے steps ہیں۔ بس اچھلتے اور گھومتے پھر رہے ہیں، بے وقوفوں کی طرح۔
’’مس اوہارا۔۔۔‘‘اس کے ہم رقص نے کچھ کہنا شروع کیا۔
’’افروز سلطانہ کہیے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ مس افروز حمید علی۔۔۔ آئیے کہیں بیٹھ جائیں۔‘‘
’’بیٹھ کر کیا کریں؟‘‘
’’ار۔۔۔ باتیں!‘‘
’’باتیں آپ کر ہی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ مس حمید علی آپ یہ ہیں، آپ وہ ہیں، آپ بے حد عمدہ رقص کرتی ہیں، آپ نے کل کے سنگلز میں پرکاش کو خوب ہرایا۔۔۔‘‘
’’ار۔۔۔ غالباً آپ کو سیاسیات سے۔۔۔‘‘
’’شکریہ، اویناش اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر موسیقی یا پال مُنی کی نئی فلم۔۔۔‘‘
’’مختصر یہ کہ آپ خاموش کسی طرح نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔‘‘وہ چپ ہو گیا۔
پھر شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ درختوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے جھلملا اٹھے اور وہ سب سبزے کو خاموش اور سنسان چھوڑ کے بال روم کے اندر چلے گئے۔ آرکیسٹرا کی گت تبدیل ہو گئی۔ جاز اپنی پوری تیزی سے بجنے لگا۔ وہ ہال کے سرے پر شیشے کے لمبے لمبے دریچوں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے قریب اس کی ممانی کا چھوٹا بھائی، جو کچھ عرصے قبل امریکہ سے واپس آیا تھا، میری ووڈ سے باتیں کرنے میں مشغول تھا اور بہت سی لڑکیاں اپنی سبز بید کی کرسیاں اس کے آس پاس کھینچ کر انتہائی انہماک اور دل چسپی سے باتیں سن رہی تھیں اور میری ووڈ ہنسے جا رہی تھی۔ میری ووڈ، جو سانولی رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک اعلیٰ خاندان عیسائی لڑکی اور انگریز کرنل کی بیوی تھی، ایک ہندوستانی فلم میں کلاسیکل رقص کر چکی تھی اور اب جاز کی موسیقی اور شیری کے گلاسوں کے سہارے اپنی شامیں گزار رہی تھی۔
اور پائپوں اور سگرٹوں کے دھوئیں کا ملا جلا لرزتا ہوا عکس بال روم کی سبز روغنی دیواروں پر بنے ہوئے طیاروں، پام کے درختوں اور رقصاں اپسراؤں کے دھندلے دھندلے نقوش کو اپنی لہروں میں لپیٹتا، ناچتا، رنگین اور روشن چھت کی بلندی کی طرف اٹھتا رہا۔ خوابوں کا شبنم آلود سحر آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔
او ریک لخت، میری ووڈ نے زور سے ہنسنا اور چلّانا شروع کر دیا۔ افروز کی ممانی کے ہالی ووڈ پلٹ بھائی نے ذرا گھبرا کر اپنی کرسی پیچھے کو سرکا لی۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آرکیسٹرا کے سُر آہستہ آہستہ ڈوبتے گیے اور دبی دبی اور مدھم قہقہوں کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رو لڑکی، جو بہت دیر سے ایک ہندوستانی پرنس کے ساتھ ناچ رہی تھی، تھک کر افروز کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور اس کا باپ، جو ایک ہندوستانی ریاست کی فوج کا افسر اعلیٰ تھا، فرن کے پتوں کے پیچھے گیلری میں بیٹھا اطمینان سے سگار کا دھواں اڑاتا رہا۔
پھر کھیل شروع ہوئے اور ایک بے حد اوٹ پٹانگ سے کھیل میں حصہ لینے کے لیے سب دوبارہ ہال کی فلور پر آ گیے اور افروز کا ہم رقص ریٹ بٹلر اپنے خواب ناک آنکھوں والے دوست کے ساتھ اس کے قریب آیا، ’’مس حمید علی آپ میری پارٹنر ہیں نا؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ آئیے۔‘‘
اور اس خواب ناک آنکھوں والے دوست نے کہا، ’’بارہ بجنے والے ہیں۔ نیا سال مبارک ہو۔ لیکن آج اتنی خاموش کیوں ہیں آپ؟‘‘
’’آپ کو بھی مبارک ہو لیکن ضرورت ہے کہ اس زبردست خوشی میں خواہ مخواہ کی بے کار باتوں کا سلسلہ رات بھر ختم ہی نہ کیا جائے۔‘‘
’’لیکن میں تو چاہتا ہوں کہ آپ اس طرح خاموش نہ رہیں۔ اس سے خواہ مخواہ یہ ظاہر ہو گا کہ آپ کو اس مجمعے میں ایک مخصوص شخص کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہے۔‘‘
’’پر جو آپ چاہیں، لازم تو نہیں کہ دوسروں کی بھی وہی مرضی ہو۔ کیوں کہ جب آپ کچھ کہتے ہوتے ہیں اس وقت آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ساری دنیا بے حد دل چسپی سے آپ کی طرف متوجہ ہے اور بعد میں لڑکیاں کہتی ہیں، افوہ! کس قدر مزے کی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔
اتنے میں پرکاش کاغذ اور پنسلیں تقسیم کرتی ہوئی ان کی طر ف آئی اور ان کو ان کے فرضی نام بتاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے سب چپ ہو گیے۔ پھر قہقہوں کے شور کے ساتھ کھیل شروع ہوا۔ کھیل کے دوران میں اس نے اپنی خواب ناک آنکھیں اٹھا کر یوں ہی کچھ نہ کچھ بولنے کی غرض سے پوچھا، ’’جی، تو ہم کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہم باتیں قطعی کر ہی نہیں رہے تھے۔ کیوں نہ آپ قاعدے سے اپنی پارٹنر کے ساتھ جا کر کھیلیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں اسکارلٹ اوہارا ہوں۔ جو لیٹ ابھی آپ کو تلاش کر رہی تھی۔ پھر ڈاکٹر مہرہ اور اویناش اس کی طرف آ گیےاور وہ ان کے ساتھ کھیل میں مصروف ہو گئی۔
اور جب رات کے اختتام پر وہ رفعت کے ساتھ اپنا اوور کوٹ لینے کے لیے کلوک روم کی طرف جا رہی تھی تو گیلری کے سامنے کی طرف سے گزرتے ہوئے اس نے اس سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ کے باپ کو اپنے دوستوں سے کہتے سنا، ’’آپ میرے داماد میجر بھنڈاری سے ملے؟ مجھے تو فخر ہے کہ میری بڑی لڑکی نے اپنے فرقے سے باہر شادی کرنے میں ذات اور مذہب کی دقیانوسی قیود کی پروا نہیں کی۔ میری لڑکی کا انتخاب پسند آیا آپ کو؟ ہی ہی ہی۔ دراصل میں نے اپنی چاروں لڑکیوں کا ٹیسٹ کچھ اس طرح cultivate کیا ہے کہ پچھلی مرتبہ جب میں ان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا تو۔۔۔‘‘ اور افروز جلدی سے بال روم کے باہر نکل آئی۔ یہ زندگی۔۔۔ یہ زندگی کا گھٹیا پن!
واقعی۔۔۔! یہ زندگی۔۔۔!
اور جشن نو روز کے دوسرے دن اس بے چارے ریٹ بٹلر نے اپنے دوست، اس خواب ناک آنکھوں والے ڈیشنگ شہ سوار سے کہا، جو پرستان کے راستوں پر سب سے الگ الگ ٹہلا کرتا تھا، ’’عجب لڑکی ہے بھئی۔‘‘
’’ہوا کرے۔‘‘اور وہ خواب ناک آنکھوں والا دوست بے نیازی سے سگریٹ کے دھوئیں کے حلقے بنا بنا کر چھت کی طرف بھیجتا رہا۔ اور اس عجیب لڑکی کی دوست کہہ رہی تھی، ’’ہُنہ، اس قدر مغرور، مغالطہ فائیڈ قسم کا انسان۔‘‘
’’ہوا کرے بھئی۔ ہم سے کیا۔‘‘اور افروز بے تعلقی کے ساتھ نٹنگ میں مصروف ہو گئی۔
’’اتنی اونچی بننے کی کوشش کیوں کر رہی ہو؟‘‘رفعت نے چڑ کر پوچھا۔
’’کیا ہرج ہے۔‘‘
’’کوئی ہرج ہی نہیں؟ قسم خدا کی افروز اس اویناش کے فلسفے نے تمھارا دماغ خراب کر دیا ہے۔‘‘
’’تو گویا تمھارے لیے زنجیر ہلائی جائے۔‘‘
’’فوہ۔ جیسے آپ یوں ہی نو لفٹ جاری رکھیں گی۔‘‘
’’قطعی۔۔۔! زندگی تمھارے لیے ایک مسلسل جذباتی اضطراب ہے لیکن مجھے اصولوں میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔۔۔ جانتی ہو زندگی کے یہ ایئر کنڈیشنڈ اصول بڑے کارآمد اور محفوظ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
’’فوہ۔۔۔ کیا بلند پروازی ہے۔‘‘
’’میں؟‘‘
’’تم اور وہ۔۔۔ خدا کی قسم ایسی بے پرواہی سے بیٹھا رہتا ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ جی چاہتا ہے پکڑ کر کھا جاؤں اسے۔ جھکنا جانتا ہی نہیں جیسے۔‘‘
’’ارے چپ رہو بھائی۔‘‘
’’سچ مچ اس کی آنکھوں کی گہرائیاں اتنی خاموش، اس کا انداز اتنا پر وقار، اتنا بے تعلق ہے کہ بعض مرتبہ جی میں آتا ہے کہ بس خودکشی کر لو۔ یعنی ذرا سوچو تو، تم جانتی ہو کہ تمھارے کشن کے نیچے یا مسہری کے سرہانے میز پر بہترین قسم کی کیڈ بری چاکلیٹ کا بڑا سا خوب صورت پیکٹ رکھا ہوا ہے لیکن تم اسے کھا نہیں سکتیں۔۔۔ الو!‘‘
’’کون بھئی۔۔۔؟‘‘پرکاش نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’کوئی نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک۔۔۔‘‘رفعت نے اپنے غصے کے مطابقت میں کوئی موزوں نام سوچنا چاہا۔
’’بلّا۔۔۔‘‘افروز نے اطمینان سے کہا۔
’’بلا!‘‘پرکاش کافی پریشان ہو گئی۔
’’ہاں بھئی۔۔۔ ایک بلّا ہے بہت ہی typical قسم کا ایرانی بلّا۔‘‘ افروز بولی۔
’’تو کیا ہوا اس کا؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔ ہوتا کیا؟ سب ٹھیک ہے بالکل۔ بس ذرا اسے اپنی آنکھوں پر بہت ناز ہے اور ان مسعود اصغر صاحب کا کیا ہو گا؟ جو مسوری سے مار خط پہ خط نہایت اسٹائیلش انگریزی میں تمھارے ٹینس کی تعریف میں بھیجا کرتے ہیں۔‘‘
’’ان کو تار دے دیا جائے۔۔۔ nose upturned-nose upturned-riffat:
’’ہاں۔ یعنی لفٹ نہیں دیتے۔ جس کی ناک ذرا اوپر کو اٹھی ہوتی ہے وہ آدمی ہمیشہ بے حد مغرور اور خود پسند طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔‘‘
’’تو تمھاری ناک اتنی اٹھی ہوئی کہاں ہے۔‘‘
’’قطعی اٹھی ہوئی ہے۔ بہترین پروفائل آتا ہے۔‘‘
’’واقعی ہم لوگ بھی کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’جناب، بے حد مفید اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔‘‘
’’اور صلاح الدین بے چارہ!‘‘
’’وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا اب تک۔‘‘ رفعت نے بڑی رنجیدہ انداز سے کہا۔
کیوں کہ یہ ان کا تخیلی کردار تھا اور خیالستان کے کردار چاند کی وادی میں سے کبھی نہیں نکلتے۔ جب کبھی وہ سب کسی پارٹی میں ملیں تو سب سے پہلے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے اس فرضی ہستی کی خیریت پوچھی جاتی، اس کے متعلق اوٹ پٹانگ باتیں کی جاتیں اور اکثر انھیں محسوس ہوتا جیسے انھیں یقین سا ہو گیا ہے کہ ان کا خیالی کردار اگلے لمحے ان کی دنیا اور ان کی زندگی میں داخل ہو جائے گا۔
اور فرصت اور بے فکری کی ایک خوش گوار شام انھوں نے یوں ہی باتیں کرتے کرتے صلاح الدین کی اس خیالی تصویر کو مکمل کیا تھا۔ وہ سب شاپنگ سے واپس آ کر منظر احمد پر زور شور سے تبصرہ کر رہی تھیں جو ان سے دیر تک آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے ایک کاؤنٹر پر باتیں کرتا رہا تھا اور پرکاش نے قطعی فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ بے حد بنتا ہے اور افروز بے حد پریشان تھی کہ کس طرح اس کا یہ مغالطہ دور کرے کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔
’’لیکن اسے لفٹ دینے کی کوئی معقول وجہ پیش کرو۔‘‘
’’کیوں کہ بھئی ہمارا معیار اس قدر بلند ہے کہ کوئی مارک تک پہنچ نہیں سکتا۔‘‘
’’لہٰذا اب کی بار اس کو بتا دیا جائے گا کہ بھئی افروز کی تو منگنی ہونے والی ہے۔‘‘
’’لیکن کس سے؟‘‘
’’یہی تو طے کرنا باقی ہے۔ مثلاً۔۔۔ مثلاً ایک آدمی سے۔ کوئی نام بتاؤ۔‘‘
’’پرویز۔‘‘
’’بڑا عام افسانوی سا نام ہے۔ کچھ اور سوچو!‘‘
’’سلامت اللہ!‘‘
’’ہش۔ بھئی واہ، کیا شان دار نام دماغ میں آیا۔۔۔ صلاح الدین!‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ اچھا، اور بھائی صلاح الدین کا تعارف کس طرح کرایا جائے؟‘‘
’’بھئی صلاح الدین صاحب جو تھے وہ ایک روز پرستان کے راستے پر شفق کے گل رنگ سائے تلے مل گیے۔‘‘
’’پرستان کے راستے پر؟‘‘
’’چپکی سنتی جاؤ۔ جانتی ہو میں اس قدر بہترین افسانے لکھتی ہوں جن میں سب پرستان کی باتیں ہوتی ہیں۔ بس پھر یہ ہوا کہ۔۔۔‘‘
’’جناب ہم تو اس دنیا کے باسی ہیں۔ پرستان اور کہانیوں کی پگڈنڈیوں پر تو صرف اویناش ہی بھٹکتا اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’چچ چچ چچ۔ بے چارہ اویناش۔۔۔ گڈو۔‘‘
’’بھئی ذکر تو صلاح الدین کا تھا۔‘‘
’’خیر تو جناب صلاح الدین صاحب پرستان کے راستے پر ہرگز نہیں ملے۔ وہ بھی ہماری دنیا کے باسی ہیں اور ان کا دماغ قطعی خراب نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ سب ہی میٹر آف فیکٹ طریقے سے۔‘‘
’’یہ ہوا کہ افروز دل کشا جا رہی تھی تو ریلوے کراسنگ کے پاس بے حد رومینٹک انداز سے اس کی کار خراب ہو گئی۔‘‘
’’نہیں بھئی واقعہ یہ تھا کہ افروز آفیسرز شاپ جو گئی ایک روز تو پتا چلا کہ وہ غلط تاریخ پر پہنچ گئی ہے، اور وہ اپنا کارڈ بھی گھر بھول گئی تھی۔ بس بھائی صلاح الدین جو تھے انھوں نے جب دیکھا کہ ایک خوب صورت لڑکی برگنڈی رنگ کا کیوٹکس نہ ملنے کے غم میں رو پڑنے والی ہے تو انھوں نے بے حد gallantly آگے بڑھ کر کہا کہ ’’خاتون میرا آج کی تاریخ کا کارڈ بے کار جا رہا ہے، اگر آپ چاہیں۔۔۔‘‘
’’بہت ٹھیک۔ آگے چلو۔ پھر کیا ہونا چاہیے؟‘‘
’’بس وہ پیش ہو گیے۔‘‘
’’نہ پیش نہ زیر نہ زبر۔۔۔ افروز نے فوراً نو لفٹ کر دیا اور بے چارے دل شکستہ ہو گیے۔‘‘
’’اچھا ان کا کیریکٹر۔۔۔‘‘
’’بہت ہی بیش فُل۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ کافی تیز۔۔۔ لیکن بھئی ڈینڈی قطعی نہیں برداشت کیے جائیں گے۔‘‘
’’قطعی نہیں صاحب۔۔۔ اور اور فلرٹ ہوں تھوڑے سے۔۔۔‘‘
’’تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ اچھا وہ کرتے کیا ہیں؟‘‘
’’بھئی ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کرتے ہوں گے!‘‘
’’آرمی میں رکھ لو۔۔۔‘‘
’’اووق۔۔۔ حد ہو گئی تمھارے اسسٹنٹ کی۔ کچھ سوال سروس وغیرہ کا لاؤ۔‘‘
’’سب بور ہوتے ہیں۔‘‘
’’ارے ہم بتائیں، کچھ کرتے کراتے نہیں۔ منظر احمد کی طرح تعلقہ دار ہیں۔ پچیس گاؤں اور ایک یہی رومینٹک سی جھیل جہاں پر وہ کرسمس کے زمانے میں اپنے دوستوں کو مدعو کیا کرتے ہیں۔ ہاں اور ایک شان دار سی اسپورٹس کار۔۔۔‘‘
’’لیکن بھئی اس کے باوجود بے انتہا قومی خدمت کرتا ہے۔ کمیونسٹ قسم کی کوئی مخلوق۔‘‘
’’کمیونسٹ ہے تو اسے اپنے پچیسوں گاؤں علاحدہ کر دینے چاہئیں کیوں کہ پرائیویٹ پراپرٹی۔۔۔‘‘
’’واہ، اچھے بھائی بھی تو اتنے بڑے کمیونسٹ ہیں۔ انھوں نے کہاں اپنا تعلقہ چھوڑا ہے؟‘‘
’’آپ تو چغد ہیں نشاط زریں۔۔۔ اچھے بھیا تو سچ مچ کے آدمی ہیں۔ ہیرو کو بے حد آئیڈیل قسم کا ہونا چاہیے۔ یعنی غور کرو صلاح الدین محمود کس قدر بلند پایہ انسان ہے کہ جنتا کی خاطر۔۔۔‘‘
’’افوہ۔۔۔ کیا بوریت ہے بھئی۔ تم سب مل کر ابھی یہی طے نہیں کر پائیں کہ وہ کرتا کیا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہوئی ہے واللہ!‘‘
’’جلدی بتاؤ۔‘‘
’’اصفہانی چائے میں۔۔۔‘‘
اور سب پر ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔
’’کیوں جناب اصفہانی چائے میں بڑے بڑے اسمارٹ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی قصہ مختصر یہ کہ پڑھتا ہے۔ فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے گویا۔‘‘
’’پڑھتا ہے تو آفیسرز شاپ میں کہاں سے پہنچ گیا!‘‘
’’بھئی ہم نے فیصلہ کر دیا ہے آخر۔ ہوائی جہاز میں سول ایوی ایشن آفیسر ہے۔‘‘
’’یہ آئیڈیا کچھ۔۔۔‘‘
’’تمھیں کوئی آئیڈیا ہی پسند نہیں آیا۔ اب تمھارے لیے کوئی آسمان سے تو خاص طور پر بن کر آئے گا نہیں آدمی۔‘‘
’’اچھا تو پھر یہی مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور جو غرور کے مارے اب تک ڈیڈی پر کال کرنے نہیں آئے۔‘‘
اور اس طرح انھوں نے ایک تخیلی کردار کی تخلیق کی تھی۔ سب ہی اپنے دلوں میں چپکے چپکے ایسے کرداروں کی تخلیق کر لیتے ہیں جو ان کی دنیا میں آ کر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے بے وقوف لوگ!
لیکن پرکاش کا خیال تھا کہ ان کی mad-hatter’s پارٹی میں سب کے سب حد سے زیادہ عقل مند ہیں۔ مغرور اور خود پسند نشاط زریں جو ایسے fantastic افسانے لکھتی ہے جن کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن جن کی تعریف ایٹی کیٹ کے اصولوں کے مطابق سب کر دیتے ہیں جو اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ کر بچوں کی طرح رو پڑتی ہے یا خوش ہو جاتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سپر انٹلکچوئل سمجھتی ہے۔ رفعت، جس کے لیے زندگی ہمیشہ ہنستی ناچتی رہتی ہے اور افروز جو نہایت سنجیدگی سے نو لفٹ کے فلسفے پر تھیسس لکھنے والی ہے کیوں کہ ان کی پارٹی کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انسان کو خود پسند، خودغرض اور مغرور ہونا چاہیے کیوں کہ خود پسندی دماغی صحت مندی کی سب سے پہلی علامت ہے۔
ایک سہ پہر وہ سب اپنے امریکن کالج کے طویل دریچوں والے فرانسیسی وضع کے میوزک روم میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ پیانو کے گرد جمع ہو کر سالانہ کونسرٹ کے اوپیرا کے لیے ریہرسل کر رہی تھیں۔ موسیقی کی ایک کتاب کے ورق الٹتے ہوئے کسی جرمن نغمہ نواز کی تصویر دیکھ کر پرکاش نے بے حد ہمدردی سے کہا، ’’ہمارے اویناش بھائی بھی تو اسکارف، لمبے لمبے بالوں، خواب ناک آنکھوں اور پائپ کے دھوئیں سے ایسا بوہیمین انداز بناتے ہیں کہ سب ان کو خواہ مخواہ جینیس سمجھنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘
’’آدمی کبھی جینیس ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ نشاط اپنے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ ’’اب تک جتنے جینیس پیدا ہوئے ہیں سارے کے سارے بالکل girlish تھے اور ان میں عورت کا عنصر قطعی طور پر زیادہ موجود تھا۔ بائرن، شیلے، کیٹس، شوپاں۔۔۔ خود آپ کا نپولین اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا تھا۔‘‘ رفعت آئرش دریچے کے قریب زور زور سے الاپنے لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں، گانے کی مشق کر رہی تھی۔ باہر برآمدے کے یونانی ستونوں اور باغ پر دھوپ ڈھلنا شروع ہو گئی۔ ’’سُپرب، میری بچیو! ہماری ریہرسلیں بہت اچھی طرح پروگرس کر رہی ہیں۔‘‘ اور موسیقی کی فرانسیسی پروفیسر اپنی مطمئن اور شیریں مسکراہٹ کے ساتھ میوزک روم سے باہر جا کر برآمدے کے ستونوں کے طویل سایوں میں کھو گئیں۔ نشاط نے اسی سکون اور اطمینان کے ساتھ پیانو بند کر دیا۔
زندگی کتنی دل چسپ ہے، کتنی شیریں۔ دریچے کے باہر سائے بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ’’لابوہیم‘‘ کے نغموں کی گونج اب تک رقصاں تھی۔ چاروں طرف کالج کی شان دار اور وسیع عمارتوں کی قطاریں شام کے دھندلکے میں چھپتی جا رہی تھیں۔ میرا پیارا کالج، ایشیا کا بہترین کالج، ایشیا میں امریکہ! لیکن اس کا اسے اس وقت خیال نہیں آیا۔ اس وقت اسے ہر بات عجیب معلوم نہیں ہوئی۔ وہ سوچ رہی تھی ہم کتنے اچھے ہیں۔ ہماری دنیا کس قدر مکمل اور خوش گوار ہے۔ اپنی معصوم مسرتیں اور تفریحیں، اپنے رفیق اور ساتھی، اپنے آئیڈیل اور نظریے اور اسی خوب صورت دنیا کا عکس وہ اپنے افسانوں میں دکھانا چاہتی ہے تو اس کی تحریروں کو fantastic اور مصنوعی کہا جاتا ہے۔۔۔ بے چاری میں!
موسیقی کے اوراق سمیٹتے ہوئے اسے اپنے آپ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس نے ایک بار اویناش کو سمجھایا تھا کہ ہماری شریعت کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنی تعریف آپ کرو۔ تعریف کے معاملے میں کبھی دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ محفوظ ترین بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً خود کو یاد دلاتے رہا جائے کہ ہم کس قدر بہترین ہیں۔ ہم کو اپنے علاوہ دنیا کی کوئی اور چیز بھی پسند نہیں آ سکی کیونکہ خود بادلوں کے محلوں میں محفوظ ہو کر دوسروں پر ہنستے رہنا بے حد دل چسپ مشغلہ ہے۔ زندگی ہم پر ہنستی ہے، ہم زندگی پر ہنستے ہیں۔ ’’اور پھر زندگی اپنے آپ پر ہنستی ہے۔‘‘ بے چارے اویناش نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا اور اگر افروز کا خیال تھا کہ وہ اس دنیا سے بالکل مطمئن نہیں تو پرکاش اور نشاط زریں کو، جو دونوں بے حد عقل مند تھیں، قطعی طور پر یقین تھا کہ یہ بھی ان کی mad-hatter’s پارٹی کی cynicism کا ایک خوب صورت اور فائدہ مند پوز ہے۔
اور سچ مچ افروز کو اس صبح محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی اس دنیا، اپنی اس زندگی سے انتہائی مطمئن اور خوش ہے۔ اس نے اپنی چاروں طرف دیکھا۔ اس کے کمرے کے مشرقی دریچے میں سے صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے آفتاب کی کرنیں چھن چھن کر اندر آ رہی تھیں اور کمرے کی ہلکی گلابی دیواریں اس نارنجی روشنی میں جگمگا اٹھی تھیں۔ باہر دریچے پر چھائی ہوئی بیل کے سرخ پھولوں کی بوجھ سے جھکی ہوئی لمبی لمبی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل ہل کر دریچے کے شیشوں پر اپنے سائے کی آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھیں۔ اس نے کتاب بند کر کے قریب کے صوفے پر پھینک دی اور ایک طویل انگڑائی لے کر مسہری سے کود کر نیچے اتر آئی۔ اس نے وقت دیکھا۔ صبح جاگنے کے بعد وہ بہت دیر تک پڑھتی رہی تھی۔ اس نے غسل خانے میں گھس کر کالج میں اسٹیج ہونے والے اوپیرا کا ایک گیت گاتے ہوئے منہ دھویا اور تیار ہو کر میز پر سے کتابیں اٹھاتی ہوئی باہر نکل آئی۔
کلاس کا وقت بہت قریب تھا۔ اس نے برساتی سے نکل کر ذرا تیزی سے لائن کو پار کیا اور پھاٹک کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ باغ کے راستے پر، سبزے کے کنارے، اس کا فیڈو روز کی طرح دنیا جہاں سے قطعی بے نیاز اور صلح کل انداز میں آنکھیں نیم وا کیے دھوپ سینک رہا تھا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے لمبے لمبے سفید ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے محسوس کیا، اس نے دیکھا کہ دنیا کتنی روشن، کتنی خوب صورت ہے۔ باغ کے پھول، درخت، پتیاں، شاخیں اسی سنہری دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ ہر چیز تازہ دم اور بشاش تھی۔ کھلی نیلگوں فضاؤں میں سکون اور مسرت کے خاموش راگ چھڑے ہوئے تھے۔ کائنات کس قدر پرسکون اور اپنے وجود سے کتنی مطمئن تھی۔
دور کوٹھی کے احاطے کے پچھلے حصے میں دھوبی نے باغ کے حوض پر کپڑے پٹخنے شروع کر دیے تھے اور نوکروں کے بچے اور بیویاں اپنے کوارٹروں کے سامنے گھاس پر دھوپ میں اپنے کاموں میں مصروف ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے شور مچا رہی تھیں۔ روزمرہ کی یہ مانوس آوازیں، یہ محبوب اور عزیز فضائیں۔۔۔ یہ اس کی دنیا تھی، اس کی خوب صورت اور مختصر سی دنیا اور اس نے سوچا کہ واقعی یہ اس کی حماقت ہے اگر وہ اپنی اس آرام دہ اور پرسکون کائنات سے آگے نکلنا اور سایوں کی اندھیری وادی میں جھانکنا چاہتی ہے۔ ایسے adventure ہمیشہ بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ اس نے فیڈو کو پیار کر کے اس کی جگہ پر بٹھا دیا اور آگے بڑھ گئی۔
باغ کے احاطے کی دوسری طرف انگریز ہمسائے کا بچہ گلِ داؤدی کی کیاریوں کے کنارے کنارے اپنے لکڑی کے گھوڑے پر سوار دھوپ میں جھلملاتے پروں والی تیتریوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خوب زور زور سے گا رہا تھا۔ “ah! this bootiful
bootiful world!” اس نے سوچا، لٹل مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور، خوب گاؤ! اور اپنے لکڑی کے گھوڑے پر خیالی مہمیں سر کرتے رہو۔ ایک وقت آئے گا جب تمھیں پتا چلے گا کہ دنیا کتنی بوٹی فل نہیں ہے۔
اور امرودوں کے جھنڈ کے اس پار کالج کے میوزک روم میں تیزی سے ریکارڈ بجنے شروع ہو گیے اور اسے یاد آگیا کہ کالج سے واپسی پر اسے اوپیرا کے علاوہ بنگال ریلیف کے ورائٹی شوکی ریہرسل کے لیے بھی جانا ہے اور وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ شام کو پروگرام تھا اور چاروں طرف زور شور سے اس کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ بنگال کا قحط ان دنوں اپنی انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ہر لڑکی اور لڑکے کے دل میں کچھ نہ کچھ کرنے کا سچّا جوش موجزن تھا۔
ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے سائیکلوں پر سول لائنز کی کوٹھیوں کے چکر لگائے جا رہے تھے۔ مشاعرے کے انتظام کے سلسلے میں بار بار ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا جا رہا تھا کیوں کہ اسی ہفتے ریڈیو پر مشاعرہ ہوا تھا جس کی شرکت کے لیے بہت سے مشہور ترنّم سے پڑھنے والے شعرائے کرام تشریف لے آئے تھے۔
میوزک روم کے پیچھے کے اور چرڈ میں بہت سی لڑکیاں ایک درخت کے نیچے انتہائی انہماک سے مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ کچھ پروگرام کے خوب صورت کاغذوں پر پینٹنگ کر رہی تھیں، کچھ قہقہے لگا لگا کر اس افتتاحیہ نظم کی تک بندی کر رہی تھیں جو پروگرام شروع ہونے پر قوالوں کے انداز اور انھی کے بھیس میں گائی جانی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی ان میں شامل ہو گئی۔
’’اور ہمارے سپر جینیس گروپ کے باقی افراد کہاں رہ گئے؟‘‘ سعیدہ نے پوچھا۔
’’پرکاش تو آج کل مہرہ اور اویناش کے ساتھ ہندوستان آزاد کرانے میں سخت مصروف ہے اور رفعت دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے کے بعد محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔‘‘
’’ہا بے چاری۔۔۔ اور ہمارا زبردست ادیب، مصور اور افسانہ نگار ابھی تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’آ گیے ہم۔۔۔‘‘ نشاط نے درخت کے نیچے پہنچ کر اپنی جاپانی چھتری بند کرتے ہوئے کہا۔
’’خدا کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ایسا ادیب بنائی۔‘‘ جلیس ایک قلابازی کھا کر بولی، ’’چلو اب قوالی مکمل کریں۔‘‘ اور ہنس ہنس کر لوٹتے ہوئے قوالی تیار کی جانے لگی۔ کیسے بے تکے اور دل چسپ شعر تھے، ’’وہ خود ہی نشانہ بنتے ہیں، ہم تیر چلانا کیا جانیں۔۔۔ انورسٹی کے پڑھنے والے ہم گانا بجانا کیا جانیں۔‘‘ اور جانے کیا کیا۔ کتنی خوش تھیں وہ سب۔۔۔ زندگی کی یہ معصوم، شریر، چھوٹی چھوٹی مسرّتیں!
اور اس وقت بھی دنیا اتنی ہی خوب صورت اور روشن تھی جب کہ غروب ہوتے ہوئے سورج کی ترچھی ترچھی نارنجی کرنیں اس کے دریچے میں سے گزرتی ہوئی گلابی دیواروں پر ناچ رہی تھیں اور کتابوں کی الماریوں اور سنگھار میز کی صفائی کرنے کے بعد صوفے کو دریچے کے قریب کھینچ کر شال میں لپٹی ہوئی کلاس کے نوٹس پڑھنے میں مصروف تھی۔ باہر فضا پر ایک آرام دہ، لطیف اور پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دور مال پر سے گزرتی ہوئی کاروں کے طویل ہارن سنائی دے جاتے تھے۔ دوسرے کمرے میں رفعت آہستہ آہستہ کچھ گا رہی تھی اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے برآمدے میں مدھم سروں میں گتار بج رہا تھا۔
اس نے کشن پر سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ فرصت، اطمینان اور سکون کے یہ لمحات۔ کیا آپ کو ان لمحوں کی قدر نہیں جو ایک دفعہ افق کی پہاڑیوں کے اس پار اڑ کر چلے جائیں تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ لمحے جب جاڑوں کی راتوں میں ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر کشمش اور چلغوزے کھاتے ہوئے گپ شپ اور scandal mongering کی جاتی ہے۔ وہ لمحے جب دھوپ میں کاہلی کے احساس کے ساتھ سبزے پر بلّیوں کی طرح لوٹ لگا کر ریکارڈ بجائے جاتے ہیں اور لڑا جاتا ہے اور پھر ایسے میں اسی طرح کے بیتے ہوئے وقتوں کی یاد اور یہ احساس کہ اپنی حماقت کی وجہ سے وہ وقت اب واپس نہیں آ سکتا، کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
دریچے کے نیچے روش پر موٹر بائیک رکنے کی آواز آئی۔ اس نے کشن پر سے سر اٹھا کر دیکھا۔ شاید مہرہ آیا تھا۔ رفعت دوڑتی ہوئی برآمدے کی سیڑھیوں پر سے اتر کے باغ میں چلی گئی۔ اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اس کے دریچے کے سامنے روش پر سے وہ سب گزرنے لگے۔ وہ بے چارے فریب خوردہ انسان جنھیں زندگی نے رنجیدہ کیا، زندگی جن کی وجہ سے غمگین ہوئی لیکن پھر بھی وہ سب وہاں موجود تھے۔ اس کے خیالوں میں آنے پر مصر تھے۔ اسے شاید یاد آیا۔۔۔ اور اس کے سارے بھائی۔ دور دراز کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے یہ شریر، خوب صورت اور ضدی، افسانوی سے رشتے کے بھائی، جو چھٹیوں میں گھر آتے ہیں اور ان کے رشتے کی بہن یا ان کی بہنوں کی سہیلیاں ان کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ وہ ان سے لڑتے ہیں، راتوں کو باغ میں چاند کو دیکھا جاتا ہے، پھر وہ ان سب کو دل شکستہ چھوڑ کر یا محاذ جنگ پر چلے جاتے ہیں یا ان میں سے کسی ایک سے شادی ہو جاتی ہے۔۔۔ اُف یہ حماقتیں۔۔۔! اور اسے وہ باتیں یاد کر کے ان سب پر بے اختیار ترس سا آگیا۔ یہ فریب کاریاں، یہ بے وقوفیاں!
اور اسے یاد آیا۔۔۔ فرصت اور بے فکری کے ایسے ہی لمحوں میں ایک مرتبہ اپنے اپنے مستقبل کی تصویریں کھینچی گئی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ سارے بہن بھائی ایک جگہ جمع ہو گیے تھے۔ دن بھر تصویریں اتاری جاتی تھیں۔ بزرگوں سے نظر بچا کر پینٹری میں سے حلوہ اور آئس کریم اڑائی جاتی تھی۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی۔
اس نے کہا تھا، ’’اب بھئی اسلم کا حشر سنیے۔ جب آپ پاس کر کے نکلیں گے تو ہو جائیں گے ایک دم سے لفٹیننٹ، پھر کیپٹن، پھر میجر۔ ڈاکٹروں کو بڑی جلدی جلدی ترقی دی جاتی ہے۔ بس۔۔۔ اور جناب اس قدر خوش کہ دنیا کی ساری لڑکیاں آپ پر پیش ہیں۔ ہال میں جا رہے ہیں، پکچرز میں لڑکیاں اچک اچک کر آپ کی زیارت کر رہی ہیں، چاروں طرف برف کی سفید سفید گڑیوں جیسی، انگارہ سے سرخ ہونٹوں والی نرسیں بھاگی پھر رہی ہیں۔ چھٹی پر گھر آتے ہیں تو سب کا انتقال ہوا جا رہا ہے اور آپ مارے شان کے کسی کو لفٹ ہی نہیں دیتے۔ سٹیس یا مل کے ہاں بہترین پوز کی بہت سی تصویریں کھنچوا لی ہیں اور وہ اپنی ایڈمائرز کو عنایت کی جا رہی ہیں۔ پھر بھائی لڑائی کے بعد جو آپ کو کان پکڑ کر نکال کے باہر کھڑا کر دیا جائے گا کہ بھیا گھر کا راستہ لو تو جناب آپ امین آباد کے پیچھے ایک پھٹیچر سا میڈیکل ہال کھول کر بیٹھیں گے۔ اب بھائی اسلم بھائی ہیں کہ ایک بد رنگ سی کرسی پر بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ کوئی مریض آ کے ہی نہیں دیتا۔ پھر بھئی ایک روز کرنا خدا کا کیا ہو گا کہ ایک شان دار بیوک رکے گی آپ کی دکان کے آگے اور اس میں سے ایک بے حد عظیم الشان خاتون ناک پر رومال رکھے اتر کر پوچھیں گی کہ بھئی ہمارے فیڈو کو زکام ہو گیا ہے۔ یہاں کوئی گھوڑا ہسپتال کا ڈاکٹر۔۔۔‘‘
اور اسلم نے کہا تھا، ’’ہش، چپ رہو جی۔۔۔ بیگم صاحبہ ہو کس خیال میں۔ بندہ تو ہو جائے گا لفٹننٹ کرنل تین سال بعد۔ اور لڑائی کے بعد ہوتا ہے سول سرجن۔ اور بھئی کیا ہو گا کہ ایک روز بی افروز اپنے پندرہ بچوں کی پلٹن لیے بیل گاڑی میں چلی آ رہی ہیں اور سامنے گاڑی بان کے پاس یہ بڑا سا زرد پگڑ باندھے اور ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لیے بی افروز کے راجہ بہادر بیٹھے ہیں اور بھئی ہم چپراسی سے کہلوا دیں گے کہ سول سرجن صاحب معائنہ کرنے تشریف لے گیے ہیں، شام کو آئیے گا۔ اب جناب افروز بیگم برآمدے میں بینچ پر بیٹھی ہیں برقعہ پہنے۔۔۔‘‘
’’ہائے چپ رہو بھئی۔۔۔ خدا نہ کرے جو زرد پگڑ اور بیل گاڑی۔۔۔‘‘
’’اور کیا، منظر احمد سے جو تم شادی کرو گی تو کیا رولز رائس چلا کرے گی تمھارے یہاں؟ بیل گاڑیوں پر ہی پڑی جایا کرنا اپنے گاؤں۔‘‘
’’بیل گاڑی پر جانا تم اور زرد پگڑ بھی خدا کرے تم ہی باندھو۔ آئے وہاں سے بڑے بے چارے۔‘‘
’’اور بھئی حضرتِ داغ کا یہ ہو گا۔۔۔ شاہد نے اپنے مخصوص انداز سے کہنا شروع کیا، ’’کہ یہ خاکسار جب کئی سال تک ایم ایس سی میں لڑھک چکے گا تو وار ٹیکنیشنز میں بھرتی ہو جائے گا اور پھر بھی رفعت کی کوٹھی پر پہنچے گا کہ بھئی بڑے دن کے سلام کے لیے آئے ہیں۔ صاحب کہلوا دیں گے کہ پھر آنا، صاحب کلب گیے ہیں۔ بس بھئی ہم وہاں برساتی کی سیڑھیوں پر، گملوں کی آڑ میں، اس امید پر بیٹھ جائیں گے کہ شاید بی رفعت نکل آئیں اندر سے لیکن جب چپراسی کی ڈانٹ پڑے گی تو چلے آئیں گے واپس اور کوٹھی کے پھاٹک کے باہر پہنچ کر کان میں سے چونی نکال سگریٹ اور دو پیسوں والی سینما کے گانے کی کتاب خرید کر گاتے ہوئے گھر کا راستہ لیں گے۔۔۔ اکھیاں ملا کے۔۔۔ جیا برما کے۔۔۔ چلے نہیں جانا۔‘‘
’’نہیں بھئی، خدا نہ کرے، ایسا کیوں ہو! تم تو پروگرام کے مطابق اعلیٰ درجے کے فلرٹ بنو گے اور ریلوے کے اعلیٰ انجینئر۔ اپنے ٹھاٹ سے سیلون میں سیر کرتے پھرا کرو گے۔‘‘رفعت نے کہا تھا۔ باغ میں سے رفعت کے مدھم قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جو کچھ انھوں نے مذاق مذاق میں سوچا تھا وہ نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی نہیں ہوتا اور اسلم اور اس کی کھینچی ہوئی راجہ بہادر کی تصویر اس کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔
اسلم، جو میدان جنگ میں جا کر عرصہ ہوا لاپتہ ہو چکا تھا اور منظر احمد، جو اس شام آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے بڑے بڑے شیشوں والی جھلملاتی ہوئی گیلری میں سے نکل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا لیکن جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ہمیں اپنے خیالوں سے بھی یوں ہی نکال دو تو جانیں۔
اور باغ میں اندھیرا چھانے لگا۔ گتار بجتا رہا اور افروز سوچتی رہی، زندگی کے یہ مذاق! اس روز ’’یوم ٹیگور‘‘ کے لیے ریڈیو اسٹیشن کے آرکیسٹرا کے ساتھ رقص کی ری ہرسل کرنے کے بعد وہ پرکاش اور اجلا کے ساتھ وہاں واپس آ رہی تھی اور لیلا رام کے سامنے سے وہ اپنی اسپورٹس کار پر آتا نظر آیا تھا۔۔۔ پرکاش کو دیکھ کر اس نے کار روک لی تھی، ’’کہیے مس شیرالے کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’گھر جا رہی ہیں۔‘‘
’’چلیے میں آپ کو پہنچا دوں۔‘‘
اور افروز نے کہنا چاہا تھا کہ ہماری کار آتی ہو گی، آپ تکلیف نہ کیجیے۔ لیکن پرکاش نے اپنی مثالی خوش خلقی کی وجہ سے فوراً اس کی درخواست قبول کر لی تھی اور پھر اس کے گھر تک وہ کار پندرہ میل کی رفتار سے اس قدر آہستہ ڈرائیو کر کے لایا تھا جیسے کسی بارات کے ساتھ جا رہا ہو، محض اس لیے کہ اسے افروز کو اپنی کار میں زیادہ سے زیادہ دیر تک بٹھانے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع مل سکے اور اس نے سوچا تھا کہ اگر وہ اس منظر احمد کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی تو بہرحال مائنڈ بھی نہیں کرے گی، حالاں کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا فلرٹ ہے، کبھی کبھی ڈرنک بھی کر لیتا ہے اور نشاط نے تو یہ تک کہا تھا کہ اپنی ریاست میں اس کی کیپ بھی موجود ہے۔ ’’لیکن بھئی کیا تعجب ہے؟‘‘ نشاط کہہ رہی تھی، ’’سب ہی جانتے ہیں کہ تعلقہ داروں کے لڑکے کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
اور پھر ایک روز وہ اور پرکاش خریداری کے بعد کافی ہاؤس چلے گیے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ برسات کی دوپہر! بارش ہو کر رکی تھی۔ فضا پر ایک لطیف سی خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کافی ہاؤس میں بھی قریب قریب بالکل سناٹا تھا۔ وہ ایک ستون کی آڑ میں بیٹھ گیے اور سامنے کے مرمریں ستون پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں انھوں نے دیکھا کہ دوسری طرف منظر احمد بیٹھا ہے۔ خوب! یہ حضرت دوپہر کو بھی کافی ہاؤس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس نے ذرا نفرت محسوس کرنے کی کوشش کی اور پرکاش کو دیکھ کر وہ سگریٹ کی راکھ جھاڑتا ہوا ان کی میز پر آ بیٹھا، ’’ہلو۔۔۔ افروز سلطانہ۔۔۔ ہلو۔۔۔‘‘ اس نے اپنے لہجے میں بقدرِ ضرورت خنکی اور خشکی پیدا کرتے ہوئے مختصر سا جواب دے دیا اور کافی بنانے میں مشغول ہو گئی۔ وہ اپنی تخیلی سی آنکھوں سے باہر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا۔ کتنا بنتا ہے۔ یہ شخص بھی کبھی سنجیدہ ہو سکتا ہے جس کی زندگی کا واحد مقصد کھیلنا اور صرف کھیلتے رہنا ہے؟
پرکاش خریداری کی فہرست بنانے میں منہمک تھی۔ پھر وہ یک لخت کہنے لگا، ’’افروز سلطانہ! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے دل میں میری طرف سے بڑی خوف ناک قسم کی بدگمانیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔‘‘
’’جی مجھے بدگمانی وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ بدگمانیاں تو اسے ہوسکتی ہیں جسے پہلے سے آپ کی طرف سے حسنِ ظن ہو۔ یہاں آپ سے دل چسپی ہی کس کو ہے؟‘‘
’’ہنہ۔۔۔ ذرا بننا تو دیکھو۔‘‘ وہ کہتا رہا، ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کو بتایا گیا ہے میں۔۔۔ میں ڈرنک کرتا ہوں۔۔۔ اور۔۔۔ اور اسی قسم کی بہت سی حرکتیں۔۔۔ مختصر یہ کہ میں انتہائی برا آدمی ہوں۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں؟ کیا آپ مجھے واقعی ایسا ہی سمجھتی ہیں؟‘‘ اور اس نے آہستہ آہستہ بڑی رومینٹک نقرئی آواز میں بات ختم کر کے سگریٹ کی راکھ جھٹکی اور پام کے پتوں کے پرے دیکھنے لگا۔۔۔ اور وہ سچ مچ بہت پریشان ہو گئی کہ کیا کہے کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ منظر احمد اس وقت بقول شخصے قطعی نون سیریس نہیں ہے اور اس نے کہا، ’’بھئی میں نے قطعی کوئی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کے متعلق۔۔۔‘‘
’’اچھا، یہ بات ہے۔‘‘ اس نے بات ختم کرنے کا انتظار کیے بغیر اسی نقرئی آواز میں آہستہ سے کہا، ’’اجازت دیجیے، خدا حافظ مس شیرالے۔۔۔‘‘ اور وہ ایک دم سے اس کی میز پر سے اٹھ کر چلا گیا اور کر لی لوکس کشنوں کے انبار پر سے گر پڑی۔ ’’جناب تشریف لے گیے۔‘‘ پرکاش نے فہرست کے کاغذ پر سے سر اٹھا کر پوچھا۔ باہر اگست کی ہوائیں ہال کے بڑے بڑے دریچوں کے شیشوں س
اور کہانیوں کے اس ملک کو جانے والے راستے کے کنارے کنارے بہت سے سائن پوسٹ کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے ’’صرف موٹروں کے لیے‘‘
’’یہ عام راستہ نہیں‘‘ اور شام کے اندھیرے میں زناٹے سے آتی ہوئی کاروں کی تیز روشنی میں نرگس کے پھولوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں سے جھانکتے ہوئے یہ الفاظ جگمگا اٹھتے ہیں، ’’پلیز آہستہ چلائیے۔۔۔ شکریہ!‘‘
اور بہار کی شگفتہ اور روشن دوپہروں میں سنہرے بالوں والی کر لی لوکس، سنڈریلا اور اسنو وائٹ چھوٹی چھوٹی پھولوں کی ٹوکریاں لے کر اس راستے پر چیری کے شگوفے اور ستارۂ سحری کی کلیاں جمع کرنے آیا کرتی تھیں۔
ایک روز کیا ہوا کہ ایک انتہائی ڈیشنگ شہ سوار راستہ بھول کر صنوبروں کی اس وادی میں آ نکلا جو دور دراز کی سرزمینوں سے بڑے بڑے عظیم الشان معرکے سر کر کے چلا آ رہا تھا۔ اس نے اپنے شان دار گھوڑے پر سے جھک کر کہا، ’’مائی ڈیر ینگ لیڈی کیسی خوش گوار صبح ہے!‘‘کر لی لوکس نے بے تعلقی سے جواب دیا، ’’اچھا، واقعی؟ تو پھر کیا ہوا؟‘‘
شہ سوار کی خواب ناک آنکھوں نے خاموشی سے کہا، ’’پسند کرو ہمیں۔‘‘ کر لی لوکس کی بڑی بڑی روشن اور نیلی آنکھوں میں بے نیازی جھلملا اٹھی۔ ’’جناب عالی ہم بالکل نوٹس نہیں لیتے۔‘‘ شہ سوار نے اپنی خصوصیات بتائیں۔ ایک شان دار سی امپیریل سروس کے مقابلے میں ٹاپ کیا ہے۔ اب تک ایک سو پینتیس ڈوئیل لڑ چکا ہوں۔ بہترین قسم کا heart breakerہو ں۔ کر لی لوکس نے غصے سے اپنی سنہری لٹیں جھٹک دیں اور اپنے بادامی ناخنوں کے برگنڈی کیوٹیکس کو غور سے دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ سنڈریلا اور اسنو وائٹ پگڈنڈی کے کنارے اسٹرابری چنتی رہیں۔ اور ڈیشنگ شہ سوار نے بڑے ڈرامائی انداز سے جھک کر نرسری کا ایک پرانا گیت یاد دلایا،
کر لی لوکس کر لی لوکس
یعنی اے میری پیاری چینی کی گڑیا۔
تمھیں برتن صاف کرنے نہیں پڑیں گے۔
اور بطخوں کو لے کر چراگاہ میں جانا نہیں ہو گا۔
بلکہ تم کشنوں پر بیٹھی بیٹھی اسٹرابری کھایا کرو گی۔
اے میری سنہرے گھنگھریالے بالوں والی مغرور شہزادی ایمیلیا ہنری ایٹامرایا۔۔۔ دو نینا متوارے تمھارے ہم پر ظلم کریں۔
اور پھر وہ ڈیشنگ شہ سوار اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوسری سرزمینوں کی طرف نکل گیا جہاں اور بھی زیادہ عظیم الشان اور زبردست معرکے اس کے منتظر تھے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازِ بازگشت پہاڑی راستوں اور وادیوں میں گونجتی رہی۔
پھر ایک اور بات ہوئی جس کی وجہ سے چاند کی وادی کے باسی غمگین رہنے لگے کیوں کہ ایک خوش گوار صبح معصوم کوک روبن ستارۂ سحری کے سبزے پر مقتول پایا گیا۔ مرحوم پر کسی ظالم نے تیر چلایا تھا۔ سنڈریلا رونے لگی۔ بے چارا میرا سرخ اور نیلے پروں والا گڈّو سا پرندہ۔ پرستان کی ساری چڑیوں، خرگوشوں اور گلہریوں نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد پتا چلا لیا اور بالاتفاق رائے اس کی بے وقت اور جوان مرگی پر تعزیت کی قرارداد منظور کی گئی۔ یونی ورسٹی میں کوک روبن ڈے منایا گیا لیکن عقل مند پوسی کیٹ نے، جو فل بوٹ پہن کر ملکہ سے ملنے لندن جایا کرتی تھی، سنڈریلا سے کہا، ’’روؤ مت میری گڑیا، یہ کوک روبن تو یوں ہی مرا کرتا ہے اور پھر فرسٹ ایڈ ملتے ہی فوراً زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور کوک روبن سچ مچ زندہ ہو گیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اور ہمیشہ کی طرح وادی کے سبزے پر بکھرے ہوئے بھیڑوں کے گلے کی ننھی مُنّی گھنٹیاں اور دور سمندر کے کنارے شفق میں کھوئے ہوئے پرانے عبادت خانوں کے گھنٹے آہستہ آہستہ بجتے رہے۔۔۔ ڈنگ ڈونگ، ڈنگ ڈونگ بل، پوسی ان وَ ویل۔
ڈنگ ڈونگ۔ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ جیسے کر لی لوکس کہہ رہی ہو، نہیں، نہیں، نہیں، نہیں!
اور اس نے کہا۔ نہیں نہیں۔ یہ تو پریوں کے ملک کی باتیں تھیں۔ میں کوک روبن نہیں ہوں، نہ آپ کر لی لوکس یا سنڈریلا ہیں۔ ناموں کی ٹوکری میں سے جو پرچی میرے ہاتھ پڑی ہے اس پر ریٹ بٹلر لکھا ہے لہٰذا آپ کو اسکارٹ اوہارا ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر آپ جو لیٹ یا کلیوپٹرا ہیں تو رومیو یا انطونی صاحب کو تلاش فرمائیے اور میں قاعدے سے مس اوہارا کی فکر کروں گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ جو لیٹ یا بیٹرس یا ماری انطونی نہیں ہیں اور میں قطعی ریٹ بٹلر نہیں ہو سکتا، کاش آپ محض آپ ہوتیں اور میں صرف میں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی اپنی تلاش شروع کریں۔
ہم سب کے راستے یوں ہی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے پھر الگ الگ چلے جاتے ہیں، لیکن پرستان کی طرف تو ان میں سے کوئی راستہ بھی نہیں جاتا۔
چوکو بارز کی اسٹالوں اور لکی ڈپ کے خیمے کے رنگین دھاری دار پردوں کے پیچھے چاندی کی ننھی منی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ پوسی بے چاری کنویں میں گر گئی اور ٹوم اسٹاؤٹ بے فکری سے چوکو بارز کھاتا رہا۔ پھر وہ سب زندگی کی ٹریجڈی میں غور کرنے میں مصروف ہو گیےکیوں کہ وہ چاند کی وادی کے باسی نہیں تھے لیکن اتنے احمق تھے کہ پرستان کی پگڈنڈی پر موسمِ گل کے پہلے سفید شگوفے تلاش کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے اور اس کوشش میں انھیں ہمیشہ کسی نہ کسی اجنبی ساحل، کسی نہ کسی ان دیکھی، اَن جانی چٹان پر فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑتی تھی۔
وہ کئی تھے۔ ڈک ڈنگٹن جسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اسے فل بوٹ پہننے والی وہ پوسی کیٹ مل ہی جائے گی جو اسے خوابوں کے شہر کی طرف اپنے ساتھ لے جائے اور اسے یقین تھا کہ خوابوں کے شہر میں ایک نیلی آنکھوں والی ایلس اپنے ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور وہ افسانہ نگار جو سوچتا تھا کہ کسی رو پہلے راج ہنس کے پروں پر بیٹھ کر اگر وہ زندگی کے اس پار کہانیوں کی سرزمین میں پہنچ جائے جہاں چاند کے قلعے میں خیالوں کی شہزادی رہتی ہے تو وہ اس سے کہے، ’’میری مغرور شہزادی! میں نے تمھارے لیے اتنی کہانیاں، اتنے اوپیرا اور اتنی نظمیں لکھی ہیں۔ میرے ساتھ دنیا کو چلو تو دنیا کتنی خوب صورت، زندہ، رہنے اور محبت کرنے کے قابل جگہ بن جائے۔‘‘
لیکن روپہلا راج ہنس اسے کہیں نہ ملتا تھا اور وہ اپنے باغ میں بیٹھا بیٹھا کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا تھا اور جو خوب صورت اور عقل مند لڑکی اس سے ملتی،، اسے ایک لمحے کے لیے یقین ہو جاتا کہ خیالوں کی شہزادی چاند کے ایوانوں میں سے نکل آئی ہے لیکن دوسرے لمحے یہ عقل مند لڑکی ہنس کر کہتی کہ افوہ بھئی فن کار صاحب! کیا cynicism بھی اس قدر الٹرا فیشن ایبل چیز بن گئی ہے اور آپ کو یہ مغالطہ کب سے ہو گیا ہے کہ آپ جینیس بھی ہیں اور اس کے نقرئی قہقہے کے ساتھ چاند کی کرنوں کی وہ ساری سیڑھیاں ٹوٹ کر گر پڑتیں جن کے ذریعے وہ اپنی نظموں میں خیالستان کے محلوں تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی۔ اندھیری، ٹھنڈی اور بد صورت۔۔۔ اور سنڈریلا جو ہمیشہ اپنا ایک بلوریں سینڈل رات کے اختتام پر خوابوں کی جھلملاتی رقص گاہ میں بھول آتی تھی، اور وہ ڈیشنگ شہ سوار جو پرستان کی خاموش، شفق کے رنگوں میں کھوئی ہوئی پگڈنڈیوں پر اکیلے اکیلے ہی ٹہلا کرتا تھا اور برف جیسے رنگ اور سرخ انگارہ جیسے ہونٹوں والی اسنو وائٹ جو رقص کرتی تھی تو بوڑھے بادشاہ کول کے دربار کے تینوں پری زاد مغنی اپنے وائلن بجانا بھول جاتے تھے۔
’’اور‘‘ ریٹ بٹلر نے اس سے کہا، ’’مس اوہارا آپ کو کون سا رقص زیادہ پسند ہے۔ ٹینگو۔۔۔ فوکس ٹروٹ۔۔۔ رومبا۔۔۔ آئیے لیمبتھ واک کریں۔‘‘
اور افروز اپنے پارٹنر کے ساتھ رقص میں مصروف ہو گئی، حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکارلٹ اور ہارا نہیں ہے کیوں کہ وہ چاند کی دنیا کی باسی نہیں تھی۔ سبزے پر رقص ہو رہا تھا۔ روش کی دوسری طرف ایک درخت کے نیچے، لکڑی کے عارضی پلیٹ فارم پر چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا اپنی پوری سوئنگ میں تیزی سے بج رہا تھا۔۔۔ اور پھر ایک دم سے قطعے کے دوسرے کنارے پر ایستادہ لاؤڈ اسپیکر میں کارمن میرانڈا کا ریکارڈ چیخنے لگا، ’’تم آج کی رات کسی کے بازوؤں میں ہونا چاہتی ہو؟‘‘ لکی ڈپ اور ’’عارضی کافی ہاؤس‘‘ کے رنگین خیموں پر بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بجتی رہیں اور کسی نے اس کے دل میں آہستہ آہستہ کہا، موسیقی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ زندگی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ شوپاں کے نغمے۔۔۔ ’’جپسی مون۔‘‘ اور خدا!
اس نے اپنے ہم رقص کے مضبوط، پراعتماد، مغرور بازوؤں پر اپنا بوجھ ڈال کر ناچ کے ایک کوئیک اسٹیپ کا ٹرن لیتے ہوئے اس کے شانوں پر دیکھا۔ سبزے پر اس جیسے کتنے انسان اس کی طرح دو دو کے رقص کی ٹکڑیوں میں منتشر تھے۔ ’’جولیٹ‘‘ اور ’’رومیو‘‘، ’’وکٹوریہ‘‘ اور ’’البرٹ‘‘، ’’بیٹرس‘‘ اور ’’دانتے‘‘ ایک دوسرے کو خوب صورت دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی اس مصنوعی، عارضی، چاند کی وادی میں کتنے خوش تھے وہ سب کے سب۔۔۔! بہار کے پہلے شگوفوں کی متلاشی اور کاغذی کلیوں پر قانع اور مطمئن۔۔۔ زندگی کے تعاقب میں پریشان و سرگرداں زندگی۔۔۔ ہُنہ۔۔۔ شوپاں کی موسیقی، سفید گلاب کے پھول، اور اچھی کتابیں۔ کاش! زندگی میں صرف یہی ہوتا۔
چاند کی وادی کے اس افسانہ نگار اویناش نے ایک مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ہُنہ۔۔۔ کتنا بنتے ہو اویناش! ابھی سامنے سے ایک خوب صورت لڑکی گزر جائے اور تم اپنی ساری تخیل پرستیاں بھول کر سوچنے لگو گے کہ اس کے بغیر تمھاری زندگی میں کتنی بڑی کمی ہے۔۔۔ اور اویناش نے کہا تھا، کاش جو ہم سوچتے وہی ہوا کرتا، جو ہم چاہتے وہی ملتا۔۔۔ ہائے یہ زندگی کا لکی ڈپ۔۔۔! زندگی، جس کا جواب مونا لیزا کا تبسم ہے جس میں نرسری کے خوب صورت گیت اور چاند ستارے ترشتی ہوئی کہانیاں تمھارا مذاق اڑاتی، تمھارا منہ چڑاتی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، جہاں کوک روبن پھر سے زندہ ہونے کے لیے روز نئے نئے تیروں سے مرتا رہتا ہے۔۔۔ اور کر لی لوکس ریشمیں کشنوں کے انبار پر کبھی نہیں چڑھ پاتی۔ کاش افروز تم— اور پھر وہ خاموش ہو گیا تھا کیوں کہ اسے یاد آگیا تھا کہ افروز کو ’’کاش۔۔۔‘‘ اس سستے اور جذباتی لفظ سے سخت چڑ ہے۔ اس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جیسے تمھیں خود پر اعتماد، بھروسہ، یقین نہیں۔
اور افروز لیبتھ واک کی اچھل کود سے تھک گئی۔ کیسا بے ہودہ سا ناچ ہے۔ کس قدر بے معنی اور فضول سے steps ہیں۔ بس اچھلتے اور گھومتے پھر رہے ہیں، بے وقوفوں کی طرح۔
’’مس اوہارا۔۔۔‘‘اس کے ہم رقص نے کچھ کہنا شروع کیا۔
’’افروز سلطانہ کہیے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ مس افروز حمید علی۔۔۔ آئیے کہیں بیٹھ جائیں۔‘‘
’’بیٹھ کر کیا کریں؟‘‘
’’ار۔۔۔ باتیں!‘‘
’’باتیں آپ کر ہی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ مس حمید علی آپ یہ ہیں، آپ وہ ہیں، آپ بے حد عمدہ رقص کرتی ہیں، آپ نے کل کے سنگلز میں پرکاش کو خوب ہرایا۔۔۔‘‘
’’ار۔۔۔ غالباً آپ کو سیاسیات سے۔۔۔‘‘
’’شکریہ، اویناش اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر موسیقی یا پال مُنی کی نئی فلم۔۔۔‘‘
’’مختصر یہ کہ آپ خاموش کسی طرح نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔‘‘وہ چپ ہو گیا۔
پھر شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ درختوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے جھلملا اٹھے اور وہ سب سبزے کو خاموش اور سنسان چھوڑ کے بال روم کے اندر چلے گئے۔ آرکیسٹرا کی گت تبدیل ہو گئی۔ جاز اپنی پوری تیزی سے بجنے لگا۔ وہ ہال کے سرے پر شیشے کے لمبے لمبے دریچوں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے قریب اس کی ممانی کا چھوٹا بھائی، جو کچھ عرصے قبل امریکہ سے واپس آیا تھا، میری ووڈ سے باتیں کرنے میں مشغول تھا اور بہت سی لڑکیاں اپنی سبز بید کی کرسیاں اس کے آس پاس کھینچ کر انتہائی انہماک اور دل چسپی سے باتیں سن رہی تھیں اور میری ووڈ ہنسے جا رہی تھی۔ میری ووڈ، جو سانولی رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک اعلیٰ خاندان عیسائی لڑکی اور انگریز کرنل کی بیوی تھی، ایک ہندوستانی فلم میں کلاسیکل رقص کر چکی تھی اور اب جاز کی موسیقی اور شیری کے گلاسوں کے سہارے اپنی شامیں گزار رہی تھی۔
اور پائپوں اور سگرٹوں کے دھوئیں کا ملا جلا لرزتا ہوا عکس بال روم کی سبز روغنی دیواروں پر بنے ہوئے طیاروں، پام کے درختوں اور رقصاں اپسراؤں کے دھندلے دھندلے نقوش کو اپنی لہروں میں لپیٹتا، ناچتا، رنگین اور روشن چھت کی بلندی کی طرف اٹھتا رہا۔ خوابوں کا شبنم آلود سحر آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔
او ریک لخت، میری ووڈ نے زور سے ہنسنا اور چلّانا شروع کر دیا۔ افروز کی ممانی کے ہالی ووڈ پلٹ بھائی نے ذرا گھبرا کر اپنی کرسی پیچھے کو سرکا لی۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آرکیسٹرا کے سُر آہستہ آہستہ ڈوبتے گیے اور دبی دبی اور مدھم قہقہوں کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رو لڑکی، جو بہت دیر سے ایک ہندوستانی پرنس کے ساتھ ناچ رہی تھی، تھک کر افروز کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور اس کا باپ، جو ایک ہندوستانی ریاست کی فوج کا افسر اعلیٰ تھا، فرن کے پتوں کے پیچھے گیلری میں بیٹھا اطمینان سے سگار کا دھواں اڑاتا رہا۔
پھر کھیل شروع ہوئے اور ایک بے حد اوٹ پٹانگ سے کھیل میں حصہ لینے کے لیے سب دوبارہ ہال کی فلور پر آ گیے اور افروز کا ہم رقص ریٹ بٹلر اپنے خواب ناک آنکھوں والے دوست کے ساتھ اس کے قریب آیا، ’’مس حمید علی آپ میری پارٹنر ہیں نا؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ آئیے۔‘‘
اور اس خواب ناک آنکھوں والے دوست نے کہا، ’’بارہ بجنے والے ہیں۔ نیا سال مبارک ہو۔ لیکن آج اتنی خاموش کیوں ہیں آپ؟‘‘
’’آپ کو بھی مبارک ہو لیکن ضرورت ہے کہ اس زبردست خوشی میں خواہ مخواہ کی بے کار باتوں کا سلسلہ رات بھر ختم ہی نہ کیا جائے۔‘‘
’’لیکن میں تو چاہتا ہوں کہ آپ اس طرح خاموش نہ رہیں۔ اس سے خواہ مخواہ یہ ظاہر ہو گا کہ آپ کو اس مجمعے میں ایک مخصوص شخص کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہے۔‘‘
’’پر جو آپ چاہیں، لازم تو نہیں کہ دوسروں کی بھی وہی مرضی ہو۔ کیوں کہ جب آپ کچھ کہتے ہوتے ہیں اس وقت آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ساری دنیا بے حد دل چسپی سے آپ کی طرف متوجہ ہے اور بعد میں لڑکیاں کہتی ہیں، افوہ! کس قدر مزے کی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔
اتنے میں پرکاش کاغذ اور پنسلیں تقسیم کرتی ہوئی ان کی طر ف آئی اور ان کو ان کے فرضی نام بتاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے سب چپ ہو گیے۔ پھر قہقہوں کے شور کے ساتھ کھیل شروع ہوا۔ کھیل کے دوران میں اس نے اپنی خواب ناک آنکھیں اٹھا کر یوں ہی کچھ نہ کچھ بولنے کی غرض سے پوچھا، ’’جی، تو ہم کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہم باتیں قطعی کر ہی نہیں رہے تھے۔ کیوں نہ آپ قاعدے سے اپنی پارٹنر کے ساتھ جا کر کھیلیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں اسکارلٹ اوہارا ہوں۔ جو لیٹ ابھی آپ کو تلاش کر رہی تھی۔ پھر ڈاکٹر مہرہ اور اویناش اس کی طرف آ گیےاور وہ ان کے ساتھ کھیل میں مصروف ہو گئی۔
اور جب رات کے اختتام پر وہ رفعت کے ساتھ اپنا اوور کوٹ لینے کے لیے کلوک روم کی طرف جا رہی تھی تو گیلری کے سامنے کی طرف سے گزرتے ہوئے اس نے اس سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ کے باپ کو اپنے دوستوں سے کہتے سنا، ’’آپ میرے داماد میجر بھنڈاری سے ملے؟ مجھے تو فخر ہے کہ میری بڑی لڑکی نے اپنے فرقے سے باہر شادی کرنے میں ذات اور مذہب کی دقیانوسی قیود کی پروا نہیں کی۔ میری لڑکی کا انتخاب پسند آیا آپ کو؟ ہی ہی ہی۔ دراصل میں نے اپنی چاروں لڑکیوں کا ٹیسٹ کچھ اس طرح cultivate کیا ہے کہ پچھلی مرتبہ جب میں ان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا تو۔۔۔‘‘ اور افروز جلدی سے بال روم کے باہر نکل آئی۔ یہ زندگی۔۔۔ یہ زندگی کا گھٹیا پن!
واقعی۔۔۔! یہ زندگی۔۔۔!
اور جشن نو روز کے دوسرے دن اس بے چارے ریٹ بٹلر نے اپنے دوست، اس خواب ناک آنکھوں والے ڈیشنگ شہ سوار سے کہا، جو پرستان کے راستوں پر سب سے الگ الگ ٹہلا کرتا تھا، ’’عجب لڑکی ہے بھئی۔‘‘
’’ہوا کرے۔‘‘اور وہ خواب ناک آنکھوں والا دوست بے نیازی سے سگریٹ کے دھوئیں کے حلقے بنا بنا کر چھت کی طرف بھیجتا رہا۔ اور اس عجیب لڑکی کی دوست کہہ رہی تھی، ’’ہُنہ، اس قدر مغرور، مغالطہ فائیڈ قسم کا انسان۔‘‘
’’ہوا کرے بھئی۔ ہم سے کیا۔‘‘اور افروز بے تعلقی کے ساتھ نٹنگ میں مصروف ہو گئی۔
’’اتنی اونچی بننے کی کوشش کیوں کر رہی ہو؟‘‘رفعت نے چڑ کر پوچھا۔
’’کیا ہرج ہے۔‘‘
’’کوئی ہرج ہی نہیں؟ قسم خدا کی افروز اس اویناش کے فلسفے نے تمھارا دماغ خراب کر دیا ہے۔‘‘
’’تو گویا تمھارے لیے زنجیر ہلائی جائے۔‘‘
’’فوہ۔ جیسے آپ یوں ہی نو لفٹ جاری رکھیں گی۔‘‘
’’قطعی۔۔۔! زندگی تمھارے لیے ایک مسلسل جذباتی اضطراب ہے لیکن مجھے اصولوں میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔۔۔ جانتی ہو زندگی کے یہ ایئر کنڈیشنڈ اصول بڑے کارآمد اور محفوظ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
’’فوہ۔۔۔ کیا بلند پروازی ہے۔‘‘
’’میں؟‘‘
’’تم اور وہ۔۔۔ خدا کی قسم ایسی بے پرواہی سے بیٹھا رہتا ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ جی چاہتا ہے پکڑ کر کھا جاؤں اسے۔ جھکنا جانتا ہی نہیں جیسے۔‘‘
’’ارے چپ رہو بھائی۔‘‘
’’سچ مچ اس کی آنکھوں کی گہرائیاں اتنی خاموش، اس کا انداز اتنا پر وقار، اتنا بے تعلق ہے کہ بعض مرتبہ جی میں آتا ہے کہ بس خودکشی کر لو۔ یعنی ذرا سوچو تو، تم جانتی ہو کہ تمھارے کشن کے نیچے یا مسہری کے سرہانے میز پر بہترین قسم کی کیڈ بری چاکلیٹ کا بڑا سا خوب صورت پیکٹ رکھا ہوا ہے لیکن تم اسے کھا نہیں سکتیں۔۔۔ الو!‘‘
’’کون بھئی۔۔۔؟‘‘پرکاش نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’کوئی نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک۔۔۔‘‘رفعت نے اپنے غصے کے مطابقت میں کوئی موزوں نام سوچنا چاہا۔
’’بلّا۔۔۔‘‘افروز نے اطمینان سے کہا۔
’’بلا!‘‘پرکاش کافی پریشان ہو گئی۔
’’ہاں بھئی۔۔۔ ایک بلّا ہے بہت ہی typical قسم کا ایرانی بلّا۔‘‘ افروز بولی۔
’’تو کیا ہوا اس کا؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔ ہوتا کیا؟ سب ٹھیک ہے بالکل۔ بس ذرا اسے اپنی آنکھوں پر بہت ناز ہے اور ان مسعود اصغر صاحب کا کیا ہو گا؟ جو مسوری سے مار خط پہ خط نہایت اسٹائیلش انگریزی میں تمھارے ٹینس کی تعریف میں بھیجا کرتے ہیں۔‘‘
’’ان کو تار دے دیا جائے۔۔۔ nose upturned-nose upturned-riffat:
’’ہاں۔ یعنی لفٹ نہیں دیتے۔ جس کی ناک ذرا اوپر کو اٹھی ہوتی ہے وہ آدمی ہمیشہ بے حد مغرور اور خود پسند طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔‘‘
’’تو تمھاری ناک اتنی اٹھی ہوئی کہاں ہے۔‘‘
’’قطعی اٹھی ہوئی ہے۔ بہترین پروفائل آتا ہے۔‘‘
’’واقعی ہم لوگ بھی کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’جناب، بے حد مفید اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔‘‘
’’اور صلاح الدین بے چارہ!‘‘
’’وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا اب تک۔‘‘ رفعت نے بڑی رنجیدہ انداز سے کہا۔
کیوں کہ یہ ان کا تخیلی کردار تھا اور خیالستان کے کردار چاند کی وادی میں سے کبھی نہیں نکلتے۔ جب کبھی وہ سب کسی پارٹی میں ملیں تو سب سے پہلے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے اس فرضی ہستی کی خیریت پوچھی جاتی، اس کے متعلق اوٹ پٹانگ باتیں کی جاتیں اور اکثر انھیں محسوس ہوتا جیسے انھیں یقین سا ہو گیا ہے کہ ان کا خیالی کردار اگلے لمحے ان کی دنیا اور ان کی زندگی میں داخل ہو جائے گا۔
اور فرصت اور بے فکری کی ایک خوش گوار شام انھوں نے یوں ہی باتیں کرتے کرتے صلاح الدین کی اس خیالی تصویر کو مکمل کیا تھا۔ وہ سب شاپنگ سے واپس آ کر منظر احمد پر زور شور سے تبصرہ کر رہی تھیں جو ان سے دیر تک آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے ایک کاؤنٹر پر باتیں کرتا رہا تھا اور پرکاش نے قطعی فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ بے حد بنتا ہے اور افروز بے حد پریشان تھی کہ کس طرح اس کا یہ مغالطہ دور کرے کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔
’’لیکن اسے لفٹ دینے کی کوئی معقول وجہ پیش کرو۔‘‘
’’کیوں کہ بھئی ہمارا معیار اس قدر بلند ہے کہ کوئی مارک تک پہنچ نہیں سکتا۔‘‘
’’لہٰذا اب کی بار اس کو بتا دیا جائے گا کہ بھئی افروز کی تو منگنی ہونے والی ہے۔‘‘
’’لیکن کس سے؟‘‘
’’یہی تو طے کرنا باقی ہے۔ مثلاً۔۔۔ مثلاً ایک آدمی سے۔ کوئی نام بتاؤ۔‘‘
’’پرویز۔‘‘
’’بڑا عام افسانوی سا نام ہے۔ کچھ اور سوچو!‘‘
’’سلامت اللہ!‘‘
’’ہش۔ بھئی واہ، کیا شان دار نام دماغ میں آیا۔۔۔ صلاح الدین!‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ اچھا، اور بھائی صلاح الدین کا تعارف کس طرح کرایا جائے؟‘‘
’’بھئی صلاح الدین صاحب جو تھے وہ ایک روز پرستان کے راستے پر شفق کے گل رنگ سائے تلے مل گیے۔‘‘
’’پرستان کے راستے پر؟‘‘
’’چپکی سنتی جاؤ۔ جانتی ہو میں اس قدر بہترین افسانے لکھتی ہوں جن میں سب پرستان کی باتیں ہوتی ہیں۔ بس پھر یہ ہوا کہ۔۔۔‘‘
’’جناب ہم تو اس دنیا کے باسی ہیں۔ پرستان اور کہانیوں کی پگڈنڈیوں پر تو صرف اویناش ہی بھٹکتا اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’چچ چچ چچ۔ بے چارہ اویناش۔۔۔ گڈو۔‘‘
’’بھئی ذکر تو صلاح الدین کا تھا۔‘‘
’’خیر تو جناب صلاح الدین صاحب پرستان کے راستے پر ہرگز نہیں ملے۔ وہ بھی ہماری دنیا کے باسی ہیں اور ان کا دماغ قطعی خراب نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ سب ہی میٹر آف فیکٹ طریقے سے۔‘‘
’’یہ ہوا کہ افروز دل کشا جا رہی تھی تو ریلوے کراسنگ کے پاس بے حد رومینٹک انداز سے اس کی کار خراب ہو گئی۔‘‘
’’نہیں بھئی واقعہ یہ تھا کہ افروز آفیسرز شاپ جو گئی ایک روز تو پتا چلا کہ وہ غلط تاریخ پر پہنچ گئی ہے، اور وہ اپنا کارڈ بھی گھر بھول گئی تھی۔ بس بھائی صلاح الدین جو تھے انھوں نے جب دیکھا کہ ایک خوب صورت لڑکی برگنڈی رنگ کا کیوٹکس نہ ملنے کے غم میں رو پڑنے والی ہے تو انھوں نے بے حد gallantly آگے بڑھ کر کہا کہ ’’خاتون میرا آج کی تاریخ کا کارڈ بے کار جا رہا ہے، اگر آپ چاہیں۔۔۔‘‘
’’بہت ٹھیک۔ آگے چلو۔ پھر کیا ہونا چاہیے؟‘‘
’’بس وہ پیش ہو گیے۔‘‘
’’نہ پیش نہ زیر نہ زبر۔۔۔ افروز نے فوراً نو لفٹ کر دیا اور بے چارے دل شکستہ ہو گیے۔‘‘
’’اچھا ان کا کیریکٹر۔۔۔‘‘
’’بہت ہی بیش فُل۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ کافی تیز۔۔۔ لیکن بھئی ڈینڈی قطعی نہیں برداشت کیے جائیں گے۔‘‘
’’قطعی نہیں صاحب۔۔۔ اور اور فلرٹ ہوں تھوڑے سے۔۔۔‘‘
’’تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ اچھا وہ کرتے کیا ہیں؟‘‘
’’بھئی ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کرتے ہوں گے!‘‘
’’آرمی میں رکھ لو۔۔۔‘‘
’’اووق۔۔۔ حد ہو گئی تمھارے اسسٹنٹ کی۔ کچھ سوال سروس وغیرہ کا لاؤ۔‘‘
’’سب بور ہوتے ہیں۔‘‘
’’ارے ہم بتائیں، کچھ کرتے کراتے نہیں۔ منظر احمد کی طرح تعلقہ دار ہیں۔ پچیس گاؤں اور ایک یہی رومینٹک سی جھیل جہاں پر وہ کرسمس کے زمانے میں اپنے دوستوں کو مدعو کیا کرتے ہیں۔ ہاں اور ایک شان دار سی اسپورٹس کار۔۔۔‘‘
’’لیکن بھئی اس کے باوجود بے انتہا قومی خدمت کرتا ہے۔ کمیونسٹ قسم کی کوئی مخلوق۔‘‘
’’کمیونسٹ ہے تو اسے اپنے پچیسوں گاؤں علاحدہ کر دینے چاہئیں کیوں کہ پرائیویٹ پراپرٹی۔۔۔‘‘
’’واہ، اچھے بھائی بھی تو اتنے بڑے کمیونسٹ ہیں۔ انھوں نے کہاں اپنا تعلقہ چھوڑا ہے؟‘‘
’’آپ تو چغد ہیں نشاط زریں۔۔۔ اچھے بھیا تو سچ مچ کے آدمی ہیں۔ ہیرو کو بے حد آئیڈیل قسم کا ہونا چاہیے۔ یعنی غور کرو صلاح الدین محمود کس قدر بلند پایہ انسان ہے کہ جنتا کی خاطر۔۔۔‘‘
’’افوہ۔۔۔ کیا بوریت ہے بھئی۔ تم سب مل کر ابھی یہی طے نہیں کر پائیں کہ وہ کرتا کیا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہوئی ہے واللہ!‘‘
’’جلدی بتاؤ۔‘‘
’’اصفہانی چائے میں۔۔۔‘‘
اور سب پر ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔
’’کیوں جناب اصفہانی چائے میں بڑے بڑے اسمارٹ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی قصہ مختصر یہ کہ پڑھتا ہے۔ فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے گویا۔‘‘
’’پڑھتا ہے تو آفیسرز شاپ میں کہاں سے پہنچ گیا!‘‘
’’بھئی ہم نے فیصلہ کر دیا ہے آخر۔ ہوائی جہاز میں سول ایوی ایشن آفیسر ہے۔‘‘
’’یہ آئیڈیا کچھ۔۔۔‘‘
’’تمھیں کوئی آئیڈیا ہی پسند نہیں آیا۔ اب تمھارے لیے کوئی آسمان سے تو خاص طور پر بن کر آئے گا نہیں آدمی۔‘‘
’’اچھا تو پھر یہی مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور جو غرور کے مارے اب تک ڈیڈی پر کال کرنے نہیں آئے۔‘‘
اور اس طرح انھوں نے ایک تخیلی کردار کی تخلیق کی تھی۔ سب ہی اپنے دلوں میں چپکے چپکے ایسے کرداروں کی تخلیق کر لیتے ہیں جو ان کی دنیا میں آ کر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے بے وقوف لوگ!
لیکن پرکاش کا خیال تھا کہ ان کی mad-hatter’s پارٹی میں سب کے سب حد سے زیادہ عقل مند ہیں۔ مغرور اور خود پسند نشاط زریں جو ایسے fantastic افسانے لکھتی ہے جن کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن جن کی تعریف ایٹی کیٹ کے اصولوں کے مطابق سب کر دیتے ہیں جو اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ کر بچوں کی طرح رو پڑتی ہے یا خوش ہو جاتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سپر انٹلکچوئل سمجھتی ہے۔ رفعت، جس کے لیے زندگی ہمیشہ ہنستی ناچتی رہتی ہے اور افروز جو نہایت سنجیدگی سے نو لفٹ کے فلسفے پر تھیسس لکھنے والی ہے کیوں کہ ان کی پارٹی کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انسان کو خود پسند، خودغرض اور مغرور ہونا چاہیے کیوں کہ خود پسندی دماغی صحت مندی کی سب سے پہلی علامت ہے۔
ایک سہ پہر وہ سب اپنے امریکن کالج کے طویل دریچوں والے فرانسیسی وضع کے میوزک روم میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ پیانو کے گرد جمع ہو کر سالانہ کونسرٹ کے اوپیرا کے لیے ریہرسل کر رہی تھیں۔ موسیقی کی ایک کتاب کے ورق الٹتے ہوئے کسی جرمن نغمہ نواز کی تصویر دیکھ کر پرکاش نے بے حد ہمدردی سے کہا، ’’ہمارے اویناش بھائی بھی تو اسکارف، لمبے لمبے بالوں، خواب ناک آنکھوں اور پائپ کے دھوئیں سے ایسا بوہیمین انداز بناتے ہیں کہ سب ان کو خواہ مخواہ جینیس سمجھنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘
’’آدمی کبھی جینیس ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ نشاط اپنے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ ’’اب تک جتنے جینیس پیدا ہوئے ہیں سارے کے سارے بالکل girlish تھے اور ان میں عورت کا عنصر قطعی طور پر زیادہ موجود تھا۔ بائرن، شیلے، کیٹس، شوپاں۔۔۔ خود آپ کا نپولین اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا تھا۔‘‘ رفعت آئرش دریچے کے قریب زور زور سے الاپنے لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں، گانے کی مشق کر رہی تھی۔ باہر برآمدے کے یونانی ستونوں اور باغ پر دھوپ ڈھلنا شروع ہو گئی۔ ’’سُپرب، میری بچیو! ہماری ریہرسلیں بہت اچھی طرح پروگرس کر رہی ہیں۔‘‘ اور موسیقی کی فرانسیسی پروفیسر اپنی مطمئن اور شیریں مسکراہٹ کے ساتھ میوزک روم سے باہر جا کر برآمدے کے ستونوں کے طویل سایوں میں کھو گئیں۔ نشاط نے اسی سکون اور اطمینان کے ساتھ پیانو بند کر دیا۔
زندگی کتنی دل چسپ ہے، کتنی شیریں۔ دریچے کے باہر سائے بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ’’لابوہیم‘‘ کے نغموں کی گونج اب تک رقصاں تھی۔ چاروں طرف کالج کی شان دار اور وسیع عمارتوں کی قطاریں شام کے دھندلکے میں چھپتی جا رہی تھیں۔ میرا پیارا کالج، ایشیا کا بہترین کالج، ایشیا میں امریکہ! لیکن اس کا اسے اس وقت خیال نہیں آیا۔ اس وقت اسے ہر بات عجیب معلوم نہیں ہوئی۔ وہ سوچ رہی تھی ہم کتنے اچھے ہیں۔ ہماری دنیا کس قدر مکمل اور خوش گوار ہے۔ اپنی معصوم مسرتیں اور تفریحیں، اپنے رفیق اور ساتھی، اپنے آئیڈیل اور نظریے اور اسی خوب صورت دنیا کا عکس وہ اپنے افسانوں میں دکھانا چاہتی ہے تو اس کی تحریروں کو fantastic اور مصنوعی کہا جاتا ہے۔۔۔ بے چاری میں!
موسیقی کے اوراق سمیٹتے ہوئے اسے اپنے آپ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس نے ایک بار اویناش کو سمجھایا تھا کہ ہماری شریعت کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنی تعریف آپ کرو۔ تعریف کے معاملے میں کبھی دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ محفوظ ترین بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً خود کو یاد دلاتے رہا جائے کہ ہم کس قدر بہترین ہیں۔ ہم کو اپنے علاوہ دنیا کی کوئی اور چیز بھی پسند نہیں آ سکی کیونکہ خود بادلوں کے محلوں میں محفوظ ہو کر دوسروں پر ہنستے رہنا بے حد دل چسپ مشغلہ ہے۔ زندگی ہم پر ہنستی ہے، ہم زندگی پر ہنستے ہیں۔ ’’اور پھر زندگی اپنے آپ پر ہنستی ہے۔‘‘ بے چارے اویناش نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا اور اگر افروز کا خیال تھا کہ وہ اس دنیا سے بالکل مطمئن نہیں تو پرکاش اور نشاط زریں کو، جو دونوں بے حد عقل مند تھیں، قطعی طور پر یقین تھا کہ یہ بھی ان کی mad-hatter’s پارٹی کی cynicism کا ایک خوب صورت اور فائدہ مند پوز ہے۔
اور سچ مچ افروز کو اس صبح محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی اس دنیا، اپنی اس زندگی سے انتہائی مطمئن اور خوش ہے۔ اس نے اپنی چاروں طرف دیکھا۔ اس کے کمرے کے مشرقی دریچے میں سے صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے آفتاب کی کرنیں چھن چھن کر اندر آ رہی تھیں اور کمرے کی ہلکی گلابی دیواریں اس نارنجی روشنی میں جگمگا اٹھی تھیں۔ باہر دریچے پر چھائی ہوئی بیل کے سرخ پھولوں کی بوجھ سے جھکی ہوئی لمبی لمبی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل ہل کر دریچے کے شیشوں پر اپنے سائے کی آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھیں۔ اس نے کتاب بند کر کے قریب کے صوفے پر پھینک دی اور ایک طویل انگڑائی لے کر مسہری سے کود کر نیچے اتر آئی۔ اس نے وقت دیکھا۔ صبح جاگنے کے بعد وہ بہت دیر تک پڑھتی رہی تھی۔ اس نے غسل خانے میں گھس کر کالج میں اسٹیج ہونے والے اوپیرا کا ایک گیت گاتے ہوئے منہ دھویا اور تیار ہو کر میز پر سے کتابیں اٹھاتی ہوئی باہر نکل آئی۔
کلاس کا وقت بہت قریب تھا۔ اس نے برساتی سے نکل کر ذرا تیزی سے لائن کو پار کیا اور پھاٹک کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ باغ کے راستے پر، سبزے کے کنارے، اس کا فیڈو روز کی طرح دنیا جہاں سے قطعی بے نیاز اور صلح کل انداز میں آنکھیں نیم وا کیے دھوپ سینک رہا تھا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے لمبے لمبے سفید ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے محسوس کیا، اس نے دیکھا کہ دنیا کتنی روشن، کتنی خوب صورت ہے۔ باغ کے پھول، درخت، پتیاں، شاخیں اسی سنہری دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ ہر چیز تازہ دم اور بشاش تھی۔ کھلی نیلگوں فضاؤں میں سکون اور مسرت کے خاموش راگ چھڑے ہوئے تھے۔ کائنات کس قدر پرسکون اور اپنے وجود سے کتنی مطمئن تھی۔
دور کوٹھی کے احاطے کے پچھلے حصے میں دھوبی نے باغ کے حوض پر کپڑے پٹخنے شروع کر دیے تھے اور نوکروں کے بچے اور بیویاں اپنے کوارٹروں کے سامنے گھاس پر دھوپ میں اپنے کاموں میں مصروف ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے شور مچا رہی تھیں۔ روزمرہ کی یہ مانوس آوازیں، یہ محبوب اور عزیز فضائیں۔۔۔ یہ اس کی دنیا تھی، اس کی خوب صورت اور مختصر سی دنیا اور اس نے سوچا کہ واقعی یہ اس کی حماقت ہے اگر وہ اپنی اس آرام دہ اور پرسکون کائنات سے آگے نکلنا اور سایوں کی اندھیری وادی میں جھانکنا چاہتی ہے۔ ایسے adventure ہمیشہ بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ اس نے فیڈو کو پیار کر کے اس کی جگہ پر بٹھا دیا اور آگے بڑھ گئی۔
باغ کے احاطے کی دوسری طرف انگریز ہمسائے کا بچہ گلِ داؤدی کی کیاریوں کے کنارے کنارے اپنے لکڑی کے گھوڑے پر سوار دھوپ میں جھلملاتے پروں والی تیتریوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خوب زور زور سے گا رہا تھا۔ “ah! this bootiful
bootiful world!” اس نے سوچا، لٹل مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور، خوب گاؤ! اور اپنے لکڑی کے گھوڑے پر خیالی مہمیں سر کرتے رہو۔ ایک وقت آئے گا جب تمھیں پتا چلے گا کہ دنیا کتنی بوٹی فل نہیں ہے۔
اور امرودوں کے جھنڈ کے اس پار کالج کے میوزک روم میں تیزی سے ریکارڈ بجنے شروع ہو گیے اور اسے یاد آگیا کہ کالج سے واپسی پر اسے اوپیرا کے علاوہ بنگال ریلیف کے ورائٹی شوکی ریہرسل کے لیے بھی جانا ہے اور وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ شام کو پروگرام تھا اور چاروں طرف زور شور سے اس کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ بنگال کا قحط ان دنوں اپنی انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ہر لڑکی اور لڑکے کے دل میں کچھ نہ کچھ کرنے کا سچّا جوش موجزن تھا۔
ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے سائیکلوں پر سول لائنز کی کوٹھیوں کے چکر لگائے جا رہے تھے۔ مشاعرے کے انتظام کے سلسلے میں بار بار ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا جا رہا تھا کیوں کہ اسی ہفتے ریڈیو پر مشاعرہ ہوا تھا جس کی شرکت کے لیے بہت سے مشہور ترنّم سے پڑھنے والے شعرائے کرام تشریف لے آئے تھے۔
میوزک روم کے پیچھے کے اور چرڈ میں بہت سی لڑکیاں ایک درخت کے نیچے انتہائی انہماک سے مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ کچھ پروگرام کے خوب صورت کاغذوں پر پینٹنگ کر رہی تھیں، کچھ قہقہے لگا لگا کر اس افتتاحیہ نظم کی تک بندی کر رہی تھیں جو پروگرام شروع ہونے پر قوالوں کے انداز اور انھی کے بھیس میں گائی جانی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی ان میں شامل ہو گئی۔
’’اور ہمارے سپر جینیس گروپ کے باقی افراد کہاں رہ گئے؟‘‘ سعیدہ نے پوچھا۔
’’پرکاش تو آج کل مہرہ اور اویناش کے ساتھ ہندوستان آزاد کرانے میں سخت مصروف ہے اور رفعت دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے کے بعد محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔‘‘
’’ہا بے چاری۔۔۔ اور ہمارا زبردست ادیب، مصور اور افسانہ نگار ابھی تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’آ گیے ہم۔۔۔‘‘ نشاط نے درخت کے نیچے پہنچ کر اپنی جاپانی چھتری بند کرتے ہوئے کہا۔
’’خدا کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ایسا ادیب بنائی۔‘‘ جلیس ایک قلابازی کھا کر بولی، ’’چلو اب قوالی مکمل کریں۔‘‘ اور ہنس ہنس کر لوٹتے ہوئے قوالی تیار کی جانے لگی۔ کیسے بے تکے اور دل چسپ شعر تھے، ’’وہ خود ہی نشانہ بنتے ہیں، ہم تیر چلانا کیا جانیں۔۔۔ انورسٹی کے پڑھنے والے ہم گانا بجانا کیا جانیں۔‘‘ اور جانے کیا کیا۔ کتنی خوش تھیں وہ سب۔۔۔ زندگی کی یہ معصوم، شریر، چھوٹی چھوٹی مسرّتیں!
اور اس وقت بھی دنیا اتنی ہی خوب صورت اور روشن تھی جب کہ غروب ہوتے ہوئے سورج کی ترچھی ترچھی نارنجی کرنیں اس کے دریچے میں سے گزرتی ہوئی گلابی دیواروں پر ناچ رہی تھیں اور کتابوں کی الماریوں اور سنگھار میز کی صفائی کرنے کے بعد صوفے کو دریچے کے قریب کھینچ کر شال میں لپٹی ہوئی کلاس کے نوٹس پڑھنے میں مصروف تھی۔ باہر فضا پر ایک آرام دہ، لطیف اور پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دور مال پر سے گزرتی ہوئی کاروں کے طویل ہارن سنائی دے جاتے تھے۔ دوسرے کمرے میں رفعت آہستہ آہستہ کچھ گا رہی تھی اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے برآمدے میں مدھم سروں میں گتار بج رہا تھا۔
اس نے کشن پر سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ فرصت، اطمینان اور سکون کے یہ لمحات۔ کیا آپ کو ان لمحوں کی قدر نہیں جو ایک دفعہ افق کی پہاڑیوں کے اس پار اڑ کر چلے جائیں تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ لمحے جب جاڑوں کی راتوں میں ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر کشمش اور چلغوزے کھاتے ہوئے گپ شپ اور scandal mongering کی جاتی ہے۔ وہ لمحے جب دھوپ میں کاہلی کے احساس کے ساتھ سبزے پر بلّیوں کی طرح لوٹ لگا کر ریکارڈ بجائے جاتے ہیں اور لڑا جاتا ہے اور پھر ایسے میں اسی طرح کے بیتے ہوئے وقتوں کی یاد اور یہ احساس کہ اپنی حماقت کی وجہ سے وہ وقت اب واپس نہیں آ سکتا، کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
دریچے کے نیچے روش پر موٹر بائیک رکنے کی آواز آئی۔ اس نے کشن پر سے سر اٹھا کر دیکھا۔ شاید مہرہ آیا تھا۔ رفعت دوڑتی ہوئی برآمدے کی سیڑھیوں پر سے اتر کے باغ میں چلی گئی۔ اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اس کے دریچے کے سامنے روش پر سے وہ سب گزرنے لگے۔ وہ بے چارے فریب خوردہ انسان جنھیں زندگی نے رنجیدہ کیا، زندگی جن کی وجہ سے غمگین ہوئی لیکن پھر بھی وہ سب وہاں موجود تھے۔ اس کے خیالوں میں آنے پر مصر تھے۔ اسے شاید یاد آیا۔۔۔ اور اس کے سارے بھائی۔ دور دراز کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے یہ شریر، خوب صورت اور ضدی، افسانوی سے رشتے کے بھائی، جو چھٹیوں میں گھر آتے ہیں اور ان کے رشتے کی بہن یا ان کی بہنوں کی سہیلیاں ان کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ وہ ان سے لڑتے ہیں، راتوں کو باغ میں چاند کو دیکھا جاتا ہے، پھر وہ ان سب کو دل شکستہ چھوڑ کر یا محاذ جنگ پر چلے جاتے ہیں یا ان میں سے کسی ایک سے شادی ہو جاتی ہے۔۔۔ اُف یہ حماقتیں۔۔۔! اور اسے وہ باتیں یاد کر کے ان سب پر بے اختیار ترس سا آگیا۔ یہ فریب کاریاں، یہ بے وقوفیاں!
اور اسے یاد آیا۔۔۔ فرصت اور بے فکری کے ایسے ہی لمحوں میں ایک مرتبہ اپنے اپنے مستقبل کی تصویریں کھینچی گئی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ سارے بہن بھائی ایک جگہ جمع ہو گیے تھے۔ دن بھر تصویریں اتاری جاتی تھیں۔ بزرگوں سے نظر بچا کر پینٹری میں سے حلوہ اور آئس کریم اڑائی جاتی تھی۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی۔
اس نے کہا تھا، ’’اب بھئی اسلم کا حشر سنیے۔ جب آپ پاس کر کے نکلیں گے تو ہو جائیں گے ایک دم سے لفٹیننٹ، پھر کیپٹن، پھر میجر۔ ڈاکٹروں کو بڑی جلدی جلدی ترقی دی جاتی ہے۔ بس۔۔۔ اور جناب اس قدر خوش کہ دنیا کی ساری لڑکیاں آپ پر پیش ہیں۔ ہال میں جا رہے ہیں، پکچرز میں لڑکیاں اچک اچک کر آپ کی زیارت کر رہی ہیں، چاروں طرف برف کی سفید سفید گڑیوں جیسی، انگارہ سے سرخ ہونٹوں والی نرسیں بھاگی پھر رہی ہیں۔ چھٹی پر گھر آتے ہیں تو سب کا انتقال ہوا جا رہا ہے اور آپ مارے شان کے کسی کو لفٹ ہی نہیں دیتے۔ سٹیس یا مل کے ہاں بہترین پوز کی بہت سی تصویریں کھنچوا لی ہیں اور وہ اپنی ایڈمائرز کو عنایت کی جا رہی ہیں۔ پھر بھائی لڑائی کے بعد جو آپ کو کان پکڑ کر نکال کے باہر کھڑا کر دیا جائے گا کہ بھیا گھر کا راستہ لو تو جناب آپ امین آباد کے پیچھے ایک پھٹیچر سا میڈیکل ہال کھول کر بیٹھیں گے۔ اب بھائی اسلم بھائی ہیں کہ ایک بد رنگ سی کرسی پر بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ کوئی مریض آ کے ہی نہیں دیتا۔ پھر بھئی ایک روز کرنا خدا کا کیا ہو گا کہ ایک شان دار بیوک رکے گی آپ کی دکان کے آگے اور اس میں سے ایک بے حد عظیم الشان خاتون ناک پر رومال رکھے اتر کر پوچھیں گی کہ بھئی ہمارے فیڈو کو زکام ہو گیا ہے۔ یہاں کوئی گھوڑا ہسپتال کا ڈاکٹر۔۔۔‘‘
اور اسلم نے کہا تھا، ’’ہش، چپ رہو جی۔۔۔ بیگم صاحبہ ہو کس خیال میں۔ بندہ تو ہو جائے گا لفٹننٹ کرنل تین سال بعد۔ اور لڑائی کے بعد ہوتا ہے سول سرجن۔ اور بھئی کیا ہو گا کہ ایک روز بی افروز اپنے پندرہ بچوں کی پلٹن لیے بیل گاڑی میں چلی آ رہی ہیں اور سامنے گاڑی بان کے پاس یہ بڑا سا زرد پگڑ باندھے اور ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لیے بی افروز کے راجہ بہادر بیٹھے ہیں اور بھئی ہم چپراسی سے کہلوا دیں گے کہ سول سرجن صاحب معائنہ کرنے تشریف لے گیے ہیں، شام کو آئیے گا۔ اب جناب افروز بیگم برآمدے میں بینچ پر بیٹھی ہیں برقعہ پہنے۔۔۔‘‘
’’ہائے چپ رہو بھئی۔۔۔ خدا نہ کرے جو زرد پگڑ اور بیل گاڑی۔۔۔‘‘
’’اور کیا، منظر احمد سے جو تم شادی کرو گی تو کیا رولز رائس چلا کرے گی تمھارے یہاں؟ بیل گاڑیوں پر ہی پڑی جایا کرنا اپنے گاؤں۔‘‘
’’بیل گاڑی پر جانا تم اور زرد پگڑ بھی خدا کرے تم ہی باندھو۔ آئے وہاں سے بڑے بے چارے۔‘‘
’’اور بھئی حضرتِ داغ کا یہ ہو گا۔۔۔ شاہد نے اپنے مخصوص انداز سے کہنا شروع کیا، ’’کہ یہ خاکسار جب کئی سال تک ایم ایس سی میں لڑھک چکے گا تو وار ٹیکنیشنز میں بھرتی ہو جائے گا اور پھر بھی رفعت کی کوٹھی پر پہنچے گا کہ بھئی بڑے دن کے سلام کے لیے آئے ہیں۔ صاحب کہلوا دیں گے کہ پھر آنا، صاحب کلب گیے ہیں۔ بس بھئی ہم وہاں برساتی کی سیڑھیوں پر، گملوں کی آڑ میں، اس امید پر بیٹھ جائیں گے کہ شاید بی رفعت نکل آئیں اندر سے لیکن جب چپراسی کی ڈانٹ پڑے گی تو چلے آئیں گے واپس اور کوٹھی کے پھاٹک کے باہر پہنچ کر کان میں سے چونی نکال سگریٹ اور دو پیسوں والی سینما کے گانے کی کتاب خرید کر گاتے ہوئے گھر کا راستہ لیں گے۔۔۔ اکھیاں ملا کے۔۔۔ جیا برما کے۔۔۔ چلے نہیں جانا۔‘‘
’’نہیں بھئی، خدا نہ کرے، ایسا کیوں ہو! تم تو پروگرام کے مطابق اعلیٰ درجے کے فلرٹ بنو گے اور ریلوے کے اعلیٰ انجینئر۔ اپنے ٹھاٹ سے سیلون میں سیر کرتے پھرا کرو گے۔‘‘رفعت نے کہا تھا۔ باغ میں سے رفعت کے مدھم قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جو کچھ انھوں نے مذاق مذاق میں سوچا تھا وہ نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی نہیں ہوتا اور اسلم اور اس کی کھینچی ہوئی راجہ بہادر کی تصویر اس کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔
اسلم، جو میدان جنگ میں جا کر عرصہ ہوا لاپتہ ہو چکا تھا اور منظر احمد، جو اس شام آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے بڑے بڑے شیشوں والی جھلملاتی ہوئی گیلری میں سے نکل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا لیکن جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ہمیں اپنے خیالوں سے بھی یوں ہی نکال دو تو جانیں۔
اور باغ میں اندھیرا چھانے لگا۔ گتار بجتا رہا اور افروز سوچتی رہی، زندگی کے یہ مذاق! اس روز ’’یوم ٹیگور‘‘ کے لیے ریڈیو اسٹیشن کے آرکیسٹرا کے ساتھ رقص کی ری ہرسل کرنے کے بعد وہ پرکاش اور اجلا کے ساتھ وہاں واپس آ رہی تھی اور لیلا رام کے سامنے سے وہ اپنی اسپورٹس کار پر آتا نظر آیا تھا۔۔۔ پرکاش کو دیکھ کر اس نے کار روک لی تھی، ’’کہیے مس شیرالے کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’گھر جا رہی ہیں۔‘‘
’’چلیے میں آپ کو پہنچا دوں۔‘‘
اور افروز نے کہنا چاہا تھا کہ ہماری کار آتی ہو گی، آپ تکلیف نہ کیجیے۔ لیکن پرکاش نے اپنی مثالی خوش خلقی کی وجہ سے فوراً اس کی درخواست قبول کر لی تھی اور پھر اس کے گھر تک وہ کار پندرہ میل کی رفتار سے اس قدر آہستہ ڈرائیو کر کے لایا تھا جیسے کسی بارات کے ساتھ جا رہا ہو، محض اس لیے کہ اسے افروز کو اپنی کار میں زیادہ سے زیادہ دیر تک بٹھانے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع مل سکے اور اس نے سوچا تھا کہ اگر وہ اس منظر احمد کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی تو بہرحال مائنڈ بھی نہیں کرے گی، حالاں کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا فلرٹ ہے، کبھی کبھی ڈرنک بھی کر لیتا ہے اور نشاط نے تو یہ تک کہا تھا کہ اپنی ریاست میں اس کی کیپ بھی موجود ہے۔ ’’لیکن بھئی کیا تعجب ہے؟‘‘ نشاط کہہ رہی تھی، ’’سب ہی جانتے ہیں کہ تعلقہ داروں کے لڑکے کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
اور پھر ایک روز وہ اور پرکاش خریداری کے بعد کافی ہاؤس چلے گیے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ برسات کی دوپہر! بارش ہو کر رکی تھی۔ فضا پر ایک لطیف سی خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کافی ہاؤس میں بھی قریب قریب بالکل سناٹا تھا۔ وہ ایک ستون کی آڑ میں بیٹھ گیے اور سامنے کے مرمریں ستون پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں انھوں نے دیکھا کہ دوسری طرف منظر احمد بیٹھا ہے۔ خوب! یہ حضرت دوپہر کو بھی کافی ہاؤس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس نے ذرا نفرت محسوس کرنے کی کوشش کی اور پرکاش کو دیکھ کر وہ سگریٹ کی راکھ جھاڑتا ہوا ان کی میز پر آ بیٹھا، ’’ہلو۔۔۔ افروز سلطانہ۔۔۔ ہلو۔۔۔‘‘ اس نے اپنے لہجے میں بقدرِ ضرورت خنکی اور خشکی پیدا کرتے ہوئے مختصر سا جواب دے دیا اور کافی بنانے میں مشغول ہو گئی۔ وہ اپنی تخیلی سی آنکھوں سے باہر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا۔ کتنا بنتا ہے۔ یہ شخص بھی کبھی سنجیدہ ہو سکتا ہے جس کی زندگی کا واحد مقصد کھیلنا اور صرف کھیلتے رہنا ہے؟
پرکاش خریداری کی فہرست بنانے میں منہمک تھی۔ پھر وہ یک لخت کہنے لگا، ’’افروز سلطانہ! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے دل میں میری طرف سے بڑی خوف ناک قسم کی بدگمانیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔‘‘
’’جی مجھے بدگمانی وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ بدگمانیاں تو اسے ہوسکتی ہیں جسے پہلے سے آپ کی طرف سے حسنِ ظن ہو۔ یہاں آپ سے دل چسپی ہی کس کو ہے؟‘‘
’’ہنہ۔۔۔ ذرا بننا تو دیکھو۔‘‘ وہ کہتا رہا، ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کو بتایا گیا ہے میں۔۔۔ میں ڈرنک کرتا ہوں۔۔۔ اور۔۔۔ اور اسی قسم کی بہت سی حرکتیں۔۔۔ مختصر یہ کہ میں انتہائی برا آدمی ہوں۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں؟ کیا آپ مجھے واقعی ایسا ہی سمجھتی ہیں؟‘‘ اور اس نے آہستہ آہستہ بڑی رومینٹک نقرئی آواز میں بات ختم کر کے سگریٹ کی راکھ جھٹکی اور پام کے پتوں کے پرے دیکھنے لگا۔۔۔ اور وہ سچ مچ بہت پریشان ہو گئی کہ کیا کہے کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ منظر احمد اس وقت بقول شخصے قطعی نون سیریس نہیں ہے اور اس نے کہا، ’’بھئی میں نے قطعی کوئی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کے متعلق۔۔۔‘‘
’’اچھا، یہ بات ہے۔‘‘ اس نے بات ختم کرنے کا انتظار کیے بغیر اسی نقرئی آواز میں آہستہ سے کہا، ’’اجازت دیجیے، خدا حافظ مس شیرالے۔۔۔‘‘ اور وہ ایک دم سے اس کی میز پر سے اٹھ کر چلا گیا اور کر لی لوکس کشنوں کے انبار پر سے گر پڑی۔ ’’جناب تشریف لے گیے۔‘‘ پرکاش نے فہرست کے کاغذ پر سے سر اٹھا کر پوچھا۔ باہر اگست کی ہوائیں ہال کے بڑے بڑے دریچوں کے شیشوں س
- क़ुर्रतुलऐन-हैदर
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اس جنگ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ غالباً آٹھ نو برس پہلے کی بات ہے۔ جب زندگی میں ہنگامے بڑے سلیقے سے آتے تھے ؛ آج کی کل طرح نہیں۔ بے ہنگم طریقے پر پے در پے حادثے برپا ہورہے ہیں، کسی ٹھوس وجہ کے بغیر۔
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
- सआदत-हसन-मंटो
’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ نے کہا۔ سب آتش دان کے اور قریب ہو کے بیٹھ گئے۔ آتش دان پر رکھی ہوئی گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ بلیاں کشنوں میں منہ دیئے اونگھ رہی تھیں، اور کبھی کبھی کسی آواز پر کان کھڑے کر کے کھانے کے کمرے کے دروازے کی طرف ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر دیکھ لیتی تھیں۔ صاحب خانہ کی دونوں لڑکیاں نٹنگ میں مشغول تھیں۔ گھر کے سارے بچے کمرے کے ایک کونے میں پرانے اخباروں اور رسالوں کے ڈھیر پر چڑھے کیرم میں مصروف تھے۔
بوبی ممتاز کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھا ان سب کو دیکھتا رہا۔
’’ہاں آج رات تو قطعی برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ کے بڑے بیٹے نے کہا۔ ’’بڑا مزا آئے گا۔ صبح کو ہم اسنو مین بنائیں گے‘‘ ایک بچہ چلایا۔ ’’ممتاز بھائی جان ہمیں اپنا پائپ دے دو گے؟ ہم اسے اسنو مین کے منہ میں ٹھونسیں گے‘‘، دوسرے بچے نے کہا۔
’’کل صبح شمال میں ہلکے ہلکے چھینٹے پڑیں گے۔ اور شمال مغرب میں آندھی کے ساتھ بارش ہوگی۔ جنوبی بلوچستان اور سندھ کا موسم خشک رہے گا‘‘ صاحب خانہ نے ناک پر عینک رکھ کر اخبار اٹھایا اور موسم کی پیشین گوئی با آواز بلند پڑھنی شروع کی۔
’’خوب برف پڑتی ہے بھائی۔ لیکن ایک بات ہے۔ اس طرف پھل بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں جب میں تھا‘‘ صاحب خانہ کے منجھلے بیٹے نے خود ہی اپنی بات جاری رکھی۔
بوبی ممتاز چپکا بیٹھا ہنستا رہا۔ ’’ساری دنیا موسم میں اتنی شدید دلچسپی کیوں لیتی ہے۔ کیا ان لوگوں کو اس وقت گفتگو کا کوئی اس سے زیادہ بے کار موضوع نہیں سوجھ رہا۔ کوئینی لکھنؤ ریڈیو پر روزانہ آٹھ پچپن پر انگریزی میں موسم کی رپورٹ سناتی تھی۔ کل پچھّم میں تیز ہوا کے ساتھ پانی آئے گا۔ پورب میں صرف تھوڑے چھینٹے پڑیں گے اتر میں سردی بڑھ جائے گی۔۔۔ کوئینی۔۔۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو۔۔۔ فریڈ کہاں ہو تم سب۔۔۔ اس وقت تم سب جانے کیا کر رہے ہوگے‘‘ اس نے بہت تھک کر آنکھیں بند کر لیں۔
’’ممتاز صاحب آج تو آپ ہمارے ساتھ ہی کھانا کھائیے‘‘، صاحب خانہ کی بیگم نے کہا اور شال لپٹتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ان کی آواز پرآنکھیں کھول کر وہ انہیں پینٹری کے دروازے میں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔
صاحب خانہ کی دو لڑکیاں تھیں۔ یہی ساری بات تھی۔ اسی وجہ سے اس کی اتنی خاطریں کی جارہی تھیں۔ جب سے وہ پاکستان منتخب کرنے کے بعد کوئٹہ آیا تھا۔ یہ خاندان اسے روزانہ اپنے ہاں چائے یا کھانے پر مدعو کرتا۔ اگر وہ نہ آنا چاہتا تو وہ جاکر اسے کلب سے پکڑ لاتے۔ اس کے لیے روز طرح طرح کے حلوے تیار کیے جاتے۔ اس کی موجودگی میں ان کی بڑی لڑکی پھیکے شلجم کے ایسے چہرے والی سعیدہ بڑی معصومیت اور نیاز مندی کے ساتھ ایک طرف کو بیٹھی نٹنگ کرتی رہتی۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے خالی رہتا۔ جیسے کسی کل والی چینی کی گڑیا کی انگلیوں میں تتلیاں تھما دی گئی ہوں۔ کبھی کبھی وہ دوسروں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی اور پھر خود بخود شرما کر دوبارہ نٹنگ پر جھک جاتی۔
یہ لڑکیاں کتنی نٹنگ کرتی ہیں۔ بس سال بھر ان کے ہاتھوں میں اون اور سلائیاں دیکھ لو۔ گویا یہ ان کے بنے ہوئے پل اوور اور موزے قیامت کے روز انہیں بخشوائیں گے۔ پھر صاحب خانہ کی بیگم باورچی خانہ سے واپس آکر خانساماں کی نامعقولیت پر اظہار خیال کرنے کے بعد اپنی سگھڑبیٹی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتیں اور اسے مخاطب ہوکر کہتیں۔
’’بس اس کو تو یہی شوق ہے۔ دن بھر اسی طرح کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی ہے۔ اپنے ابا کا یہ سویٹر کوٹ بھی اسی نے بنا ہے۔‘‘ اس وقت وہ یقینا متوقع ہوتیں کہ وہ کہے، ’’اون منگوا دوں گا میرے لیے بھی ایک پل ادور بنا دیجئے۔‘‘ لیکن وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہتا۔ لڑکی اپنی ڈائرکٹر آف پروپگنڈہ اینڈ پبلسٹی کی طرف سے یہ تعریف ہوتی سن کر اور زیادہ شرما جاتی اور اس کی سلائیاں زیادہ تیزی سے متحرک ہوجاتیں۔
خدا وندا۔۔۔ بوبی ممتاز نے بہت زیادہ اکتا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ اندھیرے میں چنار کے درخت آہستہ آہستہ سرسرا رہے تھے۔ اس گرم اور روشن کمرے کے باہر دور دور تک مکمل سکوت طاری تھا۔ رات کا گہرا اور منجمد سکوت۔ وہ رات بالکل ایسی تھی اندھیری اور خاموش۔ ۹ستمبر ۴۷ء کی وہ رات جو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مسوری کے وائلڈ روز میں آخری بار گزاری تھی۔ کوئینی اور وجاہت کا وائلڈ روز۔ جب وہ سب وائلڈ روز کے خوب صورت لاؤنج میں آگ کے پاس بیٹھے تھے اور کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ وہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔لیکن وہ رات بھی پلک جھپکتے میں گزر گئی تھی۔وقت اسی طرح گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحب خانہ نے دفعتاً بڑے زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ایک ہاتھ میں اخبار تھامے ویکلی کے کسی کارٹون پر ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جارہے تھے۔ بچے اپنے تصویروں والے رسالے اور کیرم چھوڑ کر اس کے قریب آگئے اور اس سے کہنے لگے کہ اگر رات کو اس کی موٹر برف میں پھنس گئی تو کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ ایک بچی نے ناؤ بنانے کے لیے اون لکر کا سرورق پھاڑ ڈالا اور ایک تصویر دوسری تراشی ہوئی تصویروں اور کترنوں کے ساتھ رسالے میں سے سرک کر فرش پر آن گری۔
بوبی ممتاز کی نظر اس تصویر پر پڑگئی۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ سگرڈ کی تصویر تھی۔ سگرڈ اپنے پیارے سے دوماہ کے بچے کو میز پر ہاتھوں سے تھامے اس کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔ وہی مخصوص تبسم، اس کے بال اسی اسٹائل سے بنے تھے۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پرسکون اور پر اسرار۔۔۔ اس تصویر کے لیے بچوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوگئی۔ اس کے جسم میں سردی کی ایک تیز ناقابل برداشت کاٹتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی بند تھی اور آتش دان میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کمرہ حسب معمول گرم تھا۔ بچے اسی طرح شور مچا رہے تھے۔ لڑکیاں نٹنگ کررہی تھیں۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ یہ سگرڈ کی تصویر تھی جو ایک بچی نے بے خیالی سے نئے اون لکر میں سے کاٹ لی تھی۔۔۔ سگرڈ۔۔۔ سگرڈ وہ دفعتاً کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
’’کہاں چلے۔۔۔؟ کھانا آنے والا ہے‘‘ صاحب خانہ ہاتھ پھیلا کر چلائے۔ ’’بس پانچ منٹ اور ٹھہر جاؤ بھیا۔ توا چڑھا ہی ہے‘‘ بیگم صاحب نے کہا۔ ’’کھانا کھاکے جائیےگا‘‘ سعیدہ نے اپنی پتلی سی آواز آہستہ سے بلند کرکے چپکے سے کہا اور پھر جلدی سے سلائیوں پر جھک گئی۔
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں پائپ لگا دوں گا۔‘‘ دوسرا بچہ چلایا۔ ’’واہ، لڑکیاں پائپ کہاں پیتی ہیں‘‘ پہلے بچے نے اعتراض کیا۔ ’’ممتاز بھائی جان تو پیتے ہیں‘‘ اس نے اپنی منطق استعمال کی۔ ’’ممتاز بھائی جان کوئی لڑکی تھوڑا ہی ہیں۔‘‘ سب نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔
بوبی ممتاز انتہائی بد اخلاقی کا ثبوت دیتا کمرے سے نکل کر جلدی سے باہر آیا۔ اور اپنی اوپل تک پہنچ کر سب کو شب بخیر کہنے کے بعد تیزی سے سڑک پر آگیا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ اور فروری کا آسمان تاریک تھا۔ اس کے میز بانوں کا گھر دور ہوتا گیا۔ بچوں کے شور کی آواز پیچھے رہ گئی۔ بالکل خالی الذہن ہوکر اس نے کار بے حد تیز رفتاری سے سیدھی سڑک پر چھوڑدی۔ گھر چلا جائے۔ اس نے سوچا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ اس نے کار کا رخ کلب کی طرف کردیا۔
ایک بیرے کو کھانے کے متعلق کہتے ہوئے وہ ایک لاؤنج کی طرف چلا گیا۔ جو اکثر سنسان پڑی رہتی تھی۔ اس نے صوفے پر لیٹ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے، یاد کرنے کی ساری عادتیں بھول چکا ہے۔ اب کچھ باقی نہیں، کچھ باقی نہیں۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو خوب ملا۔ اور پھر غور سے ہتھیلیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کی آنکھیں بہت سونی سونی لگ رہی ہوں گی۔ وہ آنکھیں جن کے لیے کملا کہا کرتی تھی کہ انتہائی شراب انڈیلنے والی آنکھیں ہیں۔ اس کی آنکھوں کی یہ تعریف سب کو یاد ہوگئی تھی۔ بوبی ممتاز کی شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔ اور وہ اس وقت وہاں، اس اجنبی شہر کے غیر دل چسپ کلب کے نیم تاریک خاموش لاؤنج میں صوفے پر بچوں کی طرح پڑا اپنی ہتھیلیوں سے ان آنکھوں کو مل رہا تھا۔ گویا بہت دیر کا سویا ہوا اب جگا ہے۔ برابر کے کمرے میں خوب زور زور سے ریڈیو بجایا جارہا تھا۔ بہت سے لوگ باتوں میں مشغول تھے۔ وہاں بھی موسم کے متعلق بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی۔‘‘ کوئی بے حد وثوق اور اہمیت کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
’’یہاں بڑے کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے یارو‘‘، دوسرے نے جواب دیا۔ پھر سیاسیات پر گفتگوشروع ہوگئی۔ جہاں چار آدمی اکٹھے ہوتے یہ لازمی بات تھی کہ سیاست پر رائے زنی شروع ہوجائے۔ جواہر لال نے یہ کہا۔ قائد اعظم نے یہ کہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہا۔ یہ اچھا ہوا۔ یہ برا ہوا۔ تم کیسے آئے؟ میں ایسے آیا۔ میں یوں لٹا۔ میں نے راستے میں یوں تکلیفیں اٹھائیں۔ فلاں ملازم ہوگیا۔ فلاں نے استعفیٰ دے دیا۔ فلاں کراچی میں ہے۔ فلاں پنڈی پہنچ چکا ہے۔۔۔
بوبی ممتاز لاؤنج کے صوفے پر چپ چاپ پڑا یہ سب سنا کیا۔ گیلری کی دوسری جانب ایک کمرے میں چند انگریز ممبر اور ان کی خواتین قریب قریب بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ مے نوشی میں مصروف تھیں۔ کلب کا وہ حصہ نسبتاً سنسان پڑا تھا۔ ۱۵اگست کے بعد شہر اور چھاؤنی میں جو اکادکا انگریز رہ گئے تھے وہ سرشام ہی سے وہاں آن بیٹھتے اور ہوم، خط لکھتے رہتے یا طامس کک اور بی، او، اے، سی والوں سے پسیج کے متعلق خط وکتابت کرتے۔ ان کی بیویاں اور لڑکیاں اکتاہٹ کے ساتھ بیٹھی ریکارڈ بجاتی رہتیں۔ ان کے گڈ اولڈ ڈیز کے پرانے ساتھی اور عزیز ہوم جاچکے تھے اور جانے کہاں کہاں سے نئے نئے دیسی ممبر کلب میں آن بھرے تھے۔۔۔ ڈیڈی نے دوسال کے لیے کنٹریکٹ کیا ہے۔ چالس نے سال بھر کے لیے والینٹیئر کیا ہے۔ کوئٹہ تو مار گریٹ ڈارلنگ بے حد دل چسپ اسٹیشن تھا۔ پر اب۔ اب تو اتنا مرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بے بسی کے عالم میں کلب کے دیسی ممبروں کی خواتین کو دیکھتیں۔
’اوگوش‘ گیلری میں سے گزرتے ہوئے کرنل روجرز کی سرخ بالوں والی لڑکی نے چپکے سے اپنی ایک سہیلی سے اکتا کر کہا، ’’آج وہ بھی نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ کون۔۔۔؟ اس کی سہیلی نے پوچھا۔۔۔ ’’وہی۔۔۔ انتظامی سروس والا۔۔۔ جو لکھنؤ سے آیا ہے۔‘‘
’’اچھا وہ۔۔۔‘‘
’’ہاں، سخت بور ہے۔ کل رات میرا خیال تھا کہ مجھ سے رقص کے لیے کہے گا۔ لیکن چپ چاپ الو کی طرح آنکھیں جھپکاتا رہا۔‘‘
’’لیکن کیرل ڈرالنگ کتنی بالکل شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔‘‘
’’ہوں گی۔۔۔ جین ڈارلنگ یہ ہندوستانی بالکل گیلنٹ نہیں ہوتے۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرتی کارڈ روم کی طرف چلی گئیں۔
باہر درخت ہوا میں سر سراتے رہے۔ اس کے ایک دوست نے گیلری میں سے لاؤنج میں آکر روشنی جلادی۔ وہ چونک کر صوفے پر سے اٹھ بیٹھا۔ ’’ابے یار کیا افیمچیوں کی طرح بیٹھے ہو۔ تمہیں سارے میں تلاش کر ڈالا، چلو کارڈ روم میں چلیں۔ وہاں روجرز کی لونڈیا بھی موجود ہے۔ تم نے تو ابھی سارا کلب بھی گھوم کر نہیں دیکھا۔ ذرا جاڑے نکلنے دو، تفریح رہے گی۔ سچ پوچھو تو یہ شہر اتنا برا نہیں۔ شروع شروع میں تو سبھی ہوم سک، محسوس کرتے ہیں لیکن بہت جلد ہم ان فضاؤں سے مانوس ہوجائیں گے‘‘، اس کے دوست نے کہا۔
’’ہاں بالکل ٹھیک کہتے ہو بھائی‘‘، اس نے پائپ جلاتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’چلو ذرا پون ٹون ہی کھیلیں۔‘‘
’’تم چلو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’جلد آنا۔ سب تمہارے منتظر ہیں‘‘ دوست نے باہر جاتے ہوئے کہا۔
برابر کے کمرے کا شور دھیما پڑگیا۔ شاید وہ سب بھی کارڈ روم کی طرف چلے گئے تھے۔ کسی بیرے نے یہ سمجھ کر کہ لاؤنج میں کوئی نہیں ہے۔ دروازے میں سے ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بجھا دی اور آگے چلا گیا۔ لاؤنج میں پھر وہی نیم تاریکی پھیل گئی۔ رات کا سحر گہرا ہوتا جارہا تھا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ وہ پھر چونک پڑا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نام سے اس اجنبی جگہ میں اس کو کس نے پکارا۔ اس نام سے پکارنے والے اس کے پیارے ساتھی بہت پیچھے بہت دور رہ گئے تھے۔
بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہاں پر کوئی نہ تھا۔ اس جگہ پر تو محض ممتاز صغیر احمد تھا۔ وہ ہنسی، وہ شور مچانے والا، خوب صورت آنکھوں کا مالک، سب کا چہیتا بوبی تو کہیں اور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں پر صرف ممتاز صغیر احمد موجود تھا۔ اس نے اپنا نام آہستہ سے پکارا۔ ممتاز صغیر احمد کتنا عجیب نام ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کی ہستی کیا ہے کیوں اور کس طرح اپنے آپ کو وہاں پر موجود پا رہا ہے۔۔۔ یہ انسان۔۔۔ یہ انسان سب کچھ محسوس کرکے، سب کچھ بتا کے اب تک زندہ ہے۔ سانس لے رہا ہے۔ رات کے کھانے کا انتظار کررہا ہے۔ ابھی وہ کارڈ روم میں جاکر پون ٹون کھیلےگا۔ کرنل فریزر کی لڑکی کے ساتھ ناچے گا۔ اتوار کو پھر اس شلجم کی ایسی شکل والی لڑکی سعیدہ کے گھر مدعو کیا جائےگا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے جواب دیا۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو بھیا۔۔۔ یہ تم ہو۔۔۔؟ اس نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھاکر کچھ محسوس کرنا چاہا۔ اس نے صوفے کے مخملیں کشن کو چھوا۔ مخمل اتنی گرم تھی، اور راحت پہنچانے والی۔ دریچے کے باہر فروری کی ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔
بوبی۔۔۔ ہاں کوئینی بی بی۔ تم کہاں ہو۔ میں نے تمہاری آواز سنی ہے۔ ابھی تم اور لوکھلکھلا کر ہنسی تھیں۔ لیکن وہاں لو بھی نہیں تھی۔ وجاہت بھی نہیں تھا۔ فریڈ بھی نہیں تھا۔
کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے دہرایا۔ آٹھ پچپن۔ اس کی نظر گھڑی پر پڑگئی وہ اس وقت، سینکڑوں ہزاروں میل دور، نشر گاہ کے اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنے سامنے رکھے ہوئے بلٹین کے ٹھیٹ سنسکرت الفاظ نگلنے کی کوشش میں مصروف ہوگی۔ اور موسم کی رپورٹ سنا رہی ہوگی۔ گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ وجاہت بھائی۔۔۔ تم اس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ اور فریڈ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ انیس۔۔۔
برابر کے کمرے میں لاہور سے موسم کی رپورٹ سنائی جارہی تھی اور خالی کمرے میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔ آج شمال میں برف باری ہوگی۔ شمال مغرب میں بارش کے چھینٹے پڑیں گے۔ جنوب میں تیز ہوائیں چلیں گی۔۔۔ گھڑی اسی طرح ٹک ٹک کرتی رہی۔ ٹک ٹک ٹک۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔چھ۔۔۔ چھ سال۔۔۔ یہ چھ سال۔۔۔ خدا وند۔
اس تپش، اس تڑپ، اس بے چینی کے بعد آخر کار موت آتی ہے۔ آخر کار خدائے قدوس کا سپید تخت نظر آتا ہے۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ کوئینی نے آہستہ آہستہ کہا۔ پس منظر کی موسیقی دفعتاً بہت تیز ہوگئی۔
ہاں۔۔۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ ارے تم کدھر نکل آئے زندگی کی طرف واپس جاؤ۔ انقلاب اور موت کے تندرو آندھیوں کے سامنے زرد، کمزور پتوں کی طرح بھاگتے ہوئے انسان۔ ہماری طرف واپس لوٹو۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ لو ٹہر گئی۔ ٹھیک ہے؟ اس نے اپنے حصے کی آخری سطریں ختم کرکے اسکرپٹ فرش پر گرادیا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔ تھینک یو۔۔۔‘‘ کوئینی ہیڈ فون ایک طرف کو ڈال کر باہر آگئی۔ ’’لیکن ڈارلنگ تم نے ٹمپو پھر تیز کردیا۔ خدا کے لیے دھیرے دھیرے بولا کرو۔‘‘
’’او گوش۔ یہ ٹمپو توکسی چیزکا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ کوئینی ڈرالنگ۔۔۔‘‘ لونے اکتا کر جواب دیا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ گیلری میں سے وجاہت کی آواز سنائی دی۔ ’’ارے کیا وجو آیا ہے؟‘‘ کوئینی نے اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر باہرجھانکا۔
اس کا بھائی وجاہت انتظار کے کمرے میں کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’بیٹا گھر چل رہی ہو؟‘‘ اس نے کوئینی سے پوچھا۔ ’’تم اس وقت کیسے آگئے؟‘‘ کوئینی نے دریافت کیا۔
’’میں ابھی ابھی بوبی ممتاز کوبرلنگٹن سے لینے آیا تھا۔ میں نے سوچا اگر تمہارا کام ختم ہوگیا ہو تو تمہیں بھی ساتھ لیتا چلوں‘‘، وجاہت نے کہا۔ ’’بوبی ممتاز کون؟‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’ہے ایک۔۔۔‘‘ وجاہت نے اسی بے خیالی سے جواب دیا۔ بوبی ممتاز زینے پر سے اتر کے ان کی طرف آیا۔ ’’کہاں بھاگ گئے تھے؟‘‘ وجاہت نے ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’ار۔۔۔ آداب۔۔۔‘‘ بوبی ممتاز نے کوئینی کی طرف مڑکر کہا ’’تم ہی کوئینی بیٹا ہونا؟‘‘
’’ہاں۔ تسلیم!‘‘ کوئینی ناخن کترتے ہوئے غور سے اس کے مطالعے میں مصروف تھی۔ کتنا سوئیٹ لڑکا ہے۔ اس نے دل میں کہا۔ ’’تو پھر چلو ہمارے ساتھ ہی گھر‘‘، بوبی ممتاز نے کہا۔ ’’نہیں بھیا۔ ابھی مجھے وہ کم بخت موسم کی خبریں سنانی ہیں۔ آٹھ پچپن ہوگئے۔‘‘ وہ انہیں گیلری میں کھڑا چھوڑ کر اسٹوڈیو میں تیزی سے گھس گئی۔ وہ دونوں باہر آگئے۔
یہ خلوص، یہ سادگی، یہ اپنائیت ایسے پیارے دوست اسے آج تک کہیں نہ ملے تھے۔ بہت جلد وہ وجاہت کے سٹ میں گھل مل گیا۔ وہ سب کے سب اتنے دل چسپ تھے۔ لیونور اور شرجو ’ لو‘ کہلاتی تھی، جس کی ماں امریکن اور باپ پہاڑی تھا۔ اس کی ترچھی ترچھی نیپالی آنکھوں کی وجہ سے سب اسے چنک چائی لو کہتے تھے اور فریڈ جس کا تبسم اتنا معصوم، اتنا پاکیزہ، اتنا شریف تھا۔ وہ اسے چھیڑنے کے لیے ہندستانی عیسائی فرقے کی مخصوص حماقتوں کا مذاق اڑاتے۔ لڑکیاں عیسائیوں کے بنے ہوئے انگریزی لہجے کی نقل کر کے اس سے پوچھتیں، ’’فریڈ ڈیر کیا آج تم کسی اپنا گرل فرینڈ کو باہر نہیں لے جانے مانگتا؟‘‘
’’کیوں تم سب میری اتنی ٹانگ کھینچتے ہو‘‘ وہ ہنس کر کہتا۔ وہ بہت اونچے عیسائی خاندان سے تھا۔ لیکن اسے اس طرح چھیڑنے میں سب کو بہت لطف آتا۔ وہ سب لو سے کہتے، ‘‘لوڈیر اگر فریڈ اس سنڈے کو پروپوز کرے تو فوراً مان جاؤ۔ ہم سب تمہاری برائیڈز میڈز اور پیچ بوائے بنیں گے۔‘‘ پھر وہ چلا چلا کر گاتیں، ’’سم سنڈے مارننگ۔‘‘
وہ ۴۲ء تھا، جب بوبی ممتاز پہلی بار ان سب سے ملا۔ ہر سال کی طرح جب گرمیاں آئیں اور وہ لوگ مسوری جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہم راہ مسوری گیا۔ کوئینی اور وجاہت کے ’وائلڈ‘ روز میں سب اکٹھے ہوئے۔ اور وہ وہاں پر بھی بہت جلد بے حد ہر دلعزیز ہوگیا۔
بڑی غیر دلچسپ سی شام تھی۔ وہ سب ہیک منیز کے ایک کونے میں بیٹھے سامنے سے گزرنے والوں کو اکتاہٹ سے دیکھ رہے تھے۔ اور چند ملنے والوں کے منتظر تھے۔ جنہیں وجاہت نے مدعو کیا تھا۔ اتنے میں گیلری میں سے چچی ارنا گزرتی نظر آئیں انہوں نے بالوں میں دو تین پھول ٹھونس رکھے تھے۔ اور خانہ بدوشوں کا سا لباس پہنے تھیں۔
’’کوئی نیا جناور گرا ہے‘‘ یاسمین نے چپکے سے کوئینی سے کہا۔ ’’اماں چپ رہو یار‘‘، کوئینی نے اسے ڈپٹ کر جواب دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں‘‘، کوئینی نے جواب دیا۔ اتنے میں ان کے مہمان آگئے۔ اور وہ سب بظاہر بڑی سنجیدہ شکلیں بنا کر ان کے پاس جا بیٹھیں۔
’’یہ چچی ارنا کون ہیں۔ تمہاری چچی ہیں؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ تازہ وارد مہمان سب ان ہی کی باتیں کر رہے تھے۔
’’ارے نہیں بھئی‘‘، کوئینی نے شگفتگی سے جواب دیا۔ ’’یہ سگرڈ کی ممی ہیں۔‘‘
’’سگرڈ کون؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’ہے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔۔‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے گویا مزید تشریح کر دی اور پھر دوسری باتوں میں منہمک ہوگئی۔
اگلے روز وہ سب ٹہلنے کے لیے نکلے تو وجاہت نے تجویز کیا کہ وڈ اسٹاک کا چکر لگا آئیں۔ سگرڈ سے بھی ملتے آئیں گے۔ وہ ٹولیاں بنا کر پتھر اور چٹانیں پھلانگتے وڈ اسٹاک کے ہوسٹل کی طرف مڑ گئے۔
ایک بڑے سے سلوراوک کے نیچے بوبی ممتاز نے سگرڈ کو دیکھا۔ وہ عمارت کی ڈھلوان پر درختوں کے جھنڈ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی نٹنگ میں مشغول تھی۔ ان سب کواپنی سمت آتا دیکھ کر وہ بچیوں کی طرح دوڑتی ہوئی کوئینی کے قریب آگئی۔ کوئینی نے اس کا تعارف کرایا، ’’یہ ہمارے بوبی بھائی ہیں۔ اتنی بڑھیا ایکٹنگ کرتے ہیں کہ تم دیکھ کر بالکل انتقال کر جاؤ گی۔‘‘
وہ بچوں کی طرح مسکرائی۔ وہ اس کا معصوم، پاکیزہ تبسم، ایکٹنگ ان دونوں کا مشترکہ موضوع گفتگو بن گیا۔ وہ سب شام کی چائے کے لیے اکٹھے ’وائلڈ روز‘ واپس آئے۔
وہ زمانہ جو اس سال بوبی ممتاز نے مسوری میں گزارا، اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔ مال پر سے ونسنٹ ہل کی طرف واپس آتے ہوئے ایک روز اس نے فریڈ سے کہا، ’’ٹھاکر پال فریڈرک رنبیر سنگھ۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان کون ہے؟‘‘ فریڈ نے سنجیدگی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’سنو‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جس طرح اکثر اخباروں کے میگزین سیکشن میں ایک کالم چھپتا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پل سڈنی میں ہے۔ دنیا کا امیر ترین شخص نظام حیدر آباد ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ چھپے گا کہ دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص ممتاز صغیر احمد ہے۔ سمجھے ٹھاکر صاحب۔۔۔ ممتاز صغیر۔۔۔ کیا سمجھے؟‘‘
فریڈ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ بہت ہی گر انبار، سنجیدہ، سلجھا ہوا آدمی تھا۔ اس کی عمر اکتیس بتیس سال کی رہی ہوگی۔ بہت ہی کنفرمڈ قسم کا بیچلر تھا اور سارے بیچلرز کا مانا ہوا گرو۔ اپنے ایک نہایت ہی سعادت مند چیلے سے یہ بچوں کی سی بات سن کر وہ صرف ہنستا رہا۔ اور اس نے بوبی کو کوئی جواب نہ دیا۔ بوبی بے فکری سے سیٹی بجاتا آگے چلا گیا۔
سڑک کی ڈھلوان پر سے مڑتے ہوئے اس کی نظر ایک بڑی سی دو منزلہ کوٹھی پر پڑی جسے اس نے آج تک نوٹس نہ کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ اس وقت اس کے احاطے میں خوب گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ دروازوں پر روغن کیا جارہا تھا۔ چھت پر بھی نیا سرخ رنگ کیا گیا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کے داڑھی دراز بزرگوار بر آمدے میں کھڑے قلیوں اور نوکروں کو ہدایات دے رہے تھے۔ بڑا کرو فر۔ بڑی شان و شوکت نظر آرہی تھی۔
’’یہ کس کا مکان ہے بھئی؟‘‘ بوبی نے ایک قلی سے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔؟ قاضی جلیل الرحمن کا ایشلے ہال‘‘، قلی نے بڑے رعب سے اسے مطلع کیا۔ اور آگے چلا گیا۔
سیاہ بادل بہت تیزی سے بڑھتے آرہے تھے۔ یک لخت بارش کا ایک زور دار ریلا آگیا۔ بوبی نے اپنی برساتی سنبھال کر جلدی سے ’وائلڈ روز‘ کے راستے چڑھائی طے کرنی شروع کردی۔
وہ جولائی کا دوسرا ہفتہ تھا۔ موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہورہی تھیں۔ چند روز بعد وہ سب مسوری سے واپس آگئے۔
لیکن قاضی جلیل الرحمن اور ان کے بھانجے انیس کو موسمی تعطیلات کے ختم ہوجانے کی پروانہ تھی۔ وہ مراد آباد کے نواح کے زمین دار تھے۔ ان کے پاس وقت اور روپے کی فراوانی تھی۔ اور ان دونوں چیزوں کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے دونوں ماموں بھانجے مسوری آئے تھے اور پانی کی طرح روپیہ بہانے میں مصروف تھے اور اکتوبر سے پہلے ان کا مراد آباد جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
انیس کے والد کا سال بھر قبل انتقال ہوچکا تھا۔ اور اس کے ماموں قاضی صاحب نے خود کو اس کا غیر قانونی مشیر مقرر کررکھا تھا۔ ان کا اثر اس پر بہت زیادہ تھا۔ قاضی صاحب بے حد دل چلے اور شوقین آدمی تھے۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد انہوں نے اندازہ لگایا کہ لڑکا بہت سیدھا اور خاصا کم عمر ہے اور ساری ریاست اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہذا اب تو راوی چین لکھتا ہے۔ چناں چہ انیس کے والد کی برسی کے بعد پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ پہاڑ پر چل کے رہنے کے فوائد اسے ذہن نشین کرانے شروع کیے۔ اس کے حوالیوں موالیوں نے بھی اٹھتے بیٹھتے اس سے کہا کہ سرکار اک ذری تھوڑی دور کسی فرحت بخش مقام پر ہو آویں تو غم غلط ہووے گا۔ وہ فوراً مان گیا اور اپنا لاؤ لشکر لے کر قاضی صاحب کی قیادت میں مسوری آن پہنچا۔ طے کیا گیا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا جھول ہے اور اٹھائی گیروں کا کام ہے جن کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں ہوتا۔ ہری چگ کی طرح آئے اور ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ لہذا ایک عمدہ سی کوٹھی خریدنا چاہئے۔ انیس نے کہا کہ یہاں کی سب سے بڑھیا کوٹھی کون سی ہے وہی خرید لی جائے۔ لوگوں نے بتایا کہ کپور تھلہ ہاؤس یہاں کی بہترین کوٹھی سمجھی جاتی ہے۔ کوٹھی کیا اچھا خاصا محل ہے۔ انیس نے فوراً اپنی چیک بک نکالی۔ ’’لاؤ پھر اسے ہی خرید لیتے ہیں‘‘، اس نے کہا۔
’’اماں یار باؤلے ہوئے ہوکیا۔ کپور تھلہ ہاؤس تم خرید لوگے بھلا؟‘‘ ایک دوست نے قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’حضور دوسرا بہترین مکان بھوپال ہاؤس ہے۔ لیکن اتفاق سے وہ بھی بک نہیں سکتا۔ تیسری بہترین کوٹھی اسپرینگ ڈیل ہے اور چوتھی کوٹھی حضور کے لائق ایشلے ہال ہے‘‘، ایک مصاحب نے اطلاع دی۔
ایشلے ہال خرید لی گئی۔ اسے بہترین ساز وسامان سے آراستہ کیا گیا۔ دہرہ دون سے گوانیز ملازم اور ایک اینگلو انڈین ہاؤس کیپر منگوائی گئی اور ایشلے ہال مسوری کی چوتھی بہترین کوٹھی کہلانے لگی۔
انیس جب پہلے پہل مسوری گیا ہے اس کی تعلیم بقول شخصے صرف سرسی سے سنبھل تلک کی تھی۔ نویں کلاس سے اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ اس سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ البتہ شیر کے شکار اور شہسواری اور برج اور گھوڑ دوڑ کے میدان میں رویل کھنڈ بھر میں دور دور کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنبے کی ایک لڑکی سے کردی گئی تھی جو ایک اور زمین دار کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی جاگیر پر بیٹھا چین کی بنسی بجاتا تھا۔
ایشلے ہال خرید کر مسوری میں جب اس نے رہنا شروع کیا تو وہاں کی پہلی جھلک سے اس کی آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ اور اس نے سوچا کہ یار یہ جو اب تک ہم مراد آبا، سنبھل اور امروہے میں پڑے تھے وہ اتنی عمر تو گویا برباد ہی گئی۔ یہاں تو ایک عجیب وغریب دنیا آباد تھی۔ انسانوں کی بستی تھی۔ یا اندر کا اکھاڑہ۔ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ ایشلے ہال کا مالک اور مسوری کا سب سے زیادہ روپیہ خرچنے والا میزبان، لیکن بالکل تازہ تازہ دیہاتی جاگیردار۔ ادھر ادھر تو کام چل جاتا تھا لیکن خواتین کی سوسائٹی میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ایک اینگلو انڈین لیڈی کمپنین کی خدمات حاصل کیں۔ جو اسے صحیح انگریزی بولنا اور بال روم ناچ سکھائے۔ چند ہی مہینوں میں وہ ایک اور فرفر انگریزی بولنے والا بے حد ویل ڈر سیڈ انیس تھا جو مسوری کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز شخص سمجھا جاتا تھا۔ بالکل ہی کایا پلٹ ہوگئی۔
اگلے سال ۴۳ء کی گرمیوں میں جب کوئینی وجاہت اور ان کا گروپ مسوری پہنچا تو انہیں ایک تازہ وارد اجنبی بال رومز کی سطح پر بہتا نظر آیا۔ جس نے ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی۔ وجاہت اسے پہلے سے جانتا تھا۔ لیکن اس اچانک کایا پلٹ پر وہ بھی اسے نہ پہچان سکا۔ اس سال وہاں سارے مشہور ٹینس اسٹارز جمع تھے۔ مس اعزاز، مس کاجی۔ غیاث محمد۔ علی نگر کی عبیداللہ بہنیں۔ ان کی بھاوج شاہندہ احسان عبیداللہ،بمبئی سے جیوتی بھی حسب معمول آیا تھا۔ سیزن اپنے عروج پر تھا۔ لکھنؤ کی کھوچڑ بہنیں بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھیں۔ نرملا، پرکاش، وائلٹ، روبی اوبز روزا کی پیشین گوئی تھی کہ روبی کھوچڑ اس دفعہ سالانہ مقابلہ حسن میں سگرڈ ربانی سے سبقت لے جائے گی۔ ایشلے ہال کی پارٹیوں میں یہ سب اکثر نظر آتیں۔
ایک روز ہیک منیز میں انیس رقص کا پہلا دور ختم کرکے کوئینی کی طرف آیا اور اسے سلام کرکے وجاہت کے قریب جا بیٹھا۔ ’’ابے اوبغ چونچ۔۔۔ یہ سوٹ بوٹ کیسے ڈانٹ لیا۔ یہ کیا سوانگ بھرا ہے ایں؟‘‘ وجاہت نے اسے ڈانٹ کرپوچھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا جھینپتے ہوئے چپکے سے وجاہت سے پوچھا، ’’کیوں یار اب ٹھیک لگتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘
’’ذرا اس گدھے کو دیکھنا یاسمین ڈارلنگ، خود تو شام کا لباس پہن کر ناچتا پھررہا ہے اور بیوی کو وہیں قصبے میں چھوڑ رکھا ہے۔ ایسے آدمیوں کو تو بس۔۔۔‘‘ کوئینی نے غصے کے ساتھ چپکے سے کہا۔
اس کے اگلے دن کوئینی اپنے مکان کے اوپر کے برآمدے میں آرام کرسی پر کاہل بلی کی طرح لیٹی پڑھنے میں مشغول تھی کہ دفعتاً اسے برآمدے کے شیشوں میں سے نظر آیا کہ نشیب میں خان بہادر اعجاز احمد کے کاٹج کے سامنے رکشائیں کھڑی ہیں۔ بہت سے لوگ آجارہے ہیں اور خوب چہل پہل ہے۔ یہاں تک کہ ان کے باورچی خانہ میں سے دھواں تک اٹھ رہا ہے۔ یہ بے حد عجیب اور نئی بات تھی۔ کیوں کہ خان بہادر صاحب کا خاندان عموماً یا دوسروں کے ہاں مدعو رہتا تھا یا ہوٹلوں میں کھانا کھاتا تھا۔ وہ بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھتی رہی۔ اسی وقت بارش شروع ہوگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد وجاہت اور بوبی برساتیوں سے لدے پھندے بھیگتے بھاگتے نچلی منزل کی گیلری میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی زینے ہی پر تھے کہ کوئینی چلائی، ’’ارے وجو بوبی بھیا جلدی سے اوپرآؤ۔۔۔‘‘
اور جس وقت وجاہت اور بوبی برآمدے کے دریچے میں آکھڑے ہوئے انہیں انیس اپنا بہترین سوٹ پہنے سگار کا دھواں اڑاتا خان بہادر صاحب کے کاٹج میں سے نکلتا نظر آیا۔
’’اچھا۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔‘‘ وجاہت نے بہت آہستہ سے کہا۔ اسے اور بوبی کو اتنا رنجیدہ دیکھ کر کوئینی کا سارا اکسائیٹ منٹ رفو چکر ہوگیا۔ اور وہ بھی بڑی فکر مندی کے ساتھ دونوں کی کرسیوں کے نزدیک فرش پر بلی کی طرح آبیٹھی اور چہرہ اوپر اٹھاکر دونوں لڑکوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔
چچ چچ چچ۔۔۔ بے چارہ سوئیٹ بوبی ممتاز۔ کوئینی نے بے حد ہمدردی سے دل میں سوچا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس سے اس سنجیدگی سے نہ بیٹھا گیا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر بھاگی بھاگی گیلری میں پہنچی اور یاسمین کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔
’’میں نے تم سے کہا تھا کوئینی ڈیرکہ اس سال تو کوئی اور بھی برا جناور گرا ہے۔ اس پچھلے سال والے کسی جناور سے بھی بڑا‘‘ دوسرے سرے پر یاسمین بڑی شگفتگی سے کہہ رہی تھی۔ ’’اور سنو تو۔۔۔ کل میں نے سگرڈ کو نیا لیپرڈاسکن کوٹ پہنے دیکھا۔ ایسا بڑھیا کہ تم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ اور چچی ارنا کا نیا ایوننگ گاؤن۔ اصلی ٹیفیٹا ہے۔ اس جنگ کے زمانے میں اصلی ٹیفیٹا کوئینی ڈارلنگ۔۔۔ اور ٹوٹو کہہ رہی تھی کہ اس نے مسز راج پال سے سنا جنہیں بیگم فاروقی نے بتایا کہ مسز نارنگ نے ان سے کہا کہ آج کل خان بہادر صاحب کے ہاں کی خریداری کے سارے بل لیلارام اور فینسی ہاؤس والے سیدھے ایشلے ہال بھیج دیتے ہیں۔۔۔ اوگوش۔‘‘
’’اوگوش۔۔۔‘‘ کوئینی نے اپنی آنکھیں بالکل پھیلا کر پھولے ہوئے سانس سے دہرایا۔
بارش ہوتی رہی۔ ریسیور رکھ کر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اوپر آگئی اور دریچے میں کہنیاں ٹیک کر بے دلی سے باہر کا منظر دیکھتی رہی جہاں پانی کے پھواروں کے ساتھ بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر تیرتے پھر رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں خان بہادر صاحب کے کاٹج میں پیانو بج رہا تھا اور چچی ارنا اپنے برآمدے میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں۔
چچی ارنا سوئیڈش تھیں۔ جب وہ پہلی بار اپنے شوہر کے ہم راہ ہندوستان آئی تھیں۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ سر آغا خاں کے اس سنہرے دیس میں وہ بھی ایک مرمریں محل سرا میں کسی الف لیلیٰ سلطانہ کی طرح رہا کریں گی۔ لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ مرمریں ستونوں اور ایرانی قالینوں والی محل سرا کے بجائے ان کے شوہر اصغر ربانی لکھنؤ کے ایک نہایت گندے محلے وکٹوریہ گنج میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک بوڑھی ماں ہے جو ہر وقت امام کی مجلسوں میں چلا چلا کر رونے میں مصروف رہتی ہے۔ چار پانچ جاہل اور کالی اور سخت بے ہنگم بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ ان سب عورتوں کی ساری سوسائٹی جھوائی ٹولہ اور مولوی گنج اور نخاس کی گلیوں تک محدود ہے جہاں وہ سب ڈولیوں پر کتے کی طرح ہانپتے ہوئے انسانوں کے کاندھوں پر لد کے، پردے دار تانگوں میں سوار ہوکے کبھی کبھار اسی طرح کے دوسرے گندے مکانوں اور ان ہی کی قسم کی دوسری بے ہنگم عورتوں سے ملنے جایا کرتی ہیں۔
ارنا کرسینا پر یہ سب دیکھ کر بے ہوشی کا سا عالم طاری ہوگیا۔ ان کے پیارے شوہر نے انہیں دلاسا دیا کہ جب ان کا کاروبار چمک جائے گا تو وہ شہر سے باہر گومتی کے کنارے سول لائنز میں یا چھاؤنی میں کوٹھی لے کر رہا کریں گے۔ لیکن وہ برسوں تک اس ٹاٹ کے پردوں والے مکان سے نہ نکل سکیں۔ ان کے بالکل سونے کی رنگت کے دمکتے ہوئے بال تھے۔ نیلی آنکھیں تھیں اور گلاب کے شبنم آلود شگوفوں کی ایسی رنگت تھی۔ لیکن وائٹ ویز کے ہاں کے ملبوسات پہن کر چھتر منزل کلب میں جگمگانے کے بجائے ان کی قسمت میں تو یہی زک بھوگنا لکھا تھا کہ ٹوریہ گنج کے اس مکان کی ایک صخچی میں بیٹھی ٹھیٹ ہندوستانی ماؤں کی طرح محض سگرڈ کو پالتی رہیں اور اپنے میاں کو کوسا کریں۔ اصغر ربانی اٹھتے بیٹھتے انہیں اطمینان دلاتے، ’’بس ڈارلنگ چند روز کی بات اور ہے پھر ہم چل کر الگ رہیں گے۔ تمہیں کون سی جگہ زیادہ پسند ہے، ٹرانس گومتی سول لائنز یا دل کشا؟‘‘
’’جہنم میں جائے تمہاری ٹرانس گومتی‘‘ اور ارنا کرٹینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ واقعی یہ ان کے لیے بڑا صبر آزما زمانہ تھا۔ اچھی اچھی ہندوستانی لڑکیوں کے جنہیں باہر کی ذراسی بھی ہوا لگ چکی ہوتی۔ اس ماحول میں دہشت زدہ ہوجاتیں۔ وہ پھر خالص ولائتی تھیں۔
کئی برس اسی طرح لشٹم پشٹم گزر گئے۔ آخر ایک سال اصغر ربانی کسی طرح روپیہ فراہم کرکے انہیں گرمیاں گزارنے کے لیے مسوری لے گئے۔ وہاں چچی ارنا کی ملاقات اصغر ربانی کے ایک دوست خان بہادر اعجاز احمد سے ہوئی جو ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر تھے، اور بڑے ٹھاٹ سے وہاں زندگی گذارتے تھے۔ چچی ارنا نے ان سے شادی کرلی۔ اور سگرڈ کوڈو اسٹاک اسکول میں داخل کردیا۔ اور اسی طرح کی زندگی گزارنے لگیں جس کی انہیں اتنی شدید تمنا تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک کسی کو اصغر ربانی کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے لیے طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں۔ کسی نے انہیں جمنا کے کنارے داڑھی اور جٹائیں بڑھائے، سادھوؤں کے ساتھ گھومتے دیکھا۔ آخری اطلاع ان کے متعلق یہ تھی کہ کاروبار میں سخت نقصان اٹھانے کے بعد اپنا باقی ماندہ روپیہ لے کر وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔
سگرڈ جب بڑی ہوئی اس وقت تک وہ وکٹوریہ گنج کے مکان اور اپنے باپ کو بالکل بھول چکی تھی۔ وہ اب مسوری کی ’بال آف فائر‘ کہلاتی تھی۔ اس کا رنگ بالکل سفید نہیں تھا، اس میں ہلکے ہلکے ہندوستانی سانولے پن کی جھلک تھی۔ اس کی آنکھیں بچوں کی طرح بڑی بڑی اور سیاہ تھیں۔ چچی ارنا کیتھولک تھیں۔ کیتھولک مذہب میں جو گمبھیرتا ہے اس کا پورا پورا اثر سگرڈ کی اس طبیعت نے قبول کیا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب طرح کی فرشتوں کی سی معصومیت برستی تھی۔ سوسائٹی لڑکیوں میں اکثر جو چھچھورا پن سطحیت اور چمک دمک ہوتی ہے وہ اس سے کوسوں دور تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے دنیا سے الگ تھلگ، سینٹ میری کی مقدس راہبات کی کسی خانقاہ میں سے نکل کر چلی آرہی ہے۔
’’خدا وندا۔۔۔ کیا سگرڈ ایسی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔‘‘ کوئینی نے بر آمدے کے دریچے میں کھڑے کھڑے ایک اور جمائی لے کر بڑے دکھ کے ساتھ سوچا۔ اسے پھر بوبی ممتاز کا خیال آیا جو سمجھتا تھا کہ سگرڈ ہی وہ لڑکی ہے جس کا وہ جنم جنم سے انتظار کرتا آیا تھا۔ جو روبی کھوچڑ اور انوری خاں اور نشاط اسٹینلے اور ان کی طرح کی دوسری لڑکیوں سے بہت بلند ہے۔ بہت بلند اور بہت مختلف۔۔۔ خداوندا۔۔۔وہ بے دلی سے وادی کے نیلے اور سفید پھولوں پر بارش کی پھواروں کو برستا دیکھتی رہی۔ چچی ارنا کے کاٹج میں سے پیانو کی آواز بدستور بلند ہو رہی تھی۔ کوئی بڑے اچھے سروں میں ’’سوانی۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو‘‘ کا پرانا نغمہ بجارہا تھا۔
اسی شام ’وائلڈ روز‘ سے واپسی پر بوبی ممتاز کو راستے میں نشاط اسٹینلے مل گئی۔ نشاط اسٹینلے بمبئی ریڈیو سے انگریزی میں اناؤنسمنٹ کرتی تھی اور کمرشل آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی جو انتہائی بدشکل تھی۔ لیکن نہ جانے کس طرح انتہائی دل کش معلوم ہوئی تھی۔
’’اوہلو بوبی ممتاز۔ تمہیں آج اتنے چاندوں کے بعد دیکھا ہے۔ کہاں تھے؟‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ ’’کہیں نہیں۔۔۔ یہیں تھا۔۔۔‘‘ بوبی نے اکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا اور اپنی شراب انڈیلنے والی آنکھیں دوسری طرف گھما دیں۔ وہ ایک ہرنی کی طرح جست بھر کے پگڈنڈی پر سے پھر ان آنکھوں کی زد میں آکھڑی ہوئی۔
’’اوجیزس۔۔۔ صدیوں کے بعد نظر آئے ہو۔ کیا سگرڈ ربانی کے چھن جانے کا سوگ منا رہے ہو؟ بے وقوف ہو۔ سوگ کرنے کے بجائے آؤ اس حادثے کو سے لے بریٹ کریں‘‘، اس نے بشاشت سے کہا۔ اور اسے کھینچتی ہوئی اسٹینڈرڈ کی طرف لے گئی۔ اور وہاں ایک لاؤنج میں پہنچ کر دھم سے ایک کرسی پر گرتے ہوئے وہ بیرے کو احکامات دینے میں مصروف ہوگئی۔
بوبی بے دلی سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے اس لڑکی سے اتنی نفرت تھی۔ پھر بھی اس لڑکی میں ایک عجیب نا قابل بیان، تکلیف دہ کشش تھی۔ اتنی بدشکل۔۔۔ بدشکل۔۔۔ اس نے کوئی تشبیہ سوچنی چاہی۔ لیکن نشاط اسٹینلے کی شخصیت سے موازنہ کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ یہ لڑکی جو فخریہ کہتی تھی کہ مجھ سے بڑا فلرٹ اس روئے زمین پر آپ کو دستیاب نہ ہوگا۔ وہ الٰہ آباد کے ایک بہت اعلی عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور بڑی ہمدرد، بڑی فیاض بے حد نیک دل لڑکی تھی۔ اکثر وہ جذباتی بن کر اپنے دوستوں سے کہتی۔ لوگ مجھے اتنا برا سمجھتے ہیں، کاش کوئی مجھے پہچان سکتا کاش لوگ اتنے بے وقوف، گدھے نہ ہوتے۔
پھر اس نے بیرے کی طرف سے مڑکر بوبی سے، ’’بوبی ڈیر کیوں ایسی رونی شکل بنائے بیٹھے ہو۔ بے وقوف ذرا اور دریچے سے باہر نظر ڈالو۔ کائنات اتنی بشاش ہے،ارغوانی بادل جھکے ہوئے ہیں، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں وادیوں میں نیلے پھول کھل رہے ہیں۔ کیا ایسے میں تم رنجیدہ رہ سکتے ہو؟ الو ہو بالکل۔‘‘
بوبی ہنس پڑا۔ اور پھر وہ دونوں بچوں کی سی مستعدی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے اور قہقہے لگانے میں مشغول ہوگئے۔ باہر پہاڑوں کی برف پر جگمگاتی ہوئی چاندنی زیادہ خوش گوار ہوگئی۔‘‘سوانی ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔‘‘ کا پامال نغمہ جو ڈانس بینڈ والے ہال کے سرے پر بجا رہے تھے۔ یک لخت بالکل نیا بہت انوکھا اور بے حد اچھا معلوم ہونے لگا۔
دفعتاً بوبی کو خیال آیا۔ میں اس وقت یہاں نشاط اسٹینلے کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر کوئینی نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو اسے کتنا شوک پہنچے گا۔ پھر اس نے ضدی بچوں کی طرح سر جھٹک کر سوچا۔ اگر اس وقت کوئینی اور اس کی جیسی باعزت اور اونچی لڑکیوں کی ایک پوری بریگیڈ یہاں آکر کھڑی ہو جائے اور مجھے اس کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر بے ہوش ہوجائے تب بھی میں ذرا پروانہ کروں گا۔ قطعی پروانہ کروں گا۔ یہ لڑکی کتنی پیاری تھی کتنی ہمدرد تھی۔ بالکل کسی پیاری سی بہن کی طرح ہمدرد۔ اسے یادآیا کل کسی نے اس کے متعلق کیسی کیسی عجیب اور خوف ناک باتیں اسے بتائی تھیں۔ ارے نہیں نشاط۔ اس نے چلا کر کہنا چاہا۔ تم ایسی نہیں ہو۔ اس کا جی چاہا کہ وہ کرسی پر چڑھ کر سارے اسٹنڈرڈ، ساری مسوری، ساری دنیا کو بتائے۔ یہ لڑکی نشاط اسٹینلے بری نہیں ہے۔ تم سب خود برے ہو۔ تم میں اخلاقی قوت نہیں ہے۔ اس لیے اپنی جھینپ مٹانے کی خاطر تم اسے برا کہتے ہو۔۔۔ تم لوگ۔۔۔
’’ہلو بوبی بھیا۔۔۔ تم یہاں ہو۔ ہم تمہیں سارے میں ڈھونڈ آئے‘‘ اس نے چونک کر دیکھا۔ اس کے سامنے کوئینی کھڑی تھی جو اسی وقت لو، فریڈ اور کملا کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ ذرا گھبرا کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور اس کے لیے کرسی خالی کردی۔ نشاط اسی طرح بے فکری سے کرسی پر نیم دراز ایک گیت گنگناتی رہی۔
’’ہلو کوئینی‘‘ اس نے بے پروائی سے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو نشاط‘‘ کوئینی نے بڑے ہی با اخلاق لہجے میں جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا تھا کہ اس کا روکھا پن اور مربیانہ، بے تعلق انداز سب کو محسوس ہوجائے۔ اسے جواب دیا۔
’’ہمیں ابھی زینے پر روبی کھوچڑ ملی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اس سال مقابلہ حسن میں اس کا اول آنا یقینی ہے۔ کیوں کہ اس کی حریف سگرڈ ربانی اس مرتبہ مقابلہ میں شامل نہیں ہورہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کی اجازت نہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات میں شرکت کرتی پھرے‘‘، لو نے جھک کر بوبی کو بتایا۔
’’انیس کی اجازت نہیں؟‘‘ نشاط نے دفعتاً اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’اسے اس قدر اختیارات سگرڈ پر کب سے حاصل ہو گئے۔ کیا وہ اس سے شادی کر رہا ہے؟‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔ شادی کون مسخرہ کر رہا ہے‘‘، لو نے بے فکری سے جواب دیا۔ ’’ہاں۔ بوبی بھیا ہم تم سے یہ کہنے آئے تھے کہ کل موتی بھائی نے ہم سب کو ہیک مینز مدعو کیا ہے۔ سگرڈ کی دعوت ہے در اصل۔ موتی بھائی کہہ رہے تھے کہ اس سیزن میں یہ ان کی پہلی پارٹی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ ضرور آنا بوبی۔ اور تم بھی نشاط۔۔۔‘‘
’’چلو بوبی ڈیر ناچیں۔۔۔ ‘‘ نشاط نے جمائی لیتے ہوئے بوبی سے کہا۔
اگلی صبح، بہت تھکا ماندہ اور رنجیدہ شکل بنائے موتی لال ’وائلڈ روز‘ پہنچا۔ ’’لو بھئی وجو‘‘، موتی بھائی پہنچے، ‘‘کوئینی نے نٹنگ کرتے کرتے اوپر کے برآمدے کے دریچے میں سے جھانک کر وجاہت سے کہا۔ اور اس قدر فلسفیوں کی طرح چل رہے ہیں کہ حد ہے۔ کیا مصیبت ہے آج کل جسے دیکھو ایسا لگتا ہے کہ بس اب رو دے گا۔‘‘
موتی لال زینے کے دروازے میں سے برآمدے میں داخل ہوگئے۔
’’دیکھی تم نے اس قاضی انیس الرحمن کی حرکت۔ سگرڈ کو اب کسی سے ملنے نہیں دیتا، ‘‘اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے تم نہیں جانتے چچی ارنا کی سیاست موتی بھائی‘‘، کوئینی نے اس سے کہا۔ ’’جہنم میں جائیں چچی ارنا‘‘، وہ اکتا کر دریچے سے باہر دیکھنے لگے۔ جہاں سر مئی بادل تیرتے پھر رہے تھے۔ ’’بہر حال تم لوگ آج میری پارٹی میں تو ضرور آؤ گے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’قطعی‘‘، وجاہت نے شیو کرتے کرتے جواب دیا اور آئینے میں اپنی ناک کو بڑے غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
’’میں جلد ہی بمبئی جارہا ہوں‘‘ جیوتی لال نے دفعتاً سر اٹھا کر کہا۔ ’’کیوں۔۔۔؟ یہ کیا وحشت ؟ کم از کم ٹینس کے سیمی فائنلز تک تو رک جاؤ۔ کل عالم کا جی تمہیں پوچھ رہی تھی‘‘، کوئینی نے کہا۔ ’’جہنم میں جائے عالم کا جی بھی؟‘‘ وجاہت نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جیوتی لال ہنسنے لگے۔ وہ عموماً اتنا نون سیریس رہتے کہ اسے اتنا سنجیدہ اور غمگین دیکھ کر کوئینی کو بے حد ہنسی آئی۔
تیسرے پہر کو، جب کہ سب لوگ جیوتی لال کی پارٹی میں جانے کی تیاری میں مصروف تھے، کسی دل چلے نے ایشلے ہال جاکر انیس کو یہ خبر دی کہ موتی لال نے آج سگرڈ کو مدعو کیا ہے۔
’’کب؟ کہاں۔ کس وقت؟‘‘ انیس یہ سن کر تلملا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ اس کی موجودگی میں کسی اور کی یہ ہمت کہ سگرڈ کو باہر لے جائے۔ ’’اگر موتی لال یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ایک اکیلے شہزادہ گلفام ہیں تو انہیں بہت جلد اس مغالطے سے نکلنا چاہئے‘‘، اس نے غصے سے کہا۔
جیوتی لال کی پارٹی کا وقت چھ بجے تھا۔ اس وقت سوا پانچ بجے تھے۔ دفعتاً انیس کو کوئی خیال آیا، وہ تیز تیز قدم رکھتا ایشلے ہال کی سیڑھیاں اترکر مال پر آیا اور ہیک منیز کی طرف روانہ ہوگیا۔ مسز ہیک مین کے پاس پہنچ کر اس نے کہا وہ ریسٹوران کا ایک حصہ فوراً اپنے لیے مخصوص کروانا چاہتا ہے۔ مسز ہیک مین نے جواب دیا کہ افسوس ہے کہ وہ حصہ ایک ہفتے پہلے ہی آج شام کی ایک پارٹی کے لیے مخصوص کروا لیا گیا ہے۔
’’کیا آپ کسی طرح اس ریزرویشن کو کینسل نہیں کر سکتیں؟ اس نے پوچھا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے مسٹر انیس۔ اس کا پیشگی کرایہ دے دیا گیا ہے‘‘، انہوں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج شام یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے بچوں کی طرح ضد کر کے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مسٹر انیس‘‘، مسز ہیگ مین نے جواب دیا۔ ’’کسی ریسٹوران یا رقص گاہ یا کسی اور پبلک جگہ پر آپ لوگوں کو آنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ’’یہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب آپ پورا ہیک منیز اپنے لیے مخصوص کر والیں‘‘، مسز ہیک مین نے ہنس کر جواب دیا۔
’’میں اس کے لیے تیار ہوں‘‘، انیس نے تقریباً چلا کر کہا۔ ’’آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پورے ہیک مینز کا ایک شام کا کرایہ سات ہزار روپے ہوگا؟‘‘ مسز ہیک مین نے جواب دیا۔ ’’صرف۔۔۔؟ یہ لیجئے۔۔۔‘‘ انیس نے اپنی وہ لافانی چیک بک نکالی اور سات ہزار کا ایک چیک کاٹ کر حیرت زدہ مسز ہیک مین کے حوالے کیا۔
جیوتی لال کا ریزرویشن اس طرح خود بخود کینسل ہوگیا۔ بیروں نے جو چند لوگ ادھر ادھر آئے بیٹھے تھے۔ ان سے مودبانہ عرض کی، ’’آج سارا ہیک مینز مخصوص کروا لیا گیا ہے اس لیے آپ حضرات تشریف لے جائیے۔‘‘ ساری رقص گاہ خالی ہوگئی۔ چھ بجا ہی چاہتے تھے۔ قاضی انیس الرحمن پنولین کی سی
بوبی ممتاز کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھا ان سب کو دیکھتا رہا۔
’’ہاں آج رات تو قطعی برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ کے بڑے بیٹے نے کہا۔ ’’بڑا مزا آئے گا۔ صبح کو ہم اسنو مین بنائیں گے‘‘ ایک بچہ چلایا۔ ’’ممتاز بھائی جان ہمیں اپنا پائپ دے دو گے؟ ہم اسے اسنو مین کے منہ میں ٹھونسیں گے‘‘، دوسرے بچے نے کہا۔
’’کل صبح شمال میں ہلکے ہلکے چھینٹے پڑیں گے۔ اور شمال مغرب میں آندھی کے ساتھ بارش ہوگی۔ جنوبی بلوچستان اور سندھ کا موسم خشک رہے گا‘‘ صاحب خانہ نے ناک پر عینک رکھ کر اخبار اٹھایا اور موسم کی پیشین گوئی با آواز بلند پڑھنی شروع کی۔
’’خوب برف پڑتی ہے بھائی۔ لیکن ایک بات ہے۔ اس طرف پھل بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں جب میں تھا‘‘ صاحب خانہ کے منجھلے بیٹے نے خود ہی اپنی بات جاری رکھی۔
بوبی ممتاز چپکا بیٹھا ہنستا رہا۔ ’’ساری دنیا موسم میں اتنی شدید دلچسپی کیوں لیتی ہے۔ کیا ان لوگوں کو اس وقت گفتگو کا کوئی اس سے زیادہ بے کار موضوع نہیں سوجھ رہا۔ کوئینی لکھنؤ ریڈیو پر روزانہ آٹھ پچپن پر انگریزی میں موسم کی رپورٹ سناتی تھی۔ کل پچھّم میں تیز ہوا کے ساتھ پانی آئے گا۔ پورب میں صرف تھوڑے چھینٹے پڑیں گے اتر میں سردی بڑھ جائے گی۔۔۔ کوئینی۔۔۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو۔۔۔ فریڈ کہاں ہو تم سب۔۔۔ اس وقت تم سب جانے کیا کر رہے ہوگے‘‘ اس نے بہت تھک کر آنکھیں بند کر لیں۔
’’ممتاز صاحب آج تو آپ ہمارے ساتھ ہی کھانا کھائیے‘‘، صاحب خانہ کی بیگم نے کہا اور شال لپٹتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ان کی آواز پرآنکھیں کھول کر وہ انہیں پینٹری کے دروازے میں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔
صاحب خانہ کی دو لڑکیاں تھیں۔ یہی ساری بات تھی۔ اسی وجہ سے اس کی اتنی خاطریں کی جارہی تھیں۔ جب سے وہ پاکستان منتخب کرنے کے بعد کوئٹہ آیا تھا۔ یہ خاندان اسے روزانہ اپنے ہاں چائے یا کھانے پر مدعو کرتا۔ اگر وہ نہ آنا چاہتا تو وہ جاکر اسے کلب سے پکڑ لاتے۔ اس کے لیے روز طرح طرح کے حلوے تیار کیے جاتے۔ اس کی موجودگی میں ان کی بڑی لڑکی پھیکے شلجم کے ایسے چہرے والی سعیدہ بڑی معصومیت اور نیاز مندی کے ساتھ ایک طرف کو بیٹھی نٹنگ کرتی رہتی۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے خالی رہتا۔ جیسے کسی کل والی چینی کی گڑیا کی انگلیوں میں تتلیاں تھما دی گئی ہوں۔ کبھی کبھی وہ دوسروں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی اور پھر خود بخود شرما کر دوبارہ نٹنگ پر جھک جاتی۔
یہ لڑکیاں کتنی نٹنگ کرتی ہیں۔ بس سال بھر ان کے ہاتھوں میں اون اور سلائیاں دیکھ لو۔ گویا یہ ان کے بنے ہوئے پل اوور اور موزے قیامت کے روز انہیں بخشوائیں گے۔ پھر صاحب خانہ کی بیگم باورچی خانہ سے واپس آکر خانساماں کی نامعقولیت پر اظہار خیال کرنے کے بعد اپنی سگھڑبیٹی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتیں اور اسے مخاطب ہوکر کہتیں۔
’’بس اس کو تو یہی شوق ہے۔ دن بھر اسی طرح کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی ہے۔ اپنے ابا کا یہ سویٹر کوٹ بھی اسی نے بنا ہے۔‘‘ اس وقت وہ یقینا متوقع ہوتیں کہ وہ کہے، ’’اون منگوا دوں گا میرے لیے بھی ایک پل ادور بنا دیجئے۔‘‘ لیکن وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہتا۔ لڑکی اپنی ڈائرکٹر آف پروپگنڈہ اینڈ پبلسٹی کی طرف سے یہ تعریف ہوتی سن کر اور زیادہ شرما جاتی اور اس کی سلائیاں زیادہ تیزی سے متحرک ہوجاتیں۔
خدا وندا۔۔۔ بوبی ممتاز نے بہت زیادہ اکتا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ اندھیرے میں چنار کے درخت آہستہ آہستہ سرسرا رہے تھے۔ اس گرم اور روشن کمرے کے باہر دور دور تک مکمل سکوت طاری تھا۔ رات کا گہرا اور منجمد سکوت۔ وہ رات بالکل ایسی تھی اندھیری اور خاموش۔ ۹ستمبر ۴۷ء کی وہ رات جو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مسوری کے وائلڈ روز میں آخری بار گزاری تھی۔ کوئینی اور وجاہت کا وائلڈ روز۔ جب وہ سب وائلڈ روز کے خوب صورت لاؤنج میں آگ کے پاس بیٹھے تھے اور کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ وہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔لیکن وہ رات بھی پلک جھپکتے میں گزر گئی تھی۔وقت اسی طرح گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحب خانہ نے دفعتاً بڑے زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ایک ہاتھ میں اخبار تھامے ویکلی کے کسی کارٹون پر ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جارہے تھے۔ بچے اپنے تصویروں والے رسالے اور کیرم چھوڑ کر اس کے قریب آگئے اور اس سے کہنے لگے کہ اگر رات کو اس کی موٹر برف میں پھنس گئی تو کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ ایک بچی نے ناؤ بنانے کے لیے اون لکر کا سرورق پھاڑ ڈالا اور ایک تصویر دوسری تراشی ہوئی تصویروں اور کترنوں کے ساتھ رسالے میں سے سرک کر فرش پر آن گری۔
بوبی ممتاز کی نظر اس تصویر پر پڑگئی۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ سگرڈ کی تصویر تھی۔ سگرڈ اپنے پیارے سے دوماہ کے بچے کو میز پر ہاتھوں سے تھامے اس کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔ وہی مخصوص تبسم، اس کے بال اسی اسٹائل سے بنے تھے۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پرسکون اور پر اسرار۔۔۔ اس تصویر کے لیے بچوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوگئی۔ اس کے جسم میں سردی کی ایک تیز ناقابل برداشت کاٹتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی بند تھی اور آتش دان میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کمرہ حسب معمول گرم تھا۔ بچے اسی طرح شور مچا رہے تھے۔ لڑکیاں نٹنگ کررہی تھیں۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ یہ سگرڈ کی تصویر تھی جو ایک بچی نے بے خیالی سے نئے اون لکر میں سے کاٹ لی تھی۔۔۔ سگرڈ۔۔۔ سگرڈ وہ دفعتاً کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
’’کہاں چلے۔۔۔؟ کھانا آنے والا ہے‘‘ صاحب خانہ ہاتھ پھیلا کر چلائے۔ ’’بس پانچ منٹ اور ٹھہر جاؤ بھیا۔ توا چڑھا ہی ہے‘‘ بیگم صاحب نے کہا۔ ’’کھانا کھاکے جائیےگا‘‘ سعیدہ نے اپنی پتلی سی آواز آہستہ سے بلند کرکے چپکے سے کہا اور پھر جلدی سے سلائیوں پر جھک گئی۔
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں پائپ لگا دوں گا۔‘‘ دوسرا بچہ چلایا۔ ’’واہ، لڑکیاں پائپ کہاں پیتی ہیں‘‘ پہلے بچے نے اعتراض کیا۔ ’’ممتاز بھائی جان تو پیتے ہیں‘‘ اس نے اپنی منطق استعمال کی۔ ’’ممتاز بھائی جان کوئی لڑکی تھوڑا ہی ہیں۔‘‘ سب نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔
بوبی ممتاز انتہائی بد اخلاقی کا ثبوت دیتا کمرے سے نکل کر جلدی سے باہر آیا۔ اور اپنی اوپل تک پہنچ کر سب کو شب بخیر کہنے کے بعد تیزی سے سڑک پر آگیا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ اور فروری کا آسمان تاریک تھا۔ اس کے میز بانوں کا گھر دور ہوتا گیا۔ بچوں کے شور کی آواز پیچھے رہ گئی۔ بالکل خالی الذہن ہوکر اس نے کار بے حد تیز رفتاری سے سیدھی سڑک پر چھوڑدی۔ گھر چلا جائے۔ اس نے سوچا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ اس نے کار کا رخ کلب کی طرف کردیا۔
ایک بیرے کو کھانے کے متعلق کہتے ہوئے وہ ایک لاؤنج کی طرف چلا گیا۔ جو اکثر سنسان پڑی رہتی تھی۔ اس نے صوفے پر لیٹ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے، یاد کرنے کی ساری عادتیں بھول چکا ہے۔ اب کچھ باقی نہیں، کچھ باقی نہیں۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو خوب ملا۔ اور پھر غور سے ہتھیلیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کی آنکھیں بہت سونی سونی لگ رہی ہوں گی۔ وہ آنکھیں جن کے لیے کملا کہا کرتی تھی کہ انتہائی شراب انڈیلنے والی آنکھیں ہیں۔ اس کی آنکھوں کی یہ تعریف سب کو یاد ہوگئی تھی۔ بوبی ممتاز کی شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔ اور وہ اس وقت وہاں، اس اجنبی شہر کے غیر دل چسپ کلب کے نیم تاریک خاموش لاؤنج میں صوفے پر بچوں کی طرح پڑا اپنی ہتھیلیوں سے ان آنکھوں کو مل رہا تھا۔ گویا بہت دیر کا سویا ہوا اب جگا ہے۔ برابر کے کمرے میں خوب زور زور سے ریڈیو بجایا جارہا تھا۔ بہت سے لوگ باتوں میں مشغول تھے۔ وہاں بھی موسم کے متعلق بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی۔‘‘ کوئی بے حد وثوق اور اہمیت کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
’’یہاں بڑے کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے یارو‘‘، دوسرے نے جواب دیا۔ پھر سیاسیات پر گفتگوشروع ہوگئی۔ جہاں چار آدمی اکٹھے ہوتے یہ لازمی بات تھی کہ سیاست پر رائے زنی شروع ہوجائے۔ جواہر لال نے یہ کہا۔ قائد اعظم نے یہ کہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہا۔ یہ اچھا ہوا۔ یہ برا ہوا۔ تم کیسے آئے؟ میں ایسے آیا۔ میں یوں لٹا۔ میں نے راستے میں یوں تکلیفیں اٹھائیں۔ فلاں ملازم ہوگیا۔ فلاں نے استعفیٰ دے دیا۔ فلاں کراچی میں ہے۔ فلاں پنڈی پہنچ چکا ہے۔۔۔
بوبی ممتاز لاؤنج کے صوفے پر چپ چاپ پڑا یہ سب سنا کیا۔ گیلری کی دوسری جانب ایک کمرے میں چند انگریز ممبر اور ان کی خواتین قریب قریب بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ مے نوشی میں مصروف تھیں۔ کلب کا وہ حصہ نسبتاً سنسان پڑا تھا۔ ۱۵اگست کے بعد شہر اور چھاؤنی میں جو اکادکا انگریز رہ گئے تھے وہ سرشام ہی سے وہاں آن بیٹھتے اور ہوم، خط لکھتے رہتے یا طامس کک اور بی، او، اے، سی والوں سے پسیج کے متعلق خط وکتابت کرتے۔ ان کی بیویاں اور لڑکیاں اکتاہٹ کے ساتھ بیٹھی ریکارڈ بجاتی رہتیں۔ ان کے گڈ اولڈ ڈیز کے پرانے ساتھی اور عزیز ہوم جاچکے تھے اور جانے کہاں کہاں سے نئے نئے دیسی ممبر کلب میں آن بھرے تھے۔۔۔ ڈیڈی نے دوسال کے لیے کنٹریکٹ کیا ہے۔ چالس نے سال بھر کے لیے والینٹیئر کیا ہے۔ کوئٹہ تو مار گریٹ ڈارلنگ بے حد دل چسپ اسٹیشن تھا۔ پر اب۔ اب تو اتنا مرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بے بسی کے عالم میں کلب کے دیسی ممبروں کی خواتین کو دیکھتیں۔
’اوگوش‘ گیلری میں سے گزرتے ہوئے کرنل روجرز کی سرخ بالوں والی لڑکی نے چپکے سے اپنی ایک سہیلی سے اکتا کر کہا، ’’آج وہ بھی نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ کون۔۔۔؟ اس کی سہیلی نے پوچھا۔۔۔ ’’وہی۔۔۔ انتظامی سروس والا۔۔۔ جو لکھنؤ سے آیا ہے۔‘‘
’’اچھا وہ۔۔۔‘‘
’’ہاں، سخت بور ہے۔ کل رات میرا خیال تھا کہ مجھ سے رقص کے لیے کہے گا۔ لیکن چپ چاپ الو کی طرح آنکھیں جھپکاتا رہا۔‘‘
’’لیکن کیرل ڈرالنگ کتنی بالکل شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔‘‘
’’ہوں گی۔۔۔ جین ڈارلنگ یہ ہندوستانی بالکل گیلنٹ نہیں ہوتے۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرتی کارڈ روم کی طرف چلی گئیں۔
باہر درخت ہوا میں سر سراتے رہے۔ اس کے ایک دوست نے گیلری میں سے لاؤنج میں آکر روشنی جلادی۔ وہ چونک کر صوفے پر سے اٹھ بیٹھا۔ ’’ابے یار کیا افیمچیوں کی طرح بیٹھے ہو۔ تمہیں سارے میں تلاش کر ڈالا، چلو کارڈ روم میں چلیں۔ وہاں روجرز کی لونڈیا بھی موجود ہے۔ تم نے تو ابھی سارا کلب بھی گھوم کر نہیں دیکھا۔ ذرا جاڑے نکلنے دو، تفریح رہے گی۔ سچ پوچھو تو یہ شہر اتنا برا نہیں۔ شروع شروع میں تو سبھی ہوم سک، محسوس کرتے ہیں لیکن بہت جلد ہم ان فضاؤں سے مانوس ہوجائیں گے‘‘، اس کے دوست نے کہا۔
’’ہاں بالکل ٹھیک کہتے ہو بھائی‘‘، اس نے پائپ جلاتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’چلو ذرا پون ٹون ہی کھیلیں۔‘‘
’’تم چلو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’جلد آنا۔ سب تمہارے منتظر ہیں‘‘ دوست نے باہر جاتے ہوئے کہا۔
برابر کے کمرے کا شور دھیما پڑگیا۔ شاید وہ سب بھی کارڈ روم کی طرف چلے گئے تھے۔ کسی بیرے نے یہ سمجھ کر کہ لاؤنج میں کوئی نہیں ہے۔ دروازے میں سے ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بجھا دی اور آگے چلا گیا۔ لاؤنج میں پھر وہی نیم تاریکی پھیل گئی۔ رات کا سحر گہرا ہوتا جارہا تھا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ وہ پھر چونک پڑا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نام سے اس اجنبی جگہ میں اس کو کس نے پکارا۔ اس نام سے پکارنے والے اس کے پیارے ساتھی بہت پیچھے بہت دور رہ گئے تھے۔
بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہاں پر کوئی نہ تھا۔ اس جگہ پر تو محض ممتاز صغیر احمد تھا۔ وہ ہنسی، وہ شور مچانے والا، خوب صورت آنکھوں کا مالک، سب کا چہیتا بوبی تو کہیں اور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں پر صرف ممتاز صغیر احمد موجود تھا۔ اس نے اپنا نام آہستہ سے پکارا۔ ممتاز صغیر احمد کتنا عجیب نام ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کی ہستی کیا ہے کیوں اور کس طرح اپنے آپ کو وہاں پر موجود پا رہا ہے۔۔۔ یہ انسان۔۔۔ یہ انسان سب کچھ محسوس کرکے، سب کچھ بتا کے اب تک زندہ ہے۔ سانس لے رہا ہے۔ رات کے کھانے کا انتظار کررہا ہے۔ ابھی وہ کارڈ روم میں جاکر پون ٹون کھیلےگا۔ کرنل فریزر کی لڑکی کے ساتھ ناچے گا۔ اتوار کو پھر اس شلجم کی ایسی شکل والی لڑکی سعیدہ کے گھر مدعو کیا جائےگا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے جواب دیا۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو بھیا۔۔۔ یہ تم ہو۔۔۔؟ اس نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھاکر کچھ محسوس کرنا چاہا۔ اس نے صوفے کے مخملیں کشن کو چھوا۔ مخمل اتنی گرم تھی، اور راحت پہنچانے والی۔ دریچے کے باہر فروری کی ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔
بوبی۔۔۔ ہاں کوئینی بی بی۔ تم کہاں ہو۔ میں نے تمہاری آواز سنی ہے۔ ابھی تم اور لوکھلکھلا کر ہنسی تھیں۔ لیکن وہاں لو بھی نہیں تھی۔ وجاہت بھی نہیں تھا۔ فریڈ بھی نہیں تھا۔
کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے دہرایا۔ آٹھ پچپن۔ اس کی نظر گھڑی پر پڑگئی وہ اس وقت، سینکڑوں ہزاروں میل دور، نشر گاہ کے اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنے سامنے رکھے ہوئے بلٹین کے ٹھیٹ سنسکرت الفاظ نگلنے کی کوشش میں مصروف ہوگی۔ اور موسم کی رپورٹ سنا رہی ہوگی۔ گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ وجاہت بھائی۔۔۔ تم اس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ اور فریڈ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ انیس۔۔۔
برابر کے کمرے میں لاہور سے موسم کی رپورٹ سنائی جارہی تھی اور خالی کمرے میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔ آج شمال میں برف باری ہوگی۔ شمال مغرب میں بارش کے چھینٹے پڑیں گے۔ جنوب میں تیز ہوائیں چلیں گی۔۔۔ گھڑی اسی طرح ٹک ٹک کرتی رہی۔ ٹک ٹک ٹک۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔چھ۔۔۔ چھ سال۔۔۔ یہ چھ سال۔۔۔ خدا وند۔
اس تپش، اس تڑپ، اس بے چینی کے بعد آخر کار موت آتی ہے۔ آخر کار خدائے قدوس کا سپید تخت نظر آتا ہے۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ کوئینی نے آہستہ آہستہ کہا۔ پس منظر کی موسیقی دفعتاً بہت تیز ہوگئی۔
ہاں۔۔۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ ارے تم کدھر نکل آئے زندگی کی طرف واپس جاؤ۔ انقلاب اور موت کے تندرو آندھیوں کے سامنے زرد، کمزور پتوں کی طرح بھاگتے ہوئے انسان۔ ہماری طرف واپس لوٹو۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ لو ٹہر گئی۔ ٹھیک ہے؟ اس نے اپنے حصے کی آخری سطریں ختم کرکے اسکرپٹ فرش پر گرادیا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔ تھینک یو۔۔۔‘‘ کوئینی ہیڈ فون ایک طرف کو ڈال کر باہر آگئی۔ ’’لیکن ڈارلنگ تم نے ٹمپو پھر تیز کردیا۔ خدا کے لیے دھیرے دھیرے بولا کرو۔‘‘
’’او گوش۔ یہ ٹمپو توکسی چیزکا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ کوئینی ڈرالنگ۔۔۔‘‘ لونے اکتا کر جواب دیا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ گیلری میں سے وجاہت کی آواز سنائی دی۔ ’’ارے کیا وجو آیا ہے؟‘‘ کوئینی نے اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر باہرجھانکا۔
اس کا بھائی وجاہت انتظار کے کمرے میں کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’بیٹا گھر چل رہی ہو؟‘‘ اس نے کوئینی سے پوچھا۔ ’’تم اس وقت کیسے آگئے؟‘‘ کوئینی نے دریافت کیا۔
’’میں ابھی ابھی بوبی ممتاز کوبرلنگٹن سے لینے آیا تھا۔ میں نے سوچا اگر تمہارا کام ختم ہوگیا ہو تو تمہیں بھی ساتھ لیتا چلوں‘‘، وجاہت نے کہا۔ ’’بوبی ممتاز کون؟‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’ہے ایک۔۔۔‘‘ وجاہت نے اسی بے خیالی سے جواب دیا۔ بوبی ممتاز زینے پر سے اتر کے ان کی طرف آیا۔ ’’کہاں بھاگ گئے تھے؟‘‘ وجاہت نے ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’ار۔۔۔ آداب۔۔۔‘‘ بوبی ممتاز نے کوئینی کی طرف مڑکر کہا ’’تم ہی کوئینی بیٹا ہونا؟‘‘
’’ہاں۔ تسلیم!‘‘ کوئینی ناخن کترتے ہوئے غور سے اس کے مطالعے میں مصروف تھی۔ کتنا سوئیٹ لڑکا ہے۔ اس نے دل میں کہا۔ ’’تو پھر چلو ہمارے ساتھ ہی گھر‘‘، بوبی ممتاز نے کہا۔ ’’نہیں بھیا۔ ابھی مجھے وہ کم بخت موسم کی خبریں سنانی ہیں۔ آٹھ پچپن ہوگئے۔‘‘ وہ انہیں گیلری میں کھڑا چھوڑ کر اسٹوڈیو میں تیزی سے گھس گئی۔ وہ دونوں باہر آگئے۔
یہ خلوص، یہ سادگی، یہ اپنائیت ایسے پیارے دوست اسے آج تک کہیں نہ ملے تھے۔ بہت جلد وہ وجاہت کے سٹ میں گھل مل گیا۔ وہ سب کے سب اتنے دل چسپ تھے۔ لیونور اور شرجو ’ لو‘ کہلاتی تھی، جس کی ماں امریکن اور باپ پہاڑی تھا۔ اس کی ترچھی ترچھی نیپالی آنکھوں کی وجہ سے سب اسے چنک چائی لو کہتے تھے اور فریڈ جس کا تبسم اتنا معصوم، اتنا پاکیزہ، اتنا شریف تھا۔ وہ اسے چھیڑنے کے لیے ہندستانی عیسائی فرقے کی مخصوص حماقتوں کا مذاق اڑاتے۔ لڑکیاں عیسائیوں کے بنے ہوئے انگریزی لہجے کی نقل کر کے اس سے پوچھتیں، ’’فریڈ ڈیر کیا آج تم کسی اپنا گرل فرینڈ کو باہر نہیں لے جانے مانگتا؟‘‘
’’کیوں تم سب میری اتنی ٹانگ کھینچتے ہو‘‘ وہ ہنس کر کہتا۔ وہ بہت اونچے عیسائی خاندان سے تھا۔ لیکن اسے اس طرح چھیڑنے میں سب کو بہت لطف آتا۔ وہ سب لو سے کہتے، ‘‘لوڈیر اگر فریڈ اس سنڈے کو پروپوز کرے تو فوراً مان جاؤ۔ ہم سب تمہاری برائیڈز میڈز اور پیچ بوائے بنیں گے۔‘‘ پھر وہ چلا چلا کر گاتیں، ’’سم سنڈے مارننگ۔‘‘
وہ ۴۲ء تھا، جب بوبی ممتاز پہلی بار ان سب سے ملا۔ ہر سال کی طرح جب گرمیاں آئیں اور وہ لوگ مسوری جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہم راہ مسوری گیا۔ کوئینی اور وجاہت کے ’وائلڈ‘ روز میں سب اکٹھے ہوئے۔ اور وہ وہاں پر بھی بہت جلد بے حد ہر دلعزیز ہوگیا۔
بڑی غیر دلچسپ سی شام تھی۔ وہ سب ہیک منیز کے ایک کونے میں بیٹھے سامنے سے گزرنے والوں کو اکتاہٹ سے دیکھ رہے تھے۔ اور چند ملنے والوں کے منتظر تھے۔ جنہیں وجاہت نے مدعو کیا تھا۔ اتنے میں گیلری میں سے چچی ارنا گزرتی نظر آئیں انہوں نے بالوں میں دو تین پھول ٹھونس رکھے تھے۔ اور خانہ بدوشوں کا سا لباس پہنے تھیں۔
’’کوئی نیا جناور گرا ہے‘‘ یاسمین نے چپکے سے کوئینی سے کہا۔ ’’اماں چپ رہو یار‘‘، کوئینی نے اسے ڈپٹ کر جواب دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں‘‘، کوئینی نے جواب دیا۔ اتنے میں ان کے مہمان آگئے۔ اور وہ سب بظاہر بڑی سنجیدہ شکلیں بنا کر ان کے پاس جا بیٹھیں۔
’’یہ چچی ارنا کون ہیں۔ تمہاری چچی ہیں؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ تازہ وارد مہمان سب ان ہی کی باتیں کر رہے تھے۔
’’ارے نہیں بھئی‘‘، کوئینی نے شگفتگی سے جواب دیا۔ ’’یہ سگرڈ کی ممی ہیں۔‘‘
’’سگرڈ کون؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’ہے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔۔‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے گویا مزید تشریح کر دی اور پھر دوسری باتوں میں منہمک ہوگئی۔
اگلے روز وہ سب ٹہلنے کے لیے نکلے تو وجاہت نے تجویز کیا کہ وڈ اسٹاک کا چکر لگا آئیں۔ سگرڈ سے بھی ملتے آئیں گے۔ وہ ٹولیاں بنا کر پتھر اور چٹانیں پھلانگتے وڈ اسٹاک کے ہوسٹل کی طرف مڑ گئے۔
ایک بڑے سے سلوراوک کے نیچے بوبی ممتاز نے سگرڈ کو دیکھا۔ وہ عمارت کی ڈھلوان پر درختوں کے جھنڈ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی نٹنگ میں مشغول تھی۔ ان سب کواپنی سمت آتا دیکھ کر وہ بچیوں کی طرح دوڑتی ہوئی کوئینی کے قریب آگئی۔ کوئینی نے اس کا تعارف کرایا، ’’یہ ہمارے بوبی بھائی ہیں۔ اتنی بڑھیا ایکٹنگ کرتے ہیں کہ تم دیکھ کر بالکل انتقال کر جاؤ گی۔‘‘
وہ بچوں کی طرح مسکرائی۔ وہ اس کا معصوم، پاکیزہ تبسم، ایکٹنگ ان دونوں کا مشترکہ موضوع گفتگو بن گیا۔ وہ سب شام کی چائے کے لیے اکٹھے ’وائلڈ روز‘ واپس آئے۔
وہ زمانہ جو اس سال بوبی ممتاز نے مسوری میں گزارا، اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔ مال پر سے ونسنٹ ہل کی طرف واپس آتے ہوئے ایک روز اس نے فریڈ سے کہا، ’’ٹھاکر پال فریڈرک رنبیر سنگھ۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان کون ہے؟‘‘ فریڈ نے سنجیدگی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’سنو‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جس طرح اکثر اخباروں کے میگزین سیکشن میں ایک کالم چھپتا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پل سڈنی میں ہے۔ دنیا کا امیر ترین شخص نظام حیدر آباد ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ چھپے گا کہ دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص ممتاز صغیر احمد ہے۔ سمجھے ٹھاکر صاحب۔۔۔ ممتاز صغیر۔۔۔ کیا سمجھے؟‘‘
فریڈ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ بہت ہی گر انبار، سنجیدہ، سلجھا ہوا آدمی تھا۔ اس کی عمر اکتیس بتیس سال کی رہی ہوگی۔ بہت ہی کنفرمڈ قسم کا بیچلر تھا اور سارے بیچلرز کا مانا ہوا گرو۔ اپنے ایک نہایت ہی سعادت مند چیلے سے یہ بچوں کی سی بات سن کر وہ صرف ہنستا رہا۔ اور اس نے بوبی کو کوئی جواب نہ دیا۔ بوبی بے فکری سے سیٹی بجاتا آگے چلا گیا۔
سڑک کی ڈھلوان پر سے مڑتے ہوئے اس کی نظر ایک بڑی سی دو منزلہ کوٹھی پر پڑی جسے اس نے آج تک نوٹس نہ کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ اس وقت اس کے احاطے میں خوب گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ دروازوں پر روغن کیا جارہا تھا۔ چھت پر بھی نیا سرخ رنگ کیا گیا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کے داڑھی دراز بزرگوار بر آمدے میں کھڑے قلیوں اور نوکروں کو ہدایات دے رہے تھے۔ بڑا کرو فر۔ بڑی شان و شوکت نظر آرہی تھی۔
’’یہ کس کا مکان ہے بھئی؟‘‘ بوبی نے ایک قلی سے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔؟ قاضی جلیل الرحمن کا ایشلے ہال‘‘، قلی نے بڑے رعب سے اسے مطلع کیا۔ اور آگے چلا گیا۔
سیاہ بادل بہت تیزی سے بڑھتے آرہے تھے۔ یک لخت بارش کا ایک زور دار ریلا آگیا۔ بوبی نے اپنی برساتی سنبھال کر جلدی سے ’وائلڈ روز‘ کے راستے چڑھائی طے کرنی شروع کردی۔
وہ جولائی کا دوسرا ہفتہ تھا۔ موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہورہی تھیں۔ چند روز بعد وہ سب مسوری سے واپس آگئے۔
لیکن قاضی جلیل الرحمن اور ان کے بھانجے انیس کو موسمی تعطیلات کے ختم ہوجانے کی پروانہ تھی۔ وہ مراد آباد کے نواح کے زمین دار تھے۔ ان کے پاس وقت اور روپے کی فراوانی تھی۔ اور ان دونوں چیزوں کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے دونوں ماموں بھانجے مسوری آئے تھے اور پانی کی طرح روپیہ بہانے میں مصروف تھے اور اکتوبر سے پہلے ان کا مراد آباد جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
انیس کے والد کا سال بھر قبل انتقال ہوچکا تھا۔ اور اس کے ماموں قاضی صاحب نے خود کو اس کا غیر قانونی مشیر مقرر کررکھا تھا۔ ان کا اثر اس پر بہت زیادہ تھا۔ قاضی صاحب بے حد دل چلے اور شوقین آدمی تھے۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد انہوں نے اندازہ لگایا کہ لڑکا بہت سیدھا اور خاصا کم عمر ہے اور ساری ریاست اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہذا اب تو راوی چین لکھتا ہے۔ چناں چہ انیس کے والد کی برسی کے بعد پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ پہاڑ پر چل کے رہنے کے فوائد اسے ذہن نشین کرانے شروع کیے۔ اس کے حوالیوں موالیوں نے بھی اٹھتے بیٹھتے اس سے کہا کہ سرکار اک ذری تھوڑی دور کسی فرحت بخش مقام پر ہو آویں تو غم غلط ہووے گا۔ وہ فوراً مان گیا اور اپنا لاؤ لشکر لے کر قاضی صاحب کی قیادت میں مسوری آن پہنچا۔ طے کیا گیا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا جھول ہے اور اٹھائی گیروں کا کام ہے جن کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں ہوتا۔ ہری چگ کی طرح آئے اور ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ لہذا ایک عمدہ سی کوٹھی خریدنا چاہئے۔ انیس نے کہا کہ یہاں کی سب سے بڑھیا کوٹھی کون سی ہے وہی خرید لی جائے۔ لوگوں نے بتایا کہ کپور تھلہ ہاؤس یہاں کی بہترین کوٹھی سمجھی جاتی ہے۔ کوٹھی کیا اچھا خاصا محل ہے۔ انیس نے فوراً اپنی چیک بک نکالی۔ ’’لاؤ پھر اسے ہی خرید لیتے ہیں‘‘، اس نے کہا۔
’’اماں یار باؤلے ہوئے ہوکیا۔ کپور تھلہ ہاؤس تم خرید لوگے بھلا؟‘‘ ایک دوست نے قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’حضور دوسرا بہترین مکان بھوپال ہاؤس ہے۔ لیکن اتفاق سے وہ بھی بک نہیں سکتا۔ تیسری بہترین کوٹھی اسپرینگ ڈیل ہے اور چوتھی کوٹھی حضور کے لائق ایشلے ہال ہے‘‘، ایک مصاحب نے اطلاع دی۔
ایشلے ہال خرید لی گئی۔ اسے بہترین ساز وسامان سے آراستہ کیا گیا۔ دہرہ دون سے گوانیز ملازم اور ایک اینگلو انڈین ہاؤس کیپر منگوائی گئی اور ایشلے ہال مسوری کی چوتھی بہترین کوٹھی کہلانے لگی۔
انیس جب پہلے پہل مسوری گیا ہے اس کی تعلیم بقول شخصے صرف سرسی سے سنبھل تلک کی تھی۔ نویں کلاس سے اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ اس سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ البتہ شیر کے شکار اور شہسواری اور برج اور گھوڑ دوڑ کے میدان میں رویل کھنڈ بھر میں دور دور کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنبے کی ایک لڑکی سے کردی گئی تھی جو ایک اور زمین دار کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی جاگیر پر بیٹھا چین کی بنسی بجاتا تھا۔
ایشلے ہال خرید کر مسوری میں جب اس نے رہنا شروع کیا تو وہاں کی پہلی جھلک سے اس کی آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ اور اس نے سوچا کہ یار یہ جو اب تک ہم مراد آبا، سنبھل اور امروہے میں پڑے تھے وہ اتنی عمر تو گویا برباد ہی گئی۔ یہاں تو ایک عجیب وغریب دنیا آباد تھی۔ انسانوں کی بستی تھی۔ یا اندر کا اکھاڑہ۔ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ ایشلے ہال کا مالک اور مسوری کا سب سے زیادہ روپیہ خرچنے والا میزبان، لیکن بالکل تازہ تازہ دیہاتی جاگیردار۔ ادھر ادھر تو کام چل جاتا تھا لیکن خواتین کی سوسائٹی میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ایک اینگلو انڈین لیڈی کمپنین کی خدمات حاصل کیں۔ جو اسے صحیح انگریزی بولنا اور بال روم ناچ سکھائے۔ چند ہی مہینوں میں وہ ایک اور فرفر انگریزی بولنے والا بے حد ویل ڈر سیڈ انیس تھا جو مسوری کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز شخص سمجھا جاتا تھا۔ بالکل ہی کایا پلٹ ہوگئی۔
اگلے سال ۴۳ء کی گرمیوں میں جب کوئینی وجاہت اور ان کا گروپ مسوری پہنچا تو انہیں ایک تازہ وارد اجنبی بال رومز کی سطح پر بہتا نظر آیا۔ جس نے ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی۔ وجاہت اسے پہلے سے جانتا تھا۔ لیکن اس اچانک کایا پلٹ پر وہ بھی اسے نہ پہچان سکا۔ اس سال وہاں سارے مشہور ٹینس اسٹارز جمع تھے۔ مس اعزاز، مس کاجی۔ غیاث محمد۔ علی نگر کی عبیداللہ بہنیں۔ ان کی بھاوج شاہندہ احسان عبیداللہ،بمبئی سے جیوتی بھی حسب معمول آیا تھا۔ سیزن اپنے عروج پر تھا۔ لکھنؤ کی کھوچڑ بہنیں بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھیں۔ نرملا، پرکاش، وائلٹ، روبی اوبز روزا کی پیشین گوئی تھی کہ روبی کھوچڑ اس دفعہ سالانہ مقابلہ حسن میں سگرڈ ربانی سے سبقت لے جائے گی۔ ایشلے ہال کی پارٹیوں میں یہ سب اکثر نظر آتیں۔
ایک روز ہیک منیز میں انیس رقص کا پہلا دور ختم کرکے کوئینی کی طرف آیا اور اسے سلام کرکے وجاہت کے قریب جا بیٹھا۔ ’’ابے اوبغ چونچ۔۔۔ یہ سوٹ بوٹ کیسے ڈانٹ لیا۔ یہ کیا سوانگ بھرا ہے ایں؟‘‘ وجاہت نے اسے ڈانٹ کرپوچھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا جھینپتے ہوئے چپکے سے وجاہت سے پوچھا، ’’کیوں یار اب ٹھیک لگتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘
’’ذرا اس گدھے کو دیکھنا یاسمین ڈارلنگ، خود تو شام کا لباس پہن کر ناچتا پھررہا ہے اور بیوی کو وہیں قصبے میں چھوڑ رکھا ہے۔ ایسے آدمیوں کو تو بس۔۔۔‘‘ کوئینی نے غصے کے ساتھ چپکے سے کہا۔
اس کے اگلے دن کوئینی اپنے مکان کے اوپر کے برآمدے میں آرام کرسی پر کاہل بلی کی طرح لیٹی پڑھنے میں مشغول تھی کہ دفعتاً اسے برآمدے کے شیشوں میں سے نظر آیا کہ نشیب میں خان بہادر اعجاز احمد کے کاٹج کے سامنے رکشائیں کھڑی ہیں۔ بہت سے لوگ آجارہے ہیں اور خوب چہل پہل ہے۔ یہاں تک کہ ان کے باورچی خانہ میں سے دھواں تک اٹھ رہا ہے۔ یہ بے حد عجیب اور نئی بات تھی۔ کیوں کہ خان بہادر صاحب کا خاندان عموماً یا دوسروں کے ہاں مدعو رہتا تھا یا ہوٹلوں میں کھانا کھاتا تھا۔ وہ بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھتی رہی۔ اسی وقت بارش شروع ہوگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد وجاہت اور بوبی برساتیوں سے لدے پھندے بھیگتے بھاگتے نچلی منزل کی گیلری میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی زینے ہی پر تھے کہ کوئینی چلائی، ’’ارے وجو بوبی بھیا جلدی سے اوپرآؤ۔۔۔‘‘
اور جس وقت وجاہت اور بوبی برآمدے کے دریچے میں آکھڑے ہوئے انہیں انیس اپنا بہترین سوٹ پہنے سگار کا دھواں اڑاتا خان بہادر صاحب کے کاٹج میں سے نکلتا نظر آیا۔
’’اچھا۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔‘‘ وجاہت نے بہت آہستہ سے کہا۔ اسے اور بوبی کو اتنا رنجیدہ دیکھ کر کوئینی کا سارا اکسائیٹ منٹ رفو چکر ہوگیا۔ اور وہ بھی بڑی فکر مندی کے ساتھ دونوں کی کرسیوں کے نزدیک فرش پر بلی کی طرح آبیٹھی اور چہرہ اوپر اٹھاکر دونوں لڑکوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔
چچ چچ چچ۔۔۔ بے چارہ سوئیٹ بوبی ممتاز۔ کوئینی نے بے حد ہمدردی سے دل میں سوچا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس سے اس سنجیدگی سے نہ بیٹھا گیا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر بھاگی بھاگی گیلری میں پہنچی اور یاسمین کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔
’’میں نے تم سے کہا تھا کوئینی ڈیرکہ اس سال تو کوئی اور بھی برا جناور گرا ہے۔ اس پچھلے سال والے کسی جناور سے بھی بڑا‘‘ دوسرے سرے پر یاسمین بڑی شگفتگی سے کہہ رہی تھی۔ ’’اور سنو تو۔۔۔ کل میں نے سگرڈ کو نیا لیپرڈاسکن کوٹ پہنے دیکھا۔ ایسا بڑھیا کہ تم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ اور چچی ارنا کا نیا ایوننگ گاؤن۔ اصلی ٹیفیٹا ہے۔ اس جنگ کے زمانے میں اصلی ٹیفیٹا کوئینی ڈارلنگ۔۔۔ اور ٹوٹو کہہ رہی تھی کہ اس نے مسز راج پال سے سنا جنہیں بیگم فاروقی نے بتایا کہ مسز نارنگ نے ان سے کہا کہ آج کل خان بہادر صاحب کے ہاں کی خریداری کے سارے بل لیلارام اور فینسی ہاؤس والے سیدھے ایشلے ہال بھیج دیتے ہیں۔۔۔ اوگوش۔‘‘
’’اوگوش۔۔۔‘‘ کوئینی نے اپنی آنکھیں بالکل پھیلا کر پھولے ہوئے سانس سے دہرایا۔
بارش ہوتی رہی۔ ریسیور رکھ کر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اوپر آگئی اور دریچے میں کہنیاں ٹیک کر بے دلی سے باہر کا منظر دیکھتی رہی جہاں پانی کے پھواروں کے ساتھ بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر تیرتے پھر رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں خان بہادر صاحب کے کاٹج میں پیانو بج رہا تھا اور چچی ارنا اپنے برآمدے میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں۔
چچی ارنا سوئیڈش تھیں۔ جب وہ پہلی بار اپنے شوہر کے ہم راہ ہندوستان آئی تھیں۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ سر آغا خاں کے اس سنہرے دیس میں وہ بھی ایک مرمریں محل سرا میں کسی الف لیلیٰ سلطانہ کی طرح رہا کریں گی۔ لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ مرمریں ستونوں اور ایرانی قالینوں والی محل سرا کے بجائے ان کے شوہر اصغر ربانی لکھنؤ کے ایک نہایت گندے محلے وکٹوریہ گنج میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک بوڑھی ماں ہے جو ہر وقت امام کی مجلسوں میں چلا چلا کر رونے میں مصروف رہتی ہے۔ چار پانچ جاہل اور کالی اور سخت بے ہنگم بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ ان سب عورتوں کی ساری سوسائٹی جھوائی ٹولہ اور مولوی گنج اور نخاس کی گلیوں تک محدود ہے جہاں وہ سب ڈولیوں پر کتے کی طرح ہانپتے ہوئے انسانوں کے کاندھوں پر لد کے، پردے دار تانگوں میں سوار ہوکے کبھی کبھار اسی طرح کے دوسرے گندے مکانوں اور ان ہی کی قسم کی دوسری بے ہنگم عورتوں سے ملنے جایا کرتی ہیں۔
ارنا کرسینا پر یہ سب دیکھ کر بے ہوشی کا سا عالم طاری ہوگیا۔ ان کے پیارے شوہر نے انہیں دلاسا دیا کہ جب ان کا کاروبار چمک جائے گا تو وہ شہر سے باہر گومتی کے کنارے سول لائنز میں یا چھاؤنی میں کوٹھی لے کر رہا کریں گے۔ لیکن وہ برسوں تک اس ٹاٹ کے پردوں والے مکان سے نہ نکل سکیں۔ ان کے بالکل سونے کی رنگت کے دمکتے ہوئے بال تھے۔ نیلی آنکھیں تھیں اور گلاب کے شبنم آلود شگوفوں کی ایسی رنگت تھی۔ لیکن وائٹ ویز کے ہاں کے ملبوسات پہن کر چھتر منزل کلب میں جگمگانے کے بجائے ان کی قسمت میں تو یہی زک بھوگنا لکھا تھا کہ ٹوریہ گنج کے اس مکان کی ایک صخچی میں بیٹھی ٹھیٹ ہندوستانی ماؤں کی طرح محض سگرڈ کو پالتی رہیں اور اپنے میاں کو کوسا کریں۔ اصغر ربانی اٹھتے بیٹھتے انہیں اطمینان دلاتے، ’’بس ڈارلنگ چند روز کی بات اور ہے پھر ہم چل کر الگ رہیں گے۔ تمہیں کون سی جگہ زیادہ پسند ہے، ٹرانس گومتی سول لائنز یا دل کشا؟‘‘
’’جہنم میں جائے تمہاری ٹرانس گومتی‘‘ اور ارنا کرٹینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ واقعی یہ ان کے لیے بڑا صبر آزما زمانہ تھا۔ اچھی اچھی ہندوستانی لڑکیوں کے جنہیں باہر کی ذراسی بھی ہوا لگ چکی ہوتی۔ اس ماحول میں دہشت زدہ ہوجاتیں۔ وہ پھر خالص ولائتی تھیں۔
کئی برس اسی طرح لشٹم پشٹم گزر گئے۔ آخر ایک سال اصغر ربانی کسی طرح روپیہ فراہم کرکے انہیں گرمیاں گزارنے کے لیے مسوری لے گئے۔ وہاں چچی ارنا کی ملاقات اصغر ربانی کے ایک دوست خان بہادر اعجاز احمد سے ہوئی جو ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر تھے، اور بڑے ٹھاٹ سے وہاں زندگی گذارتے تھے۔ چچی ارنا نے ان سے شادی کرلی۔ اور سگرڈ کوڈو اسٹاک اسکول میں داخل کردیا۔ اور اسی طرح کی زندگی گزارنے لگیں جس کی انہیں اتنی شدید تمنا تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک کسی کو اصغر ربانی کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے لیے طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں۔ کسی نے انہیں جمنا کے کنارے داڑھی اور جٹائیں بڑھائے، سادھوؤں کے ساتھ گھومتے دیکھا۔ آخری اطلاع ان کے متعلق یہ تھی کہ کاروبار میں سخت نقصان اٹھانے کے بعد اپنا باقی ماندہ روپیہ لے کر وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔
سگرڈ جب بڑی ہوئی اس وقت تک وہ وکٹوریہ گنج کے مکان اور اپنے باپ کو بالکل بھول چکی تھی۔ وہ اب مسوری کی ’بال آف فائر‘ کہلاتی تھی۔ اس کا رنگ بالکل سفید نہیں تھا، اس میں ہلکے ہلکے ہندوستانی سانولے پن کی جھلک تھی۔ اس کی آنکھیں بچوں کی طرح بڑی بڑی اور سیاہ تھیں۔ چچی ارنا کیتھولک تھیں۔ کیتھولک مذہب میں جو گمبھیرتا ہے اس کا پورا پورا اثر سگرڈ کی اس طبیعت نے قبول کیا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب طرح کی فرشتوں کی سی معصومیت برستی تھی۔ سوسائٹی لڑکیوں میں اکثر جو چھچھورا پن سطحیت اور چمک دمک ہوتی ہے وہ اس سے کوسوں دور تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے دنیا سے الگ تھلگ، سینٹ میری کی مقدس راہبات کی کسی خانقاہ میں سے نکل کر چلی آرہی ہے۔
’’خدا وندا۔۔۔ کیا سگرڈ ایسی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔‘‘ کوئینی نے بر آمدے کے دریچے میں کھڑے کھڑے ایک اور جمائی لے کر بڑے دکھ کے ساتھ سوچا۔ اسے پھر بوبی ممتاز کا خیال آیا جو سمجھتا تھا کہ سگرڈ ہی وہ لڑکی ہے جس کا وہ جنم جنم سے انتظار کرتا آیا تھا۔ جو روبی کھوچڑ اور انوری خاں اور نشاط اسٹینلے اور ان کی طرح کی دوسری لڑکیوں سے بہت بلند ہے۔ بہت بلند اور بہت مختلف۔۔۔ خداوندا۔۔۔وہ بے دلی سے وادی کے نیلے اور سفید پھولوں پر بارش کی پھواروں کو برستا دیکھتی رہی۔ چچی ارنا کے کاٹج میں سے پیانو کی آواز بدستور بلند ہو رہی تھی۔ کوئی بڑے اچھے سروں میں ’’سوانی۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو‘‘ کا پرانا نغمہ بجارہا تھا۔
اسی شام ’وائلڈ روز‘ سے واپسی پر بوبی ممتاز کو راستے میں نشاط اسٹینلے مل گئی۔ نشاط اسٹینلے بمبئی ریڈیو سے انگریزی میں اناؤنسمنٹ کرتی تھی اور کمرشل آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی جو انتہائی بدشکل تھی۔ لیکن نہ جانے کس طرح انتہائی دل کش معلوم ہوئی تھی۔
’’اوہلو بوبی ممتاز۔ تمہیں آج اتنے چاندوں کے بعد دیکھا ہے۔ کہاں تھے؟‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ ’’کہیں نہیں۔۔۔ یہیں تھا۔۔۔‘‘ بوبی نے اکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا اور اپنی شراب انڈیلنے والی آنکھیں دوسری طرف گھما دیں۔ وہ ایک ہرنی کی طرح جست بھر کے پگڈنڈی پر سے پھر ان آنکھوں کی زد میں آکھڑی ہوئی۔
’’اوجیزس۔۔۔ صدیوں کے بعد نظر آئے ہو۔ کیا سگرڈ ربانی کے چھن جانے کا سوگ منا رہے ہو؟ بے وقوف ہو۔ سوگ کرنے کے بجائے آؤ اس حادثے کو سے لے بریٹ کریں‘‘، اس نے بشاشت سے کہا۔ اور اسے کھینچتی ہوئی اسٹینڈرڈ کی طرف لے گئی۔ اور وہاں ایک لاؤنج میں پہنچ کر دھم سے ایک کرسی پر گرتے ہوئے وہ بیرے کو احکامات دینے میں مصروف ہوگئی۔
بوبی بے دلی سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے اس لڑکی سے اتنی نفرت تھی۔ پھر بھی اس لڑکی میں ایک عجیب نا قابل بیان، تکلیف دہ کشش تھی۔ اتنی بدشکل۔۔۔ بدشکل۔۔۔ اس نے کوئی تشبیہ سوچنی چاہی۔ لیکن نشاط اسٹینلے کی شخصیت سے موازنہ کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ یہ لڑکی جو فخریہ کہتی تھی کہ مجھ سے بڑا فلرٹ اس روئے زمین پر آپ کو دستیاب نہ ہوگا۔ وہ الٰہ آباد کے ایک بہت اعلی عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور بڑی ہمدرد، بڑی فیاض بے حد نیک دل لڑکی تھی۔ اکثر وہ جذباتی بن کر اپنے دوستوں سے کہتی۔ لوگ مجھے اتنا برا سمجھتے ہیں، کاش کوئی مجھے پہچان سکتا کاش لوگ اتنے بے وقوف، گدھے نہ ہوتے۔
پھر اس نے بیرے کی طرف سے مڑکر بوبی سے، ’’بوبی ڈیر کیوں ایسی رونی شکل بنائے بیٹھے ہو۔ بے وقوف ذرا اور دریچے سے باہر نظر ڈالو۔ کائنات اتنی بشاش ہے،ارغوانی بادل جھکے ہوئے ہیں، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں وادیوں میں نیلے پھول کھل رہے ہیں۔ کیا ایسے میں تم رنجیدہ رہ سکتے ہو؟ الو ہو بالکل۔‘‘
بوبی ہنس پڑا۔ اور پھر وہ دونوں بچوں کی سی مستعدی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے اور قہقہے لگانے میں مشغول ہوگئے۔ باہر پہاڑوں کی برف پر جگمگاتی ہوئی چاندنی زیادہ خوش گوار ہوگئی۔‘‘سوانی ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔‘‘ کا پامال نغمہ جو ڈانس بینڈ والے ہال کے سرے پر بجا رہے تھے۔ یک لخت بالکل نیا بہت انوکھا اور بے حد اچھا معلوم ہونے لگا۔
دفعتاً بوبی کو خیال آیا۔ میں اس وقت یہاں نشاط اسٹینلے کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر کوئینی نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو اسے کتنا شوک پہنچے گا۔ پھر اس نے ضدی بچوں کی طرح سر جھٹک کر سوچا۔ اگر اس وقت کوئینی اور اس کی جیسی باعزت اور اونچی لڑکیوں کی ایک پوری بریگیڈ یہاں آکر کھڑی ہو جائے اور مجھے اس کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر بے ہوش ہوجائے تب بھی میں ذرا پروانہ کروں گا۔ قطعی پروانہ کروں گا۔ یہ لڑکی کتنی پیاری تھی کتنی ہمدرد تھی۔ بالکل کسی پیاری سی بہن کی طرح ہمدرد۔ اسے یادآیا کل کسی نے اس کے متعلق کیسی کیسی عجیب اور خوف ناک باتیں اسے بتائی تھیں۔ ارے نہیں نشاط۔ اس نے چلا کر کہنا چاہا۔ تم ایسی نہیں ہو۔ اس کا جی چاہا کہ وہ کرسی پر چڑھ کر سارے اسٹنڈرڈ، ساری مسوری، ساری دنیا کو بتائے۔ یہ لڑکی نشاط اسٹینلے بری نہیں ہے۔ تم سب خود برے ہو۔ تم میں اخلاقی قوت نہیں ہے۔ اس لیے اپنی جھینپ مٹانے کی خاطر تم اسے برا کہتے ہو۔۔۔ تم لوگ۔۔۔
’’ہلو بوبی بھیا۔۔۔ تم یہاں ہو۔ ہم تمہیں سارے میں ڈھونڈ آئے‘‘ اس نے چونک کر دیکھا۔ اس کے سامنے کوئینی کھڑی تھی جو اسی وقت لو، فریڈ اور کملا کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ ذرا گھبرا کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور اس کے لیے کرسی خالی کردی۔ نشاط اسی طرح بے فکری سے کرسی پر نیم دراز ایک گیت گنگناتی رہی۔
’’ہلو کوئینی‘‘ اس نے بے پروائی سے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو نشاط‘‘ کوئینی نے بڑے ہی با اخلاق لہجے میں جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا تھا کہ اس کا روکھا پن اور مربیانہ، بے تعلق انداز سب کو محسوس ہوجائے۔ اسے جواب دیا۔
’’ہمیں ابھی زینے پر روبی کھوچڑ ملی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اس سال مقابلہ حسن میں اس کا اول آنا یقینی ہے۔ کیوں کہ اس کی حریف سگرڈ ربانی اس مرتبہ مقابلہ میں شامل نہیں ہورہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کی اجازت نہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات میں شرکت کرتی پھرے‘‘، لو نے جھک کر بوبی کو بتایا۔
’’انیس کی اجازت نہیں؟‘‘ نشاط نے دفعتاً اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’اسے اس قدر اختیارات سگرڈ پر کب سے حاصل ہو گئے۔ کیا وہ اس سے شادی کر رہا ہے؟‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔ شادی کون مسخرہ کر رہا ہے‘‘، لو نے بے فکری سے جواب دیا۔ ’’ہاں۔ بوبی بھیا ہم تم سے یہ کہنے آئے تھے کہ کل موتی بھائی نے ہم سب کو ہیک مینز مدعو کیا ہے۔ سگرڈ کی دعوت ہے در اصل۔ موتی بھائی کہہ رہے تھے کہ اس سیزن میں یہ ان کی پہلی پارٹی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ ضرور آنا بوبی۔ اور تم بھی نشاط۔۔۔‘‘
’’چلو بوبی ڈیر ناچیں۔۔۔ ‘‘ نشاط نے جمائی لیتے ہوئے بوبی سے کہا۔
اگلی صبح، بہت تھکا ماندہ اور رنجیدہ شکل بنائے موتی لال ’وائلڈ روز‘ پہنچا۔ ’’لو بھئی وجو‘‘، موتی بھائی پہنچے، ‘‘کوئینی نے نٹنگ کرتے کرتے اوپر کے برآمدے کے دریچے میں سے جھانک کر وجاہت سے کہا۔ اور اس قدر فلسفیوں کی طرح چل رہے ہیں کہ حد ہے۔ کیا مصیبت ہے آج کل جسے دیکھو ایسا لگتا ہے کہ بس اب رو دے گا۔‘‘
موتی لال زینے کے دروازے میں سے برآمدے میں داخل ہوگئے۔
’’دیکھی تم نے اس قاضی انیس الرحمن کی حرکت۔ سگرڈ کو اب کسی سے ملنے نہیں دیتا، ‘‘اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے تم نہیں جانتے چچی ارنا کی سیاست موتی بھائی‘‘، کوئینی نے اس سے کہا۔ ’’جہنم میں جائیں چچی ارنا‘‘، وہ اکتا کر دریچے سے باہر دیکھنے لگے۔ جہاں سر مئی بادل تیرتے پھر رہے تھے۔ ’’بہر حال تم لوگ آج میری پارٹی میں تو ضرور آؤ گے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’قطعی‘‘، وجاہت نے شیو کرتے کرتے جواب دیا اور آئینے میں اپنی ناک کو بڑے غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
’’میں جلد ہی بمبئی جارہا ہوں‘‘ جیوتی لال نے دفعتاً سر اٹھا کر کہا۔ ’’کیوں۔۔۔؟ یہ کیا وحشت ؟ کم از کم ٹینس کے سیمی فائنلز تک تو رک جاؤ۔ کل عالم کا جی تمہیں پوچھ رہی تھی‘‘، کوئینی نے کہا۔ ’’جہنم میں جائے عالم کا جی بھی؟‘‘ وجاہت نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جیوتی لال ہنسنے لگے۔ وہ عموماً اتنا نون سیریس رہتے کہ اسے اتنا سنجیدہ اور غمگین دیکھ کر کوئینی کو بے حد ہنسی آئی۔
تیسرے پہر کو، جب کہ سب لوگ جیوتی لال کی پارٹی میں جانے کی تیاری میں مصروف تھے، کسی دل چلے نے ایشلے ہال جاکر انیس کو یہ خبر دی کہ موتی لال نے آج سگرڈ کو مدعو کیا ہے۔
’’کب؟ کہاں۔ کس وقت؟‘‘ انیس یہ سن کر تلملا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ اس کی موجودگی میں کسی اور کی یہ ہمت کہ سگرڈ کو باہر لے جائے۔ ’’اگر موتی لال یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ایک اکیلے شہزادہ گلفام ہیں تو انہیں بہت جلد اس مغالطے سے نکلنا چاہئے‘‘، اس نے غصے سے کہا۔
جیوتی لال کی پارٹی کا وقت چھ بجے تھا۔ اس وقت سوا پانچ بجے تھے۔ دفعتاً انیس کو کوئی خیال آیا، وہ تیز تیز قدم رکھتا ایشلے ہال کی سیڑھیاں اترکر مال پر آیا اور ہیک منیز کی طرف روانہ ہوگیا۔ مسز ہیک مین کے پاس پہنچ کر اس نے کہا وہ ریسٹوران کا ایک حصہ فوراً اپنے لیے مخصوص کروانا چاہتا ہے۔ مسز ہیک مین نے جواب دیا کہ افسوس ہے کہ وہ حصہ ایک ہفتے پہلے ہی آج شام کی ایک پارٹی کے لیے مخصوص کروا لیا گیا ہے۔
’’کیا آپ کسی طرح اس ریزرویشن کو کینسل نہیں کر سکتیں؟ اس نے پوچھا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے مسٹر انیس۔ اس کا پیشگی کرایہ دے دیا گیا ہے‘‘، انہوں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج شام یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے بچوں کی طرح ضد کر کے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مسٹر انیس‘‘، مسز ہیگ مین نے جواب دیا۔ ’’کسی ریسٹوران یا رقص گاہ یا کسی اور پبلک جگہ پر آپ لوگوں کو آنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ’’یہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب آپ پورا ہیک منیز اپنے لیے مخصوص کر والیں‘‘، مسز ہیک مین نے ہنس کر جواب دیا۔
’’میں اس کے لیے تیار ہوں‘‘، انیس نے تقریباً چلا کر کہا۔ ’’آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پورے ہیک مینز کا ایک شام کا کرایہ سات ہزار روپے ہوگا؟‘‘ مسز ہیک مین نے جواب دیا۔ ’’صرف۔۔۔؟ یہ لیجئے۔۔۔‘‘ انیس نے اپنی وہ لافانی چیک بک نکالی اور سات ہزار کا ایک چیک کاٹ کر حیرت زدہ مسز ہیک مین کے حوالے کیا۔
جیوتی لال کا ریزرویشن اس طرح خود بخود کینسل ہوگیا۔ بیروں نے جو چند لوگ ادھر ادھر آئے بیٹھے تھے۔ ان سے مودبانہ عرض کی، ’’آج سارا ہیک مینز مخصوص کروا لیا گیا ہے اس لیے آپ حضرات تشریف لے جائیے۔‘‘ ساری رقص گاہ خالی ہوگئی۔ چھ بجا ہی چاہتے تھے۔ قاضی انیس الرحمن پنولین کی سی
- क़ुर्रतुलऐन-हैदर
جولائی ۴۴ء کی ایک ابر آلود سہ پہر جب وادیوں اور مکانوں کی سرخ چھتوں پر گہرا نیلا کہرا چھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر تیرتے ہوئے بادل برآمدوں کے شیشوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ سوائے کے ایک لاؤنج میں، تاش کھیلنے والوں کے مجمع سے ذرا پرے ایک میز کے گرد وہ پانچوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔
وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پر بھاکر، ناہید انور امام،راج کمار آسمان پور، لفٹنٹ کرنل دستور، رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت راون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا، ’’ان پورنا پربھاکر، برجیشور راؤ پر بھاکر، ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’جا‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کےمگر جھلکورے کھارہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امام گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کا رچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہوکر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شاندار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘
برابر کی میزوں پر زور وشور سے برج ہورہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جاسکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کردیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جاچکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔
ان پورنا پر بھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس نے پچھلی شام فی فی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکاد کا آدمی آجارہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران،مصر، انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے، پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سناکر ختم کرچکے تھے اور اب مکمل قناعت،اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کرلیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔
برجیشور راؤپر بھاکر اسی وقت چہل قدمی کرکے واپس آیا تھا اور لاؤنج کے نصف دائرے کے دوسرے سرے پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ گولف اور اسٹاک ایکسچینج پر تبادلہ خیال میں مصروف تھا۔ قریب کی ایک میز پر انعام محمود سپر نٹنڈنٹ پولیس جو عنقریب ڈی آئی، جی ہونے والے تھے برج کھیلتے کھیلتے سوچ رہے تھے کہ اگر وہ سیاہ آنکھوں اور گھنگھریالے بالوں والی پرتگالی لڑکی فی فی جس نے کل رات پیانو بجایا تھا، کم از کم آج ہی کی سرد اور غیر دل چسپ شام ان سے ملاقات کرسکتی تو بہت غنیمت تھا۔ اس سلسلے میں مزید ڈپلومیٹک گفتگو کی غرض سے راج کمار روی کی کرسی کی طرف جھک کر انہوں نے آہستہ سے کچھ کہا۔ راج کماری روی نے بے تعلقی سے سرہلایا۔ گویا بھئی ہم سادھو سنگ آدمی ہمیں موہ مایا کے اس چکر سے کیا۔ کرنل جہانگیر نے سگار کی راکھ جھٹک کر ذرا بلند آواز سے پکارا، ’’برجیش چلو کم از کم بلیرڈ ہی کھیلیں۔‘‘
’’روی کو لے جاؤ۔۔۔ ہم بے حد ضروری مسائل حل کررہے ہیں۔‘‘برجیش نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا اور پھر اپنی باتوں میں اس انہماک سے مصروف ہوگیا گویا اگر اس نے دوسری طرف ذراسی بھی توجہ کی تو ٹاٹا اور سپلا کے شیرز کی قیمتیں فوراً گرجائیں گی۔
’’ان پورنا رانی،دیکھو تو تمہارا شوہر کس قدر زبردست بوریت کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ کرنل جہانگیر نے اکتا کر شکایت کی۔
’’بھئی اللہ۔۔۔ برجیش گڈو ہئی اتنابور۔ جائیے آپ لوگ جاکر کھیلیے ہم تو اب بیگم ارجمند کے ساتھ چائے پینے جارہے ہیں۔‘‘ ناہید نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ناہید بیگم تمہیں کنور رانی صاحبہ سے جو تازہ ترین خبریں معلوم ہوں، ہمیں رات کے کھانے پر ضرور بتانا۔‘‘ راج کمار روی بھی اٹھتے ہوئے بولے۔
’’قطعی‘‘ناہید اپنی نقرئی آواز میں تھوڑا سا ہنسی پھر وہ دونوں اپنے اوور کوٹ اور شال سنبھالتی وسط کے ہال کے بڑے زینے کی طرف چلی گئیں۔
’’فی فی۔۔۔ فی فی۔۔۔ کیا نام ہے واللہ! گویا جلترنگ بج رہی ہے۔‘‘ انعام محمود نے چند لمحوں تک ڈون کار لوکو کرسی پر سے اتر کے اپنے چھوٹے چھوٹے سفید قدموں سے اپنی مالکہ کے پیچھے پیچھے بھاگتا دیکھتے رہنے کے بعد اب ذرا اونچی آواز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’بہت تیز ہوتے جارہے ہو بھائی جان۔ ذرا نیچے سے آنے دو اپنی بیگم کو کان کھنچوائے جائیں گے تمہارے۔‘‘ کرنل جہانگیر نے ڈانٹ پلائی۔
’’خواتین کہاں گئی ہیں؟‘‘ انعام محمود نے پوچھا۔
’’بیگم ارجمند کے کمروں کی طرف۔‘‘
’’رانی بلیر سنگھ بھی ہوں گی وہاں؟‘‘
’’یقینا‘‘
’’نفرت ہے مجھے اس بڑھیا سے۔‘‘انعام محمود پھر تاش کی طرف متوجہ ہوگیے۔ شام کی چائے کے بعد سب پھر لاؤنج میں جمع ہوئے اور سوچا جانے لگا۔ کہ اب کیا کیا جائے۔
’’کاش خورشید ہی آجاتا۔‘‘ راج کمار روی نے خواہش ظاہر کی۔
’’خورشید۔۔۔ واقعی۔۔۔ جانے آج کل کہاں ہوگا۔‘‘کرنل جہانگیر نے کہا۔ اور پھر سب مل کر بے حد دلچسپی سے کسی ایسے شخص کے متعلق باتیں کرنے لگے جسے خواتین بالکل نہیں جانتی تھیں۔ اکتا کر ناہید نے مسوری ٹائمز کا تازہ پرچہ اٹھالیا اور اس کے ورق پلٹنے لگی۔
سب ذلیل فلم دکھائے جارہے ہیں۔ روبرٹ ٹیلر۔ اس سے مجھے نفرت ہے۔ ڈور تھی لیمور میرے اعصاب پر آجاتی ہے۔ کیتھرین ہپ برن روز بروز زیادہ بد شکل ہوتی جارہی، یہ ہیک منیز میں کسی روسی نام کا کیبرے ہورہا ہے۔ وہ بھی سخت خرافات ہوگا۔۔۔‘‘ راج کمار روی نے ناہید کی کرسی کے پیچھے سے پرچے کے صفحات پر جھانکتے ہوئے کہا، ’’لہٰذا بہترین پروگرام یہی ہے کہ شریفوں کی طرح گھر میں بیٹھ کر قہوہ پیا جائے۔‘‘
’’اور ان پورنا رانی سے پیانو سنا جائے۔‘‘کرنل جہانگیر نے جلدی سے صاحبزادہ ارجمند کی تجویز میں اضافہ کر دیا۔ سب ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کرکے ان پورنا کو دیکھنے لگے جو اپنی شیریں ترین مسکراہٹ بکھیرتی اسی وقت بیگم ارجمند کے ساتھ ان کی میز کی طرف آئی تھی۔ وہ سب لاؤنج سے نکل کر نشست کے بڑے کمرے میں آگیے۔
’’اب ان پورنا رانی کو پکڑو۔‘‘کسی نے برابر کے کمرے میں زینے پر سے اترتے ہوئے آواز دی۔
’’جادو جگاتی ہے اپنی انگلیوں سے لڑکی۔‘‘ کنور رانی بلیر سنگھ نے ویکس سونگھتے ہوئے اپنی بزرگانہ بلندی پر سے ان پورنا کی تعریف کی اور پھر رومال میں ناک ٹھونس کر ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’ناہید بیٹا، تمہیں شاید زکام ہوگیا ہوگا؟‘‘ ان پورنا جب پیانو پر سے اٹھ آئی تو صاحبزادہ ارجمند نے ناہید کو مخاطب کیا۔
’’ارے نہیں رجو بھیا۔۔۔ کیا گائیں ہم؟‘‘ ناہید نے ہنستے ہوئے چاروں طرف نظر ڈال کر دریافت کیا۔
باہر بارش شروع ہوچکی تھی۔ خنکی بڑھتی جارہی تھی۔جب ناہید اپنی نقرئی آواز میں ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپ رہی تھی اس وقت ان پورنا کو اپنی نٹنگ سنبھالتے ہوئے دفعتاً خیال آیا۔۔۔ زندگی کم از کم اتنی ناگوار نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے پر خطر طوفانوں اور تند رو آندھیوں سے محفوظ ایک چھوٹے سے گرم اور روشن کمرے میں آگ کے سامنے بیٹھے چوکو لیٹ پیتے پیتے ہی عمر بیتی جارہی ہے۔ کیا بچپنا ہے۔ اسے اپنے اس تخیل پر ہنسی آگئی۔ تان پورے کے تار اور پیانو کے پردے چھیڑتے ہوئے اسے ہمیشہ چاندنی رات اور کنول کے پھولوں کا خیال آجاتا تھا۔ اور اس سمے ہوٹل کی نچلی منزل کے چاروں طرف کیاریوں میں لہلہاتے سفید پھول جولائی کی بارش میں نکھر رہے تھے۔ چاند کبھی کبھی بادلوں میں سے نکل کر دریچے میں جھانک لیتا تھااور پھر چھپ جاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے فضاؤں سے پگھلی ہوئی موسیقی برس رہی ہے۔
سچ مچ موسیقی کے بغیر اس روکھی پھیکی اجاڑ زندگی میں کیا رہ جاتا۔ درگا اور پوروی اور ماروا اور بہار۔ پیو پل نہ لاگیں موری انکھیاں۔۔۔ اور تان پورے کے چاروں تاروں کی گمبھیر گونج میں جیسے ہستی کی ساری تڑپ،سارا درد سمٹ آتا ہے۔ اور گھنگھروؤں کی جھنکار میں اور منی پوری کی لچک، بھرت ناٹیم کی گونج اور گرج اور کتھک کی چوٹ اور دھمک میں۔۔۔ اور جب بھیگی رات کے گہرے سناٹے میں کہیں اور گتار بجتا ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ ان پورنا نے سوچا۔ اس خوب صورت آرام دہ دنیا میں جو لوگ دکھی ہیں انہیں سب کو رات کے کھانے کے بعد ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپنا چاہئے۔
ان پورنا نے نٹنگ کرتے کرتے کشن پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے ناہید کا یہ گیت بہت پسندتھا جو وہ اس وقت گار رہی تھی۔ اسے ناہید کے وہ سارے پوربی گیت پسند تھے جو اس نے اکثر سنائے تھے۔ آہ۔۔۔ موسیقی۔۔۔ موسیقی۔۔۔ برجیش اکثر مذاقاً کہا کرتا تھا کہ جس طرح قصے کہانیوں کی پریوں اور شہزادیوں کی جان کسی بیگن، سرخ مرچ یا طوطے میں بند ہوتی ہے، اسی طرح ان پورنا کی جان اس کے تان پورے میں بند ہے۔ جب وہ پیانو بجاتی تھی تو برجیش اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے کلکتے کے کلایو اسٹریٹ کی تجارتی خبریں پڑھتا تھا یا آرام سے کرسی پر لیٹے لیٹے سوجاتا تھا اور ناہید خوف زدہ ہو کر کہتی ہائے اللہ کیسا ٹپکل قسم کا شوہر ہے!لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔
برجیش نے ان پورنا کوچھ سات سال قبل پہلی بار مہا بلیشور میں دیکھا تھا۔ اور اس کے صرف ایک ماہ بعد ہی ان پورنا کو اپنے نام کے آگے سے شیرالےہٹا دینا پڑا تھا۔ وہ دونوں سال کا زیادہ حصہ ریاست کے صدر مقام پر راجپوتانہ میں گزارتے تھے۔ جاڑوں میں کبھی کبھی اپنے عزیزوں سے ملنے پونا یا بمبئی چلے جاتے اور گرمیوں میں شمالی ہند کے پہاڑوں پر آجاتے۔ اب کی مرتبہ انہوں نے طے کیا تھا کہ اگلے سال وہ دونوں کشمیر جائیں گے جو ان پورنا نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ اسے نینی تال کی جھیل میں رقصاں روشنیاں پسند تھیں اور مسوری کی بے پناہ رنگینیاں اور چہل پہل۔ شملہ بہت غیر دلچسپ اور بہت سرکاری تھا۔ زیادہ سے زیادہ تفریح کرلی، جاکر بے وقوفوں کی طرح’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘ پر بیٹھ گیے یا ڈے وی کو چلے گیے۔ ان پورنا کو مسوری پسند تھی اور اپنا شوہر اور اپنے دونوں بچے اور اپنے مخلص اور دلچسپ دوستوں کا حلقہ جو ہر سال وسیع تر ہوتا جاتا تھا۔ اسے اس صوبے کی سب چیزیں بہت اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کا کلچر ،ان کا باتیں کرنے کا خوب صورت انداز، ان کے شاندار اور تصویروں ایسے لباس ،ان کے رنگ برنگے غرارے اور سیاہ شیروانیاں، ان کے مشاعرے، ان کی کلاسیکل موسیقی۔
جب موسم بہت غیر دل چسپ ہوجاتا یا بارش کی وجہ سے وہ ناہید کے گھر تک نہ جاسکتی تو اپنے کمرے میں بچوں کے لیے نٹنگ کرتی، یا برآمدے میں بیٹھ کر اپنی ہمسایہ بیگم ارجمند سے باتیں کرتی۔ اس کے دونوں بچے پچھلے سال سے کین ویل ہاؤس میں پڑھ رہے تھے۔ بڑا لڑکا بالکل برجیش جیسا تھا۔ سنجیدہ، کم سخن، لیکن اپنی بات منوانے والا۔ بچی ان پورنا کی طرح تھی۔ شیریں تبسم اور سبز آنکھوں والی۔ چار سال کی عمر میں کتھک ناچ ایسا ناچتی تھی کہ بس دیکھا کیجئے۔ یہ ان پورنا کا محبوب مشغلہ تھا کہ آرام کرسی پر لیٹ کر میرؔا کی آئندہ زندگی کے لیے پروگرام بنائے اور اس نے سوچا تھا کہ اگلے سال وہ اسے شمبھو مہاراج کے پاس لکھنؤ لے جائے گی۔
ناہید اپنا گیت ختم کرچکی تھی اور خوب زور زور سے تالیاں بجائی جارہی تھیں۔ باہر بارش تھم گئی تھی اور رات کا اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ڈنر کے بعد سب پھر وہاں جمع ہوگیےاور وہ کمرہ باتوں اور قہقہوں کے شور سے جاگ اٹھا۔ سب دیواروں کے قریب بکھرے ہوئے صوفوں پر بیٹھ کر قہوہ،سگریٹ، پائپ اور دوسری اپنی اپنی پسند کی چیزیں پینے میں مصروف ہوگیے۔ مختلف قسم کی باتیں شروع ہوئیں۔ جنگ کی صورت حال، سوسائٹی کے تازہ ترین اسکنڈلز، ٹینس اور کرکٹ کے متعلق پیشین گوئیاں، بھتنے روحیں، قسمت کی لکیریں۔
’’بھئی ہم کو تو اب نیند آرہی ہے ہم جاتے ہیں۔ شب بخیر‘‘ برجیش اپنی چائے کی پیالی ختم کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹھو ابھی کیا بد مذاقی ہے‘‘کرنل جہانگیر نے ڈانٹا۔
’’بے چاری ان پورنا۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔ ایسی شاعرانہ، آرٹسٹک مزاج کی لڑکی اور کیسے روکھے پھیکے آدمی سے پالا پڑا ہے۔‘‘ بیگم ارجمند نے ذرا دور دریچے کے نزدیک رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے کہا۔
’’آہ۔ یہ ہمارے ہندوستان کی بے جوڑ شادیاں۔‘‘ کنور رانی بلبیر سنگھ نے ناک پر سے رومال ہٹاکر سماج کی دگرگوں حالت پر ایک مختصر سی آہ بھری اور پھر ویپکس سونگھنے لگیں۔ بیگم ارجمند اور کنور رانی بلبیر سنگھ سارے دن اپنے ونگ میں اپنے کمروں کے آگے برآمدے میں بیٹھی بیٹھی مسوری بھرکے اسکنڈلز ڈائریکٹ کرتی رہتیں۔ سوائے کی دوسری منزل سے دنیا کا ایک جنرل طائرانہ جائزہ لے کر واقعات عالم پر تبصرہ اور آخری فیصلہ صادر کیا جاتا تھا۔ رفعت آرا اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی ہے۔ آمنہ طلاق لے رہی ہے۔ نسیم نے ہندو سے شادی کرلی۔ میجر ارشاد تیسری بار عشق میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یہ ناہید جو مستقل بیمار رہنے لگی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے قطعی اس کنگ جارج میڈیکل کالج والے خوبصورت ڈاکٹر سے عشق ہوگیا ہے۔ جو بیگم حمیداللہ کا بھانجا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں نے بیگم ارجمند کے بر آمدے کا نام ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ٹو‘‘ ہیک مینزکی پچھلی گیلری تھی۔
اور پھر دفعتاً اپنی اپنی باتیں چھوڑ کر سب کرنل جہانگیر کی طرف بے حد دلچسپی سے متوجہ ہوگیے،جو تھوڑی دیر سے فی فی کا ہاتھ دیکھنے میں مشغول تھے۔ فی فی گوا کے پرتگالی حاکم اعلیٰ کی سیاہ آنکھوں اور سیاہ بالوں والی لڑکی تھی۔ جو چند روز قبل اپنے والدین کے ہمراہ بمبئی سے آئی تھی اور آتے ہی اپنے اخلاق اور اپنی موسیقی کی وجہ سے بے حدہر دلعزیز ہوگئی تھی۔ سب اپنے اپنے ہاتھ دکھانے لگے۔ بھوتوں اور روحوں کے قصے چھڑ گیے۔ باتوں باتوں میں کرنل جہانگیر نے دعویٰ کیا کہ وہ اسی وقت جس کی چاہوروح بلا دیں گے۔
اور پھر سب کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا۔ اب موسم کے ’ڈل‘ ہونے کی شکایت نہ کی جاتی۔ جب بارش ہوتی یا برج میں جی نہ لگتا تو سب کرنل جہانگیر کے سٹنگ روم میں جمع ہوجاتے۔ برج کی میز پر انگریزی کے حروف تہجی الگ الگ کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ایک دائرے میں پھیلا دیے جاتے۔ بیچ میں ایک گلاس الٹا الٹا رکھ دیا جاتا۔ سب چاروں طرف چپ چاپ بیٹھ جاتے۔ گلاس پر دو انگلیاں ٹکادی جاتیں اور پھروہ گلاس خود بخود اچھلتا ہوا مختلف حروف پر جا رکتاا اور ان حروف کوجمع کر کے روحوں کا پیغام حاصل کیا جاتا ۔ اس میں بڑے مزے کے لطیفے ہوتے۔ بعض دفعہ غلط روحیں آجاتیں اور خوب ڈانٹ پھٹکار سنا کر واپس جاتیں۔
شہنشاہ اشوک ہمیشہ بڑی مستعدی سے آجاتے۔ جاتے وقت روح سے درخواست کی جاتی کہ اب فلاں کو بھیج دیجئے گا۔ جین ہار لو اور لیزلی ہاورڈ کو کئی بار بلایا گیا۔ پنڈت موتی لال نہرو نے آکر ایک مرتبہ بتایا کہ اگلے دو تین سال کے اندر اندر ان کا بیٹا ہندوستان کا حاکم اعلیٰ بن جائے گا۔ روحوں کی پیشین گوئیاں بعض دفعہ بالکل صحیح نکلتیں۔ ان سے سیاسیات پر کم شادی اور رومان پر زیادہ سوالات کیے جاتے۔ لڑکیاں خوب خوب جھینپتیں۔ بہت دلچسپی سے وقت گزرتا۔ کرنل جہانگیر انتالیس چالیس کے رہے ہوں گے لیکن اب تک کنوارے تھے اور مسئلہ تناسخ کے بے حد قائل۔ انہیں دنیا میں صرف تین چیزوں سے دلچسپی تھی۔۔۔ باغبانی، روحانیات اور نرگس۔ پونا میں ان کی ایک بھتیجی تھی۔ جسے وہ بہت چاہتے تھے اور اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے اور بیگم ارجمند نے یہ طے کیا تھا کہ یہ نرگس ان کی بھتیجی و تیجی قطعی نہیں ہے۔
وہ خواتین کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے ژند اوستا اور ایران کے صوفی شعراء اور جرمن فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ کئی سال یورپ میں گزارے تھے۔ پیرس میں روحوں کے scancesمیں شامل رہ چکے تھے۔ اور سب ملا کر بے حد دلچسپ شخص تھے۔
ایک روز ڈنر کے بعد سب لوگ حسب معمول پھر نشست کے کمرے میں آگیے۔ ان پورنانٹنگ میں مشغول تھی۔ انعام محمودفی فی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ناہید ڈون کارلو سے سوجانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں پھیلائے بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا۔ برجیش ایک کونے میں ایک آئی ۔سی۔ ایس صاحب بہادر سے ہندوستانی ریاستوں کی سیاست پر الجھ رہا تھا۔ پیانو کے قریب ایک اسٹول پر رانی کرم پور تلاری کا منظور نظر مظہر الدین بیٹھا پائپ کا دھواں اڑا رہا تھا۔ مظہر الدین بہتر سے بہتر سوٹ پہنتا، اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہرتااور بڑے ٹھاٹھ سے رہتا، پونٹیک سے کم بات نہ کرتا اور سب جانتے تھے کہ کہ یہ بڑے ٹھاٹھ کس طرح ہوتے ہیں اور ان کے لیے اتنا بے تحاشا روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ اس کی شکل اچھی خاصی تھی۔ ذہن کے معاملہ میں یوں ہی، لیکن بات کرنے میں بہت تیز ۔ پہلے وہ ادھیڑ عمر کی بیگم فرقان الدولہ کا منظور نظر تھا۔ اب کچھ عرصے سے رانی کرم پور تلاری کے ساتھ دکھائی دیتا تھا۔
بیگم ارجمند اور ان پورنا وغیرہ اس سے بہت کم بات کرتی تھیں۔ لیکن ان کے شوہروں کی سوسائٹی میں وہ کافی مقبول تھا۔ پائپ کی راکھ جھٹک کر اس نے ان پورنا سے پوچھا، ’’مسز پر بھاکر آپ کو مسئلہ تناسخ سے دلچسپی ہے؟ ‘‘
’’میں نے کبھی اس طرف خیال نہیں کیا۔ کیوں کیا آپ کو بھی۔۔۔ روحانیت سے شغف پیدا ہوگیا؟ ‘‘ ان پورنا کو بادل ناخواستہ لیکن اخلاقاً کیوں کہ وہ مظہر الدین کے قریب بیٹھی تھی، اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔’’کرنل جہانگیر تولگتا ہے اس مرتبہ ہم سب کو بالکل سنیاسی بنا کر چھوڑیں گے۔ آج کل جسے دیکھئے اپنی اپنی شکار اور اسٹاک ایکسچینج کی باتیں چھوڑ کر روحوں سے الجھ رہا ہے۔‘‘ مظہر الدین نے کہا۔ کرنل جہانگیر نے اس کی بات سن لی۔ وہ بولے، ’’ان پورنا رانی کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روز ہم سب اس مایا جال کو تج کر جٹائیں بڑھائے دو تارہ بجاتے سامنے ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں کی طرف رخ کرتے نظر آئیں۔‘‘
’’اگرمیری بیوی بھی اپنا تان پورہ اٹھا کر بنوں کو نکل گئی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا کرنل۔‘‘ برجیش نے اپنے مخصوص انتہائی غیر دلچسپ طریقے سے کہا۔ ’’چپ رہو یار۔ تم اپنے بازار کے بھاؤ اور گولف سے الجھتے رہو۔ یہ مسائل تصوف ہیں بھائی جان۔‘‘ صاحبزادہ ارجمند نے ڈانٹ پلائی۔ برجیش ایک خشک سی ہنسی ہنسا اورپھر نہایت مستعدی سے ان صاحب بہادر کو ارجن گڈھ اسٹیٹ کی پالیسی سمجھانے میں مصروف ہوگیا جو غالباً اگلے مہینے سے وہاں کے ریزیڈنٹ بننے والے تھے۔ پھر قہوہ کے دور کے ساتھ زور شور سے گرما اور آواگون کی بحث چھڑ گئی۔ کرنل جہانگیرکی باتیں بہت دل چسپ ہوتی تھی۔ مثلاً اس وقت انہوں نے ناہید سے کہا کہ پچھلے جنم میں وہ پرتھوی راج تھے اورناہیدان کی کوئی بہت قریبی عزیز تھی۔
’’غالباً سنجو گتا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔ سب ہنسنے لگے پھر مزے مزے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔ کون کون پچھلے جنم میں کیا کیا رہا ہوگا۔ ’’کرنل پچھلے جنم میں ناہید کی شادی کس سے ہوئی تھی؟ ‘‘ بیگم ارجمند نے انتہائی دلچسپی سے اپنی سیاہ آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ ’’کوئی جون پور کا کن کٹا قاضی رہا ہوگا‘‘راج کمار روی بولے۔ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ناہیدکی نسبت پچھلی کرسمس میں کسی پولس افسر سے ہوئی تھی اور سب دوستوں نے مل کر اسے مبارکباد کا تار بھیجا تھا۔۔۔جس میں صرف یہ جملہ تھا،’’سیاّں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔‘‘
کرنل جہانگیر ان پور نا کا ہاتھ دیکھنے میں مصروف تھے۔ اورپھر یک لخت کرنل جہانگیر نے بے حد سنجیدہ لہجہ میں اور بڑی مدھم آواز سے آہستہ آہستہ کہا،’’ان پورنا رانی تمہیں یاد آتا ہے کسی نے تم سے کبھی کہا تھا ۔۔۔جب چاندنی راتوں میں کنول کے پھول کھلتے ہوں گے اور بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کی برف پگھل کر گنگا کے پانیوں میں مل رہی ہوگی۔ اس وقت میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔ یاد رہے۔‘‘
ان پورنا حیرت زدہ سی اپنی پلکیں جھپکاتی کرنل کو دیکھنے لگی۔ کمرے میں دفعتاً بڑا حساس سکوت طاری ہوگیا۔کرنل نے اس کا چھوٹا سا ہاتھ کشن پر رکھ کر پھر کہنا شروع کیا، ’’یاد کرو۔۔۔ اس کا نام کمل اندر تھا۔ پچھلے جنم میں تم اس کی رانی تھیں۔ چاندنی راتوں میں اپنے راج محل کی سیڑھیوں پر جو گنگا میں اترتی تھیں۔ وہ وینا بجاتا تھا اور تم سنتی تھیں، تم ناچتی تھیں اور وہ دیکھتا تھا۔ پھر تمہاری شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ ایک جنگ میں مارا گیااور تمہاری قسمت کی لکیریں کہتی ہیں کہ تم اس جنم میں اس سے ضرور ملوگی۔ ایسا ضرور ہوگا۔ ستارے یہی چاہتےہیں۔ کرنل رک کر اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھنے لگا۔سب بت بنے اس کی آواز سن رہے تھے، جو لگ رہا تھا، رات کے اس سناٹے میں کہیں بہت دور سے آرہی ہے ان پورنا اسی طرح پلکیں جھپکاتی رہی۔ بیگم ارجمند کی آنکھیں پھیلی کی پھیلی رہ گئیں۔
’’اوہ کرنل ہاؤفنٹاسٹک۔۔۔‘‘ ناہید نے چند لمحوں بعد اس خاموشی کو توڑا پھر رفتہ رفتہ قہقہے اور باتیں شروع ہوگئیں۔ کرنل کی پیشین گوئی سب کے خیال میں متفقہ طور پر شام کا بہترین لطیفہ تھا۔
برجیش نے آئی۔ سی۔ ایس صاحب بہادر سے گفتگو ختم کرنے کے بعد اپنے کونے سے ان پورنا کو آواز دی،’’چلوبھئی اب چلیں سخت نیند آرہی ہے۔‘‘ پھر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کہہ کر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد نشست کا کمرہ بالکل خالی ہوگیا۔اور سب سے آخر میں،ان سب باتوں پر اچھی طرح غور و خوض کرتا ہوا ڈون کارلو اپنی کرسی پر سے نیچے کودا اور ایک طویل مطمئن انگڑائی لینے کے بعد چھوٹے چھوٹے قدموں سے باہرکے زینے کی سیڑھیاں چھلانگتا نیچے کورٹ یارڈ میں پہنچ گیا۔ جہاں اپنے گھر جانے کے لیے ناہید رکشا میں سوار ہو رہی تھی۔
موسم روز بروز زیادہ غیر دل چسپ ہوتا جارہا تھا۔ مرد دن بھر لاؤنج میں برج کھیلتے ،اَن پورنا بچوں کو لے کر ٹہلنے چلی جاتی یا اپنے سٹنگ روم میں میرا کو طبلے کے ساتھ کتھک کے قدم رکھنا سکھاتی رہتی۔ جب وہ تان پورے کے تار چھیڑتی تو دفعتاً اسے محسوس ہوتا کوئی اس سے کہہ رہا ہے میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ ستارے یہی چاہتے ہیں۔۔۔ ستارے یہی۔۔۔ کیا حماقت۔۔۔ گدھے پن کی حد ہے۔ اسے غصہ آجاتا۔ پھر ہنسی آتی۔ اس قسم کے باولے پن کی باتوں کا وہ خودمذاق اڑایا کرتی تھی۔۔۔ان پورنا۔۔۔ ان پورنا۔۔۔ اتنی موربڈ ہوتی جارہی ہے۔ ان پورنا جس کے شیریں قہقہے سوسائٹی کی جان تھے۔
’’کرنل کم از کم روحیں ہی بلادو۔ بہت دنوں سے مہاراجہ اشوک سے گپ نہیں کی۔‘‘ ناہید نے بے حداکتا کر ایک روز کرنل جہانگیر سے کہا۔ وہ سب ’’اونٹ کی پیٹھ‘‘ سے واپس آرہے تھے۔ ’’خدا کے لیے اب یہ حماقت کا بکھیڑانہ پھیلانا۔ میرے اعصاب پرآجاتی ہیں تمہاری یہ روحوں سے ملاقاتیں۔‘‘ بیگم ارجمند نے ڈانٹا۔
’’کرنل واقعی تم کمال کے آدمی ہو۔ اچھا میرے ہاتھ کے امپریشن کا تم نے مطالعہ نہیں کیا؟ ‘‘ ناہید نے بیگم ارجمند کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’ان نصیبوں پہ کیا اختر شناس۔۔۔‘‘ کرنل نے کچھ سوچتے ہوئے بڑی رنجیدہ آواز میں کہا اور چپ ہوگیے۔
’’کیوں کرنل تمہیں کیا دکھ ہے؟‘‘ ناہید نے ’’تمہیں‘‘پر زور ڈال کر پوچھا۔
’’دکھ ۔۔۔؟ شش۔۔۔ شش۔ بچے دکھوں کی باتیں نہیں کیا کرتے۔‘‘ وہ لائبریری کی سڑک پر سیڑھیوں تک پہنچ چکے تھے۔
اس روز کنورانی بلیر سنگھ نے اپنی ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘پر سے پیشین گوئی کی،’’ دیکھ لینا۔۔۔ ان پورنا اس مرتبہ ضرور کوئی نہ کوئی آفت بلائے گی۔ یہ اس دل جلے کرنل نے ایسا شگوفہ چھوڑا ہے۔ اور برجیش کیسا بے تعلق رہتا ہے اور یہ ہندوستانی ریاستوں کے حکام۔۔۔ تم نہیں جانتیں مائی ڈیر۔۔۔ ان لوگوں کی کیا زندگیاں ہوتی ہیں کیا مورلز ہوتے ہیں۔۔۔ جبھی تو دیکھو برجیش اس کم عمری میں اتنی جلدی فنانس منسٹر کے عہدے پر پہنچ گیا۔‘‘
’’دنیا نہ جانے کدھر جارہی ہے‘‘ بیگم ارجمند نے ان کے خیال کی تائید کی۔
اور پھر آخر ایک روز راجکماری نے چائے کے وقت سب کو بتایا کہ ’’وہ‘‘ واقعی آرہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ سے تقریباً ایک ایک فٹ اچھل پڑے۔ کئی دن سے کسی شخص کا مستقل تذکرہ ہو رہا تھا۔ کئی پارٹیاں اور پکنکیں ایک خاص مدت کے لیے ملتوی کی جارہی تھیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ ’’دیکھ لینا وہ ضرور اس دفعہ شادی کر لے گا۔۔۔قطعی نہیں۔۔۔وہ شادی کرنے والا ٹائپ ہی نہیں۔۔۔بھئی موسیقی کی پارٹیوں کا اس کے بغیر لطف ہی نہیں۔ ارے میاں انعام محمودفی فی کی طرف سے باخبر رہنا، وہ آرہا ہے۔ بھئی ڈاکٹر خان کو اطلاع کر کے ایمبولینس کاریں منگوا لی جائیں۔ نجانے کتنی بے چاریاں قتل ہوں گی کتنی زخمی۔‘‘
’’آخر یہ کون ڈون ژوان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی آمد سے پہلے ہی اتنا تہلکہ مچا رکھا ہے‘‘ ناہید نے اکتا کر پوچھا۔
’’ڈون ژوان۔۔۔! قسم سے ناہید بیگم خوب نام رکھا تم نے۔ ’’وہ‘‘ ہے در اصل خورشید احمد۔ پچھلے کئی سال سے اپنا ہوائی بیڑہ لے کر سمندر پار گیا ہوا تھا۔ اسی سال واپس آیا ہےاور اتوار کی شام کو یہاں پہنچ رہا ہے۔ باقی حالات آپ خود پردہ سیمیں پر ملاحظہ فرمائیے گا۔‘‘ راج کمار روی نے کہا۔
اسی روز سے بارش شروع ہوگئی اور اپنی امی کی طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے ناہید کئی روز تک ان پورنا اور دوسرے دوستوں سے ملنے کے لیے سوائے نہ آسکی۔دوسرے دن شام کو بالآخر ’’وہ‘‘ آگیا ۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوست اور تھے جو اس کے ہوائی بیڑے سے تعلق رکھتے تھے۔چائے کے بعد ڈائننگ ہال کی سیڑھیاں طے کر کے وہ بلیرڈ روم کی طرف جارہا تھااور اس وقت ان پورنا نے اسے دوسری بار دیکھا۔ کیوں کہ وہ کمل اندر تھا۔ ان پورنا کے دل میں کسی نے چپکے سے کہا۔ اس وقت تک ان پورنا کا اس سے باقاعدہ تعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ اس لیے ڈائننگ ہال کے زینے پر سے اتر کے گیلری کی جانب جاتی ہوئی ان پورنا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اسے پہچانے بغیر بلیرڈ روم میں داخل ہوگیا۔ جہاں سب دوست جمع تھے۔
تھوڑی دیر بعد نشست کے بڑے کمرے میں واپس آکر ان پورنا آکر ایک بڑے صوفے پر گر گئی۔ اس نے دیوار پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرنی چاہی۔ اس نے پیانو پر ایک نیا نغمہ نکالنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کشنوں پر سر رکھے اسی طرح پڑی رہی۔ بالکل خالی الذہن۔ اتنے میں وسط کے ہال کے زینے پر سے اتر کر مسز پد منی اچاریہ اندر آئیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ان سے میراؔ کے ’’ پل اوور‘‘ کے لیے وہ نمونہ مانگ لے جو وہ صبح بن رہی تھی۔ مگر مسز اچاریہ اسے ایک ہلکا سا ’’ ہلو‘‘ کہنے کے بعد آئینے میں اپنے بال ٹھیک کر کے باہر چلی گئیں اور وہ ۔۔۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ کمرے کی کھڑکیوں میں سے باہر لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگ حسب معمول برج کھیلتے نظر آرہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ پھر اندھیرا پڑے بلیرڈ روم سے واپس آکر برجیش برآمدے میں سے گزرا اور وہ اس کے ساتھ اپنے کمروں کی طرف چلی گئی۔
دوسرے روز صبح جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر ونگ کے برآمدے میں سے گزرتی زینے کی سمت جارہی تھی۔ وہ زینے کی مختصر سیڑھیوں کے اختتام پر کلوک روم کے قریب کھڑا سگریٹ جلاتا نظر آیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے آگے آکر بے حد اخلاق سے آداب عرض کہا، غالباً پچھلی شام بلیرڈ روم میں ان پورنا سے اس کا غائبانہ تعارف کرا دیا گیا تھا۔
’’میں خورشید ہوں۔ خورشید احمد۔‘‘
’’آداب۔ برجیش کے دوستوں میں سے میں نے صرف آپ کو اب تک نہیں دیکھا۔‘‘
’’جی ہاں جب میں ہندوستان سے باہر گیا تھا۔ اس وقت تک برجیش نے شادی نہیں کی تھی۔‘‘
اور تب ان پورنا سے کوئی چپکے سے بولا ۔ اس سے کہو تم غلط کہتے ہو، تم خورشید احمد قطعی نہیں ہو۔ تم بالکل صفا کمل اندر ہو۔ پورن ماشی کی چاندنی میں نکھرتے سفید شگوفوں اور دنیا کے گیتوں والے کمل اندر۔ کنول کے پھول کے دیوتا۔ فوراً اسے اپنے اس بچپنے پر ہنسی آگئی۔ اس بے موقع ہنسی کو ایک انتہائی خوش اخلاقی کی مسکراہٹ میں تبدیل کرتے ہوئے اس نے۔۔۔
’’اچھا آئیے نیچے چلیں۔ ہمارا انتظار کیا جارہا ہوگا۔‘‘
چائے پیتے پیتے کنور رانی بلیر سنگھ نے بڑی بزرگانہ شفقت سے خورشید سے پوچھا، ’’بھیا تم کا کرت ہو؟‘‘ انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وہ بھی ہردوئی کے اسی حصے کا ہے جس طرف ان کا تعلقہ تھا۔
’’فی الحال تو بمبار طیارے اڑاتا ہوں۔ لڑائی کے بعد نوکری نہیں ملی تو مرغیوں کی تجارت کیا کروں گا۔ بڑی مفید چیز ہوتی ہے۔ پولٹری فارمنگ۔۔۔‘‘
’’شادی اب تک کیوں نہیں کی؟ ‘‘بیگم ارجمند نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’وہ وجہ در اصل یہ ہوئی بیگم ارجمند کہ کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور جن لڑکیوں سے میں ملا وہ یا توجلد بازی میں آکر پہلے ہی شادی کرچکی تھیں یا کسی اور کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھیں یا عنقریب ہونے والی تھیں۔ اس کے علاوہ بیگم ارجمند میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچتے کہ ایک بلی بھی پال سکوں۔‘‘
جب خواتین بیگم انور امام یعنی ناہید کی امی کی مزاج پرسی کے لیے رکشاؤں میں سوار ہو گئیں تو راج کمار روی نے پوچھا، ’’ خورشید میاں تم بہت اترا رہے ہو ۔لیکن تمہارے اس تازہ ترین عشق کا کیا ہوا جس کا ذکر اپنے خطوط میں کر کے تم نے بور کردیا تھا۔ ‘‘
’’چل رہا ہے ‘‘اس نے اس بے فکری سے جواب دیا گویا موٹر ہے جو ٹھیک کام دے رہی ہے۔
اور بہت سی دل چسپ اور انوکھی باتوں کے علاوہ اس نے طے کیا تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسے سچ مچ پسند آگئی تو وہ فی الفور اس سے شادی کرلے گا۔ چاہے وہ کتنی ہی کالی بھجنگی ایسی کیوں نہ ہو۔ ویسے وہ کیپ فٹ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے گاہے بگاہے غم دل میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا۔
لیکن پچھلے دنوں والا واقعہ خاصی سنجیدہ شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ اسی مارچ کے ایک غیر دلچسپ سے اتوار کو جب کہ اس کی میس کے سارے ساتھی یا سو رہے تھے یا اپنے اپنے گھروں کو خط لکھنے میں مصروف تھےاور کینٹین میں کام کرنے والی ساری لڑکیاں اوف ڈیوٹی تھیں اور مطلع سخت ابر آلود تھا۔ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اس وقت اس نے فوراً اس لڑکی سے عشق کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کی تصویر اسی روز نئے listner میں دیکھی تھی۔ وہ ایک خاصی خوش شکل لڑکی تھی اور شمالی ہند کی کسی نشرگاہ سے دوپہر کوانگریزی موسیقی کے ریکارڈوں کا اناؤنسمنٹ کرتی تھی۔ چنانچہ بے حد اہتمام سے اسی وقت ایک ریڈیو فین کی حیثیت سے اسے ایک خط لکھا گیا۔
آپ کے ریکارڈوں کا انتخاب بے حد نفیس ہوتا ہے اور اپنی نقرئی آواز میں جب آپ فرمائشی ریکارڈوں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کو ایک دوسرے کے پیغامات نشر کرتی ہیں،انہیں سننے کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کو رات بھر نیند نہیں آتی، دوسرے کو اختلاج قلب کا عارضہ ہوگیا ہے، تیسرے کو اعصابی شکایت اور باقی سب کو ابھی دل و دماغ کے جتنے امراض تحقیق ہونے باقی ہیں وہ سب لاحق ہونے والے ہیں۔ اور پرسوں رات کے ڈرامے میں جوآپ کینڈیڈ بنی تھیں تو چاروں طرف اتنے حادثات وقوع پذیر ہوئے کہ ہمیں ریڈیو بند کر کے ایمبولنس کار منگوانی پڑی۔ پھر ایک دوست صاحب خاص طور پر سفر کر کے اس لڑکی کو دیکھنے گیےاور تقریباً نیم جاں واپس آئے۔ پھر ایک صاحب سے جو اسی نشرگاہ کے ایس ڈی کے دوست تھے،معلوم ہوا کہ بڑی بددماغ لڑکی ہے۔ کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔ اسٹوڈیوز میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور سب اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس کو مختلف ناموں سے دس پندرہ خط لکھے گیے۔
عرصے کے بعد اس کا جواب آیا۔ خط میں بڑا فیشن ایبل پتہ درج تھا جو بڑی رومینٹک بات لگی اور نہایت مختصر سا خط جو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ لوگوں کو ہمارے پروگرام پسند آتے ہیں، سے شروع ہو کر امید ہے کہ آپ سب بخیریت ہوں گے، پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعدپھر دوتین خط لکھے گیے۔ سب کا جواب غائب۔ آخر میں خورشیدکے مسوری آنے سے چند روز قبل اسی لڑکی کا ان سارے خطوں کے جواب میں ایک اور مختصر خط ملا تھا۔ جس پر اور بھی زیادہ فیشن ایبل اور افسانوی پتہ درج تھا۔ فیئری لینڈونسنٹ ہل ، مسوری۔ اور اب جب سے خورشید اور اس کے دونوں دوست مسوری پہنچے تھے۔ یہی فکر کی جارہی تھی کہ اس فیئری لینڈ کو تلاش کیا جائے۔ اگلی صبح اپنے سوائے والے دوستوں کو بتائے بغیر پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ونسنٹ ہل کی طرف چل پڑے۔ بہت اونچی چڑھائی کے بعد ایک خوب صورت دو منزلہ کوٹھی نظر آئی جس کے پھاٹک پر ایک سنگ مرمر کے ٹکڑے پر فیئری لینڈ لکھا تھا۔
آگے بڑھے تو پہلے ایک بل ڈاگ اندر سے نکلا۔ پھر دوسرا پھر تیسرا۔ آخر میں ایک چھوٹا سا سفید کتا باہر آیا جو پیسٹری کھا رہا تھا۔ تینوں پہلے کتوں نے مل کر بھونکنا شروع کیا۔ چوتھا کتا یقینا زیادہ خوش اخلاق تھا۔ وہ چپ چاپ پیسٹری کے ڈبے میں مصروف رہا۔ سب کے بعد ایک لڑکی باہر آئی اور ان سب کتوں کو گھسیٹ کر اندر لے گئی کیوں کہ باہر خنکی زیادہ تھی اور کتوں کو انفلوئنزا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ ابھی انہوں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آگے جائیں یا واپس چلیں کہ موڑ پر سے کنور رانی بلیر سنگھ کی رکشا آتی نظر آئی۔ سوالات کی زد سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے پیچھے چلے گیے۔
’’چنانچہ پیسٹری کھاتا ہے‘‘خاموشی سے چلتے ہوئے کپور تھلہ ہاؤس کی سڑک پر واپس پہنچ کر ایک دوست نے بے حد غور و فکر کے بعد کہا۔
’’باقی کے تینوں بھی اگر یہی شوق کریں تو نہیں بھونکیں گے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’قطعی نہیں بھونکیں گے۔‘‘خورشید نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔
شام کو جب خورشید راج کمار رویؔ اور برجیش کے ساتھ مال پر ٹہلنے نکلا تو دفعتاً اسے یاد آگیا کہ بے حد ضروری خریداری کرنا ہے۔ ’’ تم لوگ حمید اللہ سے مل آؤ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘ راجکمار روی اور برجیش کے آگے جانے کے بعد وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ منزلیں مارتا کلہڑی تک پہنچ گیا۔ لیکن کیک پیسٹری کی دوکان کہیں نظر نہ آئی۔ آخر جب وہ بالکل نا امید ہو کر واپس لوٹ رہے تھے تو خورشید کی نظر سڑک کی ڈھلوان کے اختتام پر ایک چھوٹی سی دوکان پر پڑ گئی جس پر بہت بڑا بورڈ لگا تھا۔ ’’رائل کنفکشنری۔‘‘ ایک صاحب دوکان کے باہر کرسی پر بیٹھے ہمدرد صحت پڑھ رہے تھے۔
’’کیوں صاحب آپ کیک پیسٹری بیچتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ کیا آپ کا خیال ہے میں نے تفریحاً دوکان کھولی ہے۔‘‘
’’ارے میرا مطلب ہے۔۔۔ ‘‘
’’مطلب کیا صاحب!کیا میں یہاں محض تفریحاً بیٹھا ہوں یا یہ جو کھڑکی سجی ہے اسے صرف دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ یا انہیں محض سونگھتا ہوں۔ آخر سمجھتے کیا ہیں آپ؟ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’کیا چاہئے صاحب۔۔۔؟‘‘اندر سے جلدی سے ایک لڑکا نکلا۔
شام کو وہ سب ہیک مینز کے ایک نسبتاً خاموش گوشے میں جمع چائے پی رہے تھے۔ ’’آہ۔۔۔ فقط ایک جھلک اس کی دیکھی ہے لیکن کیا نفیس ناک ہے کہ گلابی سی اور مختصر جو غالباً سردی کی وجہ سے نم رہتی ہےاور آنکھیں چمکیلی اور شوخ اور نرگسی اور لمبے لمبے ریشمی بال اور آہ وہ کان چھوٹے چھوٹے بالکل پرستش کے قابل۔۔۔‘‘ خورشید نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد بے حد رنجیدہ لہجہ میں کہا۔
’’کہاں دیکھی تھی یار جلدی بتاؤ‘‘انعام محمود نے کان کھڑے کیے۔
’’ آہ۔۔۔ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔ کیوں کہ دنیا کی خوب صورت ترین لڑکی کا کتاہے اور ۔۔۔ ‘‘
یک لخت خورشید کو وہ دوبارہ نظر آگیا۔ وہ ذرا دور پر دیوار کے قریب ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔ اتنا نفیس خلیق کتا جو اگر نہ بھونکتا تو پتہ بھی نہ چلتا کہ کتا ہے۔ بالکل سفید فرکا بڑا سا پرس معلوم ہوتا تھا۔ اور ڈؤن کارلو کو اپنے سامنے رکھی ہوئی طشتری میں پلم کیک کے ٹکڑے کھاتے کھاتے دفعتاً خیال آیا کہ گیلری کے پرے نیلے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس انسان کو وہ صبح دیکھ چکا ہے۔ اس نے کیک ختم کر کے ایک طویل انگڑائی لی اور اس انسان سے گفتگو کرنے کے ارادے سے صوفے پر سے کود کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا گیلری کی طرف چلا۔
اس کی مالکہ اسی گیلری کی دوسری جانب اپنے بھائیوں اور بہنوئی کے ساتھ چائے پی رہی تھی۔ اور حالاں کہ ’’ انڈین ٹی‘‘ کے اشتہار سے پتہ چلتا ہے کہ اس چائے کو پینے کے بعد آپ کو دنیا میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان جو تھوڑی دیر قبل ’’ارجمند ز کراؤڈ‘‘ کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تھا یقینا ایسا تھا کہ اگر پچھلی کرسمس میں اس کی نسبت علی ریاض اے ۔ ایس۔ پی۔ سے نہ ہوگئی ہوتی اور یہ نووارد آدمی اگر اس میں دل چسپی لینا چاہتا تو قطعی مضائقہ نہ تھا۔
’’ہلو ناہید بیگم۔۔۔ تم اتنے دنوں کہاں چھپی رہیں۔ ادھر آؤ۔۔۔ تمہیں خورشید سے ملوائیں جسے تم نے ڈون ژوان کا خطاب دیا تھا۔‘‘ راجکمار روی نے اس کی میزکے قریب آکر کہا۔
رات کو جب وہ سب ہیک منیز سے واپس آرہے تھے تو ناہید نے خورشید کے اس دوست کو دیکھ کر جو رائل کنفکشنری سے واپسی سے اب تک بے حد اہتمام سے پیسٹری کا ڈبہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے خورشید سے پوچھا،’’آپ لوگوں کو پیسٹری کا اتنا شوق ہے کہ اس کے ڈبے ساتھ لیے گھومتے ہیں؟‘‘
اگلی صبح بڑی خوش گوار تھی۔ مینہ رات بھر برس کر اب کھل گیا تھا۔ راستوں کے رنگ برنگے سنگ ریزے بارش کے پانی میں دھل دھلا کر خوب چمک رہے تھے۔ فضا میں پھولوں کی مہک اور گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی بڑی تروتازہ اور نکھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ان پورنا میرا کو لے کر ٹہلتی ہوئے نچلی دیوار تک آگئی۔ جہاں چند رکشائیں اور موٹریں کھڑی تھیں۔ لائبریری والی سڑک کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہوٹل کی طرف نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آداب عرض کہا،’’جے کرو بی بی انکل کو جے نہیں کی تم نے ۔‘‘ ان پورنا نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا کوڈانٹا۔ میرا نے بے حد پیارے طریقے سے اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ دیے، خورشید نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ پھر اسے آیا کے سپرد کردینے کے بعد وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی جانب آگیے۔ برجیش کے برآمدے میں پکنک کا پروگرام بنایا جارہا تھا۔ سب خورشید کے منتظر تھے۔
ایسا لگتا تھا جیسے سب میں جان پڑ گئی ہے۔ جو لوگ موسم کی غیر دل چسپی کی شکایت کرتے رہتے تھے، اب ان کا ہر لمحہ نت نئے پروگرام بنانے میں صرف ہوتا۔ ہر وقت پیانو اور وائلن بجتا ،فیری لینڈ جاکر ناہید سے ڈھولک کے پوربی گیت سنے جاتے۔ برساتیوں ،ٹوکریوں اور چھتریوں سے لد پھند کر وہ سب دور دور نکل جاتے۔ ایک روز پکنک پر جاتے ہوئے رائل کنفکشنری پر بھی دھاوا بولا گیا۔ برجیش بھی اب کلا یواسٹریٹ کی خبریں پڑھنے کی بجائے ان تفریحوں میں حصہ لینے لگا۔ دنیا یک لخت بڑی پر مسرت بڑی روشن اور بڑی خوش گوار جگہ بن گئی تھی۔
جس گھر میں خورشید اپنے ایک دور کے عزیز کے یہاں ٹھہرا تھا، وہ نہایت عجیب و غریب اور بے حد دل چسپ جگہ تھی۔ اوپر کی منزل میں جو سڑک کی سطح کے برابر تھی گھوڑے رہتے تھے جو سڑک پر سے سیدھے اپنے اصطبل میں پہنچ جاتے، جو ڈرائنگ روم کے عین اوپر تھا۔ درمیانی منزل میں مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں رہتی تھیں۔ نچلی منزل میں جس کی سیڑھیاں کھڈ میں اترتی تھیں، خورشید کو ٹھہرایا گیا تھا۔ گھوڑے شاید الارم لگا کر سوتے تھے۔ صبح سویرے ہی وہ جاگ جاتے اور تیسری منزل کی کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے میں مصروف ہوجاتے۔ خورشید کا جی چاہتا تھا کہ زور سے کچھ اس قسم کا گیت الاپے۔۔۔ یہ کون اٹھا اور گھوڑوں کو اٹھایا۔۔۔ پھر دوسری منزل پر مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں اپنے اپنے پسندیدہ اسٹائل سے جاگنا شروع کرتیں اور قیامت کا شور مچتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خورشید کے دونوں دوست غسل خانوں میں گھس کر اپنا صبح کا قومی ترانہ شروع کردیتے۔۔۔ یہ کون آج آیا سویرے سویرے ۔۔۔پھر لڑکیاں گھوڑوں پر سواری کے لیے جاتیں۔ لیکن سواری کرنی کسی کو بھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے سڑکوں پر روز شہسواری کے بعض نہایت نادر نظارے دیکھنے میں آتے۔۔۔ پھر ایک روز لڑکیوں کی شہسواری سکھانے کا بے اتنہا خوش گوار فرض خورشید کے سپرد کیا گیا۔ وہ اسی دن اپنا سامان لے کر سوائے بھاگ آیا۔
اسٹینڈرڈ میں سالانہ مشاعرہ تھا۔ محفل ختم ہونے کے بعد سب باہر نکل آئے تھے۔ بڑا بے پناہ مجمع تھا۔ بھوپال کی الٹرافیشن ایبل لڑکیاں، حیدرآباد کے جاگیردار، رام پور کے رئیس، نئی دہلی اور لکھنؤ کے ہندوستانی صاحب لوگ سب کے ہونٹوں پر جگرؔ کی تازہ غزل کے اشعار تھے،
لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گیے
بیٹھے ہم انتظار سحر دیکھتے رہے
زینے کی سیڑھیاں طے کر کے وہ سارے دوست بھی نیچے سڑک پر آگئے۔ مشاعرے کے دوران میں خورشید ان پورنا کو شعروں کے مشکل الفاظ کے معنی بتاتا رہا اور ان پورنا نے طے کر لیا کہ وہ ناہید سے قطعی طور پر اردو پڑھنا شروع کر دے گی۔ اردو دنیا کی خوب صورت ترین اور شیریں ترین زبان تھی اور لکھنؤ والوں کا لب و لہجہ، لکھنؤ جو خورشید کا وطن تھا، ان پورنا کالکھنؤ دیکھنے کا اشیاق زیادہ ہوگیا۔ وہاں کے ہرے بھرے باغ، سایہ دار خوب صورت سڑکیں، شان دار عمارتیں،مہذب لوگ جہاں کے تانگے والے اور سبزی فروش بھی اس قدر تہذیب سے اور ایسی نفیس زبان میں گفتگو کرتے تھے کہ بس سنا کیجئے اور پھر وہاں کا موسیقی کامیرس کالج ، وہاں کا کتھک ناچ ۔خورشید نے وائلن میرس کالج میں سیکھا تھا۔ برجیش کہتا تھا جس طرح ان پورنا رانی کی جان تان پورے کے تاروں میں رہتی ہے اسی طرح خورشید کی جان اس کے وائلن کیس میں بند ہے۔ مسلمان لڑکے عام طور پر زیادہ خوب صورت ہوتے ہیں۔ ناہید کی ساری غیر مسلم سہیلیاں اس سے اکثر کہا کرتی تھیں۔ خورشید بھی بہت خوب صورت تھا۔ برجیش اورکرنل جہانگیر اور راج کمار روی ان سب سے زیادہ دل کش اور شان دار۔
اور اس وقت جب کہ مشاعرے کے بعد وہ سب ٹہلتے ہوئے اسٹینڈرڈ سے واپس آرہے تھے، مال کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دفعتاً خورشید نے مڑ کر ان پورنا سے کہا، ’’زندگی بڑی خوش گوار ہے نا ان پورنا رانی، ہے نا؟‘‘ پھر وہ بے فکری سے سیٹی بجا کر ڈؤن کارلو کو بلانے لگا جو ناہید کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھاوہ اور ان پورنا آگے جاتے ہوئے مجمع سے ذرا فاصلہ پر سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔ آسمان پر ستارے جگمگا اٹھے تھے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔
’’تم زندگی سے بالکل مطمئن ہو خورشید احمد ؟‘‘ان پورنا نے تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد پوچھا۔
’’بالکل۔۔۔ مجھ سے زیادہ بے فکر شخص کون ہوگا۔۔۔ان پورنا رانی! میں جس کی زندگی کا واحد مصرف کھیلنا اور خوش رہنا ہے۔ جب میں اپنا طیارہ لے کر فضا کی بلندیوں پر پہنچتا ہوں، اس وقت مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میں موت سے ملاقات کرنے کی غرض سے جارہا ہوں۔ موت مجھے کسی لمحے بھی زندگی سے چھین سکتی ہے، لیکن زندگی اب تک میرے لیے خوب مکمل اور بھرپور رہی ہے۔ میرے پیچھے اس خوب صورت دنیا میں صرف میرے دوست رہ جائیں گے جو کبھی کبھی ایسی ہی خوشگوار راتوں میں مجھے یاد کر لیا کریں گے۔‘‘ ان پورنا کا جی چاہا کہ وہ چلا کر کہے۔۔۔ تم غلط کہتے ہو کمل اندر! اگر تم مرو گے تو تمہارے لیے ایک روح عمربھرروئے گی کہ تم نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ لیکن نہ مل سکے۔
اور پھر اپنی اوبزرویشن پوسٹ پر بیٹھے بیٹھے بیگم ارجمند اور کنور رانی صاحبہ نے طے کیا کہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے کا۔ نیک سیرت،شکیل، برسر روزگار اور اب تک یوں ہی کنوارا گھوم رہ
وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پر بھاکر، ناہید انور امام،راج کمار آسمان پور، لفٹنٹ کرنل دستور، رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت راون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا، ’’ان پورنا پربھاکر، برجیشور راؤ پر بھاکر، ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’جا‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کےمگر جھلکورے کھارہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امام گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کا رچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہوکر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شاندار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘
برابر کی میزوں پر زور وشور سے برج ہورہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جاسکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کردیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جاچکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔
ان پورنا پر بھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس نے پچھلی شام فی فی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکاد کا آدمی آجارہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران،مصر، انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے، پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سناکر ختم کرچکے تھے اور اب مکمل قناعت،اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کرلیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔
برجیشور راؤپر بھاکر اسی وقت چہل قدمی کرکے واپس آیا تھا اور لاؤنج کے نصف دائرے کے دوسرے سرے پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ گولف اور اسٹاک ایکسچینج پر تبادلہ خیال میں مصروف تھا۔ قریب کی ایک میز پر انعام محمود سپر نٹنڈنٹ پولیس جو عنقریب ڈی آئی، جی ہونے والے تھے برج کھیلتے کھیلتے سوچ رہے تھے کہ اگر وہ سیاہ آنکھوں اور گھنگھریالے بالوں والی پرتگالی لڑکی فی فی جس نے کل رات پیانو بجایا تھا، کم از کم آج ہی کی سرد اور غیر دل چسپ شام ان سے ملاقات کرسکتی تو بہت غنیمت تھا۔ اس سلسلے میں مزید ڈپلومیٹک گفتگو کی غرض سے راج کمار روی کی کرسی کی طرف جھک کر انہوں نے آہستہ سے کچھ کہا۔ راج کماری روی نے بے تعلقی سے سرہلایا۔ گویا بھئی ہم سادھو سنگ آدمی ہمیں موہ مایا کے اس چکر سے کیا۔ کرنل جہانگیر نے سگار کی راکھ جھٹک کر ذرا بلند آواز سے پکارا، ’’برجیش چلو کم از کم بلیرڈ ہی کھیلیں۔‘‘
’’روی کو لے جاؤ۔۔۔ ہم بے حد ضروری مسائل حل کررہے ہیں۔‘‘برجیش نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا اور پھر اپنی باتوں میں اس انہماک سے مصروف ہوگیا گویا اگر اس نے دوسری طرف ذراسی بھی توجہ کی تو ٹاٹا اور سپلا کے شیرز کی قیمتیں فوراً گرجائیں گی۔
’’ان پورنا رانی،دیکھو تو تمہارا شوہر کس قدر زبردست بوریت کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ کرنل جہانگیر نے اکتا کر شکایت کی۔
’’بھئی اللہ۔۔۔ برجیش گڈو ہئی اتنابور۔ جائیے آپ لوگ جاکر کھیلیے ہم تو اب بیگم ارجمند کے ساتھ چائے پینے جارہے ہیں۔‘‘ ناہید نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ناہید بیگم تمہیں کنور رانی صاحبہ سے جو تازہ ترین خبریں معلوم ہوں، ہمیں رات کے کھانے پر ضرور بتانا۔‘‘ راج کمار روی بھی اٹھتے ہوئے بولے۔
’’قطعی‘‘ناہید اپنی نقرئی آواز میں تھوڑا سا ہنسی پھر وہ دونوں اپنے اوور کوٹ اور شال سنبھالتی وسط کے ہال کے بڑے زینے کی طرف چلی گئیں۔
’’فی فی۔۔۔ فی فی۔۔۔ کیا نام ہے واللہ! گویا جلترنگ بج رہی ہے۔‘‘ انعام محمود نے چند لمحوں تک ڈون کار لوکو کرسی پر سے اتر کے اپنے چھوٹے چھوٹے سفید قدموں سے اپنی مالکہ کے پیچھے پیچھے بھاگتا دیکھتے رہنے کے بعد اب ذرا اونچی آواز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’بہت تیز ہوتے جارہے ہو بھائی جان۔ ذرا نیچے سے آنے دو اپنی بیگم کو کان کھنچوائے جائیں گے تمہارے۔‘‘ کرنل جہانگیر نے ڈانٹ پلائی۔
’’خواتین کہاں گئی ہیں؟‘‘ انعام محمود نے پوچھا۔
’’بیگم ارجمند کے کمروں کی طرف۔‘‘
’’رانی بلیر سنگھ بھی ہوں گی وہاں؟‘‘
’’یقینا‘‘
’’نفرت ہے مجھے اس بڑھیا سے۔‘‘انعام محمود پھر تاش کی طرف متوجہ ہوگیے۔ شام کی چائے کے بعد سب پھر لاؤنج میں جمع ہوئے اور سوچا جانے لگا۔ کہ اب کیا کیا جائے۔
’’کاش خورشید ہی آجاتا۔‘‘ راج کمار روی نے خواہش ظاہر کی۔
’’خورشید۔۔۔ واقعی۔۔۔ جانے آج کل کہاں ہوگا۔‘‘کرنل جہانگیر نے کہا۔ اور پھر سب مل کر بے حد دلچسپی سے کسی ایسے شخص کے متعلق باتیں کرنے لگے جسے خواتین بالکل نہیں جانتی تھیں۔ اکتا کر ناہید نے مسوری ٹائمز کا تازہ پرچہ اٹھالیا اور اس کے ورق پلٹنے لگی۔
سب ذلیل فلم دکھائے جارہے ہیں۔ روبرٹ ٹیلر۔ اس سے مجھے نفرت ہے۔ ڈور تھی لیمور میرے اعصاب پر آجاتی ہے۔ کیتھرین ہپ برن روز بروز زیادہ بد شکل ہوتی جارہی، یہ ہیک منیز میں کسی روسی نام کا کیبرے ہورہا ہے۔ وہ بھی سخت خرافات ہوگا۔۔۔‘‘ راج کمار روی نے ناہید کی کرسی کے پیچھے سے پرچے کے صفحات پر جھانکتے ہوئے کہا، ’’لہٰذا بہترین پروگرام یہی ہے کہ شریفوں کی طرح گھر میں بیٹھ کر قہوہ پیا جائے۔‘‘
’’اور ان پورنا رانی سے پیانو سنا جائے۔‘‘کرنل جہانگیر نے جلدی سے صاحبزادہ ارجمند کی تجویز میں اضافہ کر دیا۔ سب ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کرکے ان پورنا کو دیکھنے لگے جو اپنی شیریں ترین مسکراہٹ بکھیرتی اسی وقت بیگم ارجمند کے ساتھ ان کی میز کی طرف آئی تھی۔ وہ سب لاؤنج سے نکل کر نشست کے بڑے کمرے میں آگیے۔
’’اب ان پورنا رانی کو پکڑو۔‘‘کسی نے برابر کے کمرے میں زینے پر سے اترتے ہوئے آواز دی۔
’’جادو جگاتی ہے اپنی انگلیوں سے لڑکی۔‘‘ کنور رانی بلیر سنگھ نے ویکس سونگھتے ہوئے اپنی بزرگانہ بلندی پر سے ان پورنا کی تعریف کی اور پھر رومال میں ناک ٹھونس کر ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’ناہید بیٹا، تمہیں شاید زکام ہوگیا ہوگا؟‘‘ ان پورنا جب پیانو پر سے اٹھ آئی تو صاحبزادہ ارجمند نے ناہید کو مخاطب کیا۔
’’ارے نہیں رجو بھیا۔۔۔ کیا گائیں ہم؟‘‘ ناہید نے ہنستے ہوئے چاروں طرف نظر ڈال کر دریافت کیا۔
باہر بارش شروع ہوچکی تھی۔ خنکی بڑھتی جارہی تھی۔جب ناہید اپنی نقرئی آواز میں ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپ رہی تھی اس وقت ان پورنا کو اپنی نٹنگ سنبھالتے ہوئے دفعتاً خیال آیا۔۔۔ زندگی کم از کم اتنی ناگوار نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے پر خطر طوفانوں اور تند رو آندھیوں سے محفوظ ایک چھوٹے سے گرم اور روشن کمرے میں آگ کے سامنے بیٹھے چوکو لیٹ پیتے پیتے ہی عمر بیتی جارہی ہے۔ کیا بچپنا ہے۔ اسے اپنے اس تخیل پر ہنسی آگئی۔ تان پورے کے تار اور پیانو کے پردے چھیڑتے ہوئے اسے ہمیشہ چاندنی رات اور کنول کے پھولوں کا خیال آجاتا تھا۔ اور اس سمے ہوٹل کی نچلی منزل کے چاروں طرف کیاریوں میں لہلہاتے سفید پھول جولائی کی بارش میں نکھر رہے تھے۔ چاند کبھی کبھی بادلوں میں سے نکل کر دریچے میں جھانک لیتا تھااور پھر چھپ جاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے فضاؤں سے پگھلی ہوئی موسیقی برس رہی ہے۔
سچ مچ موسیقی کے بغیر اس روکھی پھیکی اجاڑ زندگی میں کیا رہ جاتا۔ درگا اور پوروی اور ماروا اور بہار۔ پیو پل نہ لاگیں موری انکھیاں۔۔۔ اور تان پورے کے چاروں تاروں کی گمبھیر گونج میں جیسے ہستی کی ساری تڑپ،سارا درد سمٹ آتا ہے۔ اور گھنگھروؤں کی جھنکار میں اور منی پوری کی لچک، بھرت ناٹیم کی گونج اور گرج اور کتھک کی چوٹ اور دھمک میں۔۔۔ اور جب بھیگی رات کے گہرے سناٹے میں کہیں اور گتار بجتا ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ ان پورنا نے سوچا۔ اس خوب صورت آرام دہ دنیا میں جو لوگ دکھی ہیں انہیں سب کو رات کے کھانے کے بعد ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپنا چاہئے۔
ان پورنا نے نٹنگ کرتے کرتے کشن پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے ناہید کا یہ گیت بہت پسندتھا جو وہ اس وقت گار رہی تھی۔ اسے ناہید کے وہ سارے پوربی گیت پسند تھے جو اس نے اکثر سنائے تھے۔ آہ۔۔۔ موسیقی۔۔۔ موسیقی۔۔۔ برجیش اکثر مذاقاً کہا کرتا تھا کہ جس طرح قصے کہانیوں کی پریوں اور شہزادیوں کی جان کسی بیگن، سرخ مرچ یا طوطے میں بند ہوتی ہے، اسی طرح ان پورنا کی جان اس کے تان پورے میں بند ہے۔ جب وہ پیانو بجاتی تھی تو برجیش اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے کلکتے کے کلایو اسٹریٹ کی تجارتی خبریں پڑھتا تھا یا آرام سے کرسی پر لیٹے لیٹے سوجاتا تھا اور ناہید خوف زدہ ہو کر کہتی ہائے اللہ کیسا ٹپکل قسم کا شوہر ہے!لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔
برجیش نے ان پورنا کوچھ سات سال قبل پہلی بار مہا بلیشور میں دیکھا تھا۔ اور اس کے صرف ایک ماہ بعد ہی ان پورنا کو اپنے نام کے آگے سے شیرالےہٹا دینا پڑا تھا۔ وہ دونوں سال کا زیادہ حصہ ریاست کے صدر مقام پر راجپوتانہ میں گزارتے تھے۔ جاڑوں میں کبھی کبھی اپنے عزیزوں سے ملنے پونا یا بمبئی چلے جاتے اور گرمیوں میں شمالی ہند کے پہاڑوں پر آجاتے۔ اب کی مرتبہ انہوں نے طے کیا تھا کہ اگلے سال وہ دونوں کشمیر جائیں گے جو ان پورنا نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ اسے نینی تال کی جھیل میں رقصاں روشنیاں پسند تھیں اور مسوری کی بے پناہ رنگینیاں اور چہل پہل۔ شملہ بہت غیر دلچسپ اور بہت سرکاری تھا۔ زیادہ سے زیادہ تفریح کرلی، جاکر بے وقوفوں کی طرح’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘ پر بیٹھ گیے یا ڈے وی کو چلے گیے۔ ان پورنا کو مسوری پسند تھی اور اپنا شوہر اور اپنے دونوں بچے اور اپنے مخلص اور دلچسپ دوستوں کا حلقہ جو ہر سال وسیع تر ہوتا جاتا تھا۔ اسے اس صوبے کی سب چیزیں بہت اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کا کلچر ،ان کا باتیں کرنے کا خوب صورت انداز، ان کے شاندار اور تصویروں ایسے لباس ،ان کے رنگ برنگے غرارے اور سیاہ شیروانیاں، ان کے مشاعرے، ان کی کلاسیکل موسیقی۔
جب موسم بہت غیر دل چسپ ہوجاتا یا بارش کی وجہ سے وہ ناہید کے گھر تک نہ جاسکتی تو اپنے کمرے میں بچوں کے لیے نٹنگ کرتی، یا برآمدے میں بیٹھ کر اپنی ہمسایہ بیگم ارجمند سے باتیں کرتی۔ اس کے دونوں بچے پچھلے سال سے کین ویل ہاؤس میں پڑھ رہے تھے۔ بڑا لڑکا بالکل برجیش جیسا تھا۔ سنجیدہ، کم سخن، لیکن اپنی بات منوانے والا۔ بچی ان پورنا کی طرح تھی۔ شیریں تبسم اور سبز آنکھوں والی۔ چار سال کی عمر میں کتھک ناچ ایسا ناچتی تھی کہ بس دیکھا کیجئے۔ یہ ان پورنا کا محبوب مشغلہ تھا کہ آرام کرسی پر لیٹ کر میرؔا کی آئندہ زندگی کے لیے پروگرام بنائے اور اس نے سوچا تھا کہ اگلے سال وہ اسے شمبھو مہاراج کے پاس لکھنؤ لے جائے گی۔
ناہید اپنا گیت ختم کرچکی تھی اور خوب زور زور سے تالیاں بجائی جارہی تھیں۔ باہر بارش تھم گئی تھی اور رات کا اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ڈنر کے بعد سب پھر وہاں جمع ہوگیےاور وہ کمرہ باتوں اور قہقہوں کے شور سے جاگ اٹھا۔ سب دیواروں کے قریب بکھرے ہوئے صوفوں پر بیٹھ کر قہوہ،سگریٹ، پائپ اور دوسری اپنی اپنی پسند کی چیزیں پینے میں مصروف ہوگیے۔ مختلف قسم کی باتیں شروع ہوئیں۔ جنگ کی صورت حال، سوسائٹی کے تازہ ترین اسکنڈلز، ٹینس اور کرکٹ کے متعلق پیشین گوئیاں، بھتنے روحیں، قسمت کی لکیریں۔
’’بھئی ہم کو تو اب نیند آرہی ہے ہم جاتے ہیں۔ شب بخیر‘‘ برجیش اپنی چائے کی پیالی ختم کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹھو ابھی کیا بد مذاقی ہے‘‘کرنل جہانگیر نے ڈانٹا۔
’’بے چاری ان پورنا۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔ ایسی شاعرانہ، آرٹسٹک مزاج کی لڑکی اور کیسے روکھے پھیکے آدمی سے پالا پڑا ہے۔‘‘ بیگم ارجمند نے ذرا دور دریچے کے نزدیک رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے کہا۔
’’آہ۔ یہ ہمارے ہندوستان کی بے جوڑ شادیاں۔‘‘ کنور رانی بلبیر سنگھ نے ناک پر سے رومال ہٹاکر سماج کی دگرگوں حالت پر ایک مختصر سی آہ بھری اور پھر ویپکس سونگھنے لگیں۔ بیگم ارجمند اور کنور رانی بلبیر سنگھ سارے دن اپنے ونگ میں اپنے کمروں کے آگے برآمدے میں بیٹھی بیٹھی مسوری بھرکے اسکنڈلز ڈائریکٹ کرتی رہتیں۔ سوائے کی دوسری منزل سے دنیا کا ایک جنرل طائرانہ جائزہ لے کر واقعات عالم پر تبصرہ اور آخری فیصلہ صادر کیا جاتا تھا۔ رفعت آرا اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی ہے۔ آمنہ طلاق لے رہی ہے۔ نسیم نے ہندو سے شادی کرلی۔ میجر ارشاد تیسری بار عشق میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یہ ناہید جو مستقل بیمار رہنے لگی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے قطعی اس کنگ جارج میڈیکل کالج والے خوبصورت ڈاکٹر سے عشق ہوگیا ہے۔ جو بیگم حمیداللہ کا بھانجا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں نے بیگم ارجمند کے بر آمدے کا نام ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ٹو‘‘ ہیک مینزکی پچھلی گیلری تھی۔
اور پھر دفعتاً اپنی اپنی باتیں چھوڑ کر سب کرنل جہانگیر کی طرف بے حد دلچسپی سے متوجہ ہوگیے،جو تھوڑی دیر سے فی فی کا ہاتھ دیکھنے میں مشغول تھے۔ فی فی گوا کے پرتگالی حاکم اعلیٰ کی سیاہ آنکھوں اور سیاہ بالوں والی لڑکی تھی۔ جو چند روز قبل اپنے والدین کے ہمراہ بمبئی سے آئی تھی اور آتے ہی اپنے اخلاق اور اپنی موسیقی کی وجہ سے بے حدہر دلعزیز ہوگئی تھی۔ سب اپنے اپنے ہاتھ دکھانے لگے۔ بھوتوں اور روحوں کے قصے چھڑ گیے۔ باتوں باتوں میں کرنل جہانگیر نے دعویٰ کیا کہ وہ اسی وقت جس کی چاہوروح بلا دیں گے۔
اور پھر سب کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا۔ اب موسم کے ’ڈل‘ ہونے کی شکایت نہ کی جاتی۔ جب بارش ہوتی یا برج میں جی نہ لگتا تو سب کرنل جہانگیر کے سٹنگ روم میں جمع ہوجاتے۔ برج کی میز پر انگریزی کے حروف تہجی الگ الگ کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ایک دائرے میں پھیلا دیے جاتے۔ بیچ میں ایک گلاس الٹا الٹا رکھ دیا جاتا۔ سب چاروں طرف چپ چاپ بیٹھ جاتے۔ گلاس پر دو انگلیاں ٹکادی جاتیں اور پھروہ گلاس خود بخود اچھلتا ہوا مختلف حروف پر جا رکتاا اور ان حروف کوجمع کر کے روحوں کا پیغام حاصل کیا جاتا ۔ اس میں بڑے مزے کے لطیفے ہوتے۔ بعض دفعہ غلط روحیں آجاتیں اور خوب ڈانٹ پھٹکار سنا کر واپس جاتیں۔
شہنشاہ اشوک ہمیشہ بڑی مستعدی سے آجاتے۔ جاتے وقت روح سے درخواست کی جاتی کہ اب فلاں کو بھیج دیجئے گا۔ جین ہار لو اور لیزلی ہاورڈ کو کئی بار بلایا گیا۔ پنڈت موتی لال نہرو نے آکر ایک مرتبہ بتایا کہ اگلے دو تین سال کے اندر اندر ان کا بیٹا ہندوستان کا حاکم اعلیٰ بن جائے گا۔ روحوں کی پیشین گوئیاں بعض دفعہ بالکل صحیح نکلتیں۔ ان سے سیاسیات پر کم شادی اور رومان پر زیادہ سوالات کیے جاتے۔ لڑکیاں خوب خوب جھینپتیں۔ بہت دلچسپی سے وقت گزرتا۔ کرنل جہانگیر انتالیس چالیس کے رہے ہوں گے لیکن اب تک کنوارے تھے اور مسئلہ تناسخ کے بے حد قائل۔ انہیں دنیا میں صرف تین چیزوں سے دلچسپی تھی۔۔۔ باغبانی، روحانیات اور نرگس۔ پونا میں ان کی ایک بھتیجی تھی۔ جسے وہ بہت چاہتے تھے اور اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے اور بیگم ارجمند نے یہ طے کیا تھا کہ یہ نرگس ان کی بھتیجی و تیجی قطعی نہیں ہے۔
وہ خواتین کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے ژند اوستا اور ایران کے صوفی شعراء اور جرمن فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ کئی سال یورپ میں گزارے تھے۔ پیرس میں روحوں کے scancesمیں شامل رہ چکے تھے۔ اور سب ملا کر بے حد دلچسپ شخص تھے۔
ایک روز ڈنر کے بعد سب لوگ حسب معمول پھر نشست کے کمرے میں آگیے۔ ان پورنانٹنگ میں مشغول تھی۔ انعام محمودفی فی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ناہید ڈون کارلو سے سوجانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں پھیلائے بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا۔ برجیش ایک کونے میں ایک آئی ۔سی۔ ایس صاحب بہادر سے ہندوستانی ریاستوں کی سیاست پر الجھ رہا تھا۔ پیانو کے قریب ایک اسٹول پر رانی کرم پور تلاری کا منظور نظر مظہر الدین بیٹھا پائپ کا دھواں اڑا رہا تھا۔ مظہر الدین بہتر سے بہتر سوٹ پہنتا، اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہرتااور بڑے ٹھاٹھ سے رہتا، پونٹیک سے کم بات نہ کرتا اور سب جانتے تھے کہ کہ یہ بڑے ٹھاٹھ کس طرح ہوتے ہیں اور ان کے لیے اتنا بے تحاشا روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ اس کی شکل اچھی خاصی تھی۔ ذہن کے معاملہ میں یوں ہی، لیکن بات کرنے میں بہت تیز ۔ پہلے وہ ادھیڑ عمر کی بیگم فرقان الدولہ کا منظور نظر تھا۔ اب کچھ عرصے سے رانی کرم پور تلاری کے ساتھ دکھائی دیتا تھا۔
بیگم ارجمند اور ان پورنا وغیرہ اس سے بہت کم بات کرتی تھیں۔ لیکن ان کے شوہروں کی سوسائٹی میں وہ کافی مقبول تھا۔ پائپ کی راکھ جھٹک کر اس نے ان پورنا سے پوچھا، ’’مسز پر بھاکر آپ کو مسئلہ تناسخ سے دلچسپی ہے؟ ‘‘
’’میں نے کبھی اس طرف خیال نہیں کیا۔ کیوں کیا آپ کو بھی۔۔۔ روحانیت سے شغف پیدا ہوگیا؟ ‘‘ ان پورنا کو بادل ناخواستہ لیکن اخلاقاً کیوں کہ وہ مظہر الدین کے قریب بیٹھی تھی، اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔’’کرنل جہانگیر تولگتا ہے اس مرتبہ ہم سب کو بالکل سنیاسی بنا کر چھوڑیں گے۔ آج کل جسے دیکھئے اپنی اپنی شکار اور اسٹاک ایکسچینج کی باتیں چھوڑ کر روحوں سے الجھ رہا ہے۔‘‘ مظہر الدین نے کہا۔ کرنل جہانگیر نے اس کی بات سن لی۔ وہ بولے، ’’ان پورنا رانی کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روز ہم سب اس مایا جال کو تج کر جٹائیں بڑھائے دو تارہ بجاتے سامنے ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں کی طرف رخ کرتے نظر آئیں۔‘‘
’’اگرمیری بیوی بھی اپنا تان پورہ اٹھا کر بنوں کو نکل گئی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا کرنل۔‘‘ برجیش نے اپنے مخصوص انتہائی غیر دلچسپ طریقے سے کہا۔ ’’چپ رہو یار۔ تم اپنے بازار کے بھاؤ اور گولف سے الجھتے رہو۔ یہ مسائل تصوف ہیں بھائی جان۔‘‘ صاحبزادہ ارجمند نے ڈانٹ پلائی۔ برجیش ایک خشک سی ہنسی ہنسا اورپھر نہایت مستعدی سے ان صاحب بہادر کو ارجن گڈھ اسٹیٹ کی پالیسی سمجھانے میں مصروف ہوگیا جو غالباً اگلے مہینے سے وہاں کے ریزیڈنٹ بننے والے تھے۔ پھر قہوہ کے دور کے ساتھ زور شور سے گرما اور آواگون کی بحث چھڑ گئی۔ کرنل جہانگیرکی باتیں بہت دل چسپ ہوتی تھی۔ مثلاً اس وقت انہوں نے ناہید سے کہا کہ پچھلے جنم میں وہ پرتھوی راج تھے اورناہیدان کی کوئی بہت قریبی عزیز تھی۔
’’غالباً سنجو گتا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔ سب ہنسنے لگے پھر مزے مزے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔ کون کون پچھلے جنم میں کیا کیا رہا ہوگا۔ ’’کرنل پچھلے جنم میں ناہید کی شادی کس سے ہوئی تھی؟ ‘‘ بیگم ارجمند نے انتہائی دلچسپی سے اپنی سیاہ آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ ’’کوئی جون پور کا کن کٹا قاضی رہا ہوگا‘‘راج کمار روی بولے۔ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ناہیدکی نسبت پچھلی کرسمس میں کسی پولس افسر سے ہوئی تھی اور سب دوستوں نے مل کر اسے مبارکباد کا تار بھیجا تھا۔۔۔جس میں صرف یہ جملہ تھا،’’سیاّں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔‘‘
کرنل جہانگیر ان پور نا کا ہاتھ دیکھنے میں مصروف تھے۔ اورپھر یک لخت کرنل جہانگیر نے بے حد سنجیدہ لہجہ میں اور بڑی مدھم آواز سے آہستہ آہستہ کہا،’’ان پورنا رانی تمہیں یاد آتا ہے کسی نے تم سے کبھی کہا تھا ۔۔۔جب چاندنی راتوں میں کنول کے پھول کھلتے ہوں گے اور بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کی برف پگھل کر گنگا کے پانیوں میں مل رہی ہوگی۔ اس وقت میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔ یاد رہے۔‘‘
ان پورنا حیرت زدہ سی اپنی پلکیں جھپکاتی کرنل کو دیکھنے لگی۔ کمرے میں دفعتاً بڑا حساس سکوت طاری ہوگیا۔کرنل نے اس کا چھوٹا سا ہاتھ کشن پر رکھ کر پھر کہنا شروع کیا، ’’یاد کرو۔۔۔ اس کا نام کمل اندر تھا۔ پچھلے جنم میں تم اس کی رانی تھیں۔ چاندنی راتوں میں اپنے راج محل کی سیڑھیوں پر جو گنگا میں اترتی تھیں۔ وہ وینا بجاتا تھا اور تم سنتی تھیں، تم ناچتی تھیں اور وہ دیکھتا تھا۔ پھر تمہاری شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ ایک جنگ میں مارا گیااور تمہاری قسمت کی لکیریں کہتی ہیں کہ تم اس جنم میں اس سے ضرور ملوگی۔ ایسا ضرور ہوگا۔ ستارے یہی چاہتےہیں۔ کرنل رک کر اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھنے لگا۔سب بت بنے اس کی آواز سن رہے تھے، جو لگ رہا تھا، رات کے اس سناٹے میں کہیں بہت دور سے آرہی ہے ان پورنا اسی طرح پلکیں جھپکاتی رہی۔ بیگم ارجمند کی آنکھیں پھیلی کی پھیلی رہ گئیں۔
’’اوہ کرنل ہاؤفنٹاسٹک۔۔۔‘‘ ناہید نے چند لمحوں بعد اس خاموشی کو توڑا پھر رفتہ رفتہ قہقہے اور باتیں شروع ہوگئیں۔ کرنل کی پیشین گوئی سب کے خیال میں متفقہ طور پر شام کا بہترین لطیفہ تھا۔
برجیش نے آئی۔ سی۔ ایس صاحب بہادر سے گفتگو ختم کرنے کے بعد اپنے کونے سے ان پورنا کو آواز دی،’’چلوبھئی اب چلیں سخت نیند آرہی ہے۔‘‘ پھر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کہہ کر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد نشست کا کمرہ بالکل خالی ہوگیا۔اور سب سے آخر میں،ان سب باتوں پر اچھی طرح غور و خوض کرتا ہوا ڈون کارلو اپنی کرسی پر سے نیچے کودا اور ایک طویل مطمئن انگڑائی لینے کے بعد چھوٹے چھوٹے قدموں سے باہرکے زینے کی سیڑھیاں چھلانگتا نیچے کورٹ یارڈ میں پہنچ گیا۔ جہاں اپنے گھر جانے کے لیے ناہید رکشا میں سوار ہو رہی تھی۔
موسم روز بروز زیادہ غیر دل چسپ ہوتا جارہا تھا۔ مرد دن بھر لاؤنج میں برج کھیلتے ،اَن پورنا بچوں کو لے کر ٹہلنے چلی جاتی یا اپنے سٹنگ روم میں میرا کو طبلے کے ساتھ کتھک کے قدم رکھنا سکھاتی رہتی۔ جب وہ تان پورے کے تار چھیڑتی تو دفعتاً اسے محسوس ہوتا کوئی اس سے کہہ رہا ہے میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ ستارے یہی چاہتے ہیں۔۔۔ ستارے یہی۔۔۔ کیا حماقت۔۔۔ گدھے پن کی حد ہے۔ اسے غصہ آجاتا۔ پھر ہنسی آتی۔ اس قسم کے باولے پن کی باتوں کا وہ خودمذاق اڑایا کرتی تھی۔۔۔ان پورنا۔۔۔ ان پورنا۔۔۔ اتنی موربڈ ہوتی جارہی ہے۔ ان پورنا جس کے شیریں قہقہے سوسائٹی کی جان تھے۔
’’کرنل کم از کم روحیں ہی بلادو۔ بہت دنوں سے مہاراجہ اشوک سے گپ نہیں کی۔‘‘ ناہید نے بے حداکتا کر ایک روز کرنل جہانگیر سے کہا۔ وہ سب ’’اونٹ کی پیٹھ‘‘ سے واپس آرہے تھے۔ ’’خدا کے لیے اب یہ حماقت کا بکھیڑانہ پھیلانا۔ میرے اعصاب پرآجاتی ہیں تمہاری یہ روحوں سے ملاقاتیں۔‘‘ بیگم ارجمند نے ڈانٹا۔
’’کرنل واقعی تم کمال کے آدمی ہو۔ اچھا میرے ہاتھ کے امپریشن کا تم نے مطالعہ نہیں کیا؟ ‘‘ ناہید نے بیگم ارجمند کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’ان نصیبوں پہ کیا اختر شناس۔۔۔‘‘ کرنل نے کچھ سوچتے ہوئے بڑی رنجیدہ آواز میں کہا اور چپ ہوگیے۔
’’کیوں کرنل تمہیں کیا دکھ ہے؟‘‘ ناہید نے ’’تمہیں‘‘پر زور ڈال کر پوچھا۔
’’دکھ ۔۔۔؟ شش۔۔۔ شش۔ بچے دکھوں کی باتیں نہیں کیا کرتے۔‘‘ وہ لائبریری کی سڑک پر سیڑھیوں تک پہنچ چکے تھے۔
اس روز کنورانی بلیر سنگھ نے اپنی ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘پر سے پیشین گوئی کی،’’ دیکھ لینا۔۔۔ ان پورنا اس مرتبہ ضرور کوئی نہ کوئی آفت بلائے گی۔ یہ اس دل جلے کرنل نے ایسا شگوفہ چھوڑا ہے۔ اور برجیش کیسا بے تعلق رہتا ہے اور یہ ہندوستانی ریاستوں کے حکام۔۔۔ تم نہیں جانتیں مائی ڈیر۔۔۔ ان لوگوں کی کیا زندگیاں ہوتی ہیں کیا مورلز ہوتے ہیں۔۔۔ جبھی تو دیکھو برجیش اس کم عمری میں اتنی جلدی فنانس منسٹر کے عہدے پر پہنچ گیا۔‘‘
’’دنیا نہ جانے کدھر جارہی ہے‘‘ بیگم ارجمند نے ان کے خیال کی تائید کی۔
اور پھر آخر ایک روز راجکماری نے چائے کے وقت سب کو بتایا کہ ’’وہ‘‘ واقعی آرہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ سے تقریباً ایک ایک فٹ اچھل پڑے۔ کئی دن سے کسی شخص کا مستقل تذکرہ ہو رہا تھا۔ کئی پارٹیاں اور پکنکیں ایک خاص مدت کے لیے ملتوی کی جارہی تھیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ ’’دیکھ لینا وہ ضرور اس دفعہ شادی کر لے گا۔۔۔قطعی نہیں۔۔۔وہ شادی کرنے والا ٹائپ ہی نہیں۔۔۔بھئی موسیقی کی پارٹیوں کا اس کے بغیر لطف ہی نہیں۔ ارے میاں انعام محمودفی فی کی طرف سے باخبر رہنا، وہ آرہا ہے۔ بھئی ڈاکٹر خان کو اطلاع کر کے ایمبولینس کاریں منگوا لی جائیں۔ نجانے کتنی بے چاریاں قتل ہوں گی کتنی زخمی۔‘‘
’’آخر یہ کون ڈون ژوان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی آمد سے پہلے ہی اتنا تہلکہ مچا رکھا ہے‘‘ ناہید نے اکتا کر پوچھا۔
’’ڈون ژوان۔۔۔! قسم سے ناہید بیگم خوب نام رکھا تم نے۔ ’’وہ‘‘ ہے در اصل خورشید احمد۔ پچھلے کئی سال سے اپنا ہوائی بیڑہ لے کر سمندر پار گیا ہوا تھا۔ اسی سال واپس آیا ہےاور اتوار کی شام کو یہاں پہنچ رہا ہے۔ باقی حالات آپ خود پردہ سیمیں پر ملاحظہ فرمائیے گا۔‘‘ راج کمار روی نے کہا۔
اسی روز سے بارش شروع ہوگئی اور اپنی امی کی طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے ناہید کئی روز تک ان پورنا اور دوسرے دوستوں سے ملنے کے لیے سوائے نہ آسکی۔دوسرے دن شام کو بالآخر ’’وہ‘‘ آگیا ۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوست اور تھے جو اس کے ہوائی بیڑے سے تعلق رکھتے تھے۔چائے کے بعد ڈائننگ ہال کی سیڑھیاں طے کر کے وہ بلیرڈ روم کی طرف جارہا تھااور اس وقت ان پورنا نے اسے دوسری بار دیکھا۔ کیوں کہ وہ کمل اندر تھا۔ ان پورنا کے دل میں کسی نے چپکے سے کہا۔ اس وقت تک ان پورنا کا اس سے باقاعدہ تعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ اس لیے ڈائننگ ہال کے زینے پر سے اتر کے گیلری کی جانب جاتی ہوئی ان پورنا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اسے پہچانے بغیر بلیرڈ روم میں داخل ہوگیا۔ جہاں سب دوست جمع تھے۔
تھوڑی دیر بعد نشست کے بڑے کمرے میں واپس آکر ان پورنا آکر ایک بڑے صوفے پر گر گئی۔ اس نے دیوار پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرنی چاہی۔ اس نے پیانو پر ایک نیا نغمہ نکالنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کشنوں پر سر رکھے اسی طرح پڑی رہی۔ بالکل خالی الذہن۔ اتنے میں وسط کے ہال کے زینے پر سے اتر کر مسز پد منی اچاریہ اندر آئیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ان سے میراؔ کے ’’ پل اوور‘‘ کے لیے وہ نمونہ مانگ لے جو وہ صبح بن رہی تھی۔ مگر مسز اچاریہ اسے ایک ہلکا سا ’’ ہلو‘‘ کہنے کے بعد آئینے میں اپنے بال ٹھیک کر کے باہر چلی گئیں اور وہ ۔۔۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ کمرے کی کھڑکیوں میں سے باہر لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگ حسب معمول برج کھیلتے نظر آرہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ پھر اندھیرا پڑے بلیرڈ روم سے واپس آکر برجیش برآمدے میں سے گزرا اور وہ اس کے ساتھ اپنے کمروں کی طرف چلی گئی۔
دوسرے روز صبح جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر ونگ کے برآمدے میں سے گزرتی زینے کی سمت جارہی تھی۔ وہ زینے کی مختصر سیڑھیوں کے اختتام پر کلوک روم کے قریب کھڑا سگریٹ جلاتا نظر آیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے آگے آکر بے حد اخلاق سے آداب عرض کہا، غالباً پچھلی شام بلیرڈ روم میں ان پورنا سے اس کا غائبانہ تعارف کرا دیا گیا تھا۔
’’میں خورشید ہوں۔ خورشید احمد۔‘‘
’’آداب۔ برجیش کے دوستوں میں سے میں نے صرف آپ کو اب تک نہیں دیکھا۔‘‘
’’جی ہاں جب میں ہندوستان سے باہر گیا تھا۔ اس وقت تک برجیش نے شادی نہیں کی تھی۔‘‘
اور تب ان پورنا سے کوئی چپکے سے بولا ۔ اس سے کہو تم غلط کہتے ہو، تم خورشید احمد قطعی نہیں ہو۔ تم بالکل صفا کمل اندر ہو۔ پورن ماشی کی چاندنی میں نکھرتے سفید شگوفوں اور دنیا کے گیتوں والے کمل اندر۔ کنول کے پھول کے دیوتا۔ فوراً اسے اپنے اس بچپنے پر ہنسی آگئی۔ اس بے موقع ہنسی کو ایک انتہائی خوش اخلاقی کی مسکراہٹ میں تبدیل کرتے ہوئے اس نے۔۔۔
’’اچھا آئیے نیچے چلیں۔ ہمارا انتظار کیا جارہا ہوگا۔‘‘
چائے پیتے پیتے کنور رانی بلیر سنگھ نے بڑی بزرگانہ شفقت سے خورشید سے پوچھا، ’’بھیا تم کا کرت ہو؟‘‘ انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وہ بھی ہردوئی کے اسی حصے کا ہے جس طرف ان کا تعلقہ تھا۔
’’فی الحال تو بمبار طیارے اڑاتا ہوں۔ لڑائی کے بعد نوکری نہیں ملی تو مرغیوں کی تجارت کیا کروں گا۔ بڑی مفید چیز ہوتی ہے۔ پولٹری فارمنگ۔۔۔‘‘
’’شادی اب تک کیوں نہیں کی؟ ‘‘بیگم ارجمند نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’وہ وجہ در اصل یہ ہوئی بیگم ارجمند کہ کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور جن لڑکیوں سے میں ملا وہ یا توجلد بازی میں آکر پہلے ہی شادی کرچکی تھیں یا کسی اور کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھیں یا عنقریب ہونے والی تھیں۔ اس کے علاوہ بیگم ارجمند میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچتے کہ ایک بلی بھی پال سکوں۔‘‘
جب خواتین بیگم انور امام یعنی ناہید کی امی کی مزاج پرسی کے لیے رکشاؤں میں سوار ہو گئیں تو راج کمار روی نے پوچھا، ’’ خورشید میاں تم بہت اترا رہے ہو ۔لیکن تمہارے اس تازہ ترین عشق کا کیا ہوا جس کا ذکر اپنے خطوط میں کر کے تم نے بور کردیا تھا۔ ‘‘
’’چل رہا ہے ‘‘اس نے اس بے فکری سے جواب دیا گویا موٹر ہے جو ٹھیک کام دے رہی ہے۔
اور بہت سی دل چسپ اور انوکھی باتوں کے علاوہ اس نے طے کیا تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسے سچ مچ پسند آگئی تو وہ فی الفور اس سے شادی کرلے گا۔ چاہے وہ کتنی ہی کالی بھجنگی ایسی کیوں نہ ہو۔ ویسے وہ کیپ فٹ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے گاہے بگاہے غم دل میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا۔
لیکن پچھلے دنوں والا واقعہ خاصی سنجیدہ شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ اسی مارچ کے ایک غیر دلچسپ سے اتوار کو جب کہ اس کی میس کے سارے ساتھی یا سو رہے تھے یا اپنے اپنے گھروں کو خط لکھنے میں مصروف تھےاور کینٹین میں کام کرنے والی ساری لڑکیاں اوف ڈیوٹی تھیں اور مطلع سخت ابر آلود تھا۔ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اس وقت اس نے فوراً اس لڑکی سے عشق کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کی تصویر اسی روز نئے listner میں دیکھی تھی۔ وہ ایک خاصی خوش شکل لڑکی تھی اور شمالی ہند کی کسی نشرگاہ سے دوپہر کوانگریزی موسیقی کے ریکارڈوں کا اناؤنسمنٹ کرتی تھی۔ چنانچہ بے حد اہتمام سے اسی وقت ایک ریڈیو فین کی حیثیت سے اسے ایک خط لکھا گیا۔
آپ کے ریکارڈوں کا انتخاب بے حد نفیس ہوتا ہے اور اپنی نقرئی آواز میں جب آپ فرمائشی ریکارڈوں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کو ایک دوسرے کے پیغامات نشر کرتی ہیں،انہیں سننے کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کو رات بھر نیند نہیں آتی، دوسرے کو اختلاج قلب کا عارضہ ہوگیا ہے، تیسرے کو اعصابی شکایت اور باقی سب کو ابھی دل و دماغ کے جتنے امراض تحقیق ہونے باقی ہیں وہ سب لاحق ہونے والے ہیں۔ اور پرسوں رات کے ڈرامے میں جوآپ کینڈیڈ بنی تھیں تو چاروں طرف اتنے حادثات وقوع پذیر ہوئے کہ ہمیں ریڈیو بند کر کے ایمبولنس کار منگوانی پڑی۔ پھر ایک دوست صاحب خاص طور پر سفر کر کے اس لڑکی کو دیکھنے گیےاور تقریباً نیم جاں واپس آئے۔ پھر ایک صاحب سے جو اسی نشرگاہ کے ایس ڈی کے دوست تھے،معلوم ہوا کہ بڑی بددماغ لڑکی ہے۔ کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔ اسٹوڈیوز میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور سب اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس کو مختلف ناموں سے دس پندرہ خط لکھے گیے۔
عرصے کے بعد اس کا جواب آیا۔ خط میں بڑا فیشن ایبل پتہ درج تھا جو بڑی رومینٹک بات لگی اور نہایت مختصر سا خط جو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ لوگوں کو ہمارے پروگرام پسند آتے ہیں، سے شروع ہو کر امید ہے کہ آپ سب بخیریت ہوں گے، پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعدپھر دوتین خط لکھے گیے۔ سب کا جواب غائب۔ آخر میں خورشیدکے مسوری آنے سے چند روز قبل اسی لڑکی کا ان سارے خطوں کے جواب میں ایک اور مختصر خط ملا تھا۔ جس پر اور بھی زیادہ فیشن ایبل اور افسانوی پتہ درج تھا۔ فیئری لینڈونسنٹ ہل ، مسوری۔ اور اب جب سے خورشید اور اس کے دونوں دوست مسوری پہنچے تھے۔ یہی فکر کی جارہی تھی کہ اس فیئری لینڈ کو تلاش کیا جائے۔ اگلی صبح اپنے سوائے والے دوستوں کو بتائے بغیر پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ونسنٹ ہل کی طرف چل پڑے۔ بہت اونچی چڑھائی کے بعد ایک خوب صورت دو منزلہ کوٹھی نظر آئی جس کے پھاٹک پر ایک سنگ مرمر کے ٹکڑے پر فیئری لینڈ لکھا تھا۔
آگے بڑھے تو پہلے ایک بل ڈاگ اندر سے نکلا۔ پھر دوسرا پھر تیسرا۔ آخر میں ایک چھوٹا سا سفید کتا باہر آیا جو پیسٹری کھا رہا تھا۔ تینوں پہلے کتوں نے مل کر بھونکنا شروع کیا۔ چوتھا کتا یقینا زیادہ خوش اخلاق تھا۔ وہ چپ چاپ پیسٹری کے ڈبے میں مصروف رہا۔ سب کے بعد ایک لڑکی باہر آئی اور ان سب کتوں کو گھسیٹ کر اندر لے گئی کیوں کہ باہر خنکی زیادہ تھی اور کتوں کو انفلوئنزا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ ابھی انہوں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آگے جائیں یا واپس چلیں کہ موڑ پر سے کنور رانی بلیر سنگھ کی رکشا آتی نظر آئی۔ سوالات کی زد سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے پیچھے چلے گیے۔
’’چنانچہ پیسٹری کھاتا ہے‘‘خاموشی سے چلتے ہوئے کپور تھلہ ہاؤس کی سڑک پر واپس پہنچ کر ایک دوست نے بے حد غور و فکر کے بعد کہا۔
’’باقی کے تینوں بھی اگر یہی شوق کریں تو نہیں بھونکیں گے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’قطعی نہیں بھونکیں گے۔‘‘خورشید نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔
شام کو جب خورشید راج کمار رویؔ اور برجیش کے ساتھ مال پر ٹہلنے نکلا تو دفعتاً اسے یاد آگیا کہ بے حد ضروری خریداری کرنا ہے۔ ’’ تم لوگ حمید اللہ سے مل آؤ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘ راجکمار روی اور برجیش کے آگے جانے کے بعد وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ منزلیں مارتا کلہڑی تک پہنچ گیا۔ لیکن کیک پیسٹری کی دوکان کہیں نظر نہ آئی۔ آخر جب وہ بالکل نا امید ہو کر واپس لوٹ رہے تھے تو خورشید کی نظر سڑک کی ڈھلوان کے اختتام پر ایک چھوٹی سی دوکان پر پڑ گئی جس پر بہت بڑا بورڈ لگا تھا۔ ’’رائل کنفکشنری۔‘‘ ایک صاحب دوکان کے باہر کرسی پر بیٹھے ہمدرد صحت پڑھ رہے تھے۔
’’کیوں صاحب آپ کیک پیسٹری بیچتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ کیا آپ کا خیال ہے میں نے تفریحاً دوکان کھولی ہے۔‘‘
’’ارے میرا مطلب ہے۔۔۔ ‘‘
’’مطلب کیا صاحب!کیا میں یہاں محض تفریحاً بیٹھا ہوں یا یہ جو کھڑکی سجی ہے اسے صرف دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ یا انہیں محض سونگھتا ہوں۔ آخر سمجھتے کیا ہیں آپ؟ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’کیا چاہئے صاحب۔۔۔؟‘‘اندر سے جلدی سے ایک لڑکا نکلا۔
شام کو وہ سب ہیک مینز کے ایک نسبتاً خاموش گوشے میں جمع چائے پی رہے تھے۔ ’’آہ۔۔۔ فقط ایک جھلک اس کی دیکھی ہے لیکن کیا نفیس ناک ہے کہ گلابی سی اور مختصر جو غالباً سردی کی وجہ سے نم رہتی ہےاور آنکھیں چمکیلی اور شوخ اور نرگسی اور لمبے لمبے ریشمی بال اور آہ وہ کان چھوٹے چھوٹے بالکل پرستش کے قابل۔۔۔‘‘ خورشید نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد بے حد رنجیدہ لہجہ میں کہا۔
’’کہاں دیکھی تھی یار جلدی بتاؤ‘‘انعام محمود نے کان کھڑے کیے۔
’’ آہ۔۔۔ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔ کیوں کہ دنیا کی خوب صورت ترین لڑکی کا کتاہے اور ۔۔۔ ‘‘
یک لخت خورشید کو وہ دوبارہ نظر آگیا۔ وہ ذرا دور پر دیوار کے قریب ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔ اتنا نفیس خلیق کتا جو اگر نہ بھونکتا تو پتہ بھی نہ چلتا کہ کتا ہے۔ بالکل سفید فرکا بڑا سا پرس معلوم ہوتا تھا۔ اور ڈؤن کارلو کو اپنے سامنے رکھی ہوئی طشتری میں پلم کیک کے ٹکڑے کھاتے کھاتے دفعتاً خیال آیا کہ گیلری کے پرے نیلے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس انسان کو وہ صبح دیکھ چکا ہے۔ اس نے کیک ختم کر کے ایک طویل انگڑائی لی اور اس انسان سے گفتگو کرنے کے ارادے سے صوفے پر سے کود کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا گیلری کی طرف چلا۔
اس کی مالکہ اسی گیلری کی دوسری جانب اپنے بھائیوں اور بہنوئی کے ساتھ چائے پی رہی تھی۔ اور حالاں کہ ’’ انڈین ٹی‘‘ کے اشتہار سے پتہ چلتا ہے کہ اس چائے کو پینے کے بعد آپ کو دنیا میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان جو تھوڑی دیر قبل ’’ارجمند ز کراؤڈ‘‘ کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تھا یقینا ایسا تھا کہ اگر پچھلی کرسمس میں اس کی نسبت علی ریاض اے ۔ ایس۔ پی۔ سے نہ ہوگئی ہوتی اور یہ نووارد آدمی اگر اس میں دل چسپی لینا چاہتا تو قطعی مضائقہ نہ تھا۔
’’ہلو ناہید بیگم۔۔۔ تم اتنے دنوں کہاں چھپی رہیں۔ ادھر آؤ۔۔۔ تمہیں خورشید سے ملوائیں جسے تم نے ڈون ژوان کا خطاب دیا تھا۔‘‘ راجکمار روی نے اس کی میزکے قریب آکر کہا۔
رات کو جب وہ سب ہیک منیز سے واپس آرہے تھے تو ناہید نے خورشید کے اس دوست کو دیکھ کر جو رائل کنفکشنری سے واپسی سے اب تک بے حد اہتمام سے پیسٹری کا ڈبہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے خورشید سے پوچھا،’’آپ لوگوں کو پیسٹری کا اتنا شوق ہے کہ اس کے ڈبے ساتھ لیے گھومتے ہیں؟‘‘
اگلی صبح بڑی خوش گوار تھی۔ مینہ رات بھر برس کر اب کھل گیا تھا۔ راستوں کے رنگ برنگے سنگ ریزے بارش کے پانی میں دھل دھلا کر خوب چمک رہے تھے۔ فضا میں پھولوں کی مہک اور گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی بڑی تروتازہ اور نکھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ان پورنا میرا کو لے کر ٹہلتی ہوئے نچلی دیوار تک آگئی۔ جہاں چند رکشائیں اور موٹریں کھڑی تھیں۔ لائبریری والی سڑک کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہوٹل کی طرف نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آداب عرض کہا،’’جے کرو بی بی انکل کو جے نہیں کی تم نے ۔‘‘ ان پورنا نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا کوڈانٹا۔ میرا نے بے حد پیارے طریقے سے اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ دیے، خورشید نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ پھر اسے آیا کے سپرد کردینے کے بعد وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی جانب آگیے۔ برجیش کے برآمدے میں پکنک کا پروگرام بنایا جارہا تھا۔ سب خورشید کے منتظر تھے۔
ایسا لگتا تھا جیسے سب میں جان پڑ گئی ہے۔ جو لوگ موسم کی غیر دل چسپی کی شکایت کرتے رہتے تھے، اب ان کا ہر لمحہ نت نئے پروگرام بنانے میں صرف ہوتا۔ ہر وقت پیانو اور وائلن بجتا ،فیری لینڈ جاکر ناہید سے ڈھولک کے پوربی گیت سنے جاتے۔ برساتیوں ،ٹوکریوں اور چھتریوں سے لد پھند کر وہ سب دور دور نکل جاتے۔ ایک روز پکنک پر جاتے ہوئے رائل کنفکشنری پر بھی دھاوا بولا گیا۔ برجیش بھی اب کلا یواسٹریٹ کی خبریں پڑھنے کی بجائے ان تفریحوں میں حصہ لینے لگا۔ دنیا یک لخت بڑی پر مسرت بڑی روشن اور بڑی خوش گوار جگہ بن گئی تھی۔
جس گھر میں خورشید اپنے ایک دور کے عزیز کے یہاں ٹھہرا تھا، وہ نہایت عجیب و غریب اور بے حد دل چسپ جگہ تھی۔ اوپر کی منزل میں جو سڑک کی سطح کے برابر تھی گھوڑے رہتے تھے جو سڑک پر سے سیدھے اپنے اصطبل میں پہنچ جاتے، جو ڈرائنگ روم کے عین اوپر تھا۔ درمیانی منزل میں مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں رہتی تھیں۔ نچلی منزل میں جس کی سیڑھیاں کھڈ میں اترتی تھیں، خورشید کو ٹھہرایا گیا تھا۔ گھوڑے شاید الارم لگا کر سوتے تھے۔ صبح سویرے ہی وہ جاگ جاتے اور تیسری منزل کی کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے میں مصروف ہوجاتے۔ خورشید کا جی چاہتا تھا کہ زور سے کچھ اس قسم کا گیت الاپے۔۔۔ یہ کون اٹھا اور گھوڑوں کو اٹھایا۔۔۔ پھر دوسری منزل پر مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں اپنے اپنے پسندیدہ اسٹائل سے جاگنا شروع کرتیں اور قیامت کا شور مچتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خورشید کے دونوں دوست غسل خانوں میں گھس کر اپنا صبح کا قومی ترانہ شروع کردیتے۔۔۔ یہ کون آج آیا سویرے سویرے ۔۔۔پھر لڑکیاں گھوڑوں پر سواری کے لیے جاتیں۔ لیکن سواری کرنی کسی کو بھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے سڑکوں پر روز شہسواری کے بعض نہایت نادر نظارے دیکھنے میں آتے۔۔۔ پھر ایک روز لڑکیوں کی شہسواری سکھانے کا بے اتنہا خوش گوار فرض خورشید کے سپرد کیا گیا۔ وہ اسی دن اپنا سامان لے کر سوائے بھاگ آیا۔
اسٹینڈرڈ میں سالانہ مشاعرہ تھا۔ محفل ختم ہونے کے بعد سب باہر نکل آئے تھے۔ بڑا بے پناہ مجمع تھا۔ بھوپال کی الٹرافیشن ایبل لڑکیاں، حیدرآباد کے جاگیردار، رام پور کے رئیس، نئی دہلی اور لکھنؤ کے ہندوستانی صاحب لوگ سب کے ہونٹوں پر جگرؔ کی تازہ غزل کے اشعار تھے،
لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گیے
بیٹھے ہم انتظار سحر دیکھتے رہے
زینے کی سیڑھیاں طے کر کے وہ سارے دوست بھی نیچے سڑک پر آگئے۔ مشاعرے کے دوران میں خورشید ان پورنا کو شعروں کے مشکل الفاظ کے معنی بتاتا رہا اور ان پورنا نے طے کر لیا کہ وہ ناہید سے قطعی طور پر اردو پڑھنا شروع کر دے گی۔ اردو دنیا کی خوب صورت ترین اور شیریں ترین زبان تھی اور لکھنؤ والوں کا لب و لہجہ، لکھنؤ جو خورشید کا وطن تھا، ان پورنا کالکھنؤ دیکھنے کا اشیاق زیادہ ہوگیا۔ وہاں کے ہرے بھرے باغ، سایہ دار خوب صورت سڑکیں، شان دار عمارتیں،مہذب لوگ جہاں کے تانگے والے اور سبزی فروش بھی اس قدر تہذیب سے اور ایسی نفیس زبان میں گفتگو کرتے تھے کہ بس سنا کیجئے اور پھر وہاں کا موسیقی کامیرس کالج ، وہاں کا کتھک ناچ ۔خورشید نے وائلن میرس کالج میں سیکھا تھا۔ برجیش کہتا تھا جس طرح ان پورنا رانی کی جان تان پورے کے تاروں میں رہتی ہے اسی طرح خورشید کی جان اس کے وائلن کیس میں بند ہے۔ مسلمان لڑکے عام طور پر زیادہ خوب صورت ہوتے ہیں۔ ناہید کی ساری غیر مسلم سہیلیاں اس سے اکثر کہا کرتی تھیں۔ خورشید بھی بہت خوب صورت تھا۔ برجیش اورکرنل جہانگیر اور راج کمار روی ان سب سے زیادہ دل کش اور شان دار۔
اور اس وقت جب کہ مشاعرے کے بعد وہ سب ٹہلتے ہوئے اسٹینڈرڈ سے واپس آرہے تھے، مال کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دفعتاً خورشید نے مڑ کر ان پورنا سے کہا، ’’زندگی بڑی خوش گوار ہے نا ان پورنا رانی، ہے نا؟‘‘ پھر وہ بے فکری سے سیٹی بجا کر ڈؤن کارلو کو بلانے لگا جو ناہید کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھاوہ اور ان پورنا آگے جاتے ہوئے مجمع سے ذرا فاصلہ پر سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔ آسمان پر ستارے جگمگا اٹھے تھے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔
’’تم زندگی سے بالکل مطمئن ہو خورشید احمد ؟‘‘ان پورنا نے تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد پوچھا۔
’’بالکل۔۔۔ مجھ سے زیادہ بے فکر شخص کون ہوگا۔۔۔ان پورنا رانی! میں جس کی زندگی کا واحد مصرف کھیلنا اور خوش رہنا ہے۔ جب میں اپنا طیارہ لے کر فضا کی بلندیوں پر پہنچتا ہوں، اس وقت مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میں موت سے ملاقات کرنے کی غرض سے جارہا ہوں۔ موت مجھے کسی لمحے بھی زندگی سے چھین سکتی ہے، لیکن زندگی اب تک میرے لیے خوب مکمل اور بھرپور رہی ہے۔ میرے پیچھے اس خوب صورت دنیا میں صرف میرے دوست رہ جائیں گے جو کبھی کبھی ایسی ہی خوشگوار راتوں میں مجھے یاد کر لیا کریں گے۔‘‘ ان پورنا کا جی چاہا کہ وہ چلا کر کہے۔۔۔ تم غلط کہتے ہو کمل اندر! اگر تم مرو گے تو تمہارے لیے ایک روح عمربھرروئے گی کہ تم نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ لیکن نہ مل سکے۔
اور پھر اپنی اوبزرویشن پوسٹ پر بیٹھے بیٹھے بیگم ارجمند اور کنور رانی صاحبہ نے طے کیا کہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے کا۔ نیک سیرت،شکیل، برسر روزگار اور اب تک یوں ہی کنوارا گھوم رہ
- قرۃالعین-حیدر
مجھے سن یاد نہیں رہا، لیکن وہی دن تھےجب امرتسر میں ہر طرف ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے گونجتے تھے۔ ان نعروں میں، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک عجیب قسم کا جوش تھا۔۔۔ ایک جوانی۔۔۔ ایک عجیب قسم کی جوانی۔ بالکل امرتسر کی گجریوں کی سی، جو سر پر اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے بازاروں کو جیسے کاٹتی ہوئی چلتی ہیں۔۔۔ خوب دن تھے۔ فضا میں جو وہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کا اداس خوف سمویا رہتا تھا، اس وقت بالکل مفقود تھا۔ اب اس کی جگہ ایک بے خوف تڑپ نے لے لی تھی۔۔۔ ایک اندھا دھند جَست نے جو اپنی منزل سے ناواقف تھی۔
لوگ نعرے لگاتے تھے، جلوس نکالتے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں دھڑادھڑ قید ہو رہے تھے۔ گرفتار ہونا ایک دلچسپ شغل بن گیا تھا۔ صبح قید ہوئے۔ شام چھوڑ دیے گئے، مقدمہ چلا، چند مہینوں کی قید ہوئی، واپس آئے، ایک نعرہ لگایا، پھر قید ہوگئے۔
زندگی سے بھرپور دن تھے۔ ایک ننھا سا بلبلہ پھٹنے پر بھی ایک بہت بڑا بھنور بن جاتا تھا۔ کسی نے چوک میں کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا، ’’ہڑتال ہونی چاہیے۔‘‘ چلیے جی، ہڑتال ہوگئی۔ ایک لہر اٹھی کہ ہر شخص کو کھادی پہننی چاہیے تاکہ لنکا شائز کے سارے کارخانے بند ہو جائیں۔۔۔ بدیشی کپڑوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا اور ہر چوک میں الاؤ جلنے لگے، لوگ جوش میں آکر کھڑے کھڑے وہیں کپڑے اتارتے اور الاؤ میں پھینکتے جاتے، کوئی عورت اپنے مکان کے شہ نشین سے اپنی ناپسندیدہ ساڑی اچھالتی تو ہجوم تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ لال کرلیتا۔
مجھے یاد ہے ،کوتوالی کے سامنے ٹاؤن ہال کے پاس ایک الاؤ جل رہا تھا۔۔۔ شیخو نے، جو میرا ہم جماعت تھا، جوش میں آکر اپنا ریشمی کوٹ اتارا اور بدیشی کپڑوں کی چتا میں ڈال دیا۔ تالیوں کا سمندر بہنے لگا۔ کیونکہ شیخو ایک بہت بڑے ’’ٹوڈی بچے‘‘ کا لڑکا تھا، اس غریب کا جوش اور بھی زیادہ بڑھ گیا، اپنی بوسکی کی قمیص اتار وہ بھی شعلوں کی نذر کردی، لیکن بعد میں خیال آیا کہ اس کے ساتھ سونے کے بٹن تھے۔
میں شیخو کا مذاق نہیں اڑاتا، میرا حال بھی ان دنوں بہت دگرگوں تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں سے پستول ہاتھ میں آجائے تو ایک دہشت پسند پارٹی بنائی جائے۔ باپ گورنمنٹ کا پنشن خوار تھا، اس کا مجھے کبھی خیال نہ آیا۔ بس دل و دماغ میں ایک عجیب قسم کی کھد بد رہتی تھی۔ بالکل ویسی ہی جیسی فلاش کھیلنے کے دوران دوپان میں رہا کرتی ہے۔
اسکول سے تو مجھے ویسے ہی دلچسپی نہیں تھی مگر ان دنوں تو خاص طور پر مجھے پڑھائی سے نفرت ہوگئی تھی۔۔۔ گھر سے کتابیں لے کر نکلتا اور جلیانوالہ باغ چلا جاتا، اسکول کا وقت ختم ہونے تک وہاں کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا یا کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر دورمکانوں کی کھڑکیوں میں عورتوں کو دیکھتااور سوچتا کہ ضرور ان میں سے کسی کو مجھ سے عشق ہو جائے گا۔۔۔ یہ خیال دماغ میں کیوں آتا، اس کے متعلق میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
جلیانوالہ باغ میں خوب رونق تھی۔ چاروں طرف تنبو اور قناتیں پھیلی ہوئی تھیں، جو خیمہ سب سے بڑا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے روز ایک ڈکٹیٹر بناکے بٹھا دیا جاتا تھا۔ جس کو تمام والنٹیر سلامی دیتے تھے۔ دو تین روز یا زیادہ سے زیادہ دس پندرہ روز تک یہ ڈکٹیٹر کھادی پوش عورتوں اور مردوں کی نمسکاریں، ایک مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ وصول کرتا۔ شہر کے بنیوں سے لنگر خانے کے لیے آٹا چاول اکٹھا کرتا اور دہی کی لسی پی پی کر، جو خدا معلوم جلیانوالہ باغ میں کیوں اس قدر عام تھی، ایک دن اچانک گرفتار ہو جاتا اور کسی قید خانے میں چلا جاتا۔
میرا ایک پرانا ہم جماعت تھا شہزادہ غلام علی، اس سے میری دوستی کا اندازہ آپ کو ان باتوں سے ہوسکتا ہے کہ ہم اکٹھے دو دفعہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو چکے تھے اور ایک دفعہ ہم دونوں گھر سے بھاگ کربمبئی گئے ،خیال تھا کہ روس جائیں گے مگر پیسے ختم ہونے پر جب فٹ پاتھوں پرسونا پڑا تو گھر خط لکھے، معافیاں مانگیں اور واپس چلے آئے۔شہزادہ غلام علی خوبصورت جوان تھا۔ لمبا قد، گورا رنگ جو کشمیریوں کا ہوتا ہے۔ تیکھی ناک، کھلنڈری آنکھیں، چال ڈھال میں ایک خاص شان تھی جس میں پیشہ ور غنڈوں کی کج کلاہی کی ہلکی سی جھلک بھی تھی۔
جب وہ میرے ساتھ پڑھتا تھا تو شہزادہ نہیں تھا۔ لیکن جب شہرمیں انقلابی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اس نے دس پندرہ جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیا تو نعروں ،گیندے کے ہاروں، جوشیلے گیتوں اور لیڈی والنٹیرز سے آزادانہ گفتگوؤں نے اسے ایک نیم رس انقلابی بنا دیا، ایک روز اس نے پہلی تقریر کی، دوسرے روز میں نے اخبار دیکھے تو معلوم ہوا کہ غلام علی شہزادہ بن گیا ہے۔
شہزادہ بنتے ہی غلام علی سارے امرتسر میں مشہور ہوگیا۔ چھوٹا سا شہر ہے، وہاں نیک نام ہوتے یا بدنام ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو امرتسری عام آدمیوں کے معاملے میں بہت حرف گیر ہیں، یعنی ہر شخص دوسروں کے عیب ٹٹولنے اور کرداروں میں سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہےلیکن سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے معاملے میں امرتسری بہت چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ ان کو دراصل ہر وقت ایک تقریر یا تحریک کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ انھیں نیلی پوش بنا دیجیے یا سیاہ پوش، ایک ہی لیڈر چولے بدل بدل کر امرتسر میں کافی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ تمام بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں تھے اور ان کی گدیاں خالی تھیں۔ اس وقت لوگوں کو لیڈروں کی کوئی اتنی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ تحریک جو کہ شروع ہوئی تھی اس کو البتہ ایسے آدمیوں کی اشد ضرورت تھی جو ایک دو روز کھادی پہن کر جلیانوالہ باغ کے بڑے تنبو میں بیٹھیں، ایک تقریر کریں اور گرفتار ہو جائیں۔
ان دنوں یورپ میں نئی نئی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی تھی، ہٹلر اور مسولینی کا بہت اشتہار ہورہا تھا۔ غالباً اس اثر کے ماتحت کانگریس پارٹی نے ڈکٹیٹر بنانے شروع کردیے تھے۔ جب شہزادہ غلام علی کی باری آئی تو اس سے پہلے چالیس ڈکٹیٹر گرفتار ہو چکے تھے۔
جونہی مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح غلام علی ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو میں فوراً جلیانوالہ باغ میں پہنچا۔ بڑے خیمے کے باہر والنٹیروں کا پہرہ تھا۔ مگر غلام علی نے جب مجھے اندر سے دیکھا تو بلا لیا۔۔۔ زمین پر ایک گدیلا تھا جس پر کھادی کی چاندنی بچھی تھی۔ اس پر گاؤ تکیوں کا سہارا لیے شہزادہ غلام علی چند کھادی پوش بنیوں سے گفتگو کررہا تھا جو غالباً ترکاریوں کے متعلق تھی۔ چند منٹوں ہی میں اس نے یہ بات چیت ختم کی اور چند رضا کاروں کو احکام دے کروہ میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر میرے گدگدی سی ہو رہی تھی۔ جب رضا کار چلے گئے تو میں ہنس پڑا۔
’’سنا بے شہزادے۔‘‘
میں دیر تک اس سے مذاق کرتا رہا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ غلام علی میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ ایسی تبدیلی جس سے وہ باخبر ہے ۔ چنانچہ اس نے کئی بار مجھ سے یہی کہا، ’’نہیں سعادت۔۔۔ مذاق نہ اڑاؤ۔ میں جانتا ہوں میرا سر چھوٹا اور یہ عزت جو مجھے ملی ہے بڑی ہے۔۔۔ لیکن میں یہ کھلی ٹوپی ہی پہنے رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے دہی کی لسی کا ایک بہت بڑا گلاس پلایا اور میں اس سے یہ وعدہ کرکے گھر چلاگیا کہ شام کو اس کی تقریر سننے کے لیے ضرور آؤں گا۔شام کو جلیانوالہ باغ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں چونکہ جلدی آیا تھا، اس لیے مجھے پلیٹ فارم کے پاس ہی جگہ مل گئی۔۔۔ غلام علی تالیوں کے شور کے ساتھ نمودار ہوا۔۔۔ سفید بے داغ کھادی کے کپڑے پہنے وہ خوبصورت اور پر کشش دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ وہ کج کلاہی کی جھلک جس کا میں اس سے پہلے ذکر کر چکا ہوں،اس کی اس کشش میں اضافہ کررہی تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک وہ بولتا رہا۔ اس دوران میں کئی بارمیرے رونگٹے کھڑے ہوئے اور ایک دو دفعہ تو میرے جسم میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بم کی طرح پھٹ جاؤں۔ اس وقت میں نے شاید یہی خیال کیا تھا کہ یوں پھٹ جانے سے ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ بہتے ہوئے احساسات اور واقعات کی نوک پلک جو اس وقت تھی، اب پوری صحت سے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ کہانی لکھتے ہوئے میں جب غلام علی کی تقریر کا تصور کرتا ہوں تو مجھے صرف ایک جوانی بولتی دکھائی دیتی تھی، جو سیاست سے بالکل پاک تھی۔۔۔ اس میں ایک ایسے نوجوان کی پر خلوص بےباکی تھی جو ایک دم کسی راہ چلتی عورت کو پکڑلے اور کہے،’’دیکھو میں تمہیں چاہتا ہوں۔‘‘ اور دوسرے لمحے قانون کے پنجے میں گرفتار ہو جائے ۔اس تقریر کے بعد مجھے کئی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہےمگر وہ خام دیوانگی، وہ سرپھری جوانی، وہ الھڑ جذبہ، وہ بے ریش و بروت للکار جو میں نے شہزادہ غلام علی کی آواز میں سنی، اب اس کی ہلکی سی گونج بھی مجھے کبھی سنائی نہیں دی۔ اب جو تقریریں سننے میں آتی ہیں،وہ ٹھنڈی سنجیدگی، بوڑھی سیاست اور شاعرانہ ہوش مندی میں لپٹی ہوتی ہیں۔
اس وقت دراصل دونوں پارٹیاں خام کار تھیں،حکومت بھی اور رعایا بھی۔ دونوں نتائج سے بے پروا، ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ حکومت قید کی اہمیت سمجھے بغیر لوگوں کو قید کررہی تھی اور جو قید ہوتے تھے ان کو بھی قید خانوں میں جانے سے پہلے قید کا مقصد معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک دھاندلی تھی مگر اس دھاندلی میں ایک آتشیں انتشار تھا۔ لوگ شعلوں کی طرح بھڑکتے تھے، بجھتے تھے، پھر بھڑکتے تھے۔ چنانچہ اس بھڑکنے اور بجھنے، بجھنے اور بھڑکنے نے غلامی کی خوابیدہ، اداس اور جمائیوں بھری فضا میں گرم ارتعاش پیدا کردیا تھا۔
شہزادہ غلام علی نے تقریر ختم کی تو سارا جلیانوالہ باغ تالیوں اور نعروں کا دہکتا ہوا الاؤ بن گیا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ جب میں اس سے الگ جا کر ملا اور مبارک باد دینے کے لیے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا تو وہ کانپ رہا تھا۔ یہ گرم کپکپاہٹ اس کے چمکیلے چہرے سے بھی نمایاں تھی۔ وہ کسی قدر ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پرجوش جذبات کی دمک کے علاوہ مجھے ایک تھکی ہوئی تلاش نظر آئی، وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دم اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور سامنے چنبیلی کی جھاڑی کی طرف بڑھا۔
وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ کھادی کی بے داغ ساڑی میں ملبوس۔
دوسرے روز مجھے معلوم ہوا کہ شہزادہ غلام علی عشق میں گرفتار ہے۔ وہ اس لڑکی سے، جسے میں نے چنبیلی کی جھاڑی کے پاس باادب کھڑی دیکھا تھا،محبت کررہا تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں تھی کیونکہ نگار کو بھی اس سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نگار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک مسلمان لڑکی تھی۔۔۔ یتیم! زنانہ ہسپتال میں نرس تھی اور شاید پہلی مسلمان لڑکی تھی جس نے امرتسر میں بے پردہ ہوکر کانگریس کی تحریک میں حصہ لیا۔ کچھ کھادی کے لباس نے، کچھ کانگریس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اور کچھ ہسپتال کی فضا نے نگار کی اسلامی خوکو، اس تیکھی چیز کو جو مسلمان عورت کی فطرت میں نمایاں ہوتی ہے تھوڑا سا گھسا دیا تھا جس سے وہ ذرا ملائم ہوگئی تھی۔
وہ حسین نہیں تھی لیکن اپنی جگہ نسوانیت کا ایک نہایت ہی دیدہ چشم منفرد نمونہ تھی۔ انکسار، تعظیم اور پرستش کا وہ ملا جلا جذبہ جو آدرش ہندو عورت کا خاصہ ہے نگار میں اس کی خفیف سی آمیزش نے ایک روح پر ور رنگ پیدا کردیا تھا۔ اس وقت تو شاید یہ کبھی میرے ذہن میں نہ آتا، مگر یہ لکھتے وقت میں نگار کا تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے نماز اور آرتی کا دلفریب مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔شہزادہ غلام علی کی وہ پرستش کرتی تھی اور وہ بھی اس پر دل و جان سے فدا تھا ۔جب نگار کے بارے میں اس سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ کانگریس تحریک کے دوران میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے ملاپ سے وہ ایک دوسرے کے ہوگئے۔
غلام علی کا ارادہ تھا کہ قید ہونے سے پہلے پہلے وہ نگار کو اپنی بیوی بنالے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا کیونکہ قید سے واپس آنے پر بھی وہ اس سے شادی کرسکتا تھا۔ ان دنوں کوئی اتنی لمبی قید نہیں تھی۔ کم سے کم تین مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس۔ بعضوں کو تو پندرہ بیس روز کے بعد ہی رہا کردیا جاتا تھا تاکہ دوسرے قیدیوں کے لیے جگہ بن جائے۔ بہر حال وہ اس ارادے کو نگار پر بھی ظاہر کرچکا تھا اور وہ بالکل تیار تھی۔ اب صرف دونوں کو بابا جی کے پاس جا کر ان کا آشیرواد لینا تھا۔
بابا جی جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے بہت زبردست ہستی تھی۔ شہر سے باہر لکھ پتی صراف ہری رام کی شاندارکوٹھی میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یوں تو وہ اکثر اپنے آشرم میں رہتے جو انھوں نے پاس کے ایک گاؤں میں بنا رکھا تھا مگر جب کبھی امرتسر آتے تو ہری رام صراف ہی کی کوٹھی میں اترتے اور ان کے آتے ہی یہ کوٹھی بابا جی کے شیدائیوں کے لیے مقدس جگہ بن جاتی۔ سارا دن درشن کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دن ڈھلے وہ کوٹھی سے باہر کچھ فاصلے پر آم کے پیڑوں کے جھنڈ میں ایک چوبی تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو عام درشن دیتے، اپنے آشرم کے لیے چندہ اکٹھا کرتے۔ آخر میں بھجن وغیرہ سن کر ہر روز شام کو یہ جلسہ ان کے حکم سے برخاست ہو جاتا۔بابا جی بہت پرہیز گار، خدا ترس، عالم اور ذہین آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان، سکھ اور اچھوت سب ان کے گرویدہ تھے اور انھیں اپنا امام مانتے تھے۔ سیاست سے گو باباجی کو بظاہر کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ پنجاب کی ہر سیاسی تحریک انہی کے اشارے پر شروع ہوئی اور انہی کے اشارے پر ختم ہوئی۔
گورنمنٹ کی نگاہوں میں وہ ایک عقدۂ لاینحل تھے، ایک سیاسی چیستاں ،جسے سرکارِ عالیہ کے بڑے بڑے مدبر بھی نہ حل کرسکتے تھے۔ بابا جی کے پتلے پتلے ہونٹوں کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ہزار معنی نکالے جاتے تھے مگر جب وہ خود اس مسکراہٹ کا بالکل ہی نیا مطلب واضح کرتے تو مرعوب عوام اور زیادہ مرعوب ہو جاتے۔
یہ جو امرتسر میں سول نافرمانی کی تحریک جاری تھی اور لوگ دھڑا دھڑ قید ہوررہے تھے، اس کے عقب میں جیسا کہ ظاہر ہے، بابا جی ہی کا اثر کارفرما تھا۔ ہر شام لوگوں کو عام درشن دیتے وقت وہ سارے پنجاب کی تحریک آزادی اور گورنمنٹ کی نت نئی سخت گیریوں کے متعلق اپنے پوپلے منہ سے ایک چھوٹا سا۔۔۔ ایک معصوم سا جملہ نکال دیا کرتے تھے، جسے فوراً ہی بڑے بڑے لیڈر اپنے گلے میں تعویذ بنا کرڈال لیتے تھے۔
لوگوں کا بیان ہے کہ ان کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی قوت تھی، ان کی آواز میں ایک جادو تھا اور ان کا ٹھنڈا دماغ۔۔۔ ان کا وہ مسکراتا ہوتا دماغ، جس کو گندی سے گندی گالی اور زہریلی سے زہریلی طنز بھی ایک لحظے کے ہزارویں حصے کے لیے برہم نہیں کرسکتی تھی، حریفوں کے لیے بہت ہی الجھن کا باعث تھا۔
امرتسر میں بابا جی کے سیکڑوں جلوس نکل چکے تھے، مگر جانے کیا بات ہے کہ میں نے اور تمام لیڈروں کو دیکھا، ایک صرف ان ہی کو میں نے دور سے دیکھا نہ نزدیک سے۔ اسی لیے جب غلام علی نے مجھ سے ان کے درشن کرنے اور ان سے شادی کی اجازت لینے کے متعلق بات چیت کی تو میں نے اس سے کہا کہ جب وہ دونوں جائیں تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں۔
دوسرے ہی روز غلام علی نے تانگے کا انتظام کیا اور ہم صبح سویرے لالہ ہری رام صراف کی عالی شان کوٹھی میں پہنچ گئے۔ بابا جی غسل اور صبح کی دعا سے فارغ ہو کر ایک خوبصورت پنڈتانی سے قومی گیت سن رہے تھے۔ چینی کی بے داغ سفید ٹائلوں والے فرش پر آپ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر بیٹھے تھے، گاؤ تکیہ ان کے پاس ہی پڑا تھا مگر انھوں نے اس کا سہارا نہیں لیا تھا۔کمرے میں سوائے ایک چٹائی کے، جس کے اوپر بابا جی بیٹھے تھے اور فرنیچر وغیرہ نہیں تھا۔ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سفید ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ ان کی چمک نے قومی گیت گانے والی پنڈتانی کے ہلکے پیازی چہرے کو اور بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا۔
بابا جی گو ستر بہتر برس کے بڈھے تھے مگر ان کا جسم (وہ صرف گیروے رنگ کا چھوٹا سا تہمد باندھے تھے) عمر کی جھریوں سے بے نیاز تھا، جلد میں ایک عجیب قسم کی ملاحت تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہر روز اشنان سے پہلے روغن زیتون اپنے جسم پر ملواتے ہیں۔شہزادہ غلام علی کی طرف دیکھ کروہ مسکرائے ،مجھے بھی ایک نظر دیکھا اور ہم تینوں کی بندگی کا جواب اسی مسکراہٹ کو ذرا طویل کرکے دیا اور اشارہ کیا کہ ہم بیٹھ جائیں۔
میں اب یہ تصویر اپنے سامنے لاتا ہوں تو شعور کی عینک سے یہ مجھے دلچسپ ہونے کے علاوہ بہت ہی فکر خیز دکھائی دیتی ہے۔ کھجور کی چٹائی پر ایک نیم برہنہ معمر جوگیوں کا آسن لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی بیٹھک سے، اس کے گنجے سر سے، اس کی ادھ کُھلی آنکھوں سے، اس کے سانولے ملائم جسم سے، اس کے چہرے کے ہر خط سے ایک پرسکون اطمینان، ایک بے فکر تیقن مترشح تھا کہ جس مقام پر دنیا نے اسے بٹھا دیا ہے، اب بڑے سے بڑا زلزلہ بھی اسے وہاں سے نہیں گرا سکتا۔۔۔ اس سے کچھ دور وادی کشمیر کی ایک نوخیز کلی، جھکی ہوئی، کچھ اس بزرگ کی قربت کے احترام سے، کچھ قومی گیت کے اثر سے، کچھ اپنی شدید جوانی سے، جو اس کی کھردردی سفید ساڑی سے نکل کر قومی گیت کے علاوہ اپنی جوانی کا گیت بھی گانا چاہتی تھی، جو اس بزرگ کی قربت کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایسی تندرست اور جوان ہستی کی بھی تعظیم کرنے کی خواہش مند تھی جو اس کی نرم کلائی پکڑ کر زندگی کے دہکتے ہوئے الاؤ میں کود پڑے۔ اس کے ہلکے پیازی چہرے سے، اس کی بڑی بڑی سیاہ متحرک آنکھوں سے، اس کے کھادی کے کھردرے بلاؤز میں ڈھکے ہوئے متلاطم سینے سے ،اس معمر جوگی کے ٹھوس تیقن اور سنگین اطمینان کے تقابل میں ایک خاموش صدا تھی کہ آؤ، جس مقام پر میں اس وقت ہوں،وہاں سے کھینچ کر مجھے یا تو نیچے گرا دو یا اس سے بھی اوپر لے جاؤ۔
اس طرف ہٹ کر ہم تین بیٹھے تھے۔ میں، نگار اور شہزادہ غلام علی۔۔۔۔ میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ بابا جی کی شخصیت سے بھی متاثر تھا اور اس پنڈتانی کے بے د اغ حسن سے بھی۔ فرش کی چمکیلی ٹائلوں نے بھی مجھے مرعوب کیا تھا۔ کبھی سوچتا تھا کہ ایسی ٹائلوں والی ایک کوٹھی مجھے مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ پھر سوچتا تھا کہ یہ پنڈتانی مجھے اور کچھ نہ کرنے دے، ایک صرف مجھے اپنی آنکھیں چوم لینے دے۔ اس کے تصور سے بدن میں تھرتھری پیدا ہوتی تو جھٹ اپنی نوکرانی کا خیال آتا جس سے تازہ تازہ مجھے کچھ وہ ہوا تھا۔ جی میں آتا کہ ان سب کو، یہاں چھوڑ کر سیدھا گھر جاؤں۔۔۔ شاید نظر بچا کر اسے اوپر غسل خانے تک لے جانے میں کامیاب ہو سکوں، مگر جب بابا جی پر نظر پڑتی اور کانوں میں قومی گیت کے پرجوش الفاظ گونجتے تو ایک دوسری تھرتھری بدن میں پیدا ہوتی اور میں سوچتا کہ کہیں سے پستول ہاتھ آجائے تو سول لائن میں جا کر انگریزوں کو مارنا شروع کردوں۔
اس چغد کے پاس نگار اور غلام علی بیٹھے تھے۔ دو محبت کرنے والے دل، جو تنہا محبت میں دھڑکتے دھڑکتے اب شاید کچھ اکتا گئے تھے اور جلدی ایک دوسرے میں محبت کے دوسرے رنگ دیکھنے کے لیے مدغم ہونا چاہتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ بابا جی سے، اپنے مسلمہ سیاسی رہنما سے شادی کی اجازت لینے آئے تھے اور جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں کے دماغ میں اس وقت قومی گیت کے بجائے ان کی اپنی زندگی کا حسین ترین مگر ان سنا نغمہ گونج رہا تھا۔
گیت ختم ہوا ،بابا جی نے بڑے مشفقانہ انداز سے پنڈتانی کو ہاتھ کے اشارے سے آشیرواد دیا اور مسکراتے ہوئے نگار اور غلام علی کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے بھی انھوں نے ایک نظر دیکھ لیا۔غلام علی شاید تعارف کے لیے اپنا اور نگار کا نام بتانے والا تھا مگر بابا جی کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی اپنی میٹھی آواز میں کہا،’’شہزادے ،ابھی تک تم گرفتار نہیں ہوئے؟‘‘
غلام علی نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’جی نہیں۔‘‘
بابا جی نے قلم دان سے ایک پنسل نکالی اور اس سے کھیلتے ہوئے کہنے لگے، ’’مگر میں تو سمجھتا ہوں تم گرفتار ہو چکے ہو۔‘‘
غلام علی اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ لیکن بابا جی نے فوراً ہی پنڈتانی کی طرف دیکھا اور نگار کی طرف اشارہ کرکے،’’نگار نے ہمارے شہزادے کو گرفتار کرلیا ہے۔‘‘
نگار محجوب سی ہوگئی۔ غلام علی کا منہ فرطِ حیرت سےکھلا کا کھلا رہ گیا اور پنڈتانی کے پیازی چہرے پر ایک دعائیہ چمک سی آئی۔ اس نے نگار اور غلام علی کو کچھ اس طرح دیکھا جیسے یہ کہہ رہی ہے، ’’بہت اچھا ہوا۔‘‘ بابا جی ایک بار پھر پنڈتانی کی طرف متوجہ ہوئے، ’’یہ بچے مجھ سے شادی کی اجازت لینے آئے ہیں۔۔۔ تم کب شادی کررہی ہو کمل؟‘‘
تو اس پنڈتانی کا نام کمل تھا۔ بابا جی کے اچانک سوال سے وہ بوکھلا گئی۔ اس کا پیازی چہرہ سرخ ہوگیا۔ کانپتی ہوئی آواز میں اس نے جواب دیا، ’’میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔‘‘ ایک ہلکی سی آہ بھی ان الفاظ میں لپٹ کرباہر آئی جسے بابا جی کے ہشیار دماغ نے فوراً نوٹ کیا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر جوگیانہ انداز میں مسکرائے اور غلام علی اور نگار سے مخاطب ہو کرکہنے لگے،’’ تو تم دونوں فیصلہ کر چکے ہو۔‘‘
دونوں نے دبی زبان میں جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘
بابا جی نے اپنی سیاست بھری آنکھوں سے ان کو دیکھا،’’انسان جب فیصلے کرتا ہے تو کبھی کبھی ان کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔‘‘
پہلی دفعہ بابا جی کی بارعب موجودگی میں غلام علی نے، اس کی الھڑ اور بیباک جوانی نے کہا،’’یہ فیصلہ اگر کسی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو بھی اپنی جگہ پر اٹل رہے گا۔‘‘
بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں اور جرح کے انداز میں پوچھا،’’کیوں؟‘‘
حیرت ہے کہ غلام علی بالکل نہ گھبرایا۔ شاید اس دفعہ نگارسے جو اسے پرخلوص محبت تھی وہ بول اٹھی، ’’بابا جی ہم نے ہندوستان کو آزادی دلانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وقت کی مجبوریاں اسے تبدیل کرتی رہیں مگر جو فیصلہ ہے وہ تو اٹل ہے۔‘‘ بابا جی نے جیسا کہ میرا اب خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا مناسب خیال نہ کیا چنانچہ وہ مسکرا دیے۔۔۔ اس مسکراہٹ کا مطلب بھی ان کی تمام مسکراہٹوں کی طرح ہر شخص نے بالکل الگ الگ سمجھا۔ اگر بابا جی سے پوچھا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا مطلب ہم سب سے بالکل مختلف بیان کرتے۔
خیر۔۔۔ اس ہزار پہلو مسکراہٹ کو اپنے پتلے ہونٹوں پر ذرا اور پھیلاتے ہوئے انھوں نے نگار سے کہا،’’نگار تم ہمارے آشرم میں آجاؤ۔۔۔ شہزادہ تو تھوڑے دنوں میں قید ہو جائے گا۔‘‘
نگار نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا، ’’جی اچھا۔‘‘
اس کے بعد بابا جی نے شادی کا موضوع بدل کر جلیانوالہ باغ کیمپ کی سرگرمیوں کا حال پوچھنا شروع کردیا۔ بہت دیر تک غلام علی، نگار اور کمل گرفتاریوں، رہائیوں، دودھ،لسی اور ترکاریوں کے متعلق باتیں کرتے رہے اور جو میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا، یہ سوچ رہا تھا کہ بابا جی نے شادی کی اجازت دینے میں کیوں اتنی مین میخ کی ہے۔ کیا وہ غلام علی اور نگار کی محبت کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔۔؟ کیا انھیں غلام علی کے خلوص پرشبہ ہے؟
نگار کو انھوں نے کیا آشرم میں آنے کی اس لیے دعوت دی کہ وہاں رہ کر وہ اپنے قید ہونے والے شوہر کا غم بھول جائے گی۔۔۔؟لیکن بابا جی کے اس سوال پر’’ کمل تم کب شادی کررہی ہو؟‘‘ کمل نے کیوں کہا تھا کہ میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔۔۔؟ آشرم میں کیا مرد عورت شادی نہیں کرتے۔۔۔۔؟ میرا ذہن عجب مخمصے میں گرفتار تھا۔ مگر ادھر یہ گفتگو ہورہی تھی کہ لیڈی والنٹیرز کیا پانچ سو رضاکاروں کے لیے چپاتیاں وقت پر تیار کرلیتی ہیں؟ چولہے کتنے ہیں؟ اور توے کتنے بڑے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بہت بڑا چولہا بنالیا جائے اور اس پر اتنا بڑا توا رکھا جائے کہ چھ عورتیں ایک ہی وقت میں روٹیاں پکا سکیں؟
میں یہ سوچ رہا تھا کہ پنڈتانی کمل کیا آشرم میں جا کر باباجی کو بس قومی گیت اور بھجن ہی سنایا کرے گی۔ میں نے آشرم کے مرد والنٹیر دیکھے تھے۔ گر وہ سب کے سب وہاں کے قواعد کے مطابق ہر روز اشنان کرتے تھے، صبح اٹھ کر داتن کرتے تھے، باہر کھلی ہوا میں رہتے تھے، بھجن گاتے تھے،مگر ان کے کپڑوں سے پسینے کی بو پھر بھی آتی تھی۔ ان میں اکثر کے دانت بدبودار تھے اور وہ جو کھلی فضا میں رہنے سے انسان پر ایک ہشاش بشاش نکھار آتا ہے،ان میں بالکل مفقود تھا۔
جھکے جھکے سے، دبے دبے سے۔۔۔ زرد چہرے،دھنسی ہوئی آنکھیں، مرعوب جسم۔۔۔ گائے کے نچڑے ہوئے تھنوں کی طرح بے حس اور بے جان۔۔۔ میں ان آشرم والوں کو جلیانوالہ باغ میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔۔۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مرد جن سے گھاس کی بو آتی ہے،اس پنڈتانی کو جو دودھ، شہد اور زعفران کی بنی ہے، اپنی کیچڑ بھری آنکھوں سے گھوریں گے۔ کیا یہی مرد جن کا منہ اس قدر متعفن ہوتا ہے، اس لوبان کی مہک میں لپٹی ہوئی عورت سے گفتگو کریں گے؟
لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں ہندوستان کی آزادی شاید ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ میں اس ’’شاید‘‘ کو اپنی تمام حب الوطنی اور جذبۂ آزادی کے باوجود نہ سمجھ سکا۔ کیونکہ مجھے نگار کا خیال آیا جو بالکل میرے قریب بیٹھی تھی اور بابا جی کو بتارہی تھی کہ شلجم بہت دیر میں گلتے ہیں۔۔۔ کہاں شلجم اور کہاں شادی جس کے لیے وہ اور غلام علی اجازت لینے آئے تھے۔
میں نگار اور آشرم کے متعلق سوچنے لگا۔ آشرم میں نے دیکھا نہیں تھا،مگر مجھے ایسی جگہوں سے جن کو آشرم، ودیالہ جماعت خانہ، تکیہ، یا درس گاہ کہا جائے، ہمیشہ سے نفرت ہے۔ جانے کیوں؟میں نے کئی اندھ ودیالوں اور اناتھ آشرموں کے لڑکوں اور ان کے متنظموں کو دیکھا ہے، سڑک میں قطار باندھ کرچلتے اور بھیک مانگتے ہوئے۔ میں نے جماعت خانے اور درس گاہیں دیکھی ہیں۔ ٹخنوں سے اونچا شرعی پائجامہ، بچپن ہی میں ماتھے پر محراب، جو بڑے ہیں ان کے چہرے پر گھنی داڑھی۔۔۔ جو نوخیر ہیں ان کے گالوں اور ٹھڈی پر نہایت ہی بدنما موٹے اور مہین بال۔۔۔ نماز پڑھتے جارہے ہیں لیکن ہر ایک کے چہرے پر حیوانیت۔۔۔ ایک ادھوری حیوانیت مصلے پر بیٹھی نظر آتی ہے۔
نگار عورت تھی۔ مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائی عورت نہیں۔۔۔ وہ صرف عورت تھی، نہیں عورت کی دعا تھی جو اپنے چاہنے والے کے لیے یا جسے وہ خود چاہتی ہے صدق دل سے مانگتی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ بابا جی کے آشرم میں جہاں ہر روز قواعد کے مطابق دعا مانگی جاتی ہے۔ یہ عورت جو خود ایک دعا ہے، کیسے اپنے ہاتھ اٹھا سکے گی۔
میں اب سوچتا ہوں تو باباجی، نگار، غلام علی، وہ خوبصورت پنڈتانی اور امرتسر کی ساری فضا جو تحریک آزادی کے رومان آفریں کیف میں لپٹی ہوئی تھی، ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا خواب جو ایک بار دیکھنے کے بعد جی چاہتا ہے آدمی پھر دیکھے۔ بابا جی کا آشرم میں نے اب بھی نہیں دیکھا، مگر جو نفرت مجھے اس سے پہلے تھی اب بھی ہے۔وہ جگہ جہاں فطرت کے خلاف اصول بنا کر انسانوں کو ایک لکیر پرچلایا جائے، میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ آزادی حاصل کرنا بالکل ٹھیک ہے! اس کے حصول کے لیے آدمی مر جائے، میں اس کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن اس کے لیے اگر اس غریب کو ترکاری کی طرح ٹھنڈا اور بے ضرر بنا دیا جائے تو یہی میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔
جھونپڑوں میں رہنا، تن آسانیوں سے پرہیز کرنا، خدا کی حمد گانا، قومی نعرے مارنا۔۔۔ یہ سب ٹھیک ہے ،مگر یہ کیا کہ انسان کی اس حِس کو جسے طلبِ حسن کہتے ہیں آہستہ آہستہ مردہ کردیا جائے۔ وہ انسان کیا جس میں خوبصورتی اور ہنگاموں کی تڑپ نہ رہے۔ ایسے آشرموں، مدرسوں، ودیالوں اور مولیوں کے کھیت میں کیا فرق ہے۔
دیر تک بابا جی، غلام علی اور نگار سے جلیانوالہ باغ کی جملہ سرگرمیوں کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے اس جوڑے کو، جو کہ ظاہر ہے کہ اپنے آنے کا مقصد بھول نہیں گیا تھا، کہا کہ وہ دوسرے روز شام کو جلیانوالہ باغ آئیں گے اور ان دونوں کو میاں بیوی بنا دیں گے۔
غلام علی اور نگار بہت خوش ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان کی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی تھی کہ بابا جی خود شادی کی رسم ادا کریں گے۔ غلام علی، جیسا کہ اس نے مجھے بہت بعد میں بتایا، اس قدر خوش ہوا تھا کہ فوراً ہی سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ شاید جو کچھ اس نے سنا ہے غلط ہے۔ کیونکہ بابا جی کے منحنی ہاتھوں کی خفیف سی جنبش بھی ایک تاریخی حادثہ بن جاتی تھی۔ اتنی بڑی ہستی ایک معمولی آدمی کی خاطر جو محض اتفاق سے کانگریس کا ڈکٹیٹر بن گیا ہے، چل کے جلیانوالہ باغ جائے اور اس کی شادی میں دلچسپی لے۔ یہ ہندوستان کے تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی جلی سرخی تھی۔
غلام علی کا خیال تھا بابا جی نہیں آئیں گے کیونکہ وہ بہت مصروف آدمی ہیں لیکن اس کا یہ خیال، جس کا اظہار دراصل اس نے نفسیاتی نقطہ نگاہ سے صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ ضرور آئیں، اس کی خواہش کے مطابق غلط ثابت ہوا۔۔۔ شام کے چھ بجے جلیانوالہ باغ میں جب رات کی رانی کی جھاڑیاں اپنی خوشبو کے جھونکے پھیلانے کی تیاریاں کررہی تھیں اور متعدد رضاکار دولہا دلہن کے لیے ایک چھوٹا تنبو نصب کرکے اسے چمیلی، گیندے اور گلاب کے پھولوں سے سجا رہے تھے،بابا جی اس قومی گیت گانے والی پنڈتانی، اپنے سیکریٹری اور لالہ ہری رام صراف کے ہم راہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے۔ ان کی آمد کی اطلاع جلیانوالہ باغ میں صرف اسی وقت پہنچی، جب صدر دروازے پر لالہ ہری رام کی ہری موٹر رکی۔
میں بھی وہیں تھا۔ لیڈی والنٹیرز ایک دوسرے تنبو میں نگار کو دلہن بنا رہی تھیں۔ غلام علی نے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا۔ سارا دن وہ شہر کے کانگریسی بنیوں سے رضا کاروں کے کھانے پینے کی ضروریات کے متعلق گفتگو کرتا رہا تھا۔ اس سے فارغ ہوکر اس نے چند لمحات کے لیے نگار سے تخلیے میں کچھ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس نے اپنے ماتحت افسروں سے صرف اتنا کہا تھا کہ شادی کی رسم ادا ہونے کے ساتھ ہی وہ اور نگار دونوں جھنڈا اونچا کریں گے۔
جب غلام علی کو بابا جی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو وہ کنوئیں کے پاس کھڑا تھا۔ میں غالباً اس سے یہ کہہ رہا تھا،’’غلام علی تم جانتے ہوں یہ کنواں، جب گولی چلی تھی، لاشوں سے لبالب بھر گیا تھا۔۔۔ آج سب اس کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ اس باغ کے جتنے پھول ہیں۔ اس کے پانی نے سینچے ہیں۔ مگر لوگ آتے ہیں اور انھیں توڑ کر لے جاتے ہیں۔۔۔ پانی کے کسی گھونٹ میں لہو کا نمک نہیں ہوتا، پھول کی کسی پتی میں خون کی لالی نہیں ہوتی۔۔۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے یہ کہہ کر اپنے سامنے، اس مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھا جس میں، کہا جاتا ہے کہ ایک نو عمر لڑکی بیٹھی تماشا دیکھ رہی تھی اور جنرل ڈائر کی گولی کا نشانہ بن گئی تھی۔ اس کے سینے سے نکلے ہوئے خون کی لکیر چونے کی عمر رسیدہ دیوار پر دھندلی ہورہی تھی۔اب خون کچھ اس قدر ارزاں ہوگیا کہ اس کے بہنے بہانے کا وہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے چھ سات مہینے بعد جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا،مارا ماسٹر ساری کلاس کو ایک دفعہ اس باغ میں لے گیا۔ اس وقت یہ باغ باغ نہیں تھا۔ اجاڑ، سنسان اور اونچی نیچی خشک زمین کا ایک ٹکڑا تھا، جس میں ہر قدم پر مٹی کے چھوٹے بڑے ڈھیلے ٹھوکریں کھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیلا جس پر جانے پان کی پیک کے دھبے یا کیا تھا، ہمارے ماسٹر نے اٹھا لیا تھا اور ہم سے کہا تھا۔ دیکھو اس پر ابھی تک ہمارے شہیدوں کا خون لگا ہے۔
یہ کہانی لکھ رہا ہوں اور حافظے کی تختی پر سیکڑوں چھوٹی چھوٹی باتیں ابھر رہی ہیں مگر مجھے تو غلام علی اور نگار کی شادی کا قصہ بیان کرنا ہے۔
غلام علی کو جب بابا جی کی آمد کی خبر ملی تو اس نے دوڑ کر سب والنٹیر اکٹھے کیے جنہوں نے فوجی انداز میں ان کو سیلوٹ کیا۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ واور غلام علی مختلف کیمپوں کا چکرلگاتے رہے۔ اس دوران میں بابا جی نے، جن کی مزاحیہ حس بہت تیز تھی، لیڈی والنٹیرز اور دوسرے ورکرز سے گفتگوکرتے وقت کئی فقرے چست کیے۔
ادھر ادھر مکانوں میں جب بتیاں جلنے لگیں اور دھندلا اندھیرا سا جلیانوالہ باغ پر چھا گیا تو رضا کار لڑکیوں نے ایک آواز ہو کر بھجن گانا شروع کیا۔ چند آوازیں سریلی، باقی سب کن سری تھیں مگر ان کا مجموعی اثر بہت خوشگوار تھا۔ بابا جی آنکھیں بندکیے سن رہے تھے۔ تقریباً ایک ہزار آدمی موجود تھے،جو چبوترے کے اردگرد زمین پر بیٹھے تھے۔ بھجن گانے والی لڑکیوں کے علاوہ ہر شخص خاموش تھا۔بھجن ختم ہونے پر چند لمحات تک ایسی خاموشی طاری رہی جو ایک دم ٹوٹنے کے لیے بے قرارہو۔ چنانچہ جب بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور اپنی میٹھی آواز میں کہا، ’’بچو، جیسا کہ تمہیں معلوم ہے،میں یہاں آج آزادی کے دو دیوانوں کو ایک کرنے آیا ہوں۔‘‘ تو سارا باغ خوشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔
نگار دلہن بنی چبوترے کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ کھادی کی ترنگی ساڑی میں بہت بھلی دکھائی دے رہی تھی۔ بابا جی نے اشارے سے اسے بلایا اور غلام علی کے پاس بٹھا دیا۔ اس پر اور خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔غلام علی کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتما رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا، جب اس نے نکاح کا کاغذ اپنے دوست سے لے کربابا جی کو دیا تو اس کا ہاتھ لرز گیا۔ چبوترے پر ایک مولوی صاحب بھی موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جو ایسے موقعوں پر پڑھا کرتے ہیں۔ بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایجاب و قبول ختم ہوا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں دولھا دلہن کو آشیرواد دی اور جب چھوہاروں کی بارش شروع ہوئی تو انھوں نے بچوں کی طرح جھپٹ جھپٹ کر دس پندرہ چھوہارے اکٹھے کرکے اپنے پاس رکھ لیے۔
نگار کی ایک ہندو سہیلی نے شرمیلی مسکراہٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا غلام علی کو دی اور اس سے کچھ کہا۔ غلام علی نے ڈبیا کھولی اور نگار کی سیدھی مانگ میں سیندور بھر دیا۔ جلیانوالہ باغ کی خنک فضا ایک بار پھر تالیوں کی تیز آواز سے گونج اٹھی۔
بابا جی اس شور میں اٹھے۔ ہجوم ایک دم خاموش ہوگیا۔
رات کی رانی اور چمیلی کی ملی جلی سوندھی سوندھی خوشبو، شام کی ہلکی پھلکی ہوا میں تیر رہی تھی، بہت سہانا سماں تھا، بابا جی کی آواز آج اور بھی میٹھی تھی۔ غلام علی اور نگار کی شادی پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرنے کے بعد انھوں نے کہا:یہ دونوں بچے اب زیادہ تندہی اور خلوص سے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔ کیونکہ شادی کا صحیح مقصد مرد اور عورت کی پرخلوص دوستی ہے۔ ایک دوسرے کے دوست بن کر غلام علی اور نگار یکجہتی سے سوراج کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ یورپ میں ایسی کئی شادیاں ہوتی ہیں جن کا مطلب دوستی اور صرف دوستی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قابل احترام ہیں جو اپنی زندگی سے شہوت نکال پھینکتے ہیں۔
بابا جی دیر تک شادی کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ صحیح مزا صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب مرد اور عورت کا تعلق صرف جسمانی نہ ہو۔ عورت اور مرد کا شہوانی رشتہ ان کے نزدیک اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں آدمی کھاتے ہیں، اپنے ذائقے کی حس کو خوش کرنے کے لیےلیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنا انسانی فرض ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کھاتے ہیں زندہ رہنے کے لیے ۔اصل میں صرف یہی لوگ ہیں جو خوردونوش کے صحیح قوانین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ انھیں شادی کے مطہر جذبے کی حقیقت اور اس رشتے کی تقدیس معلوم ہو،حقیقی معنوں میں ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بابا جی نے اپنے اس عقیدے کو کچھ اس وضاحت، کچھ ایسے نرم و نازک خلوص سے بیان کیا کہ سننے والوں کے لیے ایک بالکل نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ میں خود بہت متاثر ہوا۔ غلام علی جو میرے سامنے بیٹھا تھا، بابا جی کی تقریر کے ایک ایک لفظ کو جیسے پی رہا تھا۔ بابا جی نے جب بولنا بند کیا تو اس نے نگار سے کچھ کہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اس نے کانپتی ہوئی آواز میں یہ اعلان کیا،’’میری اور نگار کی شادی اسی قسم کی آدرش شادی ہوگی، جب تک ہندوستان کو سوراج نہیں ملتا،میرا اور نگار کا رشتہ بالکل دوستوں جیسا ہوگا۔۔۔‘‘
جلیانوالہ باغ کی خنک فضا دیر تک تالیوں کے بے پناہ شور سے گونجتی رہی۔ شہزادہ غلام علی جذباتی ہوگیا۔ اس کے کشمیری چہرے پر سرخیاں دوڑنے لگیں۔ جذبات کی اسی دوڑ میں اس نے نگار کو بلند آواز میں مخاطب کیا، ’’نگار! تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا؟‘‘ نگار جو کچھ شادی ہونے پر اور کچھ بابا جی کی تقریر سن کر بوکھلائی ہوئی تھی، یہ کڑک سوال سن کر اور بھی بوکھلا گئی۔ صرف اتنا کہہ سکی، ’’جی۔۔۔؟ جی نہیں۔‘‘
ہجوم نے پھر تالیاں پیٹیں اور غلام علی اور زیادہ جذباتی ہوگیا۔ نگار کو غلام بچے کی شرمندگی سے بچا کر وہ اتنا خوش ہوا کہ وہ بہک گیا اور اصل موضوع سے ہٹ کر آزادی حاصل کرنے کی پیچ دار گلیوں میں جا نکلا۔ ایک گھنٹے تک وہ جذبات بھری آواز میں بولتا رہا۔ اچانک اس کی نظر نگار پر پڑی۔ جانے کیا ہوا۔۔۔ ایک دم اس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ جیسے آدمی شراب کے نشے میں بغیر کسی حساب کے نوٹ نکالتا جائے اور ایک دم بٹوہ خالی پائے۔ اپنی تقریر کا بٹوہ خالی پا کر غلام علی کو کافی الجھن ہوئی مگر اس نے فوراً ہی بابا جی کی طرف دیکھا اور جھک کرکہا،’’بابا جی۔۔۔ ہم دونوں کو آپ کا آشیرواد چاہیے کہ جس بات کا ہم نے عہد کیا ہے، اس پر پورے رہیں۔‘‘
دوسرے روز صبح چھ بجے شہزادہ غلام علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کیونکہ اس تقریر میں جو اس نے سوراج ملنے تک بچہ پیدا نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد کی تھی، انگریزوں کا تختہ الٹنے کی دھمکی بھی تھی۔گرفتار ہونے کے چند روز بعد غلام علی کو آٹھ مہینے کی قید ہوئی اور ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ وہ امرتسر کا اکیالیسواں ڈکٹیٹر تھا اور شاید چالیس ہزارواں سیاسی قیدی۔ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس تحریک میں قید ہونے والے لوگوں کی تعداد اخباروں نے چالیس ہزار ہی بتائی تھی۔
عام خیال تھا کہ آزادی کی منزل اب صرف دو ہاتھ ہی دور ہے۔ لیکن فرنگی سیاست دانوں نے اس تحریک کا دودھ ابلنے دیا اور جب ہندوستان کے بڑے لیڈروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو یہ تحریک ٹھنڈی لسی میں تبدیل ہوگئی۔آزادی کے دیوانے جیلوں سے باہر نکلے تو قید کی صعوبتیں بھولنے اور اپنے بگڑے ہوئے کاروبار سنوارنے میں مشغول ہو گئے۔ شہزادہ غلام علی سات مہینے کے بعد ہی باہر آگیا تھا۔ گو اس وقت پہلا سا جوش نہیں تھا،پھر بھی امرتسر کے اسٹیشن پر لوگوں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کے اعزاز میں تین چار دعوتیں اور جلسے بھی ہوئے۔ میں ان سب میں شریک تھا مگر یہ محفلیں بالکل پھیکی تھیں۔ لوگوں پر اب ایک عجیب قسم کی تھکاوٹ طاری تھی جیسے ایک لمبی دوڑ میں اچانک دوڑنے والوں سے کہہ دیا گیا تھا، ’’ٹھہرو، یہ دوڑ پھر سے شروع ہوگی۔‘‘ اور اب جیسے یہ دوڑنے والے کچھ دیر ہانپنے کے بعد دوڑ کے مقام آغاز کی طرف بڑی بے دلی کے ساتھ واپس آرہے تھے۔
کئی برس گزر گئے۔۔۔ یہ بے کیف تھکاوٹ ہندوستان سے دور نہ ہوئی تھی۔ میری دنیا میں چھوٹے موٹے کئی انقلاب آئے۔ داڑھی مونچھ اگی، کالج میں داخل ہوا، ایف اے میں دوبارہ فیل ہوا،والد انتقال کرگئے، روزی کی تلاش میں ادھر ادھر پریشان ہوا، ایک تھرڈ کلاس اخبار میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کی، یہاں سے جی گھبرایا تو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور تین ہی مہینے بعد دق کا مریض ہو کرکشمیر کے دیہاتوں میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ وہاں سے لوٹ کر بمبئی کا رخ کیا۔ یہاں دو برسوں میں تین ہندو مسلم فساد دیکھے۔ جی گھبرایا تو دلی چلا گیا۔ وہاں بمبئی کے مقابلے میں ہر چیز سست رفتار دیکھی۔ کہیں حرکت نظر بھی آئی تو اس میں ایک زنانہ پن محسوس ہوا۔ آخر یہی سوچا کہ بمبئی اچھا ہے۔ کیا ہوا ساتھ والے ہمسائے کو ہمارا نام تک پوچھنے کی فرصت نہیں۔ جہاں لوگوں کو فرصت ہوتی ہے،وہاں ریا کاریاں اور چال بازیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ دلی میں دو برس ٹھنڈی زندگی بسر کرنے کے بعد سدا متحرک بمبئی چلا آیا۔
گھر سے نکلے اب آٹھ برس ہو چلے تھے۔ دوست احباب اور امرتسر کی سڑکیں، گلیاں کس حالت میں ہیں، اس کا مجھے کچھ علم نہیں تھا، کسی سے خط و کتابت ہی نہیں تھی جو پتہ چلتا۔ دراصل مجھے ان آٹھ برسوں میں اپنے مستقبل کی طرف سے کچھ بے پروائی سی ہوگئی تھی۔۔۔ کون بیتے ہوئے دنوں کے متعلق سوچے۔ جو آٹھ برس پہلے خرچ ہو چکا ہے،اس کا اب احساس کرنے سے فائدہ۔۔۔؟ زندگی کے روپے میں وہی پائی زیادہ اہم ہے جسے تم آج خرچنا چاہتے ہو یا جس پرکل کسی کی آنکھ ہے۔
آج سے چھ برس پہلے کی بات کررہا ہوں، جب زندگی کے روپے اور چاندی کے روپے سے، جس پر بادشاہ سلامت کی چھاپ ہوتی ہے، پائی خارج نہیں ہوئی تھی۔ میں اتنا زیادہ قلاش نہیں تھاکیونکہ فورٹ میں اپنے پاؤں کے لیے ایک قیمتی شو خریدنے جارہا تھا۔آرمی اینڈ نیوی اسٹور کے اس طرف ہاربنی روڈ پر جوتوں کی ایک دکان ہے جس کی نمائشی الماریاں مجھے بہت دیر سے اس طرف کھینچ رہی تھیں۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہے ،چنانچہ یہ دکان ڈھونڈنے میں کافی وقت صرف ہوگیا۔
یوں تو میں اپنے لیے ایک قیمتی شو خریدنے آیا تھا مگر جیسا کہ میری عادت ہے، دوسری دکانوں میں سجی ہوئی چیزیں دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔ ایک اسٹور میں سگریٹ کیس دیکھے، دوسرے میں پائپ، اسی طرح فٹ پاتھ پر ٹہلتا ہوا جوتوں کی ایک چھوٹی سی دکان کے پاس آیا اور اس کے اندر چلا گیا کہ چلو یہیں سے خرید لیتے ہیں، دکاندار نے میرا استقبال کیا اور پوچھا،’’کیا مانگتا ہے صاحب۔‘‘
میں نے تھوڑی دیر یاد کیا کہ مجھے کیا چاہیے، ’’ہاں۔۔۔ کریپ سول شو۔‘‘
’’ادھر نہیں رکھتا ہم۔‘‘
مون سون قریب تھی۔ میں نے سوچا گم بوٹ ہی خرید لوں،’’گم بوٹ نکالو۔‘‘
’’باجو والے کی دکان سے ملیں گے۔۔۔ ربڑ کی کئی چیز ہم ادھر نہیں رکھتا۔‘‘
میں نے ایسے ہی پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’سیٹھ کی مرضی!‘‘
یہ مختصر مگر جامع جواب سن کر میں دکان سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک خوش پوش آدمی پر میری نظر پڑی جو باہر فٹ پاتھ پر ایک بچہ گود میں اٹھائے پھل والے سے سنگترہ خرید رہا تھا۔ میں باہر نکلا اور وہ دکان کی طرف مڑا، ’’ارے۔۔۔ غلام علی۔۔۔‘‘
’’سعادت !‘‘
یہ کہہ کر اس نے بچے سمیت مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ بچے کو یہ حرکت ناگوار معلوم ہوئی، چنانچہ اس نے رونا شروع کردیا۔ غلام علی نے اس آدمی کو بلایا جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ربڑ کی کوئی چیز ادھر ہم نہیں رکھتا اور اسے بچہ دے کر کہا ’’جاؤ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا، ’’کتنی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملے ہیں۔‘‘
میں نے غلام علی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔ وہ کج کلاہی، وہ ہلکا سا غنڈا پن جو اس کی امتیازی شان تھا۔ اب بالکل مفقود تھا۔۔۔ میرے سامنے آتشیں تقریریں کرنے والے کھادی پوش نوجوان کی جگہ ایک گھریلو قسم کا عام انسان کھڑا تھا۔۔۔ مجھے اس کی وہ آخری تقریر یاد آئی، جب اس نے جلیانوالہ باغ کی خنک فضا کو ان گرم الفاظ سے مرتعش کیا تھا، ’’نگار۔۔۔ تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا۔۔۔‘‘ فوراً ہی مجھے اس بچے کا خیال آیاجو غلام علی کی گود میں تھا۔ میں اس سے یہ پوچھا،’’یہ بچہ کس کا ہے؟‘‘ غلام علی نے بغیر کسی جھجک کے جواب دیا،’’میرا۔۔۔ اس سے بڑا ایک اور بھی ہے۔۔۔ کہو، تم نے کتنے پیدا کیے۔‘‘
ایک لحظے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے غلام علی کے بجائے کوئی اور ہل بول رہا ہے۔ میرے دماغ میں سیکڑوں خیال اوپر تلے گرتے گئے۔ کیا غلام علی اپنی قسم بالکل بھول چکا ہے؟کیا اس کی سیاسی زندگی اس سے قطعاً علیحدہ ہو چکی ہے؟ ہندوستان کو آزادی دلانے کا وہ جوش، وہ ولولہ کہاں گیا؟ اس بے ریش و بروت للکار کا کیا ہوا۔۔۔؟ نگار کہاں تھی۔۔۔؟کیا اس نے دو غلام بچوں کی ماں بننا گوارا کیا۔۔۔؟ شاید وہ مرچکی ہو۔ہو سکتا ہے، غلام علی نے دوسری شادی کرلی ہو۔
’’کیا سوچ رہے ہو۔۔۔ کچھ باتیں کرو۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔‘‘ غلام علی نے میرے کاندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔
میں شاید خاموش ہوگیا تھا۔ ایک دم چونکا اور ایک لمبی ’’ہاں‘‘ کرکے سوچنے لگا کہ گفتگو کیسے شروع کروں۔ لیکن غلام علی نے میرا انتظار نہ کیا اور بولنا شروع کردیا، ’’یہ دکان میری ہے۔ دو برس سے میں یہاں بمبئی میں ہوں۔ بڑا اچھا کاروبار چل رہا ہے۔ تین چار سو مہینے کے بچ جاتے ہیں۔ تم کیا کررہے ہو۔ سنا ہے کہ بہت بڑے افسانہ نویس بن گئے ہو۔ یاد ہے ہم ایک دفعہ یہاں بھاگ کے آئے تھے۔۔۔ لیکن یار عجیب بات ہے،اس بمبئی اور اس بمبئی میں بڑا فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ چھوٹی تھی اور یہ بڑی ہے۔‘‘
اتنے میں ایک گاہک آیا، جسے ٹینس شو چاہیے تھا۔ غلام علی نے اس سے کہا،’’ربڑ کا مال اِدھر نہیں ملتا۔ بازو کی دکان میں چلے جائیے۔‘‘
گاہک چلا گیا تو میں نے غلام سے پوچھا، ’’ربڑ کا مال تم کیوں نہیں رکھتے؟ میں بھی یہاں کریپ سول شو لینے آیا تھا۔‘‘
یہ سوال میں نے یونہی کیا تھالیکن غلام علی کا چہرہ ایک دم بے رونق ہوگیا۔
دھیمی آواز میں صرف اتنا کہا، ’’مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’کیا پسند نہیں؟‘‘
’’یہی ربڑ۔۔۔ ربڑ کی بنی ہوئی چیزیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ جب ناکام رہا تو زور سے خشک سا قہقہہ لگایا، ’’میں تمہیں بتاؤں گا۔ ہے تو بالکل واہیات سی چیز، لیکن۔۔۔ لیکن میری زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔‘‘
تفکر کی گہرائی غلام علی کے چہرے پر پیدا ہوئی۔ اس کی آنکھیں جن میں ابھی تک کھلنڈرا پن موجود تھا، ایک لحظے
لوگ نعرے لگاتے تھے، جلوس نکالتے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں دھڑادھڑ قید ہو رہے تھے۔ گرفتار ہونا ایک دلچسپ شغل بن گیا تھا۔ صبح قید ہوئے۔ شام چھوڑ دیے گئے، مقدمہ چلا، چند مہینوں کی قید ہوئی، واپس آئے، ایک نعرہ لگایا، پھر قید ہوگئے۔
زندگی سے بھرپور دن تھے۔ ایک ننھا سا بلبلہ پھٹنے پر بھی ایک بہت بڑا بھنور بن جاتا تھا۔ کسی نے چوک میں کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا، ’’ہڑتال ہونی چاہیے۔‘‘ چلیے جی، ہڑتال ہوگئی۔ ایک لہر اٹھی کہ ہر شخص کو کھادی پہننی چاہیے تاکہ لنکا شائز کے سارے کارخانے بند ہو جائیں۔۔۔ بدیشی کپڑوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا اور ہر چوک میں الاؤ جلنے لگے، لوگ جوش میں آکر کھڑے کھڑے وہیں کپڑے اتارتے اور الاؤ میں پھینکتے جاتے، کوئی عورت اپنے مکان کے شہ نشین سے اپنی ناپسندیدہ ساڑی اچھالتی تو ہجوم تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ لال کرلیتا۔
مجھے یاد ہے ،کوتوالی کے سامنے ٹاؤن ہال کے پاس ایک الاؤ جل رہا تھا۔۔۔ شیخو نے، جو میرا ہم جماعت تھا، جوش میں آکر اپنا ریشمی کوٹ اتارا اور بدیشی کپڑوں کی چتا میں ڈال دیا۔ تالیوں کا سمندر بہنے لگا۔ کیونکہ شیخو ایک بہت بڑے ’’ٹوڈی بچے‘‘ کا لڑکا تھا، اس غریب کا جوش اور بھی زیادہ بڑھ گیا، اپنی بوسکی کی قمیص اتار وہ بھی شعلوں کی نذر کردی، لیکن بعد میں خیال آیا کہ اس کے ساتھ سونے کے بٹن تھے۔
میں شیخو کا مذاق نہیں اڑاتا، میرا حال بھی ان دنوں بہت دگرگوں تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں سے پستول ہاتھ میں آجائے تو ایک دہشت پسند پارٹی بنائی جائے۔ باپ گورنمنٹ کا پنشن خوار تھا، اس کا مجھے کبھی خیال نہ آیا۔ بس دل و دماغ میں ایک عجیب قسم کی کھد بد رہتی تھی۔ بالکل ویسی ہی جیسی فلاش کھیلنے کے دوران دوپان میں رہا کرتی ہے۔
اسکول سے تو مجھے ویسے ہی دلچسپی نہیں تھی مگر ان دنوں تو خاص طور پر مجھے پڑھائی سے نفرت ہوگئی تھی۔۔۔ گھر سے کتابیں لے کر نکلتا اور جلیانوالہ باغ چلا جاتا، اسکول کا وقت ختم ہونے تک وہاں کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا یا کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر دورمکانوں کی کھڑکیوں میں عورتوں کو دیکھتااور سوچتا کہ ضرور ان میں سے کسی کو مجھ سے عشق ہو جائے گا۔۔۔ یہ خیال دماغ میں کیوں آتا، اس کے متعلق میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
جلیانوالہ باغ میں خوب رونق تھی۔ چاروں طرف تنبو اور قناتیں پھیلی ہوئی تھیں، جو خیمہ سب سے بڑا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے روز ایک ڈکٹیٹر بناکے بٹھا دیا جاتا تھا۔ جس کو تمام والنٹیر سلامی دیتے تھے۔ دو تین روز یا زیادہ سے زیادہ دس پندرہ روز تک یہ ڈکٹیٹر کھادی پوش عورتوں اور مردوں کی نمسکاریں، ایک مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ وصول کرتا۔ شہر کے بنیوں سے لنگر خانے کے لیے آٹا چاول اکٹھا کرتا اور دہی کی لسی پی پی کر، جو خدا معلوم جلیانوالہ باغ میں کیوں اس قدر عام تھی، ایک دن اچانک گرفتار ہو جاتا اور کسی قید خانے میں چلا جاتا۔
میرا ایک پرانا ہم جماعت تھا شہزادہ غلام علی، اس سے میری دوستی کا اندازہ آپ کو ان باتوں سے ہوسکتا ہے کہ ہم اکٹھے دو دفعہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو چکے تھے اور ایک دفعہ ہم دونوں گھر سے بھاگ کربمبئی گئے ،خیال تھا کہ روس جائیں گے مگر پیسے ختم ہونے پر جب فٹ پاتھوں پرسونا پڑا تو گھر خط لکھے، معافیاں مانگیں اور واپس چلے آئے۔شہزادہ غلام علی خوبصورت جوان تھا۔ لمبا قد، گورا رنگ جو کشمیریوں کا ہوتا ہے۔ تیکھی ناک، کھلنڈری آنکھیں، چال ڈھال میں ایک خاص شان تھی جس میں پیشہ ور غنڈوں کی کج کلاہی کی ہلکی سی جھلک بھی تھی۔
جب وہ میرے ساتھ پڑھتا تھا تو شہزادہ نہیں تھا۔ لیکن جب شہرمیں انقلابی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اس نے دس پندرہ جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیا تو نعروں ،گیندے کے ہاروں، جوشیلے گیتوں اور لیڈی والنٹیرز سے آزادانہ گفتگوؤں نے اسے ایک نیم رس انقلابی بنا دیا، ایک روز اس نے پہلی تقریر کی، دوسرے روز میں نے اخبار دیکھے تو معلوم ہوا کہ غلام علی شہزادہ بن گیا ہے۔
شہزادہ بنتے ہی غلام علی سارے امرتسر میں مشہور ہوگیا۔ چھوٹا سا شہر ہے، وہاں نیک نام ہوتے یا بدنام ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو امرتسری عام آدمیوں کے معاملے میں بہت حرف گیر ہیں، یعنی ہر شخص دوسروں کے عیب ٹٹولنے اور کرداروں میں سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہےلیکن سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے معاملے میں امرتسری بہت چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ ان کو دراصل ہر وقت ایک تقریر یا تحریک کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ انھیں نیلی پوش بنا دیجیے یا سیاہ پوش، ایک ہی لیڈر چولے بدل بدل کر امرتسر میں کافی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ تمام بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں تھے اور ان کی گدیاں خالی تھیں۔ اس وقت لوگوں کو لیڈروں کی کوئی اتنی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ تحریک جو کہ شروع ہوئی تھی اس کو البتہ ایسے آدمیوں کی اشد ضرورت تھی جو ایک دو روز کھادی پہن کر جلیانوالہ باغ کے بڑے تنبو میں بیٹھیں، ایک تقریر کریں اور گرفتار ہو جائیں۔
ان دنوں یورپ میں نئی نئی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی تھی، ہٹلر اور مسولینی کا بہت اشتہار ہورہا تھا۔ غالباً اس اثر کے ماتحت کانگریس پارٹی نے ڈکٹیٹر بنانے شروع کردیے تھے۔ جب شہزادہ غلام علی کی باری آئی تو اس سے پہلے چالیس ڈکٹیٹر گرفتار ہو چکے تھے۔
جونہی مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح غلام علی ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو میں فوراً جلیانوالہ باغ میں پہنچا۔ بڑے خیمے کے باہر والنٹیروں کا پہرہ تھا۔ مگر غلام علی نے جب مجھے اندر سے دیکھا تو بلا لیا۔۔۔ زمین پر ایک گدیلا تھا جس پر کھادی کی چاندنی بچھی تھی۔ اس پر گاؤ تکیوں کا سہارا لیے شہزادہ غلام علی چند کھادی پوش بنیوں سے گفتگو کررہا تھا جو غالباً ترکاریوں کے متعلق تھی۔ چند منٹوں ہی میں اس نے یہ بات چیت ختم کی اور چند رضا کاروں کو احکام دے کروہ میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر میرے گدگدی سی ہو رہی تھی۔ جب رضا کار چلے گئے تو میں ہنس پڑا۔
’’سنا بے شہزادے۔‘‘
میں دیر تک اس سے مذاق کرتا رہا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ غلام علی میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ ایسی تبدیلی جس سے وہ باخبر ہے ۔ چنانچہ اس نے کئی بار مجھ سے یہی کہا، ’’نہیں سعادت۔۔۔ مذاق نہ اڑاؤ۔ میں جانتا ہوں میرا سر چھوٹا اور یہ عزت جو مجھے ملی ہے بڑی ہے۔۔۔ لیکن میں یہ کھلی ٹوپی ہی پہنے رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے دہی کی لسی کا ایک بہت بڑا گلاس پلایا اور میں اس سے یہ وعدہ کرکے گھر چلاگیا کہ شام کو اس کی تقریر سننے کے لیے ضرور آؤں گا۔شام کو جلیانوالہ باغ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں چونکہ جلدی آیا تھا، اس لیے مجھے پلیٹ فارم کے پاس ہی جگہ مل گئی۔۔۔ غلام علی تالیوں کے شور کے ساتھ نمودار ہوا۔۔۔ سفید بے داغ کھادی کے کپڑے پہنے وہ خوبصورت اور پر کشش دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ وہ کج کلاہی کی جھلک جس کا میں اس سے پہلے ذکر کر چکا ہوں،اس کی اس کشش میں اضافہ کررہی تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک وہ بولتا رہا۔ اس دوران میں کئی بارمیرے رونگٹے کھڑے ہوئے اور ایک دو دفعہ تو میرے جسم میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بم کی طرح پھٹ جاؤں۔ اس وقت میں نے شاید یہی خیال کیا تھا کہ یوں پھٹ جانے سے ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ بہتے ہوئے احساسات اور واقعات کی نوک پلک جو اس وقت تھی، اب پوری صحت سے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ کہانی لکھتے ہوئے میں جب غلام علی کی تقریر کا تصور کرتا ہوں تو مجھے صرف ایک جوانی بولتی دکھائی دیتی تھی، جو سیاست سے بالکل پاک تھی۔۔۔ اس میں ایک ایسے نوجوان کی پر خلوص بےباکی تھی جو ایک دم کسی راہ چلتی عورت کو پکڑلے اور کہے،’’دیکھو میں تمہیں چاہتا ہوں۔‘‘ اور دوسرے لمحے قانون کے پنجے میں گرفتار ہو جائے ۔اس تقریر کے بعد مجھے کئی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہےمگر وہ خام دیوانگی، وہ سرپھری جوانی، وہ الھڑ جذبہ، وہ بے ریش و بروت للکار جو میں نے شہزادہ غلام علی کی آواز میں سنی، اب اس کی ہلکی سی گونج بھی مجھے کبھی سنائی نہیں دی۔ اب جو تقریریں سننے میں آتی ہیں،وہ ٹھنڈی سنجیدگی، بوڑھی سیاست اور شاعرانہ ہوش مندی میں لپٹی ہوتی ہیں۔
اس وقت دراصل دونوں پارٹیاں خام کار تھیں،حکومت بھی اور رعایا بھی۔ دونوں نتائج سے بے پروا، ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ حکومت قید کی اہمیت سمجھے بغیر لوگوں کو قید کررہی تھی اور جو قید ہوتے تھے ان کو بھی قید خانوں میں جانے سے پہلے قید کا مقصد معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک دھاندلی تھی مگر اس دھاندلی میں ایک آتشیں انتشار تھا۔ لوگ شعلوں کی طرح بھڑکتے تھے، بجھتے تھے، پھر بھڑکتے تھے۔ چنانچہ اس بھڑکنے اور بجھنے، بجھنے اور بھڑکنے نے غلامی کی خوابیدہ، اداس اور جمائیوں بھری فضا میں گرم ارتعاش پیدا کردیا تھا۔
شہزادہ غلام علی نے تقریر ختم کی تو سارا جلیانوالہ باغ تالیوں اور نعروں کا دہکتا ہوا الاؤ بن گیا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ جب میں اس سے الگ جا کر ملا اور مبارک باد دینے کے لیے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا تو وہ کانپ رہا تھا۔ یہ گرم کپکپاہٹ اس کے چمکیلے چہرے سے بھی نمایاں تھی۔ وہ کسی قدر ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پرجوش جذبات کی دمک کے علاوہ مجھے ایک تھکی ہوئی تلاش نظر آئی، وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دم اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور سامنے چنبیلی کی جھاڑی کی طرف بڑھا۔
وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ کھادی کی بے داغ ساڑی میں ملبوس۔
دوسرے روز مجھے معلوم ہوا کہ شہزادہ غلام علی عشق میں گرفتار ہے۔ وہ اس لڑکی سے، جسے میں نے چنبیلی کی جھاڑی کے پاس باادب کھڑی دیکھا تھا،محبت کررہا تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں تھی کیونکہ نگار کو بھی اس سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نگار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک مسلمان لڑکی تھی۔۔۔ یتیم! زنانہ ہسپتال میں نرس تھی اور شاید پہلی مسلمان لڑکی تھی جس نے امرتسر میں بے پردہ ہوکر کانگریس کی تحریک میں حصہ لیا۔ کچھ کھادی کے لباس نے، کچھ کانگریس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اور کچھ ہسپتال کی فضا نے نگار کی اسلامی خوکو، اس تیکھی چیز کو جو مسلمان عورت کی فطرت میں نمایاں ہوتی ہے تھوڑا سا گھسا دیا تھا جس سے وہ ذرا ملائم ہوگئی تھی۔
وہ حسین نہیں تھی لیکن اپنی جگہ نسوانیت کا ایک نہایت ہی دیدہ چشم منفرد نمونہ تھی۔ انکسار، تعظیم اور پرستش کا وہ ملا جلا جذبہ جو آدرش ہندو عورت کا خاصہ ہے نگار میں اس کی خفیف سی آمیزش نے ایک روح پر ور رنگ پیدا کردیا تھا۔ اس وقت تو شاید یہ کبھی میرے ذہن میں نہ آتا، مگر یہ لکھتے وقت میں نگار کا تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے نماز اور آرتی کا دلفریب مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔شہزادہ غلام علی کی وہ پرستش کرتی تھی اور وہ بھی اس پر دل و جان سے فدا تھا ۔جب نگار کے بارے میں اس سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ کانگریس تحریک کے دوران میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے ملاپ سے وہ ایک دوسرے کے ہوگئے۔
غلام علی کا ارادہ تھا کہ قید ہونے سے پہلے پہلے وہ نگار کو اپنی بیوی بنالے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا کیونکہ قید سے واپس آنے پر بھی وہ اس سے شادی کرسکتا تھا۔ ان دنوں کوئی اتنی لمبی قید نہیں تھی۔ کم سے کم تین مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس۔ بعضوں کو تو پندرہ بیس روز کے بعد ہی رہا کردیا جاتا تھا تاکہ دوسرے قیدیوں کے لیے جگہ بن جائے۔ بہر حال وہ اس ارادے کو نگار پر بھی ظاہر کرچکا تھا اور وہ بالکل تیار تھی۔ اب صرف دونوں کو بابا جی کے پاس جا کر ان کا آشیرواد لینا تھا۔
بابا جی جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے بہت زبردست ہستی تھی۔ شہر سے باہر لکھ پتی صراف ہری رام کی شاندارکوٹھی میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یوں تو وہ اکثر اپنے آشرم میں رہتے جو انھوں نے پاس کے ایک گاؤں میں بنا رکھا تھا مگر جب کبھی امرتسر آتے تو ہری رام صراف ہی کی کوٹھی میں اترتے اور ان کے آتے ہی یہ کوٹھی بابا جی کے شیدائیوں کے لیے مقدس جگہ بن جاتی۔ سارا دن درشن کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دن ڈھلے وہ کوٹھی سے باہر کچھ فاصلے پر آم کے پیڑوں کے جھنڈ میں ایک چوبی تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو عام درشن دیتے، اپنے آشرم کے لیے چندہ اکٹھا کرتے۔ آخر میں بھجن وغیرہ سن کر ہر روز شام کو یہ جلسہ ان کے حکم سے برخاست ہو جاتا۔بابا جی بہت پرہیز گار، خدا ترس، عالم اور ذہین آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان، سکھ اور اچھوت سب ان کے گرویدہ تھے اور انھیں اپنا امام مانتے تھے۔ سیاست سے گو باباجی کو بظاہر کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ پنجاب کی ہر سیاسی تحریک انہی کے اشارے پر شروع ہوئی اور انہی کے اشارے پر ختم ہوئی۔
گورنمنٹ کی نگاہوں میں وہ ایک عقدۂ لاینحل تھے، ایک سیاسی چیستاں ،جسے سرکارِ عالیہ کے بڑے بڑے مدبر بھی نہ حل کرسکتے تھے۔ بابا جی کے پتلے پتلے ہونٹوں کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ہزار معنی نکالے جاتے تھے مگر جب وہ خود اس مسکراہٹ کا بالکل ہی نیا مطلب واضح کرتے تو مرعوب عوام اور زیادہ مرعوب ہو جاتے۔
یہ جو امرتسر میں سول نافرمانی کی تحریک جاری تھی اور لوگ دھڑا دھڑ قید ہوررہے تھے، اس کے عقب میں جیسا کہ ظاہر ہے، بابا جی ہی کا اثر کارفرما تھا۔ ہر شام لوگوں کو عام درشن دیتے وقت وہ سارے پنجاب کی تحریک آزادی اور گورنمنٹ کی نت نئی سخت گیریوں کے متعلق اپنے پوپلے منہ سے ایک چھوٹا سا۔۔۔ ایک معصوم سا جملہ نکال دیا کرتے تھے، جسے فوراً ہی بڑے بڑے لیڈر اپنے گلے میں تعویذ بنا کرڈال لیتے تھے۔
لوگوں کا بیان ہے کہ ان کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی قوت تھی، ان کی آواز میں ایک جادو تھا اور ان کا ٹھنڈا دماغ۔۔۔ ان کا وہ مسکراتا ہوتا دماغ، جس کو گندی سے گندی گالی اور زہریلی سے زہریلی طنز بھی ایک لحظے کے ہزارویں حصے کے لیے برہم نہیں کرسکتی تھی، حریفوں کے لیے بہت ہی الجھن کا باعث تھا۔
امرتسر میں بابا جی کے سیکڑوں جلوس نکل چکے تھے، مگر جانے کیا بات ہے کہ میں نے اور تمام لیڈروں کو دیکھا، ایک صرف ان ہی کو میں نے دور سے دیکھا نہ نزدیک سے۔ اسی لیے جب غلام علی نے مجھ سے ان کے درشن کرنے اور ان سے شادی کی اجازت لینے کے متعلق بات چیت کی تو میں نے اس سے کہا کہ جب وہ دونوں جائیں تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں۔
دوسرے ہی روز غلام علی نے تانگے کا انتظام کیا اور ہم صبح سویرے لالہ ہری رام صراف کی عالی شان کوٹھی میں پہنچ گئے۔ بابا جی غسل اور صبح کی دعا سے فارغ ہو کر ایک خوبصورت پنڈتانی سے قومی گیت سن رہے تھے۔ چینی کی بے داغ سفید ٹائلوں والے فرش پر آپ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر بیٹھے تھے، گاؤ تکیہ ان کے پاس ہی پڑا تھا مگر انھوں نے اس کا سہارا نہیں لیا تھا۔کمرے میں سوائے ایک چٹائی کے، جس کے اوپر بابا جی بیٹھے تھے اور فرنیچر وغیرہ نہیں تھا۔ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سفید ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ ان کی چمک نے قومی گیت گانے والی پنڈتانی کے ہلکے پیازی چہرے کو اور بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا۔
بابا جی گو ستر بہتر برس کے بڈھے تھے مگر ان کا جسم (وہ صرف گیروے رنگ کا چھوٹا سا تہمد باندھے تھے) عمر کی جھریوں سے بے نیاز تھا، جلد میں ایک عجیب قسم کی ملاحت تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہر روز اشنان سے پہلے روغن زیتون اپنے جسم پر ملواتے ہیں۔شہزادہ غلام علی کی طرف دیکھ کروہ مسکرائے ،مجھے بھی ایک نظر دیکھا اور ہم تینوں کی بندگی کا جواب اسی مسکراہٹ کو ذرا طویل کرکے دیا اور اشارہ کیا کہ ہم بیٹھ جائیں۔
میں اب یہ تصویر اپنے سامنے لاتا ہوں تو شعور کی عینک سے یہ مجھے دلچسپ ہونے کے علاوہ بہت ہی فکر خیز دکھائی دیتی ہے۔ کھجور کی چٹائی پر ایک نیم برہنہ معمر جوگیوں کا آسن لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی بیٹھک سے، اس کے گنجے سر سے، اس کی ادھ کُھلی آنکھوں سے، اس کے سانولے ملائم جسم سے، اس کے چہرے کے ہر خط سے ایک پرسکون اطمینان، ایک بے فکر تیقن مترشح تھا کہ جس مقام پر دنیا نے اسے بٹھا دیا ہے، اب بڑے سے بڑا زلزلہ بھی اسے وہاں سے نہیں گرا سکتا۔۔۔ اس سے کچھ دور وادی کشمیر کی ایک نوخیز کلی، جھکی ہوئی، کچھ اس بزرگ کی قربت کے احترام سے، کچھ قومی گیت کے اثر سے، کچھ اپنی شدید جوانی سے، جو اس کی کھردردی سفید ساڑی سے نکل کر قومی گیت کے علاوہ اپنی جوانی کا گیت بھی گانا چاہتی تھی، جو اس بزرگ کی قربت کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایسی تندرست اور جوان ہستی کی بھی تعظیم کرنے کی خواہش مند تھی جو اس کی نرم کلائی پکڑ کر زندگی کے دہکتے ہوئے الاؤ میں کود پڑے۔ اس کے ہلکے پیازی چہرے سے، اس کی بڑی بڑی سیاہ متحرک آنکھوں سے، اس کے کھادی کے کھردرے بلاؤز میں ڈھکے ہوئے متلاطم سینے سے ،اس معمر جوگی کے ٹھوس تیقن اور سنگین اطمینان کے تقابل میں ایک خاموش صدا تھی کہ آؤ، جس مقام پر میں اس وقت ہوں،وہاں سے کھینچ کر مجھے یا تو نیچے گرا دو یا اس سے بھی اوپر لے جاؤ۔
اس طرف ہٹ کر ہم تین بیٹھے تھے۔ میں، نگار اور شہزادہ غلام علی۔۔۔۔ میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ بابا جی کی شخصیت سے بھی متاثر تھا اور اس پنڈتانی کے بے د اغ حسن سے بھی۔ فرش کی چمکیلی ٹائلوں نے بھی مجھے مرعوب کیا تھا۔ کبھی سوچتا تھا کہ ایسی ٹائلوں والی ایک کوٹھی مجھے مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ پھر سوچتا تھا کہ یہ پنڈتانی مجھے اور کچھ نہ کرنے دے، ایک صرف مجھے اپنی آنکھیں چوم لینے دے۔ اس کے تصور سے بدن میں تھرتھری پیدا ہوتی تو جھٹ اپنی نوکرانی کا خیال آتا جس سے تازہ تازہ مجھے کچھ وہ ہوا تھا۔ جی میں آتا کہ ان سب کو، یہاں چھوڑ کر سیدھا گھر جاؤں۔۔۔ شاید نظر بچا کر اسے اوپر غسل خانے تک لے جانے میں کامیاب ہو سکوں، مگر جب بابا جی پر نظر پڑتی اور کانوں میں قومی گیت کے پرجوش الفاظ گونجتے تو ایک دوسری تھرتھری بدن میں پیدا ہوتی اور میں سوچتا کہ کہیں سے پستول ہاتھ آجائے تو سول لائن میں جا کر انگریزوں کو مارنا شروع کردوں۔
اس چغد کے پاس نگار اور غلام علی بیٹھے تھے۔ دو محبت کرنے والے دل، جو تنہا محبت میں دھڑکتے دھڑکتے اب شاید کچھ اکتا گئے تھے اور جلدی ایک دوسرے میں محبت کے دوسرے رنگ دیکھنے کے لیے مدغم ہونا چاہتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ بابا جی سے، اپنے مسلمہ سیاسی رہنما سے شادی کی اجازت لینے آئے تھے اور جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں کے دماغ میں اس وقت قومی گیت کے بجائے ان کی اپنی زندگی کا حسین ترین مگر ان سنا نغمہ گونج رہا تھا۔
گیت ختم ہوا ،بابا جی نے بڑے مشفقانہ انداز سے پنڈتانی کو ہاتھ کے اشارے سے آشیرواد دیا اور مسکراتے ہوئے نگار اور غلام علی کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے بھی انھوں نے ایک نظر دیکھ لیا۔غلام علی شاید تعارف کے لیے اپنا اور نگار کا نام بتانے والا تھا مگر بابا جی کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی اپنی میٹھی آواز میں کہا،’’شہزادے ،ابھی تک تم گرفتار نہیں ہوئے؟‘‘
غلام علی نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’جی نہیں۔‘‘
بابا جی نے قلم دان سے ایک پنسل نکالی اور اس سے کھیلتے ہوئے کہنے لگے، ’’مگر میں تو سمجھتا ہوں تم گرفتار ہو چکے ہو۔‘‘
غلام علی اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ لیکن بابا جی نے فوراً ہی پنڈتانی کی طرف دیکھا اور نگار کی طرف اشارہ کرکے،’’نگار نے ہمارے شہزادے کو گرفتار کرلیا ہے۔‘‘
نگار محجوب سی ہوگئی۔ غلام علی کا منہ فرطِ حیرت سےکھلا کا کھلا رہ گیا اور پنڈتانی کے پیازی چہرے پر ایک دعائیہ چمک سی آئی۔ اس نے نگار اور غلام علی کو کچھ اس طرح دیکھا جیسے یہ کہہ رہی ہے، ’’بہت اچھا ہوا۔‘‘ بابا جی ایک بار پھر پنڈتانی کی طرف متوجہ ہوئے، ’’یہ بچے مجھ سے شادی کی اجازت لینے آئے ہیں۔۔۔ تم کب شادی کررہی ہو کمل؟‘‘
تو اس پنڈتانی کا نام کمل تھا۔ بابا جی کے اچانک سوال سے وہ بوکھلا گئی۔ اس کا پیازی چہرہ سرخ ہوگیا۔ کانپتی ہوئی آواز میں اس نے جواب دیا، ’’میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔‘‘ ایک ہلکی سی آہ بھی ان الفاظ میں لپٹ کرباہر آئی جسے بابا جی کے ہشیار دماغ نے فوراً نوٹ کیا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر جوگیانہ انداز میں مسکرائے اور غلام علی اور نگار سے مخاطب ہو کرکہنے لگے،’’ تو تم دونوں فیصلہ کر چکے ہو۔‘‘
دونوں نے دبی زبان میں جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘
بابا جی نے اپنی سیاست بھری آنکھوں سے ان کو دیکھا،’’انسان جب فیصلے کرتا ہے تو کبھی کبھی ان کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔‘‘
پہلی دفعہ بابا جی کی بارعب موجودگی میں غلام علی نے، اس کی الھڑ اور بیباک جوانی نے کہا،’’یہ فیصلہ اگر کسی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو بھی اپنی جگہ پر اٹل رہے گا۔‘‘
بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں اور جرح کے انداز میں پوچھا،’’کیوں؟‘‘
حیرت ہے کہ غلام علی بالکل نہ گھبرایا۔ شاید اس دفعہ نگارسے جو اسے پرخلوص محبت تھی وہ بول اٹھی، ’’بابا جی ہم نے ہندوستان کو آزادی دلانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وقت کی مجبوریاں اسے تبدیل کرتی رہیں مگر جو فیصلہ ہے وہ تو اٹل ہے۔‘‘ بابا جی نے جیسا کہ میرا اب خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا مناسب خیال نہ کیا چنانچہ وہ مسکرا دیے۔۔۔ اس مسکراہٹ کا مطلب بھی ان کی تمام مسکراہٹوں کی طرح ہر شخص نے بالکل الگ الگ سمجھا۔ اگر بابا جی سے پوچھا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا مطلب ہم سب سے بالکل مختلف بیان کرتے۔
خیر۔۔۔ اس ہزار پہلو مسکراہٹ کو اپنے پتلے ہونٹوں پر ذرا اور پھیلاتے ہوئے انھوں نے نگار سے کہا،’’نگار تم ہمارے آشرم میں آجاؤ۔۔۔ شہزادہ تو تھوڑے دنوں میں قید ہو جائے گا۔‘‘
نگار نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا، ’’جی اچھا۔‘‘
اس کے بعد بابا جی نے شادی کا موضوع بدل کر جلیانوالہ باغ کیمپ کی سرگرمیوں کا حال پوچھنا شروع کردیا۔ بہت دیر تک غلام علی، نگار اور کمل گرفتاریوں، رہائیوں، دودھ،لسی اور ترکاریوں کے متعلق باتیں کرتے رہے اور جو میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا، یہ سوچ رہا تھا کہ بابا جی نے شادی کی اجازت دینے میں کیوں اتنی مین میخ کی ہے۔ کیا وہ غلام علی اور نگار کی محبت کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔۔؟ کیا انھیں غلام علی کے خلوص پرشبہ ہے؟
نگار کو انھوں نے کیا آشرم میں آنے کی اس لیے دعوت دی کہ وہاں رہ کر وہ اپنے قید ہونے والے شوہر کا غم بھول جائے گی۔۔۔؟لیکن بابا جی کے اس سوال پر’’ کمل تم کب شادی کررہی ہو؟‘‘ کمل نے کیوں کہا تھا کہ میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔۔۔؟ آشرم میں کیا مرد عورت شادی نہیں کرتے۔۔۔۔؟ میرا ذہن عجب مخمصے میں گرفتار تھا۔ مگر ادھر یہ گفتگو ہورہی تھی کہ لیڈی والنٹیرز کیا پانچ سو رضاکاروں کے لیے چپاتیاں وقت پر تیار کرلیتی ہیں؟ چولہے کتنے ہیں؟ اور توے کتنے بڑے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بہت بڑا چولہا بنالیا جائے اور اس پر اتنا بڑا توا رکھا جائے کہ چھ عورتیں ایک ہی وقت میں روٹیاں پکا سکیں؟
میں یہ سوچ رہا تھا کہ پنڈتانی کمل کیا آشرم میں جا کر باباجی کو بس قومی گیت اور بھجن ہی سنایا کرے گی۔ میں نے آشرم کے مرد والنٹیر دیکھے تھے۔ گر وہ سب کے سب وہاں کے قواعد کے مطابق ہر روز اشنان کرتے تھے، صبح اٹھ کر داتن کرتے تھے، باہر کھلی ہوا میں رہتے تھے، بھجن گاتے تھے،مگر ان کے کپڑوں سے پسینے کی بو پھر بھی آتی تھی۔ ان میں اکثر کے دانت بدبودار تھے اور وہ جو کھلی فضا میں رہنے سے انسان پر ایک ہشاش بشاش نکھار آتا ہے،ان میں بالکل مفقود تھا۔
جھکے جھکے سے، دبے دبے سے۔۔۔ زرد چہرے،دھنسی ہوئی آنکھیں، مرعوب جسم۔۔۔ گائے کے نچڑے ہوئے تھنوں کی طرح بے حس اور بے جان۔۔۔ میں ان آشرم والوں کو جلیانوالہ باغ میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔۔۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مرد جن سے گھاس کی بو آتی ہے،اس پنڈتانی کو جو دودھ، شہد اور زعفران کی بنی ہے، اپنی کیچڑ بھری آنکھوں سے گھوریں گے۔ کیا یہی مرد جن کا منہ اس قدر متعفن ہوتا ہے، اس لوبان کی مہک میں لپٹی ہوئی عورت سے گفتگو کریں گے؟
لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں ہندوستان کی آزادی شاید ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ میں اس ’’شاید‘‘ کو اپنی تمام حب الوطنی اور جذبۂ آزادی کے باوجود نہ سمجھ سکا۔ کیونکہ مجھے نگار کا خیال آیا جو بالکل میرے قریب بیٹھی تھی اور بابا جی کو بتارہی تھی کہ شلجم بہت دیر میں گلتے ہیں۔۔۔ کہاں شلجم اور کہاں شادی جس کے لیے وہ اور غلام علی اجازت لینے آئے تھے۔
میں نگار اور آشرم کے متعلق سوچنے لگا۔ آشرم میں نے دیکھا نہیں تھا،مگر مجھے ایسی جگہوں سے جن کو آشرم، ودیالہ جماعت خانہ، تکیہ، یا درس گاہ کہا جائے، ہمیشہ سے نفرت ہے۔ جانے کیوں؟میں نے کئی اندھ ودیالوں اور اناتھ آشرموں کے لڑکوں اور ان کے متنظموں کو دیکھا ہے، سڑک میں قطار باندھ کرچلتے اور بھیک مانگتے ہوئے۔ میں نے جماعت خانے اور درس گاہیں دیکھی ہیں۔ ٹخنوں سے اونچا شرعی پائجامہ، بچپن ہی میں ماتھے پر محراب، جو بڑے ہیں ان کے چہرے پر گھنی داڑھی۔۔۔ جو نوخیر ہیں ان کے گالوں اور ٹھڈی پر نہایت ہی بدنما موٹے اور مہین بال۔۔۔ نماز پڑھتے جارہے ہیں لیکن ہر ایک کے چہرے پر حیوانیت۔۔۔ ایک ادھوری حیوانیت مصلے پر بیٹھی نظر آتی ہے۔
نگار عورت تھی۔ مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائی عورت نہیں۔۔۔ وہ صرف عورت تھی، نہیں عورت کی دعا تھی جو اپنے چاہنے والے کے لیے یا جسے وہ خود چاہتی ہے صدق دل سے مانگتی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ بابا جی کے آشرم میں جہاں ہر روز قواعد کے مطابق دعا مانگی جاتی ہے۔ یہ عورت جو خود ایک دعا ہے، کیسے اپنے ہاتھ اٹھا سکے گی۔
میں اب سوچتا ہوں تو باباجی، نگار، غلام علی، وہ خوبصورت پنڈتانی اور امرتسر کی ساری فضا جو تحریک آزادی کے رومان آفریں کیف میں لپٹی ہوئی تھی، ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا خواب جو ایک بار دیکھنے کے بعد جی چاہتا ہے آدمی پھر دیکھے۔ بابا جی کا آشرم میں نے اب بھی نہیں دیکھا، مگر جو نفرت مجھے اس سے پہلے تھی اب بھی ہے۔وہ جگہ جہاں فطرت کے خلاف اصول بنا کر انسانوں کو ایک لکیر پرچلایا جائے، میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ آزادی حاصل کرنا بالکل ٹھیک ہے! اس کے حصول کے لیے آدمی مر جائے، میں اس کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن اس کے لیے اگر اس غریب کو ترکاری کی طرح ٹھنڈا اور بے ضرر بنا دیا جائے تو یہی میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔
جھونپڑوں میں رہنا، تن آسانیوں سے پرہیز کرنا، خدا کی حمد گانا، قومی نعرے مارنا۔۔۔ یہ سب ٹھیک ہے ،مگر یہ کیا کہ انسان کی اس حِس کو جسے طلبِ حسن کہتے ہیں آہستہ آہستہ مردہ کردیا جائے۔ وہ انسان کیا جس میں خوبصورتی اور ہنگاموں کی تڑپ نہ رہے۔ ایسے آشرموں، مدرسوں، ودیالوں اور مولیوں کے کھیت میں کیا فرق ہے۔
دیر تک بابا جی، غلام علی اور نگار سے جلیانوالہ باغ کی جملہ سرگرمیوں کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے اس جوڑے کو، جو کہ ظاہر ہے کہ اپنے آنے کا مقصد بھول نہیں گیا تھا، کہا کہ وہ دوسرے روز شام کو جلیانوالہ باغ آئیں گے اور ان دونوں کو میاں بیوی بنا دیں گے۔
غلام علی اور نگار بہت خوش ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان کی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی تھی کہ بابا جی خود شادی کی رسم ادا کریں گے۔ غلام علی، جیسا کہ اس نے مجھے بہت بعد میں بتایا، اس قدر خوش ہوا تھا کہ فوراً ہی سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ شاید جو کچھ اس نے سنا ہے غلط ہے۔ کیونکہ بابا جی کے منحنی ہاتھوں کی خفیف سی جنبش بھی ایک تاریخی حادثہ بن جاتی تھی۔ اتنی بڑی ہستی ایک معمولی آدمی کی خاطر جو محض اتفاق سے کانگریس کا ڈکٹیٹر بن گیا ہے، چل کے جلیانوالہ باغ جائے اور اس کی شادی میں دلچسپی لے۔ یہ ہندوستان کے تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی جلی سرخی تھی۔
غلام علی کا خیال تھا بابا جی نہیں آئیں گے کیونکہ وہ بہت مصروف آدمی ہیں لیکن اس کا یہ خیال، جس کا اظہار دراصل اس نے نفسیاتی نقطہ نگاہ سے صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ ضرور آئیں، اس کی خواہش کے مطابق غلط ثابت ہوا۔۔۔ شام کے چھ بجے جلیانوالہ باغ میں جب رات کی رانی کی جھاڑیاں اپنی خوشبو کے جھونکے پھیلانے کی تیاریاں کررہی تھیں اور متعدد رضاکار دولہا دلہن کے لیے ایک چھوٹا تنبو نصب کرکے اسے چمیلی، گیندے اور گلاب کے پھولوں سے سجا رہے تھے،بابا جی اس قومی گیت گانے والی پنڈتانی، اپنے سیکریٹری اور لالہ ہری رام صراف کے ہم راہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے۔ ان کی آمد کی اطلاع جلیانوالہ باغ میں صرف اسی وقت پہنچی، جب صدر دروازے پر لالہ ہری رام کی ہری موٹر رکی۔
میں بھی وہیں تھا۔ لیڈی والنٹیرز ایک دوسرے تنبو میں نگار کو دلہن بنا رہی تھیں۔ غلام علی نے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا۔ سارا دن وہ شہر کے کانگریسی بنیوں سے رضا کاروں کے کھانے پینے کی ضروریات کے متعلق گفتگو کرتا رہا تھا۔ اس سے فارغ ہوکر اس نے چند لمحات کے لیے نگار سے تخلیے میں کچھ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس نے اپنے ماتحت افسروں سے صرف اتنا کہا تھا کہ شادی کی رسم ادا ہونے کے ساتھ ہی وہ اور نگار دونوں جھنڈا اونچا کریں گے۔
جب غلام علی کو بابا جی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو وہ کنوئیں کے پاس کھڑا تھا۔ میں غالباً اس سے یہ کہہ رہا تھا،’’غلام علی تم جانتے ہوں یہ کنواں، جب گولی چلی تھی، لاشوں سے لبالب بھر گیا تھا۔۔۔ آج سب اس کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ اس باغ کے جتنے پھول ہیں۔ اس کے پانی نے سینچے ہیں۔ مگر لوگ آتے ہیں اور انھیں توڑ کر لے جاتے ہیں۔۔۔ پانی کے کسی گھونٹ میں لہو کا نمک نہیں ہوتا، پھول کی کسی پتی میں خون کی لالی نہیں ہوتی۔۔۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے یہ کہہ کر اپنے سامنے، اس مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھا جس میں، کہا جاتا ہے کہ ایک نو عمر لڑکی بیٹھی تماشا دیکھ رہی تھی اور جنرل ڈائر کی گولی کا نشانہ بن گئی تھی۔ اس کے سینے سے نکلے ہوئے خون کی لکیر چونے کی عمر رسیدہ دیوار پر دھندلی ہورہی تھی۔اب خون کچھ اس قدر ارزاں ہوگیا کہ اس کے بہنے بہانے کا وہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے چھ سات مہینے بعد جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا،مارا ماسٹر ساری کلاس کو ایک دفعہ اس باغ میں لے گیا۔ اس وقت یہ باغ باغ نہیں تھا۔ اجاڑ، سنسان اور اونچی نیچی خشک زمین کا ایک ٹکڑا تھا، جس میں ہر قدم پر مٹی کے چھوٹے بڑے ڈھیلے ٹھوکریں کھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیلا جس پر جانے پان کی پیک کے دھبے یا کیا تھا، ہمارے ماسٹر نے اٹھا لیا تھا اور ہم سے کہا تھا۔ دیکھو اس پر ابھی تک ہمارے شہیدوں کا خون لگا ہے۔
یہ کہانی لکھ رہا ہوں اور حافظے کی تختی پر سیکڑوں چھوٹی چھوٹی باتیں ابھر رہی ہیں مگر مجھے تو غلام علی اور نگار کی شادی کا قصہ بیان کرنا ہے۔
غلام علی کو جب بابا جی کی آمد کی خبر ملی تو اس نے دوڑ کر سب والنٹیر اکٹھے کیے جنہوں نے فوجی انداز میں ان کو سیلوٹ کیا۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ واور غلام علی مختلف کیمپوں کا چکرلگاتے رہے۔ اس دوران میں بابا جی نے، جن کی مزاحیہ حس بہت تیز تھی، لیڈی والنٹیرز اور دوسرے ورکرز سے گفتگوکرتے وقت کئی فقرے چست کیے۔
ادھر ادھر مکانوں میں جب بتیاں جلنے لگیں اور دھندلا اندھیرا سا جلیانوالہ باغ پر چھا گیا تو رضا کار لڑکیوں نے ایک آواز ہو کر بھجن گانا شروع کیا۔ چند آوازیں سریلی، باقی سب کن سری تھیں مگر ان کا مجموعی اثر بہت خوشگوار تھا۔ بابا جی آنکھیں بندکیے سن رہے تھے۔ تقریباً ایک ہزار آدمی موجود تھے،جو چبوترے کے اردگرد زمین پر بیٹھے تھے۔ بھجن گانے والی لڑکیوں کے علاوہ ہر شخص خاموش تھا۔بھجن ختم ہونے پر چند لمحات تک ایسی خاموشی طاری رہی جو ایک دم ٹوٹنے کے لیے بے قرارہو۔ چنانچہ جب بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور اپنی میٹھی آواز میں کہا، ’’بچو، جیسا کہ تمہیں معلوم ہے،میں یہاں آج آزادی کے دو دیوانوں کو ایک کرنے آیا ہوں۔‘‘ تو سارا باغ خوشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔
نگار دلہن بنی چبوترے کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ کھادی کی ترنگی ساڑی میں بہت بھلی دکھائی دے رہی تھی۔ بابا جی نے اشارے سے اسے بلایا اور غلام علی کے پاس بٹھا دیا۔ اس پر اور خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔غلام علی کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتما رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا، جب اس نے نکاح کا کاغذ اپنے دوست سے لے کربابا جی کو دیا تو اس کا ہاتھ لرز گیا۔ چبوترے پر ایک مولوی صاحب بھی موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جو ایسے موقعوں پر پڑھا کرتے ہیں۔ بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایجاب و قبول ختم ہوا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں دولھا دلہن کو آشیرواد دی اور جب چھوہاروں کی بارش شروع ہوئی تو انھوں نے بچوں کی طرح جھپٹ جھپٹ کر دس پندرہ چھوہارے اکٹھے کرکے اپنے پاس رکھ لیے۔
نگار کی ایک ہندو سہیلی نے شرمیلی مسکراہٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا غلام علی کو دی اور اس سے کچھ کہا۔ غلام علی نے ڈبیا کھولی اور نگار کی سیدھی مانگ میں سیندور بھر دیا۔ جلیانوالہ باغ کی خنک فضا ایک بار پھر تالیوں کی تیز آواز سے گونج اٹھی۔
بابا جی اس شور میں اٹھے۔ ہجوم ایک دم خاموش ہوگیا۔
رات کی رانی اور چمیلی کی ملی جلی سوندھی سوندھی خوشبو، شام کی ہلکی پھلکی ہوا میں تیر رہی تھی، بہت سہانا سماں تھا، بابا جی کی آواز آج اور بھی میٹھی تھی۔ غلام علی اور نگار کی شادی پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرنے کے بعد انھوں نے کہا:یہ دونوں بچے اب زیادہ تندہی اور خلوص سے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔ کیونکہ شادی کا صحیح مقصد مرد اور عورت کی پرخلوص دوستی ہے۔ ایک دوسرے کے دوست بن کر غلام علی اور نگار یکجہتی سے سوراج کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ یورپ میں ایسی کئی شادیاں ہوتی ہیں جن کا مطلب دوستی اور صرف دوستی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قابل احترام ہیں جو اپنی زندگی سے شہوت نکال پھینکتے ہیں۔
بابا جی دیر تک شادی کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ صحیح مزا صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب مرد اور عورت کا تعلق صرف جسمانی نہ ہو۔ عورت اور مرد کا شہوانی رشتہ ان کے نزدیک اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں آدمی کھاتے ہیں، اپنے ذائقے کی حس کو خوش کرنے کے لیےلیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنا انسانی فرض ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کھاتے ہیں زندہ رہنے کے لیے ۔اصل میں صرف یہی لوگ ہیں جو خوردونوش کے صحیح قوانین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ انھیں شادی کے مطہر جذبے کی حقیقت اور اس رشتے کی تقدیس معلوم ہو،حقیقی معنوں میں ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بابا جی نے اپنے اس عقیدے کو کچھ اس وضاحت، کچھ ایسے نرم و نازک خلوص سے بیان کیا کہ سننے والوں کے لیے ایک بالکل نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ میں خود بہت متاثر ہوا۔ غلام علی جو میرے سامنے بیٹھا تھا، بابا جی کی تقریر کے ایک ایک لفظ کو جیسے پی رہا تھا۔ بابا جی نے جب بولنا بند کیا تو اس نے نگار سے کچھ کہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اس نے کانپتی ہوئی آواز میں یہ اعلان کیا،’’میری اور نگار کی شادی اسی قسم کی آدرش شادی ہوگی، جب تک ہندوستان کو سوراج نہیں ملتا،میرا اور نگار کا رشتہ بالکل دوستوں جیسا ہوگا۔۔۔‘‘
جلیانوالہ باغ کی خنک فضا دیر تک تالیوں کے بے پناہ شور سے گونجتی رہی۔ شہزادہ غلام علی جذباتی ہوگیا۔ اس کے کشمیری چہرے پر سرخیاں دوڑنے لگیں۔ جذبات کی اسی دوڑ میں اس نے نگار کو بلند آواز میں مخاطب کیا، ’’نگار! تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا؟‘‘ نگار جو کچھ شادی ہونے پر اور کچھ بابا جی کی تقریر سن کر بوکھلائی ہوئی تھی، یہ کڑک سوال سن کر اور بھی بوکھلا گئی۔ صرف اتنا کہہ سکی، ’’جی۔۔۔؟ جی نہیں۔‘‘
ہجوم نے پھر تالیاں پیٹیں اور غلام علی اور زیادہ جذباتی ہوگیا۔ نگار کو غلام بچے کی شرمندگی سے بچا کر وہ اتنا خوش ہوا کہ وہ بہک گیا اور اصل موضوع سے ہٹ کر آزادی حاصل کرنے کی پیچ دار گلیوں میں جا نکلا۔ ایک گھنٹے تک وہ جذبات بھری آواز میں بولتا رہا۔ اچانک اس کی نظر نگار پر پڑی۔ جانے کیا ہوا۔۔۔ ایک دم اس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ جیسے آدمی شراب کے نشے میں بغیر کسی حساب کے نوٹ نکالتا جائے اور ایک دم بٹوہ خالی پائے۔ اپنی تقریر کا بٹوہ خالی پا کر غلام علی کو کافی الجھن ہوئی مگر اس نے فوراً ہی بابا جی کی طرف دیکھا اور جھک کرکہا،’’بابا جی۔۔۔ ہم دونوں کو آپ کا آشیرواد چاہیے کہ جس بات کا ہم نے عہد کیا ہے، اس پر پورے رہیں۔‘‘
دوسرے روز صبح چھ بجے شہزادہ غلام علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کیونکہ اس تقریر میں جو اس نے سوراج ملنے تک بچہ پیدا نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد کی تھی، انگریزوں کا تختہ الٹنے کی دھمکی بھی تھی۔گرفتار ہونے کے چند روز بعد غلام علی کو آٹھ مہینے کی قید ہوئی اور ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ وہ امرتسر کا اکیالیسواں ڈکٹیٹر تھا اور شاید چالیس ہزارواں سیاسی قیدی۔ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس تحریک میں قید ہونے والے لوگوں کی تعداد اخباروں نے چالیس ہزار ہی بتائی تھی۔
عام خیال تھا کہ آزادی کی منزل اب صرف دو ہاتھ ہی دور ہے۔ لیکن فرنگی سیاست دانوں نے اس تحریک کا دودھ ابلنے دیا اور جب ہندوستان کے بڑے لیڈروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو یہ تحریک ٹھنڈی لسی میں تبدیل ہوگئی۔آزادی کے دیوانے جیلوں سے باہر نکلے تو قید کی صعوبتیں بھولنے اور اپنے بگڑے ہوئے کاروبار سنوارنے میں مشغول ہو گئے۔ شہزادہ غلام علی سات مہینے کے بعد ہی باہر آگیا تھا۔ گو اس وقت پہلا سا جوش نہیں تھا،پھر بھی امرتسر کے اسٹیشن پر لوگوں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کے اعزاز میں تین چار دعوتیں اور جلسے بھی ہوئے۔ میں ان سب میں شریک تھا مگر یہ محفلیں بالکل پھیکی تھیں۔ لوگوں پر اب ایک عجیب قسم کی تھکاوٹ طاری تھی جیسے ایک لمبی دوڑ میں اچانک دوڑنے والوں سے کہہ دیا گیا تھا، ’’ٹھہرو، یہ دوڑ پھر سے شروع ہوگی۔‘‘ اور اب جیسے یہ دوڑنے والے کچھ دیر ہانپنے کے بعد دوڑ کے مقام آغاز کی طرف بڑی بے دلی کے ساتھ واپس آرہے تھے۔
کئی برس گزر گئے۔۔۔ یہ بے کیف تھکاوٹ ہندوستان سے دور نہ ہوئی تھی۔ میری دنیا میں چھوٹے موٹے کئی انقلاب آئے۔ داڑھی مونچھ اگی، کالج میں داخل ہوا، ایف اے میں دوبارہ فیل ہوا،والد انتقال کرگئے، روزی کی تلاش میں ادھر ادھر پریشان ہوا، ایک تھرڈ کلاس اخبار میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کی، یہاں سے جی گھبرایا تو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور تین ہی مہینے بعد دق کا مریض ہو کرکشمیر کے دیہاتوں میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ وہاں سے لوٹ کر بمبئی کا رخ کیا۔ یہاں دو برسوں میں تین ہندو مسلم فساد دیکھے۔ جی گھبرایا تو دلی چلا گیا۔ وہاں بمبئی کے مقابلے میں ہر چیز سست رفتار دیکھی۔ کہیں حرکت نظر بھی آئی تو اس میں ایک زنانہ پن محسوس ہوا۔ آخر یہی سوچا کہ بمبئی اچھا ہے۔ کیا ہوا ساتھ والے ہمسائے کو ہمارا نام تک پوچھنے کی فرصت نہیں۔ جہاں لوگوں کو فرصت ہوتی ہے،وہاں ریا کاریاں اور چال بازیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ دلی میں دو برس ٹھنڈی زندگی بسر کرنے کے بعد سدا متحرک بمبئی چلا آیا۔
گھر سے نکلے اب آٹھ برس ہو چلے تھے۔ دوست احباب اور امرتسر کی سڑکیں، گلیاں کس حالت میں ہیں، اس کا مجھے کچھ علم نہیں تھا، کسی سے خط و کتابت ہی نہیں تھی جو پتہ چلتا۔ دراصل مجھے ان آٹھ برسوں میں اپنے مستقبل کی طرف سے کچھ بے پروائی سی ہوگئی تھی۔۔۔ کون بیتے ہوئے دنوں کے متعلق سوچے۔ جو آٹھ برس پہلے خرچ ہو چکا ہے،اس کا اب احساس کرنے سے فائدہ۔۔۔؟ زندگی کے روپے میں وہی پائی زیادہ اہم ہے جسے تم آج خرچنا چاہتے ہو یا جس پرکل کسی کی آنکھ ہے۔
آج سے چھ برس پہلے کی بات کررہا ہوں، جب زندگی کے روپے اور چاندی کے روپے سے، جس پر بادشاہ سلامت کی چھاپ ہوتی ہے، پائی خارج نہیں ہوئی تھی۔ میں اتنا زیادہ قلاش نہیں تھاکیونکہ فورٹ میں اپنے پاؤں کے لیے ایک قیمتی شو خریدنے جارہا تھا۔آرمی اینڈ نیوی اسٹور کے اس طرف ہاربنی روڈ پر جوتوں کی ایک دکان ہے جس کی نمائشی الماریاں مجھے بہت دیر سے اس طرف کھینچ رہی تھیں۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہے ،چنانچہ یہ دکان ڈھونڈنے میں کافی وقت صرف ہوگیا۔
یوں تو میں اپنے لیے ایک قیمتی شو خریدنے آیا تھا مگر جیسا کہ میری عادت ہے، دوسری دکانوں میں سجی ہوئی چیزیں دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔ ایک اسٹور میں سگریٹ کیس دیکھے، دوسرے میں پائپ، اسی طرح فٹ پاتھ پر ٹہلتا ہوا جوتوں کی ایک چھوٹی سی دکان کے پاس آیا اور اس کے اندر چلا گیا کہ چلو یہیں سے خرید لیتے ہیں، دکاندار نے میرا استقبال کیا اور پوچھا،’’کیا مانگتا ہے صاحب۔‘‘
میں نے تھوڑی دیر یاد کیا کہ مجھے کیا چاہیے، ’’ہاں۔۔۔ کریپ سول شو۔‘‘
’’ادھر نہیں رکھتا ہم۔‘‘
مون سون قریب تھی۔ میں نے سوچا گم بوٹ ہی خرید لوں،’’گم بوٹ نکالو۔‘‘
’’باجو والے کی دکان سے ملیں گے۔۔۔ ربڑ کی کئی چیز ہم ادھر نہیں رکھتا۔‘‘
میں نے ایسے ہی پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’سیٹھ کی مرضی!‘‘
یہ مختصر مگر جامع جواب سن کر میں دکان سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک خوش پوش آدمی پر میری نظر پڑی جو باہر فٹ پاتھ پر ایک بچہ گود میں اٹھائے پھل والے سے سنگترہ خرید رہا تھا۔ میں باہر نکلا اور وہ دکان کی طرف مڑا، ’’ارے۔۔۔ غلام علی۔۔۔‘‘
’’سعادت !‘‘
یہ کہہ کر اس نے بچے سمیت مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ بچے کو یہ حرکت ناگوار معلوم ہوئی، چنانچہ اس نے رونا شروع کردیا۔ غلام علی نے اس آدمی کو بلایا جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ربڑ کی کوئی چیز ادھر ہم نہیں رکھتا اور اسے بچہ دے کر کہا ’’جاؤ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا، ’’کتنی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملے ہیں۔‘‘
میں نے غلام علی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔ وہ کج کلاہی، وہ ہلکا سا غنڈا پن جو اس کی امتیازی شان تھا۔ اب بالکل مفقود تھا۔۔۔ میرے سامنے آتشیں تقریریں کرنے والے کھادی پوش نوجوان کی جگہ ایک گھریلو قسم کا عام انسان کھڑا تھا۔۔۔ مجھے اس کی وہ آخری تقریر یاد آئی، جب اس نے جلیانوالہ باغ کی خنک فضا کو ان گرم الفاظ سے مرتعش کیا تھا، ’’نگار۔۔۔ تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا۔۔۔‘‘ فوراً ہی مجھے اس بچے کا خیال آیاجو غلام علی کی گود میں تھا۔ میں اس سے یہ پوچھا،’’یہ بچہ کس کا ہے؟‘‘ غلام علی نے بغیر کسی جھجک کے جواب دیا،’’میرا۔۔۔ اس سے بڑا ایک اور بھی ہے۔۔۔ کہو، تم نے کتنے پیدا کیے۔‘‘
ایک لحظے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے غلام علی کے بجائے کوئی اور ہل بول رہا ہے۔ میرے دماغ میں سیکڑوں خیال اوپر تلے گرتے گئے۔ کیا غلام علی اپنی قسم بالکل بھول چکا ہے؟کیا اس کی سیاسی زندگی اس سے قطعاً علیحدہ ہو چکی ہے؟ ہندوستان کو آزادی دلانے کا وہ جوش، وہ ولولہ کہاں گیا؟ اس بے ریش و بروت للکار کا کیا ہوا۔۔۔؟ نگار کہاں تھی۔۔۔؟کیا اس نے دو غلام بچوں کی ماں بننا گوارا کیا۔۔۔؟ شاید وہ مرچکی ہو۔ہو سکتا ہے، غلام علی نے دوسری شادی کرلی ہو۔
’’کیا سوچ رہے ہو۔۔۔ کچھ باتیں کرو۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔‘‘ غلام علی نے میرے کاندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔
میں شاید خاموش ہوگیا تھا۔ ایک دم چونکا اور ایک لمبی ’’ہاں‘‘ کرکے سوچنے لگا کہ گفتگو کیسے شروع کروں۔ لیکن غلام علی نے میرا انتظار نہ کیا اور بولنا شروع کردیا، ’’یہ دکان میری ہے۔ دو برس سے میں یہاں بمبئی میں ہوں۔ بڑا اچھا کاروبار چل رہا ہے۔ تین چار سو مہینے کے بچ جاتے ہیں۔ تم کیا کررہے ہو۔ سنا ہے کہ بہت بڑے افسانہ نویس بن گئے ہو۔ یاد ہے ہم ایک دفعہ یہاں بھاگ کے آئے تھے۔۔۔ لیکن یار عجیب بات ہے،اس بمبئی اور اس بمبئی میں بڑا فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ چھوٹی تھی اور یہ بڑی ہے۔‘‘
اتنے میں ایک گاہک آیا، جسے ٹینس شو چاہیے تھا۔ غلام علی نے اس سے کہا،’’ربڑ کا مال اِدھر نہیں ملتا۔ بازو کی دکان میں چلے جائیے۔‘‘
گاہک چلا گیا تو میں نے غلام سے پوچھا، ’’ربڑ کا مال تم کیوں نہیں رکھتے؟ میں بھی یہاں کریپ سول شو لینے آیا تھا۔‘‘
یہ سوال میں نے یونہی کیا تھالیکن غلام علی کا چہرہ ایک دم بے رونق ہوگیا۔
دھیمی آواز میں صرف اتنا کہا، ’’مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’کیا پسند نہیں؟‘‘
’’یہی ربڑ۔۔۔ ربڑ کی بنی ہوئی چیزیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ جب ناکام رہا تو زور سے خشک سا قہقہہ لگایا، ’’میں تمہیں بتاؤں گا۔ ہے تو بالکل واہیات سی چیز، لیکن۔۔۔ لیکن میری زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔‘‘
تفکر کی گہرائی غلام علی کے چہرے پر پیدا ہوئی۔ اس کی آنکھیں جن میں ابھی تک کھلنڈرا پن موجود تھا، ایک لحظے
- सआदत-हसन-मंटो
ہر تیسرے دن، سہ پہر کے وقت ایک بے حد دبلا پتلا بوڑھا، گھسے اور جگہ جگہ سے چمکتے ہوئے سیاہ کوٹ پتلون میں ملبوس، سیاہ گول ٹوپی اوڑھے، پتلی کمانی والی چھوٹے چھوٹے شیشوں کی عینک لگائے، ہاتھ میں چھڑی لیے برساتی میں داخل ہوتا اور چھڑی کو آہستہ آہستہ بجری پر کھٹکھٹاتا۔ فقیرا باہر آکر باجی کو آواز دیتا، ’’بٹیا۔ چلیے۔ سائمن صاحب آگئے۔‘‘ بوڑھا باہر ہی سے باغ کی سڑک کا چکر کاٹ کر پہلو کے برآمدے میں پہنچتا۔ ایک کونے میں جاکر اور جیب میں سے میلا سا رومال نکال کر جھکتا، پھر آہستہ سے پکارتا، ’’ریشم۔۔۔ ریشم۔۔۔ ریشم۔۔۔‘‘ ریشم دوڑتی ہوئی آتی۔ باجی بڑے آرٹسٹک انداز میں سرود کندھے سے لگائے برآمدے میں نمودار ہوتیں۔ تخت پر بیٹھ کر سرود کا سرخ بنارسی غلاف اتارتیں اور سبق شروع ہو جاتا۔
بارش کے بعد جب باغ بھیگا بھیگا سا ہوتا اور ایک انوکھی سی تازگی اور خوشبو فضا میں تیرتی تو بوڑھے کو واپس جاتے وقت گھاس پر گری کوئی خوبانی مل جاتی۔ وہ اسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا۔ ریشم اس کے پیچھے پیچھے چلتی۔ اکثر ریشم شکار کی تلاش میں جھاڑیوں کے اندر غائب ہو جاتی یا کسی درخت پر چڑھ جاتی تو بوڑھا سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کو دیکھتا اور پھر سر جھکا کر پھاٹک سے باہر چلا جاتا۔ تیسرے روز سہ پہر کو پھر اسی طرح بجری پر چھڑی کھٹکھٹانے کی آواز آتی۔ یہ معمول بہت دنوں سے جاری تھا۔
جب سے پڑوس میں مسز جوگ مایا چٹرجی کلکتے سے آن کر رہی تھیں، اس محلے کے باسیوں کو بڑا سخت احساس ہوا تھا کہ ان کی زندگیوں میں کلچر کی بہت کمی ہے۔ موسیقی کی حد تک ان سب کے ’گول کمروں‘ میں ایک ایک گرامو فون رکھا تھا۔ (ابھی ریڈیو عام نہیں ہوئے تھے۔ فریجڈیر status symbol نہیں بنا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور سماجی رتبے کی علامات ابھی صرف کوٹھی، کار اور بیرے پر مشتمل تھیں) لیکن جب مسز جوگ مایا چٹرجی کے وہاں صبح شام ہارمونیم کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو سروے آف انڈیا کے اعلا افسر کی بیوی مسز گوسوامی نے محکمۂ جنگلات کے اعلا افسر کی بیوی مسز فاروقی سے کہا۔۔۔ ’’بہن جی۔ ہم لوگ تو بہت ہی بیک ورڈ رہ گئے۔ ان بنگالیوں کو دیکھیے، ہر چیز میں آگے آگے۔۔۔‘‘
’’اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ان لوگوں میں جب تک لڑکی گانا بجانا نہ سیکھ لے اس کا بیاہ نہیں ہوتا،‘‘ ملٹری اکیڈیمی کے اعلا افسر کی بیوی مسز جسونت سنگھ نے اظہارِ خیال کیا۔
’’ہم مسلمانوں میں تو گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر آج کل زمانہ دوسرا ہے۔ میں نے تو ’ان‘ سے کہہ دیا ہے۔ میں اپنی حمیدہ کو ہارمونیم ضرور سکھاؤں گی۔‘‘ مسز فاروقی نے جواب دیا۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ڈالن والا میں آرٹ اور کلچر کی ہوا چل پڑی۔ ڈاکٹر سنہا کی لڑکی نے ناچ سیکھنا بھی شروع کردیا، ہفتے میں تین بار ایک منحنی سے ڈانس ماسٹر اس کے گھرآتے، انگلیوں میں سلگتی ہوئی بیڑی تھامے، منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے جو ’جی جی کتّ تا توم ترنگ تکا تُن تُن، وغیرہ الفاظ پر مشتمل ہوتیں۔ وہ طبلہ بجاتے رہتے اور اوشا سنہا کے پاؤں، توڑوں کی چک پھیریاں لیتے لیتے گھنگھروؤں کی چوٹ سے زخمی ہوجاتے۔
پڑوس کے ایک نوجوان رئیس سردار امرجیت سنگھ نے وائلن پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ سردار امرجیت سنگھ کے والد نے ڈچ ایسٹ انڈیز کے دار السلطنت بٹا ویا میں جواب جمہوریہ انڈونیشیا کا دار السلطنت جکارتا کہلاتا ہے، بزنس کر کے بہت دولت جمع کی تھی۔ سردار امرجیت سنگھ ایک شوقین مزاج رئیس تھے۔ جب وہ گراموفون پر بڑے انہماک سے ببّو کا ریکارڈ،
خزاں نے آکے چمن کو اجاڑ دینا ہے
مری کھلی ہوئی کلیوں کو لوٹ لینا ہے
بار بار نہ بجاتے تو دریچے میں کھڑے ہو کر وائلن کے تاروں پر اسی انہماک سے گز رگڑا کرتے۔ ورنہ پھیری والے بزازوں سے رنگ برنگی چھینٹوں کی جارجت اپنے صافوں کے لیے خریدتے رہتے، اور یہ بڑھیا بڑھیا صافے باندھ کر اور داڑھی پر سیاہ پٹی نفاست سے چڑھا کر مسز فلک ناز مروارید خاں سے ملاقات کے لیے چلے جاتے اور اپنی زوجہ سردارنی بی بی چرن جیت کور سے کہہ جاتے کہ وائلن سیکھنے جارہے ہیں۔
اسی زمانے میں باجی کو سرود کا شوق پیدا ہوا۔
وہ موسم سرما گوناگوں واقعات سے پر گزرا تھا۔ سب سے پہلے تو ریشم کی ٹانگ زخمی ہوئی۔ پھر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی مس زہرہ ڈربی نے آکر پریڈ گراؤنڈ پر اپنے جھنڈے گاڑے ڈائنا بیکٹ قتّالۂ عالم حسینہ لندن کہلائی۔ ڈاکٹر مس زبیدہ صدیقی کو رات کو دو بجے گدھے کی جسامت کا کتّا نظر آیا۔ مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ہماری زندگیوں سے غائب ہوگئے۔ نیگس نے خودکشی کر لی اور فقیرا کی بھاوج گوریّا چڑیا بن گئی۔ چونکہ یہ سب نہایت اہم واقعات تھے لہٰذا میں سلسلے وار ان کا تذکرہ کرتی ہوں۔
میری بہت خوب صورت اورپیاری ریحانہ باجی نے جو میری چچا زاد بہن تھیں، اسی سال بی۔ اے پاس کیا تھا اور وہ علیگڑھ سے چند ماہ کے لیے ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک سہانی صبح باجی سامنے کے برآمدے میں کھڑی ڈاکٹر ہون کی بیوی سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک برساتی کی بجری پر ہلکی سی کھٹ کھٹ ہوئی اور ایک نحیف اور منحنی سے بوڑھے نے بڑی دھیمی اورملائم آواز میں کہا، ’’میں نے سنا ہے یہاں کوئی لیڈی سرود سیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘
باجی کے سوالات پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان کی ماہانہ فیس پانچ روپے ہے اور وہ ہفتے میں تین بار ایک گھنٹہ سبق دیں گے۔ وہ کرزن روڈ پر پادری اسکاٹ کی خالی کوٹھی کے شاگرد پیشے میں رہتے ہیں۔ ان کے بیوی بچے سب مرچکے ہیں اور برسوں سے ان کا ذریعۂ معاش سرود ہے جس کے ذریعے وہ آٹھ دس روپے مہینا کما لیتے ہیں۔
’’لیکن اس خوابیدہ شہر میں سرود سیکھنے والے ہی کتنے ہوں گے؟ ‘‘ باجی نے پوچھا۔ انہوں نے اسی دھیمی آواز میں کہا، ’’کبھی کبھی دو ایک طالب علم مل جاتے ہیں۔‘‘ ( اس کے علاوہ انہوں نے اپنے متعلق کچھ نہیں بتلایا) وہ انتہائی خوددار انسان معلوم ہوتے تھے، ان کا نام سائمن تھا۔
پیر کے روز وہ ٹیوشن کے لیے آگئے۔ باجی پچھلے لان پر دھوپ میں بیٹھی تھیں۔ ’’مسٹر سائمن کو یہیں بھیج دو،‘‘ انہوں نے فقیرا سے کہا۔ باجی کی طرف جانے کے لیے فقیرا نے ان کو اندر بلالیا۔ اس روز بڑی سردی تھی اور میں اپنے کمرے میں بیٹھی کسی سٹرپٹر میں محو تھی۔ میرے کمرے میں سے گزرتے ہوئے ذرا ٹھٹک کر سائمن نے چاروں طرف دیکھا۔ آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے ان کے قدم آتش دان کی سمت بڑھے اورانہوں نے آگ کی طرف ہتھیلیاں پھیلائیں۔ مگر پھر جلدی سے فقیرا کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔
ریشم نے ان سے بہت جلد دوستی کر لی۔ یہ بڑے تعجب کی بات تھی۔ کیونکہ ریشم بے انتہا مغرور، اکل کھری اور اپنے سیامی حسن پر حد سے زیادہ نازاں تھی۔ اور بہت کم لوگوں کو خاطر میں لاتی تھی۔ زیادہ تر وہ اپنی ساٹن کے ریشمی جھالر دار غلاف والی ٹوکری کے گدیلوں پر آرام کرتی رہتی اور کھانے کے وقت بڑی مکّاری سے آنکھیں بند کر کے میز کے نیچے بیٹھ جاتی۔ ’’اس کی ساری خاصیتیں ویمپ (vamp) عورتوں کی سی ہیں،‘‘ باجی کہتیں۔ ’’عورت کی خاصیت بلّی کی ایسی ہوتی ہے، چمکارو تو پنجے نکال لے گی، بے رخی برتوں تو خوشامد شروع کردے گی۔۔۔‘‘
’’اور آدمی لوگوں کی خاصیت کیسی ہوتی ہے باجی؟ ‘‘ میں پوچھتی، باجی ہنسنے لگتیں اور کہتیں، ’’ یہ ابھی مجھے معلوم نہیں۔‘‘
باجی چہرے پر دل فریب اور مطمئن مسکراہٹ لیے باغ میں بیٹھی مظفر بھائی کے بے حد دل چسپ خط پڑھا کرتیں، جو ان کے نام ہر پانچویں دن بمبئی سے آتے تھے۔ جہاں مظفر بھائی انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ مظفر بھائی میرے اور باجی کے چچازاد بھائی تھے اور باجی سے ان کی شادی طے ہو چکی تھی۔ جتنی دیر وہ باغ میں بیٹھتیں، غفور بیگم ان کے نزدیک گھاس پر پاندان کھولے بیٹھی رہتیں۔ جب باجی اندر چلی جاتیں تو غفور بیگم شاگرد پیشے کی طرف جاکر فقیرا بھاوج سے باتیں کرنے لگتیں یا پھر اپنی نماز کی چوکی پر آ بیٹھتیں۔
غفور بیگم باجی کی بے حد وفادار اناّ تھیں۔ ان کے شوہر نے، جن کی علیگڑھ میں میرس روڈ کے چوراہے پر سائیکلوں کی دکان تھی، پچھلے برس ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کر لیا تھا، اور تب سے غفور بیگم اپنا زیادہ وقت نماز روزے میں گزارتی تھیں۔
سائمن کے آتے ہی ریشم دبے پاؤں چلتی ہوئی آکر خُر خُر کرنے لگتی اور وہ فوراً جیب سے رومال نکال کر اسے کچھ کھانے کو دیتے۔ شام کے وقت جب فقیرا ان کے لیے چائے کی کشتی لے کر برآمدے میں جاتا تو وہ آدھی چائے طشتری میں ڈال کر فرش پر رکھ دیتے اور ریشم فوراً طشتری چاٹ جاتی اور فقیرا بڑ بڑاتا، ’’ہمارے ہاتھ سے تو رانی صاحب دودھ پینے میں بھی نخرے کرتی ہیں۔‘‘
فقیرا ایک ہنس مکھ گڑھوالی نوجوان تھا۔ دو سال قبل وہ چیتھڑوں میں ملبوس، نہر کی منڈیر پر بیٹھا، اون اورسلائیوں سے موزرے بن رہا تھا۔ جو پہاڑیوں کا عام دستور ہے، تو سکھ نندن خانساماں نے اس سے پوچھا تھا، ’’کیوں بے نوکری کرے گا؟‘‘ اور اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔ ’’ مہینوں سے بھوکوں مر رہا ہوں کیوں نہیں کروں گا۔‘‘ تب سے وہ ہمارے یہاں ’اوپر کا کام‘ کر رہا تھا، اور ایک روز اس نے اطلاع دی تھی کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں کی مٹی ہوگئی ہے اور وہ اپنی بھاوج کو لینے گڑھوال جارہا ہے۔ اور چند دنوں بعد اس کی بھاوج جل دھرا پہاڑوں سے آکر شاگرد پیشے میں بس گئی تھی۔
جل دھرا ادھیڑ عمر کی ایک گوری چٹّی عورت تھی، جس کے ماتھے، ٹھوڑی اور کلائیوں پر نیلے رنگ کے نقش و نگار گدے ہوئے تھے۔ وہ ناک میں سونے کی لونگ اور بڑا سا بُلاق اور کانوں کے بڑے بڑے سوراخوں میں لاکھ کے پھول پہنتی تھی اور اس کے گلے میں ملکہ وکٹوریہ کے روپوں کی مالا بھی پڑی تھی۔ یہ تین گہنے اس کے تینوں مشترکہ شوہروں کی واحد جائیداد تھے۔ اس کے دونوں متوفی شوہر مرتے دم تک یاتریوں کا سامان ڈھوتے رہے تھے اور اتفاق سے اکٹھے ہی ایک پہاڑی سے گر کر مرگئے تھے۔
جل دھرا بڑے میٹھے لہجے میں بات کرتی تھی اور ہر وقت سوئٹر بنتی رہتی تھی۔ اسے کنٹھ مالا کا پرانا مرض تھا۔ فقیرا اس کے علاج معالجے کے لیے فکر مند رہتا تھا اور اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ جل دھرا کی آمد پر باقی نوکروں کی بیویوں نے آپس میں چہ میگوئیاں کی تھیں۔۔۔ ’’یہ پہاڑیوں کے ہاں کیسا برا رواج ہے ایک لُگائی کے دو دو تین تین خاوند۔۔۔‘‘ اور جب جل دھرا کا تذکرہ دوپہر کو کھانے کی میز پر ہوا تھا تو باجی نے فوراً درو پدی کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا پہاڑوں میں پولی اینڈ ری کا رواج مہابھارت کے زمانے سے چلا آتا ہے اور ملک کے بہت سے حصوں کا سماجی ارتقا ایک خاص اسٹیج پر پہنچ کر وہیں منجمد ہوچکا ہے اور پہاڑی علاقے بھی ان ہی پس ماندہ حصوں میں سے ہیں۔
باجی نے یہ بھی کہا کہ پولی اینڈ ری، جسے اردو میں ’چند شوہری ‘ کہتے ہیں، مادرانہ نظام کی یادگار ہے۔ اور معاشرے نے جب مادرانہ نظام سے پدری نظام کی طرف ترقی کی تو انسان بھی کثیر الازدواجی کی طرف چلا گیا۔ اور مادرانہ نظام سے بھی پہلے، ہزاروں سال قبل، تین چار بھائیوں کے بجائے قبیلوں کے پورے پورے گروہ ایک ہی عورت کے ساتھ رہتے تھے اور ویدوں میں ان قبائل کا ذکر موجود ہے۔ میں منہ کھولے یہ سب سنتی رہی۔ باجی بہت قابل تھیں۔ بی۔ اے میں انہیں فرسٹ ڈویژن ملا تھا اور ساری علیگڑھ یونیورسٹی میں اوّل رہی تھیں۔
ایک روز میں اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اپنی سہیلیوں کے ہاں جا رہی تھی۔ ریشم میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آرہی تھی۔ اس خیال سے کہ وہ سڑک پر آنے والی موٹروں سے کچل نہ جائے۔ میں سائیکل سے اتری، اسے خوب ڈانٹ کر سڑک پر سے اٹھایا اور باڑ پر سے احاطے کے اندر پھینک دیا اور پیڈل پر زور سے پاؤں مار کر تیزی سے آگے نکل گئی۔ لیکن ریشم احاطے میں کودنے کے بجائے باڑ کے اندر لگے ہوئے تیزنوکیلے کانٹوں والے تاروں میں الجھ گئی۔ اس کی ایک ران بری طرح زخمی ہوئی۔ وہ لہو لہان ہوگئی اور اس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا اور اسی طرح تار سے لٹکی چیختی اور کراہتی رہی۔ بہت دیر بعد جب فقیرا ادھر سے گزرا جو جھاڑیوں سے مرچیں اور ٹماٹر توڑنے اس طرف آیا تھا، تو اس نے بڑی مشکل سے ریشم کو باڑ میں سے نکالا اور اندر لے گیا۔
جب میں کملا اور وملا کے گھر سے لوٹی تو دیکھا کہ سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ ’’تمہاری ریشم مر رہی ہے،‘‘ باجی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’کم بخت جانے کس طرح جا کر باڑ کے تاروں میں الجھ گئی۔ جنے اس قدر احمق کیوں ہے؟ چڑیوں کی لالچ میں وہاں جا گھسی ہوگی۔ اب بری طرح چلّا رہی ہے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب مرہم پٹّی کر کے گئے ہیں۔‘‘
میرا دل دہل گیا۔ ریشم کی اس ناقابلِ برداشت تکلیف کی ذمہ داری میں تھی۔ اس کی تکلیف اور ممکن موت کے صدمے کے ساتھ انتہائی شدید احساسِ جرم نے مجھے سراسیمہ کردیا اور میں جا کر گھر کے پچھواڑے گھنے درختوں میں چھپ گئی تاکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاؤں۔ کچھ فاصلے پر کھٹ کھٹ بڑھیا کی شکل والی مسز وار بروک کے گھر میں سے وائرلیس کی آواز آرہی تھی۔ دور شاگرد پیشے کے سامنے فقیرا کی بھاوج گھاس پر بیٹھی غفور بیگم سے باتیں کر رہی تھی۔ پچھلے برآمدے میں باجی اب مظفر بھائی کو خط لکھنے میں محو ہو چکی تھیں۔ باجی کی عادت تھی کہ دن بھر میں کوئی بھی خاص بات ہوتی تھی تو وہ فوراً مظفر بھائی کو طویل سا خط لکھتی تھیں۔ ریشم پٹیوں سے بندھی ان کے نزدیک اپنی ٹوکری میں پڑی تھی۔
ساری دنیا پرسکون تھی، صرف میں ایک روپوش مجرم کی طرح اونچی اونچی گھاس میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں۔ آخر میں آہستہ آہستہ اپنے والد کے کمرے کی طرف گئی اور دریچے میں سے اندر جھانکا۔ والد آرام کرسی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں اندر گئی اور کرسی کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ ’’کیا بات ہے بی بی؟‘‘ میری سسکی کی آواز پر انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ’’ریشم کو۔۔۔ ریشم کو ہم نے باڑ میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’آپ نے پھینک دیا تھا؟ ‘‘
’’ہم۔۔۔ ہم کملا و ملا کے ہاں جانے کی جلدی میں تھے۔ وہ اتنا منع کرنے کے باوجود پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ ہم نے اسے جلدی سے باغ کے اندر پھینک دیا۔‘‘ اتنا کہہ کر میں نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ رونے کے بعد دل ہلکا ہوا اور جرم کا تھوڑا سا پرائشچت بھی ہوگیا، مگر ریشم کی تکلیف کسی طرح کم نہ ہوئی۔ شام کو سائمن سبق سکھانے کے بعد دیر تک اس کے پاس بیٹھے اس سے باتیں کرتے رہے۔
ریشم کی روزانہ مرہم پٹّی ہوتی تھی اور ہفتے میں ایک دفعہ اسے ’گھوڑا ہسپتال‘ بھیجا جاتا تھا۔ اس کی ران پر سے اس کے گھنے اور لمبے لمبے سرمئی بال مونڈ دیئے گئے تھے اور زخم کی گہری سرخ لکیریں دور تک کھنچی ہوئی تھیں۔ کافی دنوں کے بعد اس کے زخم بھرے اور اس نے لنگڑا کر چلنا شروع کردیا۔ ایک مہینے بعد وہ آہستہ آہستہ لنگڑاتی ہوئی سائمن کو پہنچانے پھاٹک تک گئی اور جب فقیرا بازار سے اس کے لیے چھچھڑے لے کر آتا تو وہ اسی طرح لنگڑاتی ہوئی کونے میں رکھے ہوئے اپنے برتن تک بھی جانے لگی۔
ایک روز صبح کے وقت مسٹر جارج بیکٹ باڑ پر نمودار ہوئے اور ذرا جھجکتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی طرف بلایا۔ ’’ریشم کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ’’انہوں نے دریافت کیا۔ ’’مجھے مسٹر سائمن نے بتایا تھا کہ وہ بہت زخمی ہوگئی تھی۔‘‘
مسٹر جارج بیکٹ نے پہلی بار اس محلّے میں کسی سے بات کی تھی۔ میں نے ریشم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور وہ اپنے چارخانہ کوٹ کی پھٹی ہوئی جیبوں میں انگوٹھے ٹھونس کر آگے چلے گئے۔
مسٹر جارج بیکٹ ایک بے حد فاقہ زدہ اینگلو انڈین تھے اور پلپلی صاحب کہلاتے تھے۔ وہ سڑک کے سرے پر ایک خستہ حال کائی آلود کاٹج میں رہتے تھے اور بالٹی اٹھا کر صبح کو میونسپلٹی کے نل پر خود پانی بھرنے جایا کرتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی تھی جس کا نام ڈائنا تھا۔ وہ پریڈ گراؤنڈ پر ایک انگریزی سنیما ہال میں ٹکٹ بیچتی تھی اور خوش رنگ فراک پہنے اکثر سامنے سے سائیکل پر گزرا کرتی تھی، اس کے پاس صرف چار فراک تھے جنہیں وہ دھو دھو کر اور بدل بدل کر پہنا کرتی تھی اور مسز گوسوامی، مسز فاروقی اور مسز جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’سنیما ہال کی نوکری کے اسے صرف پچیس روپلّی ملتے ہیں اور کیسے ٹھاٹ کے کپڑے پہنتی ہے۔ اسے گورے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن گورے اگر اسے پیسے دیتے تھے (یہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے گورے کیوں پیسے دیتے تھے) تواس کا بوڑھا باپ نل پر پانی بھرنے کیوں جاتا تھا۔
یہ پنشن یافتہ متمول انگریزوں کا محلہ تھا جو پر فضا خوبصورت کوٹھیوں میں خاموشی سے رہتے تھے۔ ان کے انتہائی نفاست سے سجے ہوئے کمروں اور برآمدوں میں لندن السٹریٹیڈ نیوز، ٹیٹلر، کنٹری لائف اور پنچ کے انبار میزوں پر رکھے تھے۔ اور ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے پلندے سمندری ڈاک سے ان کے نام آتے تھے۔ ان کی بیویاں روزانہ صبح کو اپنے اپنے ’مورننگ روم‘ میں بیٹھ کر بڑے اہتمام سے ’ہوم‘ خط لکھتی تھیں۔ اور ان کے ’گول کمروں‘ میں ان کے بیٹوں کی تصویریں رو پہلے فریموں میں سجی تھیں جو مشرقی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سلطنت برطانیہ کے آفتاب کو مزید چمکانے میں مصروف تھے۔ یہ لوگ مدّتوں سے اس ملک میں رہتے آرہے تھے مگر ’کوئی ہائے‘ اور ’عبدل چھوٹا حاضری مانگتا‘ سے زیادہ الفاظ نہ جانتے تھے۔ یہ عزت پسند انگریز دن بھر باغبانی یا برڈ واچنگ (bird watching) یا ٹکٹ جمع کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
یہ بڑے عجیب لوگ تھے۔ مسٹر ہارڈ کاسل تبتی زبان اور رسم و رواج کے ماہر تھے۔ مسٹر گرین آسام کے کھاسی قبائل پر اتھارٹی تھے۔ کرنل وایٹ ہیڈ جو شمالی مغربی سرحد کے معرکوں میں اپنی ایک ٹانگ کھو چکے تھے اور لکڑی کی ٹانگ لگاتے تھے، خوش حال خاں خٹک پر عبور رکھتے تھے۔ میجر شیلٹن اسٹیس مین میں شکار کے متعلق مضامین لکھا کرتے تھے۔ اور مسٹر مارچ مین کو شطرنج کا خبط تھا۔ مس ڈرنک واٹر پلانچٹ پر روحیں بلاتی تھیں اور مسزوار بُروک تصوریں بناتی تھیں۔
مسزوار بُروک ایک بریگیڈیر کی بیوہ تھیں اور ہمارے پچھواڑے رہتی تھیں۔ ان کی بوڑھی پھونس کنواری بہن بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان دونوں کی شکلیں لمبی چونچ والے پرندوں کی ایسی تھیں۔ اور یہ دونوں اپنے طویل و عریض ڈرائنگ روم کے کسی کونے میں بیٹھی آبی رنگوں سے ہلکی پھلکی تصویریں بنایا کرتی تھیں۔ وہ دونوں اتنی مختصر سی تھیں کہ پھولدار غلافوں سے ڈھکے ہوئے فرنیچر اور دوسرے ساز و سامان کے جنگل میں کھو جاتی تھیں اور پہلی نظر میں بڑی مشکل سے نظر آتی تھیں۔
ڈالن والا کی ایک کوٹھی میں ’انگلش اسٹورز‘ تھا۔ جس کا مالک ایک پارسی تھا۔ محلے کی ساری انگریز اور نیٹو بیویاں یہاں آکر خریداری کرتی تھیں اور اسکنڈل اور خبروں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتی تھیں۔
اس خوش حال اور مطمئن انگریزی محلے کے واحد مفلس اور اینگلو انڈین باسی بجھی بجھی نیلی آنکھوں والے مسٹر جارج بیکٹ تھے۔ مگر وہ بڑی آن بان والے اینگلو انڈین تھے اور خود کو پکّا انگریز سمجھتے تھے، انگلستان کو ’ہوم‘ کہتے تھے اور چند سال ادھر جب شہنشاہ جارج پنجم کے انتقال پر کولا گڑھ میں سلو مارچ پر بڑی بھاری پریڈ ہوئی تھی اور گوروں کے بینڈ نے موت کا نغمہ بجایا تھا تو مسٹر جارج بیکٹ بھی بازو پر سیاہ ماتمی پٹّی باندھ کر کولا گڑھ گئے تھے اور انگریزوں کے مجمعے میں بیٹھے تھے اور ان کی لڑکی ڈائنا روز نے اپنے سنہرے بالوں اور خوبصورت چہرے کو سیاہ ہیٹ اور سیاہ جالی سے چھپایا تھا۔ اور مسٹر بیکٹ بہت دنوں تک سیاہ ماتمی پٹّی بازو پر باندھے رہے تھے۔
لیکن بچّے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ ڈالن والا کے سارے ہندوستانی بچّے مسٹر جارج بیکٹ کو نہ صرف پلپلی صاحب کہتے تھے بلکہ کملا اور وملا کے بڑے بھائی سورن نے جو ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا اور ڈون پبلک اسکول میں پڑھتا تھا۔ مسٹر بیکٹ کی لڑکی ڈائنا کو چڑانے کی ایک اور ترکیب نکالی تھی۔
کملا اور وملا کے والد ایک بے حد دل چسپ اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہوں نے ایک بہت ہی انوکھا انگریزی ریکارڈ ۱۹۲۸ء میں انگلستان سے خریدا تھا۔ یہ ایک انتہائی بے تکا گیت تھا جس کا اینگلو انڈین اردو ترجمہ بھی ساتھ ساتھ اسی دھن میں گایا گیا تھا۔ نہ جانے کس منچلے انگریز نے اسے تصنیف کیا تھا۔ یہ ریکارڈ اب سورن کے قبضے میں تھا۔ اور جب ڈائنا سائیکل پر ان کے گھر کے سامنے سے گزرتی تو سورن گرامو فون دریچے میں رکھ کر اس کے بھونپو کا رخ سڑک کی طرف کردیتا اور سوئی ریکارڈ پر رکھ کر چھپ جاتا۔ مندرجہ ذیل بلند پایہ روح پرور گیت کی آواز بلند ہوتی۔۔۔
there was a rich merchant in london did stay.
who had for his daughter an uncommon liking?
her name it was diana
she was sixteen years old
and had a large fortune in silver and gold.
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا۔
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سو لے برس کا عمر
جس کے پاس بہت کپڑا چاندی اور سونا
as diana was walking in the garden one day.
her father came to her and thus did he say:
go dress yourself up in gorgeous array
for you will have a husband both gallant and gay.
ایک دن جب ڈائنا باغیچہ میں تھی
باپ آیا اور بولا بیٹی
جاؤ کپڑا پہنو اور ہو صفا
کیوں کہ میں ترے واسطے ایک خاوند لایا
o father
dear father i've made up my mind
to marry at present i don't feel inclined.
and all my large fortune every day adore
if you let live me single a year or two more.
ارے رے مورا باپ تب بولی بیٹی
شادی کا ارادہ میں ناہیں کرتی
اگر ایک دو برس تکلیف ناہیں دیو
آ آ ارے دولت میں بالکل چھوڑ دیوں
then gave the father a gallant reply:
if you don't be this young man's bride
i'll leave all your fortune to the fearest of things
and you should reap the benefit of single thing.
تب باپ بولا ارے بچّہ بیٹی
اس شخص کی جورو تو ناہیں ہوتی
مال اور اسباب تیرا کُرکی کردیوں
اور ایک کچّی دمڑی بھی تجھے نادیوں
as wilikins was walking in the garden one day
he found his dear diana lying dead on the way.
a cup so fearful that lay by her side.
and wilikins doth fainteth with a cry in his eye
ایک دن جب ولی کن ہوا کھانے کو گیا
ڈائنا کا مردہ ایک کونے میں پایا
ایک بادشاہ پیالہ اس کے کمر پر پڑا
اور ایک چٹّھی جس میں لکھا،
’’زہر پی کے مرا‘‘
جیسے ہی ریکارڈ بجنا شروع ہوتا، بیچاری ڈائنا سائیکل کی رفتار تیز کر دیتی اور اپنے سنہرے بال جھٹک کر زنّاٹے سے آگے نکل جاتی۔
اس موسم سرما کا دوسرا اہم واقعہ پریڈ گراؤنڈ میں ’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کار نیول‘ کی آمد تھا۔ اس کے اشتہا لنگوروں اور مسخروں کے لمبے جلوس کے ذریعے بانٹے گئے تھے۔ جن پر لکھا تھا، ’’بیسویں صدی کا حیرت ناک تماشا، شیر دل حسینہ مس زہر ڈربی، موت کے کنویں میں، آج شب کو۔۔۔‘‘
سب سے پہلے فقیرا سرکس دیکھ کر لوٹا۔ وہ اپنی بھاوج کو بھی کھیل دکھانے لے گیا تھا۔ اور صبح کو اس نے اطلاع دی تھی۔۔۔ ’’بیگم صاحب۔۔۔ بڑی بٹیا۔۔۔ بی بی۔۔۔ زنانی ڈیتھ آف ویل میں ایسے پھٹ پھٹی چلاتی ہے کہ بس کیا بتاؤں۔۔۔ عورت ہے کہ شیر کی بچّی۔۔۔ ہرے رام۔۔۔ ہرے رام۔۔۔‘‘
دوسرے دن اسکول میں کملا وملا نے مجھے بتایا کہ مس زہرہ ڈربی ایک نہایت سنسنی خیز خاتون ہے۔ اور وہ دونوں بھی اس کے دلیرانہ کمالات بہ چشم خود دیکھ کر آئی ہیں۔
چونکہ میں سرکسوں پر پہلے ہی سے عاشق تھی لہٰذا جلد از جلد باجی کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ پہنچی۔ وہاں تمبو کے باہر ایک اونچے چوبی پلیٹ فارم پر ایک موٹر سائیکل گھڑ گھڑا رہی تھی اور اس کے پاس مس زہرہ ڈربی کرسی پر فروکش تھی۔ اس نے نیلے رنگ کی چمکدار ساٹن کا اس قطع کا لباس پہن رکھا تھا، جو مس نادیا نے ہنٹر والی فلم میں پہنا تھا۔ اس نے چہرے پر بہت سا گلابی پاؤڈر لگا رکھا تھا جو بجلی کی روشنی میں نیلا معلوم ہو رہا تھا۔ اور ہونٹ خوب گہرے سرخ رنگے ہوئے تھے۔ اس کے برابر میں ایک بے حد خوفناک، بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اسی طرح کی رنگ برنگی ’برجیس‘ پہنے، لمبے لمبے پٹّے سجائے اور گلے میں بڑا سا سرخ آدمی رومال باندھے بیٹھا تھا۔ مس زہرہ ڈربی کے چہرے پر بڑی اکتاہٹ تھی اور وہ بڑی بے لطفی سے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔
اس کے بعد وہ دونوں موت کے کنویں میں داخل ہوئے جس کی تہہ میں ایک اور موٹر سائیکل رکھی تھی۔ خوف ناک آدمی موٹر سائیکل پر چڑھا اور مس زہرہ ڈربی سامنے اس کی بانہوں میں بیٹھ گئی۔ اور خوف ناک آدمی نے کنویں کے چکّر لگائے۔ پھر وہ اتر گیا اور مس زہرہ ڈربی نے تالیوں کے شور میں موٹر سائیکل پر تنہا کنویں کے چکّر لگائے اور اوپر آکر دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے۔ اور موٹر سائیکل کی تیز رفتار کی وجہ سے موت کا کنواں زور زور سے ہلنے لگا اور میں مس زہرہ ڈربی کی اس حیرت انگیز بہادری کو مسحور ہو کر دیکھتی رہی۔ کھیل کے بعد وہ دوبارہ اسی طرح چبوترے پر جا بیٹھی اور بے تعلقی سے سگریٹ پینا شروع کردیا۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔
یہ واقعہ تھا کہ مس زہرہ ڈربی جاپانی چھتری سنبھال کر تار پر چلنے والی میموں اور شیر کے پنجرے میں جانے والی اور اونچے اونچے تاروں اور جھولوں پر کمالات دکھانے والی لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر تھی۔ پچھلے برس وہاں ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ آیا تھا، جس میں مس حمیدہ بانو پہلوان نے اعلان کیا تھا کہ جو مرد پہلوان انہیں ہرا دے گا وہ اس سے شادی کرلیں گی۔ لیکن بقول فقیرا کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچّی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکریں پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمرے کو گھور رہی تھیں۔۔۔
یہ کون پر اسرار ہستیاں ہوتی ہیں جو تار پر چلتی ہیں اور موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتی ہیں اور اکھاڑے میں کشتی لڑتی ہیں۔ میں نے سب سے پوچھا لیکن کسی کو بھی ان کے متعلق کچھ نہ معلوم تھا۔
’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس‘ ابھی تماشے ہی دکھا رہا تھا کہ ایک روز فقیرا پلٹن بازار سے سودا لے کر لوٹا تو اس نے ایک بڑی تہلکہ خیز خبر سنائی کہ مس زہرہ ڈربی کے عشاق، ماسٹر گل قند اور ماسٹر مچھندر کے درمیان چکّو چل گیا۔ ماسٹر مچھندر نے مس زہرہ ڈربی کو بھی چکّو سے گھائل کردیا اور وہ ہسپتال میں پڑی ہیں اور اس سے بھی تہلکہ خیز خبر، جو فقیرا نے چند دن بعد میونسپلٹی کے نل پر سنی، یہ تھی کہ پلپلی صاحب کی مسیا نے سرکس میں نوکری کرلی۔
’’ڈائنا بیکٹ نے۔۔۔؟ ‘‘ باجی نے دہرایا۔ ’’جی ہاں بڑی بٹیا۔۔۔ پلپلی صاحب کی مسیا، سنا ہے کہتی ہے کہ اس سے اپنے باپ کی غریبی اور تکلیف اب نہیں دیکھی جاتی اور دنیا والے تو یوں بھی تنگ کرتے ہیں۔ اوڈین سنیما میں اسے پچیس روپے ملتے تھے۔ سرکس میں پچھتّر روپے ملیں گے۔۔۔ یہ تو سچ ہے۔ وہ غریب تو بہت تھی بڑی بٹیا۔۔۔‘‘
’’اور گورے جو اس کو پیسے دیتے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ غفور بیگم نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’جاؤ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔‘‘ لہٰذا میں بھاگ گئی اور باہر جاکر ریشم کی ٹوکری کے پاس بیٹھ کے ڈائنا بیکٹ کی بہادری کے متعلق غور کرنے لگی۔
اب کی بار جب لنگوروں اور مسخروں نے سرکس کے اشتہار بانٹے تو ان پر چھپا تھا، ’’سرکس کے عاشقوں کو مژدہ پری جمال یورپین دوشیزہ کے حیرت انگیز کمالات قتالہ عالم، حسینہ لندن مس ڈائنا روز موت کے کنویں میں آج شب کو۔ ‘‘
ان ہی دنوں سنیما کا چرچا ہوا۔ یوں تو سنیما کے اشتہار عرصے سے لکڑی کے ٹھیلوں پر چپکے سامنے سے گزرا کرتے تھے۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’چیلنج‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں۔ پریڈ کے سامنے،پلیڈیم سنیما میں، آج شب کو۔‘‘
اور۔۔۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’دہلی ایکسپریس‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں پریڈ کے سامنے، راکسی سنیما میں آج شب کو۔‘‘
اور مجھے بڑی پریشانی ہوتی تھی کہ مس سردار اختر دونوں جگہوں پر بیک وقت کس طرح ’کام‘ کریں گی۔ لیکن قسمت نے ایک دم یوں پلٹا کھایا کہ باجی اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین فلم دیکھنے کو ملیں۔۔۔
’اچھوت کنیا‘ جس کے لیے مسز جوگ مایا چٹرجی نے بتایا کہ ہمارے دیش میں بہت زبردست سماجی انقلاب آگیا ہے اور گرو دیو ٹیگور کی بھانجی دیویکا رانی اب فلموں میں کام کرتی ہیں اور ’جیون لتا‘ جس میں سیتا دیوی نازک نازک چھوٹی سی آواز میں گاتیں۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔۔۔‘‘ اور ’جیون پر بھات‘ جسے باجی بڑے ذوق وشوق سے اس لیے دیکھنے گئیں کہ اس میں خورشید آپا ’کام‘ کررہی تھیں، جو اب رینوکا دیوی کہلاتی تھی، جو اس زبردست سماجی انقلاب کا ثبوت تھا۔
مسز جوگ مایا چٹرجی کی بشارت کے مطابق ہندوستان جن کے دروازے پر کھڑا تھا اور تبھی مسز جوگ مایا چٹرجی کی لڑکیوں نے ہارمونیم پر فلمی گانے ’نکالنے‘ شروع کردئیے۔ ’’بانکے بہاری بھول نہ جانا۔۔۔ پیتم پیاری پریت نبھانا۔۔۔‘‘ اور۔۔۔ ’’چور چراوے مال خزانہ، پیانینوں کی نندیا چرواے۔‘‘ اور۔۔۔ ’’تم اور میں اور منا پیارا۔۔۔ گھروا ہوگا سورگ ہمارا۔۔۔‘‘
غفور بیگم کام کرتے کرتے ان آوازوں پر کان دھرنے کے بعد کمر ہاتھ پر رکھ کر کہتیں، ’’بڑے بوڑھے سچ کہہ گئے تھے۔ قرب قیامت کے آثار یہی ہیں کہ گائے مینگناں کھائے گی اور کنواریاں اپنے منہ سے بر مانگیں گی۔‘‘ اتنے میں منورما چٹرجی کی سریلی آواز بلند ہوتی۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔‘‘
’’بے حیائی تیرا آسرا۔۔۔‘‘ غفور بیگم کانپ کر فریاد کرتیں اور سلیپر پاؤں میں ڈال کر سٹر پٹر کرتی اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔
ان ہی دنوں فقیرا بھی اپنی بھاوج کو یہ ساری فلمیں سیکنڈ شو میں دکھا لایا۔ مگر جس رات جل دھرا ’چنڈی داس‘ فلم دیکھ کر لوٹی، تو اسے بڑا سخت بخار چڑھ گیا، اور ڈاکٹر ہون نے صبح کو آکر اسے دیکھا اور کہا کہ اس کا مرض تشویش ناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب وہ روز تانگے میں لیٹ کر ہسپتال جاتی اور واپس آکر دھوپ میں گھاس پر کمبل بچھا کر لیٹی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کی حالت ذرا بہتر ہوگئی۔ اور سکھ نندن خانساماں کی بیوی دھن کلیا اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ کر اس کا دل بہلانے کے لیے پوربی گیت گایا کرتی اور اسے چھیڑ چھیڑ کر الاپتی۔۔۔ ’’ناجو ادا سے سرم و حیا سے بالے سیاں سے سرمائے گئی میں تو۔۔۔‘‘
اور غفور بیگم جب جل دھرا کی خیریت پوچھنے جاتیں تو وہ مسکرا کرکہتی، ’’انّا جی۔۔۔ میرا تو سمے آگیا۔ اب تھوڑے دنوں میں پر ان نکل جائیں گے۔۔۔‘‘ اب غفور بیگم اس کا دل رکھنے کے لیے کہتیں، ’’اری تو ابھی بہت جئے گی۔۔۔ اور اے جل دھریا۔۔۔ ذرا یہ تو بتا کہ تونے فقیرا نگوڑے پر کیا جادو کر رکھا ہے۔۔۔ ذرا مجھے بھی وہ منتر بتادے، مجھ بدبختی کو تو اپنے گھر والے کو رام کرنے کا ایک بھی نسخہ نہ ملا۔۔۔ تو ہی کوئی ٹوٹکا بتادے۔ سنا ہے پہاڑوں پر جادو ٹونے بہت ہوتے ہیں۔۔۔ فقیرا بھی کیسا تیرا کلمہ پڑھتا ہے۔۔۔ اری تو تو اس کی ماں کے برابر ہے۔۔۔!‘‘ اور وہ بڑی ادا سے ہنس کو جواب دیتی۔۔۔ ’’انا جی۔ کیا تم نے سنا نہیں پرانے چاول کیسے ہوتے ہیں؟‘‘
’’پرانے چاول۔۔۔؟‘‘ میں دہراتی اور غفور بیگم ذرا گھبرا کر مجھے دیکھتیں اور جلدی سے کہتیں۔۔۔ ’’بی بی آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟ جائیے بڑی بٹیا آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ لہٰذا میں سر جھکائے بجری کی رنگ برنگی کنکریاں جوتوں کی نوک سے ٹھکراتی ٹھکراتی باجی کی طرف چلی جاتی۔ مگر وہ فلسفے کی موٹی سی کتاب کے مطالعے میں یا مظفر بھائی کا خط پڑھنے یا اس کا جواب لکھنے میں مستغرق ہوتیں اور مجھے کہیں اور جانے کا حکم دے دیتیں تو میں گھوم پھر کر دوبارہ ریشم کی ٹوکری کے پاس جا بیٹھتی اور اس کے جلد تندرست ہونے کی دعائیں مانگنے لگتی۔
اسکول میں کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں، میں صبح صبح کملا وملا کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں مسٹر بیکٹ نظر آئے۔ وہ بے حد حواس باختہ اور دیوانہ وار ایک طرف کو بھاگے چلے جا رہے تھے۔ اتنے میں میجر چیلٹن نے اپنی ۱۹۲۶ء ماڈل کی کھڑ کھڑیا فوڈ روک کر انہیں اس میں بٹھا لیا اور فورڈ یورپین ہسپتال کی سمت روانہ ہوگئی۔
میں کملا کے گھر پہنچی تو سورن خلاف معمول بہت خاموش تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابھی پریڈ گراؤنڈ سے سارا واقعہ سن کر آیا ہے۔
’’ڈائنا بیکٹ ابھی ماسٹر مچھندر کے ساتھ ہی موٹر سائیکل پر بیٹھتی تھی اور دیکھنے والوں کا بیان تھا کہ دہشت کے مارے اس کا رنگ سفید پڑ جاتا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے رہتی تھی۔ مگر سرکس منیجر نے اصرار کیا کہ وہ تنہا موٹر سائیکل چلانے کی ٹریننگ بھی شروع کردے تا کہ اس کے دل کا خوف نکل جائے۔ دل کا خوف نکالنے کے لیے اس نے موٹر سائیکل پر تنہا بیٹھ کر کنویں کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی مگر موٹر سائیکل بے قابو ہوگئی اور ڈائنا کی دونوں ٹانگیں موٹر سائیکل کے تیزی سے گھومتے ہوئے پہیوں میں آکر چور چور ہوگئیں۔ اسے فوراً یورپین ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ کرنل وائی کو مب سول سرجن نے کہا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگئی ہیں۔ اور اسے ساری عمر پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر گزارنی ہوگی۔‘‘
اس دن ہم لوگوں کا کسی چیز میں دل نہ لگا۔ اور ہم سب ایک درخت کی شاخ پر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد دفعتاً سورن شاخ پر سے نیچے کودا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔ اور میں نے دیکھا کہ سب کے چہرے پر ایک عجیب سی ندامت طاری تھی۔ ایک انجانا سا احساس جرم اور ندامت۔
دوسرے روز دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کارنیول کے نوکیلی مونچھوں اور بے شمار تمغوں والے منیجر اور رنگ ماسٹر پروفیسر شہباز نے اعلان کیا کہ سرکس کوچ کر رہا ہے اور آئندہ سال معزز شائقین کو اس سے زیادہ حیرت ناک تماشے دکھائے جائیں گے لیکن فقیرا کی اطلاع کے مطابق وہ ڈرا ہوا تھا۔ اس کے سرکس میں پے در پے دو شدید حادثے ہوئے تھے اور پولس اس کے پیچھے لگ گئی تھی۔
سرکس نے کوچ کردیا اور مس زہرہ ڈربی بھی۔ ہسپتال سے جانے کہاں غائب ہوگئی۔
کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک بہت لمبی اور دبلی پتلی بی بی ہمارے یہاں مہمان آئیں۔ ان کا نام ڈاکٹر زبیدہ صدیقی تھا۔ وہ دہلی سے کلکتہ جارہی تھیں اور ایک ہفتے کے لیے ہمارے یہاں ٹھہری تھیں۔ انہوں نے ولایت سے سائنس کے کسی مضمون میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا تھا۔ وہ کسی دور افتادہ دیسی ریاست کے گرلز کالج کی پرنسپل تھیں اور سیاہ کنارے کی سفید ساری اور لمبی آستینوں کا سفید بلاؤز پہنتی تھیں، وہ اپنی طویل القامتی کی وجہ سے ذرا جھک کر چلتی تھیں اور سر نیہوڑا کر بڑی گہری نظر سے ہر ایک کو دیکھتی تھیں۔ اس وقت وہ گنتی کی ان مسلمان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے سمندر پار جا کر اعلا تعلیم حاصل کی تھی۔
پہلے روز جب وہ کھانا کھانے بیٹھیں تو انہوں نے ذرا جھجک کر کہا، ’’آپ کے ہاں سارے ملازم ہندو ہیں۔میں دراصل ہندو کے ہاتھ کا پکا نہیں کھاتی۔۔۔‘‘
’’مسلمان ہوکر آپ چھوت چھات کرتی ہیں زبیدہ آپا؟ کمال ہے، اور آپ تو ولایت تک ہو آئی ہیں زبیدہ آپا۔۔۔‘‘ باجی نے اپنی خوبصورت آنکھیں پھیلا کر کہا۔
’’در اصل۔۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ میں ایک وظیفہ پڑھ رہی ہوں آج کل۔۔۔‘‘ انہوں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔ لہٰذا ان کا کھانا غفور بیگم نے با وضو ہوکر اپنے ہاتھ سے تیار کرنا شروع کیا۔ پڑوس کی مسلمان بیبیوں پر ڈاکٹر صدیقی کی مذہبیت کا بے انتہا رعب پڑا۔ ’’لڑکی ہو تو ایسی، سات سمندر پار ہو آئی مگر ساری کا آنچل مجال ہے جو سر سے سرک جائے۔۔۔‘‘ مسز فاروقی نے کہا۔
’’شرعی پردہ تو در اصل یہی ہے کہ عورت بس اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھے۔ اور اپنی زینت مردوں سے چھپائے۔ قرآن پاک میں یہی آیا ہے۔‘‘ مسز قریشی نے جواب دیا۔
’’روزے نماز کی پابند‘ شرم و حیا کی پتلی۔ اور مومنہ ایسی کہ ہندو کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتی۔۔۔‘‘ مسز انصاری نے تعریف کی۔
ڈاکٹر صدیقی سارے وقت گھاس پر کرسی بچھائے باجی کو جانے کون سی داستان امیر حمزہ سنانے میں مشغول رہتی تھیں، اور فقیرا کی بھاوج کو دیکھ کر انہوں نے کہا تھا، ’’کیسی خوش نصیب عورت ہے۔‘‘
جب ڈاکٹر صدیقی صبح سے شام تک ایک ہی جیسی سنجیدہ اور غمناک شکل بنائے بیٹھی رہتیں تو ان کو محفوظ کرنے کے لیے باجی مجھے بلاتیں (گویا میں کوئی تماشا دکھانے والی بھالو تھی) اور حکم دیتیں۔ فلاں گیت گاؤ، فلاں قصہ سناؤ، زبیدہ آپا کو۔ ذرا بھاگ کے اپنی دوستوں کو بلا لاؤ اور سب مل کر ناچو۔۔۔
ایک دن ڈاکٹر صدیقی پچھلے لان پر بیٹھی باجی سے کہہ رہی تھیں، ’’مرے کے لیے تو صبر آ جاتا ہے، ریحانہ۔۔۔ زندہ کے لیے صبر کیسے کروں۔۔۔‘‘ اور اس دن جب انہوں نے کسی طرح مسکرانے کا نام ہی نہ لیا، تو باجی نے مجھے بلا کر حکم دیا، ’’ارے رے۔ ذرا وہ اپنے مسخرے پن کا اینگلو انڈین گیت تو سناؤ زبیدہ آپا کو۔۔۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘ میں نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اور سیدھی کھڑی ہوکر ہاتھ گھٹنوں تک چھوڑ کر (جس طرح اسکول میں انگریزی گانے گاتے یا نظمیں پڑھتے وقت کھڑا ہونا سکھلایا گیا تھا) میں نے گیت شروع کیا،
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سولے برش کا عومر
جس کے پاس بہت کپڑا۔۔۔ اور۔۔۔ چاندی۔۔۔ اور۔۔۔
دفعتاً میرے حلق میں کوئی چیز سی اٹکی، میری آواز رندھ گئی اور میں گیت ادھورا چھوڑ کر وہاں سے تیزی سے بھاگ گئی۔ ڈاکٹر صدیقی حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئیں۔
شام کو میں نے وملا سے کہا، ’’یہ زبیدہ آپا ہر وقت جنے اتنی پریشان کیوں نظر آتی ہیں۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔ وہ مجھ سے ذرا بڑی تھی۔ اور ایک ماہر فن ڈیٹکیٹو تھی۔۔۔ ’’کل صبح آنٹی فاروقی آنٹی گوسوامی کو انگلش اسٹورز میں بتا رہی تھیں کہ ایک سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا نام بھی ڈاکٹر کچھ ہے۔ مجھے یاد نہیں آرہا۔ آنٹی فاروقی نے آنٹی گو سوامی کو بتایاتو تھا۔۔۔ تو وہ کلکتہ یونیورسٹی میں زبیدہ آپا کے کلاس فیلو تھے۔ اور جب زبیدہ آپا ولایت گئی تھیں تو وہاں مانچسٹر یونیورسٹی میں بھی کئی سال ان کے ساتھ پڑھا تھا۔۔۔ تو یہ زبیدہ آپا جوہیں، تو یہ پچھلے پندرہ برس سے ڈاکٹر کے نام کی مالا جپ رہی ہیں۔‘‘
’’یہ کسی کے نام کی مالا کیسے جپتے ہیں؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’یہ پتا نہیں۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔
جب میں گھر کے اندر آئی تو زبیدہ آپا کو غفور بیگم سے تبادلہ خیالات کرتے پایا۔ اور تبھی پتا چلا کہ جس ریاست میں زبیدہ آپا کام کرتی ہیں وہ اجمیر شریف کے بہت قریب ہے۔ اور اسی وجہ سے زبیدہ آپا بہت مذہبی ہوگئی ہیں، اور جب سے ان کو یہ اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر محمود خاں خود ان کی یعنی زبیدہ آپا کی سگی بھتیجی سائرہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں جو ایک بے حد خوبصورت سترہ سالہ لڑکی ہے اور کلکتہ کے لورٹیو ہاؤس میں پڑھ رہی ہے، تب سے زبیدہ آپا نماز پنجگانہ کے علاوہ چاشت اشراق اور تہجد بھی پڑھنے لگی ہیں اور یہاں وہ غفور بیگم سے پنجسورہ شریف۔ دعائے گنج العرش اور درود تاج کے کتابچے مستعار لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ کتابچے سفر پر چلتے وقت وہ گھر پر بھول آئی تھیں۔ غفور بیگم نے ان سے کہا کہ بٹیا روز رات کو سوتے وقت تسبیح فاطمہ پڑھا کیجئے۔۔۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی تسبیح پھیر رہی تھیں تو میں نے، جو جاسوسی پر لگی ہوئی تھی ان کو دیکھ لیا اور صبح کو وملا کو اطلاع دی۔۔۔
’’ہمیں معلوم ہوگیا۔۔۔ کل رات زبیدہ آپا ڈاکٹر کچھ کے نام کی مالا جپ رہی تھیں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ایک رات دو بجے کے قریب مہمان کمرے سے ایک دل خراش چیخ کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اپنے اپنے لحافوں سے نکلے اور بھاگتے ہوئے مہمان کمرے کی طرف گئے۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ باجی نے کواڑوں پر زور زور سے دستک دی۔ اندر سے کچھ منٹ بعد زبیدہ آپا بڑی کمزور آواز میں بولیں، ’’ٹھیک ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم لوگ خدا کے لیے فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ، سو جائو۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ سوتے میں ڈر گئی تھی۔‘‘
’’زبیدہ آپا۔۔۔ دروازہ کھولیے۔۔۔‘‘ باجی نے چلا کر کہا۔ ’’چلے جاؤ تم لوگ۔۔۔ ورنہ میں پھر چیخوں گی۔۔۔‘‘ زبیدہ آپا اندر سے ہسٹریائی آواز میں دہاڑیں۔
صبح کو ان کا چہرہ بالکل ستا ہوا اور سفید تھا۔ ناشتے کے بعد جب کھانے کا کمرہ خالی ہوگیا تو انہوں نے باجی کو آہستہ سے مخاطب کیا، ’’میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا۔ میں ایک چلہ کر رہی تھی انتالیس راتیں پوری ہوچکی تھیں۔ کل چالیسویں اور آخری رات تھی۔ حکم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں اس جلالی وظیفے کے دوران میں مڑ کر نہ دیکھوں ورنہ اس کا سارا اثر ختم ہوجائے گا۔ اور کل رات۔۔۔ دو بجے کے قریب وظیفہ پڑھنے میں میں نے اچانک دیکھا کہ جائےنماز کے سامنے ایک گدھے کی جسامت کا ہیبت ناک سیاہ کتا میرے مقابل میں بیٹھا دانت نکوس رہا ہے۔۔۔ میں نے دہل کر چیخ ماری اور چلہ ٹوٹ گیا۔ کتا غائب ہوگیا۔ مگر میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور انہوں نے عینک اتار کر پلکیں خشک کیں۔ باجی ہکا بکا ہوکر انہیں دیکھنے لگیں۔۔۔ ’’مگر زبیدہ آپا۔۔۔ آپ تو۔۔۔ آپ تو سائنسداں ہیں۔ مانچسٹر یونیورسٹی سے پڑھ کر آئی ہیں۔ اور ایسی توہم پرستی کی باتیں کرتی ہیں۔ ہوش کی دوا کیجئے۔ آپ کو ہیلوسی نیشن (hallucination) ہوا ہوگا۔۔۔ گدھے کے برابر کتا۔۔۔ اور وہ آپ سے آپ غائب بھی ہوگیا۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر باجی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
’’ریحانہ خاتون۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صدیقی نے سر نیہوڑا کر باجی کو گہری نظر سے دیکھا اور آہستہ آہستہ کہا۔ ’’تم ابھی صرف بائیس برس کی ہو تمہارے ماں باپ اور محبت کرنے والے چچاؤں کا سایہ تمہارے سر پر قائم ہے۔ تم ایک بھرے پرے کنبے میں، اپنے چہیتے بہن بھائیوں کے ساتھ، سکھ کی چھاؤں میں زندہ ہو۔ اپنی پسند کے نوجوان سے تمہارا بیاہ ہونے والا ہے۔۔۔ ساری زندگی تمہاری منتظر ہے، دنیا کی ساری مسرتیں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔ خدا نہ کرے تم پر کبھی ایسی قیامت گزرے جو مجھ پر گزر رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ تمہیں کبھی تنِ تنہا اپنی تنہائی کا مقابلہ کرنا پڑے۔۔۔ کسی کی بے بسی اور اس کے دکھی دل کا مذاق نہ اڑائو۔۔۔‘‘ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑگئی جو میز کے سرے پر بیٹھی مستعدی سے جاسوسی میں مصروف تھی۔ کیونکہ گدھے کے برابر سیاہ کتا ایک انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئیں۔ باجی نے پلکیں جھپکا کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اڑنچھوں ہو جاؤں۔ چنانچہ میں اڑنچھو ہوگئی۔
اس واقعے کے دوسرے دن ڈاکٹر صدیقی کلکتہ روانہ ہوگئیں۔ اور ان کے جانے کے چند روز بعد ہی ایک انوکھی اور بن بلائی مہمان اتریں۔
ڈالن والا کی سڑکیں عموماً خاموش پڑی رہتی تھیں۔ اکا دکا راہگیر یا موٹروں اور تانگوں کے علاوہ کبھی کبھار کوئی سکھ جوتشی ہاتھ میں سرٹیفکیٹوں کا میلا سا پلندہ سنبھالے ادھر ادھر تاکتا سامنے سے گزر جاتا تھا۔ یا موٹے موٹے ’چائینا مین‘ زین میں بڑی نفاست سے بندھے ہوئے بے حد وزنی گٹھر سائیکلوں پر لادے چکر کاٹا کرتے تھے، یا کشمیری قالین فروش یا بزاز یا قیمتی پتھر فروخت کرنے والا پھیری لگا جاتے تھے۔
مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ان ہی پھیری والوں میں سے ایک تھے۔ مگر وہ اپنے آپ کو ٹریولنگ سیلزمین کہتے تھے۔ اور انتہا سے زیادہ چرب زبان اور لسان آدمی تھے۔ موصوف مسلمان سے عیسائی ہوگئے تھے۔ ترکی ٹوپی اوڑھتے تھے اور سائیکل پر پلاسٹک کے برتن بیچتے گھوما کرتے تھے، اور مہینے دو مہینے میں ایک بار ہماری طرف کا پھیرا لگا جاتے تھے۔ وہ اپنی ہر بات کا آغاز ’خدا باپ کا شکر ہے‘ سے کرتے تھے اور کبھی کبھی تبلیغ بھی شروع کردیتے تھے۔
اس دن مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں جو سائیکل برساتی میں ٹکا کر برآمدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے ناک کی سیدھ جا کر مہمان کمرے کے اندر جھانکا جس کا دروازہ کھلا پڑا تھا اور اطمینان سے اظہارِ خیال کیا، ’’ہوں۔ تو یہ کمرہ تو ہمیشہ خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ بات یہ ہے کہ میری ایک بہن ہیں۔ وہ لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ اور چند روز کے لیے دہرہ دون آرہی ہیں۔‘‘ اس کے بعد جواب کا انتظار کیے بغیر وہ سائیکل پر بیٹھ کر غائب ہوگئے۔
تیسرے روز جاپانی جارجٹ کی ملا گیری ساڑی میں ملبوس ایک بے حد فربہ خاتون تانگے سے اتریں۔ مسٹر سردار خاں سائیکل پر ہم رکاب تھے۔ انہوں نے اسباب اتار کر مہمان کمرے میں پہنچایا اور والدہ اور باجی سے ان کا تعارف کرایا۔۔۔ ’’یہ میری بہن ہیں۔ آپ کے یہاں دو تین دن رہیں گی۔ اچھا، اب میں جاتا ہوں۔‘‘ پھر خاتون کو مخاطب کیا۔۔۔ ’’بھئی تم کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو بلا تکلّف بیگم صاحبہ سے کہہ دینا۔۔۔ اپنا ہی گھر سمجھو، اچھا۔۔۔ بائی بائی۔۔۔ ‘‘ اور سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
یہ ایک مسلمان بی بی تھیں، جنہوں نے یہ نہ بتایا کہ کہاں سے آرہی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ محض اس امر سے انہوں نے آگاہ کیا کہ پرائیوٹ طور پر ہومیوپیتھک ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں۔ اور شام کے وقت اپنے اٹیچی کیس میں سے ایک
بارش کے بعد جب باغ بھیگا بھیگا سا ہوتا اور ایک انوکھی سی تازگی اور خوشبو فضا میں تیرتی تو بوڑھے کو واپس جاتے وقت گھاس پر گری کوئی خوبانی مل جاتی۔ وہ اسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا۔ ریشم اس کے پیچھے پیچھے چلتی۔ اکثر ریشم شکار کی تلاش میں جھاڑیوں کے اندر غائب ہو جاتی یا کسی درخت پر چڑھ جاتی تو بوڑھا سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کو دیکھتا اور پھر سر جھکا کر پھاٹک سے باہر چلا جاتا۔ تیسرے روز سہ پہر کو پھر اسی طرح بجری پر چھڑی کھٹکھٹانے کی آواز آتی۔ یہ معمول بہت دنوں سے جاری تھا۔
جب سے پڑوس میں مسز جوگ مایا چٹرجی کلکتے سے آن کر رہی تھیں، اس محلے کے باسیوں کو بڑا سخت احساس ہوا تھا کہ ان کی زندگیوں میں کلچر کی بہت کمی ہے۔ موسیقی کی حد تک ان سب کے ’گول کمروں‘ میں ایک ایک گرامو فون رکھا تھا۔ (ابھی ریڈیو عام نہیں ہوئے تھے۔ فریجڈیر status symbol نہیں بنا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور سماجی رتبے کی علامات ابھی صرف کوٹھی، کار اور بیرے پر مشتمل تھیں) لیکن جب مسز جوگ مایا چٹرجی کے وہاں صبح شام ہارمونیم کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو سروے آف انڈیا کے اعلا افسر کی بیوی مسز گوسوامی نے محکمۂ جنگلات کے اعلا افسر کی بیوی مسز فاروقی سے کہا۔۔۔ ’’بہن جی۔ ہم لوگ تو بہت ہی بیک ورڈ رہ گئے۔ ان بنگالیوں کو دیکھیے، ہر چیز میں آگے آگے۔۔۔‘‘
’’اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ان لوگوں میں جب تک لڑکی گانا بجانا نہ سیکھ لے اس کا بیاہ نہیں ہوتا،‘‘ ملٹری اکیڈیمی کے اعلا افسر کی بیوی مسز جسونت سنگھ نے اظہارِ خیال کیا۔
’’ہم مسلمانوں میں تو گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر آج کل زمانہ دوسرا ہے۔ میں نے تو ’ان‘ سے کہہ دیا ہے۔ میں اپنی حمیدہ کو ہارمونیم ضرور سکھاؤں گی۔‘‘ مسز فاروقی نے جواب دیا۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ڈالن والا میں آرٹ اور کلچر کی ہوا چل پڑی۔ ڈاکٹر سنہا کی لڑکی نے ناچ سیکھنا بھی شروع کردیا، ہفتے میں تین بار ایک منحنی سے ڈانس ماسٹر اس کے گھرآتے، انگلیوں میں سلگتی ہوئی بیڑی تھامے، منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے جو ’جی جی کتّ تا توم ترنگ تکا تُن تُن، وغیرہ الفاظ پر مشتمل ہوتیں۔ وہ طبلہ بجاتے رہتے اور اوشا سنہا کے پاؤں، توڑوں کی چک پھیریاں لیتے لیتے گھنگھروؤں کی چوٹ سے زخمی ہوجاتے۔
پڑوس کے ایک نوجوان رئیس سردار امرجیت سنگھ نے وائلن پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ سردار امرجیت سنگھ کے والد نے ڈچ ایسٹ انڈیز کے دار السلطنت بٹا ویا میں جواب جمہوریہ انڈونیشیا کا دار السلطنت جکارتا کہلاتا ہے، بزنس کر کے بہت دولت جمع کی تھی۔ سردار امرجیت سنگھ ایک شوقین مزاج رئیس تھے۔ جب وہ گراموفون پر بڑے انہماک سے ببّو کا ریکارڈ،
خزاں نے آکے چمن کو اجاڑ دینا ہے
مری کھلی ہوئی کلیوں کو لوٹ لینا ہے
بار بار نہ بجاتے تو دریچے میں کھڑے ہو کر وائلن کے تاروں پر اسی انہماک سے گز رگڑا کرتے۔ ورنہ پھیری والے بزازوں سے رنگ برنگی چھینٹوں کی جارجت اپنے صافوں کے لیے خریدتے رہتے، اور یہ بڑھیا بڑھیا صافے باندھ کر اور داڑھی پر سیاہ پٹی نفاست سے چڑھا کر مسز فلک ناز مروارید خاں سے ملاقات کے لیے چلے جاتے اور اپنی زوجہ سردارنی بی بی چرن جیت کور سے کہہ جاتے کہ وائلن سیکھنے جارہے ہیں۔
اسی زمانے میں باجی کو سرود کا شوق پیدا ہوا۔
وہ موسم سرما گوناگوں واقعات سے پر گزرا تھا۔ سب سے پہلے تو ریشم کی ٹانگ زخمی ہوئی۔ پھر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی مس زہرہ ڈربی نے آکر پریڈ گراؤنڈ پر اپنے جھنڈے گاڑے ڈائنا بیکٹ قتّالۂ عالم حسینہ لندن کہلائی۔ ڈاکٹر مس زبیدہ صدیقی کو رات کو دو بجے گدھے کی جسامت کا کتّا نظر آیا۔ مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ہماری زندگیوں سے غائب ہوگئے۔ نیگس نے خودکشی کر لی اور فقیرا کی بھاوج گوریّا چڑیا بن گئی۔ چونکہ یہ سب نہایت اہم واقعات تھے لہٰذا میں سلسلے وار ان کا تذکرہ کرتی ہوں۔
میری بہت خوب صورت اورپیاری ریحانہ باجی نے جو میری چچا زاد بہن تھیں، اسی سال بی۔ اے پاس کیا تھا اور وہ علیگڑھ سے چند ماہ کے لیے ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک سہانی صبح باجی سامنے کے برآمدے میں کھڑی ڈاکٹر ہون کی بیوی سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک برساتی کی بجری پر ہلکی سی کھٹ کھٹ ہوئی اور ایک نحیف اور منحنی سے بوڑھے نے بڑی دھیمی اورملائم آواز میں کہا، ’’میں نے سنا ہے یہاں کوئی لیڈی سرود سیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘
باجی کے سوالات پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان کی ماہانہ فیس پانچ روپے ہے اور وہ ہفتے میں تین بار ایک گھنٹہ سبق دیں گے۔ وہ کرزن روڈ پر پادری اسکاٹ کی خالی کوٹھی کے شاگرد پیشے میں رہتے ہیں۔ ان کے بیوی بچے سب مرچکے ہیں اور برسوں سے ان کا ذریعۂ معاش سرود ہے جس کے ذریعے وہ آٹھ دس روپے مہینا کما لیتے ہیں۔
’’لیکن اس خوابیدہ شہر میں سرود سیکھنے والے ہی کتنے ہوں گے؟ ‘‘ باجی نے پوچھا۔ انہوں نے اسی دھیمی آواز میں کہا، ’’کبھی کبھی دو ایک طالب علم مل جاتے ہیں۔‘‘ ( اس کے علاوہ انہوں نے اپنے متعلق کچھ نہیں بتلایا) وہ انتہائی خوددار انسان معلوم ہوتے تھے، ان کا نام سائمن تھا۔
پیر کے روز وہ ٹیوشن کے لیے آگئے۔ باجی پچھلے لان پر دھوپ میں بیٹھی تھیں۔ ’’مسٹر سائمن کو یہیں بھیج دو،‘‘ انہوں نے فقیرا سے کہا۔ باجی کی طرف جانے کے لیے فقیرا نے ان کو اندر بلالیا۔ اس روز بڑی سردی تھی اور میں اپنے کمرے میں بیٹھی کسی سٹرپٹر میں محو تھی۔ میرے کمرے میں سے گزرتے ہوئے ذرا ٹھٹک کر سائمن نے چاروں طرف دیکھا۔ آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے ان کے قدم آتش دان کی سمت بڑھے اورانہوں نے آگ کی طرف ہتھیلیاں پھیلائیں۔ مگر پھر جلدی سے فقیرا کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔
ریشم نے ان سے بہت جلد دوستی کر لی۔ یہ بڑے تعجب کی بات تھی۔ کیونکہ ریشم بے انتہا مغرور، اکل کھری اور اپنے سیامی حسن پر حد سے زیادہ نازاں تھی۔ اور بہت کم لوگوں کو خاطر میں لاتی تھی۔ زیادہ تر وہ اپنی ساٹن کے ریشمی جھالر دار غلاف والی ٹوکری کے گدیلوں پر آرام کرتی رہتی اور کھانے کے وقت بڑی مکّاری سے آنکھیں بند کر کے میز کے نیچے بیٹھ جاتی۔ ’’اس کی ساری خاصیتیں ویمپ (vamp) عورتوں کی سی ہیں،‘‘ باجی کہتیں۔ ’’عورت کی خاصیت بلّی کی ایسی ہوتی ہے، چمکارو تو پنجے نکال لے گی، بے رخی برتوں تو خوشامد شروع کردے گی۔۔۔‘‘
’’اور آدمی لوگوں کی خاصیت کیسی ہوتی ہے باجی؟ ‘‘ میں پوچھتی، باجی ہنسنے لگتیں اور کہتیں، ’’ یہ ابھی مجھے معلوم نہیں۔‘‘
باجی چہرے پر دل فریب اور مطمئن مسکراہٹ لیے باغ میں بیٹھی مظفر بھائی کے بے حد دل چسپ خط پڑھا کرتیں، جو ان کے نام ہر پانچویں دن بمبئی سے آتے تھے۔ جہاں مظفر بھائی انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ مظفر بھائی میرے اور باجی کے چچازاد بھائی تھے اور باجی سے ان کی شادی طے ہو چکی تھی۔ جتنی دیر وہ باغ میں بیٹھتیں، غفور بیگم ان کے نزدیک گھاس پر پاندان کھولے بیٹھی رہتیں۔ جب باجی اندر چلی جاتیں تو غفور بیگم شاگرد پیشے کی طرف جاکر فقیرا بھاوج سے باتیں کرنے لگتیں یا پھر اپنی نماز کی چوکی پر آ بیٹھتیں۔
غفور بیگم باجی کی بے حد وفادار اناّ تھیں۔ ان کے شوہر نے، جن کی علیگڑھ میں میرس روڈ کے چوراہے پر سائیکلوں کی دکان تھی، پچھلے برس ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کر لیا تھا، اور تب سے غفور بیگم اپنا زیادہ وقت نماز روزے میں گزارتی تھیں۔
سائمن کے آتے ہی ریشم دبے پاؤں چلتی ہوئی آکر خُر خُر کرنے لگتی اور وہ فوراً جیب سے رومال نکال کر اسے کچھ کھانے کو دیتے۔ شام کے وقت جب فقیرا ان کے لیے چائے کی کشتی لے کر برآمدے میں جاتا تو وہ آدھی چائے طشتری میں ڈال کر فرش پر رکھ دیتے اور ریشم فوراً طشتری چاٹ جاتی اور فقیرا بڑ بڑاتا، ’’ہمارے ہاتھ سے تو رانی صاحب دودھ پینے میں بھی نخرے کرتی ہیں۔‘‘
فقیرا ایک ہنس مکھ گڑھوالی نوجوان تھا۔ دو سال قبل وہ چیتھڑوں میں ملبوس، نہر کی منڈیر پر بیٹھا، اون اورسلائیوں سے موزرے بن رہا تھا۔ جو پہاڑیوں کا عام دستور ہے، تو سکھ نندن خانساماں نے اس سے پوچھا تھا، ’’کیوں بے نوکری کرے گا؟‘‘ اور اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔ ’’ مہینوں سے بھوکوں مر رہا ہوں کیوں نہیں کروں گا۔‘‘ تب سے وہ ہمارے یہاں ’اوپر کا کام‘ کر رہا تھا، اور ایک روز اس نے اطلاع دی تھی کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں کی مٹی ہوگئی ہے اور وہ اپنی بھاوج کو لینے گڑھوال جارہا ہے۔ اور چند دنوں بعد اس کی بھاوج جل دھرا پہاڑوں سے آکر شاگرد پیشے میں بس گئی تھی۔
جل دھرا ادھیڑ عمر کی ایک گوری چٹّی عورت تھی، جس کے ماتھے، ٹھوڑی اور کلائیوں پر نیلے رنگ کے نقش و نگار گدے ہوئے تھے۔ وہ ناک میں سونے کی لونگ اور بڑا سا بُلاق اور کانوں کے بڑے بڑے سوراخوں میں لاکھ کے پھول پہنتی تھی اور اس کے گلے میں ملکہ وکٹوریہ کے روپوں کی مالا بھی پڑی تھی۔ یہ تین گہنے اس کے تینوں مشترکہ شوہروں کی واحد جائیداد تھے۔ اس کے دونوں متوفی شوہر مرتے دم تک یاتریوں کا سامان ڈھوتے رہے تھے اور اتفاق سے اکٹھے ہی ایک پہاڑی سے گر کر مرگئے تھے۔
جل دھرا بڑے میٹھے لہجے میں بات کرتی تھی اور ہر وقت سوئٹر بنتی رہتی تھی۔ اسے کنٹھ مالا کا پرانا مرض تھا۔ فقیرا اس کے علاج معالجے کے لیے فکر مند رہتا تھا اور اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ جل دھرا کی آمد پر باقی نوکروں کی بیویوں نے آپس میں چہ میگوئیاں کی تھیں۔۔۔ ’’یہ پہاڑیوں کے ہاں کیسا برا رواج ہے ایک لُگائی کے دو دو تین تین خاوند۔۔۔‘‘ اور جب جل دھرا کا تذکرہ دوپہر کو کھانے کی میز پر ہوا تھا تو باجی نے فوراً درو پدی کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا پہاڑوں میں پولی اینڈ ری کا رواج مہابھارت کے زمانے سے چلا آتا ہے اور ملک کے بہت سے حصوں کا سماجی ارتقا ایک خاص اسٹیج پر پہنچ کر وہیں منجمد ہوچکا ہے اور پہاڑی علاقے بھی ان ہی پس ماندہ حصوں میں سے ہیں۔
باجی نے یہ بھی کہا کہ پولی اینڈ ری، جسے اردو میں ’چند شوہری ‘ کہتے ہیں، مادرانہ نظام کی یادگار ہے۔ اور معاشرے نے جب مادرانہ نظام سے پدری نظام کی طرف ترقی کی تو انسان بھی کثیر الازدواجی کی طرف چلا گیا۔ اور مادرانہ نظام سے بھی پہلے، ہزاروں سال قبل، تین چار بھائیوں کے بجائے قبیلوں کے پورے پورے گروہ ایک ہی عورت کے ساتھ رہتے تھے اور ویدوں میں ان قبائل کا ذکر موجود ہے۔ میں منہ کھولے یہ سب سنتی رہی۔ باجی بہت قابل تھیں۔ بی۔ اے میں انہیں فرسٹ ڈویژن ملا تھا اور ساری علیگڑھ یونیورسٹی میں اوّل رہی تھیں۔
ایک روز میں اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اپنی سہیلیوں کے ہاں جا رہی تھی۔ ریشم میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آرہی تھی۔ اس خیال سے کہ وہ سڑک پر آنے والی موٹروں سے کچل نہ جائے۔ میں سائیکل سے اتری، اسے خوب ڈانٹ کر سڑک پر سے اٹھایا اور باڑ پر سے احاطے کے اندر پھینک دیا اور پیڈل پر زور سے پاؤں مار کر تیزی سے آگے نکل گئی۔ لیکن ریشم احاطے میں کودنے کے بجائے باڑ کے اندر لگے ہوئے تیزنوکیلے کانٹوں والے تاروں میں الجھ گئی۔ اس کی ایک ران بری طرح زخمی ہوئی۔ وہ لہو لہان ہوگئی اور اس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا اور اسی طرح تار سے لٹکی چیختی اور کراہتی رہی۔ بہت دیر بعد جب فقیرا ادھر سے گزرا جو جھاڑیوں سے مرچیں اور ٹماٹر توڑنے اس طرف آیا تھا، تو اس نے بڑی مشکل سے ریشم کو باڑ میں سے نکالا اور اندر لے گیا۔
جب میں کملا اور وملا کے گھر سے لوٹی تو دیکھا کہ سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ ’’تمہاری ریشم مر رہی ہے،‘‘ باجی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’کم بخت جانے کس طرح جا کر باڑ کے تاروں میں الجھ گئی۔ جنے اس قدر احمق کیوں ہے؟ چڑیوں کی لالچ میں وہاں جا گھسی ہوگی۔ اب بری طرح چلّا رہی ہے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب مرہم پٹّی کر کے گئے ہیں۔‘‘
میرا دل دہل گیا۔ ریشم کی اس ناقابلِ برداشت تکلیف کی ذمہ داری میں تھی۔ اس کی تکلیف اور ممکن موت کے صدمے کے ساتھ انتہائی شدید احساسِ جرم نے مجھے سراسیمہ کردیا اور میں جا کر گھر کے پچھواڑے گھنے درختوں میں چھپ گئی تاکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاؤں۔ کچھ فاصلے پر کھٹ کھٹ بڑھیا کی شکل والی مسز وار بروک کے گھر میں سے وائرلیس کی آواز آرہی تھی۔ دور شاگرد پیشے کے سامنے فقیرا کی بھاوج گھاس پر بیٹھی غفور بیگم سے باتیں کر رہی تھی۔ پچھلے برآمدے میں باجی اب مظفر بھائی کو خط لکھنے میں محو ہو چکی تھیں۔ باجی کی عادت تھی کہ دن بھر میں کوئی بھی خاص بات ہوتی تھی تو وہ فوراً مظفر بھائی کو طویل سا خط لکھتی تھیں۔ ریشم پٹیوں سے بندھی ان کے نزدیک اپنی ٹوکری میں پڑی تھی۔
ساری دنیا پرسکون تھی، صرف میں ایک روپوش مجرم کی طرح اونچی اونچی گھاس میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں۔ آخر میں آہستہ آہستہ اپنے والد کے کمرے کی طرف گئی اور دریچے میں سے اندر جھانکا۔ والد آرام کرسی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں اندر گئی اور کرسی کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ ’’کیا بات ہے بی بی؟‘‘ میری سسکی کی آواز پر انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ’’ریشم کو۔۔۔ ریشم کو ہم نے باڑ میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’آپ نے پھینک دیا تھا؟ ‘‘
’’ہم۔۔۔ ہم کملا و ملا کے ہاں جانے کی جلدی میں تھے۔ وہ اتنا منع کرنے کے باوجود پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ ہم نے اسے جلدی سے باغ کے اندر پھینک دیا۔‘‘ اتنا کہہ کر میں نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ رونے کے بعد دل ہلکا ہوا اور جرم کا تھوڑا سا پرائشچت بھی ہوگیا، مگر ریشم کی تکلیف کسی طرح کم نہ ہوئی۔ شام کو سائمن سبق سکھانے کے بعد دیر تک اس کے پاس بیٹھے اس سے باتیں کرتے رہے۔
ریشم کی روزانہ مرہم پٹّی ہوتی تھی اور ہفتے میں ایک دفعہ اسے ’گھوڑا ہسپتال‘ بھیجا جاتا تھا۔ اس کی ران پر سے اس کے گھنے اور لمبے لمبے سرمئی بال مونڈ دیئے گئے تھے اور زخم کی گہری سرخ لکیریں دور تک کھنچی ہوئی تھیں۔ کافی دنوں کے بعد اس کے زخم بھرے اور اس نے لنگڑا کر چلنا شروع کردیا۔ ایک مہینے بعد وہ آہستہ آہستہ لنگڑاتی ہوئی سائمن کو پہنچانے پھاٹک تک گئی اور جب فقیرا بازار سے اس کے لیے چھچھڑے لے کر آتا تو وہ اسی طرح لنگڑاتی ہوئی کونے میں رکھے ہوئے اپنے برتن تک بھی جانے لگی۔
ایک روز صبح کے وقت مسٹر جارج بیکٹ باڑ پر نمودار ہوئے اور ذرا جھجکتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی طرف بلایا۔ ’’ریشم کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ’’انہوں نے دریافت کیا۔ ’’مجھے مسٹر سائمن نے بتایا تھا کہ وہ بہت زخمی ہوگئی تھی۔‘‘
مسٹر جارج بیکٹ نے پہلی بار اس محلّے میں کسی سے بات کی تھی۔ میں نے ریشم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور وہ اپنے چارخانہ کوٹ کی پھٹی ہوئی جیبوں میں انگوٹھے ٹھونس کر آگے چلے گئے۔
مسٹر جارج بیکٹ ایک بے حد فاقہ زدہ اینگلو انڈین تھے اور پلپلی صاحب کہلاتے تھے۔ وہ سڑک کے سرے پر ایک خستہ حال کائی آلود کاٹج میں رہتے تھے اور بالٹی اٹھا کر صبح کو میونسپلٹی کے نل پر خود پانی بھرنے جایا کرتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی تھی جس کا نام ڈائنا تھا۔ وہ پریڈ گراؤنڈ پر ایک انگریزی سنیما ہال میں ٹکٹ بیچتی تھی اور خوش رنگ فراک پہنے اکثر سامنے سے سائیکل پر گزرا کرتی تھی، اس کے پاس صرف چار فراک تھے جنہیں وہ دھو دھو کر اور بدل بدل کر پہنا کرتی تھی اور مسز گوسوامی، مسز فاروقی اور مسز جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’سنیما ہال کی نوکری کے اسے صرف پچیس روپلّی ملتے ہیں اور کیسے ٹھاٹ کے کپڑے پہنتی ہے۔ اسے گورے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن گورے اگر اسے پیسے دیتے تھے (یہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے گورے کیوں پیسے دیتے تھے) تواس کا بوڑھا باپ نل پر پانی بھرنے کیوں جاتا تھا۔
یہ پنشن یافتہ متمول انگریزوں کا محلہ تھا جو پر فضا خوبصورت کوٹھیوں میں خاموشی سے رہتے تھے۔ ان کے انتہائی نفاست سے سجے ہوئے کمروں اور برآمدوں میں لندن السٹریٹیڈ نیوز، ٹیٹلر، کنٹری لائف اور پنچ کے انبار میزوں پر رکھے تھے۔ اور ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے پلندے سمندری ڈاک سے ان کے نام آتے تھے۔ ان کی بیویاں روزانہ صبح کو اپنے اپنے ’مورننگ روم‘ میں بیٹھ کر بڑے اہتمام سے ’ہوم‘ خط لکھتی تھیں۔ اور ان کے ’گول کمروں‘ میں ان کے بیٹوں کی تصویریں رو پہلے فریموں میں سجی تھیں جو مشرقی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سلطنت برطانیہ کے آفتاب کو مزید چمکانے میں مصروف تھے۔ یہ لوگ مدّتوں سے اس ملک میں رہتے آرہے تھے مگر ’کوئی ہائے‘ اور ’عبدل چھوٹا حاضری مانگتا‘ سے زیادہ الفاظ نہ جانتے تھے۔ یہ عزت پسند انگریز دن بھر باغبانی یا برڈ واچنگ (bird watching) یا ٹکٹ جمع کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
یہ بڑے عجیب لوگ تھے۔ مسٹر ہارڈ کاسل تبتی زبان اور رسم و رواج کے ماہر تھے۔ مسٹر گرین آسام کے کھاسی قبائل پر اتھارٹی تھے۔ کرنل وایٹ ہیڈ جو شمالی مغربی سرحد کے معرکوں میں اپنی ایک ٹانگ کھو چکے تھے اور لکڑی کی ٹانگ لگاتے تھے، خوش حال خاں خٹک پر عبور رکھتے تھے۔ میجر شیلٹن اسٹیس مین میں شکار کے متعلق مضامین لکھا کرتے تھے۔ اور مسٹر مارچ مین کو شطرنج کا خبط تھا۔ مس ڈرنک واٹر پلانچٹ پر روحیں بلاتی تھیں اور مسزوار بُروک تصوریں بناتی تھیں۔
مسزوار بُروک ایک بریگیڈیر کی بیوہ تھیں اور ہمارے پچھواڑے رہتی تھیں۔ ان کی بوڑھی پھونس کنواری بہن بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان دونوں کی شکلیں لمبی چونچ والے پرندوں کی ایسی تھیں۔ اور یہ دونوں اپنے طویل و عریض ڈرائنگ روم کے کسی کونے میں بیٹھی آبی رنگوں سے ہلکی پھلکی تصویریں بنایا کرتی تھیں۔ وہ دونوں اتنی مختصر سی تھیں کہ پھولدار غلافوں سے ڈھکے ہوئے فرنیچر اور دوسرے ساز و سامان کے جنگل میں کھو جاتی تھیں اور پہلی نظر میں بڑی مشکل سے نظر آتی تھیں۔
ڈالن والا کی ایک کوٹھی میں ’انگلش اسٹورز‘ تھا۔ جس کا مالک ایک پارسی تھا۔ محلے کی ساری انگریز اور نیٹو بیویاں یہاں آکر خریداری کرتی تھیں اور اسکنڈل اور خبروں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتی تھیں۔
اس خوش حال اور مطمئن انگریزی محلے کے واحد مفلس اور اینگلو انڈین باسی بجھی بجھی نیلی آنکھوں والے مسٹر جارج بیکٹ تھے۔ مگر وہ بڑی آن بان والے اینگلو انڈین تھے اور خود کو پکّا انگریز سمجھتے تھے، انگلستان کو ’ہوم‘ کہتے تھے اور چند سال ادھر جب شہنشاہ جارج پنجم کے انتقال پر کولا گڑھ میں سلو مارچ پر بڑی بھاری پریڈ ہوئی تھی اور گوروں کے بینڈ نے موت کا نغمہ بجایا تھا تو مسٹر جارج بیکٹ بھی بازو پر سیاہ ماتمی پٹّی باندھ کر کولا گڑھ گئے تھے اور انگریزوں کے مجمعے میں بیٹھے تھے اور ان کی لڑکی ڈائنا روز نے اپنے سنہرے بالوں اور خوبصورت چہرے کو سیاہ ہیٹ اور سیاہ جالی سے چھپایا تھا۔ اور مسٹر بیکٹ بہت دنوں تک سیاہ ماتمی پٹّی بازو پر باندھے رہے تھے۔
لیکن بچّے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ ڈالن والا کے سارے ہندوستانی بچّے مسٹر جارج بیکٹ کو نہ صرف پلپلی صاحب کہتے تھے بلکہ کملا اور وملا کے بڑے بھائی سورن نے جو ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا اور ڈون پبلک اسکول میں پڑھتا تھا۔ مسٹر بیکٹ کی لڑکی ڈائنا کو چڑانے کی ایک اور ترکیب نکالی تھی۔
کملا اور وملا کے والد ایک بے حد دل چسپ اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہوں نے ایک بہت ہی انوکھا انگریزی ریکارڈ ۱۹۲۸ء میں انگلستان سے خریدا تھا۔ یہ ایک انتہائی بے تکا گیت تھا جس کا اینگلو انڈین اردو ترجمہ بھی ساتھ ساتھ اسی دھن میں گایا گیا تھا۔ نہ جانے کس منچلے انگریز نے اسے تصنیف کیا تھا۔ یہ ریکارڈ اب سورن کے قبضے میں تھا۔ اور جب ڈائنا سائیکل پر ان کے گھر کے سامنے سے گزرتی تو سورن گرامو فون دریچے میں رکھ کر اس کے بھونپو کا رخ سڑک کی طرف کردیتا اور سوئی ریکارڈ پر رکھ کر چھپ جاتا۔ مندرجہ ذیل بلند پایہ روح پرور گیت کی آواز بلند ہوتی۔۔۔
there was a rich merchant in london did stay.
who had for his daughter an uncommon liking?
her name it was diana
she was sixteen years old
and had a large fortune in silver and gold.
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا۔
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سو لے برس کا عمر
جس کے پاس بہت کپڑا چاندی اور سونا
as diana was walking in the garden one day.
her father came to her and thus did he say:
go dress yourself up in gorgeous array
for you will have a husband both gallant and gay.
ایک دن جب ڈائنا باغیچہ میں تھی
باپ آیا اور بولا بیٹی
جاؤ کپڑا پہنو اور ہو صفا
کیوں کہ میں ترے واسطے ایک خاوند لایا
o father
dear father i've made up my mind
to marry at present i don't feel inclined.
and all my large fortune every day adore
if you let live me single a year or two more.
ارے رے مورا باپ تب بولی بیٹی
شادی کا ارادہ میں ناہیں کرتی
اگر ایک دو برس تکلیف ناہیں دیو
آ آ ارے دولت میں بالکل چھوڑ دیوں
then gave the father a gallant reply:
if you don't be this young man's bride
i'll leave all your fortune to the fearest of things
and you should reap the benefit of single thing.
تب باپ بولا ارے بچّہ بیٹی
اس شخص کی جورو تو ناہیں ہوتی
مال اور اسباب تیرا کُرکی کردیوں
اور ایک کچّی دمڑی بھی تجھے نادیوں
as wilikins was walking in the garden one day
he found his dear diana lying dead on the way.
a cup so fearful that lay by her side.
and wilikins doth fainteth with a cry in his eye
ایک دن جب ولی کن ہوا کھانے کو گیا
ڈائنا کا مردہ ایک کونے میں پایا
ایک بادشاہ پیالہ اس کے کمر پر پڑا
اور ایک چٹّھی جس میں لکھا،
’’زہر پی کے مرا‘‘
جیسے ہی ریکارڈ بجنا شروع ہوتا، بیچاری ڈائنا سائیکل کی رفتار تیز کر دیتی اور اپنے سنہرے بال جھٹک کر زنّاٹے سے آگے نکل جاتی۔
اس موسم سرما کا دوسرا اہم واقعہ پریڈ گراؤنڈ میں ’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کار نیول‘ کی آمد تھا۔ اس کے اشتہا لنگوروں اور مسخروں کے لمبے جلوس کے ذریعے بانٹے گئے تھے۔ جن پر لکھا تھا، ’’بیسویں صدی کا حیرت ناک تماشا، شیر دل حسینہ مس زہر ڈربی، موت کے کنویں میں، آج شب کو۔۔۔‘‘
سب سے پہلے فقیرا سرکس دیکھ کر لوٹا۔ وہ اپنی بھاوج کو بھی کھیل دکھانے لے گیا تھا۔ اور صبح کو اس نے اطلاع دی تھی۔۔۔ ’’بیگم صاحب۔۔۔ بڑی بٹیا۔۔۔ بی بی۔۔۔ زنانی ڈیتھ آف ویل میں ایسے پھٹ پھٹی چلاتی ہے کہ بس کیا بتاؤں۔۔۔ عورت ہے کہ شیر کی بچّی۔۔۔ ہرے رام۔۔۔ ہرے رام۔۔۔‘‘
دوسرے دن اسکول میں کملا وملا نے مجھے بتایا کہ مس زہرہ ڈربی ایک نہایت سنسنی خیز خاتون ہے۔ اور وہ دونوں بھی اس کے دلیرانہ کمالات بہ چشم خود دیکھ کر آئی ہیں۔
چونکہ میں سرکسوں پر پہلے ہی سے عاشق تھی لہٰذا جلد از جلد باجی کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ پہنچی۔ وہاں تمبو کے باہر ایک اونچے چوبی پلیٹ فارم پر ایک موٹر سائیکل گھڑ گھڑا رہی تھی اور اس کے پاس مس زہرہ ڈربی کرسی پر فروکش تھی۔ اس نے نیلے رنگ کی چمکدار ساٹن کا اس قطع کا لباس پہن رکھا تھا، جو مس نادیا نے ہنٹر والی فلم میں پہنا تھا۔ اس نے چہرے پر بہت سا گلابی پاؤڈر لگا رکھا تھا جو بجلی کی روشنی میں نیلا معلوم ہو رہا تھا۔ اور ہونٹ خوب گہرے سرخ رنگے ہوئے تھے۔ اس کے برابر میں ایک بے حد خوفناک، بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اسی طرح کی رنگ برنگی ’برجیس‘ پہنے، لمبے لمبے پٹّے سجائے اور گلے میں بڑا سا سرخ آدمی رومال باندھے بیٹھا تھا۔ مس زہرہ ڈربی کے چہرے پر بڑی اکتاہٹ تھی اور وہ بڑی بے لطفی سے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔
اس کے بعد وہ دونوں موت کے کنویں میں داخل ہوئے جس کی تہہ میں ایک اور موٹر سائیکل رکھی تھی۔ خوف ناک آدمی موٹر سائیکل پر چڑھا اور مس زہرہ ڈربی سامنے اس کی بانہوں میں بیٹھ گئی۔ اور خوف ناک آدمی نے کنویں کے چکّر لگائے۔ پھر وہ اتر گیا اور مس زہرہ ڈربی نے تالیوں کے شور میں موٹر سائیکل پر تنہا کنویں کے چکّر لگائے اور اوپر آکر دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے۔ اور موٹر سائیکل کی تیز رفتار کی وجہ سے موت کا کنواں زور زور سے ہلنے لگا اور میں مس زہرہ ڈربی کی اس حیرت انگیز بہادری کو مسحور ہو کر دیکھتی رہی۔ کھیل کے بعد وہ دوبارہ اسی طرح چبوترے پر جا بیٹھی اور بے تعلقی سے سگریٹ پینا شروع کردیا۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔
یہ واقعہ تھا کہ مس زہرہ ڈربی جاپانی چھتری سنبھال کر تار پر چلنے والی میموں اور شیر کے پنجرے میں جانے والی اور اونچے اونچے تاروں اور جھولوں پر کمالات دکھانے والی لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر تھی۔ پچھلے برس وہاں ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ آیا تھا، جس میں مس حمیدہ بانو پہلوان نے اعلان کیا تھا کہ جو مرد پہلوان انہیں ہرا دے گا وہ اس سے شادی کرلیں گی۔ لیکن بقول فقیرا کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچّی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکریں پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمرے کو گھور رہی تھیں۔۔۔
یہ کون پر اسرار ہستیاں ہوتی ہیں جو تار پر چلتی ہیں اور موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتی ہیں اور اکھاڑے میں کشتی لڑتی ہیں۔ میں نے سب سے پوچھا لیکن کسی کو بھی ان کے متعلق کچھ نہ معلوم تھا۔
’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس‘ ابھی تماشے ہی دکھا رہا تھا کہ ایک روز فقیرا پلٹن بازار سے سودا لے کر لوٹا تو اس نے ایک بڑی تہلکہ خیز خبر سنائی کہ مس زہرہ ڈربی کے عشاق، ماسٹر گل قند اور ماسٹر مچھندر کے درمیان چکّو چل گیا۔ ماسٹر مچھندر نے مس زہرہ ڈربی کو بھی چکّو سے گھائل کردیا اور وہ ہسپتال میں پڑی ہیں اور اس سے بھی تہلکہ خیز خبر، جو فقیرا نے چند دن بعد میونسپلٹی کے نل پر سنی، یہ تھی کہ پلپلی صاحب کی مسیا نے سرکس میں نوکری کرلی۔
’’ڈائنا بیکٹ نے۔۔۔؟ ‘‘ باجی نے دہرایا۔ ’’جی ہاں بڑی بٹیا۔۔۔ پلپلی صاحب کی مسیا، سنا ہے کہتی ہے کہ اس سے اپنے باپ کی غریبی اور تکلیف اب نہیں دیکھی جاتی اور دنیا والے تو یوں بھی تنگ کرتے ہیں۔ اوڈین سنیما میں اسے پچیس روپے ملتے تھے۔ سرکس میں پچھتّر روپے ملیں گے۔۔۔ یہ تو سچ ہے۔ وہ غریب تو بہت تھی بڑی بٹیا۔۔۔‘‘
’’اور گورے جو اس کو پیسے دیتے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ غفور بیگم نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’جاؤ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔‘‘ لہٰذا میں بھاگ گئی اور باہر جاکر ریشم کی ٹوکری کے پاس بیٹھ کے ڈائنا بیکٹ کی بہادری کے متعلق غور کرنے لگی۔
اب کی بار جب لنگوروں اور مسخروں نے سرکس کے اشتہار بانٹے تو ان پر چھپا تھا، ’’سرکس کے عاشقوں کو مژدہ پری جمال یورپین دوشیزہ کے حیرت انگیز کمالات قتالہ عالم، حسینہ لندن مس ڈائنا روز موت کے کنویں میں آج شب کو۔ ‘‘
ان ہی دنوں سنیما کا چرچا ہوا۔ یوں تو سنیما کے اشتہار عرصے سے لکڑی کے ٹھیلوں پر چپکے سامنے سے گزرا کرتے تھے۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’چیلنج‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں۔ پریڈ کے سامنے،پلیڈیم سنیما میں، آج شب کو۔‘‘
اور۔۔۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’دہلی ایکسپریس‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں پریڈ کے سامنے، راکسی سنیما میں آج شب کو۔‘‘
اور مجھے بڑی پریشانی ہوتی تھی کہ مس سردار اختر دونوں جگہوں پر بیک وقت کس طرح ’کام‘ کریں گی۔ لیکن قسمت نے ایک دم یوں پلٹا کھایا کہ باجی اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین فلم دیکھنے کو ملیں۔۔۔
’اچھوت کنیا‘ جس کے لیے مسز جوگ مایا چٹرجی نے بتایا کہ ہمارے دیش میں بہت زبردست سماجی انقلاب آگیا ہے اور گرو دیو ٹیگور کی بھانجی دیویکا رانی اب فلموں میں کام کرتی ہیں اور ’جیون لتا‘ جس میں سیتا دیوی نازک نازک چھوٹی سی آواز میں گاتیں۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔۔۔‘‘ اور ’جیون پر بھات‘ جسے باجی بڑے ذوق وشوق سے اس لیے دیکھنے گئیں کہ اس میں خورشید آپا ’کام‘ کررہی تھیں، جو اب رینوکا دیوی کہلاتی تھی، جو اس زبردست سماجی انقلاب کا ثبوت تھا۔
مسز جوگ مایا چٹرجی کی بشارت کے مطابق ہندوستان جن کے دروازے پر کھڑا تھا اور تبھی مسز جوگ مایا چٹرجی کی لڑکیوں نے ہارمونیم پر فلمی گانے ’نکالنے‘ شروع کردئیے۔ ’’بانکے بہاری بھول نہ جانا۔۔۔ پیتم پیاری پریت نبھانا۔۔۔‘‘ اور۔۔۔ ’’چور چراوے مال خزانہ، پیانینوں کی نندیا چرواے۔‘‘ اور۔۔۔ ’’تم اور میں اور منا پیارا۔۔۔ گھروا ہوگا سورگ ہمارا۔۔۔‘‘
غفور بیگم کام کرتے کرتے ان آوازوں پر کان دھرنے کے بعد کمر ہاتھ پر رکھ کر کہتیں، ’’بڑے بوڑھے سچ کہہ گئے تھے۔ قرب قیامت کے آثار یہی ہیں کہ گائے مینگناں کھائے گی اور کنواریاں اپنے منہ سے بر مانگیں گی۔‘‘ اتنے میں منورما چٹرجی کی سریلی آواز بلند ہوتی۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔‘‘
’’بے حیائی تیرا آسرا۔۔۔‘‘ غفور بیگم کانپ کر فریاد کرتیں اور سلیپر پاؤں میں ڈال کر سٹر پٹر کرتی اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔
ان ہی دنوں فقیرا بھی اپنی بھاوج کو یہ ساری فلمیں سیکنڈ شو میں دکھا لایا۔ مگر جس رات جل دھرا ’چنڈی داس‘ فلم دیکھ کر لوٹی، تو اسے بڑا سخت بخار چڑھ گیا، اور ڈاکٹر ہون نے صبح کو آکر اسے دیکھا اور کہا کہ اس کا مرض تشویش ناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب وہ روز تانگے میں لیٹ کر ہسپتال جاتی اور واپس آکر دھوپ میں گھاس پر کمبل بچھا کر لیٹی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کی حالت ذرا بہتر ہوگئی۔ اور سکھ نندن خانساماں کی بیوی دھن کلیا اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ کر اس کا دل بہلانے کے لیے پوربی گیت گایا کرتی اور اسے چھیڑ چھیڑ کر الاپتی۔۔۔ ’’ناجو ادا سے سرم و حیا سے بالے سیاں سے سرمائے گئی میں تو۔۔۔‘‘
اور غفور بیگم جب جل دھرا کی خیریت پوچھنے جاتیں تو وہ مسکرا کرکہتی، ’’انّا جی۔۔۔ میرا تو سمے آگیا۔ اب تھوڑے دنوں میں پر ان نکل جائیں گے۔۔۔‘‘ اب غفور بیگم اس کا دل رکھنے کے لیے کہتیں، ’’اری تو ابھی بہت جئے گی۔۔۔ اور اے جل دھریا۔۔۔ ذرا یہ تو بتا کہ تونے فقیرا نگوڑے پر کیا جادو کر رکھا ہے۔۔۔ ذرا مجھے بھی وہ منتر بتادے، مجھ بدبختی کو تو اپنے گھر والے کو رام کرنے کا ایک بھی نسخہ نہ ملا۔۔۔ تو ہی کوئی ٹوٹکا بتادے۔ سنا ہے پہاڑوں پر جادو ٹونے بہت ہوتے ہیں۔۔۔ فقیرا بھی کیسا تیرا کلمہ پڑھتا ہے۔۔۔ اری تو تو اس کی ماں کے برابر ہے۔۔۔!‘‘ اور وہ بڑی ادا سے ہنس کو جواب دیتی۔۔۔ ’’انا جی۔ کیا تم نے سنا نہیں پرانے چاول کیسے ہوتے ہیں؟‘‘
’’پرانے چاول۔۔۔؟‘‘ میں دہراتی اور غفور بیگم ذرا گھبرا کر مجھے دیکھتیں اور جلدی سے کہتیں۔۔۔ ’’بی بی آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟ جائیے بڑی بٹیا آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ لہٰذا میں سر جھکائے بجری کی رنگ برنگی کنکریاں جوتوں کی نوک سے ٹھکراتی ٹھکراتی باجی کی طرف چلی جاتی۔ مگر وہ فلسفے کی موٹی سی کتاب کے مطالعے میں یا مظفر بھائی کا خط پڑھنے یا اس کا جواب لکھنے میں مستغرق ہوتیں اور مجھے کہیں اور جانے کا حکم دے دیتیں تو میں گھوم پھر کر دوبارہ ریشم کی ٹوکری کے پاس جا بیٹھتی اور اس کے جلد تندرست ہونے کی دعائیں مانگنے لگتی۔
اسکول میں کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں، میں صبح صبح کملا وملا کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں مسٹر بیکٹ نظر آئے۔ وہ بے حد حواس باختہ اور دیوانہ وار ایک طرف کو بھاگے چلے جا رہے تھے۔ اتنے میں میجر چیلٹن نے اپنی ۱۹۲۶ء ماڈل کی کھڑ کھڑیا فوڈ روک کر انہیں اس میں بٹھا لیا اور فورڈ یورپین ہسپتال کی سمت روانہ ہوگئی۔
میں کملا کے گھر پہنچی تو سورن خلاف معمول بہت خاموش تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابھی پریڈ گراؤنڈ سے سارا واقعہ سن کر آیا ہے۔
’’ڈائنا بیکٹ ابھی ماسٹر مچھندر کے ساتھ ہی موٹر سائیکل پر بیٹھتی تھی اور دیکھنے والوں کا بیان تھا کہ دہشت کے مارے اس کا رنگ سفید پڑ جاتا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے رہتی تھی۔ مگر سرکس منیجر نے اصرار کیا کہ وہ تنہا موٹر سائیکل چلانے کی ٹریننگ بھی شروع کردے تا کہ اس کے دل کا خوف نکل جائے۔ دل کا خوف نکالنے کے لیے اس نے موٹر سائیکل پر تنہا بیٹھ کر کنویں کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی مگر موٹر سائیکل بے قابو ہوگئی اور ڈائنا کی دونوں ٹانگیں موٹر سائیکل کے تیزی سے گھومتے ہوئے پہیوں میں آکر چور چور ہوگئیں۔ اسے فوراً یورپین ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ کرنل وائی کو مب سول سرجن نے کہا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگئی ہیں۔ اور اسے ساری عمر پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر گزارنی ہوگی۔‘‘
اس دن ہم لوگوں کا کسی چیز میں دل نہ لگا۔ اور ہم سب ایک درخت کی شاخ پر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد دفعتاً سورن شاخ پر سے نیچے کودا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔ اور میں نے دیکھا کہ سب کے چہرے پر ایک عجیب سی ندامت طاری تھی۔ ایک انجانا سا احساس جرم اور ندامت۔
دوسرے روز دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کارنیول کے نوکیلی مونچھوں اور بے شمار تمغوں والے منیجر اور رنگ ماسٹر پروفیسر شہباز نے اعلان کیا کہ سرکس کوچ کر رہا ہے اور آئندہ سال معزز شائقین کو اس سے زیادہ حیرت ناک تماشے دکھائے جائیں گے لیکن فقیرا کی اطلاع کے مطابق وہ ڈرا ہوا تھا۔ اس کے سرکس میں پے در پے دو شدید حادثے ہوئے تھے اور پولس اس کے پیچھے لگ گئی تھی۔
سرکس نے کوچ کردیا اور مس زہرہ ڈربی بھی۔ ہسپتال سے جانے کہاں غائب ہوگئی۔
کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک بہت لمبی اور دبلی پتلی بی بی ہمارے یہاں مہمان آئیں۔ ان کا نام ڈاکٹر زبیدہ صدیقی تھا۔ وہ دہلی سے کلکتہ جارہی تھیں اور ایک ہفتے کے لیے ہمارے یہاں ٹھہری تھیں۔ انہوں نے ولایت سے سائنس کے کسی مضمون میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا تھا۔ وہ کسی دور افتادہ دیسی ریاست کے گرلز کالج کی پرنسپل تھیں اور سیاہ کنارے کی سفید ساری اور لمبی آستینوں کا سفید بلاؤز پہنتی تھیں، وہ اپنی طویل القامتی کی وجہ سے ذرا جھک کر چلتی تھیں اور سر نیہوڑا کر بڑی گہری نظر سے ہر ایک کو دیکھتی تھیں۔ اس وقت وہ گنتی کی ان مسلمان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے سمندر پار جا کر اعلا تعلیم حاصل کی تھی۔
پہلے روز جب وہ کھانا کھانے بیٹھیں تو انہوں نے ذرا جھجک کر کہا، ’’آپ کے ہاں سارے ملازم ہندو ہیں۔میں دراصل ہندو کے ہاتھ کا پکا نہیں کھاتی۔۔۔‘‘
’’مسلمان ہوکر آپ چھوت چھات کرتی ہیں زبیدہ آپا؟ کمال ہے، اور آپ تو ولایت تک ہو آئی ہیں زبیدہ آپا۔۔۔‘‘ باجی نے اپنی خوبصورت آنکھیں پھیلا کر کہا۔
’’در اصل۔۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ میں ایک وظیفہ پڑھ رہی ہوں آج کل۔۔۔‘‘ انہوں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔ لہٰذا ان کا کھانا غفور بیگم نے با وضو ہوکر اپنے ہاتھ سے تیار کرنا شروع کیا۔ پڑوس کی مسلمان بیبیوں پر ڈاکٹر صدیقی کی مذہبیت کا بے انتہا رعب پڑا۔ ’’لڑکی ہو تو ایسی، سات سمندر پار ہو آئی مگر ساری کا آنچل مجال ہے جو سر سے سرک جائے۔۔۔‘‘ مسز فاروقی نے کہا۔
’’شرعی پردہ تو در اصل یہی ہے کہ عورت بس اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھے۔ اور اپنی زینت مردوں سے چھپائے۔ قرآن پاک میں یہی آیا ہے۔‘‘ مسز قریشی نے جواب دیا۔
’’روزے نماز کی پابند‘ شرم و حیا کی پتلی۔ اور مومنہ ایسی کہ ہندو کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتی۔۔۔‘‘ مسز انصاری نے تعریف کی۔
ڈاکٹر صدیقی سارے وقت گھاس پر کرسی بچھائے باجی کو جانے کون سی داستان امیر حمزہ سنانے میں مشغول رہتی تھیں، اور فقیرا کی بھاوج کو دیکھ کر انہوں نے کہا تھا، ’’کیسی خوش نصیب عورت ہے۔‘‘
جب ڈاکٹر صدیقی صبح سے شام تک ایک ہی جیسی سنجیدہ اور غمناک شکل بنائے بیٹھی رہتیں تو ان کو محفوظ کرنے کے لیے باجی مجھے بلاتیں (گویا میں کوئی تماشا دکھانے والی بھالو تھی) اور حکم دیتیں۔ فلاں گیت گاؤ، فلاں قصہ سناؤ، زبیدہ آپا کو۔ ذرا بھاگ کے اپنی دوستوں کو بلا لاؤ اور سب مل کر ناچو۔۔۔
ایک دن ڈاکٹر صدیقی پچھلے لان پر بیٹھی باجی سے کہہ رہی تھیں، ’’مرے کے لیے تو صبر آ جاتا ہے، ریحانہ۔۔۔ زندہ کے لیے صبر کیسے کروں۔۔۔‘‘ اور اس دن جب انہوں نے کسی طرح مسکرانے کا نام ہی نہ لیا، تو باجی نے مجھے بلا کر حکم دیا، ’’ارے رے۔ ذرا وہ اپنے مسخرے پن کا اینگلو انڈین گیت تو سناؤ زبیدہ آپا کو۔۔۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘ میں نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اور سیدھی کھڑی ہوکر ہاتھ گھٹنوں تک چھوڑ کر (جس طرح اسکول میں انگریزی گانے گاتے یا نظمیں پڑھتے وقت کھڑا ہونا سکھلایا گیا تھا) میں نے گیت شروع کیا،
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سولے برش کا عومر
جس کے پاس بہت کپڑا۔۔۔ اور۔۔۔ چاندی۔۔۔ اور۔۔۔
دفعتاً میرے حلق میں کوئی چیز سی اٹکی، میری آواز رندھ گئی اور میں گیت ادھورا چھوڑ کر وہاں سے تیزی سے بھاگ گئی۔ ڈاکٹر صدیقی حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئیں۔
شام کو میں نے وملا سے کہا، ’’یہ زبیدہ آپا ہر وقت جنے اتنی پریشان کیوں نظر آتی ہیں۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔ وہ مجھ سے ذرا بڑی تھی۔ اور ایک ماہر فن ڈیٹکیٹو تھی۔۔۔ ’’کل صبح آنٹی فاروقی آنٹی گوسوامی کو انگلش اسٹورز میں بتا رہی تھیں کہ ایک سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا نام بھی ڈاکٹر کچھ ہے۔ مجھے یاد نہیں آرہا۔ آنٹی فاروقی نے آنٹی گو سوامی کو بتایاتو تھا۔۔۔ تو وہ کلکتہ یونیورسٹی میں زبیدہ آپا کے کلاس فیلو تھے۔ اور جب زبیدہ آپا ولایت گئی تھیں تو وہاں مانچسٹر یونیورسٹی میں بھی کئی سال ان کے ساتھ پڑھا تھا۔۔۔ تو یہ زبیدہ آپا جوہیں، تو یہ پچھلے پندرہ برس سے ڈاکٹر کے نام کی مالا جپ رہی ہیں۔‘‘
’’یہ کسی کے نام کی مالا کیسے جپتے ہیں؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’یہ پتا نہیں۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔
جب میں گھر کے اندر آئی تو زبیدہ آپا کو غفور بیگم سے تبادلہ خیالات کرتے پایا۔ اور تبھی پتا چلا کہ جس ریاست میں زبیدہ آپا کام کرتی ہیں وہ اجمیر شریف کے بہت قریب ہے۔ اور اسی وجہ سے زبیدہ آپا بہت مذہبی ہوگئی ہیں، اور جب سے ان کو یہ اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر محمود خاں خود ان کی یعنی زبیدہ آپا کی سگی بھتیجی سائرہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں جو ایک بے حد خوبصورت سترہ سالہ لڑکی ہے اور کلکتہ کے لورٹیو ہاؤس میں پڑھ رہی ہے، تب سے زبیدہ آپا نماز پنجگانہ کے علاوہ چاشت اشراق اور تہجد بھی پڑھنے لگی ہیں اور یہاں وہ غفور بیگم سے پنجسورہ شریف۔ دعائے گنج العرش اور درود تاج کے کتابچے مستعار لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ کتابچے سفر پر چلتے وقت وہ گھر پر بھول آئی تھیں۔ غفور بیگم نے ان سے کہا کہ بٹیا روز رات کو سوتے وقت تسبیح فاطمہ پڑھا کیجئے۔۔۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی تسبیح پھیر رہی تھیں تو میں نے، جو جاسوسی پر لگی ہوئی تھی ان کو دیکھ لیا اور صبح کو وملا کو اطلاع دی۔۔۔
’’ہمیں معلوم ہوگیا۔۔۔ کل رات زبیدہ آپا ڈاکٹر کچھ کے نام کی مالا جپ رہی تھیں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ایک رات دو بجے کے قریب مہمان کمرے سے ایک دل خراش چیخ کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اپنے اپنے لحافوں سے نکلے اور بھاگتے ہوئے مہمان کمرے کی طرف گئے۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ باجی نے کواڑوں پر زور زور سے دستک دی۔ اندر سے کچھ منٹ بعد زبیدہ آپا بڑی کمزور آواز میں بولیں، ’’ٹھیک ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم لوگ خدا کے لیے فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ، سو جائو۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ سوتے میں ڈر گئی تھی۔‘‘
’’زبیدہ آپا۔۔۔ دروازہ کھولیے۔۔۔‘‘ باجی نے چلا کر کہا۔ ’’چلے جاؤ تم لوگ۔۔۔ ورنہ میں پھر چیخوں گی۔۔۔‘‘ زبیدہ آپا اندر سے ہسٹریائی آواز میں دہاڑیں۔
صبح کو ان کا چہرہ بالکل ستا ہوا اور سفید تھا۔ ناشتے کے بعد جب کھانے کا کمرہ خالی ہوگیا تو انہوں نے باجی کو آہستہ سے مخاطب کیا، ’’میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا۔ میں ایک چلہ کر رہی تھی انتالیس راتیں پوری ہوچکی تھیں۔ کل چالیسویں اور آخری رات تھی۔ حکم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں اس جلالی وظیفے کے دوران میں مڑ کر نہ دیکھوں ورنہ اس کا سارا اثر ختم ہوجائے گا۔ اور کل رات۔۔۔ دو بجے کے قریب وظیفہ پڑھنے میں میں نے اچانک دیکھا کہ جائےنماز کے سامنے ایک گدھے کی جسامت کا ہیبت ناک سیاہ کتا میرے مقابل میں بیٹھا دانت نکوس رہا ہے۔۔۔ میں نے دہل کر چیخ ماری اور چلہ ٹوٹ گیا۔ کتا غائب ہوگیا۔ مگر میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور انہوں نے عینک اتار کر پلکیں خشک کیں۔ باجی ہکا بکا ہوکر انہیں دیکھنے لگیں۔۔۔ ’’مگر زبیدہ آپا۔۔۔ آپ تو۔۔۔ آپ تو سائنسداں ہیں۔ مانچسٹر یونیورسٹی سے پڑھ کر آئی ہیں۔ اور ایسی توہم پرستی کی باتیں کرتی ہیں۔ ہوش کی دوا کیجئے۔ آپ کو ہیلوسی نیشن (hallucination) ہوا ہوگا۔۔۔ گدھے کے برابر کتا۔۔۔ اور وہ آپ سے آپ غائب بھی ہوگیا۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر باجی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
’’ریحانہ خاتون۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صدیقی نے سر نیہوڑا کر باجی کو گہری نظر سے دیکھا اور آہستہ آہستہ کہا۔ ’’تم ابھی صرف بائیس برس کی ہو تمہارے ماں باپ اور محبت کرنے والے چچاؤں کا سایہ تمہارے سر پر قائم ہے۔ تم ایک بھرے پرے کنبے میں، اپنے چہیتے بہن بھائیوں کے ساتھ، سکھ کی چھاؤں میں زندہ ہو۔ اپنی پسند کے نوجوان سے تمہارا بیاہ ہونے والا ہے۔۔۔ ساری زندگی تمہاری منتظر ہے، دنیا کی ساری مسرتیں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔ خدا نہ کرے تم پر کبھی ایسی قیامت گزرے جو مجھ پر گزر رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ تمہیں کبھی تنِ تنہا اپنی تنہائی کا مقابلہ کرنا پڑے۔۔۔ کسی کی بے بسی اور اس کے دکھی دل کا مذاق نہ اڑائو۔۔۔‘‘ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑگئی جو میز کے سرے پر بیٹھی مستعدی سے جاسوسی میں مصروف تھی۔ کیونکہ گدھے کے برابر سیاہ کتا ایک انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئیں۔ باجی نے پلکیں جھپکا کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اڑنچھوں ہو جاؤں۔ چنانچہ میں اڑنچھو ہوگئی۔
اس واقعے کے دوسرے دن ڈاکٹر صدیقی کلکتہ روانہ ہوگئیں۔ اور ان کے جانے کے چند روز بعد ہی ایک انوکھی اور بن بلائی مہمان اتریں۔
ڈالن والا کی سڑکیں عموماً خاموش پڑی رہتی تھیں۔ اکا دکا راہگیر یا موٹروں اور تانگوں کے علاوہ کبھی کبھار کوئی سکھ جوتشی ہاتھ میں سرٹیفکیٹوں کا میلا سا پلندہ سنبھالے ادھر ادھر تاکتا سامنے سے گزر جاتا تھا۔ یا موٹے موٹے ’چائینا مین‘ زین میں بڑی نفاست سے بندھے ہوئے بے حد وزنی گٹھر سائیکلوں پر لادے چکر کاٹا کرتے تھے، یا کشمیری قالین فروش یا بزاز یا قیمتی پتھر فروخت کرنے والا پھیری لگا جاتے تھے۔
مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ان ہی پھیری والوں میں سے ایک تھے۔ مگر وہ اپنے آپ کو ٹریولنگ سیلزمین کہتے تھے۔ اور انتہا سے زیادہ چرب زبان اور لسان آدمی تھے۔ موصوف مسلمان سے عیسائی ہوگئے تھے۔ ترکی ٹوپی اوڑھتے تھے اور سائیکل پر پلاسٹک کے برتن بیچتے گھوما کرتے تھے، اور مہینے دو مہینے میں ایک بار ہماری طرف کا پھیرا لگا جاتے تھے۔ وہ اپنی ہر بات کا آغاز ’خدا باپ کا شکر ہے‘ سے کرتے تھے اور کبھی کبھی تبلیغ بھی شروع کردیتے تھے۔
اس دن مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں جو سائیکل برساتی میں ٹکا کر برآمدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے ناک کی سیدھ جا کر مہمان کمرے کے اندر جھانکا جس کا دروازہ کھلا پڑا تھا اور اطمینان سے اظہارِ خیال کیا، ’’ہوں۔ تو یہ کمرہ تو ہمیشہ خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ بات یہ ہے کہ میری ایک بہن ہیں۔ وہ لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ اور چند روز کے لیے دہرہ دون آرہی ہیں۔‘‘ اس کے بعد جواب کا انتظار کیے بغیر وہ سائیکل پر بیٹھ کر غائب ہوگئے۔
تیسرے روز جاپانی جارجٹ کی ملا گیری ساڑی میں ملبوس ایک بے حد فربہ خاتون تانگے سے اتریں۔ مسٹر سردار خاں سائیکل پر ہم رکاب تھے۔ انہوں نے اسباب اتار کر مہمان کمرے میں پہنچایا اور والدہ اور باجی سے ان کا تعارف کرایا۔۔۔ ’’یہ میری بہن ہیں۔ آپ کے یہاں دو تین دن رہیں گی۔ اچھا، اب میں جاتا ہوں۔‘‘ پھر خاتون کو مخاطب کیا۔۔۔ ’’بھئی تم کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو بلا تکلّف بیگم صاحبہ سے کہہ دینا۔۔۔ اپنا ہی گھر سمجھو، اچھا۔۔۔ بائی بائی۔۔۔ ‘‘ اور سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
یہ ایک مسلمان بی بی تھیں، جنہوں نے یہ نہ بتایا کہ کہاں سے آرہی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ محض اس امر سے انہوں نے آگاہ کیا کہ پرائیوٹ طور پر ہومیوپیتھک ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں۔ اور شام کے وقت اپنے اٹیچی کیس میں سے ایک
- क़ुर्रतुलऐन-हैदर
میں نے شاہدہ سے کہا، تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔ شاہدہ نے کہا، آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔ میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک خادمہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میں چپکے سے برابر والے کمرے میں پہنچی اور مسہری کے تکیہ کے نیچے سے کنجی کا گچھا لیا۔ سیدھی کمرے پر واپس آئی اور شاہدہ سے کہا، جلدی چلو۔
ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔
وہ دیکھ! وہ دیکھ! وہ اچھا ہے شاہدہ نے کہا۔
نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ ادھر سے۔ یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہوگی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔
یہ لے! شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا، کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟
کمبخت یہ دوہا جو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجؤ۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال دے تو میرا نام پلٹ کر رکھ دیجؤ۔ دیکھتی نہیں کہ بس کی گانٹھ کتنا شریر ہے اور پھر راتوں کو تیری سوت خواب میں الگ آکر گلا دبائےگی۔
تو تو پاگل ہو گئی ہے۔ میں نے کہا۔ شاہدہ ڈھنگ کی باتیں کر۔ شاہدہ ہنستے ہوئے بولی، میری بلا سے۔ کل کی کرتی تو آج کر لے میری دانست میں تو اس پروفیسر کو بھی کوئی ایسی ہی ملے تو ٹھیک رہے جو دو تین موذی بچے جہیز میں لائے اور وہ اس کے چھوکرے کو مارتے مارتے اتو کر دیں۔ چل رکھ اس کو۔۔۔ دوسری دیکھ۔
پہلی تصویر پر یہ ریمارکس پاس کیےگیے اور اس کو جوں کا توں رکھ کر دوسری تصویر اٹھائی اور شاہدہ سے پوچھا، یہ کیسا ہے؟ شاہدہ غور سے دیکھ کر بولی، ویسے تو ٹھیک ہے مگر ذرا کالا ہے۔ کون سے درجے میں پڑھتا ہے ؟ میں نے تصویر دیکھ بھال کر کہا، بی۔اے۔ میں پڑھتا ہے۔ کالا تو ایسا نہیں ہے۔ شاہدہ نے کہا، ہوں! یہ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے، جسے دیکھتی ہے اس پہ عاشق ہوئی جاتی ہے۔ نہ کالا دیکھتی ہے نہ گورا، نہ بڈھا دیکھتی ہے نہ جوان! میں نے زور سے شاہدہ کے چٹکی لے کر کہا، کمبخت میں نے تجھے اس لیے بلایا تھا کہ تو مجھے تنگ کرے! غور سے دیکھ۔ غور سے تصویر دیکھ کر اور کچھ سوچ کر شاہدہ بولی، نہ بہن یہ ہر گز ٹھیک نہیں، میں تو کہہ چکی، آئندہ تو جانے۔
میں نے کہا، خط تو دیکھ بڑے رئیس کا لڑکا ہے۔ یہ تصویر ایک طالب علم کی تھی جو ٹینس کا بلا لیے بیٹھا تھا۔ دو تین تمغے لگائے ہوئے تھا اور دو تین جیتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔شاہدہ بولی، ویسے تو لڑکا بڑا اچھا ہے۔ عمر میں تیرے جوڑ کا ہے۔ مگر ابھی پڑھتا ہے اور تیرا بھی شوکت کا سا حال ہوگا کہ دس روپے ماہوار جیب خرچ اور کھانے اور کپڑے پر نوکر ہو جائےگی اور دن رات ساس نندوں کی جوتیاں، یہ تو جھگڑا ہے۔ میں نے کہا، بی۔ اے۔ میں پڑھتا ہے، سال دو سال میں نوکر ہو جائےگا۔
ٹینس کا جمعدار ہو رہا ہے تو دیکھ لیجؤ دو تین دفعہ فیل ہوگا اور ساس نندیں بھی کہیں گی کہ بیوی پڑھنے نہیں دیتی اور پھر دوڑنے دھوپنے کا شوقین، تجھے رپٹا مارےگا۔ ویسے تو لڑکا اچھا ہے، صورت بھی بھولی بھالی ہے اور ایسا ہے کہ جب شرارت کرے، اٹھا کر طاق پر بٹھا دیا۔ مگر نہ بابا میں رائے نہ دوں گی۔ اس تصویر کو بھی رکھ دیا اور اب دوسرا بنڈل کھولا اور ایک اور تصویر نکلی۔
آخاہ! یہ موا پان کا غلام کہاں سے آیا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، دیکھ تو کمبخت کی داڑھی کیسی ہے اور پھر مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے! میں بھی ہنسنے لگی۔ یہ ایک معزز رئیس آنریری مجسٹریٹ تھے اور ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ مگر مجھ کو یہ ذرہ بھر پسند نہ آئے۔ غور سے شاہدہ نے تصویر دیکھ کر پہلے تو ان کی نقل بنائی اور پھر کہنے لگی، ایسے کو بھلا کون لڑکی دےگا؟ نہ معلوم اس کے کتنی لڑکیاں اور بیویاں ہوں گی۔ پھینک اسے۔ یہ تصویر بھی رکھ دی گئی اور دوسرا بنڈل کھول کر ایک اور تصویر لی، یہ تو گبرو جوان ہے؟ اس سےتو فورا کر لے۔ شاہدہ تصویر دیکھ کر بولی، یہ ہے کون! ذرا دیکھ۔میں نے دیکھ کر بتایا کہ ڈاکٹر ہے۔
بس بس، یہ ٹھیک، خوب تیری نبض ٹٹول ٹٹول کے روز تھرمامیٹر لگائےگا۔ صورت شکل ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، میرا میاں بھی ایسا ہی ہٹا کٹا موٹا تازہ ہے میں نے ہنس کر کہا، کمبخت آخر تو ایسی باتیں کہاں سے سیکھ آئی ہے، کیا تو نے اپنے میاں کو دیکھا ہے؟
دیکھا تو نہیں مگر سنا ہے کہ بہت اچھا ہے۔
بھدا سا ہو گا۔
شاہدہ نے چیں بچیں ہو کر کہا، اتنا تو میں جانتی ہوں کہ جو کہیں تو اسے دیکھ لے تو شاید لٹو ہی ہو جائے۔
میں نے اب ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو غور سے دیکھا اور نکتہ چینی شروع کی۔ نہ اس لیے کہ مجھے یہ ناپسند تھے، بلکہ محض اس لیے کہ کچھ رائے زنی ہو سکے۔ چنانچہ میں نے کہا، ان کی ناک ذرا موٹی ہے۔
سب ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے کہا۔ ذرا اس کا خط دیکھ۔ میں نے دیکھا کہ صرف دو خط ہیں۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی پہلی بیوی موجود ہیں مگر پاگل ہو گئی ہیں۔پھینک پھینک اسے کمبخت کو پھینک۔شاہدہ نے جل کر کہا، جھوٹا ہے کمبخت کل کو تجھے بھی پاگل خانہ میں ڈال کے تیسری کو تکے گا۔ ڈاکٹر صاحب بھی نامنظور کر دیے گیے اور پھر ایک اور تصویر اٹھائی۔
شاہدہ نے اور میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ یہ تصویر ایک نو عمر اور خوبصورت جوان کی تھی۔ شاہدہ نے پسند کرتے ہوئے کہا، یہ تو ایسا ہے کہ میری بھی رال ٹپکی پڑ رہی ہے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت جوان ہے۔ بس اس سے تو آنکھ میچ کے کر لے اور اسے گلے کا ہار بنا لیجیو۔ ہم دونوں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا ہر طرح دونوں نے پسند کیا اور پاس کر دیا۔ شاہدہ نے اس کے خط کو دیکھنے کو کہا۔ خط جو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ولایت میں پڑھتے ہیں۔
ارے توبہ توبہ، چھوڑ اسے۔ شاہدہ نے کہا۔
میں نے کہا، کیوں۔ آخر کوئی وجہ؟
وجہ یہ کہ بھلا اسے وہاں میمیں چھوڑیں گی۔ عجب نہیں کہ ایک آدھ کو ساتھ لے آئے۔
میں نے کہا، واہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ احمد بھائی کو دیکھو، پانچ سال ولایت میں رہے تو کیا ہو گیا۔
شاہدہ تیزی سے بولی، بڑے احمد بھائی احمد بھائی، رجسٹر لے کر وہاں کی بھاوجوں کے نام لکھنا شروع کرےگی تو عمر ختم ہو جائےگی اور رجسٹر تیار نہ ہوگا۔ میں تو ایسا جوا نہ کھیلوں اور نہ کسی کو صلاح دوں۔ یہ ادھار کا سا معاملہ ٹھیک نہیں۔
یہ تصویر بھی ناپسند کر کے رکھ دی گئی اور اس کے بعد ایک اور نکالی۔ شاہدہ نے تصویر دیکھ کر کہا، یہ تو اللہ رکھے اس قدر باریک ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائیں گے۔ علاوہ اس کے کوئی آندھی بگولا آیا تو یہ اڑ اڑا جائیں گے اور تو رانڈ ہو جائےگی۔ اسی طرح دو تین تصویریں اور دیکھی گئیں کہ اصل تصویر آئی اور میرے منہ سے نکل گیا، اخاہ۔
مجھے دے۔ دیکھوں، دیکھوں۔ کہہ کر شاہدہ نے تصویر لے لی۔ہم دونوں نے غور سے اس کو دیکھا۔ یہ ایک بڑی سی تصویر تھی۔ ایک تو وہ خود ہی تصویر تھا اور پھر اس قدر صاف اور عمدہ کھینچی ہوئی کہ بال بال کا عکس موجود تھا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، اسے مت چھوڑیو۔ ایسے میں تو میں دو کر لوں۔ یہ آخر ہے کون۔۔۔؟ تصویر کو الٹ کر دیکھا جیسے دستخط اوپر تھے ایسے ہی پشت پر تھے مگر شہر کا نام لکھا ہوا تھا اور بغیر خطوط کے دیکھے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ کس کی تصویر ہے۔ میں نے شاہدہ سے کہا، یہ وہی ہے جس کا میں نے تجھ سے اس روز ذکر کیا تھا۔
اچھا یہ بیرسٹر صاحب ہیں۔ شاہدہ نے پسندیدگی کے لہجہ میں کہا، صورت شکل تو خوب ہے، مگر ان کی کچھ چلتی بھی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا، ابھی کیا چلتی ہوگی۔ ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔
تو پھر ہوا کھاتے ہوں گے۔ شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ خیر تو اس سے ضرور کر لے۔ خوب تجھے موٹروں پر سیر کرائےگا، سینما اور تھیٹر دکھائےگا اور جلسوں میں نچائےگا۔
میں نے کہا، کچھ غریب تھوڑی ہیں۔ ابھی تو باپ کے سر کھاتے ہیں۔
شاہدہ نے چونک کر کہا، اری بات تو سن۔
میں نے کہا، کیوں۔
شاہدہ بولی، صورت شکل بھی اچھی ہے۔ خوب گورا چٹا ہے۔ بلکہ تجھ سے بھی اچھا ہے اور عمر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ کہیں کوئی میم ویم تو نہیں پکڑ لایا ہے۔میں نے کہا، مجھے کیا معلوم۔ لیکن اگر کوئی ساتھ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔
ٹھیک ٹھیک۔ شاہدہ نے سر ہلا کر کہا، بس اللہ کا نام لے کر پھانس میں نے خط اٹھائے اور شاہدہ دوسری تصویریں دیکھنے لگی۔ میں خط پڑھ رہی تھی اور وہ ہر ایک تصویر کا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے خوش ہو کر اس کو چپکے چپکے خط کا کچھ حصہ سنایا۔ شاہدہ سن کر بولی الا اللہ! میں نے اور آگے پڑھا تو کہنے لگی۔ وہ مارا۔ غرض خط کا سارا مضمون سنایا۔ شاہدہ نے خط سن کر کہا کہ، یہ تو سب معاملہ فٹ ہے اور چول بیٹھ گئی ہے۔ اب تو گڑ تقسیم کر دے۔
پھر ہم دونوں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا۔ دونوں نے رہ رہ کر پسند کیا۔ یہ ایک نوعمر بیرسٹر تھے اور غیر معمولی طور پر خوبصورت معلوم ہوتے تھے اور ناک نقشہ سب بےعیب تھا۔ شاہدہ رہ رہ کر تعریف کر رہی تھی۔ ڈاڑھی مونچھیں سب صاف تھیں اور ایک دھاری دار سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ میں نے بیرسٹر صاحب کے دوسرے خط پڑھے اور مجھ کو کل حالات معلوم ہو گیے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیرسٹر صاحب بڑے اچھے اور رئیس گھرانے کے ہیں اور شادی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ آخری خط سے پتہ چلتا تھا کہ صرف شادی کی تاریخ کے معاملہ میں کچھ تصفیہ ہونا باقی ہے۔
میں نے چاہا کہ اور دوسرے خط پڑھوں اور خصوصا آنریری مجسٹریٹ صاحب کا مگر شاہدہ نے کہا، اب دوسرے خط نہ پڑھنے دوں گی۔ بس یہی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا، ان کے ذکر کی بھنک ایک مرتبہ سن چکی ہوں۔ آخر دیکھ تو لینے دے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔
شاہدہ نے جھٹک کر کہا، چل رہنے دے اس موذی کا ذکر تک نہ کر۔ میں نے بہت کچھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ قصہ مختصر جلدی جلدی سب چیزیں جوں کی توں رکھ دیں اور الماری بند کر کے میں نے مردانہ زینہ کا دروازہ کھولا اور شاہدہ کے ساتھ چپکے سے جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس ہوئی۔ جہاں سے کنجی لی تھی، اسی طرح رکھ دی۔ شاہدہ سے دیر تک بیرسٹر صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاہدہ کو میں نے اسی لیے بلایا تھا۔ شام کو وہ اپنے گھر چلی گئی مگر اتنا کہتی گئی کہ خالہ جان کی باتوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تیری شادی اب بالکل طے ہو گئی اور تو بہت جلد لٹکائی جائےگی۔
(۲)
اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔
آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی تھیں کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔
ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بےحد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا اور میں تاک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کہ اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیے لیتے ہیں تو بسم اللہ۔ ہم کو ہماری لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔
اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائےگی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بےتکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے نکال دیجئے کہ سال بھر سے پہلے شادی کر دی جائے۔ اماں جان نے بھی اس جواب کو پسند کیا اور پھر انہی آنریری مجسٹریٹ صاحب کے تذکرہ سے میرے کانوں کی تواضع کی گئی۔
ان سب باتوں سے میرا ایسا جی گھبرایا کہ اماں جان سے میں نے شاہدہ کے گھر جانے کی اجازت لی اور یہ سوچ کر گئی کہ تین چار روز نہ آؤں گی۔
شاہدہ کے ہاں جو پہنچی تو اس نے دیکھتے ہی معلوم کر لیا کہ کچھ معاملہ دگرگوں ہے۔ کہنے لگی کہ ، کیا تیرے بیرسٹر نے کسی اور کو گھر میں ڈال لیا؟
میں اس کا بھلا کیا جواب دیتی۔ تمام قصہ شروع سے آخیر تک سنا دیا کہ کس طرح وہ جلدی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد شادی ہو جائے۔ مگر اماں جان راضی نہیں ہوتیں۔ یہ سب سن کر اور مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر وہ شریر بولی، خوب! چٹ منگنی پٹ بیاہ بھلا ایسا کون کرےگا۔ مگر ایک بات ہے۔ میں نے کہا، وہ کیا؟ وہ بولی، وہ تیرے لئے پھڑک رہا ہے اور یہ فال اچھی ہے۔ میں نے جل کر کہا، یہ تو فال نکال رہی ہے اور مذاق کر رہی ہے۔
پھر کیا کروں؟ شاہدہ نے کہا۔ (کیونکہ واقعی وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی ہے۔)
میں نے کہا، کوئی مشورہ دو۔ صلاح دو۔ دونوں مل کر سوچیں۔
پاگل نہیں تو۔ شاہدہ نے میری بیوقوفی پر کہا، دیوانی ہوئی ہے، میں صلاح کیا دوں؟
اچھا مجھے پتہ بتا دے۔ میں بیرسٹر صاحب کو لکھ بھیجوں کہ ادھر تو اس چھوکری پر نثار ہو رہا ہے اور ادھر یہ تیرے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے، آکے تجھے بھگا لے جائے۔
خدا کی مار تیرے اوپر اور تیری صلاح کے اوپر۔ میں نے کہا۔ کیا میں اسی لئے آئی تھی؟ میں جاتی ہوں۔ یہ کہہ کر میں اٹھنے لگی۔
تیرے بیرسٹر کی ایسی تیسی۔ شاہدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ جاتی کہاں ہے شادی نہ بیاہ، میاں کا رونا روتی ہے۔ تجھے کیا؟ کوئی نہ کوئی ماں کا جایا آ کر تجھے لے ہی جائےگا۔ چل دوسری باتیں کر۔
یہ کہہ کر شاہدہ نے مجھے بٹھا لیا اور میں بھی ہنسنے لگی۔ دوسری باتیں ہونے لگیں۔ مگر یہاں میرے دل کو لگی ہوئی تھی اور پریشان بھی تھی۔ گھوم پھر کر وہی باتیں ہونے لگیں۔ شاہدہ نے جو کچھ ہمدردی ممکن تھی وہ کی اور دعا مانگی اور پھر آنریری مجسٹریٹ کو خوب کوسا۔ اس کے علاوہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ خود نماز کے بعد دعا مانگنے کا وعدہ کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ نماز کے بعد روزانہ دعا مانگا کر۔ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ میں۔میں گھر سے کچھ ایسی بیزار تھی کہ دو مرتبہ آدمی لینے آیا اور نہ گئی۔ چوتھے روز میں نے شاہدہ سے کہا کہ، اب شاید خط کا جواب آ گیا ہوگا اور میں کھانا کھا کے ایسے وقت جاؤں گی کہ سب سوتے ہوں۔ تاکہ بغیر انتظار کئے ہوئے مجھے خط دیکھنے کا موقع مل جائے۔
چلتے وقت میں ایسے جا رہی تھی جیسے کوئی شخص اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے جا رہا ہو۔ میری حالت عجیب امید و بیم کی تھی۔ نہ معلوم اس خط میں بیرسٹر صاحب کے والد نے انکار کیا ہوگا یا منظور کر لیا ہوگا کہ ہم سال بھر بعد شادی پر رضامند ہیں۔ یہ میں بار بار سوچ رہی تھی۔ چلتے وقت میں نے اپنی پیاری سہیلی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور سے دبایا۔ نہ معلوم کیوں میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ شاہدہ نے مذاق کو رخصت کرتے ہوئے کہا، بہن خدا تجھے اس موذی سے بچائے۔ تو دعا مانگ اچھا۔ میں نے چپکے سے کہا، اچھا۔
(۳)
شاہدہ کے یہاں سے جو آئی تو حسب توقع گھر میں سناٹا پایا۔ اماں جان سو رہی تھیں۔ اور ابا جان کچہری جا چکے تھے۔ میں نے چپکے سے جھانک کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دوڑ کر مردانہ زینہ کا دروازہ بھی بند کر دیا اور سیدھی کمرہ میں پہنچی۔ وہاں پہنچی تو ششدر رہ گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا چمڑے کا ٹرنک کھلا پڑا ہے اور پاس کی کرسی پر اور ٹرنک میں کپڑوں کے اوپر مختلف چیزوں کی ایک دکان سی لگی ہوئی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ کون ہے، جو اس طرح سامان چھوڑ کر ڈال گیا ہے۔ کیا بتاؤں میرے سامنے کیسی دکان لگی ہوئی اور کیا کیا چیزیں رکھی تھیں کہ میں سب بھول گئی اور انہیں دیکھنے لگی۔ طرح طرح کی ڈبیاں اور ولائتی بکس تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے سب سے پیشتر جھٹ سے ایک سنہرا گول ڈبہ اٹھا لیا۔ میں اس کو تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ یہ گنی کے سونے کا ڈبہ تھا اور اس پر سچی سیپ کا نفیس کام ہوا تھا۔ اودی اودی کندن کی جھلک بھی تھی۔ ڈھکنا تو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں موتی جڑے ہوئے تھے اور کئی قطاریں ننھے ننھے سمندری گھونگھوں کی اس خوبصورتی سے سونے میں جڑی ہوئی تھیں کہ میں دنگ رہ گئی۔
میں نے اسے کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا پوؤڈر لگانے کا پف رکھا ہوا تھا اور اس کے اندر سرخ رنگ کا پاؤڈر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پف نکال کر اس کے نرم نرم روئیں دیکھے جن پر غبار کی طرح پاؤڈر کے مہین ذرے گویا ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے یہ کتنا نرم ہے، میں نے اس کو اپنے گال پر آہستہ آہستہ پھرایا اور پھر اس کو واپس اسی طرح رکھ دیا۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ مرے گال پر سرخ پاؤڈر جم گیا۔ میں نے ڈبہ کو رکھا ہی تھا کہ میری نظر ایک تھیلی پر پڑی۔ مہ سبز مخمل کی تھیلی تھی۔ جس پر سنہری کام میں مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔
میں نے اس کو اٹھایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ دراصل یہ ولایتی ربڑ کی تھیلی تھی، جو مخمل سے بھی زیادہ خوبصورت اور نرم تھی، میں نے غور سے سنہری کام کو دیکھا۔ کھول کر جو دیکھا تو اندر دو چاندی کے بالوں میں کرنے کے برش تھے اور ایک ان ہی کے جوڑ کا کنگھا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا اور چھوٹی خوبصورت ڈبیوں کو دیکھا۔ کسی میں سیفٹی پن تھا، کسی میں خوبصورت سا بروچ تھا اور کسی میں پھول تھا۔ غرض طرح طرح کے بروچ اور بلاؤس پن وغیرہ تھے۔ دو تین ڈبیاں ان میں ایسی تھیں جو عجیب شکل تھیں۔ مثلاً ایک بالکل کتاب کی طرح تھی اور ایک کرکٹ کے بلے کی طرح تھی۔ ان میں بعض ایسی بھی تھیں جو مجھ سے کسی طرح بھی نہ کھلیں۔ علاوہ ان کے سگریٹ کیس، دیا سلائی کا بکس وغیرہ وغیرہ۔ سب ایسی کہ بس ان کو دیکھا ہی کرے۔
میں ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مخمل کے ڈبہ کا کونہ ٹرنک میں ریشمی رومالوں میں مجھے دبا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کو نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کاٹنے اور گھسنے کے اوزار رکھے ہوئے تھے اور ڈھکنے میں ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو جوں کا توں اسی جگہ رکھا تو میرے ہاتھ ایک اور مخمل کا ڈبہ لگا۔ اس کو جو میں نے نکال کر کھولا تو اس کے اندر سے سبز رنگ کا ایک فاؤنٹین پن نکلا۔ جس پر سونے کی جالی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ ایک چھوٹی سے سنہری رنگ کی ڈبیہ پر نظر پڑی۔ اس کو میں نے کھولنا چاہا۔ مگر وہ کمبخت نہ کھلنا تھی نہ کھلی۔ میں اس کو کھول ہی رہی تھی کہ ایک لکڑی کے بکس کا کونہ نظر پڑا۔ میں نے اس کو فوراً ٹرنک سے نکال کر دیکھا۔ یہ ایک بھاری سا خوبصورت بکس تھا۔ اس کو جو میں نے کھولا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس کے اندر سے ایک صاف شفاف بلور کا عطردان نکلا جو کوئی بالشت بھر لمبا اور اسی مناسبت سے چوڑا تھا۔ میں نے اس کو نکال کر غور سے دیکھا اور لکڑی کا بکس جس میں یہ بند تھا، الگ رکھ دیا۔
عجیب چیز تھی۔ اس کے اندر کی تمام چیزیں باہر سے نظر آ رہی تھیں۔ اس کے اندر چوبیس چھوٹی چھوٹی عطر کی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے خوشنما رنگ روشنی میں بلور میں سے گزر کر عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ میں اس کو چاروں طرف سے دیکھتی رہی اور پھر کھولنا چاہا۔ جہاں جہاں بھی جو بٹن نظر آئے میں نے دبائے مگر یہ نہ کھلا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی کہ میری نظر کسی تصویر کے کونے پر پڑی جو ٹرنک میں ذرا نیچے کو رکھی تھی۔ میں نے تصویر کو کھینچ کر نکالا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مخمل کی ڈبیہ رومالوں اور ٹائیوں میں لڑھکتی ہوئی چلی آئی اور کھل گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں ایک خوبصورت انگوٹھی جگ مگ جگمگ کر رہی ہے۔ فوراً تصویر کو چھوڑ کر میں نے اس ڈبیا کو اٹھایا اور انگوٹھی کو نکال کر دیکھا۔ بیچ میں اس کے ایک نیلگوں رنگ تھا اور ارد گرد سفید سفید ہیرے جڑے تھے۔ جن پر نگاہ نہ جمتی تھی۔ میں نے اس خوبصورت انگوٹھی کو غور سے دیکھا اور اپنی انگلیوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کسی میں تنگ تھی تو کسی میں ڈھیلی۔ مگر سیدھے ہاتھ کی چھنگلی کے پاس والی انگلی میں میں نے اس کو زور دے کر کسی نہ کسی طرح تمام پہن تو لیا اور پھر ہاتھ اونچا کر کے اس کے نگینوں کی دمک دیکھنے لگی۔ میں اسے دیکھ بھال کر ڈبیا میں رکھنے کے لئے اتارنے لگی تو معلوم ہوا کہ پھنس گئی ہے۔
میرے بائیں ہاتھ میں وہ بلور کا عطردان بدستور موجود تھا اور میں اس کو رکھنے ہی کو ہوئی تاکہ انگلی میں پھنسی ہوئی انگوٹھی کو اتاروں کہ ایکا ایکی میری نظر اس تصویر پر پڑی جو سامنے رکھی تھی اور جس کو میں سب سے پیشتر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں عطردان تو رکھنا بھول گئی اور فوراً ہی سیدھے ہاتھ سے تصویر کو اٹھا لیا اور کاغذ ہٹا کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب سامان بیرسٹر صاحب کا ہے کہ یہ انہی کی تصویر تھی۔ یہ کسی ولایتی دکان کی بنی ہوئی تھی اور رنگین تھی۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی بیرسٹر صاحب غیر معمولی طور پر خوبصورت آدمی ہیں۔ چہرے کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ سیاہ بال تھے اور آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ چہرہ، آنکھ، ناک، غرض ہر چیز اس صفائی سے اپنے رنگ میں موجود تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ۔ کوٹ کی دھاریاں ہوشیار مصور نے اپنے اصلی رنگ میں اس خوبی سے دکھائی تھیں کہ ہر ایک ڈورا اپنے رنگ میں صاف نظر آ رہا تھا۔
میں اس تصویر کو دیکھنے میں بالکل محو تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہوا کی رمق سے وہ کمبخت باریک سا کاغذ دیکھنے میں مخل ہونے لگا۔ میں نے تصویر کو جھٹک کر الگ کیا۔ کیونکہ بایاں ہاتھ گھرا ہوا تھا۔ اس میں وہی بلور کا عطردان تھا پھر اسی طرح کاغذ اڑ کر آیا اور تصویر کو ڈھک دیا۔ میں نے جھٹک کر الگ کرنا چاہا۔ مگر وہ چپک سا گیا اور علیحدہ نہ ہوا۔ تو میں نے منہ سے پھونکا اور جب بھی وہ نہ ہٹا تو میں نے اونھ کر کے بائیں ہاتھ کی انگلی سے جو کاغذ کو ہٹایا تو وہ بلور کا عطردان بھاری تو تھا ہی ہاتھ سے پھسل کر چھوٹ پڑا اور چھن سے پختہ فرش پر گر کر کھیل کھیل ہو گیا۔
میں دھک سے ہو گئی اور چہرہ فق ہو گیا۔ تصویر کو ایک طرف پھینک کے ایک دم سے شکستہ عطردان کے ٹکڑے اٹھا کر ملانے لگی کہ ایک نرم آواز بالکل قریب سے آئی، تکلیف نہ کیجئے، آپ ہی کا تھا۔ آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو جیتی جاگتی اصلی تصویر بیرسٹر صاحب کی سامنے کھڑی ہے! تعجب!! اس تعجب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا کہ الہٰی یہ کدھر سے آ گیے۔ دو تین سیکنڈ تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں کہ ایک دم سے میں نے ٹوٹے ہوئے عطردان کے ٹکڑے پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر جھٹ سے دروازہ کی آڑ میں ہو گئی۔
(۴)
میری حالت بھی اس وقت عجیب قابل رحم تھی۔ بلیوں دل اچھل رہا تھا ۔یہ پہلا موقع تھا جو میں کسی نامحرم اور غیر شخص کے ساتھ اس طرح ایک تنہائی کے مقام پر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ عین چوری کرتے پکڑی گئی۔ سارا ٹرنک کرید کرید کر پھینک دیا تھا اور پھر عطردان توڑ ڈالا، اور نہایت ہی بے تکلفی سے انگوٹھی پہن رکھی تھی۔
اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے تھی۔ سارے بدن میں ایک سنسنی اور رعشہ سا تھا کہ ذرا ہوش بجا ہوئے تو فوراً انگوٹھی کا خیال آیا۔ جلدی جلدی اسے اتارنے لگی۔ طرح طرح سے گھمایا۔ طرح طرح سے انگلی کو دبایا اور انگوٹھی کو کھینچا۔ مگر جلدی میں وہ اور بھی نہ اتری۔ جتنی دیر لگ رہی تھی، اتنا ہی میں اور گھبرا رہی تھی۔ پل پل بھاری تھا، اور میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہر طرح انگوٹھی اتارنے کو کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ نہ اترتی تھی۔ غصہ میں میں نے انگلی مروڑ ڈالی۔ مگر کیا ہوتا تھا۔ غرض میں بےطرح انگوٹھی اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے کہ انگوٹھی آپ کو پسند تو آ گئی۔
یہ سن کر میرے تن بدن میں پسینہ آ گیا اور میں گویا کٹ مری۔ میں نے دل میں کہا کہ میں منہ چھپا کر جو بھاگی تو شاید انگوٹھی انہوں نے دیکھ لی۔ اور واقعہ بھی دراصل یہی تھا۔ اس جملہ نے میرے اوپر گویا ستم ڈھایا۔ میں نے سن کر اور بھی جلدی جلدی اس کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ انگوٹھی کمبخت ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میرا دل انجن کی طرح چل رہا تھا اور میں کٹی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ کیونکر اس نامراد انگوٹھی کو اتاروں۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب آڑ سے ہی بولے، اس میں سے اگر اور کوئی چیز پسند ہو تو وہ بھی لے لیجئے۔ میں نے یہ سن کر اپنی انگلی مروڑ تو ڈالی کہ یہ لے تیری یہ سزا ہے، مگر بھلا اس سے کیا ہوتا تھا؟ غرض میں حیران اور زچ ہونے کے علاوہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔اتنے میں بیرسٹر صاحب پھر بولے، چونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اپنی منسوبہ بیوی سے باتیں کرنے کا بلکہ ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ہے لہذا میں اس زریں موقع کو کسی طرح ہاتھ سے نہیں کھو سکتا۔
یہ کہہ کر وہ دروازہ سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے اور میں گویا گھر گئی۔ میں شرم و حیا سے پانی پانی ہو گئی اور میں نے سر جھکا کر اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کونہ میں موڑ لیا۔ کواڑ میں گھسی جاتی تھی۔ میری یہ حالت زار دیکھ کر شاید بیرسٹر صاحب خود شرما گیے اور انہوں نے کہا، میں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر۔۔۔ یہ کہہ کر سامنے مسہری سے چادر کھینچ کر میرے اوپر ڈال دی اور خود کمرے سے باہر جا کر کہنے لگے، آپ مہربانی فرما کر مسہری پر بیٹھ جائیے اور اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔
میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟ میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگی تاکہ انگوٹھی جلد اتر جائے۔اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے، بولیے صاحب جلدی بولیے۔ میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں تو پھر میں حاضر ہوتا ہوں۔میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا، جی نہیں میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟
یا اللہ میں نے تنگ ہو کر کہا، مجھے موت دے۔ یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے عطر دان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا اور گویا میری محنت وصول ہو گئی، مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپنی زبان سے اور کچھ کہہ دیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گیے۔ میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی، گویا اس نے عطر دان توڑا تھا۔ میں عطردان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔ جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔
میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا، بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطر دان۔۔۔
بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا، خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا، خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آپ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں بالکل ٹھیک آئی ہے اور آپ اس کو اب تک از راہ عنایت پہنے ہوئی ہیں۔
میں اب کیا بتاؤں کہ یہ سن کر میرا کیا حال ہوا۔ میں نے دل میں کہا کہ خوب انگوٹھی ٹھیک آئی اور خوب پہنے ہوئے ہوں۔ انگوٹھی نہ ہوئی گلے کی پھانسی ہو گئی۔ جو ایسی ٹھیک آئی کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میں نے دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر یہ کمبخت میری انگلی میں نہ پھنس گئی ہوتی تو کاہے کو میں بے حیا بنتی اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملتا کہ آپ پہنے ہوئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس نامراد انگوٹھی کو اتارنے کے لیے کیا کیا جتن کر چکی ہوں اور برابر کر رہی تھی۔ مگر وہ تو ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میں پھر خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ مگر انگوٹھی اتارنے کی برابر کوشش کر رہی تھی۔
بیرسٹر صاحب نے میری خاموشی پر کہا، آپ پھر جواب سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔ پسند ہے یا ناپسند۔ ان دو جملوں میں سے ایک کہہ دیجیئے۔میں نے پھر غصے میں انگلی کو نوچ ڈالا اور قصہ ختم کرنے کے لیے ایک اور ہی لفظ کہہ دیا، اچھی ہے۔
جی نہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، اچھی ہے اور آپ کو پسند نہیں تو کس کام کی۔ علاوہ اس کے اچھی تو خود دکاندار نے کہہ کر دی تھی، اور میں یہ پوچھتا بھی نہیں، آپ بتائیے کہ آپ کو پسند ہے یا ناپسند، ورنہ پھر حاضر ہونے کی اجازت دیجیئے۔ میں نے دل میں کہا یہ قطعی گھس آئیں گے اور پھر جھک مار کر کہنا ہی پڑےگا، لہذا کہہ دیا۔ پسند ہے۔ یہ کہہ کر میں دانت پیس کر پھر انگلی نوچنے لگی۔
شکریہ۔ بیرسٹر صاحب نے کہا۔صد شکریہ۔ اور اب آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن ایک عرض ہے اور وہ یہ کہ یہ انگوٹھی تو بے شک آپ کی ہے اور شاید آپ اس کو پہن کر اتارنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن مجھ کو مجبوراً آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ شام کو مجھ کو چونکہ اور چیزوں کے ساتھ اس کو رسماً بھجوانا ہے لہذا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس وقت اس کو یہاں چھوڑتی جائیں۔ میں علیحدہ ہوا جاتا ہوں۔ خدا حافظ۔ یہ کہہ کر وہ ہٹ گیے اور میں نے ان کے جانے آواز سنی۔ وہ سامنے کے غسل خانے میں چلے گیے۔ دراصل وہ اسی غسل خانے میں کنگھا وغیرہ کر رہے ہوں گے، جب میں بے خبری میں آکر پھنس گئی۔
اب میں سخت چکر میں تھی اور انگلی سے انگوٹھی اتارنے کی سر توڑ کوشش کی گھبراہٹ اور جلدی میں پاگل سی ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں نے علاوہ ہاتھ کے، دانتوں سے بھی امداد لی اور انگلی میں کاٹ کاٹ کر کھایا مگر وہ کمبخت انگوٹھی جان لیوا تھی اور نہ اترنا تھی نہ اتری۔ میں نے تنگ آ کر اپنا سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہا، ہائے میرے اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ یہ کمبخت تو میری جان لیے لیتی ہے۔
بیرسٹر صاحب غسل خانے میں کھڑے کھڑے تھک گیے اور میں وہیں کی وہیں تھی۔ وہ لوٹ آئے اور بولے، معاف کیجیے نہیں معلوم تھا کہ انگوٹھی اتارنے پر آپ رضامند نہیں اور اس شرط پر جانا بھی نہیں چاہتیں۔ مگر چونکہ اس رسم کا نام ہی انگوٹھی کی رسم ہے، لہذا میں اس کی خالی ڈبیہ رکھ دوں گا۔ اور کہلا دوں گا کہ انگوٹھی آپ کے پاس ہے۔ یہ کہہ کر ذرا رک کر بولے، اور تو کسی بات کا خیال نہیں صرف اتنا کہ آپ کے والد اس کو بدقسمتی سے دیکھ چکے ہیں۔
میں اپنی انگلی توڑ رہی تھی اور یہ سن کر گھبرا گئی۔ یہ تو خیر مذاق تھا کہ وہ کہہ دیں گے انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب ابا جان انگوٹھی دیکھ چکے ہیں تو آخر بیرسٹر صاحب ان سے اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب کو شبہ گزرا کہ میں اس وجہ سے نہیں جا رہی ہوں کہ کہیں وہ غسل خانہ میں سے مجھ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔ لہذا وہ ایک دم سے بولے، اوہو! اب میں سمجھا۔ لیجیے بجائے غسل خانہ کے زینے میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔
میں بےحد پریشان تھی، مجبور تھی کہ اس غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دوں اور اصل وجہ بتا دوں۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الہی کیا کروں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، تو میرا حال تھا اور بیرسٹر صاحب نہ جانے کیا خیال کر رہے تھے۔ بالاخر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ زینے میں روپوش ہونے جا رہے ہیں تو مرتا کیا نہ کرتا، تنگ آ کر نہ معلوم میں نے کس طرح دبی آواز میں کہا، وہ نہیں اترتی۔
ادھر تو میرا یہ حال تھا اور ادھر بیرسٹر صاحب گویا مارے خوشی کے اچھل پڑے اور انہوں نے ہنس کر بڑی خوشی کے لہجہ میں جیسے کوئی بے تکلفی سے کہتا ہے۔ کہا، واللہ!یہ معاملہ ہے!! خدا کرے نہ اترے۔ میں بھلا اس جملے کے بعد کیا بولتی۔ اسی طرح چپ تھی اور اپنی بنتی کوشش کر رہی تھی کہ انگوٹھی اتر آئے۔ لیکن جب دیر ہوئی تو انہوں نے کہا، اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو میں اتار دوں۔
یا اللہ! میں نے اپنے دل میں کہا۔ اب کیا کروں۔ میں تو نہ اترواؤں گی۔ یہ طے کر کے میں پھر کوشش کرنے لگی۔ مگر توبہ کیجیئے وہ بھلا کیوں اترتی۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، وہ آپ سے ہر گز نہ اترےگی۔ کوئی حرج نہیں ہے میں باہر سے اتار دوں گا۔
میں چونکہ اب تنگ آ گئی تھی اور اس مصیبت سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑوانا چاہتی تھی لہذا میں نے مجبوراً ہار کر مسہری پر بیٹھ کر ہاتھ دروازے سے باہر کر دیا۔ بیرسٹر صاحب نے انگلی ہاتھ میں لے کر کہا، شاباش اس انگوٹھی کو! کیوں صاحب تعریف تو آپ بھی کرتی ہوں گی کہ میں کسی ناپ تول کے ٹھیک ٹھیک انگوٹھی لایا ہوں۔ وہ انگوٹھی ہی بھلا کس کام کی جو یہ تماشا نہ دکھائے۔ میں مجبور تھی اور چار و ناچار سن رہی تھی۔ مگر اس جملے پر مجھ کو اس مصیبت میں بھی ہنسی آ گئی کہ دیکھو تو کمبخت کس ناپ کی انگوٹھی آئی کہ مجھے اس مصیبت ڈال دیا۔ انگلی کو انہوں نے خوب ادھر ادھر سے دیکھ کر اور دبا کر کہا، یہ تو پھنس گئی ہے۔ یہ کہہ کو وہ اتارنے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک دم سے بولے، اخاہ! معاف کیجیئےگا۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ اس غریب انگلی پر دانت کس نے تیز کیے ہیں؟ میں نے جھٹ شرمندہ ہو کر ہاتھ اندر کر لیا۔
لائیے۔ لائیے۔بیرسٹر صاحب نے کہا، اب میں کچھ نہ کہوں گا۔
مجبورا پھر ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اور انہوں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ انہوں نے خوب خوب کوشش کی۔ خوب دبایا اور وہ بھی ایسا کہ درد کے مارے میرا حال برا ہو گیا۔ مگر وہ دشمن جان انگوٹھی نہ اترنا تھی نہ اتری۔ لیکن وہ بے چارے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اتنے میں کسی نے مردانہ زینے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیرسٹر صاحب غسل خانے کی طرف چلے کہ، آج شام نہ سہی کل شام مگر براہ کرم یہ انگوٹھی جس طرح بھی ممکن ہو میرے پاس ضرور پہنچا دیجیئےگا۔ چلتے چلتے وہ ایک ستم کا فقرہ اور کہہ گیےاور وہ یہ کہ سرخ پاؤڈر کی آپ کو چنداں ضرورت تو نہ تھی۔میں کٹ ہی تو گئی۔ کیونکہ کم بختی سے ایک گال پر سرخ پاؤڈر لگائے ہوئے تھی جو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
ادھروہ غسل خانے میں بند ہوئے اور ادھر میں چادر پھینک کر سیدھی بھاگی اور اپنے کمرے میں آ کر دم لیا۔ سب سے پہلے آئینہ جو دیکھا تو ایک طرف کے گال پر سرخ پوڈر رنگ دکھا رہا تھا اپنے کو کوستی گئی اور پونچھتی گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے انگلی پر ایک پٹی باندھی تاکہ انگوٹھی چھپ جائے اور بہانہ کر دوں کہ چوٹ لگی ہے۔
(۵)
خیر سے یہ بہانہ کارگر ہوا اور اماں جان نے چوٹ یا زخم تک کی وجہ نہ پوچھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ کر دیا اور وہ ملازمہ سے یہ کہہ کر چپ ہو رہیں۔ رہنے دے اس کا منگیتر آیا ہوا ہے۔ شرم کی وجہ سے نہیں نکل رہی۔ انہیں یا ملازمہ کو بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ کمبخت اس سے ملاقات کر آئی ہے اور صرف ملاقات ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں اس کی بگاڑ آئی ہے۔
تیسرے پہر کا وقت تھا اور مجھ کو ہر لمحہ شاہدہ کا انتظار تھا۔ اس کو میں نے بلوایا تو اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ آج ہی تو میں اس کے یہاں سے آئی تھی۔ میں نے پھر اس کو ایک خط لکھا تھا کہ بہن خدا کے واسطے جس طرح بھی بن پڑے جلد آ، ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔ اس خط کے جواب میں اس کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہی تھی۔میں جانتی تھی کہ وہ ضرور آئےگی۔ چنانچہ وہ آئی۔ میں اس کو لینے بھی نہ گئی۔ اماں جان سےاس کو معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس کی گھبراہٹ رفع ہو گئی اور ہنستی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے نہ سلام نہ دعا کہا، اری کمبخت باہر جا کے ذرا مل تو آ۔
میں تو مل بھی آئی۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ تجھے یقین نہ آئے تو یہ دیکھ۔ یہ کہہ کر میں نے انگلی کھول کر دکھائی۔
میں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا تو شاہدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی، تو نے بڑی مزیدار ملاقات کی۔ یہ کہہ کر وہ چٹکیاں لینے کو آگے بڑھی۔ میں نے کہا، ملاقات تو گئی چولہے میں، اب اس ناہجار انگوٹھی کو کسی طرح اتارو، چاہے انگلی کٹے یا رہے۔ مگر تو اسے اتار دے اور اسی لیے تجھے بلایا ہے۔
شاہدہ نے کہا، خیر یہ اتر تو ابھی آئےگی مگر اسے دینے کیا تو جائےگی؟
اب میں چکرمیں آئی کہ یہ کس طرح جائے گی۔ ایسے جانا چاہیے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ کچھ سوچ کر شاہدہ نے کہا کہ، میں پان میں رکھ کر بھیج دوں گی۔ نوکرانی سے کہلوا دوں گی کہ یہ پان ان کے ہاتھ میں دینا اور کہہ دینا کہ تمہاری سالی نے دیا ہے۔یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ کیونکہ اماں جان یہی خیال کرتیں کہ پان میں کچھ مذاق ہوگا۔ جو نئی بات نہ تھی۔
جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو شاہدہ نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش شروع کی۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اس کا اترنا آسان کام نہیں ہے، تیل اور صابن کی مالش کی گئی مگر بےکار۔ جب ہر طرح کوشش کر لی تو شاہدہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ انگلی سوج گئی ہے اور یہ خدا ہی ہے جو اتارے۔ غرض گھنٹوں اس میں کوشش اور محنت کی گئی۔ بورا سینے کا بڑا سوا لایا گیا۔ چھوٹی بڑی قینچیاں آئیں۔ موچنا لایا گیا۔ کاک نکالنے کا پیچ اور مشین کا پیچ کس۔ غرض جو بھی اوزار ممکن تھا لایا گیا اور استعمال کیا گیا مگر سب بےکار۔
رات کو اسی فکر میں مجھ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ تھک کر میں بیٹھ گئی اور رو رو کر شاہدہ سے کہتی تھی کہ خدا کے لیے کوئی صورت نکال۔ رات کو گرم پانی میں انگلی ڈبوئی گئی اور طرح طرح سے ڈورے ڈال کو کھینچی گئی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رہ رہ کر میں پریشان ہوتی تھی اور شاہدہ جب کوشش کر کے تھک جاتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ خدا کے واسطے مجھے اس انگوٹھی کی مصیبت سے نکال۔
آخر تو عشق بازی کرنے گئی ہی کیوں تھی؟ شاہدہ نے خود تنگ ہو کر مجھ سے پوچھا۔
خدا کی مار پڑے تمہاری عشق بازی پر۔ میں تو اس مصیبت میں گرفتار ہوں اور تمہیں یہ مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں نے منہ بنا کر کہا۔
یہ عشق بازی نہیں تو اور کیا ہے؟ گئیں وہاں اور شوق سے پاؤڈر اور مسی لگاتے لگاتے میاں کے چونچلے میں آکر انگوٹھی پہن لی۔ شاہدہ نے کہا، اب عشق بازی کے مزے بھی چکھو۔ مزے مزے کی باتیں تو کرنے گئیں اور اب۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے کہا، خدا کے لیے ذرا آہستہ بولو۔
قینچی سے انگوٹھی کتر دوں؟
نہ بہن کتراؤں گی نہیں۔ نہ معلوم کتنی قیمتی انگوٹھی ہوگی، ایک تو میں شامت کی ماری عطردان توڑ آئی اور اب اسے کاٹ ڈالوں۔
بھلا مجال ہے جو وہ چوں بھی کر جائے۔ ابھی کہلوا دوں، میاں راستہ دیکھو، ہماری چھوکری فاضل نہیں، کہیں اور مانگ کھاؤ۔ یہ کہہ کر شاہدہ نے قینچی لی اور مجھ سے کہا، لاؤ ادھر لاؤ۔
نہیں نہیں میں نے کہا۔ ایسا نہ کرو۔ پھر وہی کوششیں جاری ہو گئیں۔ غرض انگوٹھی نے رات کو سونا حرام کر دیا۔ رات بھی انگلی طرح طرح سے کھینچی گئی، کبھی میں اپنے آپ کو خوب کوستی تھی اور کبھی انگوٹھی کو برا بھلا کہتی تھی اور کبھی گڑگڑاکر دعا مانگتی تھی کہ خدایا میری مشکل آسان کر دے۔ مجبور ہو کر صبح میں نے شاہدہ سے کہا کہاب میری انگلی ویسے بھی درد کے مارے پھٹی جا رہی ہے؛ تو کاٹ دے۔
شاہدہ نے قینچی سے کاٹنے کی کوشش کی۔ امید تھی کہ سونا ہے اور آسانی سے کٹ جائے گا مگر وہ گنی کا سخت سونا تھا اور تھوڑی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ اس کو کاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ طرح طرح کے اوزار استعمال کیے گیے مگر سب بیکار۔ اب تو میں اور بھی گھبرا گئی اور ایسی حواس باختہ ہوئی کہ شاہدہ سے کہنے لگی کہ مجھے زہر مل جائے تو میں کھا کر اپنا قصہ ختم کر دوں۔ اب شاہدہ بھی متفکر تھی، اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر مجھ سے نرمی سے کہا، کہ اب صرف ایک ترکیب ہے۔
وہ کیا؟
وہ یہ ہے۔ شاہدہ نے مسکرا کر کہا، وہ یہ کہ تم اوپر جاؤ اور اپنے چہیتے سے نکلواؤ، ورنہ شام تک پکڑی جاؤ گی۔ اور ناک چوٹی کٹےگی۔
میں تو کبھی نہ جاؤں گی۔ میں نے کہا۔
یہ باتیں اور وہ بھی ہم سے! شاہدہ نے کہا۔ ذرا دل سے تو پوچھ میں نے واقعہ کہا کہ خدا کی قسم میں کسی طرح بھی جانا پسند نہیں کرتی۔ میں اس وقت بدبخت انگوٹھی کی بدلے جان سے بیزار ہو رہی ہوں۔
شاہدہ بولی، مذاق نہیں کرتی۔ خواہ پسند کرو یا نہ کرو، جانا ضرور پڑےگا۔ کیونکہ گھر کے کسی اوزار سے بھی ناممکن ہے کہ میں یا تم اسے اتار یا کاٹ سکیں۔
میں چپ بیٹھی رہی اور سوچتی رہی۔ شاہدہ نے آہستہ آہستہ سب اونچ نیچ بتائی کہ کوئی نقصان نہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس قدر شرمیلے اور باحیا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کوئی چارہ ہی نہ تھا اور مجبوراً میں راضی ہو گئی۔
(۶)
جب سناٹا ہو گیا تو اوپر پہنچی اور شاہدہ بھی ساتھ تھی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر میرا قدم نہ اٹھتا تھا۔ شاہدہ نے مجھے ہٹا کر جھانک کر دیکھا۔ کواڑ کی آواز سن کو بیرسٹر صاحب نکل آئے، کیونکہ وہ شاید منتظر ہی تھے۔ وہ سیدھے غسل خانہ میں بند ہونے چلے۔ وہ جیسے ہی دروازے کے سامنے آئے، اس شریر شاہدہ کی بچی نے مجھے ایک دم سے آگے کرکے دروازہ تیزی سے کھول کر اندر کو زور سے دھکیل دیا ۔وہ اتنے قریب تھے کہ میں سیدھے ان سے لڑ گئی۔ وہ اس نا معقولیت کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ ارے ؟ کہہ کر انہوں نے مجھے ہاتھوں سے روکا۔ وہ خود بے طرح گھبرا گیے۔ میری حالت پر انہوں نے رحم کھا کر منہ موڑ لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ میرا کیا حال ہوا۔ دروازہ شاہدہ نے بند کر لیا تھا۔ میں سیدھی کمرے میں گھس گئی اور چادر میں اچھی طرح اپنے کو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔
بیرسٹر صاحب آئے تو سب سے پہلے انہوں نے سلام کر کے زبردستی اندر گھسنے کی دھمکی دے کر جواب لیا اور پھر مزاج پوچھا۔ اس کے جواب میں میں نے ہاتھ دروازہ سے باہر کر دیا۔
یہ کیا حالت ہے؟ بیرسٹر صاحب نے انگلی کو دیکھ کر کہا۔
معلوم ہوتا ہے کہ انگلی اور انگوٹھی دونوں پر آپ نے عمل جراحی کیا ہے۔
میں کچھ نہ بولی اور انہوں نے انگلی کو چاروں طرف سے اچھی طرح دیکھا اور پھر پوچھا۔
براہ مہربانی پہلے یہ بتا دیجئے کہ یہ کون شریر ہیں جنہوں نے آپ کو میرے اوپر دھکیل دیا۔ آپ کے لگی تو نہیں؟
میں نے صرف ایک لفظ کہا، شاہدہ۔
آپ کی کوئی ہم جولی معلوم ہوتی ہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، ماشاءاللہ ہیں بڑی سیدھی۔ میں دل میں شاہدہ کی شرارت پر ہنسنے لگی کہ دیکھو اس کمبخت نے کیسی شرارت کی۔
میں صابون لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ صابون لینے گیے۔ مجھ سے کہا بھی نہ گیا کہ صابون کی مالش ہو چکی ہے۔ بیرسٹر صاحب نے صابون سے خوب مالش کی اور پھر طرح طرح سے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی گئی مگر سب بے سود ثابت ہوئی۔ جب ہر طرح طرح وہ کوشش کر چکے تو تھک کر انہوں نے کہا۔ یہ انگوٹھی آپ پہنے رہیے۔ میری قسمت اچھی ہے۔ ورنہ ہزار روپیہ خرچ کرتا جب بھی اس ناپ کی انگوٹھی مجھے نہ ملتی۔ میں گھبرا گئی اور مجھے شرم آئی۔ بجائے منہ سے بولنے کے میں نے ہاتھ کو جھٹکا کہ گویا اتار دیجیئے۔
اب نہیں اتر سکتی۔ انہوں نے ن
ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔
وہ دیکھ! وہ دیکھ! وہ اچھا ہے شاہدہ نے کہا۔
نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ ادھر سے۔ یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہوگی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔
یہ لے! شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا، کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟
کمبخت یہ دوہا جو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجؤ۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال دے تو میرا نام پلٹ کر رکھ دیجؤ۔ دیکھتی نہیں کہ بس کی گانٹھ کتنا شریر ہے اور پھر راتوں کو تیری سوت خواب میں الگ آکر گلا دبائےگی۔
تو تو پاگل ہو گئی ہے۔ میں نے کہا۔ شاہدہ ڈھنگ کی باتیں کر۔ شاہدہ ہنستے ہوئے بولی، میری بلا سے۔ کل کی کرتی تو آج کر لے میری دانست میں تو اس پروفیسر کو بھی کوئی ایسی ہی ملے تو ٹھیک رہے جو دو تین موذی بچے جہیز میں لائے اور وہ اس کے چھوکرے کو مارتے مارتے اتو کر دیں۔ چل رکھ اس کو۔۔۔ دوسری دیکھ۔
پہلی تصویر پر یہ ریمارکس پاس کیےگیے اور اس کو جوں کا توں رکھ کر دوسری تصویر اٹھائی اور شاہدہ سے پوچھا، یہ کیسا ہے؟ شاہدہ غور سے دیکھ کر بولی، ویسے تو ٹھیک ہے مگر ذرا کالا ہے۔ کون سے درجے میں پڑھتا ہے ؟ میں نے تصویر دیکھ بھال کر کہا، بی۔اے۔ میں پڑھتا ہے۔ کالا تو ایسا نہیں ہے۔ شاہدہ نے کہا، ہوں! یہ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے، جسے دیکھتی ہے اس پہ عاشق ہوئی جاتی ہے۔ نہ کالا دیکھتی ہے نہ گورا، نہ بڈھا دیکھتی ہے نہ جوان! میں نے زور سے شاہدہ کے چٹکی لے کر کہا، کمبخت میں نے تجھے اس لیے بلایا تھا کہ تو مجھے تنگ کرے! غور سے دیکھ۔ غور سے تصویر دیکھ کر اور کچھ سوچ کر شاہدہ بولی، نہ بہن یہ ہر گز ٹھیک نہیں، میں تو کہہ چکی، آئندہ تو جانے۔
میں نے کہا، خط تو دیکھ بڑے رئیس کا لڑکا ہے۔ یہ تصویر ایک طالب علم کی تھی جو ٹینس کا بلا لیے بیٹھا تھا۔ دو تین تمغے لگائے ہوئے تھا اور دو تین جیتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔شاہدہ بولی، ویسے تو لڑکا بڑا اچھا ہے۔ عمر میں تیرے جوڑ کا ہے۔ مگر ابھی پڑھتا ہے اور تیرا بھی شوکت کا سا حال ہوگا کہ دس روپے ماہوار جیب خرچ اور کھانے اور کپڑے پر نوکر ہو جائےگی اور دن رات ساس نندوں کی جوتیاں، یہ تو جھگڑا ہے۔ میں نے کہا، بی۔ اے۔ میں پڑھتا ہے، سال دو سال میں نوکر ہو جائےگا۔
ٹینس کا جمعدار ہو رہا ہے تو دیکھ لیجؤ دو تین دفعہ فیل ہوگا اور ساس نندیں بھی کہیں گی کہ بیوی پڑھنے نہیں دیتی اور پھر دوڑنے دھوپنے کا شوقین، تجھے رپٹا مارےگا۔ ویسے تو لڑکا اچھا ہے، صورت بھی بھولی بھالی ہے اور ایسا ہے کہ جب شرارت کرے، اٹھا کر طاق پر بٹھا دیا۔ مگر نہ بابا میں رائے نہ دوں گی۔ اس تصویر کو بھی رکھ دیا اور اب دوسرا بنڈل کھولا اور ایک اور تصویر نکلی۔
آخاہ! یہ موا پان کا غلام کہاں سے آیا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، دیکھ تو کمبخت کی داڑھی کیسی ہے اور پھر مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے! میں بھی ہنسنے لگی۔ یہ ایک معزز رئیس آنریری مجسٹریٹ تھے اور ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ مگر مجھ کو یہ ذرہ بھر پسند نہ آئے۔ غور سے شاہدہ نے تصویر دیکھ کر پہلے تو ان کی نقل بنائی اور پھر کہنے لگی، ایسے کو بھلا کون لڑکی دےگا؟ نہ معلوم اس کے کتنی لڑکیاں اور بیویاں ہوں گی۔ پھینک اسے۔ یہ تصویر بھی رکھ دی گئی اور دوسرا بنڈل کھول کر ایک اور تصویر لی، یہ تو گبرو جوان ہے؟ اس سےتو فورا کر لے۔ شاہدہ تصویر دیکھ کر بولی، یہ ہے کون! ذرا دیکھ۔میں نے دیکھ کر بتایا کہ ڈاکٹر ہے۔
بس بس، یہ ٹھیک، خوب تیری نبض ٹٹول ٹٹول کے روز تھرمامیٹر لگائےگا۔ صورت شکل ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، میرا میاں بھی ایسا ہی ہٹا کٹا موٹا تازہ ہے میں نے ہنس کر کہا، کمبخت آخر تو ایسی باتیں کہاں سے سیکھ آئی ہے، کیا تو نے اپنے میاں کو دیکھا ہے؟
دیکھا تو نہیں مگر سنا ہے کہ بہت اچھا ہے۔
بھدا سا ہو گا۔
شاہدہ نے چیں بچیں ہو کر کہا، اتنا تو میں جانتی ہوں کہ جو کہیں تو اسے دیکھ لے تو شاید لٹو ہی ہو جائے۔
میں نے اب ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو غور سے دیکھا اور نکتہ چینی شروع کی۔ نہ اس لیے کہ مجھے یہ ناپسند تھے، بلکہ محض اس لیے کہ کچھ رائے زنی ہو سکے۔ چنانچہ میں نے کہا، ان کی ناک ذرا موٹی ہے۔
سب ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے کہا۔ ذرا اس کا خط دیکھ۔ میں نے دیکھا کہ صرف دو خط ہیں۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی پہلی بیوی موجود ہیں مگر پاگل ہو گئی ہیں۔پھینک پھینک اسے کمبخت کو پھینک۔شاہدہ نے جل کر کہا، جھوٹا ہے کمبخت کل کو تجھے بھی پاگل خانہ میں ڈال کے تیسری کو تکے گا۔ ڈاکٹر صاحب بھی نامنظور کر دیے گیے اور پھر ایک اور تصویر اٹھائی۔
شاہدہ نے اور میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ یہ تصویر ایک نو عمر اور خوبصورت جوان کی تھی۔ شاہدہ نے پسند کرتے ہوئے کہا، یہ تو ایسا ہے کہ میری بھی رال ٹپکی پڑ رہی ہے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت جوان ہے۔ بس اس سے تو آنکھ میچ کے کر لے اور اسے گلے کا ہار بنا لیجیو۔ ہم دونوں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا ہر طرح دونوں نے پسند کیا اور پاس کر دیا۔ شاہدہ نے اس کے خط کو دیکھنے کو کہا۔ خط جو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ولایت میں پڑھتے ہیں۔
ارے توبہ توبہ، چھوڑ اسے۔ شاہدہ نے کہا۔
میں نے کہا، کیوں۔ آخر کوئی وجہ؟
وجہ یہ کہ بھلا اسے وہاں میمیں چھوڑیں گی۔ عجب نہیں کہ ایک آدھ کو ساتھ لے آئے۔
میں نے کہا، واہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ احمد بھائی کو دیکھو، پانچ سال ولایت میں رہے تو کیا ہو گیا۔
شاہدہ تیزی سے بولی، بڑے احمد بھائی احمد بھائی، رجسٹر لے کر وہاں کی بھاوجوں کے نام لکھنا شروع کرےگی تو عمر ختم ہو جائےگی اور رجسٹر تیار نہ ہوگا۔ میں تو ایسا جوا نہ کھیلوں اور نہ کسی کو صلاح دوں۔ یہ ادھار کا سا معاملہ ٹھیک نہیں۔
یہ تصویر بھی ناپسند کر کے رکھ دی گئی اور اس کے بعد ایک اور نکالی۔ شاہدہ نے تصویر دیکھ کر کہا، یہ تو اللہ رکھے اس قدر باریک ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائیں گے۔ علاوہ اس کے کوئی آندھی بگولا آیا تو یہ اڑ اڑا جائیں گے اور تو رانڈ ہو جائےگی۔ اسی طرح دو تین تصویریں اور دیکھی گئیں کہ اصل تصویر آئی اور میرے منہ سے نکل گیا، اخاہ۔
مجھے دے۔ دیکھوں، دیکھوں۔ کہہ کر شاہدہ نے تصویر لے لی۔ہم دونوں نے غور سے اس کو دیکھا۔ یہ ایک بڑی سی تصویر تھی۔ ایک تو وہ خود ہی تصویر تھا اور پھر اس قدر صاف اور عمدہ کھینچی ہوئی کہ بال بال کا عکس موجود تھا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، اسے مت چھوڑیو۔ ایسے میں تو میں دو کر لوں۔ یہ آخر ہے کون۔۔۔؟ تصویر کو الٹ کر دیکھا جیسے دستخط اوپر تھے ایسے ہی پشت پر تھے مگر شہر کا نام لکھا ہوا تھا اور بغیر خطوط کے دیکھے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ کس کی تصویر ہے۔ میں نے شاہدہ سے کہا، یہ وہی ہے جس کا میں نے تجھ سے اس روز ذکر کیا تھا۔
اچھا یہ بیرسٹر صاحب ہیں۔ شاہدہ نے پسندیدگی کے لہجہ میں کہا، صورت شکل تو خوب ہے، مگر ان کی کچھ چلتی بھی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا، ابھی کیا چلتی ہوگی۔ ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔
تو پھر ہوا کھاتے ہوں گے۔ شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ خیر تو اس سے ضرور کر لے۔ خوب تجھے موٹروں پر سیر کرائےگا، سینما اور تھیٹر دکھائےگا اور جلسوں میں نچائےگا۔
میں نے کہا، کچھ غریب تھوڑی ہیں۔ ابھی تو باپ کے سر کھاتے ہیں۔
شاہدہ نے چونک کر کہا، اری بات تو سن۔
میں نے کہا، کیوں۔
شاہدہ بولی، صورت شکل بھی اچھی ہے۔ خوب گورا چٹا ہے۔ بلکہ تجھ سے بھی اچھا ہے اور عمر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ کہیں کوئی میم ویم تو نہیں پکڑ لایا ہے۔میں نے کہا، مجھے کیا معلوم۔ لیکن اگر کوئی ساتھ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔
ٹھیک ٹھیک۔ شاہدہ نے سر ہلا کر کہا، بس اللہ کا نام لے کر پھانس میں نے خط اٹھائے اور شاہدہ دوسری تصویریں دیکھنے لگی۔ میں خط پڑھ رہی تھی اور وہ ہر ایک تصویر کا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے خوش ہو کر اس کو چپکے چپکے خط کا کچھ حصہ سنایا۔ شاہدہ سن کر بولی الا اللہ! میں نے اور آگے پڑھا تو کہنے لگی۔ وہ مارا۔ غرض خط کا سارا مضمون سنایا۔ شاہدہ نے خط سن کر کہا کہ، یہ تو سب معاملہ فٹ ہے اور چول بیٹھ گئی ہے۔ اب تو گڑ تقسیم کر دے۔
پھر ہم دونوں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا۔ دونوں نے رہ رہ کر پسند کیا۔ یہ ایک نوعمر بیرسٹر تھے اور غیر معمولی طور پر خوبصورت معلوم ہوتے تھے اور ناک نقشہ سب بےعیب تھا۔ شاہدہ رہ رہ کر تعریف کر رہی تھی۔ ڈاڑھی مونچھیں سب صاف تھیں اور ایک دھاری دار سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ میں نے بیرسٹر صاحب کے دوسرے خط پڑھے اور مجھ کو کل حالات معلوم ہو گیے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیرسٹر صاحب بڑے اچھے اور رئیس گھرانے کے ہیں اور شادی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ آخری خط سے پتہ چلتا تھا کہ صرف شادی کی تاریخ کے معاملہ میں کچھ تصفیہ ہونا باقی ہے۔
میں نے چاہا کہ اور دوسرے خط پڑھوں اور خصوصا آنریری مجسٹریٹ صاحب کا مگر شاہدہ نے کہا، اب دوسرے خط نہ پڑھنے دوں گی۔ بس یہی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا، ان کے ذکر کی بھنک ایک مرتبہ سن چکی ہوں۔ آخر دیکھ تو لینے دے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔
شاہدہ نے جھٹک کر کہا، چل رہنے دے اس موذی کا ذکر تک نہ کر۔ میں نے بہت کچھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ قصہ مختصر جلدی جلدی سب چیزیں جوں کی توں رکھ دیں اور الماری بند کر کے میں نے مردانہ زینہ کا دروازہ کھولا اور شاہدہ کے ساتھ چپکے سے جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس ہوئی۔ جہاں سے کنجی لی تھی، اسی طرح رکھ دی۔ شاہدہ سے دیر تک بیرسٹر صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاہدہ کو میں نے اسی لیے بلایا تھا۔ شام کو وہ اپنے گھر چلی گئی مگر اتنا کہتی گئی کہ خالہ جان کی باتوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تیری شادی اب بالکل طے ہو گئی اور تو بہت جلد لٹکائی جائےگی۔
(۲)
اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔
آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی تھیں کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔
ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بےحد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا اور میں تاک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کہ اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیے لیتے ہیں تو بسم اللہ۔ ہم کو ہماری لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔
اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائےگی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بےتکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے نکال دیجئے کہ سال بھر سے پہلے شادی کر دی جائے۔ اماں جان نے بھی اس جواب کو پسند کیا اور پھر انہی آنریری مجسٹریٹ صاحب کے تذکرہ سے میرے کانوں کی تواضع کی گئی۔
ان سب باتوں سے میرا ایسا جی گھبرایا کہ اماں جان سے میں نے شاہدہ کے گھر جانے کی اجازت لی اور یہ سوچ کر گئی کہ تین چار روز نہ آؤں گی۔
شاہدہ کے ہاں جو پہنچی تو اس نے دیکھتے ہی معلوم کر لیا کہ کچھ معاملہ دگرگوں ہے۔ کہنے لگی کہ ، کیا تیرے بیرسٹر نے کسی اور کو گھر میں ڈال لیا؟
میں اس کا بھلا کیا جواب دیتی۔ تمام قصہ شروع سے آخیر تک سنا دیا کہ کس طرح وہ جلدی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد شادی ہو جائے۔ مگر اماں جان راضی نہیں ہوتیں۔ یہ سب سن کر اور مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر وہ شریر بولی، خوب! چٹ منگنی پٹ بیاہ بھلا ایسا کون کرےگا۔ مگر ایک بات ہے۔ میں نے کہا، وہ کیا؟ وہ بولی، وہ تیرے لئے پھڑک رہا ہے اور یہ فال اچھی ہے۔ میں نے جل کر کہا، یہ تو فال نکال رہی ہے اور مذاق کر رہی ہے۔
پھر کیا کروں؟ شاہدہ نے کہا۔ (کیونکہ واقعی وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی ہے۔)
میں نے کہا، کوئی مشورہ دو۔ صلاح دو۔ دونوں مل کر سوچیں۔
پاگل نہیں تو۔ شاہدہ نے میری بیوقوفی پر کہا، دیوانی ہوئی ہے، میں صلاح کیا دوں؟
اچھا مجھے پتہ بتا دے۔ میں بیرسٹر صاحب کو لکھ بھیجوں کہ ادھر تو اس چھوکری پر نثار ہو رہا ہے اور ادھر یہ تیرے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے، آکے تجھے بھگا لے جائے۔
خدا کی مار تیرے اوپر اور تیری صلاح کے اوپر۔ میں نے کہا۔ کیا میں اسی لئے آئی تھی؟ میں جاتی ہوں۔ یہ کہہ کر میں اٹھنے لگی۔
تیرے بیرسٹر کی ایسی تیسی۔ شاہدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ جاتی کہاں ہے شادی نہ بیاہ، میاں کا رونا روتی ہے۔ تجھے کیا؟ کوئی نہ کوئی ماں کا جایا آ کر تجھے لے ہی جائےگا۔ چل دوسری باتیں کر۔
یہ کہہ کر شاہدہ نے مجھے بٹھا لیا اور میں بھی ہنسنے لگی۔ دوسری باتیں ہونے لگیں۔ مگر یہاں میرے دل کو لگی ہوئی تھی اور پریشان بھی تھی۔ گھوم پھر کر وہی باتیں ہونے لگیں۔ شاہدہ نے جو کچھ ہمدردی ممکن تھی وہ کی اور دعا مانگی اور پھر آنریری مجسٹریٹ کو خوب کوسا۔ اس کے علاوہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ خود نماز کے بعد دعا مانگنے کا وعدہ کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ نماز کے بعد روزانہ دعا مانگا کر۔ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ میں۔میں گھر سے کچھ ایسی بیزار تھی کہ دو مرتبہ آدمی لینے آیا اور نہ گئی۔ چوتھے روز میں نے شاہدہ سے کہا کہ، اب شاید خط کا جواب آ گیا ہوگا اور میں کھانا کھا کے ایسے وقت جاؤں گی کہ سب سوتے ہوں۔ تاکہ بغیر انتظار کئے ہوئے مجھے خط دیکھنے کا موقع مل جائے۔
چلتے وقت میں ایسے جا رہی تھی جیسے کوئی شخص اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے جا رہا ہو۔ میری حالت عجیب امید و بیم کی تھی۔ نہ معلوم اس خط میں بیرسٹر صاحب کے والد نے انکار کیا ہوگا یا منظور کر لیا ہوگا کہ ہم سال بھر بعد شادی پر رضامند ہیں۔ یہ میں بار بار سوچ رہی تھی۔ چلتے وقت میں نے اپنی پیاری سہیلی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور سے دبایا۔ نہ معلوم کیوں میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ شاہدہ نے مذاق کو رخصت کرتے ہوئے کہا، بہن خدا تجھے اس موذی سے بچائے۔ تو دعا مانگ اچھا۔ میں نے چپکے سے کہا، اچھا۔
(۳)
شاہدہ کے یہاں سے جو آئی تو حسب توقع گھر میں سناٹا پایا۔ اماں جان سو رہی تھیں۔ اور ابا جان کچہری جا چکے تھے۔ میں نے چپکے سے جھانک کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دوڑ کر مردانہ زینہ کا دروازہ بھی بند کر دیا اور سیدھی کمرہ میں پہنچی۔ وہاں پہنچی تو ششدر رہ گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا چمڑے کا ٹرنک کھلا پڑا ہے اور پاس کی کرسی پر اور ٹرنک میں کپڑوں کے اوپر مختلف چیزوں کی ایک دکان سی لگی ہوئی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ کون ہے، جو اس طرح سامان چھوڑ کر ڈال گیا ہے۔ کیا بتاؤں میرے سامنے کیسی دکان لگی ہوئی اور کیا کیا چیزیں رکھی تھیں کہ میں سب بھول گئی اور انہیں دیکھنے لگی۔ طرح طرح کی ڈبیاں اور ولائتی بکس تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے سب سے پیشتر جھٹ سے ایک سنہرا گول ڈبہ اٹھا لیا۔ میں اس کو تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ یہ گنی کے سونے کا ڈبہ تھا اور اس پر سچی سیپ کا نفیس کام ہوا تھا۔ اودی اودی کندن کی جھلک بھی تھی۔ ڈھکنا تو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں موتی جڑے ہوئے تھے اور کئی قطاریں ننھے ننھے سمندری گھونگھوں کی اس خوبصورتی سے سونے میں جڑی ہوئی تھیں کہ میں دنگ رہ گئی۔
میں نے اسے کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا پوؤڈر لگانے کا پف رکھا ہوا تھا اور اس کے اندر سرخ رنگ کا پاؤڈر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پف نکال کر اس کے نرم نرم روئیں دیکھے جن پر غبار کی طرح پاؤڈر کے مہین ذرے گویا ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے یہ کتنا نرم ہے، میں نے اس کو اپنے گال پر آہستہ آہستہ پھرایا اور پھر اس کو واپس اسی طرح رکھ دیا۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ مرے گال پر سرخ پاؤڈر جم گیا۔ میں نے ڈبہ کو رکھا ہی تھا کہ میری نظر ایک تھیلی پر پڑی۔ مہ سبز مخمل کی تھیلی تھی۔ جس پر سنہری کام میں مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔
میں نے اس کو اٹھایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ دراصل یہ ولایتی ربڑ کی تھیلی تھی، جو مخمل سے بھی زیادہ خوبصورت اور نرم تھی، میں نے غور سے سنہری کام کو دیکھا۔ کھول کر جو دیکھا تو اندر دو چاندی کے بالوں میں کرنے کے برش تھے اور ایک ان ہی کے جوڑ کا کنگھا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا اور چھوٹی خوبصورت ڈبیوں کو دیکھا۔ کسی میں سیفٹی پن تھا، کسی میں خوبصورت سا بروچ تھا اور کسی میں پھول تھا۔ غرض طرح طرح کے بروچ اور بلاؤس پن وغیرہ تھے۔ دو تین ڈبیاں ان میں ایسی تھیں جو عجیب شکل تھیں۔ مثلاً ایک بالکل کتاب کی طرح تھی اور ایک کرکٹ کے بلے کی طرح تھی۔ ان میں بعض ایسی بھی تھیں جو مجھ سے کسی طرح بھی نہ کھلیں۔ علاوہ ان کے سگریٹ کیس، دیا سلائی کا بکس وغیرہ وغیرہ۔ سب ایسی کہ بس ان کو دیکھا ہی کرے۔
میں ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مخمل کے ڈبہ کا کونہ ٹرنک میں ریشمی رومالوں میں مجھے دبا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کو نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کاٹنے اور گھسنے کے اوزار رکھے ہوئے تھے اور ڈھکنے میں ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو جوں کا توں اسی جگہ رکھا تو میرے ہاتھ ایک اور مخمل کا ڈبہ لگا۔ اس کو جو میں نے نکال کر کھولا تو اس کے اندر سے سبز رنگ کا ایک فاؤنٹین پن نکلا۔ جس پر سونے کی جالی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ ایک چھوٹی سے سنہری رنگ کی ڈبیہ پر نظر پڑی۔ اس کو میں نے کھولنا چاہا۔ مگر وہ کمبخت نہ کھلنا تھی نہ کھلی۔ میں اس کو کھول ہی رہی تھی کہ ایک لکڑی کے بکس کا کونہ نظر پڑا۔ میں نے اس کو فوراً ٹرنک سے نکال کر دیکھا۔ یہ ایک بھاری سا خوبصورت بکس تھا۔ اس کو جو میں نے کھولا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس کے اندر سے ایک صاف شفاف بلور کا عطردان نکلا جو کوئی بالشت بھر لمبا اور اسی مناسبت سے چوڑا تھا۔ میں نے اس کو نکال کر غور سے دیکھا اور لکڑی کا بکس جس میں یہ بند تھا، الگ رکھ دیا۔
عجیب چیز تھی۔ اس کے اندر کی تمام چیزیں باہر سے نظر آ رہی تھیں۔ اس کے اندر چوبیس چھوٹی چھوٹی عطر کی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے خوشنما رنگ روشنی میں بلور میں سے گزر کر عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ میں اس کو چاروں طرف سے دیکھتی رہی اور پھر کھولنا چاہا۔ جہاں جہاں بھی جو بٹن نظر آئے میں نے دبائے مگر یہ نہ کھلا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی کہ میری نظر کسی تصویر کے کونے پر پڑی جو ٹرنک میں ذرا نیچے کو رکھی تھی۔ میں نے تصویر کو کھینچ کر نکالا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مخمل کی ڈبیہ رومالوں اور ٹائیوں میں لڑھکتی ہوئی چلی آئی اور کھل گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں ایک خوبصورت انگوٹھی جگ مگ جگمگ کر رہی ہے۔ فوراً تصویر کو چھوڑ کر میں نے اس ڈبیا کو اٹھایا اور انگوٹھی کو نکال کر دیکھا۔ بیچ میں اس کے ایک نیلگوں رنگ تھا اور ارد گرد سفید سفید ہیرے جڑے تھے۔ جن پر نگاہ نہ جمتی تھی۔ میں نے اس خوبصورت انگوٹھی کو غور سے دیکھا اور اپنی انگلیوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کسی میں تنگ تھی تو کسی میں ڈھیلی۔ مگر سیدھے ہاتھ کی چھنگلی کے پاس والی انگلی میں میں نے اس کو زور دے کر کسی نہ کسی طرح تمام پہن تو لیا اور پھر ہاتھ اونچا کر کے اس کے نگینوں کی دمک دیکھنے لگی۔ میں اسے دیکھ بھال کر ڈبیا میں رکھنے کے لئے اتارنے لگی تو معلوم ہوا کہ پھنس گئی ہے۔
میرے بائیں ہاتھ میں وہ بلور کا عطردان بدستور موجود تھا اور میں اس کو رکھنے ہی کو ہوئی تاکہ انگلی میں پھنسی ہوئی انگوٹھی کو اتاروں کہ ایکا ایکی میری نظر اس تصویر پر پڑی جو سامنے رکھی تھی اور جس کو میں سب سے پیشتر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں عطردان تو رکھنا بھول گئی اور فوراً ہی سیدھے ہاتھ سے تصویر کو اٹھا لیا اور کاغذ ہٹا کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب سامان بیرسٹر صاحب کا ہے کہ یہ انہی کی تصویر تھی۔ یہ کسی ولایتی دکان کی بنی ہوئی تھی اور رنگین تھی۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی بیرسٹر صاحب غیر معمولی طور پر خوبصورت آدمی ہیں۔ چہرے کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ سیاہ بال تھے اور آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ چہرہ، آنکھ، ناک، غرض ہر چیز اس صفائی سے اپنے رنگ میں موجود تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ۔ کوٹ کی دھاریاں ہوشیار مصور نے اپنے اصلی رنگ میں اس خوبی سے دکھائی تھیں کہ ہر ایک ڈورا اپنے رنگ میں صاف نظر آ رہا تھا۔
میں اس تصویر کو دیکھنے میں بالکل محو تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہوا کی رمق سے وہ کمبخت باریک سا کاغذ دیکھنے میں مخل ہونے لگا۔ میں نے تصویر کو جھٹک کر الگ کیا۔ کیونکہ بایاں ہاتھ گھرا ہوا تھا۔ اس میں وہی بلور کا عطردان تھا پھر اسی طرح کاغذ اڑ کر آیا اور تصویر کو ڈھک دیا۔ میں نے جھٹک کر الگ کرنا چاہا۔ مگر وہ چپک سا گیا اور علیحدہ نہ ہوا۔ تو میں نے منہ سے پھونکا اور جب بھی وہ نہ ہٹا تو میں نے اونھ کر کے بائیں ہاتھ کی انگلی سے جو کاغذ کو ہٹایا تو وہ بلور کا عطردان بھاری تو تھا ہی ہاتھ سے پھسل کر چھوٹ پڑا اور چھن سے پختہ فرش پر گر کر کھیل کھیل ہو گیا۔
میں دھک سے ہو گئی اور چہرہ فق ہو گیا۔ تصویر کو ایک طرف پھینک کے ایک دم سے شکستہ عطردان کے ٹکڑے اٹھا کر ملانے لگی کہ ایک نرم آواز بالکل قریب سے آئی، تکلیف نہ کیجئے، آپ ہی کا تھا۔ آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو جیتی جاگتی اصلی تصویر بیرسٹر صاحب کی سامنے کھڑی ہے! تعجب!! اس تعجب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا کہ الہٰی یہ کدھر سے آ گیے۔ دو تین سیکنڈ تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں کہ ایک دم سے میں نے ٹوٹے ہوئے عطردان کے ٹکڑے پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر جھٹ سے دروازہ کی آڑ میں ہو گئی۔
(۴)
میری حالت بھی اس وقت عجیب قابل رحم تھی۔ بلیوں دل اچھل رہا تھا ۔یہ پہلا موقع تھا جو میں کسی نامحرم اور غیر شخص کے ساتھ اس طرح ایک تنہائی کے مقام پر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ عین چوری کرتے پکڑی گئی۔ سارا ٹرنک کرید کرید کر پھینک دیا تھا اور پھر عطردان توڑ ڈالا، اور نہایت ہی بے تکلفی سے انگوٹھی پہن رکھی تھی۔
اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے تھی۔ سارے بدن میں ایک سنسنی اور رعشہ سا تھا کہ ذرا ہوش بجا ہوئے تو فوراً انگوٹھی کا خیال آیا۔ جلدی جلدی اسے اتارنے لگی۔ طرح طرح سے گھمایا۔ طرح طرح سے انگلی کو دبایا اور انگوٹھی کو کھینچا۔ مگر جلدی میں وہ اور بھی نہ اتری۔ جتنی دیر لگ رہی تھی، اتنا ہی میں اور گھبرا رہی تھی۔ پل پل بھاری تھا، اور میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہر طرح انگوٹھی اتارنے کو کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ نہ اترتی تھی۔ غصہ میں میں نے انگلی مروڑ ڈالی۔ مگر کیا ہوتا تھا۔ غرض میں بےطرح انگوٹھی اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے کہ انگوٹھی آپ کو پسند تو آ گئی۔
یہ سن کر میرے تن بدن میں پسینہ آ گیا اور میں گویا کٹ مری۔ میں نے دل میں کہا کہ میں منہ چھپا کر جو بھاگی تو شاید انگوٹھی انہوں نے دیکھ لی۔ اور واقعہ بھی دراصل یہی تھا۔ اس جملہ نے میرے اوپر گویا ستم ڈھایا۔ میں نے سن کر اور بھی جلدی جلدی اس کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ انگوٹھی کمبخت ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میرا دل انجن کی طرح چل رہا تھا اور میں کٹی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ کیونکر اس نامراد انگوٹھی کو اتاروں۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب آڑ سے ہی بولے، اس میں سے اگر اور کوئی چیز پسند ہو تو وہ بھی لے لیجئے۔ میں نے یہ سن کر اپنی انگلی مروڑ تو ڈالی کہ یہ لے تیری یہ سزا ہے، مگر بھلا اس سے کیا ہوتا تھا؟ غرض میں حیران اور زچ ہونے کے علاوہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔اتنے میں بیرسٹر صاحب پھر بولے، چونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اپنی منسوبہ بیوی سے باتیں کرنے کا بلکہ ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ہے لہذا میں اس زریں موقع کو کسی طرح ہاتھ سے نہیں کھو سکتا۔
یہ کہہ کر وہ دروازہ سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے اور میں گویا گھر گئی۔ میں شرم و حیا سے پانی پانی ہو گئی اور میں نے سر جھکا کر اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کونہ میں موڑ لیا۔ کواڑ میں گھسی جاتی تھی۔ میری یہ حالت زار دیکھ کر شاید بیرسٹر صاحب خود شرما گیے اور انہوں نے کہا، میں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر۔۔۔ یہ کہہ کر سامنے مسہری سے چادر کھینچ کر میرے اوپر ڈال دی اور خود کمرے سے باہر جا کر کہنے لگے، آپ مہربانی فرما کر مسہری پر بیٹھ جائیے اور اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔
میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟ میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگی تاکہ انگوٹھی جلد اتر جائے۔اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے، بولیے صاحب جلدی بولیے۔ میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں تو پھر میں حاضر ہوتا ہوں۔میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا، جی نہیں میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟
یا اللہ میں نے تنگ ہو کر کہا، مجھے موت دے۔ یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے عطر دان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا اور گویا میری محنت وصول ہو گئی، مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپنی زبان سے اور کچھ کہہ دیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گیے۔ میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی، گویا اس نے عطر دان توڑا تھا۔ میں عطردان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔ جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔
میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا، بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطر دان۔۔۔
بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا، خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا، خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آپ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں بالکل ٹھیک آئی ہے اور آپ اس کو اب تک از راہ عنایت پہنے ہوئی ہیں۔
میں اب کیا بتاؤں کہ یہ سن کر میرا کیا حال ہوا۔ میں نے دل میں کہا کہ خوب انگوٹھی ٹھیک آئی اور خوب پہنے ہوئے ہوں۔ انگوٹھی نہ ہوئی گلے کی پھانسی ہو گئی۔ جو ایسی ٹھیک آئی کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میں نے دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر یہ کمبخت میری انگلی میں نہ پھنس گئی ہوتی تو کاہے کو میں بے حیا بنتی اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملتا کہ آپ پہنے ہوئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس نامراد انگوٹھی کو اتارنے کے لیے کیا کیا جتن کر چکی ہوں اور برابر کر رہی تھی۔ مگر وہ تو ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میں پھر خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ مگر انگوٹھی اتارنے کی برابر کوشش کر رہی تھی۔
بیرسٹر صاحب نے میری خاموشی پر کہا، آپ پھر جواب سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔ پسند ہے یا ناپسند۔ ان دو جملوں میں سے ایک کہہ دیجیئے۔میں نے پھر غصے میں انگلی کو نوچ ڈالا اور قصہ ختم کرنے کے لیے ایک اور ہی لفظ کہہ دیا، اچھی ہے۔
جی نہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، اچھی ہے اور آپ کو پسند نہیں تو کس کام کی۔ علاوہ اس کے اچھی تو خود دکاندار نے کہہ کر دی تھی، اور میں یہ پوچھتا بھی نہیں، آپ بتائیے کہ آپ کو پسند ہے یا ناپسند، ورنہ پھر حاضر ہونے کی اجازت دیجیئے۔ میں نے دل میں کہا یہ قطعی گھس آئیں گے اور پھر جھک مار کر کہنا ہی پڑےگا، لہذا کہہ دیا۔ پسند ہے۔ یہ کہہ کر میں دانت پیس کر پھر انگلی نوچنے لگی۔
شکریہ۔ بیرسٹر صاحب نے کہا۔صد شکریہ۔ اور اب آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن ایک عرض ہے اور وہ یہ کہ یہ انگوٹھی تو بے شک آپ کی ہے اور شاید آپ اس کو پہن کر اتارنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن مجھ کو مجبوراً آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ شام کو مجھ کو چونکہ اور چیزوں کے ساتھ اس کو رسماً بھجوانا ہے لہذا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس وقت اس کو یہاں چھوڑتی جائیں۔ میں علیحدہ ہوا جاتا ہوں۔ خدا حافظ۔ یہ کہہ کر وہ ہٹ گیے اور میں نے ان کے جانے آواز سنی۔ وہ سامنے کے غسل خانے میں چلے گیے۔ دراصل وہ اسی غسل خانے میں کنگھا وغیرہ کر رہے ہوں گے، جب میں بے خبری میں آکر پھنس گئی۔
اب میں سخت چکر میں تھی اور انگلی سے انگوٹھی اتارنے کی سر توڑ کوشش کی گھبراہٹ اور جلدی میں پاگل سی ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں نے علاوہ ہاتھ کے، دانتوں سے بھی امداد لی اور انگلی میں کاٹ کاٹ کر کھایا مگر وہ کمبخت انگوٹھی جان لیوا تھی اور نہ اترنا تھی نہ اتری۔ میں نے تنگ آ کر اپنا سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہا، ہائے میرے اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ یہ کمبخت تو میری جان لیے لیتی ہے۔
بیرسٹر صاحب غسل خانے میں کھڑے کھڑے تھک گیے اور میں وہیں کی وہیں تھی۔ وہ لوٹ آئے اور بولے، معاف کیجیے نہیں معلوم تھا کہ انگوٹھی اتارنے پر آپ رضامند نہیں اور اس شرط پر جانا بھی نہیں چاہتیں۔ مگر چونکہ اس رسم کا نام ہی انگوٹھی کی رسم ہے، لہذا میں اس کی خالی ڈبیہ رکھ دوں گا۔ اور کہلا دوں گا کہ انگوٹھی آپ کے پاس ہے۔ یہ کہہ کر ذرا رک کر بولے، اور تو کسی بات کا خیال نہیں صرف اتنا کہ آپ کے والد اس کو بدقسمتی سے دیکھ چکے ہیں۔
میں اپنی انگلی توڑ رہی تھی اور یہ سن کر گھبرا گئی۔ یہ تو خیر مذاق تھا کہ وہ کہہ دیں گے انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب ابا جان انگوٹھی دیکھ چکے ہیں تو آخر بیرسٹر صاحب ان سے اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب کو شبہ گزرا کہ میں اس وجہ سے نہیں جا رہی ہوں کہ کہیں وہ غسل خانہ میں سے مجھ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔ لہذا وہ ایک دم سے بولے، اوہو! اب میں سمجھا۔ لیجیے بجائے غسل خانہ کے زینے میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔
میں بےحد پریشان تھی، مجبور تھی کہ اس غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دوں اور اصل وجہ بتا دوں۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الہی کیا کروں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، تو میرا حال تھا اور بیرسٹر صاحب نہ جانے کیا خیال کر رہے تھے۔ بالاخر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ زینے میں روپوش ہونے جا رہے ہیں تو مرتا کیا نہ کرتا، تنگ آ کر نہ معلوم میں نے کس طرح دبی آواز میں کہا، وہ نہیں اترتی۔
ادھر تو میرا یہ حال تھا اور ادھر بیرسٹر صاحب گویا مارے خوشی کے اچھل پڑے اور انہوں نے ہنس کر بڑی خوشی کے لہجہ میں جیسے کوئی بے تکلفی سے کہتا ہے۔ کہا، واللہ!یہ معاملہ ہے!! خدا کرے نہ اترے۔ میں بھلا اس جملے کے بعد کیا بولتی۔ اسی طرح چپ تھی اور اپنی بنتی کوشش کر رہی تھی کہ انگوٹھی اتر آئے۔ لیکن جب دیر ہوئی تو انہوں نے کہا، اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو میں اتار دوں۔
یا اللہ! میں نے اپنے دل میں کہا۔ اب کیا کروں۔ میں تو نہ اترواؤں گی۔ یہ طے کر کے میں پھر کوشش کرنے لگی۔ مگر توبہ کیجیئے وہ بھلا کیوں اترتی۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، وہ آپ سے ہر گز نہ اترےگی۔ کوئی حرج نہیں ہے میں باہر سے اتار دوں گا۔
میں چونکہ اب تنگ آ گئی تھی اور اس مصیبت سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑوانا چاہتی تھی لہذا میں نے مجبوراً ہار کر مسہری پر بیٹھ کر ہاتھ دروازے سے باہر کر دیا۔ بیرسٹر صاحب نے انگلی ہاتھ میں لے کر کہا، شاباش اس انگوٹھی کو! کیوں صاحب تعریف تو آپ بھی کرتی ہوں گی کہ میں کسی ناپ تول کے ٹھیک ٹھیک انگوٹھی لایا ہوں۔ وہ انگوٹھی ہی بھلا کس کام کی جو یہ تماشا نہ دکھائے۔ میں مجبور تھی اور چار و ناچار سن رہی تھی۔ مگر اس جملے پر مجھ کو اس مصیبت میں بھی ہنسی آ گئی کہ دیکھو تو کمبخت کس ناپ کی انگوٹھی آئی کہ مجھے اس مصیبت ڈال دیا۔ انگلی کو انہوں نے خوب ادھر ادھر سے دیکھ کر اور دبا کر کہا، یہ تو پھنس گئی ہے۔ یہ کہہ کو وہ اتارنے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک دم سے بولے، اخاہ! معاف کیجیئےگا۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ اس غریب انگلی پر دانت کس نے تیز کیے ہیں؟ میں نے جھٹ شرمندہ ہو کر ہاتھ اندر کر لیا۔
لائیے۔ لائیے۔بیرسٹر صاحب نے کہا، اب میں کچھ نہ کہوں گا۔
مجبورا پھر ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اور انہوں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ انہوں نے خوب خوب کوشش کی۔ خوب دبایا اور وہ بھی ایسا کہ درد کے مارے میرا حال برا ہو گیا۔ مگر وہ دشمن جان انگوٹھی نہ اترنا تھی نہ اتری۔ لیکن وہ بے چارے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اتنے میں کسی نے مردانہ زینے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیرسٹر صاحب غسل خانے کی طرف چلے کہ، آج شام نہ سہی کل شام مگر براہ کرم یہ انگوٹھی جس طرح بھی ممکن ہو میرے پاس ضرور پہنچا دیجیئےگا۔ چلتے چلتے وہ ایک ستم کا فقرہ اور کہہ گیےاور وہ یہ کہ سرخ پاؤڈر کی آپ کو چنداں ضرورت تو نہ تھی۔میں کٹ ہی تو گئی۔ کیونکہ کم بختی سے ایک گال پر سرخ پاؤڈر لگائے ہوئے تھی جو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
ادھروہ غسل خانے میں بند ہوئے اور ادھر میں چادر پھینک کر سیدھی بھاگی اور اپنے کمرے میں آ کر دم لیا۔ سب سے پہلے آئینہ جو دیکھا تو ایک طرف کے گال پر سرخ پوڈر رنگ دکھا رہا تھا اپنے کو کوستی گئی اور پونچھتی گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے انگلی پر ایک پٹی باندھی تاکہ انگوٹھی چھپ جائے اور بہانہ کر دوں کہ چوٹ لگی ہے۔
(۵)
خیر سے یہ بہانہ کارگر ہوا اور اماں جان نے چوٹ یا زخم تک کی وجہ نہ پوچھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ کر دیا اور وہ ملازمہ سے یہ کہہ کر چپ ہو رہیں۔ رہنے دے اس کا منگیتر آیا ہوا ہے۔ شرم کی وجہ سے نہیں نکل رہی۔ انہیں یا ملازمہ کو بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ کمبخت اس سے ملاقات کر آئی ہے اور صرف ملاقات ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں اس کی بگاڑ آئی ہے۔
تیسرے پہر کا وقت تھا اور مجھ کو ہر لمحہ شاہدہ کا انتظار تھا۔ اس کو میں نے بلوایا تو اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ آج ہی تو میں اس کے یہاں سے آئی تھی۔ میں نے پھر اس کو ایک خط لکھا تھا کہ بہن خدا کے واسطے جس طرح بھی بن پڑے جلد آ، ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔ اس خط کے جواب میں اس کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہی تھی۔میں جانتی تھی کہ وہ ضرور آئےگی۔ چنانچہ وہ آئی۔ میں اس کو لینے بھی نہ گئی۔ اماں جان سےاس کو معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس کی گھبراہٹ رفع ہو گئی اور ہنستی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے نہ سلام نہ دعا کہا، اری کمبخت باہر جا کے ذرا مل تو آ۔
میں تو مل بھی آئی۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ تجھے یقین نہ آئے تو یہ دیکھ۔ یہ کہہ کر میں نے انگلی کھول کر دکھائی۔
میں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا تو شاہدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی، تو نے بڑی مزیدار ملاقات کی۔ یہ کہہ کر وہ چٹکیاں لینے کو آگے بڑھی۔ میں نے کہا، ملاقات تو گئی چولہے میں، اب اس ناہجار انگوٹھی کو کسی طرح اتارو، چاہے انگلی کٹے یا رہے۔ مگر تو اسے اتار دے اور اسی لیے تجھے بلایا ہے۔
شاہدہ نے کہا، خیر یہ اتر تو ابھی آئےگی مگر اسے دینے کیا تو جائےگی؟
اب میں چکرمیں آئی کہ یہ کس طرح جائے گی۔ ایسے جانا چاہیے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ کچھ سوچ کر شاہدہ نے کہا کہ، میں پان میں رکھ کر بھیج دوں گی۔ نوکرانی سے کہلوا دوں گی کہ یہ پان ان کے ہاتھ میں دینا اور کہہ دینا کہ تمہاری سالی نے دیا ہے۔یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ کیونکہ اماں جان یہی خیال کرتیں کہ پان میں کچھ مذاق ہوگا۔ جو نئی بات نہ تھی۔
جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو شاہدہ نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش شروع کی۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اس کا اترنا آسان کام نہیں ہے، تیل اور صابن کی مالش کی گئی مگر بےکار۔ جب ہر طرح کوشش کر لی تو شاہدہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ انگلی سوج گئی ہے اور یہ خدا ہی ہے جو اتارے۔ غرض گھنٹوں اس میں کوشش اور محنت کی گئی۔ بورا سینے کا بڑا سوا لایا گیا۔ چھوٹی بڑی قینچیاں آئیں۔ موچنا لایا گیا۔ کاک نکالنے کا پیچ اور مشین کا پیچ کس۔ غرض جو بھی اوزار ممکن تھا لایا گیا اور استعمال کیا گیا مگر سب بےکار۔
رات کو اسی فکر میں مجھ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ تھک کر میں بیٹھ گئی اور رو رو کر شاہدہ سے کہتی تھی کہ خدا کے لیے کوئی صورت نکال۔ رات کو گرم پانی میں انگلی ڈبوئی گئی اور طرح طرح سے ڈورے ڈال کو کھینچی گئی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رہ رہ کر میں پریشان ہوتی تھی اور شاہدہ جب کوشش کر کے تھک جاتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ خدا کے واسطے مجھے اس انگوٹھی کی مصیبت سے نکال۔
آخر تو عشق بازی کرنے گئی ہی کیوں تھی؟ شاہدہ نے خود تنگ ہو کر مجھ سے پوچھا۔
خدا کی مار پڑے تمہاری عشق بازی پر۔ میں تو اس مصیبت میں گرفتار ہوں اور تمہیں یہ مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں نے منہ بنا کر کہا۔
یہ عشق بازی نہیں تو اور کیا ہے؟ گئیں وہاں اور شوق سے پاؤڈر اور مسی لگاتے لگاتے میاں کے چونچلے میں آکر انگوٹھی پہن لی۔ شاہدہ نے کہا، اب عشق بازی کے مزے بھی چکھو۔ مزے مزے کی باتیں تو کرنے گئیں اور اب۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے کہا، خدا کے لیے ذرا آہستہ بولو۔
قینچی سے انگوٹھی کتر دوں؟
نہ بہن کتراؤں گی نہیں۔ نہ معلوم کتنی قیمتی انگوٹھی ہوگی، ایک تو میں شامت کی ماری عطردان توڑ آئی اور اب اسے کاٹ ڈالوں۔
بھلا مجال ہے جو وہ چوں بھی کر جائے۔ ابھی کہلوا دوں، میاں راستہ دیکھو، ہماری چھوکری فاضل نہیں، کہیں اور مانگ کھاؤ۔ یہ کہہ کر شاہدہ نے قینچی لی اور مجھ سے کہا، لاؤ ادھر لاؤ۔
نہیں نہیں میں نے کہا۔ ایسا نہ کرو۔ پھر وہی کوششیں جاری ہو گئیں۔ غرض انگوٹھی نے رات کو سونا حرام کر دیا۔ رات بھی انگلی طرح طرح سے کھینچی گئی، کبھی میں اپنے آپ کو خوب کوستی تھی اور کبھی انگوٹھی کو برا بھلا کہتی تھی اور کبھی گڑگڑاکر دعا مانگتی تھی کہ خدایا میری مشکل آسان کر دے۔ مجبور ہو کر صبح میں نے شاہدہ سے کہا کہاب میری انگلی ویسے بھی درد کے مارے پھٹی جا رہی ہے؛ تو کاٹ دے۔
شاہدہ نے قینچی سے کاٹنے کی کوشش کی۔ امید تھی کہ سونا ہے اور آسانی سے کٹ جائے گا مگر وہ گنی کا سخت سونا تھا اور تھوڑی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ اس کو کاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ طرح طرح کے اوزار استعمال کیے گیے مگر سب بیکار۔ اب تو میں اور بھی گھبرا گئی اور ایسی حواس باختہ ہوئی کہ شاہدہ سے کہنے لگی کہ مجھے زہر مل جائے تو میں کھا کر اپنا قصہ ختم کر دوں۔ اب شاہدہ بھی متفکر تھی، اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر مجھ سے نرمی سے کہا، کہ اب صرف ایک ترکیب ہے۔
وہ کیا؟
وہ یہ ہے۔ شاہدہ نے مسکرا کر کہا، وہ یہ کہ تم اوپر جاؤ اور اپنے چہیتے سے نکلواؤ، ورنہ شام تک پکڑی جاؤ گی۔ اور ناک چوٹی کٹےگی۔
میں تو کبھی نہ جاؤں گی۔ میں نے کہا۔
یہ باتیں اور وہ بھی ہم سے! شاہدہ نے کہا۔ ذرا دل سے تو پوچھ میں نے واقعہ کہا کہ خدا کی قسم میں کسی طرح بھی جانا پسند نہیں کرتی۔ میں اس وقت بدبخت انگوٹھی کی بدلے جان سے بیزار ہو رہی ہوں۔
شاہدہ بولی، مذاق نہیں کرتی۔ خواہ پسند کرو یا نہ کرو، جانا ضرور پڑےگا۔ کیونکہ گھر کے کسی اوزار سے بھی ناممکن ہے کہ میں یا تم اسے اتار یا کاٹ سکیں۔
میں چپ بیٹھی رہی اور سوچتی رہی۔ شاہدہ نے آہستہ آہستہ سب اونچ نیچ بتائی کہ کوئی نقصان نہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس قدر شرمیلے اور باحیا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کوئی چارہ ہی نہ تھا اور مجبوراً میں راضی ہو گئی۔
(۶)
جب سناٹا ہو گیا تو اوپر پہنچی اور شاہدہ بھی ساتھ تھی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر میرا قدم نہ اٹھتا تھا۔ شاہدہ نے مجھے ہٹا کر جھانک کر دیکھا۔ کواڑ کی آواز سن کو بیرسٹر صاحب نکل آئے، کیونکہ وہ شاید منتظر ہی تھے۔ وہ سیدھے غسل خانہ میں بند ہونے چلے۔ وہ جیسے ہی دروازے کے سامنے آئے، اس شریر شاہدہ کی بچی نے مجھے ایک دم سے آگے کرکے دروازہ تیزی سے کھول کر اندر کو زور سے دھکیل دیا ۔وہ اتنے قریب تھے کہ میں سیدھے ان سے لڑ گئی۔ وہ اس نا معقولیت کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ ارے ؟ کہہ کر انہوں نے مجھے ہاتھوں سے روکا۔ وہ خود بے طرح گھبرا گیے۔ میری حالت پر انہوں نے رحم کھا کر منہ موڑ لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ میرا کیا حال ہوا۔ دروازہ شاہدہ نے بند کر لیا تھا۔ میں سیدھی کمرے میں گھس گئی اور چادر میں اچھی طرح اپنے کو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔
بیرسٹر صاحب آئے تو سب سے پہلے انہوں نے سلام کر کے زبردستی اندر گھسنے کی دھمکی دے کر جواب لیا اور پھر مزاج پوچھا۔ اس کے جواب میں میں نے ہاتھ دروازہ سے باہر کر دیا۔
یہ کیا حالت ہے؟ بیرسٹر صاحب نے انگلی کو دیکھ کر کہا۔
معلوم ہوتا ہے کہ انگلی اور انگوٹھی دونوں پر آپ نے عمل جراحی کیا ہے۔
میں کچھ نہ بولی اور انہوں نے انگلی کو چاروں طرف سے اچھی طرح دیکھا اور پھر پوچھا۔
براہ مہربانی پہلے یہ بتا دیجئے کہ یہ کون شریر ہیں جنہوں نے آپ کو میرے اوپر دھکیل دیا۔ آپ کے لگی تو نہیں؟
میں نے صرف ایک لفظ کہا، شاہدہ۔
آپ کی کوئی ہم جولی معلوم ہوتی ہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، ماشاءاللہ ہیں بڑی سیدھی۔ میں دل میں شاہدہ کی شرارت پر ہنسنے لگی کہ دیکھو اس کمبخت نے کیسی شرارت کی۔
میں صابون لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ صابون لینے گیے۔ مجھ سے کہا بھی نہ گیا کہ صابون کی مالش ہو چکی ہے۔ بیرسٹر صاحب نے صابون سے خوب مالش کی اور پھر طرح طرح سے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی گئی مگر سب بے سود ثابت ہوئی۔ جب ہر طرح طرح وہ کوشش کر چکے تو تھک کر انہوں نے کہا۔ یہ انگوٹھی آپ پہنے رہیے۔ میری قسمت اچھی ہے۔ ورنہ ہزار روپیہ خرچ کرتا جب بھی اس ناپ کی انگوٹھی مجھے نہ ملتی۔ میں گھبرا گئی اور مجھے شرم آئی۔ بجائے منہ سے بولنے کے میں نے ہاتھ کو جھٹکا کہ گویا اتار دیجیئے۔
اب نہیں اتر سکتی۔ انہوں نے ن
- मिर्ज़ा-अज़ीम-बेग़-चुग़ताई
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اس جنگ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ غالباً آٹھ نو برس پہلے کی بات ہے۔ جب زندگی میں ہنگامے بڑے سلیقے سے آتے تھے ؛ آج کی کل طرح نہیں۔ بے ہنگم طریقے پر پے در پے حادثے برپا ہورہے ہیں، کسی ٹھوس وجہ کے بغیر۔
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
- सआदत-हसन-मंटो
(۱)
وہ آدمی جس کے ضمیر میں کانٹا ہے
(ایک غیر ملکی قونصل کے مکتوب جو اس نے اپنے افسر اعلیٰ کو کلکتہ سے روانہ کئے)
۸ اگست ۱۹۴۳ء کلایو اسٹریٹ، مون شائین لا۔
جناب والا،
کلکتہ، ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ہوڑہ پل ہندوستان کا سب سے عجیب و غریب پل ہے۔ بنگالی قوم ہندوستان کی سب سے ذہین قوم ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی ہندوستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ کلکتہ کا ’’سونا گاچی‘‘ ہندوستان میں طوائفوں کا سب سے بڑا بازار ہے۔ کلکتہ کا سندر بن چیتوں کی سب سے بڑی شکار گاہ ہے۔ کلکتہ جوٹ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ کلکتہ کی سب سے بڑھیا مٹھائی کا نام ’’رشوگلا‘‘ ہے۔ کہتے ہیں ایک طوائف نے ایجاد کیا تھا۔ لیکن شومئی قسمت سے وہ اسے پیٹنٹ نہ کراسکی۔ کیوں کہ ان دنوں ہندوستان میں کوئی ایسا قانون موجود نہ تھا۔ اسی لئے وہ طوائف اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھیک مانگتے مری۔ ایک الگ پارسل میں حضور پر نور کی ضیافت طبع کے لئے دو سو ’’روشو گلے‘‘ بھیج رہا ہوں۔ اگر انھیں قیمے کے ساتھ کھایا جائے تو بہت مزا دیتے ہیں۔ میں نے خود تجربہ کیا ہے۔
میں ہوں جناب کا ادنٰی ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخا
قونصل مملکت سانڈ وگھاس برائے کلکتہ۔
9 اگست کلایو اسٹریٹ
جناب والا،
حضور پر نور کی منجھلی بیٹی نے مجھ سے سپیرے کی بین کی فرمائش کی تھی۔ آج شام بازار میں مجھے ایک سپیرا مل گیا۔ پچیس ڈالر دے کر میں نے ایک خوبصورت بین خرید لی ہے۔ یہ بین اسفنج کی طرح ہلکی اور سبک اندام ہے۔ یہ ایک ہندوستانی پھل سے جسے ’’لوکی‘‘ کہتے ہیں، تیار کی جاتی ہے۔ یہ بین بالکل ہاتھ کی بنی ہوئی ہے اور اسے تیار کرتے وقت کسی مشین سے کام نہیں لیا گیا۔ میں نے اس بین پر پالش کرایا اور اسے ساگوان کے ایک خوشنما بکس میں بند کر کے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے بطور تحفہ ارسال کر رہا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی ۔ پٹاخا
۱۰ اگست
کلکتہ میں ہمارے ملک کی طرح راشننگ نہیں ہے۔ غذا کے معاملہ میں ہر شخص کو مکمل شخصی آزادی ہے۔ وہ بازار سے جتنا اناج چاہے خرید لے۔ کل مملکت ٹلی کے قونصل نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ چھبیس قسم کے گوشت کے سالن تھے۔ سبزیوں اور میٹھی چیزوں کے دو درجن کورس تیار کئے گئے تھے۔ (نہایت عمدہ شراب تھی) ہمارے ہاں جیسا کہ حضور اچھی طرح جانتے ہیں پیاز تک کی راشننگ ہے اس لحاظ سے کلکتہ کے باشندے بڑے خوش قسمت ہیں۔
کھانے پر ایک ہندوستانی انجینئر بھی مدعو تھے۔ یہ انجینئر ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ کلکتہ میں قحط پڑا ہوا ہے۔ اس پر ٹلی کا قونصل قہقہہ مار کر ہنسنے لگا اور مجھے بھی اس ہنسی میں شریک ہونا پڑا۔ دراصل یہ پڑھے لکھے، ہندوستانی بھی بڑے جاہل ہوتے ہیں۔کتابی علم سے قطع نظر انھیں اپنے ملک کی صحیح حالت کا کوئی اندازہ نہیں۔ ہندوستان کی دوتہائی آبادی دن رات غلّہ اور بچے پیدا کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
اس لئے یہاں پر غلّے اور بچوں کی کمی کبھی نہیں ہونے پاتی، بلکہ جنگ سے پیشتر تو بہت سا غلہ دساور کو جاتا تھا اور بچے قلی بنا کر جنوبی افریقہ بھیج دیئے جاتے تھے۔ اب ایک عرصے سے قلیوں کا باہر بھیجنا بند کر دیا گیا ہے اور ہندوستانی صوبوں کو ’’ہوم رول‘‘ دے دیا گیا ہے۔ مجھے یہ ہندوستانی انجینئر تو کوئی ایجی ٹیٹر قسم کا خطرناک آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی کے قونصل سے اس کا تذکرہ چھیڑا تو موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی نے بڑے غور و خوض کے بعد یہ رائے دی کہ ہندوستانی اپنے ملک پر حکومت کی قطعاً اہلیت نہیں رکھتا۔ چوں کہ موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقومی معاملات میں ایک خاص مرتبہ حاصل ہے۔ اس لئے میں ان کی رائے وقیع سمجھتا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی۔ پی
۱۱ اگست
آج صبح بولپور سے واپس آیا ہوں۔ وہاں ڈاکٹر ٹیگور کا ’’شانتی نکیتاں‘‘ دیکھا۔ کہنے کو تو یہ ایک یونیورسٹی ہے۔ لیکن پڑھائی کا یہ عالم ہے کہ طالب علموں کو بیٹھنے کے لئے ایک بنچ نہیں۔ استاد اور طالب علم سب ہی درختوں کے نیچے آلتی پالتی مارے بیٹھے رہتے ہیں اور خدا جانے کچھ پڑھتے بھی ہیں یا یوں ہی اونگھتے ہیں۔ میں وہاں سے بہت جلد آیا کیوں کہ دھوپ بہت تیز تھی اور اوپر درختوں کی شاخوں پر چڑیاں شور مچا رہی تھیں۔
ف۔ ب۔ پ
۱۲ اگست
آج چینی قونصل کے ہاں لنچ پر پھر کسی نے کہا کہ کلکتہ میں سخت قحط پڑا ہوا ہے۔ لیکن وثوق سے کچھ نہ کہہ سکا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ ہم سب لوگ حکومت بنگال کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اعلان کے جاری ہوتے ہی حضور کو مزید حالات سے مطلع کروں گا۔ بیگ میں حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے ایک جوتی بھی ارسال کر رہا ہوں۔ یہ جوتی سبز رنگ کے سانپ کی جلد سے بنائی گئی ہے۔ سبز رنگ کے سانپ برما میں بہت ہوتے ہیں، امید ہے کہ جب برما دوبارہ حکومت انگلشیہ کی عملداری میں آ جائے گا تو ان جوتوں کی تجارت کو بہت فروغ حاصل ہو سکے گا۔
میں ہوں جناب کا وغیرہ وغیرہ۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۳ اگست
آج ہمارے سفارت خانے کے باہر دو عورتوں کی لاشیں پائی گئ ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھیں۔ شاید ’’سکھیا‘‘ کی بیماری میں مبتلا تھیں ادھر بنگال میں اور غالباً سارے ہندوستان میں ’’سکھیا‘‘ کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ اس عارضے میں انسان گھلتا جاتا ہے اور آخر میں سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر مر جاتا ہے۔ یہ بڑی خوفناک بیماری ہے۔ لیکن ابھی تک اس کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوا۔ کونین کثرت سے مفت تقسیم کی جا رہی ہے۔ لیکن کونین میگنیشیا یا کسی اور مغربی دوا سے اس عارضے کی شدت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دراصل ایشیائی بیماریوں کو نوعیت مغربی امراض سے مختلف ہے۔ بہت مختلف ہے، یہ اختلاف اس مفروضے کا بدیہی ثبوت ہے کہ ایشیائی اور مغربی دو مختلف انسان ہیں۔
حضور پر نور کی رفیقۂ حیات کے باسٹھویں جنم دن کی خوشی میں بدھ کا ایک مرمر کا بت ارسال کر رہا ہوں۔ اسے میں نے پانسو ڈالر میں خریدا ہے۔ یہ مہاراجہ بندھو سار کے زمانے کا ہے اور مقدس راہب خانے کی زینت تھا۔ حضور پرنور کی رفیقۂ حیات کے ملاقاتیوں کے کمرے میں خوب سجے گا۔
مکرر عرض ہے کہ سفارت خانے کے باہر پڑی ہوئی لاشوں میں ایک بچہ بھی تھا جو اپنی مردہ ماں سے دودھ چوسنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے ہسپتال بھجوا دیا ہے۔
حضور پر نور کا غلام
ایف۔ بی۔ پی
۱۴ اگست
ڈاکٹر نے بچے کو ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بچہ ابھی سفارت خانہ میں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ حضور پر نور کی ہدایت کا انتظار ہے۔ ٹلی کے قونصل نے مشورہ دیا ہے کہ اس بچے کو جہاں سے پایا تھا۔ وہیں چھوڑ دوں۔ لیکن میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ اپنے حکومت کے صدر سے مشورہ کئے بغیر کوئی ایسا اقدام کروں جس کے سیاسی نتائج بھی نہ جانے کتنے مہلک ثابت ہوں۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۶ اگست
آج سفارت خانے کے باہر پھر لاشیں پائی گئیں۔ یہ سب لوگ اسی بیماری کا شکار معلوم ہوتے تھے۔ جس کا میں اپنے گزشتہ مکتوبات میں ذکر کر چکا ہوں۔ میں نے بچے کو انہی لاشوں میں چپکے سے رکھ دیا ہے۔ اور پولیس کو ٹیلی فون کر دیا ہے کہ وہ انھیں سفار خانے کی سیڑھیوں سے اٹھانے کا بندو بست کرے۔ امید ہے آج شام تک سب لاشیں اٹھ جائیں گی۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۷ اگست
کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’سٹیٹسمین‘‘ نے اپنے افتتاحیہ میں آج اس امر کا اعلان کیا ہے کہ کلکتہ میں سخت قحط پھیلا ہوا ہے۔ یہ اخبار چند روز سے قحط زدگان کی تصاویر بھی شائع کر رہا ہے۔ ابھی تک وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فوٹو اصلی ہیں یا نقلی۔ بظاہر تو یہ فوٹو سوکھیا کی بیماری کے پرانیوں کے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن تمام غیر ملکی قونصل اپنی رائے ’’محفوظ‘‘ رکھ رہے ہیں۔
ایف۔ بی۔ پی
۲۰ اگست
سوکھیا کی بیماری کے مریضوں کو اب ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف کلکتہ میں روز دو ڈھائی سو آدمی اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اب یہ بیماری ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ڈاکٹر لوگ بہت پریشان ہیں کیوں کہ کونین کھلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مرض میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوتی۔ ہاضمے کا مکچر میگنیشیا مکسچر اور ٹنکچر آیوڈین پورا برٹش فارما کوپیا بیکار ہے۔
چند مریضوں کا خون لے کر مغربی سائنسدانوں کے پاس بغرض تحقیق بھیجا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ کسی غیر معمولی مغربی ایکسپرٹ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں یا ایک رائل کمیشن بٹھا دیا جائے جو چار پانچ سال میں اچھی طرح چھان بین کر کے اس امر کے متعلق اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر ے۔ الغرض ان غریب مریضوں کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ شد و مد کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے کہ سارے بنگال میں قحط کا دور دورہ ہے اور ہزاروں آدمی ہر ہفتے غذا کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن ہماری نوکرانی (جو خود بنگالن ہے) کا خیال ہے کہ یہ اخبارچی جھوٹ بولتے ہیں۔ جب وہ بازار میں چیزیں خریدنے جاتی ہے تو اسے ہر چیز مل جاتی ہے۔ دام بے شک بڑھ گئے ہیں۔ لیکن یہ مہنگائی تو جنگ کی وجہ سے ناگزیر ہے۔
ایف۔ بی۔ پی۔
۲۵ اگست
آج سیاسی حلقوں نے قحط کی تردید کر دی ہے۔ بنگال اسمبلی نے جس میں ہندوستانی ممبروں اور وزراء کی کثرت ہے۔ آج اعلان کر دیا ہے کہ کلکتہ اور بنگال کا علاقہ ’’قحط زدہ علاقہ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ بنگال میں فی الحال راشننگ نہ ہو گا۔ یہ خبر سن کر غیر ملکی قونصلوں کے دل میں اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اگر بنگال قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا جاتا تو ضرور راشننگ کا فی الفور نفاذ نہ ہوتا اور۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اگر راشننگ کا نفاذ ہوتا تو اس کا اثر ہم لوگوں پر بھی پڑتا۔ موسیوسی گل جو فرنچ قونصل میں کل ہی مجھ سے کہہ رہے تھے کہ عین ممکن ہے کہ راشننگ ہو جائے۔ اس لئے تم ابھی سے شراب کا بندوبست کر لو۔ میں چندر نگر سے فرانسیسی شراب منگوانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ سنا ہے کہ چندر نگر میں کئی سو سال پرانی شراب بھی دستیاب ہوتی ہے۔ بلکہ اکثر شرابیں تو انقلاب فرانس سے بھی پہلے کی ہیں۔ اگر حضور پرنور مطلع فرمائیں تو چند بوتلیں چکھنے کے لئے بھیج دوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ اگست
کل ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں نے نیومارکیٹ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کے لئے چند کھلونے خریدے۔ ان میں ایک چینی کی گڑیا بہت ہی حسین تھی۔ اور ماریا کو بہت پسند تھی۔ میں نے ڈیڑھ ڈالر دے کر وہ گڑیا بھی خرید لی اور ماریا کو انگلی سے لگائے باہر آگیا۔ کار میں بیٹھنے کو تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کی بنگالی عورت نے میرا کوٹ پکڑ کر مجھے بنگالی زبان میں کچھ کہا۔
میں نے اس سے اپنا دامن چھڑا لیا اور کار میں بیٹھ کر اپنے بنگالی شوفر سے پوچھا،’’یہ کیا چاہتی ہے؟‘‘
ڈرائیور بنگالی عورت سے بات کر نے لگا۔ اس عورت نے جواب دیتے ہوئے اپنی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جسے وہ اپنے شانے سے لگائے کھڑی تھی۔ بڑی بڑی موٹی آنکھوں والی زرد زرد بچی بالکل چینی کی گڑیا معلوم ہوتی تھی اور ماریا کی طرف گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔
پھر بنگالی عورت نے تیزی سے کچھ کہا۔ بنگالی ڈرائیور نے اسی سرعت سے جواب دیا۔
’’کیا کہتی ہے یہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ڈرائیور نے اس عورت کی ہتھیلی پر چند سکے رکھے اور کار آگے بڑھائی۔ کار چلاتے چلاتے بولا، ’’حضور یہ اپنی بچی کو بیچنا چاہتی تھی۔ ڈیڑھ روپے میں۔‘‘
’’ڈیڑھ روپے میں، یعنی نصف ڈالر میں؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ارے نصف ڈالر میں تو چینی کی گڑیا بھی نہیں آتی؟‘‘
’’آج کل نصف ڈالر میں بلکہ اس سے بھی کم قیمت پر ایک بنگالی بچی مل سکتی ہے۔‘‘
میں حیرت سے اپنے ڈرائیور کو تکتا رہ گیا۔
اس وقت مجھے اپنے وطن کی تاریخ کا وہ باب یاد آیا۔ جب ہمارے آباو اجداد افریقہ سے حبشیوں کو زبردستی جہاز میں لاد کر اپنے ملک میں لے آتے تھے اور منڈیوں میں غلاموں کی خرید و فروخت کر تے تھے۔ ان دنوں ایک معمولی سے معمولی حبشی بھی پچیس تیس ڈالر سے کم میں نہ بکتا تھا۔ افوہ، کس قدر غلطی ہوئی۔ ہمارے بزرگ اگر افریقہ کے بجائے ہندوستان کا رخ کرتے تو بہت سستے داموں غلام حاصل کر سکتے تھے۔ حبشیوں کے بجائے اگر وہ ہندوستانیوں کی تجارت کرتے تو لاکھوں ڈالر کی بچت ہو جاتی۔ ایک ہندوستانی لڑکی صرف نصف ڈالر میں ! اور ہندوستان کی بھی آبادی چالیس کروڑ ہے۔ گویا بیس کروڑ ڈالر میں ہم پورے ہندوستان کی آبادی کو خرید سکتے تھے۔ ذرا خیال تو فرمائیے کہ بیس کروڑ ڈالر ہوتے ہی کتنے ہیں۔ اس سے زیادہ رقم تو ہمارے وطن میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔
اگر حضور پرنور کی منجھلی بیٹی کو یہ پسند ہو تو میں ایک درجن بنگالی لڑکیاں خرید کر بذریعہ ہوائی جہاز پارسل کر دوں۔ تب شوفر نے بتایا کہ آج کل ’’سونا گاچی‘‘ جہاں کلکتہ کی طوائفیں رہتی ہیں۔ اس قسم کی بردہ فروشی کا اڈہ ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں لڑکیاں شب و روز فروخت کی جا رہی ہیں۔
لڑکیوں کے والدین فروخت کرتے ہیں اور رنڈیاں خریدتی ہیں۔ عام نرخ سوا روپیہ ہے۔ لیکن اگر بچی قبول صورت ہو تو چار پانچ بلکہ دس روپے بھی مل جاتے ہیں۔ چاول آج کل بازار میں ساٹھ ستر روپے فی من ملتا ہے۔ اس حساب سے اگر ایک کنبہ اپنی دو بچیاں بھی فروخت کر دے تو کم از کم آٹھ دس دن اور زندگی کا دھندا کیا جا سکتا ہے۔ اور اوسطاً بنگالی کنبے میں لڑکیوں کی تعداد دو سے زیادہ ہوتی ہے۔
کل مئیر آف کلکتہ نے شام کے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ وہاں یقیناً بہت ہی دلچسپ باتیں سننے میں آئیں گی۔
ف۔ ب۔ پ
۲۹ اگست
میئر آف کلکتہ کا خیال ہے کہ بنگال میں شدید قحط ہے اور حالت بے حد خطرناک ہے۔ اس نے مجھ سے اپیل کی کہ میں اپنی حکومت کو بنگال کی مدد کے لئے آمادہ کروں۔ میں نے اسے اپنی حکومت کی ہمدردی کا یقین دلایا۔ لیکن یہ امر بھی اس پر واضح کر دیا کہ یہ قحط ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور ہماری حکومت کسی دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتی۔ ہم سچے جمہوریت پسند ہیں اور کوئی سچا جمہوریہ آپ کی آزادی کو سلب کرنا نہیں چاہتا۔ ہر ہندوستانی کو جینے یا مرنے کا اختیار ہے۔ یہ ایک شخصی یا زیادہ سے زیادہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کی نوعیت بین الاقوامی نہیں۔ اس موقعہ پر موسیوژاں ژاں تریپ بھی بحث میں شامل ہو گئے اور کہنے لگے۔
جب آپ کی اسمبلی نے بنگال کو قحط زدہ علاقہ famine area ہی نہیں قرار دیا تو اس صورت میں آپ دوسری حکومتوں سے مدد کیوں کر طلب کر سکتے ہیں۔ اس پر میئر آف کلکتہ خاموش ہو گئے اور رس گلے کھانے لگے۔
ف۔ ب۔ پ
30 اگست
مسٹر ایمری نے جو برطانوی وزیر ہندو ہیں۔ ہاؤس آف کامنز میں ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں آبادی کا تناسب غذائی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے۔ ہندوستان کی آبادی میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ در حالیکہ زمینی پیداوار بہت کم بڑھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہندوستانی بہت کھاتے ہیں۔
یہ تو حضور میں نے بھی آزمایا ہے کہ ہندوستانی لوگ دن میں دوبار بلکہ اکثر حالتوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اس قدر کھاتے ہیں کہ ہم مغربی لوگ دن میں پانچ بار بھی اس قدر نہیں کھاسکتے۔ موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں شرح اموات کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا پیٹو پن ہے۔ یہ لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں تو پیٹ پھٹ جاتا ہے اور وہ جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ہندوستانی کبھی منھ پھٹ نہیں ہوتا لیکن پیٹ پھٹ ضرور ہوتا ہے بلکہ اکثر حالتوں میں تلی پھٹ بھی پایا۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانیوں اور چوہوں کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اکثر حالتوں میں ان دونوں میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جتنی جلدی پیدا ہوتے ہیں اتنی جلدی مر جاتے ہیں۔ اگر چوہوں کو پلیگ ہوتی ہے تو ہندوستانیوں کو ’’سوکھیا‘‘ بلکہ عموماً پلیگ اور سوکھیا دونوں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بہر حال جب تک چوہے اپنے بل میں رہیں اور دنیا کو پریشان نہ کریں۔ ہمیں ان کے نجی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔
غذائی محکمے کے ممبر حالات کی جانچ پڑتال کے لئے تشریف لائے ہیں۔ بنگالی حلقوں میں یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ آنر بیل ممبر پر اب یہ واضح ہو جائے گا کہ بنگال میں واقعی قحط ہے اور شرح اموات کے بڑھنے کا سبب بنگالیوں کہ انار کسٹانہ حرکات نہیں بلکہ غذائی بحران ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ ستمبر
آنریبل ممبر تحقیقات کے بعد واپس چلے گئے ہیں۔ سنا ہے، وہاں حضور وائیسرائے بہادر سے ملاقات کریں گے اور اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھیں گے۔
۲۵ ستمبر
لندن کے انگریزی اخباروں کی اطلاع کے مطابق ہر روز کلکتہ کی گلیوں اور سڑکوں، فٹ پاتھوں پر لوگ مر جاتے ہیں۔ بہر حال یہ سب اخباری اطلاعیں ہیں۔ سرکاری طور پر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ بنگال میں قحط ہے۔ سب پریشان ہیں۔ چینی قونصل کل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ بنگال کے فاقہ کشوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھولنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کوئی کہتا ہے کہ قحط ہے کوئی کہتا ہے قحط نہیں ہے۔ میں نے اسے سمجھایا، بیوقوف نہ بنو۔ اس وقت تک ہمارے پاس مصدقہ اطلاع یہی ہے کہ غذائی بحران اس لئے ہے کہ ہندوستانی بہت زیادہ کھاتے ہیں۔ اب تم ان لوگوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھول کر گویا ان کے پیٹوپن کو اور شہ دو گے۔ یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن چینی قونصل میری تشریحات سے غیر مطمئن معلوم ہوتا تھا۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ ستمبر
دلی میں غذائی مسئلے پر غور کرنے کے لئے ایک کانفرنس بلائی جا رہی ہے۔ آج پھر یہاں کئی سو لوگ ’’سوکھیا‘‘ سے مر گئے۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ مختلف صوبائی حکومتوں نے رعایا میں اناج تقسیم کرنے کی جوا سکیم بنائی ہے۔ اس سے انھوں نے کئی لاکھ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔ اس میں بنگال کی حکومت بھی شامل ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ اکتوبر
کل گرانڈ ہوٹل میں ’’یوم بنگال‘‘ منایا گیا۔ کلکتہ کے یوروپین امراء و شرفاء کے علاوہ حکام اعلیٰ، شہر کے بڑے سیٹھ اور مہاراجے بھی اس دلچسپ تفریح میں شریک تھے۔ ڈانس کا انتظام خاص طور پر اچھا تھا۔ میں نے مسز جیولٹ تریپ کے ساتھ دو مرتبہ ڈانس کیا (مسز تریپ کے منھ سے لہسن کی بو آتی تھی۔ نہ جانے کیوں؟‘‘) مسز تریپ سے معلوم ہوا کہ اس سہن ماہتابی کے موقعہ پر یوم بنگال کے سلسلہ میں نو لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا ہے۔
مسز تریپ بار بار چاند کی خوب صورت اور رات کی سیاہ ملائمت کا ذکر کر رہی تھیں اور ان کے منھ سے لہسن کے بھپارے اٹھ رہے تھے۔ جب مجھے ان کے ساتھ دو بارہ ڈانس کرنا پڑا تو میرا جی چاہتا تھا کہ ان کے منھ پر لائی سول یا فینائل چھڑک کر ڈانس کروں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مسز جیولٹ تریپ موسیو ژاں ژاں تریپ کی باوقار بیوی ہیں اور موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقوامی معاملات میں ایک قابل رشک مرتبہ حاصل ہے۔
ہندوستانی خواتین میں مس سنیہہ سے تعارف ہوا۔ بڑی قبول صورت ہے اور بے حد اچھا ناچتی ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۶ اکتوبر
مسٹر منشی حکومت بمبئی کے ایک سابق وزیر کا اندازہ ہے کہ بنگالی میں ہر ہفتے قریباً ایک لاکھ افراد قحط کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ سرکاری اطلاع نہیں ہے۔ قونصل خانے کے باہر آج پھر چند لاشیں پائی گئیں۔ شوفر نے بتایا کہ یہ ایک پورا خاندان تھا جو دیہات سے روٹی کی تلاش میں کلکتہ آیا تھا۔ پرسوں بھی اسی طرح میں نے ایک مغنی کی لاش دیکھی تھی۔ ایک ہاتھ میں وہ اپنی ستار پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں لکڑی کا ایک جھنجھنا سمجھ نہیں آیا۔ اس کا کیا مطلب تھا۔ بیچارے چوہے کس طرح چپ چاپ مر جاتے ہیں اور زبان سے اف تک بھی نہیں کرتے۔
میں نے ہندوستانیوں سے زیادہ شریف چوہے دنیا میں اور کہیں نہیں دیکھے۔ اگر امن پسندی کے لئے نوبل پرائز کسی قوم کو مل سکتا ہے۔ تو وہ ہندوستانی ہیں۔ یعنی لاکھوں کی تعداد میں بھوکے مر جاتے ہیں لیکن زبان پر ایک کلمۂ شکایت نہیں لائیں گے۔ صرف بے روح، بے نور آنکھوں سے آسمان کی طرف تاکتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں۔ ان داتا، ان داتا۔! کل رات پھر مجھے اس مغنی کی خاموش شکایت سے معمور، جا مدو ساکت پتھریلی بے نور سی نگاہیں پریشان کرتی رہیں۔
ف۔ ب۔ پ
۵ نومبر
نئے حضور وائسرائے بہادر تشریف لائے ہیں۔ سنا ہے کہ انھوں نے فوج کو قحط زدہ لوگوں کی امداد پر مامور کیا ہے اور جو لوگ کلکتہ کے گلی کو چوں میں مرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے باہر مضافات میں مرکز کھول دیئے گئے ہیں۔ جہاں ان کی آسائش کے لئے سب سامان بہم پہنچایا جائے گا۔
ف۔ ب۔ پ
۱۰ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ بنگال میں واقعی قحط ہو اور سوکھیا کی بیماری کی اطلاعیں غلط ہوں۔ غیر ملکی قونصل خانوں میں اس ریمارک سے ہل چل مچ گئی ہے۔ مملکت گوبیا، لوبیا اور مٹرسلووکیا کے قونصلوں کا خیال ہے کہ موسیوژاں ژاں تریپ کا یہ جملہ کسی آنے والی خوفناک جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ یورپی اور ایشیائی ملکوں سے بھاگے ہوئے لوگوں میں آج کل ہندوستان میں مقیم ہیں ۔
وائسرائے کی اسکیم کے متعلق مختلف شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ اگر بنگال واقعی قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا تو ان کے الاؤنس کا کیا بنے گا؟ وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ میں حضور پر نور کی توجہ اس سیاسی الجھن کی طرف دلانا چاہتا ہوں، جو وائسرائے بہادر کے اعلان سے پیدا ہو گئی ہے۔ مغرب کے ملکوں کے رفیوجیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کیا ہمیں سینہ سپر ہو کر نہ لڑنا چاہیے۔ مغربی تہذیب کلچر اور تمدن کے کیا تقاضے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ میں اس سلسلہ میں حضور پرنور کے احکام کا منتظر ہوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۵ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط نہیں ہے۔ موسیو فاں فاں فنگ چینی قونصل کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ حضور نے مجھے جس کام کےلئے کلکتہ کے قونصل خانے میں تعینات کیا تھا۔ وہ کام میں گزشتہ تین ماہ میں بھی پورا نہ کر سکا۔ میرے پاس اس امر کی ایک بھی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ بنگال میں قحط ہے یا نہیں ہے۔ تین ماہ کی مسلسل کاوش کے بعد بھی مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ صحیح ڈپلومیٹک پوزیشن کیا ہے۔ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں، شرمندہ ہوں۔ معافی چاہتا ہوں۔
نیز عرض ہے کہ حضور پر نور کی منجھلی بیٹی کو مجھ سے اور مجھے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے عشق ہے۔ اس لئے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ حضور پر نور مجھے کلکتہ کے سفارت خانے سے واپس بلالیں اور میری شادی اپنی بیٹی۔۔۔ مطلب ہے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے کر دیں اور حضور پر نور مجھے کسی ممتاز سفارت خانے میں سفیر اعلی کا مرتبہ بخش دیں؟ اس نوازش کے لئے میں حضور پر نور کا تاقیامت شکر گزار ہو ں گا۔
ایڈتھ کے لئے ایک نیلم کی انگوٹھی ارسال کر رہا ہوں۔ اسے مہاراجہ اشوک کی بیٹی پہنا کرتی تھی۔
میں ہوں جناب کا حقیر ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخہ
قونصل مملکت سانڈوگھاس برائے کلکتہ
(۲)
وہ آدمی جو مر چکا ہے
صبح ناشتہ پر جب اس نے اخبار کھولا تو اس نے بنگال کے فاقہ کشوں کی تصاویر دیکھیں جو سڑکوں پر، درختوں کے نیچے، گلیوں میں، کھیتوں میں بازاروں میں، گھروں میں ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ آملیٹ کھاتے کھاتے اس نے سوچا کہ ان غریبوں کی امداد کس طرح ممکن ہے۔ یہ غریب جو ناامیدی کی منزل سے آگے جا چکے ہیں اور موت کی بحرانی کیفیت سے ہمکنار ہیں۔ انھیں زندگی کی طرف واپس لانا، زندگی کی صعوبتوں سے دوبارہ آشنا کرنا، ان سے ہمدردی نہیں دشمنی ہو گی۔
اس نے جلدی میں اخبار کا ورق الٹا اور توس پر مربہ لگا کر کھانے لگا۔ تو س نرم گرم اور کر کرا تھا اور مربے کی مٹھاس اور اس کی ہلکی سی ترشی نے اس کے ذائقہ کو اور بھی نکھار دیا تھا۔ جیسے غازے کا غبار عورت کے حسن کونکھار دیتا ہے۔ یکایک اسے سنیہ کا خیال آیا۔ سنیہ ابھی تک نہ آئی تھی۔ گو اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صبح کے ناشتہ پر اس کے ساتھ موجود ہو گی۔ سو رہی ہو گی بیچاری اب کیا وقت ہو گا۔ اس نے اپنی سونے کی گھڑی سے پوچھا جو اس کی گوری کلائی میں جس پر سیاہ بالوں کی ایک ہلکی سی ریشمیں لائین تھی۔ ایک سیاہ ریشمی فیتے سے بندھی تھی۔ گھڑی، قمیض کے بٹن اور ٹائی کا پن، یہی تین زیور مرد پہن سکتا ہے اور عورتوں کو دیکھیئے کہ جسم کو زیور سے ڈھک لیتی۔ کان کے لئے زیور، پاؤں کے لئے زیور، کمر کے لئے زیور، ناک کے لئے زیور، سر کے لئے زیور، گلے کے لئے زیور باہوں کے لئے زیور اور مرد بے چارے کے لئے صرف تین زیور بلکہ دو ہی سمجھئے کیوں کہ ٹائی کا پن اب فیشن سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ نہ جانے مردوں کو زیادہ زیور پہننے سے کیوں منع کیا گیا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے وہ دلیا کھانے لگا۔ دلئے سے الائچی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ اس کے نتھنے، اس کے پاکیزہ تعطر سے مصفٰی ہو گئے اور یکایک اس کے نتھنوں میں گزشتہ رات کے عطر کی خوشبو تازہ ہو گئی۔ وہ عطر جو سنیہ نے اپنی ساڑھی، اپنے بالوں میں لگا رکھا تھا۔ گزشتہ رات کا دلفریب رقص اس کی آنکھوں کے آگے گھومتا گیا۔ گرانڈ ہوٹل میں ناچ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ اس کا اور سنیہ کا جوڑا کتنا اچھا ہے۔ سارے ہال کی نگاہیں ان پر جمی ہوئی تھیں۔
دونوں کانوں میں گول گول طلائی آویزے پہنے ہوئے تھی۔ جو اس کی لوووں کو چھپا رہے تھے۔ ہونٹوں پر جوانی کا تبسم اور میکس فیکٹر کی لالی کا معجزہ اور سینے کے سمن زاروں پر موتیوں کی مالا چمکتی، دمکتی، لچکتی ناگن کی طرح سوبل کھاتی ہوئی۔ رمبا ناچ کوئی سنیہ سے سیکھے، اس کے جسم کی روانی اور ریشمی بنارسی ساڑی کا پر شور بہاؤ جیسے سمندر کی لہریں چاندنی رات میں ساحل سے اٹھکھیلیاں کر رہی ہوں۔ لہر آگے آتی ہے۔ ساحل کو چھو کر واپس چلی جاتی ہے۔ مدھم سی سرسراہٹ پیدا ہوتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ شور مدھم ہو جاتا ہے۔ شور قریب آ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ لہر چاندنی میں نہائے ہوئے ساحل کو چوم رہی ہے۔
سنیہ کے لب نیم وا تھے۔ جن میں دانتوں کی لڑی سپید موتیوں کی مالا کی طرح لرزتی نظر آتی تھی۔۔۔ یکایک وہاں کی بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ سے ہونٹ سے ہونٹ ملائے، جسم سے جسم لگائے آنکھیں بند کئے رقص کے تال پر ناچتے رہے۔ ان سروں کی مدھم سی روانی، وہ رسیلا میٹھا تمون رواں دواں، رواں دواں موت کی سی پاکیزگی۔ نیند اور خمار اور نشہ جیسے جسم نہ ہو، جیسے زندگی نہ ہو، جیسے تو نہ ہو، جیسے میں نہ ہوں، صرف ایک بوسہ ہو۔ صرف ایک گیت ہو۔ اک لہر ہو۔ رواں دواں، رواں دواں۔۔۔ اس نے سیب کے قتلے کئے اور کانٹے سے اٹھا کر کھانے لگا۔ پیالی میں چائے انڈیلتے ہوئے اس نے سوچا سنیہ کا جسم کتنا خوب صورت ہے۔ اس کی روح کتنی حسین ہے۔ اس کا دماغ کس قدر کھوکھلا ہے۔ اسے پر مغز عورتیں بالکل پسند نہ تھیں۔
جب دیکھو اشتراکیت، سامراجیت اور مارکسیت پر بحث کر رہی ہیں۔ آزادی تعلیم نسواں، نوکری، یہ نئی عورت، عورت نہیں فلسفے کی کتاب ہے۔ بھئی ایسی عورت سے ملنے یا شادی کرنے کی بجائے تو یہی بہتر ہے کہ آدمی ارسطو پڑھا کرے۔ اس نے بیقرار ہو کر ایک بار پھر گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ سنیہ ابھی تک نہ آتی تھی۔ چرچل اور اسٹالن اور روز ویلٹ طہران میں دنیا کا نقشہ بدل رہے تھے اور بنگال میں لاکھوں آدمی بھوک سے مر رہے تھے۔ دنیا کو اطلا نتک چار ٹر دیا جا رہا تھا اور بنگال میں چاول کا ایک دانہ بھی نہ تھا۔ اسے ہندوستان کی غربت پر اتنا ترس آیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ہم غریب ہیں بے بس ہیں نادار ہیں۔ مجبور ہیں۔ ہمارے گھر کا وہی حال ہے جو میرکے گھر کا حال تھا۔ جس کا ذکر انھوں نے چوتھی جماعت میں پڑھا تھا اور جو ہر وقت فریاد کرتا رہتا تھا۔ جس کی دیواریں سیلی سیلی اور گری ہوئی تھیں اور جس کی چھت ہمیشہ ٹپک ٹپک کر روتی رہتی تھی۔ اس نے سوچا ہندوستان بھی ہمیشہ روتا رہتا ہے۔ کبھی روٹی نہیں ملتی، کبھی کپڑا نہیں ملتا۔ کبھی بارش نہیں ہوتی۔ کبھی وبا پھیل جاتی ہے۔ اب بنگال کے بیٹوں کو دیکھو، ہڈیوں کے ڈھانچے آنکھوں میں ابدی افسردگی، لبوں پر بھکا ری کی صدا، روٹی، چاول کا ایک دانہ۔ یکایک چائے کا گھونٹ اسے اپنے حلق میں تلخ محسوس ہوا اور اس نے سوچا کہ وہ ضرور اپنے ہم وطنوں کی مدد کرے گا۔ وہ چندہ اکٹھا کرے گا۔سارے ہندوستان کا دورہ کریگا۔اور چیخ چیخ کر اس کے ضمیر کو بیدار کریگا۔ دورہ، جلسے، والنٹیر، چندہ، اناج اور زندگی کی ایک لہر ملک میں اس سر ے سے دوسرے سرے تک پھیل جائے گی۔ برقی روکی طرح۔ یکایک اس نے اپنا نام جلی سرخیوں میں دیکھا۔ ملک کا ہر اخبار اس کی خدمات کو سراہ رہا تھا اور خود، اس اخبار میں جسے وہ اب پڑھ رہا تھا۔ اسے اپنی تصویر جھانکتی نظر آئی ۔کھدر کا لباس اور جواہر لال جیکیٹ اور ہاں ویسی ہی خوب صورت مسکراہٹ۔ ہاں بس یہ ٹھیک ہے۔ اس نے بیرے کو آواز دی اسے ایک اور آملیٹ لانے کو کہا۔
آج سے وہ اپنی زندگی بدل ڈالے گا۔ اپنی حیات کا ہر لمحہ ان بھوکے ننگے، پیاسے، مرتے ہوئے ہم وطنوں کی خدمت میں صرف کر دے گا۔ وہ اپنی جان بھی ان کے لئے قربان کر دیگا۔ یکایک اس نے اپنے آپ کو پھانسی کی کوٹھری میں بند دیکھا، وہ پھانسی کے تختے کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا تھا۔ جلاد نے چہرے پر غلاف اڑھا دیا اور اس نے اس کھردرے موٹے غلاف کے اندر سے چلا کر کہا، ’’میں مر رہا ہوں۔ اپنے بھوکے پیاسے ننگے وطن کے لئے، یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو پھر بھر آئے اور دو ایک گرم گرم نمکین بوندیں چائے کی پیالی میں بھی گر پڑیں اور اس نے رومال سے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ یکایک ایک کا رپورچ میں رکی اور موٹر کا پٹ کھول کر سنیہ مسکراتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر آتی ہوئی اسے ہیلو کہتی ہوئی۔ اس نے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کے رخسار کو پھول کی طرح اپنے عطر بیز ہونٹوں سے چومتی ہوئی نظر آئی، بجلی، گرمی، روشنی، مسرت سب کچھ ایک تبسم میں تھا اور پھر زہر، سنیہ کی آنکھوں میں زہر تھا۔ اس کی زلفوں میں زہر تھا۔ اس کی مدھم ہلکی سانس کی ہر جنبش میں زہر تھا۔ وہ اجنتا کی تصویر تھی، جس کے خد و خال تصور نے زہر سے ابھارے تھے۔
اس نے پوچھا، ’’ناشتہ کروگی؟‘‘
’’نہیں میں ناشتہ کر کے آئی ہوں،‘‘ پھر سنیہ نے اس کی پلکوں میں آنسو چھلکتے دیکھ بولی،’’تم آج اداس کیوں ہو؟‘‘
وہ بولا، ’’کچھ نہیں۔ یونہی بنگال کے فاقہ کشوں کا حال پڑھ رہا تھا۔ سنیہ، ہمیں بنگال کے لئے کچھ کرنا چاہیئے۔‘‘
’’door darlings‘‘ سنیہ نے آہ بھر کر اور جیبی آئینے کی مدد سے اپنے ہونٹوں کی سرخی ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگ ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ ماسوا اس کے کہ ان کی روحوں کے لئے پر ماتما سے شانتی مانگیں۔‘‘
’’کانوونٹ کی تعلیم ہے نا آخر؟‘‘ اس نے اپنے خوب صورت سپید دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
وہ سوچ کر بولا،’’ہمیں ایک ریزولیوشن بھی پاس کرنا چاہیئے۔‘‘
’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
سنیہ نے نہایت معصومانہ انداز میں پوچھا اور اپنی ساڑھی کا پلو درست کرنے لگی۔
’’اب یہ تو مجھے ٹھیک طرح سے معلوم نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب کبھی ملک پر کوئی آفت آتی ہے۔ ریزولیوشن ضرور پاس کیا جاتا ہے۔ سنا ہے ریزولیوشن پاس کر دینے سے سب کام خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔۔۔ میرا خیال ہے۔ بس ابھی ٹیلی فون کر کے شہر کے کسی رہنما سے دباغ فن کے بارے میں پوچھتا ہوں۔‘‘
’’رہنے بھی دو ڈارلنگ!‘‘ سنیہ نے مسکرا کر کہا۔
’’دیکھو، جوڑے میں پھول ٹھیک سجا ہے؟‘‘
اس نے نیلراج کی نازک ڈنڈی کو جوڑے کے اندر تھوڑا سا دبا دیا۔
’’بے حد پیارا پھول ہے، نیلا جیسے کرشن کا جسم، جیسے ناگ کا پھن۔ جیسے زہر کا رنگ!‘‘
پھر سوچ کر بولا،’’نہیں کچھ بھی ہو۔ ریزولیوشن ضرور پاس ہونا چاہیئے۔ میں ابھی ٹیلی فون کرتا ہوں۔‘‘
سنیہ نے اسے اپنے ہاتھ کی ایک ہلکی سی جنبش سے روک لیا۔ گداز انگلیوں کا لمس ایک ریشمی رو کی طرح اس کے جسم کی رگوں اور عروق میں پھیلتا گیا۔ رواں دواں۔ رواں دواں۔۔۔ اس لہر نے اسے بالکل بے بس کر دیا اور وہ ساحل کی طرح بے حس و حرکت ہو گیا۔
’’آخری رمبا کتنا اچھا تھا!‘‘ سنیہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
اور اس کے ذہن میں پھر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ بنگالی فاقہ مستوں کی قطار میں اندر گھستی چلی آ رہی تھیں۔ وہ انھیں باہر نکالنے کی کوشش میں کامیاب ہوا۔ بولا،’’میں کہتا ہوں سنیہ، ریزولیشن پاس کرنے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں اس کے بعد ہمیں قحط زدہ علاقے کا دورہ کرنا چاہیئے کیوں؟‘‘
’’بہت دماغی محنت سے کام لے رہے ہو اس وقت۔‘‘ سنیہ نے قدرے تشویشناک لہجہ میں کہا۔
’’بیمار ہو جاؤ گے! جانے دو۔ وہ بے چارے تو مر رہے ہیں۔ انھیں آرام سے مرنے دو تم کیوں مفت میں پریشان ہوتےہو ؟‘‘
’’قحط زدہ علاقے کا دورہ کروں گا۔ یہ ٹھیک ہے۔ سنیہ، تم بھی ساتھ چلو گی نا؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’بنگال کے دیہات میں۔‘‘
’’ضرور۔ مگر وہاں کس ہوٹل میں ٹھہریں گے؟‘‘
ہوٹل کا ذکر سن کر اس نے اپنی تجویز کو وہیں اپنے ذہن میں قتل، کر ڈالا اور قبر کھود کر وہیں اندر دفنا دیا۔ خدا جانے اس کا ذہن اس قسم کی کتنی ناپختہ تمناؤں اور آرزؤں کا قبرستان بن چکا ہے۔
وہ بچے کی طرح روٹھا ہوا تھا، اپنی زندگی سے بیزار۔ سنیہ نے کہا، ’’میں تمہیں بتاؤں۔ ایک شاندار ناچ پارٹی ہو جائے۔ گرانڈ میں۔ دو روپیہ فی ٹکٹ اور شراب کے پیسے الگ رہے اور جو رقم اس طرح اکٹھی ہو جائے وہ بنگال ریلیف فنڈ میں۔۔۔‘‘
’’ارے رررے۔۔۔‘‘ اس نے کرسی سے اچھل کر سنیہ کو اپنے گلے لگایا۔ اے جان تمنا، تمہاری روح کتنی حسین ہے۔‘‘
’’جب ہی تم نے کل رات آخری رمبا کے بعد مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی۔‘‘ سنیہ نے ہنس کر کہا۔
’’اور تم نے کیا جواب دیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں نے انکار کر دیا تھا۔‘‘ سنیہ نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’بہت اچھا کیا۔‘‘ وہ بولا، ’’میں اس وقت شراب کے نشے میں تھا۔ ‘‘
کار،جیوتی رام، میونی رام، پیونی رام بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان پر رکی، سامنے گرانڈ ہوٹل کی عمارت تھی۔ کسی مغلئی مقبرے کی طرح وسیع اور پر شکوہ۔
اس نے کہا، ’’تمہارے لئے کون سے سگریٹ لے لوں!‘‘
’’روز۔ مجھے اس کی خوشبو پسند ہے۔‘‘ سنیہ نے کہا۔
’’امی دو دن کھیتے پائی نی کی چھوکھیتے داؤ۔‘‘
ایک بنگالی لڑکا دھوتی پہنے ہوئے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ میلی کچیلی، خاک میں اٹی ہوئی، آنکھیں غلیظ اور آدھ مندی ۔سنیہ نے کراہیت سے منھ پھیر لیا۔
’’میم صائب ایکٹاپوئے شاداؤ۔‘‘ لڑکا گڑ گڑا رہا تھا۔
’’تو میں روز ہی لے آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جیونی رام۔ میونی رام۔ بیونی رام، بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان کے اندر غائب ہو گیا۔
سنیہ کار میں بیٹھی لیکن بنگال کی بھوکی مکھیاں اس کے دماغ میں بھن بھناتی رہیں۔ میم صاحب۔۔۔میم صاحب۔ میم صاحب۔ میم صاحب نے دو ایک بار انہیں جھڑک دیا۔ لیکن بھوک جھڑکنے سے کہاں دور ہوتی ہے۔ وہ اور بھی قریب آ جاتی ہے۔ لڑکی نے ڈرتے ڈرتے اپنے ننھے ننھے ہاتھ سنیہ کی ساڑی سے لگا دئیے۔اور اس کا پلو پکڑ کر لجاجت سے کہنے لگی، ’’میم صاحب۔۔۔ میم صاحب۔میم صائب بورڈ کھیدے پیچھ۔ کی چھودا۔‘‘
سنیہ اب بالکل زچ ہو گئی تھی۔ اس نے جلدی سے پلو چھڑا لیا۔ اتنے میں وہ آ گیا۔ سنیہ بولی،’’یہ گدا گر کیوں اس قدر پریشان کرتے ہیں۔ کارپوریشن کوئی انتظام نہیں کر سکتی ہے کیا؟ جب سے تم دوکان کے اندر داخل ہوئے ہو۔یہ۔۔۔‘‘
اس نے گدا گر لڑکے کو زور سے چپت لگایا اور کار گھبرا کر گرانڈ ہوٹل کے پورچ میں لے آیا۔
بنگالی لڑکی جو ایک جھٹکے کے ساتھ دور جا پڑی تھی۔ وہیں فرش خاک پر کراہنے لگی۔ لڑکے نے چھوٹی بہن کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،
’’تمار کو تھاؤ لاگے نے تو۔‘‘
لڑکی سسکنے لگی۔ ناچ عروج پر تھا۔ سنیہ اور وہ ایک میز کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔
سنیہ نے پوچھا، ’’کتنے روپے اکٹھے ہوئے؟‘‘
’’ساڑھے چھ ہزار۔‘‘
’’ابھی تو ناچ عروج پر ہے۔ صبح چار بجے تک۔۔۔‘‘
’’نو ہزار روپیہ ہو جائے گا۔‘‘ وہ بولا۔
’’آج تم نے بہت کام کیا ہے!‘‘ سنیہ نے اس کی انگلیوں کو چھو کر کہا۔
’’کیا پیوگی؟‘‘
’’تم کیا پیو گے؟‘‘
’’جن اور سوڈا۔‘‘
سنیہ بولی، ’’بیرا۔ صاحب کے لئے ایک لارج جن لاؤ اور سوڈا۔‘‘
’’ناچتے ناچتے اور پیتے پیتے پریشان ہو گئی ہوں۔‘‘
’’اپنے وطن کی خاطر سب کچھ کرنا پڑتا ہے ڈارلنگ۔‘‘ اس نے سنیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’اوہ مجھے امپریلزم سے کس قدر نفرت ہے۔‘‘ سنیہ نے پر خلوص لہجہ میں کہا۔
’’بیرا، میرے لئے ایک ورجن لاؤ۔‘‘
بیرے نے’’ورجن‘‘ کا جام لاکر سامنے رکھ دیا۔ جن کی سپیدی میں ور موتھ کی لالی اس طرح نظر آتی تھی جیسے سنیہ کے عنبریں چہرے پر اس کے لب لعلیں۔ سنیہ نے جام ہلایا اور کاک ٹیل کا رنگ شفقی ہو گیا۔ سنیہ نے جام اٹھایا اور بجلی کی روشنی نے اس کے جام میں گھل کر یاقوت کی سی چمک پیدا کر دی۔ یاقوت سنیہ کی انگلیوں میں تھرا رہا تھا۔ یاقوت جو خون کی طرح سرخ تھا۔
ناچ عروج پر تھا اور وہ اور سنیہ ناچ رہے تھے۔ ایک گت، ایک تال ایک لے، سمندر دور،بہت دور۔کہیں نیچے چلا گیا تھا۔اور زمین گم ہو گئی تھی۔اور وہ ہوا میں اڑ رہے تھے۔اور سنیہ کا چہرہ اس کے کندھے پر تھا اور سنیہ کے بالوں میں بسی ہوئی خوشبو اسے بلا رہی تھی۔ بال بنانے کا انداز کوئی سنیہ سے سیکھے۔ یہ عام ہندوستانی لڑکیاں تو بیچ میں سے یا ایک طرف مانگ نکال لیتی اور تیل چپڑ کر بالوں میں کنگھی کر لیتی ہیں۔ بہت ہوا تو دو چوٹیاں کر ڈالیں اور اپنی دانست میں فیشن کی شہزادی بن بیٹھیں ۔مگر یہ سنیہ ہی جانتی ہے کہ بالوں کی ایک الگ ہستی ہوتی ہے۔ ان کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ ان کی مشاطگی عورت کی نسائیت کی معراج ہے۔ جیسے کوئی مصور سادہ تختے پر حسن کی نازک خطوط کھینچتا ہے۔ اسی طرح سنیہ بھی اپنے بال سنوارتی تھی۔ کبھی اس کے بال کنول کے پھول بن جاتے کبھی کانوں پر ناگن کےپھن۔ وہ کبھی چاند کا ہالہ ہو جاتے کبھی ان بالوں میں ہمالیہ کی وادیوں کے سے نشیب و فراز پیدا ہو جاتے۔ سنیہ اپنے بالوں کی آرائش میں ایسے جمالیاتی ذوق اور جودت طبع کا ثبوت دیتی تھی کہ معلوم ہوتا تھا سنیہ کی عقل اس کے دماغ میں نہیں، اس کے بالوں میں ہے۔
ناچ عروج پر تھا اور یہ بال اس کے رخساروں سے مس ہو رہے تھے۔ اس کے رگ و پے میں رقص کی روانی تھی اور نتھنوں میں اس خوشبو کا تعطر اس کا جسم اور سنیہ کا جسم پگھل کر ایک ہو گئے تھے اور ایک شعلے کی طرح ساز کی دھن پر لہرا رہے تھے۔ ایک شعلہ، ایک پھن، ایک زہر۔ایک لہر۔ لہریں۔لہریں، ہلکی ہلکی، گرم مدورسی لہریں ساحل کو چومتی ہوئی۔ لوریاں دے کر تھپک تھپک کر سلاتی ہوئی۔ سو جاؤ موت میں زندگی ہے۔ حرکت نہ کرو۔ سکون میں زندگی ہے۔ آزادی نہ طلب کرو۔ غلامی ہی زندگی ہے۔ چاروں طرف ہال میں ایک میٹھا سا زہر بسا ہوا تھا۔ شراب میں،عورت میں، ناچ میں۔ سنیہ کے نیلے سائے میں۔ اس کے پراسرار تبسم میں، اس کے نیم وا لبوں کے اندر کانپتی ہوئی موتیوں کی لڑی میں، زہر۔۔۔ زہر اور نیند اور سنیہ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے، بند ہوتے ہوئے لب، اور نغمے کا زہر، سو جاؤ۔سو جاؤ۔ سو جاؤ۔ یکایک ہال میں بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے، اس کے جسم سے جسم لگائے۔ مدھم مدھم دھیمے دھیمے ہولے ناچ کے جھولے میں گہرے، گداز، گرم آغوش میں کھو گیا۔ بہہ گیا۔ سو گیا، مرگیا۔
(۳)
وہ آدمی جو ابھی زندہ ہے
میں مر چکا ہوں؟ میں زندہ ہوں؟ میری پھٹی پھٹی بے نور بے بصر آنکھیں آسمان کی پہنائیوں میں کسے ڈھونڈ رہی ہیں؟ آؤپل بھر کے لئے اس قونصل خانے کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاؤ اور میری داستان سنتے جاؤ۔ جب تک پولیس، سیواسمتی، یا انجمن خدا م المسلمین میری لاش کو یہاں سے اٹھا نہ لے جائیں۔ تم میری داستان سن لو۔ نفرت سے منھ پھیرو۔ میں بھی تمہاری طرح گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اب میرے جسم پر گوشت کم اور پوست زیادہ نظر آتا ہے اور اس میں بھی سڑاند پیدا ہو رہی ہے اور ناک سے پانی کے بلبلے سے اٹھ رہے ہیں۔
لیکن یہ تو سائنس کا ایک معمولی سا عملیہ ہے۔ تمہارے جسم اور میرے جسم میں صرف اتنا فرق ہے کہ میرے دل کی حرکت بند ہو گئی ہے۔ دماغ نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پیٹ ابھی تک بھوکا ہے۔ یعنی اب بھی اس قدر بھوکا ہے کہ میں سوچتا ہوں، اگر تم چاول کا ایک ہی دانا میرے پیٹ میں پہنچا دو تو وہ پھر سے کام شروع کر دیگا۔ آزما کر دیکھ لو۔ کدھر چلے۔ ٹھہرو، ٹھہرو، ٹھہرو نہ جاؤ۔ میں تو یونہی مزاق کر رہا تھا۔ تم گھر ا گئے کہ کلکتہ کے مردے بھی بھیک مانگتے ہیں؟ خدا کے لئے نہ جاؤ میری داستان سن لو۔ ہاں ہاں اس چاول کے دانے کو اپنی مٹھی میں سنبھال کر رکھو۔ میں اب تم سے بھیک نہیں طلب کروں گا۔ کیوں کہ میرا جسم اب گل چکا ہے۔ اسے چاول کی دانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب یہ خود ایک دن چاول کا دانہ بن جائیگا۔ نرم نرم گداز مٹی میں جس کے ہر مسام میں ندی کا پانی رچا ہوگا۔ یہ جسم گھل جائے گا۔ اپنے اندر دھان کی پنیری اگتے ہوئے دیکھے گا اور پھر یہ ایک دن پانی کی پتلی تہہ سے اوپر سر نکال کر اپنے سبز سبز خوشوں کو ہوا میں لہرائے گا، مسکرائے گا، ہنسے گا، کھلکھلائے گا۔ کرنوں سے کھیلے گا۔ چاندنی میں نہائے گا۔ پرندوں کے چہچہوں اور خنک ہوا کے جھونکوں کے شہد آ گیں بوسوں سے اس کی حیات کے بند بند میں ایک نئی رعنائی ایک نیا حسن، ایک نیا نغمہ پیدا ہو گا۔ چاول کا ایک دانہ ہو گا۔ صدف کے موتی کی طرح اجلا، معصوم اور خوب صورت۔۔۔ آج میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا راز، وہ راز جو تمھیں ایک مردہ ہی بتا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے دعا کرو۔ وہ تمھیں انسان نہ بنائے۔ چاول کا ایک دانہ بنا دے۔ گو زندگی انسان میں بھی ہے اور چاول کے دانے میں بھی۔ لیکن جو زندگی چاول کے دانے میں ہے۔ وہ انسان کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ خوبصورت ہے۔ پاک ہے اور انسان کے پاس بھی اس زندگی کے سوا اور ہے کیا۔
انسان کی جائیداد اس کا جسم، اس کا باغ اس کا گھر نہیں بلکہ یہی اس کی زندگی ہے۔ اس کا اپنا آپ، وہ ان سب چیزوں کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے اپنے جسم کو، اپنی زمین کو، اپنے گھر کو اس کے دل میں چند تصویریں ہوتی ہیں۔ چند خیال آگ کے چند انگارے ایک مسکراہٹ وہ ان ہی پر جیتا ہے۔ اورجب مر جاتا ہے تو صرف انھیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
چاول کے دانے کی زندگی تم دیکھ چکے۔ اب آؤ میں تمھیں اپنی زندگی دکھاؤں ،نفرت سے منھ نہ پھیر لو۔ کیا ہوا؟ اگر میرا جسم مردہ ہے۔ میری روح تو زندہ ہے میری روح تو بیدار ہے اور بیشتر اس کے کہ وہ بھی سو جائے، وہ تمھیں ان چند دنوں کی کہانی سنانا چاہتی ہے۔ جب روح جسم ایک ساتھ چلتے پھرتے ناچتے گاتے ہنستے بولتے تھے۔ روح اور جسم، دو میں مزا ہے، دو میں حرکت ہے، دو میں زندگی ہے، دو میں تخلیق ہے۔ جب دھرتی اور پانی ملتے ہیں تو چاول کا دانہ پیدا ہوتا ہے۔
جب عورت اور مرد ملتے ہیں تو ایک خوبصورت ہنستا ہوا بچہ ظہور میں آتا ہے۔ جب روح اور جسم ملتے ہیں تو زندگی پیدا ہوتی ہے اور جب روح الگ ہوتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے۔ اگر غور سے دیکھو گے تو تمہیں اس دھوئیں میں میرے ماضی کی تصاویر لرزتی، دمکتی، گم ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔۔۔ یہ تجلی کیا تھی۔ ۔۔یہ میری بیوی کی مسکراہٹ تھی۔ یہ میری بیوی ہے۔ شرماؤ نہیں سامنے آ جاؤ، اے جان تمنا۔ اسے دیکھا آپ نے؟ یہ سانولی سلونی مورت یہ گھنے بال کمر تک لہراتے ہوئے۔ یہ شرمیلا تبسم۔ یہ جھکی جھکی حیران حیران آنکھیں۔
یہ آج سے تین سال پہلے کی لڑکی ہے۔ جب میں نے اسے اتا پارا کے ساحلی گاؤں میں سمندر کے کنارے دو پہر کی سوئی ہوئی فضا میں دیکھا تھا۔ میں ان دنوں اجات قصبے میں زمیندار کی لڑکی کو ستار سکھاتا تھا اور یہاں اتا پارا میں دو دن کی چھٹی لے کر اپنی بڑی موسی سے ملنے کے لئے آیا تھا۔ یہ خاموش گاؤں سمندر کے کنارے بانسوں کے جھنڈ اور ناریل کے درختوں سے گھرا ہوا اپنی اداسی میں گم تھا۔ نہ جانے ہمارے بنگالی گاؤں میں اتنی اداسی کہاں سے آ جاتی ہے۔ بانس کے چھپروں کے اندر اندھیرا ہے۔ سیلن ہے۔ بانس کی ہانڈیوں میں چاول دبے پڑے ہیں۔ مچھلی کی بو ہے۔ تالاب کا پانی کائی سے سبز ہے۔ دھان کے کھیتوں میں پانی ٹھہرا ہوا ہے۔ ناریل کا درخت ایک نکیلی برچھی کی طرح آسمان کے سینے میں گہرا گھاؤ ڈالے کھڑا ہے۔ ہر جگہ، ہر وقت درد کا احساس ہے۔ ٹھہرا کا احساس ہے۔ حزن کا احساس ہے۔ سکون،جمود اور موت کا احساس ہے۔ یہ اداسی جو تم ہماری محبت، ہمارے سماج ،ہمارے ادب اور نغمے میں دیکھتے ہو۔ یہ اداسی ہمارے گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور پھر ساری دھرتی پرپھیل جاتی ہے۔ جب میں نے اسے پہلے پہل دیکھا تو یہ مجھے ایک جل پری کی طرح حسین نظر آئی۔ یہ اس وقت پانی میں تیر رہی تھی اور میں ساحل کی ریت پر ٹہل رہا تھا اور ایک نئی دھن میں سوچ رہا تھا۔ یکایک میرے کانوں میں ایک شیریں نسوانی آواز سنائی دی،
’’پرے ہٹ جاؤ، میں کنارے پر آنا چ
وہ آدمی جس کے ضمیر میں کانٹا ہے
(ایک غیر ملکی قونصل کے مکتوب جو اس نے اپنے افسر اعلیٰ کو کلکتہ سے روانہ کئے)
۸ اگست ۱۹۴۳ء کلایو اسٹریٹ، مون شائین لا۔
جناب والا،
کلکتہ، ہندوستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ ہوڑہ پل ہندوستان کا سب سے عجیب و غریب پل ہے۔ بنگالی قوم ہندوستان کی سب سے ذہین قوم ہے۔ کلکتہ یونیورسٹی ہندوستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ کلکتہ کا ’’سونا گاچی‘‘ ہندوستان میں طوائفوں کا سب سے بڑا بازار ہے۔ کلکتہ کا سندر بن چیتوں کی سب سے بڑی شکار گاہ ہے۔ کلکتہ جوٹ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ کلکتہ کی سب سے بڑھیا مٹھائی کا نام ’’رشوگلا‘‘ ہے۔ کہتے ہیں ایک طوائف نے ایجاد کیا تھا۔ لیکن شومئی قسمت سے وہ اسے پیٹنٹ نہ کراسکی۔ کیوں کہ ان دنوں ہندوستان میں کوئی ایسا قانون موجود نہ تھا۔ اسی لئے وہ طوائف اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھیک مانگتے مری۔ ایک الگ پارسل میں حضور پر نور کی ضیافت طبع کے لئے دو سو ’’روشو گلے‘‘ بھیج رہا ہوں۔ اگر انھیں قیمے کے ساتھ کھایا جائے تو بہت مزا دیتے ہیں۔ میں نے خود تجربہ کیا ہے۔
میں ہوں جناب کا ادنٰی ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخا
قونصل مملکت سانڈ وگھاس برائے کلکتہ۔
9 اگست کلایو اسٹریٹ
جناب والا،
حضور پر نور کی منجھلی بیٹی نے مجھ سے سپیرے کی بین کی فرمائش کی تھی۔ آج شام بازار میں مجھے ایک سپیرا مل گیا۔ پچیس ڈالر دے کر میں نے ایک خوبصورت بین خرید لی ہے۔ یہ بین اسفنج کی طرح ہلکی اور سبک اندام ہے۔ یہ ایک ہندوستانی پھل سے جسے ’’لوکی‘‘ کہتے ہیں، تیار کی جاتی ہے۔ یہ بین بالکل ہاتھ کی بنی ہوئی ہے اور اسے تیار کرتے وقت کسی مشین سے کام نہیں لیا گیا۔ میں نے اس بین پر پالش کرایا اور اسے ساگوان کے ایک خوشنما بکس میں بند کر کے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے بطور تحفہ ارسال کر رہا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی ۔ پٹاخا
۱۰ اگست
کلکتہ میں ہمارے ملک کی طرح راشننگ نہیں ہے۔ غذا کے معاملہ میں ہر شخص کو مکمل شخصی آزادی ہے۔ وہ بازار سے جتنا اناج چاہے خرید لے۔ کل مملکت ٹلی کے قونصل نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ چھبیس قسم کے گوشت کے سالن تھے۔ سبزیوں اور میٹھی چیزوں کے دو درجن کورس تیار کئے گئے تھے۔ (نہایت عمدہ شراب تھی) ہمارے ہاں جیسا کہ حضور اچھی طرح جانتے ہیں پیاز تک کی راشننگ ہے اس لحاظ سے کلکتہ کے باشندے بڑے خوش قسمت ہیں۔
کھانے پر ایک ہندوستانی انجینئر بھی مدعو تھے۔ یہ انجینئر ہمارے ملک کا تعلیم یافتہ ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے ذکر کیا کہ کلکتہ میں قحط پڑا ہوا ہے۔ اس پر ٹلی کا قونصل قہقہہ مار کر ہنسنے لگا اور مجھے بھی اس ہنسی میں شریک ہونا پڑا۔ دراصل یہ پڑھے لکھے، ہندوستانی بھی بڑے جاہل ہوتے ہیں۔کتابی علم سے قطع نظر انھیں اپنے ملک کی صحیح حالت کا کوئی اندازہ نہیں۔ ہندوستان کی دوتہائی آبادی دن رات غلّہ اور بچے پیدا کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
اس لئے یہاں پر غلّے اور بچوں کی کمی کبھی نہیں ہونے پاتی، بلکہ جنگ سے پیشتر تو بہت سا غلہ دساور کو جاتا تھا اور بچے قلی بنا کر جنوبی افریقہ بھیج دیئے جاتے تھے۔ اب ایک عرصے سے قلیوں کا باہر بھیجنا بند کر دیا گیا ہے اور ہندوستانی صوبوں کو ’’ہوم رول‘‘ دے دیا گیا ہے۔ مجھے یہ ہندوستانی انجینئر تو کوئی ایجی ٹیٹر قسم کا خطرناک آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس کے چلے جانے کے بعد میں نے موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی کے قونصل سے اس کا تذکرہ چھیڑا تو موسیوژاں ژاں تریپ ٹلی نے بڑے غور و خوض کے بعد یہ رائے دی کہ ہندوستانی اپنے ملک پر حکومت کی قطعاً اہلیت نہیں رکھتا۔ چوں کہ موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقومی معاملات میں ایک خاص مرتبہ حاصل ہے۔ اس لئے میں ان کی رائے وقیع سمجھتا ہوں۔
میں ہوں جناب کا خادم
ایف۔ بی۔ پی
۱۱ اگست
آج صبح بولپور سے واپس آیا ہوں۔ وہاں ڈاکٹر ٹیگور کا ’’شانتی نکیتاں‘‘ دیکھا۔ کہنے کو تو یہ ایک یونیورسٹی ہے۔ لیکن پڑھائی کا یہ عالم ہے کہ طالب علموں کو بیٹھنے کے لئے ایک بنچ نہیں۔ استاد اور طالب علم سب ہی درختوں کے نیچے آلتی پالتی مارے بیٹھے رہتے ہیں اور خدا جانے کچھ پڑھتے بھی ہیں یا یوں ہی اونگھتے ہیں۔ میں وہاں سے بہت جلد آیا کیوں کہ دھوپ بہت تیز تھی اور اوپر درختوں کی شاخوں پر چڑیاں شور مچا رہی تھیں۔
ف۔ ب۔ پ
۱۲ اگست
آج چینی قونصل کے ہاں لنچ پر پھر کسی نے کہا کہ کلکتہ میں سخت قحط پڑا ہوا ہے۔ لیکن وثوق سے کچھ نہ کہہ سکا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ ہم سب لوگ حکومت بنگال کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔ اعلان کے جاری ہوتے ہی حضور کو مزید حالات سے مطلع کروں گا۔ بیگ میں حضور پر نور کی منجھلی بیٹی ایڈتھ کے لئے ایک جوتی بھی ارسال کر رہا ہوں۔ یہ جوتی سبز رنگ کے سانپ کی جلد سے بنائی گئی ہے۔ سبز رنگ کے سانپ برما میں بہت ہوتے ہیں، امید ہے کہ جب برما دوبارہ حکومت انگلشیہ کی عملداری میں آ جائے گا تو ان جوتوں کی تجارت کو بہت فروغ حاصل ہو سکے گا۔
میں ہوں جناب کا وغیرہ وغیرہ۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۳ اگست
آج ہمارے سفارت خانے کے باہر دو عورتوں کی لاشیں پائی گئ ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھیں۔ شاید ’’سکھیا‘‘ کی بیماری میں مبتلا تھیں ادھر بنگال میں اور غالباً سارے ہندوستان میں ’’سکھیا‘‘ کی بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ اس عارضے میں انسان گھلتا جاتا ہے اور آخر میں سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو کر مر جاتا ہے۔ یہ بڑی خوفناک بیماری ہے۔ لیکن ابھی تک اس کا کوئی شافی علاج دریافت نہیں ہوا۔ کونین کثرت سے مفت تقسیم کی جا رہی ہے۔ لیکن کونین میگنیشیا یا کسی اور مغربی دوا سے اس عارضے کی شدت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دراصل ایشیائی بیماریوں کو نوعیت مغربی امراض سے مختلف ہے۔ بہت مختلف ہے، یہ اختلاف اس مفروضے کا بدیہی ثبوت ہے کہ ایشیائی اور مغربی دو مختلف انسان ہیں۔
حضور پر نور کی رفیقۂ حیات کے باسٹھویں جنم دن کی خوشی میں بدھ کا ایک مرمر کا بت ارسال کر رہا ہوں۔ اسے میں نے پانسو ڈالر میں خریدا ہے۔ یہ مہاراجہ بندھو سار کے زمانے کا ہے اور مقدس راہب خانے کی زینت تھا۔ حضور پرنور کی رفیقۂ حیات کے ملاقاتیوں کے کمرے میں خوب سجے گا۔
مکرر عرض ہے کہ سفارت خانے کے باہر پڑی ہوئی لاشوں میں ایک بچہ بھی تھا جو اپنی مردہ ماں سے دودھ چوسنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے ہسپتال بھجوا دیا ہے۔
حضور پر نور کا غلام
ایف۔ بی۔ پی
۱۴ اگست
ڈاکٹر نے بچے کو ہسپتال میں داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بچہ ابھی سفارت خانہ میں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔ حضور پر نور کی ہدایت کا انتظار ہے۔ ٹلی کے قونصل نے مشورہ دیا ہے کہ اس بچے کو جہاں سے پایا تھا۔ وہیں چھوڑ دوں۔ لیکن میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ اپنے حکومت کے صدر سے مشورہ کئے بغیر کوئی ایسا اقدام کروں جس کے سیاسی نتائج بھی نہ جانے کتنے مہلک ثابت ہوں۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۶ اگست
آج سفارت خانے کے باہر پھر لاشیں پائی گئیں۔ یہ سب لوگ اسی بیماری کا شکار معلوم ہوتے تھے۔ جس کا میں اپنے گزشتہ مکتوبات میں ذکر کر چکا ہوں۔ میں نے بچے کو انہی لاشوں میں چپکے سے رکھ دیا ہے۔ اور پولیس کو ٹیلی فون کر دیا ہے کہ وہ انھیں سفار خانے کی سیڑھیوں سے اٹھانے کا بندو بست کرے۔ امید ہے آج شام تک سب لاشیں اٹھ جائیں گی۔
ایف۔ بی۔ پی
۱۷ اگست
کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’سٹیٹسمین‘‘ نے اپنے افتتاحیہ میں آج اس امر کا اعلان کیا ہے کہ کلکتہ میں سخت قحط پھیلا ہوا ہے۔ یہ اخبار چند روز سے قحط زدگان کی تصاویر بھی شائع کر رہا ہے۔ ابھی تک وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ فوٹو اصلی ہیں یا نقلی۔ بظاہر تو یہ فوٹو سوکھیا کی بیماری کے پرانیوں کے معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن تمام غیر ملکی قونصل اپنی رائے ’’محفوظ‘‘ رکھ رہے ہیں۔
ایف۔ بی۔ پی
۲۰ اگست
سوکھیا کی بیماری کے مریضوں کو اب ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف کلکتہ میں روز دو ڈھائی سو آدمی اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اب یہ بیماری ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ ڈاکٹر لوگ بہت پریشان ہیں کیوں کہ کونین کھلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مرض میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوتی۔ ہاضمے کا مکچر میگنیشیا مکسچر اور ٹنکچر آیوڈین پورا برٹش فارما کوپیا بیکار ہے۔
چند مریضوں کا خون لے کر مغربی سائنسدانوں کے پاس بغرض تحقیق بھیجا جا رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ کسی غیر معمولی مغربی ایکسپرٹ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں یا ایک رائل کمیشن بٹھا دیا جائے جو چار پانچ سال میں اچھی طرح چھان بین کر کے اس امر کے متعلق اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کر ے۔ الغرض ان غریب مریضوں کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ شد و مد کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے کہ سارے بنگال میں قحط کا دور دورہ ہے اور ہزاروں آدمی ہر ہفتے غذا کی کمی کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ لیکن ہماری نوکرانی (جو خود بنگالن ہے) کا خیال ہے کہ یہ اخبارچی جھوٹ بولتے ہیں۔ جب وہ بازار میں چیزیں خریدنے جاتی ہے تو اسے ہر چیز مل جاتی ہے۔ دام بے شک بڑھ گئے ہیں۔ لیکن یہ مہنگائی تو جنگ کی وجہ سے ناگزیر ہے۔
ایف۔ بی۔ پی۔
۲۵ اگست
آج سیاسی حلقوں نے قحط کی تردید کر دی ہے۔ بنگال اسمبلی نے جس میں ہندوستانی ممبروں اور وزراء کی کثرت ہے۔ آج اعلان کر دیا ہے کہ کلکتہ اور بنگال کا علاقہ ’’قحط زدہ علاقہ‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ بنگال میں فی الحال راشننگ نہ ہو گا۔ یہ خبر سن کر غیر ملکی قونصلوں کے دل میں اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اگر بنگال قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا جاتا تو ضرور راشننگ کا فی الفور نفاذ نہ ہوتا اور۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اگر راشننگ کا نفاذ ہوتا تو اس کا اثر ہم لوگوں پر بھی پڑتا۔ موسیوسی گل جو فرنچ قونصل میں کل ہی مجھ سے کہہ رہے تھے کہ عین ممکن ہے کہ راشننگ ہو جائے۔ اس لئے تم ابھی سے شراب کا بندوبست کر لو۔ میں چندر نگر سے فرانسیسی شراب منگوانے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ سنا ہے کہ چندر نگر میں کئی سو سال پرانی شراب بھی دستیاب ہوتی ہے۔ بلکہ اکثر شرابیں تو انقلاب فرانس سے بھی پہلے کی ہیں۔ اگر حضور پرنور مطلع فرمائیں تو چند بوتلیں چکھنے کے لئے بھیج دوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ اگست
کل ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ میں نے نیومارکیٹ سے اپنی سب سے چھوٹی بہن کے لئے چند کھلونے خریدے۔ ان میں ایک چینی کی گڑیا بہت ہی حسین تھی۔ اور ماریا کو بہت پسند تھی۔ میں نے ڈیڑھ ڈالر دے کر وہ گڑیا بھی خرید لی اور ماریا کو انگلی سے لگائے باہر آگیا۔ کار میں بیٹھنے کو تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کی بنگالی عورت نے میرا کوٹ پکڑ کر مجھے بنگالی زبان میں کچھ کہا۔
میں نے اس سے اپنا دامن چھڑا لیا اور کار میں بیٹھ کر اپنے بنگالی شوفر سے پوچھا،’’یہ کیا چاہتی ہے؟‘‘
ڈرائیور بنگالی عورت سے بات کر نے لگا۔ اس عورت نے جواب دیتے ہوئے اپنی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جسے وہ اپنے شانے سے لگائے کھڑی تھی۔ بڑی بڑی موٹی آنکھوں والی زرد زرد بچی بالکل چینی کی گڑیا معلوم ہوتی تھی اور ماریا کی طرف گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔
پھر بنگالی عورت نے تیزی سے کچھ کہا۔ بنگالی ڈرائیور نے اسی سرعت سے جواب دیا۔
’’کیا کہتی ہے یہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ڈرائیور نے اس عورت کی ہتھیلی پر چند سکے رکھے اور کار آگے بڑھائی۔ کار چلاتے چلاتے بولا، ’’حضور یہ اپنی بچی کو بیچنا چاہتی تھی۔ ڈیڑھ روپے میں۔‘‘
’’ڈیڑھ روپے میں، یعنی نصف ڈالر میں؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’ارے نصف ڈالر میں تو چینی کی گڑیا بھی نہیں آتی؟‘‘
’’آج کل نصف ڈالر میں بلکہ اس سے بھی کم قیمت پر ایک بنگالی بچی مل سکتی ہے۔‘‘
میں حیرت سے اپنے ڈرائیور کو تکتا رہ گیا۔
اس وقت مجھے اپنے وطن کی تاریخ کا وہ باب یاد آیا۔ جب ہمارے آباو اجداد افریقہ سے حبشیوں کو زبردستی جہاز میں لاد کر اپنے ملک میں لے آتے تھے اور منڈیوں میں غلاموں کی خرید و فروخت کر تے تھے۔ ان دنوں ایک معمولی سے معمولی حبشی بھی پچیس تیس ڈالر سے کم میں نہ بکتا تھا۔ افوہ، کس قدر غلطی ہوئی۔ ہمارے بزرگ اگر افریقہ کے بجائے ہندوستان کا رخ کرتے تو بہت سستے داموں غلام حاصل کر سکتے تھے۔ حبشیوں کے بجائے اگر وہ ہندوستانیوں کی تجارت کرتے تو لاکھوں ڈالر کی بچت ہو جاتی۔ ایک ہندوستانی لڑکی صرف نصف ڈالر میں ! اور ہندوستان کی بھی آبادی چالیس کروڑ ہے۔ گویا بیس کروڑ ڈالر میں ہم پورے ہندوستان کی آبادی کو خرید سکتے تھے۔ ذرا خیال تو فرمائیے کہ بیس کروڑ ڈالر ہوتے ہی کتنے ہیں۔ اس سے زیادہ رقم تو ہمارے وطن میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔
اگر حضور پرنور کی منجھلی بیٹی کو یہ پسند ہو تو میں ایک درجن بنگالی لڑکیاں خرید کر بذریعہ ہوائی جہاز پارسل کر دوں۔ تب شوفر نے بتایا کہ آج کل ’’سونا گاچی‘‘ جہاں کلکتہ کی طوائفیں رہتی ہیں۔ اس قسم کی بردہ فروشی کا اڈہ ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں لڑکیاں شب و روز فروخت کی جا رہی ہیں۔
لڑکیوں کے والدین فروخت کرتے ہیں اور رنڈیاں خریدتی ہیں۔ عام نرخ سوا روپیہ ہے۔ لیکن اگر بچی قبول صورت ہو تو چار پانچ بلکہ دس روپے بھی مل جاتے ہیں۔ چاول آج کل بازار میں ساٹھ ستر روپے فی من ملتا ہے۔ اس حساب سے اگر ایک کنبہ اپنی دو بچیاں بھی فروخت کر دے تو کم از کم آٹھ دس دن اور زندگی کا دھندا کیا جا سکتا ہے۔ اور اوسطاً بنگالی کنبے میں لڑکیوں کی تعداد دو سے زیادہ ہوتی ہے۔
کل مئیر آف کلکتہ نے شام کے کھانے پر مدعو کیا ہے۔ وہاں یقیناً بہت ہی دلچسپ باتیں سننے میں آئیں گی۔
ف۔ ب۔ پ
۲۹ اگست
میئر آف کلکتہ کا خیال ہے کہ بنگال میں شدید قحط ہے اور حالت بے حد خطرناک ہے۔ اس نے مجھ سے اپیل کی کہ میں اپنی حکومت کو بنگال کی مدد کے لئے آمادہ کروں۔ میں نے اسے اپنی حکومت کی ہمدردی کا یقین دلایا۔ لیکن یہ امر بھی اس پر واضح کر دیا کہ یہ قحط ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور ہماری حکومت کسی دوسری قوم کے معاملات میں دخل دینا نہیں چاہتی۔ ہم سچے جمہوریت پسند ہیں اور کوئی سچا جمہوریہ آپ کی آزادی کو سلب کرنا نہیں چاہتا۔ ہر ہندوستانی کو جینے یا مرنے کا اختیار ہے۔ یہ ایک شخصی یا زیادہ سے زیادہ ایک قومی مسئلہ ہے اور اس کی نوعیت بین الاقوامی نہیں۔ اس موقعہ پر موسیوژاں ژاں تریپ بھی بحث میں شامل ہو گئے اور کہنے لگے۔
جب آپ کی اسمبلی نے بنگال کو قحط زدہ علاقہ famine area ہی نہیں قرار دیا تو اس صورت میں آپ دوسری حکومتوں سے مدد کیوں کر طلب کر سکتے ہیں۔ اس پر میئر آف کلکتہ خاموش ہو گئے اور رس گلے کھانے لگے۔
ف۔ ب۔ پ
30 اگست
مسٹر ایمری نے جو برطانوی وزیر ہندو ہیں۔ ہاؤس آف کامنز میں ایک بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان میں آبادی کا تناسب غذائی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے۔ ہندوستان کی آبادی میں ڈیڑھ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ در حالیکہ زمینی پیداوار بہت کم بڑھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہندوستانی بہت کھاتے ہیں۔
یہ تو حضور میں نے بھی آزمایا ہے کہ ہندوستانی لوگ دن میں دوبار بلکہ اکثر حالتوں میں صرف ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اس قدر کھاتے ہیں کہ ہم مغربی لوگ دن میں پانچ بار بھی اس قدر نہیں کھاسکتے۔ موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں شرح اموات کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا پیٹو پن ہے۔ یہ لوگ اتنا کھاتے ہیں کہ اکثر حالتوں میں تو پیٹ پھٹ جاتا ہے اور وہ جہنم واصل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ہندوستانی کبھی منھ پھٹ نہیں ہوتا لیکن پیٹ پھٹ ضرور ہوتا ہے بلکہ اکثر حالتوں میں تلی پھٹ بھی پایا۔ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہندوستانیوں اور چوہوں کی شرح پیدائش دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اکثر حالتوں میں ان دونوں میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جتنی جلدی پیدا ہوتے ہیں اتنی جلدی مر جاتے ہیں۔ اگر چوہوں کو پلیگ ہوتی ہے تو ہندوستانیوں کو ’’سوکھیا‘‘ بلکہ عموماً پلیگ اور سوکھیا دونوں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بہر حال جب تک چوہے اپنے بل میں رہیں اور دنیا کو پریشان نہ کریں۔ ہمیں ان کے نجی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔
غذائی محکمے کے ممبر حالات کی جانچ پڑتال کے لئے تشریف لائے ہیں۔ بنگالی حلقوں میں یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ آنر بیل ممبر پر اب یہ واضح ہو جائے گا کہ بنگال میں واقعی قحط ہے اور شرح اموات کے بڑھنے کا سبب بنگالیوں کہ انار کسٹانہ حرکات نہیں بلکہ غذائی بحران ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ ستمبر
آنریبل ممبر تحقیقات کے بعد واپس چلے گئے ہیں۔ سنا ہے، وہاں حضور وائیسرائے بہادر سے ملاقات کریں گے اور اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھیں گے۔
۲۵ ستمبر
لندن کے انگریزی اخباروں کی اطلاع کے مطابق ہر روز کلکتہ کی گلیوں اور سڑکوں، فٹ پاتھوں پر لوگ مر جاتے ہیں۔ بہر حال یہ سب اخباری اطلاعیں ہیں۔ سرکاری طور پر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ بنگال میں قحط ہے۔ سب پریشان ہیں۔ چینی قونصل کل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ وہ بنگال کے فاقہ کشوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھولنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کوئی کہتا ہے کہ قحط ہے کوئی کہتا ہے قحط نہیں ہے۔ میں نے اسے سمجھایا، بیوقوف نہ بنو۔ اس وقت تک ہمارے پاس مصدقہ اطلاع یہی ہے کہ غذائی بحران اس لئے ہے کہ ہندوستانی بہت زیادہ کھاتے ہیں۔ اب تم ان لوگوں کے لئے ایک امدادی فنڈ کھول کر گویا ان کے پیٹوپن کو اور شہ دو گے۔ یہ حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن چینی قونصل میری تشریحات سے غیر مطمئن معلوم ہوتا تھا۔
ف۔ ب۔ پ
۲۸ ستمبر
دلی میں غذائی مسئلے پر غور کرنے کے لئے ایک کانفرنس بلائی جا رہی ہے۔ آج پھر یہاں کئی سو لوگ ’’سوکھیا‘‘ سے مر گئے۔ یہ بھی خبر آئی ہے کہ مختلف صوبائی حکومتوں نے رعایا میں اناج تقسیم کرنے کی جوا سکیم بنائی ہے۔ اس سے انھوں نے کئی لاکھ روپے کا منافع حاصل کیا ہے۔ اس میں بنگال کی حکومت بھی شامل ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۰ اکتوبر
کل گرانڈ ہوٹل میں ’’یوم بنگال‘‘ منایا گیا۔ کلکتہ کے یوروپین امراء و شرفاء کے علاوہ حکام اعلیٰ، شہر کے بڑے سیٹھ اور مہاراجے بھی اس دلچسپ تفریح میں شریک تھے۔ ڈانس کا انتظام خاص طور پر اچھا تھا۔ میں نے مسز جیولٹ تریپ کے ساتھ دو مرتبہ ڈانس کیا (مسز تریپ کے منھ سے لہسن کی بو آتی تھی۔ نہ جانے کیوں؟‘‘) مسز تریپ سے معلوم ہوا کہ اس سہن ماہتابی کے موقعہ پر یوم بنگال کے سلسلہ میں نو لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا ہے۔
مسز تریپ بار بار چاند کی خوب صورت اور رات کی سیاہ ملائمت کا ذکر کر رہی تھیں اور ان کے منھ سے لہسن کے بھپارے اٹھ رہے تھے۔ جب مجھے ان کے ساتھ دو بارہ ڈانس کرنا پڑا تو میرا جی چاہتا تھا کہ ان کے منھ پر لائی سول یا فینائل چھڑک کر ڈانس کروں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ مسز جیولٹ تریپ موسیو ژاں ژاں تریپ کی باوقار بیوی ہیں اور موسیوژاں ژاں تریپ کی حکومت کو بین الاقوامی معاملات میں ایک قابل رشک مرتبہ حاصل ہے۔
ہندوستانی خواتین میں مس سنیہہ سے تعارف ہوا۔ بڑی قبول صورت ہے اور بے حد اچھا ناچتی ہے۔
ف۔ ب۔ پ
۲۶ اکتوبر
مسٹر منشی حکومت بمبئی کے ایک سابق وزیر کا اندازہ ہے کہ بنگالی میں ہر ہفتے قریباً ایک لاکھ افراد قحط کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ سرکاری اطلاع نہیں ہے۔ قونصل خانے کے باہر آج پھر چند لاشیں پائی گئیں۔ شوفر نے بتایا کہ یہ ایک پورا خاندان تھا جو دیہات سے روٹی کی تلاش میں کلکتہ آیا تھا۔ پرسوں بھی اسی طرح میں نے ایک مغنی کی لاش دیکھی تھی۔ ایک ہاتھ میں وہ اپنی ستار پکڑے ہوئے تھا اور دوسرے ہاتھ میں لکڑی کا ایک جھنجھنا سمجھ نہیں آیا۔ اس کا کیا مطلب تھا۔ بیچارے چوہے کس طرح چپ چاپ مر جاتے ہیں اور زبان سے اف تک بھی نہیں کرتے۔
میں نے ہندوستانیوں سے زیادہ شریف چوہے دنیا میں اور کہیں نہیں دیکھے۔ اگر امن پسندی کے لئے نوبل پرائز کسی قوم کو مل سکتا ہے۔ تو وہ ہندوستانی ہیں۔ یعنی لاکھوں کی تعداد میں بھوکے مر جاتے ہیں لیکن زبان پر ایک کلمۂ شکایت نہیں لائیں گے۔ صرف بے روح، بے نور آنکھوں سے آسمان کی طرف تاکتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں۔ ان داتا، ان داتا۔! کل رات پھر مجھے اس مغنی کی خاموش شکایت سے معمور، جا مدو ساکت پتھریلی بے نور سی نگاہیں پریشان کرتی رہیں۔
ف۔ ب۔ پ
۵ نومبر
نئے حضور وائسرائے بہادر تشریف لائے ہیں۔ سنا ہے کہ انھوں نے فوج کو قحط زدہ لوگوں کی امداد پر مامور کیا ہے اور جو لوگ کلکتہ کے گلی کو چوں میں مرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کے لئے باہر مضافات میں مرکز کھول دیئے گئے ہیں۔ جہاں ان کی آسائش کے لئے سب سامان بہم پہنچایا جائے گا۔
ف۔ ب۔ پ
۱۰ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ بنگال میں واقعی قحط ہو اور سوکھیا کی بیماری کی اطلاعیں غلط ہوں۔ غیر ملکی قونصل خانوں میں اس ریمارک سے ہل چل مچ گئی ہے۔ مملکت گوبیا، لوبیا اور مٹرسلووکیا کے قونصلوں کا خیال ہے کہ موسیوژاں ژاں تریپ کا یہ جملہ کسی آنے والی خوفناک جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ یورپی اور ایشیائی ملکوں سے بھاگے ہوئے لوگوں میں آج کل ہندوستان میں مقیم ہیں ۔
وائسرائے کی اسکیم کے متعلق مختلف شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ وہ لوگ سوچ رہے ہیں۔ اگر بنگال واقعی قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا گیا تو ان کے الاؤنس کا کیا بنے گا؟ وہ لوگ کہاں جائیں گے؟ میں حضور پر نور کی توجہ اس سیاسی الجھن کی طرف دلانا چاہتا ہوں، جو وائسرائے بہادر کے اعلان سے پیدا ہو گئی ہے۔ مغرب کے ملکوں کے رفیوجیوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے کیا ہمیں سینہ سپر ہو کر نہ لڑنا چاہیے۔ مغربی تہذیب کلچر اور تمدن کے کیا تقاضے ہیں۔ آزادی اور جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ میں اس سلسلہ میں حضور پرنور کے احکام کا منتظر ہوں۔
ف۔ ب۔ پ
۲۵ نومبر
موسیوژاں ژاں تریپ کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط نہیں ہے۔ موسیو فاں فاں فنگ چینی قونصل کا خیال ہے کہ بنگال میں قحط ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ حضور نے مجھے جس کام کےلئے کلکتہ کے قونصل خانے میں تعینات کیا تھا۔ وہ کام میں گزشتہ تین ماہ میں بھی پورا نہ کر سکا۔ میرے پاس اس امر کی ایک بھی مصدقہ اطلاع نہیں ہے کہ بنگال میں قحط ہے یا نہیں ہے۔ تین ماہ کی مسلسل کاوش کے بعد بھی مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ صحیح ڈپلومیٹک پوزیشن کیا ہے۔ میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں، شرمندہ ہوں۔ معافی چاہتا ہوں۔
نیز عرض ہے کہ حضور پر نور کی منجھلی بیٹی کو مجھ سے اور مجھے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے عشق ہے۔ اس لئے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ حضور پر نور مجھے کلکتہ کے سفارت خانے سے واپس بلالیں اور میری شادی اپنی بیٹی۔۔۔ مطلب ہے حضور پر نور کی منجھلی بیٹی سے کر دیں اور حضور پر نور مجھے کسی ممتاز سفارت خانے میں سفیر اعلی کا مرتبہ بخش دیں؟ اس نوازش کے لئے میں حضور پر نور کا تاقیامت شکر گزار ہو ں گا۔
ایڈتھ کے لئے ایک نیلم کی انگوٹھی ارسال کر رہا ہوں۔ اسے مہاراجہ اشوک کی بیٹی پہنا کرتی تھی۔
میں ہوں جناب کا حقیر ترین خادم
ایف۔ بی۔ پٹاخہ
قونصل مملکت سانڈوگھاس برائے کلکتہ
(۲)
وہ آدمی جو مر چکا ہے
صبح ناشتہ پر جب اس نے اخبار کھولا تو اس نے بنگال کے فاقہ کشوں کی تصاویر دیکھیں جو سڑکوں پر، درختوں کے نیچے، گلیوں میں، کھیتوں میں بازاروں میں، گھروں میں ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ آملیٹ کھاتے کھاتے اس نے سوچا کہ ان غریبوں کی امداد کس طرح ممکن ہے۔ یہ غریب جو ناامیدی کی منزل سے آگے جا چکے ہیں اور موت کی بحرانی کیفیت سے ہمکنار ہیں۔ انھیں زندگی کی طرف واپس لانا، زندگی کی صعوبتوں سے دوبارہ آشنا کرنا، ان سے ہمدردی نہیں دشمنی ہو گی۔
اس نے جلدی میں اخبار کا ورق الٹا اور توس پر مربہ لگا کر کھانے لگا۔ تو س نرم گرم اور کر کرا تھا اور مربے کی مٹھاس اور اس کی ہلکی سی ترشی نے اس کے ذائقہ کو اور بھی نکھار دیا تھا۔ جیسے غازے کا غبار عورت کے حسن کونکھار دیتا ہے۔ یکایک اسے سنیہ کا خیال آیا۔ سنیہ ابھی تک نہ آئی تھی۔ گو اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صبح کے ناشتہ پر اس کے ساتھ موجود ہو گی۔ سو رہی ہو گی بیچاری اب کیا وقت ہو گا۔ اس نے اپنی سونے کی گھڑی سے پوچھا جو اس کی گوری کلائی میں جس پر سیاہ بالوں کی ایک ہلکی سی ریشمیں لائین تھی۔ ایک سیاہ ریشمی فیتے سے بندھی تھی۔ گھڑی، قمیض کے بٹن اور ٹائی کا پن، یہی تین زیور مرد پہن سکتا ہے اور عورتوں کو دیکھیئے کہ جسم کو زیور سے ڈھک لیتی۔ کان کے لئے زیور، پاؤں کے لئے زیور، کمر کے لئے زیور، ناک کے لئے زیور، سر کے لئے زیور، گلے کے لئے زیور باہوں کے لئے زیور اور مرد بے چارے کے لئے صرف تین زیور بلکہ دو ہی سمجھئے کیوں کہ ٹائی کا پن اب فیشن سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ نہ جانے مردوں کو زیادہ زیور پہننے سے کیوں منع کیا گیا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے وہ دلیا کھانے لگا۔ دلئے سے الائچی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ اس کے نتھنے، اس کے پاکیزہ تعطر سے مصفٰی ہو گئے اور یکایک اس کے نتھنوں میں گزشتہ رات کے عطر کی خوشبو تازہ ہو گئی۔ وہ عطر جو سنیہ نے اپنی ساڑھی، اپنے بالوں میں لگا رکھا تھا۔ گزشتہ رات کا دلفریب رقص اس کی آنکھوں کے آگے گھومتا گیا۔ گرانڈ ہوٹل میں ناچ ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ اس کا اور سنیہ کا جوڑا کتنا اچھا ہے۔ سارے ہال کی نگاہیں ان پر جمی ہوئی تھیں۔
دونوں کانوں میں گول گول طلائی آویزے پہنے ہوئے تھی۔ جو اس کی لوووں کو چھپا رہے تھے۔ ہونٹوں پر جوانی کا تبسم اور میکس فیکٹر کی لالی کا معجزہ اور سینے کے سمن زاروں پر موتیوں کی مالا چمکتی، دمکتی، لچکتی ناگن کی طرح سوبل کھاتی ہوئی۔ رمبا ناچ کوئی سنیہ سے سیکھے، اس کے جسم کی روانی اور ریشمی بنارسی ساڑی کا پر شور بہاؤ جیسے سمندر کی لہریں چاندنی رات میں ساحل سے اٹھکھیلیاں کر رہی ہوں۔ لہر آگے آتی ہے۔ ساحل کو چھو کر واپس چلی جاتی ہے۔ مدھم سی سرسراہٹ پیدا ہوتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ شور مدھم ہو جاتا ہے۔ شور قریب آ جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ لہر چاندنی میں نہائے ہوئے ساحل کو چوم رہی ہے۔
سنیہ کے لب نیم وا تھے۔ جن میں دانتوں کی لڑی سپید موتیوں کی مالا کی طرح لرزتی نظر آتی تھی۔۔۔ یکایک وہاں کی بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ سے ہونٹ سے ہونٹ ملائے، جسم سے جسم لگائے آنکھیں بند کئے رقص کے تال پر ناچتے رہے۔ ان سروں کی مدھم سی روانی، وہ رسیلا میٹھا تمون رواں دواں، رواں دواں موت کی سی پاکیزگی۔ نیند اور خمار اور نشہ جیسے جسم نہ ہو، جیسے زندگی نہ ہو، جیسے تو نہ ہو، جیسے میں نہ ہوں، صرف ایک بوسہ ہو۔ صرف ایک گیت ہو۔ اک لہر ہو۔ رواں دواں، رواں دواں۔۔۔ اس نے سیب کے قتلے کئے اور کانٹے سے اٹھا کر کھانے لگا۔ پیالی میں چائے انڈیلتے ہوئے اس نے سوچا سنیہ کا جسم کتنا خوب صورت ہے۔ اس کی روح کتنی حسین ہے۔ اس کا دماغ کس قدر کھوکھلا ہے۔ اسے پر مغز عورتیں بالکل پسند نہ تھیں۔
جب دیکھو اشتراکیت، سامراجیت اور مارکسیت پر بحث کر رہی ہیں۔ آزادی تعلیم نسواں، نوکری، یہ نئی عورت، عورت نہیں فلسفے کی کتاب ہے۔ بھئی ایسی عورت سے ملنے یا شادی کرنے کی بجائے تو یہی بہتر ہے کہ آدمی ارسطو پڑھا کرے۔ اس نے بیقرار ہو کر ایک بار پھر گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ سنیہ ابھی تک نہ آتی تھی۔ چرچل اور اسٹالن اور روز ویلٹ طہران میں دنیا کا نقشہ بدل رہے تھے اور بنگال میں لاکھوں آدمی بھوک سے مر رہے تھے۔ دنیا کو اطلا نتک چار ٹر دیا جا رہا تھا اور بنگال میں چاول کا ایک دانہ بھی نہ تھا۔ اسے ہندوستان کی غربت پر اتنا ترس آیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ ہم غریب ہیں بے بس ہیں نادار ہیں۔ مجبور ہیں۔ ہمارے گھر کا وہی حال ہے جو میرکے گھر کا حال تھا۔ جس کا ذکر انھوں نے چوتھی جماعت میں پڑھا تھا اور جو ہر وقت فریاد کرتا رہتا تھا۔ جس کی دیواریں سیلی سیلی اور گری ہوئی تھیں اور جس کی چھت ہمیشہ ٹپک ٹپک کر روتی رہتی تھی۔ اس نے سوچا ہندوستان بھی ہمیشہ روتا رہتا ہے۔ کبھی روٹی نہیں ملتی، کبھی کپڑا نہیں ملتا۔ کبھی بارش نہیں ہوتی۔ کبھی وبا پھیل جاتی ہے۔ اب بنگال کے بیٹوں کو دیکھو، ہڈیوں کے ڈھانچے آنکھوں میں ابدی افسردگی، لبوں پر بھکا ری کی صدا، روٹی، چاول کا ایک دانہ۔ یکایک چائے کا گھونٹ اسے اپنے حلق میں تلخ محسوس ہوا اور اس نے سوچا کہ وہ ضرور اپنے ہم وطنوں کی مدد کرے گا۔ وہ چندہ اکٹھا کرے گا۔سارے ہندوستان کا دورہ کریگا۔اور چیخ چیخ کر اس کے ضمیر کو بیدار کریگا۔ دورہ، جلسے، والنٹیر، چندہ، اناج اور زندگی کی ایک لہر ملک میں اس سر ے سے دوسرے سرے تک پھیل جائے گی۔ برقی روکی طرح۔ یکایک اس نے اپنا نام جلی سرخیوں میں دیکھا۔ ملک کا ہر اخبار اس کی خدمات کو سراہ رہا تھا اور خود، اس اخبار میں جسے وہ اب پڑھ رہا تھا۔ اسے اپنی تصویر جھانکتی نظر آئی ۔کھدر کا لباس اور جواہر لال جیکیٹ اور ہاں ویسی ہی خوب صورت مسکراہٹ۔ ہاں بس یہ ٹھیک ہے۔ اس نے بیرے کو آواز دی اسے ایک اور آملیٹ لانے کو کہا۔
آج سے وہ اپنی زندگی بدل ڈالے گا۔ اپنی حیات کا ہر لمحہ ان بھوکے ننگے، پیاسے، مرتے ہوئے ہم وطنوں کی خدمت میں صرف کر دے گا۔ وہ اپنی جان بھی ان کے لئے قربان کر دیگا۔ یکایک اس نے اپنے آپ کو پھانسی کی کوٹھری میں بند دیکھا، وہ پھانسی کے تختے کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ اس کے گلے میں پھانسی کا پھندا تھا۔ جلاد نے چہرے پر غلاف اڑھا دیا اور اس نے اس کھردرے موٹے غلاف کے اندر سے چلا کر کہا، ’’میں مر رہا ہوں۔ اپنے بھوکے پیاسے ننگے وطن کے لئے، یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو پھر بھر آئے اور دو ایک گرم گرم نمکین بوندیں چائے کی پیالی میں بھی گر پڑیں اور اس نے رومال سے اپنے آنسو پونچھ ڈالے۔ یکایک ایک کا رپورچ میں رکی اور موٹر کا پٹ کھول کر سنیہ مسکراتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھتی ہوئی دروازہ کھول کر اندر آتی ہوئی اسے ہیلو کہتی ہوئی۔ اس نے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کے رخسار کو پھول کی طرح اپنے عطر بیز ہونٹوں سے چومتی ہوئی نظر آئی، بجلی، گرمی، روشنی، مسرت سب کچھ ایک تبسم میں تھا اور پھر زہر، سنیہ کی آنکھوں میں زہر تھا۔ اس کی زلفوں میں زہر تھا۔ اس کی مدھم ہلکی سانس کی ہر جنبش میں زہر تھا۔ وہ اجنتا کی تصویر تھی، جس کے خد و خال تصور نے زہر سے ابھارے تھے۔
اس نے پوچھا، ’’ناشتہ کروگی؟‘‘
’’نہیں میں ناشتہ کر کے آئی ہوں،‘‘ پھر سنیہ نے اس کی پلکوں میں آنسو چھلکتے دیکھ بولی،’’تم آج اداس کیوں ہو؟‘‘
وہ بولا، ’’کچھ نہیں۔ یونہی بنگال کے فاقہ کشوں کا حال پڑھ رہا تھا۔ سنیہ، ہمیں بنگال کے لئے کچھ کرنا چاہیئے۔‘‘
’’door darlings‘‘ سنیہ نے آہ بھر کر اور جیبی آئینے کی مدد سے اپنے ہونٹوں کی سرخی ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگ ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔ ماسوا اس کے کہ ان کی روحوں کے لئے پر ماتما سے شانتی مانگیں۔‘‘
’’کانوونٹ کی تعلیم ہے نا آخر؟‘‘ اس نے اپنے خوب صورت سپید دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا۔
وہ سوچ کر بولا،’’ہمیں ایک ریزولیوشن بھی پاس کرنا چاہیئے۔‘‘
’’وہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
سنیہ نے نہایت معصومانہ انداز میں پوچھا اور اپنی ساڑھی کا پلو درست کرنے لگی۔
’’اب یہ تو مجھے ٹھیک طرح سے معلوم نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب کبھی ملک پر کوئی آفت آتی ہے۔ ریزولیوشن ضرور پاس کیا جاتا ہے۔ سنا ہے ریزولیوشن پاس کر دینے سے سب کام خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے۔۔۔ میرا خیال ہے۔ بس ابھی ٹیلی فون کر کے شہر کے کسی رہنما سے دباغ فن کے بارے میں پوچھتا ہوں۔‘‘
’’رہنے بھی دو ڈارلنگ!‘‘ سنیہ نے مسکرا کر کہا۔
’’دیکھو، جوڑے میں پھول ٹھیک سجا ہے؟‘‘
اس نے نیلراج کی نازک ڈنڈی کو جوڑے کے اندر تھوڑا سا دبا دیا۔
’’بے حد پیارا پھول ہے، نیلا جیسے کرشن کا جسم، جیسے ناگ کا پھن۔ جیسے زہر کا رنگ!‘‘
پھر سوچ کر بولا،’’نہیں کچھ بھی ہو۔ ریزولیوشن ضرور پاس ہونا چاہیئے۔ میں ابھی ٹیلی فون کرتا ہوں۔‘‘
سنیہ نے اسے اپنے ہاتھ کی ایک ہلکی سی جنبش سے روک لیا۔ گداز انگلیوں کا لمس ایک ریشمی رو کی طرح اس کے جسم کی رگوں اور عروق میں پھیلتا گیا۔ رواں دواں۔ رواں دواں۔۔۔ اس لہر نے اسے بالکل بے بس کر دیا اور وہ ساحل کی طرح بے حس و حرکت ہو گیا۔
’’آخری رمبا کتنا اچھا تھا!‘‘ سنیہ نے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔
اور اس کے ذہن میں پھر چیونٹیاں سی رینگنے لگیں۔ بنگالی فاقہ مستوں کی قطار میں اندر گھستی چلی آ رہی تھیں۔ وہ انھیں باہر نکالنے کی کوشش میں کامیاب ہوا۔ بولا،’’میں کہتا ہوں سنیہ، ریزولیشن پاس کرنے کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہیئے۔ میرے خیال میں اس کے بعد ہمیں قحط زدہ علاقے کا دورہ کرنا چاہیئے کیوں؟‘‘
’’بہت دماغی محنت سے کام لے رہے ہو اس وقت۔‘‘ سنیہ نے قدرے تشویشناک لہجہ میں کہا۔
’’بیمار ہو جاؤ گے! جانے دو۔ وہ بے چارے تو مر رہے ہیں۔ انھیں آرام سے مرنے دو تم کیوں مفت میں پریشان ہوتےہو ؟‘‘
’’قحط زدہ علاقے کا دورہ کروں گا۔ یہ ٹھیک ہے۔ سنیہ، تم بھی ساتھ چلو گی نا؟‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’بنگال کے دیہات میں۔‘‘
’’ضرور۔ مگر وہاں کس ہوٹل میں ٹھہریں گے؟‘‘
ہوٹل کا ذکر سن کر اس نے اپنی تجویز کو وہیں اپنے ذہن میں قتل، کر ڈالا اور قبر کھود کر وہیں اندر دفنا دیا۔ خدا جانے اس کا ذہن اس قسم کی کتنی ناپختہ تمناؤں اور آرزؤں کا قبرستان بن چکا ہے۔
وہ بچے کی طرح روٹھا ہوا تھا، اپنی زندگی سے بیزار۔ سنیہ نے کہا، ’’میں تمہیں بتاؤں۔ ایک شاندار ناچ پارٹی ہو جائے۔ گرانڈ میں۔ دو روپیہ فی ٹکٹ اور شراب کے پیسے الگ رہے اور جو رقم اس طرح اکٹھی ہو جائے وہ بنگال ریلیف فنڈ میں۔۔۔‘‘
’’ارے رررے۔۔۔‘‘ اس نے کرسی سے اچھل کر سنیہ کو اپنے گلے لگایا۔ اے جان تمنا، تمہاری روح کتنی حسین ہے۔‘‘
’’جب ہی تم نے کل رات آخری رمبا کے بعد مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی۔‘‘ سنیہ نے ہنس کر کہا۔
’’اور تم نے کیا جواب دیا تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں نے انکار کر دیا تھا۔‘‘ سنیہ نے شرماتے ہوئے کہا۔
’’بہت اچھا کیا۔‘‘ وہ بولا، ’’میں اس وقت شراب کے نشے میں تھا۔ ‘‘
کار،جیوتی رام، میونی رام، پیونی رام بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان پر رکی، سامنے گرانڈ ہوٹل کی عمارت تھی۔ کسی مغلئی مقبرے کی طرح وسیع اور پر شکوہ۔
اس نے کہا، ’’تمہارے لئے کون سے سگریٹ لے لوں!‘‘
’’روز۔ مجھے اس کی خوشبو پسند ہے۔‘‘ سنیہ نے کہا۔
’’امی دو دن کھیتے پائی نی کی چھوکھیتے داؤ۔‘‘
ایک بنگالی لڑکا دھوتی پہنے ہوئے بھیک مانگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ میلی کچیلی، خاک میں اٹی ہوئی، آنکھیں غلیظ اور آدھ مندی ۔سنیہ نے کراہیت سے منھ پھیر لیا۔
’’میم صائب ایکٹاپوئے شاداؤ۔‘‘ لڑکا گڑ گڑا رہا تھا۔
’’تو میں روز ہی لے آتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جیونی رام۔ میونی رام۔ بیونی رام، بھوندو مل تمباکو فروش کی دوکان کے اندر غائب ہو گیا۔
سنیہ کار میں بیٹھی لیکن بنگال کی بھوکی مکھیاں اس کے دماغ میں بھن بھناتی رہیں۔ میم صاحب۔۔۔میم صاحب۔ میم صاحب۔ میم صاحب نے دو ایک بار انہیں جھڑک دیا۔ لیکن بھوک جھڑکنے سے کہاں دور ہوتی ہے۔ وہ اور بھی قریب آ جاتی ہے۔ لڑکی نے ڈرتے ڈرتے اپنے ننھے ننھے ہاتھ سنیہ کی ساڑی سے لگا دئیے۔اور اس کا پلو پکڑ کر لجاجت سے کہنے لگی، ’’میم صاحب۔۔۔ میم صاحب۔میم صائب بورڈ کھیدے پیچھ۔ کی چھودا۔‘‘
سنیہ اب بالکل زچ ہو گئی تھی۔ اس نے جلدی سے پلو چھڑا لیا۔ اتنے میں وہ آ گیا۔ سنیہ بولی،’’یہ گدا گر کیوں اس قدر پریشان کرتے ہیں۔ کارپوریشن کوئی انتظام نہیں کر سکتی ہے کیا؟ جب سے تم دوکان کے اندر داخل ہوئے ہو۔یہ۔۔۔‘‘
اس نے گدا گر لڑکے کو زور سے چپت لگایا اور کار گھبرا کر گرانڈ ہوٹل کے پورچ میں لے آیا۔
بنگالی لڑکی جو ایک جھٹکے کے ساتھ دور جا پڑی تھی۔ وہیں فرش خاک پر کراہنے لگی۔ لڑکے نے چھوٹی بہن کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،
’’تمار کو تھاؤ لاگے نے تو۔‘‘
لڑکی سسکنے لگی۔ ناچ عروج پر تھا۔ سنیہ اور وہ ایک میز کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔
سنیہ نے پوچھا، ’’کتنے روپے اکٹھے ہوئے؟‘‘
’’ساڑھے چھ ہزار۔‘‘
’’ابھی تو ناچ عروج پر ہے۔ صبح چار بجے تک۔۔۔‘‘
’’نو ہزار روپیہ ہو جائے گا۔‘‘ وہ بولا۔
’’آج تم نے بہت کام کیا ہے!‘‘ سنیہ نے اس کی انگلیوں کو چھو کر کہا۔
’’کیا پیوگی؟‘‘
’’تم کیا پیو گے؟‘‘
’’جن اور سوڈا۔‘‘
سنیہ بولی، ’’بیرا۔ صاحب کے لئے ایک لارج جن لاؤ اور سوڈا۔‘‘
’’ناچتے ناچتے اور پیتے پیتے پریشان ہو گئی ہوں۔‘‘
’’اپنے وطن کی خاطر سب کچھ کرنا پڑتا ہے ڈارلنگ۔‘‘ اس نے سنیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’اوہ مجھے امپریلزم سے کس قدر نفرت ہے۔‘‘ سنیہ نے پر خلوص لہجہ میں کہا۔
’’بیرا، میرے لئے ایک ورجن لاؤ۔‘‘
بیرے نے’’ورجن‘‘ کا جام لاکر سامنے رکھ دیا۔ جن کی سپیدی میں ور موتھ کی لالی اس طرح نظر آتی تھی جیسے سنیہ کے عنبریں چہرے پر اس کے لب لعلیں۔ سنیہ نے جام ہلایا اور کاک ٹیل کا رنگ شفقی ہو گیا۔ سنیہ نے جام اٹھایا اور بجلی کی روشنی نے اس کے جام میں گھل کر یاقوت کی سی چمک پیدا کر دی۔ یاقوت سنیہ کی انگلیوں میں تھرا رہا تھا۔ یاقوت جو خون کی طرح سرخ تھا۔
ناچ عروج پر تھا اور وہ اور سنیہ ناچ رہے تھے۔ ایک گت، ایک تال ایک لے، سمندر دور،بہت دور۔کہیں نیچے چلا گیا تھا۔اور زمین گم ہو گئی تھی۔اور وہ ہوا میں اڑ رہے تھے۔اور سنیہ کا چہرہ اس کے کندھے پر تھا اور سنیہ کے بالوں میں بسی ہوئی خوشبو اسے بلا رہی تھی۔ بال بنانے کا انداز کوئی سنیہ سے سیکھے۔ یہ عام ہندوستانی لڑکیاں تو بیچ میں سے یا ایک طرف مانگ نکال لیتی اور تیل چپڑ کر بالوں میں کنگھی کر لیتی ہیں۔ بہت ہوا تو دو چوٹیاں کر ڈالیں اور اپنی دانست میں فیشن کی شہزادی بن بیٹھیں ۔مگر یہ سنیہ ہی جانتی ہے کہ بالوں کی ایک الگ ہستی ہوتی ہے۔ ان کا اپنا حسن ہوتا ہے۔ ان کی مشاطگی عورت کی نسائیت کی معراج ہے۔ جیسے کوئی مصور سادہ تختے پر حسن کی نازک خطوط کھینچتا ہے۔ اسی طرح سنیہ بھی اپنے بال سنوارتی تھی۔ کبھی اس کے بال کنول کے پھول بن جاتے کبھی کانوں پر ناگن کےپھن۔ وہ کبھی چاند کا ہالہ ہو جاتے کبھی ان بالوں میں ہمالیہ کی وادیوں کے سے نشیب و فراز پیدا ہو جاتے۔ سنیہ اپنے بالوں کی آرائش میں ایسے جمالیاتی ذوق اور جودت طبع کا ثبوت دیتی تھی کہ معلوم ہوتا تھا سنیہ کی عقل اس کے دماغ میں نہیں، اس کے بالوں میں ہے۔
ناچ عروج پر تھا اور یہ بال اس کے رخساروں سے مس ہو رہے تھے۔ اس کے رگ و پے میں رقص کی روانی تھی اور نتھنوں میں اس خوشبو کا تعطر اس کا جسم اور سنیہ کا جسم پگھل کر ایک ہو گئے تھے اور ایک شعلے کی طرح ساز کی دھن پر لہرا رہے تھے۔ ایک شعلہ، ایک پھن، ایک زہر۔ایک لہر۔ لہریں۔لہریں، ہلکی ہلکی، گرم مدورسی لہریں ساحل کو چومتی ہوئی۔ لوریاں دے کر تھپک تھپک کر سلاتی ہوئی۔ سو جاؤ موت میں زندگی ہے۔ حرکت نہ کرو۔ سکون میں زندگی ہے۔ آزادی نہ طلب کرو۔ غلامی ہی زندگی ہے۔ چاروں طرف ہال میں ایک میٹھا سا زہر بسا ہوا تھا۔ شراب میں،عورت میں، ناچ میں۔ سنیہ کے نیلے سائے میں۔ اس کے پراسرار تبسم میں، اس کے نیم وا لبوں کے اندر کانپتی ہوئی موتیوں کی لڑی میں، زہر۔۔۔ زہر اور نیند اور سنیہ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے، بند ہوتے ہوئے لب، اور نغمے کا زہر، سو جاؤ۔سو جاؤ۔ سو جاؤ۔ یکایک ہال میں بجلی بجھ گئی اور وہ سنیہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے، اس کے جسم سے جسم لگائے۔ مدھم مدھم دھیمے دھیمے ہولے ناچ کے جھولے میں گہرے، گداز، گرم آغوش میں کھو گیا۔ بہہ گیا۔ سو گیا، مرگیا۔
(۳)
وہ آدمی جو ابھی زندہ ہے
میں مر چکا ہوں؟ میں زندہ ہوں؟ میری پھٹی پھٹی بے نور بے بصر آنکھیں آسمان کی پہنائیوں میں کسے ڈھونڈ رہی ہیں؟ آؤپل بھر کے لئے اس قونصل خانے کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاؤ اور میری داستان سنتے جاؤ۔ جب تک پولیس، سیواسمتی، یا انجمن خدا م المسلمین میری لاش کو یہاں سے اٹھا نہ لے جائیں۔ تم میری داستان سن لو۔ نفرت سے منھ پھیرو۔ میں بھی تمہاری طرح گوشت پوست کا بنا ہوا انسان ہوں۔ یہ سچ ہے کہ اب میرے جسم پر گوشت کم اور پوست زیادہ نظر آتا ہے اور اس میں بھی سڑاند پیدا ہو رہی ہے اور ناک سے پانی کے بلبلے سے اٹھ رہے ہیں۔
لیکن یہ تو سائنس کا ایک معمولی سا عملیہ ہے۔ تمہارے جسم اور میرے جسم میں صرف اتنا فرق ہے کہ میرے دل کی حرکت بند ہو گئی ہے۔ دماغ نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے اور پیٹ ابھی تک بھوکا ہے۔ یعنی اب بھی اس قدر بھوکا ہے کہ میں سوچتا ہوں، اگر تم چاول کا ایک ہی دانا میرے پیٹ میں پہنچا دو تو وہ پھر سے کام شروع کر دیگا۔ آزما کر دیکھ لو۔ کدھر چلے۔ ٹھہرو، ٹھہرو، ٹھہرو نہ جاؤ۔ میں تو یونہی مزاق کر رہا تھا۔ تم گھر ا گئے کہ کلکتہ کے مردے بھی بھیک مانگتے ہیں؟ خدا کے لئے نہ جاؤ میری داستان سن لو۔ ہاں ہاں اس چاول کے دانے کو اپنی مٹھی میں سنبھال کر رکھو۔ میں اب تم سے بھیک نہیں طلب کروں گا۔ کیوں کہ میرا جسم اب گل چکا ہے۔ اسے چاول کی دانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب یہ خود ایک دن چاول کا دانہ بن جائیگا۔ نرم نرم گداز مٹی میں جس کے ہر مسام میں ندی کا پانی رچا ہوگا۔ یہ جسم گھل جائے گا۔ اپنے اندر دھان کی پنیری اگتے ہوئے دیکھے گا اور پھر یہ ایک دن پانی کی پتلی تہہ سے اوپر سر نکال کر اپنے سبز سبز خوشوں کو ہوا میں لہرائے گا، مسکرائے گا، ہنسے گا، کھلکھلائے گا۔ کرنوں سے کھیلے گا۔ چاندنی میں نہائے گا۔ پرندوں کے چہچہوں اور خنک ہوا کے جھونکوں کے شہد آ گیں بوسوں سے اس کی حیات کے بند بند میں ایک نئی رعنائی ایک نیا حسن، ایک نیا نغمہ پیدا ہو گا۔ چاول کا ایک دانہ ہو گا۔ صدف کے موتی کی طرح اجلا، معصوم اور خوب صورت۔۔۔ آج میں تم سے ایک راز کی بات کہتا ہوں۔ دنیا کا سب سے بڑا راز، وہ راز جو تمھیں ایک مردہ ہی بتا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے دعا کرو۔ وہ تمھیں انسان نہ بنائے۔ چاول کا ایک دانہ بنا دے۔ گو زندگی انسان میں بھی ہے اور چاول کے دانے میں بھی۔ لیکن جو زندگی چاول کے دانے میں ہے۔ وہ انسان کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ خوبصورت ہے۔ پاک ہے اور انسان کے پاس بھی اس زندگی کے سوا اور ہے کیا۔
انسان کی جائیداد اس کا جسم، اس کا باغ اس کا گھر نہیں بلکہ یہی اس کی زندگی ہے۔ اس کا اپنا آپ، وہ ان سب چیزوں کو اپنے لئے استعمال کرتا ہے اپنے جسم کو، اپنی زمین کو، اپنے گھر کو اس کے دل میں چند تصویریں ہوتی ہیں۔ چند خیال آگ کے چند انگارے ایک مسکراہٹ وہ ان ہی پر جیتا ہے۔ اورجب مر جاتا ہے تو صرف انھیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
چاول کے دانے کی زندگی تم دیکھ چکے۔ اب آؤ میں تمھیں اپنی زندگی دکھاؤں ،نفرت سے منھ نہ پھیر لو۔ کیا ہوا؟ اگر میرا جسم مردہ ہے۔ میری روح تو زندہ ہے میری روح تو بیدار ہے اور بیشتر اس کے کہ وہ بھی سو جائے، وہ تمھیں ان چند دنوں کی کہانی سنانا چاہتی ہے۔ جب روح جسم ایک ساتھ چلتے پھرتے ناچتے گاتے ہنستے بولتے تھے۔ روح اور جسم، دو میں مزا ہے، دو میں حرکت ہے، دو میں زندگی ہے، دو میں تخلیق ہے۔ جب دھرتی اور پانی ملتے ہیں تو چاول کا دانہ پیدا ہوتا ہے۔
جب عورت اور مرد ملتے ہیں تو ایک خوبصورت ہنستا ہوا بچہ ظہور میں آتا ہے۔ جب روح اور جسم ملتے ہیں تو زندگی پیدا ہوتی ہے اور جب روح الگ ہوتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے۔ اگر غور سے دیکھو گے تو تمہیں اس دھوئیں میں میرے ماضی کی تصاویر لرزتی، دمکتی، گم ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔۔۔ یہ تجلی کیا تھی۔ ۔۔یہ میری بیوی کی مسکراہٹ تھی۔ یہ میری بیوی ہے۔ شرماؤ نہیں سامنے آ جاؤ، اے جان تمنا۔ اسے دیکھا آپ نے؟ یہ سانولی سلونی مورت یہ گھنے بال کمر تک لہراتے ہوئے۔ یہ شرمیلا تبسم۔ یہ جھکی جھکی حیران حیران آنکھیں۔
یہ آج سے تین سال پہلے کی لڑکی ہے۔ جب میں نے اسے اتا پارا کے ساحلی گاؤں میں سمندر کے کنارے دو پہر کی سوئی ہوئی فضا میں دیکھا تھا۔ میں ان دنوں اجات قصبے میں زمیندار کی لڑکی کو ستار سکھاتا تھا اور یہاں اتا پارا میں دو دن کی چھٹی لے کر اپنی بڑی موسی سے ملنے کے لئے آیا تھا۔ یہ خاموش گاؤں سمندر کے کنارے بانسوں کے جھنڈ اور ناریل کے درختوں سے گھرا ہوا اپنی اداسی میں گم تھا۔ نہ جانے ہمارے بنگالی گاؤں میں اتنی اداسی کہاں سے آ جاتی ہے۔ بانس کے چھپروں کے اندر اندھیرا ہے۔ سیلن ہے۔ بانس کی ہانڈیوں میں چاول دبے پڑے ہیں۔ مچھلی کی بو ہے۔ تالاب کا پانی کائی سے سبز ہے۔ دھان کے کھیتوں میں پانی ٹھہرا ہوا ہے۔ ناریل کا درخت ایک نکیلی برچھی کی طرح آسمان کے سینے میں گہرا گھاؤ ڈالے کھڑا ہے۔ ہر جگہ، ہر وقت درد کا احساس ہے۔ ٹھہرا کا احساس ہے۔ حزن کا احساس ہے۔ سکون،جمود اور موت کا احساس ہے۔ یہ اداسی جو تم ہماری محبت، ہمارے سماج ،ہمارے ادب اور نغمے میں دیکھتے ہو۔ یہ اداسی ہمارے گاؤں سے شروع ہوتی ہے اور پھر ساری دھرتی پرپھیل جاتی ہے۔ جب میں نے اسے پہلے پہل دیکھا تو یہ مجھے ایک جل پری کی طرح حسین نظر آئی۔ یہ اس وقت پانی میں تیر رہی تھی اور میں ساحل کی ریت پر ٹہل رہا تھا اور ایک نئی دھن میں سوچ رہا تھا۔ یکایک میرے کانوں میں ایک شیریں نسوانی آواز سنائی دی،
’’پرے ہٹ جاؤ، میں کنارے پر آنا چ
- कृष्ण-चंदर
عجیب واقعات تو دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں مگر ایک معمولی سا واقعہ نازلی کی طبیعت کو یک لخت قطعی طور پر بدل دے، یہ میرے لیے بے حد حیران کن بات ہے۔ اس کی یہ تبدیلی میرے لیے معمہ ہے۔ چونکہ اس واقعہ سے پہلے مجھے یقین تھا کہ اس کی طبیعت کو بدلنا قطعی ناممکن ہے۔ اس لیے اب میں یہ محسوس کر رہی ہوں کہ نازلی وہ نازلی ہی نہیں رہی جو بچپن سے اب تک میری سہیلی تھی۔ جیسے اس کی اس تبدیلی میں انسان کی روح کی حقیقت کا بھید چھپا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بہت ہی معمولی واقعہ تھا یعنی کسی بھدے سے بدنما آدمی سے خدا واسطے کا بغض محسوس کرنا۔۔۔ کتنی عام سی بات ہے۔
سہیلی کے علاوہ وہ میری بھابی تھی۔ کیونکہ اس کی شادی بھائی مظفر سے ہو چکی تھی۔ اس بات کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے۔ مظفر میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور جالندھر میں وکالت کرتے ہیں۔ یہ واقعہ لاہور اسٹیشن پر ہوا۔ اس روز میں اور نازلی دونوں لائل پور سے جالندھر کو آ رہی تھیں۔ ایک چھوٹے سے درمیانے درجے کے ڈبے میں ہم دونوں اکیلی بیٹھی تھیں۔ نازلی پردے کی سخت مخالف تھی۔ برقعے کا بوجھ اٹھانا اس سے دوبھر ہو جاتا تھا۔ اس لیے گاڑی میں داخل ہوتے ہی اس نے برقع اتار کر لپیٹا اور سیٹ پر رکھ دیا۔ اس روز اس نے زرد رنگ کی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس میں طلائی حاشیہ تھا۔ زرد رنگ اسے بہت پسند تھا اور اس کے گورے گورے جسم میں گلابی جھلک پیدا کر دیتا تھا۔
اس کی یہ بے پردگی اور بے باکی مجھے پسند نہ تھی۔ مگر اس بات پر اسے کچھ کہنا بیکار تھا۔ آتے جاتے لوگ اس کی طرف گھور گھور کر دیکھتے مگر وہ اپنے خیالات میں یوں مگن تھی جیسے جنگل میں تن تنہا بیٹھی ہو۔ دو تین گھنٹے تو یونہی گزر گیے مگر لاہور کے قریب جانے کون سا اسٹیشن تھا، جہاں سے دو نوجوان لڑکے سوار ہوئے۔ مجھے تو کسی کالج کے طالب علم نظر آتے تھے۔ ان لڑکوں نے ہر اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ہمیں تاڑنا شروع کر دیا۔ ہمارے ڈبے کے سامنے آ کھڑے ہوتے اور متبسم نظروں سے ہماری طرف دیکھتے۔ پھر آپس میں باتیں کرتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتے۔ نازلی ویسے ہی بے باکی سے کھڑکی میں بیٹھی رہی بلکہ میرا خیال ہے کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ نوجوان اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت وہ ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ میرے لیے اس کی یہ بے نیازی بے حد پریشان کن تھی۔ میں کچھ شرم اور کچھ غصہ محسوس کر رہی تھی۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا، ’’نازلی برقع پہن لو۔ دیکھو لڑکے کب سے تمہیں تاڑ رہے ہیں۔‘‘
’’کہاں ہیں؟‘‘ اس نے چونک کر کہا، پھر مسکرا دی، ’’دیکھنے دو۔ ہمارا کیا لیتے ہیں۔ آپ ہی اکتا جائیں گے۔۔۔ بے چارے۔‘‘
’’مگر برقع اوڑھ لینے میں کیا حرج ہے؟‘‘
’’اگر برقع اوڑھنے سے لوگ یوں گھورنا چھوڑ دیں تو شاید عورتیں برقع اوڑھنا ترک کر دیں۔ برقع پہن لوں تو یہی ہو گا کہ سامنے کھڑے ہونے کی بجائے ادھر ادھر منڈلاتے پھریں گے۔‘‘
’’تم بھی حد کرتی ہو۔‘‘
’’میں کہتی ہوں، نجمی ایمان سے کہنا۔ کیا تم اپنے آپ کو چھپانے کے لیے برقع پہنتی ہو؟‘‘ وہ مجھے نجمی کہا کرتی تھی۔ چونکہ اس کے خیال کے مطابق نجم النساء گنگنا نام تھا۔ وہ بے اختیار ہنس دی۔ ’’اچھا مان لیا کہ تم واقعی اپنے آپ کو چھپانے کے لیے برقع پہنتی ہو۔ چلو مان لیا برقع پہن کر تم لوگوں پر یہ ظاہر کرتی ہو کہ اس برقعے میں چھپانے کے قابل چیز ہے۔ یعنی ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ یقین نہ ہو تو خود دیکھ لیجئے اور یہ برقع تو دیکھو۔‘‘ اس نے میرے برقع کو ہاتھ میں مسلتے ہوئے کہا، ’’یہ ریشمی بوسکی فیتے، جھالر، یہ تو برقع بذات خود خوبصورت ہے اور برقع والی کیا ہو گی۔ اندازہ کر لیجئے۔ واہ کیا خوب پردہ ہے۔‘‘
’’تم خوامخواہ بگڑتی ہو۔‘‘ میں نے تنک کر کہا۔
’’بگڑنا تو خیر ہو گا۔۔۔ مجھے تمہاری طرح بننا نہیں آتا۔‘‘
’’پگلی کبھی عورت بھی پردے میں رہ سکتی ہے۔ دیکھتی نہیں ہو۔ عورتوں نے پردے کو بھی زیبائش بنا دیا ہے۔ آخر جو بات ہے اسے ماننے میں کیا حرج ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑی۔
’’تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔‘‘ میں نے بگڑ کر کہا۔
’’لو اور سنو۔ جو ہم کہیں، وہ تو ہوا مذاق اور جو آپ کہیں، وہ حقیقت ہے۔‘‘
’’اچھا بابا معاف کرو۔ بھول ہوئی۔ اب برقعہ تو اٹھا لو کیا ان درختوں سے بھی پردہ کرو گی؟‘‘
’’تمہارے خیالات بہت عجیب ہیں۔‘‘ میں نے برقعہ اتارتے ہوئے کہا۔ اسٹیشن بہت دور رہ گیا تھا اور گاڑی ایک وسیع میدان سے گزر رہی تھی۔
’’عجیب۔۔۔ ہاں عجیب ہیں۔ اس لیےکہ وہ میرے اپنے ہیں۔ اگر میں بھی تمہاری طرح سنی سنائی باتیں شروع کر دوں تو تم مجھ سے کبھی ناراض نہ ہو۔‘‘
’’سنی سنائی۔۔۔؟‘‘
’’ہاں سنی سنائی، اس لیے کہ یہ باتیں ظہیر صاحب کو بہت پسند ہیں اور تم چاہتی ہو کہ وہ تمہیں چاہیں۔ تمہارے میاں جو ہوئے۔ یہ سنہری چوڑیاں ہی دیکھو۔ یاد ہے تم سنہری چوڑیوں کو کیسی نفرت کی نظر سے دیکھا کرتی تھیں ؟ مگر یہ انہیں پسند ہیں نا۔ اس لیے یہ بوجھ اٹھائے پھرتی ہو۔ ان کی محبت کی محتاج جو ٹھہریں۔ ایمان سے کہنا۔ کیا یہ غلط ہے؟ مجھے تو ایسی محتاجی گوارا نہیں۔ تم ہی نے تو مردوں کا مزاج بگاڑ رکھا ہے۔ ورنہ وہ بے چارے۔‘‘
’’تمہیں بھی تو زرد رنگ پیارا ہے نا؟‘‘
’’ہاں ہے اور رہے گا۔ میری اپنی پسند ہے۔ میں اپنے میاں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتی کہ جیسا جی چاہیں، نچا لیں۔ میں نے ان سے بیاہ کیا ہے۔ ان کے پاس اپنی روح گروی نہیں رکھی اور تم۔۔۔ تمہاری تو مرضی ہے ہی نہیں۔ تم تو ہوا کے رخ میں اڑنا چاہتی ہو۔‘‘
دفعتاً گاڑی نے جھٹکا کھایا اور وہ لڑھک کر مجھ پر آ گری۔
’’یہ جھوٹ بولنے کی سزا ہے۔‘‘ میں نے اسے چھیڑنے کو کہا اور ہم دونوں ہنس پڑیں۔ گاڑی اسٹیشن پر رک گئی۔ دونوں جوان گاڑی سے اتر کر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے اور نازلی کو تاڑنے لگے۔ اس نے دو ایک مرتبہ ان کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر نفرت بھرا تمسخر کھیل رہا تھا۔ ’’بے چارے۔‘‘ اس نے دبی آواز میں کہا، ’’مجھے تو ان پر ترس آتا ہے۔‘‘ اور وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔ نہ جانے اس کی بے باکی اور بے پروائی دیکھ کر یا کسی اور وجہ سے وہ اور بھی دلیر ہو گیے۔ پہلے تو آپس میں باتیں کرتے رہے۔ پھر ان میں سے جو زیادہ دلیر معلوم ہوتا تھا، ہمارے ڈبے کی طرف بڑھا۔ مگر نازلی کے انداز کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ کچھ دیر کے لیے وہ رک گیا۔ ہاتھ سے اپنی نکٹائی سنواری۔ بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ رومال نکالا اور پھر کھڑکی کی طرف بڑھا۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر ادھر ادھر دیکھا اور آخر ہمت کر کے نازلی کے قریب آ کھڑا ہوا اور گھبرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا، ’’کسی چیز کی ضرورت ہو تو۔۔۔‘‘
میں تو ڈر کے مارے پسینہ پسینہ ہو گئی۔ مگر نازلی ویسے ہی بیٹھی رہی اور نہایت سنجیدگی سے کہنے لگی، ’’ہاں صرف اتنی مہربانی فرمائیے کہ یوں سامنے کھڑے ہو کر ہمیں گھوریے نہیں۔ شکریہ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس وقت نازلی کی سنجیدگی کو دیکھ کر میں حیران ہو رہی تھی۔ اس میں کتنی ہمت تھی۔ خیر نوجوان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کھسیانا ہو کر واپس چلا گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ہمیں کہیں نظر نہ آئے۔
ان دنوں نازلی کی طبیعت بے حد شوخ تھی مگر شوخی کے باوجود کبھی کبھی ایسی سنجیدگی سے کوئی بات کہہ دیتی کہ سننے والا پریشان ہو جاتا۔ ایسے وقت مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس نسوانی جسم کی تہہ میں کوئی مردانہ روح جی رہی ہو۔ مگر اس کے باوجود مردوں سے دلچسپی نہ تھی۔ یقینی وہ مردوں کی طرف آنکھیں چمکا چمکا کر دیکھنے والی عورت نہ تھی۔ اس کے علاوہ اسے جذبہ محبت کے خلاف بغض تھا۔ مظفر بھائی دو سال کے عرصہ میں بھی اسے سمجھ نہ سکے تھے۔ شاید اسی لیے وہ اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔ نازلی انہیں اس قدر پیاری تھی۔ حالانکہ وہ ان کے روبرو ایسی باتیں کہہ دینے سے کبھی نہ جھجکتی تھی جو کسی عام خاوند کو سننا گوارا نہیں ہوتیں مگر وہ نازلی کی باتیں سن کر ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔
لاہور پہنچنے تک میں نے منت سماجت کر کے اسے برقع پہننے کے لیے منا لیا۔ رات کو آٹھ بجے کے قریب ہم لاہور پہنچ گیے۔ وہاں ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ جالندھر جانے والی گاڑی کا انتظار کرنا تھا۔ ہم اس پلیٹ فارم پر جا بیٹھے جہاں سے ہماری گاڑی کو چلنا تھا۔ پلیٹ فارم خالی پڑا تھا۔ یہاں وہاں کہیں کہیں کوئی مسافر بیٹھا اونگھ رہا تھا یا کبھی کبھار کوئی وردی پوش بابو یا قلی تیزی سے ادھر سے ادھر گزر جاتا۔ مقابل کے پلیٹ فارم پر ایک مسافر گاڑی کھڑی تھی اور لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے۔ ہم دونوں چپ چاپ بیٹھی رہیں۔
’’لاحول ولا قوة۔‘‘ میں نے نازلی کو کہتے سنا۔ دیکھا تو اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔
’’کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے انگلی سے ساتھ والے بنچ کی طرف اشارہ کیا۔ بنچ پر بجلی بتی کے نیچے دو جوان بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
’’توبہ! جانگلی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ نازلی نے کہا۔
سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کی ہیئت واقعی عجیب تھی جیسے گوشت کا بڑا سا لوتھڑا ہو۔ سوجا ہوا چہرہ، سانولا رنگ، تنگ پیشانی پر دو بھدی اور گھنی بھنویں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن کے نیچے دو اندر دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی سانپ کی سی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ چھاتی اور کندھے بے تحاشہ چوڑے اور جن پر سیاہ لمبا کوٹ یوں پھنسا ہوا تھا جیسے پھٹا جا رہا ہو۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے تنگ جسم میں بہت سی جسمانی قوت ٹھونس رکھی ہو۔ چہرے پر بے زاری چھائی ہوئی تھی۔ اس کی حرکات بھدی اور مکروہ تھیں۔ ’’دیکھو تو۔۔۔‘‘ نازلی بولی، ’’اس کے اعضاء کس قدر بھدے ہیں؟ انگلیاں تو دیکھو۔‘‘ اس نے جھرجھری لی اور اپنا منہ پھیر لیا۔
’’تم کیوں خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ جانگلی ہے تو پڑا ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر اس کی نگاہیں بھٹک کر اسی شخص پر جا پڑیں جیسے وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو۔ ’’اسے کھاتے ہوئے دیکھنا۔۔۔توبہ ہے۔‘‘ نازلی نے یوں کہا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہی ہو۔
’’صرف ایک گھنٹہ باقی ہے۔‘‘ میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تاکہ اس کا دھیان کسی اور طرف لگ جائے مگر اس نے میری بات نہ سنی اور ویسے ہی گم سم بیٹھی رہی۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ ہونٹ نفرت سے بھنچے ہوئے تھے۔ میں نے اسے کبھی ایسی حالت میں نہ دیکھا تھا۔ اس کے برعکس کئی بار جب مظفر بھائی کسی دہشت ناک قتل کی تفصیلات سناتے اور ہم سب ڈر اور شوق کے مارے چپ چاپ بیٹھے سن رہے ہوتے، اس وقت نازلی بے زاری سے اٹھ بیٹھتی اور جمائی لے کر کمرے سے باہر چلی جاتی۔ مگر اس روز اس کا ایک اجنبی کی انگلیوں اور کھانے کے انداز کو یوں غور سے دیکھنا میرے لیے باعث تعجب تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی شکل دیکھ کر مجھے خود ڈر محسوس ہو رہا تھا۔ ’’دیکھا نا؟‘‘ میں نے بات بدلنے کی غرض سے کہا، ’’تم جو بھائی مظفر کی انگلیوں پر ہنسا کرتی ہو۔ یاد ہے تم کہا کرتی تھیں، یہ انگلیاں تو سوئی کا کام کرنے کے لیے بنی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یاد ہے نا؟‘‘
’’توبہ ہے۔‘‘ نازلی نے نحیف آواز میں کہا، ’’اس کا بس چلے تو سب کو کچا ہی کھا جائے۔ کوئی مردم خور معلوم ہوتا ہے۔‘‘ وہ اپنی ہی دھن میں بیٹھی کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی جیسے اس نے میری بات سنی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد میں نے اس سے کچھ کہنے کا خیال چھوڑ دیا۔ دیر تک میں ادھر ادھر دیکھتی رہی حتیٰ کہ میں نے اپنے بازو پر اس کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا۔
’’نجمی چلو کہیں دور جا بیٹھیں۔ ضرور یہ کوئی مجرم ہے۔‘‘
’’پگلی۔‘‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کی مگر جانگلی کو دیکھتے ہی مسکراہٹ خشک ہو گئی۔ جانگلی اپنے دھیان میں بیٹھا ہاتھ دھو رہا تھا۔ واقعی اس کی انگلیاں سلاخوں کی طرح موٹی اور بے تکی تھیں۔ میرے دل پر نامعلوم خوف چھا رہا تھا۔ پلیٹ فارم میری آنکھوں میں دھندلا دکھائی دینے لگا۔ پھر دونوں نے آپس میں باتیں کرنا شروع کر دی۔
’’شادی؟‘‘ جانگلی نے کہا اور اس کی آواز یوں گونجی جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔ نازلی نے جھرجھری لی اور سرک کر میرے قریب ہو بیٹھی۔ مگر اس کی نگاہیں اس شخص پر یوں گڑی ہوئی تھیں جیسے جنبش کی طاقت سلب ہو چکی ہو۔
’’کچھ حالات ہی ایسے ہو گیے کہ شادی کے متعلق سوچنا میرے لیے نہایت ناخوشگوار ہو چکا ہے۔ میری شادی ہوتے ہوتے رک گئی۔ اسی بات نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔‘‘
’’آخر کیا بات تھی؟ہم بھی سنیں۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں۔ بس میری اپنی بے ہنگم طبیعت۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی بہت بھونڈی تھی۔
نازلی سرک کر میرے قریب ہو گئی۔
’’میں اپنی طبیعت سے مجبور ہوں۔‘‘ جانگلی نے کہا، ’’تمام جھگڑا میری طبیعت کی وجہ سے ہی تھا۔ میری منگیتر میرے دوست ظہیرالدین صاحب کی لڑکی تھی۔ ظہیرالدین ہماری فرم کے منیجر تھے اور ان کا تمام کام میں ہی کیا کرتا تھا۔ چونکہ ان کے مجھ پر بہت سے احسانات تھے، میں نے ان کی بات کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا، حالانکہ میرے حالات کچھ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ شادی کا بکھیڑا میرے لئے چنداں مفید نہ تھا۔ خیر میں نے سنا تھا کہ لڑکی بہت خوبصورت ہے اور سچ پوچھو تو خوب صورت لڑکی سے شادی کرنا میں قطعی ناپسند کرتا ہوں۔‘‘
’’عجیب انسان ہو۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’عجیب ہی سہی مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ میں کسی بدصورت لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ نہیں یہ بات نہیں۔ مگر کسی حسین لڑکی کو بیاہ لانا مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’اوہ بڑا گھمنڈ ہے انہیں۔‘‘ نازلی نے میرے کان میں کہا۔
’’خیر۔‘‘ جانگلی نے بات جاری رکھی۔ ’’ایک دن کی بات ہے کہ مجھے بے موقع ظہیرالدین کے مکان پر جانا پڑا۔ یاد نہیں کہ کیا بات تھی۔ مجھے صرف اتنا ہی یاد ہے کہ کوئی ضروری کام تھا۔ چونکہ عام طور پر میں ان کے مکان میں جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ بہرحال ایک چھوٹی سی لڑکی باہر آئی اور کہنے لگی، آپ اندر چل کر بیٹھئے۔ وہ ابھی آتے ہیں۔ خیر میں ملاقاتی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتاً دروازہ آپ ہی کھل گیا اور کچھ دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کھلے منہ دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔ پہلے تو وہ یوں کھڑی رہی گویا اس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جیسے لڑکیاں مردوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا کرتی ہیں۔ پھر میز پر سے ایک کتاب اٹھا کر چلی گئی۔ میں اس کی بے باکی اور بناؤ سنگھار کو دیکھ کر غصے سے کھول رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھی۔ مجھے اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ کسی کو۔۔۔‘‘ اس نے گھونسا لہراتے ہوئے کہا۔ پھر وہ ہنس پڑا۔ نازلی نے اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر چیخ سی ماری۔ مگر ڈر یا نقاہت سے اس کی آواز ان دونوں تک نہ پہنچ سکی۔ ورنہ خدا جانے وہ کیا سمجھتے۔
جانگلی نے بات پھر شروع کی۔ بولا، ’’وہ یوں بن سنور کر وہاں کھڑی تھی گویا اپنی قیمت چکانے آئی ہو۔ ایک زرد رنگ کا ر سے کی طرح بل کھایا ہوا دوپٹہ اس کے شانوں پر لٹک رہا تھا۔ سر ننگا۔ اف! تمہیں کیا بتاؤں۔ اس کے بعد میں نے ظہیرالدین صاحب سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ یعنی میں نے رشتے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر وہ بہت بگڑے اور مجھے کوئی اور نوکری تلاش کرنی پڑی۔ مہینوں بغیر نوکری کے رہا۔ کہاں کہاں بھٹکتا پھرا۔ راجپوتانے میں نوکری آسانی سے نہیں مل سکتی۔‘‘
’’مگر اس میں انکار کی کیا بات تھی؟‘‘ اس کے ساتھی نے کہا، ’’آخر منگیتر تھی۔‘‘
’’بس یہی کہ مجھے بے پردگی سے بے حد نفرت ہے اور آج کل کا بناؤ سنگھار مجھے پسند نہیں۔ ہاں ایک بات اور ہے۔ کوئی لڑکی جو زرد دوپٹہ پہن سکتی ہے۔ میں اسے اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔ مجھے زرد رنگ سے چڑ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ گھر کے کام کاج کو عار سمجھتی تھی۔ یہ آج کا فیشن ہے۔ تم جانتے ہو کہ آج کل لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ بن سنور کر مردوں کو لبھانے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں اور برتن مانجھنے سے ہاتھ میلے ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہاتھ دکھلاوے کی چیز ہوں۔ یہیں دیکھ لو، کتنی بے پردگی ہے۔ عورتیں یوں برقعے اٹھائے پھرتی ہیں جیسے جنگل میں شکاری بندوقیں اٹھائے پھرتے ہیں۔‘‘
اس کا ساتھی ہنس پڑا اور پھر ہنستے ہنستے کہنے لگا، ’’یار! تم تو راجپوتانے میں رہ کر بالکل بدل گیے ہو۔‘‘
’’اونہہ ہوں۔۔۔ یہ بات نہیں۔‘‘ جانگلی نے کہا، ’’پردے کا تو میں بچپن سے ہی بہت قائل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گھر میں دو عورتیں مہمان آئیں۔ ایک تو خیر ابھی بچی تھی۔ دوسری یہی کوئی پچیس سال کی ہو گی۔ ان دنوں میں خود آٹھ نو سال کا تھا۔ خیر وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔‘‘ وہ رک گیا۔ پھر آپ ہی بولا، ’’مجھے اس بات پر بے حد غصہ آتا تھا۔ اس لیے میں اکثر باہر مردانے میں ہی بیٹھا رہتا، یعنی میں نے ان کے روبرو جانا بند کر دیا۔ ایک دن ابا نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہ پیغام اندر لے جاؤ۔ خدا جانے کیا پیغام تھا۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی زیور دیا تھا کہ انہیں دکھا دوں۔ شاید ان مہمانوں نے وہ زیور دیکھنے کے لیے منگوایا ہو۔ میں نے ڈیوڑھی سے جھانک کر دیکھا تو وہ عورت صحن میں اماں کے پاس بیٹھی تھی۔ اماں کہنے لگی۔ حمید اندر چلے آؤ۔ اے ہے تم اندر کیوں نہیں آتے؟ تم سے کوئی پردہ ہے؟ میں یہ سن کر ابا کے پاس واپس چلا آیا۔ میں نے کہا، ابا جی میں نہیں جاؤں گا۔ وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی۔ یہ بات میں نے اس قدر جوش اور غصے میں کہی کہ ابا بے اختیار ہنس پڑے۔ اس کے بعد دیر تک گھر والے میری اس بات پر مجھے چھیڑتے رہے۔ البتہ زرد رنگ سے مجھے ان دنوں نفرت نہ تھی۔ طبیعت بھی عجیب چیز ہے۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری طبیعت تو ایسی ہے جیسے مداری کا تھیلا۔‘‘ اس کے ساتھی نے ہنستے ہوئے کہا اور وہ دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ پھر وہ اٹھ بیٹھے۔ اس وقت پہلی مرتبہ جانگلی کی نگاہ نازلی پر پڑی جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے ماتھے پر شکن پڑ گئی اور آنکھیں نفرت یا خدا جانے کس جذبے سے سرخ ہو گئیں۔ نازلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نگاہیں جانگلی پر جمی ہوئی تھیں جیسے وہ انہیں وہاں سے ہٹانا چاہتی ہو مگر ہٹا نہ سکتی ہو اور تمام بدن کانپ رہا تھا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا جیسے نازلی میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی ہو۔ یک لخت جانگلی مڑا اور وہ دونوں وہاں سے چلے گیے۔ اس وقت نازلی عجیب بے بسی کے ساتھ مجھ سے لگی بیٹھی تھی گویا اس میں بالکل جان نہ ہو۔
کچھ دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا۔ عین اس کے قریب سے ایک قلی گزرا۔ وہ ٹھٹک گئی اور اس نے اپنا برقعہ منہ پر ڈال لیا، ’’اگر مجھے ایک خون معاف کر دیا جائے تو میں اسے یہیں گولی مار دوں۔‘‘ نازلی نے کہا۔
’’کسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کتنا بنتا ہے۔‘‘
’’اوہ! تمہارا مطلب اس شخص سے ہے مگر تم خواہ مخواہ اس سے چڑ رہی ہو۔ اپنی اپنی طبیعت ہے۔ اپنے اپنے خیالات ہیں۔ تمہیں اپنے خیالات پیارے ہیں، اسے اپنے۔‘‘
’’بڑی طرف داری کر رہی ہو۔‘‘ وہ بولی۔
’’اس میں طرف داری کی کیا بات ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’تمہیں تو آپ سنی سنائی باتوں سے نفرت ہے۔ اس کے خیالات بھی مانگے کے نہیں۔ باقی رہی شکل، وہ تو اللہ میاں کی دین ہے۔۔۔ ایمان کی بات پوچھو تو مجھے تو تم دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
’’جی ہاں! تمہارا بس چلے تو ابھی میری بانہہ پکڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دو۔‘‘
’’لا حول ولا۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’لا حول ولا کی اس میں کیا بات ہے۔۔۔؟ میں کہتی ہوں اس کی بیوی اس کے ساتھ کیسے رہ سکے گی؟‘‘
گاڑی پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئی۔ ہم دونوں اندر بیٹھے۔ ہم نے انٹر کا ایک چھوٹا سا زنانہ ڈبہ تلاش کیا اور اس میں جا بیٹھے۔ نازلی نے برقعہ اتار کر لپیٹ کر بنچ پر رکھ دیا اور خود کونے میں بیٹھ گئی۔ حالانکہ ڈبے میں بہت گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ پھر بھی اس نے کھڑکی کا تختہ چڑھا دیا۔ میں دوسرے پلیٹ فارم پر ہجوم دیکھنے میں محو ہو گئی۔ میرا خیال ہے ہم بہت دیر تک یونہی خاموشی سے بیٹھے رہے۔
’’توبہ ہے۔‘‘ نازلی کی آواز سن کر میں چونک پڑی۔ دیکھا تو میرے پاس ہی وہ جانگلی ہاتھ میں سوٹ کیس لیے کھڑا تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اسی لمحے میں نازلی نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ سامنے اسے دیکھ کر نہ جانے کیا ہوا۔ بس مجھے اتنا معلوم ہے کہ اس نے لپٹ کر دوپٹہ میرے سر سے کھینچ لیا اور ایک آن میں خود کو اس میں لپیٹ کر گٹھری سی بن کر پڑ گئی۔
’’لاحول ولا قوة‘‘ جانگلی کی بھدی آواز سنائی دی اور وہ الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ غلطی سے ہمارے ڈبے میں چلا آیا تھا۔ جب اس نے ہمیں دیکھا تو اپنی غلطی کو جان کر واپس چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک نازلی اسی طرح منہ سر لپیٹے پڑی رہی۔ میرے دل میں عجیب عجیب ہول اٹھنے لگے۔ میرا خیال تھا کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو گا۔ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔ ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ خیر جوں توں ہم خیریت سے جالندھر پہنچ گیے۔
اگلے دن دوپہر کے قریب مظفر بھائی میرے کمرے میں آئے۔ ان کے چہرے پر تشویش اور پریشانی کے آثار تھے۔ کہنے لگے، ’’نجمہ! نازلی کو کیا ہو گیا ہے؟ کہیں مجھ سے ناراض تو نہیں ؟‘‘
’’مجھے تو معلوم نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’کیا ہوا؟‘‘
’’خدا جانے کیا بات ہے؟ اس میں وہ پہلی سی بات ہی نہیں۔ آج صبح سے ہر بات کے جواب میں جی ہاں۔ جی ہاں۔ نازلی اور جی ہاں؟ میں سمجھا، شاید مجھ سے ناراض ہے۔‘‘
’’نہیں ویسے ہی اس کی طبیعت ناساز ہے۔‘‘
’’طبیعت ناساز ہے؟‘‘ انہوں نے حیرانی سے کہا، ’’اگر طبیعت ناساز ہوتی تو کیا وہ بیٹھی باورچی خانے کا کام کرتی۔ وہ تو صبح سے حشمت کے پاس باورچی خانے میں بیٹھی ہے۔ کہتی ہے، میں کھانا پکانا سیکھوں گی۔ منہ ہاتھ تک نہیں دھویا۔ عجیب معاملہ ہے۔‘‘
’’وہم نہ کیجئے۔ آپ ہی ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘ میں نے بات ٹالنے کے لیے کہا۔
’’وہم کی اس میں کیا بات ہے۔ تم جانتی ہو اس کی طبیعت خراب ہو تو اس گھر میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور باورچی خانے کے کام سے تو اسے چڑ ہے۔ آج تک وہ کبھی باورچی خانے میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ خدا جانے کیا بھید ہے۔‘‘
وہ دو قدم چل کر لوٹ آئے۔ ’’اور مزے کی بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔ جانتی ہو نا کہ اسے زرد رنگ کتنا پیارا ہے۔ اس نے اس مرتبہ ایک نہایت خوبصورت زرد دوپٹہ اس کے لیے خریدا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ زرد دوپٹہ دیکھ کر خوشی سے ناچے گی۔ مگر اس نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہیں کھونٹی سے لٹک رہا ہے۔ جب میں نے اصرار کیا تو کہنے لگی، ’’اچھا ہے۔ آپ کی مہربانی ہے۔‘‘ نازلی کے منہ سے یہ بات نکلے۔ سوچو تو۔۔۔ عجیب معاملہ ہے کہ نہیں۔‘‘ وہ بولے۔
نازلی کی مکمل اور فوری تبدیلی پر ہم سب حیران تھے۔ مگر وہ خود بالکل خاموش تھی۔ اسی طرح ایک دن گزر گیا۔ اسی شام بھائی مظفر تار ہاتھ میں لیے باورچی خانے میں آئے۔ ہم دونوں وہیں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے، ’’جانتی ہو یہ کس کا تار ہے۔ خالہ فرید کا بڑا لڑکا حمید تھا نا۔۔۔ جو پندرہ سال کی عمر میں راجپوتانے بھاگ گیا تھا؟ وہ واپس آ گیا ہے۔ اب وہ بہن کو ملنے دہلی جا رہا ہے۔ یہ تار اس کا ہے۔ کل صبح نو بجے یہاں پہنچے گا۔ چند ایک گھنٹوں کے لیے یہاں ٹھہرے گا۔‘‘
’’کون حمید؟‘‘
’’تم کو یاد ہو گا۔ میں اور حمید اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔‘‘
نازلی کے ہونٹ ہلے اور اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد پڑ گیا۔ ہاتھ سے پیالی گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔
اگلے دن نو بجے کے قریب میں اور نازلی باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ وہ چائے کے لیے پانی گرم کر رہی تھی مگر یوں بیٹھی تھی جیسے اسے کسی بات کا دھیان ہی نہ ہو۔ پاس ہی کھونٹی پر اس کا زرد دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ بھائی مظفر نے زبردستی اسے وہ دوپٹہ لینے پر مجبور کر دیا تو اس نے لے لیا لیکن پہننے کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور کپڑے میلے تھے۔ اس وقت وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھی تھی۔ باہر برآمدے میں بھائی صاحب کسی سے کہہ رہے تھے، ’’تم یہیں بیٹھو۔ میں اسے بلاتا ہوں۔ نہایت ادب سے بھابھی کو سلام کرنا۔‘‘
’’اچھا تمہاری مرضی۔‘‘ کسی نے بھدی آواز میں کہا جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔
’’وہی۔‘‘ میرے دل میں کسی نے کہا اور جانگلی کی شکل میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ میں اسے دیکھنے کے لیے دبے پاؤں اٹھی۔ باورچی خانے کا دروازہ بند تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو اسی وقت بھائی صاحب حمید سے کہہ رہے تھے، ’’آؤ تم بھی میرے ساتھ آؤ۔‘‘
میں نے دروازہ زور سے بند کر دیا۔
نازلی نے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ وہ دیوانہ وار اٹھی۔ کھونٹی سے لپک کر دوپٹہ اتار لیا۔ پھر میرے دیکھتے دیکھتے اسے چولہے کی طرف پھینک دیا جیسے کوئی بچھو ہو اور دوڑ کر حشمت کی چادر کو پکڑ لیا جو دوسرے دروازے کی پٹ پر لٹک رہی تھی اور اپنے آپ کو اس میں لپیٹ لیا۔ زرد دوپٹہ چولہے میں جلنے لگا۔ اسی وقت بھائی صاحب اندر داخل ہوئے مگر وہ اکیلے ہی تھے۔ انہوں نے حیرانی سے ہمیں دیکھا۔ کچھ دیر ہم تینوں خاموش ہی کھڑے رہے۔ آخر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ نازلی کہاں ہے؟ میں نے نازلی کی طرف اشارہ کیا جو منہ لپیٹ کر کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔
’’نازلی!‘‘ انہوں نے حیرانی سے دہرایا۔ وہ نازلی کے قریب گیے، ’’یہ کیا حماقت ہے؟ چلو۔۔۔ باہر حمید انتظار کر رہا ہے۔‘‘
وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر نحیف آواز میں کہنے لگی، ’’نہیں۔ میں نہیں جاؤں گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ بولے۔ اتفاقاً بھائی جان کی نظر جلتے ہوئے دوپٹے پر پڑی۔
’’نازلی!‘‘ انہوں نے دوپٹے کی طرف دیکھ کر حیرانی سے کہا۔ نازلی نے سر ہلا دیا اور چمٹے سے دوپٹے کو پوری طرح چولہے میں ڈال دیا۔
بھائی نازلی کی اس تبدیلی پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نازلی کی طبیعت بہت سنور گئی ہے۔ بات ہے بھی درست۔ چونکہ اس کی طبیعت میں وہ ضد اور بے باک شوخی نہیں رہی، مگر کبھی کسی وقت انہیں اکٹھے دیکھ کر میں محسوس کرتی ہوں۔ گویا وہ نازلی کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہیں۔
سہیلی کے علاوہ وہ میری بھابی تھی۔ کیونکہ اس کی شادی بھائی مظفر سے ہو چکی تھی۔ اس بات کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے۔ مظفر میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور جالندھر میں وکالت کرتے ہیں۔ یہ واقعہ لاہور اسٹیشن پر ہوا۔ اس روز میں اور نازلی دونوں لائل پور سے جالندھر کو آ رہی تھیں۔ ایک چھوٹے سے درمیانے درجے کے ڈبے میں ہم دونوں اکیلی بیٹھی تھیں۔ نازلی پردے کی سخت مخالف تھی۔ برقعے کا بوجھ اٹھانا اس سے دوبھر ہو جاتا تھا۔ اس لیے گاڑی میں داخل ہوتے ہی اس نے برقع اتار کر لپیٹا اور سیٹ پر رکھ دیا۔ اس روز اس نے زرد رنگ کی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس میں طلائی حاشیہ تھا۔ زرد رنگ اسے بہت پسند تھا اور اس کے گورے گورے جسم میں گلابی جھلک پیدا کر دیتا تھا۔
اس کی یہ بے پردگی اور بے باکی مجھے پسند نہ تھی۔ مگر اس بات پر اسے کچھ کہنا بیکار تھا۔ آتے جاتے لوگ اس کی طرف گھور گھور کر دیکھتے مگر وہ اپنے خیالات میں یوں مگن تھی جیسے جنگل میں تن تنہا بیٹھی ہو۔ دو تین گھنٹے تو یونہی گزر گیے مگر لاہور کے قریب جانے کون سا اسٹیشن تھا، جہاں سے دو نوجوان لڑکے سوار ہوئے۔ مجھے تو کسی کالج کے طالب علم نظر آتے تھے۔ ان لڑکوں نے ہر اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ہمیں تاڑنا شروع کر دیا۔ ہمارے ڈبے کے سامنے آ کھڑے ہوتے اور متبسم نظروں سے ہماری طرف دیکھتے۔ پھر آپس میں باتیں کرتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتے۔ نازلی ویسے ہی بے باکی سے کھڑکی میں بیٹھی رہی بلکہ میرا خیال ہے کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ نوجوان اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت وہ ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ میرے لیے اس کی یہ بے نیازی بے حد پریشان کن تھی۔ میں کچھ شرم اور کچھ غصہ محسوس کر رہی تھی۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا، ’’نازلی برقع پہن لو۔ دیکھو لڑکے کب سے تمہیں تاڑ رہے ہیں۔‘‘
’’کہاں ہیں؟‘‘ اس نے چونک کر کہا، پھر مسکرا دی، ’’دیکھنے دو۔ ہمارا کیا لیتے ہیں۔ آپ ہی اکتا جائیں گے۔۔۔ بے چارے۔‘‘
’’مگر برقع اوڑھ لینے میں کیا حرج ہے؟‘‘
’’اگر برقع اوڑھنے سے لوگ یوں گھورنا چھوڑ دیں تو شاید عورتیں برقع اوڑھنا ترک کر دیں۔ برقع پہن لوں تو یہی ہو گا کہ سامنے کھڑے ہونے کی بجائے ادھر ادھر منڈلاتے پھریں گے۔‘‘
’’تم بھی حد کرتی ہو۔‘‘
’’میں کہتی ہوں، نجمی ایمان سے کہنا۔ کیا تم اپنے آپ کو چھپانے کے لیے برقع پہنتی ہو؟‘‘ وہ مجھے نجمی کہا کرتی تھی۔ چونکہ اس کے خیال کے مطابق نجم النساء گنگنا نام تھا۔ وہ بے اختیار ہنس دی۔ ’’اچھا مان لیا کہ تم واقعی اپنے آپ کو چھپانے کے لیے برقع پہنتی ہو۔ چلو مان لیا برقع پہن کر تم لوگوں پر یہ ظاہر کرتی ہو کہ اس برقعے میں چھپانے کے قابل چیز ہے۔ یعنی ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ یقین نہ ہو تو خود دیکھ لیجئے اور یہ برقع تو دیکھو۔‘‘ اس نے میرے برقع کو ہاتھ میں مسلتے ہوئے کہا، ’’یہ ریشمی بوسکی فیتے، جھالر، یہ تو برقع بذات خود خوبصورت ہے اور برقع والی کیا ہو گی۔ اندازہ کر لیجئے۔ واہ کیا خوب پردہ ہے۔‘‘
’’تم خوامخواہ بگڑتی ہو۔‘‘ میں نے تنک کر کہا۔
’’بگڑنا تو خیر ہو گا۔۔۔ مجھے تمہاری طرح بننا نہیں آتا۔‘‘
’’پگلی کبھی عورت بھی پردے میں رہ سکتی ہے۔ دیکھتی نہیں ہو۔ عورتوں نے پردے کو بھی زیبائش بنا دیا ہے۔ آخر جو بات ہے اسے ماننے میں کیا حرج ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑی۔
’’تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔‘‘ میں نے بگڑ کر کہا۔
’’لو اور سنو۔ جو ہم کہیں، وہ تو ہوا مذاق اور جو آپ کہیں، وہ حقیقت ہے۔‘‘
’’اچھا بابا معاف کرو۔ بھول ہوئی۔ اب برقعہ تو اٹھا لو کیا ان درختوں سے بھی پردہ کرو گی؟‘‘
’’تمہارے خیالات بہت عجیب ہیں۔‘‘ میں نے برقعہ اتارتے ہوئے کہا۔ اسٹیشن بہت دور رہ گیا تھا اور گاڑی ایک وسیع میدان سے گزر رہی تھی۔
’’عجیب۔۔۔ ہاں عجیب ہیں۔ اس لیےکہ وہ میرے اپنے ہیں۔ اگر میں بھی تمہاری طرح سنی سنائی باتیں شروع کر دوں تو تم مجھ سے کبھی ناراض نہ ہو۔‘‘
’’سنی سنائی۔۔۔؟‘‘
’’ہاں سنی سنائی، اس لیے کہ یہ باتیں ظہیر صاحب کو بہت پسند ہیں اور تم چاہتی ہو کہ وہ تمہیں چاہیں۔ تمہارے میاں جو ہوئے۔ یہ سنہری چوڑیاں ہی دیکھو۔ یاد ہے تم سنہری چوڑیوں کو کیسی نفرت کی نظر سے دیکھا کرتی تھیں ؟ مگر یہ انہیں پسند ہیں نا۔ اس لیے یہ بوجھ اٹھائے پھرتی ہو۔ ان کی محبت کی محتاج جو ٹھہریں۔ ایمان سے کہنا۔ کیا یہ غلط ہے؟ مجھے تو ایسی محتاجی گوارا نہیں۔ تم ہی نے تو مردوں کا مزاج بگاڑ رکھا ہے۔ ورنہ وہ بے چارے۔‘‘
’’تمہیں بھی تو زرد رنگ پیارا ہے نا؟‘‘
’’ہاں ہے اور رہے گا۔ میری اپنی پسند ہے۔ میں اپنے میاں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتی کہ جیسا جی چاہیں، نچا لیں۔ میں نے ان سے بیاہ کیا ہے۔ ان کے پاس اپنی روح گروی نہیں رکھی اور تم۔۔۔ تمہاری تو مرضی ہے ہی نہیں۔ تم تو ہوا کے رخ میں اڑنا چاہتی ہو۔‘‘
دفعتاً گاڑی نے جھٹکا کھایا اور وہ لڑھک کر مجھ پر آ گری۔
’’یہ جھوٹ بولنے کی سزا ہے۔‘‘ میں نے اسے چھیڑنے کو کہا اور ہم دونوں ہنس پڑیں۔ گاڑی اسٹیشن پر رک گئی۔ دونوں جوان گاڑی سے اتر کر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے اور نازلی کو تاڑنے لگے۔ اس نے دو ایک مرتبہ ان کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر نفرت بھرا تمسخر کھیل رہا تھا۔ ’’بے چارے۔‘‘ اس نے دبی آواز میں کہا، ’’مجھے تو ان پر ترس آتا ہے۔‘‘ اور وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔ نہ جانے اس کی بے باکی اور بے پروائی دیکھ کر یا کسی اور وجہ سے وہ اور بھی دلیر ہو گیے۔ پہلے تو آپس میں باتیں کرتے رہے۔ پھر ان میں سے جو زیادہ دلیر معلوم ہوتا تھا، ہمارے ڈبے کی طرف بڑھا۔ مگر نازلی کے انداز کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ کچھ دیر کے لیے وہ رک گیا۔ ہاتھ سے اپنی نکٹائی سنواری۔ بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ رومال نکالا اور پھر کھڑکی کی طرف بڑھا۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر ادھر ادھر دیکھا اور آخر ہمت کر کے نازلی کے قریب آ کھڑا ہوا اور گھبرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا، ’’کسی چیز کی ضرورت ہو تو۔۔۔‘‘
میں تو ڈر کے مارے پسینہ پسینہ ہو گئی۔ مگر نازلی ویسے ہی بیٹھی رہی اور نہایت سنجیدگی سے کہنے لگی، ’’ہاں صرف اتنی مہربانی فرمائیے کہ یوں سامنے کھڑے ہو کر ہمیں گھوریے نہیں۔ شکریہ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس وقت نازلی کی سنجیدگی کو دیکھ کر میں حیران ہو رہی تھی۔ اس میں کتنی ہمت تھی۔ خیر نوجوان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کھسیانا ہو کر واپس چلا گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ہمیں کہیں نظر نہ آئے۔
ان دنوں نازلی کی طبیعت بے حد شوخ تھی مگر شوخی کے باوجود کبھی کبھی ایسی سنجیدگی سے کوئی بات کہہ دیتی کہ سننے والا پریشان ہو جاتا۔ ایسے وقت مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس نسوانی جسم کی تہہ میں کوئی مردانہ روح جی رہی ہو۔ مگر اس کے باوجود مردوں سے دلچسپی نہ تھی۔ یقینی وہ مردوں کی طرف آنکھیں چمکا چمکا کر دیکھنے والی عورت نہ تھی۔ اس کے علاوہ اسے جذبہ محبت کے خلاف بغض تھا۔ مظفر بھائی دو سال کے عرصہ میں بھی اسے سمجھ نہ سکے تھے۔ شاید اسی لیے وہ اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔ نازلی انہیں اس قدر پیاری تھی۔ حالانکہ وہ ان کے روبرو ایسی باتیں کہہ دینے سے کبھی نہ جھجکتی تھی جو کسی عام خاوند کو سننا گوارا نہیں ہوتیں مگر وہ نازلی کی باتیں سن کر ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔
لاہور پہنچنے تک میں نے منت سماجت کر کے اسے برقع پہننے کے لیے منا لیا۔ رات کو آٹھ بجے کے قریب ہم لاہور پہنچ گیے۔ وہاں ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ جالندھر جانے والی گاڑی کا انتظار کرنا تھا۔ ہم اس پلیٹ فارم پر جا بیٹھے جہاں سے ہماری گاڑی کو چلنا تھا۔ پلیٹ فارم خالی پڑا تھا۔ یہاں وہاں کہیں کہیں کوئی مسافر بیٹھا اونگھ رہا تھا یا کبھی کبھار کوئی وردی پوش بابو یا قلی تیزی سے ادھر سے ادھر گزر جاتا۔ مقابل کے پلیٹ فارم پر ایک مسافر گاڑی کھڑی تھی اور لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے۔ ہم دونوں چپ چاپ بیٹھی رہیں۔
’’لاحول ولا قوة۔‘‘ میں نے نازلی کو کہتے سنا۔ دیکھا تو اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔
’’کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے انگلی سے ساتھ والے بنچ کی طرف اشارہ کیا۔ بنچ پر بجلی بتی کے نیچے دو جوان بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
’’توبہ! جانگلی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ نازلی نے کہا۔
سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کی ہیئت واقعی عجیب تھی جیسے گوشت کا بڑا سا لوتھڑا ہو۔ سوجا ہوا چہرہ، سانولا رنگ، تنگ پیشانی پر دو بھدی اور گھنی بھنویں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن کے نیچے دو اندر دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی سانپ کی سی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ چھاتی اور کندھے بے تحاشہ چوڑے اور جن پر سیاہ لمبا کوٹ یوں پھنسا ہوا تھا جیسے پھٹا جا رہا ہو۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے تنگ جسم میں بہت سی جسمانی قوت ٹھونس رکھی ہو۔ چہرے پر بے زاری چھائی ہوئی تھی۔ اس کی حرکات بھدی اور مکروہ تھیں۔ ’’دیکھو تو۔۔۔‘‘ نازلی بولی، ’’اس کے اعضاء کس قدر بھدے ہیں؟ انگلیاں تو دیکھو۔‘‘ اس نے جھرجھری لی اور اپنا منہ پھیر لیا۔
’’تم کیوں خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ جانگلی ہے تو پڑا ہو۔‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر اس کی نگاہیں بھٹک کر اسی شخص پر جا پڑیں جیسے وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو۔ ’’اسے کھاتے ہوئے دیکھنا۔۔۔توبہ ہے۔‘‘ نازلی نے یوں کہا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہی ہو۔
’’صرف ایک گھنٹہ باقی ہے۔‘‘ میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تاکہ اس کا دھیان کسی اور طرف لگ جائے مگر اس نے میری بات نہ سنی اور ویسے ہی گم سم بیٹھی رہی۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ ہونٹ نفرت سے بھنچے ہوئے تھے۔ میں نے اسے کبھی ایسی حالت میں نہ دیکھا تھا۔ اس کے برعکس کئی بار جب مظفر بھائی کسی دہشت ناک قتل کی تفصیلات سناتے اور ہم سب ڈر اور شوق کے مارے چپ چاپ بیٹھے سن رہے ہوتے، اس وقت نازلی بے زاری سے اٹھ بیٹھتی اور جمائی لے کر کمرے سے باہر چلی جاتی۔ مگر اس روز اس کا ایک اجنبی کی انگلیوں اور کھانے کے انداز کو یوں غور سے دیکھنا میرے لیے باعث تعجب تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی شکل دیکھ کر مجھے خود ڈر محسوس ہو رہا تھا۔ ’’دیکھا نا؟‘‘ میں نے بات بدلنے کی غرض سے کہا، ’’تم جو بھائی مظفر کی انگلیوں پر ہنسا کرتی ہو۔ یاد ہے تم کہا کرتی تھیں، یہ انگلیاں تو سوئی کا کام کرنے کے لیے بنی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یاد ہے نا؟‘‘
’’توبہ ہے۔‘‘ نازلی نے نحیف آواز میں کہا، ’’اس کا بس چلے تو سب کو کچا ہی کھا جائے۔ کوئی مردم خور معلوم ہوتا ہے۔‘‘ وہ اپنی ہی دھن میں بیٹھی کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی جیسے اس نے میری بات سنی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد میں نے اس سے کچھ کہنے کا خیال چھوڑ دیا۔ دیر تک میں ادھر ادھر دیکھتی رہی حتیٰ کہ میں نے اپنے بازو پر اس کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا۔
’’نجمی چلو کہیں دور جا بیٹھیں۔ ضرور یہ کوئی مجرم ہے۔‘‘
’’پگلی۔‘‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کی مگر جانگلی کو دیکھتے ہی مسکراہٹ خشک ہو گئی۔ جانگلی اپنے دھیان میں بیٹھا ہاتھ دھو رہا تھا۔ واقعی اس کی انگلیاں سلاخوں کی طرح موٹی اور بے تکی تھیں۔ میرے دل پر نامعلوم خوف چھا رہا تھا۔ پلیٹ فارم میری آنکھوں میں دھندلا دکھائی دینے لگا۔ پھر دونوں نے آپس میں باتیں کرنا شروع کر دی۔
’’شادی؟‘‘ جانگلی نے کہا اور اس کی آواز یوں گونجی جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔ نازلی نے جھرجھری لی اور سرک کر میرے قریب ہو بیٹھی۔ مگر اس کی نگاہیں اس شخص پر یوں گڑی ہوئی تھیں جیسے جنبش کی طاقت سلب ہو چکی ہو۔
’’کچھ حالات ہی ایسے ہو گیے کہ شادی کے متعلق سوچنا میرے لیے نہایت ناخوشگوار ہو چکا ہے۔ میری شادی ہوتے ہوتے رک گئی۔ اسی بات نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔‘‘
’’آخر کیا بات تھی؟ہم بھی سنیں۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں۔ بس میری اپنی بے ہنگم طبیعت۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی بہت بھونڈی تھی۔
نازلی سرک کر میرے قریب ہو گئی۔
’’میں اپنی طبیعت سے مجبور ہوں۔‘‘ جانگلی نے کہا، ’’تمام جھگڑا میری طبیعت کی وجہ سے ہی تھا۔ میری منگیتر میرے دوست ظہیرالدین صاحب کی لڑکی تھی۔ ظہیرالدین ہماری فرم کے منیجر تھے اور ان کا تمام کام میں ہی کیا کرتا تھا۔ چونکہ ان کے مجھ پر بہت سے احسانات تھے، میں نے ان کی بات کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا، حالانکہ میرے حالات کچھ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ شادی کا بکھیڑا میرے لئے چنداں مفید نہ تھا۔ خیر میں نے سنا تھا کہ لڑکی بہت خوبصورت ہے اور سچ پوچھو تو خوب صورت لڑکی سے شادی کرنا میں قطعی ناپسند کرتا ہوں۔‘‘
’’عجیب انسان ہو۔‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔
’’عجیب ہی سہی مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ میں کسی بدصورت لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ نہیں یہ بات نہیں۔ مگر کسی حسین لڑکی کو بیاہ لانا مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’اوہ بڑا گھمنڈ ہے انہیں۔‘‘ نازلی نے میرے کان میں کہا۔
’’خیر۔‘‘ جانگلی نے بات جاری رکھی۔ ’’ایک دن کی بات ہے کہ مجھے بے موقع ظہیرالدین کے مکان پر جانا پڑا۔ یاد نہیں کہ کیا بات تھی۔ مجھے صرف اتنا ہی یاد ہے کہ کوئی ضروری کام تھا۔ چونکہ عام طور پر میں ان کے مکان میں جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ بہرحال ایک چھوٹی سی لڑکی باہر آئی اور کہنے لگی، آپ اندر چل کر بیٹھئے۔ وہ ابھی آتے ہیں۔ خیر میں ملاقاتی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتاً دروازہ آپ ہی کھل گیا اور کچھ دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کھلے منہ دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔ پہلے تو وہ یوں کھڑی رہی گویا اس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جیسے لڑکیاں مردوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا کرتی ہیں۔ پھر میز پر سے ایک کتاب اٹھا کر چلی گئی۔ میں اس کی بے باکی اور بناؤ سنگھار کو دیکھ کر غصے سے کھول رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھی۔ مجھے اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ کسی کو۔۔۔‘‘ اس نے گھونسا لہراتے ہوئے کہا۔ پھر وہ ہنس پڑا۔ نازلی نے اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر چیخ سی ماری۔ مگر ڈر یا نقاہت سے اس کی آواز ان دونوں تک نہ پہنچ سکی۔ ورنہ خدا جانے وہ کیا سمجھتے۔
جانگلی نے بات پھر شروع کی۔ بولا، ’’وہ یوں بن سنور کر وہاں کھڑی تھی گویا اپنی قیمت چکانے آئی ہو۔ ایک زرد رنگ کا ر سے کی طرح بل کھایا ہوا دوپٹہ اس کے شانوں پر لٹک رہا تھا۔ سر ننگا۔ اف! تمہیں کیا بتاؤں۔ اس کے بعد میں نے ظہیرالدین صاحب سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ یعنی میں نے رشتے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر وہ بہت بگڑے اور مجھے کوئی اور نوکری تلاش کرنی پڑی۔ مہینوں بغیر نوکری کے رہا۔ کہاں کہاں بھٹکتا پھرا۔ راجپوتانے میں نوکری آسانی سے نہیں مل سکتی۔‘‘
’’مگر اس میں انکار کی کیا بات تھی؟‘‘ اس کے ساتھی نے کہا، ’’آخر منگیتر تھی۔‘‘
’’بس یہی کہ مجھے بے پردگی سے بے حد نفرت ہے اور آج کل کا بناؤ سنگھار مجھے پسند نہیں۔ ہاں ایک بات اور ہے۔ کوئی لڑکی جو زرد دوپٹہ پہن سکتی ہے۔ میں اسے اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔ مجھے زرد رنگ سے چڑ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ گھر کے کام کاج کو عار سمجھتی تھی۔ یہ آج کا فیشن ہے۔ تم جانتے ہو کہ آج کل لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ بن سنور کر مردوں کو لبھانے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں اور برتن مانجھنے سے ہاتھ میلے ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہاتھ دکھلاوے کی چیز ہوں۔ یہیں دیکھ لو، کتنی بے پردگی ہے۔ عورتیں یوں برقعے اٹھائے پھرتی ہیں جیسے جنگل میں شکاری بندوقیں اٹھائے پھرتے ہیں۔‘‘
اس کا ساتھی ہنس پڑا اور پھر ہنستے ہنستے کہنے لگا، ’’یار! تم تو راجپوتانے میں رہ کر بالکل بدل گیے ہو۔‘‘
’’اونہہ ہوں۔۔۔ یہ بات نہیں۔‘‘ جانگلی نے کہا، ’’پردے کا تو میں بچپن سے ہی بہت قائل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گھر میں دو عورتیں مہمان آئیں۔ ایک تو خیر ابھی بچی تھی۔ دوسری یہی کوئی پچیس سال کی ہو گی۔ ان دنوں میں خود آٹھ نو سال کا تھا۔ خیر وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔‘‘ وہ رک گیا۔ پھر آپ ہی بولا، ’’مجھے اس بات پر بے حد غصہ آتا تھا۔ اس لیے میں اکثر باہر مردانے میں ہی بیٹھا رہتا، یعنی میں نے ان کے روبرو جانا بند کر دیا۔ ایک دن ابا نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہ پیغام اندر لے جاؤ۔ خدا جانے کیا پیغام تھا۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی زیور دیا تھا کہ انہیں دکھا دوں۔ شاید ان مہمانوں نے وہ زیور دیکھنے کے لیے منگوایا ہو۔ میں نے ڈیوڑھی سے جھانک کر دیکھا تو وہ عورت صحن میں اماں کے پاس بیٹھی تھی۔ اماں کہنے لگی۔ حمید اندر چلے آؤ۔ اے ہے تم اندر کیوں نہیں آتے؟ تم سے کوئی پردہ ہے؟ میں یہ سن کر ابا کے پاس واپس چلا آیا۔ میں نے کہا، ابا جی میں نہیں جاؤں گا۔ وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی۔ یہ بات میں نے اس قدر جوش اور غصے میں کہی کہ ابا بے اختیار ہنس پڑے۔ اس کے بعد دیر تک گھر والے میری اس بات پر مجھے چھیڑتے رہے۔ البتہ زرد رنگ سے مجھے ان دنوں نفرت نہ تھی۔ طبیعت بھی عجیب چیز ہے۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری طبیعت تو ایسی ہے جیسے مداری کا تھیلا۔‘‘ اس کے ساتھی نے ہنستے ہوئے کہا اور وہ دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ پھر وہ اٹھ بیٹھے۔ اس وقت پہلی مرتبہ جانگلی کی نگاہ نازلی پر پڑی جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے ماتھے پر شکن پڑ گئی اور آنکھیں نفرت یا خدا جانے کس جذبے سے سرخ ہو گئیں۔ نازلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نگاہیں جانگلی پر جمی ہوئی تھیں جیسے وہ انہیں وہاں سے ہٹانا چاہتی ہو مگر ہٹا نہ سکتی ہو اور تمام بدن کانپ رہا تھا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا جیسے نازلی میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی ہو۔ یک لخت جانگلی مڑا اور وہ دونوں وہاں سے چلے گیے۔ اس وقت نازلی عجیب بے بسی کے ساتھ مجھ سے لگی بیٹھی تھی گویا اس میں بالکل جان نہ ہو۔
کچھ دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا۔ عین اس کے قریب سے ایک قلی گزرا۔ وہ ٹھٹک گئی اور اس نے اپنا برقعہ منہ پر ڈال لیا، ’’اگر مجھے ایک خون معاف کر دیا جائے تو میں اسے یہیں گولی مار دوں۔‘‘ نازلی نے کہا۔
’’کسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کتنا بنتا ہے۔‘‘
’’اوہ! تمہارا مطلب اس شخص سے ہے مگر تم خواہ مخواہ اس سے چڑ رہی ہو۔ اپنی اپنی طبیعت ہے۔ اپنے اپنے خیالات ہیں۔ تمہیں اپنے خیالات پیارے ہیں، اسے اپنے۔‘‘
’’بڑی طرف داری کر رہی ہو۔‘‘ وہ بولی۔
’’اس میں طرف داری کی کیا بات ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’تمہیں تو آپ سنی سنائی باتوں سے نفرت ہے۔ اس کے خیالات بھی مانگے کے نہیں۔ باقی رہی شکل، وہ تو اللہ میاں کی دین ہے۔۔۔ ایمان کی بات پوچھو تو مجھے تو تم دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
’’جی ہاں! تمہارا بس چلے تو ابھی میری بانہہ پکڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دو۔‘‘
’’لا حول ولا۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’لا حول ولا کی اس میں کیا بات ہے۔۔۔؟ میں کہتی ہوں اس کی بیوی اس کے ساتھ کیسے رہ سکے گی؟‘‘
گاڑی پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئی۔ ہم دونوں اندر بیٹھے۔ ہم نے انٹر کا ایک چھوٹا سا زنانہ ڈبہ تلاش کیا اور اس میں جا بیٹھے۔ نازلی نے برقعہ اتار کر لپیٹ کر بنچ پر رکھ دیا اور خود کونے میں بیٹھ گئی۔ حالانکہ ڈبے میں بہت گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ پھر بھی اس نے کھڑکی کا تختہ چڑھا دیا۔ میں دوسرے پلیٹ فارم پر ہجوم دیکھنے میں محو ہو گئی۔ میرا خیال ہے ہم بہت دیر تک یونہی خاموشی سے بیٹھے رہے۔
’’توبہ ہے۔‘‘ نازلی کی آواز سن کر میں چونک پڑی۔ دیکھا تو میرے پاس ہی وہ جانگلی ہاتھ میں سوٹ کیس لیے کھڑا تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اسی لمحے میں نازلی نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ سامنے اسے دیکھ کر نہ جانے کیا ہوا۔ بس مجھے اتنا معلوم ہے کہ اس نے لپٹ کر دوپٹہ میرے سر سے کھینچ لیا اور ایک آن میں خود کو اس میں لپیٹ کر گٹھری سی بن کر پڑ گئی۔
’’لاحول ولا قوة‘‘ جانگلی کی بھدی آواز سنائی دی اور وہ الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ غلطی سے ہمارے ڈبے میں چلا آیا تھا۔ جب اس نے ہمیں دیکھا تو اپنی غلطی کو جان کر واپس چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک نازلی اسی طرح منہ سر لپیٹے پڑی رہی۔ میرے دل میں عجیب عجیب ہول اٹھنے لگے۔ میرا خیال تھا کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو گا۔ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔ ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ خیر جوں توں ہم خیریت سے جالندھر پہنچ گیے۔
اگلے دن دوپہر کے قریب مظفر بھائی میرے کمرے میں آئے۔ ان کے چہرے پر تشویش اور پریشانی کے آثار تھے۔ کہنے لگے، ’’نجمہ! نازلی کو کیا ہو گیا ہے؟ کہیں مجھ سے ناراض تو نہیں ؟‘‘
’’مجھے تو معلوم نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا، ’’کیا ہوا؟‘‘
’’خدا جانے کیا بات ہے؟ اس میں وہ پہلی سی بات ہی نہیں۔ آج صبح سے ہر بات کے جواب میں جی ہاں۔ جی ہاں۔ نازلی اور جی ہاں؟ میں سمجھا، شاید مجھ سے ناراض ہے۔‘‘
’’نہیں ویسے ہی اس کی طبیعت ناساز ہے۔‘‘
’’طبیعت ناساز ہے؟‘‘ انہوں نے حیرانی سے کہا، ’’اگر طبیعت ناساز ہوتی تو کیا وہ بیٹھی باورچی خانے کا کام کرتی۔ وہ تو صبح سے حشمت کے پاس باورچی خانے میں بیٹھی ہے۔ کہتی ہے، میں کھانا پکانا سیکھوں گی۔ منہ ہاتھ تک نہیں دھویا۔ عجیب معاملہ ہے۔‘‘
’’وہم نہ کیجئے۔ آپ ہی ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘ میں نے بات ٹالنے کے لیے کہا۔
’’وہم کی اس میں کیا بات ہے۔ تم جانتی ہو اس کی طبیعت خراب ہو تو اس گھر میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور باورچی خانے کے کام سے تو اسے چڑ ہے۔ آج تک وہ کبھی باورچی خانے میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ خدا جانے کیا بھید ہے۔‘‘
وہ دو قدم چل کر لوٹ آئے۔ ’’اور مزے کی بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔ جانتی ہو نا کہ اسے زرد رنگ کتنا پیارا ہے۔ اس نے اس مرتبہ ایک نہایت خوبصورت زرد دوپٹہ اس کے لیے خریدا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ زرد دوپٹہ دیکھ کر خوشی سے ناچے گی۔ مگر اس نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہیں کھونٹی سے لٹک رہا ہے۔ جب میں نے اصرار کیا تو کہنے لگی، ’’اچھا ہے۔ آپ کی مہربانی ہے۔‘‘ نازلی کے منہ سے یہ بات نکلے۔ سوچو تو۔۔۔ عجیب معاملہ ہے کہ نہیں۔‘‘ وہ بولے۔
نازلی کی مکمل اور فوری تبدیلی پر ہم سب حیران تھے۔ مگر وہ خود بالکل خاموش تھی۔ اسی طرح ایک دن گزر گیا۔ اسی شام بھائی مظفر تار ہاتھ میں لیے باورچی خانے میں آئے۔ ہم دونوں وہیں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے، ’’جانتی ہو یہ کس کا تار ہے۔ خالہ فرید کا بڑا لڑکا حمید تھا نا۔۔۔ جو پندرہ سال کی عمر میں راجپوتانے بھاگ گیا تھا؟ وہ واپس آ گیا ہے۔ اب وہ بہن کو ملنے دہلی جا رہا ہے۔ یہ تار اس کا ہے۔ کل صبح نو بجے یہاں پہنچے گا۔ چند ایک گھنٹوں کے لیے یہاں ٹھہرے گا۔‘‘
’’کون حمید؟‘‘
’’تم کو یاد ہو گا۔ میں اور حمید اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔‘‘
نازلی کے ہونٹ ہلے اور اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد پڑ گیا۔ ہاتھ سے پیالی گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔
اگلے دن نو بجے کے قریب میں اور نازلی باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ وہ چائے کے لیے پانی گرم کر رہی تھی مگر یوں بیٹھی تھی جیسے اسے کسی بات کا دھیان ہی نہ ہو۔ پاس ہی کھونٹی پر اس کا زرد دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ بھائی مظفر نے زبردستی اسے وہ دوپٹہ لینے پر مجبور کر دیا تو اس نے لے لیا لیکن پہننے کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور کپڑے میلے تھے۔ اس وقت وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھی تھی۔ باہر برآمدے میں بھائی صاحب کسی سے کہہ رہے تھے، ’’تم یہیں بیٹھو۔ میں اسے بلاتا ہوں۔ نہایت ادب سے بھابھی کو سلام کرنا۔‘‘
’’اچھا تمہاری مرضی۔‘‘ کسی نے بھدی آواز میں کہا جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔
’’وہی۔‘‘ میرے دل میں کسی نے کہا اور جانگلی کی شکل میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ میں اسے دیکھنے کے لیے دبے پاؤں اٹھی۔ باورچی خانے کا دروازہ بند تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو اسی وقت بھائی صاحب حمید سے کہہ رہے تھے، ’’آؤ تم بھی میرے ساتھ آؤ۔‘‘
میں نے دروازہ زور سے بند کر دیا۔
نازلی نے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ وہ دیوانہ وار اٹھی۔ کھونٹی سے لپک کر دوپٹہ اتار لیا۔ پھر میرے دیکھتے دیکھتے اسے چولہے کی طرف پھینک دیا جیسے کوئی بچھو ہو اور دوڑ کر حشمت کی چادر کو پکڑ لیا جو دوسرے دروازے کی پٹ پر لٹک رہی تھی اور اپنے آپ کو اس میں لپیٹ لیا۔ زرد دوپٹہ چولہے میں جلنے لگا۔ اسی وقت بھائی صاحب اندر داخل ہوئے مگر وہ اکیلے ہی تھے۔ انہوں نے حیرانی سے ہمیں دیکھا۔ کچھ دیر ہم تینوں خاموش ہی کھڑے رہے۔ آخر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ نازلی کہاں ہے؟ میں نے نازلی کی طرف اشارہ کیا جو منہ لپیٹ کر کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔
’’نازلی!‘‘ انہوں نے حیرانی سے دہرایا۔ وہ نازلی کے قریب گیے، ’’یہ کیا حماقت ہے؟ چلو۔۔۔ باہر حمید انتظار کر رہا ہے۔‘‘
وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر نحیف آواز میں کہنے لگی، ’’نہیں۔ میں نہیں جاؤں گی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ وہ بولے۔ اتفاقاً بھائی جان کی نظر جلتے ہوئے دوپٹے پر پڑی۔
’’نازلی!‘‘ انہوں نے دوپٹے کی طرف دیکھ کر حیرانی سے کہا۔ نازلی نے سر ہلا دیا اور چمٹے سے دوپٹے کو پوری طرح چولہے میں ڈال دیا۔
بھائی نازلی کی اس تبدیلی پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نازلی کی طبیعت بہت سنور گئی ہے۔ بات ہے بھی درست۔ چونکہ اس کی طبیعت میں وہ ضد اور بے باک شوخی نہیں رہی، مگر کبھی کسی وقت انہیں اکٹھے دیکھ کر میں محسوس کرتی ہوں۔ گویا وہ نازلی کو ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہیں۔
- मुमताज़-मुफ़्ती
پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ بیگم بلقیس تراب علی ہر سال کی طرح اب کے بھی اپنے بنگلے کے باغیچے میں مالی سے پودوں اور پیڑوں کی کانٹ چھانٹ کرارہی تھیں۔ اس وقت دن کے کوئی گیارہ بجے ہوں گے۔ سیٹھ تراب علی اپنے کام پر اور لڑکے لڑکیاں اسکولوں کالجوں میں جا چکے تھے۔ چنانچہ بیگم صاحب بڑی بے فکری کے ساتھ آرام کرسی پر بیٹھی مالی کے کام کی نگرانی کر رہی تھیں۔
بیگم تراب علی کو نگرانی کے کاموں سے ہمیشہ بڑی دلچسپی رہی تھی۔ آج سے پندرہ سال پہلے جب ان کے شوہر نے جو اس وقت سیٹھ تراب علی نہیں بلکہ شیخ تراب علی کہلاتے تھے اور سرکاری تعمیرات کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ اس نواح میں بنگلہ بنوانا شروع کیا تھا تو بیگم صاحب نے اس کی تعمیرات کے کام کی بڑی کڑی نگرانی کی تھی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ بنگلہ بڑی کفایت کے ساتھ اور تھوڑے ہی دنوں میں بن کر تیار ہو گیا تھا۔
بیگم تراب علی کا ڈیل ڈول مردوں جیسا تھا۔ آواز اونچی اور گمبھیر اور رنگ سانولا جو غصے کی حالت میں سیاہ پڑ جایا کرتا۔ چنانچہ نوکر چاکر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے تھر تھر کانپنے لگتے اور گھر بھر پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی اولاد میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں سن بلوغت کو پہنچ چکے تھے مگر کیا مجال جو ماں کے کاموں میں دخل دینا یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ بیگم صاحب پورے خاندان پر ایک ملکہ کی طرح حکمراں تھیں۔ عمر اور خوش حالی کے ساتھ ساتھ ان کی فربہی بھی بڑھتی جا رہی تھی اور فربہی کے ساتھ رعب اور دبدبہ بھی۔
ان پندرہ برس میں جو انہوں نے اس نواح میں گزارے تھے، وہ یہاں کے قریب قریب سبھی رہنے والوں سے بخوبی واقف ہو گئی تھیں۔ بعض گھروں سے میل ملاپ بھی تھا اور کچھ بیبیوں سے دوستی بھی۔ وہ اس علاقے کے حالات سے خود کو با خبر رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ املاک کی خرید و فروخت اور بنگلوں میں نئے کرایہ داروں کی آمد اور پرانے کرایہ داروں کی رخصت کی بھی انہیں پوری پوری خبر رہتی تھی۔
اس وقت بیگم تراب علی کی تیز نظروں کے سامنے مالی کا ہاتھ بڑی پھرتی سے چل رہا تھا۔ اس نے پودوں اور چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی کاٹ چھانٹ تو قینچی سے کھڑے کھڑے ہی کر ڈالی تھی اور اب وہ اونچے اونچے درختوں پر چڑھ کر بیگم صاحب کی ہدایت کے مطابق سوکھے یا زائد ٹہنے کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر نیچے پھینک رہا تھا۔
کچھ دیر بعد بیگم صاحب بیٹھے بیٹھے تھک گئیں اور کرسی سے اٹھ کر بنگلے کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگیں۔ بنگلے کے آگے کی دیوار کے ساتھ ساتھ جو پیڑ تھے ان میں دو ایک تو خاصے بڑے تھے جن کی چھاؤں گھنی تھی خاص کر ولائتی بادام کا پیڑ۔ اس کا سایہ نصف بنگلے کے اندر اور نصف باہر سڑک پر رہتا تھا۔ دن کو جب دھوپ تیز ہو جاتی تو کبھی کبھی کوئی راہگیر یا خوانچے والا ذرا دم لینے کو اس کے سائے میں بیٹھ جاتا تھا۔
بیگم بلقیس تراب علی جیسے ہی اس پیڑ کے پاس پہنچیں ان کے کان میں دیوار کے باہر سے کسی کے بولنے کی آواز آئی۔ انہوں نے اس آواز کو فورا پہنچان لیا۔ یہ اس علاقے کی مہترانی سگو کی آواز تھی جو اپنی بیٹی جگو سے بات کر رہی تھی۔ یہ ماں بیٹیاں بھی اکثر دوپہر کو اسی پیڑ کے نیچے سستانے یا ناشتہ پانی کرنے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔
بیگم بلقیس تراب علی نے پہلے تو ان کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیا۔ مگر ایکاایکی ان کے کان میں کچھ ایسے الفاظ پڑے کہ وہ چونک اٹھیں۔ سگو اپنی بیٹی سے پوچھ رہی تھی، ’’کیوں ری تو نے طوطے والی کے ہاں کام کر لیا تھا؟‘‘
’’ہاں‘‘ جگو نے اپنی مہین آواز میں جواب دیا۔
’’اور کھلونے والی کے ہاں؟‘‘
’’وہاں بھی۔‘‘
اور تپ دق والی کے ہاں؟
اب کے جگو کی آواز سنائی نہ دی۔ شائد اس نے سر ہلا دینے پر ہی اکتفا کیا ہوگا۔
’’اور کالی میم کے ہاں؟‘‘
اب تو بیگم تراب علی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ بےاختیار پکار اٹھیں، ’’سگو۔ اری او سگو۔ ذرا اندر تو آئیو۔‘‘
سگو کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کی باتیں کوئی سن رہا ہوگا۔ خصوصا بیگم بلقیس تراب علی جن کی سخت مزاجی اور غصے سے اس کی روح کانپتی تھی۔ وہ پہلے تو گم سم رہ گئی۔ پھر مری ہوئی آواز میں بولی، ’’ابھی آئی بیگم صاحب!‘‘ تھوڑی دیر بعد وہ آنچل سے سینے کو ڈھانپتی، لہنگا ہلاتی، بنگلے کا پھاٹک کھول اندر آئی۔ جگو اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ دونوں ماں بیٹیوں کے کپڑے میلے چکٹ ہو رہے تھے۔ دونوں نے سر میں سرسوں کا تیل خوب لیسا ہوا تھا۔
’’سلام بیگم صاحب!‘‘ سگو نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ابھی تک اس کی سمجھ میں نہ آیا تھا کہ کس قصور کی بنا پر اسے بیگم صاحب کے حضور پیش ہونا پڑا۔
بیگم صاحب نے تحکمانہ لہجے میں پوچھا، ’’کیوں ری مردار یہ تو باہر بیٹھی کن لوگوں کے نام لے رہی تھی؟‘‘
’’کیسے نام بیگم صاحب؟‘‘
’’اری تو کہہ رہی تھی نا طوطے والی، کھلونے والی، تپ دق والی، کالی میم؟‘‘
سگو نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’وہ تو بیگم صاحب ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔‘‘
’’دیکھ سگو سچ سچ بتا دے ورنہ میں جیتا نہ چھوڑوں گی۔‘‘
سگو پل بھر خاموش رہی۔ اس نے جان لیا کہ بیگم صاحب سے بات چھپانی مشکل ہوگی اور اس نے بڑی لجاجت سے کہنا شروع کیا، وہ بات یہ ہے بیگم صاحب ہم لکھت پڑھت تو جانتے نہیں اور ہم کو لوگوں کے نام بھی معلوم نہیں۔ سو ہم نے اپنی نسانی کے لئے ان کے نام رکھ لیے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو یہ طوطے والی کون ہے؟‘‘
’’وہ جو بڑا سا گھر ہے نہ اگلی گلی میں نکڑ والا۔۔۔‘‘
’’فاروق صاحب کا؟‘‘
’’جی بیگم صاحب وہی۔ ان کی بیوی نے طوطا پال رکھا ہے۔ ہم ان کو نسانی کے لیے طوطے والی کہتے ہیں۔‘‘
’’اور یہ کھلونے والی کون ہے؟‘‘
’’وہ جو مسیت کے برابر والے بنگلے میں رہتی ہیں۔‘‘
بیگم تراب علی نے اس علاقے کا نقشہ ذہن میں جمایا، ذرا دیر غور کیا۔ پھر بولیں، ’’اچھا بخش الٰہی صاحب کا مکان؟‘‘
’’جی سرکار وہی۔‘‘
’’اری کمبخت تو ان کی ’’بیگم کو کھلونے والی‘‘ کیوں کہتی ہے۔ جانتی بھی ہے وہ تو لکھ پتی ہیں لکھ پتی، کھلونے تھوڑا ہی بیچتے ہیں۔‘‘
’’جب دیکھو ان کی کوٹھی میں ہر طرف کھلونے ہی کھلونے بکھرے رہتے ہیں۔ بہت بڑھیا بڑھیا کھلونے۔ یہ بڑے بڑے ہوائی جہاج۔ چلنے والی باتیں کرنے والی گڑیا۔ بجلی کی ریل گاڑی، موٹریں۔۔۔‘‘
’’اری موئی یہ کھلونے تو وہ خود اپنے بچوں کے کھیلنے کے لیے ولایت سے منگواتے ہیں، بیچتے تھوڑا ہی ہیں۔‘‘
’’ہم تو نسانی کے لیے کہتے ہیں بیگم صاحب۔‘‘
’’اور یہ کالی میم کس بی صاحبہ کا خطاب ہے؟‘‘
وہ جو کرسٹان رہتے ہیں نا۔۔۔‘‘
’’مسٹر ڈی فلوری؟‘‘
’’جی ہاں وہی۔‘‘
’’ہے کم بخت تیرا ناس جائے۔۔۔اور تپ دق والی کون ہے؟‘‘
’’ادھر کو‘‘ سگو نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ بڑی سڑک پر پہلی گلی کے نکڑ والا جو گھر۔ اس میں ہر وکھت ایک عورت پلنگ پر پڑی رہے ہے اور میج پر بہت سی دواؤں کی سیسیاں نجر آوے ہیں۔‘‘
بیگم صاحب بےاختیار مسکرادیں۔ ان کا غصہ اب تک اتر چکا تھا اور وہ سگو کی باتوں کو بڑی دل چسپی سے سن رہی تھیں کہ اچانک ایک بات ان کے ذہن میں آئی اور ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ماتھے پر بل پڑ گیے۔ ڈانٹ کر بولیں، ’’کیوں ری مردار تو نے میرا بھی تو کوئی نہ کوئی نام ضرور رکھا ہوگا۔ بتا کیا نام رکھا ہے؟ سچ سچ بتائیو، نہیں تو مارتے مارتے برکس نکال دوں گی۔‘‘
سگو ذرا ٹھٹکی مگر فورا سنبھل گئی۔
’’بیگم صاحب چاہے ماریئے چاہے جندہ چھوڑیے ہم تو آپ کو بیگم صاحب ہی کہتے ہیں۔‘‘
’’چل جھوٹی مکار!‘‘
’’میں جھوٹ نہیں بولتی سرکار چاہے جس کی قسم لے لیجیے۔۔۔ہم بیگم صاحب کو بیگم صاحب ہی کہتے ہیں نا؟‘‘
جگو نے ماں کی طرف دیکھا اور جلدی سے منڈیا ہلا دی۔
’’مجھے تو تم ماں بیٹیوں کی بات پر یقین نہیں آتا‘‘ بیگم تراب علی بولیں۔ اس پر سگو خوشامدانہ لہجہ میں کہنے لگی، ’’اجی آپ ایسی سکھی(سخی) اور گریب پرور ہیں۔ بھلا ہم آپ کی سان میں ایسی گستاکھی کر سکتے ہیں۔‘‘ بیگم صاحب کا غصہ کچھ دھیما ہوا اور انہوں نے سگو کو نصیحت کرنی شروع کی، ’’دیکھو سگو۔ اس طرح شریف آدمیوں کے نام رکھنا ٹھیک نہیں۔ اگر ان کو پتہ چل جائے تو تجھے ایک دم نوکری سے جواب دے دیں۔‘‘
اچھا بیگم صاحب۔ اس دفعہ تو ہمیں معاف کر دیں۔ آگے کو ہم کسی کو ان ناموں سے نہیں بلائیں گے۔‘‘
سگو نے جب دیکھا کہ بیگم صاحب کا غصہ بالکل اتر گیا ہے تو اس نے زمین پر پڑے ہوئے ٹہنوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
’’بیگم صاحب‘‘ اس نے بڑی لجاجت سے کہنا شروع کیا، کھدا حجور کے صاحب اور بچوں کو سدا سکھی رکھے۔ یہ جو دو ٹہنے آپ نے کٹوائے ہیں یہ تو آپ ہمیں دے دیجیئے سرکار۔ جھونپڑی کی چھت کئی دنوں سے ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کی مرمت ہو جائےگی۔ گریب دعا دیں گے۔‘‘ بیگم بلقیس تراب علی پہلے خاموش رہیں۔ مگر جب سگو نے زیادہ گڑگڑانا شروع کیا تو پسیج گئیں۔
’’اچھا اپنے آدمی سے کہنا اٹھا لے جائے۔‘‘
’’کھدا آپ کو سدا سکھی رکھے بیگم صاحب کھدا۔۔۔‘‘
بیگم صاحب اس کی دعا پوری نہ سن سکیں۔ کیونکہ ان کو ایک ضروری کام یاد آ گیا اور وہ بنگلے کے اندر چلی گئیں۔ دوپہر کو بارہ بجے کے قریب سگو اور جگو سب کام نمٹا گھر جا رہی تھیں کہ سامنے ایک مہتر منڈاسا باندھے جھاڑو سے سڑک پر گرد غبار کے بادل اڑاتا جلد جلد چلا آ رہا تھا۔ دونوں ماں بیٹیاں اس کے قریب پہنچ کر رک گئیں، ’’آج بڑی دیر میں سڑک جھاڑنے نکلے ہو جگو کے باوا؟‘‘
’’ہاں جرا آنکھ دیر میں کھلی تھی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مہتر آگے بڑھ جانا چاہتا تھا کہ اس کی بیوی نے اسے روک لیا،، ’’سن جگو کے باوا۔ جب سڑک جھاڑ چکیو۔ تو ڈھڈو کے بنگلے پر چلے جائیو۔ وہاں دو بڑے بڑے ٹہنے کٹے پڑے ہیں انہیں اٹھا لائیو۔ میں نے ’’ڈھڈو‘‘ سے اجاجت لے لی ہے۔۔۔‘‘
بیگم تراب علی کو نگرانی کے کاموں سے ہمیشہ بڑی دلچسپی رہی تھی۔ آج سے پندرہ سال پہلے جب ان کے شوہر نے جو اس وقت سیٹھ تراب علی نہیں بلکہ شیخ تراب علی کہلاتے تھے اور سرکاری تعمیرات کے ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ اس نواح میں بنگلہ بنوانا شروع کیا تھا تو بیگم صاحب نے اس کی تعمیرات کے کام کی بڑی کڑی نگرانی کی تھی اور یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ یہ بنگلہ بڑی کفایت کے ساتھ اور تھوڑے ہی دنوں میں بن کر تیار ہو گیا تھا۔
بیگم تراب علی کا ڈیل ڈول مردوں جیسا تھا۔ آواز اونچی اور گمبھیر اور رنگ سانولا جو غصے کی حالت میں سیاہ پڑ جایا کرتا۔ چنانچہ نوکر چاکر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے تھر تھر کانپنے لگتے اور گھر بھر پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی اولاد میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں سن بلوغت کو پہنچ چکے تھے مگر کیا مجال جو ماں کے کاموں میں دخل دینا یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ بیگم صاحب پورے خاندان پر ایک ملکہ کی طرح حکمراں تھیں۔ عمر اور خوش حالی کے ساتھ ساتھ ان کی فربہی بھی بڑھتی جا رہی تھی اور فربہی کے ساتھ رعب اور دبدبہ بھی۔
ان پندرہ برس میں جو انہوں نے اس نواح میں گزارے تھے، وہ یہاں کے قریب قریب سبھی رہنے والوں سے بخوبی واقف ہو گئی تھیں۔ بعض گھروں سے میل ملاپ بھی تھا اور کچھ بیبیوں سے دوستی بھی۔ وہ اس علاقے کے حالات سے خود کو با خبر رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ املاک کی خرید و فروخت اور بنگلوں میں نئے کرایہ داروں کی آمد اور پرانے کرایہ داروں کی رخصت کی بھی انہیں پوری پوری خبر رہتی تھی۔
اس وقت بیگم تراب علی کی تیز نظروں کے سامنے مالی کا ہاتھ بڑی پھرتی سے چل رہا تھا۔ اس نے پودوں اور چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی کاٹ چھانٹ تو قینچی سے کھڑے کھڑے ہی کر ڈالی تھی اور اب وہ اونچے اونچے درختوں پر چڑھ کر بیگم صاحب کی ہدایت کے مطابق سوکھے یا زائد ٹہنے کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر نیچے پھینک رہا تھا۔
کچھ دیر بعد بیگم صاحب بیٹھے بیٹھے تھک گئیں اور کرسی سے اٹھ کر بنگلے کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ ٹہلنے لگیں۔ بنگلے کے آگے کی دیوار کے ساتھ ساتھ جو پیڑ تھے ان میں دو ایک تو خاصے بڑے تھے جن کی چھاؤں گھنی تھی خاص کر ولائتی بادام کا پیڑ۔ اس کا سایہ نصف بنگلے کے اندر اور نصف باہر سڑک پر رہتا تھا۔ دن کو جب دھوپ تیز ہو جاتی تو کبھی کبھی کوئی راہگیر یا خوانچے والا ذرا دم لینے کو اس کے سائے میں بیٹھ جاتا تھا۔
بیگم بلقیس تراب علی جیسے ہی اس پیڑ کے پاس پہنچیں ان کے کان میں دیوار کے باہر سے کسی کے بولنے کی آواز آئی۔ انہوں نے اس آواز کو فورا پہنچان لیا۔ یہ اس علاقے کی مہترانی سگو کی آواز تھی جو اپنی بیٹی جگو سے بات کر رہی تھی۔ یہ ماں بیٹیاں بھی اکثر دوپہر کو اسی پیڑ کے نیچے سستانے یا ناشتہ پانی کرنے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔
بیگم بلقیس تراب علی نے پہلے تو ان کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیا۔ مگر ایکاایکی ان کے کان میں کچھ ایسے الفاظ پڑے کہ وہ چونک اٹھیں۔ سگو اپنی بیٹی سے پوچھ رہی تھی، ’’کیوں ری تو نے طوطے والی کے ہاں کام کر لیا تھا؟‘‘
’’ہاں‘‘ جگو نے اپنی مہین آواز میں جواب دیا۔
’’اور کھلونے والی کے ہاں؟‘‘
’’وہاں بھی۔‘‘
اور تپ دق والی کے ہاں؟
اب کے جگو کی آواز سنائی نہ دی۔ شائد اس نے سر ہلا دینے پر ہی اکتفا کیا ہوگا۔
’’اور کالی میم کے ہاں؟‘‘
اب تو بیگم تراب علی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ بےاختیار پکار اٹھیں، ’’سگو۔ اری او سگو۔ ذرا اندر تو آئیو۔‘‘
سگو کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اس کی باتیں کوئی سن رہا ہوگا۔ خصوصا بیگم بلقیس تراب علی جن کی سخت مزاجی اور غصے سے اس کی روح کانپتی تھی۔ وہ پہلے تو گم سم رہ گئی۔ پھر مری ہوئی آواز میں بولی، ’’ابھی آئی بیگم صاحب!‘‘ تھوڑی دیر بعد وہ آنچل سے سینے کو ڈھانپتی، لہنگا ہلاتی، بنگلے کا پھاٹک کھول اندر آئی۔ جگو اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ دونوں ماں بیٹیوں کے کپڑے میلے چکٹ ہو رہے تھے۔ دونوں نے سر میں سرسوں کا تیل خوب لیسا ہوا تھا۔
’’سلام بیگم صاحب!‘‘ سگو نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ابھی تک اس کی سمجھ میں نہ آیا تھا کہ کس قصور کی بنا پر اسے بیگم صاحب کے حضور پیش ہونا پڑا۔
بیگم صاحب نے تحکمانہ لہجے میں پوچھا، ’’کیوں ری مردار یہ تو باہر بیٹھی کن لوگوں کے نام لے رہی تھی؟‘‘
’’کیسے نام بیگم صاحب؟‘‘
’’اری تو کہہ رہی تھی نا طوطے والی، کھلونے والی، تپ دق والی، کالی میم؟‘‘
سگو نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’وہ تو بیگم صاحب ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔‘‘
’’دیکھ سگو سچ سچ بتا دے ورنہ میں جیتا نہ چھوڑوں گی۔‘‘
سگو پل بھر خاموش رہی۔ اس نے جان لیا کہ بیگم صاحب سے بات چھپانی مشکل ہوگی اور اس نے بڑی لجاجت سے کہنا شروع کیا، وہ بات یہ ہے بیگم صاحب ہم لکھت پڑھت تو جانتے نہیں اور ہم کو لوگوں کے نام بھی معلوم نہیں۔ سو ہم نے اپنی نسانی کے لئے ان کے نام رکھ لیے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو یہ طوطے والی کون ہے؟‘‘
’’وہ جو بڑا سا گھر ہے نہ اگلی گلی میں نکڑ والا۔۔۔‘‘
’’فاروق صاحب کا؟‘‘
’’جی بیگم صاحب وہی۔ ان کی بیوی نے طوطا پال رکھا ہے۔ ہم ان کو نسانی کے لیے طوطے والی کہتے ہیں۔‘‘
’’اور یہ کھلونے والی کون ہے؟‘‘
’’وہ جو مسیت کے برابر والے بنگلے میں رہتی ہیں۔‘‘
بیگم تراب علی نے اس علاقے کا نقشہ ذہن میں جمایا، ذرا دیر غور کیا۔ پھر بولیں، ’’اچھا بخش الٰہی صاحب کا مکان؟‘‘
’’جی سرکار وہی۔‘‘
’’اری کمبخت تو ان کی ’’بیگم کو کھلونے والی‘‘ کیوں کہتی ہے۔ جانتی بھی ہے وہ تو لکھ پتی ہیں لکھ پتی، کھلونے تھوڑا ہی بیچتے ہیں۔‘‘
’’جب دیکھو ان کی کوٹھی میں ہر طرف کھلونے ہی کھلونے بکھرے رہتے ہیں۔ بہت بڑھیا بڑھیا کھلونے۔ یہ بڑے بڑے ہوائی جہاج۔ چلنے والی باتیں کرنے والی گڑیا۔ بجلی کی ریل گاڑی، موٹریں۔۔۔‘‘
’’اری موئی یہ کھلونے تو وہ خود اپنے بچوں کے کھیلنے کے لیے ولایت سے منگواتے ہیں، بیچتے تھوڑا ہی ہیں۔‘‘
’’ہم تو نسانی کے لیے کہتے ہیں بیگم صاحب۔‘‘
’’اور یہ کالی میم کس بی صاحبہ کا خطاب ہے؟‘‘
وہ جو کرسٹان رہتے ہیں نا۔۔۔‘‘
’’مسٹر ڈی فلوری؟‘‘
’’جی ہاں وہی۔‘‘
’’ہے کم بخت تیرا ناس جائے۔۔۔اور تپ دق والی کون ہے؟‘‘
’’ادھر کو‘‘ سگو نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہ بڑی سڑک پر پہلی گلی کے نکڑ والا جو گھر۔ اس میں ہر وکھت ایک عورت پلنگ پر پڑی رہے ہے اور میج پر بہت سی دواؤں کی سیسیاں نجر آوے ہیں۔‘‘
بیگم صاحب بےاختیار مسکرادیں۔ ان کا غصہ اب تک اتر چکا تھا اور وہ سگو کی باتوں کو بڑی دل چسپی سے سن رہی تھیں کہ اچانک ایک بات ان کے ذہن میں آئی اور ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ ماتھے پر بل پڑ گیے۔ ڈانٹ کر بولیں، ’’کیوں ری مردار تو نے میرا بھی تو کوئی نہ کوئی نام ضرور رکھا ہوگا۔ بتا کیا نام رکھا ہے؟ سچ سچ بتائیو، نہیں تو مارتے مارتے برکس نکال دوں گی۔‘‘
سگو ذرا ٹھٹکی مگر فورا سنبھل گئی۔
’’بیگم صاحب چاہے ماریئے چاہے جندہ چھوڑیے ہم تو آپ کو بیگم صاحب ہی کہتے ہیں۔‘‘
’’چل جھوٹی مکار!‘‘
’’میں جھوٹ نہیں بولتی سرکار چاہے جس کی قسم لے لیجیے۔۔۔ہم بیگم صاحب کو بیگم صاحب ہی کہتے ہیں نا؟‘‘
جگو نے ماں کی طرف دیکھا اور جلدی سے منڈیا ہلا دی۔
’’مجھے تو تم ماں بیٹیوں کی بات پر یقین نہیں آتا‘‘ بیگم تراب علی بولیں۔ اس پر سگو خوشامدانہ لہجہ میں کہنے لگی، ’’اجی آپ ایسی سکھی(سخی) اور گریب پرور ہیں۔ بھلا ہم آپ کی سان میں ایسی گستاکھی کر سکتے ہیں۔‘‘ بیگم صاحب کا غصہ کچھ دھیما ہوا اور انہوں نے سگو کو نصیحت کرنی شروع کی، ’’دیکھو سگو۔ اس طرح شریف آدمیوں کے نام رکھنا ٹھیک نہیں۔ اگر ان کو پتہ چل جائے تو تجھے ایک دم نوکری سے جواب دے دیں۔‘‘
اچھا بیگم صاحب۔ اس دفعہ تو ہمیں معاف کر دیں۔ آگے کو ہم کسی کو ان ناموں سے نہیں بلائیں گے۔‘‘
سگو نے جب دیکھا کہ بیگم صاحب کا غصہ بالکل اتر گیا ہے تو اس نے زمین پر پڑے ہوئے ٹہنوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
’’بیگم صاحب‘‘ اس نے بڑی لجاجت سے کہنا شروع کیا، کھدا حجور کے صاحب اور بچوں کو سدا سکھی رکھے۔ یہ جو دو ٹہنے آپ نے کٹوائے ہیں یہ تو آپ ہمیں دے دیجیئے سرکار۔ جھونپڑی کی چھت کئی دنوں سے ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کی مرمت ہو جائےگی۔ گریب دعا دیں گے۔‘‘ بیگم بلقیس تراب علی پہلے خاموش رہیں۔ مگر جب سگو نے زیادہ گڑگڑانا شروع کیا تو پسیج گئیں۔
’’اچھا اپنے آدمی سے کہنا اٹھا لے جائے۔‘‘
’’کھدا آپ کو سدا سکھی رکھے بیگم صاحب کھدا۔۔۔‘‘
بیگم صاحب اس کی دعا پوری نہ سن سکیں۔ کیونکہ ان کو ایک ضروری کام یاد آ گیا اور وہ بنگلے کے اندر چلی گئیں۔ دوپہر کو بارہ بجے کے قریب سگو اور جگو سب کام نمٹا گھر جا رہی تھیں کہ سامنے ایک مہتر منڈاسا باندھے جھاڑو سے سڑک پر گرد غبار کے بادل اڑاتا جلد جلد چلا آ رہا تھا۔ دونوں ماں بیٹیاں اس کے قریب پہنچ کر رک گئیں، ’’آج بڑی دیر میں سڑک جھاڑنے نکلے ہو جگو کے باوا؟‘‘
’’ہاں جرا آنکھ دیر میں کھلی تھی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مہتر آگے بڑھ جانا چاہتا تھا کہ اس کی بیوی نے اسے روک لیا،، ’’سن جگو کے باوا۔ جب سڑک جھاڑ چکیو۔ تو ڈھڈو کے بنگلے پر چلے جائیو۔ وہاں دو بڑے بڑے ٹہنے کٹے پڑے ہیں انہیں اٹھا لائیو۔ میں نے ’’ڈھڈو‘‘ سے اجاجت لے لی ہے۔۔۔‘‘
- ग़ुलाम-अब्बास
پریوں کی سرزمین کو ایک راستہ جاتا ہے شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگلوں میں سے گزرتا ہوا جہاں روپہلی ندیوں کے کنارے چیری اور بادام کے سایوں میں خوب صورت چرواہے چھوٹی چھوٹی بانسریوں پر خوابوں کے نغمے الاپتے ہیں۔ یہ سنہرے چاند کی وادی ہے۔ never never land کے مغرور اور خوب صورت شہزادے۔ پیٹر پین کا ملک جہاں ہمیشہ ساری باتیں اچھی اچھی ہوا کرتی ہیں۔ آئس کریم کی برف پڑتی ہے۔ چوکلیٹ اور پلم کیک کے مکانوں میں رہا جاتا ہے۔ موٹریں پٹرول کے بجائے چائے سے چلتی ہیں۔ بغیر پڑھے ڈگریاں مل جاتی ہیں۔
اور کہانیوں کے اس ملک کو جانے والے راستے کے کنارے کنارے بہت سے سائن پوسٹ کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے ’’صرف موٹروں کے لیے‘‘
’’یہ عام راستہ نہیں‘‘ اور شام کے اندھیرے میں زناٹے سے آتی ہوئی کاروں کی تیز روشنی میں نرگس کے پھولوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں سے جھانکتے ہوئے یہ الفاظ جگمگا اٹھتے ہیں، ’’پلیز آہستہ چلائیے۔۔۔ شکریہ!‘‘
اور بہار کی شگفتہ اور روشن دوپہروں میں سنہرے بالوں والی کر لی لوکس، سنڈریلا اور اسنو وائٹ چھوٹی چھوٹی پھولوں کی ٹوکریاں لے کر اس راستے پر چیری کے شگوفے اور ستارۂ سحری کی کلیاں جمع کرنے آیا کرتی تھیں۔
ایک روز کیا ہوا کہ ایک انتہائی ڈیشنگ شہ سوار راستہ بھول کر صنوبروں کی اس وادی میں آ نکلا جو دور دراز کی سرزمینوں سے بڑے بڑے عظیم الشان معرکے سر کر کے چلا آ رہا تھا۔ اس نے اپنے شان دار گھوڑے پر سے جھک کر کہا، ’’مائی ڈیر ینگ لیڈی کیسی خوش گوار صبح ہے!‘‘کر لی لوکس نے بے تعلقی سے جواب دیا، ’’اچھا، واقعی؟ تو پھر کیا ہوا؟‘‘
شہ سوار کی خواب ناک آنکھوں نے خاموشی سے کہا، ’’پسند کرو ہمیں۔‘‘ کر لی لوکس کی بڑی بڑی روشن اور نیلی آنکھوں میں بے نیازی جھلملا اٹھی۔ ’’جناب عالی ہم بالکل نوٹس نہیں لیتے۔‘‘ شہ سوار نے اپنی خصوصیات بتائیں۔ ایک شان دار سی امپیریل سروس کے مقابلے میں ٹاپ کیا ہے۔ اب تک ایک سو پینتیس ڈوئیل لڑ چکا ہوں۔ بہترین قسم کا heart breakerہو ں۔ کر لی لوکس نے غصے سے اپنی سنہری لٹیں جھٹک دیں اور اپنے بادامی ناخنوں کے برگنڈی کیوٹیکس کو غور سے دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ سنڈریلا اور اسنو وائٹ پگڈنڈی کے کنارے اسٹرابری چنتی رہیں۔ اور ڈیشنگ شہ سوار نے بڑے ڈرامائی انداز سے جھک کر نرسری کا ایک پرانا گیت یاد دلایا،
کر لی لوکس کر لی لوکس
یعنی اے میری پیاری چینی کی گڑیا۔
تمھیں برتن صاف کرنے نہیں پڑیں گے۔
اور بطخوں کو لے کر چراگاہ میں جانا نہیں ہو گا۔
بلکہ تم کشنوں پر بیٹھی بیٹھی اسٹرابری کھایا کرو گی۔
اے میری سنہرے گھنگھریالے بالوں والی مغرور شہزادی ایمیلیا ہنری ایٹامرایا۔۔۔ دو نینا متوارے تمھارے ہم پر ظلم کریں۔
اور پھر وہ ڈیشنگ شہ سوار اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوسری سرزمینوں کی طرف نکل گیا جہاں اور بھی زیادہ عظیم الشان اور زبردست معرکے اس کے منتظر تھے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازِ بازگشت پہاڑی راستوں اور وادیوں میں گونجتی رہی۔
پھر ایک اور بات ہوئی جس کی وجہ سے چاند کی وادی کے باسی غمگین رہنے لگے کیوں کہ ایک خوش گوار صبح معصوم کوک روبن ستارۂ سحری کے سبزے پر مقتول پایا گیا۔ مرحوم پر کسی ظالم نے تیر چلایا تھا۔ سنڈریلا رونے لگی۔ بے چارا میرا سرخ اور نیلے پروں والا گڈّو سا پرندہ۔ پرستان کی ساری چڑیوں، خرگوشوں اور گلہریوں نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد پتا چلا لیا اور بالاتفاق رائے اس کی بے وقت اور جوان مرگی پر تعزیت کی قرارداد منظور کی گئی۔ یونی ورسٹی میں کوک روبن ڈے منایا گیا لیکن عقل مند پوسی کیٹ نے، جو فل بوٹ پہن کر ملکہ سے ملنے لندن جایا کرتی تھی، سنڈریلا سے کہا، ’’روؤ مت میری گڑیا، یہ کوک روبن تو یوں ہی مرا کرتا ہے اور پھر فرسٹ ایڈ ملتے ہی فوراً زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور کوک روبن سچ مچ زندہ ہو گیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اور ہمیشہ کی طرح وادی کے سبزے پر بکھرے ہوئے بھیڑوں کے گلے کی ننھی مُنّی گھنٹیاں اور دور سمندر کے کنارے شفق میں کھوئے ہوئے پرانے عبادت خانوں کے گھنٹے آہستہ آہستہ بجتے رہے۔۔۔ ڈنگ ڈونگ، ڈنگ ڈونگ بل، پوسی ان وَ ویل۔
ڈنگ ڈونگ۔ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ جیسے کر لی لوکس کہہ رہی ہو، نہیں، نہیں، نہیں، نہیں!
اور اس نے کہا۔ نہیں نہیں۔ یہ تو پریوں کے ملک کی باتیں تھیں۔ میں کوک روبن نہیں ہوں، نہ آپ کر لی لوکس یا سنڈریلا ہیں۔ ناموں کی ٹوکری میں سے جو پرچی میرے ہاتھ پڑی ہے اس پر ریٹ بٹلر لکھا ہے لہٰذا آپ کو اسکارٹ اوہارا ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر آپ جو لیٹ یا کلیوپٹرا ہیں تو رومیو یا انطونی صاحب کو تلاش فرمائیے اور میں قاعدے سے مس اوہارا کی فکر کروں گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ جو لیٹ یا بیٹرس یا ماری انطونی نہیں ہیں اور میں قطعی ریٹ بٹلر نہیں ہو سکتا، کاش آپ محض آپ ہوتیں اور میں صرف میں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی اپنی تلاش شروع کریں۔
ہم سب کے راستے یوں ہی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے پھر الگ الگ چلے جاتے ہیں، لیکن پرستان کی طرف تو ان میں سے کوئی راستہ بھی نہیں جاتا۔
چوکو بارز کی اسٹالوں اور لکی ڈپ کے خیمے کے رنگین دھاری دار پردوں کے پیچھے چاندی کی ننھی منی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ پوسی بے چاری کنویں میں گر گئی اور ٹوم اسٹاؤٹ بے فکری سے چوکو بارز کھاتا رہا۔ پھر وہ سب زندگی کی ٹریجڈی میں غور کرنے میں مصروف ہو گیےکیوں کہ وہ چاند کی وادی کے باسی نہیں تھے لیکن اتنے احمق تھے کہ پرستان کی پگڈنڈی پر موسمِ گل کے پہلے سفید شگوفے تلاش کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے اور اس کوشش میں انھیں ہمیشہ کسی نہ کسی اجنبی ساحل، کسی نہ کسی ان دیکھی، اَن جانی چٹان پر فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑتی تھی۔
وہ کئی تھے۔ ڈک ڈنگٹن جسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اسے فل بوٹ پہننے والی وہ پوسی کیٹ مل ہی جائے گی جو اسے خوابوں کے شہر کی طرف اپنے ساتھ لے جائے اور اسے یقین تھا کہ خوابوں کے شہر میں ایک نیلی آنکھوں والی ایلس اپنے ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور وہ افسانہ نگار جو سوچتا تھا کہ کسی رو پہلے راج ہنس کے پروں پر بیٹھ کر اگر وہ زندگی کے اس پار کہانیوں کی سرزمین میں پہنچ جائے جہاں چاند کے قلعے میں خیالوں کی شہزادی رہتی ہے تو وہ اس سے کہے، ’’میری مغرور شہزادی! میں نے تمھارے لیے اتنی کہانیاں، اتنے اوپیرا اور اتنی نظمیں لکھی ہیں۔ میرے ساتھ دنیا کو چلو تو دنیا کتنی خوب صورت، زندہ، رہنے اور محبت کرنے کے قابل جگہ بن جائے۔‘‘
لیکن روپہلا راج ہنس اسے کہیں نہ ملتا تھا اور وہ اپنے باغ میں بیٹھا بیٹھا کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا تھا اور جو خوب صورت اور عقل مند لڑکی اس سے ملتی،، اسے ایک لمحے کے لیے یقین ہو جاتا کہ خیالوں کی شہزادی چاند کے ایوانوں میں سے نکل آئی ہے لیکن دوسرے لمحے یہ عقل مند لڑکی ہنس کر کہتی کہ افوہ بھئی فن کار صاحب! کیا cynicism بھی اس قدر الٹرا فیشن ایبل چیز بن گئی ہے اور آپ کو یہ مغالطہ کب سے ہو گیا ہے کہ آپ جینیس بھی ہیں اور اس کے نقرئی قہقہے کے ساتھ چاند کی کرنوں کی وہ ساری سیڑھیاں ٹوٹ کر گر پڑتیں جن کے ذریعے وہ اپنی نظموں میں خیالستان کے محلوں تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی۔ اندھیری، ٹھنڈی اور بد صورت۔۔۔ اور سنڈریلا جو ہمیشہ اپنا ایک بلوریں سینڈل رات کے اختتام پر خوابوں کی جھلملاتی رقص گاہ میں بھول آتی تھی، اور وہ ڈیشنگ شہ سوار جو پرستان کی خاموش، شفق کے رنگوں میں کھوئی ہوئی پگڈنڈیوں پر اکیلے اکیلے ہی ٹہلا کرتا تھا اور برف جیسے رنگ اور سرخ انگارہ جیسے ہونٹوں والی اسنو وائٹ جو رقص کرتی تھی تو بوڑھے بادشاہ کول کے دربار کے تینوں پری زاد مغنی اپنے وائلن بجانا بھول جاتے تھے۔
’’اور‘‘ ریٹ بٹلر نے اس سے کہا، ’’مس اوہارا آپ کو کون سا رقص زیادہ پسند ہے۔ ٹینگو۔۔۔ فوکس ٹروٹ۔۔۔ رومبا۔۔۔ آئیے لیمبتھ واک کریں۔‘‘
اور افروز اپنے پارٹنر کے ساتھ رقص میں مصروف ہو گئی، حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکارلٹ اور ہارا نہیں ہے کیوں کہ وہ چاند کی دنیا کی باسی نہیں تھی۔ سبزے پر رقص ہو رہا تھا۔ روش کی دوسری طرف ایک درخت کے نیچے، لکڑی کے عارضی پلیٹ فارم پر چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا اپنی پوری سوئنگ میں تیزی سے بج رہا تھا۔۔۔ اور پھر ایک دم سے قطعے کے دوسرے کنارے پر ایستادہ لاؤڈ اسپیکر میں کارمن میرانڈا کا ریکارڈ چیخنے لگا، ’’تم آج کی رات کسی کے بازوؤں میں ہونا چاہتی ہو؟‘‘ لکی ڈپ اور ’’عارضی کافی ہاؤس‘‘ کے رنگین خیموں پر بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بجتی رہیں اور کسی نے اس کے دل میں آہستہ آہستہ کہا، موسیقی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ زندگی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ شوپاں کے نغمے۔۔۔ ’’جپسی مون۔‘‘ اور خدا!
اس نے اپنے ہم رقص کے مضبوط، پراعتماد، مغرور بازوؤں پر اپنا بوجھ ڈال کر ناچ کے ایک کوئیک اسٹیپ کا ٹرن لیتے ہوئے اس کے شانوں پر دیکھا۔ سبزے پر اس جیسے کتنے انسان اس کی طرح دو دو کے رقص کی ٹکڑیوں میں منتشر تھے۔ ’’جولیٹ‘‘ اور ’’رومیو‘‘، ’’وکٹوریہ‘‘ اور ’’البرٹ‘‘، ’’بیٹرس‘‘ اور ’’دانتے‘‘ ایک دوسرے کو خوب صورت دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی اس مصنوعی، عارضی، چاند کی وادی میں کتنے خوش تھے وہ سب کے سب۔۔۔! بہار کے پہلے شگوفوں کی متلاشی اور کاغذی کلیوں پر قانع اور مطمئن۔۔۔ زندگی کے تعاقب میں پریشان و سرگرداں زندگی۔۔۔ ہُنہ۔۔۔ شوپاں کی موسیقی، سفید گلاب کے پھول، اور اچھی کتابیں۔ کاش! زندگی میں صرف یہی ہوتا۔
چاند کی وادی کے اس افسانہ نگار اویناش نے ایک مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ہُنہ۔۔۔ کتنا بنتے ہو اویناش! ابھی سامنے سے ایک خوب صورت لڑکی گزر جائے اور تم اپنی ساری تخیل پرستیاں بھول کر سوچنے لگو گے کہ اس کے بغیر تمھاری زندگی میں کتنی بڑی کمی ہے۔۔۔ اور اویناش نے کہا تھا، کاش جو ہم سوچتے وہی ہوا کرتا، جو ہم چاہتے وہی ملتا۔۔۔ ہائے یہ زندگی کا لکی ڈپ۔۔۔! زندگی، جس کا جواب مونا لیزا کا تبسم ہے جس میں نرسری کے خوب صورت گیت اور چاند ستارے ترشتی ہوئی کہانیاں تمھارا مذاق اڑاتی، تمھارا منہ چڑاتی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، جہاں کوک روبن پھر سے زندہ ہونے کے لیے روز نئے نئے تیروں سے مرتا رہتا ہے۔۔۔ اور کر لی لوکس ریشمیں کشنوں کے انبار پر کبھی نہیں چڑھ پاتی۔ کاش افروز تم— اور پھر وہ خاموش ہو گیا تھا کیوں کہ اسے یاد آگیا تھا کہ افروز کو ’’کاش۔۔۔‘‘ اس سستے اور جذباتی لفظ سے سخت چڑ ہے۔ اس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جیسے تمھیں خود پر اعتماد، بھروسہ، یقین نہیں۔
اور افروز لیبتھ واک کی اچھل کود سے تھک گئی۔ کیسا بے ہودہ سا ناچ ہے۔ کس قدر بے معنی اور فضول سے steps ہیں۔ بس اچھلتے اور گھومتے پھر رہے ہیں، بے وقوفوں کی طرح۔
’’مس اوہارا۔۔۔‘‘اس کے ہم رقص نے کچھ کہنا شروع کیا۔
’’افروز سلطانہ کہیے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ مس افروز حمید علی۔۔۔ آئیے کہیں بیٹھ جائیں۔‘‘
’’بیٹھ کر کیا کریں؟‘‘
’’ار۔۔۔ باتیں!‘‘
’’باتیں آپ کر ہی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ مس حمید علی آپ یہ ہیں، آپ وہ ہیں، آپ بے حد عمدہ رقص کرتی ہیں، آپ نے کل کے سنگلز میں پرکاش کو خوب ہرایا۔۔۔‘‘
’’ار۔۔۔ غالباً آپ کو سیاسیات سے۔۔۔‘‘
’’شکریہ، اویناش اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر موسیقی یا پال مُنی کی نئی فلم۔۔۔‘‘
’’مختصر یہ کہ آپ خاموش کسی طرح نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔‘‘وہ چپ ہو گیا۔
پھر شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ درختوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے جھلملا اٹھے اور وہ سب سبزے کو خاموش اور سنسان چھوڑ کے بال روم کے اندر چلے گئے۔ آرکیسٹرا کی گت تبدیل ہو گئی۔ جاز اپنی پوری تیزی سے بجنے لگا۔ وہ ہال کے سرے پر شیشے کے لمبے لمبے دریچوں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے قریب اس کی ممانی کا چھوٹا بھائی، جو کچھ عرصے قبل امریکہ سے واپس آیا تھا، میری ووڈ سے باتیں کرنے میں مشغول تھا اور بہت سی لڑکیاں اپنی سبز بید کی کرسیاں اس کے آس پاس کھینچ کر انتہائی انہماک اور دل چسپی سے باتیں سن رہی تھیں اور میری ووڈ ہنسے جا رہی تھی۔ میری ووڈ، جو سانولی رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک اعلیٰ خاندان عیسائی لڑکی اور انگریز کرنل کی بیوی تھی، ایک ہندوستانی فلم میں کلاسیکل رقص کر چکی تھی اور اب جاز کی موسیقی اور شیری کے گلاسوں کے سہارے اپنی شامیں گزار رہی تھی۔
اور پائپوں اور سگرٹوں کے دھوئیں کا ملا جلا لرزتا ہوا عکس بال روم کی سبز روغنی دیواروں پر بنے ہوئے طیاروں، پام کے درختوں اور رقصاں اپسراؤں کے دھندلے دھندلے نقوش کو اپنی لہروں میں لپیٹتا، ناچتا، رنگین اور روشن چھت کی بلندی کی طرف اٹھتا رہا۔ خوابوں کا شبنم آلود سحر آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔
او ریک لخت، میری ووڈ نے زور سے ہنسنا اور چلّانا شروع کر دیا۔ افروز کی ممانی کے ہالی ووڈ پلٹ بھائی نے ذرا گھبرا کر اپنی کرسی پیچھے کو سرکا لی۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آرکیسٹرا کے سُر آہستہ آہستہ ڈوبتے گیے اور دبی دبی اور مدھم قہقہوں کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رو لڑکی، جو بہت دیر سے ایک ہندوستانی پرنس کے ساتھ ناچ رہی تھی، تھک کر افروز کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور اس کا باپ، جو ایک ہندوستانی ریاست کی فوج کا افسر اعلیٰ تھا، فرن کے پتوں کے پیچھے گیلری میں بیٹھا اطمینان سے سگار کا دھواں اڑاتا رہا۔
پھر کھیل شروع ہوئے اور ایک بے حد اوٹ پٹانگ سے کھیل میں حصہ لینے کے لیے سب دوبارہ ہال کی فلور پر آ گیے اور افروز کا ہم رقص ریٹ بٹلر اپنے خواب ناک آنکھوں والے دوست کے ساتھ اس کے قریب آیا، ’’مس حمید علی آپ میری پارٹنر ہیں نا؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ آئیے۔‘‘
اور اس خواب ناک آنکھوں والے دوست نے کہا، ’’بارہ بجنے والے ہیں۔ نیا سال مبارک ہو۔ لیکن آج اتنی خاموش کیوں ہیں آپ؟‘‘
’’آپ کو بھی مبارک ہو لیکن ضرورت ہے کہ اس زبردست خوشی میں خواہ مخواہ کی بے کار باتوں کا سلسلہ رات بھر ختم ہی نہ کیا جائے۔‘‘
’’لیکن میں تو چاہتا ہوں کہ آپ اس طرح خاموش نہ رہیں۔ اس سے خواہ مخواہ یہ ظاہر ہو گا کہ آپ کو اس مجمعے میں ایک مخصوص شخص کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہے۔‘‘
’’پر جو آپ چاہیں، لازم تو نہیں کہ دوسروں کی بھی وہی مرضی ہو۔ کیوں کہ جب آپ کچھ کہتے ہوتے ہیں اس وقت آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ساری دنیا بے حد دل چسپی سے آپ کی طرف متوجہ ہے اور بعد میں لڑکیاں کہتی ہیں، افوہ! کس قدر مزے کی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔
اتنے میں پرکاش کاغذ اور پنسلیں تقسیم کرتی ہوئی ان کی طر ف آئی اور ان کو ان کے فرضی نام بتاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے سب چپ ہو گیے۔ پھر قہقہوں کے شور کے ساتھ کھیل شروع ہوا۔ کھیل کے دوران میں اس نے اپنی خواب ناک آنکھیں اٹھا کر یوں ہی کچھ نہ کچھ بولنے کی غرض سے پوچھا، ’’جی، تو ہم کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہم باتیں قطعی کر ہی نہیں رہے تھے۔ کیوں نہ آپ قاعدے سے اپنی پارٹنر کے ساتھ جا کر کھیلیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں اسکارلٹ اوہارا ہوں۔ جو لیٹ ابھی آپ کو تلاش کر رہی تھی۔ پھر ڈاکٹر مہرہ اور اویناش اس کی طرف آ گیےاور وہ ان کے ساتھ کھیل میں مصروف ہو گئی۔
اور جب رات کے اختتام پر وہ رفعت کے ساتھ اپنا اوور کوٹ لینے کے لیے کلوک روم کی طرف جا رہی تھی تو گیلری کے سامنے کی طرف سے گزرتے ہوئے اس نے اس سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ کے باپ کو اپنے دوستوں سے کہتے سنا، ’’آپ میرے داماد میجر بھنڈاری سے ملے؟ مجھے تو فخر ہے کہ میری بڑی لڑکی نے اپنے فرقے سے باہر شادی کرنے میں ذات اور مذہب کی دقیانوسی قیود کی پروا نہیں کی۔ میری لڑکی کا انتخاب پسند آیا آپ کو؟ ہی ہی ہی۔ دراصل میں نے اپنی چاروں لڑکیوں کا ٹیسٹ کچھ اس طرح cultivate کیا ہے کہ پچھلی مرتبہ جب میں ان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا تو۔۔۔‘‘ اور افروز جلدی سے بال روم کے باہر نکل آئی۔ یہ زندگی۔۔۔ یہ زندگی کا گھٹیا پن!
واقعی۔۔۔! یہ زندگی۔۔۔!
اور جشن نو روز کے دوسرے دن اس بے چارے ریٹ بٹلر نے اپنے دوست، اس خواب ناک آنکھوں والے ڈیشنگ شہ سوار سے کہا، جو پرستان کے راستوں پر سب سے الگ الگ ٹہلا کرتا تھا، ’’عجب لڑکی ہے بھئی۔‘‘
’’ہوا کرے۔‘‘اور وہ خواب ناک آنکھوں والا دوست بے نیازی سے سگریٹ کے دھوئیں کے حلقے بنا بنا کر چھت کی طرف بھیجتا رہا۔ اور اس عجیب لڑکی کی دوست کہہ رہی تھی، ’’ہُنہ، اس قدر مغرور، مغالطہ فائیڈ قسم کا انسان۔‘‘
’’ہوا کرے بھئی۔ ہم سے کیا۔‘‘اور افروز بے تعلقی کے ساتھ نٹنگ میں مصروف ہو گئی۔
’’اتنی اونچی بننے کی کوشش کیوں کر رہی ہو؟‘‘رفعت نے چڑ کر پوچھا۔
’’کیا ہرج ہے۔‘‘
’’کوئی ہرج ہی نہیں؟ قسم خدا کی افروز اس اویناش کے فلسفے نے تمھارا دماغ خراب کر دیا ہے۔‘‘
’’تو گویا تمھارے لیے زنجیر ہلائی جائے۔‘‘
’’فوہ۔ جیسے آپ یوں ہی نو لفٹ جاری رکھیں گی۔‘‘
’’قطعی۔۔۔! زندگی تمھارے لیے ایک مسلسل جذباتی اضطراب ہے لیکن مجھے اصولوں میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔۔۔ جانتی ہو زندگی کے یہ ایئر کنڈیشنڈ اصول بڑے کارآمد اور محفوظ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
’’فوہ۔۔۔ کیا بلند پروازی ہے۔‘‘
’’میں؟‘‘
’’تم اور وہ۔۔۔ خدا کی قسم ایسی بے پرواہی سے بیٹھا رہتا ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ جی چاہتا ہے پکڑ کر کھا جاؤں اسے۔ جھکنا جانتا ہی نہیں جیسے۔‘‘
’’ارے چپ رہو بھائی۔‘‘
’’سچ مچ اس کی آنکھوں کی گہرائیاں اتنی خاموش، اس کا انداز اتنا پر وقار، اتنا بے تعلق ہے کہ بعض مرتبہ جی میں آتا ہے کہ بس خودکشی کر لو۔ یعنی ذرا سوچو تو، تم جانتی ہو کہ تمھارے کشن کے نیچے یا مسہری کے سرہانے میز پر بہترین قسم کی کیڈ بری چاکلیٹ کا بڑا سا خوب صورت پیکٹ رکھا ہوا ہے لیکن تم اسے کھا نہیں سکتیں۔۔۔ الو!‘‘
’’کون بھئی۔۔۔؟‘‘پرکاش نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’کوئی نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک۔۔۔‘‘رفعت نے اپنے غصے کے مطابقت میں کوئی موزوں نام سوچنا چاہا۔
’’بلّا۔۔۔‘‘افروز نے اطمینان سے کہا۔
’’بلا!‘‘پرکاش کافی پریشان ہو گئی۔
’’ہاں بھئی۔۔۔ ایک بلّا ہے بہت ہی typical قسم کا ایرانی بلّا۔‘‘ افروز بولی۔
’’تو کیا ہوا اس کا؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔ ہوتا کیا؟ سب ٹھیک ہے بالکل۔ بس ذرا اسے اپنی آنکھوں پر بہت ناز ہے اور ان مسعود اصغر صاحب کا کیا ہو گا؟ جو مسوری سے مار خط پہ خط نہایت اسٹائیلش انگریزی میں تمھارے ٹینس کی تعریف میں بھیجا کرتے ہیں۔‘‘
’’ان کو تار دے دیا جائے۔۔۔ nose upturned-nose upturned-riffat:
’’ہاں۔ یعنی لفٹ نہیں دیتے۔ جس کی ناک ذرا اوپر کو اٹھی ہوتی ہے وہ آدمی ہمیشہ بے حد مغرور اور خود پسند طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔‘‘
’’تو تمھاری ناک اتنی اٹھی ہوئی کہاں ہے۔‘‘
’’قطعی اٹھی ہوئی ہے۔ بہترین پروفائل آتا ہے۔‘‘
’’واقعی ہم لوگ بھی کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’جناب، بے حد مفید اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔‘‘
’’اور صلاح الدین بے چارہ!‘‘
’’وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا اب تک۔‘‘ رفعت نے بڑی رنجیدہ انداز سے کہا۔
کیوں کہ یہ ان کا تخیلی کردار تھا اور خیالستان کے کردار چاند کی وادی میں سے کبھی نہیں نکلتے۔ جب کبھی وہ سب کسی پارٹی میں ملیں تو سب سے پہلے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے اس فرضی ہستی کی خیریت پوچھی جاتی، اس کے متعلق اوٹ پٹانگ باتیں کی جاتیں اور اکثر انھیں محسوس ہوتا جیسے انھیں یقین سا ہو گیا ہے کہ ان کا خیالی کردار اگلے لمحے ان کی دنیا اور ان کی زندگی میں داخل ہو جائے گا۔
اور فرصت اور بے فکری کی ایک خوش گوار شام انھوں نے یوں ہی باتیں کرتے کرتے صلاح الدین کی اس خیالی تصویر کو مکمل کیا تھا۔ وہ سب شاپنگ سے واپس آ کر منظر احمد پر زور شور سے تبصرہ کر رہی تھیں جو ان سے دیر تک آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے ایک کاؤنٹر پر باتیں کرتا رہا تھا اور پرکاش نے قطعی فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ بے حد بنتا ہے اور افروز بے حد پریشان تھی کہ کس طرح اس کا یہ مغالطہ دور کرے کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔
’’لیکن اسے لفٹ دینے کی کوئی معقول وجہ پیش کرو۔‘‘
’’کیوں کہ بھئی ہمارا معیار اس قدر بلند ہے کہ کوئی مارک تک پہنچ نہیں سکتا۔‘‘
’’لہٰذا اب کی بار اس کو بتا دیا جائے گا کہ بھئی افروز کی تو منگنی ہونے والی ہے۔‘‘
’’لیکن کس سے؟‘‘
’’یہی تو طے کرنا باقی ہے۔ مثلاً۔۔۔ مثلاً ایک آدمی سے۔ کوئی نام بتاؤ۔‘‘
’’پرویز۔‘‘
’’بڑا عام افسانوی سا نام ہے۔ کچھ اور سوچو!‘‘
’’سلامت اللہ!‘‘
’’ہش۔ بھئی واہ، کیا شان دار نام دماغ میں آیا۔۔۔ صلاح الدین!‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ اچھا، اور بھائی صلاح الدین کا تعارف کس طرح کرایا جائے؟‘‘
’’بھئی صلاح الدین صاحب جو تھے وہ ایک روز پرستان کے راستے پر شفق کے گل رنگ سائے تلے مل گیے۔‘‘
’’پرستان کے راستے پر؟‘‘
’’چپکی سنتی جاؤ۔ جانتی ہو میں اس قدر بہترین افسانے لکھتی ہوں جن میں سب پرستان کی باتیں ہوتی ہیں۔ بس پھر یہ ہوا کہ۔۔۔‘‘
’’جناب ہم تو اس دنیا کے باسی ہیں۔ پرستان اور کہانیوں کی پگڈنڈیوں پر تو صرف اویناش ہی بھٹکتا اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’چچ چچ چچ۔ بے چارہ اویناش۔۔۔ گڈو۔‘‘
’’بھئی ذکر تو صلاح الدین کا تھا۔‘‘
’’خیر تو جناب صلاح الدین صاحب پرستان کے راستے پر ہرگز نہیں ملے۔ وہ بھی ہماری دنیا کے باسی ہیں اور ان کا دماغ قطعی خراب نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ سب ہی میٹر آف فیکٹ طریقے سے۔‘‘
’’یہ ہوا کہ افروز دل کشا جا رہی تھی تو ریلوے کراسنگ کے پاس بے حد رومینٹک انداز سے اس کی کار خراب ہو گئی۔‘‘
’’نہیں بھئی واقعہ یہ تھا کہ افروز آفیسرز شاپ جو گئی ایک روز تو پتا چلا کہ وہ غلط تاریخ پر پہنچ گئی ہے، اور وہ اپنا کارڈ بھی گھر بھول گئی تھی۔ بس بھائی صلاح الدین جو تھے انھوں نے جب دیکھا کہ ایک خوب صورت لڑکی برگنڈی رنگ کا کیوٹکس نہ ملنے کے غم میں رو پڑنے والی ہے تو انھوں نے بے حد gallantly آگے بڑھ کر کہا کہ ’’خاتون میرا آج کی تاریخ کا کارڈ بے کار جا رہا ہے، اگر آپ چاہیں۔۔۔‘‘
’’بہت ٹھیک۔ آگے چلو۔ پھر کیا ہونا چاہیے؟‘‘
’’بس وہ پیش ہو گیے۔‘‘
’’نہ پیش نہ زیر نہ زبر۔۔۔ افروز نے فوراً نو لفٹ کر دیا اور بے چارے دل شکستہ ہو گیے۔‘‘
’’اچھا ان کا کیریکٹر۔۔۔‘‘
’’بہت ہی بیش فُل۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ کافی تیز۔۔۔ لیکن بھئی ڈینڈی قطعی نہیں برداشت کیے جائیں گے۔‘‘
’’قطعی نہیں صاحب۔۔۔ اور اور فلرٹ ہوں تھوڑے سے۔۔۔‘‘
’’تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ اچھا وہ کرتے کیا ہیں؟‘‘
’’بھئی ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کرتے ہوں گے!‘‘
’’آرمی میں رکھ لو۔۔۔‘‘
’’اووق۔۔۔ حد ہو گئی تمھارے اسسٹنٹ کی۔ کچھ سوال سروس وغیرہ کا لاؤ۔‘‘
’’سب بور ہوتے ہیں۔‘‘
’’ارے ہم بتائیں، کچھ کرتے کراتے نہیں۔ منظر احمد کی طرح تعلقہ دار ہیں۔ پچیس گاؤں اور ایک یہی رومینٹک سی جھیل جہاں پر وہ کرسمس کے زمانے میں اپنے دوستوں کو مدعو کیا کرتے ہیں۔ ہاں اور ایک شان دار سی اسپورٹس کار۔۔۔‘‘
’’لیکن بھئی اس کے باوجود بے انتہا قومی خدمت کرتا ہے۔ کمیونسٹ قسم کی کوئی مخلوق۔‘‘
’’کمیونسٹ ہے تو اسے اپنے پچیسوں گاؤں علاحدہ کر دینے چاہئیں کیوں کہ پرائیویٹ پراپرٹی۔۔۔‘‘
’’واہ، اچھے بھائی بھی تو اتنے بڑے کمیونسٹ ہیں۔ انھوں نے کہاں اپنا تعلقہ چھوڑا ہے؟‘‘
’’آپ تو چغد ہیں نشاط زریں۔۔۔ اچھے بھیا تو سچ مچ کے آدمی ہیں۔ ہیرو کو بے حد آئیڈیل قسم کا ہونا چاہیے۔ یعنی غور کرو صلاح الدین محمود کس قدر بلند پایہ انسان ہے کہ جنتا کی خاطر۔۔۔‘‘
’’افوہ۔۔۔ کیا بوریت ہے بھئی۔ تم سب مل کر ابھی یہی طے نہیں کر پائیں کہ وہ کرتا کیا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہوئی ہے واللہ!‘‘
’’جلدی بتاؤ۔‘‘
’’اصفہانی چائے میں۔۔۔‘‘
اور سب پر ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔
’’کیوں جناب اصفہانی چائے میں بڑے بڑے اسمارٹ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی قصہ مختصر یہ کہ پڑھتا ہے۔ فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے گویا۔‘‘
’’پڑھتا ہے تو آفیسرز شاپ میں کہاں سے پہنچ گیا!‘‘
’’بھئی ہم نے فیصلہ کر دیا ہے آخر۔ ہوائی جہاز میں سول ایوی ایشن آفیسر ہے۔‘‘
’’یہ آئیڈیا کچھ۔۔۔‘‘
’’تمھیں کوئی آئیڈیا ہی پسند نہیں آیا۔ اب تمھارے لیے کوئی آسمان سے تو خاص طور پر بن کر آئے گا نہیں آدمی۔‘‘
’’اچھا تو پھر یہی مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور جو غرور کے مارے اب تک ڈیڈی پر کال کرنے نہیں آئے۔‘‘
اور اس طرح انھوں نے ایک تخیلی کردار کی تخلیق کی تھی۔ سب ہی اپنے دلوں میں چپکے چپکے ایسے کرداروں کی تخلیق کر لیتے ہیں جو ان کی دنیا میں آ کر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے بے وقوف لوگ!
لیکن پرکاش کا خیال تھا کہ ان کی mad-hatter’s پارٹی میں سب کے سب حد سے زیادہ عقل مند ہیں۔ مغرور اور خود پسند نشاط زریں جو ایسے fantastic افسانے لکھتی ہے جن کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن جن کی تعریف ایٹی کیٹ کے اصولوں کے مطابق سب کر دیتے ہیں جو اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ کر بچوں کی طرح رو پڑتی ہے یا خوش ہو جاتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سپر انٹلکچوئل سمجھتی ہے۔ رفعت، جس کے لیے زندگی ہمیشہ ہنستی ناچتی رہتی ہے اور افروز جو نہایت سنجیدگی سے نو لفٹ کے فلسفے پر تھیسس لکھنے والی ہے کیوں کہ ان کی پارٹی کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انسان کو خود پسند، خودغرض اور مغرور ہونا چاہیے کیوں کہ خود پسندی دماغی صحت مندی کی سب سے پہلی علامت ہے۔
ایک سہ پہر وہ سب اپنے امریکن کالج کے طویل دریچوں والے فرانسیسی وضع کے میوزک روم میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ پیانو کے گرد جمع ہو کر سالانہ کونسرٹ کے اوپیرا کے لیے ریہرسل کر رہی تھیں۔ موسیقی کی ایک کتاب کے ورق الٹتے ہوئے کسی جرمن نغمہ نواز کی تصویر دیکھ کر پرکاش نے بے حد ہمدردی سے کہا، ’’ہمارے اویناش بھائی بھی تو اسکارف، لمبے لمبے بالوں، خواب ناک آنکھوں اور پائپ کے دھوئیں سے ایسا بوہیمین انداز بناتے ہیں کہ سب ان کو خواہ مخواہ جینیس سمجھنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘
’’آدمی کبھی جینیس ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ نشاط اپنے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ ’’اب تک جتنے جینیس پیدا ہوئے ہیں سارے کے سارے بالکل girlish تھے اور ان میں عورت کا عنصر قطعی طور پر زیادہ موجود تھا۔ بائرن، شیلے، کیٹس، شوپاں۔۔۔ خود آپ کا نپولین اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا تھا۔‘‘ رفعت آئرش دریچے کے قریب زور زور سے الاپنے لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں، گانے کی مشق کر رہی تھی۔ باہر برآمدے کے یونانی ستونوں اور باغ پر دھوپ ڈھلنا شروع ہو گئی۔ ’’سُپرب، میری بچیو! ہماری ریہرسلیں بہت اچھی طرح پروگرس کر رہی ہیں۔‘‘ اور موسیقی کی فرانسیسی پروفیسر اپنی مطمئن اور شیریں مسکراہٹ کے ساتھ میوزک روم سے باہر جا کر برآمدے کے ستونوں کے طویل سایوں میں کھو گئیں۔ نشاط نے اسی سکون اور اطمینان کے ساتھ پیانو بند کر دیا۔
زندگی کتنی دل چسپ ہے، کتنی شیریں۔ دریچے کے باہر سائے بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ’’لابوہیم‘‘ کے نغموں کی گونج اب تک رقصاں تھی۔ چاروں طرف کالج کی شان دار اور وسیع عمارتوں کی قطاریں شام کے دھندلکے میں چھپتی جا رہی تھیں۔ میرا پیارا کالج، ایشیا کا بہترین کالج، ایشیا میں امریکہ! لیکن اس کا اسے اس وقت خیال نہیں آیا۔ اس وقت اسے ہر بات عجیب معلوم نہیں ہوئی۔ وہ سوچ رہی تھی ہم کتنے اچھے ہیں۔ ہماری دنیا کس قدر مکمل اور خوش گوار ہے۔ اپنی معصوم مسرتیں اور تفریحیں، اپنے رفیق اور ساتھی، اپنے آئیڈیل اور نظریے اور اسی خوب صورت دنیا کا عکس وہ اپنے افسانوں میں دکھانا چاہتی ہے تو اس کی تحریروں کو fantastic اور مصنوعی کہا جاتا ہے۔۔۔ بے چاری میں!
موسیقی کے اوراق سمیٹتے ہوئے اسے اپنے آپ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس نے ایک بار اویناش کو سمجھایا تھا کہ ہماری شریعت کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنی تعریف آپ کرو۔ تعریف کے معاملے میں کبھی دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ محفوظ ترین بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً خود کو یاد دلاتے رہا جائے کہ ہم کس قدر بہترین ہیں۔ ہم کو اپنے علاوہ دنیا کی کوئی اور چیز بھی پسند نہیں آ سکی کیونکہ خود بادلوں کے محلوں میں محفوظ ہو کر دوسروں پر ہنستے رہنا بے حد دل چسپ مشغلہ ہے۔ زندگی ہم پر ہنستی ہے، ہم زندگی پر ہنستے ہیں۔ ’’اور پھر زندگی اپنے آپ پر ہنستی ہے۔‘‘ بے چارے اویناش نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا اور اگر افروز کا خیال تھا کہ وہ اس دنیا سے بالکل مطمئن نہیں تو پرکاش اور نشاط زریں کو، جو دونوں بے حد عقل مند تھیں، قطعی طور پر یقین تھا کہ یہ بھی ان کی mad-hatter’s پارٹی کی cynicism کا ایک خوب صورت اور فائدہ مند پوز ہے۔
اور سچ مچ افروز کو اس صبح محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی اس دنیا، اپنی اس زندگی سے انتہائی مطمئن اور خوش ہے۔ اس نے اپنی چاروں طرف دیکھا۔ اس کے کمرے کے مشرقی دریچے میں سے صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے آفتاب کی کرنیں چھن چھن کر اندر آ رہی تھیں اور کمرے کی ہلکی گلابی دیواریں اس نارنجی روشنی میں جگمگا اٹھی تھیں۔ باہر دریچے پر چھائی ہوئی بیل کے سرخ پھولوں کی بوجھ سے جھکی ہوئی لمبی لمبی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل ہل کر دریچے کے شیشوں پر اپنے سائے کی آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھیں۔ اس نے کتاب بند کر کے قریب کے صوفے پر پھینک دی اور ایک طویل انگڑائی لے کر مسہری سے کود کر نیچے اتر آئی۔ اس نے وقت دیکھا۔ صبح جاگنے کے بعد وہ بہت دیر تک پڑھتی رہی تھی۔ اس نے غسل خانے میں گھس کر کالج میں اسٹیج ہونے والے اوپیرا کا ایک گیت گاتے ہوئے منہ دھویا اور تیار ہو کر میز پر سے کتابیں اٹھاتی ہوئی باہر نکل آئی۔
کلاس کا وقت بہت قریب تھا۔ اس نے برساتی سے نکل کر ذرا تیزی سے لائن کو پار کیا اور پھاٹک کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ باغ کے راستے پر، سبزے کے کنارے، اس کا فیڈو روز کی طرح دنیا جہاں سے قطعی بے نیاز اور صلح کل انداز میں آنکھیں نیم وا کیے دھوپ سینک رہا تھا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے لمبے لمبے سفید ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے محسوس کیا، اس نے دیکھا کہ دنیا کتنی روشن، کتنی خوب صورت ہے۔ باغ کے پھول، درخت، پتیاں، شاخیں اسی سنہری دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ ہر چیز تازہ دم اور بشاش تھی۔ کھلی نیلگوں فضاؤں میں سکون اور مسرت کے خاموش راگ چھڑے ہوئے تھے۔ کائنات کس قدر پرسکون اور اپنے وجود سے کتنی مطمئن تھی۔
دور کوٹھی کے احاطے کے پچھلے حصے میں دھوبی نے باغ کے حوض پر کپڑے پٹخنے شروع کر دیے تھے اور نوکروں کے بچے اور بیویاں اپنے کوارٹروں کے سامنے گھاس پر دھوپ میں اپنے کاموں میں مصروف ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے شور مچا رہی تھیں۔ روزمرہ کی یہ مانوس آوازیں، یہ محبوب اور عزیز فضائیں۔۔۔ یہ اس کی دنیا تھی، اس کی خوب صورت اور مختصر سی دنیا اور اس نے سوچا کہ واقعی یہ اس کی حماقت ہے اگر وہ اپنی اس آرام دہ اور پرسکون کائنات سے آگے نکلنا اور سایوں کی اندھیری وادی میں جھانکنا چاہتی ہے۔ ایسے adventure ہمیشہ بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ اس نے فیڈو کو پیار کر کے اس کی جگہ پر بٹھا دیا اور آگے بڑھ گئی۔
باغ کے احاطے کی دوسری طرف انگریز ہمسائے کا بچہ گلِ داؤدی کی کیاریوں کے کنارے کنارے اپنے لکڑی کے گھوڑے پر سوار دھوپ میں جھلملاتے پروں والی تیتریوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خوب زور زور سے گا رہا تھا۔ “ah! this bootiful
bootiful world!” اس نے سوچا، لٹل مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور، خوب گاؤ! اور اپنے لکڑی کے گھوڑے پر خیالی مہمیں سر کرتے رہو۔ ایک وقت آئے گا جب تمھیں پتا چلے گا کہ دنیا کتنی بوٹی فل نہیں ہے۔
اور امرودوں کے جھنڈ کے اس پار کالج کے میوزک روم میں تیزی سے ریکارڈ بجنے شروع ہو گیے اور اسے یاد آگیا کہ کالج سے واپسی پر اسے اوپیرا کے علاوہ بنگال ریلیف کے ورائٹی شوکی ریہرسل کے لیے بھی جانا ہے اور وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ شام کو پروگرام تھا اور چاروں طرف زور شور سے اس کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ بنگال کا قحط ان دنوں اپنی انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ہر لڑکی اور لڑکے کے دل میں کچھ نہ کچھ کرنے کا سچّا جوش موجزن تھا۔
ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے سائیکلوں پر سول لائنز کی کوٹھیوں کے چکر لگائے جا رہے تھے۔ مشاعرے کے انتظام کے سلسلے میں بار بار ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا جا رہا تھا کیوں کہ اسی ہفتے ریڈیو پر مشاعرہ ہوا تھا جس کی شرکت کے لیے بہت سے مشہور ترنّم سے پڑھنے والے شعرائے کرام تشریف لے آئے تھے۔
میوزک روم کے پیچھے کے اور چرڈ میں بہت سی لڑکیاں ایک درخت کے نیچے انتہائی انہماک سے مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ کچھ پروگرام کے خوب صورت کاغذوں پر پینٹنگ کر رہی تھیں، کچھ قہقہے لگا لگا کر اس افتتاحیہ نظم کی تک بندی کر رہی تھیں جو پروگرام شروع ہونے پر قوالوں کے انداز اور انھی کے بھیس میں گائی جانی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی ان میں شامل ہو گئی۔
’’اور ہمارے سپر جینیس گروپ کے باقی افراد کہاں رہ گئے؟‘‘ سعیدہ نے پوچھا۔
’’پرکاش تو آج کل مہرہ اور اویناش کے ساتھ ہندوستان آزاد کرانے میں سخت مصروف ہے اور رفعت دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے کے بعد محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔‘‘
’’ہا بے چاری۔۔۔ اور ہمارا زبردست ادیب، مصور اور افسانہ نگار ابھی تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’آ گیے ہم۔۔۔‘‘ نشاط نے درخت کے نیچے پہنچ کر اپنی جاپانی چھتری بند کرتے ہوئے کہا۔
’’خدا کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ایسا ادیب بنائی۔‘‘ جلیس ایک قلابازی کھا کر بولی، ’’چلو اب قوالی مکمل کریں۔‘‘ اور ہنس ہنس کر لوٹتے ہوئے قوالی تیار کی جانے لگی۔ کیسے بے تکے اور دل چسپ شعر تھے، ’’وہ خود ہی نشانہ بنتے ہیں، ہم تیر چلانا کیا جانیں۔۔۔ انورسٹی کے پڑھنے والے ہم گانا بجانا کیا جانیں۔‘‘ اور جانے کیا کیا۔ کتنی خوش تھیں وہ سب۔۔۔ زندگی کی یہ معصوم، شریر، چھوٹی چھوٹی مسرّتیں!
اور اس وقت بھی دنیا اتنی ہی خوب صورت اور روشن تھی جب کہ غروب ہوتے ہوئے سورج کی ترچھی ترچھی نارنجی کرنیں اس کے دریچے میں سے گزرتی ہوئی گلابی دیواروں پر ناچ رہی تھیں اور کتابوں کی الماریوں اور سنگھار میز کی صفائی کرنے کے بعد صوفے کو دریچے کے قریب کھینچ کر شال میں لپٹی ہوئی کلاس کے نوٹس پڑھنے میں مصروف تھی۔ باہر فضا پر ایک آرام دہ، لطیف اور پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دور مال پر سے گزرتی ہوئی کاروں کے طویل ہارن سنائی دے جاتے تھے۔ دوسرے کمرے میں رفعت آہستہ آہستہ کچھ گا رہی تھی اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے برآمدے میں مدھم سروں میں گتار بج رہا تھا۔
اس نے کشن پر سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ فرصت، اطمینان اور سکون کے یہ لمحات۔ کیا آپ کو ان لمحوں کی قدر نہیں جو ایک دفعہ افق کی پہاڑیوں کے اس پار اڑ کر چلے جائیں تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ لمحے جب جاڑوں کی راتوں میں ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر کشمش اور چلغوزے کھاتے ہوئے گپ شپ اور scandal mongering کی جاتی ہے۔ وہ لمحے جب دھوپ میں کاہلی کے احساس کے ساتھ سبزے پر بلّیوں کی طرح لوٹ لگا کر ریکارڈ بجائے جاتے ہیں اور لڑا جاتا ہے اور پھر ایسے میں اسی طرح کے بیتے ہوئے وقتوں کی یاد اور یہ احساس کہ اپنی حماقت کی وجہ سے وہ وقت اب واپس نہیں آ سکتا، کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
دریچے کے نیچے روش پر موٹر بائیک رکنے کی آواز آئی۔ اس نے کشن پر سے سر اٹھا کر دیکھا۔ شاید مہرہ آیا تھا۔ رفعت دوڑتی ہوئی برآمدے کی سیڑھیوں پر سے اتر کے باغ میں چلی گئی۔ اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اس کے دریچے کے سامنے روش پر سے وہ سب گزرنے لگے۔ وہ بے چارے فریب خوردہ انسان جنھیں زندگی نے رنجیدہ کیا، زندگی جن کی وجہ سے غمگین ہوئی لیکن پھر بھی وہ سب وہاں موجود تھے۔ اس کے خیالوں میں آنے پر مصر تھے۔ اسے شاید یاد آیا۔۔۔ اور اس کے سارے بھائی۔ دور دراز کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے یہ شریر، خوب صورت اور ضدی، افسانوی سے رشتے کے بھائی، جو چھٹیوں میں گھر آتے ہیں اور ان کے رشتے کی بہن یا ان کی بہنوں کی سہیلیاں ان کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ وہ ان سے لڑتے ہیں، راتوں کو باغ میں چاند کو دیکھا جاتا ہے، پھر وہ ان سب کو دل شکستہ چھوڑ کر یا محاذ جنگ پر چلے جاتے ہیں یا ان میں سے کسی ایک سے شادی ہو جاتی ہے۔۔۔ اُف یہ حماقتیں۔۔۔! اور اسے وہ باتیں یاد کر کے ان سب پر بے اختیار ترس سا آگیا۔ یہ فریب کاریاں، یہ بے وقوفیاں!
اور اسے یاد آیا۔۔۔ فرصت اور بے فکری کے ایسے ہی لمحوں میں ایک مرتبہ اپنے اپنے مستقبل کی تصویریں کھینچی گئی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ سارے بہن بھائی ایک جگہ جمع ہو گیے تھے۔ دن بھر تصویریں اتاری جاتی تھیں۔ بزرگوں سے نظر بچا کر پینٹری میں سے حلوہ اور آئس کریم اڑائی جاتی تھی۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی۔
اس نے کہا تھا، ’’اب بھئی اسلم کا حشر سنیے۔ جب آپ پاس کر کے نکلیں گے تو ہو جائیں گے ایک دم سے لفٹیننٹ، پھر کیپٹن، پھر میجر۔ ڈاکٹروں کو بڑی جلدی جلدی ترقی دی جاتی ہے۔ بس۔۔۔ اور جناب اس قدر خوش کہ دنیا کی ساری لڑکیاں آپ پر پیش ہیں۔ ہال میں جا رہے ہیں، پکچرز میں لڑکیاں اچک اچک کر آپ کی زیارت کر رہی ہیں، چاروں طرف برف کی سفید سفید گڑیوں جیسی، انگارہ سے سرخ ہونٹوں والی نرسیں بھاگی پھر رہی ہیں۔ چھٹی پر گھر آتے ہیں تو سب کا انتقال ہوا جا رہا ہے اور آپ مارے شان کے کسی کو لفٹ ہی نہیں دیتے۔ سٹیس یا مل کے ہاں بہترین پوز کی بہت سی تصویریں کھنچوا لی ہیں اور وہ اپنی ایڈمائرز کو عنایت کی جا رہی ہیں۔ پھر بھائی لڑائی کے بعد جو آپ کو کان پکڑ کر نکال کے باہر کھڑا کر دیا جائے گا کہ بھیا گھر کا راستہ لو تو جناب آپ امین آباد کے پیچھے ایک پھٹیچر سا میڈیکل ہال کھول کر بیٹھیں گے۔ اب بھائی اسلم بھائی ہیں کہ ایک بد رنگ سی کرسی پر بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ کوئی مریض آ کے ہی نہیں دیتا۔ پھر بھئی ایک روز کرنا خدا کا کیا ہو گا کہ ایک شان دار بیوک رکے گی آپ کی دکان کے آگے اور اس میں سے ایک بے حد عظیم الشان خاتون ناک پر رومال رکھے اتر کر پوچھیں گی کہ بھئی ہمارے فیڈو کو زکام ہو گیا ہے۔ یہاں کوئی گھوڑا ہسپتال کا ڈاکٹر۔۔۔‘‘
اور اسلم نے کہا تھا، ’’ہش، چپ رہو جی۔۔۔ بیگم صاحبہ ہو کس خیال میں۔ بندہ تو ہو جائے گا لفٹننٹ کرنل تین سال بعد۔ اور لڑائی کے بعد ہوتا ہے سول سرجن۔ اور بھئی کیا ہو گا کہ ایک روز بی افروز اپنے پندرہ بچوں کی پلٹن لیے بیل گاڑی میں چلی آ رہی ہیں اور سامنے گاڑی بان کے پاس یہ بڑا سا زرد پگڑ باندھے اور ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لیے بی افروز کے راجہ بہادر بیٹھے ہیں اور بھئی ہم چپراسی سے کہلوا دیں گے کہ سول سرجن صاحب معائنہ کرنے تشریف لے گیے ہیں، شام کو آئیے گا۔ اب جناب افروز بیگم برآمدے میں بینچ پر بیٹھی ہیں برقعہ پہنے۔۔۔‘‘
’’ہائے چپ رہو بھئی۔۔۔ خدا نہ کرے جو زرد پگڑ اور بیل گاڑی۔۔۔‘‘
’’اور کیا، منظر احمد سے جو تم شادی کرو گی تو کیا رولز رائس چلا کرے گی تمھارے یہاں؟ بیل گاڑیوں پر ہی پڑی جایا کرنا اپنے گاؤں۔‘‘
’’بیل گاڑی پر جانا تم اور زرد پگڑ بھی خدا کرے تم ہی باندھو۔ آئے وہاں سے بڑے بے چارے۔‘‘
’’اور بھئی حضرتِ داغ کا یہ ہو گا۔۔۔ شاہد نے اپنے مخصوص انداز سے کہنا شروع کیا، ’’کہ یہ خاکسار جب کئی سال تک ایم ایس سی میں لڑھک چکے گا تو وار ٹیکنیشنز میں بھرتی ہو جائے گا اور پھر بھی رفعت کی کوٹھی پر پہنچے گا کہ بھئی بڑے دن کے سلام کے لیے آئے ہیں۔ صاحب کہلوا دیں گے کہ پھر آنا، صاحب کلب گیے ہیں۔ بس بھئی ہم وہاں برساتی کی سیڑھیوں پر، گملوں کی آڑ میں، اس امید پر بیٹھ جائیں گے کہ شاید بی رفعت نکل آئیں اندر سے لیکن جب چپراسی کی ڈانٹ پڑے گی تو چلے آئیں گے واپس اور کوٹھی کے پھاٹک کے باہر پہنچ کر کان میں سے چونی نکال سگریٹ اور دو پیسوں والی سینما کے گانے کی کتاب خرید کر گاتے ہوئے گھر کا راستہ لیں گے۔۔۔ اکھیاں ملا کے۔۔۔ جیا برما کے۔۔۔ چلے نہیں جانا۔‘‘
’’نہیں بھئی، خدا نہ کرے، ایسا کیوں ہو! تم تو پروگرام کے مطابق اعلیٰ درجے کے فلرٹ بنو گے اور ریلوے کے اعلیٰ انجینئر۔ اپنے ٹھاٹ سے سیلون میں سیر کرتے پھرا کرو گے۔‘‘رفعت نے کہا تھا۔ باغ میں سے رفعت کے مدھم قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جو کچھ انھوں نے مذاق مذاق میں سوچا تھا وہ نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی نہیں ہوتا اور اسلم اور اس کی کھینچی ہوئی راجہ بہادر کی تصویر اس کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔
اسلم، جو میدان جنگ میں جا کر عرصہ ہوا لاپتہ ہو چکا تھا اور منظر احمد، جو اس شام آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے بڑے بڑے شیشوں والی جھلملاتی ہوئی گیلری میں سے نکل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا لیکن جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ہمیں اپنے خیالوں سے بھی یوں ہی نکال دو تو جانیں۔
اور باغ میں اندھیرا چھانے لگا۔ گتار بجتا رہا اور افروز سوچتی رہی، زندگی کے یہ مذاق! اس روز ’’یوم ٹیگور‘‘ کے لیے ریڈیو اسٹیشن کے آرکیسٹرا کے ساتھ رقص کی ری ہرسل کرنے کے بعد وہ پرکاش اور اجلا کے ساتھ وہاں واپس آ رہی تھی اور لیلا رام کے سامنے سے وہ اپنی اسپورٹس کار پر آتا نظر آیا تھا۔۔۔ پرکاش کو دیکھ کر اس نے کار روک لی تھی، ’’کہیے مس شیرالے کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’گھر جا رہی ہیں۔‘‘
’’چلیے میں آپ کو پہنچا دوں۔‘‘
اور افروز نے کہنا چاہا تھا کہ ہماری کار آتی ہو گی، آپ تکلیف نہ کیجیے۔ لیکن پرکاش نے اپنی مثالی خوش خلقی کی وجہ سے فوراً اس کی درخواست قبول کر لی تھی اور پھر اس کے گھر تک وہ کار پندرہ میل کی رفتار سے اس قدر آہستہ ڈرائیو کر کے لایا تھا جیسے کسی بارات کے ساتھ جا رہا ہو، محض اس لیے کہ اسے افروز کو اپنی کار میں زیادہ سے زیادہ دیر تک بٹھانے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع مل سکے اور اس نے سوچا تھا کہ اگر وہ اس منظر احمد کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی تو بہرحال مائنڈ بھی نہیں کرے گی، حالاں کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا فلرٹ ہے، کبھی کبھی ڈرنک بھی کر لیتا ہے اور نشاط نے تو یہ تک کہا تھا کہ اپنی ریاست میں اس کی کیپ بھی موجود ہے۔ ’’لیکن بھئی کیا تعجب ہے؟‘‘ نشاط کہہ رہی تھی، ’’سب ہی جانتے ہیں کہ تعلقہ داروں کے لڑکے کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
اور پھر ایک روز وہ اور پرکاش خریداری کے بعد کافی ہاؤس چلے گیے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ برسات کی دوپہر! بارش ہو کر رکی تھی۔ فضا پر ایک لطیف سی خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کافی ہاؤس میں بھی قریب قریب بالکل سناٹا تھا۔ وہ ایک ستون کی آڑ میں بیٹھ گیے اور سامنے کے مرمریں ستون پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں انھوں نے دیکھا کہ دوسری طرف منظر احمد بیٹھا ہے۔ خوب! یہ حضرت دوپہر کو بھی کافی ہاؤس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس نے ذرا نفرت محسوس کرنے کی کوشش کی اور پرکاش کو دیکھ کر وہ سگریٹ کی راکھ جھاڑتا ہوا ان کی میز پر آ بیٹھا، ’’ہلو۔۔۔ افروز سلطانہ۔۔۔ ہلو۔۔۔‘‘ اس نے اپنے لہجے میں بقدرِ ضرورت خنکی اور خشکی پیدا کرتے ہوئے مختصر سا جواب دے دیا اور کافی بنانے میں مشغول ہو گئی۔ وہ اپنی تخیلی سی آنکھوں سے باہر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا۔ کتنا بنتا ہے۔ یہ شخص بھی کبھی سنجیدہ ہو سکتا ہے جس کی زندگی کا واحد مقصد کھیلنا اور صرف کھیلتے رہنا ہے؟
پرکاش خریداری کی فہرست بنانے میں منہمک تھی۔ پھر وہ یک لخت کہنے لگا، ’’افروز سلطانہ! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے دل میں میری طرف سے بڑی خوف ناک قسم کی بدگمانیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔‘‘
’’جی مجھے بدگمانی وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ بدگمانیاں تو اسے ہوسکتی ہیں جسے پہلے سے آپ کی طرف سے حسنِ ظن ہو۔ یہاں آپ سے دل چسپی ہی کس کو ہے؟‘‘
’’ہنہ۔۔۔ ذرا بننا تو دیکھو۔‘‘ وہ کہتا رہا، ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کو بتایا گیا ہے میں۔۔۔ میں ڈرنک کرتا ہوں۔۔۔ اور۔۔۔ اور اسی قسم کی بہت سی حرکتیں۔۔۔ مختصر یہ کہ میں انتہائی برا آدمی ہوں۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں؟ کیا آپ مجھے واقعی ایسا ہی سمجھتی ہیں؟‘‘ اور اس نے آہستہ آہستہ بڑی رومینٹک نقرئی آواز میں بات ختم کر کے سگریٹ کی راکھ جھٹکی اور پام کے پتوں کے پرے دیکھنے لگا۔۔۔ اور وہ سچ مچ بہت پریشان ہو گئی کہ کیا کہے کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ منظر احمد اس وقت بقول شخصے قطعی نون سیریس نہیں ہے اور اس نے کہا، ’’بھئی میں نے قطعی کوئی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کے متعلق۔۔۔‘‘
’’اچھا، یہ بات ہے۔‘‘ اس نے بات ختم کرنے کا انتظار کیے بغیر اسی نقرئی آواز میں آہستہ سے کہا، ’’اجازت دیجیے، خدا حافظ مس شیرالے۔۔۔‘‘ اور وہ ایک دم سے اس کی میز پر سے اٹھ کر چلا گیا اور کر لی لوکس کشنوں کے انبار پر سے گر پڑی۔ ’’جناب تشریف لے گیے۔‘‘ پرکاش نے فہرست کے کاغذ پر سے سر اٹھا کر پوچھا۔ باہر اگست کی ہوائیں ہال کے بڑے بڑے دریچوں کے شیشوں س
اور کہانیوں کے اس ملک کو جانے والے راستے کے کنارے کنارے بہت سے سائن پوسٹ کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے ’’صرف موٹروں کے لیے‘‘
’’یہ عام راستہ نہیں‘‘ اور شام کے اندھیرے میں زناٹے سے آتی ہوئی کاروں کی تیز روشنی میں نرگس کے پھولوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں سے جھانکتے ہوئے یہ الفاظ جگمگا اٹھتے ہیں، ’’پلیز آہستہ چلائیے۔۔۔ شکریہ!‘‘
اور بہار کی شگفتہ اور روشن دوپہروں میں سنہرے بالوں والی کر لی لوکس، سنڈریلا اور اسنو وائٹ چھوٹی چھوٹی پھولوں کی ٹوکریاں لے کر اس راستے پر چیری کے شگوفے اور ستارۂ سحری کی کلیاں جمع کرنے آیا کرتی تھیں۔
ایک روز کیا ہوا کہ ایک انتہائی ڈیشنگ شہ سوار راستہ بھول کر صنوبروں کی اس وادی میں آ نکلا جو دور دراز کی سرزمینوں سے بڑے بڑے عظیم الشان معرکے سر کر کے چلا آ رہا تھا۔ اس نے اپنے شان دار گھوڑے پر سے جھک کر کہا، ’’مائی ڈیر ینگ لیڈی کیسی خوش گوار صبح ہے!‘‘کر لی لوکس نے بے تعلقی سے جواب دیا، ’’اچھا، واقعی؟ تو پھر کیا ہوا؟‘‘
شہ سوار کی خواب ناک آنکھوں نے خاموشی سے کہا، ’’پسند کرو ہمیں۔‘‘ کر لی لوکس کی بڑی بڑی روشن اور نیلی آنکھوں میں بے نیازی جھلملا اٹھی۔ ’’جناب عالی ہم بالکل نوٹس نہیں لیتے۔‘‘ شہ سوار نے اپنی خصوصیات بتائیں۔ ایک شان دار سی امپیریل سروس کے مقابلے میں ٹاپ کیا ہے۔ اب تک ایک سو پینتیس ڈوئیل لڑ چکا ہوں۔ بہترین قسم کا heart breakerہو ں۔ کر لی لوکس نے غصے سے اپنی سنہری لٹیں جھٹک دیں اور اپنے بادامی ناخنوں کے برگنڈی کیوٹیکس کو غور سے دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ سنڈریلا اور اسنو وائٹ پگڈنڈی کے کنارے اسٹرابری چنتی رہیں۔ اور ڈیشنگ شہ سوار نے بڑے ڈرامائی انداز سے جھک کر نرسری کا ایک پرانا گیت یاد دلایا،
کر لی لوکس کر لی لوکس
یعنی اے میری پیاری چینی کی گڑیا۔
تمھیں برتن صاف کرنے نہیں پڑیں گے۔
اور بطخوں کو لے کر چراگاہ میں جانا نہیں ہو گا۔
بلکہ تم کشنوں پر بیٹھی بیٹھی اسٹرابری کھایا کرو گی۔
اے میری سنہرے گھنگھریالے بالوں والی مغرور شہزادی ایمیلیا ہنری ایٹامرایا۔۔۔ دو نینا متوارے تمھارے ہم پر ظلم کریں۔
اور پھر وہ ڈیشنگ شہ سوار اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوسری سرزمینوں کی طرف نکل گیا جہاں اور بھی زیادہ عظیم الشان اور زبردست معرکے اس کے منتظر تھے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازِ بازگشت پہاڑی راستوں اور وادیوں میں گونجتی رہی۔
پھر ایک اور بات ہوئی جس کی وجہ سے چاند کی وادی کے باسی غمگین رہنے لگے کیوں کہ ایک خوش گوار صبح معصوم کوک روبن ستارۂ سحری کے سبزے پر مقتول پایا گیا۔ مرحوم پر کسی ظالم نے تیر چلایا تھا۔ سنڈریلا رونے لگی۔ بے چارا میرا سرخ اور نیلے پروں والا گڈّو سا پرندہ۔ پرستان کی ساری چڑیوں، خرگوشوں اور گلہریوں نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد پتا چلا لیا اور بالاتفاق رائے اس کی بے وقت اور جوان مرگی پر تعزیت کی قرارداد منظور کی گئی۔ یونی ورسٹی میں کوک روبن ڈے منایا گیا لیکن عقل مند پوسی کیٹ نے، جو فل بوٹ پہن کر ملکہ سے ملنے لندن جایا کرتی تھی، سنڈریلا سے کہا، ’’روؤ مت میری گڑیا، یہ کوک روبن تو یوں ہی مرا کرتا ہے اور پھر فرسٹ ایڈ ملتے ہی فوراً زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور کوک روبن سچ مچ زندہ ہو گیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اور ہمیشہ کی طرح وادی کے سبزے پر بکھرے ہوئے بھیڑوں کے گلے کی ننھی مُنّی گھنٹیاں اور دور سمندر کے کنارے شفق میں کھوئے ہوئے پرانے عبادت خانوں کے گھنٹے آہستہ آہستہ بجتے رہے۔۔۔ ڈنگ ڈونگ، ڈنگ ڈونگ بل، پوسی ان وَ ویل۔
ڈنگ ڈونگ۔ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ جیسے کر لی لوکس کہہ رہی ہو، نہیں، نہیں، نہیں، نہیں!
اور اس نے کہا۔ نہیں نہیں۔ یہ تو پریوں کے ملک کی باتیں تھیں۔ میں کوک روبن نہیں ہوں، نہ آپ کر لی لوکس یا سنڈریلا ہیں۔ ناموں کی ٹوکری میں سے جو پرچی میرے ہاتھ پڑی ہے اس پر ریٹ بٹلر لکھا ہے لہٰذا آپ کو اسکارٹ اوہارا ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر آپ جو لیٹ یا کلیوپٹرا ہیں تو رومیو یا انطونی صاحب کو تلاش فرمائیے اور میں قاعدے سے مس اوہارا کی فکر کروں گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ جو لیٹ یا بیٹرس یا ماری انطونی نہیں ہیں اور میں قطعی ریٹ بٹلر نہیں ہو سکتا، کاش آپ محض آپ ہوتیں اور میں صرف میں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی اپنی تلاش شروع کریں۔
ہم سب کے راستے یوں ہی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے پھر الگ الگ چلے جاتے ہیں، لیکن پرستان کی طرف تو ان میں سے کوئی راستہ بھی نہیں جاتا۔
چوکو بارز کی اسٹالوں اور لکی ڈپ کے خیمے کے رنگین دھاری دار پردوں کے پیچھے چاندی کی ننھی منی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ پوسی بے چاری کنویں میں گر گئی اور ٹوم اسٹاؤٹ بے فکری سے چوکو بارز کھاتا رہا۔ پھر وہ سب زندگی کی ٹریجڈی میں غور کرنے میں مصروف ہو گیےکیوں کہ وہ چاند کی وادی کے باسی نہیں تھے لیکن اتنے احمق تھے کہ پرستان کی پگڈنڈی پر موسمِ گل کے پہلے سفید شگوفے تلاش کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے اور اس کوشش میں انھیں ہمیشہ کسی نہ کسی اجنبی ساحل، کسی نہ کسی ان دیکھی، اَن جانی چٹان پر فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑتی تھی۔
وہ کئی تھے۔ ڈک ڈنگٹن جسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اسے فل بوٹ پہننے والی وہ پوسی کیٹ مل ہی جائے گی جو اسے خوابوں کے شہر کی طرف اپنے ساتھ لے جائے اور اسے یقین تھا کہ خوابوں کے شہر میں ایک نیلی آنکھوں والی ایلس اپنے ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور وہ افسانہ نگار جو سوچتا تھا کہ کسی رو پہلے راج ہنس کے پروں پر بیٹھ کر اگر وہ زندگی کے اس پار کہانیوں کی سرزمین میں پہنچ جائے جہاں چاند کے قلعے میں خیالوں کی شہزادی رہتی ہے تو وہ اس سے کہے، ’’میری مغرور شہزادی! میں نے تمھارے لیے اتنی کہانیاں، اتنے اوپیرا اور اتنی نظمیں لکھی ہیں۔ میرے ساتھ دنیا کو چلو تو دنیا کتنی خوب صورت، زندہ، رہنے اور محبت کرنے کے قابل جگہ بن جائے۔‘‘
لیکن روپہلا راج ہنس اسے کہیں نہ ملتا تھا اور وہ اپنے باغ میں بیٹھا بیٹھا کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا تھا اور جو خوب صورت اور عقل مند لڑکی اس سے ملتی،، اسے ایک لمحے کے لیے یقین ہو جاتا کہ خیالوں کی شہزادی چاند کے ایوانوں میں سے نکل آئی ہے لیکن دوسرے لمحے یہ عقل مند لڑکی ہنس کر کہتی کہ افوہ بھئی فن کار صاحب! کیا cynicism بھی اس قدر الٹرا فیشن ایبل چیز بن گئی ہے اور آپ کو یہ مغالطہ کب سے ہو گیا ہے کہ آپ جینیس بھی ہیں اور اس کے نقرئی قہقہے کے ساتھ چاند کی کرنوں کی وہ ساری سیڑھیاں ٹوٹ کر گر پڑتیں جن کے ذریعے وہ اپنی نظموں میں خیالستان کے محلوں تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی۔ اندھیری، ٹھنڈی اور بد صورت۔۔۔ اور سنڈریلا جو ہمیشہ اپنا ایک بلوریں سینڈل رات کے اختتام پر خوابوں کی جھلملاتی رقص گاہ میں بھول آتی تھی، اور وہ ڈیشنگ شہ سوار جو پرستان کی خاموش، شفق کے رنگوں میں کھوئی ہوئی پگڈنڈیوں پر اکیلے اکیلے ہی ٹہلا کرتا تھا اور برف جیسے رنگ اور سرخ انگارہ جیسے ہونٹوں والی اسنو وائٹ جو رقص کرتی تھی تو بوڑھے بادشاہ کول کے دربار کے تینوں پری زاد مغنی اپنے وائلن بجانا بھول جاتے تھے۔
’’اور‘‘ ریٹ بٹلر نے اس سے کہا، ’’مس اوہارا آپ کو کون سا رقص زیادہ پسند ہے۔ ٹینگو۔۔۔ فوکس ٹروٹ۔۔۔ رومبا۔۔۔ آئیے لیمبتھ واک کریں۔‘‘
اور افروز اپنے پارٹنر کے ساتھ رقص میں مصروف ہو گئی، حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکارلٹ اور ہارا نہیں ہے کیوں کہ وہ چاند کی دنیا کی باسی نہیں تھی۔ سبزے پر رقص ہو رہا تھا۔ روش کی دوسری طرف ایک درخت کے نیچے، لکڑی کے عارضی پلیٹ فارم پر چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا اپنی پوری سوئنگ میں تیزی سے بج رہا تھا۔۔۔ اور پھر ایک دم سے قطعے کے دوسرے کنارے پر ایستادہ لاؤڈ اسپیکر میں کارمن میرانڈا کا ریکارڈ چیخنے لگا، ’’تم آج کی رات کسی کے بازوؤں میں ہونا چاہتی ہو؟‘‘ لکی ڈپ اور ’’عارضی کافی ہاؤس‘‘ کے رنگین خیموں پر بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بجتی رہیں اور کسی نے اس کے دل میں آہستہ آہستہ کہا، موسیقی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ زندگی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ شوپاں کے نغمے۔۔۔ ’’جپسی مون۔‘‘ اور خدا!
اس نے اپنے ہم رقص کے مضبوط، پراعتماد، مغرور بازوؤں پر اپنا بوجھ ڈال کر ناچ کے ایک کوئیک اسٹیپ کا ٹرن لیتے ہوئے اس کے شانوں پر دیکھا۔ سبزے پر اس جیسے کتنے انسان اس کی طرح دو دو کے رقص کی ٹکڑیوں میں منتشر تھے۔ ’’جولیٹ‘‘ اور ’’رومیو‘‘، ’’وکٹوریہ‘‘ اور ’’البرٹ‘‘، ’’بیٹرس‘‘ اور ’’دانتے‘‘ ایک دوسرے کو خوب صورت دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی اس مصنوعی، عارضی، چاند کی وادی میں کتنے خوش تھے وہ سب کے سب۔۔۔! بہار کے پہلے شگوفوں کی متلاشی اور کاغذی کلیوں پر قانع اور مطمئن۔۔۔ زندگی کے تعاقب میں پریشان و سرگرداں زندگی۔۔۔ ہُنہ۔۔۔ شوپاں کی موسیقی، سفید گلاب کے پھول، اور اچھی کتابیں۔ کاش! زندگی میں صرف یہی ہوتا۔
چاند کی وادی کے اس افسانہ نگار اویناش نے ایک مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ہُنہ۔۔۔ کتنا بنتے ہو اویناش! ابھی سامنے سے ایک خوب صورت لڑکی گزر جائے اور تم اپنی ساری تخیل پرستیاں بھول کر سوچنے لگو گے کہ اس کے بغیر تمھاری زندگی میں کتنی بڑی کمی ہے۔۔۔ اور اویناش نے کہا تھا، کاش جو ہم سوچتے وہی ہوا کرتا، جو ہم چاہتے وہی ملتا۔۔۔ ہائے یہ زندگی کا لکی ڈپ۔۔۔! زندگی، جس کا جواب مونا لیزا کا تبسم ہے جس میں نرسری کے خوب صورت گیت اور چاند ستارے ترشتی ہوئی کہانیاں تمھارا مذاق اڑاتی، تمھارا منہ چڑاتی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، جہاں کوک روبن پھر سے زندہ ہونے کے لیے روز نئے نئے تیروں سے مرتا رہتا ہے۔۔۔ اور کر لی لوکس ریشمیں کشنوں کے انبار پر کبھی نہیں چڑھ پاتی۔ کاش افروز تم— اور پھر وہ خاموش ہو گیا تھا کیوں کہ اسے یاد آگیا تھا کہ افروز کو ’’کاش۔۔۔‘‘ اس سستے اور جذباتی لفظ سے سخت چڑ ہے۔ اس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جیسے تمھیں خود پر اعتماد، بھروسہ، یقین نہیں۔
اور افروز لیبتھ واک کی اچھل کود سے تھک گئی۔ کیسا بے ہودہ سا ناچ ہے۔ کس قدر بے معنی اور فضول سے steps ہیں۔ بس اچھلتے اور گھومتے پھر رہے ہیں، بے وقوفوں کی طرح۔
’’مس اوہارا۔۔۔‘‘اس کے ہم رقص نے کچھ کہنا شروع کیا۔
’’افروز سلطانہ کہیے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ مس افروز حمید علی۔۔۔ آئیے کہیں بیٹھ جائیں۔‘‘
’’بیٹھ کر کیا کریں؟‘‘
’’ار۔۔۔ باتیں!‘‘
’’باتیں آپ کر ہی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ مس حمید علی آپ یہ ہیں، آپ وہ ہیں، آپ بے حد عمدہ رقص کرتی ہیں، آپ نے کل کے سنگلز میں پرکاش کو خوب ہرایا۔۔۔‘‘
’’ار۔۔۔ غالباً آپ کو سیاسیات سے۔۔۔‘‘
’’شکریہ، اویناش اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر موسیقی یا پال مُنی کی نئی فلم۔۔۔‘‘
’’مختصر یہ کہ آپ خاموش کسی طرح نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔‘‘وہ چپ ہو گیا۔
پھر شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ درختوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے جھلملا اٹھے اور وہ سب سبزے کو خاموش اور سنسان چھوڑ کے بال روم کے اندر چلے گئے۔ آرکیسٹرا کی گت تبدیل ہو گئی۔ جاز اپنی پوری تیزی سے بجنے لگا۔ وہ ہال کے سرے پر شیشے کے لمبے لمبے دریچوں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے قریب اس کی ممانی کا چھوٹا بھائی، جو کچھ عرصے قبل امریکہ سے واپس آیا تھا، میری ووڈ سے باتیں کرنے میں مشغول تھا اور بہت سی لڑکیاں اپنی سبز بید کی کرسیاں اس کے آس پاس کھینچ کر انتہائی انہماک اور دل چسپی سے باتیں سن رہی تھیں اور میری ووڈ ہنسے جا رہی تھی۔ میری ووڈ، جو سانولی رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک اعلیٰ خاندان عیسائی لڑکی اور انگریز کرنل کی بیوی تھی، ایک ہندوستانی فلم میں کلاسیکل رقص کر چکی تھی اور اب جاز کی موسیقی اور شیری کے گلاسوں کے سہارے اپنی شامیں گزار رہی تھی۔
اور پائپوں اور سگرٹوں کے دھوئیں کا ملا جلا لرزتا ہوا عکس بال روم کی سبز روغنی دیواروں پر بنے ہوئے طیاروں، پام کے درختوں اور رقصاں اپسراؤں کے دھندلے دھندلے نقوش کو اپنی لہروں میں لپیٹتا، ناچتا، رنگین اور روشن چھت کی بلندی کی طرف اٹھتا رہا۔ خوابوں کا شبنم آلود سحر آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔
او ریک لخت، میری ووڈ نے زور سے ہنسنا اور چلّانا شروع کر دیا۔ افروز کی ممانی کے ہالی ووڈ پلٹ بھائی نے ذرا گھبرا کر اپنی کرسی پیچھے کو سرکا لی۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آرکیسٹرا کے سُر آہستہ آہستہ ڈوبتے گیے اور دبی دبی اور مدھم قہقہوں کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رو لڑکی، جو بہت دیر سے ایک ہندوستانی پرنس کے ساتھ ناچ رہی تھی، تھک کر افروز کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور اس کا باپ، جو ایک ہندوستانی ریاست کی فوج کا افسر اعلیٰ تھا، فرن کے پتوں کے پیچھے گیلری میں بیٹھا اطمینان سے سگار کا دھواں اڑاتا رہا۔
پھر کھیل شروع ہوئے اور ایک بے حد اوٹ پٹانگ سے کھیل میں حصہ لینے کے لیے سب دوبارہ ہال کی فلور پر آ گیے اور افروز کا ہم رقص ریٹ بٹلر اپنے خواب ناک آنکھوں والے دوست کے ساتھ اس کے قریب آیا، ’’مس حمید علی آپ میری پارٹنر ہیں نا؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ آئیے۔‘‘
اور اس خواب ناک آنکھوں والے دوست نے کہا، ’’بارہ بجنے والے ہیں۔ نیا سال مبارک ہو۔ لیکن آج اتنی خاموش کیوں ہیں آپ؟‘‘
’’آپ کو بھی مبارک ہو لیکن ضرورت ہے کہ اس زبردست خوشی میں خواہ مخواہ کی بے کار باتوں کا سلسلہ رات بھر ختم ہی نہ کیا جائے۔‘‘
’’لیکن میں تو چاہتا ہوں کہ آپ اس طرح خاموش نہ رہیں۔ اس سے خواہ مخواہ یہ ظاہر ہو گا کہ آپ کو اس مجمعے میں ایک مخصوص شخص کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہے۔‘‘
’’پر جو آپ چاہیں، لازم تو نہیں کہ دوسروں کی بھی وہی مرضی ہو۔ کیوں کہ جب آپ کچھ کہتے ہوتے ہیں اس وقت آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ساری دنیا بے حد دل چسپی سے آپ کی طرف متوجہ ہے اور بعد میں لڑکیاں کہتی ہیں، افوہ! کس قدر مزے کی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔
اتنے میں پرکاش کاغذ اور پنسلیں تقسیم کرتی ہوئی ان کی طر ف آئی اور ان کو ان کے فرضی نام بتاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے سب چپ ہو گیے۔ پھر قہقہوں کے شور کے ساتھ کھیل شروع ہوا۔ کھیل کے دوران میں اس نے اپنی خواب ناک آنکھیں اٹھا کر یوں ہی کچھ نہ کچھ بولنے کی غرض سے پوچھا، ’’جی، تو ہم کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہم باتیں قطعی کر ہی نہیں رہے تھے۔ کیوں نہ آپ قاعدے سے اپنی پارٹنر کے ساتھ جا کر کھیلیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں اسکارلٹ اوہارا ہوں۔ جو لیٹ ابھی آپ کو تلاش کر رہی تھی۔ پھر ڈاکٹر مہرہ اور اویناش اس کی طرف آ گیےاور وہ ان کے ساتھ کھیل میں مصروف ہو گئی۔
اور جب رات کے اختتام پر وہ رفعت کے ساتھ اپنا اوور کوٹ لینے کے لیے کلوک روم کی طرف جا رہی تھی تو گیلری کے سامنے کی طرف سے گزرتے ہوئے اس نے اس سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ کے باپ کو اپنے دوستوں سے کہتے سنا، ’’آپ میرے داماد میجر بھنڈاری سے ملے؟ مجھے تو فخر ہے کہ میری بڑی لڑکی نے اپنے فرقے سے باہر شادی کرنے میں ذات اور مذہب کی دقیانوسی قیود کی پروا نہیں کی۔ میری لڑکی کا انتخاب پسند آیا آپ کو؟ ہی ہی ہی۔ دراصل میں نے اپنی چاروں لڑکیوں کا ٹیسٹ کچھ اس طرح cultivate کیا ہے کہ پچھلی مرتبہ جب میں ان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا تو۔۔۔‘‘ اور افروز جلدی سے بال روم کے باہر نکل آئی۔ یہ زندگی۔۔۔ یہ زندگی کا گھٹیا پن!
واقعی۔۔۔! یہ زندگی۔۔۔!
اور جشن نو روز کے دوسرے دن اس بے چارے ریٹ بٹلر نے اپنے دوست، اس خواب ناک آنکھوں والے ڈیشنگ شہ سوار سے کہا، جو پرستان کے راستوں پر سب سے الگ الگ ٹہلا کرتا تھا، ’’عجب لڑکی ہے بھئی۔‘‘
’’ہوا کرے۔‘‘اور وہ خواب ناک آنکھوں والا دوست بے نیازی سے سگریٹ کے دھوئیں کے حلقے بنا بنا کر چھت کی طرف بھیجتا رہا۔ اور اس عجیب لڑکی کی دوست کہہ رہی تھی، ’’ہُنہ، اس قدر مغرور، مغالطہ فائیڈ قسم کا انسان۔‘‘
’’ہوا کرے بھئی۔ ہم سے کیا۔‘‘اور افروز بے تعلقی کے ساتھ نٹنگ میں مصروف ہو گئی۔
’’اتنی اونچی بننے کی کوشش کیوں کر رہی ہو؟‘‘رفعت نے چڑ کر پوچھا۔
’’کیا ہرج ہے۔‘‘
’’کوئی ہرج ہی نہیں؟ قسم خدا کی افروز اس اویناش کے فلسفے نے تمھارا دماغ خراب کر دیا ہے۔‘‘
’’تو گویا تمھارے لیے زنجیر ہلائی جائے۔‘‘
’’فوہ۔ جیسے آپ یوں ہی نو لفٹ جاری رکھیں گی۔‘‘
’’قطعی۔۔۔! زندگی تمھارے لیے ایک مسلسل جذباتی اضطراب ہے لیکن مجھے اصولوں میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔۔۔ جانتی ہو زندگی کے یہ ایئر کنڈیشنڈ اصول بڑے کارآمد اور محفوظ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
’’فوہ۔۔۔ کیا بلند پروازی ہے۔‘‘
’’میں؟‘‘
’’تم اور وہ۔۔۔ خدا کی قسم ایسی بے پرواہی سے بیٹھا رہتا ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ جی چاہتا ہے پکڑ کر کھا جاؤں اسے۔ جھکنا جانتا ہی نہیں جیسے۔‘‘
’’ارے چپ رہو بھائی۔‘‘
’’سچ مچ اس کی آنکھوں کی گہرائیاں اتنی خاموش، اس کا انداز اتنا پر وقار، اتنا بے تعلق ہے کہ بعض مرتبہ جی میں آتا ہے کہ بس خودکشی کر لو۔ یعنی ذرا سوچو تو، تم جانتی ہو کہ تمھارے کشن کے نیچے یا مسہری کے سرہانے میز پر بہترین قسم کی کیڈ بری چاکلیٹ کا بڑا سا خوب صورت پیکٹ رکھا ہوا ہے لیکن تم اسے کھا نہیں سکتیں۔۔۔ الو!‘‘
’’کون بھئی۔۔۔؟‘‘پرکاش نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’کوئی نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک۔۔۔‘‘رفعت نے اپنے غصے کے مطابقت میں کوئی موزوں نام سوچنا چاہا۔
’’بلّا۔۔۔‘‘افروز نے اطمینان سے کہا۔
’’بلا!‘‘پرکاش کافی پریشان ہو گئی۔
’’ہاں بھئی۔۔۔ ایک بلّا ہے بہت ہی typical قسم کا ایرانی بلّا۔‘‘ افروز بولی۔
’’تو کیا ہوا اس کا؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔ ہوتا کیا؟ سب ٹھیک ہے بالکل۔ بس ذرا اسے اپنی آنکھوں پر بہت ناز ہے اور ان مسعود اصغر صاحب کا کیا ہو گا؟ جو مسوری سے مار خط پہ خط نہایت اسٹائیلش انگریزی میں تمھارے ٹینس کی تعریف میں بھیجا کرتے ہیں۔‘‘
’’ان کو تار دے دیا جائے۔۔۔ nose upturned-nose upturned-riffat:
’’ہاں۔ یعنی لفٹ نہیں دیتے۔ جس کی ناک ذرا اوپر کو اٹھی ہوتی ہے وہ آدمی ہمیشہ بے حد مغرور اور خود پسند طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔‘‘
’’تو تمھاری ناک اتنی اٹھی ہوئی کہاں ہے۔‘‘
’’قطعی اٹھی ہوئی ہے۔ بہترین پروفائل آتا ہے۔‘‘
’’واقعی ہم لوگ بھی کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’جناب، بے حد مفید اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔‘‘
’’اور صلاح الدین بے چارہ!‘‘
’’وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا اب تک۔‘‘ رفعت نے بڑی رنجیدہ انداز سے کہا۔
کیوں کہ یہ ان کا تخیلی کردار تھا اور خیالستان کے کردار چاند کی وادی میں سے کبھی نہیں نکلتے۔ جب کبھی وہ سب کسی پارٹی میں ملیں تو سب سے پہلے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے اس فرضی ہستی کی خیریت پوچھی جاتی، اس کے متعلق اوٹ پٹانگ باتیں کی جاتیں اور اکثر انھیں محسوس ہوتا جیسے انھیں یقین سا ہو گیا ہے کہ ان کا خیالی کردار اگلے لمحے ان کی دنیا اور ان کی زندگی میں داخل ہو جائے گا۔
اور فرصت اور بے فکری کی ایک خوش گوار شام انھوں نے یوں ہی باتیں کرتے کرتے صلاح الدین کی اس خیالی تصویر کو مکمل کیا تھا۔ وہ سب شاپنگ سے واپس آ کر منظر احمد پر زور شور سے تبصرہ کر رہی تھیں جو ان سے دیر تک آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے ایک کاؤنٹر پر باتیں کرتا رہا تھا اور پرکاش نے قطعی فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ بے حد بنتا ہے اور افروز بے حد پریشان تھی کہ کس طرح اس کا یہ مغالطہ دور کرے کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔
’’لیکن اسے لفٹ دینے کی کوئی معقول وجہ پیش کرو۔‘‘
’’کیوں کہ بھئی ہمارا معیار اس قدر بلند ہے کہ کوئی مارک تک پہنچ نہیں سکتا۔‘‘
’’لہٰذا اب کی بار اس کو بتا دیا جائے گا کہ بھئی افروز کی تو منگنی ہونے والی ہے۔‘‘
’’لیکن کس سے؟‘‘
’’یہی تو طے کرنا باقی ہے۔ مثلاً۔۔۔ مثلاً ایک آدمی سے۔ کوئی نام بتاؤ۔‘‘
’’پرویز۔‘‘
’’بڑا عام افسانوی سا نام ہے۔ کچھ اور سوچو!‘‘
’’سلامت اللہ!‘‘
’’ہش۔ بھئی واہ، کیا شان دار نام دماغ میں آیا۔۔۔ صلاح الدین!‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ اچھا، اور بھائی صلاح الدین کا تعارف کس طرح کرایا جائے؟‘‘
’’بھئی صلاح الدین صاحب جو تھے وہ ایک روز پرستان کے راستے پر شفق کے گل رنگ سائے تلے مل گیے۔‘‘
’’پرستان کے راستے پر؟‘‘
’’چپکی سنتی جاؤ۔ جانتی ہو میں اس قدر بہترین افسانے لکھتی ہوں جن میں سب پرستان کی باتیں ہوتی ہیں۔ بس پھر یہ ہوا کہ۔۔۔‘‘
’’جناب ہم تو اس دنیا کے باسی ہیں۔ پرستان اور کہانیوں کی پگڈنڈیوں پر تو صرف اویناش ہی بھٹکتا اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’چچ چچ چچ۔ بے چارہ اویناش۔۔۔ گڈو۔‘‘
’’بھئی ذکر تو صلاح الدین کا تھا۔‘‘
’’خیر تو جناب صلاح الدین صاحب پرستان کے راستے پر ہرگز نہیں ملے۔ وہ بھی ہماری دنیا کے باسی ہیں اور ان کا دماغ قطعی خراب نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ سب ہی میٹر آف فیکٹ طریقے سے۔‘‘
’’یہ ہوا کہ افروز دل کشا جا رہی تھی تو ریلوے کراسنگ کے پاس بے حد رومینٹک انداز سے اس کی کار خراب ہو گئی۔‘‘
’’نہیں بھئی واقعہ یہ تھا کہ افروز آفیسرز شاپ جو گئی ایک روز تو پتا چلا کہ وہ غلط تاریخ پر پہنچ گئی ہے، اور وہ اپنا کارڈ بھی گھر بھول گئی تھی۔ بس بھائی صلاح الدین جو تھے انھوں نے جب دیکھا کہ ایک خوب صورت لڑکی برگنڈی رنگ کا کیوٹکس نہ ملنے کے غم میں رو پڑنے والی ہے تو انھوں نے بے حد gallantly آگے بڑھ کر کہا کہ ’’خاتون میرا آج کی تاریخ کا کارڈ بے کار جا رہا ہے، اگر آپ چاہیں۔۔۔‘‘
’’بہت ٹھیک۔ آگے چلو۔ پھر کیا ہونا چاہیے؟‘‘
’’بس وہ پیش ہو گیے۔‘‘
’’نہ پیش نہ زیر نہ زبر۔۔۔ افروز نے فوراً نو لفٹ کر دیا اور بے چارے دل شکستہ ہو گیے۔‘‘
’’اچھا ان کا کیریکٹر۔۔۔‘‘
’’بہت ہی بیش فُل۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ کافی تیز۔۔۔ لیکن بھئی ڈینڈی قطعی نہیں برداشت کیے جائیں گے۔‘‘
’’قطعی نہیں صاحب۔۔۔ اور اور فلرٹ ہوں تھوڑے سے۔۔۔‘‘
’’تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ اچھا وہ کرتے کیا ہیں؟‘‘
’’بھئی ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کرتے ہوں گے!‘‘
’’آرمی میں رکھ لو۔۔۔‘‘
’’اووق۔۔۔ حد ہو گئی تمھارے اسسٹنٹ کی۔ کچھ سوال سروس وغیرہ کا لاؤ۔‘‘
’’سب بور ہوتے ہیں۔‘‘
’’ارے ہم بتائیں، کچھ کرتے کراتے نہیں۔ منظر احمد کی طرح تعلقہ دار ہیں۔ پچیس گاؤں اور ایک یہی رومینٹک سی جھیل جہاں پر وہ کرسمس کے زمانے میں اپنے دوستوں کو مدعو کیا کرتے ہیں۔ ہاں اور ایک شان دار سی اسپورٹس کار۔۔۔‘‘
’’لیکن بھئی اس کے باوجود بے انتہا قومی خدمت کرتا ہے۔ کمیونسٹ قسم کی کوئی مخلوق۔‘‘
’’کمیونسٹ ہے تو اسے اپنے پچیسوں گاؤں علاحدہ کر دینے چاہئیں کیوں کہ پرائیویٹ پراپرٹی۔۔۔‘‘
’’واہ، اچھے بھائی بھی تو اتنے بڑے کمیونسٹ ہیں۔ انھوں نے کہاں اپنا تعلقہ چھوڑا ہے؟‘‘
’’آپ تو چغد ہیں نشاط زریں۔۔۔ اچھے بھیا تو سچ مچ کے آدمی ہیں۔ ہیرو کو بے حد آئیڈیل قسم کا ہونا چاہیے۔ یعنی غور کرو صلاح الدین محمود کس قدر بلند پایہ انسان ہے کہ جنتا کی خاطر۔۔۔‘‘
’’افوہ۔۔۔ کیا بوریت ہے بھئی۔ تم سب مل کر ابھی یہی طے نہیں کر پائیں کہ وہ کرتا کیا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہوئی ہے واللہ!‘‘
’’جلدی بتاؤ۔‘‘
’’اصفہانی چائے میں۔۔۔‘‘
اور سب پر ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔
’’کیوں جناب اصفہانی چائے میں بڑے بڑے اسمارٹ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی قصہ مختصر یہ کہ پڑھتا ہے۔ فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے گویا۔‘‘
’’پڑھتا ہے تو آفیسرز شاپ میں کہاں سے پہنچ گیا!‘‘
’’بھئی ہم نے فیصلہ کر دیا ہے آخر۔ ہوائی جہاز میں سول ایوی ایشن آفیسر ہے۔‘‘
’’یہ آئیڈیا کچھ۔۔۔‘‘
’’تمھیں کوئی آئیڈیا ہی پسند نہیں آیا۔ اب تمھارے لیے کوئی آسمان سے تو خاص طور پر بن کر آئے گا نہیں آدمی۔‘‘
’’اچھا تو پھر یہی مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور جو غرور کے مارے اب تک ڈیڈی پر کال کرنے نہیں آئے۔‘‘
اور اس طرح انھوں نے ایک تخیلی کردار کی تخلیق کی تھی۔ سب ہی اپنے دلوں میں چپکے چپکے ایسے کرداروں کی تخلیق کر لیتے ہیں جو ان کی دنیا میں آ کر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے بے وقوف لوگ!
لیکن پرکاش کا خیال تھا کہ ان کی mad-hatter’s پارٹی میں سب کے سب حد سے زیادہ عقل مند ہیں۔ مغرور اور خود پسند نشاط زریں جو ایسے fantastic افسانے لکھتی ہے جن کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن جن کی تعریف ایٹی کیٹ کے اصولوں کے مطابق سب کر دیتے ہیں جو اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ کر بچوں کی طرح رو پڑتی ہے یا خوش ہو جاتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سپر انٹلکچوئل سمجھتی ہے۔ رفعت، جس کے لیے زندگی ہمیشہ ہنستی ناچتی رہتی ہے اور افروز جو نہایت سنجیدگی سے نو لفٹ کے فلسفے پر تھیسس لکھنے والی ہے کیوں کہ ان کی پارٹی کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انسان کو خود پسند، خودغرض اور مغرور ہونا چاہیے کیوں کہ خود پسندی دماغی صحت مندی کی سب سے پہلی علامت ہے۔
ایک سہ پہر وہ سب اپنے امریکن کالج کے طویل دریچوں والے فرانسیسی وضع کے میوزک روم میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ پیانو کے گرد جمع ہو کر سالانہ کونسرٹ کے اوپیرا کے لیے ریہرسل کر رہی تھیں۔ موسیقی کی ایک کتاب کے ورق الٹتے ہوئے کسی جرمن نغمہ نواز کی تصویر دیکھ کر پرکاش نے بے حد ہمدردی سے کہا، ’’ہمارے اویناش بھائی بھی تو اسکارف، لمبے لمبے بالوں، خواب ناک آنکھوں اور پائپ کے دھوئیں سے ایسا بوہیمین انداز بناتے ہیں کہ سب ان کو خواہ مخواہ جینیس سمجھنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘
’’آدمی کبھی جینیس ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ نشاط اپنے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ ’’اب تک جتنے جینیس پیدا ہوئے ہیں سارے کے سارے بالکل girlish تھے اور ان میں عورت کا عنصر قطعی طور پر زیادہ موجود تھا۔ بائرن، شیلے، کیٹس، شوپاں۔۔۔ خود آپ کا نپولین اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا تھا۔‘‘ رفعت آئرش دریچے کے قریب زور زور سے الاپنے لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں، گانے کی مشق کر رہی تھی۔ باہر برآمدے کے یونانی ستونوں اور باغ پر دھوپ ڈھلنا شروع ہو گئی۔ ’’سُپرب، میری بچیو! ہماری ریہرسلیں بہت اچھی طرح پروگرس کر رہی ہیں۔‘‘ اور موسیقی کی فرانسیسی پروفیسر اپنی مطمئن اور شیریں مسکراہٹ کے ساتھ میوزک روم سے باہر جا کر برآمدے کے ستونوں کے طویل سایوں میں کھو گئیں۔ نشاط نے اسی سکون اور اطمینان کے ساتھ پیانو بند کر دیا۔
زندگی کتنی دل چسپ ہے، کتنی شیریں۔ دریچے کے باہر سائے بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ’’لابوہیم‘‘ کے نغموں کی گونج اب تک رقصاں تھی۔ چاروں طرف کالج کی شان دار اور وسیع عمارتوں کی قطاریں شام کے دھندلکے میں چھپتی جا رہی تھیں۔ میرا پیارا کالج، ایشیا کا بہترین کالج، ایشیا میں امریکہ! لیکن اس کا اسے اس وقت خیال نہیں آیا۔ اس وقت اسے ہر بات عجیب معلوم نہیں ہوئی۔ وہ سوچ رہی تھی ہم کتنے اچھے ہیں۔ ہماری دنیا کس قدر مکمل اور خوش گوار ہے۔ اپنی معصوم مسرتیں اور تفریحیں، اپنے رفیق اور ساتھی، اپنے آئیڈیل اور نظریے اور اسی خوب صورت دنیا کا عکس وہ اپنے افسانوں میں دکھانا چاہتی ہے تو اس کی تحریروں کو fantastic اور مصنوعی کہا جاتا ہے۔۔۔ بے چاری میں!
موسیقی کے اوراق سمیٹتے ہوئے اسے اپنے آپ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس نے ایک بار اویناش کو سمجھایا تھا کہ ہماری شریعت کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنی تعریف آپ کرو۔ تعریف کے معاملے میں کبھی دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ محفوظ ترین بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً خود کو یاد دلاتے رہا جائے کہ ہم کس قدر بہترین ہیں۔ ہم کو اپنے علاوہ دنیا کی کوئی اور چیز بھی پسند نہیں آ سکی کیونکہ خود بادلوں کے محلوں میں محفوظ ہو کر دوسروں پر ہنستے رہنا بے حد دل چسپ مشغلہ ہے۔ زندگی ہم پر ہنستی ہے، ہم زندگی پر ہنستے ہیں۔ ’’اور پھر زندگی اپنے آپ پر ہنستی ہے۔‘‘ بے چارے اویناش نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا اور اگر افروز کا خیال تھا کہ وہ اس دنیا سے بالکل مطمئن نہیں تو پرکاش اور نشاط زریں کو، جو دونوں بے حد عقل مند تھیں، قطعی طور پر یقین تھا کہ یہ بھی ان کی mad-hatter’s پارٹی کی cynicism کا ایک خوب صورت اور فائدہ مند پوز ہے۔
اور سچ مچ افروز کو اس صبح محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی اس دنیا، اپنی اس زندگی سے انتہائی مطمئن اور خوش ہے۔ اس نے اپنی چاروں طرف دیکھا۔ اس کے کمرے کے مشرقی دریچے میں سے صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے آفتاب کی کرنیں چھن چھن کر اندر آ رہی تھیں اور کمرے کی ہلکی گلابی دیواریں اس نارنجی روشنی میں جگمگا اٹھی تھیں۔ باہر دریچے پر چھائی ہوئی بیل کے سرخ پھولوں کی بوجھ سے جھکی ہوئی لمبی لمبی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل ہل کر دریچے کے شیشوں پر اپنے سائے کی آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھیں۔ اس نے کتاب بند کر کے قریب کے صوفے پر پھینک دی اور ایک طویل انگڑائی لے کر مسہری سے کود کر نیچے اتر آئی۔ اس نے وقت دیکھا۔ صبح جاگنے کے بعد وہ بہت دیر تک پڑھتی رہی تھی۔ اس نے غسل خانے میں گھس کر کالج میں اسٹیج ہونے والے اوپیرا کا ایک گیت گاتے ہوئے منہ دھویا اور تیار ہو کر میز پر سے کتابیں اٹھاتی ہوئی باہر نکل آئی۔
کلاس کا وقت بہت قریب تھا۔ اس نے برساتی سے نکل کر ذرا تیزی سے لائن کو پار کیا اور پھاٹک کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ باغ کے راستے پر، سبزے کے کنارے، اس کا فیڈو روز کی طرح دنیا جہاں سے قطعی بے نیاز اور صلح کل انداز میں آنکھیں نیم وا کیے دھوپ سینک رہا تھا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے لمبے لمبے سفید ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے محسوس کیا، اس نے دیکھا کہ دنیا کتنی روشن، کتنی خوب صورت ہے۔ باغ کے پھول، درخت، پتیاں، شاخیں اسی سنہری دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ ہر چیز تازہ دم اور بشاش تھی۔ کھلی نیلگوں فضاؤں میں سکون اور مسرت کے خاموش راگ چھڑے ہوئے تھے۔ کائنات کس قدر پرسکون اور اپنے وجود سے کتنی مطمئن تھی۔
دور کوٹھی کے احاطے کے پچھلے حصے میں دھوبی نے باغ کے حوض پر کپڑے پٹخنے شروع کر دیے تھے اور نوکروں کے بچے اور بیویاں اپنے کوارٹروں کے سامنے گھاس پر دھوپ میں اپنے کاموں میں مصروف ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے شور مچا رہی تھیں۔ روزمرہ کی یہ مانوس آوازیں، یہ محبوب اور عزیز فضائیں۔۔۔ یہ اس کی دنیا تھی، اس کی خوب صورت اور مختصر سی دنیا اور اس نے سوچا کہ واقعی یہ اس کی حماقت ہے اگر وہ اپنی اس آرام دہ اور پرسکون کائنات سے آگے نکلنا اور سایوں کی اندھیری وادی میں جھانکنا چاہتی ہے۔ ایسے adventure ہمیشہ بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ اس نے فیڈو کو پیار کر کے اس کی جگہ پر بٹھا دیا اور آگے بڑھ گئی۔
باغ کے احاطے کی دوسری طرف انگریز ہمسائے کا بچہ گلِ داؤدی کی کیاریوں کے کنارے کنارے اپنے لکڑی کے گھوڑے پر سوار دھوپ میں جھلملاتے پروں والی تیتریوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خوب زور زور سے گا رہا تھا۔ “ah! this bootiful
bootiful world!” اس نے سوچا، لٹل مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور، خوب گاؤ! اور اپنے لکڑی کے گھوڑے پر خیالی مہمیں سر کرتے رہو۔ ایک وقت آئے گا جب تمھیں پتا چلے گا کہ دنیا کتنی بوٹی فل نہیں ہے۔
اور امرودوں کے جھنڈ کے اس پار کالج کے میوزک روم میں تیزی سے ریکارڈ بجنے شروع ہو گیے اور اسے یاد آگیا کہ کالج سے واپسی پر اسے اوپیرا کے علاوہ بنگال ریلیف کے ورائٹی شوکی ریہرسل کے لیے بھی جانا ہے اور وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ شام کو پروگرام تھا اور چاروں طرف زور شور سے اس کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ بنگال کا قحط ان دنوں اپنی انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ہر لڑکی اور لڑکے کے دل میں کچھ نہ کچھ کرنے کا سچّا جوش موجزن تھا۔
ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے سائیکلوں پر سول لائنز کی کوٹھیوں کے چکر لگائے جا رہے تھے۔ مشاعرے کے انتظام کے سلسلے میں بار بار ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا جا رہا تھا کیوں کہ اسی ہفتے ریڈیو پر مشاعرہ ہوا تھا جس کی شرکت کے لیے بہت سے مشہور ترنّم سے پڑھنے والے شعرائے کرام تشریف لے آئے تھے۔
میوزک روم کے پیچھے کے اور چرڈ میں بہت سی لڑکیاں ایک درخت کے نیچے انتہائی انہماک سے مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ کچھ پروگرام کے خوب صورت کاغذوں پر پینٹنگ کر رہی تھیں، کچھ قہقہے لگا لگا کر اس افتتاحیہ نظم کی تک بندی کر رہی تھیں جو پروگرام شروع ہونے پر قوالوں کے انداز اور انھی کے بھیس میں گائی جانی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی ان میں شامل ہو گئی۔
’’اور ہمارے سپر جینیس گروپ کے باقی افراد کہاں رہ گئے؟‘‘ سعیدہ نے پوچھا۔
’’پرکاش تو آج کل مہرہ اور اویناش کے ساتھ ہندوستان آزاد کرانے میں سخت مصروف ہے اور رفعت دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے کے بعد محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔‘‘
’’ہا بے چاری۔۔۔ اور ہمارا زبردست ادیب، مصور اور افسانہ نگار ابھی تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’آ گیے ہم۔۔۔‘‘ نشاط نے درخت کے نیچے پہنچ کر اپنی جاپانی چھتری بند کرتے ہوئے کہا۔
’’خدا کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ایسا ادیب بنائی۔‘‘ جلیس ایک قلابازی کھا کر بولی، ’’چلو اب قوالی مکمل کریں۔‘‘ اور ہنس ہنس کر لوٹتے ہوئے قوالی تیار کی جانے لگی۔ کیسے بے تکے اور دل چسپ شعر تھے، ’’وہ خود ہی نشانہ بنتے ہیں، ہم تیر چلانا کیا جانیں۔۔۔ انورسٹی کے پڑھنے والے ہم گانا بجانا کیا جانیں۔‘‘ اور جانے کیا کیا۔ کتنی خوش تھیں وہ سب۔۔۔ زندگی کی یہ معصوم، شریر، چھوٹی چھوٹی مسرّتیں!
اور اس وقت بھی دنیا اتنی ہی خوب صورت اور روشن تھی جب کہ غروب ہوتے ہوئے سورج کی ترچھی ترچھی نارنجی کرنیں اس کے دریچے میں سے گزرتی ہوئی گلابی دیواروں پر ناچ رہی تھیں اور کتابوں کی الماریوں اور سنگھار میز کی صفائی کرنے کے بعد صوفے کو دریچے کے قریب کھینچ کر شال میں لپٹی ہوئی کلاس کے نوٹس پڑھنے میں مصروف تھی۔ باہر فضا پر ایک آرام دہ، لطیف اور پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دور مال پر سے گزرتی ہوئی کاروں کے طویل ہارن سنائی دے جاتے تھے۔ دوسرے کمرے میں رفعت آہستہ آہستہ کچھ گا رہی تھی اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے برآمدے میں مدھم سروں میں گتار بج رہا تھا۔
اس نے کشن پر سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ فرصت، اطمینان اور سکون کے یہ لمحات۔ کیا آپ کو ان لمحوں کی قدر نہیں جو ایک دفعہ افق کی پہاڑیوں کے اس پار اڑ کر چلے جائیں تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ لمحے جب جاڑوں کی راتوں میں ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر کشمش اور چلغوزے کھاتے ہوئے گپ شپ اور scandal mongering کی جاتی ہے۔ وہ لمحے جب دھوپ میں کاہلی کے احساس کے ساتھ سبزے پر بلّیوں کی طرح لوٹ لگا کر ریکارڈ بجائے جاتے ہیں اور لڑا جاتا ہے اور پھر ایسے میں اسی طرح کے بیتے ہوئے وقتوں کی یاد اور یہ احساس کہ اپنی حماقت کی وجہ سے وہ وقت اب واپس نہیں آ سکتا، کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
دریچے کے نیچے روش پر موٹر بائیک رکنے کی آواز آئی۔ اس نے کشن پر سے سر اٹھا کر دیکھا۔ شاید مہرہ آیا تھا۔ رفعت دوڑتی ہوئی برآمدے کی سیڑھیوں پر سے اتر کے باغ میں چلی گئی۔ اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اس کے دریچے کے سامنے روش پر سے وہ سب گزرنے لگے۔ وہ بے چارے فریب خوردہ انسان جنھیں زندگی نے رنجیدہ کیا، زندگی جن کی وجہ سے غمگین ہوئی لیکن پھر بھی وہ سب وہاں موجود تھے۔ اس کے خیالوں میں آنے پر مصر تھے۔ اسے شاید یاد آیا۔۔۔ اور اس کے سارے بھائی۔ دور دراز کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے یہ شریر، خوب صورت اور ضدی، افسانوی سے رشتے کے بھائی، جو چھٹیوں میں گھر آتے ہیں اور ان کے رشتے کی بہن یا ان کی بہنوں کی سہیلیاں ان کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ وہ ان سے لڑتے ہیں، راتوں کو باغ میں چاند کو دیکھا جاتا ہے، پھر وہ ان سب کو دل شکستہ چھوڑ کر یا محاذ جنگ پر چلے جاتے ہیں یا ان میں سے کسی ایک سے شادی ہو جاتی ہے۔۔۔ اُف یہ حماقتیں۔۔۔! اور اسے وہ باتیں یاد کر کے ان سب پر بے اختیار ترس سا آگیا۔ یہ فریب کاریاں، یہ بے وقوفیاں!
اور اسے یاد آیا۔۔۔ فرصت اور بے فکری کے ایسے ہی لمحوں میں ایک مرتبہ اپنے اپنے مستقبل کی تصویریں کھینچی گئی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ سارے بہن بھائی ایک جگہ جمع ہو گیے تھے۔ دن بھر تصویریں اتاری جاتی تھیں۔ بزرگوں سے نظر بچا کر پینٹری میں سے حلوہ اور آئس کریم اڑائی جاتی تھی۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی۔
اس نے کہا تھا، ’’اب بھئی اسلم کا حشر سنیے۔ جب آپ پاس کر کے نکلیں گے تو ہو جائیں گے ایک دم سے لفٹیننٹ، پھر کیپٹن، پھر میجر۔ ڈاکٹروں کو بڑی جلدی جلدی ترقی دی جاتی ہے۔ بس۔۔۔ اور جناب اس قدر خوش کہ دنیا کی ساری لڑکیاں آپ پر پیش ہیں۔ ہال میں جا رہے ہیں، پکچرز میں لڑکیاں اچک اچک کر آپ کی زیارت کر رہی ہیں، چاروں طرف برف کی سفید سفید گڑیوں جیسی، انگارہ سے سرخ ہونٹوں والی نرسیں بھاگی پھر رہی ہیں۔ چھٹی پر گھر آتے ہیں تو سب کا انتقال ہوا جا رہا ہے اور آپ مارے شان کے کسی کو لفٹ ہی نہیں دیتے۔ سٹیس یا مل کے ہاں بہترین پوز کی بہت سی تصویریں کھنچوا لی ہیں اور وہ اپنی ایڈمائرز کو عنایت کی جا رہی ہیں۔ پھر بھائی لڑائی کے بعد جو آپ کو کان پکڑ کر نکال کے باہر کھڑا کر دیا جائے گا کہ بھیا گھر کا راستہ لو تو جناب آپ امین آباد کے پیچھے ایک پھٹیچر سا میڈیکل ہال کھول کر بیٹھیں گے۔ اب بھائی اسلم بھائی ہیں کہ ایک بد رنگ سی کرسی پر بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ کوئی مریض آ کے ہی نہیں دیتا۔ پھر بھئی ایک روز کرنا خدا کا کیا ہو گا کہ ایک شان دار بیوک رکے گی آپ کی دکان کے آگے اور اس میں سے ایک بے حد عظیم الشان خاتون ناک پر رومال رکھے اتر کر پوچھیں گی کہ بھئی ہمارے فیڈو کو زکام ہو گیا ہے۔ یہاں کوئی گھوڑا ہسپتال کا ڈاکٹر۔۔۔‘‘
اور اسلم نے کہا تھا، ’’ہش، چپ رہو جی۔۔۔ بیگم صاحبہ ہو کس خیال میں۔ بندہ تو ہو جائے گا لفٹننٹ کرنل تین سال بعد۔ اور لڑائی کے بعد ہوتا ہے سول سرجن۔ اور بھئی کیا ہو گا کہ ایک روز بی افروز اپنے پندرہ بچوں کی پلٹن لیے بیل گاڑی میں چلی آ رہی ہیں اور سامنے گاڑی بان کے پاس یہ بڑا سا زرد پگڑ باندھے اور ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لیے بی افروز کے راجہ بہادر بیٹھے ہیں اور بھئی ہم چپراسی سے کہلوا دیں گے کہ سول سرجن صاحب معائنہ کرنے تشریف لے گیے ہیں، شام کو آئیے گا۔ اب جناب افروز بیگم برآمدے میں بینچ پر بیٹھی ہیں برقعہ پہنے۔۔۔‘‘
’’ہائے چپ رہو بھئی۔۔۔ خدا نہ کرے جو زرد پگڑ اور بیل گاڑی۔۔۔‘‘
’’اور کیا، منظر احمد سے جو تم شادی کرو گی تو کیا رولز رائس چلا کرے گی تمھارے یہاں؟ بیل گاڑیوں پر ہی پڑی جایا کرنا اپنے گاؤں۔‘‘
’’بیل گاڑی پر جانا تم اور زرد پگڑ بھی خدا کرے تم ہی باندھو۔ آئے وہاں سے بڑے بے چارے۔‘‘
’’اور بھئی حضرتِ داغ کا یہ ہو گا۔۔۔ شاہد نے اپنے مخصوص انداز سے کہنا شروع کیا، ’’کہ یہ خاکسار جب کئی سال تک ایم ایس سی میں لڑھک چکے گا تو وار ٹیکنیشنز میں بھرتی ہو جائے گا اور پھر بھی رفعت کی کوٹھی پر پہنچے گا کہ بھئی بڑے دن کے سلام کے لیے آئے ہیں۔ صاحب کہلوا دیں گے کہ پھر آنا، صاحب کلب گیے ہیں۔ بس بھئی ہم وہاں برساتی کی سیڑھیوں پر، گملوں کی آڑ میں، اس امید پر بیٹھ جائیں گے کہ شاید بی رفعت نکل آئیں اندر سے لیکن جب چپراسی کی ڈانٹ پڑے گی تو چلے آئیں گے واپس اور کوٹھی کے پھاٹک کے باہر پہنچ کر کان میں سے چونی نکال سگریٹ اور دو پیسوں والی سینما کے گانے کی کتاب خرید کر گاتے ہوئے گھر کا راستہ لیں گے۔۔۔ اکھیاں ملا کے۔۔۔ جیا برما کے۔۔۔ چلے نہیں جانا۔‘‘
’’نہیں بھئی، خدا نہ کرے، ایسا کیوں ہو! تم تو پروگرام کے مطابق اعلیٰ درجے کے فلرٹ بنو گے اور ریلوے کے اعلیٰ انجینئر۔ اپنے ٹھاٹ سے سیلون میں سیر کرتے پھرا کرو گے۔‘‘رفعت نے کہا تھا۔ باغ میں سے رفعت کے مدھم قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جو کچھ انھوں نے مذاق مذاق میں سوچا تھا وہ نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی نہیں ہوتا اور اسلم اور اس کی کھینچی ہوئی راجہ بہادر کی تصویر اس کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔
اسلم، جو میدان جنگ میں جا کر عرصہ ہوا لاپتہ ہو چکا تھا اور منظر احمد، جو اس شام آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے بڑے بڑے شیشوں والی جھلملاتی ہوئی گیلری میں سے نکل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا لیکن جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ہمیں اپنے خیالوں سے بھی یوں ہی نکال دو تو جانیں۔
اور باغ میں اندھیرا چھانے لگا۔ گتار بجتا رہا اور افروز سوچتی رہی، زندگی کے یہ مذاق! اس روز ’’یوم ٹیگور‘‘ کے لیے ریڈیو اسٹیشن کے آرکیسٹرا کے ساتھ رقص کی ری ہرسل کرنے کے بعد وہ پرکاش اور اجلا کے ساتھ وہاں واپس آ رہی تھی اور لیلا رام کے سامنے سے وہ اپنی اسپورٹس کار پر آتا نظر آیا تھا۔۔۔ پرکاش کو دیکھ کر اس نے کار روک لی تھی، ’’کہیے مس شیرالے کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’گھر جا رہی ہیں۔‘‘
’’چلیے میں آپ کو پہنچا دوں۔‘‘
اور افروز نے کہنا چاہا تھا کہ ہماری کار آتی ہو گی، آپ تکلیف نہ کیجیے۔ لیکن پرکاش نے اپنی مثالی خوش خلقی کی وجہ سے فوراً اس کی درخواست قبول کر لی تھی اور پھر اس کے گھر تک وہ کار پندرہ میل کی رفتار سے اس قدر آہستہ ڈرائیو کر کے لایا تھا جیسے کسی بارات کے ساتھ جا رہا ہو، محض اس لیے کہ اسے افروز کو اپنی کار میں زیادہ سے زیادہ دیر تک بٹھانے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع مل سکے اور اس نے سوچا تھا کہ اگر وہ اس منظر احمد کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی تو بہرحال مائنڈ بھی نہیں کرے گی، حالاں کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا فلرٹ ہے، کبھی کبھی ڈرنک بھی کر لیتا ہے اور نشاط نے تو یہ تک کہا تھا کہ اپنی ریاست میں اس کی کیپ بھی موجود ہے۔ ’’لیکن بھئی کیا تعجب ہے؟‘‘ نشاط کہہ رہی تھی، ’’سب ہی جانتے ہیں کہ تعلقہ داروں کے لڑکے کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
اور پھر ایک روز وہ اور پرکاش خریداری کے بعد کافی ہاؤس چلے گیے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ برسات کی دوپہر! بارش ہو کر رکی تھی۔ فضا پر ایک لطیف سی خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کافی ہاؤس میں بھی قریب قریب بالکل سناٹا تھا۔ وہ ایک ستون کی آڑ میں بیٹھ گیے اور سامنے کے مرمریں ستون پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں انھوں نے دیکھا کہ دوسری طرف منظر احمد بیٹھا ہے۔ خوب! یہ حضرت دوپہر کو بھی کافی ہاؤس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس نے ذرا نفرت محسوس کرنے کی کوشش کی اور پرکاش کو دیکھ کر وہ سگریٹ کی راکھ جھاڑتا ہوا ان کی میز پر آ بیٹھا، ’’ہلو۔۔۔ افروز سلطانہ۔۔۔ ہلو۔۔۔‘‘ اس نے اپنے لہجے میں بقدرِ ضرورت خنکی اور خشکی پیدا کرتے ہوئے مختصر سا جواب دے دیا اور کافی بنانے میں مشغول ہو گئی۔ وہ اپنی تخیلی سی آنکھوں سے باہر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا۔ کتنا بنتا ہے۔ یہ شخص بھی کبھی سنجیدہ ہو سکتا ہے جس کی زندگی کا واحد مقصد کھیلنا اور صرف کھیلتے رہنا ہے؟
پرکاش خریداری کی فہرست بنانے میں منہمک تھی۔ پھر وہ یک لخت کہنے لگا، ’’افروز سلطانہ! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے دل میں میری طرف سے بڑی خوف ناک قسم کی بدگمانیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔‘‘
’’جی مجھے بدگمانی وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ بدگمانیاں تو اسے ہوسکتی ہیں جسے پہلے سے آپ کی طرف سے حسنِ ظن ہو۔ یہاں آپ سے دل چسپی ہی کس کو ہے؟‘‘
’’ہنہ۔۔۔ ذرا بننا تو دیکھو۔‘‘ وہ کہتا رہا، ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کو بتایا گیا ہے میں۔۔۔ میں ڈرنک کرتا ہوں۔۔۔ اور۔۔۔ اور اسی قسم کی بہت سی حرکتیں۔۔۔ مختصر یہ کہ میں انتہائی برا آدمی ہوں۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں؟ کیا آپ مجھے واقعی ایسا ہی سمجھتی ہیں؟‘‘ اور اس نے آہستہ آہستہ بڑی رومینٹک نقرئی آواز میں بات ختم کر کے سگریٹ کی راکھ جھٹکی اور پام کے پتوں کے پرے دیکھنے لگا۔۔۔ اور وہ سچ مچ بہت پریشان ہو گئی کہ کیا کہے کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ منظر احمد اس وقت بقول شخصے قطعی نون سیریس نہیں ہے اور اس نے کہا، ’’بھئی میں نے قطعی کوئی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کے متعلق۔۔۔‘‘
’’اچھا، یہ بات ہے۔‘‘ اس نے بات ختم کرنے کا انتظار کیے بغیر اسی نقرئی آواز میں آہستہ سے کہا، ’’اجازت دیجیے، خدا حافظ مس شیرالے۔۔۔‘‘ اور وہ ایک دم سے اس کی میز پر سے اٹھ کر چلا گیا اور کر لی لوکس کشنوں کے انبار پر سے گر پڑی۔ ’’جناب تشریف لے گیے۔‘‘ پرکاش نے فہرست کے کاغذ پر سے سر اٹھا کر پوچھا۔ باہر اگست کی ہوائیں ہال کے بڑے بڑے دریچوں کے شیشوں س
- क़ुर्रतुलऐन-हैदर
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میری عمر بس کوئی تیرہ چودہ برس کی تھی۔ ہم جس محلے میں رہتے تھے وہ شہر کے ایک بارونق بازار کے پچھواڑے واقع تھا۔ اس جگہ زیادہ تر درمیانے طبقے کے لوگ یا غریب غرباء ہی آباد تھے۔ البتہ ایک پرانی حویلی وہاں ایسی تھی جس میں اگلے وقتوں کی نشانی کوئی صاحب زادہ صاحب رہا کرتے تھے، ان کے ٹھاٹھ توکچھ ایسے امیرانہ نہ تھے مگر اپنے نام کے ساتھ ’’رئیس اعظم‘‘ لکھنا شایدوہ اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔ ادھیڑ عمر بھاری بھرکم آدمی تھے۔ گھر سے باہر ذرا کم ہی قدم نکالتے، ہاں ہر روز تیسرے پہر حویلی کے احاطہ میں اپنے احباب کے جھرمٹ میں بیٹھ کر گپیں لڑانا اور زورزور سے قہقہے لگانا ان کا دل پسند مشغلہ تھا۔
ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے ۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اورانعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔
جس زمانے کامیں ذکر کررہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کررہاہے۔ کبھی جٹادھاری سادھوہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہادیو‘‘ کا نعرہ لگارہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔
میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلاکا ضدی۔ ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔
ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔ کانوں میں سنہری بالے، بغل میں ایک لمبی سی سرخ بہی داب رکھی تھی۔ یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کرپل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
’’بھلا بتائو تو؟‘‘
’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘
’’یہاں کیوں آیا؟‘‘
’’میں کیا جانوں۔ تمہارے اس رئیس اعظم نے کچھ قرض ورض لیا ہوگا اس سے۔‘‘
’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘
’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہرکرتے ہوئے کہا، ’’بہروپیا کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کرامیرامراء کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا یہ شخص ہرروز آتاہے؟‘‘
’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار ۔ روز روز آئے تولوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘
’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘
’’بھلا کتنا انعام ملتاہوگا انہیں؟‘‘
’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیس اعظم صاحب اگرپانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔ اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکرنہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘
میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا مہاجن بناہوا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن جو کسی گہری سوچ میں ڈوباہوا تھا، اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔بہروپئے کا پیٹھ موڑنا تھاکہ مدن نے اچانک میرا ہاتھ زور سے تھام لیا اور دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس بہروپئے کا پیچھا کریں اوردیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے۔ اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘
’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا، ’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اورکن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘
مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوالے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ایسے لوگوں کے سر پر جب کوئی دھن سوار ہو جائے تو جب تک اسے پورا نہ کرلیں نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں نہ دوسروں کو چین لینے دیتے ہیں۔ ناچارمیں اس کی دوستی کی خاطر اس کے ساتھ ہو لیا۔
یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھ کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں دل ہی دل میں حساب لگانے لگا۔ ہمارا علاقہ شہر کے عین وسط میں ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے اگر بہروپیے نے آدھے شہر کا احاطہ بھی کرلیا ہوتو ابھی آدھا شہر باقی ہے جہاں اسے اپنے فن کی نمائش کے لیے جانا ضروری ہے۔ چنانچہ اگرزیادہ نہیں تو دو گھنٹے تو ضرورہی ہمیں اس کے پیچھے پیچھے چلنا پڑے گا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندرداخل ہوجاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔شفق کی کچھ کچھ سرخی ابھی آسمان پر باقی تھی کہ ان حاضریوں کا سلسلہ ختم ہوگیا کیونکہ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیاتھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگاتھا۔
ہم نے اب تک بڑی کامیابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔ چنانچہ ہمیں قدم قدم پر یہ دھڑکا تھا کہ کہیں اچانک وہ گردن پھیر کر ہمیں دیکھ نہ لے۔ بہرحال ہم انتہائی احتیاط کے ساتھ اور اس سے خاصی دور رہ کر اس کا تعاقب کرتے رہے۔
ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلدہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ اس وقت ان میں سے کئی جھونپڑوں میں چراغ جل رہے تھے۔ بہروپیا ان جھونپڑوں کے سامنے سے گزرتا ہوا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جوذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔
جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہوگی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے بہروپیے کو دیکھا، وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیے۔ بہروپیے نے ان کے سروں پرشفقت سے ہاتھ پھیرا ، پھر وہ ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا ،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘
ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظارکیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔
’’یہ وہی ہے‘‘۔ یکبارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘
اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔ میں اور مدن حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اب کے اس نے یہ کیسا روپ بھرا؟ اس وقت وہ کن لوگوں کو اپنے بہروپ کا کمال دکھانے جارہاہے؟
وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ ہم بدستور اس کے پیچھے لگے رہے۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر نہ تو اس نے جیب سے پیسے نکالے اور نہ پنواڑی نے اسے پان ہی بنا کے دیا، البتہ ان دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی جسے ہم نہیں سن سکے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔
پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابکدستی سے بنا تا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ہم کوئی آدھے گھنٹے تک بازار کے نکڑ پر کھڑے یہ تماشہ دیکھتے رہے، اس کے بعد ایک دم ہمیں سخت بھوک لگنے لگی اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔
اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اوردروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کراٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔
’’اسلم جلدی سے تیارہوجاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔
جب ہم کبھی دوڑتے ، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا، پھر صبح کو چار بجے کے قریب آپ ہی آپ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس کے بعد پھر اسے نیند نہ آئی۔ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گیے۔ پچھلی رات ہم اندھیرے میں اس علاقے کا صحیح جائزہ نہ لے سکے تھے مگر اب دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔
ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہو ئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولارنگ،اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔
وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلے۔ آگے ایک باڑا آیا جس میں کچھ گائیں، بھینسیں کھونٹوں سے بندھی ہوئی تھیں، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے ہو گیے جہاں سے ہم اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر وہ زمین پر بیٹھ کر اس کے تھنوں کو سہلانے لگا، اس کو دیکھ کر ایک بڈھا جو بھینسوں کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور ایک بڑی سی بالٹی لے آیا۔ اب اس شخص نے بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ ہم اگرچہ اس سے کچھ دور کھڑے تھے مگر دودھ کی دھاروں کی آواز دھیمی دھیمی سن سکتے تھے۔
جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا، پھر تیسری کی طرف، اس کے بعد گایوں کی باری آئی۔ اس نے دو تین گایوں کو بھی دوہا، جن کے دودھ کے لیے بڈھے نے ایک اور بالٹی لاکر رکھ دی تھی۔اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔ ہم پہلے ہی وہاں سے کھسک لیے تھے جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے مدن کو چھیڑنے کے لیے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر ۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘
’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا ۔ وہ تو گوالاتھا گوالا۔آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہم کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلتے رہے ہم نے اس کا ٹھکانہ تو دیکھ ہی لیا تھا اب وہ ہماری نگاہوں سے کہاں چھپ سکتا تھا۔جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ فصیل کے ساتھ والی سڑک پر تیزی سے ادھر آتاہوا دکھائی دیا۔ یہ تانگہ بہروپیے کے جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس میں کوئی سواری نہ تھی جو شخص تانگہ چلارہا تھا اس نے تانگے کی گھنٹی پاؤں سے دبا کر بجائی۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا تانگے سے اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور راسیں تھام گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘
دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔میں اور مدن یہ ماجرا دیکھ کر ایسے حیران رہ گیے کہ کچھ دیر تک ہماری زبان سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘
میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ اس بہروپیے کے معاملے سے اب خود مجھے بھی بہت دل چسپی پیداہوگئی تھی اور میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتناہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔ہم لوگ کھانے پینے سے فارغ ہو کر تین بجے سے پہلے ہی پھربہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی د ے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھرواپس پہنچ گیا ہے۔
ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہرنکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھاتھا۔ سرپر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کاسوانگ بھرا ہے۔ مگر ابھی کل ہی تووہ مہاجن کے روپ میں شہر کادورہ کرچکا تھا اور کوئی نیا روپ بھرنے کے لیے اسے دوتین دن کا وقفہ درکار تھا، پھر آج کس لیے اس نے یہ وضع بنائی ہے؟ اس سوال کاہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
چنانچہ ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شخص جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں میں سے گزرامگر خلاف معمول وہ کسی حویلی یا دکان پرنہیں رکا ۔ معلوم ہوتا تھا آج اسے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے اور داد پانے کاکچھ خیال نہیں ہے۔تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گیے جو شہر کے بیچو ں بیچ واقع تھی اور جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتاتھا اور اتوار کو تووہاں بہت ہی چہل پہل رہا کرتی تھی، میلہ سا لگ جاتا تھا۔ پھیری والے ہانک لگا لگا کے طرح طرح کی چیزیں بیچتے تھے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، چنریاں، ٹوپیاں، کنگھیاں، چٹلے ازار بند، عطرپھلیل، اگربتی، کھٹمل مارنے کا پوڈر، مٹھائیاں، چاٹ ، علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے اور ایسے ہی اور پیشے والے اپنی انوکھی وضع اور اپنی مخصوص صدا سے اس بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔
ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکرشامل ہوگیا۔اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر دونوں ہاتھوں میں تھام لی۔ اس صندوقچی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی شیشیاں قرینے سے رکھی تھیں۔ اس نے کچھ شیشیاں صندوقچی کے ڈھکنے پربھی جما دیں، پھر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی :’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کمزور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کونظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجئے۔‘‘
’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دستیاب ہواتھا۔ خدمت خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘
’’یہ سرمہ اسم بامسمیٰ ہے۔ اس کے لگاتے ہی آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ جاتی ہے۔ آئیے ایک سلائی لگوا کر آزمائش کر لیجئے۔ اس کے کچھ دام نہیں ۔
سرمئہ مفت نظرہوں میری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا
میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتاتھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کردی تھی۔ دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگیے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔
ان کے نام کی وجہ سے اکثر حاجت مند، یتیم خانوں کے ایجنٹ اور طرح طرح کے چندہ اگاہنے والے ان کے دروازے پر سوالی بن کر آیا کرتے ۔ علاوہ ازیں جادو کے پروفیسر، رمال، نجومی، نقال، بھاٹ اور اسی قماش کے دوسرے لوگ بھی اپنا ہنر دکھانے اورانعام اکرام پانے کی توقع میں آئے دن ان کی حویلی میں حاضری دیا کرتے۔
جس زمانے کامیں ذکر کررہا ہوں، ایک بہروپیا بھی طرح طرح کے روپ بھر کر ان کی حویلی میں آیا کرتا، کبھی خاکی کوٹ پتلون پہنے، چمڑے کا تھیلا گلے میں ڈالے، چھوٹے چھوٹے شیشوں اور نرم کمانیوں والی عینک آنکھوں پر لگائے چٹھی رساں بنا ہر ایک سے بیرنگ خط کے دام وصول کررہاہے۔ کبھی جٹادھاری سادھوہے، لنگوٹ کسا ہوا، جسم پر بھبوت رمائی ہوئی، ہاتھ میں لمبا سا چمٹا، سرخ سرخ آنکھیں نکال نکال ’’بم مہادیو‘‘ کا نعرہ لگارہا ہے۔ کبھی بھنگن کے روپ میں ہے جو سرخ لہنگا پہنے، کمر پر ٹوکرا، ہاتھ میں جھاڑو لیے جھوٹ موٹ پڑوسنوں سے لڑتی، بھڑتی آپ ہی آپ بکتی جھکتی چلی آرہی ہے۔
میرے ہم سبقوں میں ایک لڑکا تھا مدن۔ عمر میں تو وہ مجھ سے ایک آدھ برس چھوٹا ہی تھا مگر قد مجھ سے نکلتاہوا تھا، خوش شکل بھولا بھالا مگر ساتھ ہی بچوں کی طرح بلاکا ضدی۔ ہم دونوں غریب ماں باپ کے بیٹے تھے۔ دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اسکول کے بعد کبھی وہ میرے محلے میں کھیلنے آجاتا، کبھی میں اس کے ہاں چلاجاتا۔
ایک دن سہ پہر کو میں اور مدن صاحب زادہ صاحب کی حویلی کے باہر سڑک پر گیند سے کھیل رہے تھے کہ ہمیں ایک عجیب سی وضع کا بوڑھا آدمی آتا دکھائی دیا۔ اس نے مہاجنوں کے انداز میں دھوتی باندھ رکھی تھی، ماتھے پر سیندور کا ٹیکا تھا۔ کانوں میں سنہری بالے، بغل میں ایک لمبی سی سرخ بہی داب رکھی تھی۔ یہ شخص حویلی کے پھاٹک پر پہنچ کرپل بھر کو رکا، پھر اندر داخل ہو گیا۔میں فوراً جان گیا، یہ حضرت سوائے بہروپیے کے اور کون ہو سکتے تھے۔ مگر مدن ذرا ٹھٹکا۔ اس نے بہروپیے کی پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔میں نے ذرا چھیڑنے کو پوچھا:’’مدن جانتے ہو ابھی ابھی اس حویلی میں کون گیا ہے؟‘‘
’’ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
’’بھلا بتائو تو؟‘‘
’’کوئی مہاجن تھا۔‘‘
’’یہاں کیوں آیا؟‘‘
’’میں کیا جانوں۔ تمہارے اس رئیس اعظم نے کچھ قرض ورض لیا ہوگا اس سے۔‘‘
’’ارے نہیں پگلے یہ تو بہروپیا ہے بہروپیا!‘‘
’’بہروپیا؟“مدن نے کچھ حیرانی ظاہرکرتے ہوئے کہا، ’’بہروپیا کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ارے تم نہیں جانتے۔ یہ لوگ طرح طرح کے روپ بھر کرامیرامراء کو اپنا کمال دکھاتے ہیں اور ان سے انعام لیتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا یہ شخص ہرروز آتاہے؟‘‘
’’نہیں، ہفتے میں بس دو ایک ہی بار ۔ روز روز آئے تولوگ پہچان جائیں۔ بہروپیوں کا کمال تو بس اسی میں ہے کہ ایسا سوانگ رچائیں کہ لوگ دھوکا کھا جائیں اور سچ سمجھنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ کسی شہر میں دو تین مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے۔‘‘
’’کیا ان کو ہر دفعہ انعام ملتا ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔ یہ جب پندرہ بیس مرتبہ روپ بھر چکتے ہیں تو آخری بار سلام کرنے آتے ہیں، بس یہی وقت انعام لینے کا ہوتا ہے۔‘‘
’’بھلا کتنا انعام ملتاہوگا انہیں؟‘‘
’’کچھ زیادہ نہیں، کہیں سے ایک روپیہ کہیں سے دو روپے اور کہیں سے کچھ بھی نہیں۔ یہ رئیس اعظم صاحب اگرپانچ روپے بھی دے دیں تو بہت غنیمت جانو۔ بات یہ ہے کہ آج کل اس فن کی کچھ قدرنہیں رہی۔ اگلے وقتوں کے امیر لوگ تو اس قسم کے پیشے والوں کو اتنا اتنا انعام دے دیا کرتے تھے کہ انہیں مہینوں روزی کی فکرنہ رہتی تھی۔ مگر آج کل تو یہ بے چارے بھوکوں مر رہے ہوں گے اور۔۔۔‘‘
میں کچھ اور کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں وہی بہروپیا مہاجن بناہوا حویلی کے پھاٹک سے نکلا۔ مدن جو کسی گہری سوچ میں ڈوباہوا تھا، اسے دیکھ کر چونک پڑا۔ بہروپیا ہماری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر بازار کی طرف چل دیا۔بہروپئے کا پیٹھ موڑنا تھاکہ مدن نے اچانک میرا ہاتھ زور سے تھام لیا اور دھیمی آواز میں کہنے لگا، ’’اسلم آؤ اس بہروپئے کا پیچھا کریں اوردیکھیں کہ وہ کہاں رہتا ہے، اس کا گھر کیسا ہے۔ اس کا کوئی نہ کوئی میک اپ روم تو ہوگا ہی، شاید اس تک ہماری رسائی ہو جائے، پھر میں یہ بھی دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اصلی صورت میں کیا لگتا ہے۔‘‘
’’مدن دیوانے نہ بنو۔‘‘میں نے کہا، ’’نجانے اس کا ٹھکانہ کدھر ہے۔ ہم کہاں مارے مارے پھریں گے۔ نجانے ابھی اس کو اورکن کن گھروں میں جانا ہے۔۔۔‘‘
مگر مدن نے ایک نہ سنی۔ وہ مجھے کھینچتا ہوالے چلا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس کے مزاج میں طفلانہ ضد تھی۔ ایسے لوگوں کے سر پر جب کوئی دھن سوار ہو جائے تو جب تک اسے پورا نہ کرلیں نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں نہ دوسروں کو چین لینے دیتے ہیں۔ ناچارمیں اس کی دوستی کی خاطر اس کے ساتھ ہو لیا۔
یہ گرمیوں کی ایک شام تھی، کوئی چھ کا عمل ہو گا، اندھیرا ہونے میں ابھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں دل ہی دل میں حساب لگانے لگا۔ ہمارا علاقہ شہر کے عین وسط میں ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے اگر بہروپیے نے آدھے شہر کا احاطہ بھی کرلیا ہوتو ابھی آدھا شہر باقی ہے جہاں اسے اپنے فن کی نمائش کے لیے جانا ضروری ہے۔ چنانچہ اگرزیادہ نہیں تو دو گھنٹے تو ضرورہی ہمیں اس کے پیچھے پیچھے چلنا پڑے گا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ایک سے دوسرے بازار میں گزرتا جارہا تھا۔ راستے میں جب کبھی کوئی بڑی حویلی یا کسی مکان کا دیوان خانہ نظر آتا تو وہ بلاتکلف اندرداخل ہوجاتا اور ہمیں دو تین منٹ باہر اس کا انتظار کرنا پڑتا۔ بعض بڑی بڑی دکانوں میں بھی اس نے حاضری دی مگر وہاں وہ ایک آدھے منٹ سے زیادہ نہ رکا۔شفق کی کچھ کچھ سرخی ابھی آسمان پر باقی تھی کہ ان حاضریوں کا سلسلہ ختم ہوگیا کیونکہ بہروپیا اب شہر کے دروازے سے باہر نکل آیاتھا اور فصیل کے ساتھ ساتھ چلنے لگاتھا۔
ہم نے اب تک بڑی کامیابی سے اپنے کو اس کی نظروں سے اوجھل رکھا تھا۔ اس میں بازاروں کی ریل پیل سے ہمیں بڑی مدد ملی تھی مگر اب ہم ایک غیر آباد علاقے میں تھے جہاں اکا دکا آدمی ہی چل پھررہے تھے۔ چنانچہ ہمیں قدم قدم پر یہ دھڑکا تھا کہ کہیں اچانک وہ گردن پھیر کر ہمیں دیکھ نہ لے۔ بہرحال ہم انتہائی احتیاط کے ساتھ اور اس سے خاصی دور رہ کر اس کا تعاقب کرتے رہے۔
ہمیں زیادہ چلنا نہ پڑا۔ جلدہی ہم ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیے جہاں فصیل کے ساتھ ساتھ خانہ بدوشوں اور غریب غربا نے پھونس کے جھونپڑے ڈال رکھے تھے۔ اس وقت ان میں سے کئی جھونپڑوں میں چراغ جل رہے تھے۔ بہروپیا ان جھونپڑوں کے سامنے سے گزرتا ہوا آخری جھونپڑے کے پاس پہنچا جوذرا الگ تھلگ تھا۔ اس کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔
جھونپڑے کے باہر ایک ننھی سی لڑکی جس کی عمر کوئی تین برس ہوگی اور ایک پانچ برس کا لڑکا زمین پر بیٹھے کنکریوں سے کھیل رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے بہروپیے کو دیکھا، وہ خوشی سے چلانے لگے: ’’اباجی آگئے! ابا جی آگئے!‘‘ اور وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیے۔ بہروپیے نے ان کے سروں پرشفقت سے ہاتھ پھیرا ، پھر وہ ٹاٹ کا پردہ سرکا کر بچوں سمیٹ جھونپڑے میں داخل ہوگیا۔ میں نے مدن کی طرف دیکھا ،’’کہو اب کیا کہتے ہو؟‘‘
’’ذرا رکے رہو۔ وہ ابھی مہاجن کا لباس اتار کر اپنے اصلی روپ میں باہر نکلے گا۔ اتنی گرمی میں اس سے جھونپڑے کے اندر کہاں بیٹھا جائے گا۔‘‘
ہم نے کوئی پندرہ بیس منٹ انتظارکیا ہو گا کہ ٹاٹ کا پردہ پھر سرکا اور ایک نوجوان آدمی ململ کی دھوتی کرتا پہنے پٹیاں جمائے، سر پردو پلی ٹوپی ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھے جھونپڑے سے باہر نکلا، بوڑھے مہاجن کی سفید مونچھیں غائب تھیں اور ان کی بجائے چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھیں اس کے چہرے پر زیب دے رہی تھیں۔
’’یہ وہی ہے‘‘۔ یکبارگی مدن چلا اٹھا، ’’وہی قد، وہی ڈیل ڈول۔‘‘
اور جب ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے تو اس کی چال بھی ویسی ہی تھی جیسی مہاجن کا پیچھا کرنے میں ہم نے مشاہدہ کی تھی۔ میں اور مدن حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ اب کے اس نے یہ کیسا روپ بھرا؟ اس وقت وہ کن لوگوں کو اپنے بہروپ کا کمال دکھانے جارہاہے؟
وہ شخص کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، پھر ایک گلی میں ہوتا ہوا دوبارہ شہر کے اندر پہنچ گیا۔ ہم بدستور اس کے پیچھے لگے رہے۔ وہ بازار میں چلتے چلتے ایک پنواڑی کی دکان پر رک گیا۔ ہم سمجھے کہ شاید پان کھانے رکا ہے مگر نہ تو اس نے جیب سے پیسے نکالے اور نہ پنواڑی نے اسے پان ہی بنا کے دیا، البتہ ان دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی جسے ہم نہیں سن سکے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ پنواڑی دکان سے اتر آیا اور بہروپیا اس کی جگہ گدی پر بیٹھ گیا۔
پنواڑی کے جانے کے بعد اس دکان پر کئی گاہک آئے جن کو اس نے سگریٹ کی ڈبیاں اور پان بنابنا کر دیے۔ وہ پان بڑی چابکدستی سے بنا تا تھا جیسے یہ بھی کوئی فن ہو۔ہم کوئی آدھے گھنٹے تک بازار کے نکڑ پر کھڑے یہ تماشہ دیکھتے رہے، اس کے بعد ایک دم ہمیں سخت بھوک لگنے لگی اور ہم وہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے۔
اگلے روز اتوار کی چھٹی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ صبح آٹھ نو بجے تک سو کر کل کی تکان اتاروں گا مگر ابھی نور کا تڑکا ہی تھا کہ کسی نے میرا نام لے لے کر پکارنا اوردروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں ہڑبڑا کراٹھ بیٹھا۔ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا تو مدن تھا۔میں پیچ و تاب کھاتا سیڑھیوں سے اترا۔
’’اسلم جلدی سے تیارہوجاؤ‘‘۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
’’کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’جلدی کرو، کہیں بہروپیا صبح ہی صبح گھر سے نہ چل دے۔‘‘اور اس نے مجھے ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا کہ میرا دل فوراً پسیج گیا۔
جب ہم کبھی دوڑتے ، کبھی تیز تیز قدم اٹھاتے فصیل کی طرف جارہے تھے تو مدن نے مجھے بتایا کہ رات بھر وہ بہروپیے کو خواب میں طرح طرح کے روپ میں دیکھتا رہا، پھر صبح کو چار بجے کے قریب آپ ہی آپ اس کی آنکھ کھل گئی اور اس کے بعد پھر اسے نیند نہ آئی۔ابھی سورج نکلنے نہیں پایا تھا کہ ہم بہروپیے کے جھونپڑے کے پاس پہنچ گیے۔ پچھلی رات ہم اندھیرے میں اس علاقے کا صحیح جائزہ نہ لے سکے تھے مگر اب دن کی روشنی میں ہمیں ان جھونپڑوں کے مکینوں کی غربت اور خستہ حالی کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ بہروپیے کے جھونپڑے پر ٹاٹ کا جو پردہ پڑا تھا اس میں کئی پیوند لگے تھے۔
ہم دو تین بار اس کے جھونپڑے کے سامنے سے گزرے۔ ہر بار ہمیں اندر سے بچوں کی آوازیں، دو ایک نسوانی آوازوں کے ساتھ ملی ہو ئی سنائی دیں، آخر کوئی دس منٹ کے بعد ایک شخص بوسیدہ سا تہمد باندھے، بنیان پہنے، ایک ہاتھ میں گڑوی تھامے جھونپڑے سے برآمد ہوا۔ اس کی داڑھی مونچھ صاف تھی۔ سانولارنگ،اس کو دیکھ کر اس کی عمر کا صحیح اندازہ کرنا مشکل تھا۔
وہ شخص آگے آگے اور ہم اس کے پیچھے پیچھے کچھ دور فصیل کے ساتھ ساتھ چلے۔ آگے ایک باڑا آیا جس میں کچھ گائیں، بھینسیں کھونٹوں سے بندھی ہوئی تھیں، وہ شخص اس باڑے کے اندر چلا گیا اور میں اور مدن باہر ہی اس کی نظروں سے اوجھل ایک طرف کھڑے ہو گیے جہاں سے ہم اس کی حرکات و سکنات کو بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ اس نے ایک بھینس کو پچکارا، پھر وہ زمین پر بیٹھ کر اس کے تھنوں کو سہلانے لگا، اس کو دیکھ کر ایک بڈھا جو بھینسوں کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا اور ایک بڑی سی بالٹی لے آیا۔ اب اس شخص نے بھینس کو دوہنا شروع کیا۔ ہم اگرچہ اس سے کچھ دور کھڑے تھے مگر دودھ کی دھاروں کی آواز دھیمی دھیمی سن سکتے تھے۔
جب وہ ایک بھینس کو دوہ چکا تو دوسری کی طرف گیا، پھر تیسری کی طرف، اس کے بعد گایوں کی باری آئی۔ اس نے دو تین گایوں کو بھی دوہا، جن کے دودھ کے لیے بڈھے نے ایک اور بالٹی لاکر رکھ دی تھی۔اس کام میں کوئی ایک گھنٹہ صرف ہوا۔ بڈھے نے اس کی گڑوی کو دودھ سے بھر دیا جسے لے کر وہ باڑے سے نکل آیا۔ ہم پہلے ہی وہاں سے کھسک لیے تھے جب وہ ذرا دور چلا گیا تو میں نے مدن کو چھیڑنے کے لیے کہا: ’’لو اب تو حقیقت کھل گئی تم پر ۔ چلو اب گھر چلیں۔ ناحق تم نے میری نیند خراب کی۔‘‘
’’مگر بھیا وہ بہروپیا کہاں تھا ۔ وہ تو گوالاتھا گوالا۔آؤ تھوڑی دیر اور اس کا پیچھا کریں۔‘‘ میں نے مدن سے زیادہ حیل وحجت کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہم کچھ دیر ادھر ادھر ٹہلتے رہے ہم نے اس کا ٹھکانہ تو دیکھ ہی لیا تھا اب وہ ہماری نگاہوں سے کہاں چھپ سکتا تھا۔جب ہمیں اس کے جھونپڑے کے آس پاس گھومتے آدھ گھنٹہ ہوگیا تو ہمیں ایک تانگہ فصیل کے ساتھ والی سڑک پر تیزی سے ادھر آتاہوا دکھائی دیا۔ یہ تانگہ بہروپیے کے جھونپڑے کے قریب پہنچ کر رک گیا۔ اس میں کوئی سواری نہ تھی جو شخص تانگہ چلارہا تھا اس نے تانگے کی گھنٹی پاؤں سے دبا کر بجائی۔ اس کی آواز سنتے ہی ایک آدمی جھونپڑے سے نکلا، اس نے کوچوان کا سا خاکی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کو دیکھ کر تانگے والا تانگے سے اتر پڑا اور یہ شخص تانگے میں آبیٹھا اور راسیں تھام گھوڑے کو بڑی مہارت سے ہانکنے لگا۔ جیسے ہی تانگہ چلا پہلے شخص نے پکار کر کہا،’’تانگہ ٹھیک دو بجے اڈے پر لے آنا۔‘‘
دوسرے شخص نے گردن ہلائی۔ اس کے بعد ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ تانگہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔میں اور مدن یہ ماجرا دیکھ کر ایسے حیران رہ گیے کہ کچھ دیر تک ہماری زبان سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ آخر مدن نے سکوت کو توڑا،’’چلو یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ یہ شخص دو بجے تک کیا کرے گا۔ اتنی دیر تک ہمیں بھی چھٹی ہوگئی۔ اب ہمیں ڈھائی تین بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہیے۔‘‘
میں نے کچھ جواب نہ دیا۔ سچ یہ ہے کہ اس بہروپیے کے معاملے سے اب خود مجھے بھی بہت دل چسپی پیداہوگئی تھی اور میں اس کی اصلیت جاننے کے لیے اتناہی بیتاب ہو گیا تھا جتنا کہ مدن۔ہم لوگ کھانے پینے سے فارغ ہو کر تین بجے سے پہلے ہی پھربہروپیے کے جھونپڑے کے آس پاس گھومنے لگے۔ جھونپڑے کے اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کسی مرد کی آواز بھی سنائی د ے جاتی تھی۔ اس سے ہم نے اندازہ کر لیا کہ بہروپیا گھرواپس پہنچ گیا ہے۔
ہمیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا اور اب کے بہروپیا ایک اور ہی دھج سے باہرنکلا۔ اس نے سیاہ چغہ پہن رکھاتھا۔ سرپر کالی پگڑی جو بڑی خوش اسلوبی سے باندھی گئی تھی۔ گلے میں رنگ برنگی تسبیحیں، ترشی ہوئی سیاہ داڑھی، شانوں پر زلفیں بکھری ہوئی۔ اس نے بغل میں لکڑی کی ایک سیاہ صندوقچی داب رکھی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ آج اس نے ایک صوفی درویش کاسوانگ بھرا ہے۔ مگر ابھی کل ہی تووہ مہاجن کے روپ میں شہر کادورہ کرچکا تھا اور کوئی نیا روپ بھرنے کے لیے اسے دوتین دن کا وقفہ درکار تھا، پھر آج کس لیے اس نے یہ وضع بنائی ہے؟ اس سوال کاہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
چنانچہ ہم چپکے چپکے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، وہ شخص جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا شہر میں داخل ہوگیا۔ وہ کئی بازاروں میں سے گزرامگر خلاف معمول وہ کسی حویلی یا دکان پرنہیں رکا ۔ معلوم ہوتا تھا آج اسے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے اور داد پانے کاکچھ خیال نہیں ہے۔تھوڑی دیر میں ہم جامع مسجد کے پاس پہنچ گیے جو شہر کے بیچو ں بیچ واقع تھی اور جس کے آس پاس ہر روز تیسرے پہر بازار لگا کرتاتھا اور اتوار کو تووہاں بہت ہی چہل پہل رہا کرتی تھی، میلہ سا لگ جاتا تھا۔ پھیری والے ہانک لگا لگا کے طرح طرح کی چیزیں بیچتے تھے، بچوں کے سلے سلائے کپڑے، چنریاں، ٹوپیاں، کنگھیاں، چٹلے ازار بند، عطرپھلیل، اگربتی، کھٹمل مارنے کا پوڈر، مٹھائیاں، چاٹ ، علاوہ ازیں تعویذ گنڈے والے، جڑی بوٹی والے اور ایسے ہی اور پیشے والے اپنی انوکھی وضع اور اپنی مخصوص صدا سے اس بازار کی رونق بڑھاتے تھے۔
ہمارا بہروپیا بھی خاموشی سے ان لوگوں میں آکرشامل ہوگیا۔اس نے اپنی سیاہ صندوقچی کھول کر دونوں ہاتھوں میں تھام لی۔ اس صندوقچی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی شیشیاں قرینے سے رکھی تھیں۔ اس نے کچھ شیشیاں صندوقچی کے ڈھکنے پربھی جما دیں، پھر بڑے گمبھیر لہجے میں صدا لگانی شروع کی :’’آپ کی آنکھوں میں دھند ہو، لالی ہو، خارش ہو، ککرے ہوں، بینائی کمزور ہو، پانی ڈھلکتا ہو، رات کونظر نہ آتا ہو تو میرا بنایا ہوا خاص سرمہ ’’نین سکھ‘‘ استعمال کیجئے۔‘‘
’’اس کا نسخہ مجھے مکہ شریف میں ایک درویش بزرگ سے دستیاب ہواتھا۔ خدمت خلق کے خیال سے قیمت بہت ہی کم رکھی گئی ہے۔ یعنی صرف چار آنے فی شیشی۔‘‘
’’یہ سرمہ اسم بامسمیٰ ہے۔ اس کے لگاتے ہی آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ جاتی ہے۔ آئیے ایک سلائی لگوا کر آزمائش کر لیجئے۔ اس کے کچھ دام نہیں ۔
سرمئہ مفت نظرہوں میری قیمت یہ ہے
کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا
میں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتاتھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کردی تھی۔ دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگیے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔
- ग़ुलाम-अब्बास
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اس جنگ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ غالباً آٹھ نو برس پہلے کی بات ہے۔ جب زندگی میں ہنگامے بڑے سلیقے سے آتے تھے ؛ آج کی کل طرح نہیں۔ بے ہنگم طریقے پر پے در پے حادثے برپا ہورہے ہیں، کسی ٹھوس وجہ کے بغیر۔
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
- सआदत-हसन-मंटो
تیسرے پہر کے وقت بیگم ابن انگنائی میں پلنگ پر بیٹھی چھا لیا کتر رہی تھیں۔ سامنے باور چی خانہ میں ماما ہنڈیا بگھار رہی تھی۔ جب ڈیوڑھی میں کسی نے کنڈی کھٹکھٹائی تو بگم ابّن بولیں، ’’اری دلچین دیکھیو تو کون کھٹکھٹا رہا ہے؟ اس شور سے تو ناک میں دم آ گیا۔‘‘ اتنے میں باہر سے آواز آئی، ’’میں آ جاؤں؟‘‘
’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔ بشیر۔‘‘
’’میاں بشیر! آؤ میاں۔ بہت دنوں میں آئے ہو۔ کیا رستہ بھول گئے؟‘‘
’’آداب عرض ہے۔‘‘
’’عمر دراز۔ تم تو عید کا چاند ہو گئے۔ کبھی آتے ہی نہیں۔‘‘
’’ممانی جان ان دنوں کام بہت رہا۔ روز آنے کا ارادہ کرتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ایسا کام نکل آتا کہ آ نہ سکتا۔‘‘
’’اچھا کہو، چھماں بیگم تو اچھی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ بھی آنے کا ارادہ کر رہی ہیں۔ کسی دن آئیں گی۔‘‘
’’لو میاں پان لو۔ تم تو شاید زردہ نہیں کھاتے؟‘‘
’’جی نہیں۔ آداب عرض۔‘‘
’’عمر دراز۔‘‘
’’کیا ماموں جان کہیں گئے ہیں؟‘‘
’’تمہارے ماموں جان کہاں جائیں گے؟ موئے کبوتر بھی تو پیچھا چھوڑیں۔ دن بھر وہ جوتیاں پیٹی ہیں کہ میں تو چھت کی اللہ آمین منا رہی تھی۔ وہ شور تھا کہ خاک پیٹے شہدے بھی کیا کریں گے۔ آج کھانا کھانے بھی نہیں اترے۔ مجھ کمبخت ماری کو دو گھنٹے بھوکا رکھا، جب بہت بکی بولی تو اتر کر آئے۔ لیکن بس منہ جھٹال کر پھر وہی ٹھنٹھ کے آلو کی طرح کوٹھے پر۔‘‘
’’ممانی جان بیچارے کیا کریں۔ بیکاری میں کوئی نہ کوئی شوق ہونا چاہیے۔‘‘
’’آگ لگے ایسے شوق کو۔ شوق نہ ہوا دیوانہ پن ہو گیا۔ جب دیکھو کبوتروں ہی کی باتیں ہوتی ہیں، نہ آٹا چھوڑیں نہ گھی۔ کبوتر کیا ہوئے آدمیوں سے بڑھ گئے۔ ابھی ابھی گاؤں سے گھی کا پیالہ آیا تھا۔ مشکل سے ایک ہفتہ ہوا ہوگا کہ بس صفا چٹ۔ پہلوانوں کو بھی کوئی اتنا گھی نہ دیتا ہوگا۔ نہ معلوم ان کو پلاتے ہیں یا یار دوستوں کو بانٹ دیتے ہیں اور ملنے جلنے والے بھی سب جھلسے کبوتر باز۔ دن بھر کنڈی پٹا کرتی ہے۔ شوق نہ ہوا آفت آ گئی اور ادھر اللہ میاں نے اولاد بھی دی تو ایسی۔ دن بھر وہ دھمادھم ہوتی ہے کہ کچھ ٹھکانا نہیں۔ ان موئے فرنگیوں نے بھی کیا کیا کھیل نکالے ہیں۔ یہ موئی فٹ بال بھی کیا نکلی ہے کہ نتھنوں میں تیر دے دیے ہیں۔ گیند ہے کہ ہر دم کمرے ہی میں گھسی چلی آتی ہے۔ میاں میں تو دہل دہل کے رہتی ہوں۔ کوئی گھڑی بھی کمبخت چین کی نصیب نہیں ہوتی اور ادھر میاں حمید کی وجہ سے دن کا کھانا اور رات کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ جب تک ولایت میں رہے تو یہی اللہ آمین کیا کی کہ کہیں کوئی موٹی میم ویم نہ کر لائیں۔ بارے وہاں سے تو خیریت سے چلے آئے۔ لیکن اب یہ اچھا شگوفہ چھوڑا ہے۔‘‘
’’جی نہیں ممانی جان۔ دراصل آپ لوگوں میں ملکیت کا احساس بہت زیادہ ہے۔ جو سچ پوچھیے تو آپ لوگ اولاد کو بھی اپنی ملک ہی تصور کرتے ہیں۔ یعنی اولاد بھی تو انسان ہوتی ہے۔ جس طرح آپ لوگ کوئی بات کرنی چاہتے ہیں۔ اسی طرح اولاد بھی آزادی سے ایک بات کو کرنا چاہتی ہے۔ لیکن آپ لوگوں کو یہ بات آخر کیوں ناگوار گزرتی ہے اور حمید کو تو آپ لوگ سمجھتے ہی نہیں۔ اس کا سا بیٹا ہونا تو بہت مشکل ہے۔ حمید کو۔۔۔‘‘
’’اس بےایمان حمید کا کس نے نام لیا!‘‘میر ابّن نے زینے ہی میں سے چلا کر کہا۔
’’ماموں جان آداب عرض۔‘‘
’’اچھا، یہ جناب ہیں۔ اس بدبخت کے نام لیوا۔‘‘
’’آپ حمید سے بیکار اس قدر ناراض ہیں۔‘‘
’’ناراض! میں تو اس نالائق کی صورت بھی دیکھنا نہیں چالتا۔ میری ناک کاٹنے میں اس نے کیا کسر چھوڑی ہے۔ کمبخت مسلمان کے گھر میں پیدا ہو کر یہ باتیں کرتا ہے۔ ہندنی سے شادی کرےگا! میرا دل تو بھن بھن کے رہتا ہے۔ بجائے اس کے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کی خدمت کرے، اپنی قابلیت اور سعادت مندی سے ان کا نام روشن کرے، اب یہ کلنک کا ٹیکہ لگائےگا۔ اس سے تو اگر مر جاتا، تو بہتر ہوتا۔‘‘
’’ماموں جان وہ جو کچھ کہتا ہے۔ وہ بھی تو سنئے۔‘‘
’’بس اب کہہ لیا تو کہہ لیا۔ آئندہ میں اس نالائق کا نام تک سننے کا روادار نہیں۔ کیا میری ہی اولاد ہے؟ خدا کمبخت کو موت دے۔۔۔‘‘
میر صاحب غصہ سے کھولتے ہوئے باہر چلے گئے۔ گرمیوں کی شام تھی۔ ابھی تک گلی کوچوں سے گرمی کے بھپکے نکل رہے تھے۔ سڑک پر لوگ اپنی اپنی دوکانوں کے سامنے چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ سودے والے طرح طرح کی آوازیں لگا رہے تھے اور اس کے باوجود فضا میں ایک قسم کی بھیانک افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میر صاحب اپنےخیالات میں محو چلتے گئے۔ جب وہ مٹیا محل پہنچے تو بھیڑ میں سے گھستے پلتے دو آدمی ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے ان کی طرف آئے۔ اگلا تو صفائی سے بچ کر میر صاحب کے برابر نکل گیا۔ لیکن جب دوسرا آیا تو میر صاحب ایک کھڑے ہوئے تانگے کے برابر سے گزر رہے تھے۔ آدمی نے راستہ کم کرنے کے لیے میر صاحب کے برابر سے جھپکی لینی چاہی لیکن شامت اعمال کہ بچنے کے بجائے وہ میر صاحب سے ٹکرا گیا اور ان کی طرف بہت کھسیانا اور خفیف ہوکر دیکھنے لگا۔ میر صاحب کی چڑھی ہوئی داڑھی ان کی چوگوشہ ٹوپی اور قوی ہیکل ہیئت دیکھ کر گھبرایا۔ مگر اتنےہی میں میر صاحب بہت طیش کھا کر بولے،
’’حرامزادہ کہیں کا! دیکھتا نہیں کون جا رہا ہے!‘‘ میر صاحب کے حلیہ سے تو وہ ذرا سہم گیا تھا، لیکن یہ الفاظ سن کر بولا، ’’بس میاں، بس۔ بہت سے تمہاری طریوں کے دیکھ لیے ہیں۔ وہ زمانے لد گئے، لمبے بنو، لمبے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھاگتا ہوا اپنے ساتھی کو پکڑنے چل دیا۔
برابر سے ایک آدھ قہقہوں کی آواز آئی۔ پھر کیا تھا۔ ایک تو کریلا اور اوپر سے نیم چڑھا۔ میر صاحب کے جذبہ خود نمائی کو وہ ٹھیس لگی کہ ان کا منہ لال انگارا ہو گیا۔ ان کی ساری رعونت، ان کا سارا وقار خاک میں مل گیا۔ آگ بگولا ہو کر میر صاحب ہنسنے والوں کو دیکھنے کے لیے مڑے۔ ایک پان والے کی دوکان پر کچھ لوگ کھڑے میر صاحب کی طرف منہ کیے ہنس رہے تھے۔ میر صاحب ان کی طرف سڑک کے اس پار لپکے، لوگوں نے اپنے منہ موڑ لیے اور پان والے کی طرف مخاطب ہو گئے۔ پھر کچھ میر صاحب کو خیال آیا کہ فضول کا جھگڑا مول لینا ہے۔ دوسرے اسی وقت ان کی نگاہ نواب چھماں کی فٹن پر پڑی۔ جو ان کی جانب پیچھے سے آ رہی تھی۔ نواب چھماں نے گھوڑے کو چابک چھوایا اور تیزی سے میر صاحب کے پاس پہنچ کر گاڑی روک لی۔
’’اوہو میر ابن۔آؤ بھئی، میں تو دعا ہی مانگ رہا تھا کہ تم سے ملاقات ہو جائے۔ آؤ بیٹھ جاؤ۔‘‘ میر صاحب فٹن میں سوار ہوکر سینہ نکال کے بیٹھ گئے اور بہت اکڑ کر پیچھے مڑے اور پان والے کی دوکان کی طرف آنکھیں نکال کر دیکھا۔
’’خیریت تو ہے بھئی۔‘‘ نواب صاحب نے پوچھا، ’’یہ مکدر کیسے ہو؟‘‘
’’بھائی کیا پوچھتے ہو۔ ادبار۔ ادبار۔ لوگوں میں سے احساس شرافت جاتا رہا۔ نہ دلوں میں غیرت اور نہ مرتبہ کی پہچان۔ نہ معلوم کس وقت کس کی عزت اتار لیں۔ حد ہے کہ اولاد تک میں فرمانبرداری کا مادہ باقی نہیں رہا۔‘‘
’’بھئی کہتے تو سچ ہو۔ نہ بڑے کی تمیز رہی اور نہ چھوٹوں کا خیال اور اوپر سے آزادی کی ایک اور ہوا چل نکلی ہے۔‘‘
اسی طرح باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اور نواب چھماں جامع مسجد سے ہوتے ہوئے چاوڑی بازار میں سے گزرے۔ وہ ابھی بڑھ شاہ بولا تک بھی مشکل سے پہنچے تھے کہ ایک شور غل کی آواز بلند ہونے لگی۔ جلدی جلدی دوکاندار اپنی اپنی دوکانیں بڑھا رہے تھے۔ دو دو ایک ایک کر کے لوگ حوض قاضی کی طرف چلنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک رو ہے جو بہتی چلی جا رہی ہے۔
’’بھئی، یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ نواب چھماں نے میر صاحب کی طرف مخاطب ہوکر کہا۔
’’میاں وہی کوئی بلوا ولوا ہو گیا ہوگا۔ ترکِ موالات کی بھی تو عجیب وبا پھیل گئی ہے۔‘‘ نواب صاحب اپنی گاڑی بڑھائے چلے گئے۔ تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد قاضی حوض کی طرف سے شور کی آواز شروع ہو گئی۔
’’یہ کیا چیخ رہے ہیں؟‘‘ نواب صاحب نے پھر پوچھا۔ دونوں نے کان لگا کر سنا۔ دور سے آواز آ رہی تھی، ’’ٹوڈی بچہ ہائے ہائے! ٹوڈی بچہ ہائے ہائے۔‘‘ میر صاحب نے ایک قہقہہ لگایا۔
’’یہ بھی کمبختوں نے کیا جملہ نکالا ہے۔ کوئی تک بھی ہے؟‘‘
’’ٹوڈی بچہ ہائے ہائے!‘‘
جب گاڑی ذرا اور نزدیک پہنچی تو انہوں نے دیکھا کہ پولیس کا ایک جتھا ان کی طرف پیٹھ کیے کھڑا ہے اور لوگ سپاہیوں کے سامنے ایک ہجوم کیے جھنڈے ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں۔ چاوڑی کی سمت میں بھی لوگ جمع ہو رہے تھے۔ اب نواب صاحب نےاپنی گاڑی روک لی۔ شور کی آواز دب گئی۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے لوگ پولیس سے کچھ مکالمہ کر رہے ہیں۔ یکایک ایک اور نعرہ بلند ہوا، ’’بول مہاتما گاندھی کی جے!‘‘ اور اس کے بعد ہی جھنڈے ہوا میں ناچنے لگے اور لوگ زور زور سے چلائے، ’’انقلاب زندہ باد! انقلاب زندہ باد!‘‘
نواب صاحب فراش خانہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ گاڑی کا اس جگہ سے لے جانا ناممکن ہے اور اسی میں خیریت جانی کہ واپس لوٹ کر نئی سڑک سے چاندنی چوک ہوتے ہوئے گھر پہنچ جائیں۔ جب نواب صاحب گھنٹہ گھر پہنچے تو وہاں بھی انہوں نے یہی ماجرا دیکھا اور یہاں پولیس کے علاوہ گوروں کی ایک پلٹن بھی دکھائی دی۔ سارے میں ناکہ بندی ہو چکی تھی۔ اب تو نواب صاحب کی ذرا سٹی گم ہوئی۔ لیکن پھر ان کو خیال آیا کہ نئی سڑک سے ایک گلی حوض قاضی کے پرے جاکے نکلتی ہے۔ گاڑی کو سائیس کے حوالے کر کے نواب صاحب معہ میر ابّن کے پیدل روانہ ہو گئے۔
’’یہ حرام زادوں نے اچھا ڈھونگ بنایا ہے۔ آزادی! آزادی! بے ایمان کہیں کے، دیکھتے نہیں کہ حکومت برطانیہ میں کیسے امن اور چین سے رہتے ہیں۔ لیکن ان کمبختوں کو سمجھائے کون؟‘‘ میر صاحب بہت بگڑ کر بولے۔
’’جی ہاں۔ یہ سب اسی گاندھی کی بدمعاشی ہے۔ سارے ملک کو تہ و بالا کر رکھا ہے۔ سارا اطمینان اور سکون کھو دیا۔ کیا اسی کو آزادی کہتے ہیں؟ رعیت ساری الگ بگڑ بیٹھی۔‘‘
’’جی ہاں! جس کرایہ دار کو دیکھیے سیدھے منہ بات نہیں کرتا اور اولاد ہے کہ الگ ستیاناس ہو گئی۔ بڑوں کو بھی ازار میں ڈال کر نہیں پہنتے۔‘‘
جب یہ دونوں گھر پہنچے تو مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ دور سے ایک آدھ بار بندوقوں کے چھٹنےکی آواز آئی لیکن پھر سناٹا چھا گیا۔ نواب صاحب اور میر ابّن باتوں میں اس طرح مشغول ہو گئے جیسے کوئی خاص بات ہوئی ہی نہ تھی۔ کھانے سے فراغت پا کر بیٹھے ہی تھے کہ نواب صاحب کے دوست مرزا فرحت اللہ بیگ آ نکلے۔
’’نواب صاحب آپ نے سنا۔ آج تو گولی چل گئی۔ سنا ہے سو سے اوپر آدمی مرے اور زخمی ہوئے۔‘‘
’’جی ہاں ہم بھی گھر گئے تھے۔ وہ تو خیریت ہوگئی۔ اچھا کہیے اب کیا حال ہے؟‘‘
’’اب تو آدمی کا بچہ بھی فتحپوری سے لے کر فوارے تک دیکھنے میں نہیں آتا۔‘‘
’’اجی صاحب اور کیا؟ میر ابّن بولے، گولی کے سامنے بھی کوئی ٹھیر سکتا ہے؟ ان حرام زادوں کو اسی کی ضرورت تھی۔‘‘
اب رات کے دس بج چکے تھے۔ مرزافرحت اللہ بیگ گھر چلے گئے۔ ہوا خوشگوار تھی۔ نواب صاحب کرسی میں لیٹے حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ میر صاحب سامنے کی کرسی میں آرام کر رہے تھے۔ نواب صاحب بولے، ’’ہاں بھئی، آج کچھمی بائی کا آدمی آیا تھا۔ کہتی ہے کہ عرصہ سے حضور سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر اجازت ہو تو خود حاضر ہوں۔ کیا رائے ہے؟‘‘ اس بات کو سن کر میر صاحب اپنی کرسی میں سنبھل کر بیٹھے اور ذرا تپاک سے کہا، ’’بسم اللہ!‘‘
’’چلو بھئی خود ہی کیوں نہ چلیں؟ رات پرکیف ہے۔ دوسرے وہ آدمی کہتا تھا کہ آج کل لچھمی بائی کی کوئی بہن بھی آئی ہوئی ہے۔ ذرا اس کی بھی چاشنی چکھیں۔‘‘
غرض کہ دونوں گھر سے چل دیے۔ سڑک پر بالکل سناٹا تھا۔ جیسے رات بہت گئی ہو، یہاں تک کہ ایک کتا بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی اور ان کے ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے۔ ایک مست کر دینے والی بھینی بھینی خوشبو پیدا کر رہے تھے۔ جب وہ قاضی کے حوض پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ سپاہی چارپائیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ چاوڑی کے نکڑ پر ان کو ایک لاش خون میں لتھڑی ہوئی بھیانک اور کریہہ منظر، ابھی تک پڑی ہوئی دکھائی دی اور ایک اندھی بڑھیا اور ایک اپاہج فقیر، دونوں لاغر اور کمزور، محض ہڈیوں کے ڈھنچر، بھوک اور پیاس کے مارے، دیواروں سے ملے ملے دبے پاؤں چوروں کی طرح اجمیری دروازے کی طرف جا رہے تھے۔
’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔ بشیر۔‘‘
’’میاں بشیر! آؤ میاں۔ بہت دنوں میں آئے ہو۔ کیا رستہ بھول گئے؟‘‘
’’آداب عرض ہے۔‘‘
’’عمر دراز۔ تم تو عید کا چاند ہو گئے۔ کبھی آتے ہی نہیں۔‘‘
’’ممانی جان ان دنوں کام بہت رہا۔ روز آنے کا ارادہ کرتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ایسا کام نکل آتا کہ آ نہ سکتا۔‘‘
’’اچھا کہو، چھماں بیگم تو اچھی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ بھی آنے کا ارادہ کر رہی ہیں۔ کسی دن آئیں گی۔‘‘
’’لو میاں پان لو۔ تم تو شاید زردہ نہیں کھاتے؟‘‘
’’جی نہیں۔ آداب عرض۔‘‘
’’عمر دراز۔‘‘
’’کیا ماموں جان کہیں گئے ہیں؟‘‘
’’تمہارے ماموں جان کہاں جائیں گے؟ موئے کبوتر بھی تو پیچھا چھوڑیں۔ دن بھر وہ جوتیاں پیٹی ہیں کہ میں تو چھت کی اللہ آمین منا رہی تھی۔ وہ شور تھا کہ خاک پیٹے شہدے بھی کیا کریں گے۔ آج کھانا کھانے بھی نہیں اترے۔ مجھ کمبخت ماری کو دو گھنٹے بھوکا رکھا، جب بہت بکی بولی تو اتر کر آئے۔ لیکن بس منہ جھٹال کر پھر وہی ٹھنٹھ کے آلو کی طرح کوٹھے پر۔‘‘
’’ممانی جان بیچارے کیا کریں۔ بیکاری میں کوئی نہ کوئی شوق ہونا چاہیے۔‘‘
’’آگ لگے ایسے شوق کو۔ شوق نہ ہوا دیوانہ پن ہو گیا۔ جب دیکھو کبوتروں ہی کی باتیں ہوتی ہیں، نہ آٹا چھوڑیں نہ گھی۔ کبوتر کیا ہوئے آدمیوں سے بڑھ گئے۔ ابھی ابھی گاؤں سے گھی کا پیالہ آیا تھا۔ مشکل سے ایک ہفتہ ہوا ہوگا کہ بس صفا چٹ۔ پہلوانوں کو بھی کوئی اتنا گھی نہ دیتا ہوگا۔ نہ معلوم ان کو پلاتے ہیں یا یار دوستوں کو بانٹ دیتے ہیں اور ملنے جلنے والے بھی سب جھلسے کبوتر باز۔ دن بھر کنڈی پٹا کرتی ہے۔ شوق نہ ہوا آفت آ گئی اور ادھر اللہ میاں نے اولاد بھی دی تو ایسی۔ دن بھر وہ دھمادھم ہوتی ہے کہ کچھ ٹھکانا نہیں۔ ان موئے فرنگیوں نے بھی کیا کیا کھیل نکالے ہیں۔ یہ موئی فٹ بال بھی کیا نکلی ہے کہ نتھنوں میں تیر دے دیے ہیں۔ گیند ہے کہ ہر دم کمرے ہی میں گھسی چلی آتی ہے۔ میاں میں تو دہل دہل کے رہتی ہوں۔ کوئی گھڑی بھی کمبخت چین کی نصیب نہیں ہوتی اور ادھر میاں حمید کی وجہ سے دن کا کھانا اور رات کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ جب تک ولایت میں رہے تو یہی اللہ آمین کیا کی کہ کہیں کوئی موٹی میم ویم نہ کر لائیں۔ بارے وہاں سے تو خیریت سے چلے آئے۔ لیکن اب یہ اچھا شگوفہ چھوڑا ہے۔‘‘
’’جی نہیں ممانی جان۔ دراصل آپ لوگوں میں ملکیت کا احساس بہت زیادہ ہے۔ جو سچ پوچھیے تو آپ لوگ اولاد کو بھی اپنی ملک ہی تصور کرتے ہیں۔ یعنی اولاد بھی تو انسان ہوتی ہے۔ جس طرح آپ لوگ کوئی بات کرنی چاہتے ہیں۔ اسی طرح اولاد بھی آزادی سے ایک بات کو کرنا چاہتی ہے۔ لیکن آپ لوگوں کو یہ بات آخر کیوں ناگوار گزرتی ہے اور حمید کو تو آپ لوگ سمجھتے ہی نہیں۔ اس کا سا بیٹا ہونا تو بہت مشکل ہے۔ حمید کو۔۔۔‘‘
’’اس بےایمان حمید کا کس نے نام لیا!‘‘میر ابّن نے زینے ہی میں سے چلا کر کہا۔
’’ماموں جان آداب عرض۔‘‘
’’اچھا، یہ جناب ہیں۔ اس بدبخت کے نام لیوا۔‘‘
’’آپ حمید سے بیکار اس قدر ناراض ہیں۔‘‘
’’ناراض! میں تو اس نالائق کی صورت بھی دیکھنا نہیں چالتا۔ میری ناک کاٹنے میں اس نے کیا کسر چھوڑی ہے۔ کمبخت مسلمان کے گھر میں پیدا ہو کر یہ باتیں کرتا ہے۔ ہندنی سے شادی کرےگا! میرا دل تو بھن بھن کے رہتا ہے۔ بجائے اس کے کہ بڑھاپے میں ماں باپ کی خدمت کرے، اپنی قابلیت اور سعادت مندی سے ان کا نام روشن کرے، اب یہ کلنک کا ٹیکہ لگائےگا۔ اس سے تو اگر مر جاتا، تو بہتر ہوتا۔‘‘
’’ماموں جان وہ جو کچھ کہتا ہے۔ وہ بھی تو سنئے۔‘‘
’’بس اب کہہ لیا تو کہہ لیا۔ آئندہ میں اس نالائق کا نام تک سننے کا روادار نہیں۔ کیا میری ہی اولاد ہے؟ خدا کمبخت کو موت دے۔۔۔‘‘
میر صاحب غصہ سے کھولتے ہوئے باہر چلے گئے۔ گرمیوں کی شام تھی۔ ابھی تک گلی کوچوں سے گرمی کے بھپکے نکل رہے تھے۔ سڑک پر لوگ اپنی اپنی دوکانوں کے سامنے چھڑکاؤ کر رہے تھے۔ سودے والے طرح طرح کی آوازیں لگا رہے تھے اور اس کے باوجود فضا میں ایک قسم کی بھیانک افسردگی چھائی ہوئی تھی۔ میر صاحب اپنےخیالات میں محو چلتے گئے۔ جب وہ مٹیا محل پہنچے تو بھیڑ میں سے گھستے پلتے دو آدمی ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے ان کی طرف آئے۔ اگلا تو صفائی سے بچ کر میر صاحب کے برابر نکل گیا۔ لیکن جب دوسرا آیا تو میر صاحب ایک کھڑے ہوئے تانگے کے برابر سے گزر رہے تھے۔ آدمی نے راستہ کم کرنے کے لیے میر صاحب کے برابر سے جھپکی لینی چاہی لیکن شامت اعمال کہ بچنے کے بجائے وہ میر صاحب سے ٹکرا گیا اور ان کی طرف بہت کھسیانا اور خفیف ہوکر دیکھنے لگا۔ میر صاحب کی چڑھی ہوئی داڑھی ان کی چوگوشہ ٹوپی اور قوی ہیکل ہیئت دیکھ کر گھبرایا۔ مگر اتنےہی میں میر صاحب بہت طیش کھا کر بولے،
’’حرامزادہ کہیں کا! دیکھتا نہیں کون جا رہا ہے!‘‘ میر صاحب کے حلیہ سے تو وہ ذرا سہم گیا تھا، لیکن یہ الفاظ سن کر بولا، ’’بس میاں، بس۔ بہت سے تمہاری طریوں کے دیکھ لیے ہیں۔ وہ زمانے لد گئے، لمبے بنو، لمبے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھاگتا ہوا اپنے ساتھی کو پکڑنے چل دیا۔
برابر سے ایک آدھ قہقہوں کی آواز آئی۔ پھر کیا تھا۔ ایک تو کریلا اور اوپر سے نیم چڑھا۔ میر صاحب کے جذبہ خود نمائی کو وہ ٹھیس لگی کہ ان کا منہ لال انگارا ہو گیا۔ ان کی ساری رعونت، ان کا سارا وقار خاک میں مل گیا۔ آگ بگولا ہو کر میر صاحب ہنسنے والوں کو دیکھنے کے لیے مڑے۔ ایک پان والے کی دوکان پر کچھ لوگ کھڑے میر صاحب کی طرف منہ کیے ہنس رہے تھے۔ میر صاحب ان کی طرف سڑک کے اس پار لپکے، لوگوں نے اپنے منہ موڑ لیے اور پان والے کی طرف مخاطب ہو گئے۔ پھر کچھ میر صاحب کو خیال آیا کہ فضول کا جھگڑا مول لینا ہے۔ دوسرے اسی وقت ان کی نگاہ نواب چھماں کی فٹن پر پڑی۔ جو ان کی جانب پیچھے سے آ رہی تھی۔ نواب چھماں نے گھوڑے کو چابک چھوایا اور تیزی سے میر صاحب کے پاس پہنچ کر گاڑی روک لی۔
’’اوہو میر ابن۔آؤ بھئی، میں تو دعا ہی مانگ رہا تھا کہ تم سے ملاقات ہو جائے۔ آؤ بیٹھ جاؤ۔‘‘ میر صاحب فٹن میں سوار ہوکر سینہ نکال کے بیٹھ گئے اور بہت اکڑ کر پیچھے مڑے اور پان والے کی دوکان کی طرف آنکھیں نکال کر دیکھا۔
’’خیریت تو ہے بھئی۔‘‘ نواب صاحب نے پوچھا، ’’یہ مکدر کیسے ہو؟‘‘
’’بھائی کیا پوچھتے ہو۔ ادبار۔ ادبار۔ لوگوں میں سے احساس شرافت جاتا رہا۔ نہ دلوں میں غیرت اور نہ مرتبہ کی پہچان۔ نہ معلوم کس وقت کس کی عزت اتار لیں۔ حد ہے کہ اولاد تک میں فرمانبرداری کا مادہ باقی نہیں رہا۔‘‘
’’بھئی کہتے تو سچ ہو۔ نہ بڑے کی تمیز رہی اور نہ چھوٹوں کا خیال اور اوپر سے آزادی کی ایک اور ہوا چل نکلی ہے۔‘‘
اسی طرح باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اور نواب چھماں جامع مسجد سے ہوتے ہوئے چاوڑی بازار میں سے گزرے۔ وہ ابھی بڑھ شاہ بولا تک بھی مشکل سے پہنچے تھے کہ ایک شور غل کی آواز بلند ہونے لگی۔ جلدی جلدی دوکاندار اپنی اپنی دوکانیں بڑھا رہے تھے۔ دو دو ایک ایک کر کے لوگ حوض قاضی کی طرف چلنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ایک رو ہے جو بہتی چلی جا رہی ہے۔
’’بھئی، یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ نواب چھماں نے میر صاحب کی طرف مخاطب ہوکر کہا۔
’’میاں وہی کوئی بلوا ولوا ہو گیا ہوگا۔ ترکِ موالات کی بھی تو عجیب وبا پھیل گئی ہے۔‘‘ نواب صاحب اپنی گاڑی بڑھائے چلے گئے۔ تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد قاضی حوض کی طرف سے شور کی آواز شروع ہو گئی۔
’’یہ کیا چیخ رہے ہیں؟‘‘ نواب صاحب نے پھر پوچھا۔ دونوں نے کان لگا کر سنا۔ دور سے آواز آ رہی تھی، ’’ٹوڈی بچہ ہائے ہائے! ٹوڈی بچہ ہائے ہائے۔‘‘ میر صاحب نے ایک قہقہہ لگایا۔
’’یہ بھی کمبختوں نے کیا جملہ نکالا ہے۔ کوئی تک بھی ہے؟‘‘
’’ٹوڈی بچہ ہائے ہائے!‘‘
جب گاڑی ذرا اور نزدیک پہنچی تو انہوں نے دیکھا کہ پولیس کا ایک جتھا ان کی طرف پیٹھ کیے کھڑا ہے اور لوگ سپاہیوں کے سامنے ایک ہجوم کیے جھنڈے ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں۔ چاوڑی کی سمت میں بھی لوگ جمع ہو رہے تھے۔ اب نواب صاحب نےاپنی گاڑی روک لی۔ شور کی آواز دب گئی۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے لوگ پولیس سے کچھ مکالمہ کر رہے ہیں۔ یکایک ایک اور نعرہ بلند ہوا، ’’بول مہاتما گاندھی کی جے!‘‘ اور اس کے بعد ہی جھنڈے ہوا میں ناچنے لگے اور لوگ زور زور سے چلائے، ’’انقلاب زندہ باد! انقلاب زندہ باد!‘‘
نواب صاحب فراش خانہ میں رہتے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ گاڑی کا اس جگہ سے لے جانا ناممکن ہے اور اسی میں خیریت جانی کہ واپس لوٹ کر نئی سڑک سے چاندنی چوک ہوتے ہوئے گھر پہنچ جائیں۔ جب نواب صاحب گھنٹہ گھر پہنچے تو وہاں بھی انہوں نے یہی ماجرا دیکھا اور یہاں پولیس کے علاوہ گوروں کی ایک پلٹن بھی دکھائی دی۔ سارے میں ناکہ بندی ہو چکی تھی۔ اب تو نواب صاحب کی ذرا سٹی گم ہوئی۔ لیکن پھر ان کو خیال آیا کہ نئی سڑک سے ایک گلی حوض قاضی کے پرے جاکے نکلتی ہے۔ گاڑی کو سائیس کے حوالے کر کے نواب صاحب معہ میر ابّن کے پیدل روانہ ہو گئے۔
’’یہ حرام زادوں نے اچھا ڈھونگ بنایا ہے۔ آزادی! آزادی! بے ایمان کہیں کے، دیکھتے نہیں کہ حکومت برطانیہ میں کیسے امن اور چین سے رہتے ہیں۔ لیکن ان کمبختوں کو سمجھائے کون؟‘‘ میر صاحب بہت بگڑ کر بولے۔
’’جی ہاں۔ یہ سب اسی گاندھی کی بدمعاشی ہے۔ سارے ملک کو تہ و بالا کر رکھا ہے۔ سارا اطمینان اور سکون کھو دیا۔ کیا اسی کو آزادی کہتے ہیں؟ رعیت ساری الگ بگڑ بیٹھی۔‘‘
’’جی ہاں! جس کرایہ دار کو دیکھیے سیدھے منہ بات نہیں کرتا اور اولاد ہے کہ الگ ستیاناس ہو گئی۔ بڑوں کو بھی ازار میں ڈال کر نہیں پہنتے۔‘‘
جب یہ دونوں گھر پہنچے تو مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ دور سے ایک آدھ بار بندوقوں کے چھٹنےکی آواز آئی لیکن پھر سناٹا چھا گیا۔ نواب صاحب اور میر ابّن باتوں میں اس طرح مشغول ہو گئے جیسے کوئی خاص بات ہوئی ہی نہ تھی۔ کھانے سے فراغت پا کر بیٹھے ہی تھے کہ نواب صاحب کے دوست مرزا فرحت اللہ بیگ آ نکلے۔
’’نواب صاحب آپ نے سنا۔ آج تو گولی چل گئی۔ سنا ہے سو سے اوپر آدمی مرے اور زخمی ہوئے۔‘‘
’’جی ہاں ہم بھی گھر گئے تھے۔ وہ تو خیریت ہوگئی۔ اچھا کہیے اب کیا حال ہے؟‘‘
’’اب تو آدمی کا بچہ بھی فتحپوری سے لے کر فوارے تک دیکھنے میں نہیں آتا۔‘‘
’’اجی صاحب اور کیا؟ میر ابّن بولے، گولی کے سامنے بھی کوئی ٹھیر سکتا ہے؟ ان حرام زادوں کو اسی کی ضرورت تھی۔‘‘
اب رات کے دس بج چکے تھے۔ مرزافرحت اللہ بیگ گھر چلے گئے۔ ہوا خوشگوار تھی۔ نواب صاحب کرسی میں لیٹے حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ میر صاحب سامنے کی کرسی میں آرام کر رہے تھے۔ نواب صاحب بولے، ’’ہاں بھئی، آج کچھمی بائی کا آدمی آیا تھا۔ کہتی ہے کہ عرصہ سے حضور سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر اجازت ہو تو خود حاضر ہوں۔ کیا رائے ہے؟‘‘ اس بات کو سن کر میر صاحب اپنی کرسی میں سنبھل کر بیٹھے اور ذرا تپاک سے کہا، ’’بسم اللہ!‘‘
’’چلو بھئی خود ہی کیوں نہ چلیں؟ رات پرکیف ہے۔ دوسرے وہ آدمی کہتا تھا کہ آج کل لچھمی بائی کی کوئی بہن بھی آئی ہوئی ہے۔ ذرا اس کی بھی چاشنی چکھیں۔‘‘
غرض کہ دونوں گھر سے چل دیے۔ سڑک پر بالکل سناٹا تھا۔ جیسے رات بہت گئی ہو، یہاں تک کہ ایک کتا بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی اور ان کے ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے۔ ایک مست کر دینے والی بھینی بھینی خوشبو پیدا کر رہے تھے۔ جب وہ قاضی کے حوض پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ سپاہی چارپائیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ چاوڑی کے نکڑ پر ان کو ایک لاش خون میں لتھڑی ہوئی بھیانک اور کریہہ منظر، ابھی تک پڑی ہوئی دکھائی دی اور ایک اندھی بڑھیا اور ایک اپاہج فقیر، دونوں لاغر اور کمزور، محض ہڈیوں کے ڈھنچر، بھوک اور پیاس کے مارے، دیواروں سے ملے ملے دبے پاؤں چوروں کی طرح اجمیری دروازے کی طرف جا رہے تھے۔
- अहमद-अली
’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ نے کہا۔ سب آتش دان کے اور قریب ہو کے بیٹھ گئے۔ آتش دان پر رکھی ہوئی گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ بلیاں کشنوں میں منہ دیئے اونگھ رہی تھیں، اور کبھی کبھی کسی آواز پر کان کھڑے کر کے کھانے کے کمرے کے دروازے کی طرف ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر دیکھ لیتی تھیں۔ صاحب خانہ کی دونوں لڑکیاں نٹنگ میں مشغول تھیں۔ گھر کے سارے بچے کمرے کے ایک کونے میں پرانے اخباروں اور رسالوں کے ڈھیر پر چڑھے کیرم میں مصروف تھے۔
بوبی ممتاز کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھا ان سب کو دیکھتا رہا۔
’’ہاں آج رات تو قطعی برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ کے بڑے بیٹے نے کہا۔ ’’بڑا مزا آئے گا۔ صبح کو ہم اسنو مین بنائیں گے‘‘ ایک بچہ چلایا۔ ’’ممتاز بھائی جان ہمیں اپنا پائپ دے دو گے؟ ہم اسے اسنو مین کے منہ میں ٹھونسیں گے‘‘، دوسرے بچے نے کہا۔
’’کل صبح شمال میں ہلکے ہلکے چھینٹے پڑیں گے۔ اور شمال مغرب میں آندھی کے ساتھ بارش ہوگی۔ جنوبی بلوچستان اور سندھ کا موسم خشک رہے گا‘‘ صاحب خانہ نے ناک پر عینک رکھ کر اخبار اٹھایا اور موسم کی پیشین گوئی با آواز بلند پڑھنی شروع کی۔
’’خوب برف پڑتی ہے بھائی۔ لیکن ایک بات ہے۔ اس طرف پھل بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں جب میں تھا‘‘ صاحب خانہ کے منجھلے بیٹے نے خود ہی اپنی بات جاری رکھی۔
بوبی ممتاز چپکا بیٹھا ہنستا رہا۔ ’’ساری دنیا موسم میں اتنی شدید دلچسپی کیوں لیتی ہے۔ کیا ان لوگوں کو اس وقت گفتگو کا کوئی اس سے زیادہ بے کار موضوع نہیں سوجھ رہا۔ کوئینی لکھنؤ ریڈیو پر روزانہ آٹھ پچپن پر انگریزی میں موسم کی رپورٹ سناتی تھی۔ کل پچھّم میں تیز ہوا کے ساتھ پانی آئے گا۔ پورب میں صرف تھوڑے چھینٹے پڑیں گے اتر میں سردی بڑھ جائے گی۔۔۔ کوئینی۔۔۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو۔۔۔ فریڈ کہاں ہو تم سب۔۔۔ اس وقت تم سب جانے کیا کر رہے ہوگے‘‘ اس نے بہت تھک کر آنکھیں بند کر لیں۔
’’ممتاز صاحب آج تو آپ ہمارے ساتھ ہی کھانا کھائیے‘‘، صاحب خانہ کی بیگم نے کہا اور شال لپٹتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ان کی آواز پرآنکھیں کھول کر وہ انہیں پینٹری کے دروازے میں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔
صاحب خانہ کی دو لڑکیاں تھیں۔ یہی ساری بات تھی۔ اسی وجہ سے اس کی اتنی خاطریں کی جارہی تھیں۔ جب سے وہ پاکستان منتخب کرنے کے بعد کوئٹہ آیا تھا۔ یہ خاندان اسے روزانہ اپنے ہاں چائے یا کھانے پر مدعو کرتا۔ اگر وہ نہ آنا چاہتا تو وہ جاکر اسے کلب سے پکڑ لاتے۔ اس کے لیے روز طرح طرح کے حلوے تیار کیے جاتے۔ اس کی موجودگی میں ان کی بڑی لڑکی پھیکے شلجم کے ایسے چہرے والی سعیدہ بڑی معصومیت اور نیاز مندی کے ساتھ ایک طرف کو بیٹھی نٹنگ کرتی رہتی۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے خالی رہتا۔ جیسے کسی کل والی چینی کی گڑیا کی انگلیوں میں تتلیاں تھما دی گئی ہوں۔ کبھی کبھی وہ دوسروں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی اور پھر خود بخود شرما کر دوبارہ نٹنگ پر جھک جاتی۔
یہ لڑکیاں کتنی نٹنگ کرتی ہیں۔ بس سال بھر ان کے ہاتھوں میں اون اور سلائیاں دیکھ لو۔ گویا یہ ان کے بنے ہوئے پل اوور اور موزے قیامت کے روز انہیں بخشوائیں گے۔ پھر صاحب خانہ کی بیگم باورچی خانہ سے واپس آکر خانساماں کی نامعقولیت پر اظہار خیال کرنے کے بعد اپنی سگھڑبیٹی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتیں اور اسے مخاطب ہوکر کہتیں۔
’’بس اس کو تو یہی شوق ہے۔ دن بھر اسی طرح کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی ہے۔ اپنے ابا کا یہ سویٹر کوٹ بھی اسی نے بنا ہے۔‘‘ اس وقت وہ یقینا متوقع ہوتیں کہ وہ کہے، ’’اون منگوا دوں گا میرے لیے بھی ایک پل ادور بنا دیجئے۔‘‘ لیکن وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہتا۔ لڑکی اپنی ڈائرکٹر آف پروپگنڈہ اینڈ پبلسٹی کی طرف سے یہ تعریف ہوتی سن کر اور زیادہ شرما جاتی اور اس کی سلائیاں زیادہ تیزی سے متحرک ہوجاتیں۔
خدا وندا۔۔۔ بوبی ممتاز نے بہت زیادہ اکتا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ اندھیرے میں چنار کے درخت آہستہ آہستہ سرسرا رہے تھے۔ اس گرم اور روشن کمرے کے باہر دور دور تک مکمل سکوت طاری تھا۔ رات کا گہرا اور منجمد سکوت۔ وہ رات بالکل ایسی تھی اندھیری اور خاموش۔ ۹ستمبر ۴۷ء کی وہ رات جو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مسوری کے وائلڈ روز میں آخری بار گزاری تھی۔ کوئینی اور وجاہت کا وائلڈ روز۔ جب وہ سب وائلڈ روز کے خوب صورت لاؤنج میں آگ کے پاس بیٹھے تھے اور کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ وہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔لیکن وہ رات بھی پلک جھپکتے میں گزر گئی تھی۔وقت اسی طرح گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحب خانہ نے دفعتاً بڑے زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ایک ہاتھ میں اخبار تھامے ویکلی کے کسی کارٹون پر ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جارہے تھے۔ بچے اپنے تصویروں والے رسالے اور کیرم چھوڑ کر اس کے قریب آگئے اور اس سے کہنے لگے کہ اگر رات کو اس کی موٹر برف میں پھنس گئی تو کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ ایک بچی نے ناؤ بنانے کے لیے اون لکر کا سرورق پھاڑ ڈالا اور ایک تصویر دوسری تراشی ہوئی تصویروں اور کترنوں کے ساتھ رسالے میں سے سرک کر فرش پر آن گری۔
بوبی ممتاز کی نظر اس تصویر پر پڑگئی۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ سگرڈ کی تصویر تھی۔ سگرڈ اپنے پیارے سے دوماہ کے بچے کو میز پر ہاتھوں سے تھامے اس کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔ وہی مخصوص تبسم، اس کے بال اسی اسٹائل سے بنے تھے۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پرسکون اور پر اسرار۔۔۔ اس تصویر کے لیے بچوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوگئی۔ اس کے جسم میں سردی کی ایک تیز ناقابل برداشت کاٹتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی بند تھی اور آتش دان میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کمرہ حسب معمول گرم تھا۔ بچے اسی طرح شور مچا رہے تھے۔ لڑکیاں نٹنگ کررہی تھیں۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ یہ سگرڈ کی تصویر تھی جو ایک بچی نے بے خیالی سے نئے اون لکر میں سے کاٹ لی تھی۔۔۔ سگرڈ۔۔۔ سگرڈ وہ دفعتاً کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
’’کہاں چلے۔۔۔؟ کھانا آنے والا ہے‘‘ صاحب خانہ ہاتھ پھیلا کر چلائے۔ ’’بس پانچ منٹ اور ٹھہر جاؤ بھیا۔ توا چڑھا ہی ہے‘‘ بیگم صاحب نے کہا۔ ’’کھانا کھاکے جائیےگا‘‘ سعیدہ نے اپنی پتلی سی آواز آہستہ سے بلند کرکے چپکے سے کہا اور پھر جلدی سے سلائیوں پر جھک گئی۔
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں پائپ لگا دوں گا۔‘‘ دوسرا بچہ چلایا۔ ’’واہ، لڑکیاں پائپ کہاں پیتی ہیں‘‘ پہلے بچے نے اعتراض کیا۔ ’’ممتاز بھائی جان تو پیتے ہیں‘‘ اس نے اپنی منطق استعمال کی۔ ’’ممتاز بھائی جان کوئی لڑکی تھوڑا ہی ہیں۔‘‘ سب نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔
بوبی ممتاز انتہائی بد اخلاقی کا ثبوت دیتا کمرے سے نکل کر جلدی سے باہر آیا۔ اور اپنی اوپل تک پہنچ کر سب کو شب بخیر کہنے کے بعد تیزی سے سڑک پر آگیا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ اور فروری کا آسمان تاریک تھا۔ اس کے میز بانوں کا گھر دور ہوتا گیا۔ بچوں کے شور کی آواز پیچھے رہ گئی۔ بالکل خالی الذہن ہوکر اس نے کار بے حد تیز رفتاری سے سیدھی سڑک پر چھوڑدی۔ گھر چلا جائے۔ اس نے سوچا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ اس نے کار کا رخ کلب کی طرف کردیا۔
ایک بیرے کو کھانے کے متعلق کہتے ہوئے وہ ایک لاؤنج کی طرف چلا گیا۔ جو اکثر سنسان پڑی رہتی تھی۔ اس نے صوفے پر لیٹ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے، یاد کرنے کی ساری عادتیں بھول چکا ہے۔ اب کچھ باقی نہیں، کچھ باقی نہیں۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو خوب ملا۔ اور پھر غور سے ہتھیلیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کی آنکھیں بہت سونی سونی لگ رہی ہوں گی۔ وہ آنکھیں جن کے لیے کملا کہا کرتی تھی کہ انتہائی شراب انڈیلنے والی آنکھیں ہیں۔ اس کی آنکھوں کی یہ تعریف سب کو یاد ہوگئی تھی۔ بوبی ممتاز کی شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔ اور وہ اس وقت وہاں، اس اجنبی شہر کے غیر دل چسپ کلب کے نیم تاریک خاموش لاؤنج میں صوفے پر بچوں کی طرح پڑا اپنی ہتھیلیوں سے ان آنکھوں کو مل رہا تھا۔ گویا بہت دیر کا سویا ہوا اب جگا ہے۔ برابر کے کمرے میں خوب زور زور سے ریڈیو بجایا جارہا تھا۔ بہت سے لوگ باتوں میں مشغول تھے۔ وہاں بھی موسم کے متعلق بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی۔‘‘ کوئی بے حد وثوق اور اہمیت کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
’’یہاں بڑے کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے یارو‘‘، دوسرے نے جواب دیا۔ پھر سیاسیات پر گفتگوشروع ہوگئی۔ جہاں چار آدمی اکٹھے ہوتے یہ لازمی بات تھی کہ سیاست پر رائے زنی شروع ہوجائے۔ جواہر لال نے یہ کہا۔ قائد اعظم نے یہ کہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہا۔ یہ اچھا ہوا۔ یہ برا ہوا۔ تم کیسے آئے؟ میں ایسے آیا۔ میں یوں لٹا۔ میں نے راستے میں یوں تکلیفیں اٹھائیں۔ فلاں ملازم ہوگیا۔ فلاں نے استعفیٰ دے دیا۔ فلاں کراچی میں ہے۔ فلاں پنڈی پہنچ چکا ہے۔۔۔
بوبی ممتاز لاؤنج کے صوفے پر چپ چاپ پڑا یہ سب سنا کیا۔ گیلری کی دوسری جانب ایک کمرے میں چند انگریز ممبر اور ان کی خواتین قریب قریب بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ مے نوشی میں مصروف تھیں۔ کلب کا وہ حصہ نسبتاً سنسان پڑا تھا۔ ۱۵اگست کے بعد شہر اور چھاؤنی میں جو اکادکا انگریز رہ گئے تھے وہ سرشام ہی سے وہاں آن بیٹھتے اور ہوم، خط لکھتے رہتے یا طامس کک اور بی، او، اے، سی والوں سے پسیج کے متعلق خط وکتابت کرتے۔ ان کی بیویاں اور لڑکیاں اکتاہٹ کے ساتھ بیٹھی ریکارڈ بجاتی رہتیں۔ ان کے گڈ اولڈ ڈیز کے پرانے ساتھی اور عزیز ہوم جاچکے تھے اور جانے کہاں کہاں سے نئے نئے دیسی ممبر کلب میں آن بھرے تھے۔۔۔ ڈیڈی نے دوسال کے لیے کنٹریکٹ کیا ہے۔ چالس نے سال بھر کے لیے والینٹیئر کیا ہے۔ کوئٹہ تو مار گریٹ ڈارلنگ بے حد دل چسپ اسٹیشن تھا۔ پر اب۔ اب تو اتنا مرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بے بسی کے عالم میں کلب کے دیسی ممبروں کی خواتین کو دیکھتیں۔
’اوگوش‘ گیلری میں سے گزرتے ہوئے کرنل روجرز کی سرخ بالوں والی لڑکی نے چپکے سے اپنی ایک سہیلی سے اکتا کر کہا، ’’آج وہ بھی نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ کون۔۔۔؟ اس کی سہیلی نے پوچھا۔۔۔ ’’وہی۔۔۔ انتظامی سروس والا۔۔۔ جو لکھنؤ سے آیا ہے۔‘‘
’’اچھا وہ۔۔۔‘‘
’’ہاں، سخت بور ہے۔ کل رات میرا خیال تھا کہ مجھ سے رقص کے لیے کہے گا۔ لیکن چپ چاپ الو کی طرح آنکھیں جھپکاتا رہا۔‘‘
’’لیکن کیرل ڈرالنگ کتنی بالکل شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔‘‘
’’ہوں گی۔۔۔ جین ڈارلنگ یہ ہندوستانی بالکل گیلنٹ نہیں ہوتے۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرتی کارڈ روم کی طرف چلی گئیں۔
باہر درخت ہوا میں سر سراتے رہے۔ اس کے ایک دوست نے گیلری میں سے لاؤنج میں آکر روشنی جلادی۔ وہ چونک کر صوفے پر سے اٹھ بیٹھا۔ ’’ابے یار کیا افیمچیوں کی طرح بیٹھے ہو۔ تمہیں سارے میں تلاش کر ڈالا، چلو کارڈ روم میں چلیں۔ وہاں روجرز کی لونڈیا بھی موجود ہے۔ تم نے تو ابھی سارا کلب بھی گھوم کر نہیں دیکھا۔ ذرا جاڑے نکلنے دو، تفریح رہے گی۔ سچ پوچھو تو یہ شہر اتنا برا نہیں۔ شروع شروع میں تو سبھی ہوم سک، محسوس کرتے ہیں لیکن بہت جلد ہم ان فضاؤں سے مانوس ہوجائیں گے‘‘، اس کے دوست نے کہا۔
’’ہاں بالکل ٹھیک کہتے ہو بھائی‘‘، اس نے پائپ جلاتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’چلو ذرا پون ٹون ہی کھیلیں۔‘‘
’’تم چلو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’جلد آنا۔ سب تمہارے منتظر ہیں‘‘ دوست نے باہر جاتے ہوئے کہا۔
برابر کے کمرے کا شور دھیما پڑگیا۔ شاید وہ سب بھی کارڈ روم کی طرف چلے گئے تھے۔ کسی بیرے نے یہ سمجھ کر کہ لاؤنج میں کوئی نہیں ہے۔ دروازے میں سے ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بجھا دی اور آگے چلا گیا۔ لاؤنج میں پھر وہی نیم تاریکی پھیل گئی۔ رات کا سحر گہرا ہوتا جارہا تھا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ وہ پھر چونک پڑا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نام سے اس اجنبی جگہ میں اس کو کس نے پکارا۔ اس نام سے پکارنے والے اس کے پیارے ساتھی بہت پیچھے بہت دور رہ گئے تھے۔
بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہاں پر کوئی نہ تھا۔ اس جگہ پر تو محض ممتاز صغیر احمد تھا۔ وہ ہنسی، وہ شور مچانے والا، خوب صورت آنکھوں کا مالک، سب کا چہیتا بوبی تو کہیں اور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں پر صرف ممتاز صغیر احمد موجود تھا۔ اس نے اپنا نام آہستہ سے پکارا۔ ممتاز صغیر احمد کتنا عجیب نام ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کی ہستی کیا ہے کیوں اور کس طرح اپنے آپ کو وہاں پر موجود پا رہا ہے۔۔۔ یہ انسان۔۔۔ یہ انسان سب کچھ محسوس کرکے، سب کچھ بتا کے اب تک زندہ ہے۔ سانس لے رہا ہے۔ رات کے کھانے کا انتظار کررہا ہے۔ ابھی وہ کارڈ روم میں جاکر پون ٹون کھیلےگا۔ کرنل فریزر کی لڑکی کے ساتھ ناچے گا۔ اتوار کو پھر اس شلجم کی ایسی شکل والی لڑکی سعیدہ کے گھر مدعو کیا جائےگا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے جواب دیا۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو بھیا۔۔۔ یہ تم ہو۔۔۔؟ اس نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھاکر کچھ محسوس کرنا چاہا۔ اس نے صوفے کے مخملیں کشن کو چھوا۔ مخمل اتنی گرم تھی، اور راحت پہنچانے والی۔ دریچے کے باہر فروری کی ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔
بوبی۔۔۔ ہاں کوئینی بی بی۔ تم کہاں ہو۔ میں نے تمہاری آواز سنی ہے۔ ابھی تم اور لوکھلکھلا کر ہنسی تھیں۔ لیکن وہاں لو بھی نہیں تھی۔ وجاہت بھی نہیں تھا۔ فریڈ بھی نہیں تھا۔
کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے دہرایا۔ آٹھ پچپن۔ اس کی نظر گھڑی پر پڑگئی وہ اس وقت، سینکڑوں ہزاروں میل دور، نشر گاہ کے اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنے سامنے رکھے ہوئے بلٹین کے ٹھیٹ سنسکرت الفاظ نگلنے کی کوشش میں مصروف ہوگی۔ اور موسم کی رپورٹ سنا رہی ہوگی۔ گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ وجاہت بھائی۔۔۔ تم اس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ اور فریڈ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ انیس۔۔۔
برابر کے کمرے میں لاہور سے موسم کی رپورٹ سنائی جارہی تھی اور خالی کمرے میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔ آج شمال میں برف باری ہوگی۔ شمال مغرب میں بارش کے چھینٹے پڑیں گے۔ جنوب میں تیز ہوائیں چلیں گی۔۔۔ گھڑی اسی طرح ٹک ٹک کرتی رہی۔ ٹک ٹک ٹک۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔چھ۔۔۔ چھ سال۔۔۔ یہ چھ سال۔۔۔ خدا وند۔
اس تپش، اس تڑپ، اس بے چینی کے بعد آخر کار موت آتی ہے۔ آخر کار خدائے قدوس کا سپید تخت نظر آتا ہے۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ کوئینی نے آہستہ آہستہ کہا۔ پس منظر کی موسیقی دفعتاً بہت تیز ہوگئی۔
ہاں۔۔۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ ارے تم کدھر نکل آئے زندگی کی طرف واپس جاؤ۔ انقلاب اور موت کے تندرو آندھیوں کے سامنے زرد، کمزور پتوں کی طرح بھاگتے ہوئے انسان۔ ہماری طرف واپس لوٹو۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ لو ٹہر گئی۔ ٹھیک ہے؟ اس نے اپنے حصے کی آخری سطریں ختم کرکے اسکرپٹ فرش پر گرادیا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔ تھینک یو۔۔۔‘‘ کوئینی ہیڈ فون ایک طرف کو ڈال کر باہر آگئی۔ ’’لیکن ڈارلنگ تم نے ٹمپو پھر تیز کردیا۔ خدا کے لیے دھیرے دھیرے بولا کرو۔‘‘
’’او گوش۔ یہ ٹمپو توکسی چیزکا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ کوئینی ڈرالنگ۔۔۔‘‘ لونے اکتا کر جواب دیا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ گیلری میں سے وجاہت کی آواز سنائی دی۔ ’’ارے کیا وجو آیا ہے؟‘‘ کوئینی نے اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر باہرجھانکا۔
اس کا بھائی وجاہت انتظار کے کمرے میں کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’بیٹا گھر چل رہی ہو؟‘‘ اس نے کوئینی سے پوچھا۔ ’’تم اس وقت کیسے آگئے؟‘‘ کوئینی نے دریافت کیا۔
’’میں ابھی ابھی بوبی ممتاز کوبرلنگٹن سے لینے آیا تھا۔ میں نے سوچا اگر تمہارا کام ختم ہوگیا ہو تو تمہیں بھی ساتھ لیتا چلوں‘‘، وجاہت نے کہا۔ ’’بوبی ممتاز کون؟‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’ہے ایک۔۔۔‘‘ وجاہت نے اسی بے خیالی سے جواب دیا۔ بوبی ممتاز زینے پر سے اتر کے ان کی طرف آیا۔ ’’کہاں بھاگ گئے تھے؟‘‘ وجاہت نے ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’ار۔۔۔ آداب۔۔۔‘‘ بوبی ممتاز نے کوئینی کی طرف مڑکر کہا ’’تم ہی کوئینی بیٹا ہونا؟‘‘
’’ہاں۔ تسلیم!‘‘ کوئینی ناخن کترتے ہوئے غور سے اس کے مطالعے میں مصروف تھی۔ کتنا سوئیٹ لڑکا ہے۔ اس نے دل میں کہا۔ ’’تو پھر چلو ہمارے ساتھ ہی گھر‘‘، بوبی ممتاز نے کہا۔ ’’نہیں بھیا۔ ابھی مجھے وہ کم بخت موسم کی خبریں سنانی ہیں۔ آٹھ پچپن ہوگئے۔‘‘ وہ انہیں گیلری میں کھڑا چھوڑ کر اسٹوڈیو میں تیزی سے گھس گئی۔ وہ دونوں باہر آگئے۔
یہ خلوص، یہ سادگی، یہ اپنائیت ایسے پیارے دوست اسے آج تک کہیں نہ ملے تھے۔ بہت جلد وہ وجاہت کے سٹ میں گھل مل گیا۔ وہ سب کے سب اتنے دل چسپ تھے۔ لیونور اور شرجو ’ لو‘ کہلاتی تھی، جس کی ماں امریکن اور باپ پہاڑی تھا۔ اس کی ترچھی ترچھی نیپالی آنکھوں کی وجہ سے سب اسے چنک چائی لو کہتے تھے اور فریڈ جس کا تبسم اتنا معصوم، اتنا پاکیزہ، اتنا شریف تھا۔ وہ اسے چھیڑنے کے لیے ہندستانی عیسائی فرقے کی مخصوص حماقتوں کا مذاق اڑاتے۔ لڑکیاں عیسائیوں کے بنے ہوئے انگریزی لہجے کی نقل کر کے اس سے پوچھتیں، ’’فریڈ ڈیر کیا آج تم کسی اپنا گرل فرینڈ کو باہر نہیں لے جانے مانگتا؟‘‘
’’کیوں تم سب میری اتنی ٹانگ کھینچتے ہو‘‘ وہ ہنس کر کہتا۔ وہ بہت اونچے عیسائی خاندان سے تھا۔ لیکن اسے اس طرح چھیڑنے میں سب کو بہت لطف آتا۔ وہ سب لو سے کہتے، ‘‘لوڈیر اگر فریڈ اس سنڈے کو پروپوز کرے تو فوراً مان جاؤ۔ ہم سب تمہاری برائیڈز میڈز اور پیچ بوائے بنیں گے۔‘‘ پھر وہ چلا چلا کر گاتیں، ’’سم سنڈے مارننگ۔‘‘
وہ ۴۲ء تھا، جب بوبی ممتاز پہلی بار ان سب سے ملا۔ ہر سال کی طرح جب گرمیاں آئیں اور وہ لوگ مسوری جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہم راہ مسوری گیا۔ کوئینی اور وجاہت کے ’وائلڈ‘ روز میں سب اکٹھے ہوئے۔ اور وہ وہاں پر بھی بہت جلد بے حد ہر دلعزیز ہوگیا۔
بڑی غیر دلچسپ سی شام تھی۔ وہ سب ہیک منیز کے ایک کونے میں بیٹھے سامنے سے گزرنے والوں کو اکتاہٹ سے دیکھ رہے تھے۔ اور چند ملنے والوں کے منتظر تھے۔ جنہیں وجاہت نے مدعو کیا تھا۔ اتنے میں گیلری میں سے چچی ارنا گزرتی نظر آئیں انہوں نے بالوں میں دو تین پھول ٹھونس رکھے تھے۔ اور خانہ بدوشوں کا سا لباس پہنے تھیں۔
’’کوئی نیا جناور گرا ہے‘‘ یاسمین نے چپکے سے کوئینی سے کہا۔ ’’اماں چپ رہو یار‘‘، کوئینی نے اسے ڈپٹ کر جواب دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں‘‘، کوئینی نے جواب دیا۔ اتنے میں ان کے مہمان آگئے۔ اور وہ سب بظاہر بڑی سنجیدہ شکلیں بنا کر ان کے پاس جا بیٹھیں۔
’’یہ چچی ارنا کون ہیں۔ تمہاری چچی ہیں؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ تازہ وارد مہمان سب ان ہی کی باتیں کر رہے تھے۔
’’ارے نہیں بھئی‘‘، کوئینی نے شگفتگی سے جواب دیا۔ ’’یہ سگرڈ کی ممی ہیں۔‘‘
’’سگرڈ کون؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’ہے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔۔‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے گویا مزید تشریح کر دی اور پھر دوسری باتوں میں منہمک ہوگئی۔
اگلے روز وہ سب ٹہلنے کے لیے نکلے تو وجاہت نے تجویز کیا کہ وڈ اسٹاک کا چکر لگا آئیں۔ سگرڈ سے بھی ملتے آئیں گے۔ وہ ٹولیاں بنا کر پتھر اور چٹانیں پھلانگتے وڈ اسٹاک کے ہوسٹل کی طرف مڑ گئے۔
ایک بڑے سے سلوراوک کے نیچے بوبی ممتاز نے سگرڈ کو دیکھا۔ وہ عمارت کی ڈھلوان پر درختوں کے جھنڈ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی نٹنگ میں مشغول تھی۔ ان سب کواپنی سمت آتا دیکھ کر وہ بچیوں کی طرح دوڑتی ہوئی کوئینی کے قریب آگئی۔ کوئینی نے اس کا تعارف کرایا، ’’یہ ہمارے بوبی بھائی ہیں۔ اتنی بڑھیا ایکٹنگ کرتے ہیں کہ تم دیکھ کر بالکل انتقال کر جاؤ گی۔‘‘
وہ بچوں کی طرح مسکرائی۔ وہ اس کا معصوم، پاکیزہ تبسم، ایکٹنگ ان دونوں کا مشترکہ موضوع گفتگو بن گیا۔ وہ سب شام کی چائے کے لیے اکٹھے ’وائلڈ روز‘ واپس آئے۔
وہ زمانہ جو اس سال بوبی ممتاز نے مسوری میں گزارا، اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔ مال پر سے ونسنٹ ہل کی طرف واپس آتے ہوئے ایک روز اس نے فریڈ سے کہا، ’’ٹھاکر پال فریڈرک رنبیر سنگھ۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان کون ہے؟‘‘ فریڈ نے سنجیدگی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’سنو‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جس طرح اکثر اخباروں کے میگزین سیکشن میں ایک کالم چھپتا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پل سڈنی میں ہے۔ دنیا کا امیر ترین شخص نظام حیدر آباد ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ چھپے گا کہ دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص ممتاز صغیر احمد ہے۔ سمجھے ٹھاکر صاحب۔۔۔ ممتاز صغیر۔۔۔ کیا سمجھے؟‘‘
فریڈ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ بہت ہی گر انبار، سنجیدہ، سلجھا ہوا آدمی تھا۔ اس کی عمر اکتیس بتیس سال کی رہی ہوگی۔ بہت ہی کنفرمڈ قسم کا بیچلر تھا اور سارے بیچلرز کا مانا ہوا گرو۔ اپنے ایک نہایت ہی سعادت مند چیلے سے یہ بچوں کی سی بات سن کر وہ صرف ہنستا رہا۔ اور اس نے بوبی کو کوئی جواب نہ دیا۔ بوبی بے فکری سے سیٹی بجاتا آگے چلا گیا۔
سڑک کی ڈھلوان پر سے مڑتے ہوئے اس کی نظر ایک بڑی سی دو منزلہ کوٹھی پر پڑی جسے اس نے آج تک نوٹس نہ کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ اس وقت اس کے احاطے میں خوب گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ دروازوں پر روغن کیا جارہا تھا۔ چھت پر بھی نیا سرخ رنگ کیا گیا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کے داڑھی دراز بزرگوار بر آمدے میں کھڑے قلیوں اور نوکروں کو ہدایات دے رہے تھے۔ بڑا کرو فر۔ بڑی شان و شوکت نظر آرہی تھی۔
’’یہ کس کا مکان ہے بھئی؟‘‘ بوبی نے ایک قلی سے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔؟ قاضی جلیل الرحمن کا ایشلے ہال‘‘، قلی نے بڑے رعب سے اسے مطلع کیا۔ اور آگے چلا گیا۔
سیاہ بادل بہت تیزی سے بڑھتے آرہے تھے۔ یک لخت بارش کا ایک زور دار ریلا آگیا۔ بوبی نے اپنی برساتی سنبھال کر جلدی سے ’وائلڈ روز‘ کے راستے چڑھائی طے کرنی شروع کردی۔
وہ جولائی کا دوسرا ہفتہ تھا۔ موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہورہی تھیں۔ چند روز بعد وہ سب مسوری سے واپس آگئے۔
لیکن قاضی جلیل الرحمن اور ان کے بھانجے انیس کو موسمی تعطیلات کے ختم ہوجانے کی پروانہ تھی۔ وہ مراد آباد کے نواح کے زمین دار تھے۔ ان کے پاس وقت اور روپے کی فراوانی تھی۔ اور ان دونوں چیزوں کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے دونوں ماموں بھانجے مسوری آئے تھے اور پانی کی طرح روپیہ بہانے میں مصروف تھے اور اکتوبر سے پہلے ان کا مراد آباد جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
انیس کے والد کا سال بھر قبل انتقال ہوچکا تھا۔ اور اس کے ماموں قاضی صاحب نے خود کو اس کا غیر قانونی مشیر مقرر کررکھا تھا۔ ان کا اثر اس پر بہت زیادہ تھا۔ قاضی صاحب بے حد دل چلے اور شوقین آدمی تھے۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد انہوں نے اندازہ لگایا کہ لڑکا بہت سیدھا اور خاصا کم عمر ہے اور ساری ریاست اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہذا اب تو راوی چین لکھتا ہے۔ چناں چہ انیس کے والد کی برسی کے بعد پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ پہاڑ پر چل کے رہنے کے فوائد اسے ذہن نشین کرانے شروع کیے۔ اس کے حوالیوں موالیوں نے بھی اٹھتے بیٹھتے اس سے کہا کہ سرکار اک ذری تھوڑی دور کسی فرحت بخش مقام پر ہو آویں تو غم غلط ہووے گا۔ وہ فوراً مان گیا اور اپنا لاؤ لشکر لے کر قاضی صاحب کی قیادت میں مسوری آن پہنچا۔ طے کیا گیا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا جھول ہے اور اٹھائی گیروں کا کام ہے جن کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں ہوتا۔ ہری چگ کی طرح آئے اور ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ لہذا ایک عمدہ سی کوٹھی خریدنا چاہئے۔ انیس نے کہا کہ یہاں کی سب سے بڑھیا کوٹھی کون سی ہے وہی خرید لی جائے۔ لوگوں نے بتایا کہ کپور تھلہ ہاؤس یہاں کی بہترین کوٹھی سمجھی جاتی ہے۔ کوٹھی کیا اچھا خاصا محل ہے۔ انیس نے فوراً اپنی چیک بک نکالی۔ ’’لاؤ پھر اسے ہی خرید لیتے ہیں‘‘، اس نے کہا۔
’’اماں یار باؤلے ہوئے ہوکیا۔ کپور تھلہ ہاؤس تم خرید لوگے بھلا؟‘‘ ایک دوست نے قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’حضور دوسرا بہترین مکان بھوپال ہاؤس ہے۔ لیکن اتفاق سے وہ بھی بک نہیں سکتا۔ تیسری بہترین کوٹھی اسپرینگ ڈیل ہے اور چوتھی کوٹھی حضور کے لائق ایشلے ہال ہے‘‘، ایک مصاحب نے اطلاع دی۔
ایشلے ہال خرید لی گئی۔ اسے بہترین ساز وسامان سے آراستہ کیا گیا۔ دہرہ دون سے گوانیز ملازم اور ایک اینگلو انڈین ہاؤس کیپر منگوائی گئی اور ایشلے ہال مسوری کی چوتھی بہترین کوٹھی کہلانے لگی۔
انیس جب پہلے پہل مسوری گیا ہے اس کی تعلیم بقول شخصے صرف سرسی سے سنبھل تلک کی تھی۔ نویں کلاس سے اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ اس سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ البتہ شیر کے شکار اور شہسواری اور برج اور گھوڑ دوڑ کے میدان میں رویل کھنڈ بھر میں دور دور کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنبے کی ایک لڑکی سے کردی گئی تھی جو ایک اور زمین دار کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی جاگیر پر بیٹھا چین کی بنسی بجاتا تھا۔
ایشلے ہال خرید کر مسوری میں جب اس نے رہنا شروع کیا تو وہاں کی پہلی جھلک سے اس کی آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ اور اس نے سوچا کہ یار یہ جو اب تک ہم مراد آبا، سنبھل اور امروہے میں پڑے تھے وہ اتنی عمر تو گویا برباد ہی گئی۔ یہاں تو ایک عجیب وغریب دنیا آباد تھی۔ انسانوں کی بستی تھی۔ یا اندر کا اکھاڑہ۔ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ ایشلے ہال کا مالک اور مسوری کا سب سے زیادہ روپیہ خرچنے والا میزبان، لیکن بالکل تازہ تازہ دیہاتی جاگیردار۔ ادھر ادھر تو کام چل جاتا تھا لیکن خواتین کی سوسائٹی میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ایک اینگلو انڈین لیڈی کمپنین کی خدمات حاصل کیں۔ جو اسے صحیح انگریزی بولنا اور بال روم ناچ سکھائے۔ چند ہی مہینوں میں وہ ایک اور فرفر انگریزی بولنے والا بے حد ویل ڈر سیڈ انیس تھا جو مسوری کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز شخص سمجھا جاتا تھا۔ بالکل ہی کایا پلٹ ہوگئی۔
اگلے سال ۴۳ء کی گرمیوں میں جب کوئینی وجاہت اور ان کا گروپ مسوری پہنچا تو انہیں ایک تازہ وارد اجنبی بال رومز کی سطح پر بہتا نظر آیا۔ جس نے ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی۔ وجاہت اسے پہلے سے جانتا تھا۔ لیکن اس اچانک کایا پلٹ پر وہ بھی اسے نہ پہچان سکا۔ اس سال وہاں سارے مشہور ٹینس اسٹارز جمع تھے۔ مس اعزاز، مس کاجی۔ غیاث محمد۔ علی نگر کی عبیداللہ بہنیں۔ ان کی بھاوج شاہندہ احسان عبیداللہ،بمبئی سے جیوتی بھی حسب معمول آیا تھا۔ سیزن اپنے عروج پر تھا۔ لکھنؤ کی کھوچڑ بہنیں بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھیں۔ نرملا، پرکاش، وائلٹ، روبی اوبز روزا کی پیشین گوئی تھی کہ روبی کھوچڑ اس دفعہ سالانہ مقابلہ حسن میں سگرڈ ربانی سے سبقت لے جائے گی۔ ایشلے ہال کی پارٹیوں میں یہ سب اکثر نظر آتیں۔
ایک روز ہیک منیز میں انیس رقص کا پہلا دور ختم کرکے کوئینی کی طرف آیا اور اسے سلام کرکے وجاہت کے قریب جا بیٹھا۔ ’’ابے اوبغ چونچ۔۔۔ یہ سوٹ بوٹ کیسے ڈانٹ لیا۔ یہ کیا سوانگ بھرا ہے ایں؟‘‘ وجاہت نے اسے ڈانٹ کرپوچھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا جھینپتے ہوئے چپکے سے وجاہت سے پوچھا، ’’کیوں یار اب ٹھیک لگتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘
’’ذرا اس گدھے کو دیکھنا یاسمین ڈارلنگ، خود تو شام کا لباس پہن کر ناچتا پھررہا ہے اور بیوی کو وہیں قصبے میں چھوڑ رکھا ہے۔ ایسے آدمیوں کو تو بس۔۔۔‘‘ کوئینی نے غصے کے ساتھ چپکے سے کہا۔
اس کے اگلے دن کوئینی اپنے مکان کے اوپر کے برآمدے میں آرام کرسی پر کاہل بلی کی طرح لیٹی پڑھنے میں مشغول تھی کہ دفعتاً اسے برآمدے کے شیشوں میں سے نظر آیا کہ نشیب میں خان بہادر اعجاز احمد کے کاٹج کے سامنے رکشائیں کھڑی ہیں۔ بہت سے لوگ آجارہے ہیں اور خوب چہل پہل ہے۔ یہاں تک کہ ان کے باورچی خانہ میں سے دھواں تک اٹھ رہا ہے۔ یہ بے حد عجیب اور نئی بات تھی۔ کیوں کہ خان بہادر صاحب کا خاندان عموماً یا دوسروں کے ہاں مدعو رہتا تھا یا ہوٹلوں میں کھانا کھاتا تھا۔ وہ بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھتی رہی۔ اسی وقت بارش شروع ہوگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد وجاہت اور بوبی برساتیوں سے لدے پھندے بھیگتے بھاگتے نچلی منزل کی گیلری میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی زینے ہی پر تھے کہ کوئینی چلائی، ’’ارے وجو بوبی بھیا جلدی سے اوپرآؤ۔۔۔‘‘
اور جس وقت وجاہت اور بوبی برآمدے کے دریچے میں آکھڑے ہوئے انہیں انیس اپنا بہترین سوٹ پہنے سگار کا دھواں اڑاتا خان بہادر صاحب کے کاٹج میں سے نکلتا نظر آیا۔
’’اچھا۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔‘‘ وجاہت نے بہت آہستہ سے کہا۔ اسے اور بوبی کو اتنا رنجیدہ دیکھ کر کوئینی کا سارا اکسائیٹ منٹ رفو چکر ہوگیا۔ اور وہ بھی بڑی فکر مندی کے ساتھ دونوں کی کرسیوں کے نزدیک فرش پر بلی کی طرح آبیٹھی اور چہرہ اوپر اٹھاکر دونوں لڑکوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔
چچ چچ چچ۔۔۔ بے چارہ سوئیٹ بوبی ممتاز۔ کوئینی نے بے حد ہمدردی سے دل میں سوچا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس سے اس سنجیدگی سے نہ بیٹھا گیا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر بھاگی بھاگی گیلری میں پہنچی اور یاسمین کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔
’’میں نے تم سے کہا تھا کوئینی ڈیرکہ اس سال تو کوئی اور بھی برا جناور گرا ہے۔ اس پچھلے سال والے کسی جناور سے بھی بڑا‘‘ دوسرے سرے پر یاسمین بڑی شگفتگی سے کہہ رہی تھی۔ ’’اور سنو تو۔۔۔ کل میں نے سگرڈ کو نیا لیپرڈاسکن کوٹ پہنے دیکھا۔ ایسا بڑھیا کہ تم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ اور چچی ارنا کا نیا ایوننگ گاؤن۔ اصلی ٹیفیٹا ہے۔ اس جنگ کے زمانے میں اصلی ٹیفیٹا کوئینی ڈارلنگ۔۔۔ اور ٹوٹو کہہ رہی تھی کہ اس نے مسز راج پال سے سنا جنہیں بیگم فاروقی نے بتایا کہ مسز نارنگ نے ان سے کہا کہ آج کل خان بہادر صاحب کے ہاں کی خریداری کے سارے بل لیلارام اور فینسی ہاؤس والے سیدھے ایشلے ہال بھیج دیتے ہیں۔۔۔ اوگوش۔‘‘
’’اوگوش۔۔۔‘‘ کوئینی نے اپنی آنکھیں بالکل پھیلا کر پھولے ہوئے سانس سے دہرایا۔
بارش ہوتی رہی۔ ریسیور رکھ کر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اوپر آگئی اور دریچے میں کہنیاں ٹیک کر بے دلی سے باہر کا منظر دیکھتی رہی جہاں پانی کے پھواروں کے ساتھ بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر تیرتے پھر رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں خان بہادر صاحب کے کاٹج میں پیانو بج رہا تھا اور چچی ارنا اپنے برآمدے میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں۔
چچی ارنا سوئیڈش تھیں۔ جب وہ پہلی بار اپنے شوہر کے ہم راہ ہندوستان آئی تھیں۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ سر آغا خاں کے اس سنہرے دیس میں وہ بھی ایک مرمریں محل سرا میں کسی الف لیلیٰ سلطانہ کی طرح رہا کریں گی۔ لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ مرمریں ستونوں اور ایرانی قالینوں والی محل سرا کے بجائے ان کے شوہر اصغر ربانی لکھنؤ کے ایک نہایت گندے محلے وکٹوریہ گنج میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک بوڑھی ماں ہے جو ہر وقت امام کی مجلسوں میں چلا چلا کر رونے میں مصروف رہتی ہے۔ چار پانچ جاہل اور کالی اور سخت بے ہنگم بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ ان سب عورتوں کی ساری سوسائٹی جھوائی ٹولہ اور مولوی گنج اور نخاس کی گلیوں تک محدود ہے جہاں وہ سب ڈولیوں پر کتے کی طرح ہانپتے ہوئے انسانوں کے کاندھوں پر لد کے، پردے دار تانگوں میں سوار ہوکے کبھی کبھار اسی طرح کے دوسرے گندے مکانوں اور ان ہی کی قسم کی دوسری بے ہنگم عورتوں سے ملنے جایا کرتی ہیں۔
ارنا کرسینا پر یہ سب دیکھ کر بے ہوشی کا سا عالم طاری ہوگیا۔ ان کے پیارے شوہر نے انہیں دلاسا دیا کہ جب ان کا کاروبار چمک جائے گا تو وہ شہر سے باہر گومتی کے کنارے سول لائنز میں یا چھاؤنی میں کوٹھی لے کر رہا کریں گے۔ لیکن وہ برسوں تک اس ٹاٹ کے پردوں والے مکان سے نہ نکل سکیں۔ ان کے بالکل سونے کی رنگت کے دمکتے ہوئے بال تھے۔ نیلی آنکھیں تھیں اور گلاب کے شبنم آلود شگوفوں کی ایسی رنگت تھی۔ لیکن وائٹ ویز کے ہاں کے ملبوسات پہن کر چھتر منزل کلب میں جگمگانے کے بجائے ان کی قسمت میں تو یہی زک بھوگنا لکھا تھا کہ ٹوریہ گنج کے اس مکان کی ایک صخچی میں بیٹھی ٹھیٹ ہندوستانی ماؤں کی طرح محض سگرڈ کو پالتی رہیں اور اپنے میاں کو کوسا کریں۔ اصغر ربانی اٹھتے بیٹھتے انہیں اطمینان دلاتے، ’’بس ڈارلنگ چند روز کی بات اور ہے پھر ہم چل کر الگ رہیں گے۔ تمہیں کون سی جگہ زیادہ پسند ہے، ٹرانس گومتی سول لائنز یا دل کشا؟‘‘
’’جہنم میں جائے تمہاری ٹرانس گومتی‘‘ اور ارنا کرٹینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ واقعی یہ ان کے لیے بڑا صبر آزما زمانہ تھا۔ اچھی اچھی ہندوستانی لڑکیوں کے جنہیں باہر کی ذراسی بھی ہوا لگ چکی ہوتی۔ اس ماحول میں دہشت زدہ ہوجاتیں۔ وہ پھر خالص ولائتی تھیں۔
کئی برس اسی طرح لشٹم پشٹم گزر گئے۔ آخر ایک سال اصغر ربانی کسی طرح روپیہ فراہم کرکے انہیں گرمیاں گزارنے کے لیے مسوری لے گئے۔ وہاں چچی ارنا کی ملاقات اصغر ربانی کے ایک دوست خان بہادر اعجاز احمد سے ہوئی جو ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر تھے، اور بڑے ٹھاٹ سے وہاں زندگی گذارتے تھے۔ چچی ارنا نے ان سے شادی کرلی۔ اور سگرڈ کوڈو اسٹاک اسکول میں داخل کردیا۔ اور اسی طرح کی زندگی گزارنے لگیں جس کی انہیں اتنی شدید تمنا تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک کسی کو اصغر ربانی کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے لیے طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں۔ کسی نے انہیں جمنا کے کنارے داڑھی اور جٹائیں بڑھائے، سادھوؤں کے ساتھ گھومتے دیکھا۔ آخری اطلاع ان کے متعلق یہ تھی کہ کاروبار میں سخت نقصان اٹھانے کے بعد اپنا باقی ماندہ روپیہ لے کر وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔
سگرڈ جب بڑی ہوئی اس وقت تک وہ وکٹوریہ گنج کے مکان اور اپنے باپ کو بالکل بھول چکی تھی۔ وہ اب مسوری کی ’بال آف فائر‘ کہلاتی تھی۔ اس کا رنگ بالکل سفید نہیں تھا، اس میں ہلکے ہلکے ہندوستانی سانولے پن کی جھلک تھی۔ اس کی آنکھیں بچوں کی طرح بڑی بڑی اور سیاہ تھیں۔ چچی ارنا کیتھولک تھیں۔ کیتھولک مذہب میں جو گمبھیرتا ہے اس کا پورا پورا اثر سگرڈ کی اس طبیعت نے قبول کیا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب طرح کی فرشتوں کی سی معصومیت برستی تھی۔ سوسائٹی لڑکیوں میں اکثر جو چھچھورا پن سطحیت اور چمک دمک ہوتی ہے وہ اس سے کوسوں دور تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے دنیا سے الگ تھلگ، سینٹ میری کی مقدس راہبات کی کسی خانقاہ میں سے نکل کر چلی آرہی ہے۔
’’خدا وندا۔۔۔ کیا سگرڈ ایسی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔‘‘ کوئینی نے بر آمدے کے دریچے میں کھڑے کھڑے ایک اور جمائی لے کر بڑے دکھ کے ساتھ سوچا۔ اسے پھر بوبی ممتاز کا خیال آیا جو سمجھتا تھا کہ سگرڈ ہی وہ لڑکی ہے جس کا وہ جنم جنم سے انتظار کرتا آیا تھا۔ جو روبی کھوچڑ اور انوری خاں اور نشاط اسٹینلے اور ان کی طرح کی دوسری لڑکیوں سے بہت بلند ہے۔ بہت بلند اور بہت مختلف۔۔۔ خداوندا۔۔۔وہ بے دلی سے وادی کے نیلے اور سفید پھولوں پر بارش کی پھواروں کو برستا دیکھتی رہی۔ چچی ارنا کے کاٹج میں سے پیانو کی آواز بدستور بلند ہو رہی تھی۔ کوئی بڑے اچھے سروں میں ’’سوانی۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو‘‘ کا پرانا نغمہ بجارہا تھا۔
اسی شام ’وائلڈ روز‘ سے واپسی پر بوبی ممتاز کو راستے میں نشاط اسٹینلے مل گئی۔ نشاط اسٹینلے بمبئی ریڈیو سے انگریزی میں اناؤنسمنٹ کرتی تھی اور کمرشل آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی جو انتہائی بدشکل تھی۔ لیکن نہ جانے کس طرح انتہائی دل کش معلوم ہوئی تھی۔
’’اوہلو بوبی ممتاز۔ تمہیں آج اتنے چاندوں کے بعد دیکھا ہے۔ کہاں تھے؟‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ ’’کہیں نہیں۔۔۔ یہیں تھا۔۔۔‘‘ بوبی نے اکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا اور اپنی شراب انڈیلنے والی آنکھیں دوسری طرف گھما دیں۔ وہ ایک ہرنی کی طرح جست بھر کے پگڈنڈی پر سے پھر ان آنکھوں کی زد میں آکھڑی ہوئی۔
’’اوجیزس۔۔۔ صدیوں کے بعد نظر آئے ہو۔ کیا سگرڈ ربانی کے چھن جانے کا سوگ منا رہے ہو؟ بے وقوف ہو۔ سوگ کرنے کے بجائے آؤ اس حادثے کو سے لے بریٹ کریں‘‘، اس نے بشاشت سے کہا۔ اور اسے کھینچتی ہوئی اسٹینڈرڈ کی طرف لے گئی۔ اور وہاں ایک لاؤنج میں پہنچ کر دھم سے ایک کرسی پر گرتے ہوئے وہ بیرے کو احکامات دینے میں مصروف ہوگئی۔
بوبی بے دلی سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے اس لڑکی سے اتنی نفرت تھی۔ پھر بھی اس لڑکی میں ایک عجیب نا قابل بیان، تکلیف دہ کشش تھی۔ اتنی بدشکل۔۔۔ بدشکل۔۔۔ اس نے کوئی تشبیہ سوچنی چاہی۔ لیکن نشاط اسٹینلے کی شخصیت سے موازنہ کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ یہ لڑکی جو فخریہ کہتی تھی کہ مجھ سے بڑا فلرٹ اس روئے زمین پر آپ کو دستیاب نہ ہوگا۔ وہ الٰہ آباد کے ایک بہت اعلی عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور بڑی ہمدرد، بڑی فیاض بے حد نیک دل لڑکی تھی۔ اکثر وہ جذباتی بن کر اپنے دوستوں سے کہتی۔ لوگ مجھے اتنا برا سمجھتے ہیں، کاش کوئی مجھے پہچان سکتا کاش لوگ اتنے بے وقوف، گدھے نہ ہوتے۔
پھر اس نے بیرے کی طرف سے مڑکر بوبی سے، ’’بوبی ڈیر کیوں ایسی رونی شکل بنائے بیٹھے ہو۔ بے وقوف ذرا اور دریچے سے باہر نظر ڈالو۔ کائنات اتنی بشاش ہے،ارغوانی بادل جھکے ہوئے ہیں، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں وادیوں میں نیلے پھول کھل رہے ہیں۔ کیا ایسے میں تم رنجیدہ رہ سکتے ہو؟ الو ہو بالکل۔‘‘
بوبی ہنس پڑا۔ اور پھر وہ دونوں بچوں کی سی مستعدی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے اور قہقہے لگانے میں مشغول ہوگئے۔ باہر پہاڑوں کی برف پر جگمگاتی ہوئی چاندنی زیادہ خوش گوار ہوگئی۔‘‘سوانی ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔‘‘ کا پامال نغمہ جو ڈانس بینڈ والے ہال کے سرے پر بجا رہے تھے۔ یک لخت بالکل نیا بہت انوکھا اور بے حد اچھا معلوم ہونے لگا۔
دفعتاً بوبی کو خیال آیا۔ میں اس وقت یہاں نشاط اسٹینلے کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر کوئینی نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو اسے کتنا شوک پہنچے گا۔ پھر اس نے ضدی بچوں کی طرح سر جھٹک کر سوچا۔ اگر اس وقت کوئینی اور اس کی جیسی باعزت اور اونچی لڑکیوں کی ایک پوری بریگیڈ یہاں آکر کھڑی ہو جائے اور مجھے اس کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر بے ہوش ہوجائے تب بھی میں ذرا پروانہ کروں گا۔ قطعی پروانہ کروں گا۔ یہ لڑکی کتنی پیاری تھی کتنی ہمدرد تھی۔ بالکل کسی پیاری سی بہن کی طرح ہمدرد۔ اسے یادآیا کل کسی نے اس کے متعلق کیسی کیسی عجیب اور خوف ناک باتیں اسے بتائی تھیں۔ ارے نہیں نشاط۔ اس نے چلا کر کہنا چاہا۔ تم ایسی نہیں ہو۔ اس کا جی چاہا کہ وہ کرسی پر چڑھ کر سارے اسٹنڈرڈ، ساری مسوری، ساری دنیا کو بتائے۔ یہ لڑکی نشاط اسٹینلے بری نہیں ہے۔ تم سب خود برے ہو۔ تم میں اخلاقی قوت نہیں ہے۔ اس لیے اپنی جھینپ مٹانے کی خاطر تم اسے برا کہتے ہو۔۔۔ تم لوگ۔۔۔
’’ہلو بوبی بھیا۔۔۔ تم یہاں ہو۔ ہم تمہیں سارے میں ڈھونڈ آئے‘‘ اس نے چونک کر دیکھا۔ اس کے سامنے کوئینی کھڑی تھی جو اسی وقت لو، فریڈ اور کملا کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ ذرا گھبرا کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور اس کے لیے کرسی خالی کردی۔ نشاط اسی طرح بے فکری سے کرسی پر نیم دراز ایک گیت گنگناتی رہی۔
’’ہلو کوئینی‘‘ اس نے بے پروائی سے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو نشاط‘‘ کوئینی نے بڑے ہی با اخلاق لہجے میں جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا تھا کہ اس کا روکھا پن اور مربیانہ، بے تعلق انداز سب کو محسوس ہوجائے۔ اسے جواب دیا۔
’’ہمیں ابھی زینے پر روبی کھوچڑ ملی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اس سال مقابلہ حسن میں اس کا اول آنا یقینی ہے۔ کیوں کہ اس کی حریف سگرڈ ربانی اس مرتبہ مقابلہ میں شامل نہیں ہورہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کی اجازت نہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات میں شرکت کرتی پھرے‘‘، لو نے جھک کر بوبی کو بتایا۔
’’انیس کی اجازت نہیں؟‘‘ نشاط نے دفعتاً اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’اسے اس قدر اختیارات سگرڈ پر کب سے حاصل ہو گئے۔ کیا وہ اس سے شادی کر رہا ہے؟‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔ شادی کون مسخرہ کر رہا ہے‘‘، لو نے بے فکری سے جواب دیا۔ ’’ہاں۔ بوبی بھیا ہم تم سے یہ کہنے آئے تھے کہ کل موتی بھائی نے ہم سب کو ہیک مینز مدعو کیا ہے۔ سگرڈ کی دعوت ہے در اصل۔ موتی بھائی کہہ رہے تھے کہ اس سیزن میں یہ ان کی پہلی پارٹی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ ضرور آنا بوبی۔ اور تم بھی نشاط۔۔۔‘‘
’’چلو بوبی ڈیر ناچیں۔۔۔ ‘‘ نشاط نے جمائی لیتے ہوئے بوبی سے کہا۔
اگلی صبح، بہت تھکا ماندہ اور رنجیدہ شکل بنائے موتی لال ’وائلڈ روز‘ پہنچا۔ ’’لو بھئی وجو‘‘، موتی بھائی پہنچے، ‘‘کوئینی نے نٹنگ کرتے کرتے اوپر کے برآمدے کے دریچے میں سے جھانک کر وجاہت سے کہا۔ اور اس قدر فلسفیوں کی طرح چل رہے ہیں کہ حد ہے۔ کیا مصیبت ہے آج کل جسے دیکھو ایسا لگتا ہے کہ بس اب رو دے گا۔‘‘
موتی لال زینے کے دروازے میں سے برآمدے میں داخل ہوگئے۔
’’دیکھی تم نے اس قاضی انیس الرحمن کی حرکت۔ سگرڈ کو اب کسی سے ملنے نہیں دیتا، ‘‘اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے تم نہیں جانتے چچی ارنا کی سیاست موتی بھائی‘‘، کوئینی نے اس سے کہا۔ ’’جہنم میں جائیں چچی ارنا‘‘، وہ اکتا کر دریچے سے باہر دیکھنے لگے۔ جہاں سر مئی بادل تیرتے پھر رہے تھے۔ ’’بہر حال تم لوگ آج میری پارٹی میں تو ضرور آؤ گے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’قطعی‘‘، وجاہت نے شیو کرتے کرتے جواب دیا اور آئینے میں اپنی ناک کو بڑے غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
’’میں جلد ہی بمبئی جارہا ہوں‘‘ جیوتی لال نے دفعتاً سر اٹھا کر کہا۔ ’’کیوں۔۔۔؟ یہ کیا وحشت ؟ کم از کم ٹینس کے سیمی فائنلز تک تو رک جاؤ۔ کل عالم کا جی تمہیں پوچھ رہی تھی‘‘، کوئینی نے کہا۔ ’’جہنم میں جائے عالم کا جی بھی؟‘‘ وجاہت نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جیوتی لال ہنسنے لگے۔ وہ عموماً اتنا نون سیریس رہتے کہ اسے اتنا سنجیدہ اور غمگین دیکھ کر کوئینی کو بے حد ہنسی آئی۔
تیسرے پہر کو، جب کہ سب لوگ جیوتی لال کی پارٹی میں جانے کی تیاری میں مصروف تھے، کسی دل چلے نے ایشلے ہال جاکر انیس کو یہ خبر دی کہ موتی لال نے آج سگرڈ کو مدعو کیا ہے۔
’’کب؟ کہاں۔ کس وقت؟‘‘ انیس یہ سن کر تلملا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ اس کی موجودگی میں کسی اور کی یہ ہمت کہ سگرڈ کو باہر لے جائے۔ ’’اگر موتی لال یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ایک اکیلے شہزادہ گلفام ہیں تو انہیں بہت جلد اس مغالطے سے نکلنا چاہئے‘‘، اس نے غصے سے کہا۔
جیوتی لال کی پارٹی کا وقت چھ بجے تھا۔ اس وقت سوا پانچ بجے تھے۔ دفعتاً انیس کو کوئی خیال آیا، وہ تیز تیز قدم رکھتا ایشلے ہال کی سیڑھیاں اترکر مال پر آیا اور ہیک منیز کی طرف روانہ ہوگیا۔ مسز ہیک مین کے پاس پہنچ کر اس نے کہا وہ ریسٹوران کا ایک حصہ فوراً اپنے لیے مخصوص کروانا چاہتا ہے۔ مسز ہیک مین نے جواب دیا کہ افسوس ہے کہ وہ حصہ ایک ہفتے پہلے ہی آج شام کی ایک پارٹی کے لیے مخصوص کروا لیا گیا ہے۔
’’کیا آپ کسی طرح اس ریزرویشن کو کینسل نہیں کر سکتیں؟ اس نے پوچھا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے مسٹر انیس۔ اس کا پیشگی کرایہ دے دیا گیا ہے‘‘، انہوں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج شام یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے بچوں کی طرح ضد کر کے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مسٹر انیس‘‘، مسز ہیگ مین نے جواب دیا۔ ’’کسی ریسٹوران یا رقص گاہ یا کسی اور پبلک جگہ پر آپ لوگوں کو آنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ’’یہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب آپ پورا ہیک منیز اپنے لیے مخصوص کر والیں‘‘، مسز ہیک مین نے ہنس کر جواب دیا۔
’’میں اس کے لیے تیار ہوں‘‘، انیس نے تقریباً چلا کر کہا۔ ’’آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پورے ہیک مینز کا ایک شام کا کرایہ سات ہزار روپے ہوگا؟‘‘ مسز ہیک مین نے جواب دیا۔ ’’صرف۔۔۔؟ یہ لیجئے۔۔۔‘‘ انیس نے اپنی وہ لافانی چیک بک نکالی اور سات ہزار کا ایک چیک کاٹ کر حیرت زدہ مسز ہیک مین کے حوالے کیا۔
جیوتی لال کا ریزرویشن اس طرح خود بخود کینسل ہوگیا۔ بیروں نے جو چند لوگ ادھر ادھر آئے بیٹھے تھے۔ ان سے مودبانہ عرض کی، ’’آج سارا ہیک مینز مخصوص کروا لیا گیا ہے اس لیے آپ حضرات تشریف لے جائیے۔‘‘ ساری رقص گاہ خالی ہوگئی۔ چھ بجا ہی چاہتے تھے۔ قاضی انیس الرحمن پنولین کی سی
بوبی ممتاز کھڑکی کے قریب خاموش بیٹھا ان سب کو دیکھتا رہا۔
’’ہاں آج رات تو قطعی برف پڑے گی‘‘ صاحب خانہ کے بڑے بیٹے نے کہا۔ ’’بڑا مزا آئے گا۔ صبح کو ہم اسنو مین بنائیں گے‘‘ ایک بچہ چلایا۔ ’’ممتاز بھائی جان ہمیں اپنا پائپ دے دو گے؟ ہم اسے اسنو مین کے منہ میں ٹھونسیں گے‘‘، دوسرے بچے نے کہا۔
’’کل صبح شمال میں ہلکے ہلکے چھینٹے پڑیں گے۔ اور شمال مغرب میں آندھی کے ساتھ بارش ہوگی۔ جنوبی بلوچستان اور سندھ کا موسم خشک رہے گا‘‘ صاحب خانہ نے ناک پر عینک رکھ کر اخبار اٹھایا اور موسم کی پیشین گوئی با آواز بلند پڑھنی شروع کی۔
’’خوب برف پڑتی ہے بھائی۔ لیکن ایک بات ہے۔ اس طرف پھل بہت عمدہ ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں جب میں تھا‘‘ صاحب خانہ کے منجھلے بیٹے نے خود ہی اپنی بات جاری رکھی۔
بوبی ممتاز چپکا بیٹھا ہنستا رہا۔ ’’ساری دنیا موسم میں اتنی شدید دلچسپی کیوں لیتی ہے۔ کیا ان لوگوں کو اس وقت گفتگو کا کوئی اس سے زیادہ بے کار موضوع نہیں سوجھ رہا۔ کوئینی لکھنؤ ریڈیو پر روزانہ آٹھ پچپن پر انگریزی میں موسم کی رپورٹ سناتی تھی۔ کل پچھّم میں تیز ہوا کے ساتھ پانی آئے گا۔ پورب میں صرف تھوڑے چھینٹے پڑیں گے اتر میں سردی بڑھ جائے گی۔۔۔ کوئینی۔۔۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو۔۔۔ فریڈ کہاں ہو تم سب۔۔۔ اس وقت تم سب جانے کیا کر رہے ہوگے‘‘ اس نے بہت تھک کر آنکھیں بند کر لیں۔
’’ممتاز صاحب آج تو آپ ہمارے ساتھ ہی کھانا کھائیے‘‘، صاحب خانہ کی بیگم نے کہا اور شال لپٹتی ہوئی کھانے کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ان کی آواز پرآنکھیں کھول کر وہ انہیں پینٹری کے دروازے میں غائب ہوتے دیکھتا رہا۔
صاحب خانہ کی دو لڑکیاں تھیں۔ یہی ساری بات تھی۔ اسی وجہ سے اس کی اتنی خاطریں کی جارہی تھیں۔ جب سے وہ پاکستان منتخب کرنے کے بعد کوئٹہ آیا تھا۔ یہ خاندان اسے روزانہ اپنے ہاں چائے یا کھانے پر مدعو کرتا۔ اگر وہ نہ آنا چاہتا تو وہ جاکر اسے کلب سے پکڑ لاتے۔ اس کے لیے روز طرح طرح کے حلوے تیار کیے جاتے۔ اس کی موجودگی میں ان کی بڑی لڑکی پھیکے شلجم کے ایسے چہرے والی سعیدہ بڑی معصومیت اور نیاز مندی کے ساتھ ایک طرف کو بیٹھی نٹنگ کرتی رہتی۔ اس کا چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے خالی رہتا۔ جیسے کسی کل والی چینی کی گڑیا کی انگلیوں میں تتلیاں تھما دی گئی ہوں۔ کبھی کبھی وہ دوسروں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی اور پھر خود بخود شرما کر دوبارہ نٹنگ پر جھک جاتی۔
یہ لڑکیاں کتنی نٹنگ کرتی ہیں۔ بس سال بھر ان کے ہاتھوں میں اون اور سلائیاں دیکھ لو۔ گویا یہ ان کے بنے ہوئے پل اوور اور موزے قیامت کے روز انہیں بخشوائیں گے۔ پھر صاحب خانہ کی بیگم باورچی خانہ سے واپس آکر خانساماں کی نامعقولیت پر اظہار خیال کرنے کے بعد اپنی سگھڑبیٹی کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتیں اور اسے مخاطب ہوکر کہتیں۔
’’بس اس کو تو یہی شوق ہے۔ دن بھر اسی طرح کسی نہ کسی کام میں لگی رہتی ہے۔ اپنے ابا کا یہ سویٹر کوٹ بھی اسی نے بنا ہے۔‘‘ اس وقت وہ یقینا متوقع ہوتیں کہ وہ کہے، ’’اون منگوا دوں گا میرے لیے بھی ایک پل ادور بنا دیجئے۔‘‘ لیکن وہ اسی طرح خاموش بیٹھا رہتا۔ لڑکی اپنی ڈائرکٹر آف پروپگنڈہ اینڈ پبلسٹی کی طرف سے یہ تعریف ہوتی سن کر اور زیادہ شرما جاتی اور اس کی سلائیاں زیادہ تیزی سے متحرک ہوجاتیں۔
خدا وندا۔۔۔ بوبی ممتاز نے بہت زیادہ اکتا کر کھڑکی سے باہر نظر ڈالی۔ اندھیرے میں چنار کے درخت آہستہ آہستہ سرسرا رہے تھے۔ اس گرم اور روشن کمرے کے باہر دور دور تک مکمل سکوت طاری تھا۔ رات کا گہرا اور منجمد سکوت۔ وہ رات بالکل ایسی تھی اندھیری اور خاموش۔ ۹ستمبر ۴۷ء کی وہ رات جو اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مسوری کے وائلڈ روز میں آخری بار گزاری تھی۔ کوئینی اور وجاہت کا وائلڈ روز۔ جب وہ سب وائلڈ روز کے خوب صورت لاؤنج میں آگ کے پاس بیٹھے تھے اور کسی کو پتہ نہیں تھا کہ وہ آخری مرتبہ وہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔لیکن وہ رات بھی پلک جھپکتے میں گزر گئی تھی۔وقت اسی طرح گزرتا چلا جاتا ہے۔
صاحب خانہ نے دفعتاً بڑے زور سے ہنسنا شروع کردیا۔ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔ وہ ایک ہاتھ میں اخبار تھامے ویکلی کے کسی کارٹون پر ہنس ہنس کر دوہرے ہوئے جارہے تھے۔ بچے اپنے تصویروں والے رسالے اور کیرم چھوڑ کر اس کے قریب آگئے اور اس سے کہنے لگے کہ اگر رات کو اس کی موٹر برف میں پھنس گئی تو کتنا مزہ آئے گا۔۔۔ ایک بچی نے ناؤ بنانے کے لیے اون لکر کا سرورق پھاڑ ڈالا اور ایک تصویر دوسری تراشی ہوئی تصویروں اور کترنوں کے ساتھ رسالے میں سے سرک کر فرش پر آن گری۔
بوبی ممتاز کی نظر اس تصویر پر پڑگئی۔ اس نے جھک کر دیکھا۔ وہ سگرڈ کی تصویر تھی۔ سگرڈ اپنے پیارے سے دوماہ کے بچے کو میز پر ہاتھوں سے تھامے اس کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔ وہی مخصوص تبسم، اس کے بال اسی اسٹائل سے بنے تھے۔ اس کی آنکھیں اسی طرح پرسکون اور پر اسرار۔۔۔ اس تصویر کے لیے بچوں میں چھینا جھپٹی شروع ہوگئی۔ اس کے جسم میں سردی کی ایک تیز ناقابل برداشت کاٹتی ہوئی لہر دوڑ گئی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی بند تھی اور آتش دان میں شعلے بھڑک رہے تھے۔ کمرہ حسب معمول گرم تھا۔ بچے اسی طرح شور مچا رہے تھے۔ لڑکیاں نٹنگ کررہی تھیں۔ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ یہ سگرڈ کی تصویر تھی جو ایک بچی نے بے خیالی سے نئے اون لکر میں سے کاٹ لی تھی۔۔۔ سگرڈ۔۔۔ سگرڈ وہ دفعتاً کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
’’کہاں چلے۔۔۔؟ کھانا آنے والا ہے‘‘ صاحب خانہ ہاتھ پھیلا کر چلائے۔ ’’بس پانچ منٹ اور ٹھہر جاؤ بھیا۔ توا چڑھا ہی ہے‘‘ بیگم صاحب نے کہا۔ ’’کھانا کھاکے جائیےگا‘‘ سعیدہ نے اپنی پتلی سی آواز آہستہ سے بلند کرکے چپکے سے کہا اور پھر جلدی سے سلائیوں پر جھک گئی۔
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں پائپ لگا دوں گا۔‘‘ دوسرا بچہ چلایا۔ ’’واہ، لڑکیاں پائپ کہاں پیتی ہیں‘‘ پہلے بچے نے اعتراض کیا۔ ’’ممتاز بھائی جان تو پیتے ہیں‘‘ اس نے اپنی منطق استعمال کی۔ ’’ممتاز بھائی جان کوئی لڑکی تھوڑا ہی ہیں۔‘‘ سب نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔
بوبی ممتاز انتہائی بد اخلاقی کا ثبوت دیتا کمرے سے نکل کر جلدی سے باہر آیا۔ اور اپنی اوپل تک پہنچ کر سب کو شب بخیر کہنے کے بعد تیزی سے سڑک پر آگیا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ اور فروری کا آسمان تاریک تھا۔ اس کے میز بانوں کا گھر دور ہوتا گیا۔ بچوں کے شور کی آواز پیچھے رہ گئی۔ بالکل خالی الذہن ہوکر اس نے کار بے حد تیز رفتاری سے سیدھی سڑک پر چھوڑدی۔ گھر چلا جائے۔ اس نے سوچا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ اس نے کار کا رخ کلب کی طرف کردیا۔
ایک بیرے کو کھانے کے متعلق کہتے ہوئے وہ ایک لاؤنج کی طرف چلا گیا۔ جو اکثر سنسان پڑی رہتی تھی۔ اس نے صوفے پر لیٹ کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ سوچنے سمجھنے، محسوس کرنے، یاد کرنے کی ساری عادتیں بھول چکا ہے۔ اب کچھ باقی نہیں، کچھ باقی نہیں۔ اس نے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو خوب ملا۔ اور پھر غور سے ہتھیلیوں کو دیکھنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس وقت اس کی آنکھیں بہت سونی سونی لگ رہی ہوں گی۔ وہ آنکھیں جن کے لیے کملا کہا کرتی تھی کہ انتہائی شراب انڈیلنے والی آنکھیں ہیں۔ اس کی آنکھوں کی یہ تعریف سب کو یاد ہوگئی تھی۔ بوبی ممتاز کی شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔ اور وہ اس وقت وہاں، اس اجنبی شہر کے غیر دل چسپ کلب کے نیم تاریک خاموش لاؤنج میں صوفے پر بچوں کی طرح پڑا اپنی ہتھیلیوں سے ان آنکھوں کو مل رہا تھا۔ گویا بہت دیر کا سویا ہوا اب جگا ہے۔ برابر کے کمرے میں خوب زور زور سے ریڈیو بجایا جارہا تھا۔ بہت سے لوگ باتوں میں مشغول تھے۔ وہاں بھی موسم کے متعلق بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ’’آج رات تو یقینا برف پڑے گی۔‘‘ کوئی بے حد وثوق اور اہمیت کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
’’یہاں بڑے کڑاکے کا جاڑا پڑتا ہے یارو‘‘، دوسرے نے جواب دیا۔ پھر سیاسیات پر گفتگوشروع ہوگئی۔ جہاں چار آدمی اکٹھے ہوتے یہ لازمی بات تھی کہ سیاست پر رائے زنی شروع ہوجائے۔ جواہر لال نے یہ کہا۔ قائد اعظم نے یہ کہا۔ ماؤنٹ بیٹن نے یہ کہا۔ یہ اچھا ہوا۔ یہ برا ہوا۔ تم کیسے آئے؟ میں ایسے آیا۔ میں یوں لٹا۔ میں نے راستے میں یوں تکلیفیں اٹھائیں۔ فلاں ملازم ہوگیا۔ فلاں نے استعفیٰ دے دیا۔ فلاں کراچی میں ہے۔ فلاں پنڈی پہنچ چکا ہے۔۔۔
بوبی ممتاز لاؤنج کے صوفے پر چپ چاپ پڑا یہ سب سنا کیا۔ گیلری کی دوسری جانب ایک کمرے میں چند انگریز ممبر اور ان کی خواتین قریب قریب بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ مے نوشی میں مصروف تھیں۔ کلب کا وہ حصہ نسبتاً سنسان پڑا تھا۔ ۱۵اگست کے بعد شہر اور چھاؤنی میں جو اکادکا انگریز رہ گئے تھے وہ سرشام ہی سے وہاں آن بیٹھتے اور ہوم، خط لکھتے رہتے یا طامس کک اور بی، او، اے، سی والوں سے پسیج کے متعلق خط وکتابت کرتے۔ ان کی بیویاں اور لڑکیاں اکتاہٹ کے ساتھ بیٹھی ریکارڈ بجاتی رہتیں۔ ان کے گڈ اولڈ ڈیز کے پرانے ساتھی اور عزیز ہوم جاچکے تھے اور جانے کہاں کہاں سے نئے نئے دیسی ممبر کلب میں آن بھرے تھے۔۔۔ ڈیڈی نے دوسال کے لیے کنٹریکٹ کیا ہے۔ چالس نے سال بھر کے لیے والینٹیئر کیا ہے۔ کوئٹہ تو مار گریٹ ڈارلنگ بے حد دل چسپ اسٹیشن تھا۔ پر اب۔ اب تو اتنا مرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بے بسی کے عالم میں کلب کے دیسی ممبروں کی خواتین کو دیکھتیں۔
’اوگوش‘ گیلری میں سے گزرتے ہوئے کرنل روجرز کی سرخ بالوں والی لڑکی نے چپکے سے اپنی ایک سہیلی سے اکتا کر کہا، ’’آج وہ بھی نہیں آیا۔۔۔‘‘ وہ کون۔۔۔؟ اس کی سہیلی نے پوچھا۔۔۔ ’’وہی۔۔۔ انتظامی سروس والا۔۔۔ جو لکھنؤ سے آیا ہے۔‘‘
’’اچھا وہ۔۔۔‘‘
’’ہاں، سخت بور ہے۔ کل رات میرا خیال تھا کہ مجھ سے رقص کے لیے کہے گا۔ لیکن چپ چاپ الو کی طرح آنکھیں جھپکاتا رہا۔‘‘
’’لیکن کیرل ڈرالنگ کتنی بالکل شراب انڈیلنے والی آنکھیں۔‘‘
’’ہوں گی۔۔۔ جین ڈارلنگ یہ ہندوستانی بالکل گیلنٹ نہیں ہوتے۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرتی کارڈ روم کی طرف چلی گئیں۔
باہر درخت ہوا میں سر سراتے رہے۔ اس کے ایک دوست نے گیلری میں سے لاؤنج میں آکر روشنی جلادی۔ وہ چونک کر صوفے پر سے اٹھ بیٹھا۔ ’’ابے یار کیا افیمچیوں کی طرح بیٹھے ہو۔ تمہیں سارے میں تلاش کر ڈالا، چلو کارڈ روم میں چلیں۔ وہاں روجرز کی لونڈیا بھی موجود ہے۔ تم نے تو ابھی سارا کلب بھی گھوم کر نہیں دیکھا۔ ذرا جاڑے نکلنے دو، تفریح رہے گی۔ سچ پوچھو تو یہ شہر اتنا برا نہیں۔ شروع شروع میں تو سبھی ہوم سک، محسوس کرتے ہیں لیکن بہت جلد ہم ان فضاؤں سے مانوس ہوجائیں گے‘‘، اس کے دوست نے کہا۔
’’ہاں بالکل ٹھیک کہتے ہو بھائی‘‘، اس نے پائپ جلاتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔ ’’چلو ذرا پون ٹون ہی کھیلیں۔‘‘
’’تم چلو۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’جلد آنا۔ سب تمہارے منتظر ہیں‘‘ دوست نے باہر جاتے ہوئے کہا۔
برابر کے کمرے کا شور دھیما پڑگیا۔ شاید وہ سب بھی کارڈ روم کی طرف چلے گئے تھے۔ کسی بیرے نے یہ سمجھ کر کہ لاؤنج میں کوئی نہیں ہے۔ دروازے میں سے ہاتھ بڑھا کر لیمپ کی روشنی بجھا دی اور آگے چلا گیا۔ لاؤنج میں پھر وہی نیم تاریکی پھیل گئی۔ رات کا سحر گہرا ہوتا جارہا تھا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ وہ پھر چونک پڑا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نام سے اس اجنبی جگہ میں اس کو کس نے پکارا۔ اس نام سے پکارنے والے اس کے پیارے ساتھی بہت پیچھے بہت دور رہ گئے تھے۔
بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔ نہیں۔۔۔ وہاں پر کوئی نہ تھا۔ اس جگہ پر تو محض ممتاز صغیر احمد تھا۔ وہ ہنسی، وہ شور مچانے والا، خوب صورت آنکھوں کا مالک، سب کا چہیتا بوبی تو کہیں اور بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ یہاں پر صرف ممتاز صغیر احمد موجود تھا۔ اس نے اپنا نام آہستہ سے پکارا۔ ممتاز صغیر احمد کتنا عجیب نام ہے۔ وہ کون ہے۔ اس کی ہستی کیا ہے کیوں اور کس طرح اپنے آپ کو وہاں پر موجود پا رہا ہے۔۔۔ یہ انسان۔۔۔ یہ انسان سب کچھ محسوس کرکے، سب کچھ بتا کے اب تک زندہ ہے۔ سانس لے رہا ہے۔ رات کے کھانے کا انتظار کررہا ہے۔ ابھی وہ کارڈ روم میں جاکر پون ٹون کھیلےگا۔ کرنل فریزر کی لڑکی کے ساتھ ناچے گا۔ اتوار کو پھر اس شلجم کی ایسی شکل والی لڑکی سعیدہ کے گھر مدعو کیا جائےگا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے جواب دیا۔ کوئینی بی بی۔۔۔ وجو بھیا۔۔۔ یہ تم ہو۔۔۔؟ اس نے اندھیرے میں ہاتھ بڑھاکر کچھ محسوس کرنا چاہا۔ اس نے صوفے کے مخملیں کشن کو چھوا۔ مخمل اتنی گرم تھی، اور راحت پہنچانے والی۔ دریچے کے باہر فروری کی ہوائیں سائیں سائیں کررہی تھیں۔
بوبی۔۔۔ ہاں کوئینی بی بی۔ تم کہاں ہو۔ میں نے تمہاری آواز سنی ہے۔ ابھی تم اور لوکھلکھلا کر ہنسی تھیں۔ لیکن وہاں لو بھی نہیں تھی۔ وجاہت بھی نہیں تھا۔ فریڈ بھی نہیں تھا۔
کوئینی بی بی۔۔۔ اس نے چپکے سے دہرایا۔ آٹھ پچپن۔ اس کی نظر گھڑی پر پڑگئی وہ اس وقت، سینکڑوں ہزاروں میل دور، نشر گاہ کے اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنے سامنے رکھے ہوئے بلٹین کے ٹھیٹ سنسکرت الفاظ نگلنے کی کوشش میں مصروف ہوگی۔ اور موسم کی رپورٹ سنا رہی ہوگی۔ گھڑی اپنی متوازن یکسانیت کے ساتھ ٹک ٹک کرتی رہی۔ وجاہت بھائی۔۔۔ تم اس وقت کیا کررہے ہو۔۔۔ اور فریڈ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ انیس۔۔۔
برابر کے کمرے میں لاہور سے موسم کی رپورٹ سنائی جارہی تھی اور خالی کمرے میں اس کی آواز گونج رہی تھی۔ آج شمال میں برف باری ہوگی۔ شمال مغرب میں بارش کے چھینٹے پڑیں گے۔ جنوب میں تیز ہوائیں چلیں گی۔۔۔ گھڑی اسی طرح ٹک ٹک کرتی رہی۔ ٹک ٹک ٹک۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔۔۔چھ۔۔۔ چھ سال۔۔۔ یہ چھ سال۔۔۔ خدا وند۔
اس تپش، اس تڑپ، اس بے چینی کے بعد آخر کار موت آتی ہے۔ آخر کار خدائے قدوس کا سپید تخت نظر آتا ہے۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ کوئینی نے آہستہ آہستہ کہا۔ پس منظر کی موسیقی دفعتاً بہت تیز ہوگئی۔
ہاں۔۔۔ آخر کار وہ خوب صورت وژن دکھلائی پڑتا ہے۔ ارے تم کدھر نکل آئے زندگی کی طرف واپس جاؤ۔ انقلاب اور موت کے تندرو آندھیوں کے سامنے زرد، کمزور پتوں کی طرح بھاگتے ہوئے انسان۔ ہماری طرف واپس لوٹو۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ اس وژن کی طرف۔۔۔ لو ٹہر گئی۔ ٹھیک ہے؟ اس نے اپنے حصے کی آخری سطریں ختم کرکے اسکرپٹ فرش پر گرادیا۔
’’بالکل ٹھیک ہے۔ تھینک یو۔۔۔‘‘ کوئینی ہیڈ فون ایک طرف کو ڈال کر باہر آگئی۔ ’’لیکن ڈارلنگ تم نے ٹمپو پھر تیز کردیا۔ خدا کے لیے دھیرے دھیرے بولا کرو۔‘‘
’’او گوش۔ یہ ٹمپو توکسی چیزکا کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ کوئینی ڈرالنگ۔۔۔‘‘ لونے اکتا کر جواب دیا۔
’’بوبی۔۔۔ بوبی۔۔۔‘‘ گیلری میں سے وجاہت کی آواز سنائی دی۔ ’’ارے کیا وجو آیا ہے؟‘‘ کوئینی نے اسٹوڈیو کا دروازہ کھول کر باہرجھانکا۔
اس کا بھائی وجاہت انتظار کے کمرے میں کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ’’بیٹا گھر چل رہی ہو؟‘‘ اس نے کوئینی سے پوچھا۔ ’’تم اس وقت کیسے آگئے؟‘‘ کوئینی نے دریافت کیا۔
’’میں ابھی ابھی بوبی ممتاز کوبرلنگٹن سے لینے آیا تھا۔ میں نے سوچا اگر تمہارا کام ختم ہوگیا ہو تو تمہیں بھی ساتھ لیتا چلوں‘‘، وجاہت نے کہا۔ ’’بوبی ممتاز کون؟‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے پوچھا۔
’’ہے ایک۔۔۔‘‘ وجاہت نے اسی بے خیالی سے جواب دیا۔ بوبی ممتاز زینے پر سے اتر کے ان کی طرف آیا۔ ’’کہاں بھاگ گئے تھے؟‘‘ وجاہت نے ڈپٹ کر پوچھا۔ ’’ار۔۔۔ آداب۔۔۔‘‘ بوبی ممتاز نے کوئینی کی طرف مڑکر کہا ’’تم ہی کوئینی بیٹا ہونا؟‘‘
’’ہاں۔ تسلیم!‘‘ کوئینی ناخن کترتے ہوئے غور سے اس کے مطالعے میں مصروف تھی۔ کتنا سوئیٹ لڑکا ہے۔ اس نے دل میں کہا۔ ’’تو پھر چلو ہمارے ساتھ ہی گھر‘‘، بوبی ممتاز نے کہا۔ ’’نہیں بھیا۔ ابھی مجھے وہ کم بخت موسم کی خبریں سنانی ہیں۔ آٹھ پچپن ہوگئے۔‘‘ وہ انہیں گیلری میں کھڑا چھوڑ کر اسٹوڈیو میں تیزی سے گھس گئی۔ وہ دونوں باہر آگئے۔
یہ خلوص، یہ سادگی، یہ اپنائیت ایسے پیارے دوست اسے آج تک کہیں نہ ملے تھے۔ بہت جلد وہ وجاہت کے سٹ میں گھل مل گیا۔ وہ سب کے سب اتنے دل چسپ تھے۔ لیونور اور شرجو ’ لو‘ کہلاتی تھی، جس کی ماں امریکن اور باپ پہاڑی تھا۔ اس کی ترچھی ترچھی نیپالی آنکھوں کی وجہ سے سب اسے چنک چائی لو کہتے تھے اور فریڈ جس کا تبسم اتنا معصوم، اتنا پاکیزہ، اتنا شریف تھا۔ وہ اسے چھیڑنے کے لیے ہندستانی عیسائی فرقے کی مخصوص حماقتوں کا مذاق اڑاتے۔ لڑکیاں عیسائیوں کے بنے ہوئے انگریزی لہجے کی نقل کر کے اس سے پوچھتیں، ’’فریڈ ڈیر کیا آج تم کسی اپنا گرل فرینڈ کو باہر نہیں لے جانے مانگتا؟‘‘
’’کیوں تم سب میری اتنی ٹانگ کھینچتے ہو‘‘ وہ ہنس کر کہتا۔ وہ بہت اونچے عیسائی خاندان سے تھا۔ لیکن اسے اس طرح چھیڑنے میں سب کو بہت لطف آتا۔ وہ سب لو سے کہتے، ‘‘لوڈیر اگر فریڈ اس سنڈے کو پروپوز کرے تو فوراً مان جاؤ۔ ہم سب تمہاری برائیڈز میڈز اور پیچ بوائے بنیں گے۔‘‘ پھر وہ چلا چلا کر گاتیں، ’’سم سنڈے مارننگ۔‘‘
وہ ۴۲ء تھا، جب بوبی ممتاز پہلی بار ان سب سے ملا۔ ہر سال کی طرح جب گرمیاں آئیں اور وہ لوگ مسوری جانے لگے تو وہ بھی ان کے ہم راہ مسوری گیا۔ کوئینی اور وجاہت کے ’وائلڈ‘ روز میں سب اکٹھے ہوئے۔ اور وہ وہاں پر بھی بہت جلد بے حد ہر دلعزیز ہوگیا۔
بڑی غیر دلچسپ سی شام تھی۔ وہ سب ہیک منیز کے ایک کونے میں بیٹھے سامنے سے گزرنے والوں کو اکتاہٹ سے دیکھ رہے تھے۔ اور چند ملنے والوں کے منتظر تھے۔ جنہیں وجاہت نے مدعو کیا تھا۔ اتنے میں گیلری میں سے چچی ارنا گزرتی نظر آئیں انہوں نے بالوں میں دو تین پھول ٹھونس رکھے تھے۔ اور خانہ بدوشوں کا سا لباس پہنے تھیں۔
’’کوئی نیا جناور گرا ہے‘‘ یاسمین نے چپکے سے کوئینی سے کہا۔ ’’اماں چپ رہو یار‘‘، کوئینی نے اسے ڈپٹ کر جواب دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں‘‘، کوئینی نے جواب دیا۔ اتنے میں ان کے مہمان آگئے۔ اور وہ سب بظاہر بڑی سنجیدہ شکلیں بنا کر ان کے پاس جا بیٹھیں۔
’’یہ چچی ارنا کون ہیں۔ تمہاری چچی ہیں؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ تازہ وارد مہمان سب ان ہی کی باتیں کر رہے تھے۔
’’ارے نہیں بھئی‘‘، کوئینی نے شگفتگی سے جواب دیا۔ ’’یہ سگرڈ کی ممی ہیں۔‘‘
’’سگرڈ کون؟‘‘ بوبی نے پوچھا۔ ’’ہے۔۔۔ ایک لڑکی۔۔۔‘‘ کوئینی نے بے خیالی سے گویا مزید تشریح کر دی اور پھر دوسری باتوں میں منہمک ہوگئی۔
اگلے روز وہ سب ٹہلنے کے لیے نکلے تو وجاہت نے تجویز کیا کہ وڈ اسٹاک کا چکر لگا آئیں۔ سگرڈ سے بھی ملتے آئیں گے۔ وہ ٹولیاں بنا کر پتھر اور چٹانیں پھلانگتے وڈ اسٹاک کے ہوسٹل کی طرف مڑ گئے۔
ایک بڑے سے سلوراوک کے نیچے بوبی ممتاز نے سگرڈ کو دیکھا۔ وہ عمارت کی ڈھلوان پر درختوں کے جھنڈ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی نٹنگ میں مشغول تھی۔ ان سب کواپنی سمت آتا دیکھ کر وہ بچیوں کی طرح دوڑتی ہوئی کوئینی کے قریب آگئی۔ کوئینی نے اس کا تعارف کرایا، ’’یہ ہمارے بوبی بھائی ہیں۔ اتنی بڑھیا ایکٹنگ کرتے ہیں کہ تم دیکھ کر بالکل انتقال کر جاؤ گی۔‘‘
وہ بچوں کی طرح مسکرائی۔ وہ اس کا معصوم، پاکیزہ تبسم، ایکٹنگ ان دونوں کا مشترکہ موضوع گفتگو بن گیا۔ وہ سب شام کی چائے کے لیے اکٹھے ’وائلڈ روز‘ واپس آئے۔
وہ زمانہ جو اس سال بوبی ممتاز نے مسوری میں گزارا، اس کی زندگی کا بہترین وقت تھا۔ مال پر سے ونسنٹ ہل کی طرف واپس آتے ہوئے ایک روز اس نے فریڈ سے کہا، ’’ٹھاکر پال فریڈرک رنبیر سنگھ۔۔۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس وقت دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان کون ہے؟‘‘ فریڈ نے سنجیدگی سے نفی میں سر ہلایا۔
’’سنو‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جس طرح اکثر اخباروں کے میگزین سیکشن میں ایک کالم چھپتا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا پل سڈنی میں ہے۔ دنیا کا امیر ترین شخص نظام حیدر آباد ہے۔ اسی طرح اس مرتبہ چھپے گا کہ دنیا کا سب سے خوش قسمت شخص ممتاز صغیر احمد ہے۔ سمجھے ٹھاکر صاحب۔۔۔ ممتاز صغیر۔۔۔ کیا سمجھے؟‘‘
فریڈ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ وہ بہت ہی گر انبار، سنجیدہ، سلجھا ہوا آدمی تھا۔ اس کی عمر اکتیس بتیس سال کی رہی ہوگی۔ بہت ہی کنفرمڈ قسم کا بیچلر تھا اور سارے بیچلرز کا مانا ہوا گرو۔ اپنے ایک نہایت ہی سعادت مند چیلے سے یہ بچوں کی سی بات سن کر وہ صرف ہنستا رہا۔ اور اس نے بوبی کو کوئی جواب نہ دیا۔ بوبی بے فکری سے سیٹی بجاتا آگے چلا گیا۔
سڑک کی ڈھلوان پر سے مڑتے ہوئے اس کی نظر ایک بڑی سی دو منزلہ کوٹھی پر پڑی جسے اس نے آج تک نوٹس نہ کیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو کہ اس وقت اس کے احاطے میں خوب گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ دروازوں پر روغن کیا جارہا تھا۔ چھت پر بھی نیا سرخ رنگ کیا گیا تھا۔ ایک ادھیڑ عمر کے داڑھی دراز بزرگوار بر آمدے میں کھڑے قلیوں اور نوکروں کو ہدایات دے رہے تھے۔ بڑا کرو فر۔ بڑی شان و شوکت نظر آرہی تھی۔
’’یہ کس کا مکان ہے بھئی؟‘‘ بوبی نے ایک قلی سے پوچھا۔ ’’یہ۔۔۔؟ قاضی جلیل الرحمن کا ایشلے ہال‘‘، قلی نے بڑے رعب سے اسے مطلع کیا۔ اور آگے چلا گیا۔
سیاہ بادل بہت تیزی سے بڑھتے آرہے تھے۔ یک لخت بارش کا ایک زور دار ریلا آگیا۔ بوبی نے اپنی برساتی سنبھال کر جلدی سے ’وائلڈ روز‘ کے راستے چڑھائی طے کرنی شروع کردی۔
وہ جولائی کا دوسرا ہفتہ تھا۔ موسم گرما کی چھٹیاں ختم ہورہی تھیں۔ چند روز بعد وہ سب مسوری سے واپس آگئے۔
لیکن قاضی جلیل الرحمن اور ان کے بھانجے انیس کو موسمی تعطیلات کے ختم ہوجانے کی پروانہ تھی۔ وہ مراد آباد کے نواح کے زمین دار تھے۔ ان کے پاس وقت اور روپے کی فراوانی تھی۔ اور ان دونوں چیزوں کا کوئی مصرف ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے دونوں ماموں بھانجے مسوری آئے تھے اور پانی کی طرح روپیہ بہانے میں مصروف تھے اور اکتوبر سے پہلے ان کا مراد آباد جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
انیس کے والد کا سال بھر قبل انتقال ہوچکا تھا۔ اور اس کے ماموں قاضی صاحب نے خود کو اس کا غیر قانونی مشیر مقرر کررکھا تھا۔ ان کا اثر اس پر بہت زیادہ تھا۔ قاضی صاحب بے حد دل چلے اور شوقین آدمی تھے۔ بہنوئی کے انتقال کے بعد انہوں نے اندازہ لگایا کہ لڑکا بہت سیدھا اور خاصا کم عمر ہے اور ساری ریاست اب ان کے ہاتھ میں ہے، لہذا اب تو راوی چین لکھتا ہے۔ چناں چہ انیس کے والد کی برسی کے بعد پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ پہاڑ پر چل کے رہنے کے فوائد اسے ذہن نشین کرانے شروع کیے۔ اس کے حوالیوں موالیوں نے بھی اٹھتے بیٹھتے اس سے کہا کہ سرکار اک ذری تھوڑی دور کسی فرحت بخش مقام پر ہو آویں تو غم غلط ہووے گا۔ وہ فوراً مان گیا اور اپنا لاؤ لشکر لے کر قاضی صاحب کی قیادت میں مسوری آن پہنچا۔ طے کیا گیا کہ ہوٹل میں ٹھہرنا جھول ہے اور اٹھائی گیروں کا کام ہے جن کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں ہوتا۔ ہری چگ کی طرح آئے اور ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ لہذا ایک عمدہ سی کوٹھی خریدنا چاہئے۔ انیس نے کہا کہ یہاں کی سب سے بڑھیا کوٹھی کون سی ہے وہی خرید لی جائے۔ لوگوں نے بتایا کہ کپور تھلہ ہاؤس یہاں کی بہترین کوٹھی سمجھی جاتی ہے۔ کوٹھی کیا اچھا خاصا محل ہے۔ انیس نے فوراً اپنی چیک بک نکالی۔ ’’لاؤ پھر اسے ہی خرید لیتے ہیں‘‘، اس نے کہا۔
’’اماں یار باؤلے ہوئے ہوکیا۔ کپور تھلہ ہاؤس تم خرید لوگے بھلا؟‘‘ ایک دوست نے قہقہہ لگاکر کہا۔ ’’حضور دوسرا بہترین مکان بھوپال ہاؤس ہے۔ لیکن اتفاق سے وہ بھی بک نہیں سکتا۔ تیسری بہترین کوٹھی اسپرینگ ڈیل ہے اور چوتھی کوٹھی حضور کے لائق ایشلے ہال ہے‘‘، ایک مصاحب نے اطلاع دی۔
ایشلے ہال خرید لی گئی۔ اسے بہترین ساز وسامان سے آراستہ کیا گیا۔ دہرہ دون سے گوانیز ملازم اور ایک اینگلو انڈین ہاؤس کیپر منگوائی گئی اور ایشلے ہال مسوری کی چوتھی بہترین کوٹھی کہلانے لگی۔
انیس جب پہلے پہل مسوری گیا ہے اس کی تعلیم بقول شخصے صرف سرسی سے سنبھل تلک کی تھی۔ نویں کلاس سے اس نے اسکول چھوڑ دیا تھا۔ اس سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ البتہ شیر کے شکار اور شہسواری اور برج اور گھوڑ دوڑ کے میدان میں رویل کھنڈ بھر میں دور دور کوئی اس کا مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کنبے کی ایک لڑکی سے کردی گئی تھی جو ایک اور زمین دار کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی جاگیر پر بیٹھا چین کی بنسی بجاتا تھا۔
ایشلے ہال خرید کر مسوری میں جب اس نے رہنا شروع کیا تو وہاں کی پہلی جھلک سے اس کی آنکھیں چکا چوند ہوگئیں۔ اور اس نے سوچا کہ یار یہ جو اب تک ہم مراد آبا، سنبھل اور امروہے میں پڑے تھے وہ اتنی عمر تو گویا برباد ہی گئی۔ یہاں تو ایک عجیب وغریب دنیا آباد تھی۔ انسانوں کی بستی تھی۔ یا اندر کا اکھاڑہ۔ چودہ طبق روشن ہوگئے۔ لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ ایشلے ہال کا مالک اور مسوری کا سب سے زیادہ روپیہ خرچنے والا میزبان، لیکن بالکل تازہ تازہ دیہاتی جاگیردار۔ ادھر ادھر تو کام چل جاتا تھا لیکن خواتین کی سوسائٹی میں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ پہلا کام اس نے یہ کیا کہ ایک اینگلو انڈین لیڈی کمپنین کی خدمات حاصل کیں۔ جو اسے صحیح انگریزی بولنا اور بال روم ناچ سکھائے۔ چند ہی مہینوں میں وہ ایک اور فرفر انگریزی بولنے والا بے حد ویل ڈر سیڈ انیس تھا جو مسوری کا سب سے زیادہ ہر دلعزیز شخص سمجھا جاتا تھا۔ بالکل ہی کایا پلٹ ہوگئی۔
اگلے سال ۴۳ء کی گرمیوں میں جب کوئینی وجاہت اور ان کا گروپ مسوری پہنچا تو انہیں ایک تازہ وارد اجنبی بال رومز کی سطح پر بہتا نظر آیا۔ جس نے ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی۔ وجاہت اسے پہلے سے جانتا تھا۔ لیکن اس اچانک کایا پلٹ پر وہ بھی اسے نہ پہچان سکا۔ اس سال وہاں سارے مشہور ٹینس اسٹارز جمع تھے۔ مس اعزاز، مس کاجی۔ غیاث محمد۔ علی نگر کی عبیداللہ بہنیں۔ ان کی بھاوج شاہندہ احسان عبیداللہ،بمبئی سے جیوتی بھی حسب معمول آیا تھا۔ سیزن اپنے عروج پر تھا۔ لکھنؤ کی کھوچڑ بہنیں بھی ہمیشہ کی طرح موجود تھیں۔ نرملا، پرکاش، وائلٹ، روبی اوبز روزا کی پیشین گوئی تھی کہ روبی کھوچڑ اس دفعہ سالانہ مقابلہ حسن میں سگرڈ ربانی سے سبقت لے جائے گی۔ ایشلے ہال کی پارٹیوں میں یہ سب اکثر نظر آتیں۔
ایک روز ہیک منیز میں انیس رقص کا پہلا دور ختم کرکے کوئینی کی طرف آیا اور اسے سلام کرکے وجاہت کے قریب جا بیٹھا۔ ’’ابے اوبغ چونچ۔۔۔ یہ سوٹ بوٹ کیسے ڈانٹ لیا۔ یہ کیا سوانگ بھرا ہے ایں؟‘‘ وجاہت نے اسے ڈانٹ کرپوچھا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھ کر لڑکیوں کی موجودگی میں ذرا جھینپتے ہوئے چپکے سے وجاہت سے پوچھا، ’’کیوں یار اب ٹھیک لگتا ہوں نا۔۔۔؟‘‘
’’ذرا اس گدھے کو دیکھنا یاسمین ڈارلنگ، خود تو شام کا لباس پہن کر ناچتا پھررہا ہے اور بیوی کو وہیں قصبے میں چھوڑ رکھا ہے۔ ایسے آدمیوں کو تو بس۔۔۔‘‘ کوئینی نے غصے کے ساتھ چپکے سے کہا۔
اس کے اگلے دن کوئینی اپنے مکان کے اوپر کے برآمدے میں آرام کرسی پر کاہل بلی کی طرح لیٹی پڑھنے میں مشغول تھی کہ دفعتاً اسے برآمدے کے شیشوں میں سے نظر آیا کہ نشیب میں خان بہادر اعجاز احمد کے کاٹج کے سامنے رکشائیں کھڑی ہیں۔ بہت سے لوگ آجارہے ہیں اور خوب چہل پہل ہے۔ یہاں تک کہ ان کے باورچی خانہ میں سے دھواں تک اٹھ رہا ہے۔ یہ بے حد عجیب اور نئی بات تھی۔ کیوں کہ خان بہادر صاحب کا خاندان عموماً یا دوسروں کے ہاں مدعو رہتا تھا یا ہوٹلوں میں کھانا کھاتا تھا۔ وہ بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھتی رہی۔ اسی وقت بارش شروع ہوگئی۔ اور تھوڑی دیر بعد وجاہت اور بوبی برساتیوں سے لدے پھندے بھیگتے بھاگتے نچلی منزل کی گیلری میں داخل ہوئے۔ وہ ابھی زینے ہی پر تھے کہ کوئینی چلائی، ’’ارے وجو بوبی بھیا جلدی سے اوپرآؤ۔۔۔‘‘
اور جس وقت وجاہت اور بوبی برآمدے کے دریچے میں آکھڑے ہوئے انہیں انیس اپنا بہترین سوٹ پہنے سگار کا دھواں اڑاتا خان بہادر صاحب کے کاٹج میں سے نکلتا نظر آیا۔
’’اچھا۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔‘‘ وجاہت نے بہت آہستہ سے کہا۔ اسے اور بوبی کو اتنا رنجیدہ دیکھ کر کوئینی کا سارا اکسائیٹ منٹ رفو چکر ہوگیا۔ اور وہ بھی بڑی فکر مندی کے ساتھ دونوں کی کرسیوں کے نزدیک فرش پر بلی کی طرح آبیٹھی اور چہرہ اوپر اٹھاکر دونوں لڑکوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔
چچ چچ چچ۔۔۔ بے چارہ سوئیٹ بوبی ممتاز۔ کوئینی نے بے حد ہمدردی سے دل میں سوچا۔ لیکن زیادہ دیر تک اس سے اس سنجیدگی سے نہ بیٹھا گیا۔ وہ چپکے سے اٹھ کر بھاگی بھاگی گیلری میں پہنچی اور یاسمین کو فون کرنے کے لیے ریسیور اٹھایا۔
’’میں نے تم سے کہا تھا کوئینی ڈیرکہ اس سال تو کوئی اور بھی برا جناور گرا ہے۔ اس پچھلے سال والے کسی جناور سے بھی بڑا‘‘ دوسرے سرے پر یاسمین بڑی شگفتگی سے کہہ رہی تھی۔ ’’اور سنو تو۔۔۔ کل میں نے سگرڈ کو نیا لیپرڈاسکن کوٹ پہنے دیکھا۔ ایسا بڑھیا کہ تم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔ اور چچی ارنا کا نیا ایوننگ گاؤن۔ اصلی ٹیفیٹا ہے۔ اس جنگ کے زمانے میں اصلی ٹیفیٹا کوئینی ڈارلنگ۔۔۔ اور ٹوٹو کہہ رہی تھی کہ اس نے مسز راج پال سے سنا جنہیں بیگم فاروقی نے بتایا کہ مسز نارنگ نے ان سے کہا کہ آج کل خان بہادر صاحب کے ہاں کی خریداری کے سارے بل لیلارام اور فینسی ہاؤس والے سیدھے ایشلے ہال بھیج دیتے ہیں۔۔۔ اوگوش۔‘‘
’’اوگوش۔۔۔‘‘ کوئینی نے اپنی آنکھیں بالکل پھیلا کر پھولے ہوئے سانس سے دہرایا۔
بارش ہوتی رہی۔ ریسیور رکھ کر وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اوپر آگئی اور دریچے میں کہنیاں ٹیک کر بے دلی سے باہر کا منظر دیکھتی رہی جہاں پانی کے پھواروں کے ساتھ بادلوں کے ٹکڑے ادھر ادھر تیرتے پھر رہے تھے۔ وادی کے نشیب میں خان بہادر صاحب کے کاٹج میں پیانو بج رہا تھا اور چچی ارنا اپنے برآمدے میں کھڑی کسی سے باتیں کررہی تھیں۔
چچی ارنا سوئیڈش تھیں۔ جب وہ پہلی بار اپنے شوہر کے ہم راہ ہندوستان آئی تھیں۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ سر آغا خاں کے اس سنہرے دیس میں وہ بھی ایک مرمریں محل سرا میں کسی الف لیلیٰ سلطانہ کی طرح رہا کریں گی۔ لیکن جب وہ یہاں پہنچیں تو انہیں پتہ چلا کہ مرمریں ستونوں اور ایرانی قالینوں والی محل سرا کے بجائے ان کے شوہر اصغر ربانی لکھنؤ کے ایک نہایت گندے محلے وکٹوریہ گنج میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک بوڑھی ماں ہے جو ہر وقت امام کی مجلسوں میں چلا چلا کر رونے میں مصروف رہتی ہے۔ چار پانچ جاہل اور کالی اور سخت بے ہنگم بہنیں اور بھاوجیں ہیں۔ ان سب عورتوں کی ساری سوسائٹی جھوائی ٹولہ اور مولوی گنج اور نخاس کی گلیوں تک محدود ہے جہاں وہ سب ڈولیوں پر کتے کی طرح ہانپتے ہوئے انسانوں کے کاندھوں پر لد کے، پردے دار تانگوں میں سوار ہوکے کبھی کبھار اسی طرح کے دوسرے گندے مکانوں اور ان ہی کی قسم کی دوسری بے ہنگم عورتوں سے ملنے جایا کرتی ہیں۔
ارنا کرسینا پر یہ سب دیکھ کر بے ہوشی کا سا عالم طاری ہوگیا۔ ان کے پیارے شوہر نے انہیں دلاسا دیا کہ جب ان کا کاروبار چمک جائے گا تو وہ شہر سے باہر گومتی کے کنارے سول لائنز میں یا چھاؤنی میں کوٹھی لے کر رہا کریں گے۔ لیکن وہ برسوں تک اس ٹاٹ کے پردوں والے مکان سے نہ نکل سکیں۔ ان کے بالکل سونے کی رنگت کے دمکتے ہوئے بال تھے۔ نیلی آنکھیں تھیں اور گلاب کے شبنم آلود شگوفوں کی ایسی رنگت تھی۔ لیکن وائٹ ویز کے ہاں کے ملبوسات پہن کر چھتر منزل کلب میں جگمگانے کے بجائے ان کی قسمت میں تو یہی زک بھوگنا لکھا تھا کہ ٹوریہ گنج کے اس مکان کی ایک صخچی میں بیٹھی ٹھیٹ ہندوستانی ماؤں کی طرح محض سگرڈ کو پالتی رہیں اور اپنے میاں کو کوسا کریں۔ اصغر ربانی اٹھتے بیٹھتے انہیں اطمینان دلاتے، ’’بس ڈارلنگ چند روز کی بات اور ہے پھر ہم چل کر الگ رہیں گے۔ تمہیں کون سی جگہ زیادہ پسند ہے، ٹرانس گومتی سول لائنز یا دل کشا؟‘‘
’’جہنم میں جائے تمہاری ٹرانس گومتی‘‘ اور ارنا کرٹینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ واقعی یہ ان کے لیے بڑا صبر آزما زمانہ تھا۔ اچھی اچھی ہندوستانی لڑکیوں کے جنہیں باہر کی ذراسی بھی ہوا لگ چکی ہوتی۔ اس ماحول میں دہشت زدہ ہوجاتیں۔ وہ پھر خالص ولائتی تھیں۔
کئی برس اسی طرح لشٹم پشٹم گزر گئے۔ آخر ایک سال اصغر ربانی کسی طرح روپیہ فراہم کرکے انہیں گرمیاں گزارنے کے لیے مسوری لے گئے۔ وہاں چچی ارنا کی ملاقات اصغر ربانی کے ایک دوست خان بہادر اعجاز احمد سے ہوئی جو ریٹائرڈ ڈپٹی کلکٹر تھے، اور بڑے ٹھاٹ سے وہاں زندگی گذارتے تھے۔ چچی ارنا نے ان سے شادی کرلی۔ اور سگرڈ کوڈو اسٹاک اسکول میں داخل کردیا۔ اور اسی طرح کی زندگی گزارنے لگیں جس کی انہیں اتنی شدید تمنا تھی۔ اس دن سے لے کر آج تک کسی کو اصغر ربانی کے متعلق معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ ان کے لیے طرح طرح کی روایتیں مشہور ہیں۔ کسی نے انہیں جمنا کے کنارے داڑھی اور جٹائیں بڑھائے، سادھوؤں کے ساتھ گھومتے دیکھا۔ آخری اطلاع ان کے متعلق یہ تھی کہ کاروبار میں سخت نقصان اٹھانے کے بعد اپنا باقی ماندہ روپیہ لے کر وہ جنوبی افریقہ چلے گئے۔
سگرڈ جب بڑی ہوئی اس وقت تک وہ وکٹوریہ گنج کے مکان اور اپنے باپ کو بالکل بھول چکی تھی۔ وہ اب مسوری کی ’بال آف فائر‘ کہلاتی تھی۔ اس کا رنگ بالکل سفید نہیں تھا، اس میں ہلکے ہلکے ہندوستانی سانولے پن کی جھلک تھی۔ اس کی آنکھیں بچوں کی طرح بڑی بڑی اور سیاہ تھیں۔ چچی ارنا کیتھولک تھیں۔ کیتھولک مذہب میں جو گمبھیرتا ہے اس کا پورا پورا اثر سگرڈ کی اس طبیعت نے قبول کیا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب طرح کی فرشتوں کی سی معصومیت برستی تھی۔ سوسائٹی لڑکیوں میں اکثر جو چھچھورا پن سطحیت اور چمک دمک ہوتی ہے وہ اس سے کوسوں دور تھی۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا جیسے دنیا سے الگ تھلگ، سینٹ میری کی مقدس راہبات کی کسی خانقاہ میں سے نکل کر چلی آرہی ہے۔
’’خدا وندا۔۔۔ کیا سگرڈ ایسی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔‘‘ کوئینی نے بر آمدے کے دریچے میں کھڑے کھڑے ایک اور جمائی لے کر بڑے دکھ کے ساتھ سوچا۔ اسے پھر بوبی ممتاز کا خیال آیا جو سمجھتا تھا کہ سگرڈ ہی وہ لڑکی ہے جس کا وہ جنم جنم سے انتظار کرتا آیا تھا۔ جو روبی کھوچڑ اور انوری خاں اور نشاط اسٹینلے اور ان کی طرح کی دوسری لڑکیوں سے بہت بلند ہے۔ بہت بلند اور بہت مختلف۔۔۔ خداوندا۔۔۔وہ بے دلی سے وادی کے نیلے اور سفید پھولوں پر بارش کی پھواروں کو برستا دیکھتی رہی۔ چچی ارنا کے کاٹج میں سے پیانو کی آواز بدستور بلند ہو رہی تھی۔ کوئی بڑے اچھے سروں میں ’’سوانی۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو‘‘ کا پرانا نغمہ بجارہا تھا۔
اسی شام ’وائلڈ روز‘ سے واپسی پر بوبی ممتاز کو راستے میں نشاط اسٹینلے مل گئی۔ نشاط اسٹینلے بمبئی ریڈیو سے انگریزی میں اناؤنسمنٹ کرتی تھی اور کمرشل آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہی تھی جو انتہائی بدشکل تھی۔ لیکن نہ جانے کس طرح انتہائی دل کش معلوم ہوئی تھی۔
’’اوہلو بوبی ممتاز۔ تمہیں آج اتنے چاندوں کے بعد دیکھا ہے۔ کہاں تھے؟‘‘ اس نے چلا کر کہا۔ ’’کہیں نہیں۔۔۔ یہیں تھا۔۔۔‘‘ بوبی نے اکتائے ہوئے انداز میں جواب دیا اور اپنی شراب انڈیلنے والی آنکھیں دوسری طرف گھما دیں۔ وہ ایک ہرنی کی طرح جست بھر کے پگڈنڈی پر سے پھر ان آنکھوں کی زد میں آکھڑی ہوئی۔
’’اوجیزس۔۔۔ صدیوں کے بعد نظر آئے ہو۔ کیا سگرڈ ربانی کے چھن جانے کا سوگ منا رہے ہو؟ بے وقوف ہو۔ سوگ کرنے کے بجائے آؤ اس حادثے کو سے لے بریٹ کریں‘‘، اس نے بشاشت سے کہا۔ اور اسے کھینچتی ہوئی اسٹینڈرڈ کی طرف لے گئی۔ اور وہاں ایک لاؤنج میں پہنچ کر دھم سے ایک کرسی پر گرتے ہوئے وہ بیرے کو احکامات دینے میں مصروف ہوگئی۔
بوبی بے دلی سے اسے دیکھتا رہا۔ اسے اس لڑکی سے اتنی نفرت تھی۔ پھر بھی اس لڑکی میں ایک عجیب نا قابل بیان، تکلیف دہ کشش تھی۔ اتنی بدشکل۔۔۔ بدشکل۔۔۔ اس نے کوئی تشبیہ سوچنی چاہی۔ لیکن نشاط اسٹینلے کی شخصیت سے موازنہ کرنے کے لیے کوئی مناسب چیز اس کی سمجھ میں نہ آئی۔ یہ لڑکی جو فخریہ کہتی تھی کہ مجھ سے بڑا فلرٹ اس روئے زمین پر آپ کو دستیاب نہ ہوگا۔ وہ الٰہ آباد کے ایک بہت اعلی عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور بڑی ہمدرد، بڑی فیاض بے حد نیک دل لڑکی تھی۔ اکثر وہ جذباتی بن کر اپنے دوستوں سے کہتی۔ لوگ مجھے اتنا برا سمجھتے ہیں، کاش کوئی مجھے پہچان سکتا کاش لوگ اتنے بے وقوف، گدھے نہ ہوتے۔
پھر اس نے بیرے کی طرف سے مڑکر بوبی سے، ’’بوبی ڈیر کیوں ایسی رونی شکل بنائے بیٹھے ہو۔ بے وقوف ذرا اور دریچے سے باہر نظر ڈالو۔ کائنات اتنی بشاش ہے،ارغوانی بادل جھکے ہوئے ہیں، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں وادیوں میں نیلے پھول کھل رہے ہیں۔ کیا ایسے میں تم رنجیدہ رہ سکتے ہو؟ الو ہو بالکل۔‘‘
بوبی ہنس پڑا۔ اور پھر وہ دونوں بچوں کی سی مستعدی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے اور قہقہے لگانے میں مشغول ہوگئے۔ باہر پہاڑوں کی برف پر جگمگاتی ہوئی چاندنی زیادہ خوش گوار ہوگئی۔‘‘سوانی ہاؤ آئی لو یو۔۔۔ ہاؤ آئی لو یو۔۔۔‘‘ کا پامال نغمہ جو ڈانس بینڈ والے ہال کے سرے پر بجا رہے تھے۔ یک لخت بالکل نیا بہت انوکھا اور بے حد اچھا معلوم ہونے لگا۔
دفعتاً بوبی کو خیال آیا۔ میں اس وقت یہاں نشاط اسٹینلے کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ اگر کوئینی نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو اسے کتنا شوک پہنچے گا۔ پھر اس نے ضدی بچوں کی طرح سر جھٹک کر سوچا۔ اگر اس وقت کوئینی اور اس کی جیسی باعزت اور اونچی لڑکیوں کی ایک پوری بریگیڈ یہاں آکر کھڑی ہو جائے اور مجھے اس کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر بے ہوش ہوجائے تب بھی میں ذرا پروانہ کروں گا۔ قطعی پروانہ کروں گا۔ یہ لڑکی کتنی پیاری تھی کتنی ہمدرد تھی۔ بالکل کسی پیاری سی بہن کی طرح ہمدرد۔ اسے یادآیا کل کسی نے اس کے متعلق کیسی کیسی عجیب اور خوف ناک باتیں اسے بتائی تھیں۔ ارے نہیں نشاط۔ اس نے چلا کر کہنا چاہا۔ تم ایسی نہیں ہو۔ اس کا جی چاہا کہ وہ کرسی پر چڑھ کر سارے اسٹنڈرڈ، ساری مسوری، ساری دنیا کو بتائے۔ یہ لڑکی نشاط اسٹینلے بری نہیں ہے۔ تم سب خود برے ہو۔ تم میں اخلاقی قوت نہیں ہے۔ اس لیے اپنی جھینپ مٹانے کی خاطر تم اسے برا کہتے ہو۔۔۔ تم لوگ۔۔۔
’’ہلو بوبی بھیا۔۔۔ تم یہاں ہو۔ ہم تمہیں سارے میں ڈھونڈ آئے‘‘ اس نے چونک کر دیکھا۔ اس کے سامنے کوئینی کھڑی تھی جو اسی وقت لو، فریڈ اور کملا کے ساتھ اندر داخل ہوئی تھی۔ وہ ذرا گھبرا کر تعظیماً کھڑا ہوگیا اور اس کے لیے کرسی خالی کردی۔ نشاط اسی طرح بے فکری سے کرسی پر نیم دراز ایک گیت گنگناتی رہی۔
’’ہلو کوئینی‘‘ اس نے بے پروائی سے جمائی لیتے ہوئے کہا۔ ’’ہلو نشاط‘‘ کوئینی نے بڑے ہی با اخلاق لہجے میں جس میں یہ ملحوظ رکھا گیا تھا کہ اس کا روکھا پن اور مربیانہ، بے تعلق انداز سب کو محسوس ہوجائے۔ اسے جواب دیا۔
’’ہمیں ابھی زینے پر روبی کھوچڑ ملی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ اس سال مقابلہ حسن میں اس کا اول آنا یقینی ہے۔ کیوں کہ اس کی حریف سگرڈ ربانی اس مرتبہ مقابلہ میں شامل نہیں ہورہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انیس کی اجازت نہیں کہ وہ اس قسم کی خرافات میں شرکت کرتی پھرے‘‘، لو نے جھک کر بوبی کو بتایا۔
’’انیس کی اجازت نہیں؟‘‘ نشاط نے دفعتاً اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا، ’’اسے اس قدر اختیارات سگرڈ پر کب سے حاصل ہو گئے۔ کیا وہ اس سے شادی کر رہا ہے؟‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔ شادی کون مسخرہ کر رہا ہے‘‘، لو نے بے فکری سے جواب دیا۔ ’’ہاں۔ بوبی بھیا ہم تم سے یہ کہنے آئے تھے کہ کل موتی بھائی نے ہم سب کو ہیک مینز مدعو کیا ہے۔ سگرڈ کی دعوت ہے در اصل۔ موتی بھائی کہہ رہے تھے کہ اس سیزن میں یہ ان کی پہلی پارٹی ہے۔ لہٰذا ہم سب کو شامل ہونا پڑے گا۔ ضرور آنا بوبی۔ اور تم بھی نشاط۔۔۔‘‘
’’چلو بوبی ڈیر ناچیں۔۔۔ ‘‘ نشاط نے جمائی لیتے ہوئے بوبی سے کہا۔
اگلی صبح، بہت تھکا ماندہ اور رنجیدہ شکل بنائے موتی لال ’وائلڈ روز‘ پہنچا۔ ’’لو بھئی وجو‘‘، موتی بھائی پہنچے، ‘‘کوئینی نے نٹنگ کرتے کرتے اوپر کے برآمدے کے دریچے میں سے جھانک کر وجاہت سے کہا۔ اور اس قدر فلسفیوں کی طرح چل رہے ہیں کہ حد ہے۔ کیا مصیبت ہے آج کل جسے دیکھو ایسا لگتا ہے کہ بس اب رو دے گا۔‘‘
موتی لال زینے کے دروازے میں سے برآمدے میں داخل ہوگئے۔
’’دیکھی تم نے اس قاضی انیس الرحمن کی حرکت۔ سگرڈ کو اب کسی سے ملنے نہیں دیتا، ‘‘اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ارے تم نہیں جانتے چچی ارنا کی سیاست موتی بھائی‘‘، کوئینی نے اس سے کہا۔ ’’جہنم میں جائیں چچی ارنا‘‘، وہ اکتا کر دریچے سے باہر دیکھنے لگے۔ جہاں سر مئی بادل تیرتے پھر رہے تھے۔ ’’بہر حال تم لوگ آج میری پارٹی میں تو ضرور آؤ گے نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’قطعی‘‘، وجاہت نے شیو کرتے کرتے جواب دیا اور آئینے میں اپنی ناک کو بڑے غور سے دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔
’’میں جلد ہی بمبئی جارہا ہوں‘‘ جیوتی لال نے دفعتاً سر اٹھا کر کہا۔ ’’کیوں۔۔۔؟ یہ کیا وحشت ؟ کم از کم ٹینس کے سیمی فائنلز تک تو رک جاؤ۔ کل عالم کا جی تمہیں پوچھ رہی تھی‘‘، کوئینی نے کہا۔ ’’جہنم میں جائے عالم کا جی بھی؟‘‘ وجاہت نے سنجیدگی سے پوچھا۔ جیوتی لال ہنسنے لگے۔ وہ عموماً اتنا نون سیریس رہتے کہ اسے اتنا سنجیدہ اور غمگین دیکھ کر کوئینی کو بے حد ہنسی آئی۔
تیسرے پہر کو، جب کہ سب لوگ جیوتی لال کی پارٹی میں جانے کی تیاری میں مصروف تھے، کسی دل چلے نے ایشلے ہال جاکر انیس کو یہ خبر دی کہ موتی لال نے آج سگرڈ کو مدعو کیا ہے۔
’’کب؟ کہاں۔ کس وقت؟‘‘ انیس یہ سن کر تلملا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ چنانچہ اس کی موجودگی میں کسی اور کی یہ ہمت کہ سگرڈ کو باہر لے جائے۔ ’’اگر موتی لال یہ سمجھتے ہیں کہ وہی ایک اکیلے شہزادہ گلفام ہیں تو انہیں بہت جلد اس مغالطے سے نکلنا چاہئے‘‘، اس نے غصے سے کہا۔
جیوتی لال کی پارٹی کا وقت چھ بجے تھا۔ اس وقت سوا پانچ بجے تھے۔ دفعتاً انیس کو کوئی خیال آیا، وہ تیز تیز قدم رکھتا ایشلے ہال کی سیڑھیاں اترکر مال پر آیا اور ہیک منیز کی طرف روانہ ہوگیا۔ مسز ہیک مین کے پاس پہنچ کر اس نے کہا وہ ریسٹوران کا ایک حصہ فوراً اپنے لیے مخصوص کروانا چاہتا ہے۔ مسز ہیک مین نے جواب دیا کہ افسوس ہے کہ وہ حصہ ایک ہفتے پہلے ہی آج شام کی ایک پارٹی کے لیے مخصوص کروا لیا گیا ہے۔
’’کیا آپ کسی طرح اس ریزرویشن کو کینسل نہیں کر سکتیں؟ اس نے پوچھا۔ ’’یہ کس طرح ممکن ہے مسٹر انیس۔ اس کا پیشگی کرایہ دے دیا گیا ہے‘‘، انہوں نے جواب دیا۔ ’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج شام یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے بچوں کی طرح ضد کر کے کہا۔
’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں مسٹر انیس‘‘، مسز ہیگ مین نے جواب دیا۔ ’’کسی ریسٹوران یا رقص گاہ یا کسی اور پبلک جگہ پر آپ لوگوں کو آنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج یہاں کوئی نہ آئے‘‘، انیس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ ’’یہ تو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب آپ پورا ہیک منیز اپنے لیے مخصوص کر والیں‘‘، مسز ہیک مین نے ہنس کر جواب دیا۔
’’میں اس کے لیے تیار ہوں‘‘، انیس نے تقریباً چلا کر کہا۔ ’’آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پورے ہیک مینز کا ایک شام کا کرایہ سات ہزار روپے ہوگا؟‘‘ مسز ہیک مین نے جواب دیا۔ ’’صرف۔۔۔؟ یہ لیجئے۔۔۔‘‘ انیس نے اپنی وہ لافانی چیک بک نکالی اور سات ہزار کا ایک چیک کاٹ کر حیرت زدہ مسز ہیک مین کے حوالے کیا۔
جیوتی لال کا ریزرویشن اس طرح خود بخود کینسل ہوگیا۔ بیروں نے جو چند لوگ ادھر ادھر آئے بیٹھے تھے۔ ان سے مودبانہ عرض کی، ’’آج سارا ہیک مینز مخصوص کروا لیا گیا ہے اس لیے آپ حضرات تشریف لے جائیے۔‘‘ ساری رقص گاہ خالی ہوگئی۔ چھ بجا ہی چاہتے تھے۔ قاضی انیس الرحمن پنولین کی سی
- क़ुर्रतुलऐन-हैदर
جولائی ۴۴ء کی ایک ابر آلود سہ پہر جب وادیوں اور مکانوں کی سرخ چھتوں پر گہرا نیلا کہرا چھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر تیرتے ہوئے بادل برآمدوں کے شیشوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ سوائے کے ایک لاؤنج میں، تاش کھیلنے والوں کے مجمع سے ذرا پرے ایک میز کے گرد وہ پانچوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔
وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پر بھاکر، ناہید انور امام،راج کمار آسمان پور، لفٹنٹ کرنل دستور، رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت راون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا، ’’ان پورنا پربھاکر، برجیشور راؤ پر بھاکر، ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’جا‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کےمگر جھلکورے کھارہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امام گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کا رچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہوکر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شاندار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘
برابر کی میزوں پر زور وشور سے برج ہورہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جاسکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کردیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جاچکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔
ان پورنا پر بھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس نے پچھلی شام فی فی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکاد کا آدمی آجارہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران،مصر، انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے، پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سناکر ختم کرچکے تھے اور اب مکمل قناعت،اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کرلیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔
برجیشور راؤپر بھاکر اسی وقت چہل قدمی کرکے واپس آیا تھا اور لاؤنج کے نصف دائرے کے دوسرے سرے پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ گولف اور اسٹاک ایکسچینج پر تبادلہ خیال میں مصروف تھا۔ قریب کی ایک میز پر انعام محمود سپر نٹنڈنٹ پولیس جو عنقریب ڈی آئی، جی ہونے والے تھے برج کھیلتے کھیلتے سوچ رہے تھے کہ اگر وہ سیاہ آنکھوں اور گھنگھریالے بالوں والی پرتگالی لڑکی فی فی جس نے کل رات پیانو بجایا تھا، کم از کم آج ہی کی سرد اور غیر دل چسپ شام ان سے ملاقات کرسکتی تو بہت غنیمت تھا۔ اس سلسلے میں مزید ڈپلومیٹک گفتگو کی غرض سے راج کمار روی کی کرسی کی طرف جھک کر انہوں نے آہستہ سے کچھ کہا۔ راج کماری روی نے بے تعلقی سے سرہلایا۔ گویا بھئی ہم سادھو سنگ آدمی ہمیں موہ مایا کے اس چکر سے کیا۔ کرنل جہانگیر نے سگار کی راکھ جھٹک کر ذرا بلند آواز سے پکارا، ’’برجیش چلو کم از کم بلیرڈ ہی کھیلیں۔‘‘
’’روی کو لے جاؤ۔۔۔ ہم بے حد ضروری مسائل حل کررہے ہیں۔‘‘برجیش نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا اور پھر اپنی باتوں میں اس انہماک سے مصروف ہوگیا گویا اگر اس نے دوسری طرف ذراسی بھی توجہ کی تو ٹاٹا اور سپلا کے شیرز کی قیمتیں فوراً گرجائیں گی۔
’’ان پورنا رانی،دیکھو تو تمہارا شوہر کس قدر زبردست بوریت کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ کرنل جہانگیر نے اکتا کر شکایت کی۔
’’بھئی اللہ۔۔۔ برجیش گڈو ہئی اتنابور۔ جائیے آپ لوگ جاکر کھیلیے ہم تو اب بیگم ارجمند کے ساتھ چائے پینے جارہے ہیں۔‘‘ ناہید نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ناہید بیگم تمہیں کنور رانی صاحبہ سے جو تازہ ترین خبریں معلوم ہوں، ہمیں رات کے کھانے پر ضرور بتانا۔‘‘ راج کمار روی بھی اٹھتے ہوئے بولے۔
’’قطعی‘‘ناہید اپنی نقرئی آواز میں تھوڑا سا ہنسی پھر وہ دونوں اپنے اوور کوٹ اور شال سنبھالتی وسط کے ہال کے بڑے زینے کی طرف چلی گئیں۔
’’فی فی۔۔۔ فی فی۔۔۔ کیا نام ہے واللہ! گویا جلترنگ بج رہی ہے۔‘‘ انعام محمود نے چند لمحوں تک ڈون کار لوکو کرسی پر سے اتر کے اپنے چھوٹے چھوٹے سفید قدموں سے اپنی مالکہ کے پیچھے پیچھے بھاگتا دیکھتے رہنے کے بعد اب ذرا اونچی آواز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’بہت تیز ہوتے جارہے ہو بھائی جان۔ ذرا نیچے سے آنے دو اپنی بیگم کو کان کھنچوائے جائیں گے تمہارے۔‘‘ کرنل جہانگیر نے ڈانٹ پلائی۔
’’خواتین کہاں گئی ہیں؟‘‘ انعام محمود نے پوچھا۔
’’بیگم ارجمند کے کمروں کی طرف۔‘‘
’’رانی بلیر سنگھ بھی ہوں گی وہاں؟‘‘
’’یقینا‘‘
’’نفرت ہے مجھے اس بڑھیا سے۔‘‘انعام محمود پھر تاش کی طرف متوجہ ہوگیے۔ شام کی چائے کے بعد سب پھر لاؤنج میں جمع ہوئے اور سوچا جانے لگا۔ کہ اب کیا کیا جائے۔
’’کاش خورشید ہی آجاتا۔‘‘ راج کمار روی نے خواہش ظاہر کی۔
’’خورشید۔۔۔ واقعی۔۔۔ جانے آج کل کہاں ہوگا۔‘‘کرنل جہانگیر نے کہا۔ اور پھر سب مل کر بے حد دلچسپی سے کسی ایسے شخص کے متعلق باتیں کرنے لگے جسے خواتین بالکل نہیں جانتی تھیں۔ اکتا کر ناہید نے مسوری ٹائمز کا تازہ پرچہ اٹھالیا اور اس کے ورق پلٹنے لگی۔
سب ذلیل فلم دکھائے جارہے ہیں۔ روبرٹ ٹیلر۔ اس سے مجھے نفرت ہے۔ ڈور تھی لیمور میرے اعصاب پر آجاتی ہے۔ کیتھرین ہپ برن روز بروز زیادہ بد شکل ہوتی جارہی، یہ ہیک منیز میں کسی روسی نام کا کیبرے ہورہا ہے۔ وہ بھی سخت خرافات ہوگا۔۔۔‘‘ راج کمار روی نے ناہید کی کرسی کے پیچھے سے پرچے کے صفحات پر جھانکتے ہوئے کہا، ’’لہٰذا بہترین پروگرام یہی ہے کہ شریفوں کی طرح گھر میں بیٹھ کر قہوہ پیا جائے۔‘‘
’’اور ان پورنا رانی سے پیانو سنا جائے۔‘‘کرنل جہانگیر نے جلدی سے صاحبزادہ ارجمند کی تجویز میں اضافہ کر دیا۔ سب ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کرکے ان پورنا کو دیکھنے لگے جو اپنی شیریں ترین مسکراہٹ بکھیرتی اسی وقت بیگم ارجمند کے ساتھ ان کی میز کی طرف آئی تھی۔ وہ سب لاؤنج سے نکل کر نشست کے بڑے کمرے میں آگیے۔
’’اب ان پورنا رانی کو پکڑو۔‘‘کسی نے برابر کے کمرے میں زینے پر سے اترتے ہوئے آواز دی۔
’’جادو جگاتی ہے اپنی انگلیوں سے لڑکی۔‘‘ کنور رانی بلیر سنگھ نے ویکس سونگھتے ہوئے اپنی بزرگانہ بلندی پر سے ان پورنا کی تعریف کی اور پھر رومال میں ناک ٹھونس کر ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’ناہید بیٹا، تمہیں شاید زکام ہوگیا ہوگا؟‘‘ ان پورنا جب پیانو پر سے اٹھ آئی تو صاحبزادہ ارجمند نے ناہید کو مخاطب کیا۔
’’ارے نہیں رجو بھیا۔۔۔ کیا گائیں ہم؟‘‘ ناہید نے ہنستے ہوئے چاروں طرف نظر ڈال کر دریافت کیا۔
باہر بارش شروع ہوچکی تھی۔ خنکی بڑھتی جارہی تھی۔جب ناہید اپنی نقرئی آواز میں ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپ رہی تھی اس وقت ان پورنا کو اپنی نٹنگ سنبھالتے ہوئے دفعتاً خیال آیا۔۔۔ زندگی کم از کم اتنی ناگوار نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے پر خطر طوفانوں اور تند رو آندھیوں سے محفوظ ایک چھوٹے سے گرم اور روشن کمرے میں آگ کے سامنے بیٹھے چوکو لیٹ پیتے پیتے ہی عمر بیتی جارہی ہے۔ کیا بچپنا ہے۔ اسے اپنے اس تخیل پر ہنسی آگئی۔ تان پورے کے تار اور پیانو کے پردے چھیڑتے ہوئے اسے ہمیشہ چاندنی رات اور کنول کے پھولوں کا خیال آجاتا تھا۔ اور اس سمے ہوٹل کی نچلی منزل کے چاروں طرف کیاریوں میں لہلہاتے سفید پھول جولائی کی بارش میں نکھر رہے تھے۔ چاند کبھی کبھی بادلوں میں سے نکل کر دریچے میں جھانک لیتا تھااور پھر چھپ جاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے فضاؤں سے پگھلی ہوئی موسیقی برس رہی ہے۔
سچ مچ موسیقی کے بغیر اس روکھی پھیکی اجاڑ زندگی میں کیا رہ جاتا۔ درگا اور پوروی اور ماروا اور بہار۔ پیو پل نہ لاگیں موری انکھیاں۔۔۔ اور تان پورے کے چاروں تاروں کی گمبھیر گونج میں جیسے ہستی کی ساری تڑپ،سارا درد سمٹ آتا ہے۔ اور گھنگھروؤں کی جھنکار میں اور منی پوری کی لچک، بھرت ناٹیم کی گونج اور گرج اور کتھک کی چوٹ اور دھمک میں۔۔۔ اور جب بھیگی رات کے گہرے سناٹے میں کہیں اور گتار بجتا ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ ان پورنا نے سوچا۔ اس خوب صورت آرام دہ دنیا میں جو لوگ دکھی ہیں انہیں سب کو رات کے کھانے کے بعد ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپنا چاہئے۔
ان پورنا نے نٹنگ کرتے کرتے کشن پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے ناہید کا یہ گیت بہت پسندتھا جو وہ اس وقت گار رہی تھی۔ اسے ناہید کے وہ سارے پوربی گیت پسند تھے جو اس نے اکثر سنائے تھے۔ آہ۔۔۔ موسیقی۔۔۔ موسیقی۔۔۔ برجیش اکثر مذاقاً کہا کرتا تھا کہ جس طرح قصے کہانیوں کی پریوں اور شہزادیوں کی جان کسی بیگن، سرخ مرچ یا طوطے میں بند ہوتی ہے، اسی طرح ان پورنا کی جان اس کے تان پورے میں بند ہے۔ جب وہ پیانو بجاتی تھی تو برجیش اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے کلکتے کے کلایو اسٹریٹ کی تجارتی خبریں پڑھتا تھا یا آرام سے کرسی پر لیٹے لیٹے سوجاتا تھا اور ناہید خوف زدہ ہو کر کہتی ہائے اللہ کیسا ٹپکل قسم کا شوہر ہے!لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔
برجیش نے ان پورنا کوچھ سات سال قبل پہلی بار مہا بلیشور میں دیکھا تھا۔ اور اس کے صرف ایک ماہ بعد ہی ان پورنا کو اپنے نام کے آگے سے شیرالےہٹا دینا پڑا تھا۔ وہ دونوں سال کا زیادہ حصہ ریاست کے صدر مقام پر راجپوتانہ میں گزارتے تھے۔ جاڑوں میں کبھی کبھی اپنے عزیزوں سے ملنے پونا یا بمبئی چلے جاتے اور گرمیوں میں شمالی ہند کے پہاڑوں پر آجاتے۔ اب کی مرتبہ انہوں نے طے کیا تھا کہ اگلے سال وہ دونوں کشمیر جائیں گے جو ان پورنا نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ اسے نینی تال کی جھیل میں رقصاں روشنیاں پسند تھیں اور مسوری کی بے پناہ رنگینیاں اور چہل پہل۔ شملہ بہت غیر دلچسپ اور بہت سرکاری تھا۔ زیادہ سے زیادہ تفریح کرلی، جاکر بے وقوفوں کی طرح’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘ پر بیٹھ گیے یا ڈے وی کو چلے گیے۔ ان پورنا کو مسوری پسند تھی اور اپنا شوہر اور اپنے دونوں بچے اور اپنے مخلص اور دلچسپ دوستوں کا حلقہ جو ہر سال وسیع تر ہوتا جاتا تھا۔ اسے اس صوبے کی سب چیزیں بہت اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کا کلچر ،ان کا باتیں کرنے کا خوب صورت انداز، ان کے شاندار اور تصویروں ایسے لباس ،ان کے رنگ برنگے غرارے اور سیاہ شیروانیاں، ان کے مشاعرے، ان کی کلاسیکل موسیقی۔
جب موسم بہت غیر دل چسپ ہوجاتا یا بارش کی وجہ سے وہ ناہید کے گھر تک نہ جاسکتی تو اپنے کمرے میں بچوں کے لیے نٹنگ کرتی، یا برآمدے میں بیٹھ کر اپنی ہمسایہ بیگم ارجمند سے باتیں کرتی۔ اس کے دونوں بچے پچھلے سال سے کین ویل ہاؤس میں پڑھ رہے تھے۔ بڑا لڑکا بالکل برجیش جیسا تھا۔ سنجیدہ، کم سخن، لیکن اپنی بات منوانے والا۔ بچی ان پورنا کی طرح تھی۔ شیریں تبسم اور سبز آنکھوں والی۔ چار سال کی عمر میں کتھک ناچ ایسا ناچتی تھی کہ بس دیکھا کیجئے۔ یہ ان پورنا کا محبوب مشغلہ تھا کہ آرام کرسی پر لیٹ کر میرؔا کی آئندہ زندگی کے لیے پروگرام بنائے اور اس نے سوچا تھا کہ اگلے سال وہ اسے شمبھو مہاراج کے پاس لکھنؤ لے جائے گی۔
ناہید اپنا گیت ختم کرچکی تھی اور خوب زور زور سے تالیاں بجائی جارہی تھیں۔ باہر بارش تھم گئی تھی اور رات کا اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ڈنر کے بعد سب پھر وہاں جمع ہوگیےاور وہ کمرہ باتوں اور قہقہوں کے شور سے جاگ اٹھا۔ سب دیواروں کے قریب بکھرے ہوئے صوفوں پر بیٹھ کر قہوہ،سگریٹ، پائپ اور دوسری اپنی اپنی پسند کی چیزیں پینے میں مصروف ہوگیے۔ مختلف قسم کی باتیں شروع ہوئیں۔ جنگ کی صورت حال، سوسائٹی کے تازہ ترین اسکنڈلز، ٹینس اور کرکٹ کے متعلق پیشین گوئیاں، بھتنے روحیں، قسمت کی لکیریں۔
’’بھئی ہم کو تو اب نیند آرہی ہے ہم جاتے ہیں۔ شب بخیر‘‘ برجیش اپنی چائے کی پیالی ختم کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹھو ابھی کیا بد مذاقی ہے‘‘کرنل جہانگیر نے ڈانٹا۔
’’بے چاری ان پورنا۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔ ایسی شاعرانہ، آرٹسٹک مزاج کی لڑکی اور کیسے روکھے پھیکے آدمی سے پالا پڑا ہے۔‘‘ بیگم ارجمند نے ذرا دور دریچے کے نزدیک رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے کہا۔
’’آہ۔ یہ ہمارے ہندوستان کی بے جوڑ شادیاں۔‘‘ کنور رانی بلبیر سنگھ نے ناک پر سے رومال ہٹاکر سماج کی دگرگوں حالت پر ایک مختصر سی آہ بھری اور پھر ویپکس سونگھنے لگیں۔ بیگم ارجمند اور کنور رانی بلبیر سنگھ سارے دن اپنے ونگ میں اپنے کمروں کے آگے برآمدے میں بیٹھی بیٹھی مسوری بھرکے اسکنڈلز ڈائریکٹ کرتی رہتیں۔ سوائے کی دوسری منزل سے دنیا کا ایک جنرل طائرانہ جائزہ لے کر واقعات عالم پر تبصرہ اور آخری فیصلہ صادر کیا جاتا تھا۔ رفعت آرا اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی ہے۔ آمنہ طلاق لے رہی ہے۔ نسیم نے ہندو سے شادی کرلی۔ میجر ارشاد تیسری بار عشق میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یہ ناہید جو مستقل بیمار رہنے لگی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے قطعی اس کنگ جارج میڈیکل کالج والے خوبصورت ڈاکٹر سے عشق ہوگیا ہے۔ جو بیگم حمیداللہ کا بھانجا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں نے بیگم ارجمند کے بر آمدے کا نام ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ٹو‘‘ ہیک مینزکی پچھلی گیلری تھی۔
اور پھر دفعتاً اپنی اپنی باتیں چھوڑ کر سب کرنل جہانگیر کی طرف بے حد دلچسپی سے متوجہ ہوگیے،جو تھوڑی دیر سے فی فی کا ہاتھ دیکھنے میں مشغول تھے۔ فی فی گوا کے پرتگالی حاکم اعلیٰ کی سیاہ آنکھوں اور سیاہ بالوں والی لڑکی تھی۔ جو چند روز قبل اپنے والدین کے ہمراہ بمبئی سے آئی تھی اور آتے ہی اپنے اخلاق اور اپنی موسیقی کی وجہ سے بے حدہر دلعزیز ہوگئی تھی۔ سب اپنے اپنے ہاتھ دکھانے لگے۔ بھوتوں اور روحوں کے قصے چھڑ گیے۔ باتوں باتوں میں کرنل جہانگیر نے دعویٰ کیا کہ وہ اسی وقت جس کی چاہوروح بلا دیں گے۔
اور پھر سب کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا۔ اب موسم کے ’ڈل‘ ہونے کی شکایت نہ کی جاتی۔ جب بارش ہوتی یا برج میں جی نہ لگتا تو سب کرنل جہانگیر کے سٹنگ روم میں جمع ہوجاتے۔ برج کی میز پر انگریزی کے حروف تہجی الگ الگ کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ایک دائرے میں پھیلا دیے جاتے۔ بیچ میں ایک گلاس الٹا الٹا رکھ دیا جاتا۔ سب چاروں طرف چپ چاپ بیٹھ جاتے۔ گلاس پر دو انگلیاں ٹکادی جاتیں اور پھروہ گلاس خود بخود اچھلتا ہوا مختلف حروف پر جا رکتاا اور ان حروف کوجمع کر کے روحوں کا پیغام حاصل کیا جاتا ۔ اس میں بڑے مزے کے لطیفے ہوتے۔ بعض دفعہ غلط روحیں آجاتیں اور خوب ڈانٹ پھٹکار سنا کر واپس جاتیں۔
شہنشاہ اشوک ہمیشہ بڑی مستعدی سے آجاتے۔ جاتے وقت روح سے درخواست کی جاتی کہ اب فلاں کو بھیج دیجئے گا۔ جین ہار لو اور لیزلی ہاورڈ کو کئی بار بلایا گیا۔ پنڈت موتی لال نہرو نے آکر ایک مرتبہ بتایا کہ اگلے دو تین سال کے اندر اندر ان کا بیٹا ہندوستان کا حاکم اعلیٰ بن جائے گا۔ روحوں کی پیشین گوئیاں بعض دفعہ بالکل صحیح نکلتیں۔ ان سے سیاسیات پر کم شادی اور رومان پر زیادہ سوالات کیے جاتے۔ لڑکیاں خوب خوب جھینپتیں۔ بہت دلچسپی سے وقت گزرتا۔ کرنل جہانگیر انتالیس چالیس کے رہے ہوں گے لیکن اب تک کنوارے تھے اور مسئلہ تناسخ کے بے حد قائل۔ انہیں دنیا میں صرف تین چیزوں سے دلچسپی تھی۔۔۔ باغبانی، روحانیات اور نرگس۔ پونا میں ان کی ایک بھتیجی تھی۔ جسے وہ بہت چاہتے تھے اور اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے اور بیگم ارجمند نے یہ طے کیا تھا کہ یہ نرگس ان کی بھتیجی و تیجی قطعی نہیں ہے۔
وہ خواتین کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے ژند اوستا اور ایران کے صوفی شعراء اور جرمن فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ کئی سال یورپ میں گزارے تھے۔ پیرس میں روحوں کے scancesمیں شامل رہ چکے تھے۔ اور سب ملا کر بے حد دلچسپ شخص تھے۔
ایک روز ڈنر کے بعد سب لوگ حسب معمول پھر نشست کے کمرے میں آگیے۔ ان پورنانٹنگ میں مشغول تھی۔ انعام محمودفی فی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ناہید ڈون کارلو سے سوجانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں پھیلائے بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا۔ برجیش ایک کونے میں ایک آئی ۔سی۔ ایس صاحب بہادر سے ہندوستانی ریاستوں کی سیاست پر الجھ رہا تھا۔ پیانو کے قریب ایک اسٹول پر رانی کرم پور تلاری کا منظور نظر مظہر الدین بیٹھا پائپ کا دھواں اڑا رہا تھا۔ مظہر الدین بہتر سے بہتر سوٹ پہنتا، اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہرتااور بڑے ٹھاٹھ سے رہتا، پونٹیک سے کم بات نہ کرتا اور سب جانتے تھے کہ کہ یہ بڑے ٹھاٹھ کس طرح ہوتے ہیں اور ان کے لیے اتنا بے تحاشا روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ اس کی شکل اچھی خاصی تھی۔ ذہن کے معاملہ میں یوں ہی، لیکن بات کرنے میں بہت تیز ۔ پہلے وہ ادھیڑ عمر کی بیگم فرقان الدولہ کا منظور نظر تھا۔ اب کچھ عرصے سے رانی کرم پور تلاری کے ساتھ دکھائی دیتا تھا۔
بیگم ارجمند اور ان پورنا وغیرہ اس سے بہت کم بات کرتی تھیں۔ لیکن ان کے شوہروں کی سوسائٹی میں وہ کافی مقبول تھا۔ پائپ کی راکھ جھٹک کر اس نے ان پورنا سے پوچھا، ’’مسز پر بھاکر آپ کو مسئلہ تناسخ سے دلچسپی ہے؟ ‘‘
’’میں نے کبھی اس طرف خیال نہیں کیا۔ کیوں کیا آپ کو بھی۔۔۔ روحانیت سے شغف پیدا ہوگیا؟ ‘‘ ان پورنا کو بادل ناخواستہ لیکن اخلاقاً کیوں کہ وہ مظہر الدین کے قریب بیٹھی تھی، اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔’’کرنل جہانگیر تولگتا ہے اس مرتبہ ہم سب کو بالکل سنیاسی بنا کر چھوڑیں گے۔ آج کل جسے دیکھئے اپنی اپنی شکار اور اسٹاک ایکسچینج کی باتیں چھوڑ کر روحوں سے الجھ رہا ہے۔‘‘ مظہر الدین نے کہا۔ کرنل جہانگیر نے اس کی بات سن لی۔ وہ بولے، ’’ان پورنا رانی کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روز ہم سب اس مایا جال کو تج کر جٹائیں بڑھائے دو تارہ بجاتے سامنے ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں کی طرف رخ کرتے نظر آئیں۔‘‘
’’اگرمیری بیوی بھی اپنا تان پورہ اٹھا کر بنوں کو نکل گئی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا کرنل۔‘‘ برجیش نے اپنے مخصوص انتہائی غیر دلچسپ طریقے سے کہا۔ ’’چپ رہو یار۔ تم اپنے بازار کے بھاؤ اور گولف سے الجھتے رہو۔ یہ مسائل تصوف ہیں بھائی جان۔‘‘ صاحبزادہ ارجمند نے ڈانٹ پلائی۔ برجیش ایک خشک سی ہنسی ہنسا اورپھر نہایت مستعدی سے ان صاحب بہادر کو ارجن گڈھ اسٹیٹ کی پالیسی سمجھانے میں مصروف ہوگیا جو غالباً اگلے مہینے سے وہاں کے ریزیڈنٹ بننے والے تھے۔ پھر قہوہ کے دور کے ساتھ زور شور سے گرما اور آواگون کی بحث چھڑ گئی۔ کرنل جہانگیرکی باتیں بہت دل چسپ ہوتی تھی۔ مثلاً اس وقت انہوں نے ناہید سے کہا کہ پچھلے جنم میں وہ پرتھوی راج تھے اورناہیدان کی کوئی بہت قریبی عزیز تھی۔
’’غالباً سنجو گتا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔ سب ہنسنے لگے پھر مزے مزے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔ کون کون پچھلے جنم میں کیا کیا رہا ہوگا۔ ’’کرنل پچھلے جنم میں ناہید کی شادی کس سے ہوئی تھی؟ ‘‘ بیگم ارجمند نے انتہائی دلچسپی سے اپنی سیاہ آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ ’’کوئی جون پور کا کن کٹا قاضی رہا ہوگا‘‘راج کمار روی بولے۔ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ناہیدکی نسبت پچھلی کرسمس میں کسی پولس افسر سے ہوئی تھی اور سب دوستوں نے مل کر اسے مبارکباد کا تار بھیجا تھا۔۔۔جس میں صرف یہ جملہ تھا،’’سیاّں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔‘‘
کرنل جہانگیر ان پور نا کا ہاتھ دیکھنے میں مصروف تھے۔ اورپھر یک لخت کرنل جہانگیر نے بے حد سنجیدہ لہجہ میں اور بڑی مدھم آواز سے آہستہ آہستہ کہا،’’ان پورنا رانی تمہیں یاد آتا ہے کسی نے تم سے کبھی کہا تھا ۔۔۔جب چاندنی راتوں میں کنول کے پھول کھلتے ہوں گے اور بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کی برف پگھل کر گنگا کے پانیوں میں مل رہی ہوگی۔ اس وقت میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔ یاد رہے۔‘‘
ان پورنا حیرت زدہ سی اپنی پلکیں جھپکاتی کرنل کو دیکھنے لگی۔ کمرے میں دفعتاً بڑا حساس سکوت طاری ہوگیا۔کرنل نے اس کا چھوٹا سا ہاتھ کشن پر رکھ کر پھر کہنا شروع کیا، ’’یاد کرو۔۔۔ اس کا نام کمل اندر تھا۔ پچھلے جنم میں تم اس کی رانی تھیں۔ چاندنی راتوں میں اپنے راج محل کی سیڑھیوں پر جو گنگا میں اترتی تھیں۔ وہ وینا بجاتا تھا اور تم سنتی تھیں، تم ناچتی تھیں اور وہ دیکھتا تھا۔ پھر تمہاری شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ ایک جنگ میں مارا گیااور تمہاری قسمت کی لکیریں کہتی ہیں کہ تم اس جنم میں اس سے ضرور ملوگی۔ ایسا ضرور ہوگا۔ ستارے یہی چاہتےہیں۔ کرنل رک کر اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھنے لگا۔سب بت بنے اس کی آواز سن رہے تھے، جو لگ رہا تھا، رات کے اس سناٹے میں کہیں بہت دور سے آرہی ہے ان پورنا اسی طرح پلکیں جھپکاتی رہی۔ بیگم ارجمند کی آنکھیں پھیلی کی پھیلی رہ گئیں۔
’’اوہ کرنل ہاؤفنٹاسٹک۔۔۔‘‘ ناہید نے چند لمحوں بعد اس خاموشی کو توڑا پھر رفتہ رفتہ قہقہے اور باتیں شروع ہوگئیں۔ کرنل کی پیشین گوئی سب کے خیال میں متفقہ طور پر شام کا بہترین لطیفہ تھا۔
برجیش نے آئی۔ سی۔ ایس صاحب بہادر سے گفتگو ختم کرنے کے بعد اپنے کونے سے ان پورنا کو آواز دی،’’چلوبھئی اب چلیں سخت نیند آرہی ہے۔‘‘ پھر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کہہ کر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد نشست کا کمرہ بالکل خالی ہوگیا۔اور سب سے آخر میں،ان سب باتوں پر اچھی طرح غور و خوض کرتا ہوا ڈون کارلو اپنی کرسی پر سے نیچے کودا اور ایک طویل مطمئن انگڑائی لینے کے بعد چھوٹے چھوٹے قدموں سے باہرکے زینے کی سیڑھیاں چھلانگتا نیچے کورٹ یارڈ میں پہنچ گیا۔ جہاں اپنے گھر جانے کے لیے ناہید رکشا میں سوار ہو رہی تھی۔
موسم روز بروز زیادہ غیر دل چسپ ہوتا جارہا تھا۔ مرد دن بھر لاؤنج میں برج کھیلتے ،اَن پورنا بچوں کو لے کر ٹہلنے چلی جاتی یا اپنے سٹنگ روم میں میرا کو طبلے کے ساتھ کتھک کے قدم رکھنا سکھاتی رہتی۔ جب وہ تان پورے کے تار چھیڑتی تو دفعتاً اسے محسوس ہوتا کوئی اس سے کہہ رہا ہے میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ ستارے یہی چاہتے ہیں۔۔۔ ستارے یہی۔۔۔ کیا حماقت۔۔۔ گدھے پن کی حد ہے۔ اسے غصہ آجاتا۔ پھر ہنسی آتی۔ اس قسم کے باولے پن کی باتوں کا وہ خودمذاق اڑایا کرتی تھی۔۔۔ان پورنا۔۔۔ ان پورنا۔۔۔ اتنی موربڈ ہوتی جارہی ہے۔ ان پورنا جس کے شیریں قہقہے سوسائٹی کی جان تھے۔
’’کرنل کم از کم روحیں ہی بلادو۔ بہت دنوں سے مہاراجہ اشوک سے گپ نہیں کی۔‘‘ ناہید نے بے حداکتا کر ایک روز کرنل جہانگیر سے کہا۔ وہ سب ’’اونٹ کی پیٹھ‘‘ سے واپس آرہے تھے۔ ’’خدا کے لیے اب یہ حماقت کا بکھیڑانہ پھیلانا۔ میرے اعصاب پرآجاتی ہیں تمہاری یہ روحوں سے ملاقاتیں۔‘‘ بیگم ارجمند نے ڈانٹا۔
’’کرنل واقعی تم کمال کے آدمی ہو۔ اچھا میرے ہاتھ کے امپریشن کا تم نے مطالعہ نہیں کیا؟ ‘‘ ناہید نے بیگم ارجمند کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’ان نصیبوں پہ کیا اختر شناس۔۔۔‘‘ کرنل نے کچھ سوچتے ہوئے بڑی رنجیدہ آواز میں کہا اور چپ ہوگیے۔
’’کیوں کرنل تمہیں کیا دکھ ہے؟‘‘ ناہید نے ’’تمہیں‘‘پر زور ڈال کر پوچھا۔
’’دکھ ۔۔۔؟ شش۔۔۔ شش۔ بچے دکھوں کی باتیں نہیں کیا کرتے۔‘‘ وہ لائبریری کی سڑک پر سیڑھیوں تک پہنچ چکے تھے۔
اس روز کنورانی بلیر سنگھ نے اپنی ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘پر سے پیشین گوئی کی،’’ دیکھ لینا۔۔۔ ان پورنا اس مرتبہ ضرور کوئی نہ کوئی آفت بلائے گی۔ یہ اس دل جلے کرنل نے ایسا شگوفہ چھوڑا ہے۔ اور برجیش کیسا بے تعلق رہتا ہے اور یہ ہندوستانی ریاستوں کے حکام۔۔۔ تم نہیں جانتیں مائی ڈیر۔۔۔ ان لوگوں کی کیا زندگیاں ہوتی ہیں کیا مورلز ہوتے ہیں۔۔۔ جبھی تو دیکھو برجیش اس کم عمری میں اتنی جلدی فنانس منسٹر کے عہدے پر پہنچ گیا۔‘‘
’’دنیا نہ جانے کدھر جارہی ہے‘‘ بیگم ارجمند نے ان کے خیال کی تائید کی۔
اور پھر آخر ایک روز راجکماری نے چائے کے وقت سب کو بتایا کہ ’’وہ‘‘ واقعی آرہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ سے تقریباً ایک ایک فٹ اچھل پڑے۔ کئی دن سے کسی شخص کا مستقل تذکرہ ہو رہا تھا۔ کئی پارٹیاں اور پکنکیں ایک خاص مدت کے لیے ملتوی کی جارہی تھیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ ’’دیکھ لینا وہ ضرور اس دفعہ شادی کر لے گا۔۔۔قطعی نہیں۔۔۔وہ شادی کرنے والا ٹائپ ہی نہیں۔۔۔بھئی موسیقی کی پارٹیوں کا اس کے بغیر لطف ہی نہیں۔ ارے میاں انعام محمودفی فی کی طرف سے باخبر رہنا، وہ آرہا ہے۔ بھئی ڈاکٹر خان کو اطلاع کر کے ایمبولینس کاریں منگوا لی جائیں۔ نجانے کتنی بے چاریاں قتل ہوں گی کتنی زخمی۔‘‘
’’آخر یہ کون ڈون ژوان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی آمد سے پہلے ہی اتنا تہلکہ مچا رکھا ہے‘‘ ناہید نے اکتا کر پوچھا۔
’’ڈون ژوان۔۔۔! قسم سے ناہید بیگم خوب نام رکھا تم نے۔ ’’وہ‘‘ ہے در اصل خورشید احمد۔ پچھلے کئی سال سے اپنا ہوائی بیڑہ لے کر سمندر پار گیا ہوا تھا۔ اسی سال واپس آیا ہےاور اتوار کی شام کو یہاں پہنچ رہا ہے۔ باقی حالات آپ خود پردہ سیمیں پر ملاحظہ فرمائیے گا۔‘‘ راج کمار روی نے کہا۔
اسی روز سے بارش شروع ہوگئی اور اپنی امی کی طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے ناہید کئی روز تک ان پورنا اور دوسرے دوستوں سے ملنے کے لیے سوائے نہ آسکی۔دوسرے دن شام کو بالآخر ’’وہ‘‘ آگیا ۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوست اور تھے جو اس کے ہوائی بیڑے سے تعلق رکھتے تھے۔چائے کے بعد ڈائننگ ہال کی سیڑھیاں طے کر کے وہ بلیرڈ روم کی طرف جارہا تھااور اس وقت ان پورنا نے اسے دوسری بار دیکھا۔ کیوں کہ وہ کمل اندر تھا۔ ان پورنا کے دل میں کسی نے چپکے سے کہا۔ اس وقت تک ان پورنا کا اس سے باقاعدہ تعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ اس لیے ڈائننگ ہال کے زینے پر سے اتر کے گیلری کی جانب جاتی ہوئی ان پورنا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اسے پہچانے بغیر بلیرڈ روم میں داخل ہوگیا۔ جہاں سب دوست جمع تھے۔
تھوڑی دیر بعد نشست کے بڑے کمرے میں واپس آکر ان پورنا آکر ایک بڑے صوفے پر گر گئی۔ اس نے دیوار پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرنی چاہی۔ اس نے پیانو پر ایک نیا نغمہ نکالنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کشنوں پر سر رکھے اسی طرح پڑی رہی۔ بالکل خالی الذہن۔ اتنے میں وسط کے ہال کے زینے پر سے اتر کر مسز پد منی اچاریہ اندر آئیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ان سے میراؔ کے ’’ پل اوور‘‘ کے لیے وہ نمونہ مانگ لے جو وہ صبح بن رہی تھی۔ مگر مسز اچاریہ اسے ایک ہلکا سا ’’ ہلو‘‘ کہنے کے بعد آئینے میں اپنے بال ٹھیک کر کے باہر چلی گئیں اور وہ ۔۔۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ کمرے کی کھڑکیوں میں سے باہر لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگ حسب معمول برج کھیلتے نظر آرہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ پھر اندھیرا پڑے بلیرڈ روم سے واپس آکر برجیش برآمدے میں سے گزرا اور وہ اس کے ساتھ اپنے کمروں کی طرف چلی گئی۔
دوسرے روز صبح جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر ونگ کے برآمدے میں سے گزرتی زینے کی سمت جارہی تھی۔ وہ زینے کی مختصر سیڑھیوں کے اختتام پر کلوک روم کے قریب کھڑا سگریٹ جلاتا نظر آیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے آگے آکر بے حد اخلاق سے آداب عرض کہا، غالباً پچھلی شام بلیرڈ روم میں ان پورنا سے اس کا غائبانہ تعارف کرا دیا گیا تھا۔
’’میں خورشید ہوں۔ خورشید احمد۔‘‘
’’آداب۔ برجیش کے دوستوں میں سے میں نے صرف آپ کو اب تک نہیں دیکھا۔‘‘
’’جی ہاں جب میں ہندوستان سے باہر گیا تھا۔ اس وقت تک برجیش نے شادی نہیں کی تھی۔‘‘
اور تب ان پورنا سے کوئی چپکے سے بولا ۔ اس سے کہو تم غلط کہتے ہو، تم خورشید احمد قطعی نہیں ہو۔ تم بالکل صفا کمل اندر ہو۔ پورن ماشی کی چاندنی میں نکھرتے سفید شگوفوں اور دنیا کے گیتوں والے کمل اندر۔ کنول کے پھول کے دیوتا۔ فوراً اسے اپنے اس بچپنے پر ہنسی آگئی۔ اس بے موقع ہنسی کو ایک انتہائی خوش اخلاقی کی مسکراہٹ میں تبدیل کرتے ہوئے اس نے۔۔۔
’’اچھا آئیے نیچے چلیں۔ ہمارا انتظار کیا جارہا ہوگا۔‘‘
چائے پیتے پیتے کنور رانی بلیر سنگھ نے بڑی بزرگانہ شفقت سے خورشید سے پوچھا، ’’بھیا تم کا کرت ہو؟‘‘ انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وہ بھی ہردوئی کے اسی حصے کا ہے جس طرف ان کا تعلقہ تھا۔
’’فی الحال تو بمبار طیارے اڑاتا ہوں۔ لڑائی کے بعد نوکری نہیں ملی تو مرغیوں کی تجارت کیا کروں گا۔ بڑی مفید چیز ہوتی ہے۔ پولٹری فارمنگ۔۔۔‘‘
’’شادی اب تک کیوں نہیں کی؟ ‘‘بیگم ارجمند نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’وہ وجہ در اصل یہ ہوئی بیگم ارجمند کہ کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور جن لڑکیوں سے میں ملا وہ یا توجلد بازی میں آکر پہلے ہی شادی کرچکی تھیں یا کسی اور کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھیں یا عنقریب ہونے والی تھیں۔ اس کے علاوہ بیگم ارجمند میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچتے کہ ایک بلی بھی پال سکوں۔‘‘
جب خواتین بیگم انور امام یعنی ناہید کی امی کی مزاج پرسی کے لیے رکشاؤں میں سوار ہو گئیں تو راج کمار روی نے پوچھا، ’’ خورشید میاں تم بہت اترا رہے ہو ۔لیکن تمہارے اس تازہ ترین عشق کا کیا ہوا جس کا ذکر اپنے خطوط میں کر کے تم نے بور کردیا تھا۔ ‘‘
’’چل رہا ہے ‘‘اس نے اس بے فکری سے جواب دیا گویا موٹر ہے جو ٹھیک کام دے رہی ہے۔
اور بہت سی دل چسپ اور انوکھی باتوں کے علاوہ اس نے طے کیا تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسے سچ مچ پسند آگئی تو وہ فی الفور اس سے شادی کرلے گا۔ چاہے وہ کتنی ہی کالی بھجنگی ایسی کیوں نہ ہو۔ ویسے وہ کیپ فٹ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے گاہے بگاہے غم دل میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا۔
لیکن پچھلے دنوں والا واقعہ خاصی سنجیدہ شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ اسی مارچ کے ایک غیر دلچسپ سے اتوار کو جب کہ اس کی میس کے سارے ساتھی یا سو رہے تھے یا اپنے اپنے گھروں کو خط لکھنے میں مصروف تھےاور کینٹین میں کام کرنے والی ساری لڑکیاں اوف ڈیوٹی تھیں اور مطلع سخت ابر آلود تھا۔ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اس وقت اس نے فوراً اس لڑکی سے عشق کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کی تصویر اسی روز نئے listner میں دیکھی تھی۔ وہ ایک خاصی خوش شکل لڑکی تھی اور شمالی ہند کی کسی نشرگاہ سے دوپہر کوانگریزی موسیقی کے ریکارڈوں کا اناؤنسمنٹ کرتی تھی۔ چنانچہ بے حد اہتمام سے اسی وقت ایک ریڈیو فین کی حیثیت سے اسے ایک خط لکھا گیا۔
آپ کے ریکارڈوں کا انتخاب بے حد نفیس ہوتا ہے اور اپنی نقرئی آواز میں جب آپ فرمائشی ریکارڈوں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کو ایک دوسرے کے پیغامات نشر کرتی ہیں،انہیں سننے کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کو رات بھر نیند نہیں آتی، دوسرے کو اختلاج قلب کا عارضہ ہوگیا ہے، تیسرے کو اعصابی شکایت اور باقی سب کو ابھی دل و دماغ کے جتنے امراض تحقیق ہونے باقی ہیں وہ سب لاحق ہونے والے ہیں۔ اور پرسوں رات کے ڈرامے میں جوآپ کینڈیڈ بنی تھیں تو چاروں طرف اتنے حادثات وقوع پذیر ہوئے کہ ہمیں ریڈیو بند کر کے ایمبولنس کار منگوانی پڑی۔ پھر ایک دوست صاحب خاص طور پر سفر کر کے اس لڑکی کو دیکھنے گیےاور تقریباً نیم جاں واپس آئے۔ پھر ایک صاحب سے جو اسی نشرگاہ کے ایس ڈی کے دوست تھے،معلوم ہوا کہ بڑی بددماغ لڑکی ہے۔ کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔ اسٹوڈیوز میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور سب اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس کو مختلف ناموں سے دس پندرہ خط لکھے گیے۔
عرصے کے بعد اس کا جواب آیا۔ خط میں بڑا فیشن ایبل پتہ درج تھا جو بڑی رومینٹک بات لگی اور نہایت مختصر سا خط جو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ لوگوں کو ہمارے پروگرام پسند آتے ہیں، سے شروع ہو کر امید ہے کہ آپ سب بخیریت ہوں گے، پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعدپھر دوتین خط لکھے گیے۔ سب کا جواب غائب۔ آخر میں خورشیدکے مسوری آنے سے چند روز قبل اسی لڑکی کا ان سارے خطوں کے جواب میں ایک اور مختصر خط ملا تھا۔ جس پر اور بھی زیادہ فیشن ایبل اور افسانوی پتہ درج تھا۔ فیئری لینڈونسنٹ ہل ، مسوری۔ اور اب جب سے خورشید اور اس کے دونوں دوست مسوری پہنچے تھے۔ یہی فکر کی جارہی تھی کہ اس فیئری لینڈ کو تلاش کیا جائے۔ اگلی صبح اپنے سوائے والے دوستوں کو بتائے بغیر پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ونسنٹ ہل کی طرف چل پڑے۔ بہت اونچی چڑھائی کے بعد ایک خوب صورت دو منزلہ کوٹھی نظر آئی جس کے پھاٹک پر ایک سنگ مرمر کے ٹکڑے پر فیئری لینڈ لکھا تھا۔
آگے بڑھے تو پہلے ایک بل ڈاگ اندر سے نکلا۔ پھر دوسرا پھر تیسرا۔ آخر میں ایک چھوٹا سا سفید کتا باہر آیا جو پیسٹری کھا رہا تھا۔ تینوں پہلے کتوں نے مل کر بھونکنا شروع کیا۔ چوتھا کتا یقینا زیادہ خوش اخلاق تھا۔ وہ چپ چاپ پیسٹری کے ڈبے میں مصروف رہا۔ سب کے بعد ایک لڑکی باہر آئی اور ان سب کتوں کو گھسیٹ کر اندر لے گئی کیوں کہ باہر خنکی زیادہ تھی اور کتوں کو انفلوئنزا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ ابھی انہوں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آگے جائیں یا واپس چلیں کہ موڑ پر سے کنور رانی بلیر سنگھ کی رکشا آتی نظر آئی۔ سوالات کی زد سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے پیچھے چلے گیے۔
’’چنانچہ پیسٹری کھاتا ہے‘‘خاموشی سے چلتے ہوئے کپور تھلہ ہاؤس کی سڑک پر واپس پہنچ کر ایک دوست نے بے حد غور و فکر کے بعد کہا۔
’’باقی کے تینوں بھی اگر یہی شوق کریں تو نہیں بھونکیں گے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’قطعی نہیں بھونکیں گے۔‘‘خورشید نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔
شام کو جب خورشید راج کمار رویؔ اور برجیش کے ساتھ مال پر ٹہلنے نکلا تو دفعتاً اسے یاد آگیا کہ بے حد ضروری خریداری کرنا ہے۔ ’’ تم لوگ حمید اللہ سے مل آؤ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘ راجکمار روی اور برجیش کے آگے جانے کے بعد وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ منزلیں مارتا کلہڑی تک پہنچ گیا۔ لیکن کیک پیسٹری کی دوکان کہیں نظر نہ آئی۔ آخر جب وہ بالکل نا امید ہو کر واپس لوٹ رہے تھے تو خورشید کی نظر سڑک کی ڈھلوان کے اختتام پر ایک چھوٹی سی دوکان پر پڑ گئی جس پر بہت بڑا بورڈ لگا تھا۔ ’’رائل کنفکشنری۔‘‘ ایک صاحب دوکان کے باہر کرسی پر بیٹھے ہمدرد صحت پڑھ رہے تھے۔
’’کیوں صاحب آپ کیک پیسٹری بیچتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ کیا آپ کا خیال ہے میں نے تفریحاً دوکان کھولی ہے۔‘‘
’’ارے میرا مطلب ہے۔۔۔ ‘‘
’’مطلب کیا صاحب!کیا میں یہاں محض تفریحاً بیٹھا ہوں یا یہ جو کھڑکی سجی ہے اسے صرف دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ یا انہیں محض سونگھتا ہوں۔ آخر سمجھتے کیا ہیں آپ؟ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’کیا چاہئے صاحب۔۔۔؟‘‘اندر سے جلدی سے ایک لڑکا نکلا۔
شام کو وہ سب ہیک مینز کے ایک نسبتاً خاموش گوشے میں جمع چائے پی رہے تھے۔ ’’آہ۔۔۔ فقط ایک جھلک اس کی دیکھی ہے لیکن کیا نفیس ناک ہے کہ گلابی سی اور مختصر جو غالباً سردی کی وجہ سے نم رہتی ہےاور آنکھیں چمکیلی اور شوخ اور نرگسی اور لمبے لمبے ریشمی بال اور آہ وہ کان چھوٹے چھوٹے بالکل پرستش کے قابل۔۔۔‘‘ خورشید نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد بے حد رنجیدہ لہجہ میں کہا۔
’’کہاں دیکھی تھی یار جلدی بتاؤ‘‘انعام محمود نے کان کھڑے کیے۔
’’ آہ۔۔۔ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔ کیوں کہ دنیا کی خوب صورت ترین لڑکی کا کتاہے اور ۔۔۔ ‘‘
یک لخت خورشید کو وہ دوبارہ نظر آگیا۔ وہ ذرا دور پر دیوار کے قریب ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔ اتنا نفیس خلیق کتا جو اگر نہ بھونکتا تو پتہ بھی نہ چلتا کہ کتا ہے۔ بالکل سفید فرکا بڑا سا پرس معلوم ہوتا تھا۔ اور ڈؤن کارلو کو اپنے سامنے رکھی ہوئی طشتری میں پلم کیک کے ٹکڑے کھاتے کھاتے دفعتاً خیال آیا کہ گیلری کے پرے نیلے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس انسان کو وہ صبح دیکھ چکا ہے۔ اس نے کیک ختم کر کے ایک طویل انگڑائی لی اور اس انسان سے گفتگو کرنے کے ارادے سے صوفے پر سے کود کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا گیلری کی طرف چلا۔
اس کی مالکہ اسی گیلری کی دوسری جانب اپنے بھائیوں اور بہنوئی کے ساتھ چائے پی رہی تھی۔ اور حالاں کہ ’’ انڈین ٹی‘‘ کے اشتہار سے پتہ چلتا ہے کہ اس چائے کو پینے کے بعد آپ کو دنیا میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان جو تھوڑی دیر قبل ’’ارجمند ز کراؤڈ‘‘ کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تھا یقینا ایسا تھا کہ اگر پچھلی کرسمس میں اس کی نسبت علی ریاض اے ۔ ایس۔ پی۔ سے نہ ہوگئی ہوتی اور یہ نووارد آدمی اگر اس میں دل چسپی لینا چاہتا تو قطعی مضائقہ نہ تھا۔
’’ہلو ناہید بیگم۔۔۔ تم اتنے دنوں کہاں چھپی رہیں۔ ادھر آؤ۔۔۔ تمہیں خورشید سے ملوائیں جسے تم نے ڈون ژوان کا خطاب دیا تھا۔‘‘ راجکمار روی نے اس کی میزکے قریب آکر کہا۔
رات کو جب وہ سب ہیک منیز سے واپس آرہے تھے تو ناہید نے خورشید کے اس دوست کو دیکھ کر جو رائل کنفکشنری سے واپسی سے اب تک بے حد اہتمام سے پیسٹری کا ڈبہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے خورشید سے پوچھا،’’آپ لوگوں کو پیسٹری کا اتنا شوق ہے کہ اس کے ڈبے ساتھ لیے گھومتے ہیں؟‘‘
اگلی صبح بڑی خوش گوار تھی۔ مینہ رات بھر برس کر اب کھل گیا تھا۔ راستوں کے رنگ برنگے سنگ ریزے بارش کے پانی میں دھل دھلا کر خوب چمک رہے تھے۔ فضا میں پھولوں کی مہک اور گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی بڑی تروتازہ اور نکھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ان پورنا میرا کو لے کر ٹہلتی ہوئے نچلی دیوار تک آگئی۔ جہاں چند رکشائیں اور موٹریں کھڑی تھیں۔ لائبریری والی سڑک کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہوٹل کی طرف نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آداب عرض کہا،’’جے کرو بی بی انکل کو جے نہیں کی تم نے ۔‘‘ ان پورنا نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا کوڈانٹا۔ میرا نے بے حد پیارے طریقے سے اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ دیے، خورشید نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ پھر اسے آیا کے سپرد کردینے کے بعد وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی جانب آگیے۔ برجیش کے برآمدے میں پکنک کا پروگرام بنایا جارہا تھا۔ سب خورشید کے منتظر تھے۔
ایسا لگتا تھا جیسے سب میں جان پڑ گئی ہے۔ جو لوگ موسم کی غیر دل چسپی کی شکایت کرتے رہتے تھے، اب ان کا ہر لمحہ نت نئے پروگرام بنانے میں صرف ہوتا۔ ہر وقت پیانو اور وائلن بجتا ،فیری لینڈ جاکر ناہید سے ڈھولک کے پوربی گیت سنے جاتے۔ برساتیوں ،ٹوکریوں اور چھتریوں سے لد پھند کر وہ سب دور دور نکل جاتے۔ ایک روز پکنک پر جاتے ہوئے رائل کنفکشنری پر بھی دھاوا بولا گیا۔ برجیش بھی اب کلا یواسٹریٹ کی خبریں پڑھنے کی بجائے ان تفریحوں میں حصہ لینے لگا۔ دنیا یک لخت بڑی پر مسرت بڑی روشن اور بڑی خوش گوار جگہ بن گئی تھی۔
جس گھر میں خورشید اپنے ایک دور کے عزیز کے یہاں ٹھہرا تھا، وہ نہایت عجیب و غریب اور بے حد دل چسپ جگہ تھی۔ اوپر کی منزل میں جو سڑک کی سطح کے برابر تھی گھوڑے رہتے تھے جو سڑک پر سے سیدھے اپنے اصطبل میں پہنچ جاتے، جو ڈرائنگ روم کے عین اوپر تھا۔ درمیانی منزل میں مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں رہتی تھیں۔ نچلی منزل میں جس کی سیڑھیاں کھڈ میں اترتی تھیں، خورشید کو ٹھہرایا گیا تھا۔ گھوڑے شاید الارم لگا کر سوتے تھے۔ صبح سویرے ہی وہ جاگ جاتے اور تیسری منزل کی کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے میں مصروف ہوجاتے۔ خورشید کا جی چاہتا تھا کہ زور سے کچھ اس قسم کا گیت الاپے۔۔۔ یہ کون اٹھا اور گھوڑوں کو اٹھایا۔۔۔ پھر دوسری منزل پر مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں اپنے اپنے پسندیدہ اسٹائل سے جاگنا شروع کرتیں اور قیامت کا شور مچتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خورشید کے دونوں دوست غسل خانوں میں گھس کر اپنا صبح کا قومی ترانہ شروع کردیتے۔۔۔ یہ کون آج آیا سویرے سویرے ۔۔۔پھر لڑکیاں گھوڑوں پر سواری کے لیے جاتیں۔ لیکن سواری کرنی کسی کو بھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے سڑکوں پر روز شہسواری کے بعض نہایت نادر نظارے دیکھنے میں آتے۔۔۔ پھر ایک روز لڑکیوں کی شہسواری سکھانے کا بے اتنہا خوش گوار فرض خورشید کے سپرد کیا گیا۔ وہ اسی دن اپنا سامان لے کر سوائے بھاگ آیا۔
اسٹینڈرڈ میں سالانہ مشاعرہ تھا۔ محفل ختم ہونے کے بعد سب باہر نکل آئے تھے۔ بڑا بے پناہ مجمع تھا۔ بھوپال کی الٹرافیشن ایبل لڑکیاں، حیدرآباد کے جاگیردار، رام پور کے رئیس، نئی دہلی اور لکھنؤ کے ہندوستانی صاحب لوگ سب کے ہونٹوں پر جگرؔ کی تازہ غزل کے اشعار تھے،
لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گیے
بیٹھے ہم انتظار سحر دیکھتے رہے
زینے کی سیڑھیاں طے کر کے وہ سارے دوست بھی نیچے سڑک پر آگئے۔ مشاعرے کے دوران میں خورشید ان پورنا کو شعروں کے مشکل الفاظ کے معنی بتاتا رہا اور ان پورنا نے طے کر لیا کہ وہ ناہید سے قطعی طور پر اردو پڑھنا شروع کر دے گی۔ اردو دنیا کی خوب صورت ترین اور شیریں ترین زبان تھی اور لکھنؤ والوں کا لب و لہجہ، لکھنؤ جو خورشید کا وطن تھا، ان پورنا کالکھنؤ دیکھنے کا اشیاق زیادہ ہوگیا۔ وہاں کے ہرے بھرے باغ، سایہ دار خوب صورت سڑکیں، شان دار عمارتیں،مہذب لوگ جہاں کے تانگے والے اور سبزی فروش بھی اس قدر تہذیب سے اور ایسی نفیس زبان میں گفتگو کرتے تھے کہ بس سنا کیجئے اور پھر وہاں کا موسیقی کامیرس کالج ، وہاں کا کتھک ناچ ۔خورشید نے وائلن میرس کالج میں سیکھا تھا۔ برجیش کہتا تھا جس طرح ان پورنا رانی کی جان تان پورے کے تاروں میں رہتی ہے اسی طرح خورشید کی جان اس کے وائلن کیس میں بند ہے۔ مسلمان لڑکے عام طور پر زیادہ خوب صورت ہوتے ہیں۔ ناہید کی ساری غیر مسلم سہیلیاں اس سے اکثر کہا کرتی تھیں۔ خورشید بھی بہت خوب صورت تھا۔ برجیش اورکرنل جہانگیر اور راج کمار روی ان سب سے زیادہ دل کش اور شان دار۔
اور اس وقت جب کہ مشاعرے کے بعد وہ سب ٹہلتے ہوئے اسٹینڈرڈ سے واپس آرہے تھے، مال کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دفعتاً خورشید نے مڑ کر ان پورنا سے کہا، ’’زندگی بڑی خوش گوار ہے نا ان پورنا رانی، ہے نا؟‘‘ پھر وہ بے فکری سے سیٹی بجا کر ڈؤن کارلو کو بلانے لگا جو ناہید کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھاوہ اور ان پورنا آگے جاتے ہوئے مجمع سے ذرا فاصلہ پر سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔ آسمان پر ستارے جگمگا اٹھے تھے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔
’’تم زندگی سے بالکل مطمئن ہو خورشید احمد ؟‘‘ان پورنا نے تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد پوچھا۔
’’بالکل۔۔۔ مجھ سے زیادہ بے فکر شخص کون ہوگا۔۔۔ان پورنا رانی! میں جس کی زندگی کا واحد مصرف کھیلنا اور خوش رہنا ہے۔ جب میں اپنا طیارہ لے کر فضا کی بلندیوں پر پہنچتا ہوں، اس وقت مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میں موت سے ملاقات کرنے کی غرض سے جارہا ہوں۔ موت مجھے کسی لمحے بھی زندگی سے چھین سکتی ہے، لیکن زندگی اب تک میرے لیے خوب مکمل اور بھرپور رہی ہے۔ میرے پیچھے اس خوب صورت دنیا میں صرف میرے دوست رہ جائیں گے جو کبھی کبھی ایسی ہی خوشگوار راتوں میں مجھے یاد کر لیا کریں گے۔‘‘ ان پورنا کا جی چاہا کہ وہ چلا کر کہے۔۔۔ تم غلط کہتے ہو کمل اندر! اگر تم مرو گے تو تمہارے لیے ایک روح عمربھرروئے گی کہ تم نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ لیکن نہ مل سکے۔
اور پھر اپنی اوبزرویشن پوسٹ پر بیٹھے بیٹھے بیگم ارجمند اور کنور رانی صاحبہ نے طے کیا کہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے کا۔ نیک سیرت،شکیل، برسر روزگار اور اب تک یوں ہی کنوارا گھوم رہ
وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پر بھاکر، ناہید انور امام،راج کمار آسمان پور، لفٹنٹ کرنل دستور، رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت راون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا، ’’ان پورنا پربھاکر، برجیشور راؤ پر بھاکر، ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’جا‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کےمگر جھلکورے کھارہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امام گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کا رچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہوکر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شاندار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘
برابر کی میزوں پر زور وشور سے برج ہورہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جاسکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کردیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جاچکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔
ان پورنا پر بھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس نے پچھلی شام فی فی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکاد کا آدمی آجارہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران،مصر، انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے، پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سناکر ختم کرچکے تھے اور اب مکمل قناعت،اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کرلیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔
برجیشور راؤپر بھاکر اسی وقت چہل قدمی کرکے واپس آیا تھا اور لاؤنج کے نصف دائرے کے دوسرے سرے پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ گولف اور اسٹاک ایکسچینج پر تبادلہ خیال میں مصروف تھا۔ قریب کی ایک میز پر انعام محمود سپر نٹنڈنٹ پولیس جو عنقریب ڈی آئی، جی ہونے والے تھے برج کھیلتے کھیلتے سوچ رہے تھے کہ اگر وہ سیاہ آنکھوں اور گھنگھریالے بالوں والی پرتگالی لڑکی فی فی جس نے کل رات پیانو بجایا تھا، کم از کم آج ہی کی سرد اور غیر دل چسپ شام ان سے ملاقات کرسکتی تو بہت غنیمت تھا۔ اس سلسلے میں مزید ڈپلومیٹک گفتگو کی غرض سے راج کمار روی کی کرسی کی طرف جھک کر انہوں نے آہستہ سے کچھ کہا۔ راج کماری روی نے بے تعلقی سے سرہلایا۔ گویا بھئی ہم سادھو سنگ آدمی ہمیں موہ مایا کے اس چکر سے کیا۔ کرنل جہانگیر نے سگار کی راکھ جھٹک کر ذرا بلند آواز سے پکارا، ’’برجیش چلو کم از کم بلیرڈ ہی کھیلیں۔‘‘
’’روی کو لے جاؤ۔۔۔ ہم بے حد ضروری مسائل حل کررہے ہیں۔‘‘برجیش نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا اور پھر اپنی باتوں میں اس انہماک سے مصروف ہوگیا گویا اگر اس نے دوسری طرف ذراسی بھی توجہ کی تو ٹاٹا اور سپلا کے شیرز کی قیمتیں فوراً گرجائیں گی۔
’’ان پورنا رانی،دیکھو تو تمہارا شوہر کس قدر زبردست بوریت کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ کرنل جہانگیر نے اکتا کر شکایت کی۔
’’بھئی اللہ۔۔۔ برجیش گڈو ہئی اتنابور۔ جائیے آپ لوگ جاکر کھیلیے ہم تو اب بیگم ارجمند کے ساتھ چائے پینے جارہے ہیں۔‘‘ ناہید نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ناہید بیگم تمہیں کنور رانی صاحبہ سے جو تازہ ترین خبریں معلوم ہوں، ہمیں رات کے کھانے پر ضرور بتانا۔‘‘ راج کمار روی بھی اٹھتے ہوئے بولے۔
’’قطعی‘‘ناہید اپنی نقرئی آواز میں تھوڑا سا ہنسی پھر وہ دونوں اپنے اوور کوٹ اور شال سنبھالتی وسط کے ہال کے بڑے زینے کی طرف چلی گئیں۔
’’فی فی۔۔۔ فی فی۔۔۔ کیا نام ہے واللہ! گویا جلترنگ بج رہی ہے۔‘‘ انعام محمود نے چند لمحوں تک ڈون کار لوکو کرسی پر سے اتر کے اپنے چھوٹے چھوٹے سفید قدموں سے اپنی مالکہ کے پیچھے پیچھے بھاگتا دیکھتے رہنے کے بعد اب ذرا اونچی آواز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’بہت تیز ہوتے جارہے ہو بھائی جان۔ ذرا نیچے سے آنے دو اپنی بیگم کو کان کھنچوائے جائیں گے تمہارے۔‘‘ کرنل جہانگیر نے ڈانٹ پلائی۔
’’خواتین کہاں گئی ہیں؟‘‘ انعام محمود نے پوچھا۔
’’بیگم ارجمند کے کمروں کی طرف۔‘‘
’’رانی بلیر سنگھ بھی ہوں گی وہاں؟‘‘
’’یقینا‘‘
’’نفرت ہے مجھے اس بڑھیا سے۔‘‘انعام محمود پھر تاش کی طرف متوجہ ہوگیے۔ شام کی چائے کے بعد سب پھر لاؤنج میں جمع ہوئے اور سوچا جانے لگا۔ کہ اب کیا کیا جائے۔
’’کاش خورشید ہی آجاتا۔‘‘ راج کمار روی نے خواہش ظاہر کی۔
’’خورشید۔۔۔ واقعی۔۔۔ جانے آج کل کہاں ہوگا۔‘‘کرنل جہانگیر نے کہا۔ اور پھر سب مل کر بے حد دلچسپی سے کسی ایسے شخص کے متعلق باتیں کرنے لگے جسے خواتین بالکل نہیں جانتی تھیں۔ اکتا کر ناہید نے مسوری ٹائمز کا تازہ پرچہ اٹھالیا اور اس کے ورق پلٹنے لگی۔
سب ذلیل فلم دکھائے جارہے ہیں۔ روبرٹ ٹیلر۔ اس سے مجھے نفرت ہے۔ ڈور تھی لیمور میرے اعصاب پر آجاتی ہے۔ کیتھرین ہپ برن روز بروز زیادہ بد شکل ہوتی جارہی، یہ ہیک منیز میں کسی روسی نام کا کیبرے ہورہا ہے۔ وہ بھی سخت خرافات ہوگا۔۔۔‘‘ راج کمار روی نے ناہید کی کرسی کے پیچھے سے پرچے کے صفحات پر جھانکتے ہوئے کہا، ’’لہٰذا بہترین پروگرام یہی ہے کہ شریفوں کی طرح گھر میں بیٹھ کر قہوہ پیا جائے۔‘‘
’’اور ان پورنا رانی سے پیانو سنا جائے۔‘‘کرنل جہانگیر نے جلدی سے صاحبزادہ ارجمند کی تجویز میں اضافہ کر دیا۔ سب ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کرکے ان پورنا کو دیکھنے لگے جو اپنی شیریں ترین مسکراہٹ بکھیرتی اسی وقت بیگم ارجمند کے ساتھ ان کی میز کی طرف آئی تھی۔ وہ سب لاؤنج سے نکل کر نشست کے بڑے کمرے میں آگیے۔
’’اب ان پورنا رانی کو پکڑو۔‘‘کسی نے برابر کے کمرے میں زینے پر سے اترتے ہوئے آواز دی۔
’’جادو جگاتی ہے اپنی انگلیوں سے لڑکی۔‘‘ کنور رانی بلیر سنگھ نے ویکس سونگھتے ہوئے اپنی بزرگانہ بلندی پر سے ان پورنا کی تعریف کی اور پھر رومال میں ناک ٹھونس کر ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔
’’ناہید بیٹا، تمہیں شاید زکام ہوگیا ہوگا؟‘‘ ان پورنا جب پیانو پر سے اٹھ آئی تو صاحبزادہ ارجمند نے ناہید کو مخاطب کیا۔
’’ارے نہیں رجو بھیا۔۔۔ کیا گائیں ہم؟‘‘ ناہید نے ہنستے ہوئے چاروں طرف نظر ڈال کر دریافت کیا۔
باہر بارش شروع ہوچکی تھی۔ خنکی بڑھتی جارہی تھی۔جب ناہید اپنی نقرئی آواز میں ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپ رہی تھی اس وقت ان پورنا کو اپنی نٹنگ سنبھالتے ہوئے دفعتاً خیال آیا۔۔۔ زندگی کم از کم اتنی ناگوار نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے پر خطر طوفانوں اور تند رو آندھیوں سے محفوظ ایک چھوٹے سے گرم اور روشن کمرے میں آگ کے سامنے بیٹھے چوکو لیٹ پیتے پیتے ہی عمر بیتی جارہی ہے۔ کیا بچپنا ہے۔ اسے اپنے اس تخیل پر ہنسی آگئی۔ تان پورے کے تار اور پیانو کے پردے چھیڑتے ہوئے اسے ہمیشہ چاندنی رات اور کنول کے پھولوں کا خیال آجاتا تھا۔ اور اس سمے ہوٹل کی نچلی منزل کے چاروں طرف کیاریوں میں لہلہاتے سفید پھول جولائی کی بارش میں نکھر رہے تھے۔ چاند کبھی کبھی بادلوں میں سے نکل کر دریچے میں جھانک لیتا تھااور پھر چھپ جاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے فضاؤں سے پگھلی ہوئی موسیقی برس رہی ہے۔
سچ مچ موسیقی کے بغیر اس روکھی پھیکی اجاڑ زندگی میں کیا رہ جاتا۔ درگا اور پوروی اور ماروا اور بہار۔ پیو پل نہ لاگیں موری انکھیاں۔۔۔ اور تان پورے کے چاروں تاروں کی گمبھیر گونج میں جیسے ہستی کی ساری تڑپ،سارا درد سمٹ آتا ہے۔ اور گھنگھروؤں کی جھنکار میں اور منی پوری کی لچک، بھرت ناٹیم کی گونج اور گرج اور کتھک کی چوٹ اور دھمک میں۔۔۔ اور جب بھیگی رات کے گہرے سناٹے میں کہیں اور گتار بجتا ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ ان پورنا نے سوچا۔ اس خوب صورت آرام دہ دنیا میں جو لوگ دکھی ہیں انہیں سب کو رات کے کھانے کے بعد ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپنا چاہئے۔
ان پورنا نے نٹنگ کرتے کرتے کشن پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے ناہید کا یہ گیت بہت پسندتھا جو وہ اس وقت گار رہی تھی۔ اسے ناہید کے وہ سارے پوربی گیت پسند تھے جو اس نے اکثر سنائے تھے۔ آہ۔۔۔ موسیقی۔۔۔ موسیقی۔۔۔ برجیش اکثر مذاقاً کہا کرتا تھا کہ جس طرح قصے کہانیوں کی پریوں اور شہزادیوں کی جان کسی بیگن، سرخ مرچ یا طوطے میں بند ہوتی ہے، اسی طرح ان پورنا کی جان اس کے تان پورے میں بند ہے۔ جب وہ پیانو بجاتی تھی تو برجیش اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے کلکتے کے کلایو اسٹریٹ کی تجارتی خبریں پڑھتا تھا یا آرام سے کرسی پر لیٹے لیٹے سوجاتا تھا اور ناہید خوف زدہ ہو کر کہتی ہائے اللہ کیسا ٹپکل قسم کا شوہر ہے!لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔
برجیش نے ان پورنا کوچھ سات سال قبل پہلی بار مہا بلیشور میں دیکھا تھا۔ اور اس کے صرف ایک ماہ بعد ہی ان پورنا کو اپنے نام کے آگے سے شیرالےہٹا دینا پڑا تھا۔ وہ دونوں سال کا زیادہ حصہ ریاست کے صدر مقام پر راجپوتانہ میں گزارتے تھے۔ جاڑوں میں کبھی کبھی اپنے عزیزوں سے ملنے پونا یا بمبئی چلے جاتے اور گرمیوں میں شمالی ہند کے پہاڑوں پر آجاتے۔ اب کی مرتبہ انہوں نے طے کیا تھا کہ اگلے سال وہ دونوں کشمیر جائیں گے جو ان پورنا نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ اسے نینی تال کی جھیل میں رقصاں روشنیاں پسند تھیں اور مسوری کی بے پناہ رنگینیاں اور چہل پہل۔ شملہ بہت غیر دلچسپ اور بہت سرکاری تھا۔ زیادہ سے زیادہ تفریح کرلی، جاکر بے وقوفوں کی طرح’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘ پر بیٹھ گیے یا ڈے وی کو چلے گیے۔ ان پورنا کو مسوری پسند تھی اور اپنا شوہر اور اپنے دونوں بچے اور اپنے مخلص اور دلچسپ دوستوں کا حلقہ جو ہر سال وسیع تر ہوتا جاتا تھا۔ اسے اس صوبے کی سب چیزیں بہت اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کا کلچر ،ان کا باتیں کرنے کا خوب صورت انداز، ان کے شاندار اور تصویروں ایسے لباس ،ان کے رنگ برنگے غرارے اور سیاہ شیروانیاں، ان کے مشاعرے، ان کی کلاسیکل موسیقی۔
جب موسم بہت غیر دل چسپ ہوجاتا یا بارش کی وجہ سے وہ ناہید کے گھر تک نہ جاسکتی تو اپنے کمرے میں بچوں کے لیے نٹنگ کرتی، یا برآمدے میں بیٹھ کر اپنی ہمسایہ بیگم ارجمند سے باتیں کرتی۔ اس کے دونوں بچے پچھلے سال سے کین ویل ہاؤس میں پڑھ رہے تھے۔ بڑا لڑکا بالکل برجیش جیسا تھا۔ سنجیدہ، کم سخن، لیکن اپنی بات منوانے والا۔ بچی ان پورنا کی طرح تھی۔ شیریں تبسم اور سبز آنکھوں والی۔ چار سال کی عمر میں کتھک ناچ ایسا ناچتی تھی کہ بس دیکھا کیجئے۔ یہ ان پورنا کا محبوب مشغلہ تھا کہ آرام کرسی پر لیٹ کر میرؔا کی آئندہ زندگی کے لیے پروگرام بنائے اور اس نے سوچا تھا کہ اگلے سال وہ اسے شمبھو مہاراج کے پاس لکھنؤ لے جائے گی۔
ناہید اپنا گیت ختم کرچکی تھی اور خوب زور زور سے تالیاں بجائی جارہی تھیں۔ باہر بارش تھم گئی تھی اور رات کا اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ڈنر کے بعد سب پھر وہاں جمع ہوگیےاور وہ کمرہ باتوں اور قہقہوں کے شور سے جاگ اٹھا۔ سب دیواروں کے قریب بکھرے ہوئے صوفوں پر بیٹھ کر قہوہ،سگریٹ، پائپ اور دوسری اپنی اپنی پسند کی چیزیں پینے میں مصروف ہوگیے۔ مختلف قسم کی باتیں شروع ہوئیں۔ جنگ کی صورت حال، سوسائٹی کے تازہ ترین اسکنڈلز، ٹینس اور کرکٹ کے متعلق پیشین گوئیاں، بھتنے روحیں، قسمت کی لکیریں۔
’’بھئی ہم کو تو اب نیند آرہی ہے ہم جاتے ہیں۔ شب بخیر‘‘ برجیش اپنی چائے کی پیالی ختم کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹھو ابھی کیا بد مذاقی ہے‘‘کرنل جہانگیر نے ڈانٹا۔
’’بے چاری ان پورنا۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔ ایسی شاعرانہ، آرٹسٹک مزاج کی لڑکی اور کیسے روکھے پھیکے آدمی سے پالا پڑا ہے۔‘‘ بیگم ارجمند نے ذرا دور دریچے کے نزدیک رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے کہا۔
’’آہ۔ یہ ہمارے ہندوستان کی بے جوڑ شادیاں۔‘‘ کنور رانی بلبیر سنگھ نے ناک پر سے رومال ہٹاکر سماج کی دگرگوں حالت پر ایک مختصر سی آہ بھری اور پھر ویپکس سونگھنے لگیں۔ بیگم ارجمند اور کنور رانی بلبیر سنگھ سارے دن اپنے ونگ میں اپنے کمروں کے آگے برآمدے میں بیٹھی بیٹھی مسوری بھرکے اسکنڈلز ڈائریکٹ کرتی رہتیں۔ سوائے کی دوسری منزل سے دنیا کا ایک جنرل طائرانہ جائزہ لے کر واقعات عالم پر تبصرہ اور آخری فیصلہ صادر کیا جاتا تھا۔ رفعت آرا اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی ہے۔ آمنہ طلاق لے رہی ہے۔ نسیم نے ہندو سے شادی کرلی۔ میجر ارشاد تیسری بار عشق میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یہ ناہید جو مستقل بیمار رہنے لگی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے قطعی اس کنگ جارج میڈیکل کالج والے خوبصورت ڈاکٹر سے عشق ہوگیا ہے۔ جو بیگم حمیداللہ کا بھانجا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں نے بیگم ارجمند کے بر آمدے کا نام ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ٹو‘‘ ہیک مینزکی پچھلی گیلری تھی۔
اور پھر دفعتاً اپنی اپنی باتیں چھوڑ کر سب کرنل جہانگیر کی طرف بے حد دلچسپی سے متوجہ ہوگیے،جو تھوڑی دیر سے فی فی کا ہاتھ دیکھنے میں مشغول تھے۔ فی فی گوا کے پرتگالی حاکم اعلیٰ کی سیاہ آنکھوں اور سیاہ بالوں والی لڑکی تھی۔ جو چند روز قبل اپنے والدین کے ہمراہ بمبئی سے آئی تھی اور آتے ہی اپنے اخلاق اور اپنی موسیقی کی وجہ سے بے حدہر دلعزیز ہوگئی تھی۔ سب اپنے اپنے ہاتھ دکھانے لگے۔ بھوتوں اور روحوں کے قصے چھڑ گیے۔ باتوں باتوں میں کرنل جہانگیر نے دعویٰ کیا کہ وہ اسی وقت جس کی چاہوروح بلا دیں گے۔
اور پھر سب کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا۔ اب موسم کے ’ڈل‘ ہونے کی شکایت نہ کی جاتی۔ جب بارش ہوتی یا برج میں جی نہ لگتا تو سب کرنل جہانگیر کے سٹنگ روم میں جمع ہوجاتے۔ برج کی میز پر انگریزی کے حروف تہجی الگ الگ کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ایک دائرے میں پھیلا دیے جاتے۔ بیچ میں ایک گلاس الٹا الٹا رکھ دیا جاتا۔ سب چاروں طرف چپ چاپ بیٹھ جاتے۔ گلاس پر دو انگلیاں ٹکادی جاتیں اور پھروہ گلاس خود بخود اچھلتا ہوا مختلف حروف پر جا رکتاا اور ان حروف کوجمع کر کے روحوں کا پیغام حاصل کیا جاتا ۔ اس میں بڑے مزے کے لطیفے ہوتے۔ بعض دفعہ غلط روحیں آجاتیں اور خوب ڈانٹ پھٹکار سنا کر واپس جاتیں۔
شہنشاہ اشوک ہمیشہ بڑی مستعدی سے آجاتے۔ جاتے وقت روح سے درخواست کی جاتی کہ اب فلاں کو بھیج دیجئے گا۔ جین ہار لو اور لیزلی ہاورڈ کو کئی بار بلایا گیا۔ پنڈت موتی لال نہرو نے آکر ایک مرتبہ بتایا کہ اگلے دو تین سال کے اندر اندر ان کا بیٹا ہندوستان کا حاکم اعلیٰ بن جائے گا۔ روحوں کی پیشین گوئیاں بعض دفعہ بالکل صحیح نکلتیں۔ ان سے سیاسیات پر کم شادی اور رومان پر زیادہ سوالات کیے جاتے۔ لڑکیاں خوب خوب جھینپتیں۔ بہت دلچسپی سے وقت گزرتا۔ کرنل جہانگیر انتالیس چالیس کے رہے ہوں گے لیکن اب تک کنوارے تھے اور مسئلہ تناسخ کے بے حد قائل۔ انہیں دنیا میں صرف تین چیزوں سے دلچسپی تھی۔۔۔ باغبانی، روحانیات اور نرگس۔ پونا میں ان کی ایک بھتیجی تھی۔ جسے وہ بہت چاہتے تھے اور اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے اور بیگم ارجمند نے یہ طے کیا تھا کہ یہ نرگس ان کی بھتیجی و تیجی قطعی نہیں ہے۔
وہ خواتین کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے ژند اوستا اور ایران کے صوفی شعراء اور جرمن فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ کئی سال یورپ میں گزارے تھے۔ پیرس میں روحوں کے scancesمیں شامل رہ چکے تھے۔ اور سب ملا کر بے حد دلچسپ شخص تھے۔
ایک روز ڈنر کے بعد سب لوگ حسب معمول پھر نشست کے کمرے میں آگیے۔ ان پورنانٹنگ میں مشغول تھی۔ انعام محمودفی فی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ناہید ڈون کارلو سے سوجانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں پھیلائے بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا۔ برجیش ایک کونے میں ایک آئی ۔سی۔ ایس صاحب بہادر سے ہندوستانی ریاستوں کی سیاست پر الجھ رہا تھا۔ پیانو کے قریب ایک اسٹول پر رانی کرم پور تلاری کا منظور نظر مظہر الدین بیٹھا پائپ کا دھواں اڑا رہا تھا۔ مظہر الدین بہتر سے بہتر سوٹ پہنتا، اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہرتااور بڑے ٹھاٹھ سے رہتا، پونٹیک سے کم بات نہ کرتا اور سب جانتے تھے کہ کہ یہ بڑے ٹھاٹھ کس طرح ہوتے ہیں اور ان کے لیے اتنا بے تحاشا روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ اس کی شکل اچھی خاصی تھی۔ ذہن کے معاملہ میں یوں ہی، لیکن بات کرنے میں بہت تیز ۔ پہلے وہ ادھیڑ عمر کی بیگم فرقان الدولہ کا منظور نظر تھا۔ اب کچھ عرصے سے رانی کرم پور تلاری کے ساتھ دکھائی دیتا تھا۔
بیگم ارجمند اور ان پورنا وغیرہ اس سے بہت کم بات کرتی تھیں۔ لیکن ان کے شوہروں کی سوسائٹی میں وہ کافی مقبول تھا۔ پائپ کی راکھ جھٹک کر اس نے ان پورنا سے پوچھا، ’’مسز پر بھاکر آپ کو مسئلہ تناسخ سے دلچسپی ہے؟ ‘‘
’’میں نے کبھی اس طرف خیال نہیں کیا۔ کیوں کیا آپ کو بھی۔۔۔ روحانیت سے شغف پیدا ہوگیا؟ ‘‘ ان پورنا کو بادل ناخواستہ لیکن اخلاقاً کیوں کہ وہ مظہر الدین کے قریب بیٹھی تھی، اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔’’کرنل جہانگیر تولگتا ہے اس مرتبہ ہم سب کو بالکل سنیاسی بنا کر چھوڑیں گے۔ آج کل جسے دیکھئے اپنی اپنی شکار اور اسٹاک ایکسچینج کی باتیں چھوڑ کر روحوں سے الجھ رہا ہے۔‘‘ مظہر الدین نے کہا۔ کرنل جہانگیر نے اس کی بات سن لی۔ وہ بولے، ’’ان پورنا رانی کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روز ہم سب اس مایا جال کو تج کر جٹائیں بڑھائے دو تارہ بجاتے سامنے ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں کی طرف رخ کرتے نظر آئیں۔‘‘
’’اگرمیری بیوی بھی اپنا تان پورہ اٹھا کر بنوں کو نکل گئی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا کرنل۔‘‘ برجیش نے اپنے مخصوص انتہائی غیر دلچسپ طریقے سے کہا۔ ’’چپ رہو یار۔ تم اپنے بازار کے بھاؤ اور گولف سے الجھتے رہو۔ یہ مسائل تصوف ہیں بھائی جان۔‘‘ صاحبزادہ ارجمند نے ڈانٹ پلائی۔ برجیش ایک خشک سی ہنسی ہنسا اورپھر نہایت مستعدی سے ان صاحب بہادر کو ارجن گڈھ اسٹیٹ کی پالیسی سمجھانے میں مصروف ہوگیا جو غالباً اگلے مہینے سے وہاں کے ریزیڈنٹ بننے والے تھے۔ پھر قہوہ کے دور کے ساتھ زور شور سے گرما اور آواگون کی بحث چھڑ گئی۔ کرنل جہانگیرکی باتیں بہت دل چسپ ہوتی تھی۔ مثلاً اس وقت انہوں نے ناہید سے کہا کہ پچھلے جنم میں وہ پرتھوی راج تھے اورناہیدان کی کوئی بہت قریبی عزیز تھی۔
’’غالباً سنجو گتا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔ سب ہنسنے لگے پھر مزے مزے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔ کون کون پچھلے جنم میں کیا کیا رہا ہوگا۔ ’’کرنل پچھلے جنم میں ناہید کی شادی کس سے ہوئی تھی؟ ‘‘ بیگم ارجمند نے انتہائی دلچسپی سے اپنی سیاہ آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ ’’کوئی جون پور کا کن کٹا قاضی رہا ہوگا‘‘راج کمار روی بولے۔ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ناہیدکی نسبت پچھلی کرسمس میں کسی پولس افسر سے ہوئی تھی اور سب دوستوں نے مل کر اسے مبارکباد کا تار بھیجا تھا۔۔۔جس میں صرف یہ جملہ تھا،’’سیاّں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔‘‘
کرنل جہانگیر ان پور نا کا ہاتھ دیکھنے میں مصروف تھے۔ اورپھر یک لخت کرنل جہانگیر نے بے حد سنجیدہ لہجہ میں اور بڑی مدھم آواز سے آہستہ آہستہ کہا،’’ان پورنا رانی تمہیں یاد آتا ہے کسی نے تم سے کبھی کہا تھا ۔۔۔جب چاندنی راتوں میں کنول کے پھول کھلتے ہوں گے اور بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کی برف پگھل کر گنگا کے پانیوں میں مل رہی ہوگی۔ اس وقت میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔ یاد رہے۔‘‘
ان پورنا حیرت زدہ سی اپنی پلکیں جھپکاتی کرنل کو دیکھنے لگی۔ کمرے میں دفعتاً بڑا حساس سکوت طاری ہوگیا۔کرنل نے اس کا چھوٹا سا ہاتھ کشن پر رکھ کر پھر کہنا شروع کیا، ’’یاد کرو۔۔۔ اس کا نام کمل اندر تھا۔ پچھلے جنم میں تم اس کی رانی تھیں۔ چاندنی راتوں میں اپنے راج محل کی سیڑھیوں پر جو گنگا میں اترتی تھیں۔ وہ وینا بجاتا تھا اور تم سنتی تھیں، تم ناچتی تھیں اور وہ دیکھتا تھا۔ پھر تمہاری شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ ایک جنگ میں مارا گیااور تمہاری قسمت کی لکیریں کہتی ہیں کہ تم اس جنم میں اس سے ضرور ملوگی۔ ایسا ضرور ہوگا۔ ستارے یہی چاہتےہیں۔ کرنل رک کر اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھنے لگا۔سب بت بنے اس کی آواز سن رہے تھے، جو لگ رہا تھا، رات کے اس سناٹے میں کہیں بہت دور سے آرہی ہے ان پورنا اسی طرح پلکیں جھپکاتی رہی۔ بیگم ارجمند کی آنکھیں پھیلی کی پھیلی رہ گئیں۔
’’اوہ کرنل ہاؤفنٹاسٹک۔۔۔‘‘ ناہید نے چند لمحوں بعد اس خاموشی کو توڑا پھر رفتہ رفتہ قہقہے اور باتیں شروع ہوگئیں۔ کرنل کی پیشین گوئی سب کے خیال میں متفقہ طور پر شام کا بہترین لطیفہ تھا۔
برجیش نے آئی۔ سی۔ ایس صاحب بہادر سے گفتگو ختم کرنے کے بعد اپنے کونے سے ان پورنا کو آواز دی،’’چلوبھئی اب چلیں سخت نیند آرہی ہے۔‘‘ پھر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کہہ کر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد نشست کا کمرہ بالکل خالی ہوگیا۔اور سب سے آخر میں،ان سب باتوں پر اچھی طرح غور و خوض کرتا ہوا ڈون کارلو اپنی کرسی پر سے نیچے کودا اور ایک طویل مطمئن انگڑائی لینے کے بعد چھوٹے چھوٹے قدموں سے باہرکے زینے کی سیڑھیاں چھلانگتا نیچے کورٹ یارڈ میں پہنچ گیا۔ جہاں اپنے گھر جانے کے لیے ناہید رکشا میں سوار ہو رہی تھی۔
موسم روز بروز زیادہ غیر دل چسپ ہوتا جارہا تھا۔ مرد دن بھر لاؤنج میں برج کھیلتے ،اَن پورنا بچوں کو لے کر ٹہلنے چلی جاتی یا اپنے سٹنگ روم میں میرا کو طبلے کے ساتھ کتھک کے قدم رکھنا سکھاتی رہتی۔ جب وہ تان پورے کے تار چھیڑتی تو دفعتاً اسے محسوس ہوتا کوئی اس سے کہہ رہا ہے میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ ستارے یہی چاہتے ہیں۔۔۔ ستارے یہی۔۔۔ کیا حماقت۔۔۔ گدھے پن کی حد ہے۔ اسے غصہ آجاتا۔ پھر ہنسی آتی۔ اس قسم کے باولے پن کی باتوں کا وہ خودمذاق اڑایا کرتی تھی۔۔۔ان پورنا۔۔۔ ان پورنا۔۔۔ اتنی موربڈ ہوتی جارہی ہے۔ ان پورنا جس کے شیریں قہقہے سوسائٹی کی جان تھے۔
’’کرنل کم از کم روحیں ہی بلادو۔ بہت دنوں سے مہاراجہ اشوک سے گپ نہیں کی۔‘‘ ناہید نے بے حداکتا کر ایک روز کرنل جہانگیر سے کہا۔ وہ سب ’’اونٹ کی پیٹھ‘‘ سے واپس آرہے تھے۔ ’’خدا کے لیے اب یہ حماقت کا بکھیڑانہ پھیلانا۔ میرے اعصاب پرآجاتی ہیں تمہاری یہ روحوں سے ملاقاتیں۔‘‘ بیگم ارجمند نے ڈانٹا۔
’’کرنل واقعی تم کمال کے آدمی ہو۔ اچھا میرے ہاتھ کے امپریشن کا تم نے مطالعہ نہیں کیا؟ ‘‘ ناہید نے بیگم ارجمند کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’ان نصیبوں پہ کیا اختر شناس۔۔۔‘‘ کرنل نے کچھ سوچتے ہوئے بڑی رنجیدہ آواز میں کہا اور چپ ہوگیے۔
’’کیوں کرنل تمہیں کیا دکھ ہے؟‘‘ ناہید نے ’’تمہیں‘‘پر زور ڈال کر پوچھا۔
’’دکھ ۔۔۔؟ شش۔۔۔ شش۔ بچے دکھوں کی باتیں نہیں کیا کرتے۔‘‘ وہ لائبریری کی سڑک پر سیڑھیوں تک پہنچ چکے تھے۔
اس روز کنورانی بلیر سنگھ نے اپنی ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘پر سے پیشین گوئی کی،’’ دیکھ لینا۔۔۔ ان پورنا اس مرتبہ ضرور کوئی نہ کوئی آفت بلائے گی۔ یہ اس دل جلے کرنل نے ایسا شگوفہ چھوڑا ہے۔ اور برجیش کیسا بے تعلق رہتا ہے اور یہ ہندوستانی ریاستوں کے حکام۔۔۔ تم نہیں جانتیں مائی ڈیر۔۔۔ ان لوگوں کی کیا زندگیاں ہوتی ہیں کیا مورلز ہوتے ہیں۔۔۔ جبھی تو دیکھو برجیش اس کم عمری میں اتنی جلدی فنانس منسٹر کے عہدے پر پہنچ گیا۔‘‘
’’دنیا نہ جانے کدھر جارہی ہے‘‘ بیگم ارجمند نے ان کے خیال کی تائید کی۔
اور پھر آخر ایک روز راجکماری نے چائے کے وقت سب کو بتایا کہ ’’وہ‘‘ واقعی آرہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ سے تقریباً ایک ایک فٹ اچھل پڑے۔ کئی دن سے کسی شخص کا مستقل تذکرہ ہو رہا تھا۔ کئی پارٹیاں اور پکنکیں ایک خاص مدت کے لیے ملتوی کی جارہی تھیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ ’’دیکھ لینا وہ ضرور اس دفعہ شادی کر لے گا۔۔۔قطعی نہیں۔۔۔وہ شادی کرنے والا ٹائپ ہی نہیں۔۔۔بھئی موسیقی کی پارٹیوں کا اس کے بغیر لطف ہی نہیں۔ ارے میاں انعام محمودفی فی کی طرف سے باخبر رہنا، وہ آرہا ہے۔ بھئی ڈاکٹر خان کو اطلاع کر کے ایمبولینس کاریں منگوا لی جائیں۔ نجانے کتنی بے چاریاں قتل ہوں گی کتنی زخمی۔‘‘
’’آخر یہ کون ڈون ژوان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی آمد سے پہلے ہی اتنا تہلکہ مچا رکھا ہے‘‘ ناہید نے اکتا کر پوچھا۔
’’ڈون ژوان۔۔۔! قسم سے ناہید بیگم خوب نام رکھا تم نے۔ ’’وہ‘‘ ہے در اصل خورشید احمد۔ پچھلے کئی سال سے اپنا ہوائی بیڑہ لے کر سمندر پار گیا ہوا تھا۔ اسی سال واپس آیا ہےاور اتوار کی شام کو یہاں پہنچ رہا ہے۔ باقی حالات آپ خود پردہ سیمیں پر ملاحظہ فرمائیے گا۔‘‘ راج کمار روی نے کہا۔
اسی روز سے بارش شروع ہوگئی اور اپنی امی کی طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے ناہید کئی روز تک ان پورنا اور دوسرے دوستوں سے ملنے کے لیے سوائے نہ آسکی۔دوسرے دن شام کو بالآخر ’’وہ‘‘ آگیا ۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوست اور تھے جو اس کے ہوائی بیڑے سے تعلق رکھتے تھے۔چائے کے بعد ڈائننگ ہال کی سیڑھیاں طے کر کے وہ بلیرڈ روم کی طرف جارہا تھااور اس وقت ان پورنا نے اسے دوسری بار دیکھا۔ کیوں کہ وہ کمل اندر تھا۔ ان پورنا کے دل میں کسی نے چپکے سے کہا۔ اس وقت تک ان پورنا کا اس سے باقاعدہ تعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ اس لیے ڈائننگ ہال کے زینے پر سے اتر کے گیلری کی جانب جاتی ہوئی ان پورنا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اسے پہچانے بغیر بلیرڈ روم میں داخل ہوگیا۔ جہاں سب دوست جمع تھے۔
تھوڑی دیر بعد نشست کے بڑے کمرے میں واپس آکر ان پورنا آکر ایک بڑے صوفے پر گر گئی۔ اس نے دیوار پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرنی چاہی۔ اس نے پیانو پر ایک نیا نغمہ نکالنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کشنوں پر سر رکھے اسی طرح پڑی رہی۔ بالکل خالی الذہن۔ اتنے میں وسط کے ہال کے زینے پر سے اتر کر مسز پد منی اچاریہ اندر آئیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ان سے میراؔ کے ’’ پل اوور‘‘ کے لیے وہ نمونہ مانگ لے جو وہ صبح بن رہی تھی۔ مگر مسز اچاریہ اسے ایک ہلکا سا ’’ ہلو‘‘ کہنے کے بعد آئینے میں اپنے بال ٹھیک کر کے باہر چلی گئیں اور وہ ۔۔۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ کمرے کی کھڑکیوں میں سے باہر لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگ حسب معمول برج کھیلتے نظر آرہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ پھر اندھیرا پڑے بلیرڈ روم سے واپس آکر برجیش برآمدے میں سے گزرا اور وہ اس کے ساتھ اپنے کمروں کی طرف چلی گئی۔
دوسرے روز صبح جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر ونگ کے برآمدے میں سے گزرتی زینے کی سمت جارہی تھی۔ وہ زینے کی مختصر سیڑھیوں کے اختتام پر کلوک روم کے قریب کھڑا سگریٹ جلاتا نظر آیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے آگے آکر بے حد اخلاق سے آداب عرض کہا، غالباً پچھلی شام بلیرڈ روم میں ان پورنا سے اس کا غائبانہ تعارف کرا دیا گیا تھا۔
’’میں خورشید ہوں۔ خورشید احمد۔‘‘
’’آداب۔ برجیش کے دوستوں میں سے میں نے صرف آپ کو اب تک نہیں دیکھا۔‘‘
’’جی ہاں جب میں ہندوستان سے باہر گیا تھا۔ اس وقت تک برجیش نے شادی نہیں کی تھی۔‘‘
اور تب ان پورنا سے کوئی چپکے سے بولا ۔ اس سے کہو تم غلط کہتے ہو، تم خورشید احمد قطعی نہیں ہو۔ تم بالکل صفا کمل اندر ہو۔ پورن ماشی کی چاندنی میں نکھرتے سفید شگوفوں اور دنیا کے گیتوں والے کمل اندر۔ کنول کے پھول کے دیوتا۔ فوراً اسے اپنے اس بچپنے پر ہنسی آگئی۔ اس بے موقع ہنسی کو ایک انتہائی خوش اخلاقی کی مسکراہٹ میں تبدیل کرتے ہوئے اس نے۔۔۔
’’اچھا آئیے نیچے چلیں۔ ہمارا انتظار کیا جارہا ہوگا۔‘‘
چائے پیتے پیتے کنور رانی بلیر سنگھ نے بڑی بزرگانہ شفقت سے خورشید سے پوچھا، ’’بھیا تم کا کرت ہو؟‘‘ انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وہ بھی ہردوئی کے اسی حصے کا ہے جس طرف ان کا تعلقہ تھا۔
’’فی الحال تو بمبار طیارے اڑاتا ہوں۔ لڑائی کے بعد نوکری نہیں ملی تو مرغیوں کی تجارت کیا کروں گا۔ بڑی مفید چیز ہوتی ہے۔ پولٹری فارمنگ۔۔۔‘‘
’’شادی اب تک کیوں نہیں کی؟ ‘‘بیگم ارجمند نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’وہ وجہ در اصل یہ ہوئی بیگم ارجمند کہ کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور جن لڑکیوں سے میں ملا وہ یا توجلد بازی میں آکر پہلے ہی شادی کرچکی تھیں یا کسی اور کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھیں یا عنقریب ہونے والی تھیں۔ اس کے علاوہ بیگم ارجمند میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچتے کہ ایک بلی بھی پال سکوں۔‘‘
جب خواتین بیگم انور امام یعنی ناہید کی امی کی مزاج پرسی کے لیے رکشاؤں میں سوار ہو گئیں تو راج کمار روی نے پوچھا، ’’ خورشید میاں تم بہت اترا رہے ہو ۔لیکن تمہارے اس تازہ ترین عشق کا کیا ہوا جس کا ذکر اپنے خطوط میں کر کے تم نے بور کردیا تھا۔ ‘‘
’’چل رہا ہے ‘‘اس نے اس بے فکری سے جواب دیا گویا موٹر ہے جو ٹھیک کام دے رہی ہے۔
اور بہت سی دل چسپ اور انوکھی باتوں کے علاوہ اس نے طے کیا تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسے سچ مچ پسند آگئی تو وہ فی الفور اس سے شادی کرلے گا۔ چاہے وہ کتنی ہی کالی بھجنگی ایسی کیوں نہ ہو۔ ویسے وہ کیپ فٹ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے گاہے بگاہے غم دل میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا۔
لیکن پچھلے دنوں والا واقعہ خاصی سنجیدہ شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ اسی مارچ کے ایک غیر دلچسپ سے اتوار کو جب کہ اس کی میس کے سارے ساتھی یا سو رہے تھے یا اپنے اپنے گھروں کو خط لکھنے میں مصروف تھےاور کینٹین میں کام کرنے والی ساری لڑکیاں اوف ڈیوٹی تھیں اور مطلع سخت ابر آلود تھا۔ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اس وقت اس نے فوراً اس لڑکی سے عشق کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کی تصویر اسی روز نئے listner میں دیکھی تھی۔ وہ ایک خاصی خوش شکل لڑکی تھی اور شمالی ہند کی کسی نشرگاہ سے دوپہر کوانگریزی موسیقی کے ریکارڈوں کا اناؤنسمنٹ کرتی تھی۔ چنانچہ بے حد اہتمام سے اسی وقت ایک ریڈیو فین کی حیثیت سے اسے ایک خط لکھا گیا۔
آپ کے ریکارڈوں کا انتخاب بے حد نفیس ہوتا ہے اور اپنی نقرئی آواز میں جب آپ فرمائشی ریکارڈوں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کو ایک دوسرے کے پیغامات نشر کرتی ہیں،انہیں سننے کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کو رات بھر نیند نہیں آتی، دوسرے کو اختلاج قلب کا عارضہ ہوگیا ہے، تیسرے کو اعصابی شکایت اور باقی سب کو ابھی دل و دماغ کے جتنے امراض تحقیق ہونے باقی ہیں وہ سب لاحق ہونے والے ہیں۔ اور پرسوں رات کے ڈرامے میں جوآپ کینڈیڈ بنی تھیں تو چاروں طرف اتنے حادثات وقوع پذیر ہوئے کہ ہمیں ریڈیو بند کر کے ایمبولنس کار منگوانی پڑی۔ پھر ایک دوست صاحب خاص طور پر سفر کر کے اس لڑکی کو دیکھنے گیےاور تقریباً نیم جاں واپس آئے۔ پھر ایک صاحب سے جو اسی نشرگاہ کے ایس ڈی کے دوست تھے،معلوم ہوا کہ بڑی بددماغ لڑکی ہے۔ کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔ اسٹوڈیوز میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور سب اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس کو مختلف ناموں سے دس پندرہ خط لکھے گیے۔
عرصے کے بعد اس کا جواب آیا۔ خط میں بڑا فیشن ایبل پتہ درج تھا جو بڑی رومینٹک بات لگی اور نہایت مختصر سا خط جو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ لوگوں کو ہمارے پروگرام پسند آتے ہیں، سے شروع ہو کر امید ہے کہ آپ سب بخیریت ہوں گے، پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعدپھر دوتین خط لکھے گیے۔ سب کا جواب غائب۔ آخر میں خورشیدکے مسوری آنے سے چند روز قبل اسی لڑکی کا ان سارے خطوں کے جواب میں ایک اور مختصر خط ملا تھا۔ جس پر اور بھی زیادہ فیشن ایبل اور افسانوی پتہ درج تھا۔ فیئری لینڈونسنٹ ہل ، مسوری۔ اور اب جب سے خورشید اور اس کے دونوں دوست مسوری پہنچے تھے۔ یہی فکر کی جارہی تھی کہ اس فیئری لینڈ کو تلاش کیا جائے۔ اگلی صبح اپنے سوائے والے دوستوں کو بتائے بغیر پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ونسنٹ ہل کی طرف چل پڑے۔ بہت اونچی چڑھائی کے بعد ایک خوب صورت دو منزلہ کوٹھی نظر آئی جس کے پھاٹک پر ایک سنگ مرمر کے ٹکڑے پر فیئری لینڈ لکھا تھا۔
آگے بڑھے تو پہلے ایک بل ڈاگ اندر سے نکلا۔ پھر دوسرا پھر تیسرا۔ آخر میں ایک چھوٹا سا سفید کتا باہر آیا جو پیسٹری کھا رہا تھا۔ تینوں پہلے کتوں نے مل کر بھونکنا شروع کیا۔ چوتھا کتا یقینا زیادہ خوش اخلاق تھا۔ وہ چپ چاپ پیسٹری کے ڈبے میں مصروف رہا۔ سب کے بعد ایک لڑکی باہر آئی اور ان سب کتوں کو گھسیٹ کر اندر لے گئی کیوں کہ باہر خنکی زیادہ تھی اور کتوں کو انفلوئنزا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ ابھی انہوں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آگے جائیں یا واپس چلیں کہ موڑ پر سے کنور رانی بلیر سنگھ کی رکشا آتی نظر آئی۔ سوالات کی زد سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے پیچھے چلے گیے۔
’’چنانچہ پیسٹری کھاتا ہے‘‘خاموشی سے چلتے ہوئے کپور تھلہ ہاؤس کی سڑک پر واپس پہنچ کر ایک دوست نے بے حد غور و فکر کے بعد کہا۔
’’باقی کے تینوں بھی اگر یہی شوق کریں تو نہیں بھونکیں گے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’قطعی نہیں بھونکیں گے۔‘‘خورشید نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔
شام کو جب خورشید راج کمار رویؔ اور برجیش کے ساتھ مال پر ٹہلنے نکلا تو دفعتاً اسے یاد آگیا کہ بے حد ضروری خریداری کرنا ہے۔ ’’ تم لوگ حمید اللہ سے مل آؤ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘ راجکمار روی اور برجیش کے آگے جانے کے بعد وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ منزلیں مارتا کلہڑی تک پہنچ گیا۔ لیکن کیک پیسٹری کی دوکان کہیں نظر نہ آئی۔ آخر جب وہ بالکل نا امید ہو کر واپس لوٹ رہے تھے تو خورشید کی نظر سڑک کی ڈھلوان کے اختتام پر ایک چھوٹی سی دوکان پر پڑ گئی جس پر بہت بڑا بورڈ لگا تھا۔ ’’رائل کنفکشنری۔‘‘ ایک صاحب دوکان کے باہر کرسی پر بیٹھے ہمدرد صحت پڑھ رہے تھے۔
’’کیوں صاحب آپ کیک پیسٹری بیچتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ کیا آپ کا خیال ہے میں نے تفریحاً دوکان کھولی ہے۔‘‘
’’ارے میرا مطلب ہے۔۔۔ ‘‘
’’مطلب کیا صاحب!کیا میں یہاں محض تفریحاً بیٹھا ہوں یا یہ جو کھڑکی سجی ہے اسے صرف دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ یا انہیں محض سونگھتا ہوں۔ آخر سمجھتے کیا ہیں آپ؟ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’کیا چاہئے صاحب۔۔۔؟‘‘اندر سے جلدی سے ایک لڑکا نکلا۔
شام کو وہ سب ہیک مینز کے ایک نسبتاً خاموش گوشے میں جمع چائے پی رہے تھے۔ ’’آہ۔۔۔ فقط ایک جھلک اس کی دیکھی ہے لیکن کیا نفیس ناک ہے کہ گلابی سی اور مختصر جو غالباً سردی کی وجہ سے نم رہتی ہےاور آنکھیں چمکیلی اور شوخ اور نرگسی اور لمبے لمبے ریشمی بال اور آہ وہ کان چھوٹے چھوٹے بالکل پرستش کے قابل۔۔۔‘‘ خورشید نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد بے حد رنجیدہ لہجہ میں کہا۔
’’کہاں دیکھی تھی یار جلدی بتاؤ‘‘انعام محمود نے کان کھڑے کیے۔
’’ آہ۔۔۔ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔ کیوں کہ دنیا کی خوب صورت ترین لڑکی کا کتاہے اور ۔۔۔ ‘‘
یک لخت خورشید کو وہ دوبارہ نظر آگیا۔ وہ ذرا دور پر دیوار کے قریب ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔ اتنا نفیس خلیق کتا جو اگر نہ بھونکتا تو پتہ بھی نہ چلتا کہ کتا ہے۔ بالکل سفید فرکا بڑا سا پرس معلوم ہوتا تھا۔ اور ڈؤن کارلو کو اپنے سامنے رکھی ہوئی طشتری میں پلم کیک کے ٹکڑے کھاتے کھاتے دفعتاً خیال آیا کہ گیلری کے پرے نیلے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس انسان کو وہ صبح دیکھ چکا ہے۔ اس نے کیک ختم کر کے ایک طویل انگڑائی لی اور اس انسان سے گفتگو کرنے کے ارادے سے صوفے پر سے کود کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا گیلری کی طرف چلا۔
اس کی مالکہ اسی گیلری کی دوسری جانب اپنے بھائیوں اور بہنوئی کے ساتھ چائے پی رہی تھی۔ اور حالاں کہ ’’ انڈین ٹی‘‘ کے اشتہار سے پتہ چلتا ہے کہ اس چائے کو پینے کے بعد آپ کو دنیا میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان جو تھوڑی دیر قبل ’’ارجمند ز کراؤڈ‘‘ کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تھا یقینا ایسا تھا کہ اگر پچھلی کرسمس میں اس کی نسبت علی ریاض اے ۔ ایس۔ پی۔ سے نہ ہوگئی ہوتی اور یہ نووارد آدمی اگر اس میں دل چسپی لینا چاہتا تو قطعی مضائقہ نہ تھا۔
’’ہلو ناہید بیگم۔۔۔ تم اتنے دنوں کہاں چھپی رہیں۔ ادھر آؤ۔۔۔ تمہیں خورشید سے ملوائیں جسے تم نے ڈون ژوان کا خطاب دیا تھا۔‘‘ راجکمار روی نے اس کی میزکے قریب آکر کہا۔
رات کو جب وہ سب ہیک منیز سے واپس آرہے تھے تو ناہید نے خورشید کے اس دوست کو دیکھ کر جو رائل کنفکشنری سے واپسی سے اب تک بے حد اہتمام سے پیسٹری کا ڈبہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے خورشید سے پوچھا،’’آپ لوگوں کو پیسٹری کا اتنا شوق ہے کہ اس کے ڈبے ساتھ لیے گھومتے ہیں؟‘‘
اگلی صبح بڑی خوش گوار تھی۔ مینہ رات بھر برس کر اب کھل گیا تھا۔ راستوں کے رنگ برنگے سنگ ریزے بارش کے پانی میں دھل دھلا کر خوب چمک رہے تھے۔ فضا میں پھولوں کی مہک اور گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی بڑی تروتازہ اور نکھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ان پورنا میرا کو لے کر ٹہلتی ہوئے نچلی دیوار تک آگئی۔ جہاں چند رکشائیں اور موٹریں کھڑی تھیں۔ لائبریری والی سڑک کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہوٹل کی طرف نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آداب عرض کہا،’’جے کرو بی بی انکل کو جے نہیں کی تم نے ۔‘‘ ان پورنا نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا کوڈانٹا۔ میرا نے بے حد پیارے طریقے سے اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ دیے، خورشید نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ پھر اسے آیا کے سپرد کردینے کے بعد وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی جانب آگیے۔ برجیش کے برآمدے میں پکنک کا پروگرام بنایا جارہا تھا۔ سب خورشید کے منتظر تھے۔
ایسا لگتا تھا جیسے سب میں جان پڑ گئی ہے۔ جو لوگ موسم کی غیر دل چسپی کی شکایت کرتے رہتے تھے، اب ان کا ہر لمحہ نت نئے پروگرام بنانے میں صرف ہوتا۔ ہر وقت پیانو اور وائلن بجتا ،فیری لینڈ جاکر ناہید سے ڈھولک کے پوربی گیت سنے جاتے۔ برساتیوں ،ٹوکریوں اور چھتریوں سے لد پھند کر وہ سب دور دور نکل جاتے۔ ایک روز پکنک پر جاتے ہوئے رائل کنفکشنری پر بھی دھاوا بولا گیا۔ برجیش بھی اب کلا یواسٹریٹ کی خبریں پڑھنے کی بجائے ان تفریحوں میں حصہ لینے لگا۔ دنیا یک لخت بڑی پر مسرت بڑی روشن اور بڑی خوش گوار جگہ بن گئی تھی۔
جس گھر میں خورشید اپنے ایک دور کے عزیز کے یہاں ٹھہرا تھا، وہ نہایت عجیب و غریب اور بے حد دل چسپ جگہ تھی۔ اوپر کی منزل میں جو سڑک کی سطح کے برابر تھی گھوڑے رہتے تھے جو سڑک پر سے سیدھے اپنے اصطبل میں پہنچ جاتے، جو ڈرائنگ روم کے عین اوپر تھا۔ درمیانی منزل میں مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں رہتی تھیں۔ نچلی منزل میں جس کی سیڑھیاں کھڈ میں اترتی تھیں، خورشید کو ٹھہرایا گیا تھا۔ گھوڑے شاید الارم لگا کر سوتے تھے۔ صبح سویرے ہی وہ جاگ جاتے اور تیسری منزل کی کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے میں مصروف ہوجاتے۔ خورشید کا جی چاہتا تھا کہ زور سے کچھ اس قسم کا گیت الاپے۔۔۔ یہ کون اٹھا اور گھوڑوں کو اٹھایا۔۔۔ پھر دوسری منزل پر مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں اپنے اپنے پسندیدہ اسٹائل سے جاگنا شروع کرتیں اور قیامت کا شور مچتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خورشید کے دونوں دوست غسل خانوں میں گھس کر اپنا صبح کا قومی ترانہ شروع کردیتے۔۔۔ یہ کون آج آیا سویرے سویرے ۔۔۔پھر لڑکیاں گھوڑوں پر سواری کے لیے جاتیں۔ لیکن سواری کرنی کسی کو بھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے سڑکوں پر روز شہسواری کے بعض نہایت نادر نظارے دیکھنے میں آتے۔۔۔ پھر ایک روز لڑکیوں کی شہسواری سکھانے کا بے اتنہا خوش گوار فرض خورشید کے سپرد کیا گیا۔ وہ اسی دن اپنا سامان لے کر سوائے بھاگ آیا۔
اسٹینڈرڈ میں سالانہ مشاعرہ تھا۔ محفل ختم ہونے کے بعد سب باہر نکل آئے تھے۔ بڑا بے پناہ مجمع تھا۔ بھوپال کی الٹرافیشن ایبل لڑکیاں، حیدرآباد کے جاگیردار، رام پور کے رئیس، نئی دہلی اور لکھنؤ کے ہندوستانی صاحب لوگ سب کے ہونٹوں پر جگرؔ کی تازہ غزل کے اشعار تھے،
لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گیے
بیٹھے ہم انتظار سحر دیکھتے رہے
زینے کی سیڑھیاں طے کر کے وہ سارے دوست بھی نیچے سڑک پر آگئے۔ مشاعرے کے دوران میں خورشید ان پورنا کو شعروں کے مشکل الفاظ کے معنی بتاتا رہا اور ان پورنا نے طے کر لیا کہ وہ ناہید سے قطعی طور پر اردو پڑھنا شروع کر دے گی۔ اردو دنیا کی خوب صورت ترین اور شیریں ترین زبان تھی اور لکھنؤ والوں کا لب و لہجہ، لکھنؤ جو خورشید کا وطن تھا، ان پورنا کالکھنؤ دیکھنے کا اشیاق زیادہ ہوگیا۔ وہاں کے ہرے بھرے باغ، سایہ دار خوب صورت سڑکیں، شان دار عمارتیں،مہذب لوگ جہاں کے تانگے والے اور سبزی فروش بھی اس قدر تہذیب سے اور ایسی نفیس زبان میں گفتگو کرتے تھے کہ بس سنا کیجئے اور پھر وہاں کا موسیقی کامیرس کالج ، وہاں کا کتھک ناچ ۔خورشید نے وائلن میرس کالج میں سیکھا تھا۔ برجیش کہتا تھا جس طرح ان پورنا رانی کی جان تان پورے کے تاروں میں رہتی ہے اسی طرح خورشید کی جان اس کے وائلن کیس میں بند ہے۔ مسلمان لڑکے عام طور پر زیادہ خوب صورت ہوتے ہیں۔ ناہید کی ساری غیر مسلم سہیلیاں اس سے اکثر کہا کرتی تھیں۔ خورشید بھی بہت خوب صورت تھا۔ برجیش اورکرنل جہانگیر اور راج کمار روی ان سب سے زیادہ دل کش اور شان دار۔
اور اس وقت جب کہ مشاعرے کے بعد وہ سب ٹہلتے ہوئے اسٹینڈرڈ سے واپس آرہے تھے، مال کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دفعتاً خورشید نے مڑ کر ان پورنا سے کہا، ’’زندگی بڑی خوش گوار ہے نا ان پورنا رانی، ہے نا؟‘‘ پھر وہ بے فکری سے سیٹی بجا کر ڈؤن کارلو کو بلانے لگا جو ناہید کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھاوہ اور ان پورنا آگے جاتے ہوئے مجمع سے ذرا فاصلہ پر سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔ آسمان پر ستارے جگمگا اٹھے تھے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔
’’تم زندگی سے بالکل مطمئن ہو خورشید احمد ؟‘‘ان پورنا نے تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد پوچھا۔
’’بالکل۔۔۔ مجھ سے زیادہ بے فکر شخص کون ہوگا۔۔۔ان پورنا رانی! میں جس کی زندگی کا واحد مصرف کھیلنا اور خوش رہنا ہے۔ جب میں اپنا طیارہ لے کر فضا کی بلندیوں پر پہنچتا ہوں، اس وقت مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میں موت سے ملاقات کرنے کی غرض سے جارہا ہوں۔ موت مجھے کسی لمحے بھی زندگی سے چھین سکتی ہے، لیکن زندگی اب تک میرے لیے خوب مکمل اور بھرپور رہی ہے۔ میرے پیچھے اس خوب صورت دنیا میں صرف میرے دوست رہ جائیں گے جو کبھی کبھی ایسی ہی خوشگوار راتوں میں مجھے یاد کر لیا کریں گے۔‘‘ ان پورنا کا جی چاہا کہ وہ چلا کر کہے۔۔۔ تم غلط کہتے ہو کمل اندر! اگر تم مرو گے تو تمہارے لیے ایک روح عمربھرروئے گی کہ تم نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ لیکن نہ مل سکے۔
اور پھر اپنی اوبزرویشن پوسٹ پر بیٹھے بیٹھے بیگم ارجمند اور کنور رانی صاحبہ نے طے کیا کہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے کا۔ نیک سیرت،شکیل، برسر روزگار اور اب تک یوں ہی کنوارا گھوم رہ
- قرۃالعین-حیدر
مجھے سن یاد نہیں رہا، لیکن وہی دن تھےجب امرتسر میں ہر طرف ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے گونجتے تھے۔ ان نعروں میں، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ایک عجیب قسم کا جوش تھا۔۔۔ ایک جوانی۔۔۔ ایک عجیب قسم کی جوانی۔ بالکل امرتسر کی گجریوں کی سی، جو سر پر اپلوں کے ٹوکرے اٹھائے بازاروں کو جیسے کاٹتی ہوئی چلتی ہیں۔۔۔ خوب دن تھے۔ فضا میں جو وہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کا اداس خوف سمویا رہتا تھا، اس وقت بالکل مفقود تھا۔ اب اس کی جگہ ایک بے خوف تڑپ نے لے لی تھی۔۔۔ ایک اندھا دھند جَست نے جو اپنی منزل سے ناواقف تھی۔
لوگ نعرے لگاتے تھے، جلوس نکالتے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں دھڑادھڑ قید ہو رہے تھے۔ گرفتار ہونا ایک دلچسپ شغل بن گیا تھا۔ صبح قید ہوئے۔ شام چھوڑ دیے گئے، مقدمہ چلا، چند مہینوں کی قید ہوئی، واپس آئے، ایک نعرہ لگایا، پھر قید ہوگئے۔
زندگی سے بھرپور دن تھے۔ ایک ننھا سا بلبلہ پھٹنے پر بھی ایک بہت بڑا بھنور بن جاتا تھا۔ کسی نے چوک میں کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا، ’’ہڑتال ہونی چاہیے۔‘‘ چلیے جی، ہڑتال ہوگئی۔ ایک لہر اٹھی کہ ہر شخص کو کھادی پہننی چاہیے تاکہ لنکا شائز کے سارے کارخانے بند ہو جائیں۔۔۔ بدیشی کپڑوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا اور ہر چوک میں الاؤ جلنے لگے، لوگ جوش میں آکر کھڑے کھڑے وہیں کپڑے اتارتے اور الاؤ میں پھینکتے جاتے، کوئی عورت اپنے مکان کے شہ نشین سے اپنی ناپسندیدہ ساڑی اچھالتی تو ہجوم تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ لال کرلیتا۔
مجھے یاد ہے ،کوتوالی کے سامنے ٹاؤن ہال کے پاس ایک الاؤ جل رہا تھا۔۔۔ شیخو نے، جو میرا ہم جماعت تھا، جوش میں آکر اپنا ریشمی کوٹ اتارا اور بدیشی کپڑوں کی چتا میں ڈال دیا۔ تالیوں کا سمندر بہنے لگا۔ کیونکہ شیخو ایک بہت بڑے ’’ٹوڈی بچے‘‘ کا لڑکا تھا، اس غریب کا جوش اور بھی زیادہ بڑھ گیا، اپنی بوسکی کی قمیص اتار وہ بھی شعلوں کی نذر کردی، لیکن بعد میں خیال آیا کہ اس کے ساتھ سونے کے بٹن تھے۔
میں شیخو کا مذاق نہیں اڑاتا، میرا حال بھی ان دنوں بہت دگرگوں تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں سے پستول ہاتھ میں آجائے تو ایک دہشت پسند پارٹی بنائی جائے۔ باپ گورنمنٹ کا پنشن خوار تھا، اس کا مجھے کبھی خیال نہ آیا۔ بس دل و دماغ میں ایک عجیب قسم کی کھد بد رہتی تھی۔ بالکل ویسی ہی جیسی فلاش کھیلنے کے دوران دوپان میں رہا کرتی ہے۔
اسکول سے تو مجھے ویسے ہی دلچسپی نہیں تھی مگر ان دنوں تو خاص طور پر مجھے پڑھائی سے نفرت ہوگئی تھی۔۔۔ گھر سے کتابیں لے کر نکلتا اور جلیانوالہ باغ چلا جاتا، اسکول کا وقت ختم ہونے تک وہاں کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا یا کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر دورمکانوں کی کھڑکیوں میں عورتوں کو دیکھتااور سوچتا کہ ضرور ان میں سے کسی کو مجھ سے عشق ہو جائے گا۔۔۔ یہ خیال دماغ میں کیوں آتا، اس کے متعلق میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
جلیانوالہ باغ میں خوب رونق تھی۔ چاروں طرف تنبو اور قناتیں پھیلی ہوئی تھیں، جو خیمہ سب سے بڑا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے روز ایک ڈکٹیٹر بناکے بٹھا دیا جاتا تھا۔ جس کو تمام والنٹیر سلامی دیتے تھے۔ دو تین روز یا زیادہ سے زیادہ دس پندرہ روز تک یہ ڈکٹیٹر کھادی پوش عورتوں اور مردوں کی نمسکاریں، ایک مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ وصول کرتا۔ شہر کے بنیوں سے لنگر خانے کے لیے آٹا چاول اکٹھا کرتا اور دہی کی لسی پی پی کر، جو خدا معلوم جلیانوالہ باغ میں کیوں اس قدر عام تھی، ایک دن اچانک گرفتار ہو جاتا اور کسی قید خانے میں چلا جاتا۔
میرا ایک پرانا ہم جماعت تھا شہزادہ غلام علی، اس سے میری دوستی کا اندازہ آپ کو ان باتوں سے ہوسکتا ہے کہ ہم اکٹھے دو دفعہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو چکے تھے اور ایک دفعہ ہم دونوں گھر سے بھاگ کربمبئی گئے ،خیال تھا کہ روس جائیں گے مگر پیسے ختم ہونے پر جب فٹ پاتھوں پرسونا پڑا تو گھر خط لکھے، معافیاں مانگیں اور واپس چلے آئے۔شہزادہ غلام علی خوبصورت جوان تھا۔ لمبا قد، گورا رنگ جو کشمیریوں کا ہوتا ہے۔ تیکھی ناک، کھلنڈری آنکھیں، چال ڈھال میں ایک خاص شان تھی جس میں پیشہ ور غنڈوں کی کج کلاہی کی ہلکی سی جھلک بھی تھی۔
جب وہ میرے ساتھ پڑھتا تھا تو شہزادہ نہیں تھا۔ لیکن جب شہرمیں انقلابی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اس نے دس پندرہ جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیا تو نعروں ،گیندے کے ہاروں، جوشیلے گیتوں اور لیڈی والنٹیرز سے آزادانہ گفتگوؤں نے اسے ایک نیم رس انقلابی بنا دیا، ایک روز اس نے پہلی تقریر کی، دوسرے روز میں نے اخبار دیکھے تو معلوم ہوا کہ غلام علی شہزادہ بن گیا ہے۔
شہزادہ بنتے ہی غلام علی سارے امرتسر میں مشہور ہوگیا۔ چھوٹا سا شہر ہے، وہاں نیک نام ہوتے یا بدنام ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو امرتسری عام آدمیوں کے معاملے میں بہت حرف گیر ہیں، یعنی ہر شخص دوسروں کے عیب ٹٹولنے اور کرداروں میں سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہےلیکن سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے معاملے میں امرتسری بہت چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ ان کو دراصل ہر وقت ایک تقریر یا تحریک کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ انھیں نیلی پوش بنا دیجیے یا سیاہ پوش، ایک ہی لیڈر چولے بدل بدل کر امرتسر میں کافی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ تمام بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں تھے اور ان کی گدیاں خالی تھیں۔ اس وقت لوگوں کو لیڈروں کی کوئی اتنی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ تحریک جو کہ شروع ہوئی تھی اس کو البتہ ایسے آدمیوں کی اشد ضرورت تھی جو ایک دو روز کھادی پہن کر جلیانوالہ باغ کے بڑے تنبو میں بیٹھیں، ایک تقریر کریں اور گرفتار ہو جائیں۔
ان دنوں یورپ میں نئی نئی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی تھی، ہٹلر اور مسولینی کا بہت اشتہار ہورہا تھا۔ غالباً اس اثر کے ماتحت کانگریس پارٹی نے ڈکٹیٹر بنانے شروع کردیے تھے۔ جب شہزادہ غلام علی کی باری آئی تو اس سے پہلے چالیس ڈکٹیٹر گرفتار ہو چکے تھے۔
جونہی مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح غلام علی ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو میں فوراً جلیانوالہ باغ میں پہنچا۔ بڑے خیمے کے باہر والنٹیروں کا پہرہ تھا۔ مگر غلام علی نے جب مجھے اندر سے دیکھا تو بلا لیا۔۔۔ زمین پر ایک گدیلا تھا جس پر کھادی کی چاندنی بچھی تھی۔ اس پر گاؤ تکیوں کا سہارا لیے شہزادہ غلام علی چند کھادی پوش بنیوں سے گفتگو کررہا تھا جو غالباً ترکاریوں کے متعلق تھی۔ چند منٹوں ہی میں اس نے یہ بات چیت ختم کی اور چند رضا کاروں کو احکام دے کروہ میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر میرے گدگدی سی ہو رہی تھی۔ جب رضا کار چلے گئے تو میں ہنس پڑا۔
’’سنا بے شہزادے۔‘‘
میں دیر تک اس سے مذاق کرتا رہا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ غلام علی میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ ایسی تبدیلی جس سے وہ باخبر ہے ۔ چنانچہ اس نے کئی بار مجھ سے یہی کہا، ’’نہیں سعادت۔۔۔ مذاق نہ اڑاؤ۔ میں جانتا ہوں میرا سر چھوٹا اور یہ عزت جو مجھے ملی ہے بڑی ہے۔۔۔ لیکن میں یہ کھلی ٹوپی ہی پہنے رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے دہی کی لسی کا ایک بہت بڑا گلاس پلایا اور میں اس سے یہ وعدہ کرکے گھر چلاگیا کہ شام کو اس کی تقریر سننے کے لیے ضرور آؤں گا۔شام کو جلیانوالہ باغ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں چونکہ جلدی آیا تھا، اس لیے مجھے پلیٹ فارم کے پاس ہی جگہ مل گئی۔۔۔ غلام علی تالیوں کے شور کے ساتھ نمودار ہوا۔۔۔ سفید بے داغ کھادی کے کپڑے پہنے وہ خوبصورت اور پر کشش دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ وہ کج کلاہی کی جھلک جس کا میں اس سے پہلے ذکر کر چکا ہوں،اس کی اس کشش میں اضافہ کررہی تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک وہ بولتا رہا۔ اس دوران میں کئی بارمیرے رونگٹے کھڑے ہوئے اور ایک دو دفعہ تو میرے جسم میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بم کی طرح پھٹ جاؤں۔ اس وقت میں نے شاید یہی خیال کیا تھا کہ یوں پھٹ جانے سے ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ بہتے ہوئے احساسات اور واقعات کی نوک پلک جو اس وقت تھی، اب پوری صحت سے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ کہانی لکھتے ہوئے میں جب غلام علی کی تقریر کا تصور کرتا ہوں تو مجھے صرف ایک جوانی بولتی دکھائی دیتی تھی، جو سیاست سے بالکل پاک تھی۔۔۔ اس میں ایک ایسے نوجوان کی پر خلوص بےباکی تھی جو ایک دم کسی راہ چلتی عورت کو پکڑلے اور کہے،’’دیکھو میں تمہیں چاہتا ہوں۔‘‘ اور دوسرے لمحے قانون کے پنجے میں گرفتار ہو جائے ۔اس تقریر کے بعد مجھے کئی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہےمگر وہ خام دیوانگی، وہ سرپھری جوانی، وہ الھڑ جذبہ، وہ بے ریش و بروت للکار جو میں نے شہزادہ غلام علی کی آواز میں سنی، اب اس کی ہلکی سی گونج بھی مجھے کبھی سنائی نہیں دی۔ اب جو تقریریں سننے میں آتی ہیں،وہ ٹھنڈی سنجیدگی، بوڑھی سیاست اور شاعرانہ ہوش مندی میں لپٹی ہوتی ہیں۔
اس وقت دراصل دونوں پارٹیاں خام کار تھیں،حکومت بھی اور رعایا بھی۔ دونوں نتائج سے بے پروا، ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ حکومت قید کی اہمیت سمجھے بغیر لوگوں کو قید کررہی تھی اور جو قید ہوتے تھے ان کو بھی قید خانوں میں جانے سے پہلے قید کا مقصد معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک دھاندلی تھی مگر اس دھاندلی میں ایک آتشیں انتشار تھا۔ لوگ شعلوں کی طرح بھڑکتے تھے، بجھتے تھے، پھر بھڑکتے تھے۔ چنانچہ اس بھڑکنے اور بجھنے، بجھنے اور بھڑکنے نے غلامی کی خوابیدہ، اداس اور جمائیوں بھری فضا میں گرم ارتعاش پیدا کردیا تھا۔
شہزادہ غلام علی نے تقریر ختم کی تو سارا جلیانوالہ باغ تالیوں اور نعروں کا دہکتا ہوا الاؤ بن گیا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ جب میں اس سے الگ جا کر ملا اور مبارک باد دینے کے لیے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا تو وہ کانپ رہا تھا۔ یہ گرم کپکپاہٹ اس کے چمکیلے چہرے سے بھی نمایاں تھی۔ وہ کسی قدر ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پرجوش جذبات کی دمک کے علاوہ مجھے ایک تھکی ہوئی تلاش نظر آئی، وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دم اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور سامنے چنبیلی کی جھاڑی کی طرف بڑھا۔
وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ کھادی کی بے داغ ساڑی میں ملبوس۔
دوسرے روز مجھے معلوم ہوا کہ شہزادہ غلام علی عشق میں گرفتار ہے۔ وہ اس لڑکی سے، جسے میں نے چنبیلی کی جھاڑی کے پاس باادب کھڑی دیکھا تھا،محبت کررہا تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں تھی کیونکہ نگار کو بھی اس سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نگار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک مسلمان لڑکی تھی۔۔۔ یتیم! زنانہ ہسپتال میں نرس تھی اور شاید پہلی مسلمان لڑکی تھی جس نے امرتسر میں بے پردہ ہوکر کانگریس کی تحریک میں حصہ لیا۔ کچھ کھادی کے لباس نے، کچھ کانگریس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اور کچھ ہسپتال کی فضا نے نگار کی اسلامی خوکو، اس تیکھی چیز کو جو مسلمان عورت کی فطرت میں نمایاں ہوتی ہے تھوڑا سا گھسا دیا تھا جس سے وہ ذرا ملائم ہوگئی تھی۔
وہ حسین نہیں تھی لیکن اپنی جگہ نسوانیت کا ایک نہایت ہی دیدہ چشم منفرد نمونہ تھی۔ انکسار، تعظیم اور پرستش کا وہ ملا جلا جذبہ جو آدرش ہندو عورت کا خاصہ ہے نگار میں اس کی خفیف سی آمیزش نے ایک روح پر ور رنگ پیدا کردیا تھا۔ اس وقت تو شاید یہ کبھی میرے ذہن میں نہ آتا، مگر یہ لکھتے وقت میں نگار کا تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے نماز اور آرتی کا دلفریب مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔شہزادہ غلام علی کی وہ پرستش کرتی تھی اور وہ بھی اس پر دل و جان سے فدا تھا ۔جب نگار کے بارے میں اس سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ کانگریس تحریک کے دوران میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے ملاپ سے وہ ایک دوسرے کے ہوگئے۔
غلام علی کا ارادہ تھا کہ قید ہونے سے پہلے پہلے وہ نگار کو اپنی بیوی بنالے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا کیونکہ قید سے واپس آنے پر بھی وہ اس سے شادی کرسکتا تھا۔ ان دنوں کوئی اتنی لمبی قید نہیں تھی۔ کم سے کم تین مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس۔ بعضوں کو تو پندرہ بیس روز کے بعد ہی رہا کردیا جاتا تھا تاکہ دوسرے قیدیوں کے لیے جگہ بن جائے۔ بہر حال وہ اس ارادے کو نگار پر بھی ظاہر کرچکا تھا اور وہ بالکل تیار تھی۔ اب صرف دونوں کو بابا جی کے پاس جا کر ان کا آشیرواد لینا تھا۔
بابا جی جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے بہت زبردست ہستی تھی۔ شہر سے باہر لکھ پتی صراف ہری رام کی شاندارکوٹھی میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یوں تو وہ اکثر اپنے آشرم میں رہتے جو انھوں نے پاس کے ایک گاؤں میں بنا رکھا تھا مگر جب کبھی امرتسر آتے تو ہری رام صراف ہی کی کوٹھی میں اترتے اور ان کے آتے ہی یہ کوٹھی بابا جی کے شیدائیوں کے لیے مقدس جگہ بن جاتی۔ سارا دن درشن کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دن ڈھلے وہ کوٹھی سے باہر کچھ فاصلے پر آم کے پیڑوں کے جھنڈ میں ایک چوبی تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو عام درشن دیتے، اپنے آشرم کے لیے چندہ اکٹھا کرتے۔ آخر میں بھجن وغیرہ سن کر ہر روز شام کو یہ جلسہ ان کے حکم سے برخاست ہو جاتا۔بابا جی بہت پرہیز گار، خدا ترس، عالم اور ذہین آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان، سکھ اور اچھوت سب ان کے گرویدہ تھے اور انھیں اپنا امام مانتے تھے۔ سیاست سے گو باباجی کو بظاہر کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ پنجاب کی ہر سیاسی تحریک انہی کے اشارے پر شروع ہوئی اور انہی کے اشارے پر ختم ہوئی۔
گورنمنٹ کی نگاہوں میں وہ ایک عقدۂ لاینحل تھے، ایک سیاسی چیستاں ،جسے سرکارِ عالیہ کے بڑے بڑے مدبر بھی نہ حل کرسکتے تھے۔ بابا جی کے پتلے پتلے ہونٹوں کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ہزار معنی نکالے جاتے تھے مگر جب وہ خود اس مسکراہٹ کا بالکل ہی نیا مطلب واضح کرتے تو مرعوب عوام اور زیادہ مرعوب ہو جاتے۔
یہ جو امرتسر میں سول نافرمانی کی تحریک جاری تھی اور لوگ دھڑا دھڑ قید ہوررہے تھے، اس کے عقب میں جیسا کہ ظاہر ہے، بابا جی ہی کا اثر کارفرما تھا۔ ہر شام لوگوں کو عام درشن دیتے وقت وہ سارے پنجاب کی تحریک آزادی اور گورنمنٹ کی نت نئی سخت گیریوں کے متعلق اپنے پوپلے منہ سے ایک چھوٹا سا۔۔۔ ایک معصوم سا جملہ نکال دیا کرتے تھے، جسے فوراً ہی بڑے بڑے لیڈر اپنے گلے میں تعویذ بنا کرڈال لیتے تھے۔
لوگوں کا بیان ہے کہ ان کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی قوت تھی، ان کی آواز میں ایک جادو تھا اور ان کا ٹھنڈا دماغ۔۔۔ ان کا وہ مسکراتا ہوتا دماغ، جس کو گندی سے گندی گالی اور زہریلی سے زہریلی طنز بھی ایک لحظے کے ہزارویں حصے کے لیے برہم نہیں کرسکتی تھی، حریفوں کے لیے بہت ہی الجھن کا باعث تھا۔
امرتسر میں بابا جی کے سیکڑوں جلوس نکل چکے تھے، مگر جانے کیا بات ہے کہ میں نے اور تمام لیڈروں کو دیکھا، ایک صرف ان ہی کو میں نے دور سے دیکھا نہ نزدیک سے۔ اسی لیے جب غلام علی نے مجھ سے ان کے درشن کرنے اور ان سے شادی کی اجازت لینے کے متعلق بات چیت کی تو میں نے اس سے کہا کہ جب وہ دونوں جائیں تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں۔
دوسرے ہی روز غلام علی نے تانگے کا انتظام کیا اور ہم صبح سویرے لالہ ہری رام صراف کی عالی شان کوٹھی میں پہنچ گئے۔ بابا جی غسل اور صبح کی دعا سے فارغ ہو کر ایک خوبصورت پنڈتانی سے قومی گیت سن رہے تھے۔ چینی کی بے داغ سفید ٹائلوں والے فرش پر آپ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر بیٹھے تھے، گاؤ تکیہ ان کے پاس ہی پڑا تھا مگر انھوں نے اس کا سہارا نہیں لیا تھا۔کمرے میں سوائے ایک چٹائی کے، جس کے اوپر بابا جی بیٹھے تھے اور فرنیچر وغیرہ نہیں تھا۔ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سفید ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ ان کی چمک نے قومی گیت گانے والی پنڈتانی کے ہلکے پیازی چہرے کو اور بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا۔
بابا جی گو ستر بہتر برس کے بڈھے تھے مگر ان کا جسم (وہ صرف گیروے رنگ کا چھوٹا سا تہمد باندھے تھے) عمر کی جھریوں سے بے نیاز تھا، جلد میں ایک عجیب قسم کی ملاحت تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہر روز اشنان سے پہلے روغن زیتون اپنے جسم پر ملواتے ہیں۔شہزادہ غلام علی کی طرف دیکھ کروہ مسکرائے ،مجھے بھی ایک نظر دیکھا اور ہم تینوں کی بندگی کا جواب اسی مسکراہٹ کو ذرا طویل کرکے دیا اور اشارہ کیا کہ ہم بیٹھ جائیں۔
میں اب یہ تصویر اپنے سامنے لاتا ہوں تو شعور کی عینک سے یہ مجھے دلچسپ ہونے کے علاوہ بہت ہی فکر خیز دکھائی دیتی ہے۔ کھجور کی چٹائی پر ایک نیم برہنہ معمر جوگیوں کا آسن لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی بیٹھک سے، اس کے گنجے سر سے، اس کی ادھ کُھلی آنکھوں سے، اس کے سانولے ملائم جسم سے، اس کے چہرے کے ہر خط سے ایک پرسکون اطمینان، ایک بے فکر تیقن مترشح تھا کہ جس مقام پر دنیا نے اسے بٹھا دیا ہے، اب بڑے سے بڑا زلزلہ بھی اسے وہاں سے نہیں گرا سکتا۔۔۔ اس سے کچھ دور وادی کشمیر کی ایک نوخیز کلی، جھکی ہوئی، کچھ اس بزرگ کی قربت کے احترام سے، کچھ قومی گیت کے اثر سے، کچھ اپنی شدید جوانی سے، جو اس کی کھردردی سفید ساڑی سے نکل کر قومی گیت کے علاوہ اپنی جوانی کا گیت بھی گانا چاہتی تھی، جو اس بزرگ کی قربت کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایسی تندرست اور جوان ہستی کی بھی تعظیم کرنے کی خواہش مند تھی جو اس کی نرم کلائی پکڑ کر زندگی کے دہکتے ہوئے الاؤ میں کود پڑے۔ اس کے ہلکے پیازی چہرے سے، اس کی بڑی بڑی سیاہ متحرک آنکھوں سے، اس کے کھادی کے کھردرے بلاؤز میں ڈھکے ہوئے متلاطم سینے سے ،اس معمر جوگی کے ٹھوس تیقن اور سنگین اطمینان کے تقابل میں ایک خاموش صدا تھی کہ آؤ، جس مقام پر میں اس وقت ہوں،وہاں سے کھینچ کر مجھے یا تو نیچے گرا دو یا اس سے بھی اوپر لے جاؤ۔
اس طرف ہٹ کر ہم تین بیٹھے تھے۔ میں، نگار اور شہزادہ غلام علی۔۔۔۔ میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ بابا جی کی شخصیت سے بھی متاثر تھا اور اس پنڈتانی کے بے د اغ حسن سے بھی۔ فرش کی چمکیلی ٹائلوں نے بھی مجھے مرعوب کیا تھا۔ کبھی سوچتا تھا کہ ایسی ٹائلوں والی ایک کوٹھی مجھے مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ پھر سوچتا تھا کہ یہ پنڈتانی مجھے اور کچھ نہ کرنے دے، ایک صرف مجھے اپنی آنکھیں چوم لینے دے۔ اس کے تصور سے بدن میں تھرتھری پیدا ہوتی تو جھٹ اپنی نوکرانی کا خیال آتا جس سے تازہ تازہ مجھے کچھ وہ ہوا تھا۔ جی میں آتا کہ ان سب کو، یہاں چھوڑ کر سیدھا گھر جاؤں۔۔۔ شاید نظر بچا کر اسے اوپر غسل خانے تک لے جانے میں کامیاب ہو سکوں، مگر جب بابا جی پر نظر پڑتی اور کانوں میں قومی گیت کے پرجوش الفاظ گونجتے تو ایک دوسری تھرتھری بدن میں پیدا ہوتی اور میں سوچتا کہ کہیں سے پستول ہاتھ آجائے تو سول لائن میں جا کر انگریزوں کو مارنا شروع کردوں۔
اس چغد کے پاس نگار اور غلام علی بیٹھے تھے۔ دو محبت کرنے والے دل، جو تنہا محبت میں دھڑکتے دھڑکتے اب شاید کچھ اکتا گئے تھے اور جلدی ایک دوسرے میں محبت کے دوسرے رنگ دیکھنے کے لیے مدغم ہونا چاہتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ بابا جی سے، اپنے مسلمہ سیاسی رہنما سے شادی کی اجازت لینے آئے تھے اور جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں کے دماغ میں اس وقت قومی گیت کے بجائے ان کی اپنی زندگی کا حسین ترین مگر ان سنا نغمہ گونج رہا تھا۔
گیت ختم ہوا ،بابا جی نے بڑے مشفقانہ انداز سے پنڈتانی کو ہاتھ کے اشارے سے آشیرواد دیا اور مسکراتے ہوئے نگار اور غلام علی کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے بھی انھوں نے ایک نظر دیکھ لیا۔غلام علی شاید تعارف کے لیے اپنا اور نگار کا نام بتانے والا تھا مگر بابا جی کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی اپنی میٹھی آواز میں کہا،’’شہزادے ،ابھی تک تم گرفتار نہیں ہوئے؟‘‘
غلام علی نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’جی نہیں۔‘‘
بابا جی نے قلم دان سے ایک پنسل نکالی اور اس سے کھیلتے ہوئے کہنے لگے، ’’مگر میں تو سمجھتا ہوں تم گرفتار ہو چکے ہو۔‘‘
غلام علی اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ لیکن بابا جی نے فوراً ہی پنڈتانی کی طرف دیکھا اور نگار کی طرف اشارہ کرکے،’’نگار نے ہمارے شہزادے کو گرفتار کرلیا ہے۔‘‘
نگار محجوب سی ہوگئی۔ غلام علی کا منہ فرطِ حیرت سےکھلا کا کھلا رہ گیا اور پنڈتانی کے پیازی چہرے پر ایک دعائیہ چمک سی آئی۔ اس نے نگار اور غلام علی کو کچھ اس طرح دیکھا جیسے یہ کہہ رہی ہے، ’’بہت اچھا ہوا۔‘‘ بابا جی ایک بار پھر پنڈتانی کی طرف متوجہ ہوئے، ’’یہ بچے مجھ سے شادی کی اجازت لینے آئے ہیں۔۔۔ تم کب شادی کررہی ہو کمل؟‘‘
تو اس پنڈتانی کا نام کمل تھا۔ بابا جی کے اچانک سوال سے وہ بوکھلا گئی۔ اس کا پیازی چہرہ سرخ ہوگیا۔ کانپتی ہوئی آواز میں اس نے جواب دیا، ’’میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔‘‘ ایک ہلکی سی آہ بھی ان الفاظ میں لپٹ کرباہر آئی جسے بابا جی کے ہشیار دماغ نے فوراً نوٹ کیا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر جوگیانہ انداز میں مسکرائے اور غلام علی اور نگار سے مخاطب ہو کرکہنے لگے،’’ تو تم دونوں فیصلہ کر چکے ہو۔‘‘
دونوں نے دبی زبان میں جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘
بابا جی نے اپنی سیاست بھری آنکھوں سے ان کو دیکھا،’’انسان جب فیصلے کرتا ہے تو کبھی کبھی ان کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔‘‘
پہلی دفعہ بابا جی کی بارعب موجودگی میں غلام علی نے، اس کی الھڑ اور بیباک جوانی نے کہا،’’یہ فیصلہ اگر کسی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو بھی اپنی جگہ پر اٹل رہے گا۔‘‘
بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں اور جرح کے انداز میں پوچھا،’’کیوں؟‘‘
حیرت ہے کہ غلام علی بالکل نہ گھبرایا۔ شاید اس دفعہ نگارسے جو اسے پرخلوص محبت تھی وہ بول اٹھی، ’’بابا جی ہم نے ہندوستان کو آزادی دلانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وقت کی مجبوریاں اسے تبدیل کرتی رہیں مگر جو فیصلہ ہے وہ تو اٹل ہے۔‘‘ بابا جی نے جیسا کہ میرا اب خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا مناسب خیال نہ کیا چنانچہ وہ مسکرا دیے۔۔۔ اس مسکراہٹ کا مطلب بھی ان کی تمام مسکراہٹوں کی طرح ہر شخص نے بالکل الگ الگ سمجھا۔ اگر بابا جی سے پوچھا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا مطلب ہم سب سے بالکل مختلف بیان کرتے۔
خیر۔۔۔ اس ہزار پہلو مسکراہٹ کو اپنے پتلے ہونٹوں پر ذرا اور پھیلاتے ہوئے انھوں نے نگار سے کہا،’’نگار تم ہمارے آشرم میں آجاؤ۔۔۔ شہزادہ تو تھوڑے دنوں میں قید ہو جائے گا۔‘‘
نگار نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا، ’’جی اچھا۔‘‘
اس کے بعد بابا جی نے شادی کا موضوع بدل کر جلیانوالہ باغ کیمپ کی سرگرمیوں کا حال پوچھنا شروع کردیا۔ بہت دیر تک غلام علی، نگار اور کمل گرفتاریوں، رہائیوں، دودھ،لسی اور ترکاریوں کے متعلق باتیں کرتے رہے اور جو میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا، یہ سوچ رہا تھا کہ بابا جی نے شادی کی اجازت دینے میں کیوں اتنی مین میخ کی ہے۔ کیا وہ غلام علی اور نگار کی محبت کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔۔؟ کیا انھیں غلام علی کے خلوص پرشبہ ہے؟
نگار کو انھوں نے کیا آشرم میں آنے کی اس لیے دعوت دی کہ وہاں رہ کر وہ اپنے قید ہونے والے شوہر کا غم بھول جائے گی۔۔۔؟لیکن بابا جی کے اس سوال پر’’ کمل تم کب شادی کررہی ہو؟‘‘ کمل نے کیوں کہا تھا کہ میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔۔۔؟ آشرم میں کیا مرد عورت شادی نہیں کرتے۔۔۔۔؟ میرا ذہن عجب مخمصے میں گرفتار تھا۔ مگر ادھر یہ گفتگو ہورہی تھی کہ لیڈی والنٹیرز کیا پانچ سو رضاکاروں کے لیے چپاتیاں وقت پر تیار کرلیتی ہیں؟ چولہے کتنے ہیں؟ اور توے کتنے بڑے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بہت بڑا چولہا بنالیا جائے اور اس پر اتنا بڑا توا رکھا جائے کہ چھ عورتیں ایک ہی وقت میں روٹیاں پکا سکیں؟
میں یہ سوچ رہا تھا کہ پنڈتانی کمل کیا آشرم میں جا کر باباجی کو بس قومی گیت اور بھجن ہی سنایا کرے گی۔ میں نے آشرم کے مرد والنٹیر دیکھے تھے۔ گر وہ سب کے سب وہاں کے قواعد کے مطابق ہر روز اشنان کرتے تھے، صبح اٹھ کر داتن کرتے تھے، باہر کھلی ہوا میں رہتے تھے، بھجن گاتے تھے،مگر ان کے کپڑوں سے پسینے کی بو پھر بھی آتی تھی۔ ان میں اکثر کے دانت بدبودار تھے اور وہ جو کھلی فضا میں رہنے سے انسان پر ایک ہشاش بشاش نکھار آتا ہے،ان میں بالکل مفقود تھا۔
جھکے جھکے سے، دبے دبے سے۔۔۔ زرد چہرے،دھنسی ہوئی آنکھیں، مرعوب جسم۔۔۔ گائے کے نچڑے ہوئے تھنوں کی طرح بے حس اور بے جان۔۔۔ میں ان آشرم والوں کو جلیانوالہ باغ میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔۔۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مرد جن سے گھاس کی بو آتی ہے،اس پنڈتانی کو جو دودھ، شہد اور زعفران کی بنی ہے، اپنی کیچڑ بھری آنکھوں سے گھوریں گے۔ کیا یہی مرد جن کا منہ اس قدر متعفن ہوتا ہے، اس لوبان کی مہک میں لپٹی ہوئی عورت سے گفتگو کریں گے؟
لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں ہندوستان کی آزادی شاید ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ میں اس ’’شاید‘‘ کو اپنی تمام حب الوطنی اور جذبۂ آزادی کے باوجود نہ سمجھ سکا۔ کیونکہ مجھے نگار کا خیال آیا جو بالکل میرے قریب بیٹھی تھی اور بابا جی کو بتارہی تھی کہ شلجم بہت دیر میں گلتے ہیں۔۔۔ کہاں شلجم اور کہاں شادی جس کے لیے وہ اور غلام علی اجازت لینے آئے تھے۔
میں نگار اور آشرم کے متعلق سوچنے لگا۔ آشرم میں نے دیکھا نہیں تھا،مگر مجھے ایسی جگہوں سے جن کو آشرم، ودیالہ جماعت خانہ، تکیہ، یا درس گاہ کہا جائے، ہمیشہ سے نفرت ہے۔ جانے کیوں؟میں نے کئی اندھ ودیالوں اور اناتھ آشرموں کے لڑکوں اور ان کے متنظموں کو دیکھا ہے، سڑک میں قطار باندھ کرچلتے اور بھیک مانگتے ہوئے۔ میں نے جماعت خانے اور درس گاہیں دیکھی ہیں۔ ٹخنوں سے اونچا شرعی پائجامہ، بچپن ہی میں ماتھے پر محراب، جو بڑے ہیں ان کے چہرے پر گھنی داڑھی۔۔۔ جو نوخیر ہیں ان کے گالوں اور ٹھڈی پر نہایت ہی بدنما موٹے اور مہین بال۔۔۔ نماز پڑھتے جارہے ہیں لیکن ہر ایک کے چہرے پر حیوانیت۔۔۔ ایک ادھوری حیوانیت مصلے پر بیٹھی نظر آتی ہے۔
نگار عورت تھی۔ مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائی عورت نہیں۔۔۔ وہ صرف عورت تھی، نہیں عورت کی دعا تھی جو اپنے چاہنے والے کے لیے یا جسے وہ خود چاہتی ہے صدق دل سے مانگتی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ بابا جی کے آشرم میں جہاں ہر روز قواعد کے مطابق دعا مانگی جاتی ہے۔ یہ عورت جو خود ایک دعا ہے، کیسے اپنے ہاتھ اٹھا سکے گی۔
میں اب سوچتا ہوں تو باباجی، نگار، غلام علی، وہ خوبصورت پنڈتانی اور امرتسر کی ساری فضا جو تحریک آزادی کے رومان آفریں کیف میں لپٹی ہوئی تھی، ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا خواب جو ایک بار دیکھنے کے بعد جی چاہتا ہے آدمی پھر دیکھے۔ بابا جی کا آشرم میں نے اب بھی نہیں دیکھا، مگر جو نفرت مجھے اس سے پہلے تھی اب بھی ہے۔وہ جگہ جہاں فطرت کے خلاف اصول بنا کر انسانوں کو ایک لکیر پرچلایا جائے، میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ آزادی حاصل کرنا بالکل ٹھیک ہے! اس کے حصول کے لیے آدمی مر جائے، میں اس کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن اس کے لیے اگر اس غریب کو ترکاری کی طرح ٹھنڈا اور بے ضرر بنا دیا جائے تو یہی میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔
جھونپڑوں میں رہنا، تن آسانیوں سے پرہیز کرنا، خدا کی حمد گانا، قومی نعرے مارنا۔۔۔ یہ سب ٹھیک ہے ،مگر یہ کیا کہ انسان کی اس حِس کو جسے طلبِ حسن کہتے ہیں آہستہ آہستہ مردہ کردیا جائے۔ وہ انسان کیا جس میں خوبصورتی اور ہنگاموں کی تڑپ نہ رہے۔ ایسے آشرموں، مدرسوں، ودیالوں اور مولیوں کے کھیت میں کیا فرق ہے۔
دیر تک بابا جی، غلام علی اور نگار سے جلیانوالہ باغ کی جملہ سرگرمیوں کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے اس جوڑے کو، جو کہ ظاہر ہے کہ اپنے آنے کا مقصد بھول نہیں گیا تھا، کہا کہ وہ دوسرے روز شام کو جلیانوالہ باغ آئیں گے اور ان دونوں کو میاں بیوی بنا دیں گے۔
غلام علی اور نگار بہت خوش ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان کی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی تھی کہ بابا جی خود شادی کی رسم ادا کریں گے۔ غلام علی، جیسا کہ اس نے مجھے بہت بعد میں بتایا، اس قدر خوش ہوا تھا کہ فوراً ہی سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ شاید جو کچھ اس نے سنا ہے غلط ہے۔ کیونکہ بابا جی کے منحنی ہاتھوں کی خفیف سی جنبش بھی ایک تاریخی حادثہ بن جاتی تھی۔ اتنی بڑی ہستی ایک معمولی آدمی کی خاطر جو محض اتفاق سے کانگریس کا ڈکٹیٹر بن گیا ہے، چل کے جلیانوالہ باغ جائے اور اس کی شادی میں دلچسپی لے۔ یہ ہندوستان کے تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی جلی سرخی تھی۔
غلام علی کا خیال تھا بابا جی نہیں آئیں گے کیونکہ وہ بہت مصروف آدمی ہیں لیکن اس کا یہ خیال، جس کا اظہار دراصل اس نے نفسیاتی نقطہ نگاہ سے صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ ضرور آئیں، اس کی خواہش کے مطابق غلط ثابت ہوا۔۔۔ شام کے چھ بجے جلیانوالہ باغ میں جب رات کی رانی کی جھاڑیاں اپنی خوشبو کے جھونکے پھیلانے کی تیاریاں کررہی تھیں اور متعدد رضاکار دولہا دلہن کے لیے ایک چھوٹا تنبو نصب کرکے اسے چمیلی، گیندے اور گلاب کے پھولوں سے سجا رہے تھے،بابا جی اس قومی گیت گانے والی پنڈتانی، اپنے سیکریٹری اور لالہ ہری رام صراف کے ہم راہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے۔ ان کی آمد کی اطلاع جلیانوالہ باغ میں صرف اسی وقت پہنچی، جب صدر دروازے پر لالہ ہری رام کی ہری موٹر رکی۔
میں بھی وہیں تھا۔ لیڈی والنٹیرز ایک دوسرے تنبو میں نگار کو دلہن بنا رہی تھیں۔ غلام علی نے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا۔ سارا دن وہ شہر کے کانگریسی بنیوں سے رضا کاروں کے کھانے پینے کی ضروریات کے متعلق گفتگو کرتا رہا تھا۔ اس سے فارغ ہوکر اس نے چند لمحات کے لیے نگار سے تخلیے میں کچھ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس نے اپنے ماتحت افسروں سے صرف اتنا کہا تھا کہ شادی کی رسم ادا ہونے کے ساتھ ہی وہ اور نگار دونوں جھنڈا اونچا کریں گے۔
جب غلام علی کو بابا جی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو وہ کنوئیں کے پاس کھڑا تھا۔ میں غالباً اس سے یہ کہہ رہا تھا،’’غلام علی تم جانتے ہوں یہ کنواں، جب گولی چلی تھی، لاشوں سے لبالب بھر گیا تھا۔۔۔ آج سب اس کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ اس باغ کے جتنے پھول ہیں۔ اس کے پانی نے سینچے ہیں۔ مگر لوگ آتے ہیں اور انھیں توڑ کر لے جاتے ہیں۔۔۔ پانی کے کسی گھونٹ میں لہو کا نمک نہیں ہوتا، پھول کی کسی پتی میں خون کی لالی نہیں ہوتی۔۔۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے یہ کہہ کر اپنے سامنے، اس مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھا جس میں، کہا جاتا ہے کہ ایک نو عمر لڑکی بیٹھی تماشا دیکھ رہی تھی اور جنرل ڈائر کی گولی کا نشانہ بن گئی تھی۔ اس کے سینے سے نکلے ہوئے خون کی لکیر چونے کی عمر رسیدہ دیوار پر دھندلی ہورہی تھی۔اب خون کچھ اس قدر ارزاں ہوگیا کہ اس کے بہنے بہانے کا وہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے چھ سات مہینے بعد جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا،مارا ماسٹر ساری کلاس کو ایک دفعہ اس باغ میں لے گیا۔ اس وقت یہ باغ باغ نہیں تھا۔ اجاڑ، سنسان اور اونچی نیچی خشک زمین کا ایک ٹکڑا تھا، جس میں ہر قدم پر مٹی کے چھوٹے بڑے ڈھیلے ٹھوکریں کھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیلا جس پر جانے پان کی پیک کے دھبے یا کیا تھا، ہمارے ماسٹر نے اٹھا لیا تھا اور ہم سے کہا تھا۔ دیکھو اس پر ابھی تک ہمارے شہیدوں کا خون لگا ہے۔
یہ کہانی لکھ رہا ہوں اور حافظے کی تختی پر سیکڑوں چھوٹی چھوٹی باتیں ابھر رہی ہیں مگر مجھے تو غلام علی اور نگار کی شادی کا قصہ بیان کرنا ہے۔
غلام علی کو جب بابا جی کی آمد کی خبر ملی تو اس نے دوڑ کر سب والنٹیر اکٹھے کیے جنہوں نے فوجی انداز میں ان کو سیلوٹ کیا۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ واور غلام علی مختلف کیمپوں کا چکرلگاتے رہے۔ اس دوران میں بابا جی نے، جن کی مزاحیہ حس بہت تیز تھی، لیڈی والنٹیرز اور دوسرے ورکرز سے گفتگوکرتے وقت کئی فقرے چست کیے۔
ادھر ادھر مکانوں میں جب بتیاں جلنے لگیں اور دھندلا اندھیرا سا جلیانوالہ باغ پر چھا گیا تو رضا کار لڑکیوں نے ایک آواز ہو کر بھجن گانا شروع کیا۔ چند آوازیں سریلی، باقی سب کن سری تھیں مگر ان کا مجموعی اثر بہت خوشگوار تھا۔ بابا جی آنکھیں بندکیے سن رہے تھے۔ تقریباً ایک ہزار آدمی موجود تھے،جو چبوترے کے اردگرد زمین پر بیٹھے تھے۔ بھجن گانے والی لڑکیوں کے علاوہ ہر شخص خاموش تھا۔بھجن ختم ہونے پر چند لمحات تک ایسی خاموشی طاری رہی جو ایک دم ٹوٹنے کے لیے بے قرارہو۔ چنانچہ جب بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور اپنی میٹھی آواز میں کہا، ’’بچو، جیسا کہ تمہیں معلوم ہے،میں یہاں آج آزادی کے دو دیوانوں کو ایک کرنے آیا ہوں۔‘‘ تو سارا باغ خوشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔
نگار دلہن بنی چبوترے کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ کھادی کی ترنگی ساڑی میں بہت بھلی دکھائی دے رہی تھی۔ بابا جی نے اشارے سے اسے بلایا اور غلام علی کے پاس بٹھا دیا۔ اس پر اور خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔غلام علی کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتما رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا، جب اس نے نکاح کا کاغذ اپنے دوست سے لے کربابا جی کو دیا تو اس کا ہاتھ لرز گیا۔ چبوترے پر ایک مولوی صاحب بھی موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جو ایسے موقعوں پر پڑھا کرتے ہیں۔ بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایجاب و قبول ختم ہوا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں دولھا دلہن کو آشیرواد دی اور جب چھوہاروں کی بارش شروع ہوئی تو انھوں نے بچوں کی طرح جھپٹ جھپٹ کر دس پندرہ چھوہارے اکٹھے کرکے اپنے پاس رکھ لیے۔
نگار کی ایک ہندو سہیلی نے شرمیلی مسکراہٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا غلام علی کو دی اور اس سے کچھ کہا۔ غلام علی نے ڈبیا کھولی اور نگار کی سیدھی مانگ میں سیندور بھر دیا۔ جلیانوالہ باغ کی خنک فضا ایک بار پھر تالیوں کی تیز آواز سے گونج اٹھی۔
بابا جی اس شور میں اٹھے۔ ہجوم ایک دم خاموش ہوگیا۔
رات کی رانی اور چمیلی کی ملی جلی سوندھی سوندھی خوشبو، شام کی ہلکی پھلکی ہوا میں تیر رہی تھی، بہت سہانا سماں تھا، بابا جی کی آواز آج اور بھی میٹھی تھی۔ غلام علی اور نگار کی شادی پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرنے کے بعد انھوں نے کہا:یہ دونوں بچے اب زیادہ تندہی اور خلوص سے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔ کیونکہ شادی کا صحیح مقصد مرد اور عورت کی پرخلوص دوستی ہے۔ ایک دوسرے کے دوست بن کر غلام علی اور نگار یکجہتی سے سوراج کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ یورپ میں ایسی کئی شادیاں ہوتی ہیں جن کا مطلب دوستی اور صرف دوستی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قابل احترام ہیں جو اپنی زندگی سے شہوت نکال پھینکتے ہیں۔
بابا جی دیر تک شادی کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ صحیح مزا صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب مرد اور عورت کا تعلق صرف جسمانی نہ ہو۔ عورت اور مرد کا شہوانی رشتہ ان کے نزدیک اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں آدمی کھاتے ہیں، اپنے ذائقے کی حس کو خوش کرنے کے لیےلیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنا انسانی فرض ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کھاتے ہیں زندہ رہنے کے لیے ۔اصل میں صرف یہی لوگ ہیں جو خوردونوش کے صحیح قوانین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ انھیں شادی کے مطہر جذبے کی حقیقت اور اس رشتے کی تقدیس معلوم ہو،حقیقی معنوں میں ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بابا جی نے اپنے اس عقیدے کو کچھ اس وضاحت، کچھ ایسے نرم و نازک خلوص سے بیان کیا کہ سننے والوں کے لیے ایک بالکل نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ میں خود بہت متاثر ہوا۔ غلام علی جو میرے سامنے بیٹھا تھا، بابا جی کی تقریر کے ایک ایک لفظ کو جیسے پی رہا تھا۔ بابا جی نے جب بولنا بند کیا تو اس نے نگار سے کچھ کہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اس نے کانپتی ہوئی آواز میں یہ اعلان کیا،’’میری اور نگار کی شادی اسی قسم کی آدرش شادی ہوگی، جب تک ہندوستان کو سوراج نہیں ملتا،میرا اور نگار کا رشتہ بالکل دوستوں جیسا ہوگا۔۔۔‘‘
جلیانوالہ باغ کی خنک فضا دیر تک تالیوں کے بے پناہ شور سے گونجتی رہی۔ شہزادہ غلام علی جذباتی ہوگیا۔ اس کے کشمیری چہرے پر سرخیاں دوڑنے لگیں۔ جذبات کی اسی دوڑ میں اس نے نگار کو بلند آواز میں مخاطب کیا، ’’نگار! تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا؟‘‘ نگار جو کچھ شادی ہونے پر اور کچھ بابا جی کی تقریر سن کر بوکھلائی ہوئی تھی، یہ کڑک سوال سن کر اور بھی بوکھلا گئی۔ صرف اتنا کہہ سکی، ’’جی۔۔۔؟ جی نہیں۔‘‘
ہجوم نے پھر تالیاں پیٹیں اور غلام علی اور زیادہ جذباتی ہوگیا۔ نگار کو غلام بچے کی شرمندگی سے بچا کر وہ اتنا خوش ہوا کہ وہ بہک گیا اور اصل موضوع سے ہٹ کر آزادی حاصل کرنے کی پیچ دار گلیوں میں جا نکلا۔ ایک گھنٹے تک وہ جذبات بھری آواز میں بولتا رہا۔ اچانک اس کی نظر نگار پر پڑی۔ جانے کیا ہوا۔۔۔ ایک دم اس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ جیسے آدمی شراب کے نشے میں بغیر کسی حساب کے نوٹ نکالتا جائے اور ایک دم بٹوہ خالی پائے۔ اپنی تقریر کا بٹوہ خالی پا کر غلام علی کو کافی الجھن ہوئی مگر اس نے فوراً ہی بابا جی کی طرف دیکھا اور جھک کرکہا،’’بابا جی۔۔۔ ہم دونوں کو آپ کا آشیرواد چاہیے کہ جس بات کا ہم نے عہد کیا ہے، اس پر پورے رہیں۔‘‘
دوسرے روز صبح چھ بجے شہزادہ غلام علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کیونکہ اس تقریر میں جو اس نے سوراج ملنے تک بچہ پیدا نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد کی تھی، انگریزوں کا تختہ الٹنے کی دھمکی بھی تھی۔گرفتار ہونے کے چند روز بعد غلام علی کو آٹھ مہینے کی قید ہوئی اور ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ وہ امرتسر کا اکیالیسواں ڈکٹیٹر تھا اور شاید چالیس ہزارواں سیاسی قیدی۔ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس تحریک میں قید ہونے والے لوگوں کی تعداد اخباروں نے چالیس ہزار ہی بتائی تھی۔
عام خیال تھا کہ آزادی کی منزل اب صرف دو ہاتھ ہی دور ہے۔ لیکن فرنگی سیاست دانوں نے اس تحریک کا دودھ ابلنے دیا اور جب ہندوستان کے بڑے لیڈروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو یہ تحریک ٹھنڈی لسی میں تبدیل ہوگئی۔آزادی کے دیوانے جیلوں سے باہر نکلے تو قید کی صعوبتیں بھولنے اور اپنے بگڑے ہوئے کاروبار سنوارنے میں مشغول ہو گئے۔ شہزادہ غلام علی سات مہینے کے بعد ہی باہر آگیا تھا۔ گو اس وقت پہلا سا جوش نہیں تھا،پھر بھی امرتسر کے اسٹیشن پر لوگوں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کے اعزاز میں تین چار دعوتیں اور جلسے بھی ہوئے۔ میں ان سب میں شریک تھا مگر یہ محفلیں بالکل پھیکی تھیں۔ لوگوں پر اب ایک عجیب قسم کی تھکاوٹ طاری تھی جیسے ایک لمبی دوڑ میں اچانک دوڑنے والوں سے کہہ دیا گیا تھا، ’’ٹھہرو، یہ دوڑ پھر سے شروع ہوگی۔‘‘ اور اب جیسے یہ دوڑنے والے کچھ دیر ہانپنے کے بعد دوڑ کے مقام آغاز کی طرف بڑی بے دلی کے ساتھ واپس آرہے تھے۔
کئی برس گزر گئے۔۔۔ یہ بے کیف تھکاوٹ ہندوستان سے دور نہ ہوئی تھی۔ میری دنیا میں چھوٹے موٹے کئی انقلاب آئے۔ داڑھی مونچھ اگی، کالج میں داخل ہوا، ایف اے میں دوبارہ فیل ہوا،والد انتقال کرگئے، روزی کی تلاش میں ادھر ادھر پریشان ہوا، ایک تھرڈ کلاس اخبار میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کی، یہاں سے جی گھبرایا تو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور تین ہی مہینے بعد دق کا مریض ہو کرکشمیر کے دیہاتوں میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ وہاں سے لوٹ کر بمبئی کا رخ کیا۔ یہاں دو برسوں میں تین ہندو مسلم فساد دیکھے۔ جی گھبرایا تو دلی چلا گیا۔ وہاں بمبئی کے مقابلے میں ہر چیز سست رفتار دیکھی۔ کہیں حرکت نظر بھی آئی تو اس میں ایک زنانہ پن محسوس ہوا۔ آخر یہی سوچا کہ بمبئی اچھا ہے۔ کیا ہوا ساتھ والے ہمسائے کو ہمارا نام تک پوچھنے کی فرصت نہیں۔ جہاں لوگوں کو فرصت ہوتی ہے،وہاں ریا کاریاں اور چال بازیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ دلی میں دو برس ٹھنڈی زندگی بسر کرنے کے بعد سدا متحرک بمبئی چلا آیا۔
گھر سے نکلے اب آٹھ برس ہو چلے تھے۔ دوست احباب اور امرتسر کی سڑکیں، گلیاں کس حالت میں ہیں، اس کا مجھے کچھ علم نہیں تھا، کسی سے خط و کتابت ہی نہیں تھی جو پتہ چلتا۔ دراصل مجھے ان آٹھ برسوں میں اپنے مستقبل کی طرف سے کچھ بے پروائی سی ہوگئی تھی۔۔۔ کون بیتے ہوئے دنوں کے متعلق سوچے۔ جو آٹھ برس پہلے خرچ ہو چکا ہے،اس کا اب احساس کرنے سے فائدہ۔۔۔؟ زندگی کے روپے میں وہی پائی زیادہ اہم ہے جسے تم آج خرچنا چاہتے ہو یا جس پرکل کسی کی آنکھ ہے۔
آج سے چھ برس پہلے کی بات کررہا ہوں، جب زندگی کے روپے اور چاندی کے روپے سے، جس پر بادشاہ سلامت کی چھاپ ہوتی ہے، پائی خارج نہیں ہوئی تھی۔ میں اتنا زیادہ قلاش نہیں تھاکیونکہ فورٹ میں اپنے پاؤں کے لیے ایک قیمتی شو خریدنے جارہا تھا۔آرمی اینڈ نیوی اسٹور کے اس طرف ہاربنی روڈ پر جوتوں کی ایک دکان ہے جس کی نمائشی الماریاں مجھے بہت دیر سے اس طرف کھینچ رہی تھیں۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہے ،چنانچہ یہ دکان ڈھونڈنے میں کافی وقت صرف ہوگیا۔
یوں تو میں اپنے لیے ایک قیمتی شو خریدنے آیا تھا مگر جیسا کہ میری عادت ہے، دوسری دکانوں میں سجی ہوئی چیزیں دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔ ایک اسٹور میں سگریٹ کیس دیکھے، دوسرے میں پائپ، اسی طرح فٹ پاتھ پر ٹہلتا ہوا جوتوں کی ایک چھوٹی سی دکان کے پاس آیا اور اس کے اندر چلا گیا کہ چلو یہیں سے خرید لیتے ہیں، دکاندار نے میرا استقبال کیا اور پوچھا،’’کیا مانگتا ہے صاحب۔‘‘
میں نے تھوڑی دیر یاد کیا کہ مجھے کیا چاہیے، ’’ہاں۔۔۔ کریپ سول شو۔‘‘
’’ادھر نہیں رکھتا ہم۔‘‘
مون سون قریب تھی۔ میں نے سوچا گم بوٹ ہی خرید لوں،’’گم بوٹ نکالو۔‘‘
’’باجو والے کی دکان سے ملیں گے۔۔۔ ربڑ کی کئی چیز ہم ادھر نہیں رکھتا۔‘‘
میں نے ایسے ہی پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’سیٹھ کی مرضی!‘‘
یہ مختصر مگر جامع جواب سن کر میں دکان سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک خوش پوش آدمی پر میری نظر پڑی جو باہر فٹ پاتھ پر ایک بچہ گود میں اٹھائے پھل والے سے سنگترہ خرید رہا تھا۔ میں باہر نکلا اور وہ دکان کی طرف مڑا، ’’ارے۔۔۔ غلام علی۔۔۔‘‘
’’سعادت !‘‘
یہ کہہ کر اس نے بچے سمیت مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ بچے کو یہ حرکت ناگوار معلوم ہوئی، چنانچہ اس نے رونا شروع کردیا۔ غلام علی نے اس آدمی کو بلایا جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ربڑ کی کوئی چیز ادھر ہم نہیں رکھتا اور اسے بچہ دے کر کہا ’’جاؤ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا، ’’کتنی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملے ہیں۔‘‘
میں نے غلام علی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔ وہ کج کلاہی، وہ ہلکا سا غنڈا پن جو اس کی امتیازی شان تھا۔ اب بالکل مفقود تھا۔۔۔ میرے سامنے آتشیں تقریریں کرنے والے کھادی پوش نوجوان کی جگہ ایک گھریلو قسم کا عام انسان کھڑا تھا۔۔۔ مجھے اس کی وہ آخری تقریر یاد آئی، جب اس نے جلیانوالہ باغ کی خنک فضا کو ان گرم الفاظ سے مرتعش کیا تھا، ’’نگار۔۔۔ تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا۔۔۔‘‘ فوراً ہی مجھے اس بچے کا خیال آیاجو غلام علی کی گود میں تھا۔ میں اس سے یہ پوچھا،’’یہ بچہ کس کا ہے؟‘‘ غلام علی نے بغیر کسی جھجک کے جواب دیا،’’میرا۔۔۔ اس سے بڑا ایک اور بھی ہے۔۔۔ کہو، تم نے کتنے پیدا کیے۔‘‘
ایک لحظے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے غلام علی کے بجائے کوئی اور ہل بول رہا ہے۔ میرے دماغ میں سیکڑوں خیال اوپر تلے گرتے گئے۔ کیا غلام علی اپنی قسم بالکل بھول چکا ہے؟کیا اس کی سیاسی زندگی اس سے قطعاً علیحدہ ہو چکی ہے؟ ہندوستان کو آزادی دلانے کا وہ جوش، وہ ولولہ کہاں گیا؟ اس بے ریش و بروت للکار کا کیا ہوا۔۔۔؟ نگار کہاں تھی۔۔۔؟کیا اس نے دو غلام بچوں کی ماں بننا گوارا کیا۔۔۔؟ شاید وہ مرچکی ہو۔ہو سکتا ہے، غلام علی نے دوسری شادی کرلی ہو۔
’’کیا سوچ رہے ہو۔۔۔ کچھ باتیں کرو۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔‘‘ غلام علی نے میرے کاندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔
میں شاید خاموش ہوگیا تھا۔ ایک دم چونکا اور ایک لمبی ’’ہاں‘‘ کرکے سوچنے لگا کہ گفتگو کیسے شروع کروں۔ لیکن غلام علی نے میرا انتظار نہ کیا اور بولنا شروع کردیا، ’’یہ دکان میری ہے۔ دو برس سے میں یہاں بمبئی میں ہوں۔ بڑا اچھا کاروبار چل رہا ہے۔ تین چار سو مہینے کے بچ جاتے ہیں۔ تم کیا کررہے ہو۔ سنا ہے کہ بہت بڑے افسانہ نویس بن گئے ہو۔ یاد ہے ہم ایک دفعہ یہاں بھاگ کے آئے تھے۔۔۔ لیکن یار عجیب بات ہے،اس بمبئی اور اس بمبئی میں بڑا فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ چھوٹی تھی اور یہ بڑی ہے۔‘‘
اتنے میں ایک گاہک آیا، جسے ٹینس شو چاہیے تھا۔ غلام علی نے اس سے کہا،’’ربڑ کا مال اِدھر نہیں ملتا۔ بازو کی دکان میں چلے جائیے۔‘‘
گاہک چلا گیا تو میں نے غلام سے پوچھا، ’’ربڑ کا مال تم کیوں نہیں رکھتے؟ میں بھی یہاں کریپ سول شو لینے آیا تھا۔‘‘
یہ سوال میں نے یونہی کیا تھالیکن غلام علی کا چہرہ ایک دم بے رونق ہوگیا۔
دھیمی آواز میں صرف اتنا کہا، ’’مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’کیا پسند نہیں؟‘‘
’’یہی ربڑ۔۔۔ ربڑ کی بنی ہوئی چیزیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ جب ناکام رہا تو زور سے خشک سا قہقہہ لگایا، ’’میں تمہیں بتاؤں گا۔ ہے تو بالکل واہیات سی چیز، لیکن۔۔۔ لیکن میری زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔‘‘
تفکر کی گہرائی غلام علی کے چہرے پر پیدا ہوئی۔ اس کی آنکھیں جن میں ابھی تک کھلنڈرا پن موجود تھا، ایک لحظے
لوگ نعرے لگاتے تھے، جلوس نکالتے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں دھڑادھڑ قید ہو رہے تھے۔ گرفتار ہونا ایک دلچسپ شغل بن گیا تھا۔ صبح قید ہوئے۔ شام چھوڑ دیے گئے، مقدمہ چلا، چند مہینوں کی قید ہوئی، واپس آئے، ایک نعرہ لگایا، پھر قید ہوگئے۔
زندگی سے بھرپور دن تھے۔ ایک ننھا سا بلبلہ پھٹنے پر بھی ایک بہت بڑا بھنور بن جاتا تھا۔ کسی نے چوک میں کھڑے ہو کر تقریر کی اور کہا، ’’ہڑتال ہونی چاہیے۔‘‘ چلیے جی، ہڑتال ہوگئی۔ ایک لہر اٹھی کہ ہر شخص کو کھادی پہننی چاہیے تاکہ لنکا شائز کے سارے کارخانے بند ہو جائیں۔۔۔ بدیشی کپڑوں کا بائیکاٹ شروع ہو گیا اور ہر چوک میں الاؤ جلنے لگے، لوگ جوش میں آکر کھڑے کھڑے وہیں کپڑے اتارتے اور الاؤ میں پھینکتے جاتے، کوئی عورت اپنے مکان کے شہ نشین سے اپنی ناپسندیدہ ساڑی اچھالتی تو ہجوم تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ لال کرلیتا۔
مجھے یاد ہے ،کوتوالی کے سامنے ٹاؤن ہال کے پاس ایک الاؤ جل رہا تھا۔۔۔ شیخو نے، جو میرا ہم جماعت تھا، جوش میں آکر اپنا ریشمی کوٹ اتارا اور بدیشی کپڑوں کی چتا میں ڈال دیا۔ تالیوں کا سمندر بہنے لگا۔ کیونکہ شیخو ایک بہت بڑے ’’ٹوڈی بچے‘‘ کا لڑکا تھا، اس غریب کا جوش اور بھی زیادہ بڑھ گیا، اپنی بوسکی کی قمیص اتار وہ بھی شعلوں کی نذر کردی، لیکن بعد میں خیال آیا کہ اس کے ساتھ سونے کے بٹن تھے۔
میں شیخو کا مذاق نہیں اڑاتا، میرا حال بھی ان دنوں بہت دگرگوں تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں سے پستول ہاتھ میں آجائے تو ایک دہشت پسند پارٹی بنائی جائے۔ باپ گورنمنٹ کا پنشن خوار تھا، اس کا مجھے کبھی خیال نہ آیا۔ بس دل و دماغ میں ایک عجیب قسم کی کھد بد رہتی تھی۔ بالکل ویسی ہی جیسی فلاش کھیلنے کے دوران دوپان میں رہا کرتی ہے۔
اسکول سے تو مجھے ویسے ہی دلچسپی نہیں تھی مگر ان دنوں تو خاص طور پر مجھے پڑھائی سے نفرت ہوگئی تھی۔۔۔ گھر سے کتابیں لے کر نکلتا اور جلیانوالہ باغ چلا جاتا، اسکول کا وقت ختم ہونے تک وہاں کی سرگرمیاں دیکھتا رہتا یا کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر دورمکانوں کی کھڑکیوں میں عورتوں کو دیکھتااور سوچتا کہ ضرور ان میں سے کسی کو مجھ سے عشق ہو جائے گا۔۔۔ یہ خیال دماغ میں کیوں آتا، اس کے متعلق میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔
جلیانوالہ باغ میں خوب رونق تھی۔ چاروں طرف تنبو اور قناتیں پھیلی ہوئی تھیں، جو خیمہ سب سے بڑا تھا، اس میں ہر دوسرے تیسرے روز ایک ڈکٹیٹر بناکے بٹھا دیا جاتا تھا۔ جس کو تمام والنٹیر سلامی دیتے تھے۔ دو تین روز یا زیادہ سے زیادہ دس پندرہ روز تک یہ ڈکٹیٹر کھادی پوش عورتوں اور مردوں کی نمسکاریں، ایک مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ وصول کرتا۔ شہر کے بنیوں سے لنگر خانے کے لیے آٹا چاول اکٹھا کرتا اور دہی کی لسی پی پی کر، جو خدا معلوم جلیانوالہ باغ میں کیوں اس قدر عام تھی، ایک دن اچانک گرفتار ہو جاتا اور کسی قید خانے میں چلا جاتا۔
میرا ایک پرانا ہم جماعت تھا شہزادہ غلام علی، اس سے میری دوستی کا اندازہ آپ کو ان باتوں سے ہوسکتا ہے کہ ہم اکٹھے دو دفعہ میٹرک کے امتحان میں فیل ہو چکے تھے اور ایک دفعہ ہم دونوں گھر سے بھاگ کربمبئی گئے ،خیال تھا کہ روس جائیں گے مگر پیسے ختم ہونے پر جب فٹ پاتھوں پرسونا پڑا تو گھر خط لکھے، معافیاں مانگیں اور واپس چلے آئے۔شہزادہ غلام علی خوبصورت جوان تھا۔ لمبا قد، گورا رنگ جو کشمیریوں کا ہوتا ہے۔ تیکھی ناک، کھلنڈری آنکھیں، چال ڈھال میں ایک خاص شان تھی جس میں پیشہ ور غنڈوں کی کج کلاہی کی ہلکی سی جھلک بھی تھی۔
جب وہ میرے ساتھ پڑھتا تھا تو شہزادہ نہیں تھا۔ لیکن جب شہرمیں انقلابی سرگرمیوں نے زور پکڑا اور اس نے دس پندرہ جلسوں اور جلوسوں میں حصہ لیا تو نعروں ،گیندے کے ہاروں، جوشیلے گیتوں اور لیڈی والنٹیرز سے آزادانہ گفتگوؤں نے اسے ایک نیم رس انقلابی بنا دیا، ایک روز اس نے پہلی تقریر کی، دوسرے روز میں نے اخبار دیکھے تو معلوم ہوا کہ غلام علی شہزادہ بن گیا ہے۔
شہزادہ بنتے ہی غلام علی سارے امرتسر میں مشہور ہوگیا۔ چھوٹا سا شہر ہے، وہاں نیک نام ہوتے یا بدنام ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو امرتسری عام آدمیوں کے معاملے میں بہت حرف گیر ہیں، یعنی ہر شخص دوسروں کے عیب ٹٹولنے اور کرداروں میں سوراخ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہےلیکن سیاسی اور مذہبی لیڈروں کے معاملے میں امرتسری بہت چشم پوشی سے کام لیتے ہیں۔ ان کو دراصل ہر وقت ایک تقریر یا تحریک کی ضرورت رہتی ہے۔ آپ انھیں نیلی پوش بنا دیجیے یا سیاہ پوش، ایک ہی لیڈر چولے بدل بدل کر امرتسر میں کافی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن وہ زمانہ کچھ اور تھا۔ تمام بڑے بڑے لیڈر جیلوں میں تھے اور ان کی گدیاں خالی تھیں۔ اس وقت لوگوں کو لیڈروں کی کوئی اتنی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ تحریک جو کہ شروع ہوئی تھی اس کو البتہ ایسے آدمیوں کی اشد ضرورت تھی جو ایک دو روز کھادی پہن کر جلیانوالہ باغ کے بڑے تنبو میں بیٹھیں، ایک تقریر کریں اور گرفتار ہو جائیں۔
ان دنوں یورپ میں نئی نئی ڈکٹیٹر شپ شروع ہوئی تھی، ہٹلر اور مسولینی کا بہت اشتہار ہورہا تھا۔ غالباً اس اثر کے ماتحت کانگریس پارٹی نے ڈکٹیٹر بنانے شروع کردیے تھے۔ جب شہزادہ غلام علی کی باری آئی تو اس سے پہلے چالیس ڈکٹیٹر گرفتار ہو چکے تھے۔
جونہی مجھے معلوم ہوا کہ اس طرح غلام علی ڈکٹیٹر بن گیا ہے تو میں فوراً جلیانوالہ باغ میں پہنچا۔ بڑے خیمے کے باہر والنٹیروں کا پہرہ تھا۔ مگر غلام علی نے جب مجھے اندر سے دیکھا تو بلا لیا۔۔۔ زمین پر ایک گدیلا تھا جس پر کھادی کی چاندنی بچھی تھی۔ اس پر گاؤ تکیوں کا سہارا لیے شہزادہ غلام علی چند کھادی پوش بنیوں سے گفتگو کررہا تھا جو غالباً ترکاریوں کے متعلق تھی۔ چند منٹوں ہی میں اس نے یہ بات چیت ختم کی اور چند رضا کاروں کو احکام دے کروہ میری طرف متوجہ ہوا۔ اس کی یہ غیر معمولی سنجیدگی دیکھ کر میرے گدگدی سی ہو رہی تھی۔ جب رضا کار چلے گئے تو میں ہنس پڑا۔
’’سنا بے شہزادے۔‘‘
میں دیر تک اس سے مذاق کرتا رہا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ غلام علی میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔ ایسی تبدیلی جس سے وہ باخبر ہے ۔ چنانچہ اس نے کئی بار مجھ سے یہی کہا، ’’نہیں سعادت۔۔۔ مذاق نہ اڑاؤ۔ میں جانتا ہوں میرا سر چھوٹا اور یہ عزت جو مجھے ملی ہے بڑی ہے۔۔۔ لیکن میں یہ کھلی ٹوپی ہی پہنے رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
کچھ دیر کے بعد اس نے مجھے دہی کی لسی کا ایک بہت بڑا گلاس پلایا اور میں اس سے یہ وعدہ کرکے گھر چلاگیا کہ شام کو اس کی تقریر سننے کے لیے ضرور آؤں گا۔شام کو جلیانوالہ باغ کھچا کھچ بھرا تھا۔ میں چونکہ جلدی آیا تھا، اس لیے مجھے پلیٹ فارم کے پاس ہی جگہ مل گئی۔۔۔ غلام علی تالیوں کے شور کے ساتھ نمودار ہوا۔۔۔ سفید بے داغ کھادی کے کپڑے پہنے وہ خوبصورت اور پر کشش دکھائی دے رہا تھا۔۔۔ وہ کج کلاہی کی جھلک جس کا میں اس سے پہلے ذکر کر چکا ہوں،اس کی اس کشش میں اضافہ کررہی تھی۔تقریباً ایک گھنٹے تک وہ بولتا رہا۔ اس دوران میں کئی بارمیرے رونگٹے کھڑے ہوئے اور ایک دو دفعہ تو میرے جسم میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بم کی طرح پھٹ جاؤں۔ اس وقت میں نے شاید یہی خیال کیا تھا کہ یوں پھٹ جانے سے ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ بہتے ہوئے احساسات اور واقعات کی نوک پلک جو اس وقت تھی، اب پوری صحت سے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن یہ کہانی لکھتے ہوئے میں جب غلام علی کی تقریر کا تصور کرتا ہوں تو مجھے صرف ایک جوانی بولتی دکھائی دیتی تھی، جو سیاست سے بالکل پاک تھی۔۔۔ اس میں ایک ایسے نوجوان کی پر خلوص بےباکی تھی جو ایک دم کسی راہ چلتی عورت کو پکڑلے اور کہے،’’دیکھو میں تمہیں چاہتا ہوں۔‘‘ اور دوسرے لمحے قانون کے پنجے میں گرفتار ہو جائے ۔اس تقریر کے بعد مجھے کئی تقریریں سننے کا اتفاق ہوا ہےمگر وہ خام دیوانگی، وہ سرپھری جوانی، وہ الھڑ جذبہ، وہ بے ریش و بروت للکار جو میں نے شہزادہ غلام علی کی آواز میں سنی، اب اس کی ہلکی سی گونج بھی مجھے کبھی سنائی نہیں دی۔ اب جو تقریریں سننے میں آتی ہیں،وہ ٹھنڈی سنجیدگی، بوڑھی سیاست اور شاعرانہ ہوش مندی میں لپٹی ہوتی ہیں۔
اس وقت دراصل دونوں پارٹیاں خام کار تھیں،حکومت بھی اور رعایا بھی۔ دونوں نتائج سے بے پروا، ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ حکومت قید کی اہمیت سمجھے بغیر لوگوں کو قید کررہی تھی اور جو قید ہوتے تھے ان کو بھی قید خانوں میں جانے سے پہلے قید کا مقصد معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ایک دھاندلی تھی مگر اس دھاندلی میں ایک آتشیں انتشار تھا۔ لوگ شعلوں کی طرح بھڑکتے تھے، بجھتے تھے، پھر بھڑکتے تھے۔ چنانچہ اس بھڑکنے اور بجھنے، بجھنے اور بھڑکنے نے غلامی کی خوابیدہ، اداس اور جمائیوں بھری فضا میں گرم ارتعاش پیدا کردیا تھا۔
شہزادہ غلام علی نے تقریر ختم کی تو سارا جلیانوالہ باغ تالیوں اور نعروں کا دہکتا ہوا الاؤ بن گیا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ جب میں اس سے الگ جا کر ملا اور مبارک باد دینے کے لیے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبایا تو وہ کانپ رہا تھا۔ یہ گرم کپکپاہٹ اس کے چمکیلے چہرے سے بھی نمایاں تھی۔ وہ کسی قدر ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پرجوش جذبات کی دمک کے علاوہ مجھے ایک تھکی ہوئی تلاش نظر آئی، وہ کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ ایک دم اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور سامنے چنبیلی کی جھاڑی کی طرف بڑھا۔
وہاں ایک لڑکی کھڑی تھی۔ کھادی کی بے داغ ساڑی میں ملبوس۔
دوسرے روز مجھے معلوم ہوا کہ شہزادہ غلام علی عشق میں گرفتار ہے۔ وہ اس لڑکی سے، جسے میں نے چنبیلی کی جھاڑی کے پاس باادب کھڑی دیکھا تھا،محبت کررہا تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں تھی کیونکہ نگار کو بھی اس سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نگار جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک مسلمان لڑکی تھی۔۔۔ یتیم! زنانہ ہسپتال میں نرس تھی اور شاید پہلی مسلمان لڑکی تھی جس نے امرتسر میں بے پردہ ہوکر کانگریس کی تحریک میں حصہ لیا۔ کچھ کھادی کے لباس نے، کچھ کانگریس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے باعث اور کچھ ہسپتال کی فضا نے نگار کی اسلامی خوکو، اس تیکھی چیز کو جو مسلمان عورت کی فطرت میں نمایاں ہوتی ہے تھوڑا سا گھسا دیا تھا جس سے وہ ذرا ملائم ہوگئی تھی۔
وہ حسین نہیں تھی لیکن اپنی جگہ نسوانیت کا ایک نہایت ہی دیدہ چشم منفرد نمونہ تھی۔ انکسار، تعظیم اور پرستش کا وہ ملا جلا جذبہ جو آدرش ہندو عورت کا خاصہ ہے نگار میں اس کی خفیف سی آمیزش نے ایک روح پر ور رنگ پیدا کردیا تھا۔ اس وقت تو شاید یہ کبھی میرے ذہن میں نہ آتا، مگر یہ لکھتے وقت میں نگار کا تصور کرتا ہوں تو وہ مجھے نماز اور آرتی کا دلفریب مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔شہزادہ غلام علی کی وہ پرستش کرتی تھی اور وہ بھی اس پر دل و جان سے فدا تھا ۔جب نگار کے بارے میں اس سے گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ کانگریس تحریک کے دوران میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے ملاپ سے وہ ایک دوسرے کے ہوگئے۔
غلام علی کا ارادہ تھا کہ قید ہونے سے پہلے پہلے وہ نگار کو اپنی بیوی بنالے۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ ایسا کیوں کرنا چاہتا تھا کیونکہ قید سے واپس آنے پر بھی وہ اس سے شادی کرسکتا تھا۔ ان دنوں کوئی اتنی لمبی قید نہیں تھی۔ کم سے کم تین مہینے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس۔ بعضوں کو تو پندرہ بیس روز کے بعد ہی رہا کردیا جاتا تھا تاکہ دوسرے قیدیوں کے لیے جگہ بن جائے۔ بہر حال وہ اس ارادے کو نگار پر بھی ظاہر کرچکا تھا اور وہ بالکل تیار تھی۔ اب صرف دونوں کو بابا جی کے پاس جا کر ان کا آشیرواد لینا تھا۔
بابا جی جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے بہت زبردست ہستی تھی۔ شہر سے باہر لکھ پتی صراف ہری رام کی شاندارکوٹھی میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ یوں تو وہ اکثر اپنے آشرم میں رہتے جو انھوں نے پاس کے ایک گاؤں میں بنا رکھا تھا مگر جب کبھی امرتسر آتے تو ہری رام صراف ہی کی کوٹھی میں اترتے اور ان کے آتے ہی یہ کوٹھی بابا جی کے شیدائیوں کے لیے مقدس جگہ بن جاتی۔ سارا دن درشن کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دن ڈھلے وہ کوٹھی سے باہر کچھ فاصلے پر آم کے پیڑوں کے جھنڈ میں ایک چوبی تخت پر بیٹھ کر لوگوں کو عام درشن دیتے، اپنے آشرم کے لیے چندہ اکٹھا کرتے۔ آخر میں بھجن وغیرہ سن کر ہر روز شام کو یہ جلسہ ان کے حکم سے برخاست ہو جاتا۔بابا جی بہت پرہیز گار، خدا ترس، عالم اور ذہین آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو، مسلمان، سکھ اور اچھوت سب ان کے گرویدہ تھے اور انھیں اپنا امام مانتے تھے۔ سیاست سے گو باباجی کو بظاہر کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر یہ ایک کھلا ہوا راز ہے کہ پنجاب کی ہر سیاسی تحریک انہی کے اشارے پر شروع ہوئی اور انہی کے اشارے پر ختم ہوئی۔
گورنمنٹ کی نگاہوں میں وہ ایک عقدۂ لاینحل تھے، ایک سیاسی چیستاں ،جسے سرکارِ عالیہ کے بڑے بڑے مدبر بھی نہ حل کرسکتے تھے۔ بابا جی کے پتلے پتلے ہونٹوں کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ہزار معنی نکالے جاتے تھے مگر جب وہ خود اس مسکراہٹ کا بالکل ہی نیا مطلب واضح کرتے تو مرعوب عوام اور زیادہ مرعوب ہو جاتے۔
یہ جو امرتسر میں سول نافرمانی کی تحریک جاری تھی اور لوگ دھڑا دھڑ قید ہوررہے تھے، اس کے عقب میں جیسا کہ ظاہر ہے، بابا جی ہی کا اثر کارفرما تھا۔ ہر شام لوگوں کو عام درشن دیتے وقت وہ سارے پنجاب کی تحریک آزادی اور گورنمنٹ کی نت نئی سخت گیریوں کے متعلق اپنے پوپلے منہ سے ایک چھوٹا سا۔۔۔ ایک معصوم سا جملہ نکال دیا کرتے تھے، جسے فوراً ہی بڑے بڑے لیڈر اپنے گلے میں تعویذ بنا کرڈال لیتے تھے۔
لوگوں کا بیان ہے کہ ان کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی قوت تھی، ان کی آواز میں ایک جادو تھا اور ان کا ٹھنڈا دماغ۔۔۔ ان کا وہ مسکراتا ہوتا دماغ، جس کو گندی سے گندی گالی اور زہریلی سے زہریلی طنز بھی ایک لحظے کے ہزارویں حصے کے لیے برہم نہیں کرسکتی تھی، حریفوں کے لیے بہت ہی الجھن کا باعث تھا۔
امرتسر میں بابا جی کے سیکڑوں جلوس نکل چکے تھے، مگر جانے کیا بات ہے کہ میں نے اور تمام لیڈروں کو دیکھا، ایک صرف ان ہی کو میں نے دور سے دیکھا نہ نزدیک سے۔ اسی لیے جب غلام علی نے مجھ سے ان کے درشن کرنے اور ان سے شادی کی اجازت لینے کے متعلق بات چیت کی تو میں نے اس سے کہا کہ جب وہ دونوں جائیں تو مجھے بھی ساتھ لیتے جائیں۔
دوسرے ہی روز غلام علی نے تانگے کا انتظام کیا اور ہم صبح سویرے لالہ ہری رام صراف کی عالی شان کوٹھی میں پہنچ گئے۔ بابا جی غسل اور صبح کی دعا سے فارغ ہو کر ایک خوبصورت پنڈتانی سے قومی گیت سن رہے تھے۔ چینی کی بے داغ سفید ٹائلوں والے فرش پر آپ کھجور کے پتوں کی چٹائی پر بیٹھے تھے، گاؤ تکیہ ان کے پاس ہی پڑا تھا مگر انھوں نے اس کا سہارا نہیں لیا تھا۔کمرے میں سوائے ایک چٹائی کے، جس کے اوپر بابا جی بیٹھے تھے اور فرنیچر وغیرہ نہیں تھا۔ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سفید ٹائلیں چمک رہی تھیں۔ ان کی چمک نے قومی گیت گانے والی پنڈتانی کے ہلکے پیازی چہرے کو اور بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا۔
بابا جی گو ستر بہتر برس کے بڈھے تھے مگر ان کا جسم (وہ صرف گیروے رنگ کا چھوٹا سا تہمد باندھے تھے) عمر کی جھریوں سے بے نیاز تھا، جلد میں ایک عجیب قسم کی ملاحت تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ہر روز اشنان سے پہلے روغن زیتون اپنے جسم پر ملواتے ہیں۔شہزادہ غلام علی کی طرف دیکھ کروہ مسکرائے ،مجھے بھی ایک نظر دیکھا اور ہم تینوں کی بندگی کا جواب اسی مسکراہٹ کو ذرا طویل کرکے دیا اور اشارہ کیا کہ ہم بیٹھ جائیں۔
میں اب یہ تصویر اپنے سامنے لاتا ہوں تو شعور کی عینک سے یہ مجھے دلچسپ ہونے کے علاوہ بہت ہی فکر خیز دکھائی دیتی ہے۔ کھجور کی چٹائی پر ایک نیم برہنہ معمر جوگیوں کا آسن لگائے بیٹھا ہے۔ اس کی بیٹھک سے، اس کے گنجے سر سے، اس کی ادھ کُھلی آنکھوں سے، اس کے سانولے ملائم جسم سے، اس کے چہرے کے ہر خط سے ایک پرسکون اطمینان، ایک بے فکر تیقن مترشح تھا کہ جس مقام پر دنیا نے اسے بٹھا دیا ہے، اب بڑے سے بڑا زلزلہ بھی اسے وہاں سے نہیں گرا سکتا۔۔۔ اس سے کچھ دور وادی کشمیر کی ایک نوخیز کلی، جھکی ہوئی، کچھ اس بزرگ کی قربت کے احترام سے، کچھ قومی گیت کے اثر سے، کچھ اپنی شدید جوانی سے، جو اس کی کھردردی سفید ساڑی سے نکل کر قومی گیت کے علاوہ اپنی جوانی کا گیت بھی گانا چاہتی تھی، جو اس بزرگ کی قربت کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایسی تندرست اور جوان ہستی کی بھی تعظیم کرنے کی خواہش مند تھی جو اس کی نرم کلائی پکڑ کر زندگی کے دہکتے ہوئے الاؤ میں کود پڑے۔ اس کے ہلکے پیازی چہرے سے، اس کی بڑی بڑی سیاہ متحرک آنکھوں سے، اس کے کھادی کے کھردرے بلاؤز میں ڈھکے ہوئے متلاطم سینے سے ،اس معمر جوگی کے ٹھوس تیقن اور سنگین اطمینان کے تقابل میں ایک خاموش صدا تھی کہ آؤ، جس مقام پر میں اس وقت ہوں،وہاں سے کھینچ کر مجھے یا تو نیچے گرا دو یا اس سے بھی اوپر لے جاؤ۔
اس طرف ہٹ کر ہم تین بیٹھے تھے۔ میں، نگار اور شہزادہ غلام علی۔۔۔۔ میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا۔ بابا جی کی شخصیت سے بھی متاثر تھا اور اس پنڈتانی کے بے د اغ حسن سے بھی۔ فرش کی چمکیلی ٹائلوں نے بھی مجھے مرعوب کیا تھا۔ کبھی سوچتا تھا کہ ایسی ٹائلوں والی ایک کوٹھی مجھے مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ پھر سوچتا تھا کہ یہ پنڈتانی مجھے اور کچھ نہ کرنے دے، ایک صرف مجھے اپنی آنکھیں چوم لینے دے۔ اس کے تصور سے بدن میں تھرتھری پیدا ہوتی تو جھٹ اپنی نوکرانی کا خیال آتا جس سے تازہ تازہ مجھے کچھ وہ ہوا تھا۔ جی میں آتا کہ ان سب کو، یہاں چھوڑ کر سیدھا گھر جاؤں۔۔۔ شاید نظر بچا کر اسے اوپر غسل خانے تک لے جانے میں کامیاب ہو سکوں، مگر جب بابا جی پر نظر پڑتی اور کانوں میں قومی گیت کے پرجوش الفاظ گونجتے تو ایک دوسری تھرتھری بدن میں پیدا ہوتی اور میں سوچتا کہ کہیں سے پستول ہاتھ آجائے تو سول لائن میں جا کر انگریزوں کو مارنا شروع کردوں۔
اس چغد کے پاس نگار اور غلام علی بیٹھے تھے۔ دو محبت کرنے والے دل، جو تنہا محبت میں دھڑکتے دھڑکتے اب شاید کچھ اکتا گئے تھے اور جلدی ایک دوسرے میں محبت کے دوسرے رنگ دیکھنے کے لیے مدغم ہونا چاہتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں وہ بابا جی سے، اپنے مسلمہ سیاسی رہنما سے شادی کی اجازت لینے آئے تھے اور جیسا کہ ظاہر ہے ان دونوں کے دماغ میں اس وقت قومی گیت کے بجائے ان کی اپنی زندگی کا حسین ترین مگر ان سنا نغمہ گونج رہا تھا۔
گیت ختم ہوا ،بابا جی نے بڑے مشفقانہ انداز سے پنڈتانی کو ہاتھ کے اشارے سے آشیرواد دیا اور مسکراتے ہوئے نگار اور غلام علی کی طرف متوجہ ہوئے۔ مجھے بھی انھوں نے ایک نظر دیکھ لیا۔غلام علی شاید تعارف کے لیے اپنا اور نگار کا نام بتانے والا تھا مگر بابا جی کا حافظہ بلا کا تھا۔ انھوں نے فوراً ہی اپنی میٹھی آواز میں کہا،’’شہزادے ،ابھی تک تم گرفتار نہیں ہوئے؟‘‘
غلام علی نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’جی نہیں۔‘‘
بابا جی نے قلم دان سے ایک پنسل نکالی اور اس سے کھیلتے ہوئے کہنے لگے، ’’مگر میں تو سمجھتا ہوں تم گرفتار ہو چکے ہو۔‘‘
غلام علی اس کا مطلب نہ سمجھ سکا۔ لیکن بابا جی نے فوراً ہی پنڈتانی کی طرف دیکھا اور نگار کی طرف اشارہ کرکے،’’نگار نے ہمارے شہزادے کو گرفتار کرلیا ہے۔‘‘
نگار محجوب سی ہوگئی۔ غلام علی کا منہ فرطِ حیرت سےکھلا کا کھلا رہ گیا اور پنڈتانی کے پیازی چہرے پر ایک دعائیہ چمک سی آئی۔ اس نے نگار اور غلام علی کو کچھ اس طرح دیکھا جیسے یہ کہہ رہی ہے، ’’بہت اچھا ہوا۔‘‘ بابا جی ایک بار پھر پنڈتانی کی طرف متوجہ ہوئے، ’’یہ بچے مجھ سے شادی کی اجازت لینے آئے ہیں۔۔۔ تم کب شادی کررہی ہو کمل؟‘‘
تو اس پنڈتانی کا نام کمل تھا۔ بابا جی کے اچانک سوال سے وہ بوکھلا گئی۔ اس کا پیازی چہرہ سرخ ہوگیا۔ کانپتی ہوئی آواز میں اس نے جواب دیا، ’’میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔‘‘ ایک ہلکی سی آہ بھی ان الفاظ میں لپٹ کرباہر آئی جسے بابا جی کے ہشیار دماغ نے فوراً نوٹ کیا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر جوگیانہ انداز میں مسکرائے اور غلام علی اور نگار سے مخاطب ہو کرکہنے لگے،’’ تو تم دونوں فیصلہ کر چکے ہو۔‘‘
دونوں نے دبی زبان میں جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘
بابا جی نے اپنی سیاست بھری آنکھوں سے ان کو دیکھا،’’انسان جب فیصلے کرتا ہے تو کبھی کبھی ان کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔‘‘
پہلی دفعہ بابا جی کی بارعب موجودگی میں غلام علی نے، اس کی الھڑ اور بیباک جوانی نے کہا،’’یہ فیصلہ اگر کسی وجہ سے تبدیل ہو جائے تو بھی اپنی جگہ پر اٹل رہے گا۔‘‘
بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں اور جرح کے انداز میں پوچھا،’’کیوں؟‘‘
حیرت ہے کہ غلام علی بالکل نہ گھبرایا۔ شاید اس دفعہ نگارسے جو اسے پرخلوص محبت تھی وہ بول اٹھی، ’’بابا جی ہم نے ہندوستان کو آزادی دلانے کا جو فیصلہ کیا ہے، وقت کی مجبوریاں اسے تبدیل کرتی رہیں مگر جو فیصلہ ہے وہ تو اٹل ہے۔‘‘ بابا جی نے جیسا کہ میرا اب خیال ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا مناسب خیال نہ کیا چنانچہ وہ مسکرا دیے۔۔۔ اس مسکراہٹ کا مطلب بھی ان کی تمام مسکراہٹوں کی طرح ہر شخص نے بالکل الگ الگ سمجھا۔ اگر بابا جی سے پوچھا جاتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا مطلب ہم سب سے بالکل مختلف بیان کرتے۔
خیر۔۔۔ اس ہزار پہلو مسکراہٹ کو اپنے پتلے ہونٹوں پر ذرا اور پھیلاتے ہوئے انھوں نے نگار سے کہا،’’نگار تم ہمارے آشرم میں آجاؤ۔۔۔ شہزادہ تو تھوڑے دنوں میں قید ہو جائے گا۔‘‘
نگار نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا، ’’جی اچھا۔‘‘
اس کے بعد بابا جی نے شادی کا موضوع بدل کر جلیانوالہ باغ کیمپ کی سرگرمیوں کا حال پوچھنا شروع کردیا۔ بہت دیر تک غلام علی، نگار اور کمل گرفتاریوں، رہائیوں، دودھ،لسی اور ترکاریوں کے متعلق باتیں کرتے رہے اور جو میں بالکل چغد بنا بیٹھا تھا، یہ سوچ رہا تھا کہ بابا جی نے شادی کی اجازت دینے میں کیوں اتنی مین میخ کی ہے۔ کیا وہ غلام علی اور نگار کی محبت کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔۔۔؟ کیا انھیں غلام علی کے خلوص پرشبہ ہے؟
نگار کو انھوں نے کیا آشرم میں آنے کی اس لیے دعوت دی کہ وہاں رہ کر وہ اپنے قید ہونے والے شوہر کا غم بھول جائے گی۔۔۔؟لیکن بابا جی کے اس سوال پر’’ کمل تم کب شادی کررہی ہو؟‘‘ کمل نے کیوں کہا تھا کہ میں تو آپ کے آشرم میں جارہی ہوں۔۔۔؟ آشرم میں کیا مرد عورت شادی نہیں کرتے۔۔۔۔؟ میرا ذہن عجب مخمصے میں گرفتار تھا۔ مگر ادھر یہ گفتگو ہورہی تھی کہ لیڈی والنٹیرز کیا پانچ سو رضاکاروں کے لیے چپاتیاں وقت پر تیار کرلیتی ہیں؟ چولہے کتنے ہیں؟ اور توے کتنے بڑے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بہت بڑا چولہا بنالیا جائے اور اس پر اتنا بڑا توا رکھا جائے کہ چھ عورتیں ایک ہی وقت میں روٹیاں پکا سکیں؟
میں یہ سوچ رہا تھا کہ پنڈتانی کمل کیا آشرم میں جا کر باباجی کو بس قومی گیت اور بھجن ہی سنایا کرے گی۔ میں نے آشرم کے مرد والنٹیر دیکھے تھے۔ گر وہ سب کے سب وہاں کے قواعد کے مطابق ہر روز اشنان کرتے تھے، صبح اٹھ کر داتن کرتے تھے، باہر کھلی ہوا میں رہتے تھے، بھجن گاتے تھے،مگر ان کے کپڑوں سے پسینے کی بو پھر بھی آتی تھی۔ ان میں اکثر کے دانت بدبودار تھے اور وہ جو کھلی فضا میں رہنے سے انسان پر ایک ہشاش بشاش نکھار آتا ہے،ان میں بالکل مفقود تھا۔
جھکے جھکے سے، دبے دبے سے۔۔۔ زرد چہرے،دھنسی ہوئی آنکھیں، مرعوب جسم۔۔۔ گائے کے نچڑے ہوئے تھنوں کی طرح بے حس اور بے جان۔۔۔ میں ان آشرم والوں کو جلیانوالہ باغ میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔۔۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہی مرد جن سے گھاس کی بو آتی ہے،اس پنڈتانی کو جو دودھ، شہد اور زعفران کی بنی ہے، اپنی کیچڑ بھری آنکھوں سے گھوریں گے۔ کیا یہی مرد جن کا منہ اس قدر متعفن ہوتا ہے، اس لوبان کی مہک میں لپٹی ہوئی عورت سے گفتگو کریں گے؟
لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں ہندوستان کی آزادی شاید ان چیزوں سے بالاتر ہے۔ میں اس ’’شاید‘‘ کو اپنی تمام حب الوطنی اور جذبۂ آزادی کے باوجود نہ سمجھ سکا۔ کیونکہ مجھے نگار کا خیال آیا جو بالکل میرے قریب بیٹھی تھی اور بابا جی کو بتارہی تھی کہ شلجم بہت دیر میں گلتے ہیں۔۔۔ کہاں شلجم اور کہاں شادی جس کے لیے وہ اور غلام علی اجازت لینے آئے تھے۔
میں نگار اور آشرم کے متعلق سوچنے لگا۔ آشرم میں نے دیکھا نہیں تھا،مگر مجھے ایسی جگہوں سے جن کو آشرم، ودیالہ جماعت خانہ، تکیہ، یا درس گاہ کہا جائے، ہمیشہ سے نفرت ہے۔ جانے کیوں؟میں نے کئی اندھ ودیالوں اور اناتھ آشرموں کے لڑکوں اور ان کے متنظموں کو دیکھا ہے، سڑک میں قطار باندھ کرچلتے اور بھیک مانگتے ہوئے۔ میں نے جماعت خانے اور درس گاہیں دیکھی ہیں۔ ٹخنوں سے اونچا شرعی پائجامہ، بچپن ہی میں ماتھے پر محراب، جو بڑے ہیں ان کے چہرے پر گھنی داڑھی۔۔۔ جو نوخیر ہیں ان کے گالوں اور ٹھڈی پر نہایت ہی بدنما موٹے اور مہین بال۔۔۔ نماز پڑھتے جارہے ہیں لیکن ہر ایک کے چہرے پر حیوانیت۔۔۔ ایک ادھوری حیوانیت مصلے پر بیٹھی نظر آتی ہے۔
نگار عورت تھی۔ مسلمان، ہندو، سکھ یا عیسائی عورت نہیں۔۔۔ وہ صرف عورت تھی، نہیں عورت کی دعا تھی جو اپنے چاہنے والے کے لیے یا جسے وہ خود چاہتی ہے صدق دل سے مانگتی ہے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ بابا جی کے آشرم میں جہاں ہر روز قواعد کے مطابق دعا مانگی جاتی ہے۔ یہ عورت جو خود ایک دعا ہے، کیسے اپنے ہاتھ اٹھا سکے گی۔
میں اب سوچتا ہوں تو باباجی، نگار، غلام علی، وہ خوبصورت پنڈتانی اور امرتسر کی ساری فضا جو تحریک آزادی کے رومان آفریں کیف میں لپٹی ہوئی تھی، ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ ایسا خواب جو ایک بار دیکھنے کے بعد جی چاہتا ہے آدمی پھر دیکھے۔ بابا جی کا آشرم میں نے اب بھی نہیں دیکھا، مگر جو نفرت مجھے اس سے پہلے تھی اب بھی ہے۔وہ جگہ جہاں فطرت کے خلاف اصول بنا کر انسانوں کو ایک لکیر پرچلایا جائے، میری نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ آزادی حاصل کرنا بالکل ٹھیک ہے! اس کے حصول کے لیے آدمی مر جائے، میں اس کو سمجھ سکتا ہوں، لیکن اس کے لیے اگر اس غریب کو ترکاری کی طرح ٹھنڈا اور بے ضرر بنا دیا جائے تو یہی میری سمجھ سے بالکل بالاتر ہے۔
جھونپڑوں میں رہنا، تن آسانیوں سے پرہیز کرنا، خدا کی حمد گانا، قومی نعرے مارنا۔۔۔ یہ سب ٹھیک ہے ،مگر یہ کیا کہ انسان کی اس حِس کو جسے طلبِ حسن کہتے ہیں آہستہ آہستہ مردہ کردیا جائے۔ وہ انسان کیا جس میں خوبصورتی اور ہنگاموں کی تڑپ نہ رہے۔ ایسے آشرموں، مدرسوں، ودیالوں اور مولیوں کے کھیت میں کیا فرق ہے۔
دیر تک بابا جی، غلام علی اور نگار سے جلیانوالہ باغ کی جملہ سرگرمیوں کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ آخر میں انھوں نے اس جوڑے کو، جو کہ ظاہر ہے کہ اپنے آنے کا مقصد بھول نہیں گیا تھا، کہا کہ وہ دوسرے روز شام کو جلیانوالہ باغ آئیں گے اور ان دونوں کو میاں بیوی بنا دیں گے۔
غلام علی اور نگار بہت خوش ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان کی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی تھی کہ بابا جی خود شادی کی رسم ادا کریں گے۔ غلام علی، جیسا کہ اس نے مجھے بہت بعد میں بتایا، اس قدر خوش ہوا تھا کہ فوراً ہی سے اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ شاید جو کچھ اس نے سنا ہے غلط ہے۔ کیونکہ بابا جی کے منحنی ہاتھوں کی خفیف سی جنبش بھی ایک تاریخی حادثہ بن جاتی تھی۔ اتنی بڑی ہستی ایک معمولی آدمی کی خاطر جو محض اتفاق سے کانگریس کا ڈکٹیٹر بن گیا ہے، چل کے جلیانوالہ باغ جائے اور اس کی شادی میں دلچسپی لے۔ یہ ہندوستان کے تمام اخباروں کے پہلے صفحے کی جلی سرخی تھی۔
غلام علی کا خیال تھا بابا جی نہیں آئیں گے کیونکہ وہ بہت مصروف آدمی ہیں لیکن اس کا یہ خیال، جس کا اظہار دراصل اس نے نفسیاتی نقطہ نگاہ سے صرف اس لیے کیا تھا کہ وہ ضرور آئیں، اس کی خواہش کے مطابق غلط ثابت ہوا۔۔۔ شام کے چھ بجے جلیانوالہ باغ میں جب رات کی رانی کی جھاڑیاں اپنی خوشبو کے جھونکے پھیلانے کی تیاریاں کررہی تھیں اور متعدد رضاکار دولہا دلہن کے لیے ایک چھوٹا تنبو نصب کرکے اسے چمیلی، گیندے اور گلاب کے پھولوں سے سجا رہے تھے،بابا جی اس قومی گیت گانے والی پنڈتانی، اپنے سیکریٹری اور لالہ ہری رام صراف کے ہم راہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے آئے۔ ان کی آمد کی اطلاع جلیانوالہ باغ میں صرف اسی وقت پہنچی، جب صدر دروازے پر لالہ ہری رام کی ہری موٹر رکی۔
میں بھی وہیں تھا۔ لیڈی والنٹیرز ایک دوسرے تنبو میں نگار کو دلہن بنا رہی تھیں۔ غلام علی نے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا۔ سارا دن وہ شہر کے کانگریسی بنیوں سے رضا کاروں کے کھانے پینے کی ضروریات کے متعلق گفتگو کرتا رہا تھا۔ اس سے فارغ ہوکر اس نے چند لمحات کے لیے نگار سے تخلیے میں کچھ بات چیت کی تھی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں جانتا ہوں، اس نے اپنے ماتحت افسروں سے صرف اتنا کہا تھا کہ شادی کی رسم ادا ہونے کے ساتھ ہی وہ اور نگار دونوں جھنڈا اونچا کریں گے۔
جب غلام علی کو بابا جی کی آمد کی اطلاع پہنچی تو وہ کنوئیں کے پاس کھڑا تھا۔ میں غالباً اس سے یہ کہہ رہا تھا،’’غلام علی تم جانتے ہوں یہ کنواں، جب گولی چلی تھی، لاشوں سے لبالب بھر گیا تھا۔۔۔ آج سب اس کا پانی پیتے ہیں۔۔۔ اس باغ کے جتنے پھول ہیں۔ اس کے پانی نے سینچے ہیں۔ مگر لوگ آتے ہیں اور انھیں توڑ کر لے جاتے ہیں۔۔۔ پانی کے کسی گھونٹ میں لہو کا نمک نہیں ہوتا، پھول کی کسی پتی میں خون کی لالی نہیں ہوتی۔۔۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘
مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے یہ کہہ کر اپنے سامنے، اس مکان کی کھڑکی کی طرف دیکھا جس میں، کہا جاتا ہے کہ ایک نو عمر لڑکی بیٹھی تماشا دیکھ رہی تھی اور جنرل ڈائر کی گولی کا نشانہ بن گئی تھی۔ اس کے سینے سے نکلے ہوئے خون کی لکیر چونے کی عمر رسیدہ دیوار پر دھندلی ہورہی تھی۔اب خون کچھ اس قدر ارزاں ہوگیا کہ اس کے بہنے بہانے کا وہ اثر ہی نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے چھ سات مہینے بعد جب میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا،مارا ماسٹر ساری کلاس کو ایک دفعہ اس باغ میں لے گیا۔ اس وقت یہ باغ باغ نہیں تھا۔ اجاڑ، سنسان اور اونچی نیچی خشک زمین کا ایک ٹکڑا تھا، جس میں ہر قدم پر مٹی کے چھوٹے بڑے ڈھیلے ٹھوکریں کھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے مٹی کا ایک چھوٹا سا ڈھیلا جس پر جانے پان کی پیک کے دھبے یا کیا تھا، ہمارے ماسٹر نے اٹھا لیا تھا اور ہم سے کہا تھا۔ دیکھو اس پر ابھی تک ہمارے شہیدوں کا خون لگا ہے۔
یہ کہانی لکھ رہا ہوں اور حافظے کی تختی پر سیکڑوں چھوٹی چھوٹی باتیں ابھر رہی ہیں مگر مجھے تو غلام علی اور نگار کی شادی کا قصہ بیان کرنا ہے۔
غلام علی کو جب بابا جی کی آمد کی خبر ملی تو اس نے دوڑ کر سب والنٹیر اکٹھے کیے جنہوں نے فوجی انداز میں ان کو سیلوٹ کیا۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ واور غلام علی مختلف کیمپوں کا چکرلگاتے رہے۔ اس دوران میں بابا جی نے، جن کی مزاحیہ حس بہت تیز تھی، لیڈی والنٹیرز اور دوسرے ورکرز سے گفتگوکرتے وقت کئی فقرے چست کیے۔
ادھر ادھر مکانوں میں جب بتیاں جلنے لگیں اور دھندلا اندھیرا سا جلیانوالہ باغ پر چھا گیا تو رضا کار لڑکیوں نے ایک آواز ہو کر بھجن گانا شروع کیا۔ چند آوازیں سریلی، باقی سب کن سری تھیں مگر ان کا مجموعی اثر بہت خوشگوار تھا۔ بابا جی آنکھیں بندکیے سن رہے تھے۔ تقریباً ایک ہزار آدمی موجود تھے،جو چبوترے کے اردگرد زمین پر بیٹھے تھے۔ بھجن گانے والی لڑکیوں کے علاوہ ہر شخص خاموش تھا۔بھجن ختم ہونے پر چند لمحات تک ایسی خاموشی طاری رہی جو ایک دم ٹوٹنے کے لیے بے قرارہو۔ چنانچہ جب بابا جی نے آنکھیں کھولیں اور اپنی میٹھی آواز میں کہا، ’’بچو، جیسا کہ تمہیں معلوم ہے،میں یہاں آج آزادی کے دو دیوانوں کو ایک کرنے آیا ہوں۔‘‘ تو سارا باغ خوشی کے نعروں سے گونج اٹھا۔
نگار دلہن بنی چبوترے کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ کھادی کی ترنگی ساڑی میں بہت بھلی دکھائی دے رہی تھی۔ بابا جی نے اشارے سے اسے بلایا اور غلام علی کے پاس بٹھا دیا۔ اس پر اور خوشی کے نعرے بلند ہوئے۔غلام علی کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتما رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا، جب اس نے نکاح کا کاغذ اپنے دوست سے لے کربابا جی کو دیا تو اس کا ہاتھ لرز گیا۔ چبوترے پر ایک مولوی صاحب بھی موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جو ایسے موقعوں پر پڑھا کرتے ہیں۔ بابا جی نے آنکھیں بند کرلیں۔ ایجاب و قبول ختم ہوا تو انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں دولھا دلہن کو آشیرواد دی اور جب چھوہاروں کی بارش شروع ہوئی تو انھوں نے بچوں کی طرح جھپٹ جھپٹ کر دس پندرہ چھوہارے اکٹھے کرکے اپنے پاس رکھ لیے۔
نگار کی ایک ہندو سہیلی نے شرمیلی مسکراہٹ سے ایک چھوٹی سی ڈبیا غلام علی کو دی اور اس سے کچھ کہا۔ غلام علی نے ڈبیا کھولی اور نگار کی سیدھی مانگ میں سیندور بھر دیا۔ جلیانوالہ باغ کی خنک فضا ایک بار پھر تالیوں کی تیز آواز سے گونج اٹھی۔
بابا جی اس شور میں اٹھے۔ ہجوم ایک دم خاموش ہوگیا۔
رات کی رانی اور چمیلی کی ملی جلی سوندھی سوندھی خوشبو، شام کی ہلکی پھلکی ہوا میں تیر رہی تھی، بہت سہانا سماں تھا، بابا جی کی آواز آج اور بھی میٹھی تھی۔ غلام علی اور نگار کی شادی پر اپنی دلی مسرت کا اظہار کرنے کے بعد انھوں نے کہا:یہ دونوں بچے اب زیادہ تندہی اور خلوص سے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کریں گے۔ کیونکہ شادی کا صحیح مقصد مرد اور عورت کی پرخلوص دوستی ہے۔ ایک دوسرے کے دوست بن کر غلام علی اور نگار یکجہتی سے سوراج کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔ یورپ میں ایسی کئی شادیاں ہوتی ہیں جن کا مطلب دوستی اور صرف دوستی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ قابل احترام ہیں جو اپنی زندگی سے شہوت نکال پھینکتے ہیں۔
بابا جی دیر تک شادی کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ صحیح مزا صرف اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب مرد اور عورت کا تعلق صرف جسمانی نہ ہو۔ عورت اور مرد کا شہوانی رشتہ ان کے نزدیک اتنا اہم نہیں تھا جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ ہزاروں آدمی کھاتے ہیں، اپنے ذائقے کی حس کو خوش کرنے کے لیےلیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنا انسانی فرض ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو کھاتے ہیں زندہ رہنے کے لیے ۔اصل میں صرف یہی لوگ ہیں جو خوردونوش کے صحیح قوانین جانتے ہیں۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف اس لیے شادی کرتے ہیں کہ انھیں شادی کے مطہر جذبے کی حقیقت اور اس رشتے کی تقدیس معلوم ہو،حقیقی معنوں میں ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بابا جی نے اپنے اس عقیدے کو کچھ اس وضاحت، کچھ ایسے نرم و نازک خلوص سے بیان کیا کہ سننے والوں کے لیے ایک بالکل نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔ میں خود بہت متاثر ہوا۔ غلام علی جو میرے سامنے بیٹھا تھا، بابا جی کی تقریر کے ایک ایک لفظ کو جیسے پی رہا تھا۔ بابا جی نے جب بولنا بند کیا تو اس نے نگار سے کچھ کہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اس نے کانپتی ہوئی آواز میں یہ اعلان کیا،’’میری اور نگار کی شادی اسی قسم کی آدرش شادی ہوگی، جب تک ہندوستان کو سوراج نہیں ملتا،میرا اور نگار کا رشتہ بالکل دوستوں جیسا ہوگا۔۔۔‘‘
جلیانوالہ باغ کی خنک فضا دیر تک تالیوں کے بے پناہ شور سے گونجتی رہی۔ شہزادہ غلام علی جذباتی ہوگیا۔ اس کے کشمیری چہرے پر سرخیاں دوڑنے لگیں۔ جذبات کی اسی دوڑ میں اس نے نگار کو بلند آواز میں مخاطب کیا، ’’نگار! تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا؟‘‘ نگار جو کچھ شادی ہونے پر اور کچھ بابا جی کی تقریر سن کر بوکھلائی ہوئی تھی، یہ کڑک سوال سن کر اور بھی بوکھلا گئی۔ صرف اتنا کہہ سکی، ’’جی۔۔۔؟ جی نہیں۔‘‘
ہجوم نے پھر تالیاں پیٹیں اور غلام علی اور زیادہ جذباتی ہوگیا۔ نگار کو غلام بچے کی شرمندگی سے بچا کر وہ اتنا خوش ہوا کہ وہ بہک گیا اور اصل موضوع سے ہٹ کر آزادی حاصل کرنے کی پیچ دار گلیوں میں جا نکلا۔ ایک گھنٹے تک وہ جذبات بھری آواز میں بولتا رہا۔ اچانک اس کی نظر نگار پر پڑی۔ جانے کیا ہوا۔۔۔ ایک دم اس کی قوت گویائی جواب دے گئی۔ جیسے آدمی شراب کے نشے میں بغیر کسی حساب کے نوٹ نکالتا جائے اور ایک دم بٹوہ خالی پائے۔ اپنی تقریر کا بٹوہ خالی پا کر غلام علی کو کافی الجھن ہوئی مگر اس نے فوراً ہی بابا جی کی طرف دیکھا اور جھک کرکہا،’’بابا جی۔۔۔ ہم دونوں کو آپ کا آشیرواد چاہیے کہ جس بات کا ہم نے عہد کیا ہے، اس پر پورے رہیں۔‘‘
دوسرے روز صبح چھ بجے شہزادہ غلام علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ کیونکہ اس تقریر میں جو اس نے سوراج ملنے تک بچہ پیدا نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد کی تھی، انگریزوں کا تختہ الٹنے کی دھمکی بھی تھی۔گرفتار ہونے کے چند روز بعد غلام علی کو آٹھ مہینے کی قید ہوئی اور ملتان جیل بھیج دیا گیا۔ وہ امرتسر کا اکیالیسواں ڈکٹیٹر تھا اور شاید چالیس ہزارواں سیاسی قیدی۔ کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے، اس تحریک میں قید ہونے والے لوگوں کی تعداد اخباروں نے چالیس ہزار ہی بتائی تھی۔
عام خیال تھا کہ آزادی کی منزل اب صرف دو ہاتھ ہی دور ہے۔ لیکن فرنگی سیاست دانوں نے اس تحریک کا دودھ ابلنے دیا اور جب ہندوستان کے بڑے لیڈروں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو یہ تحریک ٹھنڈی لسی میں تبدیل ہوگئی۔آزادی کے دیوانے جیلوں سے باہر نکلے تو قید کی صعوبتیں بھولنے اور اپنے بگڑے ہوئے کاروبار سنوارنے میں مشغول ہو گئے۔ شہزادہ غلام علی سات مہینے کے بعد ہی باہر آگیا تھا۔ گو اس وقت پہلا سا جوش نہیں تھا،پھر بھی امرتسر کے اسٹیشن پر لوگوں نے اس کا استقبال کیا۔ اس کے اعزاز میں تین چار دعوتیں اور جلسے بھی ہوئے۔ میں ان سب میں شریک تھا مگر یہ محفلیں بالکل پھیکی تھیں۔ لوگوں پر اب ایک عجیب قسم کی تھکاوٹ طاری تھی جیسے ایک لمبی دوڑ میں اچانک دوڑنے والوں سے کہہ دیا گیا تھا، ’’ٹھہرو، یہ دوڑ پھر سے شروع ہوگی۔‘‘ اور اب جیسے یہ دوڑنے والے کچھ دیر ہانپنے کے بعد دوڑ کے مقام آغاز کی طرف بڑی بے دلی کے ساتھ واپس آرہے تھے۔
کئی برس گزر گئے۔۔۔ یہ بے کیف تھکاوٹ ہندوستان سے دور نہ ہوئی تھی۔ میری دنیا میں چھوٹے موٹے کئی انقلاب آئے۔ داڑھی مونچھ اگی، کالج میں داخل ہوا، ایف اے میں دوبارہ فیل ہوا،والد انتقال کرگئے، روزی کی تلاش میں ادھر ادھر پریشان ہوا، ایک تھرڈ کلاس اخبار میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کی، یہاں سے جی گھبرایا تو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور تین ہی مہینے بعد دق کا مریض ہو کرکشمیر کے دیہاتوں میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ وہاں سے لوٹ کر بمبئی کا رخ کیا۔ یہاں دو برسوں میں تین ہندو مسلم فساد دیکھے۔ جی گھبرایا تو دلی چلا گیا۔ وہاں بمبئی کے مقابلے میں ہر چیز سست رفتار دیکھی۔ کہیں حرکت نظر بھی آئی تو اس میں ایک زنانہ پن محسوس ہوا۔ آخر یہی سوچا کہ بمبئی اچھا ہے۔ کیا ہوا ساتھ والے ہمسائے کو ہمارا نام تک پوچھنے کی فرصت نہیں۔ جہاں لوگوں کو فرصت ہوتی ہے،وہاں ریا کاریاں اور چال بازیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ دلی میں دو برس ٹھنڈی زندگی بسر کرنے کے بعد سدا متحرک بمبئی چلا آیا۔
گھر سے نکلے اب آٹھ برس ہو چلے تھے۔ دوست احباب اور امرتسر کی سڑکیں، گلیاں کس حالت میں ہیں، اس کا مجھے کچھ علم نہیں تھا، کسی سے خط و کتابت ہی نہیں تھی جو پتہ چلتا۔ دراصل مجھے ان آٹھ برسوں میں اپنے مستقبل کی طرف سے کچھ بے پروائی سی ہوگئی تھی۔۔۔ کون بیتے ہوئے دنوں کے متعلق سوچے۔ جو آٹھ برس پہلے خرچ ہو چکا ہے،اس کا اب احساس کرنے سے فائدہ۔۔۔؟ زندگی کے روپے میں وہی پائی زیادہ اہم ہے جسے تم آج خرچنا چاہتے ہو یا جس پرکل کسی کی آنکھ ہے۔
آج سے چھ برس پہلے کی بات کررہا ہوں، جب زندگی کے روپے اور چاندی کے روپے سے، جس پر بادشاہ سلامت کی چھاپ ہوتی ہے، پائی خارج نہیں ہوئی تھی۔ میں اتنا زیادہ قلاش نہیں تھاکیونکہ فورٹ میں اپنے پاؤں کے لیے ایک قیمتی شو خریدنے جارہا تھا۔آرمی اینڈ نیوی اسٹور کے اس طرف ہاربنی روڈ پر جوتوں کی ایک دکان ہے جس کی نمائشی الماریاں مجھے بہت دیر سے اس طرف کھینچ رہی تھیں۔ میرا حافظہ بہت کمزور ہے ،چنانچہ یہ دکان ڈھونڈنے میں کافی وقت صرف ہوگیا۔
یوں تو میں اپنے لیے ایک قیمتی شو خریدنے آیا تھا مگر جیسا کہ میری عادت ہے، دوسری دکانوں میں سجی ہوئی چیزیں دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔ ایک اسٹور میں سگریٹ کیس دیکھے، دوسرے میں پائپ، اسی طرح فٹ پاتھ پر ٹہلتا ہوا جوتوں کی ایک چھوٹی سی دکان کے پاس آیا اور اس کے اندر چلا گیا کہ چلو یہیں سے خرید لیتے ہیں، دکاندار نے میرا استقبال کیا اور پوچھا،’’کیا مانگتا ہے صاحب۔‘‘
میں نے تھوڑی دیر یاد کیا کہ مجھے کیا چاہیے، ’’ہاں۔۔۔ کریپ سول شو۔‘‘
’’ادھر نہیں رکھتا ہم۔‘‘
مون سون قریب تھی۔ میں نے سوچا گم بوٹ ہی خرید لوں،’’گم بوٹ نکالو۔‘‘
’’باجو والے کی دکان سے ملیں گے۔۔۔ ربڑ کی کئی چیز ہم ادھر نہیں رکھتا۔‘‘
میں نے ایسے ہی پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
’’سیٹھ کی مرضی!‘‘
یہ مختصر مگر جامع جواب سن کر میں دکان سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ ایک خوش پوش آدمی پر میری نظر پڑی جو باہر فٹ پاتھ پر ایک بچہ گود میں اٹھائے پھل والے سے سنگترہ خرید رہا تھا۔ میں باہر نکلا اور وہ دکان کی طرف مڑا، ’’ارے۔۔۔ غلام علی۔۔۔‘‘
’’سعادت !‘‘
یہ کہہ کر اس نے بچے سمیت مجھے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ بچے کو یہ حرکت ناگوار معلوم ہوئی، چنانچہ اس نے رونا شروع کردیا۔ غلام علی نے اس آدمی کو بلایا جس نے مجھ سے کہا تھا کہ ربڑ کی کوئی چیز ادھر ہم نہیں رکھتا اور اسے بچہ دے کر کہا ’’جاؤ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا، ’’کتنی دیر کے بعد ہم ایک دوسرے سے ملے ہیں۔‘‘
میں نے غلام علی کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔ وہ کج کلاہی، وہ ہلکا سا غنڈا پن جو اس کی امتیازی شان تھا۔ اب بالکل مفقود تھا۔۔۔ میرے سامنے آتشیں تقریریں کرنے والے کھادی پوش نوجوان کی جگہ ایک گھریلو قسم کا عام انسان کھڑا تھا۔۔۔ مجھے اس کی وہ آخری تقریر یاد آئی، جب اس نے جلیانوالہ باغ کی خنک فضا کو ان گرم الفاظ سے مرتعش کیا تھا، ’’نگار۔۔۔ تم ایک غلام بچے کی ماں بنو۔۔۔ کیا تمہیں یہ گوارا ہوگا۔۔۔‘‘ فوراً ہی مجھے اس بچے کا خیال آیاجو غلام علی کی گود میں تھا۔ میں اس سے یہ پوچھا،’’یہ بچہ کس کا ہے؟‘‘ غلام علی نے بغیر کسی جھجک کے جواب دیا،’’میرا۔۔۔ اس سے بڑا ایک اور بھی ہے۔۔۔ کہو، تم نے کتنے پیدا کیے۔‘‘
ایک لحظے کے لیے مجھے محسوس ہوا جیسے غلام علی کے بجائے کوئی اور ہل بول رہا ہے۔ میرے دماغ میں سیکڑوں خیال اوپر تلے گرتے گئے۔ کیا غلام علی اپنی قسم بالکل بھول چکا ہے؟کیا اس کی سیاسی زندگی اس سے قطعاً علیحدہ ہو چکی ہے؟ ہندوستان کو آزادی دلانے کا وہ جوش، وہ ولولہ کہاں گیا؟ اس بے ریش و بروت للکار کا کیا ہوا۔۔۔؟ نگار کہاں تھی۔۔۔؟کیا اس نے دو غلام بچوں کی ماں بننا گوارا کیا۔۔۔؟ شاید وہ مرچکی ہو۔ہو سکتا ہے، غلام علی نے دوسری شادی کرلی ہو۔
’’کیا سوچ رہے ہو۔۔۔ کچھ باتیں کرو۔ اتنی دیر کے بعد ملے ہیں۔‘‘ غلام علی نے میرے کاندھے پر زور سے ہاتھ مارا۔
میں شاید خاموش ہوگیا تھا۔ ایک دم چونکا اور ایک لمبی ’’ہاں‘‘ کرکے سوچنے لگا کہ گفتگو کیسے شروع کروں۔ لیکن غلام علی نے میرا انتظار نہ کیا اور بولنا شروع کردیا، ’’یہ دکان میری ہے۔ دو برس سے میں یہاں بمبئی میں ہوں۔ بڑا اچھا کاروبار چل رہا ہے۔ تین چار سو مہینے کے بچ جاتے ہیں۔ تم کیا کررہے ہو۔ سنا ہے کہ بہت بڑے افسانہ نویس بن گئے ہو۔ یاد ہے ہم ایک دفعہ یہاں بھاگ کے آئے تھے۔۔۔ لیکن یار عجیب بات ہے،اس بمبئی اور اس بمبئی میں بڑا فرق محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے وہ چھوٹی تھی اور یہ بڑی ہے۔‘‘
اتنے میں ایک گاہک آیا، جسے ٹینس شو چاہیے تھا۔ غلام علی نے اس سے کہا،’’ربڑ کا مال اِدھر نہیں ملتا۔ بازو کی دکان میں چلے جائیے۔‘‘
گاہک چلا گیا تو میں نے غلام سے پوچھا، ’’ربڑ کا مال تم کیوں نہیں رکھتے؟ میں بھی یہاں کریپ سول شو لینے آیا تھا۔‘‘
یہ سوال میں نے یونہی کیا تھالیکن غلام علی کا چہرہ ایک دم بے رونق ہوگیا۔
دھیمی آواز میں صرف اتنا کہا، ’’مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’کیا پسند نہیں؟‘‘
’’یہی ربڑ۔۔۔ ربڑ کی بنی ہوئی چیزیں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ جب ناکام رہا تو زور سے خشک سا قہقہہ لگایا، ’’میں تمہیں بتاؤں گا۔ ہے تو بالکل واہیات سی چیز، لیکن۔۔۔ لیکن میری زندگی سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔‘‘
تفکر کی گہرائی غلام علی کے چہرے پر پیدا ہوئی۔ اس کی آنکھیں جن میں ابھی تک کھلنڈرا پن موجود تھا، ایک لحظے
- सआदत-हसन-मंटो
ہر تیسرے دن، سہ پہر کے وقت ایک بے حد دبلا پتلا بوڑھا، گھسے اور جگہ جگہ سے چمکتے ہوئے سیاہ کوٹ پتلون میں ملبوس، سیاہ گول ٹوپی اوڑھے، پتلی کمانی والی چھوٹے چھوٹے شیشوں کی عینک لگائے، ہاتھ میں چھڑی لیے برساتی میں داخل ہوتا اور چھڑی کو آہستہ آہستہ بجری پر کھٹکھٹاتا۔ فقیرا باہر آکر باجی کو آواز دیتا، ’’بٹیا۔ چلیے۔ سائمن صاحب آگئے۔‘‘ بوڑھا باہر ہی سے باغ کی سڑک کا چکر کاٹ کر پہلو کے برآمدے میں پہنچتا۔ ایک کونے میں جاکر اور جیب میں سے میلا سا رومال نکال کر جھکتا، پھر آہستہ سے پکارتا، ’’ریشم۔۔۔ ریشم۔۔۔ ریشم۔۔۔‘‘ ریشم دوڑتی ہوئی آتی۔ باجی بڑے آرٹسٹک انداز میں سرود کندھے سے لگائے برآمدے میں نمودار ہوتیں۔ تخت پر بیٹھ کر سرود کا سرخ بنارسی غلاف اتارتیں اور سبق شروع ہو جاتا۔
بارش کے بعد جب باغ بھیگا بھیگا سا ہوتا اور ایک انوکھی سی تازگی اور خوشبو فضا میں تیرتی تو بوڑھے کو واپس جاتے وقت گھاس پر گری کوئی خوبانی مل جاتی۔ وہ اسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا۔ ریشم اس کے پیچھے پیچھے چلتی۔ اکثر ریشم شکار کی تلاش میں جھاڑیوں کے اندر غائب ہو جاتی یا کسی درخت پر چڑھ جاتی تو بوڑھا سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کو دیکھتا اور پھر سر جھکا کر پھاٹک سے باہر چلا جاتا۔ تیسرے روز سہ پہر کو پھر اسی طرح بجری پر چھڑی کھٹکھٹانے کی آواز آتی۔ یہ معمول بہت دنوں سے جاری تھا۔
جب سے پڑوس میں مسز جوگ مایا چٹرجی کلکتے سے آن کر رہی تھیں، اس محلے کے باسیوں کو بڑا سخت احساس ہوا تھا کہ ان کی زندگیوں میں کلچر کی بہت کمی ہے۔ موسیقی کی حد تک ان سب کے ’گول کمروں‘ میں ایک ایک گرامو فون رکھا تھا۔ (ابھی ریڈیو عام نہیں ہوئے تھے۔ فریجڈیر status symbol نہیں بنا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور سماجی رتبے کی علامات ابھی صرف کوٹھی، کار اور بیرے پر مشتمل تھیں) لیکن جب مسز جوگ مایا چٹرجی کے وہاں صبح شام ہارمونیم کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو سروے آف انڈیا کے اعلا افسر کی بیوی مسز گوسوامی نے محکمۂ جنگلات کے اعلا افسر کی بیوی مسز فاروقی سے کہا۔۔۔ ’’بہن جی۔ ہم لوگ تو بہت ہی بیک ورڈ رہ گئے۔ ان بنگالیوں کو دیکھیے، ہر چیز میں آگے آگے۔۔۔‘‘
’’اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ان لوگوں میں جب تک لڑکی گانا بجانا نہ سیکھ لے اس کا بیاہ نہیں ہوتا،‘‘ ملٹری اکیڈیمی کے اعلا افسر کی بیوی مسز جسونت سنگھ نے اظہارِ خیال کیا۔
’’ہم مسلمانوں میں تو گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر آج کل زمانہ دوسرا ہے۔ میں نے تو ’ان‘ سے کہہ دیا ہے۔ میں اپنی حمیدہ کو ہارمونیم ضرور سکھاؤں گی۔‘‘ مسز فاروقی نے جواب دیا۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ڈالن والا میں آرٹ اور کلچر کی ہوا چل پڑی۔ ڈاکٹر سنہا کی لڑکی نے ناچ سیکھنا بھی شروع کردیا، ہفتے میں تین بار ایک منحنی سے ڈانس ماسٹر اس کے گھرآتے، انگلیوں میں سلگتی ہوئی بیڑی تھامے، منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے جو ’جی جی کتّ تا توم ترنگ تکا تُن تُن، وغیرہ الفاظ پر مشتمل ہوتیں۔ وہ طبلہ بجاتے رہتے اور اوشا سنہا کے پاؤں، توڑوں کی چک پھیریاں لیتے لیتے گھنگھروؤں کی چوٹ سے زخمی ہوجاتے۔
پڑوس کے ایک نوجوان رئیس سردار امرجیت سنگھ نے وائلن پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ سردار امرجیت سنگھ کے والد نے ڈچ ایسٹ انڈیز کے دار السلطنت بٹا ویا میں جواب جمہوریہ انڈونیشیا کا دار السلطنت جکارتا کہلاتا ہے، بزنس کر کے بہت دولت جمع کی تھی۔ سردار امرجیت سنگھ ایک شوقین مزاج رئیس تھے۔ جب وہ گراموفون پر بڑے انہماک سے ببّو کا ریکارڈ،
خزاں نے آکے چمن کو اجاڑ دینا ہے
مری کھلی ہوئی کلیوں کو لوٹ لینا ہے
بار بار نہ بجاتے تو دریچے میں کھڑے ہو کر وائلن کے تاروں پر اسی انہماک سے گز رگڑا کرتے۔ ورنہ پھیری والے بزازوں سے رنگ برنگی چھینٹوں کی جارجت اپنے صافوں کے لیے خریدتے رہتے، اور یہ بڑھیا بڑھیا صافے باندھ کر اور داڑھی پر سیاہ پٹی نفاست سے چڑھا کر مسز فلک ناز مروارید خاں سے ملاقات کے لیے چلے جاتے اور اپنی زوجہ سردارنی بی بی چرن جیت کور سے کہہ جاتے کہ وائلن سیکھنے جارہے ہیں۔
اسی زمانے میں باجی کو سرود کا شوق پیدا ہوا۔
وہ موسم سرما گوناگوں واقعات سے پر گزرا تھا۔ سب سے پہلے تو ریشم کی ٹانگ زخمی ہوئی۔ پھر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی مس زہرہ ڈربی نے آکر پریڈ گراؤنڈ پر اپنے جھنڈے گاڑے ڈائنا بیکٹ قتّالۂ عالم حسینہ لندن کہلائی۔ ڈاکٹر مس زبیدہ صدیقی کو رات کو دو بجے گدھے کی جسامت کا کتّا نظر آیا۔ مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ہماری زندگیوں سے غائب ہوگئے۔ نیگس نے خودکشی کر لی اور فقیرا کی بھاوج گوریّا چڑیا بن گئی۔ چونکہ یہ سب نہایت اہم واقعات تھے لہٰذا میں سلسلے وار ان کا تذکرہ کرتی ہوں۔
میری بہت خوب صورت اورپیاری ریحانہ باجی نے جو میری چچا زاد بہن تھیں، اسی سال بی۔ اے پاس کیا تھا اور وہ علیگڑھ سے چند ماہ کے لیے ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک سہانی صبح باجی سامنے کے برآمدے میں کھڑی ڈاکٹر ہون کی بیوی سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک برساتی کی بجری پر ہلکی سی کھٹ کھٹ ہوئی اور ایک نحیف اور منحنی سے بوڑھے نے بڑی دھیمی اورملائم آواز میں کہا، ’’میں نے سنا ہے یہاں کوئی لیڈی سرود سیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘
باجی کے سوالات پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان کی ماہانہ فیس پانچ روپے ہے اور وہ ہفتے میں تین بار ایک گھنٹہ سبق دیں گے۔ وہ کرزن روڈ پر پادری اسکاٹ کی خالی کوٹھی کے شاگرد پیشے میں رہتے ہیں۔ ان کے بیوی بچے سب مرچکے ہیں اور برسوں سے ان کا ذریعۂ معاش سرود ہے جس کے ذریعے وہ آٹھ دس روپے مہینا کما لیتے ہیں۔
’’لیکن اس خوابیدہ شہر میں سرود سیکھنے والے ہی کتنے ہوں گے؟ ‘‘ باجی نے پوچھا۔ انہوں نے اسی دھیمی آواز میں کہا، ’’کبھی کبھی دو ایک طالب علم مل جاتے ہیں۔‘‘ ( اس کے علاوہ انہوں نے اپنے متعلق کچھ نہیں بتلایا) وہ انتہائی خوددار انسان معلوم ہوتے تھے، ان کا نام سائمن تھا۔
پیر کے روز وہ ٹیوشن کے لیے آگئے۔ باجی پچھلے لان پر دھوپ میں بیٹھی تھیں۔ ’’مسٹر سائمن کو یہیں بھیج دو،‘‘ انہوں نے فقیرا سے کہا۔ باجی کی طرف جانے کے لیے فقیرا نے ان کو اندر بلالیا۔ اس روز بڑی سردی تھی اور میں اپنے کمرے میں بیٹھی کسی سٹرپٹر میں محو تھی۔ میرے کمرے میں سے گزرتے ہوئے ذرا ٹھٹک کر سائمن نے چاروں طرف دیکھا۔ آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے ان کے قدم آتش دان کی سمت بڑھے اورانہوں نے آگ کی طرف ہتھیلیاں پھیلائیں۔ مگر پھر جلدی سے فقیرا کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔
ریشم نے ان سے بہت جلد دوستی کر لی۔ یہ بڑے تعجب کی بات تھی۔ کیونکہ ریشم بے انتہا مغرور، اکل کھری اور اپنے سیامی حسن پر حد سے زیادہ نازاں تھی۔ اور بہت کم لوگوں کو خاطر میں لاتی تھی۔ زیادہ تر وہ اپنی ساٹن کے ریشمی جھالر دار غلاف والی ٹوکری کے گدیلوں پر آرام کرتی رہتی اور کھانے کے وقت بڑی مکّاری سے آنکھیں بند کر کے میز کے نیچے بیٹھ جاتی۔ ’’اس کی ساری خاصیتیں ویمپ (vamp) عورتوں کی سی ہیں،‘‘ باجی کہتیں۔ ’’عورت کی خاصیت بلّی کی ایسی ہوتی ہے، چمکارو تو پنجے نکال لے گی، بے رخی برتوں تو خوشامد شروع کردے گی۔۔۔‘‘
’’اور آدمی لوگوں کی خاصیت کیسی ہوتی ہے باجی؟ ‘‘ میں پوچھتی، باجی ہنسنے لگتیں اور کہتیں، ’’ یہ ابھی مجھے معلوم نہیں۔‘‘
باجی چہرے پر دل فریب اور مطمئن مسکراہٹ لیے باغ میں بیٹھی مظفر بھائی کے بے حد دل چسپ خط پڑھا کرتیں، جو ان کے نام ہر پانچویں دن بمبئی سے آتے تھے۔ جہاں مظفر بھائی انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ مظفر بھائی میرے اور باجی کے چچازاد بھائی تھے اور باجی سے ان کی شادی طے ہو چکی تھی۔ جتنی دیر وہ باغ میں بیٹھتیں، غفور بیگم ان کے نزدیک گھاس پر پاندان کھولے بیٹھی رہتیں۔ جب باجی اندر چلی جاتیں تو غفور بیگم شاگرد پیشے کی طرف جاکر فقیرا بھاوج سے باتیں کرنے لگتیں یا پھر اپنی نماز کی چوکی پر آ بیٹھتیں۔
غفور بیگم باجی کی بے حد وفادار اناّ تھیں۔ ان کے شوہر نے، جن کی علیگڑھ میں میرس روڈ کے چوراہے پر سائیکلوں کی دکان تھی، پچھلے برس ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کر لیا تھا، اور تب سے غفور بیگم اپنا زیادہ وقت نماز روزے میں گزارتی تھیں۔
سائمن کے آتے ہی ریشم دبے پاؤں چلتی ہوئی آکر خُر خُر کرنے لگتی اور وہ فوراً جیب سے رومال نکال کر اسے کچھ کھانے کو دیتے۔ شام کے وقت جب فقیرا ان کے لیے چائے کی کشتی لے کر برآمدے میں جاتا تو وہ آدھی چائے طشتری میں ڈال کر فرش پر رکھ دیتے اور ریشم فوراً طشتری چاٹ جاتی اور فقیرا بڑ بڑاتا، ’’ہمارے ہاتھ سے تو رانی صاحب دودھ پینے میں بھی نخرے کرتی ہیں۔‘‘
فقیرا ایک ہنس مکھ گڑھوالی نوجوان تھا۔ دو سال قبل وہ چیتھڑوں میں ملبوس، نہر کی منڈیر پر بیٹھا، اون اورسلائیوں سے موزرے بن رہا تھا۔ جو پہاڑیوں کا عام دستور ہے، تو سکھ نندن خانساماں نے اس سے پوچھا تھا، ’’کیوں بے نوکری کرے گا؟‘‘ اور اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔ ’’ مہینوں سے بھوکوں مر رہا ہوں کیوں نہیں کروں گا۔‘‘ تب سے وہ ہمارے یہاں ’اوپر کا کام‘ کر رہا تھا، اور ایک روز اس نے اطلاع دی تھی کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں کی مٹی ہوگئی ہے اور وہ اپنی بھاوج کو لینے گڑھوال جارہا ہے۔ اور چند دنوں بعد اس کی بھاوج جل دھرا پہاڑوں سے آکر شاگرد پیشے میں بس گئی تھی۔
جل دھرا ادھیڑ عمر کی ایک گوری چٹّی عورت تھی، جس کے ماتھے، ٹھوڑی اور کلائیوں پر نیلے رنگ کے نقش و نگار گدے ہوئے تھے۔ وہ ناک میں سونے کی لونگ اور بڑا سا بُلاق اور کانوں کے بڑے بڑے سوراخوں میں لاکھ کے پھول پہنتی تھی اور اس کے گلے میں ملکہ وکٹوریہ کے روپوں کی مالا بھی پڑی تھی۔ یہ تین گہنے اس کے تینوں مشترکہ شوہروں کی واحد جائیداد تھے۔ اس کے دونوں متوفی شوہر مرتے دم تک یاتریوں کا سامان ڈھوتے رہے تھے اور اتفاق سے اکٹھے ہی ایک پہاڑی سے گر کر مرگئے تھے۔
جل دھرا بڑے میٹھے لہجے میں بات کرتی تھی اور ہر وقت سوئٹر بنتی رہتی تھی۔ اسے کنٹھ مالا کا پرانا مرض تھا۔ فقیرا اس کے علاج معالجے کے لیے فکر مند رہتا تھا اور اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ جل دھرا کی آمد پر باقی نوکروں کی بیویوں نے آپس میں چہ میگوئیاں کی تھیں۔۔۔ ’’یہ پہاڑیوں کے ہاں کیسا برا رواج ہے ایک لُگائی کے دو دو تین تین خاوند۔۔۔‘‘ اور جب جل دھرا کا تذکرہ دوپہر کو کھانے کی میز پر ہوا تھا تو باجی نے فوراً درو پدی کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا پہاڑوں میں پولی اینڈ ری کا رواج مہابھارت کے زمانے سے چلا آتا ہے اور ملک کے بہت سے حصوں کا سماجی ارتقا ایک خاص اسٹیج پر پہنچ کر وہیں منجمد ہوچکا ہے اور پہاڑی علاقے بھی ان ہی پس ماندہ حصوں میں سے ہیں۔
باجی نے یہ بھی کہا کہ پولی اینڈ ری، جسے اردو میں ’چند شوہری ‘ کہتے ہیں، مادرانہ نظام کی یادگار ہے۔ اور معاشرے نے جب مادرانہ نظام سے پدری نظام کی طرف ترقی کی تو انسان بھی کثیر الازدواجی کی طرف چلا گیا۔ اور مادرانہ نظام سے بھی پہلے، ہزاروں سال قبل، تین چار بھائیوں کے بجائے قبیلوں کے پورے پورے گروہ ایک ہی عورت کے ساتھ رہتے تھے اور ویدوں میں ان قبائل کا ذکر موجود ہے۔ میں منہ کھولے یہ سب سنتی رہی۔ باجی بہت قابل تھیں۔ بی۔ اے میں انہیں فرسٹ ڈویژن ملا تھا اور ساری علیگڑھ یونیورسٹی میں اوّل رہی تھیں۔
ایک روز میں اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اپنی سہیلیوں کے ہاں جا رہی تھی۔ ریشم میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آرہی تھی۔ اس خیال سے کہ وہ سڑک پر آنے والی موٹروں سے کچل نہ جائے۔ میں سائیکل سے اتری، اسے خوب ڈانٹ کر سڑک پر سے اٹھایا اور باڑ پر سے احاطے کے اندر پھینک دیا اور پیڈل پر زور سے پاؤں مار کر تیزی سے آگے نکل گئی۔ لیکن ریشم احاطے میں کودنے کے بجائے باڑ کے اندر لگے ہوئے تیزنوکیلے کانٹوں والے تاروں میں الجھ گئی۔ اس کی ایک ران بری طرح زخمی ہوئی۔ وہ لہو لہان ہوگئی اور اس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا اور اسی طرح تار سے لٹکی چیختی اور کراہتی رہی۔ بہت دیر بعد جب فقیرا ادھر سے گزرا جو جھاڑیوں سے مرچیں اور ٹماٹر توڑنے اس طرف آیا تھا، تو اس نے بڑی مشکل سے ریشم کو باڑ میں سے نکالا اور اندر لے گیا۔
جب میں کملا اور وملا کے گھر سے لوٹی تو دیکھا کہ سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ ’’تمہاری ریشم مر رہی ہے،‘‘ باجی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’کم بخت جانے کس طرح جا کر باڑ کے تاروں میں الجھ گئی۔ جنے اس قدر احمق کیوں ہے؟ چڑیوں کی لالچ میں وہاں جا گھسی ہوگی۔ اب بری طرح چلّا رہی ہے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب مرہم پٹّی کر کے گئے ہیں۔‘‘
میرا دل دہل گیا۔ ریشم کی اس ناقابلِ برداشت تکلیف کی ذمہ داری میں تھی۔ اس کی تکلیف اور ممکن موت کے صدمے کے ساتھ انتہائی شدید احساسِ جرم نے مجھے سراسیمہ کردیا اور میں جا کر گھر کے پچھواڑے گھنے درختوں میں چھپ گئی تاکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاؤں۔ کچھ فاصلے پر کھٹ کھٹ بڑھیا کی شکل والی مسز وار بروک کے گھر میں سے وائرلیس کی آواز آرہی تھی۔ دور شاگرد پیشے کے سامنے فقیرا کی بھاوج گھاس پر بیٹھی غفور بیگم سے باتیں کر رہی تھی۔ پچھلے برآمدے میں باجی اب مظفر بھائی کو خط لکھنے میں محو ہو چکی تھیں۔ باجی کی عادت تھی کہ دن بھر میں کوئی بھی خاص بات ہوتی تھی تو وہ فوراً مظفر بھائی کو طویل سا خط لکھتی تھیں۔ ریشم پٹیوں سے بندھی ان کے نزدیک اپنی ٹوکری میں پڑی تھی۔
ساری دنیا پرسکون تھی، صرف میں ایک روپوش مجرم کی طرح اونچی اونچی گھاس میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں۔ آخر میں آہستہ آہستہ اپنے والد کے کمرے کی طرف گئی اور دریچے میں سے اندر جھانکا۔ والد آرام کرسی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں اندر گئی اور کرسی کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ ’’کیا بات ہے بی بی؟‘‘ میری سسکی کی آواز پر انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ’’ریشم کو۔۔۔ ریشم کو ہم نے باڑ میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’آپ نے پھینک دیا تھا؟ ‘‘
’’ہم۔۔۔ ہم کملا و ملا کے ہاں جانے کی جلدی میں تھے۔ وہ اتنا منع کرنے کے باوجود پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ ہم نے اسے جلدی سے باغ کے اندر پھینک دیا۔‘‘ اتنا کہہ کر میں نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ رونے کے بعد دل ہلکا ہوا اور جرم کا تھوڑا سا پرائشچت بھی ہوگیا، مگر ریشم کی تکلیف کسی طرح کم نہ ہوئی۔ شام کو سائمن سبق سکھانے کے بعد دیر تک اس کے پاس بیٹھے اس سے باتیں کرتے رہے۔
ریشم کی روزانہ مرہم پٹّی ہوتی تھی اور ہفتے میں ایک دفعہ اسے ’گھوڑا ہسپتال‘ بھیجا جاتا تھا۔ اس کی ران پر سے اس کے گھنے اور لمبے لمبے سرمئی بال مونڈ دیئے گئے تھے اور زخم کی گہری سرخ لکیریں دور تک کھنچی ہوئی تھیں۔ کافی دنوں کے بعد اس کے زخم بھرے اور اس نے لنگڑا کر چلنا شروع کردیا۔ ایک مہینے بعد وہ آہستہ آہستہ لنگڑاتی ہوئی سائمن کو پہنچانے پھاٹک تک گئی اور جب فقیرا بازار سے اس کے لیے چھچھڑے لے کر آتا تو وہ اسی طرح لنگڑاتی ہوئی کونے میں رکھے ہوئے اپنے برتن تک بھی جانے لگی۔
ایک روز صبح کے وقت مسٹر جارج بیکٹ باڑ پر نمودار ہوئے اور ذرا جھجکتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی طرف بلایا۔ ’’ریشم کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ’’انہوں نے دریافت کیا۔ ’’مجھے مسٹر سائمن نے بتایا تھا کہ وہ بہت زخمی ہوگئی تھی۔‘‘
مسٹر جارج بیکٹ نے پہلی بار اس محلّے میں کسی سے بات کی تھی۔ میں نے ریشم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور وہ اپنے چارخانہ کوٹ کی پھٹی ہوئی جیبوں میں انگوٹھے ٹھونس کر آگے چلے گئے۔
مسٹر جارج بیکٹ ایک بے حد فاقہ زدہ اینگلو انڈین تھے اور پلپلی صاحب کہلاتے تھے۔ وہ سڑک کے سرے پر ایک خستہ حال کائی آلود کاٹج میں رہتے تھے اور بالٹی اٹھا کر صبح کو میونسپلٹی کے نل پر خود پانی بھرنے جایا کرتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی تھی جس کا نام ڈائنا تھا۔ وہ پریڈ گراؤنڈ پر ایک انگریزی سنیما ہال میں ٹکٹ بیچتی تھی اور خوش رنگ فراک پہنے اکثر سامنے سے سائیکل پر گزرا کرتی تھی، اس کے پاس صرف چار فراک تھے جنہیں وہ دھو دھو کر اور بدل بدل کر پہنا کرتی تھی اور مسز گوسوامی، مسز فاروقی اور مسز جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’سنیما ہال کی نوکری کے اسے صرف پچیس روپلّی ملتے ہیں اور کیسے ٹھاٹ کے کپڑے پہنتی ہے۔ اسے گورے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن گورے اگر اسے پیسے دیتے تھے (یہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے گورے کیوں پیسے دیتے تھے) تواس کا بوڑھا باپ نل پر پانی بھرنے کیوں جاتا تھا۔
یہ پنشن یافتہ متمول انگریزوں کا محلہ تھا جو پر فضا خوبصورت کوٹھیوں میں خاموشی سے رہتے تھے۔ ان کے انتہائی نفاست سے سجے ہوئے کمروں اور برآمدوں میں لندن السٹریٹیڈ نیوز، ٹیٹلر، کنٹری لائف اور پنچ کے انبار میزوں پر رکھے تھے۔ اور ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے پلندے سمندری ڈاک سے ان کے نام آتے تھے۔ ان کی بیویاں روزانہ صبح کو اپنے اپنے ’مورننگ روم‘ میں بیٹھ کر بڑے اہتمام سے ’ہوم‘ خط لکھتی تھیں۔ اور ان کے ’گول کمروں‘ میں ان کے بیٹوں کی تصویریں رو پہلے فریموں میں سجی تھیں جو مشرقی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سلطنت برطانیہ کے آفتاب کو مزید چمکانے میں مصروف تھے۔ یہ لوگ مدّتوں سے اس ملک میں رہتے آرہے تھے مگر ’کوئی ہائے‘ اور ’عبدل چھوٹا حاضری مانگتا‘ سے زیادہ الفاظ نہ جانتے تھے۔ یہ عزت پسند انگریز دن بھر باغبانی یا برڈ واچنگ (bird watching) یا ٹکٹ جمع کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
یہ بڑے عجیب لوگ تھے۔ مسٹر ہارڈ کاسل تبتی زبان اور رسم و رواج کے ماہر تھے۔ مسٹر گرین آسام کے کھاسی قبائل پر اتھارٹی تھے۔ کرنل وایٹ ہیڈ جو شمالی مغربی سرحد کے معرکوں میں اپنی ایک ٹانگ کھو چکے تھے اور لکڑی کی ٹانگ لگاتے تھے، خوش حال خاں خٹک پر عبور رکھتے تھے۔ میجر شیلٹن اسٹیس مین میں شکار کے متعلق مضامین لکھا کرتے تھے۔ اور مسٹر مارچ مین کو شطرنج کا خبط تھا۔ مس ڈرنک واٹر پلانچٹ پر روحیں بلاتی تھیں اور مسزوار بُروک تصوریں بناتی تھیں۔
مسزوار بُروک ایک بریگیڈیر کی بیوہ تھیں اور ہمارے پچھواڑے رہتی تھیں۔ ان کی بوڑھی پھونس کنواری بہن بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان دونوں کی شکلیں لمبی چونچ والے پرندوں کی ایسی تھیں۔ اور یہ دونوں اپنے طویل و عریض ڈرائنگ روم کے کسی کونے میں بیٹھی آبی رنگوں سے ہلکی پھلکی تصویریں بنایا کرتی تھیں۔ وہ دونوں اتنی مختصر سی تھیں کہ پھولدار غلافوں سے ڈھکے ہوئے فرنیچر اور دوسرے ساز و سامان کے جنگل میں کھو جاتی تھیں اور پہلی نظر میں بڑی مشکل سے نظر آتی تھیں۔
ڈالن والا کی ایک کوٹھی میں ’انگلش اسٹورز‘ تھا۔ جس کا مالک ایک پارسی تھا۔ محلے کی ساری انگریز اور نیٹو بیویاں یہاں آکر خریداری کرتی تھیں اور اسکنڈل اور خبروں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتی تھیں۔
اس خوش حال اور مطمئن انگریزی محلے کے واحد مفلس اور اینگلو انڈین باسی بجھی بجھی نیلی آنکھوں والے مسٹر جارج بیکٹ تھے۔ مگر وہ بڑی آن بان والے اینگلو انڈین تھے اور خود کو پکّا انگریز سمجھتے تھے، انگلستان کو ’ہوم‘ کہتے تھے اور چند سال ادھر جب شہنشاہ جارج پنجم کے انتقال پر کولا گڑھ میں سلو مارچ پر بڑی بھاری پریڈ ہوئی تھی اور گوروں کے بینڈ نے موت کا نغمہ بجایا تھا تو مسٹر جارج بیکٹ بھی بازو پر سیاہ ماتمی پٹّی باندھ کر کولا گڑھ گئے تھے اور انگریزوں کے مجمعے میں بیٹھے تھے اور ان کی لڑکی ڈائنا روز نے اپنے سنہرے بالوں اور خوبصورت چہرے کو سیاہ ہیٹ اور سیاہ جالی سے چھپایا تھا۔ اور مسٹر بیکٹ بہت دنوں تک سیاہ ماتمی پٹّی بازو پر باندھے رہے تھے۔
لیکن بچّے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ ڈالن والا کے سارے ہندوستانی بچّے مسٹر جارج بیکٹ کو نہ صرف پلپلی صاحب کہتے تھے بلکہ کملا اور وملا کے بڑے بھائی سورن نے جو ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا اور ڈون پبلک اسکول میں پڑھتا تھا۔ مسٹر بیکٹ کی لڑکی ڈائنا کو چڑانے کی ایک اور ترکیب نکالی تھی۔
کملا اور وملا کے والد ایک بے حد دل چسپ اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہوں نے ایک بہت ہی انوکھا انگریزی ریکارڈ ۱۹۲۸ء میں انگلستان سے خریدا تھا۔ یہ ایک انتہائی بے تکا گیت تھا جس کا اینگلو انڈین اردو ترجمہ بھی ساتھ ساتھ اسی دھن میں گایا گیا تھا۔ نہ جانے کس منچلے انگریز نے اسے تصنیف کیا تھا۔ یہ ریکارڈ اب سورن کے قبضے میں تھا۔ اور جب ڈائنا سائیکل پر ان کے گھر کے سامنے سے گزرتی تو سورن گرامو فون دریچے میں رکھ کر اس کے بھونپو کا رخ سڑک کی طرف کردیتا اور سوئی ریکارڈ پر رکھ کر چھپ جاتا۔ مندرجہ ذیل بلند پایہ روح پرور گیت کی آواز بلند ہوتی۔۔۔
there was a rich merchant in london did stay.
who had for his daughter an uncommon liking?
her name it was diana
she was sixteen years old
and had a large fortune in silver and gold.
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا۔
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سو لے برس کا عمر
جس کے پاس بہت کپڑا چاندی اور سونا
as diana was walking in the garden one day.
her father came to her and thus did he say:
go dress yourself up in gorgeous array
for you will have a husband both gallant and gay.
ایک دن جب ڈائنا باغیچہ میں تھی
باپ آیا اور بولا بیٹی
جاؤ کپڑا پہنو اور ہو صفا
کیوں کہ میں ترے واسطے ایک خاوند لایا
o father
dear father i've made up my mind
to marry at present i don't feel inclined.
and all my large fortune every day adore
if you let live me single a year or two more.
ارے رے مورا باپ تب بولی بیٹی
شادی کا ارادہ میں ناہیں کرتی
اگر ایک دو برس تکلیف ناہیں دیو
آ آ ارے دولت میں بالکل چھوڑ دیوں
then gave the father a gallant reply:
if you don't be this young man's bride
i'll leave all your fortune to the fearest of things
and you should reap the benefit of single thing.
تب باپ بولا ارے بچّہ بیٹی
اس شخص کی جورو تو ناہیں ہوتی
مال اور اسباب تیرا کُرکی کردیوں
اور ایک کچّی دمڑی بھی تجھے نادیوں
as wilikins was walking in the garden one day
he found his dear diana lying dead on the way.
a cup so fearful that lay by her side.
and wilikins doth fainteth with a cry in his eye
ایک دن جب ولی کن ہوا کھانے کو گیا
ڈائنا کا مردہ ایک کونے میں پایا
ایک بادشاہ پیالہ اس کے کمر پر پڑا
اور ایک چٹّھی جس میں لکھا،
’’زہر پی کے مرا‘‘
جیسے ہی ریکارڈ بجنا شروع ہوتا، بیچاری ڈائنا سائیکل کی رفتار تیز کر دیتی اور اپنے سنہرے بال جھٹک کر زنّاٹے سے آگے نکل جاتی۔
اس موسم سرما کا دوسرا اہم واقعہ پریڈ گراؤنڈ میں ’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کار نیول‘ کی آمد تھا۔ اس کے اشتہا لنگوروں اور مسخروں کے لمبے جلوس کے ذریعے بانٹے گئے تھے۔ جن پر لکھا تھا، ’’بیسویں صدی کا حیرت ناک تماشا، شیر دل حسینہ مس زہر ڈربی، موت کے کنویں میں، آج شب کو۔۔۔‘‘
سب سے پہلے فقیرا سرکس دیکھ کر لوٹا۔ وہ اپنی بھاوج کو بھی کھیل دکھانے لے گیا تھا۔ اور صبح کو اس نے اطلاع دی تھی۔۔۔ ’’بیگم صاحب۔۔۔ بڑی بٹیا۔۔۔ بی بی۔۔۔ زنانی ڈیتھ آف ویل میں ایسے پھٹ پھٹی چلاتی ہے کہ بس کیا بتاؤں۔۔۔ عورت ہے کہ شیر کی بچّی۔۔۔ ہرے رام۔۔۔ ہرے رام۔۔۔‘‘
دوسرے دن اسکول میں کملا وملا نے مجھے بتایا کہ مس زہرہ ڈربی ایک نہایت سنسنی خیز خاتون ہے۔ اور وہ دونوں بھی اس کے دلیرانہ کمالات بہ چشم خود دیکھ کر آئی ہیں۔
چونکہ میں سرکسوں پر پہلے ہی سے عاشق تھی لہٰذا جلد از جلد باجی کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ پہنچی۔ وہاں تمبو کے باہر ایک اونچے چوبی پلیٹ فارم پر ایک موٹر سائیکل گھڑ گھڑا رہی تھی اور اس کے پاس مس زہرہ ڈربی کرسی پر فروکش تھی۔ اس نے نیلے رنگ کی چمکدار ساٹن کا اس قطع کا لباس پہن رکھا تھا، جو مس نادیا نے ہنٹر والی فلم میں پہنا تھا۔ اس نے چہرے پر بہت سا گلابی پاؤڈر لگا رکھا تھا جو بجلی کی روشنی میں نیلا معلوم ہو رہا تھا۔ اور ہونٹ خوب گہرے سرخ رنگے ہوئے تھے۔ اس کے برابر میں ایک بے حد خوفناک، بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اسی طرح کی رنگ برنگی ’برجیس‘ پہنے، لمبے لمبے پٹّے سجائے اور گلے میں بڑا سا سرخ آدمی رومال باندھے بیٹھا تھا۔ مس زہرہ ڈربی کے چہرے پر بڑی اکتاہٹ تھی اور وہ بڑی بے لطفی سے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔
اس کے بعد وہ دونوں موت کے کنویں میں داخل ہوئے جس کی تہہ میں ایک اور موٹر سائیکل رکھی تھی۔ خوف ناک آدمی موٹر سائیکل پر چڑھا اور مس زہرہ ڈربی سامنے اس کی بانہوں میں بیٹھ گئی۔ اور خوف ناک آدمی نے کنویں کے چکّر لگائے۔ پھر وہ اتر گیا اور مس زہرہ ڈربی نے تالیوں کے شور میں موٹر سائیکل پر تنہا کنویں کے چکّر لگائے اور اوپر آکر دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے۔ اور موٹر سائیکل کی تیز رفتار کی وجہ سے موت کا کنواں زور زور سے ہلنے لگا اور میں مس زہرہ ڈربی کی اس حیرت انگیز بہادری کو مسحور ہو کر دیکھتی رہی۔ کھیل کے بعد وہ دوبارہ اسی طرح چبوترے پر جا بیٹھی اور بے تعلقی سے سگریٹ پینا شروع کردیا۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔
یہ واقعہ تھا کہ مس زہرہ ڈربی جاپانی چھتری سنبھال کر تار پر چلنے والی میموں اور شیر کے پنجرے میں جانے والی اور اونچے اونچے تاروں اور جھولوں پر کمالات دکھانے والی لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر تھی۔ پچھلے برس وہاں ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ آیا تھا، جس میں مس حمیدہ بانو پہلوان نے اعلان کیا تھا کہ جو مرد پہلوان انہیں ہرا دے گا وہ اس سے شادی کرلیں گی۔ لیکن بقول فقیرا کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچّی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکریں پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمرے کو گھور رہی تھیں۔۔۔
یہ کون پر اسرار ہستیاں ہوتی ہیں جو تار پر چلتی ہیں اور موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتی ہیں اور اکھاڑے میں کشتی لڑتی ہیں۔ میں نے سب سے پوچھا لیکن کسی کو بھی ان کے متعلق کچھ نہ معلوم تھا۔
’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس‘ ابھی تماشے ہی دکھا رہا تھا کہ ایک روز فقیرا پلٹن بازار سے سودا لے کر لوٹا تو اس نے ایک بڑی تہلکہ خیز خبر سنائی کہ مس زہرہ ڈربی کے عشاق، ماسٹر گل قند اور ماسٹر مچھندر کے درمیان چکّو چل گیا۔ ماسٹر مچھندر نے مس زہرہ ڈربی کو بھی چکّو سے گھائل کردیا اور وہ ہسپتال میں پڑی ہیں اور اس سے بھی تہلکہ خیز خبر، جو فقیرا نے چند دن بعد میونسپلٹی کے نل پر سنی، یہ تھی کہ پلپلی صاحب کی مسیا نے سرکس میں نوکری کرلی۔
’’ڈائنا بیکٹ نے۔۔۔؟ ‘‘ باجی نے دہرایا۔ ’’جی ہاں بڑی بٹیا۔۔۔ پلپلی صاحب کی مسیا، سنا ہے کہتی ہے کہ اس سے اپنے باپ کی غریبی اور تکلیف اب نہیں دیکھی جاتی اور دنیا والے تو یوں بھی تنگ کرتے ہیں۔ اوڈین سنیما میں اسے پچیس روپے ملتے تھے۔ سرکس میں پچھتّر روپے ملیں گے۔۔۔ یہ تو سچ ہے۔ وہ غریب تو بہت تھی بڑی بٹیا۔۔۔‘‘
’’اور گورے جو اس کو پیسے دیتے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ غفور بیگم نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’جاؤ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔‘‘ لہٰذا میں بھاگ گئی اور باہر جاکر ریشم کی ٹوکری کے پاس بیٹھ کے ڈائنا بیکٹ کی بہادری کے متعلق غور کرنے لگی۔
اب کی بار جب لنگوروں اور مسخروں نے سرکس کے اشتہار بانٹے تو ان پر چھپا تھا، ’’سرکس کے عاشقوں کو مژدہ پری جمال یورپین دوشیزہ کے حیرت انگیز کمالات قتالہ عالم، حسینہ لندن مس ڈائنا روز موت کے کنویں میں آج شب کو۔ ‘‘
ان ہی دنوں سنیما کا چرچا ہوا۔ یوں تو سنیما کے اشتہار عرصے سے لکڑی کے ٹھیلوں پر چپکے سامنے سے گزرا کرتے تھے۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’چیلنج‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں۔ پریڈ کے سامنے،پلیڈیم سنیما میں، آج شب کو۔‘‘
اور۔۔۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’دہلی ایکسپریس‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں پریڈ کے سامنے، راکسی سنیما میں آج شب کو۔‘‘
اور مجھے بڑی پریشانی ہوتی تھی کہ مس سردار اختر دونوں جگہوں پر بیک وقت کس طرح ’کام‘ کریں گی۔ لیکن قسمت نے ایک دم یوں پلٹا کھایا کہ باجی اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین فلم دیکھنے کو ملیں۔۔۔
’اچھوت کنیا‘ جس کے لیے مسز جوگ مایا چٹرجی نے بتایا کہ ہمارے دیش میں بہت زبردست سماجی انقلاب آگیا ہے اور گرو دیو ٹیگور کی بھانجی دیویکا رانی اب فلموں میں کام کرتی ہیں اور ’جیون لتا‘ جس میں سیتا دیوی نازک نازک چھوٹی سی آواز میں گاتیں۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔۔۔‘‘ اور ’جیون پر بھات‘ جسے باجی بڑے ذوق وشوق سے اس لیے دیکھنے گئیں کہ اس میں خورشید آپا ’کام‘ کررہی تھیں، جو اب رینوکا دیوی کہلاتی تھی، جو اس زبردست سماجی انقلاب کا ثبوت تھا۔
مسز جوگ مایا چٹرجی کی بشارت کے مطابق ہندوستان جن کے دروازے پر کھڑا تھا اور تبھی مسز جوگ مایا چٹرجی کی لڑکیوں نے ہارمونیم پر فلمی گانے ’نکالنے‘ شروع کردئیے۔ ’’بانکے بہاری بھول نہ جانا۔۔۔ پیتم پیاری پریت نبھانا۔۔۔‘‘ اور۔۔۔ ’’چور چراوے مال خزانہ، پیانینوں کی نندیا چرواے۔‘‘ اور۔۔۔ ’’تم اور میں اور منا پیارا۔۔۔ گھروا ہوگا سورگ ہمارا۔۔۔‘‘
غفور بیگم کام کرتے کرتے ان آوازوں پر کان دھرنے کے بعد کمر ہاتھ پر رکھ کر کہتیں، ’’بڑے بوڑھے سچ کہہ گئے تھے۔ قرب قیامت کے آثار یہی ہیں کہ گائے مینگناں کھائے گی اور کنواریاں اپنے منہ سے بر مانگیں گی۔‘‘ اتنے میں منورما چٹرجی کی سریلی آواز بلند ہوتی۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔‘‘
’’بے حیائی تیرا آسرا۔۔۔‘‘ غفور بیگم کانپ کر فریاد کرتیں اور سلیپر پاؤں میں ڈال کر سٹر پٹر کرتی اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔
ان ہی دنوں فقیرا بھی اپنی بھاوج کو یہ ساری فلمیں سیکنڈ شو میں دکھا لایا۔ مگر جس رات جل دھرا ’چنڈی داس‘ فلم دیکھ کر لوٹی، تو اسے بڑا سخت بخار چڑھ گیا، اور ڈاکٹر ہون نے صبح کو آکر اسے دیکھا اور کہا کہ اس کا مرض تشویش ناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب وہ روز تانگے میں لیٹ کر ہسپتال جاتی اور واپس آکر دھوپ میں گھاس پر کمبل بچھا کر لیٹی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کی حالت ذرا بہتر ہوگئی۔ اور سکھ نندن خانساماں کی بیوی دھن کلیا اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ کر اس کا دل بہلانے کے لیے پوربی گیت گایا کرتی اور اسے چھیڑ چھیڑ کر الاپتی۔۔۔ ’’ناجو ادا سے سرم و حیا سے بالے سیاں سے سرمائے گئی میں تو۔۔۔‘‘
اور غفور بیگم جب جل دھرا کی خیریت پوچھنے جاتیں تو وہ مسکرا کرکہتی، ’’انّا جی۔۔۔ میرا تو سمے آگیا۔ اب تھوڑے دنوں میں پر ان نکل جائیں گے۔۔۔‘‘ اب غفور بیگم اس کا دل رکھنے کے لیے کہتیں، ’’اری تو ابھی بہت جئے گی۔۔۔ اور اے جل دھریا۔۔۔ ذرا یہ تو بتا کہ تونے فقیرا نگوڑے پر کیا جادو کر رکھا ہے۔۔۔ ذرا مجھے بھی وہ منتر بتادے، مجھ بدبختی کو تو اپنے گھر والے کو رام کرنے کا ایک بھی نسخہ نہ ملا۔۔۔ تو ہی کوئی ٹوٹکا بتادے۔ سنا ہے پہاڑوں پر جادو ٹونے بہت ہوتے ہیں۔۔۔ فقیرا بھی کیسا تیرا کلمہ پڑھتا ہے۔۔۔ اری تو تو اس کی ماں کے برابر ہے۔۔۔!‘‘ اور وہ بڑی ادا سے ہنس کو جواب دیتی۔۔۔ ’’انا جی۔ کیا تم نے سنا نہیں پرانے چاول کیسے ہوتے ہیں؟‘‘
’’پرانے چاول۔۔۔؟‘‘ میں دہراتی اور غفور بیگم ذرا گھبرا کر مجھے دیکھتیں اور جلدی سے کہتیں۔۔۔ ’’بی بی آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟ جائیے بڑی بٹیا آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ لہٰذا میں سر جھکائے بجری کی رنگ برنگی کنکریاں جوتوں کی نوک سے ٹھکراتی ٹھکراتی باجی کی طرف چلی جاتی۔ مگر وہ فلسفے کی موٹی سی کتاب کے مطالعے میں یا مظفر بھائی کا خط پڑھنے یا اس کا جواب لکھنے میں مستغرق ہوتیں اور مجھے کہیں اور جانے کا حکم دے دیتیں تو میں گھوم پھر کر دوبارہ ریشم کی ٹوکری کے پاس جا بیٹھتی اور اس کے جلد تندرست ہونے کی دعائیں مانگنے لگتی۔
اسکول میں کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں، میں صبح صبح کملا وملا کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں مسٹر بیکٹ نظر آئے۔ وہ بے حد حواس باختہ اور دیوانہ وار ایک طرف کو بھاگے چلے جا رہے تھے۔ اتنے میں میجر چیلٹن نے اپنی ۱۹۲۶ء ماڈل کی کھڑ کھڑیا فوڈ روک کر انہیں اس میں بٹھا لیا اور فورڈ یورپین ہسپتال کی سمت روانہ ہوگئی۔
میں کملا کے گھر پہنچی تو سورن خلاف معمول بہت خاموش تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابھی پریڈ گراؤنڈ سے سارا واقعہ سن کر آیا ہے۔
’’ڈائنا بیکٹ ابھی ماسٹر مچھندر کے ساتھ ہی موٹر سائیکل پر بیٹھتی تھی اور دیکھنے والوں کا بیان تھا کہ دہشت کے مارے اس کا رنگ سفید پڑ جاتا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے رہتی تھی۔ مگر سرکس منیجر نے اصرار کیا کہ وہ تنہا موٹر سائیکل چلانے کی ٹریننگ بھی شروع کردے تا کہ اس کے دل کا خوف نکل جائے۔ دل کا خوف نکالنے کے لیے اس نے موٹر سائیکل پر تنہا بیٹھ کر کنویں کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی مگر موٹر سائیکل بے قابو ہوگئی اور ڈائنا کی دونوں ٹانگیں موٹر سائیکل کے تیزی سے گھومتے ہوئے پہیوں میں آکر چور چور ہوگئیں۔ اسے فوراً یورپین ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ کرنل وائی کو مب سول سرجن نے کہا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگئی ہیں۔ اور اسے ساری عمر پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر گزارنی ہوگی۔‘‘
اس دن ہم لوگوں کا کسی چیز میں دل نہ لگا۔ اور ہم سب ایک درخت کی شاخ پر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد دفعتاً سورن شاخ پر سے نیچے کودا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔ اور میں نے دیکھا کہ سب کے چہرے پر ایک عجیب سی ندامت طاری تھی۔ ایک انجانا سا احساس جرم اور ندامت۔
دوسرے روز دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کارنیول کے نوکیلی مونچھوں اور بے شمار تمغوں والے منیجر اور رنگ ماسٹر پروفیسر شہباز نے اعلان کیا کہ سرکس کوچ کر رہا ہے اور آئندہ سال معزز شائقین کو اس سے زیادہ حیرت ناک تماشے دکھائے جائیں گے لیکن فقیرا کی اطلاع کے مطابق وہ ڈرا ہوا تھا۔ اس کے سرکس میں پے در پے دو شدید حادثے ہوئے تھے اور پولس اس کے پیچھے لگ گئی تھی۔
سرکس نے کوچ کردیا اور مس زہرہ ڈربی بھی۔ ہسپتال سے جانے کہاں غائب ہوگئی۔
کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک بہت لمبی اور دبلی پتلی بی بی ہمارے یہاں مہمان آئیں۔ ان کا نام ڈاکٹر زبیدہ صدیقی تھا۔ وہ دہلی سے کلکتہ جارہی تھیں اور ایک ہفتے کے لیے ہمارے یہاں ٹھہری تھیں۔ انہوں نے ولایت سے سائنس کے کسی مضمون میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا تھا۔ وہ کسی دور افتادہ دیسی ریاست کے گرلز کالج کی پرنسپل تھیں اور سیاہ کنارے کی سفید ساری اور لمبی آستینوں کا سفید بلاؤز پہنتی تھیں، وہ اپنی طویل القامتی کی وجہ سے ذرا جھک کر چلتی تھیں اور سر نیہوڑا کر بڑی گہری نظر سے ہر ایک کو دیکھتی تھیں۔ اس وقت وہ گنتی کی ان مسلمان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے سمندر پار جا کر اعلا تعلیم حاصل کی تھی۔
پہلے روز جب وہ کھانا کھانے بیٹھیں تو انہوں نے ذرا جھجک کر کہا، ’’آپ کے ہاں سارے ملازم ہندو ہیں۔میں دراصل ہندو کے ہاتھ کا پکا نہیں کھاتی۔۔۔‘‘
’’مسلمان ہوکر آپ چھوت چھات کرتی ہیں زبیدہ آپا؟ کمال ہے، اور آپ تو ولایت تک ہو آئی ہیں زبیدہ آپا۔۔۔‘‘ باجی نے اپنی خوبصورت آنکھیں پھیلا کر کہا۔
’’در اصل۔۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ میں ایک وظیفہ پڑھ رہی ہوں آج کل۔۔۔‘‘ انہوں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔ لہٰذا ان کا کھانا غفور بیگم نے با وضو ہوکر اپنے ہاتھ سے تیار کرنا شروع کیا۔ پڑوس کی مسلمان بیبیوں پر ڈاکٹر صدیقی کی مذہبیت کا بے انتہا رعب پڑا۔ ’’لڑکی ہو تو ایسی، سات سمندر پار ہو آئی مگر ساری کا آنچل مجال ہے جو سر سے سرک جائے۔۔۔‘‘ مسز فاروقی نے کہا۔
’’شرعی پردہ تو در اصل یہی ہے کہ عورت بس اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھے۔ اور اپنی زینت مردوں سے چھپائے۔ قرآن پاک میں یہی آیا ہے۔‘‘ مسز قریشی نے جواب دیا۔
’’روزے نماز کی پابند‘ شرم و حیا کی پتلی۔ اور مومنہ ایسی کہ ہندو کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتی۔۔۔‘‘ مسز انصاری نے تعریف کی۔
ڈاکٹر صدیقی سارے وقت گھاس پر کرسی بچھائے باجی کو جانے کون سی داستان امیر حمزہ سنانے میں مشغول رہتی تھیں، اور فقیرا کی بھاوج کو دیکھ کر انہوں نے کہا تھا، ’’کیسی خوش نصیب عورت ہے۔‘‘
جب ڈاکٹر صدیقی صبح سے شام تک ایک ہی جیسی سنجیدہ اور غمناک شکل بنائے بیٹھی رہتیں تو ان کو محفوظ کرنے کے لیے باجی مجھے بلاتیں (گویا میں کوئی تماشا دکھانے والی بھالو تھی) اور حکم دیتیں۔ فلاں گیت گاؤ، فلاں قصہ سناؤ، زبیدہ آپا کو۔ ذرا بھاگ کے اپنی دوستوں کو بلا لاؤ اور سب مل کر ناچو۔۔۔
ایک دن ڈاکٹر صدیقی پچھلے لان پر بیٹھی باجی سے کہہ رہی تھیں، ’’مرے کے لیے تو صبر آ جاتا ہے، ریحانہ۔۔۔ زندہ کے لیے صبر کیسے کروں۔۔۔‘‘ اور اس دن جب انہوں نے کسی طرح مسکرانے کا نام ہی نہ لیا، تو باجی نے مجھے بلا کر حکم دیا، ’’ارے رے۔ ذرا وہ اپنے مسخرے پن کا اینگلو انڈین گیت تو سناؤ زبیدہ آپا کو۔۔۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘ میں نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اور سیدھی کھڑی ہوکر ہاتھ گھٹنوں تک چھوڑ کر (جس طرح اسکول میں انگریزی گانے گاتے یا نظمیں پڑھتے وقت کھڑا ہونا سکھلایا گیا تھا) میں نے گیت شروع کیا،
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سولے برش کا عومر
جس کے پاس بہت کپڑا۔۔۔ اور۔۔۔ چاندی۔۔۔ اور۔۔۔
دفعتاً میرے حلق میں کوئی چیز سی اٹکی، میری آواز رندھ گئی اور میں گیت ادھورا چھوڑ کر وہاں سے تیزی سے بھاگ گئی۔ ڈاکٹر صدیقی حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئیں۔
شام کو میں نے وملا سے کہا، ’’یہ زبیدہ آپا ہر وقت جنے اتنی پریشان کیوں نظر آتی ہیں۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔ وہ مجھ سے ذرا بڑی تھی۔ اور ایک ماہر فن ڈیٹکیٹو تھی۔۔۔ ’’کل صبح آنٹی فاروقی آنٹی گوسوامی کو انگلش اسٹورز میں بتا رہی تھیں کہ ایک سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا نام بھی ڈاکٹر کچھ ہے۔ مجھے یاد نہیں آرہا۔ آنٹی فاروقی نے آنٹی گو سوامی کو بتایاتو تھا۔۔۔ تو وہ کلکتہ یونیورسٹی میں زبیدہ آپا کے کلاس فیلو تھے۔ اور جب زبیدہ آپا ولایت گئی تھیں تو وہاں مانچسٹر یونیورسٹی میں بھی کئی سال ان کے ساتھ پڑھا تھا۔۔۔ تو یہ زبیدہ آپا جوہیں، تو یہ پچھلے پندرہ برس سے ڈاکٹر کے نام کی مالا جپ رہی ہیں۔‘‘
’’یہ کسی کے نام کی مالا کیسے جپتے ہیں؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’یہ پتا نہیں۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔
جب میں گھر کے اندر آئی تو زبیدہ آپا کو غفور بیگم سے تبادلہ خیالات کرتے پایا۔ اور تبھی پتا چلا کہ جس ریاست میں زبیدہ آپا کام کرتی ہیں وہ اجمیر شریف کے بہت قریب ہے۔ اور اسی وجہ سے زبیدہ آپا بہت مذہبی ہوگئی ہیں، اور جب سے ان کو یہ اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر محمود خاں خود ان کی یعنی زبیدہ آپا کی سگی بھتیجی سائرہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں جو ایک بے حد خوبصورت سترہ سالہ لڑکی ہے اور کلکتہ کے لورٹیو ہاؤس میں پڑھ رہی ہے، تب سے زبیدہ آپا نماز پنجگانہ کے علاوہ چاشت اشراق اور تہجد بھی پڑھنے لگی ہیں اور یہاں وہ غفور بیگم سے پنجسورہ شریف۔ دعائے گنج العرش اور درود تاج کے کتابچے مستعار لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ کتابچے سفر پر چلتے وقت وہ گھر پر بھول آئی تھیں۔ غفور بیگم نے ان سے کہا کہ بٹیا روز رات کو سوتے وقت تسبیح فاطمہ پڑھا کیجئے۔۔۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی تسبیح پھیر رہی تھیں تو میں نے، جو جاسوسی پر لگی ہوئی تھی ان کو دیکھ لیا اور صبح کو وملا کو اطلاع دی۔۔۔
’’ہمیں معلوم ہوگیا۔۔۔ کل رات زبیدہ آپا ڈاکٹر کچھ کے نام کی مالا جپ رہی تھیں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ایک رات دو بجے کے قریب مہمان کمرے سے ایک دل خراش چیخ کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اپنے اپنے لحافوں سے نکلے اور بھاگتے ہوئے مہمان کمرے کی طرف گئے۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ باجی نے کواڑوں پر زور زور سے دستک دی۔ اندر سے کچھ منٹ بعد زبیدہ آپا بڑی کمزور آواز میں بولیں، ’’ٹھیک ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم لوگ خدا کے لیے فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ، سو جائو۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ سوتے میں ڈر گئی تھی۔‘‘
’’زبیدہ آپا۔۔۔ دروازہ کھولیے۔۔۔‘‘ باجی نے چلا کر کہا۔ ’’چلے جاؤ تم لوگ۔۔۔ ورنہ میں پھر چیخوں گی۔۔۔‘‘ زبیدہ آپا اندر سے ہسٹریائی آواز میں دہاڑیں۔
صبح کو ان کا چہرہ بالکل ستا ہوا اور سفید تھا۔ ناشتے کے بعد جب کھانے کا کمرہ خالی ہوگیا تو انہوں نے باجی کو آہستہ سے مخاطب کیا، ’’میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا۔ میں ایک چلہ کر رہی تھی انتالیس راتیں پوری ہوچکی تھیں۔ کل چالیسویں اور آخری رات تھی۔ حکم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں اس جلالی وظیفے کے دوران میں مڑ کر نہ دیکھوں ورنہ اس کا سارا اثر ختم ہوجائے گا۔ اور کل رات۔۔۔ دو بجے کے قریب وظیفہ پڑھنے میں میں نے اچانک دیکھا کہ جائےنماز کے سامنے ایک گدھے کی جسامت کا ہیبت ناک سیاہ کتا میرے مقابل میں بیٹھا دانت نکوس رہا ہے۔۔۔ میں نے دہل کر چیخ ماری اور چلہ ٹوٹ گیا۔ کتا غائب ہوگیا۔ مگر میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور انہوں نے عینک اتار کر پلکیں خشک کیں۔ باجی ہکا بکا ہوکر انہیں دیکھنے لگیں۔۔۔ ’’مگر زبیدہ آپا۔۔۔ آپ تو۔۔۔ آپ تو سائنسداں ہیں۔ مانچسٹر یونیورسٹی سے پڑھ کر آئی ہیں۔ اور ایسی توہم پرستی کی باتیں کرتی ہیں۔ ہوش کی دوا کیجئے۔ آپ کو ہیلوسی نیشن (hallucination) ہوا ہوگا۔۔۔ گدھے کے برابر کتا۔۔۔ اور وہ آپ سے آپ غائب بھی ہوگیا۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر باجی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
’’ریحانہ خاتون۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صدیقی نے سر نیہوڑا کر باجی کو گہری نظر سے دیکھا اور آہستہ آہستہ کہا۔ ’’تم ابھی صرف بائیس برس کی ہو تمہارے ماں باپ اور محبت کرنے والے چچاؤں کا سایہ تمہارے سر پر قائم ہے۔ تم ایک بھرے پرے کنبے میں، اپنے چہیتے بہن بھائیوں کے ساتھ، سکھ کی چھاؤں میں زندہ ہو۔ اپنی پسند کے نوجوان سے تمہارا بیاہ ہونے والا ہے۔۔۔ ساری زندگی تمہاری منتظر ہے، دنیا کی ساری مسرتیں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔ خدا نہ کرے تم پر کبھی ایسی قیامت گزرے جو مجھ پر گزر رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ تمہیں کبھی تنِ تنہا اپنی تنہائی کا مقابلہ کرنا پڑے۔۔۔ کسی کی بے بسی اور اس کے دکھی دل کا مذاق نہ اڑائو۔۔۔‘‘ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑگئی جو میز کے سرے پر بیٹھی مستعدی سے جاسوسی میں مصروف تھی۔ کیونکہ گدھے کے برابر سیاہ کتا ایک انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئیں۔ باجی نے پلکیں جھپکا کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اڑنچھوں ہو جاؤں۔ چنانچہ میں اڑنچھو ہوگئی۔
اس واقعے کے دوسرے دن ڈاکٹر صدیقی کلکتہ روانہ ہوگئیں۔ اور ان کے جانے کے چند روز بعد ہی ایک انوکھی اور بن بلائی مہمان اتریں۔
ڈالن والا کی سڑکیں عموماً خاموش پڑی رہتی تھیں۔ اکا دکا راہگیر یا موٹروں اور تانگوں کے علاوہ کبھی کبھار کوئی سکھ جوتشی ہاتھ میں سرٹیفکیٹوں کا میلا سا پلندہ سنبھالے ادھر ادھر تاکتا سامنے سے گزر جاتا تھا۔ یا موٹے موٹے ’چائینا مین‘ زین میں بڑی نفاست سے بندھے ہوئے بے حد وزنی گٹھر سائیکلوں پر لادے چکر کاٹا کرتے تھے، یا کشمیری قالین فروش یا بزاز یا قیمتی پتھر فروخت کرنے والا پھیری لگا جاتے تھے۔
مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ان ہی پھیری والوں میں سے ایک تھے۔ مگر وہ اپنے آپ کو ٹریولنگ سیلزمین کہتے تھے۔ اور انتہا سے زیادہ چرب زبان اور لسان آدمی تھے۔ موصوف مسلمان سے عیسائی ہوگئے تھے۔ ترکی ٹوپی اوڑھتے تھے اور سائیکل پر پلاسٹک کے برتن بیچتے گھوما کرتے تھے، اور مہینے دو مہینے میں ایک بار ہماری طرف کا پھیرا لگا جاتے تھے۔ وہ اپنی ہر بات کا آغاز ’خدا باپ کا شکر ہے‘ سے کرتے تھے اور کبھی کبھی تبلیغ بھی شروع کردیتے تھے۔
اس دن مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں جو سائیکل برساتی میں ٹکا کر برآمدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے ناک کی سیدھ جا کر مہمان کمرے کے اندر جھانکا جس کا دروازہ کھلا پڑا تھا اور اطمینان سے اظہارِ خیال کیا، ’’ہوں۔ تو یہ کمرہ تو ہمیشہ خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ بات یہ ہے کہ میری ایک بہن ہیں۔ وہ لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ اور چند روز کے لیے دہرہ دون آرہی ہیں۔‘‘ اس کے بعد جواب کا انتظار کیے بغیر وہ سائیکل پر بیٹھ کر غائب ہوگئے۔
تیسرے روز جاپانی جارجٹ کی ملا گیری ساڑی میں ملبوس ایک بے حد فربہ خاتون تانگے سے اتریں۔ مسٹر سردار خاں سائیکل پر ہم رکاب تھے۔ انہوں نے اسباب اتار کر مہمان کمرے میں پہنچایا اور والدہ اور باجی سے ان کا تعارف کرایا۔۔۔ ’’یہ میری بہن ہیں۔ آپ کے یہاں دو تین دن رہیں گی۔ اچھا، اب میں جاتا ہوں۔‘‘ پھر خاتون کو مخاطب کیا۔۔۔ ’’بھئی تم کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو بلا تکلّف بیگم صاحبہ سے کہہ دینا۔۔۔ اپنا ہی گھر سمجھو، اچھا۔۔۔ بائی بائی۔۔۔ ‘‘ اور سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
یہ ایک مسلمان بی بی تھیں، جنہوں نے یہ نہ بتایا کہ کہاں سے آرہی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ محض اس امر سے انہوں نے آگاہ کیا کہ پرائیوٹ طور پر ہومیوپیتھک ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں۔ اور شام کے وقت اپنے اٹیچی کیس میں سے ایک
بارش کے بعد جب باغ بھیگا بھیگا سا ہوتا اور ایک انوکھی سی تازگی اور خوشبو فضا میں تیرتی تو بوڑھے کو واپس جاتے وقت گھاس پر گری کوئی خوبانی مل جاتی۔ وہ اسے اٹھا کر جیب میں رکھ لیتا۔ ریشم اس کے پیچھے پیچھے چلتی۔ اکثر ریشم شکار کی تلاش میں جھاڑیوں کے اندر غائب ہو جاتی یا کسی درخت پر چڑھ جاتی تو بوڑھا سر اٹھا کر ایک لمحے کے لیے درخت کی ہلتی ہوئی شاخ کو دیکھتا اور پھر سر جھکا کر پھاٹک سے باہر چلا جاتا۔ تیسرے روز سہ پہر کو پھر اسی طرح بجری پر چھڑی کھٹکھٹانے کی آواز آتی۔ یہ معمول بہت دنوں سے جاری تھا۔
جب سے پڑوس میں مسز جوگ مایا چٹرجی کلکتے سے آن کر رہی تھیں، اس محلے کے باسیوں کو بڑا سخت احساس ہوا تھا کہ ان کی زندگیوں میں کلچر کی بہت کمی ہے۔ موسیقی کی حد تک ان سب کے ’گول کمروں‘ میں ایک ایک گرامو فون رکھا تھا۔ (ابھی ریڈیو عام نہیں ہوئے تھے۔ فریجڈیر status symbol نہیں بنا تھا۔ ٹیپ ریکارڈ ایجاد نہیں ہوئے تھے اور سماجی رتبے کی علامات ابھی صرف کوٹھی، کار اور بیرے پر مشتمل تھیں) لیکن جب مسز جوگ مایا چٹرجی کے وہاں صبح شام ہارمونیم کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو سروے آف انڈیا کے اعلا افسر کی بیوی مسز گوسوامی نے محکمۂ جنگلات کے اعلا افسر کی بیوی مسز فاروقی سے کہا۔۔۔ ’’بہن جی۔ ہم لوگ تو بہت ہی بیک ورڈ رہ گئے۔ ان بنگالیوں کو دیکھیے، ہر چیز میں آگے آگے۔۔۔‘‘
’’اور میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ ان لوگوں میں جب تک لڑکی گانا بجانا نہ سیکھ لے اس کا بیاہ نہیں ہوتا،‘‘ ملٹری اکیڈیمی کے اعلا افسر کی بیوی مسز جسونت سنگھ نے اظہارِ خیال کیا۔
’’ہم مسلمانوں میں تو گانا بجانا معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر آج کل زمانہ دوسرا ہے۔ میں نے تو ’ان‘ سے کہہ دیا ہے۔ میں اپنی حمیدہ کو ہارمونیم ضرور سکھاؤں گی۔‘‘ مسز فاروقی نے جواب دیا۔
اور اس طرح رفتہ رفتہ ڈالن والا میں آرٹ اور کلچر کی ہوا چل پڑی۔ ڈاکٹر سنہا کی لڑکی نے ناچ سیکھنا بھی شروع کردیا، ہفتے میں تین بار ایک منحنی سے ڈانس ماسٹر اس کے گھرآتے، انگلیوں میں سلگتی ہوئی بیڑی تھامے، منہ سے عجیب عجیب آوازیں نکالتے جو ’جی جی کتّ تا توم ترنگ تکا تُن تُن، وغیرہ الفاظ پر مشتمل ہوتیں۔ وہ طبلہ بجاتے رہتے اور اوشا سنہا کے پاؤں، توڑوں کی چک پھیریاں لیتے لیتے گھنگھروؤں کی چوٹ سے زخمی ہوجاتے۔
پڑوس کے ایک نوجوان رئیس سردار امرجیت سنگھ نے وائلن پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا۔ سردار امرجیت سنگھ کے والد نے ڈچ ایسٹ انڈیز کے دار السلطنت بٹا ویا میں جواب جمہوریہ انڈونیشیا کا دار السلطنت جکارتا کہلاتا ہے، بزنس کر کے بہت دولت جمع کی تھی۔ سردار امرجیت سنگھ ایک شوقین مزاج رئیس تھے۔ جب وہ گراموفون پر بڑے انہماک سے ببّو کا ریکارڈ،
خزاں نے آکے چمن کو اجاڑ دینا ہے
مری کھلی ہوئی کلیوں کو لوٹ لینا ہے
بار بار نہ بجاتے تو دریچے میں کھڑے ہو کر وائلن کے تاروں پر اسی انہماک سے گز رگڑا کرتے۔ ورنہ پھیری والے بزازوں سے رنگ برنگی چھینٹوں کی جارجت اپنے صافوں کے لیے خریدتے رہتے، اور یہ بڑھیا بڑھیا صافے باندھ کر اور داڑھی پر سیاہ پٹی نفاست سے چڑھا کر مسز فلک ناز مروارید خاں سے ملاقات کے لیے چلے جاتے اور اپنی زوجہ سردارنی بی بی چرن جیت کور سے کہہ جاتے کہ وائلن سیکھنے جارہے ہیں۔
اسی زمانے میں باجی کو سرود کا شوق پیدا ہوا۔
وہ موسم سرما گوناگوں واقعات سے پر گزرا تھا۔ سب سے پہلے تو ریشم کی ٹانگ زخمی ہوئی۔ پھر موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلانے والی مس زہرہ ڈربی نے آکر پریڈ گراؤنڈ پر اپنے جھنڈے گاڑے ڈائنا بیکٹ قتّالۂ عالم حسینہ لندن کہلائی۔ ڈاکٹر مس زبیدہ صدیقی کو رات کو دو بجے گدھے کی جسامت کا کتّا نظر آیا۔ مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ہماری زندگیوں سے غائب ہوگئے۔ نیگس نے خودکشی کر لی اور فقیرا کی بھاوج گوریّا چڑیا بن گئی۔ چونکہ یہ سب نہایت اہم واقعات تھے لہٰذا میں سلسلے وار ان کا تذکرہ کرتی ہوں۔
میری بہت خوب صورت اورپیاری ریحانہ باجی نے جو میری چچا زاد بہن تھیں، اسی سال بی۔ اے پاس کیا تھا اور وہ علیگڑھ سے چند ماہ کے لیے ہمارے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ ایک سہانی صبح باجی سامنے کے برآمدے میں کھڑی ڈاکٹر ہون کی بیوی سے باتوں میں مصروف تھیں کہ اچانک برساتی کی بجری پر ہلکی سی کھٹ کھٹ ہوئی اور ایک نحیف اور منحنی سے بوڑھے نے بڑی دھیمی اورملائم آواز میں کہا، ’’میں نے سنا ہے یہاں کوئی لیڈی سرود سیکھنا چاہتی ہیں۔‘‘
باجی کے سوالات پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان کی ماہانہ فیس پانچ روپے ہے اور وہ ہفتے میں تین بار ایک گھنٹہ سبق دیں گے۔ وہ کرزن روڈ پر پادری اسکاٹ کی خالی کوٹھی کے شاگرد پیشے میں رہتے ہیں۔ ان کے بیوی بچے سب مرچکے ہیں اور برسوں سے ان کا ذریعۂ معاش سرود ہے جس کے ذریعے وہ آٹھ دس روپے مہینا کما لیتے ہیں۔
’’لیکن اس خوابیدہ شہر میں سرود سیکھنے والے ہی کتنے ہوں گے؟ ‘‘ باجی نے پوچھا۔ انہوں نے اسی دھیمی آواز میں کہا، ’’کبھی کبھی دو ایک طالب علم مل جاتے ہیں۔‘‘ ( اس کے علاوہ انہوں نے اپنے متعلق کچھ نہیں بتلایا) وہ انتہائی خوددار انسان معلوم ہوتے تھے، ان کا نام سائمن تھا۔
پیر کے روز وہ ٹیوشن کے لیے آگئے۔ باجی پچھلے لان پر دھوپ میں بیٹھی تھیں۔ ’’مسٹر سائمن کو یہیں بھیج دو،‘‘ انہوں نے فقیرا سے کہا۔ باجی کی طرف جانے کے لیے فقیرا نے ان کو اندر بلالیا۔ اس روز بڑی سردی تھی اور میں اپنے کمرے میں بیٹھی کسی سٹرپٹر میں محو تھی۔ میرے کمرے میں سے گزرتے ہوئے ذرا ٹھٹک کر سائمن نے چاروں طرف دیکھا۔ آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے ان کے قدم آتش دان کی سمت بڑھے اورانہوں نے آگ کی طرف ہتھیلیاں پھیلائیں۔ مگر پھر جلدی سے فقیرا کے پیچھے پیچھے باہر چلے گئے۔
ریشم نے ان سے بہت جلد دوستی کر لی۔ یہ بڑے تعجب کی بات تھی۔ کیونکہ ریشم بے انتہا مغرور، اکل کھری اور اپنے سیامی حسن پر حد سے زیادہ نازاں تھی۔ اور بہت کم لوگوں کو خاطر میں لاتی تھی۔ زیادہ تر وہ اپنی ساٹن کے ریشمی جھالر دار غلاف والی ٹوکری کے گدیلوں پر آرام کرتی رہتی اور کھانے کے وقت بڑی مکّاری سے آنکھیں بند کر کے میز کے نیچے بیٹھ جاتی۔ ’’اس کی ساری خاصیتیں ویمپ (vamp) عورتوں کی سی ہیں،‘‘ باجی کہتیں۔ ’’عورت کی خاصیت بلّی کی ایسی ہوتی ہے، چمکارو تو پنجے نکال لے گی، بے رخی برتوں تو خوشامد شروع کردے گی۔۔۔‘‘
’’اور آدمی لوگوں کی خاصیت کیسی ہوتی ہے باجی؟ ‘‘ میں پوچھتی، باجی ہنسنے لگتیں اور کہتیں، ’’ یہ ابھی مجھے معلوم نہیں۔‘‘
باجی چہرے پر دل فریب اور مطمئن مسکراہٹ لیے باغ میں بیٹھی مظفر بھائی کے بے حد دل چسپ خط پڑھا کرتیں، جو ان کے نام ہر پانچویں دن بمبئی سے آتے تھے۔ جہاں مظفر بھائی انجینئرنگ پڑھ رہے تھے۔ مظفر بھائی میرے اور باجی کے چچازاد بھائی تھے اور باجی سے ان کی شادی طے ہو چکی تھی۔ جتنی دیر وہ باغ میں بیٹھتیں، غفور بیگم ان کے نزدیک گھاس پر پاندان کھولے بیٹھی رہتیں۔ جب باجی اندر چلی جاتیں تو غفور بیگم شاگرد پیشے کی طرف جاکر فقیرا بھاوج سے باتیں کرنے لگتیں یا پھر اپنی نماز کی چوکی پر آ بیٹھتیں۔
غفور بیگم باجی کی بے حد وفادار اناّ تھیں۔ ان کے شوہر نے، جن کی علیگڑھ میں میرس روڈ کے چوراہے پر سائیکلوں کی دکان تھی، پچھلے برس ایک نوجوان لڑکی سے نکاح کر لیا تھا، اور تب سے غفور بیگم اپنا زیادہ وقت نماز روزے میں گزارتی تھیں۔
سائمن کے آتے ہی ریشم دبے پاؤں چلتی ہوئی آکر خُر خُر کرنے لگتی اور وہ فوراً جیب سے رومال نکال کر اسے کچھ کھانے کو دیتے۔ شام کے وقت جب فقیرا ان کے لیے چائے کی کشتی لے کر برآمدے میں جاتا تو وہ آدھی چائے طشتری میں ڈال کر فرش پر رکھ دیتے اور ریشم فوراً طشتری چاٹ جاتی اور فقیرا بڑ بڑاتا، ’’ہمارے ہاتھ سے تو رانی صاحب دودھ پینے میں بھی نخرے کرتی ہیں۔‘‘
فقیرا ایک ہنس مکھ گڑھوالی نوجوان تھا۔ دو سال قبل وہ چیتھڑوں میں ملبوس، نہر کی منڈیر پر بیٹھا، اون اورسلائیوں سے موزرے بن رہا تھا۔ جو پہاڑیوں کا عام دستور ہے، تو سکھ نندن خانساماں نے اس سے پوچھا تھا، ’’کیوں بے نوکری کرے گا؟‘‘ اور اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔ ’’ مہینوں سے بھوکوں مر رہا ہوں کیوں نہیں کروں گا۔‘‘ تب سے وہ ہمارے یہاں ’اوپر کا کام‘ کر رہا تھا، اور ایک روز اس نے اطلاع دی تھی کہ اس کے دونوں بڑے بھائیوں کی مٹی ہوگئی ہے اور وہ اپنی بھاوج کو لینے گڑھوال جارہا ہے۔ اور چند دنوں بعد اس کی بھاوج جل دھرا پہاڑوں سے آکر شاگرد پیشے میں بس گئی تھی۔
جل دھرا ادھیڑ عمر کی ایک گوری چٹّی عورت تھی، جس کے ماتھے، ٹھوڑی اور کلائیوں پر نیلے رنگ کے نقش و نگار گدے ہوئے تھے۔ وہ ناک میں سونے کی لونگ اور بڑا سا بُلاق اور کانوں کے بڑے بڑے سوراخوں میں لاکھ کے پھول پہنتی تھی اور اس کے گلے میں ملکہ وکٹوریہ کے روپوں کی مالا بھی پڑی تھی۔ یہ تین گہنے اس کے تینوں مشترکہ شوہروں کی واحد جائیداد تھے۔ اس کے دونوں متوفی شوہر مرتے دم تک یاتریوں کا سامان ڈھوتے رہے تھے اور اتفاق سے اکٹھے ہی ایک پہاڑی سے گر کر مرگئے تھے۔
جل دھرا بڑے میٹھے لہجے میں بات کرتی تھی اور ہر وقت سوئٹر بنتی رہتی تھی۔ اسے کنٹھ مالا کا پرانا مرض تھا۔ فقیرا اس کے علاج معالجے کے لیے فکر مند رہتا تھا اور اس سے بے حد محبت کرتا تھا۔ جل دھرا کی آمد پر باقی نوکروں کی بیویوں نے آپس میں چہ میگوئیاں کی تھیں۔۔۔ ’’یہ پہاڑیوں کے ہاں کیسا برا رواج ہے ایک لُگائی کے دو دو تین تین خاوند۔۔۔‘‘ اور جب جل دھرا کا تذکرہ دوپہر کو کھانے کی میز پر ہوا تھا تو باجی نے فوراً درو پدی کا حوالہ دیا تھا اور کہا تھا پہاڑوں میں پولی اینڈ ری کا رواج مہابھارت کے زمانے سے چلا آتا ہے اور ملک کے بہت سے حصوں کا سماجی ارتقا ایک خاص اسٹیج پر پہنچ کر وہیں منجمد ہوچکا ہے اور پہاڑی علاقے بھی ان ہی پس ماندہ حصوں میں سے ہیں۔
باجی نے یہ بھی کہا کہ پولی اینڈ ری، جسے اردو میں ’چند شوہری ‘ کہتے ہیں، مادرانہ نظام کی یادگار ہے۔ اور معاشرے نے جب مادرانہ نظام سے پدری نظام کی طرف ترقی کی تو انسان بھی کثیر الازدواجی کی طرف چلا گیا۔ اور مادرانہ نظام سے بھی پہلے، ہزاروں سال قبل، تین چار بھائیوں کے بجائے قبیلوں کے پورے پورے گروہ ایک ہی عورت کے ساتھ رہتے تھے اور ویدوں میں ان قبائل کا ذکر موجود ہے۔ میں منہ کھولے یہ سب سنتی رہی۔ باجی بہت قابل تھیں۔ بی۔ اے میں انہیں فرسٹ ڈویژن ملا تھا اور ساری علیگڑھ یونیورسٹی میں اوّل رہی تھیں۔
ایک روز میں اپنی چھوٹی سی سائیکل پر اپنی سہیلیوں کے ہاں جا رہی تھی۔ ریشم میرے پیچھے پیچھے بھاگتی آرہی تھی۔ اس خیال سے کہ وہ سڑک پر آنے والی موٹروں سے کچل نہ جائے۔ میں سائیکل سے اتری، اسے خوب ڈانٹ کر سڑک پر سے اٹھایا اور باڑ پر سے احاطے کے اندر پھینک دیا اور پیڈل پر زور سے پاؤں مار کر تیزی سے آگے نکل گئی۔ لیکن ریشم احاطے میں کودنے کے بجائے باڑ کے اندر لگے ہوئے تیزنوکیلے کانٹوں والے تاروں میں الجھ گئی۔ اس کی ایک ران بری طرح زخمی ہوئی۔ وہ لہو لہان ہوگئی اور اس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا اور اسی طرح تار سے لٹکی چیختی اور کراہتی رہی۔ بہت دیر بعد جب فقیرا ادھر سے گزرا جو جھاڑیوں سے مرچیں اور ٹماٹر توڑنے اس طرف آیا تھا، تو اس نے بڑی مشکل سے ریشم کو باڑ میں سے نکالا اور اندر لے گیا۔
جب میں کملا اور وملا کے گھر سے لوٹی تو دیکھا کہ سب کے چہرے اترے ہوئے ہیں۔ ’’تمہاری ریشم مر رہی ہے،‘‘ باجی نے کہا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ’’کم بخت جانے کس طرح جا کر باڑ کے تاروں میں الجھ گئی۔ جنے اس قدر احمق کیوں ہے؟ چڑیوں کی لالچ میں وہاں جا گھسی ہوگی۔ اب بری طرح چلّا رہی ہے۔ ابھی ڈاکٹر صاحب مرہم پٹّی کر کے گئے ہیں۔‘‘
میرا دل دہل گیا۔ ریشم کی اس ناقابلِ برداشت تکلیف کی ذمہ داری میں تھی۔ اس کی تکلیف اور ممکن موت کے صدمے کے ساتھ انتہائی شدید احساسِ جرم نے مجھے سراسیمہ کردیا اور میں جا کر گھر کے پچھواڑے گھنے درختوں میں چھپ گئی تاکہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاؤں۔ کچھ فاصلے پر کھٹ کھٹ بڑھیا کی شکل والی مسز وار بروک کے گھر میں سے وائرلیس کی آواز آرہی تھی۔ دور شاگرد پیشے کے سامنے فقیرا کی بھاوج گھاس پر بیٹھی غفور بیگم سے باتیں کر رہی تھی۔ پچھلے برآمدے میں باجی اب مظفر بھائی کو خط لکھنے میں محو ہو چکی تھیں۔ باجی کی عادت تھی کہ دن بھر میں کوئی بھی خاص بات ہوتی تھی تو وہ فوراً مظفر بھائی کو طویل سا خط لکھتی تھیں۔ ریشم پٹیوں سے بندھی ان کے نزدیک اپنی ٹوکری میں پڑی تھی۔
ساری دنیا پرسکون تھی، صرف میں ایک روپوش مجرم کی طرح اونچی اونچی گھاس میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کروں۔ آخر میں آہستہ آہستہ اپنے والد کے کمرے کی طرف گئی اور دریچے میں سے اندر جھانکا۔ والد آرام کرسی پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ میں اندر گئی اور کرسی کے پیچھے جاکر کھڑی ہوگئی۔ ’’کیا بات ہے بی بی؟‘‘ میری سسکی کی آواز پر انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔ ’’ریشم کو۔۔۔ ریشم کو ہم نے باڑ میں پھینک دیا تھا۔‘‘
’’آپ نے پھینک دیا تھا؟ ‘‘
’’ہم۔۔۔ ہم کملا و ملا کے ہاں جانے کی جلدی میں تھے۔ وہ اتنا منع کرنے کے باوجود پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ ہم نے اسے جلدی سے باغ کے اندر پھینک دیا۔‘‘ اتنا کہہ کر میں نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔ رونے کے بعد دل ہلکا ہوا اور جرم کا تھوڑا سا پرائشچت بھی ہوگیا، مگر ریشم کی تکلیف کسی طرح کم نہ ہوئی۔ شام کو سائمن سبق سکھانے کے بعد دیر تک اس کے پاس بیٹھے اس سے باتیں کرتے رہے۔
ریشم کی روزانہ مرہم پٹّی ہوتی تھی اور ہفتے میں ایک دفعہ اسے ’گھوڑا ہسپتال‘ بھیجا جاتا تھا۔ اس کی ران پر سے اس کے گھنے اور لمبے لمبے سرمئی بال مونڈ دیئے گئے تھے اور زخم کی گہری سرخ لکیریں دور تک کھنچی ہوئی تھیں۔ کافی دنوں کے بعد اس کے زخم بھرے اور اس نے لنگڑا کر چلنا شروع کردیا۔ ایک مہینے بعد وہ آہستہ آہستہ لنگڑاتی ہوئی سائمن کو پہنچانے پھاٹک تک گئی اور جب فقیرا بازار سے اس کے لیے چھچھڑے لے کر آتا تو وہ اسی طرح لنگڑاتی ہوئی کونے میں رکھے ہوئے اپنے برتن تک بھی جانے لگی۔
ایک روز صبح کے وقت مسٹر جارج بیکٹ باڑ پر نمودار ہوئے اور ذرا جھجکتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنی طرف بلایا۔ ’’ریشم کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ’’انہوں نے دریافت کیا۔ ’’مجھے مسٹر سائمن نے بتایا تھا کہ وہ بہت زخمی ہوگئی تھی۔‘‘
مسٹر جارج بیکٹ نے پہلی بار اس محلّے میں کسی سے بات کی تھی۔ میں نے ریشم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور وہ اپنے چارخانہ کوٹ کی پھٹی ہوئی جیبوں میں انگوٹھے ٹھونس کر آگے چلے گئے۔
مسٹر جارج بیکٹ ایک بے حد فاقہ زدہ اینگلو انڈین تھے اور پلپلی صاحب کہلاتے تھے۔ وہ سڑک کے سرے پر ایک خستہ حال کائی آلود کاٹج میں رہتے تھے اور بالٹی اٹھا کر صبح کو میونسپلٹی کے نل پر خود پانی بھرنے جایا کرتے تھے۔ ان کی ایک لڑکی تھی جس کا نام ڈائنا تھا۔ وہ پریڈ گراؤنڈ پر ایک انگریزی سنیما ہال میں ٹکٹ بیچتی تھی اور خوش رنگ فراک پہنے اکثر سامنے سے سائیکل پر گزرا کرتی تھی، اس کے پاس صرف چار فراک تھے جنہیں وہ دھو دھو کر اور بدل بدل کر پہنا کرتی تھی اور مسز گوسوامی، مسز فاروقی اور مسز جسونت سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’سنیما ہال کی نوکری کے اسے صرف پچیس روپلّی ملتے ہیں اور کیسے ٹھاٹ کے کپڑے پہنتی ہے۔ اسے گورے پیسے دیتے ہیں۔‘‘ لیکن گورے اگر اسے پیسے دیتے تھے (یہ میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے گورے کیوں پیسے دیتے تھے) تواس کا بوڑھا باپ نل پر پانی بھرنے کیوں جاتا تھا۔
یہ پنشن یافتہ متمول انگریزوں کا محلہ تھا جو پر فضا خوبصورت کوٹھیوں میں خاموشی سے رہتے تھے۔ ان کے انتہائی نفاست سے سجے ہوئے کمروں اور برآمدوں میں لندن السٹریٹیڈ نیوز، ٹیٹلر، کنٹری لائف اور پنچ کے انبار میزوں پر رکھے تھے۔ اور ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے پلندے سمندری ڈاک سے ان کے نام آتے تھے۔ ان کی بیویاں روزانہ صبح کو اپنے اپنے ’مورننگ روم‘ میں بیٹھ کر بڑے اہتمام سے ’ہوم‘ خط لکھتی تھیں۔ اور ان کے ’گول کمروں‘ میں ان کے بیٹوں کی تصویریں رو پہلے فریموں میں سجی تھیں جو مشرقی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں سلطنت برطانیہ کے آفتاب کو مزید چمکانے میں مصروف تھے۔ یہ لوگ مدّتوں سے اس ملک میں رہتے آرہے تھے مگر ’کوئی ہائے‘ اور ’عبدل چھوٹا حاضری مانگتا‘ سے زیادہ الفاظ نہ جانتے تھے۔ یہ عزت پسند انگریز دن بھر باغبانی یا برڈ واچنگ (bird watching) یا ٹکٹ جمع کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
یہ بڑے عجیب لوگ تھے۔ مسٹر ہارڈ کاسل تبتی زبان اور رسم و رواج کے ماہر تھے۔ مسٹر گرین آسام کے کھاسی قبائل پر اتھارٹی تھے۔ کرنل وایٹ ہیڈ جو شمالی مغربی سرحد کے معرکوں میں اپنی ایک ٹانگ کھو چکے تھے اور لکڑی کی ٹانگ لگاتے تھے، خوش حال خاں خٹک پر عبور رکھتے تھے۔ میجر شیلٹن اسٹیس مین میں شکار کے متعلق مضامین لکھا کرتے تھے۔ اور مسٹر مارچ مین کو شطرنج کا خبط تھا۔ مس ڈرنک واٹر پلانچٹ پر روحیں بلاتی تھیں اور مسزوار بُروک تصوریں بناتی تھیں۔
مسزوار بُروک ایک بریگیڈیر کی بیوہ تھیں اور ہمارے پچھواڑے رہتی تھیں۔ ان کی بوڑھی پھونس کنواری بہن بھی ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان دونوں کی شکلیں لمبی چونچ والے پرندوں کی ایسی تھیں۔ اور یہ دونوں اپنے طویل و عریض ڈرائنگ روم کے کسی کونے میں بیٹھی آبی رنگوں سے ہلکی پھلکی تصویریں بنایا کرتی تھیں۔ وہ دونوں اتنی مختصر سی تھیں کہ پھولدار غلافوں سے ڈھکے ہوئے فرنیچر اور دوسرے ساز و سامان کے جنگل میں کھو جاتی تھیں اور پہلی نظر میں بڑی مشکل سے نظر آتی تھیں۔
ڈالن والا کی ایک کوٹھی میں ’انگلش اسٹورز‘ تھا۔ جس کا مالک ایک پارسی تھا۔ محلے کی ساری انگریز اور نیٹو بیویاں یہاں آکر خریداری کرتی تھیں اور اسکنڈل اور خبروں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتی تھیں۔
اس خوش حال اور مطمئن انگریزی محلے کے واحد مفلس اور اینگلو انڈین باسی بجھی بجھی نیلی آنکھوں والے مسٹر جارج بیکٹ تھے۔ مگر وہ بڑی آن بان والے اینگلو انڈین تھے اور خود کو پکّا انگریز سمجھتے تھے، انگلستان کو ’ہوم‘ کہتے تھے اور چند سال ادھر جب شہنشاہ جارج پنجم کے انتقال پر کولا گڑھ میں سلو مارچ پر بڑی بھاری پریڈ ہوئی تھی اور گوروں کے بینڈ نے موت کا نغمہ بجایا تھا تو مسٹر جارج بیکٹ بھی بازو پر سیاہ ماتمی پٹّی باندھ کر کولا گڑھ گئے تھے اور انگریزوں کے مجمعے میں بیٹھے تھے اور ان کی لڑکی ڈائنا روز نے اپنے سنہرے بالوں اور خوبصورت چہرے کو سیاہ ہیٹ اور سیاہ جالی سے چھپایا تھا۔ اور مسٹر بیکٹ بہت دنوں تک سیاہ ماتمی پٹّی بازو پر باندھے رہے تھے۔
لیکن بچّے بہت بے رحم ہوتے ہیں۔ ڈالن والا کے سارے ہندوستانی بچّے مسٹر جارج بیکٹ کو نہ صرف پلپلی صاحب کہتے تھے بلکہ کملا اور وملا کے بڑے بھائی سورن نے جو ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا اور ڈون پبلک اسکول میں پڑھتا تھا۔ مسٹر بیکٹ کی لڑکی ڈائنا کو چڑانے کی ایک اور ترکیب نکالی تھی۔
کملا اور وملا کے والد ایک بے حد دل چسپ اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہوں نے ایک بہت ہی انوکھا انگریزی ریکارڈ ۱۹۲۸ء میں انگلستان سے خریدا تھا۔ یہ ایک انتہائی بے تکا گیت تھا جس کا اینگلو انڈین اردو ترجمہ بھی ساتھ ساتھ اسی دھن میں گایا گیا تھا۔ نہ جانے کس منچلے انگریز نے اسے تصنیف کیا تھا۔ یہ ریکارڈ اب سورن کے قبضے میں تھا۔ اور جب ڈائنا سائیکل پر ان کے گھر کے سامنے سے گزرتی تو سورن گرامو فون دریچے میں رکھ کر اس کے بھونپو کا رخ سڑک کی طرف کردیتا اور سوئی ریکارڈ پر رکھ کر چھپ جاتا۔ مندرجہ ذیل بلند پایہ روح پرور گیت کی آواز بلند ہوتی۔۔۔
there was a rich merchant in london did stay.
who had for his daughter an uncommon liking?
her name it was diana
she was sixteen years old
and had a large fortune in silver and gold.
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا۔
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سو لے برس کا عمر
جس کے پاس بہت کپڑا چاندی اور سونا
as diana was walking in the garden one day.
her father came to her and thus did he say:
go dress yourself up in gorgeous array
for you will have a husband both gallant and gay.
ایک دن جب ڈائنا باغیچہ میں تھی
باپ آیا اور بولا بیٹی
جاؤ کپڑا پہنو اور ہو صفا
کیوں کہ میں ترے واسطے ایک خاوند لایا
o father
dear father i've made up my mind
to marry at present i don't feel inclined.
and all my large fortune every day adore
if you let live me single a year or two more.
ارے رے مورا باپ تب بولی بیٹی
شادی کا ارادہ میں ناہیں کرتی
اگر ایک دو برس تکلیف ناہیں دیو
آ آ ارے دولت میں بالکل چھوڑ دیوں
then gave the father a gallant reply:
if you don't be this young man's bride
i'll leave all your fortune to the fearest of things
and you should reap the benefit of single thing.
تب باپ بولا ارے بچّہ بیٹی
اس شخص کی جورو تو ناہیں ہوتی
مال اور اسباب تیرا کُرکی کردیوں
اور ایک کچّی دمڑی بھی تجھے نادیوں
as wilikins was walking in the garden one day
he found his dear diana lying dead on the way.
a cup so fearful that lay by her side.
and wilikins doth fainteth with a cry in his eye
ایک دن جب ولی کن ہوا کھانے کو گیا
ڈائنا کا مردہ ایک کونے میں پایا
ایک بادشاہ پیالہ اس کے کمر پر پڑا
اور ایک چٹّھی جس میں لکھا،
’’زہر پی کے مرا‘‘
جیسے ہی ریکارڈ بجنا شروع ہوتا، بیچاری ڈائنا سائیکل کی رفتار تیز کر دیتی اور اپنے سنہرے بال جھٹک کر زنّاٹے سے آگے نکل جاتی۔
اس موسم سرما کا دوسرا اہم واقعہ پریڈ گراؤنڈ میں ’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کار نیول‘ کی آمد تھا۔ اس کے اشتہا لنگوروں اور مسخروں کے لمبے جلوس کے ذریعے بانٹے گئے تھے۔ جن پر لکھا تھا، ’’بیسویں صدی کا حیرت ناک تماشا، شیر دل حسینہ مس زہر ڈربی، موت کے کنویں میں، آج شب کو۔۔۔‘‘
سب سے پہلے فقیرا سرکس دیکھ کر لوٹا۔ وہ اپنی بھاوج کو بھی کھیل دکھانے لے گیا تھا۔ اور صبح کو اس نے اطلاع دی تھی۔۔۔ ’’بیگم صاحب۔۔۔ بڑی بٹیا۔۔۔ بی بی۔۔۔ زنانی ڈیتھ آف ویل میں ایسے پھٹ پھٹی چلاتی ہے کہ بس کیا بتاؤں۔۔۔ عورت ہے کہ شیر کی بچّی۔۔۔ ہرے رام۔۔۔ ہرے رام۔۔۔‘‘
دوسرے دن اسکول میں کملا وملا نے مجھے بتایا کہ مس زہرہ ڈربی ایک نہایت سنسنی خیز خاتون ہے۔ اور وہ دونوں بھی اس کے دلیرانہ کمالات بہ چشم خود دیکھ کر آئی ہیں۔
چونکہ میں سرکسوں پر پہلے ہی سے عاشق تھی لہٰذا جلد از جلد باجی کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ پہنچی۔ وہاں تمبو کے باہر ایک اونچے چوبی پلیٹ فارم پر ایک موٹر سائیکل گھڑ گھڑا رہی تھی اور اس کے پاس مس زہرہ ڈربی کرسی پر فروکش تھی۔ اس نے نیلے رنگ کی چمکدار ساٹن کا اس قطع کا لباس پہن رکھا تھا، جو مس نادیا نے ہنٹر والی فلم میں پہنا تھا۔ اس نے چہرے پر بہت سا گلابی پاؤڈر لگا رکھا تھا جو بجلی کی روشنی میں نیلا معلوم ہو رہا تھا۔ اور ہونٹ خوب گہرے سرخ رنگے ہوئے تھے۔ اس کے برابر میں ایک بے حد خوفناک، بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اسی طرح کی رنگ برنگی ’برجیس‘ پہنے، لمبے لمبے پٹّے سجائے اور گلے میں بڑا سا سرخ آدمی رومال باندھے بیٹھا تھا۔ مس زہرہ ڈربی کے چہرے پر بڑی اکتاہٹ تھی اور وہ بڑی بے لطفی سے سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔
اس کے بعد وہ دونوں موت کے کنویں میں داخل ہوئے جس کی تہہ میں ایک اور موٹر سائیکل رکھی تھی۔ خوف ناک آدمی موٹر سائیکل پر چڑھا اور مس زہرہ ڈربی سامنے اس کی بانہوں میں بیٹھ گئی۔ اور خوف ناک آدمی نے کنویں کے چکّر لگائے۔ پھر وہ اتر گیا اور مس زہرہ ڈربی نے تالیوں کے شور میں موٹر سائیکل پر تنہا کنویں کے چکّر لگائے اور اوپر آکر دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے۔ اور موٹر سائیکل کی تیز رفتار کی وجہ سے موت کا کنواں زور زور سے ہلنے لگا اور میں مس زہرہ ڈربی کی اس حیرت انگیز بہادری کو مسحور ہو کر دیکھتی رہی۔ کھیل کے بعد وہ دوبارہ اسی طرح چبوترے پر جا بیٹھی اور بے تعلقی سے سگریٹ پینا شروع کردیا۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔
یہ واقعہ تھا کہ مس زہرہ ڈربی جاپانی چھتری سنبھال کر تار پر چلنے والی میموں اور شیر کے پنجرے میں جانے والی اور اونچے اونچے تاروں اور جھولوں پر کمالات دکھانے والی لڑکیوں سے بھی زیادہ بہادر تھی۔ پچھلے برس وہاں ’عظیم الشان آل انڈیا دنگل‘ آیا تھا، جس میں مس حمیدہ بانو پہلوان نے اعلان کیا تھا کہ جو مرد پہلوان انہیں ہرا دے گا وہ اس سے شادی کرلیں گی۔ لیکن بقول فقیرا کوئی مائی کا لال اس شیر کی بچّی کو نہ ہرا سکا تھا اور اسی دنگل میں پروفیسر تارا بائی نے بھی بڑی زبردست کشتی لڑی تھی اور ان دونوں پہلوان خواتین کی تصویریں اشتہاروں میں چھپی تھیں جن میں وہ بنیان اور نیکریں پہنے ڈھیروں تمغے لگائے بڑی شان و شوکت سے کیمرے کو گھور رہی تھیں۔۔۔
یہ کون پر اسرار ہستیاں ہوتی ہیں جو تار پر چلتی ہیں اور موت کے کنویں میں موٹر سائیکل چلاتی ہیں اور اکھاڑے میں کشتی لڑتی ہیں۔ میں نے سب سے پوچھا لیکن کسی کو بھی ان کے متعلق کچھ نہ معلوم تھا۔
’دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس‘ ابھی تماشے ہی دکھا رہا تھا کہ ایک روز فقیرا پلٹن بازار سے سودا لے کر لوٹا تو اس نے ایک بڑی تہلکہ خیز خبر سنائی کہ مس زہرہ ڈربی کے عشاق، ماسٹر گل قند اور ماسٹر مچھندر کے درمیان چکّو چل گیا۔ ماسٹر مچھندر نے مس زہرہ ڈربی کو بھی چکّو سے گھائل کردیا اور وہ ہسپتال میں پڑی ہیں اور اس سے بھی تہلکہ خیز خبر، جو فقیرا نے چند دن بعد میونسپلٹی کے نل پر سنی، یہ تھی کہ پلپلی صاحب کی مسیا نے سرکس میں نوکری کرلی۔
’’ڈائنا بیکٹ نے۔۔۔؟ ‘‘ باجی نے دہرایا۔ ’’جی ہاں بڑی بٹیا۔۔۔ پلپلی صاحب کی مسیا، سنا ہے کہتی ہے کہ اس سے اپنے باپ کی غریبی اور تکلیف اب نہیں دیکھی جاتی اور دنیا والے تو یوں بھی تنگ کرتے ہیں۔ اوڈین سنیما میں اسے پچیس روپے ملتے تھے۔ سرکس میں پچھتّر روپے ملیں گے۔۔۔ یہ تو سچ ہے۔ وہ غریب تو بہت تھی بڑی بٹیا۔۔۔‘‘
’’اور گورے جو اس کو پیسے دیتے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ غفور بیگم نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا، ’’جاؤ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے۔‘‘ لہٰذا میں بھاگ گئی اور باہر جاکر ریشم کی ٹوکری کے پاس بیٹھ کے ڈائنا بیکٹ کی بہادری کے متعلق غور کرنے لگی۔
اب کی بار جب لنگوروں اور مسخروں نے سرکس کے اشتہار بانٹے تو ان پر چھپا تھا، ’’سرکس کے عاشقوں کو مژدہ پری جمال یورپین دوشیزہ کے حیرت انگیز کمالات قتالہ عالم، حسینہ لندن مس ڈائنا روز موت کے کنویں میں آج شب کو۔ ‘‘
ان ہی دنوں سنیما کا چرچا ہوا۔ یوں تو سنیما کے اشتہار عرصے سے لکڑی کے ٹھیلوں پر چپکے سامنے سے گزرا کرتے تھے۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’چیلنج‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں۔ پریڈ کے سامنے،پلیڈیم سنیما میں، آج شب کو۔‘‘
اور۔۔۔ ’’سال رواں کی بہترین فلم ’دہلی ایکسپریس‘ جس میں مس سردار اختر کام کرتی ہیں پریڈ کے سامنے، راکسی سنیما میں آج شب کو۔‘‘
اور مجھے بڑی پریشانی ہوتی تھی کہ مس سردار اختر دونوں جگہوں پر بیک وقت کس طرح ’کام‘ کریں گی۔ لیکن قسمت نے ایک دم یوں پلٹا کھایا کہ باجی اور ان کی سہیلیوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین فلم دیکھنے کو ملیں۔۔۔
’اچھوت کنیا‘ جس کے لیے مسز جوگ مایا چٹرجی نے بتایا کہ ہمارے دیش میں بہت زبردست سماجی انقلاب آگیا ہے اور گرو دیو ٹیگور کی بھانجی دیویکا رانی اب فلموں میں کام کرتی ہیں اور ’جیون لتا‘ جس میں سیتا دیوی نازک نازک چھوٹی سی آواز میں گاتیں۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔۔۔‘‘ اور ’جیون پر بھات‘ جسے باجی بڑے ذوق وشوق سے اس لیے دیکھنے گئیں کہ اس میں خورشید آپا ’کام‘ کررہی تھیں، جو اب رینوکا دیوی کہلاتی تھی، جو اس زبردست سماجی انقلاب کا ثبوت تھا۔
مسز جوگ مایا چٹرجی کی بشارت کے مطابق ہندوستان جن کے دروازے پر کھڑا تھا اور تبھی مسز جوگ مایا چٹرجی کی لڑکیوں نے ہارمونیم پر فلمی گانے ’نکالنے‘ شروع کردئیے۔ ’’بانکے بہاری بھول نہ جانا۔۔۔ پیتم پیاری پریت نبھانا۔۔۔‘‘ اور۔۔۔ ’’چور چراوے مال خزانہ، پیانینوں کی نندیا چرواے۔‘‘ اور۔۔۔ ’’تم اور میں اور منا پیارا۔۔۔ گھروا ہوگا سورگ ہمارا۔۔۔‘‘
غفور بیگم کام کرتے کرتے ان آوازوں پر کان دھرنے کے بعد کمر ہاتھ پر رکھ کر کہتیں، ’’بڑے بوڑھے سچ کہہ گئے تھے۔ قرب قیامت کے آثار یہی ہیں کہ گائے مینگناں کھائے گی اور کنواریاں اپنے منہ سے بر مانگیں گی۔‘‘ اتنے میں منورما چٹرجی کی سریلی آواز بلند ہوتی۔۔۔ ’’موہے پریم کے جھولے جھلادے کوئی۔‘‘
’’بے حیائی تیرا آسرا۔۔۔‘‘ غفور بیگم کانپ کر فریاد کرتیں اور سلیپر پاؤں میں ڈال کر سٹر پٹر کرتی اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتیں۔
ان ہی دنوں فقیرا بھی اپنی بھاوج کو یہ ساری فلمیں سیکنڈ شو میں دکھا لایا۔ مگر جس رات جل دھرا ’چنڈی داس‘ فلم دیکھ کر لوٹی، تو اسے بڑا سخت بخار چڑھ گیا، اور ڈاکٹر ہون نے صبح کو آکر اسے دیکھا اور کہا کہ اس کا مرض تشویش ناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ اب وہ روز تانگے میں لیٹ کر ہسپتال جاتی اور واپس آکر دھوپ میں گھاس پر کمبل بچھا کر لیٹی رہتی۔ کچھ دنوں میں اس کی حالت ذرا بہتر ہوگئی۔ اور سکھ نندن خانساماں کی بیوی دھن کلیا اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ کر اس کا دل بہلانے کے لیے پوربی گیت گایا کرتی اور اسے چھیڑ چھیڑ کر الاپتی۔۔۔ ’’ناجو ادا سے سرم و حیا سے بالے سیاں سے سرمائے گئی میں تو۔۔۔‘‘
اور غفور بیگم جب جل دھرا کی خیریت پوچھنے جاتیں تو وہ مسکرا کرکہتی، ’’انّا جی۔۔۔ میرا تو سمے آگیا۔ اب تھوڑے دنوں میں پر ان نکل جائیں گے۔۔۔‘‘ اب غفور بیگم اس کا دل رکھنے کے لیے کہتیں، ’’اری تو ابھی بہت جئے گی۔۔۔ اور اے جل دھریا۔۔۔ ذرا یہ تو بتا کہ تونے فقیرا نگوڑے پر کیا جادو کر رکھا ہے۔۔۔ ذرا مجھے بھی وہ منتر بتادے، مجھ بدبختی کو تو اپنے گھر والے کو رام کرنے کا ایک بھی نسخہ نہ ملا۔۔۔ تو ہی کوئی ٹوٹکا بتادے۔ سنا ہے پہاڑوں پر جادو ٹونے بہت ہوتے ہیں۔۔۔ فقیرا بھی کیسا تیرا کلمہ پڑھتا ہے۔۔۔ اری تو تو اس کی ماں کے برابر ہے۔۔۔!‘‘ اور وہ بڑی ادا سے ہنس کو جواب دیتی۔۔۔ ’’انا جی۔ کیا تم نے سنا نہیں پرانے چاول کیسے ہوتے ہیں؟‘‘
’’پرانے چاول۔۔۔؟‘‘ میں دہراتی اور غفور بیگم ذرا گھبرا کر مجھے دیکھتیں اور جلدی سے کہتیں۔۔۔ ’’بی بی آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟ جائیے بڑی بٹیا آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ لہٰذا میں سر جھکائے بجری کی رنگ برنگی کنکریاں جوتوں کی نوک سے ٹھکراتی ٹھکراتی باجی کی طرف چلی جاتی۔ مگر وہ فلسفے کی موٹی سی کتاب کے مطالعے میں یا مظفر بھائی کا خط پڑھنے یا اس کا جواب لکھنے میں مستغرق ہوتیں اور مجھے کہیں اور جانے کا حکم دے دیتیں تو میں گھوم پھر کر دوبارہ ریشم کی ٹوکری کے پاس جا بیٹھتی اور اس کے جلد تندرست ہونے کی دعائیں مانگنے لگتی۔
اسکول میں کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں، میں صبح صبح کملا وملا کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں مسٹر بیکٹ نظر آئے۔ وہ بے حد حواس باختہ اور دیوانہ وار ایک طرف کو بھاگے چلے جا رہے تھے۔ اتنے میں میجر چیلٹن نے اپنی ۱۹۲۶ء ماڈل کی کھڑ کھڑیا فوڈ روک کر انہیں اس میں بٹھا لیا اور فورڈ یورپین ہسپتال کی سمت روانہ ہوگئی۔
میں کملا کے گھر پہنچی تو سورن خلاف معمول بہت خاموش تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابھی پریڈ گراؤنڈ سے سارا واقعہ سن کر آیا ہے۔
’’ڈائنا بیکٹ ابھی ماسٹر مچھندر کے ساتھ ہی موٹر سائیکل پر بیٹھتی تھی اور دیکھنے والوں کا بیان تھا کہ دہشت کے مارے اس کا رنگ سفید پڑ جاتا تھا اور وہ آنکھیں بند کیے رہتی تھی۔ مگر سرکس منیجر نے اصرار کیا کہ وہ تنہا موٹر سائیکل چلانے کی ٹریننگ بھی شروع کردے تا کہ اس کے دل کا خوف نکل جائے۔ دل کا خوف نکالنے کے لیے اس نے موٹر سائیکل پر تنہا بیٹھ کر کنویں کی دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی مگر موٹر سائیکل بے قابو ہوگئی اور ڈائنا کی دونوں ٹانگیں موٹر سائیکل کے تیزی سے گھومتے ہوئے پہیوں میں آکر چور چور ہوگئیں۔ اسے فوراً یورپین ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ کرنل وائی کو مب سول سرجن نے کہا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ہمیشہ کے لیے بے کار ہوگئی ہیں۔ اور اسے ساری عمر پہیوں والی کرسی پر بیٹھ کر گزارنی ہوگی۔‘‘
اس دن ہم لوگوں کا کسی چیز میں دل نہ لگا۔ اور ہم سب ایک درخت کی شاخ پر چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ دیر بعد دفعتاً سورن شاخ پر سے نیچے کودا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کرکٹ کھیلنے چلا گیا۔ اور میں نے دیکھا کہ سب کے چہرے پر ایک عجیب سی ندامت طاری تھی۔ ایک انجانا سا احساس جرم اور ندامت۔
دوسرے روز دی گریٹ ایسٹ انڈین سرکس اینڈ کارنیول کے نوکیلی مونچھوں اور بے شمار تمغوں والے منیجر اور رنگ ماسٹر پروفیسر شہباز نے اعلان کیا کہ سرکس کوچ کر رہا ہے اور آئندہ سال معزز شائقین کو اس سے زیادہ حیرت ناک تماشے دکھائے جائیں گے لیکن فقیرا کی اطلاع کے مطابق وہ ڈرا ہوا تھا۔ اس کے سرکس میں پے در پے دو شدید حادثے ہوئے تھے اور پولس اس کے پیچھے لگ گئی تھی۔
سرکس نے کوچ کردیا اور مس زہرہ ڈربی بھی۔ ہسپتال سے جانے کہاں غائب ہوگئی۔
کرسمس کی چھٹیاں شروع ہوئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک بہت لمبی اور دبلی پتلی بی بی ہمارے یہاں مہمان آئیں۔ ان کا نام ڈاکٹر زبیدہ صدیقی تھا۔ وہ دہلی سے کلکتہ جارہی تھیں اور ایک ہفتے کے لیے ہمارے یہاں ٹھہری تھیں۔ انہوں نے ولایت سے سائنس کے کسی مضمون میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا تھا۔ وہ کسی دور افتادہ دیسی ریاست کے گرلز کالج کی پرنسپل تھیں اور سیاہ کنارے کی سفید ساری اور لمبی آستینوں کا سفید بلاؤز پہنتی تھیں، وہ اپنی طویل القامتی کی وجہ سے ذرا جھک کر چلتی تھیں اور سر نیہوڑا کر بڑی گہری نظر سے ہر ایک کو دیکھتی تھیں۔ اس وقت وہ گنتی کی ان مسلمان خواتین میں سے تھیں جنہوں نے سمندر پار جا کر اعلا تعلیم حاصل کی تھی۔
پہلے روز جب وہ کھانا کھانے بیٹھیں تو انہوں نے ذرا جھجک کر کہا، ’’آپ کے ہاں سارے ملازم ہندو ہیں۔میں دراصل ہندو کے ہاتھ کا پکا نہیں کھاتی۔۔۔‘‘
’’مسلمان ہوکر آپ چھوت چھات کرتی ہیں زبیدہ آپا؟ کمال ہے، اور آپ تو ولایت تک ہو آئی ہیں زبیدہ آپا۔۔۔‘‘ باجی نے اپنی خوبصورت آنکھیں پھیلا کر کہا۔
’’در اصل۔۔۔ وہ۔۔۔ میں۔۔۔ میں ایک وظیفہ پڑھ رہی ہوں آج کل۔۔۔‘‘ انہوں نے جھینپتے ہوئے جواب دیا۔ لہٰذا ان کا کھانا غفور بیگم نے با وضو ہوکر اپنے ہاتھ سے تیار کرنا شروع کیا۔ پڑوس کی مسلمان بیبیوں پر ڈاکٹر صدیقی کی مذہبیت کا بے انتہا رعب پڑا۔ ’’لڑکی ہو تو ایسی، سات سمندر پار ہو آئی مگر ساری کا آنچل مجال ہے جو سر سے سرک جائے۔۔۔‘‘ مسز فاروقی نے کہا۔
’’شرعی پردہ تو در اصل یہی ہے کہ عورت بس اپنا چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھے۔ اور اپنی زینت مردوں سے چھپائے۔ قرآن پاک میں یہی آیا ہے۔‘‘ مسز قریشی نے جواب دیا۔
’’روزے نماز کی پابند‘ شرم و حیا کی پتلی۔ اور مومنہ ایسی کہ ہندو کے ہاتھ کا پانی نہیں پیتی۔۔۔‘‘ مسز انصاری نے تعریف کی۔
ڈاکٹر صدیقی سارے وقت گھاس پر کرسی بچھائے باجی کو جانے کون سی داستان امیر حمزہ سنانے میں مشغول رہتی تھیں، اور فقیرا کی بھاوج کو دیکھ کر انہوں نے کہا تھا، ’’کیسی خوش نصیب عورت ہے۔‘‘
جب ڈاکٹر صدیقی صبح سے شام تک ایک ہی جیسی سنجیدہ اور غمناک شکل بنائے بیٹھی رہتیں تو ان کو محفوظ کرنے کے لیے باجی مجھے بلاتیں (گویا میں کوئی تماشا دکھانے والی بھالو تھی) اور حکم دیتیں۔ فلاں گیت گاؤ، فلاں قصہ سناؤ، زبیدہ آپا کو۔ ذرا بھاگ کے اپنی دوستوں کو بلا لاؤ اور سب مل کر ناچو۔۔۔
ایک دن ڈاکٹر صدیقی پچھلے لان پر بیٹھی باجی سے کہہ رہی تھیں، ’’مرے کے لیے تو صبر آ جاتا ہے، ریحانہ۔۔۔ زندہ کے لیے صبر کیسے کروں۔۔۔‘‘ اور اس دن جب انہوں نے کسی طرح مسکرانے کا نام ہی نہ لیا، تو باجی نے مجھے بلا کر حکم دیا، ’’ارے رے۔ ذرا وہ اپنے مسخرے پن کا اینگلو انڈین گیت تو سناؤ زبیدہ آپا کو۔۔۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘ میں نے فرماں برداری سے جواب دیا۔ اور سیدھی کھڑی ہوکر ہاتھ گھٹنوں تک چھوڑ کر (جس طرح اسکول میں انگریزی گانے گاتے یا نظمیں پڑھتے وقت کھڑا ہونا سکھلایا گیا تھا) میں نے گیت شروع کیا،
ایک بار ایک سودا گر شہر لندن میں تھا
جس کی ایک بیٹی نام ڈائنا اس کا
نام اس کا ڈائنا سولے برش کا عومر
جس کے پاس بہت کپڑا۔۔۔ اور۔۔۔ چاندی۔۔۔ اور۔۔۔
دفعتاً میرے حلق میں کوئی چیز سی اٹکی، میری آواز رندھ گئی اور میں گیت ادھورا چھوڑ کر وہاں سے تیزی سے بھاگ گئی۔ ڈاکٹر صدیقی حیرت سے مجھے دیکھتی رہ گئیں۔
شام کو میں نے وملا سے کہا، ’’یہ زبیدہ آپا ہر وقت جنے اتنی پریشان کیوں نظر آتی ہیں۔۔۔‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔ وہ مجھ سے ذرا بڑی تھی۔ اور ایک ماہر فن ڈیٹکیٹو تھی۔۔۔ ’’کل صبح آنٹی فاروقی آنٹی گوسوامی کو انگلش اسٹورز میں بتا رہی تھیں کہ ایک سائنٹسٹ ہیں۔ ان کا نام بھی ڈاکٹر کچھ ہے۔ مجھے یاد نہیں آرہا۔ آنٹی فاروقی نے آنٹی گو سوامی کو بتایاتو تھا۔۔۔ تو وہ کلکتہ یونیورسٹی میں زبیدہ آپا کے کلاس فیلو تھے۔ اور جب زبیدہ آپا ولایت گئی تھیں تو وہاں مانچسٹر یونیورسٹی میں بھی کئی سال ان کے ساتھ پڑھا تھا۔۔۔ تو یہ زبیدہ آپا جوہیں، تو یہ پچھلے پندرہ برس سے ڈاکٹر کے نام کی مالا جپ رہی ہیں۔‘‘
’’یہ کسی کے نام کی مالا کیسے جپتے ہیں؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ ’’یہ پتا نہیں۔‘‘ وملا نے جواب دیا۔
جب میں گھر کے اندر آئی تو زبیدہ آپا کو غفور بیگم سے تبادلہ خیالات کرتے پایا۔ اور تبھی پتا چلا کہ جس ریاست میں زبیدہ آپا کام کرتی ہیں وہ اجمیر شریف کے بہت قریب ہے۔ اور اسی وجہ سے زبیدہ آپا بہت مذہبی ہوگئی ہیں، اور جب سے ان کو یہ اطلاع ملی ہے کہ ڈاکٹر محمود خاں خود ان کی یعنی زبیدہ آپا کی سگی بھتیجی سائرہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں جو ایک بے حد خوبصورت سترہ سالہ لڑکی ہے اور کلکتہ کے لورٹیو ہاؤس میں پڑھ رہی ہے، تب سے زبیدہ آپا نماز پنجگانہ کے علاوہ چاشت اشراق اور تہجد بھی پڑھنے لگی ہیں اور یہاں وہ غفور بیگم سے پنجسورہ شریف۔ دعائے گنج العرش اور درود تاج کے کتابچے مستعار لے کر پڑھا کرتی تھیں۔ کیونکہ یہ کتابچے سفر پر چلتے وقت وہ گھر پر بھول آئی تھیں۔ غفور بیگم نے ان سے کہا کہ بٹیا روز رات کو سوتے وقت تسبیح فاطمہ پڑھا کیجئے۔۔۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب وہ کھانے کے بعد اپنے کمرے میں بیٹھی تسبیح پھیر رہی تھیں تو میں نے، جو جاسوسی پر لگی ہوئی تھی ان کو دیکھ لیا اور صبح کو وملا کو اطلاع دی۔۔۔
’’ہمیں معلوم ہوگیا۔۔۔ کل رات زبیدہ آپا ڈاکٹر کچھ کے نام کی مالا جپ رہی تھیں ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
ایک رات دو بجے کے قریب مہمان کمرے سے ایک دل خراش چیخ کی آواز آئی۔ سب ہڑ بڑا کر اپنے اپنے لحافوں سے نکلے اور بھاگتے ہوئے مہمان کمرے کی طرف گئے۔ مگر دروازہ اندر سے بند تھا۔ باجی نے کواڑوں پر زور زور سے دستک دی۔ اندر سے کچھ منٹ بعد زبیدہ آپا بڑی کمزور آواز میں بولیں، ’’ٹھیک ہوں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم لوگ خدا کے لیے فکر نہ کرو۔۔۔ جاؤ، سو جائو۔۔۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔ سوتے میں ڈر گئی تھی۔‘‘
’’زبیدہ آپا۔۔۔ دروازہ کھولیے۔۔۔‘‘ باجی نے چلا کر کہا۔ ’’چلے جاؤ تم لوگ۔۔۔ ورنہ میں پھر چیخوں گی۔۔۔‘‘ زبیدہ آپا اندر سے ہسٹریائی آواز میں دہاڑیں۔
صبح کو ان کا چہرہ بالکل ستا ہوا اور سفید تھا۔ ناشتے کے بعد جب کھانے کا کمرہ خالی ہوگیا تو انہوں نے باجی کو آہستہ سے مخاطب کیا، ’’میں نے کسی کو بتایا نہیں تھا۔ میں ایک چلہ کر رہی تھی انتالیس راتیں پوری ہوچکی تھیں۔ کل چالیسویں اور آخری رات تھی۔ حکم تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، میں اس جلالی وظیفے کے دوران میں مڑ کر نہ دیکھوں ورنہ اس کا سارا اثر ختم ہوجائے گا۔ اور کل رات۔۔۔ دو بجے کے قریب وظیفہ پڑھنے میں میں نے اچانک دیکھا کہ جائےنماز کے سامنے ایک گدھے کی جسامت کا ہیبت ناک سیاہ کتا میرے مقابل میں بیٹھا دانت نکوس رہا ہے۔۔۔ میں نے دہل کر چیخ ماری اور چلہ ٹوٹ گیا۔ کتا غائب ہوگیا۔ مگر میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور انہوں نے عینک اتار کر پلکیں خشک کیں۔ باجی ہکا بکا ہوکر انہیں دیکھنے لگیں۔۔۔ ’’مگر زبیدہ آپا۔۔۔ آپ تو۔۔۔ آپ تو سائنسداں ہیں۔ مانچسٹر یونیورسٹی سے پڑھ کر آئی ہیں۔ اور ایسی توہم پرستی کی باتیں کرتی ہیں۔ ہوش کی دوا کیجئے۔ آپ کو ہیلوسی نیشن (hallucination) ہوا ہوگا۔۔۔ گدھے کے برابر کتا۔۔۔ اور وہ آپ سے آپ غائب بھی ہوگیا۔۔۔!‘‘ اتنا کہہ کر باجی کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
’’ریحانہ خاتون۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صدیقی نے سر نیہوڑا کر باجی کو گہری نظر سے دیکھا اور آہستہ آہستہ کہا۔ ’’تم ابھی صرف بائیس برس کی ہو تمہارے ماں باپ اور محبت کرنے والے چچاؤں کا سایہ تمہارے سر پر قائم ہے۔ تم ایک بھرے پرے کنبے میں، اپنے چہیتے بہن بھائیوں کے ساتھ، سکھ کی چھاؤں میں زندہ ہو۔ اپنی پسند کے نوجوان سے تمہارا بیاہ ہونے والا ہے۔۔۔ ساری زندگی تمہاری منتظر ہے، دنیا کی ساری مسرتیں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔ خدا نہ کرے تم پر کبھی ایسی قیامت گزرے جو مجھ پر گزر رہی ہے۔ خدا نہ کرے کہ تمہیں کبھی تنِ تنہا اپنی تنہائی کا مقابلہ کرنا پڑے۔۔۔ کسی کی بے بسی اور اس کے دکھی دل کا مذاق نہ اڑائو۔۔۔‘‘ اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑگئی جو میز کے سرے پر بیٹھی مستعدی سے جاسوسی میں مصروف تھی۔ کیونکہ گدھے کے برابر سیاہ کتا ایک انتہائی سنسنی خیز واقعہ تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ خاموش ہوگئیں۔ باجی نے پلکیں جھپکا کر مجھے اشارہ کیا کہ میں اڑنچھوں ہو جاؤں۔ چنانچہ میں اڑنچھو ہوگئی۔
اس واقعے کے دوسرے دن ڈاکٹر صدیقی کلکتہ روانہ ہوگئیں۔ اور ان کے جانے کے چند روز بعد ہی ایک انوکھی اور بن بلائی مہمان اتریں۔
ڈالن والا کی سڑکیں عموماً خاموش پڑی رہتی تھیں۔ اکا دکا راہگیر یا موٹروں اور تانگوں کے علاوہ کبھی کبھار کوئی سکھ جوتشی ہاتھ میں سرٹیفکیٹوں کا میلا سا پلندہ سنبھالے ادھر ادھر تاکتا سامنے سے گزر جاتا تھا۔ یا موٹے موٹے ’چائینا مین‘ زین میں بڑی نفاست سے بندھے ہوئے بے حد وزنی گٹھر سائیکلوں پر لادے چکر کاٹا کرتے تھے، یا کشمیری قالین فروش یا بزاز یا قیمتی پتھر فروخت کرنے والا پھیری لگا جاتے تھے۔
مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں ان ہی پھیری والوں میں سے ایک تھے۔ مگر وہ اپنے آپ کو ٹریولنگ سیلزمین کہتے تھے۔ اور انتہا سے زیادہ چرب زبان اور لسان آدمی تھے۔ موصوف مسلمان سے عیسائی ہوگئے تھے۔ ترکی ٹوپی اوڑھتے تھے اور سائیکل پر پلاسٹک کے برتن بیچتے گھوما کرتے تھے، اور مہینے دو مہینے میں ایک بار ہماری طرف کا پھیرا لگا جاتے تھے۔ وہ اپنی ہر بات کا آغاز ’خدا باپ کا شکر ہے‘ سے کرتے تھے اور کبھی کبھی تبلیغ بھی شروع کردیتے تھے۔
اس دن مسٹر پیٹر رابرٹ سردار خاں جو سائیکل برساتی میں ٹکا کر برآمدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے ناک کی سیدھ جا کر مہمان کمرے کے اندر جھانکا جس کا دروازہ کھلا پڑا تھا اور اطمینان سے اظہارِ خیال کیا، ’’ہوں۔ تو یہ کمرہ تو ہمیشہ خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ بات یہ ہے کہ میری ایک بہن ہیں۔ وہ لیڈی ڈاکٹر ہیں۔ اور چند روز کے لیے دہرہ دون آرہی ہیں۔‘‘ اس کے بعد جواب کا انتظار کیے بغیر وہ سائیکل پر بیٹھ کر غائب ہوگئے۔
تیسرے روز جاپانی جارجٹ کی ملا گیری ساڑی میں ملبوس ایک بے حد فربہ خاتون تانگے سے اتریں۔ مسٹر سردار خاں سائیکل پر ہم رکاب تھے۔ انہوں نے اسباب اتار کر مہمان کمرے میں پہنچایا اور والدہ اور باجی سے ان کا تعارف کرایا۔۔۔ ’’یہ میری بہن ہیں۔ آپ کے یہاں دو تین دن رہیں گی۔ اچھا، اب میں جاتا ہوں۔‘‘ پھر خاتون کو مخاطب کیا۔۔۔ ’’بھئی تم کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو بلا تکلّف بیگم صاحبہ سے کہہ دینا۔۔۔ اپنا ہی گھر سمجھو، اچھا۔۔۔ بائی بائی۔۔۔ ‘‘ اور سائیکل پر بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
یہ ایک مسلمان بی بی تھیں، جنہوں نے یہ نہ بتایا کہ کہاں سے آرہی ہیں اور کہاں جائیں گی۔ محض اس امر سے انہوں نے آگاہ کیا کہ پرائیوٹ طور پر ہومیوپیتھک ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں۔ اور شام کے وقت اپنے اٹیچی کیس میں سے ایک
- क़ुर्रतुलऐन-हैदर
میں نے شاہدہ سے کہا، تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔ شاہدہ نے کہا، آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔ میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک خادمہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میں چپکے سے برابر والے کمرے میں پہنچی اور مسہری کے تکیہ کے نیچے سے کنجی کا گچھا لیا۔ سیدھی کمرے پر واپس آئی اور شاہدہ سے کہا، جلدی چلو۔
ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔
وہ دیکھ! وہ دیکھ! وہ اچھا ہے شاہدہ نے کہا۔
نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ ادھر سے۔ یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہوگی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔
یہ لے! شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا، کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟
کمبخت یہ دوہا جو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجؤ۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال دے تو میرا نام پلٹ کر رکھ دیجؤ۔ دیکھتی نہیں کہ بس کی گانٹھ کتنا شریر ہے اور پھر راتوں کو تیری سوت خواب میں الگ آکر گلا دبائےگی۔
تو تو پاگل ہو گئی ہے۔ میں نے کہا۔ شاہدہ ڈھنگ کی باتیں کر۔ شاہدہ ہنستے ہوئے بولی، میری بلا سے۔ کل کی کرتی تو آج کر لے میری دانست میں تو اس پروفیسر کو بھی کوئی ایسی ہی ملے تو ٹھیک رہے جو دو تین موذی بچے جہیز میں لائے اور وہ اس کے چھوکرے کو مارتے مارتے اتو کر دیں۔ چل رکھ اس کو۔۔۔ دوسری دیکھ۔
پہلی تصویر پر یہ ریمارکس پاس کیےگیے اور اس کو جوں کا توں رکھ کر دوسری تصویر اٹھائی اور شاہدہ سے پوچھا، یہ کیسا ہے؟ شاہدہ غور سے دیکھ کر بولی، ویسے تو ٹھیک ہے مگر ذرا کالا ہے۔ کون سے درجے میں پڑھتا ہے ؟ میں نے تصویر دیکھ بھال کر کہا، بی۔اے۔ میں پڑھتا ہے۔ کالا تو ایسا نہیں ہے۔ شاہدہ نے کہا، ہوں! یہ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے، جسے دیکھتی ہے اس پہ عاشق ہوئی جاتی ہے۔ نہ کالا دیکھتی ہے نہ گورا، نہ بڈھا دیکھتی ہے نہ جوان! میں نے زور سے شاہدہ کے چٹکی لے کر کہا، کمبخت میں نے تجھے اس لیے بلایا تھا کہ تو مجھے تنگ کرے! غور سے دیکھ۔ غور سے تصویر دیکھ کر اور کچھ سوچ کر شاہدہ بولی، نہ بہن یہ ہر گز ٹھیک نہیں، میں تو کہہ چکی، آئندہ تو جانے۔
میں نے کہا، خط تو دیکھ بڑے رئیس کا لڑکا ہے۔ یہ تصویر ایک طالب علم کی تھی جو ٹینس کا بلا لیے بیٹھا تھا۔ دو تین تمغے لگائے ہوئے تھا اور دو تین جیتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔شاہدہ بولی، ویسے تو لڑکا بڑا اچھا ہے۔ عمر میں تیرے جوڑ کا ہے۔ مگر ابھی پڑھتا ہے اور تیرا بھی شوکت کا سا حال ہوگا کہ دس روپے ماہوار جیب خرچ اور کھانے اور کپڑے پر نوکر ہو جائےگی اور دن رات ساس نندوں کی جوتیاں، یہ تو جھگڑا ہے۔ میں نے کہا، بی۔ اے۔ میں پڑھتا ہے، سال دو سال میں نوکر ہو جائےگا۔
ٹینس کا جمعدار ہو رہا ہے تو دیکھ لیجؤ دو تین دفعہ فیل ہوگا اور ساس نندیں بھی کہیں گی کہ بیوی پڑھنے نہیں دیتی اور پھر دوڑنے دھوپنے کا شوقین، تجھے رپٹا مارےگا۔ ویسے تو لڑکا اچھا ہے، صورت بھی بھولی بھالی ہے اور ایسا ہے کہ جب شرارت کرے، اٹھا کر طاق پر بٹھا دیا۔ مگر نہ بابا میں رائے نہ دوں گی۔ اس تصویر کو بھی رکھ دیا اور اب دوسرا بنڈل کھولا اور ایک اور تصویر نکلی۔
آخاہ! یہ موا پان کا غلام کہاں سے آیا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، دیکھ تو کمبخت کی داڑھی کیسی ہے اور پھر مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے! میں بھی ہنسنے لگی۔ یہ ایک معزز رئیس آنریری مجسٹریٹ تھے اور ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ مگر مجھ کو یہ ذرہ بھر پسند نہ آئے۔ غور سے شاہدہ نے تصویر دیکھ کر پہلے تو ان کی نقل بنائی اور پھر کہنے لگی، ایسے کو بھلا کون لڑکی دےگا؟ نہ معلوم اس کے کتنی لڑکیاں اور بیویاں ہوں گی۔ پھینک اسے۔ یہ تصویر بھی رکھ دی گئی اور دوسرا بنڈل کھول کر ایک اور تصویر لی، یہ تو گبرو جوان ہے؟ اس سےتو فورا کر لے۔ شاہدہ تصویر دیکھ کر بولی، یہ ہے کون! ذرا دیکھ۔میں نے دیکھ کر بتایا کہ ڈاکٹر ہے۔
بس بس، یہ ٹھیک، خوب تیری نبض ٹٹول ٹٹول کے روز تھرمامیٹر لگائےگا۔ صورت شکل ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، میرا میاں بھی ایسا ہی ہٹا کٹا موٹا تازہ ہے میں نے ہنس کر کہا، کمبخت آخر تو ایسی باتیں کہاں سے سیکھ آئی ہے، کیا تو نے اپنے میاں کو دیکھا ہے؟
دیکھا تو نہیں مگر سنا ہے کہ بہت اچھا ہے۔
بھدا سا ہو گا۔
شاہدہ نے چیں بچیں ہو کر کہا، اتنا تو میں جانتی ہوں کہ جو کہیں تو اسے دیکھ لے تو شاید لٹو ہی ہو جائے۔
میں نے اب ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو غور سے دیکھا اور نکتہ چینی شروع کی۔ نہ اس لیے کہ مجھے یہ ناپسند تھے، بلکہ محض اس لیے کہ کچھ رائے زنی ہو سکے۔ چنانچہ میں نے کہا، ان کی ناک ذرا موٹی ہے۔
سب ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے کہا۔ ذرا اس کا خط دیکھ۔ میں نے دیکھا کہ صرف دو خط ہیں۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی پہلی بیوی موجود ہیں مگر پاگل ہو گئی ہیں۔پھینک پھینک اسے کمبخت کو پھینک۔شاہدہ نے جل کر کہا، جھوٹا ہے کمبخت کل کو تجھے بھی پاگل خانہ میں ڈال کے تیسری کو تکے گا۔ ڈاکٹر صاحب بھی نامنظور کر دیے گیے اور پھر ایک اور تصویر اٹھائی۔
شاہدہ نے اور میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ یہ تصویر ایک نو عمر اور خوبصورت جوان کی تھی۔ شاہدہ نے پسند کرتے ہوئے کہا، یہ تو ایسا ہے کہ میری بھی رال ٹپکی پڑ رہی ہے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت جوان ہے۔ بس اس سے تو آنکھ میچ کے کر لے اور اسے گلے کا ہار بنا لیجیو۔ ہم دونوں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا ہر طرح دونوں نے پسند کیا اور پاس کر دیا۔ شاہدہ نے اس کے خط کو دیکھنے کو کہا۔ خط جو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ولایت میں پڑھتے ہیں۔
ارے توبہ توبہ، چھوڑ اسے۔ شاہدہ نے کہا۔
میں نے کہا، کیوں۔ آخر کوئی وجہ؟
وجہ یہ کہ بھلا اسے وہاں میمیں چھوڑیں گی۔ عجب نہیں کہ ایک آدھ کو ساتھ لے آئے۔
میں نے کہا، واہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ احمد بھائی کو دیکھو، پانچ سال ولایت میں رہے تو کیا ہو گیا۔
شاہدہ تیزی سے بولی، بڑے احمد بھائی احمد بھائی، رجسٹر لے کر وہاں کی بھاوجوں کے نام لکھنا شروع کرےگی تو عمر ختم ہو جائےگی اور رجسٹر تیار نہ ہوگا۔ میں تو ایسا جوا نہ کھیلوں اور نہ کسی کو صلاح دوں۔ یہ ادھار کا سا معاملہ ٹھیک نہیں۔
یہ تصویر بھی ناپسند کر کے رکھ دی گئی اور اس کے بعد ایک اور نکالی۔ شاہدہ نے تصویر دیکھ کر کہا، یہ تو اللہ رکھے اس قدر باریک ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائیں گے۔ علاوہ اس کے کوئی آندھی بگولا آیا تو یہ اڑ اڑا جائیں گے اور تو رانڈ ہو جائےگی۔ اسی طرح دو تین تصویریں اور دیکھی گئیں کہ اصل تصویر آئی اور میرے منہ سے نکل گیا، اخاہ۔
مجھے دے۔ دیکھوں، دیکھوں۔ کہہ کر شاہدہ نے تصویر لے لی۔ہم دونوں نے غور سے اس کو دیکھا۔ یہ ایک بڑی سی تصویر تھی۔ ایک تو وہ خود ہی تصویر تھا اور پھر اس قدر صاف اور عمدہ کھینچی ہوئی کہ بال بال کا عکس موجود تھا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، اسے مت چھوڑیو۔ ایسے میں تو میں دو کر لوں۔ یہ آخر ہے کون۔۔۔؟ تصویر کو الٹ کر دیکھا جیسے دستخط اوپر تھے ایسے ہی پشت پر تھے مگر شہر کا نام لکھا ہوا تھا اور بغیر خطوط کے دیکھے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ کس کی تصویر ہے۔ میں نے شاہدہ سے کہا، یہ وہی ہے جس کا میں نے تجھ سے اس روز ذکر کیا تھا۔
اچھا یہ بیرسٹر صاحب ہیں۔ شاہدہ نے پسندیدگی کے لہجہ میں کہا، صورت شکل تو خوب ہے، مگر ان کی کچھ چلتی بھی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا، ابھی کیا چلتی ہوگی۔ ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔
تو پھر ہوا کھاتے ہوں گے۔ شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ خیر تو اس سے ضرور کر لے۔ خوب تجھے موٹروں پر سیر کرائےگا، سینما اور تھیٹر دکھائےگا اور جلسوں میں نچائےگا۔
میں نے کہا، کچھ غریب تھوڑی ہیں۔ ابھی تو باپ کے سر کھاتے ہیں۔
شاہدہ نے چونک کر کہا، اری بات تو سن۔
میں نے کہا، کیوں۔
شاہدہ بولی، صورت شکل بھی اچھی ہے۔ خوب گورا چٹا ہے۔ بلکہ تجھ سے بھی اچھا ہے اور عمر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ کہیں کوئی میم ویم تو نہیں پکڑ لایا ہے۔میں نے کہا، مجھے کیا معلوم۔ لیکن اگر کوئی ساتھ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔
ٹھیک ٹھیک۔ شاہدہ نے سر ہلا کر کہا، بس اللہ کا نام لے کر پھانس میں نے خط اٹھائے اور شاہدہ دوسری تصویریں دیکھنے لگی۔ میں خط پڑھ رہی تھی اور وہ ہر ایک تصویر کا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے خوش ہو کر اس کو چپکے چپکے خط کا کچھ حصہ سنایا۔ شاہدہ سن کر بولی الا اللہ! میں نے اور آگے پڑھا تو کہنے لگی۔ وہ مارا۔ غرض خط کا سارا مضمون سنایا۔ شاہدہ نے خط سن کر کہا کہ، یہ تو سب معاملہ فٹ ہے اور چول بیٹھ گئی ہے۔ اب تو گڑ تقسیم کر دے۔
پھر ہم دونوں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا۔ دونوں نے رہ رہ کر پسند کیا۔ یہ ایک نوعمر بیرسٹر تھے اور غیر معمولی طور پر خوبصورت معلوم ہوتے تھے اور ناک نقشہ سب بےعیب تھا۔ شاہدہ رہ رہ کر تعریف کر رہی تھی۔ ڈاڑھی مونچھیں سب صاف تھیں اور ایک دھاری دار سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ میں نے بیرسٹر صاحب کے دوسرے خط پڑھے اور مجھ کو کل حالات معلوم ہو گیے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیرسٹر صاحب بڑے اچھے اور رئیس گھرانے کے ہیں اور شادی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ آخری خط سے پتہ چلتا تھا کہ صرف شادی کی تاریخ کے معاملہ میں کچھ تصفیہ ہونا باقی ہے۔
میں نے چاہا کہ اور دوسرے خط پڑھوں اور خصوصا آنریری مجسٹریٹ صاحب کا مگر شاہدہ نے کہا، اب دوسرے خط نہ پڑھنے دوں گی۔ بس یہی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا، ان کے ذکر کی بھنک ایک مرتبہ سن چکی ہوں۔ آخر دیکھ تو لینے دے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔
شاہدہ نے جھٹک کر کہا، چل رہنے دے اس موذی کا ذکر تک نہ کر۔ میں نے بہت کچھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ قصہ مختصر جلدی جلدی سب چیزیں جوں کی توں رکھ دیں اور الماری بند کر کے میں نے مردانہ زینہ کا دروازہ کھولا اور شاہدہ کے ساتھ چپکے سے جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس ہوئی۔ جہاں سے کنجی لی تھی، اسی طرح رکھ دی۔ شاہدہ سے دیر تک بیرسٹر صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاہدہ کو میں نے اسی لیے بلایا تھا۔ شام کو وہ اپنے گھر چلی گئی مگر اتنا کہتی گئی کہ خالہ جان کی باتوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تیری شادی اب بالکل طے ہو گئی اور تو بہت جلد لٹکائی جائےگی۔
(۲)
اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔
آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی تھیں کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔
ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بےحد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا اور میں تاک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کہ اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیے لیتے ہیں تو بسم اللہ۔ ہم کو ہماری لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔
اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائےگی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بےتکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے نکال دیجئے کہ سال بھر سے پہلے شادی کر دی جائے۔ اماں جان نے بھی اس جواب کو پسند کیا اور پھر انہی آنریری مجسٹریٹ صاحب کے تذکرہ سے میرے کانوں کی تواضع کی گئی۔
ان سب باتوں سے میرا ایسا جی گھبرایا کہ اماں جان سے میں نے شاہدہ کے گھر جانے کی اجازت لی اور یہ سوچ کر گئی کہ تین چار روز نہ آؤں گی۔
شاہدہ کے ہاں جو پہنچی تو اس نے دیکھتے ہی معلوم کر لیا کہ کچھ معاملہ دگرگوں ہے۔ کہنے لگی کہ ، کیا تیرے بیرسٹر نے کسی اور کو گھر میں ڈال لیا؟
میں اس کا بھلا کیا جواب دیتی۔ تمام قصہ شروع سے آخیر تک سنا دیا کہ کس طرح وہ جلدی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد شادی ہو جائے۔ مگر اماں جان راضی نہیں ہوتیں۔ یہ سب سن کر اور مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر وہ شریر بولی، خوب! چٹ منگنی پٹ بیاہ بھلا ایسا کون کرےگا۔ مگر ایک بات ہے۔ میں نے کہا، وہ کیا؟ وہ بولی، وہ تیرے لئے پھڑک رہا ہے اور یہ فال اچھی ہے۔ میں نے جل کر کہا، یہ تو فال نکال رہی ہے اور مذاق کر رہی ہے۔
پھر کیا کروں؟ شاہدہ نے کہا۔ (کیونکہ واقعی وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی ہے۔)
میں نے کہا، کوئی مشورہ دو۔ صلاح دو۔ دونوں مل کر سوچیں۔
پاگل نہیں تو۔ شاہدہ نے میری بیوقوفی پر کہا، دیوانی ہوئی ہے، میں صلاح کیا دوں؟
اچھا مجھے پتہ بتا دے۔ میں بیرسٹر صاحب کو لکھ بھیجوں کہ ادھر تو اس چھوکری پر نثار ہو رہا ہے اور ادھر یہ تیرے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے، آکے تجھے بھگا لے جائے۔
خدا کی مار تیرے اوپر اور تیری صلاح کے اوپر۔ میں نے کہا۔ کیا میں اسی لئے آئی تھی؟ میں جاتی ہوں۔ یہ کہہ کر میں اٹھنے لگی۔
تیرے بیرسٹر کی ایسی تیسی۔ شاہدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ جاتی کہاں ہے شادی نہ بیاہ، میاں کا رونا روتی ہے۔ تجھے کیا؟ کوئی نہ کوئی ماں کا جایا آ کر تجھے لے ہی جائےگا۔ چل دوسری باتیں کر۔
یہ کہہ کر شاہدہ نے مجھے بٹھا لیا اور میں بھی ہنسنے لگی۔ دوسری باتیں ہونے لگیں۔ مگر یہاں میرے دل کو لگی ہوئی تھی اور پریشان بھی تھی۔ گھوم پھر کر وہی باتیں ہونے لگیں۔ شاہدہ نے جو کچھ ہمدردی ممکن تھی وہ کی اور دعا مانگی اور پھر آنریری مجسٹریٹ کو خوب کوسا۔ اس کے علاوہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ خود نماز کے بعد دعا مانگنے کا وعدہ کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ نماز کے بعد روزانہ دعا مانگا کر۔ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ میں۔میں گھر سے کچھ ایسی بیزار تھی کہ دو مرتبہ آدمی لینے آیا اور نہ گئی۔ چوتھے روز میں نے شاہدہ سے کہا کہ، اب شاید خط کا جواب آ گیا ہوگا اور میں کھانا کھا کے ایسے وقت جاؤں گی کہ سب سوتے ہوں۔ تاکہ بغیر انتظار کئے ہوئے مجھے خط دیکھنے کا موقع مل جائے۔
چلتے وقت میں ایسے جا رہی تھی جیسے کوئی شخص اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے جا رہا ہو۔ میری حالت عجیب امید و بیم کی تھی۔ نہ معلوم اس خط میں بیرسٹر صاحب کے والد نے انکار کیا ہوگا یا منظور کر لیا ہوگا کہ ہم سال بھر بعد شادی پر رضامند ہیں۔ یہ میں بار بار سوچ رہی تھی۔ چلتے وقت میں نے اپنی پیاری سہیلی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور سے دبایا۔ نہ معلوم کیوں میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ شاہدہ نے مذاق کو رخصت کرتے ہوئے کہا، بہن خدا تجھے اس موذی سے بچائے۔ تو دعا مانگ اچھا۔ میں نے چپکے سے کہا، اچھا۔
(۳)
شاہدہ کے یہاں سے جو آئی تو حسب توقع گھر میں سناٹا پایا۔ اماں جان سو رہی تھیں۔ اور ابا جان کچہری جا چکے تھے۔ میں نے چپکے سے جھانک کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دوڑ کر مردانہ زینہ کا دروازہ بھی بند کر دیا اور سیدھی کمرہ میں پہنچی۔ وہاں پہنچی تو ششدر رہ گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا چمڑے کا ٹرنک کھلا پڑا ہے اور پاس کی کرسی پر اور ٹرنک میں کپڑوں کے اوپر مختلف چیزوں کی ایک دکان سی لگی ہوئی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ کون ہے، جو اس طرح سامان چھوڑ کر ڈال گیا ہے۔ کیا بتاؤں میرے سامنے کیسی دکان لگی ہوئی اور کیا کیا چیزیں رکھی تھیں کہ میں سب بھول گئی اور انہیں دیکھنے لگی۔ طرح طرح کی ڈبیاں اور ولائتی بکس تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے سب سے پیشتر جھٹ سے ایک سنہرا گول ڈبہ اٹھا لیا۔ میں اس کو تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ یہ گنی کے سونے کا ڈبہ تھا اور اس پر سچی سیپ کا نفیس کام ہوا تھا۔ اودی اودی کندن کی جھلک بھی تھی۔ ڈھکنا تو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں موتی جڑے ہوئے تھے اور کئی قطاریں ننھے ننھے سمندری گھونگھوں کی اس خوبصورتی سے سونے میں جڑی ہوئی تھیں کہ میں دنگ رہ گئی۔
میں نے اسے کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا پوؤڈر لگانے کا پف رکھا ہوا تھا اور اس کے اندر سرخ رنگ کا پاؤڈر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پف نکال کر اس کے نرم نرم روئیں دیکھے جن پر غبار کی طرح پاؤڈر کے مہین ذرے گویا ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے یہ کتنا نرم ہے، میں نے اس کو اپنے گال پر آہستہ آہستہ پھرایا اور پھر اس کو واپس اسی طرح رکھ دیا۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ مرے گال پر سرخ پاؤڈر جم گیا۔ میں نے ڈبہ کو رکھا ہی تھا کہ میری نظر ایک تھیلی پر پڑی۔ مہ سبز مخمل کی تھیلی تھی۔ جس پر سنہری کام میں مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔
میں نے اس کو اٹھایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ دراصل یہ ولایتی ربڑ کی تھیلی تھی، جو مخمل سے بھی زیادہ خوبصورت اور نرم تھی، میں نے غور سے سنہری کام کو دیکھا۔ کھول کر جو دیکھا تو اندر دو چاندی کے بالوں میں کرنے کے برش تھے اور ایک ان ہی کے جوڑ کا کنگھا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا اور چھوٹی خوبصورت ڈبیوں کو دیکھا۔ کسی میں سیفٹی پن تھا، کسی میں خوبصورت سا بروچ تھا اور کسی میں پھول تھا۔ غرض طرح طرح کے بروچ اور بلاؤس پن وغیرہ تھے۔ دو تین ڈبیاں ان میں ایسی تھیں جو عجیب شکل تھیں۔ مثلاً ایک بالکل کتاب کی طرح تھی اور ایک کرکٹ کے بلے کی طرح تھی۔ ان میں بعض ایسی بھی تھیں جو مجھ سے کسی طرح بھی نہ کھلیں۔ علاوہ ان کے سگریٹ کیس، دیا سلائی کا بکس وغیرہ وغیرہ۔ سب ایسی کہ بس ان کو دیکھا ہی کرے۔
میں ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مخمل کے ڈبہ کا کونہ ٹرنک میں ریشمی رومالوں میں مجھے دبا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کو نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کاٹنے اور گھسنے کے اوزار رکھے ہوئے تھے اور ڈھکنے میں ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو جوں کا توں اسی جگہ رکھا تو میرے ہاتھ ایک اور مخمل کا ڈبہ لگا۔ اس کو جو میں نے نکال کر کھولا تو اس کے اندر سے سبز رنگ کا ایک فاؤنٹین پن نکلا۔ جس پر سونے کی جالی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ ایک چھوٹی سے سنہری رنگ کی ڈبیہ پر نظر پڑی۔ اس کو میں نے کھولنا چاہا۔ مگر وہ کمبخت نہ کھلنا تھی نہ کھلی۔ میں اس کو کھول ہی رہی تھی کہ ایک لکڑی کے بکس کا کونہ نظر پڑا۔ میں نے اس کو فوراً ٹرنک سے نکال کر دیکھا۔ یہ ایک بھاری سا خوبصورت بکس تھا۔ اس کو جو میں نے کھولا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس کے اندر سے ایک صاف شفاف بلور کا عطردان نکلا جو کوئی بالشت بھر لمبا اور اسی مناسبت سے چوڑا تھا۔ میں نے اس کو نکال کر غور سے دیکھا اور لکڑی کا بکس جس میں یہ بند تھا، الگ رکھ دیا۔
عجیب چیز تھی۔ اس کے اندر کی تمام چیزیں باہر سے نظر آ رہی تھیں۔ اس کے اندر چوبیس چھوٹی چھوٹی عطر کی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے خوشنما رنگ روشنی میں بلور میں سے گزر کر عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ میں اس کو چاروں طرف سے دیکھتی رہی اور پھر کھولنا چاہا۔ جہاں جہاں بھی جو بٹن نظر آئے میں نے دبائے مگر یہ نہ کھلا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی کہ میری نظر کسی تصویر کے کونے پر پڑی جو ٹرنک میں ذرا نیچے کو رکھی تھی۔ میں نے تصویر کو کھینچ کر نکالا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مخمل کی ڈبیہ رومالوں اور ٹائیوں میں لڑھکتی ہوئی چلی آئی اور کھل گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں ایک خوبصورت انگوٹھی جگ مگ جگمگ کر رہی ہے۔ فوراً تصویر کو چھوڑ کر میں نے اس ڈبیا کو اٹھایا اور انگوٹھی کو نکال کر دیکھا۔ بیچ میں اس کے ایک نیلگوں رنگ تھا اور ارد گرد سفید سفید ہیرے جڑے تھے۔ جن پر نگاہ نہ جمتی تھی۔ میں نے اس خوبصورت انگوٹھی کو غور سے دیکھا اور اپنی انگلیوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کسی میں تنگ تھی تو کسی میں ڈھیلی۔ مگر سیدھے ہاتھ کی چھنگلی کے پاس والی انگلی میں میں نے اس کو زور دے کر کسی نہ کسی طرح تمام پہن تو لیا اور پھر ہاتھ اونچا کر کے اس کے نگینوں کی دمک دیکھنے لگی۔ میں اسے دیکھ بھال کر ڈبیا میں رکھنے کے لئے اتارنے لگی تو معلوم ہوا کہ پھنس گئی ہے۔
میرے بائیں ہاتھ میں وہ بلور کا عطردان بدستور موجود تھا اور میں اس کو رکھنے ہی کو ہوئی تاکہ انگلی میں پھنسی ہوئی انگوٹھی کو اتاروں کہ ایکا ایکی میری نظر اس تصویر پر پڑی جو سامنے رکھی تھی اور جس کو میں سب سے پیشتر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں عطردان تو رکھنا بھول گئی اور فوراً ہی سیدھے ہاتھ سے تصویر کو اٹھا لیا اور کاغذ ہٹا کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب سامان بیرسٹر صاحب کا ہے کہ یہ انہی کی تصویر تھی۔ یہ کسی ولایتی دکان کی بنی ہوئی تھی اور رنگین تھی۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی بیرسٹر صاحب غیر معمولی طور پر خوبصورت آدمی ہیں۔ چہرے کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ سیاہ بال تھے اور آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ چہرہ، آنکھ، ناک، غرض ہر چیز اس صفائی سے اپنے رنگ میں موجود تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ۔ کوٹ کی دھاریاں ہوشیار مصور نے اپنے اصلی رنگ میں اس خوبی سے دکھائی تھیں کہ ہر ایک ڈورا اپنے رنگ میں صاف نظر آ رہا تھا۔
میں اس تصویر کو دیکھنے میں بالکل محو تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہوا کی رمق سے وہ کمبخت باریک سا کاغذ دیکھنے میں مخل ہونے لگا۔ میں نے تصویر کو جھٹک کر الگ کیا۔ کیونکہ بایاں ہاتھ گھرا ہوا تھا۔ اس میں وہی بلور کا عطردان تھا پھر اسی طرح کاغذ اڑ کر آیا اور تصویر کو ڈھک دیا۔ میں نے جھٹک کر الگ کرنا چاہا۔ مگر وہ چپک سا گیا اور علیحدہ نہ ہوا۔ تو میں نے منہ سے پھونکا اور جب بھی وہ نہ ہٹا تو میں نے اونھ کر کے بائیں ہاتھ کی انگلی سے جو کاغذ کو ہٹایا تو وہ بلور کا عطردان بھاری تو تھا ہی ہاتھ سے پھسل کر چھوٹ پڑا اور چھن سے پختہ فرش پر گر کر کھیل کھیل ہو گیا۔
میں دھک سے ہو گئی اور چہرہ فق ہو گیا۔ تصویر کو ایک طرف پھینک کے ایک دم سے شکستہ عطردان کے ٹکڑے اٹھا کر ملانے لگی کہ ایک نرم آواز بالکل قریب سے آئی، تکلیف نہ کیجئے، آپ ہی کا تھا۔ آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو جیتی جاگتی اصلی تصویر بیرسٹر صاحب کی سامنے کھڑی ہے! تعجب!! اس تعجب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا کہ الہٰی یہ کدھر سے آ گیے۔ دو تین سیکنڈ تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں کہ ایک دم سے میں نے ٹوٹے ہوئے عطردان کے ٹکڑے پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر جھٹ سے دروازہ کی آڑ میں ہو گئی۔
(۴)
میری حالت بھی اس وقت عجیب قابل رحم تھی۔ بلیوں دل اچھل رہا تھا ۔یہ پہلا موقع تھا جو میں کسی نامحرم اور غیر شخص کے ساتھ اس طرح ایک تنہائی کے مقام پر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ عین چوری کرتے پکڑی گئی۔ سارا ٹرنک کرید کرید کر پھینک دیا تھا اور پھر عطردان توڑ ڈالا، اور نہایت ہی بے تکلفی سے انگوٹھی پہن رکھی تھی۔
اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے تھی۔ سارے بدن میں ایک سنسنی اور رعشہ سا تھا کہ ذرا ہوش بجا ہوئے تو فوراً انگوٹھی کا خیال آیا۔ جلدی جلدی اسے اتارنے لگی۔ طرح طرح سے گھمایا۔ طرح طرح سے انگلی کو دبایا اور انگوٹھی کو کھینچا۔ مگر جلدی میں وہ اور بھی نہ اتری۔ جتنی دیر لگ رہی تھی، اتنا ہی میں اور گھبرا رہی تھی۔ پل پل بھاری تھا، اور میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہر طرح انگوٹھی اتارنے کو کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ نہ اترتی تھی۔ غصہ میں میں نے انگلی مروڑ ڈالی۔ مگر کیا ہوتا تھا۔ غرض میں بےطرح انگوٹھی اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے کہ انگوٹھی آپ کو پسند تو آ گئی۔
یہ سن کر میرے تن بدن میں پسینہ آ گیا اور میں گویا کٹ مری۔ میں نے دل میں کہا کہ میں منہ چھپا کر جو بھاگی تو شاید انگوٹھی انہوں نے دیکھ لی۔ اور واقعہ بھی دراصل یہی تھا۔ اس جملہ نے میرے اوپر گویا ستم ڈھایا۔ میں نے سن کر اور بھی جلدی جلدی اس کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ انگوٹھی کمبخت ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میرا دل انجن کی طرح چل رہا تھا اور میں کٹی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ کیونکر اس نامراد انگوٹھی کو اتاروں۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب آڑ سے ہی بولے، اس میں سے اگر اور کوئی چیز پسند ہو تو وہ بھی لے لیجئے۔ میں نے یہ سن کر اپنی انگلی مروڑ تو ڈالی کہ یہ لے تیری یہ سزا ہے، مگر بھلا اس سے کیا ہوتا تھا؟ غرض میں حیران اور زچ ہونے کے علاوہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔اتنے میں بیرسٹر صاحب پھر بولے، چونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اپنی منسوبہ بیوی سے باتیں کرنے کا بلکہ ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ہے لہذا میں اس زریں موقع کو کسی طرح ہاتھ سے نہیں کھو سکتا۔
یہ کہہ کر وہ دروازہ سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے اور میں گویا گھر گئی۔ میں شرم و حیا سے پانی پانی ہو گئی اور میں نے سر جھکا کر اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کونہ میں موڑ لیا۔ کواڑ میں گھسی جاتی تھی۔ میری یہ حالت زار دیکھ کر شاید بیرسٹر صاحب خود شرما گیے اور انہوں نے کہا، میں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر۔۔۔ یہ کہہ کر سامنے مسہری سے چادر کھینچ کر میرے اوپر ڈال دی اور خود کمرے سے باہر جا کر کہنے لگے، آپ مہربانی فرما کر مسہری پر بیٹھ جائیے اور اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔
میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟ میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگی تاکہ انگوٹھی جلد اتر جائے۔اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے، بولیے صاحب جلدی بولیے۔ میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں تو پھر میں حاضر ہوتا ہوں۔میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا، جی نہیں میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟
یا اللہ میں نے تنگ ہو کر کہا، مجھے موت دے۔ یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے عطر دان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا اور گویا میری محنت وصول ہو گئی، مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپنی زبان سے اور کچھ کہہ دیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گیے۔ میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی، گویا اس نے عطر دان توڑا تھا۔ میں عطردان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔ جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔
میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا، بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطر دان۔۔۔
بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا، خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا، خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آپ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں بالکل ٹھیک آئی ہے اور آپ اس کو اب تک از راہ عنایت پہنے ہوئی ہیں۔
میں اب کیا بتاؤں کہ یہ سن کر میرا کیا حال ہوا۔ میں نے دل میں کہا کہ خوب انگوٹھی ٹھیک آئی اور خوب پہنے ہوئے ہوں۔ انگوٹھی نہ ہوئی گلے کی پھانسی ہو گئی۔ جو ایسی ٹھیک آئی کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میں نے دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر یہ کمبخت میری انگلی میں نہ پھنس گئی ہوتی تو کاہے کو میں بے حیا بنتی اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملتا کہ آپ پہنے ہوئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس نامراد انگوٹھی کو اتارنے کے لیے کیا کیا جتن کر چکی ہوں اور برابر کر رہی تھی۔ مگر وہ تو ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میں پھر خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ مگر انگوٹھی اتارنے کی برابر کوشش کر رہی تھی۔
بیرسٹر صاحب نے میری خاموشی پر کہا، آپ پھر جواب سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔ پسند ہے یا ناپسند۔ ان دو جملوں میں سے ایک کہہ دیجیئے۔میں نے پھر غصے میں انگلی کو نوچ ڈالا اور قصہ ختم کرنے کے لیے ایک اور ہی لفظ کہہ دیا، اچھی ہے۔
جی نہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، اچھی ہے اور آپ کو پسند نہیں تو کس کام کی۔ علاوہ اس کے اچھی تو خود دکاندار نے کہہ کر دی تھی، اور میں یہ پوچھتا بھی نہیں، آپ بتائیے کہ آپ کو پسند ہے یا ناپسند، ورنہ پھر حاضر ہونے کی اجازت دیجیئے۔ میں نے دل میں کہا یہ قطعی گھس آئیں گے اور پھر جھک مار کر کہنا ہی پڑےگا، لہذا کہہ دیا۔ پسند ہے۔ یہ کہہ کر میں دانت پیس کر پھر انگلی نوچنے لگی۔
شکریہ۔ بیرسٹر صاحب نے کہا۔صد شکریہ۔ اور اب آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن ایک عرض ہے اور وہ یہ کہ یہ انگوٹھی تو بے شک آپ کی ہے اور شاید آپ اس کو پہن کر اتارنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن مجھ کو مجبوراً آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ شام کو مجھ کو چونکہ اور چیزوں کے ساتھ اس کو رسماً بھجوانا ہے لہذا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس وقت اس کو یہاں چھوڑتی جائیں۔ میں علیحدہ ہوا جاتا ہوں۔ خدا حافظ۔ یہ کہہ کر وہ ہٹ گیے اور میں نے ان کے جانے آواز سنی۔ وہ سامنے کے غسل خانے میں چلے گیے۔ دراصل وہ اسی غسل خانے میں کنگھا وغیرہ کر رہے ہوں گے، جب میں بے خبری میں آکر پھنس گئی۔
اب میں سخت چکر میں تھی اور انگلی سے انگوٹھی اتارنے کی سر توڑ کوشش کی گھبراہٹ اور جلدی میں پاگل سی ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں نے علاوہ ہاتھ کے، دانتوں سے بھی امداد لی اور انگلی میں کاٹ کاٹ کر کھایا مگر وہ کمبخت انگوٹھی جان لیوا تھی اور نہ اترنا تھی نہ اتری۔ میں نے تنگ آ کر اپنا سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہا، ہائے میرے اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ یہ کمبخت تو میری جان لیے لیتی ہے۔
بیرسٹر صاحب غسل خانے میں کھڑے کھڑے تھک گیے اور میں وہیں کی وہیں تھی۔ وہ لوٹ آئے اور بولے، معاف کیجیے نہیں معلوم تھا کہ انگوٹھی اتارنے پر آپ رضامند نہیں اور اس شرط پر جانا بھی نہیں چاہتیں۔ مگر چونکہ اس رسم کا نام ہی انگوٹھی کی رسم ہے، لہذا میں اس کی خالی ڈبیہ رکھ دوں گا۔ اور کہلا دوں گا کہ انگوٹھی آپ کے پاس ہے۔ یہ کہہ کر ذرا رک کر بولے، اور تو کسی بات کا خیال نہیں صرف اتنا کہ آپ کے والد اس کو بدقسمتی سے دیکھ چکے ہیں۔
میں اپنی انگلی توڑ رہی تھی اور یہ سن کر گھبرا گئی۔ یہ تو خیر مذاق تھا کہ وہ کہہ دیں گے انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب ابا جان انگوٹھی دیکھ چکے ہیں تو آخر بیرسٹر صاحب ان سے اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب کو شبہ گزرا کہ میں اس وجہ سے نہیں جا رہی ہوں کہ کہیں وہ غسل خانہ میں سے مجھ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔ لہذا وہ ایک دم سے بولے، اوہو! اب میں سمجھا۔ لیجیے بجائے غسل خانہ کے زینے میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔
میں بےحد پریشان تھی، مجبور تھی کہ اس غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دوں اور اصل وجہ بتا دوں۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الہی کیا کروں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، تو میرا حال تھا اور بیرسٹر صاحب نہ جانے کیا خیال کر رہے تھے۔ بالاخر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ زینے میں روپوش ہونے جا رہے ہیں تو مرتا کیا نہ کرتا، تنگ آ کر نہ معلوم میں نے کس طرح دبی آواز میں کہا، وہ نہیں اترتی۔
ادھر تو میرا یہ حال تھا اور ادھر بیرسٹر صاحب گویا مارے خوشی کے اچھل پڑے اور انہوں نے ہنس کر بڑی خوشی کے لہجہ میں جیسے کوئی بے تکلفی سے کہتا ہے۔ کہا، واللہ!یہ معاملہ ہے!! خدا کرے نہ اترے۔ میں بھلا اس جملے کے بعد کیا بولتی۔ اسی طرح چپ تھی اور اپنی بنتی کوشش کر رہی تھی کہ انگوٹھی اتر آئے۔ لیکن جب دیر ہوئی تو انہوں نے کہا، اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو میں اتار دوں۔
یا اللہ! میں نے اپنے دل میں کہا۔ اب کیا کروں۔ میں تو نہ اترواؤں گی۔ یہ طے کر کے میں پھر کوشش کرنے لگی۔ مگر توبہ کیجیئے وہ بھلا کیوں اترتی۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، وہ آپ سے ہر گز نہ اترےگی۔ کوئی حرج نہیں ہے میں باہر سے اتار دوں گا۔
میں چونکہ اب تنگ آ گئی تھی اور اس مصیبت سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑوانا چاہتی تھی لہذا میں نے مجبوراً ہار کر مسہری پر بیٹھ کر ہاتھ دروازے سے باہر کر دیا۔ بیرسٹر صاحب نے انگلی ہاتھ میں لے کر کہا، شاباش اس انگوٹھی کو! کیوں صاحب تعریف تو آپ بھی کرتی ہوں گی کہ میں کسی ناپ تول کے ٹھیک ٹھیک انگوٹھی لایا ہوں۔ وہ انگوٹھی ہی بھلا کس کام کی جو یہ تماشا نہ دکھائے۔ میں مجبور تھی اور چار و ناچار سن رہی تھی۔ مگر اس جملے پر مجھ کو اس مصیبت میں بھی ہنسی آ گئی کہ دیکھو تو کمبخت کس ناپ کی انگوٹھی آئی کہ مجھے اس مصیبت ڈال دیا۔ انگلی کو انہوں نے خوب ادھر ادھر سے دیکھ کر اور دبا کر کہا، یہ تو پھنس گئی ہے۔ یہ کہہ کو وہ اتارنے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک دم سے بولے، اخاہ! معاف کیجیئےگا۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ اس غریب انگلی پر دانت کس نے تیز کیے ہیں؟ میں نے جھٹ شرمندہ ہو کر ہاتھ اندر کر لیا۔
لائیے۔ لائیے۔بیرسٹر صاحب نے کہا، اب میں کچھ نہ کہوں گا۔
مجبورا پھر ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اور انہوں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ انہوں نے خوب خوب کوشش کی۔ خوب دبایا اور وہ بھی ایسا کہ درد کے مارے میرا حال برا ہو گیا۔ مگر وہ دشمن جان انگوٹھی نہ اترنا تھی نہ اتری۔ لیکن وہ بے چارے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اتنے میں کسی نے مردانہ زینے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیرسٹر صاحب غسل خانے کی طرف چلے کہ، آج شام نہ سہی کل شام مگر براہ کرم یہ انگوٹھی جس طرح بھی ممکن ہو میرے پاس ضرور پہنچا دیجیئےگا۔ چلتے چلتے وہ ایک ستم کا فقرہ اور کہہ گیےاور وہ یہ کہ سرخ پاؤڈر کی آپ کو چنداں ضرورت تو نہ تھی۔میں کٹ ہی تو گئی۔ کیونکہ کم بختی سے ایک گال پر سرخ پاؤڈر لگائے ہوئے تھی جو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
ادھروہ غسل خانے میں بند ہوئے اور ادھر میں چادر پھینک کر سیدھی بھاگی اور اپنے کمرے میں آ کر دم لیا۔ سب سے پہلے آئینہ جو دیکھا تو ایک طرف کے گال پر سرخ پوڈر رنگ دکھا رہا تھا اپنے کو کوستی گئی اور پونچھتی گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے انگلی پر ایک پٹی باندھی تاکہ انگوٹھی چھپ جائے اور بہانہ کر دوں کہ چوٹ لگی ہے۔
(۵)
خیر سے یہ بہانہ کارگر ہوا اور اماں جان نے چوٹ یا زخم تک کی وجہ نہ پوچھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ کر دیا اور وہ ملازمہ سے یہ کہہ کر چپ ہو رہیں۔ رہنے دے اس کا منگیتر آیا ہوا ہے۔ شرم کی وجہ سے نہیں نکل رہی۔ انہیں یا ملازمہ کو بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ کمبخت اس سے ملاقات کر آئی ہے اور صرف ملاقات ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں اس کی بگاڑ آئی ہے۔
تیسرے پہر کا وقت تھا اور مجھ کو ہر لمحہ شاہدہ کا انتظار تھا۔ اس کو میں نے بلوایا تو اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ آج ہی تو میں اس کے یہاں سے آئی تھی۔ میں نے پھر اس کو ایک خط لکھا تھا کہ بہن خدا کے واسطے جس طرح بھی بن پڑے جلد آ، ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔ اس خط کے جواب میں اس کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہی تھی۔میں جانتی تھی کہ وہ ضرور آئےگی۔ چنانچہ وہ آئی۔ میں اس کو لینے بھی نہ گئی۔ اماں جان سےاس کو معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس کی گھبراہٹ رفع ہو گئی اور ہنستی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے نہ سلام نہ دعا کہا، اری کمبخت باہر جا کے ذرا مل تو آ۔
میں تو مل بھی آئی۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ تجھے یقین نہ آئے تو یہ دیکھ۔ یہ کہہ کر میں نے انگلی کھول کر دکھائی۔
میں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا تو شاہدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی، تو نے بڑی مزیدار ملاقات کی۔ یہ کہہ کر وہ چٹکیاں لینے کو آگے بڑھی۔ میں نے کہا، ملاقات تو گئی چولہے میں، اب اس ناہجار انگوٹھی کو کسی طرح اتارو، چاہے انگلی کٹے یا رہے۔ مگر تو اسے اتار دے اور اسی لیے تجھے بلایا ہے۔
شاہدہ نے کہا، خیر یہ اتر تو ابھی آئےگی مگر اسے دینے کیا تو جائےگی؟
اب میں چکرمیں آئی کہ یہ کس طرح جائے گی۔ ایسے جانا چاہیے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ کچھ سوچ کر شاہدہ نے کہا کہ، میں پان میں رکھ کر بھیج دوں گی۔ نوکرانی سے کہلوا دوں گی کہ یہ پان ان کے ہاتھ میں دینا اور کہہ دینا کہ تمہاری سالی نے دیا ہے۔یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ کیونکہ اماں جان یہی خیال کرتیں کہ پان میں کچھ مذاق ہوگا۔ جو نئی بات نہ تھی۔
جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو شاہدہ نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش شروع کی۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اس کا اترنا آسان کام نہیں ہے، تیل اور صابن کی مالش کی گئی مگر بےکار۔ جب ہر طرح کوشش کر لی تو شاہدہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ انگلی سوج گئی ہے اور یہ خدا ہی ہے جو اتارے۔ غرض گھنٹوں اس میں کوشش اور محنت کی گئی۔ بورا سینے کا بڑا سوا لایا گیا۔ چھوٹی بڑی قینچیاں آئیں۔ موچنا لایا گیا۔ کاک نکالنے کا پیچ اور مشین کا پیچ کس۔ غرض جو بھی اوزار ممکن تھا لایا گیا اور استعمال کیا گیا مگر سب بےکار۔
رات کو اسی فکر میں مجھ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ تھک کر میں بیٹھ گئی اور رو رو کر شاہدہ سے کہتی تھی کہ خدا کے لیے کوئی صورت نکال۔ رات کو گرم پانی میں انگلی ڈبوئی گئی اور طرح طرح سے ڈورے ڈال کو کھینچی گئی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رہ رہ کر میں پریشان ہوتی تھی اور شاہدہ جب کوشش کر کے تھک جاتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ خدا کے واسطے مجھے اس انگوٹھی کی مصیبت سے نکال۔
آخر تو عشق بازی کرنے گئی ہی کیوں تھی؟ شاہدہ نے خود تنگ ہو کر مجھ سے پوچھا۔
خدا کی مار پڑے تمہاری عشق بازی پر۔ میں تو اس مصیبت میں گرفتار ہوں اور تمہیں یہ مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں نے منہ بنا کر کہا۔
یہ عشق بازی نہیں تو اور کیا ہے؟ گئیں وہاں اور شوق سے پاؤڈر اور مسی لگاتے لگاتے میاں کے چونچلے میں آکر انگوٹھی پہن لی۔ شاہدہ نے کہا، اب عشق بازی کے مزے بھی چکھو۔ مزے مزے کی باتیں تو کرنے گئیں اور اب۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے کہا، خدا کے لیے ذرا آہستہ بولو۔
قینچی سے انگوٹھی کتر دوں؟
نہ بہن کتراؤں گی نہیں۔ نہ معلوم کتنی قیمتی انگوٹھی ہوگی، ایک تو میں شامت کی ماری عطردان توڑ آئی اور اب اسے کاٹ ڈالوں۔
بھلا مجال ہے جو وہ چوں بھی کر جائے۔ ابھی کہلوا دوں، میاں راستہ دیکھو، ہماری چھوکری فاضل نہیں، کہیں اور مانگ کھاؤ۔ یہ کہہ کر شاہدہ نے قینچی لی اور مجھ سے کہا، لاؤ ادھر لاؤ۔
نہیں نہیں میں نے کہا۔ ایسا نہ کرو۔ پھر وہی کوششیں جاری ہو گئیں۔ غرض انگوٹھی نے رات کو سونا حرام کر دیا۔ رات بھی انگلی طرح طرح سے کھینچی گئی، کبھی میں اپنے آپ کو خوب کوستی تھی اور کبھی انگوٹھی کو برا بھلا کہتی تھی اور کبھی گڑگڑاکر دعا مانگتی تھی کہ خدایا میری مشکل آسان کر دے۔ مجبور ہو کر صبح میں نے شاہدہ سے کہا کہاب میری انگلی ویسے بھی درد کے مارے پھٹی جا رہی ہے؛ تو کاٹ دے۔
شاہدہ نے قینچی سے کاٹنے کی کوشش کی۔ امید تھی کہ سونا ہے اور آسانی سے کٹ جائے گا مگر وہ گنی کا سخت سونا تھا اور تھوڑی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ اس کو کاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ طرح طرح کے اوزار استعمال کیے گیے مگر سب بیکار۔ اب تو میں اور بھی گھبرا گئی اور ایسی حواس باختہ ہوئی کہ شاہدہ سے کہنے لگی کہ مجھے زہر مل جائے تو میں کھا کر اپنا قصہ ختم کر دوں۔ اب شاہدہ بھی متفکر تھی، اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر مجھ سے نرمی سے کہا، کہ اب صرف ایک ترکیب ہے۔
وہ کیا؟
وہ یہ ہے۔ شاہدہ نے مسکرا کر کہا، وہ یہ کہ تم اوپر جاؤ اور اپنے چہیتے سے نکلواؤ، ورنہ شام تک پکڑی جاؤ گی۔ اور ناک چوٹی کٹےگی۔
میں تو کبھی نہ جاؤں گی۔ میں نے کہا۔
یہ باتیں اور وہ بھی ہم سے! شاہدہ نے کہا۔ ذرا دل سے تو پوچھ میں نے واقعہ کہا کہ خدا کی قسم میں کسی طرح بھی جانا پسند نہیں کرتی۔ میں اس وقت بدبخت انگوٹھی کی بدلے جان سے بیزار ہو رہی ہوں۔
شاہدہ بولی، مذاق نہیں کرتی۔ خواہ پسند کرو یا نہ کرو، جانا ضرور پڑےگا۔ کیونکہ گھر کے کسی اوزار سے بھی ناممکن ہے کہ میں یا تم اسے اتار یا کاٹ سکیں۔
میں چپ بیٹھی رہی اور سوچتی رہی۔ شاہدہ نے آہستہ آہستہ سب اونچ نیچ بتائی کہ کوئی نقصان نہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس قدر شرمیلے اور باحیا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کوئی چارہ ہی نہ تھا اور مجبوراً میں راضی ہو گئی۔
(۶)
جب سناٹا ہو گیا تو اوپر پہنچی اور شاہدہ بھی ساتھ تھی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر میرا قدم نہ اٹھتا تھا۔ شاہدہ نے مجھے ہٹا کر جھانک کر دیکھا۔ کواڑ کی آواز سن کو بیرسٹر صاحب نکل آئے، کیونکہ وہ شاید منتظر ہی تھے۔ وہ سیدھے غسل خانہ میں بند ہونے چلے۔ وہ جیسے ہی دروازے کے سامنے آئے، اس شریر شاہدہ کی بچی نے مجھے ایک دم سے آگے کرکے دروازہ تیزی سے کھول کر اندر کو زور سے دھکیل دیا ۔وہ اتنے قریب تھے کہ میں سیدھے ان سے لڑ گئی۔ وہ اس نا معقولیت کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ ارے ؟ کہہ کر انہوں نے مجھے ہاتھوں سے روکا۔ وہ خود بے طرح گھبرا گیے۔ میری حالت پر انہوں نے رحم کھا کر منہ موڑ لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ میرا کیا حال ہوا۔ دروازہ شاہدہ نے بند کر لیا تھا۔ میں سیدھی کمرے میں گھس گئی اور چادر میں اچھی طرح اپنے کو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔
بیرسٹر صاحب آئے تو سب سے پہلے انہوں نے سلام کر کے زبردستی اندر گھسنے کی دھمکی دے کر جواب لیا اور پھر مزاج پوچھا۔ اس کے جواب میں میں نے ہاتھ دروازہ سے باہر کر دیا۔
یہ کیا حالت ہے؟ بیرسٹر صاحب نے انگلی کو دیکھ کر کہا۔
معلوم ہوتا ہے کہ انگلی اور انگوٹھی دونوں پر آپ نے عمل جراحی کیا ہے۔
میں کچھ نہ بولی اور انہوں نے انگلی کو چاروں طرف سے اچھی طرح دیکھا اور پھر پوچھا۔
براہ مہربانی پہلے یہ بتا دیجئے کہ یہ کون شریر ہیں جنہوں نے آپ کو میرے اوپر دھکیل دیا۔ آپ کے لگی تو نہیں؟
میں نے صرف ایک لفظ کہا، شاہدہ۔
آپ کی کوئی ہم جولی معلوم ہوتی ہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، ماشاءاللہ ہیں بڑی سیدھی۔ میں دل میں شاہدہ کی شرارت پر ہنسنے لگی کہ دیکھو اس کمبخت نے کیسی شرارت کی۔
میں صابون لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ صابون لینے گیے۔ مجھ سے کہا بھی نہ گیا کہ صابون کی مالش ہو چکی ہے۔ بیرسٹر صاحب نے صابون سے خوب مالش کی اور پھر طرح طرح سے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی گئی مگر سب بے سود ثابت ہوئی۔ جب ہر طرح طرح وہ کوشش کر چکے تو تھک کر انہوں نے کہا۔ یہ انگوٹھی آپ پہنے رہیے۔ میری قسمت اچھی ہے۔ ورنہ ہزار روپیہ خرچ کرتا جب بھی اس ناپ کی انگوٹھی مجھے نہ ملتی۔ میں گھبرا گئی اور مجھے شرم آئی۔ بجائے منہ سے بولنے کے میں نے ہاتھ کو جھٹکا کہ گویا اتار دیجیئے۔
اب نہیں اتر سکتی۔ انہوں نے ن
ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔
وہ دیکھ! وہ دیکھ! وہ اچھا ہے شاہدہ نے کہا۔
نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ ادھر سے۔ یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہوگی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔
یہ لے! شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا، کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟
کمبخت یہ دوہا جو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجؤ۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال دے تو میرا نام پلٹ کر رکھ دیجؤ۔ دیکھتی نہیں کہ بس کی گانٹھ کتنا شریر ہے اور پھر راتوں کو تیری سوت خواب میں الگ آکر گلا دبائےگی۔
تو تو پاگل ہو گئی ہے۔ میں نے کہا۔ شاہدہ ڈھنگ کی باتیں کر۔ شاہدہ ہنستے ہوئے بولی، میری بلا سے۔ کل کی کرتی تو آج کر لے میری دانست میں تو اس پروفیسر کو بھی کوئی ایسی ہی ملے تو ٹھیک رہے جو دو تین موذی بچے جہیز میں لائے اور وہ اس کے چھوکرے کو مارتے مارتے اتو کر دیں۔ چل رکھ اس کو۔۔۔ دوسری دیکھ۔
پہلی تصویر پر یہ ریمارکس پاس کیےگیے اور اس کو جوں کا توں رکھ کر دوسری تصویر اٹھائی اور شاہدہ سے پوچھا، یہ کیسا ہے؟ شاہدہ غور سے دیکھ کر بولی، ویسے تو ٹھیک ہے مگر ذرا کالا ہے۔ کون سے درجے میں پڑھتا ہے ؟ میں نے تصویر دیکھ بھال کر کہا، بی۔اے۔ میں پڑھتا ہے۔ کالا تو ایسا نہیں ہے۔ شاہدہ نے کہا، ہوں! یہ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے، جسے دیکھتی ہے اس پہ عاشق ہوئی جاتی ہے۔ نہ کالا دیکھتی ہے نہ گورا، نہ بڈھا دیکھتی ہے نہ جوان! میں نے زور سے شاہدہ کے چٹکی لے کر کہا، کمبخت میں نے تجھے اس لیے بلایا تھا کہ تو مجھے تنگ کرے! غور سے دیکھ۔ غور سے تصویر دیکھ کر اور کچھ سوچ کر شاہدہ بولی، نہ بہن یہ ہر گز ٹھیک نہیں، میں تو کہہ چکی، آئندہ تو جانے۔
میں نے کہا، خط تو دیکھ بڑے رئیس کا لڑکا ہے۔ یہ تصویر ایک طالب علم کی تھی جو ٹینس کا بلا لیے بیٹھا تھا۔ دو تین تمغے لگائے ہوئے تھا اور دو تین جیتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔شاہدہ بولی، ویسے تو لڑکا بڑا اچھا ہے۔ عمر میں تیرے جوڑ کا ہے۔ مگر ابھی پڑھتا ہے اور تیرا بھی شوکت کا سا حال ہوگا کہ دس روپے ماہوار جیب خرچ اور کھانے اور کپڑے پر نوکر ہو جائےگی اور دن رات ساس نندوں کی جوتیاں، یہ تو جھگڑا ہے۔ میں نے کہا، بی۔ اے۔ میں پڑھتا ہے، سال دو سال میں نوکر ہو جائےگا۔
ٹینس کا جمعدار ہو رہا ہے تو دیکھ لیجؤ دو تین دفعہ فیل ہوگا اور ساس نندیں بھی کہیں گی کہ بیوی پڑھنے نہیں دیتی اور پھر دوڑنے دھوپنے کا شوقین، تجھے رپٹا مارےگا۔ ویسے تو لڑکا اچھا ہے، صورت بھی بھولی بھالی ہے اور ایسا ہے کہ جب شرارت کرے، اٹھا کر طاق پر بٹھا دیا۔ مگر نہ بابا میں رائے نہ دوں گی۔ اس تصویر کو بھی رکھ دیا اور اب دوسرا بنڈل کھولا اور ایک اور تصویر نکلی۔
آخاہ! یہ موا پان کا غلام کہاں سے آیا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، دیکھ تو کمبخت کی داڑھی کیسی ہے اور پھر مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے! میں بھی ہنسنے لگی۔ یہ ایک معزز رئیس آنریری مجسٹریٹ تھے اور ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ مگر مجھ کو یہ ذرہ بھر پسند نہ آئے۔ غور سے شاہدہ نے تصویر دیکھ کر پہلے تو ان کی نقل بنائی اور پھر کہنے لگی، ایسے کو بھلا کون لڑکی دےگا؟ نہ معلوم اس کے کتنی لڑکیاں اور بیویاں ہوں گی۔ پھینک اسے۔ یہ تصویر بھی رکھ دی گئی اور دوسرا بنڈل کھول کر ایک اور تصویر لی، یہ تو گبرو جوان ہے؟ اس سےتو فورا کر لے۔ شاہدہ تصویر دیکھ کر بولی، یہ ہے کون! ذرا دیکھ۔میں نے دیکھ کر بتایا کہ ڈاکٹر ہے۔
بس بس، یہ ٹھیک، خوب تیری نبض ٹٹول ٹٹول کے روز تھرمامیٹر لگائےگا۔ صورت شکل ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، میرا میاں بھی ایسا ہی ہٹا کٹا موٹا تازہ ہے میں نے ہنس کر کہا، کمبخت آخر تو ایسی باتیں کہاں سے سیکھ آئی ہے، کیا تو نے اپنے میاں کو دیکھا ہے؟
دیکھا تو نہیں مگر سنا ہے کہ بہت اچھا ہے۔
بھدا سا ہو گا۔
شاہدہ نے چیں بچیں ہو کر کہا، اتنا تو میں جانتی ہوں کہ جو کہیں تو اسے دیکھ لے تو شاید لٹو ہی ہو جائے۔
میں نے اب ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو غور سے دیکھا اور نکتہ چینی شروع کی۔ نہ اس لیے کہ مجھے یہ ناپسند تھے، بلکہ محض اس لیے کہ کچھ رائے زنی ہو سکے۔ چنانچہ میں نے کہا، ان کی ناک ذرا موٹی ہے۔
سب ٹھیک ہے۔ شاہدہ نے کہا۔ ذرا اس کا خط دیکھ۔ میں نے دیکھا کہ صرف دو خط ہیں۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی پہلی بیوی موجود ہیں مگر پاگل ہو گئی ہیں۔پھینک پھینک اسے کمبخت کو پھینک۔شاہدہ نے جل کر کہا، جھوٹا ہے کمبخت کل کو تجھے بھی پاگل خانہ میں ڈال کے تیسری کو تکے گا۔ ڈاکٹر صاحب بھی نامنظور کر دیے گیے اور پھر ایک اور تصویر اٹھائی۔
شاہدہ نے اور میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ یہ تصویر ایک نو عمر اور خوبصورت جوان کی تھی۔ شاہدہ نے پسند کرتے ہوئے کہا، یہ تو ایسا ہے کہ میری بھی رال ٹپکی پڑ رہی ہے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت جوان ہے۔ بس اس سے تو آنکھ میچ کے کر لے اور اسے گلے کا ہار بنا لیجیو۔ ہم دونوں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا ہر طرح دونوں نے پسند کیا اور پاس کر دیا۔ شاہدہ نے اس کے خط کو دیکھنے کو کہا۔ خط جو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ولایت میں پڑھتے ہیں۔
ارے توبہ توبہ، چھوڑ اسے۔ شاہدہ نے کہا۔
میں نے کہا، کیوں۔ آخر کوئی وجہ؟
وجہ یہ کہ بھلا اسے وہاں میمیں چھوڑیں گی۔ عجب نہیں کہ ایک آدھ کو ساتھ لے آئے۔
میں نے کہا، واہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ احمد بھائی کو دیکھو، پانچ سال ولایت میں رہے تو کیا ہو گیا۔
شاہدہ تیزی سے بولی، بڑے احمد بھائی احمد بھائی، رجسٹر لے کر وہاں کی بھاوجوں کے نام لکھنا شروع کرےگی تو عمر ختم ہو جائےگی اور رجسٹر تیار نہ ہوگا۔ میں تو ایسا جوا نہ کھیلوں اور نہ کسی کو صلاح دوں۔ یہ ادھار کا سا معاملہ ٹھیک نہیں۔
یہ تصویر بھی ناپسند کر کے رکھ دی گئی اور اس کے بعد ایک اور نکالی۔ شاہدہ نے تصویر دیکھ کر کہا، یہ تو اللہ رکھے اس قدر باریک ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائیں گے۔ علاوہ اس کے کوئی آندھی بگولا آیا تو یہ اڑ اڑا جائیں گے اور تو رانڈ ہو جائےگی۔ اسی طرح دو تین تصویریں اور دیکھی گئیں کہ اصل تصویر آئی اور میرے منہ سے نکل گیا، اخاہ۔
مجھے دے۔ دیکھوں، دیکھوں۔ کہہ کر شاہدہ نے تصویر لے لی۔ہم دونوں نے غور سے اس کو دیکھا۔ یہ ایک بڑی سی تصویر تھی۔ ایک تو وہ خود ہی تصویر تھا اور پھر اس قدر صاف اور عمدہ کھینچی ہوئی کہ بال بال کا عکس موجود تھا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا، اسے مت چھوڑیو۔ ایسے میں تو میں دو کر لوں۔ یہ آخر ہے کون۔۔۔؟ تصویر کو الٹ کر دیکھا جیسے دستخط اوپر تھے ایسے ہی پشت پر تھے مگر شہر کا نام لکھا ہوا تھا اور بغیر خطوط کے دیکھے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ کس کی تصویر ہے۔ میں نے شاہدہ سے کہا، یہ وہی ہے جس کا میں نے تجھ سے اس روز ذکر کیا تھا۔
اچھا یہ بیرسٹر صاحب ہیں۔ شاہدہ نے پسندیدگی کے لہجہ میں کہا، صورت شکل تو خوب ہے، مگر ان کی کچھ چلتی بھی ہے یا نہیں؟ میں نے کہا، ابھی کیا چلتی ہوگی۔ ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔
تو پھر ہوا کھاتے ہوں گے۔ شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ خیر تو اس سے ضرور کر لے۔ خوب تجھے موٹروں پر سیر کرائےگا، سینما اور تھیٹر دکھائےگا اور جلسوں میں نچائےگا۔
میں نے کہا، کچھ غریب تھوڑی ہیں۔ ابھی تو باپ کے سر کھاتے ہیں۔
شاہدہ نے چونک کر کہا، اری بات تو سن۔
میں نے کہا، کیوں۔
شاہدہ بولی، صورت شکل بھی اچھی ہے۔ خوب گورا چٹا ہے۔ بلکہ تجھ سے بھی اچھا ہے اور عمر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ کہیں کوئی میم ویم تو نہیں پکڑ لایا ہے۔میں نے کہا، مجھے کیا معلوم۔ لیکن اگر کوئی ساتھ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔
ٹھیک ٹھیک۔ شاہدہ نے سر ہلا کر کہا، بس اللہ کا نام لے کر پھانس میں نے خط اٹھائے اور شاہدہ دوسری تصویریں دیکھنے لگی۔ میں خط پڑھ رہی تھی اور وہ ہر ایک تصویر کا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے خوش ہو کر اس کو چپکے چپکے خط کا کچھ حصہ سنایا۔ شاہدہ سن کر بولی الا اللہ! میں نے اور آگے پڑھا تو کہنے لگی۔ وہ مارا۔ غرض خط کا سارا مضمون سنایا۔ شاہدہ نے خط سن کر کہا کہ، یہ تو سب معاملہ فٹ ہے اور چول بیٹھ گئی ہے۔ اب تو گڑ تقسیم کر دے۔
پھر ہم دونوں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا۔ دونوں نے رہ رہ کر پسند کیا۔ یہ ایک نوعمر بیرسٹر تھے اور غیر معمولی طور پر خوبصورت معلوم ہوتے تھے اور ناک نقشہ سب بےعیب تھا۔ شاہدہ رہ رہ کر تعریف کر رہی تھی۔ ڈاڑھی مونچھیں سب صاف تھیں اور ایک دھاری دار سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔ میں نے بیرسٹر صاحب کے دوسرے خط پڑھے اور مجھ کو کل حالات معلوم ہو گیے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیرسٹر صاحب بڑے اچھے اور رئیس گھرانے کے ہیں اور شادی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ آخری خط سے پتہ چلتا تھا کہ صرف شادی کی تاریخ کے معاملہ میں کچھ تصفیہ ہونا باقی ہے۔
میں نے چاہا کہ اور دوسرے خط پڑھوں اور خصوصا آنریری مجسٹریٹ صاحب کا مگر شاہدہ نے کہا، اب دوسرے خط نہ پڑھنے دوں گی۔ بس یہی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا، ان کے ذکر کی بھنک ایک مرتبہ سن چکی ہوں۔ آخر دیکھ تو لینے دے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔
شاہدہ نے جھٹک کر کہا، چل رہنے دے اس موذی کا ذکر تک نہ کر۔ میں نے بہت کچھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ قصہ مختصر جلدی جلدی سب چیزیں جوں کی توں رکھ دیں اور الماری بند کر کے میں نے مردانہ زینہ کا دروازہ کھولا اور شاہدہ کے ساتھ چپکے سے جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس ہوئی۔ جہاں سے کنجی لی تھی، اسی طرح رکھ دی۔ شاہدہ سے دیر تک بیرسٹر صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاہدہ کو میں نے اسی لیے بلایا تھا۔ شام کو وہ اپنے گھر چلی گئی مگر اتنا کہتی گئی کہ خالہ جان کی باتوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تیری شادی اب بالکل طے ہو گئی اور تو بہت جلد لٹکائی جائےگی۔
(۲)
اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔
آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی تھیں کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔
ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بےحد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا اور میں تاک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کہ اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیے لیتے ہیں تو بسم اللہ۔ ہم کو ہماری لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔
اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائےگی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بےتکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے نکال دیجئے کہ سال بھر سے پہلے شادی کر دی جائے۔ اماں جان نے بھی اس جواب کو پسند کیا اور پھر انہی آنریری مجسٹریٹ صاحب کے تذکرہ سے میرے کانوں کی تواضع کی گئی۔
ان سب باتوں سے میرا ایسا جی گھبرایا کہ اماں جان سے میں نے شاہدہ کے گھر جانے کی اجازت لی اور یہ سوچ کر گئی کہ تین چار روز نہ آؤں گی۔
شاہدہ کے ہاں جو پہنچی تو اس نے دیکھتے ہی معلوم کر لیا کہ کچھ معاملہ دگرگوں ہے۔ کہنے لگی کہ ، کیا تیرے بیرسٹر نے کسی اور کو گھر میں ڈال لیا؟
میں اس کا بھلا کیا جواب دیتی۔ تمام قصہ شروع سے آخیر تک سنا دیا کہ کس طرح وہ جلدی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد شادی ہو جائے۔ مگر اماں جان راضی نہیں ہوتیں۔ یہ سب سن کر اور مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر وہ شریر بولی، خوب! چٹ منگنی پٹ بیاہ بھلا ایسا کون کرےگا۔ مگر ایک بات ہے۔ میں نے کہا، وہ کیا؟ وہ بولی، وہ تیرے لئے پھڑک رہا ہے اور یہ فال اچھی ہے۔ میں نے جل کر کہا، یہ تو فال نکال رہی ہے اور مذاق کر رہی ہے۔
پھر کیا کروں؟ شاہدہ نے کہا۔ (کیونکہ واقعی وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی ہے۔)
میں نے کہا، کوئی مشورہ دو۔ صلاح دو۔ دونوں مل کر سوچیں۔
پاگل نہیں تو۔ شاہدہ نے میری بیوقوفی پر کہا، دیوانی ہوئی ہے، میں صلاح کیا دوں؟
اچھا مجھے پتہ بتا دے۔ میں بیرسٹر صاحب کو لکھ بھیجوں کہ ادھر تو اس چھوکری پر نثار ہو رہا ہے اور ادھر یہ تیرے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے، آکے تجھے بھگا لے جائے۔
خدا کی مار تیرے اوپر اور تیری صلاح کے اوپر۔ میں نے کہا۔ کیا میں اسی لئے آئی تھی؟ میں جاتی ہوں۔ یہ کہہ کر میں اٹھنے لگی۔
تیرے بیرسٹر کی ایسی تیسی۔ شاہدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ جاتی کہاں ہے شادی نہ بیاہ، میاں کا رونا روتی ہے۔ تجھے کیا؟ کوئی نہ کوئی ماں کا جایا آ کر تجھے لے ہی جائےگا۔ چل دوسری باتیں کر۔
یہ کہہ کر شاہدہ نے مجھے بٹھا لیا اور میں بھی ہنسنے لگی۔ دوسری باتیں ہونے لگیں۔ مگر یہاں میرے دل کو لگی ہوئی تھی اور پریشان بھی تھی۔ گھوم پھر کر وہی باتیں ہونے لگیں۔ شاہدہ نے جو کچھ ہمدردی ممکن تھی وہ کی اور دعا مانگی اور پھر آنریری مجسٹریٹ کو خوب کوسا۔ اس کے علاوہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ خود نماز کے بعد دعا مانگنے کا وعدہ کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ نماز کے بعد روزانہ دعا مانگا کر۔ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ میں۔میں گھر سے کچھ ایسی بیزار تھی کہ دو مرتبہ آدمی لینے آیا اور نہ گئی۔ چوتھے روز میں نے شاہدہ سے کہا کہ، اب شاید خط کا جواب آ گیا ہوگا اور میں کھانا کھا کے ایسے وقت جاؤں گی کہ سب سوتے ہوں۔ تاکہ بغیر انتظار کئے ہوئے مجھے خط دیکھنے کا موقع مل جائے۔
چلتے وقت میں ایسے جا رہی تھی جیسے کوئی شخص اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے جا رہا ہو۔ میری حالت عجیب امید و بیم کی تھی۔ نہ معلوم اس خط میں بیرسٹر صاحب کے والد نے انکار کیا ہوگا یا منظور کر لیا ہوگا کہ ہم سال بھر بعد شادی پر رضامند ہیں۔ یہ میں بار بار سوچ رہی تھی۔ چلتے وقت میں نے اپنی پیاری سہیلی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور سے دبایا۔ نہ معلوم کیوں میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ شاہدہ نے مذاق کو رخصت کرتے ہوئے کہا، بہن خدا تجھے اس موذی سے بچائے۔ تو دعا مانگ اچھا۔ میں نے چپکے سے کہا، اچھا۔
(۳)
شاہدہ کے یہاں سے جو آئی تو حسب توقع گھر میں سناٹا پایا۔ اماں جان سو رہی تھیں۔ اور ابا جان کچہری جا چکے تھے۔ میں نے چپکے سے جھانک کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دوڑ کر مردانہ زینہ کا دروازہ بھی بند کر دیا اور سیدھی کمرہ میں پہنچی۔ وہاں پہنچی تو ششدر رہ گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا چمڑے کا ٹرنک کھلا پڑا ہے اور پاس کی کرسی پر اور ٹرنک میں کپڑوں کے اوپر مختلف چیزوں کی ایک دکان سی لگی ہوئی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ کون ہے، جو اس طرح سامان چھوڑ کر ڈال گیا ہے۔ کیا بتاؤں میرے سامنے کیسی دکان لگی ہوئی اور کیا کیا چیزیں رکھی تھیں کہ میں سب بھول گئی اور انہیں دیکھنے لگی۔ طرح طرح کی ڈبیاں اور ولائتی بکس تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے سب سے پیشتر جھٹ سے ایک سنہرا گول ڈبہ اٹھا لیا۔ میں اس کو تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ یہ گنی کے سونے کا ڈبہ تھا اور اس پر سچی سیپ کا نفیس کام ہوا تھا۔ اودی اودی کندن کی جھلک بھی تھی۔ ڈھکنا تو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں موتی جڑے ہوئے تھے اور کئی قطاریں ننھے ننھے سمندری گھونگھوں کی اس خوبصورتی سے سونے میں جڑی ہوئی تھیں کہ میں دنگ رہ گئی۔
میں نے اسے کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا پوؤڈر لگانے کا پف رکھا ہوا تھا اور اس کے اندر سرخ رنگ کا پاؤڈر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پف نکال کر اس کے نرم نرم روئیں دیکھے جن پر غبار کی طرح پاؤڈر کے مہین ذرے گویا ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھنے کے لیے یہ کتنا نرم ہے، میں نے اس کو اپنے گال پر آہستہ آہستہ پھرایا اور پھر اس کو واپس اسی طرح رکھ دیا۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ مرے گال پر سرخ پاؤڈر جم گیا۔ میں نے ڈبہ کو رکھا ہی تھا کہ میری نظر ایک تھیلی پر پڑی۔ مہ سبز مخمل کی تھیلی تھی۔ جس پر سنہری کام میں مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔
میں نے اس کو اٹھایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ دراصل یہ ولایتی ربڑ کی تھیلی تھی، جو مخمل سے بھی زیادہ خوبصورت اور نرم تھی، میں نے غور سے سنہری کام کو دیکھا۔ کھول کر جو دیکھا تو اندر دو چاندی کے بالوں میں کرنے کے برش تھے اور ایک ان ہی کے جوڑ کا کنگھا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا اور چھوٹی خوبصورت ڈبیوں کو دیکھا۔ کسی میں سیفٹی پن تھا، کسی میں خوبصورت سا بروچ تھا اور کسی میں پھول تھا۔ غرض طرح طرح کے بروچ اور بلاؤس پن وغیرہ تھے۔ دو تین ڈبیاں ان میں ایسی تھیں جو عجیب شکل تھیں۔ مثلاً ایک بالکل کتاب کی طرح تھی اور ایک کرکٹ کے بلے کی طرح تھی۔ ان میں بعض ایسی بھی تھیں جو مجھ سے کسی طرح بھی نہ کھلیں۔ علاوہ ان کے سگریٹ کیس، دیا سلائی کا بکس وغیرہ وغیرہ۔ سب ایسی کہ بس ان کو دیکھا ہی کرے۔
میں ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مخمل کے ڈبہ کا کونہ ٹرنک میں ریشمی رومالوں میں مجھے دبا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کو نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کاٹنے اور گھسنے کے اوزار رکھے ہوئے تھے اور ڈھکنے میں ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو جوں کا توں اسی جگہ رکھا تو میرے ہاتھ ایک اور مخمل کا ڈبہ لگا۔ اس کو جو میں نے نکال کر کھولا تو اس کے اندر سے سبز رنگ کا ایک فاؤنٹین پن نکلا۔ جس پر سونے کی جالی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ ایک چھوٹی سے سنہری رنگ کی ڈبیہ پر نظر پڑی۔ اس کو میں نے کھولنا چاہا۔ مگر وہ کمبخت نہ کھلنا تھی نہ کھلی۔ میں اس کو کھول ہی رہی تھی کہ ایک لکڑی کے بکس کا کونہ نظر پڑا۔ میں نے اس کو فوراً ٹرنک سے نکال کر دیکھا۔ یہ ایک بھاری سا خوبصورت بکس تھا۔ اس کو جو میں نے کھولا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس کے اندر سے ایک صاف شفاف بلور کا عطردان نکلا جو کوئی بالشت بھر لمبا اور اسی مناسبت سے چوڑا تھا۔ میں نے اس کو نکال کر غور سے دیکھا اور لکڑی کا بکس جس میں یہ بند تھا، الگ رکھ دیا۔
عجیب چیز تھی۔ اس کے اندر کی تمام چیزیں باہر سے نظر آ رہی تھیں۔ اس کے اندر چوبیس چھوٹی چھوٹی عطر کی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے خوشنما رنگ روشنی میں بلور میں سے گزر کر عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ میں اس کو چاروں طرف سے دیکھتی رہی اور پھر کھولنا چاہا۔ جہاں جہاں بھی جو بٹن نظر آئے میں نے دبائے مگر یہ نہ کھلا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی کہ میری نظر کسی تصویر کے کونے پر پڑی جو ٹرنک میں ذرا نیچے کو رکھی تھی۔ میں نے تصویر کو کھینچ کر نکالا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مخمل کی ڈبیہ رومالوں اور ٹائیوں میں لڑھکتی ہوئی چلی آئی اور کھل گئی۔
کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں ایک خوبصورت انگوٹھی جگ مگ جگمگ کر رہی ہے۔ فوراً تصویر کو چھوڑ کر میں نے اس ڈبیا کو اٹھایا اور انگوٹھی کو نکال کر دیکھا۔ بیچ میں اس کے ایک نیلگوں رنگ تھا اور ارد گرد سفید سفید ہیرے جڑے تھے۔ جن پر نگاہ نہ جمتی تھی۔ میں نے اس خوبصورت انگوٹھی کو غور سے دیکھا اور اپنی انگلیوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کسی میں تنگ تھی تو کسی میں ڈھیلی۔ مگر سیدھے ہاتھ کی چھنگلی کے پاس والی انگلی میں میں نے اس کو زور دے کر کسی نہ کسی طرح تمام پہن تو لیا اور پھر ہاتھ اونچا کر کے اس کے نگینوں کی دمک دیکھنے لگی۔ میں اسے دیکھ بھال کر ڈبیا میں رکھنے کے لئے اتارنے لگی تو معلوم ہوا کہ پھنس گئی ہے۔
میرے بائیں ہاتھ میں وہ بلور کا عطردان بدستور موجود تھا اور میں اس کو رکھنے ہی کو ہوئی تاکہ انگلی میں پھنسی ہوئی انگوٹھی کو اتاروں کہ ایکا ایکی میری نظر اس تصویر پر پڑی جو سامنے رکھی تھی اور جس کو میں سب سے پیشتر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں عطردان تو رکھنا بھول گئی اور فوراً ہی سیدھے ہاتھ سے تصویر کو اٹھا لیا اور کاغذ ہٹا کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب سامان بیرسٹر صاحب کا ہے کہ یہ انہی کی تصویر تھی۔ یہ کسی ولایتی دکان کی بنی ہوئی تھی اور رنگین تھی۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی بیرسٹر صاحب غیر معمولی طور پر خوبصورت آدمی ہیں۔ چہرے کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ سیاہ بال تھے اور آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ چہرہ، آنکھ، ناک، غرض ہر چیز اس صفائی سے اپنے رنگ میں موجود تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ۔ کوٹ کی دھاریاں ہوشیار مصور نے اپنے اصلی رنگ میں اس خوبی سے دکھائی تھیں کہ ہر ایک ڈورا اپنے رنگ میں صاف نظر آ رہا تھا۔
میں اس تصویر کو دیکھنے میں بالکل محو تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہوا کی رمق سے وہ کمبخت باریک سا کاغذ دیکھنے میں مخل ہونے لگا۔ میں نے تصویر کو جھٹک کر الگ کیا۔ کیونکہ بایاں ہاتھ گھرا ہوا تھا۔ اس میں وہی بلور کا عطردان تھا پھر اسی طرح کاغذ اڑ کر آیا اور تصویر کو ڈھک دیا۔ میں نے جھٹک کر الگ کرنا چاہا۔ مگر وہ چپک سا گیا اور علیحدہ نہ ہوا۔ تو میں نے منہ سے پھونکا اور جب بھی وہ نہ ہٹا تو میں نے اونھ کر کے بائیں ہاتھ کی انگلی سے جو کاغذ کو ہٹایا تو وہ بلور کا عطردان بھاری تو تھا ہی ہاتھ سے پھسل کر چھوٹ پڑا اور چھن سے پختہ فرش پر گر کر کھیل کھیل ہو گیا۔
میں دھک سے ہو گئی اور چہرہ فق ہو گیا۔ تصویر کو ایک طرف پھینک کے ایک دم سے شکستہ عطردان کے ٹکڑے اٹھا کر ملانے لگی کہ ایک نرم آواز بالکل قریب سے آئی، تکلیف نہ کیجئے، آپ ہی کا تھا۔ آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو جیتی جاگتی اصلی تصویر بیرسٹر صاحب کی سامنے کھڑی ہے! تعجب!! اس تعجب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا کہ الہٰی یہ کدھر سے آ گیے۔ دو تین سیکنڈ تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں کہ ایک دم سے میں نے ٹوٹے ہوئے عطردان کے ٹکڑے پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر جھٹ سے دروازہ کی آڑ میں ہو گئی۔
(۴)
میری حالت بھی اس وقت عجیب قابل رحم تھی۔ بلیوں دل اچھل رہا تھا ۔یہ پہلا موقع تھا جو میں کسی نامحرم اور غیر شخص کے ساتھ اس طرح ایک تنہائی کے مقام پر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ عین چوری کرتے پکڑی گئی۔ سارا ٹرنک کرید کرید کر پھینک دیا تھا اور پھر عطردان توڑ ڈالا، اور نہایت ہی بے تکلفی سے انگوٹھی پہن رکھی تھی۔
اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے تھی۔ سارے بدن میں ایک سنسنی اور رعشہ سا تھا کہ ذرا ہوش بجا ہوئے تو فوراً انگوٹھی کا خیال آیا۔ جلدی جلدی اسے اتارنے لگی۔ طرح طرح سے گھمایا۔ طرح طرح سے انگلی کو دبایا اور انگوٹھی کو کھینچا۔ مگر جلدی میں وہ اور بھی نہ اتری۔ جتنی دیر لگ رہی تھی، اتنا ہی میں اور گھبرا رہی تھی۔ پل پل بھاری تھا، اور میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہر طرح انگوٹھی اتارنے کو کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ نہ اترتی تھی۔ غصہ میں میں نے انگلی مروڑ ڈالی۔ مگر کیا ہوتا تھا۔ غرض میں بےطرح انگوٹھی اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے کہ انگوٹھی آپ کو پسند تو آ گئی۔
یہ سن کر میرے تن بدن میں پسینہ آ گیا اور میں گویا کٹ مری۔ میں نے دل میں کہا کہ میں منہ چھپا کر جو بھاگی تو شاید انگوٹھی انہوں نے دیکھ لی۔ اور واقعہ بھی دراصل یہی تھا۔ اس جملہ نے میرے اوپر گویا ستم ڈھایا۔ میں نے سن کر اور بھی جلدی جلدی اس کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ انگوٹھی کمبخت ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میرا دل انجن کی طرح چل رہا تھا اور میں کٹی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ کیونکر اس نامراد انگوٹھی کو اتاروں۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب آڑ سے ہی بولے، اس میں سے اگر اور کوئی چیز پسند ہو تو وہ بھی لے لیجئے۔ میں نے یہ سن کر اپنی انگلی مروڑ تو ڈالی کہ یہ لے تیری یہ سزا ہے، مگر بھلا اس سے کیا ہوتا تھا؟ غرض میں حیران اور زچ ہونے کے علاوہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔اتنے میں بیرسٹر صاحب پھر بولے، چونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اپنی منسوبہ بیوی سے باتیں کرنے کا بلکہ ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ہے لہذا میں اس زریں موقع کو کسی طرح ہاتھ سے نہیں کھو سکتا۔
یہ کہہ کر وہ دروازہ سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے اور میں گویا گھر گئی۔ میں شرم و حیا سے پانی پانی ہو گئی اور میں نے سر جھکا کر اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کونہ میں موڑ لیا۔ کواڑ میں گھسی جاتی تھی۔ میری یہ حالت زار دیکھ کر شاید بیرسٹر صاحب خود شرما گیے اور انہوں نے کہا، میں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر۔۔۔ یہ کہہ کر سامنے مسہری سے چادر کھینچ کر میرے اوپر ڈال دی اور خود کمرے سے باہر جا کر کہنے لگے، آپ مہربانی فرما کر مسہری پر بیٹھ جائیے اور اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔
میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟ میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگی تاکہ انگوٹھی جلد اتر جائے۔اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے، بولیے صاحب جلدی بولیے۔ میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں تو پھر میں حاضر ہوتا ہوں۔میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا، جی نہیں میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے؟
یا اللہ میں نے تنگ ہو کر کہا، مجھے موت دے۔ یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔
اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، شکر ہے عطر دان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا اور گویا میری محنت وصول ہو گئی، مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپنی زبان سے اور کچھ کہہ دیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گیے۔ میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی، گویا اس نے عطر دان توڑا تھا۔ میں عطردان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔ جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹر صاحب نے کہا، آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔
میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا، بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطر دان۔۔۔
بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا، خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا، خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آپ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں بالکل ٹھیک آئی ہے اور آپ اس کو اب تک از راہ عنایت پہنے ہوئی ہیں۔
میں اب کیا بتاؤں کہ یہ سن کر میرا کیا حال ہوا۔ میں نے دل میں کہا کہ خوب انگوٹھی ٹھیک آئی اور خوب پہنے ہوئے ہوں۔ انگوٹھی نہ ہوئی گلے کی پھانسی ہو گئی۔ جو ایسی ٹھیک آئی کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میں نے دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر یہ کمبخت میری انگلی میں نہ پھنس گئی ہوتی تو کاہے کو میں بے حیا بنتی اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملتا کہ آپ پہنے ہوئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس نامراد انگوٹھی کو اتارنے کے لیے کیا کیا جتن کر چکی ہوں اور برابر کر رہی تھی۔ مگر وہ تو ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میں پھر خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ مگر انگوٹھی اتارنے کی برابر کوشش کر رہی تھی۔
بیرسٹر صاحب نے میری خاموشی پر کہا، آپ پھر جواب سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔ پسند ہے یا ناپسند۔ ان دو جملوں میں سے ایک کہہ دیجیئے۔میں نے پھر غصے میں انگلی کو نوچ ڈالا اور قصہ ختم کرنے کے لیے ایک اور ہی لفظ کہہ دیا، اچھی ہے۔
جی نہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، اچھی ہے اور آپ کو پسند نہیں تو کس کام کی۔ علاوہ اس کے اچھی تو خود دکاندار نے کہہ کر دی تھی، اور میں یہ پوچھتا بھی نہیں، آپ بتائیے کہ آپ کو پسند ہے یا ناپسند، ورنہ پھر حاضر ہونے کی اجازت دیجیئے۔ میں نے دل میں کہا یہ قطعی گھس آئیں گے اور پھر جھک مار کر کہنا ہی پڑےگا، لہذا کہہ دیا۔ پسند ہے۔ یہ کہہ کر میں دانت پیس کر پھر انگلی نوچنے لگی۔
شکریہ۔ بیرسٹر صاحب نے کہا۔صد شکریہ۔ اور اب آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن ایک عرض ہے اور وہ یہ کہ یہ انگوٹھی تو بے شک آپ کی ہے اور شاید آپ اس کو پہن کر اتارنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن مجھ کو مجبوراً آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ شام کو مجھ کو چونکہ اور چیزوں کے ساتھ اس کو رسماً بھجوانا ہے لہذا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس وقت اس کو یہاں چھوڑتی جائیں۔ میں علیحدہ ہوا جاتا ہوں۔ خدا حافظ۔ یہ کہہ کر وہ ہٹ گیے اور میں نے ان کے جانے آواز سنی۔ وہ سامنے کے غسل خانے میں چلے گیے۔ دراصل وہ اسی غسل خانے میں کنگھا وغیرہ کر رہے ہوں گے، جب میں بے خبری میں آکر پھنس گئی۔
اب میں سخت چکر میں تھی اور انگلی سے انگوٹھی اتارنے کی سر توڑ کوشش کی گھبراہٹ اور جلدی میں پاگل سی ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں نے علاوہ ہاتھ کے، دانتوں سے بھی امداد لی اور انگلی میں کاٹ کاٹ کر کھایا مگر وہ کمبخت انگوٹھی جان لیوا تھی اور نہ اترنا تھی نہ اتری۔ میں نے تنگ آ کر اپنا سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہا، ہائے میرے اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ یہ کمبخت تو میری جان لیے لیتی ہے۔
بیرسٹر صاحب غسل خانے میں کھڑے کھڑے تھک گیے اور میں وہیں کی وہیں تھی۔ وہ لوٹ آئے اور بولے، معاف کیجیے نہیں معلوم تھا کہ انگوٹھی اتارنے پر آپ رضامند نہیں اور اس شرط پر جانا بھی نہیں چاہتیں۔ مگر چونکہ اس رسم کا نام ہی انگوٹھی کی رسم ہے، لہذا میں اس کی خالی ڈبیہ رکھ دوں گا۔ اور کہلا دوں گا کہ انگوٹھی آپ کے پاس ہے۔ یہ کہہ کر ذرا رک کر بولے، اور تو کسی بات کا خیال نہیں صرف اتنا کہ آپ کے والد اس کو بدقسمتی سے دیکھ چکے ہیں۔
میں اپنی انگلی توڑ رہی تھی اور یہ سن کر گھبرا گئی۔ یہ تو خیر مذاق تھا کہ وہ کہہ دیں گے انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب ابا جان انگوٹھی دیکھ چکے ہیں تو آخر بیرسٹر صاحب ان سے اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب کو شبہ گزرا کہ میں اس وجہ سے نہیں جا رہی ہوں کہ کہیں وہ غسل خانہ میں سے مجھ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔ لہذا وہ ایک دم سے بولے، اوہو! اب میں سمجھا۔ لیجیے بجائے غسل خانہ کے زینے میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔
میں بےحد پریشان تھی، مجبور تھی کہ اس غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دوں اور اصل وجہ بتا دوں۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الہی کیا کروں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، تو میرا حال تھا اور بیرسٹر صاحب نہ جانے کیا خیال کر رہے تھے۔ بالاخر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ زینے میں روپوش ہونے جا رہے ہیں تو مرتا کیا نہ کرتا، تنگ آ کر نہ معلوم میں نے کس طرح دبی آواز میں کہا، وہ نہیں اترتی۔
ادھر تو میرا یہ حال تھا اور ادھر بیرسٹر صاحب گویا مارے خوشی کے اچھل پڑے اور انہوں نے ہنس کر بڑی خوشی کے لہجہ میں جیسے کوئی بے تکلفی سے کہتا ہے۔ کہا، واللہ!یہ معاملہ ہے!! خدا کرے نہ اترے۔ میں بھلا اس جملے کے بعد کیا بولتی۔ اسی طرح چپ تھی اور اپنی بنتی کوشش کر رہی تھی کہ انگوٹھی اتر آئے۔ لیکن جب دیر ہوئی تو انہوں نے کہا، اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو میں اتار دوں۔
یا اللہ! میں نے اپنے دل میں کہا۔ اب کیا کروں۔ میں تو نہ اترواؤں گی۔ یہ طے کر کے میں پھر کوشش کرنے لگی۔ مگر توبہ کیجیئے وہ بھلا کیوں اترتی۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا، وہ آپ سے ہر گز نہ اترےگی۔ کوئی حرج نہیں ہے میں باہر سے اتار دوں گا۔
میں چونکہ اب تنگ آ گئی تھی اور اس مصیبت سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑوانا چاہتی تھی لہذا میں نے مجبوراً ہار کر مسہری پر بیٹھ کر ہاتھ دروازے سے باہر کر دیا۔ بیرسٹر صاحب نے انگلی ہاتھ میں لے کر کہا، شاباش اس انگوٹھی کو! کیوں صاحب تعریف تو آپ بھی کرتی ہوں گی کہ میں کسی ناپ تول کے ٹھیک ٹھیک انگوٹھی لایا ہوں۔ وہ انگوٹھی ہی بھلا کس کام کی جو یہ تماشا نہ دکھائے۔ میں مجبور تھی اور چار و ناچار سن رہی تھی۔ مگر اس جملے پر مجھ کو اس مصیبت میں بھی ہنسی آ گئی کہ دیکھو تو کمبخت کس ناپ کی انگوٹھی آئی کہ مجھے اس مصیبت ڈال دیا۔ انگلی کو انہوں نے خوب ادھر ادھر سے دیکھ کر اور دبا کر کہا، یہ تو پھنس گئی ہے۔ یہ کہہ کو وہ اتارنے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک دم سے بولے، اخاہ! معاف کیجیئےگا۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ اس غریب انگلی پر دانت کس نے تیز کیے ہیں؟ میں نے جھٹ شرمندہ ہو کر ہاتھ اندر کر لیا۔
لائیے۔ لائیے۔بیرسٹر صاحب نے کہا، اب میں کچھ نہ کہوں گا۔
مجبورا پھر ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اور انہوں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ انہوں نے خوب خوب کوشش کی۔ خوب دبایا اور وہ بھی ایسا کہ درد کے مارے میرا حال برا ہو گیا۔ مگر وہ دشمن جان انگوٹھی نہ اترنا تھی نہ اتری۔ لیکن وہ بے چارے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اتنے میں کسی نے مردانہ زینے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیرسٹر صاحب غسل خانے کی طرف چلے کہ، آج شام نہ سہی کل شام مگر براہ کرم یہ انگوٹھی جس طرح بھی ممکن ہو میرے پاس ضرور پہنچا دیجیئےگا۔ چلتے چلتے وہ ایک ستم کا فقرہ اور کہہ گیےاور وہ یہ کہ سرخ پاؤڈر کی آپ کو چنداں ضرورت تو نہ تھی۔میں کٹ ہی تو گئی۔ کیونکہ کم بختی سے ایک گال پر سرخ پاؤڈر لگائے ہوئے تھی جو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔
ادھروہ غسل خانے میں بند ہوئے اور ادھر میں چادر پھینک کر سیدھی بھاگی اور اپنے کمرے میں آ کر دم لیا۔ سب سے پہلے آئینہ جو دیکھا تو ایک طرف کے گال پر سرخ پوڈر رنگ دکھا رہا تھا اپنے کو کوستی گئی اور پونچھتی گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے انگلی پر ایک پٹی باندھی تاکہ انگوٹھی چھپ جائے اور بہانہ کر دوں کہ چوٹ لگی ہے۔
(۵)
خیر سے یہ بہانہ کارگر ہوا اور اماں جان نے چوٹ یا زخم تک کی وجہ نہ پوچھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ کر دیا اور وہ ملازمہ سے یہ کہہ کر چپ ہو رہیں۔ رہنے دے اس کا منگیتر آیا ہوا ہے۔ شرم کی وجہ سے نہیں نکل رہی۔ انہیں یا ملازمہ کو بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ کمبخت اس سے ملاقات کر آئی ہے اور صرف ملاقات ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں اس کی بگاڑ آئی ہے۔
تیسرے پہر کا وقت تھا اور مجھ کو ہر لمحہ شاہدہ کا انتظار تھا۔ اس کو میں نے بلوایا تو اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ آج ہی تو میں اس کے یہاں سے آئی تھی۔ میں نے پھر اس کو ایک خط لکھا تھا کہ بہن خدا کے واسطے جس طرح بھی بن پڑے جلد آ، ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔ اس خط کے جواب میں اس کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہی تھی۔میں جانتی تھی کہ وہ ضرور آئےگی۔ چنانچہ وہ آئی۔ میں اس کو لینے بھی نہ گئی۔ اماں جان سےاس کو معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس کی گھبراہٹ رفع ہو گئی اور ہنستی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے نہ سلام نہ دعا کہا، اری کمبخت باہر جا کے ذرا مل تو آ۔
میں تو مل بھی آئی۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ تجھے یقین نہ آئے تو یہ دیکھ۔ یہ کہہ کر میں نے انگلی کھول کر دکھائی۔
میں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا تو شاہدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی، تو نے بڑی مزیدار ملاقات کی۔ یہ کہہ کر وہ چٹکیاں لینے کو آگے بڑھی۔ میں نے کہا، ملاقات تو گئی چولہے میں، اب اس ناہجار انگوٹھی کو کسی طرح اتارو، چاہے انگلی کٹے یا رہے۔ مگر تو اسے اتار دے اور اسی لیے تجھے بلایا ہے۔
شاہدہ نے کہا، خیر یہ اتر تو ابھی آئےگی مگر اسے دینے کیا تو جائےگی؟
اب میں چکرمیں آئی کہ یہ کس طرح جائے گی۔ ایسے جانا چاہیے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ کچھ سوچ کر شاہدہ نے کہا کہ، میں پان میں رکھ کر بھیج دوں گی۔ نوکرانی سے کہلوا دوں گی کہ یہ پان ان کے ہاتھ میں دینا اور کہہ دینا کہ تمہاری سالی نے دیا ہے۔یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ کیونکہ اماں جان یہی خیال کرتیں کہ پان میں کچھ مذاق ہوگا۔ جو نئی بات نہ تھی۔
جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو شاہدہ نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش شروع کی۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اس کا اترنا آسان کام نہیں ہے، تیل اور صابن کی مالش کی گئی مگر بےکار۔ جب ہر طرح کوشش کر لی تو شاہدہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ انگلی سوج گئی ہے اور یہ خدا ہی ہے جو اتارے۔ غرض گھنٹوں اس میں کوشش اور محنت کی گئی۔ بورا سینے کا بڑا سوا لایا گیا۔ چھوٹی بڑی قینچیاں آئیں۔ موچنا لایا گیا۔ کاک نکالنے کا پیچ اور مشین کا پیچ کس۔ غرض جو بھی اوزار ممکن تھا لایا گیا اور استعمال کیا گیا مگر سب بےکار۔
رات کو اسی فکر میں مجھ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ تھک کر میں بیٹھ گئی اور رو رو کر شاہدہ سے کہتی تھی کہ خدا کے لیے کوئی صورت نکال۔ رات کو گرم پانی میں انگلی ڈبوئی گئی اور طرح طرح سے ڈورے ڈال کو کھینچی گئی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رہ رہ کر میں پریشان ہوتی تھی اور شاہدہ جب کوشش کر کے تھک جاتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ خدا کے واسطے مجھے اس انگوٹھی کی مصیبت سے نکال۔
آخر تو عشق بازی کرنے گئی ہی کیوں تھی؟ شاہدہ نے خود تنگ ہو کر مجھ سے پوچھا۔
خدا کی مار پڑے تمہاری عشق بازی پر۔ میں تو اس مصیبت میں گرفتار ہوں اور تمہیں یہ مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں نے منہ بنا کر کہا۔
یہ عشق بازی نہیں تو اور کیا ہے؟ گئیں وہاں اور شوق سے پاؤڈر اور مسی لگاتے لگاتے میاں کے چونچلے میں آکر انگوٹھی پہن لی۔ شاہدہ نے کہا، اب عشق بازی کے مزے بھی چکھو۔ مزے مزے کی باتیں تو کرنے گئیں اور اب۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے کہا، خدا کے لیے ذرا آہستہ بولو۔
قینچی سے انگوٹھی کتر دوں؟
نہ بہن کتراؤں گی نہیں۔ نہ معلوم کتنی قیمتی انگوٹھی ہوگی، ایک تو میں شامت کی ماری عطردان توڑ آئی اور اب اسے کاٹ ڈالوں۔
بھلا مجال ہے جو وہ چوں بھی کر جائے۔ ابھی کہلوا دوں، میاں راستہ دیکھو، ہماری چھوکری فاضل نہیں، کہیں اور مانگ کھاؤ۔ یہ کہہ کر شاہدہ نے قینچی لی اور مجھ سے کہا، لاؤ ادھر لاؤ۔
نہیں نہیں میں نے کہا۔ ایسا نہ کرو۔ پھر وہی کوششیں جاری ہو گئیں۔ غرض انگوٹھی نے رات کو سونا حرام کر دیا۔ رات بھی انگلی طرح طرح سے کھینچی گئی، کبھی میں اپنے آپ کو خوب کوستی تھی اور کبھی انگوٹھی کو برا بھلا کہتی تھی اور کبھی گڑگڑاکر دعا مانگتی تھی کہ خدایا میری مشکل آسان کر دے۔ مجبور ہو کر صبح میں نے شاہدہ سے کہا کہاب میری انگلی ویسے بھی درد کے مارے پھٹی جا رہی ہے؛ تو کاٹ دے۔
شاہدہ نے قینچی سے کاٹنے کی کوشش کی۔ امید تھی کہ سونا ہے اور آسانی سے کٹ جائے گا مگر وہ گنی کا سخت سونا تھا اور تھوڑی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ اس کو کاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ طرح طرح کے اوزار استعمال کیے گیے مگر سب بیکار۔ اب تو میں اور بھی گھبرا گئی اور ایسی حواس باختہ ہوئی کہ شاہدہ سے کہنے لگی کہ مجھے زہر مل جائے تو میں کھا کر اپنا قصہ ختم کر دوں۔ اب شاہدہ بھی متفکر تھی، اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر مجھ سے نرمی سے کہا، کہ اب صرف ایک ترکیب ہے۔
وہ کیا؟
وہ یہ ہے۔ شاہدہ نے مسکرا کر کہا، وہ یہ کہ تم اوپر جاؤ اور اپنے چہیتے سے نکلواؤ، ورنہ شام تک پکڑی جاؤ گی۔ اور ناک چوٹی کٹےگی۔
میں تو کبھی نہ جاؤں گی۔ میں نے کہا۔
یہ باتیں اور وہ بھی ہم سے! شاہدہ نے کہا۔ ذرا دل سے تو پوچھ میں نے واقعہ کہا کہ خدا کی قسم میں کسی طرح بھی جانا پسند نہیں کرتی۔ میں اس وقت بدبخت انگوٹھی کی بدلے جان سے بیزار ہو رہی ہوں۔
شاہدہ بولی، مذاق نہیں کرتی۔ خواہ پسند کرو یا نہ کرو، جانا ضرور پڑےگا۔ کیونکہ گھر کے کسی اوزار سے بھی ناممکن ہے کہ میں یا تم اسے اتار یا کاٹ سکیں۔
میں چپ بیٹھی رہی اور سوچتی رہی۔ شاہدہ نے آہستہ آہستہ سب اونچ نیچ بتائی کہ کوئی نقصان نہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس قدر شرمیلے اور باحیا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کوئی چارہ ہی نہ تھا اور مجبوراً میں راضی ہو گئی۔
(۶)
جب سناٹا ہو گیا تو اوپر پہنچی اور شاہدہ بھی ساتھ تھی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر میرا قدم نہ اٹھتا تھا۔ شاہدہ نے مجھے ہٹا کر جھانک کر دیکھا۔ کواڑ کی آواز سن کو بیرسٹر صاحب نکل آئے، کیونکہ وہ شاید منتظر ہی تھے۔ وہ سیدھے غسل خانہ میں بند ہونے چلے۔ وہ جیسے ہی دروازے کے سامنے آئے، اس شریر شاہدہ کی بچی نے مجھے ایک دم سے آگے کرکے دروازہ تیزی سے کھول کر اندر کو زور سے دھکیل دیا ۔وہ اتنے قریب تھے کہ میں سیدھے ان سے لڑ گئی۔ وہ اس نا معقولیت کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ ارے ؟ کہہ کر انہوں نے مجھے ہاتھوں سے روکا۔ وہ خود بے طرح گھبرا گیے۔ میری حالت پر انہوں نے رحم کھا کر منہ موڑ لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ میرا کیا حال ہوا۔ دروازہ شاہدہ نے بند کر لیا تھا۔ میں سیدھی کمرے میں گھس گئی اور چادر میں اچھی طرح اپنے کو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔
بیرسٹر صاحب آئے تو سب سے پہلے انہوں نے سلام کر کے زبردستی اندر گھسنے کی دھمکی دے کر جواب لیا اور پھر مزاج پوچھا۔ اس کے جواب میں میں نے ہاتھ دروازہ سے باہر کر دیا۔
یہ کیا حالت ہے؟ بیرسٹر صاحب نے انگلی کو دیکھ کر کہا۔
معلوم ہوتا ہے کہ انگلی اور انگوٹھی دونوں پر آپ نے عمل جراحی کیا ہے۔
میں کچھ نہ بولی اور انہوں نے انگلی کو چاروں طرف سے اچھی طرح دیکھا اور پھر پوچھا۔
براہ مہربانی پہلے یہ بتا دیجئے کہ یہ کون شریر ہیں جنہوں نے آپ کو میرے اوپر دھکیل دیا۔ آپ کے لگی تو نہیں؟
میں نے صرف ایک لفظ کہا، شاہدہ۔
آپ کی کوئی ہم جولی معلوم ہوتی ہیں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا، ماشاءاللہ ہیں بڑی سیدھی۔ میں دل میں شاہدہ کی شرارت پر ہنسنے لگی کہ دیکھو اس کمبخت نے کیسی شرارت کی۔
میں صابون لاتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ صابون لینے گیے۔ مجھ سے کہا بھی نہ گیا کہ صابون کی مالش ہو چکی ہے۔ بیرسٹر صاحب نے صابون سے خوب مالش کی اور پھر طرح طرح سے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی گئی مگر سب بے سود ثابت ہوئی۔ جب ہر طرح طرح وہ کوشش کر چکے تو تھک کر انہوں نے کہا۔ یہ انگوٹھی آپ پہنے رہیے۔ میری قسمت اچھی ہے۔ ورنہ ہزار روپیہ خرچ کرتا جب بھی اس ناپ کی انگوٹھی مجھے نہ ملتی۔ میں گھبرا گئی اور مجھے شرم آئی۔ بجائے منہ سے بولنے کے میں نے ہاتھ کو جھٹکا کہ گویا اتار دیجیئے۔
اب نہیں اتر سکتی۔ انہوں نے ن
- मिर्ज़ा-अज़ीम-बेग़-चुग़ताई
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اس جنگ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ غالباً آٹھ نو برس پہلے کی بات ہے۔ جب زندگی میں ہنگامے بڑے سلیقے سے آتے تھے ؛ آج کی کل طرح نہیں۔ بے ہنگم طریقے پر پے در پے حادثے برپا ہورہے ہیں، کسی ٹھوس وجہ کے بغیر۔
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘
ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔
’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
- सआदत-हसन-मंटो
’’ابے او رام لال، ٹھہر تو سہی۔ ہم بھی آ رہے ہیں۔‘‘
دو آدمی ہاتھوں میں ڈنڈے لیے نشہ میں چور جھومتے آ رہے تھے، رام لال جو آگے آگے چل رہا تھا، ڈنڈا سنبھالتا ہوا ان کی طرف مڑا، جواب مستی سے گلے لگ رہے تھے۔ ہوا بند تھی اور گرمی سے دم گھٹا جاتا تھا۔ وہ سب تاڑی خانہ سے لوٹ رہے تھے۔
’’ابے سمجھتا کیا ہے۔ ایسا ڈنڈا رسید کروں گا کہ سر پھٹ جائے۔‘‘
’’اوہو! ٹھہر تو۔ بدل پیترا۔ بچ۔۔۔‘‘
اندھیرے میں مجھے ان کی صورتیں تو نہ دکھائی دیں لیکن ہڈی پر لکڑی کے بجنے کی آواز آئی۔ ان کی آوازیں بلند ہوئیں اور پھر دھیمی ہوگئیں۔ سڑک کے دونوں طرف مرد اور عورتیں چارپائیوں پر پڑے سو رہے تھے۔ میری نگاہ ٹانگوں، چھاتیوں اور سوئے ہوئے چہروں پر پڑی۔ قسمت کے قیدی مرد اور عورتیں ساتھ سوتے، سڑک پر ہی بچے پیدا ہوتے اور انسان مر جاتے تھے۔
میں نکڑ پر مڑا۔ سامنے میرا عالی شان مکان سیاہ درختوں کی آڑ میں خاموش کھڑا تھا۔ اس کے اند رمیں بموں اور گولہ باری سے محفوظ زندگی بسر کرتا ہوں۔ قریب ہی سڑک کے موڑ پر پلاؤ نام کا شراب خانہ ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو میں اس کے اندر اپنی کوفت شراب سے دور کرنے چلا جاتا ہوں۔ چوڑی سیاہ سڑک آئینہ کی طرح چمکتی ہے اور پانی میں دوکانوں اور مکانوں کے عکس اس کی سطح پر کھڑکیوں اور دیواروں کا گمان پیدا کر دیتے ہیں۔ جب میں رات اسٹیشن سے واپس آتا ہوں تو نکڑ والی دوکان ایک جہاز کی طرح سڑک کے پانی پر چلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور اس کی نوک میرے خیالات کے چپوؤں سے ہلتی ہے۔ سردی سے میں اپنے ہاتھ گرم کوٹ کی جیب میں گھسا لیتا ہوں اور شانے سکیڑے کانپتا ہوا پٹری پر تیز تیز چلنے لگتا ہوں۔ بوندیں میری سیاہ ٹوپی پر زور زور سے گرتی ہیں اور ہلکی ہلکی پھوار میری عینک پر پڑنے لگتی ہے۔ اندھی نگری کے سبب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کار میرے جہاز کو کاٹتی ہوئی گزر جاتی ہے اور اس کی مدھم روشنیوں کے عکس سے سڑک جگمگا اٹھتی ہے۔ میں پلاؤ میں داخل ہو جاتا ہوں۔ کمرہ دھوئیں اور پسینہ اور شراب کی بو سے بھرا ہوا ہے۔ عینک پر بھاپ جم جانے کی وجہ سے ہر چیز دھندلی نظر آنے لگی۔ میں عینک کو صاف کرنے کے لیے اتار لیتا ہوں۔
سامنے اَینی ایک لمبی میز کے پیچھے کھڑی لکڑی کے پیپوں میں سے مشین سے کھینچ کھینچ کر شراب کے گلاس پینے والوں کی طرف بڑھا رہی ہے۔ اس کے جسم پر سوائے ہڈیوں کے اب کچھ باقی نہیں۔ اس کے سر پہ سفید بال ہیں لیکن کمر ابھی تک ایک سروکی طرح سیدھی ہے۔ اس کی آنکھوں سے روشناسی کے طور اور اس کے ہونٹوں سے خیرمقدم کا تبسم ٹپک رہا ہے۔ لیکن دس بجتے ہی وہ چلانا شروع کرےگی، ’’ختم کرو بھائی، ختم کرو۔ یہ آخری دور ہے۔ چلو ختم کرو۔‘‘
مگر ہنسی اور مذاق اور شور اسی طرح قایم رہےگا۔ وہ اسی طرح کل سے شراب کھینچتی رہےگی اور اس کی آواز میرے کانوں میں رات کو خوابوں میں گونجےگی، ’’ختم کرو، ختم کرو، یہ آخری دور ہے۔‘‘ مجھے تیری آواز سے سخت نفرت ہے، اینی۔ کیا تو ذرا بھی اپنا لہجہ نہیں بدل سکتی؟ تیری آواز تو اپنے تیسرے شوہر کی قبر میں بھی اس کا دل ہلا دیتی ہوگی۔ کیا تجھے یاد ہے وہ اپنا شوہر جو شراب کی مستی میں راہئی ملک بقا ہوا؟ اگر تو اپنے ٹوٹے ہوئے ہارمونیم کی آواز میں اس پر نہ چلاتی تو شاید وہ آج تک زندہ ہوتا۔ لیکن تو تو مردوں پر حکومت کرنے کو پیدا ہوئی تھی، شیروں کو سدھانے کے لیے۔
’’کیسا برا موسم ہے۔‘‘ نینیٹ نے میز کے پیچھے والے دروازہ سے نکل کر کہا اور ایک شوخی بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل گئی۔ میں بولا، ’’توبہ۔ توبہ۔‘‘یہ عورت ایک دیونی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا قد لمبا ہے اور بدن پر سیاہ کپڑے ہیں، چھاتی پر ایک سرخ گلاب چمک رہا ہے اور کانوں میں جھوٹے بندے۔
’’اچھے تو ہو؟‘‘اس نے محبت بھرے لہجہ میں میرے کان کے قریب آکر کہا، ’’ہاں۔ تم سناؤ۔‘‘
’’تمہاری دعا ہے۔ لیکن یہ تو کہو آج یہاں کیسے بیٹھے ہو؟ تم تو ہمیشہ اپنے مخصوص کونے ہی میں بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
میں نے مڑکر آتش دان کی طرف دیکھا۔ وہاں ہڈسن بیٹھا ہوا تھا۔ ہڈسن پیشہ کا درزی ہے، جسم کا توندل اور سرکا تامڑا۔ وہ ایک اور محلہ میں رہتا ہے لیکن اس کا معمول ہے کہ ہر رات کو دو گلاس کڑوی کے پینے پلاؤ میں ضرور آتا ہے۔ آندھی جائے، مینہ جائے لیکن اس کا یہاں آنا نہیں جاتا۔ ایک زمانہ میں اس کو اینی سے محبت تھی اور اس کے تینوں شوہر یکے بعد دیگرے میدان عشق میں ہڈسن کو پیچھے چھوڑتے چلے گیے۔ لیکن اس کی وضع داری دیکھیے کہ ابھی تک پرانی روش کے مطابق اسی پابندی سے یہاں آتا ہے، مگر اینی اس کی طرف نگاہ اٹھاکے بھی نہیں دیکھتی۔
ہڈسن بڑے کڑوے مزاج کا آدمی ہے۔ نہ جانے کیوں اس کو مجھ سے اس بات پر چڑھ ہو گئی ہے کہ میں ہمیشہ اسی کونہ میں بیٹھتا ہوں۔ ایک رات وہ بولا، ’’کیوں جی، تم ہمیشہ یہیں بیٹھتے ہو۔‘‘
’’تو کیا تمہارا دینا آتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’اگر تمہارا جی چاہے تو تم بیٹھ جایا کرو۔‘‘
’’اور تم اپنی کرسی عورتوں کو بھی نہیں دیتے۔‘‘
’’دیکھو میاں!‘‘میں نے کہا، ’’اس صدی کے تیس سال بیت گیے چالیسواں لگا ہے۔ اب رقت آموز نسوانیت کے دن گئے۔‘‘
’’تاہم تمہیں یہاں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘
’’اگر تمہیں یہ کونا اتنا ہی پسند ہے تو شوق سے بیٹھا کرو۔ لیکن تم تو اینی ہی کے قریب بیٹھنا چاہتے ہو۔‘‘
’’یہی بات ہے تو دیکھا جائےگا۔‘‘اس نے دانت پیس کر کہا اور مجھے غضب سے دیکھا۔۔۔ اور میں نے ہڈسن کی طرف اشارہ کیا۔
’’تم نے اس کی بھی بھلی فکر کی۔‘‘ نینیٹ نے کہا، ’’وہ تو پاگل ہے۔ اس نے تمہیں اپنی تصویریں بھی ضرور دکھائی ہوں گی؟‘‘
’’اس سے کہیں ایسی بھی غلطی ہو سکتی تھی؟‘‘
اور ہم دونوں مل کر ہنسنے لگے۔
اسی روز کا واقعہ ہے۔ میں کھڑا کبھڑے سے باتیں کر رہا تھا کہ ہڈسن نے میرے کوہنی ماری۔ جب میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی تو اس نے مجھے دوبارہ ٹہوکا۔ میں اس کی طرف مڑا،
’’ہلو۔‘‘
’’گڈ ایوننگ‘‘ وہ مسکراکے بولا، ’’کیسا مزاج ہے؟‘‘
’’آپ کی نوازش ہے۔‘‘اور یہ کہہ کے میں پھر کبھڑے کی طرف مخاطب ہو گیا۔ ہڈسن نے پھر کوہنی ماری۔ میں غصہ سے اس کی طرف مڑا۔ وہ اپنی جیب میں کچھ ٹٹول رہا تھا۔
’’تم نے یہ بھی دیکھی ہے؟‘‘ اور اس نے میری طرف ایک سڑی سی تصویر بڑھا دی۔ تین مٹے مٹے آدمی کرسیوں پر بیٹھے تھے اور ان میں سے ایک ہڈسن تھا۔
’’یہ جنگ عظیم میں کھینچی تھی، سمجھے، جب میں سارجنٹ تھا۔‘‘یہ کہہ کر وہ ہنسا اور خوشی سے اس کی بانچھیں کھل گئیں۔ میں نے کہا، ’’تو اب کیوں نہیں بھرتی ہو جاتے؟‘‘
’’اب تو میری عمر اسی سال کی ہے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ایک آہ بھری۔
’’تمہاری عمر تو بہت کم معلوم ہوتی ہے۔ تم بڑی آسانی سے بھرتی ہو جاؤگے۔ آج کل سپاہیوں کی بہت کمی ہے۔‘‘اس کے بعد میں نے منھ موڑ لیا۔ ہڈسن نے برا سامنہ بنایا اور اپنے برابر والے کو جنگ عظیم میں اپنی بہادری کے قصہ سنانے لگا۔ لوگوں کو چیرتا پھاڑتا میں اپنے کونہ کی طرف گیا اور کارنس پر گلاس رکھ کے ایک پاؤں دیوار سے لگا اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ کوئی کرسی خالی کرے تو بیٹھوں۔
’’تو تم میرے کونے میں آہی گئے؟‘‘ میں نے ہڈسن سے کہا۔ اس نے بتیسی دکھائی اور ایک قہقہہ لگایا۔ آج وہ ذرا خوش خوش معلوم ہوتا تھا۔ وہ اسرار کرنے لگا کہ بنچ پر بیٹھ جاؤ۔ مجھے بنچ پر بیٹھنے سے سخت نفرت تھی، لیکن جب وہ نہ مانا تو میں بیٹھ ہی گیا۔ وہ بھی کرسی چھوڑکر میرے پاس آن بیٹھا۔
’’آج اتفاق سے میری ایک دوست سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔‘‘ہڈسن لگا کہنے، ’’وہ بڑا فلسفی ہے، سمجھے، تو میں نے کہا کہ بھئی تم بڑے فلسفر بنتے ہو، ہمیں بھی ایک بات بتاؤ۔ اس نے کہا اچھا۔ میں نے پوچھا کہ دنیا کیسے اپنی جگہ قائم ہے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا مطلب؟ جو کچھ میں نے کہا۔ یعنی چاند، تارے، سورج اور زمین سب اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ آخر وہ کیا طاقت ہے جو ان کو اپنا فرض پورا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔۔۔ وہ تو کوئی معقول جواب دے نہ سکا۔ تم بتاؤ کہ کون سی چیز ان سب ستاروں کو اپنی جگہ قایم رکھتی ہے۔‘‘
بحث کرنے کو میرا جی نہ چاہتا تھا اس لیے میں نے جواب دیا، ’’خدا۔‘‘
’’نہیں، غلط۔‘‘
’’تو پھر کیا چیز ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’میں تو خود تم سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’تو پھر یگانگت سب تاروں اور سارے عالم کو اپنی جگہ قائم رکھتی ہے۔‘‘
’’غلط‘‘ اس نے جماکر کہا، ’’معلوم ہوتا ہے تم نے بس گھاس ہی کھودی ہے۔‘‘
’’تو پھر تم ہی بتاؤ نا؟‘‘
’’اچھا لو میں بتائے دیتا ہوں۔ یہ سب تارے جو آسمان میں جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں، یہ چاند جس کی رقصاں کرنیں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں، وہ سورج جو اپنی روشنی سے دنیا کو گرمی اور اجالا بخشا ہے، یہ خوبصورت زمین جس پر ہم سب بستے ہیں، ان سب کو ایک عجیب و غریب اور لاجواب طاقت اپنی اپنی جگہ قایم رکھتی ہے اور یہ طاقت بجلی ہے۔‘‘
میں بےساختہ ہنس پڑا۔ ہڈسن غصہ سے چلانے لگا، ’’تو تمہیں یقین نہیں آیا؟ تم اس بات کو نہیں مانتے کہ بجلی وہ طاقت ہے جو ان سب ستاروں کو یکجا رکھتی ہے؟ کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تم کیسے پیدا ہوئے؟‘‘
بہت محظوظ ہو کر میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘
’’اچھا تو میں بتائے دیتا ہوں۔ تمہارے باپ نے تمہاری ماں کے پیٹ میں بجلی ڈالی، سمجھے اور پھر تم پیدا ہوئے۔۔۔‘‘
میں زور زور سے ہنسنے لگا اور خیال کیا کہ شاید ہڈسن نے آج معمول سے زیادہ پی لی ہے۔ وہ اپنی بجلی کے راگ الاپتا رہا یہاں تک کہ میں عاجز آ گیا اور ایک دم سے کھڑا ہو گھر کی طر ف چل دیا۔ مجھے اس عجیب و غریب نظریے اور اس کے حامی پر ہنسی آ رہی تھی۔ پھر خیال آیا کہ وہ اپنی اندرونی دنیا کے ہاتھوں قید ہے اور یہ سوچتے سوچتے میں تنہائی اور کوفت کے سمندر میں ڈوب گیا۔
میرے کمرے کتابوں، الماریوں اور کرسیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں اکثر کوفت سے یہاں ٹہلتا ہوں، تنہائی مجھے کھانے لگتی ہے اور میں بیزار ہو جاتا ہوں۔ میرامکان، اس کے بڑے بڑے کمرے اور سلاخوں دار کھڑکیاں ایک قیدخانہ معلوم ہوتی ہیں۔ میں کھڑکیوں سے جھانکتا ہوں۔ میری نگاہ کشادہ میدانوں، مرغ زاروں اور پہاڑوں پر پڑتی ہے۔ رات کو آسمان تاروں سے بھر جاتا ہے اور اس کی دست کی کوئی تھا نہیں ملتی۔ زندگی آسمان کی طرح آزاد ہے۔ لیکن زندگی کی افق سے دور اور دنیائیں ہیں اور ستاروں سے پرے اور بھی جہاں ہیں جو ان ستاروں اور اس دنیا سے کہیں زیادہ خوشنما اور رنگین ہیں۔ میری ہڈیاں اور جسم، میرے خیالات بھی اس قیدخانہ کی سلاخیں ہیں جس کو ہم زندگی کہتے ہیں۔ لیکن میں اپنے جسمانی روپ سے آزاد نہیں ہو سکتا، اسی طرح جیسے میرا جسم اس مکان کے قیدخانہ سے آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنے کمروں کی چہاردیواری میں اپنے تخیل کے اندر میں بھی اسی طرح چکر لگاتا ہوں جیسے چڑیا گھر کے پنجروں میں ریچھ۔
کبھی کبھی میں تنہائی سے پاگل ہو جاتا ہوں اور سلاخوں کو پکڑ کر درد سے چیخنے لگتا ہوں اور میری پھٹی ہوئی آواز میں غلامی اور اس روح کی تکلیفوں کا نغمہ سنائی دیتا ہے جو صدیوں سے آزادی کے لیے جان توڑ کوشش کر رہی ہے۔ جب لوگ میری چیخ سنتے ہیں تو تماشا دیکھنے کو اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی سلاخیں پکڑ لیتے ہیں اور میری نقل کرتے ہیں۔ ان کا منہ چڑانا میرے دل میں ایک تیر کی طرح لگتا ہے اور میرا دماغ انسان کے لیے نفرت سے بھر جاتا ہے۔ اگر میں اپنے پنجرہ سے نکل سکتا تو ان کو ایک ایک کرکے مار ڈالتا اور ان کے کھوکھلے سینوں پر فتح کے جذبہ میں چڑھ بیٹھتا۔ کاش کہ میں صرف ایک ہی دفع انسان کو بتا سکتا کہ وہ ازحد ذلیل ہے اور اس کی روح کمینی اور سڑانڈی۔ پہلے تو وہ آدمی کو ایک پنجرہ میں بند کر دیتا ہے اور پھر اس بزدلانہ حرکت پر خوش ہوتا ہے۔
قفس کے باہر وہ آزاد ہے (نہیں آزاد نہیں بلکہ اپنی ہی بنائی ہوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جیسے سائے جکڑے ہوئے ہوتے ہیں) اور باہر سے ایک بزدل کی طرح مونگ پھلی دکھاتا ہے اور میری تڑپن اور بھوک پہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن اکثر جب وہ مونگ پھلی دکھاتا ہے اور میں اسے لپکنے کو اپنا منہ کھولتا ہوں تو وہ صرف ایک کنکری پھینک دیتا ہے۔ میں غصہ سے چیخ اٹھتا ہوں لیکن میری کوئی بھی نہیں سنتا۔ مگر وہ جو میری روح کو ایذا پہنچاتے ہیں، میرے درد پر خوشی سے تالیاں بجاتے اور میرے زخموں پر نمک چھڑک کے خوش ہوتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ مجھ پہ کیا گذرتی ہے، وہ کیا جانیں کہ روح کسے کہتے ہیں، وہ شاید اپنی سفید چمڑی پر غرور کرتا ہے اور مجھے اس لیے ایذا پہنچاتا ہے کہ میں کالا ہوں اور میرے جسم پر لمبے لمبے بال ہیں۔ لیکن میرا ہی جی جانتا ہے کہ مجھے اس سے کتنی نفرت ہے۔
ہر روز ایک شخص دور سے میرے پنجرہ میں غذا رکھ دیتا ہے۔ وہ نزدیک آنے سے شاید اس لیے ڈرتا ہے کہ میں کہیں اس کا گلا نہ گھونٹ دوں۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے باتیں بھی کر لیتا ہے، لیکن سلاخوں کے باہر سے۔ اکثر وہ اچھی طرح پیش آتا ہے اور میری آزادی اور رہائی کا تذکرہ کرتا ہے۔ ایسے موقعوں پر وہ اچھا معلوم ہوتا ہے اور میں ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں، چیڑ کے جنگلوں اور شہد کے چھتوں کے خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ اس نے جب پہلی بار مجھ سے شفقت سے باتیں کیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
’’کیسا ہے تو، ابے کالے غلام، رات کو خوب سویا؟ ہاں؟ شاباش۔‘‘
میں نے عجز و محبت سے اس کی طرف دیکھا اور خوشی کے مارے اپنا منھ کھول دیا۔
’’اچھا اگر میں تجھ کو آزاد کر دوں تو کیسا ہو؟‘‘
میں خوشی کے مارے پھولانہ سماتا تھا اور وجد سے چھاتی پیٹنے لگا۔
’’لیکن تو آزادی لے کر کرےگا کیا؟ میں تجھ کو کھانا دیتا ہوں، تیرا گھر صاف رکھتا ہوں۔ ذرا ان بندروں کو تو دیکھ۔ تونے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ وہ سردی میں سکڑتے اور بارش میں بھیگتے ہیں؟ دن کو غذا کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ رات کو جہاں کہیں جگہ مل گئی بسیرا لے لیا۔ ان کی زندگی وبال ہے۔ اگر تو بھی آزاد ہوتا تو ان کی طرح مارا مارا پھرتا۔ کیوں بےغلام، یہی بات ہے نا؟‘‘
میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے ایک آہ بھری۔
’’ارے جا بھی، میں تو مذاق کر رہا تھا، تو برا مان گیا۔ میں سچ مچ تجھے رہا کر دوں گا۔‘‘
خوشی کی کیفیت پھر لوٹ آئی اور میں اس کے لیے جان تک قربان کرنے کو تیار تھا۔ مگر ایسے وعدے تو اس نے بارہا کیے ہیں اور اب تو اس کا اعتبار تک اٹھ گیا ہے۔ وہ تو کہہ کے بھول جاتا ہے، لیکن میں اپنے قفس میں نہیں بھولتا اور خوشی اور آزادی کے خواب دیکھنے لگتا ہوں، اس وقت کے جب کہ میں اپنی زندگی کا خود مالک ہوں گا۔ اب تو وہ جب کبھی مجھ سے باتیں کرتا ہے تو میرے دل میں نفرت بھر آتی ہے اور کوئی بھی اس کی آگ کو نہیں بجھا سکتا لیکن میں اس کے ہاتھوں قید ہوں اور صبر و مجبوری کے علاوہ کچھ اور چارہ نہیں۔
اس ظلم اور تشدد سے میں اس قدر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اپنے مکان کی کھڑکیوں کی سلاخوں کو پکڑ کر کراہنے لگتا ہوں۔ صرف اسی طرح دنیا کے منہ چڑانے اور جگ ہنسائی سے نجات مل سکتی ہے اور میرے دل کو قدرے سکون ہوتا ہے۔ مگر جب میرا غصہ کم ہو جاتا ہے تو کوفت اپنے پنجوں میں جکڑ لیتی ہے اور میں اپنے کمروں اور مکان کی کال کوٹھری میں ٹہلنے لگتا ہوں اور جب اس سے بھی عاجز آ جاتا ہوں تو کرسیوں پر بیٹھ کے گھنٹوں ٹوٹے ہوئے فرش یا دیواروں کو گھورا کرتا ہوں۔ کوفت سے عاجز آکر ایک رات میں باہر آیا۔ جاڑوں کا موسم تھا اور سڑکوں پر برف پڑی ہوئی تھی۔ یکایک مجھے کلیرا کا خیال آ گیا اور اس سے ملنے کی نیت سے اسٹیشن کی طرف چل دیا۔
جب میں نے گھنٹی بجائی تو نوکرانی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر اس طرح مسکرائی جیسے اس کو علم تھا کہ میں کس لیے آتا ہوں۔ اس کی ہنسی میں ایک مرجھائی ہوئی بڑھیا کی وہ خوشی تھی جو ایک نوجوان مرد اور عورت کے یکجا ہونے کے خیال سے پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے چہرہ پر ایک اور ہی کیفیت نمایاں ہوئی اور اس نے مجھے شکایت کی نظر سے اس طرح دیکھا جیسے اس کی نیلگوں آنکھیں کہہ رہی ہوں، ’’تم کتنے خراب انسان ہو۔ ایک لڑکی کو اتنی دیر تک انتظار کروا دیا۔‘‘ اس کے جذبہ نسوانیت کوٹھیس پہنچی تھی، اس جذبہ کو جس کے سبب جنس ایک لاجواب اور رومانی شے معلوم ہونے لگتی ہے اور اس نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا،
’’تم نے بڑی دیر لگا دی۔‘‘
’’ہاں، ذرا دیر ہو گئی۔ ویسے تو خیریت ہے؟‘‘
وہ پھر ہنسنے لگی اور سیڑھیوں پر چڑھتے وقت میری کمر پر ایک معنی خیز طریقہ سے دھپ رسید کیا۔
میں نے کلیرا کے کمرہ کا دروازہ کھولا۔ ریڈیو پر کوئی چیخ چیخ کر ہذیانی لہجہ میں تقریر کر رہا تھا۔ آتش دان میں گیس کی آگ جل رہی تھی اور ایک کرسی پہ سیاہ ٹوپی رکھی تھی جس پر سنہری پھول ٹنکا ہوا تھا۔ نیلے رنگ کی کرسیاں اور تکیے اور سرخ قالین بجلی کی روشنی میں اداس اداس معلوم ہو رہے تھے اور کلیرا کا کہیں پتہ نہ تھا۔ مجھے ایک کونے سے سسکیوں کی آواز آئی۔ جھانک کے جو دیکھا تو کلیرا پلنگ پر اوندھی پڑی رو رہی تھی۔ یہ بات مجھے سخت ناگوار ہوئی۔ ماناکہ مجھے دیر ہو گئی لیکن اس رونے کے کیا معنی تھے؟ مجھے اس سے عشق تو تھا نہیں۔
’’کیا بات ہوئی؟‘‘میں نے پوچھا، ’’روتی کیوں ہو؟‘‘
تھوڑی دیر تک تو وہ سبکیاں لیتی رہی پھر ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے شکایت کرنے لگی۔
’’تم کبھی وقت پر نہیں آتے۔ روز روز دیر کرتے ہو۔ تمہیں میری ذرا بھی چاہ نہیں۔‘‘
میں بولا، ’’دیر ضرور ہو گئی، اس کی معافی چاہتا ہوں۔ لیکن آخر اس طرح کیوں پڑی ہو؟‘‘
’’طبیعت خراب ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ بیٹھی اور اپنا حال بیان کرنے لگی۔
وہ باتیں کر رہی تھی لیکن میرے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔ میری کوفت کم نہ ہوئی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اول تو وہ حوا کی اولاد تھی اور پھر عورت، لیکن وہ مجھ سے کیا چاہتی تھی؟ اس کا خیال تھا کہ مجھ کو اپنے قبضے میں کر لےگی لیکن اس کو یہ نہ معلوم تھا کہ مجھ پر کسی کا بھی جادو نہیں چل سکتا۔ وہ اپنی ہی جگہ پر رہ جائےگی اور میں دوسری عورتوں کی طرف دوسری دنیاؤں میں بڑھ جاؤں گا۔ میرے لیے عورت محض ایک کھلونا ہے، ایسا ہی بہلاوا جیسے بازیگر کا تماشا۔ جس طرح بچہ کا دل ایک کھلونے سے بھر کر دوسرے کھیلوں میں لگ جاتا ہے اسی طرح میں بھی ایک ہی بلامیں گرفتار ہونا نہیں چاہتا۔ عورت ایک صیاد ہے اور مرد کی روح اور جسم دونوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ میں اپنے خیال میں کھویا ہوا تھا۔ اس بات سے اس کے جذبہ خود نمائی کو اس لیے ٹھیس لگی کہ میں اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔
’’چھت مجھ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔‘‘ وہ جل کے بولی۔
’’تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو۔ میں تمہاری باتیں غور سے سن رہا ہوں۔‘‘
’’تم ہمیشہ یہی کرتے ہو۔‘‘اس کے ان الفاظ میں جلن کا احساس تھا۔
’’میں کتنی ہی کوشش کیوں نہ کروں تم کو جان نہ پاؤں گی۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں اپنے آپ کو ایک معمہ معلوم ہوتا ہوں۔ میں بڑا خوددار ہوں۔‘‘
’’ہاں تم مغرور ہو۔ عورتوں نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے۔ مگرتم اتنے برے تو نہیں ہو۔ تم اپنے آپ میں چھپے رہتے ہو، میں نکالنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
وہ اپنے کو محض دھوکا دے رہی تھی۔ وہ تو کیا مجھے نجات دلاتی میں خود اپنے سے ہار مان چکا ہوں۔ ایک عورت نے مجھے اپنے اندر پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا اور اب مجھے کوئی نہیں نکال سکتا۔
’’اب تو یہ ممکن نہیں،‘‘میں نے کہا، ’’اپنے تحفظ کے لیے قلعہ بنایا تھا، خود ہی میں نے اس قیدخانہ کی دیواریں کھڑی کی تھیں۔ اب میں نہ تو ان کو ڈھاہی سکتا ہوں اور نہ آزادی حاصل کر سکتا ہوں۔‘‘
مجھے اس کی آنکھوں میں ایک لمحہ کے لیے پریشانی کی جھلک دکھائی دی۔ پھر اس نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ اس نے منہ سے ایک لفظ نکالا نہ میں نے کچھ کہا۔ وہ مجھے تسکین دینا چاہتی تھی، اس بات کا احساس پیدا کرا رہی تھی اور مجھے اپنی حفاظت میں رکھنا چاہتی تھی۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا اور اپنی حالت پر بھی افسوس ہوا۔
’’مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ تمہاری ملاقات غلط آدمی سے ہوئی۔‘‘
’’نہیں۔ ٹھیک آدمی سے۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مجھے زور سے بھینچ لیا۔ میں اس کی پیٹھ کو تھپکنے لگا، اس نے اپنی بانہیں ڈھیلی کر دیں۔ لیکن پھر اس نے مجھے سینہ سے چمٹا لیا اور محبت سے کہا، ’’میری جان!‘‘ اور بڑی نرمی اور شفقت سے مجھے اس طرح جھلانے لگی جیسے میں ایک ننھا بچہ تھا، وہ مامتا بھری ماں اور اس کی آغوش ایک جھولا جس میں آرام کی نیند سوسکتا تھا اور دنیا کو بھلاکر سب خوف و خطر سے نجات پا لیتا۔
بڑی دیر کے بعد اس نے مجھ کو جانے دیا۔ جب میں اسٹیشن پہنچا تو بارہ بج چکے تھے اور آخری ریل چھوٹ رہی تھی۔ میں جب ریل سے اتر کے باہر آیا تو چودھویں رات کا چاند ڈھلے ہوئے آسمان پر چمک رہا تھا اور اس کی روشنی میں سڑکیں سفید براق برف کی رضائی اوڑھے پڑی تھیں۔ درختوں کے سائے ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہے تھے اور چاندنی میں برف ایک خواب کی طرح غیرحقیقی اور تعجب خیز معلوم ہوتی تھی۔ داستانہ اتارکر میں نے یہ دیکھنے کو برف ہاتھ میں اٹھائی کہ کہیں روئی کے گالے تو زمین پر اس لیے نہیں بچھا دیے گیے ہیں کہ اس کو گرم رکھیں۔ لیکن وہ میرے ہاتھ کی گرمی سے پگھل گئی۔ میں اور اٹھانے کو جھکا۔ میرے پیروں تلے وہ چرمرکر کے ٹوٹی۔ میں نے جوتے کی نوک سے ٹھوکر ماری۔ کیا وہ سخت تھی یا نرم؟ ایک شخص جو پاس سے گزر رہا تھا، مڑ کے دیکھنے لگا کہ میں کہیں پاگل تو نہیں ہوں۔ پھر یہ سوچتا ہوا کہ شاید کوئی خبطی ہے چلا گیا۔ میں بھی تازی ہوا کے گھونٹ لیتا ہوا آگے بڑھا۔ دور دور جس طرف بھی نگاہ اٹھتی تھی، ہرچیز ایک خواب کی طرح انوکھی اور خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔
مکان کے دائیں طرف قبرستان ہے۔ اس کے اندر قبریں ہیں، لیکن قیدیوں کا اب نام و نشان بھی باقی نہیں۔ صرف پتھر اور تاریک کوٹھریاں زندگی کی ناپائیداری اور دنیا کی بے ثباتی کی یاد دلانے کو ابھی تک موجود ہیں۔
پشت پر ڈراؤنا اور بھیانک جنگل ہے۔ اس میں عجیب عجیب آوازیں اور خواب چھپے ہوئے ہیں۔ اکثر شیروں کے دہاڑنے کی آواز آتی ہے اور شام کو لکھو کھا کوے کائیں کائیں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ مگر اس کے اندر آزادی اور اس لامتناہی قید خانہ سے رہائی کی امید بھی جھلکتی ہے۔ ایک دن میں بھی اس میں قدم رکھوں گا۔ لیکن اگر یہ بھی قید خانہ ثابت ہوا تو پھر میں کدھر جاؤں گا؟ یہاں کم از کم آزادی کی امید تو ہے۔ جنگل میں شاید یہ بھی نہ ہو۔ یہ خیالات مجھے اکثر پریشان کیا کرتے ہیں۔
ایک رات میں اس برآمدہ میں سورہا تھا جو جنگل سے ملحق ہے۔ کوئی آدھی رات گیے اوپر کی منزل پر کواڑوں کے دھڑدھڑانے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے سوچا شاید نوکر کواڑ بند کرنے بھول گیے اور آندھی چل رہی ہے۔ میں لیٹ گیا، لیکن دھڑ دھڑ کم نہ ہوئی۔ میں پھر اٹھ بیٹھا۔ اسی وقت اوپر کسی کے چلنے کی آواز آئی۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ جون ہوگا۔ وہ اکثر ملنے آ جاتا ہے۔
جون ایسٹ انڈیا کمپنی کا سپاہی ہے اور ۱۸۵۷ میں مارا گیا۔ میں اس سے پہلی مرتبہ ایک پارٹی میں ملا تھا۔ اس پارٹی میں کچھ لڑکے لڑکیاں، مصنف اور مصور اور چیکوسلوواکیا کے دو ایک گوشے موجود تھے۔ جون خود بہت سادہ لوح، نرم دل اور خاموش طبیعت تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرہ میں رہتاتھا اور مکھن ڈبل روٹی پر گزارہ کرتا تھا۔ کبھی کبھی ہم چینی کھانا کھاتے اور پکیڈیلی میں گھومتے۔ ہم دونوں نے لندن کی گلیوں کی خاک چھانی ہے اور دوکانوں میں کام کرنے والی لڑکیوں اور طوائفوں کے تھکے ہوئے پژمردہ چہروں کا مطالعہ کیا ہے، یا لیسٹر سٹریٹ میں چھوٹے چھوٹے گندے لونڈوں کا۔ وہ آہستہ آہستہ اٹک اٹک کر نرمی سے باتیں کرتا تھا۔ اس کے چہرہ پر بچوں کی سی معصومیت تھی۔ اس کی پرورش دودھ اور شہد پر ہوئی تھی۔
’’جَون، کس بیوقوف نے تم کو اس بات کی صلاح دی کہ فوج میں بھرتی ہوکر اس دردانگیز ملک میں آؤ؟ تمہیں تو چاہیے تھا کہ وہیں رہتے اور دوستوں کو چائے پلایا کرتے۔‘‘
اس کے بعد ہی اسے مقابلہ پر آنا پڑا۔ جیسے ہی وہ ریزیڈینسی کی دیوار پھاند کے میدان میں آیا تو اس کا سامنا ایک ہندوستانی سپاہی سے ہوا۔ وہ نشانہ لینے کو جھکا۔ سپاہی جس کی چڑھی ہوئی ڈاڑھی اور لال لال آنکھیں خوف ناک معلوم ہوتی تھیں، بڑا نرم دل تھا اور اس نے جون پر رحم کھایا۔ جیسے ہی جون نے گھٹنا ٹیک کے شست لی، سپاہی بولا،
’’قبلہ گورے سنبھل کر، کہیں تمہاری گوری گوری ٹانگ میلی نہ ہو جائے۔‘‘اور پھر تاریکی تھی۔ جَون، تمہاری ٹانگ کہیں میلی تو نہیں ہو گئی۔۔۔؟دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لکڑی کی سیڑھیوں پر کھٹ پٹ کرتا ہوا میں اوپر چڑھا۔ بلی کھڑکی میں بیٹھی تھی، آتش دان میں گیس کی آگ جل رہی تھی، لیکن کمرہ میں انسان کا نام نشان ہی نہ تھا۔ گرم کوٹ اتار کے میں اندر داخل ہوا۔ لکڑی کی آرام کرسی پہ میگی بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا، بال سرخ، انگلیاں سگریٹ سے لال اور دل ملائم تھا۔
’’ہلو میگی، تم بھی ہو؟ اور سب کہاں ہیں؟‘‘
’’شراب خانہ گیے ہوئے ہیں۔‘‘اس نے بھاری آواز سے بغیر ہونٹ ہلائے ہوئے کہا۔ اس کے زرد دانت چمک رہے تھے اور اس کی آنکھیں کہیں دور پرے دیکھ رہی تھی۔
میگی خاموش بیٹھی رہی۔ اس کے خیالات افریقہ یا مصر کی سیر کر رہے تھے اور وہاں مردوں کے خواب دیکھ رہی تھی جن کو عاشق بنانے کی تمنا اس کے دل میں تھی مگر پوری نہ ہو سکتی تھی۔ وہ ساکت بیٹھی سگریٹ پیتی رہی۔ میں بھی خیالوں کی دنیا میں کھو گیا۔ میری آنکھیں گوگاں کی تصویر پر پڑیں اور چل کے کارنس پر گھڑی پر ٹھہری اور میگی کے چہرہ پہ آکر رک گئیں۔ اس کے چہرہ پر ہڈیاں ہی ہڈیاں، بال پکے ہوئے بھٹے کی طرح سرخ اور سخت ہیں، ہونٹ الائچی کے پتوں کی طرح باریک اور دانت بڑے بڑے اور زرد ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں ہڈیوں کے ڈھیر کو دیکھ رہا ہوں۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ میگی تو ایک ہوائی حملہ میں کام آ گئی تھی اور میں نے کہا،
’’میگی تم تو ایک ہوائی حملہ میں کام آ گئی تھیں۔‘‘
ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرہ پر دوڑ گئی۔ اس کی آواز کہیں دور سے ایک ڈھول کی طرح آئی، ’’ہاں، میں مر تو گئی تھی۔‘‘
’’ہائے بیچاری میگی۔ کیا زخموں سے بہت تکلیف ہوئی؟‘‘
’’ہاں شروع شروع میں، بس خفیف سی اور پھر تو کچھ معلوم بھی نہیں ہوا۔‘‘
’’اچھا یہ تو بتاؤ تمہیں وہ عاشق بھی ملے یا نہیں؟‘‘
مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھر کھیلنے لگی اور بڑھتے بڑھتے سارے چہرہ پر پھیل گئی۔
’’ہاں سب کے سب مل گئے۔‘‘
’’تو اب تو خوش ہو، میگی؟ وہ اچھے ہیں نا؟‘‘
وہ پھر کہیں دور دیکھنے لگی۔ اس کے چہرہ پر سنجیدگی اور متانت آ گئی۔ میگی سوچ میں پڑ گئی۔
’’جو سچ پوچھو تو مایوس کن نکلے۔ میرے اپنے دماغ، میرے تخیل میں وہ بہت اچھے تھے، لیکن حقیقت میں گوشت اور ہڈیوں کے ڈھنچر نکلے۔‘‘
’’ہاں‘‘میں نے کہا، ’’وہ چیز جو تخیل میں بستی ہے، اس سے بدرجہا خوش نما اور لاجواب ہوتی ہے جس کوانسان چھوسکتاہے اور محسوس کر سکتا ہے، لیکن مجھے یہ سن کر بہت ہی افسوس ہوا کہ تم خوش نہیں ہو۔‘‘
اس کی آنکھوں میں ایسا ترس جھلک اٹھا جو انسان اپنے لیے خود محسوس کرتا ہے۔ وہ آگ کی طرف گھورنے لگی اور مجھ سے اور دنیا سے بہت دور اپنے خیال میں کھو گئی۔ لیکن اب غبارے آسمان پر چڑھ چکے تھے۔ سڑک سنسان تھی اور شہر پر سناٹا چھا چلا تھا۔ ایسٹ اینڈ کے رہنے والے اندھیرے کے سبب گھروں کو چل دیے تھے۔ صرف دو ایک ہی اپنی اپنی معشوقاؤں کی کمروں میں ہاتھ ڈالے کہیں کہیں کونوں میں کھڑے تھے یا بند دوکانوں کے دروازوں میں کھڑے پیار کر رہے تھے۔ شفق آسمان پر پھولی ہوئی تھی۔
’’اچھا میگی، میں اب چل دیا۔ ذراٹہلنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
’’اور میں بھی شراب خانہ میں ان سب کے ساتھ ایک گلاس پیوں گی۔ خدا حافظ۔‘‘
’’خدا حافظ، میگی۔‘‘
مکان کے بائیں طرف ہمالیہ کی برفانی چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ شفق ان کو سرخ، گلابی اور نارنجی رنگوں میں رنگ دیتی ہے۔ ان کے دامن میں دریائے ویاس کا زمردی پانی ایک سریلا نغمہ گاتا، چٹانوں، درخت اور ریت کے چھوٹے چھوٹے خوشنما جزیرے بناتا، پہاڑوں، برف اور میدانوں کی قید سے آزادی حاصل کرنے اور سمندر کی محبت بھری آغوش میں اپنے رنجوں کو بھلانے کی تمنا میں بہتا ہوا چلا جاتا ہے۔
سامنے دیو بن ہے اور اس کے پرے پہاڑ کی چوٹی پر بجلی کے دیوتا پر سال میں ایک دفع بجلی کڑکتی ہے اور بادل گرجتے ہیں۔ مندر میں ایک کے بعد دو سات کمرے ہیں۔ ساتویں کمرہ میں پجاری کا لڑکا آنکھوں پہ پٹی باندھے بیٹھا ایک پتھر کی حفاظت کرتا ہے۔ جب بجلی کڑک کے پتھر پر گرے گی تو اس کے ہزارہا ٹکڑے ہو جائیں گے۔ لیکن پجاری کا لڑکا ان کو سمیٹ کر اکٹھا کرلےگا اور وہ پھر جڑ جائیں گے۔
پہاڑیوں کے اندر ایک درّہ ہے۔ اس کے دونوں طرف ڈھالوں پر چیڑ کے خوشبودار درخت اگے ہوئے ہیں اور ایک راستہ بل کھاتا ہوا خاموش انجان میں کھو جاتا ہے۔ میرے قدم درہ کی طرف اٹھتے ہیں۔ پہاڑیوں کے بیچ سے نکل کر ایک سوکھی ہوئی گم نام ندی وادی میں بہتی ہے۔ ایک پن چکی کے برابر پہاڑ کے دامن میں سات کھیت ہیں۔ دن بھر ان میں مرد اور عورتیں دھان بو رہے تھے۔ سب سے نیچے کے کھیت سے شروع کرکے وہ سب سے اوپر کے کھیت تک پہنچ چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ وہ اب بھی دھان بو رہے ہوں گے لیکن اوپر کا کھیت پانی سے بھرا ہوا ہے اور چھ عورتیں اور ایک مرد گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں کھڑے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ پر آمادہ ہیں۔ یکایک مرد ایک عورت پہ جھپٹا اور اسے کمر پر اٹھاکر پانی میں پھینک دیا۔ عورتیں مل کراس کی طرف بڑھیں لیکن وہ ان سے ایک ایک کرکے مقابلہ کرتا رہا۔ یہ کھیل بڑی دیر تک جاری رہا۔ وہ ان کو معہ کپڑوں کے پانی میں غوطے دیتا اور وہ کچھ نہ بولتیں۔ میں کھڑا ہوا جنس اور بونے کے موسم کی اس رسم کا تماشا دیکھتا رہا۔
جب میں ٹہل کے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان سب نے میلے کپڑے اتار کے سفید کپڑے پہن لیے ہیں۔ پھر وادی موسیقی کی آواز سے گونجنے لگی۔ بہت سے مرد اور عورتیں اس طرح نمودار ہو گیے جیسے کہ سب پہاڑ سے نکل آئے ہوں۔ وہ جلوس بناکر ایک پگڈنڈی سے پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ ڈھول، مجیروں اور بانسریوں کی آواز فضا میں پھیل گئی اور راگ ایک وحشیانہ وجد سے بھر اناچ کا راگ تھا۔ رگوں میں خون اس طرح رکتا اور پھر بہنے لگتا تھا جیسے جوانی میں مجبوبہ کی ایک جھلک دیکھ لینے پر دل کی حرکت۔
جلوس بل کھاتا ہوا ایک جھونپڑی کے سامنے چبوترہ پر رک گیا۔ جب سب بیٹھ گیے تو موسیقی پھر اٹھکھیلیاں کرنے لگی اور ایک مرد ہاتھ پھیلاکے کولہے مٹکا مٹکاکر اس طرح ناچنے لگا جیسے جنگل میں مورجذبہ میں مست۔ پھر اور لوگ بھی ناچ رنگ میں شریک ہو گیے اور گانے بجانے کی آواز پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرانے لگی۔ لیکن اب سائے لمبے ہو چلے اور رات کی آمد ہے اور میں بھی اپنے قید خانہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
راستہ میں لیلا کا مکان پڑا اور میں اس سے ملنے ٹھہر گیا۔ اس کے کمرہ میں ایک خاص نسوانی بورچی ہوئی تھی اور میزوں پر کاغذ اور کتابیں پھیلی تھیں۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ وہ خود دوڑتی ہوئی برآمدہ میں سے نمودار ہوئی۔ وہ ایک سادی سفید رنگ کی ساڑی پہنے ہوئے تھی اور بالوں میں سرخ گلاب لگا رکھے تھے۔ اس کی آواز میں ایک لامتناہی درد تھا اور اس کے لہجہ میں نرمی اور محبت۔
’’میں نے تمہارا ڈرامہ پڑھا تھا‘‘ وہ کہنے لگی، ’’اور بےحد پسند آیا۔ میں نے سرلا سے کہا مجھے مصنف سے ملا دو۔ وہ بولی، کیوں، کیا تمہیں اس سے محبت ہو گئی ہے؟ اور میں نے بالکل اسی طرح کہا۔ تم تو مجھے جانتے ہی ہو۔ ہاں۔‘‘ یہ کہہ کراس نے دلربائی سے پہلو بدلا، اپنی خوبصورت نازک انگلیوں کو بل دیے اور اپنی دلفریب آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ اس کی مستی میری روح تک اتر گئی۔
’’ایک مرتبہ تو میں بس پاگل ہی ہو گئی تھی۔ راتوں کی نیند حرام تھی اور اگر آنکھ لگ بھی جاتی تھی تو اٹھتے ہی وحشت اور تنہائی مجھے اپنے پھندوں میں جکڑ لیتے تھے۔ باربار یہی خیال آتا کہ میں پاگل ہو جاؤں گی اور اگر پاگل نہ ہوتی تو ضرور اپنے کو کچھ کر لیتی۔ میرے دماغ کی حالت کچھ ایسی ہو گئی تھی کہ زندگی اجیرن ہو گئی۔ کچھ ایسی ہی بات تھی جو میری جان پر بن گئی۔ میں اس کا تذکرہ نہیں کر سکتی اور نہ اس کا حال کبھی کسی پر کھلےگا۔
لیکن پھر بھی میری اس سے ملاقات ہو گئی۔ وہ دق کا مریض تھا اور میں ہر روز بلاناغاں اس سے ملنے اس نیت سے جاتی کہ مجھے بھی دِق ہو جائے۔ یہ مانا کہ میں بہت ہی بزدل ہوں لیکن خودکشی کی ہمت مجھ میں نہ تھی اور بیماری سے بآسانی کام تمام ہو جاتا۔۔۔ اگر میں اس سے ملنے نہ جاتی تو یقیناً پاگل ہو جاتی۔ میں نے اسی زمانہ میں ایک کتاب پڑھی تھی، ’’فیری رومینس۔‘‘ تم نے تو پڑھی ہوگی۔ نہیں۔ تو ضرور پڑھنا اور بتانا کہ تمہیں کون سے حصے پسند آئے اور جب ہی میں بھی بتاؤں گی کہ مجھے کون کون سے پسند تھے۔ یہ کتاب میں نے اسے بھی پڑھنے کو دی تھی، لیکن اس نے واپس تک نہ کی۔
میں ایک خواب میں رہتی تھی اور ابھی تک ایک خواب میں رہتی ہوں، بڑا پیارا اور دلکش خواب۔ درختوں کی پریاں ہوتی ہیں، ہر درخت ایک پری ہے اور میرے خواب میں سب دوست خاص خاص درختوں سے وابستہ ہو گئے تھے۔ جب تم کتاب پڑھ لوگے تو بتاؤں گی۔ مجھے درختوں سے محبت ہو گئی۔ گھنٹوں بیٹھی ہوئی درختوں کو دیکھا کرتی تھی۔ مجھے اب تک درختوں سے انس ہے۔ مگر اب تو صرف خواب ہی خواب رہ گیا ہے۔ میں بزدل ضرور ہوں، لیکن بتاؤ تو میں کروں بھی تو کیا۔ میں مجبور ہوں۔
لیکن میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ میں نے دنیا میں کیا کچھ نہیں دیکھا مگر ہر چیز نے اسی بات پر مجبور کیا کہ میں اپنے خواب ہی میں پناہ لوں۔ اگر میرا خواب نہ ہوتا تو نہ جانے میں کیا کر گزرتی۔ میں سچ مچ مرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ابھی تک مجھے کچھ اور نہیں ملا ہے۔ اب بھی صرف اپنے خواب ہی کے لیے زندہ ہوں۔۔۔ نہ جانے میں تم سے یہ باتیں کیوں کر رہی ہوں۔ لیکن تم بڑے فہیم ہو اور میری بات سمجھ جاؤگے۔ تم حسین ہو اور میرے خواب میں ایک اور دوست کا اضافہ ہو گیا۔۔۔‘‘
بڑی دیر تک وہ اسی طرح باتیں کرتی رہی۔ جب میں باہر آیا تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ الائچی کے درخت مستی سے اپنے سینے پیٹ رہے تھے اور ان کی لاجواب خوشبو ہوا میں بسی ہوئی تھی۔ رات کا جادو دنیا پر پھیل چکا تھا اور تارے جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ خیال میں کھویا ہوا، اپنے خواب میں مقید، میں گھر کی طرف چلا۔ دو سپاہی ایک قیدی کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالے لیے جا رہے تھے اور سات مزدور قطار باندھے ہوئے، سروں پر گیس کے ہنڈے رکھے گاتے جا رہے تھے،
کربان تمہارے اللہ پار لگا دو نیا جان۔۔۔
ان کی آواز ایک ٹیس کی طرح میرے کانوں میں بج رہی تھی۔ جب میں سڑک پر مڑا تو میرا مکان رات کی تاریکی میں چھپا کھڑا تھا اور چند ہی لمحوں میں اس کے اندر دنیا کی مصیبتوں سے محفوظ پر مقید ہو گیا۔
دو آدمی ہاتھوں میں ڈنڈے لیے نشہ میں چور جھومتے آ رہے تھے، رام لال جو آگے آگے چل رہا تھا، ڈنڈا سنبھالتا ہوا ان کی طرف مڑا، جواب مستی سے گلے لگ رہے تھے۔ ہوا بند تھی اور گرمی سے دم گھٹا جاتا تھا۔ وہ سب تاڑی خانہ سے لوٹ رہے تھے۔
’’ابے سمجھتا کیا ہے۔ ایسا ڈنڈا رسید کروں گا کہ سر پھٹ جائے۔‘‘
’’اوہو! ٹھہر تو۔ بدل پیترا۔ بچ۔۔۔‘‘
اندھیرے میں مجھے ان کی صورتیں تو نہ دکھائی دیں لیکن ہڈی پر لکڑی کے بجنے کی آواز آئی۔ ان کی آوازیں بلند ہوئیں اور پھر دھیمی ہوگئیں۔ سڑک کے دونوں طرف مرد اور عورتیں چارپائیوں پر پڑے سو رہے تھے۔ میری نگاہ ٹانگوں، چھاتیوں اور سوئے ہوئے چہروں پر پڑی۔ قسمت کے قیدی مرد اور عورتیں ساتھ سوتے، سڑک پر ہی بچے پیدا ہوتے اور انسان مر جاتے تھے۔
میں نکڑ پر مڑا۔ سامنے میرا عالی شان مکان سیاہ درختوں کی آڑ میں خاموش کھڑا تھا۔ اس کے اند رمیں بموں اور گولہ باری سے محفوظ زندگی بسر کرتا ہوں۔ قریب ہی سڑک کے موڑ پر پلاؤ نام کا شراب خانہ ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو میں اس کے اندر اپنی کوفت شراب سے دور کرنے چلا جاتا ہوں۔ چوڑی سیاہ سڑک آئینہ کی طرح چمکتی ہے اور پانی میں دوکانوں اور مکانوں کے عکس اس کی سطح پر کھڑکیوں اور دیواروں کا گمان پیدا کر دیتے ہیں۔ جب میں رات اسٹیشن سے واپس آتا ہوں تو نکڑ والی دوکان ایک جہاز کی طرح سڑک کے پانی پر چلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور اس کی نوک میرے خیالات کے چپوؤں سے ہلتی ہے۔ سردی سے میں اپنے ہاتھ گرم کوٹ کی جیب میں گھسا لیتا ہوں اور شانے سکیڑے کانپتا ہوا پٹری پر تیز تیز چلنے لگتا ہوں۔ بوندیں میری سیاہ ٹوپی پر زور زور سے گرتی ہیں اور ہلکی ہلکی پھوار میری عینک پر پڑنے لگتی ہے۔ اندھی نگری کے سبب کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک کار میرے جہاز کو کاٹتی ہوئی گزر جاتی ہے اور اس کی مدھم روشنیوں کے عکس سے سڑک جگمگا اٹھتی ہے۔ میں پلاؤ میں داخل ہو جاتا ہوں۔ کمرہ دھوئیں اور پسینہ اور شراب کی بو سے بھرا ہوا ہے۔ عینک پر بھاپ جم جانے کی وجہ سے ہر چیز دھندلی نظر آنے لگی۔ میں عینک کو صاف کرنے کے لیے اتار لیتا ہوں۔
سامنے اَینی ایک لمبی میز کے پیچھے کھڑی لکڑی کے پیپوں میں سے مشین سے کھینچ کھینچ کر شراب کے گلاس پینے والوں کی طرف بڑھا رہی ہے۔ اس کے جسم پر سوائے ہڈیوں کے اب کچھ باقی نہیں۔ اس کے سر پہ سفید بال ہیں لیکن کمر ابھی تک ایک سروکی طرح سیدھی ہے۔ اس کی آنکھوں سے روشناسی کے طور اور اس کے ہونٹوں سے خیرمقدم کا تبسم ٹپک رہا ہے۔ لیکن دس بجتے ہی وہ چلانا شروع کرےگی، ’’ختم کرو بھائی، ختم کرو۔ یہ آخری دور ہے۔ چلو ختم کرو۔‘‘
مگر ہنسی اور مذاق اور شور اسی طرح قایم رہےگا۔ وہ اسی طرح کل سے شراب کھینچتی رہےگی اور اس کی آواز میرے کانوں میں رات کو خوابوں میں گونجےگی، ’’ختم کرو، ختم کرو، یہ آخری دور ہے۔‘‘ مجھے تیری آواز سے سخت نفرت ہے، اینی۔ کیا تو ذرا بھی اپنا لہجہ نہیں بدل سکتی؟ تیری آواز تو اپنے تیسرے شوہر کی قبر میں بھی اس کا دل ہلا دیتی ہوگی۔ کیا تجھے یاد ہے وہ اپنا شوہر جو شراب کی مستی میں راہئی ملک بقا ہوا؟ اگر تو اپنے ٹوٹے ہوئے ہارمونیم کی آواز میں اس پر نہ چلاتی تو شاید وہ آج تک زندہ ہوتا۔ لیکن تو تو مردوں پر حکومت کرنے کو پیدا ہوئی تھی، شیروں کو سدھانے کے لیے۔
’’کیسا برا موسم ہے۔‘‘ نینیٹ نے میز کے پیچھے والے دروازہ سے نکل کر کہا اور ایک شوخی بھری مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل گئی۔ میں بولا، ’’توبہ۔ توبہ۔‘‘یہ عورت ایک دیونی معلوم ہوتی ہے۔ اس کا قد لمبا ہے اور بدن پر سیاہ کپڑے ہیں، چھاتی پر ایک سرخ گلاب چمک رہا ہے اور کانوں میں جھوٹے بندے۔
’’اچھے تو ہو؟‘‘اس نے محبت بھرے لہجہ میں میرے کان کے قریب آکر کہا، ’’ہاں۔ تم سناؤ۔‘‘
’’تمہاری دعا ہے۔ لیکن یہ تو کہو آج یہاں کیسے بیٹھے ہو؟ تم تو ہمیشہ اپنے مخصوص کونے ہی میں بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
میں نے مڑکر آتش دان کی طرف دیکھا۔ وہاں ہڈسن بیٹھا ہوا تھا۔ ہڈسن پیشہ کا درزی ہے، جسم کا توندل اور سرکا تامڑا۔ وہ ایک اور محلہ میں رہتا ہے لیکن اس کا معمول ہے کہ ہر رات کو دو گلاس کڑوی کے پینے پلاؤ میں ضرور آتا ہے۔ آندھی جائے، مینہ جائے لیکن اس کا یہاں آنا نہیں جاتا۔ ایک زمانہ میں اس کو اینی سے محبت تھی اور اس کے تینوں شوہر یکے بعد دیگرے میدان عشق میں ہڈسن کو پیچھے چھوڑتے چلے گیے۔ لیکن اس کی وضع داری دیکھیے کہ ابھی تک پرانی روش کے مطابق اسی پابندی سے یہاں آتا ہے، مگر اینی اس کی طرف نگاہ اٹھاکے بھی نہیں دیکھتی۔
ہڈسن بڑے کڑوے مزاج کا آدمی ہے۔ نہ جانے کیوں اس کو مجھ سے اس بات پر چڑھ ہو گئی ہے کہ میں ہمیشہ اسی کونہ میں بیٹھتا ہوں۔ ایک رات وہ بولا، ’’کیوں جی، تم ہمیشہ یہیں بیٹھتے ہو۔‘‘
’’تو کیا تمہارا دینا آتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’اگر تمہارا جی چاہے تو تم بیٹھ جایا کرو۔‘‘
’’اور تم اپنی کرسی عورتوں کو بھی نہیں دیتے۔‘‘
’’دیکھو میاں!‘‘میں نے کہا، ’’اس صدی کے تیس سال بیت گیے چالیسواں لگا ہے۔ اب رقت آموز نسوانیت کے دن گئے۔‘‘
’’تاہم تمہیں یہاں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘
’’اگر تمہیں یہ کونا اتنا ہی پسند ہے تو شوق سے بیٹھا کرو۔ لیکن تم تو اینی ہی کے قریب بیٹھنا چاہتے ہو۔‘‘
’’یہی بات ہے تو دیکھا جائےگا۔‘‘اس نے دانت پیس کر کہا اور مجھے غضب سے دیکھا۔۔۔ اور میں نے ہڈسن کی طرف اشارہ کیا۔
’’تم نے اس کی بھی بھلی فکر کی۔‘‘ نینیٹ نے کہا، ’’وہ تو پاگل ہے۔ اس نے تمہیں اپنی تصویریں بھی ضرور دکھائی ہوں گی؟‘‘
’’اس سے کہیں ایسی بھی غلطی ہو سکتی تھی؟‘‘
اور ہم دونوں مل کر ہنسنے لگے۔
اسی روز کا واقعہ ہے۔ میں کھڑا کبھڑے سے باتیں کر رہا تھا کہ ہڈسن نے میرے کوہنی ماری۔ جب میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی تو اس نے مجھے دوبارہ ٹہوکا۔ میں اس کی طرف مڑا،
’’ہلو۔‘‘
’’گڈ ایوننگ‘‘ وہ مسکراکے بولا، ’’کیسا مزاج ہے؟‘‘
’’آپ کی نوازش ہے۔‘‘اور یہ کہہ کے میں پھر کبھڑے کی طرف مخاطب ہو گیا۔ ہڈسن نے پھر کوہنی ماری۔ میں غصہ سے اس کی طرف مڑا۔ وہ اپنی جیب میں کچھ ٹٹول رہا تھا۔
’’تم نے یہ بھی دیکھی ہے؟‘‘ اور اس نے میری طرف ایک سڑی سی تصویر بڑھا دی۔ تین مٹے مٹے آدمی کرسیوں پر بیٹھے تھے اور ان میں سے ایک ہڈسن تھا۔
’’یہ جنگ عظیم میں کھینچی تھی، سمجھے، جب میں سارجنٹ تھا۔‘‘یہ کہہ کر وہ ہنسا اور خوشی سے اس کی بانچھیں کھل گئیں۔ میں نے کہا، ’’تو اب کیوں نہیں بھرتی ہو جاتے؟‘‘
’’اب تو میری عمر اسی سال کی ہے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے ایک آہ بھری۔
’’تمہاری عمر تو بہت کم معلوم ہوتی ہے۔ تم بڑی آسانی سے بھرتی ہو جاؤگے۔ آج کل سپاہیوں کی بہت کمی ہے۔‘‘اس کے بعد میں نے منھ موڑ لیا۔ ہڈسن نے برا سامنہ بنایا اور اپنے برابر والے کو جنگ عظیم میں اپنی بہادری کے قصہ سنانے لگا۔ لوگوں کو چیرتا پھاڑتا میں اپنے کونہ کی طرف گیا اور کارنس پر گلاس رکھ کے ایک پاؤں دیوار سے لگا اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ کوئی کرسی خالی کرے تو بیٹھوں۔
’’تو تم میرے کونے میں آہی گئے؟‘‘ میں نے ہڈسن سے کہا۔ اس نے بتیسی دکھائی اور ایک قہقہہ لگایا۔ آج وہ ذرا خوش خوش معلوم ہوتا تھا۔ وہ اسرار کرنے لگا کہ بنچ پر بیٹھ جاؤ۔ مجھے بنچ پر بیٹھنے سے سخت نفرت تھی، لیکن جب وہ نہ مانا تو میں بیٹھ ہی گیا۔ وہ بھی کرسی چھوڑکر میرے پاس آن بیٹھا۔
’’آج اتفاق سے میری ایک دوست سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔‘‘ہڈسن لگا کہنے، ’’وہ بڑا فلسفی ہے، سمجھے، تو میں نے کہا کہ بھئی تم بڑے فلسفر بنتے ہو، ہمیں بھی ایک بات بتاؤ۔ اس نے کہا اچھا۔ میں نے پوچھا کہ دنیا کیسے اپنی جگہ قائم ہے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے کہا۔
’’کیا مطلب؟ جو کچھ میں نے کہا۔ یعنی چاند، تارے، سورج اور زمین سب اپنے اپنے کام میں مشغول ہیں۔ آخر وہ کیا طاقت ہے جو ان کو اپنا فرض پورا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔۔۔ وہ تو کوئی معقول جواب دے نہ سکا۔ تم بتاؤ کہ کون سی چیز ان سب ستاروں کو اپنی جگہ قایم رکھتی ہے۔‘‘
بحث کرنے کو میرا جی نہ چاہتا تھا اس لیے میں نے جواب دیا، ’’خدا۔‘‘
’’نہیں، غلط۔‘‘
’’تو پھر کیا چیز ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’میں تو خود تم سے پوچھ رہا ہوں۔‘‘
’’تو پھر یگانگت سب تاروں اور سارے عالم کو اپنی جگہ قائم رکھتی ہے۔‘‘
’’غلط‘‘ اس نے جماکر کہا، ’’معلوم ہوتا ہے تم نے بس گھاس ہی کھودی ہے۔‘‘
’’تو پھر تم ہی بتاؤ نا؟‘‘
’’اچھا لو میں بتائے دیتا ہوں۔ یہ سب تارے جو آسمان میں جگ مگ جگ مگ کرتے ہیں، یہ چاند جس کی رقصاں کرنیں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں، وہ سورج جو اپنی روشنی سے دنیا کو گرمی اور اجالا بخشا ہے، یہ خوبصورت زمین جس پر ہم سب بستے ہیں، ان سب کو ایک عجیب و غریب اور لاجواب طاقت اپنی اپنی جگہ قایم رکھتی ہے اور یہ طاقت بجلی ہے۔‘‘
میں بےساختہ ہنس پڑا۔ ہڈسن غصہ سے چلانے لگا، ’’تو تمہیں یقین نہیں آیا؟ تم اس بات کو نہیں مانتے کہ بجلی وہ طاقت ہے جو ان سب ستاروں کو یکجا رکھتی ہے؟ کیا تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ تم کیسے پیدا ہوئے؟‘‘
بہت محظوظ ہو کر میں نے کہا، ’’نہیں۔‘‘
’’اچھا تو میں بتائے دیتا ہوں۔ تمہارے باپ نے تمہاری ماں کے پیٹ میں بجلی ڈالی، سمجھے اور پھر تم پیدا ہوئے۔۔۔‘‘
میں زور زور سے ہنسنے لگا اور خیال کیا کہ شاید ہڈسن نے آج معمول سے زیادہ پی لی ہے۔ وہ اپنی بجلی کے راگ الاپتا رہا یہاں تک کہ میں عاجز آ گیا اور ایک دم سے کھڑا ہو گھر کی طر ف چل دیا۔ مجھے اس عجیب و غریب نظریے اور اس کے حامی پر ہنسی آ رہی تھی۔ پھر خیال آیا کہ وہ اپنی اندرونی دنیا کے ہاتھوں قید ہے اور یہ سوچتے سوچتے میں تنہائی اور کوفت کے سمندر میں ڈوب گیا۔
میرے کمرے کتابوں، الماریوں اور کرسیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں اکثر کوفت سے یہاں ٹہلتا ہوں، تنہائی مجھے کھانے لگتی ہے اور میں بیزار ہو جاتا ہوں۔ میرامکان، اس کے بڑے بڑے کمرے اور سلاخوں دار کھڑکیاں ایک قیدخانہ معلوم ہوتی ہیں۔ میں کھڑکیوں سے جھانکتا ہوں۔ میری نگاہ کشادہ میدانوں، مرغ زاروں اور پہاڑوں پر پڑتی ہے۔ رات کو آسمان تاروں سے بھر جاتا ہے اور اس کی دست کی کوئی تھا نہیں ملتی۔ زندگی آسمان کی طرح آزاد ہے۔ لیکن زندگی کی افق سے دور اور دنیائیں ہیں اور ستاروں سے پرے اور بھی جہاں ہیں جو ان ستاروں اور اس دنیا سے کہیں زیادہ خوشنما اور رنگین ہیں۔ میری ہڈیاں اور جسم، میرے خیالات بھی اس قیدخانہ کی سلاخیں ہیں جس کو ہم زندگی کہتے ہیں۔ لیکن میں اپنے جسمانی روپ سے آزاد نہیں ہو سکتا، اسی طرح جیسے میرا جسم اس مکان کے قیدخانہ سے آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنے کمروں کی چہاردیواری میں اپنے تخیل کے اندر میں بھی اسی طرح چکر لگاتا ہوں جیسے چڑیا گھر کے پنجروں میں ریچھ۔
کبھی کبھی میں تنہائی سے پاگل ہو جاتا ہوں اور سلاخوں کو پکڑ کر درد سے چیخنے لگتا ہوں اور میری پھٹی ہوئی آواز میں غلامی اور اس روح کی تکلیفوں کا نغمہ سنائی دیتا ہے جو صدیوں سے آزادی کے لیے جان توڑ کوشش کر رہی ہے۔ جب لوگ میری چیخ سنتے ہیں تو تماشا دیکھنے کو اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ وہ بھی سلاخیں پکڑ لیتے ہیں اور میری نقل کرتے ہیں۔ ان کا منہ چڑانا میرے دل میں ایک تیر کی طرح لگتا ہے اور میرا دماغ انسان کے لیے نفرت سے بھر جاتا ہے۔ اگر میں اپنے پنجرہ سے نکل سکتا تو ان کو ایک ایک کرکے مار ڈالتا اور ان کے کھوکھلے سینوں پر فتح کے جذبہ میں چڑھ بیٹھتا۔ کاش کہ میں صرف ایک ہی دفع انسان کو بتا سکتا کہ وہ ازحد ذلیل ہے اور اس کی روح کمینی اور سڑانڈی۔ پہلے تو وہ آدمی کو ایک پنجرہ میں بند کر دیتا ہے اور پھر اس بزدلانہ حرکت پر خوش ہوتا ہے۔
قفس کے باہر وہ آزاد ہے (نہیں آزاد نہیں بلکہ اپنی ہی بنائی ہوئی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جیسے سائے جکڑے ہوئے ہوتے ہیں) اور باہر سے ایک بزدل کی طرح مونگ پھلی دکھاتا ہے اور میری تڑپن اور بھوک پہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن اکثر جب وہ مونگ پھلی دکھاتا ہے اور میں اسے لپکنے کو اپنا منہ کھولتا ہوں تو وہ صرف ایک کنکری پھینک دیتا ہے۔ میں غصہ سے چیخ اٹھتا ہوں لیکن میری کوئی بھی نہیں سنتا۔ مگر وہ جو میری روح کو ایذا پہنچاتے ہیں، میرے درد پر خوشی سے تالیاں بجاتے اور میرے زخموں پر نمک چھڑک کے خوش ہوتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ مجھ پہ کیا گذرتی ہے، وہ کیا جانیں کہ روح کسے کہتے ہیں، وہ شاید اپنی سفید چمڑی پر غرور کرتا ہے اور مجھے اس لیے ایذا پہنچاتا ہے کہ میں کالا ہوں اور میرے جسم پر لمبے لمبے بال ہیں۔ لیکن میرا ہی جی جانتا ہے کہ مجھے اس سے کتنی نفرت ہے۔
ہر روز ایک شخص دور سے میرے پنجرہ میں غذا رکھ دیتا ہے۔ وہ نزدیک آنے سے شاید اس لیے ڈرتا ہے کہ میں کہیں اس کا گلا نہ گھونٹ دوں۔ کبھی کبھی وہ مجھ سے باتیں بھی کر لیتا ہے، لیکن سلاخوں کے باہر سے۔ اکثر وہ اچھی طرح پیش آتا ہے اور میری آزادی اور رہائی کا تذکرہ کرتا ہے۔ ایسے موقعوں پر وہ اچھا معلوم ہوتا ہے اور میں ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں، چیڑ کے جنگلوں اور شہد کے چھتوں کے خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ اس نے جب پہلی بار مجھ سے شفقت سے باتیں کیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
’’کیسا ہے تو، ابے کالے غلام، رات کو خوب سویا؟ ہاں؟ شاباش۔‘‘
میں نے عجز و محبت سے اس کی طرف دیکھا اور خوشی کے مارے اپنا منھ کھول دیا۔
’’اچھا اگر میں تجھ کو آزاد کر دوں تو کیسا ہو؟‘‘
میں خوشی کے مارے پھولانہ سماتا تھا اور وجد سے چھاتی پیٹنے لگا۔
’’لیکن تو آزادی لے کر کرےگا کیا؟ میں تجھ کو کھانا دیتا ہوں، تیرا گھر صاف رکھتا ہوں۔ ذرا ان بندروں کو تو دیکھ۔ تونے کبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ وہ سردی میں سکڑتے اور بارش میں بھیگتے ہیں؟ دن کو غذا کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ رات کو جہاں کہیں جگہ مل گئی بسیرا لے لیا۔ ان کی زندگی وبال ہے۔ اگر تو بھی آزاد ہوتا تو ان کی طرح مارا مارا پھرتا۔ کیوں بےغلام، یہی بات ہے نا؟‘‘
میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے ایک آہ بھری۔
’’ارے جا بھی، میں تو مذاق کر رہا تھا، تو برا مان گیا۔ میں سچ مچ تجھے رہا کر دوں گا۔‘‘
خوشی کی کیفیت پھر لوٹ آئی اور میں اس کے لیے جان تک قربان کرنے کو تیار تھا۔ مگر ایسے وعدے تو اس نے بارہا کیے ہیں اور اب تو اس کا اعتبار تک اٹھ گیا ہے۔ وہ تو کہہ کے بھول جاتا ہے، لیکن میں اپنے قفس میں نہیں بھولتا اور خوشی اور آزادی کے خواب دیکھنے لگتا ہوں، اس وقت کے جب کہ میں اپنی زندگی کا خود مالک ہوں گا۔ اب تو وہ جب کبھی مجھ سے باتیں کرتا ہے تو میرے دل میں نفرت بھر آتی ہے اور کوئی بھی اس کی آگ کو نہیں بجھا سکتا لیکن میں اس کے ہاتھوں قید ہوں اور صبر و مجبوری کے علاوہ کچھ اور چارہ نہیں۔
اس ظلم اور تشدد سے میں اس قدر مجبور ہو جاتا ہوں کہ اپنے مکان کی کھڑکیوں کی سلاخوں کو پکڑ کر کراہنے لگتا ہوں۔ صرف اسی طرح دنیا کے منہ چڑانے اور جگ ہنسائی سے نجات مل سکتی ہے اور میرے دل کو قدرے سکون ہوتا ہے۔ مگر جب میرا غصہ کم ہو جاتا ہے تو کوفت اپنے پنجوں میں جکڑ لیتی ہے اور میں اپنے کمروں اور مکان کی کال کوٹھری میں ٹہلنے لگتا ہوں اور جب اس سے بھی عاجز آ جاتا ہوں تو کرسیوں پر بیٹھ کے گھنٹوں ٹوٹے ہوئے فرش یا دیواروں کو گھورا کرتا ہوں۔ کوفت سے عاجز آکر ایک رات میں باہر آیا۔ جاڑوں کا موسم تھا اور سڑکوں پر برف پڑی ہوئی تھی۔ یکایک مجھے کلیرا کا خیال آ گیا اور اس سے ملنے کی نیت سے اسٹیشن کی طرف چل دیا۔
جب میں نے گھنٹی بجائی تو نوکرانی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ کر اس طرح مسکرائی جیسے اس کو علم تھا کہ میں کس لیے آتا ہوں۔ اس کی ہنسی میں ایک مرجھائی ہوئی بڑھیا کی وہ خوشی تھی جو ایک نوجوان مرد اور عورت کے یکجا ہونے کے خیال سے پیدا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کے چہرہ پر ایک اور ہی کیفیت نمایاں ہوئی اور اس نے مجھے شکایت کی نظر سے اس طرح دیکھا جیسے اس کی نیلگوں آنکھیں کہہ رہی ہوں، ’’تم کتنے خراب انسان ہو۔ ایک لڑکی کو اتنی دیر تک انتظار کروا دیا۔‘‘ اس کے جذبہ نسوانیت کوٹھیس پہنچی تھی، اس جذبہ کو جس کے سبب جنس ایک لاجواب اور رومانی شے معلوم ہونے لگتی ہے اور اس نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا،
’’تم نے بڑی دیر لگا دی۔‘‘
’’ہاں، ذرا دیر ہو گئی۔ ویسے تو خیریت ہے؟‘‘
وہ پھر ہنسنے لگی اور سیڑھیوں پر چڑھتے وقت میری کمر پر ایک معنی خیز طریقہ سے دھپ رسید کیا۔
میں نے کلیرا کے کمرہ کا دروازہ کھولا۔ ریڈیو پر کوئی چیخ چیخ کر ہذیانی لہجہ میں تقریر کر رہا تھا۔ آتش دان میں گیس کی آگ جل رہی تھی اور ایک کرسی پہ سیاہ ٹوپی رکھی تھی جس پر سنہری پھول ٹنکا ہوا تھا۔ نیلے رنگ کی کرسیاں اور تکیے اور سرخ قالین بجلی کی روشنی میں اداس اداس معلوم ہو رہے تھے اور کلیرا کا کہیں پتہ نہ تھا۔ مجھے ایک کونے سے سسکیوں کی آواز آئی۔ جھانک کے جو دیکھا تو کلیرا پلنگ پر اوندھی پڑی رو رہی تھی۔ یہ بات مجھے سخت ناگوار ہوئی۔ ماناکہ مجھے دیر ہو گئی لیکن اس رونے کے کیا معنی تھے؟ مجھے اس سے عشق تو تھا نہیں۔
’’کیا بات ہوئی؟‘‘میں نے پوچھا، ’’روتی کیوں ہو؟‘‘
تھوڑی دیر تک تو وہ سبکیاں لیتی رہی پھر ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے شکایت کرنے لگی۔
’’تم کبھی وقت پر نہیں آتے۔ روز روز دیر کرتے ہو۔ تمہیں میری ذرا بھی چاہ نہیں۔‘‘
میں بولا، ’’دیر ضرور ہو گئی، اس کی معافی چاہتا ہوں۔ لیکن آخر اس طرح کیوں پڑی ہو؟‘‘
’’طبیعت خراب ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ آنسو پونچھتی ہوئی اٹھ بیٹھی اور اپنا حال بیان کرنے لگی۔
وہ باتیں کر رہی تھی لیکن میرے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔ میری کوفت کم نہ ہوئی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اول تو وہ حوا کی اولاد تھی اور پھر عورت، لیکن وہ مجھ سے کیا چاہتی تھی؟ اس کا خیال تھا کہ مجھ کو اپنے قبضے میں کر لےگی لیکن اس کو یہ نہ معلوم تھا کہ مجھ پر کسی کا بھی جادو نہیں چل سکتا۔ وہ اپنی ہی جگہ پر رہ جائےگی اور میں دوسری عورتوں کی طرف دوسری دنیاؤں میں بڑھ جاؤں گا۔ میرے لیے عورت محض ایک کھلونا ہے، ایسا ہی بہلاوا جیسے بازیگر کا تماشا۔ جس طرح بچہ کا دل ایک کھلونے سے بھر کر دوسرے کھیلوں میں لگ جاتا ہے اسی طرح میں بھی ایک ہی بلامیں گرفتار ہونا نہیں چاہتا۔ عورت ایک صیاد ہے اور مرد کی روح اور جسم دونوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ میں اپنے خیال میں کھویا ہوا تھا۔ اس بات سے اس کے جذبہ خود نمائی کو اس لیے ٹھیس لگی کہ میں اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔
’’چھت مجھ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔‘‘ وہ جل کے بولی۔
’’تم بھی کیسی باتیں کرتی ہو۔ میں تمہاری باتیں غور سے سن رہا ہوں۔‘‘
’’تم ہمیشہ یہی کرتے ہو۔‘‘اس کے ان الفاظ میں جلن کا احساس تھا۔
’’میں کتنی ہی کوشش کیوں نہ کروں تم کو جان نہ پاؤں گی۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں اپنے آپ کو ایک معمہ معلوم ہوتا ہوں۔ میں بڑا خوددار ہوں۔‘‘
’’ہاں تم مغرور ہو۔ عورتوں نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے۔ مگرتم اتنے برے تو نہیں ہو۔ تم اپنے آپ میں چھپے رہتے ہو، میں نکالنے کی کوشش کروں گی۔‘‘
وہ اپنے کو محض دھوکا دے رہی تھی۔ وہ تو کیا مجھے نجات دلاتی میں خود اپنے سے ہار مان چکا ہوں۔ ایک عورت نے مجھے اپنے اندر پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا اور اب مجھے کوئی نہیں نکال سکتا۔
’’اب تو یہ ممکن نہیں،‘‘میں نے کہا، ’’اپنے تحفظ کے لیے قلعہ بنایا تھا، خود ہی میں نے اس قیدخانہ کی دیواریں کھڑی کی تھیں۔ اب میں نہ تو ان کو ڈھاہی سکتا ہوں اور نہ آزادی حاصل کر سکتا ہوں۔‘‘
مجھے اس کی آنکھوں میں ایک لمحہ کے لیے پریشانی کی جھلک دکھائی دی۔ پھر اس نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ اس نے منہ سے ایک لفظ نکالا نہ میں نے کچھ کہا۔ وہ مجھے تسکین دینا چاہتی تھی، اس بات کا احساس پیدا کرا رہی تھی اور مجھے اپنی حفاظت میں رکھنا چاہتی تھی۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا اور اپنی حالت پر بھی افسوس ہوا۔
’’مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ تمہاری ملاقات غلط آدمی سے ہوئی۔‘‘
’’نہیں۔ ٹھیک آدمی سے۔‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مجھے زور سے بھینچ لیا۔ میں اس کی پیٹھ کو تھپکنے لگا، اس نے اپنی بانہیں ڈھیلی کر دیں۔ لیکن پھر اس نے مجھے سینہ سے چمٹا لیا اور محبت سے کہا، ’’میری جان!‘‘ اور بڑی نرمی اور شفقت سے مجھے اس طرح جھلانے لگی جیسے میں ایک ننھا بچہ تھا، وہ مامتا بھری ماں اور اس کی آغوش ایک جھولا جس میں آرام کی نیند سوسکتا تھا اور دنیا کو بھلاکر سب خوف و خطر سے نجات پا لیتا۔
بڑی دیر کے بعد اس نے مجھ کو جانے دیا۔ جب میں اسٹیشن پہنچا تو بارہ بج چکے تھے اور آخری ریل چھوٹ رہی تھی۔ میں جب ریل سے اتر کے باہر آیا تو چودھویں رات کا چاند ڈھلے ہوئے آسمان پر چمک رہا تھا اور اس کی روشنی میں سڑکیں سفید براق برف کی رضائی اوڑھے پڑی تھیں۔ درختوں کے سائے ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہے تھے اور چاندنی میں برف ایک خواب کی طرح غیرحقیقی اور تعجب خیز معلوم ہوتی تھی۔ داستانہ اتارکر میں نے یہ دیکھنے کو برف ہاتھ میں اٹھائی کہ کہیں روئی کے گالے تو زمین پر اس لیے نہیں بچھا دیے گیے ہیں کہ اس کو گرم رکھیں۔ لیکن وہ میرے ہاتھ کی گرمی سے پگھل گئی۔ میں اور اٹھانے کو جھکا۔ میرے پیروں تلے وہ چرمرکر کے ٹوٹی۔ میں نے جوتے کی نوک سے ٹھوکر ماری۔ کیا وہ سخت تھی یا نرم؟ ایک شخص جو پاس سے گزر رہا تھا، مڑ کے دیکھنے لگا کہ میں کہیں پاگل تو نہیں ہوں۔ پھر یہ سوچتا ہوا کہ شاید کوئی خبطی ہے چلا گیا۔ میں بھی تازی ہوا کے گھونٹ لیتا ہوا آگے بڑھا۔ دور دور جس طرف بھی نگاہ اٹھتی تھی، ہرچیز ایک خواب کی طرح انوکھی اور خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔
مکان کے دائیں طرف قبرستان ہے۔ اس کے اندر قبریں ہیں، لیکن قیدیوں کا اب نام و نشان بھی باقی نہیں۔ صرف پتھر اور تاریک کوٹھریاں زندگی کی ناپائیداری اور دنیا کی بے ثباتی کی یاد دلانے کو ابھی تک موجود ہیں۔
پشت پر ڈراؤنا اور بھیانک جنگل ہے۔ اس میں عجیب عجیب آوازیں اور خواب چھپے ہوئے ہیں۔ اکثر شیروں کے دہاڑنے کی آواز آتی ہے اور شام کو لکھو کھا کوے کائیں کائیں کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ مگر اس کے اندر آزادی اور اس لامتناہی قید خانہ سے رہائی کی امید بھی جھلکتی ہے۔ ایک دن میں بھی اس میں قدم رکھوں گا۔ لیکن اگر یہ بھی قید خانہ ثابت ہوا تو پھر میں کدھر جاؤں گا؟ یہاں کم از کم آزادی کی امید تو ہے۔ جنگل میں شاید یہ بھی نہ ہو۔ یہ خیالات مجھے اکثر پریشان کیا کرتے ہیں۔
ایک رات میں اس برآمدہ میں سورہا تھا جو جنگل سے ملحق ہے۔ کوئی آدھی رات گیے اوپر کی منزل پر کواڑوں کے دھڑدھڑانے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے سوچا شاید نوکر کواڑ بند کرنے بھول گیے اور آندھی چل رہی ہے۔ میں لیٹ گیا، لیکن دھڑ دھڑ کم نہ ہوئی۔ میں پھر اٹھ بیٹھا۔ اسی وقت اوپر کسی کے چلنے کی آواز آئی۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ جون ہوگا۔ وہ اکثر ملنے آ جاتا ہے۔
جون ایسٹ انڈیا کمپنی کا سپاہی ہے اور ۱۸۵۷ میں مارا گیا۔ میں اس سے پہلی مرتبہ ایک پارٹی میں ملا تھا۔ اس پارٹی میں کچھ لڑکے لڑکیاں، مصنف اور مصور اور چیکوسلوواکیا کے دو ایک گوشے موجود تھے۔ جون خود بہت سادہ لوح، نرم دل اور خاموش طبیعت تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے کمرہ میں رہتاتھا اور مکھن ڈبل روٹی پر گزارہ کرتا تھا۔ کبھی کبھی ہم چینی کھانا کھاتے اور پکیڈیلی میں گھومتے۔ ہم دونوں نے لندن کی گلیوں کی خاک چھانی ہے اور دوکانوں میں کام کرنے والی لڑکیوں اور طوائفوں کے تھکے ہوئے پژمردہ چہروں کا مطالعہ کیا ہے، یا لیسٹر سٹریٹ میں چھوٹے چھوٹے گندے لونڈوں کا۔ وہ آہستہ آہستہ اٹک اٹک کر نرمی سے باتیں کرتا تھا۔ اس کے چہرہ پر بچوں کی سی معصومیت تھی۔ اس کی پرورش دودھ اور شہد پر ہوئی تھی۔
’’جَون، کس بیوقوف نے تم کو اس بات کی صلاح دی کہ فوج میں بھرتی ہوکر اس دردانگیز ملک میں آؤ؟ تمہیں تو چاہیے تھا کہ وہیں رہتے اور دوستوں کو چائے پلایا کرتے۔‘‘
اس کے بعد ہی اسے مقابلہ پر آنا پڑا۔ جیسے ہی وہ ریزیڈینسی کی دیوار پھاند کے میدان میں آیا تو اس کا سامنا ایک ہندوستانی سپاہی سے ہوا۔ وہ نشانہ لینے کو جھکا۔ سپاہی جس کی چڑھی ہوئی ڈاڑھی اور لال لال آنکھیں خوف ناک معلوم ہوتی تھیں، بڑا نرم دل تھا اور اس نے جون پر رحم کھایا۔ جیسے ہی جون نے گھٹنا ٹیک کے شست لی، سپاہی بولا،
’’قبلہ گورے سنبھل کر، کہیں تمہاری گوری گوری ٹانگ میلی نہ ہو جائے۔‘‘اور پھر تاریکی تھی۔ جَون، تمہاری ٹانگ کہیں میلی تو نہیں ہو گئی۔۔۔؟دروازہ کھلا ہوا تھا۔ لکڑی کی سیڑھیوں پر کھٹ پٹ کرتا ہوا میں اوپر چڑھا۔ بلی کھڑکی میں بیٹھی تھی، آتش دان میں گیس کی آگ جل رہی تھی، لیکن کمرہ میں انسان کا نام نشان ہی نہ تھا۔ گرم کوٹ اتار کے میں اندر داخل ہوا۔ لکڑی کی آرام کرسی پہ میگی بیٹھی تھی۔ اس کا چہرہ ستا ہوا، بال سرخ، انگلیاں سگریٹ سے لال اور دل ملائم تھا۔
’’ہلو میگی، تم بھی ہو؟ اور سب کہاں ہیں؟‘‘
’’شراب خانہ گیے ہوئے ہیں۔‘‘اس نے بھاری آواز سے بغیر ہونٹ ہلائے ہوئے کہا۔ اس کے زرد دانت چمک رہے تھے اور اس کی آنکھیں کہیں دور پرے دیکھ رہی تھی۔
میگی خاموش بیٹھی رہی۔ اس کے خیالات افریقہ یا مصر کی سیر کر رہے تھے اور وہاں مردوں کے خواب دیکھ رہی تھی جن کو عاشق بنانے کی تمنا اس کے دل میں تھی مگر پوری نہ ہو سکتی تھی۔ وہ ساکت بیٹھی سگریٹ پیتی رہی۔ میں بھی خیالوں کی دنیا میں کھو گیا۔ میری آنکھیں گوگاں کی تصویر پر پڑیں اور چل کے کارنس پر گھڑی پر ٹھہری اور میگی کے چہرہ پہ آکر رک گئیں۔ اس کے چہرہ پر ہڈیاں ہی ہڈیاں، بال پکے ہوئے بھٹے کی طرح سرخ اور سخت ہیں، ہونٹ الائچی کے پتوں کی طرح باریک اور دانت بڑے بڑے اور زرد ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں ہڈیوں کے ڈھیر کو دیکھ رہا ہوں۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ میگی تو ایک ہوائی حملہ میں کام آ گئی تھی اور میں نے کہا،
’’میگی تم تو ایک ہوائی حملہ میں کام آ گئی تھیں۔‘‘
ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرہ پر دوڑ گئی۔ اس کی آواز کہیں دور سے ایک ڈھول کی طرح آئی، ’’ہاں، میں مر تو گئی تھی۔‘‘
’’ہائے بیچاری میگی۔ کیا زخموں سے بہت تکلیف ہوئی؟‘‘
’’ہاں شروع شروع میں، بس خفیف سی اور پھر تو کچھ معلوم بھی نہیں ہوا۔‘‘
’’اچھا یہ تو بتاؤ تمہیں وہ عاشق بھی ملے یا نہیں؟‘‘
مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھر کھیلنے لگی اور بڑھتے بڑھتے سارے چہرہ پر پھیل گئی۔
’’ہاں سب کے سب مل گئے۔‘‘
’’تو اب تو خوش ہو، میگی؟ وہ اچھے ہیں نا؟‘‘
وہ پھر کہیں دور دیکھنے لگی۔ اس کے چہرہ پر سنجیدگی اور متانت آ گئی۔ میگی سوچ میں پڑ گئی۔
’’جو سچ پوچھو تو مایوس کن نکلے۔ میرے اپنے دماغ، میرے تخیل میں وہ بہت اچھے تھے، لیکن حقیقت میں گوشت اور ہڈیوں کے ڈھنچر نکلے۔‘‘
’’ہاں‘‘میں نے کہا، ’’وہ چیز جو تخیل میں بستی ہے، اس سے بدرجہا خوش نما اور لاجواب ہوتی ہے جس کوانسان چھوسکتاہے اور محسوس کر سکتا ہے، لیکن مجھے یہ سن کر بہت ہی افسوس ہوا کہ تم خوش نہیں ہو۔‘‘
اس کی آنکھوں میں ایسا ترس جھلک اٹھا جو انسان اپنے لیے خود محسوس کرتا ہے۔ وہ آگ کی طرف گھورنے لگی اور مجھ سے اور دنیا سے بہت دور اپنے خیال میں کھو گئی۔ لیکن اب غبارے آسمان پر چڑھ چکے تھے۔ سڑک سنسان تھی اور شہر پر سناٹا چھا چلا تھا۔ ایسٹ اینڈ کے رہنے والے اندھیرے کے سبب گھروں کو چل دیے تھے۔ صرف دو ایک ہی اپنی اپنی معشوقاؤں کی کمروں میں ہاتھ ڈالے کہیں کہیں کونوں میں کھڑے تھے یا بند دوکانوں کے دروازوں میں کھڑے پیار کر رہے تھے۔ شفق آسمان پر پھولی ہوئی تھی۔
’’اچھا میگی، میں اب چل دیا۔ ذراٹہلنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘
’’اور میں بھی شراب خانہ میں ان سب کے ساتھ ایک گلاس پیوں گی۔ خدا حافظ۔‘‘
’’خدا حافظ، میگی۔‘‘
مکان کے بائیں طرف ہمالیہ کی برفانی چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ شفق ان کو سرخ، گلابی اور نارنجی رنگوں میں رنگ دیتی ہے۔ ان کے دامن میں دریائے ویاس کا زمردی پانی ایک سریلا نغمہ گاتا، چٹانوں، درخت اور ریت کے چھوٹے چھوٹے خوشنما جزیرے بناتا، پہاڑوں، برف اور میدانوں کی قید سے آزادی حاصل کرنے اور سمندر کی محبت بھری آغوش میں اپنے رنجوں کو بھلانے کی تمنا میں بہتا ہوا چلا جاتا ہے۔
سامنے دیو بن ہے اور اس کے پرے پہاڑ کی چوٹی پر بجلی کے دیوتا پر سال میں ایک دفع بجلی کڑکتی ہے اور بادل گرجتے ہیں۔ مندر میں ایک کے بعد دو سات کمرے ہیں۔ ساتویں کمرہ میں پجاری کا لڑکا آنکھوں پہ پٹی باندھے بیٹھا ایک پتھر کی حفاظت کرتا ہے۔ جب بجلی کڑک کے پتھر پر گرے گی تو اس کے ہزارہا ٹکڑے ہو جائیں گے۔ لیکن پجاری کا لڑکا ان کو سمیٹ کر اکٹھا کرلےگا اور وہ پھر جڑ جائیں گے۔
پہاڑیوں کے اندر ایک درّہ ہے۔ اس کے دونوں طرف ڈھالوں پر چیڑ کے خوشبودار درخت اگے ہوئے ہیں اور ایک راستہ بل کھاتا ہوا خاموش انجان میں کھو جاتا ہے۔ میرے قدم درہ کی طرف اٹھتے ہیں۔ پہاڑیوں کے بیچ سے نکل کر ایک سوکھی ہوئی گم نام ندی وادی میں بہتی ہے۔ ایک پن چکی کے برابر پہاڑ کے دامن میں سات کھیت ہیں۔ دن بھر ان میں مرد اور عورتیں دھان بو رہے تھے۔ سب سے نیچے کے کھیت سے شروع کرکے وہ سب سے اوپر کے کھیت تک پہنچ چکے تھے۔ میں نے سوچا کہ وہ اب بھی دھان بو رہے ہوں گے لیکن اوپر کا کھیت پانی سے بھرا ہوا ہے اور چھ عورتیں اور ایک مرد گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ میں کھڑے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ پر آمادہ ہیں۔ یکایک مرد ایک عورت پہ جھپٹا اور اسے کمر پر اٹھاکر پانی میں پھینک دیا۔ عورتیں مل کراس کی طرف بڑھیں لیکن وہ ان سے ایک ایک کرکے مقابلہ کرتا رہا۔ یہ کھیل بڑی دیر تک جاری رہا۔ وہ ان کو معہ کپڑوں کے پانی میں غوطے دیتا اور وہ کچھ نہ بولتیں۔ میں کھڑا ہوا جنس اور بونے کے موسم کی اس رسم کا تماشا دیکھتا رہا۔
جب میں ٹہل کے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان سب نے میلے کپڑے اتار کے سفید کپڑے پہن لیے ہیں۔ پھر وادی موسیقی کی آواز سے گونجنے لگی۔ بہت سے مرد اور عورتیں اس طرح نمودار ہو گیے جیسے کہ سب پہاڑ سے نکل آئے ہوں۔ وہ جلوس بناکر ایک پگڈنڈی سے پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ ڈھول، مجیروں اور بانسریوں کی آواز فضا میں پھیل گئی اور راگ ایک وحشیانہ وجد سے بھر اناچ کا راگ تھا۔ رگوں میں خون اس طرح رکتا اور پھر بہنے لگتا تھا جیسے جوانی میں مجبوبہ کی ایک جھلک دیکھ لینے پر دل کی حرکت۔
جلوس بل کھاتا ہوا ایک جھونپڑی کے سامنے چبوترہ پر رک گیا۔ جب سب بیٹھ گیے تو موسیقی پھر اٹھکھیلیاں کرنے لگی اور ایک مرد ہاتھ پھیلاکے کولہے مٹکا مٹکاکر اس طرح ناچنے لگا جیسے جنگل میں مورجذبہ میں مست۔ پھر اور لوگ بھی ناچ رنگ میں شریک ہو گیے اور گانے بجانے کی آواز پہاڑوں کی چوٹیوں سے ٹکرانے لگی۔ لیکن اب سائے لمبے ہو چلے اور رات کی آمد ہے اور میں بھی اپنے قید خانہ کی طرف روانہ ہو گیا۔
راستہ میں لیلا کا مکان پڑا اور میں اس سے ملنے ٹھہر گیا۔ اس کے کمرہ میں ایک خاص نسوانی بورچی ہوئی تھی اور میزوں پر کاغذ اور کتابیں پھیلی تھیں۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ وہ خود دوڑتی ہوئی برآمدہ میں سے نمودار ہوئی۔ وہ ایک سادی سفید رنگ کی ساڑی پہنے ہوئے تھی اور بالوں میں سرخ گلاب لگا رکھے تھے۔ اس کی آواز میں ایک لامتناہی درد تھا اور اس کے لہجہ میں نرمی اور محبت۔
’’میں نے تمہارا ڈرامہ پڑھا تھا‘‘ وہ کہنے لگی، ’’اور بےحد پسند آیا۔ میں نے سرلا سے کہا مجھے مصنف سے ملا دو۔ وہ بولی، کیوں، کیا تمہیں اس سے محبت ہو گئی ہے؟ اور میں نے بالکل اسی طرح کہا۔ تم تو مجھے جانتے ہی ہو۔ ہاں۔‘‘ یہ کہہ کراس نے دلربائی سے پہلو بدلا، اپنی خوبصورت نازک انگلیوں کو بل دیے اور اپنی دلفریب آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ اس کی مستی میری روح تک اتر گئی۔
’’ایک مرتبہ تو میں بس پاگل ہی ہو گئی تھی۔ راتوں کی نیند حرام تھی اور اگر آنکھ لگ بھی جاتی تھی تو اٹھتے ہی وحشت اور تنہائی مجھے اپنے پھندوں میں جکڑ لیتے تھے۔ باربار یہی خیال آتا کہ میں پاگل ہو جاؤں گی اور اگر پاگل نہ ہوتی تو ضرور اپنے کو کچھ کر لیتی۔ میرے دماغ کی حالت کچھ ایسی ہو گئی تھی کہ زندگی اجیرن ہو گئی۔ کچھ ایسی ہی بات تھی جو میری جان پر بن گئی۔ میں اس کا تذکرہ نہیں کر سکتی اور نہ اس کا حال کبھی کسی پر کھلےگا۔
لیکن پھر بھی میری اس سے ملاقات ہو گئی۔ وہ دق کا مریض تھا اور میں ہر روز بلاناغاں اس سے ملنے اس نیت سے جاتی کہ مجھے بھی دِق ہو جائے۔ یہ مانا کہ میں بہت ہی بزدل ہوں لیکن خودکشی کی ہمت مجھ میں نہ تھی اور بیماری سے بآسانی کام تمام ہو جاتا۔۔۔ اگر میں اس سے ملنے نہ جاتی تو یقیناً پاگل ہو جاتی۔ میں نے اسی زمانہ میں ایک کتاب پڑھی تھی، ’’فیری رومینس۔‘‘ تم نے تو پڑھی ہوگی۔ نہیں۔ تو ضرور پڑھنا اور بتانا کہ تمہیں کون سے حصے پسند آئے اور جب ہی میں بھی بتاؤں گی کہ مجھے کون کون سے پسند تھے۔ یہ کتاب میں نے اسے بھی پڑھنے کو دی تھی، لیکن اس نے واپس تک نہ کی۔
میں ایک خواب میں رہتی تھی اور ابھی تک ایک خواب میں رہتی ہوں، بڑا پیارا اور دلکش خواب۔ درختوں کی پریاں ہوتی ہیں، ہر درخت ایک پری ہے اور میرے خواب میں سب دوست خاص خاص درختوں سے وابستہ ہو گئے تھے۔ جب تم کتاب پڑھ لوگے تو بتاؤں گی۔ مجھے درختوں سے محبت ہو گئی۔ گھنٹوں بیٹھی ہوئی درختوں کو دیکھا کرتی تھی۔ مجھے اب تک درختوں سے انس ہے۔ مگر اب تو صرف خواب ہی خواب رہ گیا ہے۔ میں بزدل ضرور ہوں، لیکن بتاؤ تو میں کروں بھی تو کیا۔ میں مجبور ہوں۔
لیکن میں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔ میں نے دنیا میں کیا کچھ نہیں دیکھا مگر ہر چیز نے اسی بات پر مجبور کیا کہ میں اپنے خواب ہی میں پناہ لوں۔ اگر میرا خواب نہ ہوتا تو نہ جانے میں کیا کر گزرتی۔ میں سچ مچ مرنا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ابھی تک مجھے کچھ اور نہیں ملا ہے۔ اب بھی صرف اپنے خواب ہی کے لیے زندہ ہوں۔۔۔ نہ جانے میں تم سے یہ باتیں کیوں کر رہی ہوں۔ لیکن تم بڑے فہیم ہو اور میری بات سمجھ جاؤگے۔ تم حسین ہو اور میرے خواب میں ایک اور دوست کا اضافہ ہو گیا۔۔۔‘‘
بڑی دیر تک وہ اسی طرح باتیں کرتی رہی۔ جب میں باہر آیا تو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ الائچی کے درخت مستی سے اپنے سینے پیٹ رہے تھے اور ان کی لاجواب خوشبو ہوا میں بسی ہوئی تھی۔ رات کا جادو دنیا پر پھیل چکا تھا اور تارے جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ خیال میں کھویا ہوا، اپنے خواب میں مقید، میں گھر کی طرف چلا۔ دو سپاہی ایک قیدی کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالے لیے جا رہے تھے اور سات مزدور قطار باندھے ہوئے، سروں پر گیس کے ہنڈے رکھے گاتے جا رہے تھے،
کربان تمہارے اللہ پار لگا دو نیا جان۔۔۔
ان کی آواز ایک ٹیس کی طرح میرے کانوں میں بج رہی تھی۔ جب میں سڑک پر مڑا تو میرا مکان رات کی تاریکی میں چھپا کھڑا تھا اور چند ہی لمحوں میں اس کے اندر دنیا کی مصیبتوں سے محفوظ پر مقید ہو گیا۔
- अहमद-अली
جنوری کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ ایک خاص انداز سے ٹیڑھی رکھی ہوئی، سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔ اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے ’’نو تھینک یو‘‘ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔ راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کیے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گیے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آکے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسب توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی، پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریح طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔ زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
’’پان والا!‘‘
’’جناب!‘‘
’’دس کا چینج ہے؟‘‘
’’ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟‘‘
’’نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟‘‘
’’اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلیے۔ لیں گے کیا آپ؟‘‘
’’نہیں نہیں، ہم خود چینج لائےگا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔‘‘
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آکر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’پور لیٹل سو ل‘‘
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گیے تھے۔ تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شان استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لیے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گیے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔ پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
’’گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟‘‘
’’نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔‘‘
فہرست لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا اور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا، گرم جوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
’’ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟‘‘
’’چودہ سو بتیس روپے ہے۔‘‘
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا، ’’اوہو اتنی۔‘‘
دکاندار نے کہا، ’’آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔‘‘
’’شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔‘‘
’’شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔‘‘
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا، جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی، ’’اوہ سوری‘‘ کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کو ڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔ اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹلا گندھا ہوا تھا جو اس کے کمر سے بھی نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
’’سنو میرا کہنا مانو‘‘ لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا، ’’ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔‘‘
’’نہیں، نہیں، نہیں۔‘‘
’’میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہوگی۔‘‘
لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔
’’تمہارے باپ کو کتنا رنج ہوگا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔‘‘
’’چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔‘‘
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گیے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گیے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آ گیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔ اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گیے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا، ’’کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بےچارہ۔‘‘
گل دبی آواز میں بولی، ’’خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بےچارہ ہفتے کی شام منانے۔‘‘
’’ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟‘‘
’’نہیں بھاگ گیا۔‘‘
’’کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مرمر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا، اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بےجان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں : ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا آدھاسگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔ نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دیے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔ افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا اور لوگ خود کو گرم کرنے کے لیے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔ اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے ’’نو تھینک یو‘‘ کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔ راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کیے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سے چلے گیے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی اور وہ اس پر آکے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں تاکہ جسموں کا قرب حاصل ہو۔ حصولِ لذت کی یہی جستجو لوگوں کو مال پر کھینچ لائی تھی اور وہ حسب توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی، پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریح طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔ زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
’’پان والا!‘‘
’’جناب!‘‘
’’دس کا چینج ہے؟‘‘
’’ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟‘‘
’’نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟‘‘
’’اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلیے۔ لیں گے کیا آپ؟‘‘
’’نہیں نہیں، ہم خود چینج لائےگا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔‘‘
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔ ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آکر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’پور لیٹل سو ل‘‘
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گیے تھے۔ تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شان استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہر نکل آیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لیے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گیے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔ پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
’’گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟‘‘
’’نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔‘‘
فہرست لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا اور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا، گرم جوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
’’ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی؟‘‘
’’چودہ سو بتیس روپے ہے۔‘‘
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا، ’’اوہو اتنی۔‘‘
دکاندار نے کہا، ’’آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔‘‘
’’شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔‘‘
’’شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔‘‘
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا، جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی، ’’اوہ سوری‘‘ کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کو ڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔ اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹلا گندھا ہوا تھا جو اس کے کمر سے بھی نیچا تھا۔ لڑکی کے چلنے سے اس چٹلے کا پھندنا اچھلتا کودتا پے درپے اس کے فربہ جسم سے ٹکراتا تھا۔ نوجوان کے لئے جو اب ان کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔ وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش چلتا رہا۔ اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا جس کے جواب میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
’’سنو میرا کہنا مانو‘‘ لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا، ’’ڈاکٹر میرا دوست ہے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔‘‘
’’نہیں، نہیں، نہیں۔‘‘
’’میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہ ہوگی۔‘‘
لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔
’’تمہارے باپ کو کتنا رنج ہوگا۔ ذرا ان کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔‘‘
’’چپ رہو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی۔‘‘
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی اور بھی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گیے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اسے کچھ لمحے رک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گیے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آ گیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔ اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گیے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا، ’’کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بےچارہ۔‘‘
گل دبی آواز میں بولی، ’’خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بےچارہ ہفتے کی شام منانے۔‘‘
’’ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟‘‘
’’نہیں بھاگ گیا۔‘‘
’’کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مرمر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا، اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اور زبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی۔۔۔اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ بلا شبہ اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بےجان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں : ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا آدھاسگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔ نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دیے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔ افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران میں کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔
- ग़ुलाम-अब्बास
عمدہ قسم کا سیاہ رنگ کا چمک دار جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلنے کا اصل لطف تو جناب جب ہے جب منہ میں پان بھی ہو، تمباکو کے مزے لیتے ہوئے جوتے پر نظر ڈالتے ہوئے بید ہلاتے جا رہے ہیں۔ یہی سوچ کر میں جلدی جلدی چلتے گھر سے دوڑا۔ جلدی میں پان بھی خود بنایا۔ اب دیکھتا ہوں تو چھالیہ ندارد۔ میں نے خانم کو آواز دی کہ چھالیہ لانا اور انہوں نے استانی جی کو پکارا۔ استانی جی نے واپس مجھے پکارا کہ وہ سامنے طاق میں رکھی ہے۔
میں دوڑا ہوا پہنچا۔ ایک رکابی میں کٹی اور بےکٹی یعنی ثابت چھالیہ رکھی ہوئی تھی۔ سروتا بھی رکھا ہوا تھا اور سب سے تعجب کی بات یہ کہ شطرنج کا ایک رخ بھی چھالیہ کے ساتھ کٹا رکھا تھا۔ اس کے تین ٹکڑے تھے۔ ایک تو آدھا اور دو پاؤ پاؤ۔ صاف ظاہر ہے کہ چھالیہ کے دھوکے میں کترا گیا ہے، مگر یہاں کدھر سے آیا۔ غصہ اور رنج تو گمشدگی کا ویسے ہی تھا۔ اب رخ کی حالت زار جو دیکھی تو میرا وہی حال ہوا جو علی بابا کا قاسم کی لاش کو دیکھ کر ہوا تھا۔ خانم کے سامنے جا کر رکابی جوں کی توں رکھ دی۔ خانم نے بھویں چڑھا کر دیکھا اور یک دم ان کے خوبصورت چہرے پر تعجب خیز مسکراہٹ سی آ کر رک گئی اور انہوں نے مصنوعی تعجب سے استانی جی کی طرف رکابی کرتے ہوئے دیکھا۔ استانی جی نے ایک دم سے بھویں چڑھا کر دانتوں تلے زبان داب کے آنکھیں پھاڑ دیں، پھر سنجیدہ ہو کر بولیں،
’’جب ہی تو میں کہوں یا اللہ اتنی مضبوط اور سخت چھالیہ کہاں سے آ گئی۔ کل رات اندھیرے میں کٹ گیا۔ جب سے رکابی جوں کی توں وہیں رکھی ہے۔‘‘
’’اجی یہ یہاں آیا کیسے؟‘‘ میں نے تیز ہوکر کہا۔ استانی جی نے چوروں کی طرح خانم کی طرف دیکھ کے کہا، ’’خدا جانے کہاں سے آیا۔۔۔ میں۔۔۔‘‘
’’میں خوب جانتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر غصہ سے میں نے خانم کی طرف دیکھا اور زور سے کہا، ’’ہنستی کیوں ہو؟ میں خوب جانتا ہوں۔۔۔ ان باتوں سے کیا فائدہ؟‘‘
ادھر وہ ہنس پڑیں اور ادھر دروازے سے استانی جی کا لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ میری جان ہی تو جل گئی اور میں نے یہ کہہ کر کہ ’’اسی موذی کی شرارت ہے۔‘‘ لڑکے کا کالر پکڑ کر دو تین بید ایسے جمائے کہ مزہ آ گیا۔ یہ بید گویا خانم کے لگے۔ دوڑ کر انہوں نے بید پکڑنے کی کوشش کی اور روکنا چاہا مگر میں نے مارنا بند نہ کیا۔ میں مار رہا تھا اور خانم کہہ رہی تھی، ’’اس کی کوئی خطا نہیں۔‘‘ مگر میں غصہ میں دیوانہ ہو رہا تھا اور مارے ہی گیا حتیٰ کہ نوبت بایں جا رسید کہ خانم نے بید پکڑ کر کہا، ’’تم مجھے مار لو مگر اسے نہ مارو۔‘‘ مگر مجھے غصہ ہی بے حد تھا۔ میں نے بید چھڑا لیا اور وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں۔ میں غصہ میں کانپتا ہوا باہر چلا آیا۔
میرا غصہ حق بجانب تھا یا نہیں۔ ناظرین خود انصاف کریں۔ شطرنج کا شوق ہوا تو ہاتھی دانت کے مہرے منگائے۔ یہ مہرے نہایت ہی نازک اور خوبصورت تھے اور خان صاحب نے دو ہی دن میں سب کی چوٹیاں توڑ کر ہفتہ بھر کے اندر ہی اندر تمام مہرے برابر کر دیے تھے۔ خان صاحب نہ میز پر کھیلتے تھے اور نہ فرش پر، وہ کہتے تھے کہ شطرنج تخت پر ہوتی ہے تاکہ زور سے مہرہ پر مہرہ مارنے کی آواز آئے۔ اس کے بعد پھر بنارسی مہرے منگائے۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت، نہایت ہی سادہ اور سبک مہرے تھے کہ بس دیکھا کیجئے۔ ہفتہ بھر مشکل سے ان مہروں سے کھیلنے پائے ہوں گے کہ سفید بازی کا ایک پیدل خان صاحب کے سال بھر کے بچے نے کھا لیا۔ بہت کچھ اس کے حلق میں خان صاحب نے انگلیاں گھنگھولیں۔ چت لٹایا، جھنجھوڑا، پیٹھ پر دھموکے دیے، مگر وہ ظالم اسے پار ہی کر گیا۔
سفید بازی چونکہ خان صاحب لیتے تھے لہذا پیدل کی جگہ اپنی انگوٹھی رکھ دیتے، پیدل پٹ جاتا تو اس کو رکھ لیتے لیکن اس کے بعد ہی جلد لال بازی کا بادشاہ کھو گیا۔ بہت ڈھونڈا، تلاش کیا مگر بےسود۔ اس کی جگہ دو ایک روز دیا سلائی کا بکس رکھا، پھر ایک روز مناسب عطر کی خالی شیشی مل گئی۔ وہ شاہ شطرنج کا کام دیتی رہی کہ اس کے بعد ہی لال بازی کا فیل اور سفید کا ایک گھوڑا غائب ہو گیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے اور پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ہو نہ ہو مہرے ’’آپ کے گھر میں‘‘ سے چروائے جاتے ہیں مگر میں یہی کہہ دیتا کہ یہ ناممکن ہے۔ انہیں بھلا اس سے کیا مطلب۔ بہتیرا وہ مجھے یقین دلاتے سر مارتے کہ سوائے ان کے کوئی نہیں، مگر مجھے یقین ہی نہ آتا۔
خان صاحب کہتے تھے ’’عورتوں کو شطرنج سے بغض ہوتا ہے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ خانم میری شطرنج بازی کے خلاف تو تھیں اور بہت خلاف تھیں، مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس طرح مخل ہو سکتی ہیں، غرض ان مہروں کے بعد ہی رام پور سے خان صاحب نے منڈے مہرے امرود کی لکڑی کے منگوا دیے۔ رام پور کے بہتر، عمدہ، خوبصورت اور ساتھ ہی ساتھ مضبوط مہرے ہونا ناممکن ہیں۔ ابھی چار روز بھی آئے نہ ہوئے تھے کہ یہ واقعہ ہوا۔ یعنی استانی جی نے چھالیا کے ساتھ اس نئی شطرنج کا رخ کتر ڈالا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میں نے اس واقعہ کا ذکر سب سے پہلے خان صاحب سے کیا۔ انہوں نے بائیں طرف کی ڈاڑھی کا چھبو جو ذرا نیچے آ گیا تھا خوب اوپر چڑھاتے ہوئے اور آنکھیں جھپکا کر اپنی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا، ’’میں نہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب کہ ہو نہ ہو یہ آپ کے ’’گھر میں‘‘ ہی ہیں۔۔۔ اجی صاحب یہاں اللہ بخشے مرنے والی (پہلی بیوی) سے دن رات جوتی پیزار ہوتی رہتی تھی۔ پھر اس کے بعد اب اس سے بھی دو تین مرتبہ زور کے ساتھ چائیں چائیں ہو چکی ہے اور ہوتی رہتی ہے مگر میں شطرنج کے معاملہ میں ذرا سخت ہوں۔ گھر والی کو سونے کا نوالہ کھلائے، مگر وہ جو کہے کہ شطرنج نہ کھیلو تو بس اسے کھا ہی جائے۔۔۔ جب جا کے کہیں شطرنج کھیلنی ملتی ہے۔ ورنہ یہ سمجھ لیجیے کہ آئے دن کے جھگڑے رہیں گے اور شطرنج کھیلنی دوبھر ہو جائےگی۔ ویسے آپ کا مزاج۔۔۔ میں تو کچھ کہتا نہیں۔‘‘
میں نے سوچا خان صاحب واقعی سچ کہتے ہیں۔۔۔ مگر اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ خان صاحب بولے، ’’ابھی کوئی سترہ برس کا ذکر ہے کہ مرنے والی لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ وہ پان نہیں بھیجتی تھی۔ ذرا غور تو کیجیے کہ ہم تو باہر شطرنج کھیل رہے ہیں۔ یہ صاحب بیٹھے ہیں اور پان ندارد! خدا بخشے کسی معاملہ میں نہیں دبتی تھی۔ ہاں تو۔۔۔ کوئی سترہ برس ہوئے وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ خوب چھنی۔ بڑی مشکل سے رام کیا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
خان صاحب نے سر ہلا کر ایسا جواب دیا جیسے شاید ڈیوک آف ویلنگٹن نے نپولین کو شکست دے کر وزیر اعظم سے کہا ہوگا، ’’آپ بتائیے۔۔۔ پہلے آپ بتائیے۔ سنئے۔۔۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ بیگم صاحب یہ لو اپنا پانچ روپے کا مہر اور گھر کی راہ لو۔ بندہ تو شطرنج کھیلےگا۔۔۔ پر کھیلےگا۔۔۔ پان بناؤ تو بناؤ، نہیں تو گاڑی بڑھاؤ اور چلتی پھرتی نظر آؤ۔ آخر جھک مار کر بنانا پڑے، اور وہی مثل رہی۔
پانڈے جی پچھتائیں گے
وہی چنے کی کھائیں گے
تو بات یہ ہے۔۔۔ مرزا صاحب بات یہ ہے کہ عورت ذات ذرا شطرنج کے خلاف ہوتی ہے اور ذرا کمزوری دکھائی اور سر پر سوار۔ خان صاحب نے اپنے بائیں ہاتھ کی کلمے کی انگلی پر داہنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو سوار کرتے ہوئے کہا۔ اب میں یہ لیکچر سن کر ترکیب سوچ رہا تھا کہ کیا کروں۔ جو کہوں کہ اپنا راستہ دیکھو تو خانم سیدھی طوفان میل سے گھر پہنچےگی۔ ایک لمحہ نہیں رکےگی۔ گھر پر جی نہیں لگےگا۔ تار الگ دینے پڑیں گے اور ہفتہ بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد ہی لانا ہی پڑےگا۔‘‘
خان صاحب نے کہا، ’’چلی جانے دیجئے۔ جھک مار کر پھر آخر کو خود ہی آئیں گی۔ مہینہ، دو مہینہ، تین مہینہ آخر کتنے دن نہ آئیں گی۔‘‘ میں نے دل میں کہا کہ یہ علت ہے اور خان صاحب سے کہا کہ ’’مگر مجھے تکلیف ہو جائےگی۔‘‘
’’آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔‘‘ خان صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا، ’’آپ شطرنج نہیں کھیل سکتے۔۔۔ لکھ لیجیے کہ آپ کے ’’گھر میں‘‘ آپ کا شطرنج کھیلنا سولی کر دیں گی۔ آپ نہیں کھیل سکتے۔۔۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘
خان صاحب بولے، ’’لکھ لیجیے۔۔۔ بندہ خاں کی بات یاد رکھئےگا لکھ لیجئے۔۔۔‘‘
’’آخر کیوں لکھ لوں؟ کوئی وجہ؟‘‘
’’وجہ یہ!‘‘ خان صاحب نے اپنی داہنے ہاتھ کی مٹھی زور سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مار کر کہا، ’’وجہ یہ کہ معاف کیجئےگا آپ زن مرید ہیں۔۔۔ زن مرید۔۔۔! جدھر وہ جائیں گی ادھر آپ۔۔۔ (انگلی گھما کر نقل بناتے ہوئے) ’’ہائے جورو! ہائے جورو! ایسے کہیں شطرنج کھیلی جاتی ہے۔ لاحول ولا قوۃ۔‘‘ میں نے طے کر لیا کہ خانم سے اس بارے میں قطعی سخت لڑائی ہوگی۔ میں نہیں دبوں گا۔ یہ میرا شوق ہے، شوق۔ انہیں ماننا پڑےگا۔
(۲)
تین چار روز تک خانم سے سخت ترین جنگ رہی، یعنی خاموش جنگ، ادھر وہ چپ ادھر میں چپ۔ خانم کی مددگار استانی اور میرے مددگار خان صاحب۔ پانچویں دن یہ شطرنج دوبھر معلو م ہونے لگی۔ میری سپاہ کمزوری دکھا رہی تھی۔ جی تھا کہ الٹا آتا تھا۔ خاموش جنگ سے خدا محفوظ رکھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے گیس کی لڑائی ہو رہی ہے۔ غنیم کا گیس دم گھوٹے دیتا تھا۔ خان صاحب طرح طرح کے حملے تجویز کرتے تھے، مگر جناب اس گیس کی لڑائی میں کوئی تدبیر نہ چلتی تھی۔ خان صاحب ماہر فنون تھے مگر جرمن گیس کا جواب توپ اور بندوق نہیں دے سکتی۔ یہ انہیں معلوم نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پرانے زمانے کی لڑائیاں لڑے ہوئے بیچارے کیا جانیں کہ خاموشی کا گیس کیا بلا ہوتی ہے۔ میری کمزوری پر دانت پیستے تھے، کہتے تھے، ’’نہ ہوا میں۔۔۔ دکھا دیتا۔‘‘
خان صاحب اول تو خود جنگی آدمی اور پھر جنرل بھی اچھے، مگر جناب سپاہی ہمت ہار جائے تو جنرل کیا کرے۔ چھ دن گزر گئے اور اب میں جنگ مغلوبہ لڑ رہا تھا۔ بہت ہمت کی، بہت کوشش کی، مگر ہار ہی گیا۔ شرائط صلح بھی بہت خراب تھی۔ شاید معاہدہ ورسیلز جس طرح ترکوں کے لئے ناقابل پذیرائی تھا، اسی طرح میرے لیے بھی شرائط ضرورت سے زیادہ سخت تھیں، مگر بقول ’’بزور شمشیر و بنوک سنگین‘‘ مجھ کو مجبوراً صلح نامہ پر دستخط کرنا پڑے اور صلح نامہ کی سخت شرائط ذرا ملاحظہ ہوں؛
(۱) خان صاحب سے تمام تعلقات دوستی منقطع کر دوں گا، وہ گھر پر آئیں گے تو کہلوا دوں گا کہ نہیں ہوں۔ ویسے حصہ وغیرہ ان کے یہاں جائےگا اور آئےگا۔
(۲) شطرنج کھیلنا بالکل بند۔ اب کبھی شطرنج نہیں کھیلوں گا۔ خصوصاً رات کو تو کھیلوں گا ہی نہیں۔
(۳) شطرنج کے علاوہ تاش بھی نہیں کھیلوں گا۔ سوائے اتوار کے، رات کو وہ بھی نہیں۔
(۴) رات کو دیر کر کے آنا شطرنج کھیلتے رہ جانے کے برابر متصور ہوگا۔ کوئی ثبوت لیے بغیر تصور کر لیا جائےگا کہ شطرنج کھیلی گئی۔ کوئی عذر تسلیم نہ کیا جائےگا۔
پانچویں اور چھٹی شرط میں خود بیان کرنا پسند نہیں کرتا۔
ساتویں شرط یہ تھی کہ اس معاہدہ کی پابندی نہ کی گئی تو ’’تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔‘‘
خان صاحب سے میں نے اپنی شکست اور شرائط صلح کا ذکر صاف صاف نہیں کیا مگر اتنا ضرور تسلیم کیا کہ مہرے برابر استانی جی کے لڑکے سے چروائے جاتے رہے۔ پھر صلح کا ذکر کیا اور اس کے بعد کچھ روز کے لیے مصلحتاً شطرنج کھیلنا بند کرنے کا ذکر کیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے۔ دانت نکال کر انہوں نے ران پر ہاتھ مار کر پہلے تو دنیا بھر کی لڑاکا بیویوں کو گالیاں دیں اور پھر کہا، ’’میاں لمڈے ہو۔ مجھ سے باتیں بنانے آئے ہو۔ بیوی کی جوتیاں کھا رہے ہو! شطرنج کھیلیں گے۔۔۔ یہ شطرنج ہے! ہونہہ۔۔۔ میں نہ کہتا تھا۔۔۔ میری بلا سے۔ تم جانو تمہارا کام، مگر لکھ لو ایک دن سر پکڑ کر روؤگے۔۔۔ گھر والی کو اتنا سر پر نہیں چڑھاتے۔۔۔ تم جانو تمہارا کام۔۔۔ جب کبھی ملاقات ہوئی علیک سلیک کر لی۔ بس لکھ لو۔۔۔‘‘
خان صاحب کی گفتگو سے کچھ پھریری سی آئی۔ گھر میں آیا تو خانم کو پھول کی طرح کھلا ہوا پایا۔ لاحول ولا قوۃ۔
شطرنج جائے چولھے میں۔ اتنی اچھی بیوی سے شطرنج کے پیچھے لڑنا حماقت ہے۔ کون لڑے۔ گول کرو۔
کسی نے سچ کہا ہے چور چوری سے جائے تو کیا ہیرا پھیری بھی چھوڑ دے۔ لگے ہاتھوں ادھر ادھر کبھی کبھار ایک دو بازیاں جم ہی جاتیں۔ کبھی خان صاحب کے یہاں پہنچ گیا تو کبھی میر صاحب کے یہاں۔ پھر بات چھپی نہیں رہتی۔ خانم کو بھی معلوم ہو گیا کہ کبھی کبھار میں کوئی جرم نہیں۔ خود خانم نے ہی کہا۔ میرا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ قسم کھانے کو بھی نہ کھیلو، کھیلو، شوق سے کھیلو، مگر ایسے کھیلو کہ کبھی کبھار ایک دو بازی وقت پر کھیل لیے، نہ یہ کہ یہ کہ جم گئے تو اٹھتے ہی نہیں۔
خانم کو نہیں معلوم کہ ’’کبھی کبھار‘‘ سے اور شطرنج سے باپ مارے کا بیر ہے۔ کبھی کبھار والا بھلا کھیلنے والے کے آگے کیا جمے؟ جو لوگ مجھ سے آٹھ آٹھ ماتیں کھاتے تھے وہ الٹی مجھے آٹھ آٹھ پلانے لگے۔ دو ایک روز پھر ایسا ہوا کہ قدرے قلیل دیر سے آنا پڑا۔ خانم نے کبھی ناک بھویں سکیڑیں، کبھی ذرا چیں بہ جبیں ہوئیں، لیکن کبھی چپقلش کی نوبت نہ آئی، بس بڑبڑا کر رہ گئیں۔ ’’پھر وہی شطرنج بازی۔۔۔ خان صاحب کے ساتھ۔۔۔ پھر کھیلنے لگے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض اسی قسم کے جملوں تک خیریت گزری۔
(۳)
ایک روز کا ذکر ہے کہ خانم نے بزاز سے بمبئی کے کام کی عمدہ عمدہ ساڑیاں منگائی تھیں۔ ایک ساڑی بےحد پسند تھی، مگر جیب میں اتنے دام نہیں۔ بار بار بےچین ہو کر وہی پسند آتی، مگر میرے پاس بھلا اتنے دام کہاں۔ کیسی اچھی ہے۔۔۔ رنگ تو دیکھو۔۔۔ بیل! کیا کام ہو رہا ہے۔۔۔ اور پھر کپڑا۔۔۔ وہ جو میں دلا رہا تھا، اس کو طرح طرح سے گھما پھرا کر اس طرح مہنگا ثابت کیا گیا کہ سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔ ایسے موقع پر غریب شوہر کے کلیجہ پر ایک گھونسا لگتا۔ دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ ’’ظالم تجھے کیا خبر میرا بس چلے تو جہان لے دوں مگر کیا کروں۔ بیوی بھی بے بسی کو دیکھتی ہے۔ مجبوری کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک سانس لے کر چپ سی ہو جاتی ہے۔ مرد کے لئے شائد اس سے زیادہ کوئی تکلیف دہ چیز نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دفعہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہ کرے اور کہیں نہ کہیں سے روپیہ پیدا کرے۔ اپنی چہیتی کا کہنا کر دے مگر وہاں تو یہ حال ہے کہ آج ساڑی کا قصہ ہے تو کل جمپر کا اور آج یہ چیز ہے تو کل وہ چیز۔ کہاں تک کرے۔ بیوی بیچاری بھی کچھ مجبور نہیں کرتی مگر اس کی آنکھیں مجبور ہیں۔ زبان قابو میں ہے، مگر دل قابو میں نہیں۔ عمر کا تقاضا ہے، کیا اس سے بھی گئی گزری۔
غرض ایسا ہی موقع آیا۔ پسند کردہ ساڑھی نہ لی جا سکتی تھی اور نہ لینے کی طاقت تھی۔ مجبوراً ایک دوسری پسند کی گئی تھی اور دام لے کر میں خود جا رہا تھا کہ کچھ نہیں تو دس پانچ روپیہ اسی میں کم کر دے اور اگر آدھے داموں میں دے دے تو پھر بڑھیا والی ہی لیتا آؤں۔ چلتے وقت خانم نے کہا، ’’دیکھئے ادھر سے جائیےگا۔ ادھر سے ہو کر۔‘‘ انگلی کے اشارہ سے کہا۔ اس سے یہ مطلب تھا کہ دوسری سڑک سے یعنی خان صاحب کے گھر سے بچتے ہوئے کہ شطرنج نہ کھیلنے لگوں۔ میرا ارادہ شطرنج کا نہ تھا۔ میں نے ہنس کر کہا، ’’اب ایسا دیوانہ بھی نہیں کہ کام سے جا رہا ہوں اور چھوڑ چھاڑ شطرنج پر ڈٹ جاؤں۔‘‘ خان صاحب کی بیٹھک کے سامنے سے گزرا تو دیکھوں کہ کچھ بھیڑ بھڑکا ہے۔ جی نہ مانا، رفتار کچھ ہلکی ہی تھی۔ آواز سن کر خان صاحب ننگے پیر چوکھٹ پر کھڑے ہو کر چلائے، ’’اجی مرزا صاحب‘‘ اونگھتے کو ٹھیلنے کا بہانہ، سائکل کا انجن روک دیا اور اتر پڑا۔
’’دور ہی دور سے چلے جاؤگے۔ ایسا بھی کیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے ہاتھ پکڑ کر مونڈھے پر بٹھایا۔ ایک نئے شاطر آئے ہوئے تھے۔ دو یا تین ماتیں میر صاحب کو دے چکے تھے۔ اب ایک اور صاحب ڈٹے ہوئے تھے۔ بڑے زور کی بازی ہو رہی تھی۔ دونوں بازیاں برابر کی تھیں۔ گزشہ بازیوں کی خان صاحب نے تفصیل سنائی۔ میر صاحب نے بتایا کہ کس طرح پہلی بازی میں خان صاحب نے ایک غلط چال بتا کر ان کا گھوڑا پٹوا دیا اور پھر کس طرح دھوکہ میں خود انہوں نے اپنا رخ پیدل کے منہ میں رکھ دیا۔ ورنہ وہ بازی میر صاحب ضرور جیت جاتے بلکہ جیت ہی گئے تھے۔ کیونکہ قلعہ دشمن کا توڑ ہی دیا تھا اور بادشاہ زچ بیٹھا تھا۔ بس ایک گھوڑے کی شہ کی دیر تھی کہ غلطی سے پیدل کے منہ میں رخ رکھ دیا۔ ورنہ گھوڑا کم ہونے پر بھی انہوں نے مات کر دی ہوتی۔ نئے شاطر نے کچھ اس کی تردید کی، وہ دراصل کافی دیر کرتے مگر مجبوری تھی اور کھیل میں منہمک تھے۔ دوسری بازی کی تفصیل بھی میر صاحب سنانا چاہتے تھے کہ کن غیر معمولی وجوہات سے اتفاقاً یہ بازی بھی بگڑ گئی، مگر اب موجودہ کھیل زیادہ دلچسپ ہوا جا رہا تھا۔
بازی بہت جلد ختم ہو گئی اور نئے شاطر پھر جیتے۔ میں خان صاحب سے یہ کہتا ہوا ا ٹھا کہ ’’ابھی آیا کچھ کپڑا لے آؤں۔‘‘ خان صاحب نے بڑے پختہ وعدے لیے جب جا کر چھوڑا۔ کپڑے والے کی دکان پر پہنچا اور ساڑھی خریدی۔ دام نقد ہی دے دیے۔ لالہ صاحب بہت معقول آدمی تھے اور بقول ان کے تمام کپڑے مجھے دام کے دام پہ دے دیتے تھے۔ دکان سے ساڑھی لے کر واپس آیا اور خان صاحب کے یہاں شطرنج دیکھنے لگا۔ بڑے کانٹے کی شطرنج کٹ رہی تھی۔ کیونکہ میر صاحب نے ان نو وارد شاطر کو ایک مات دی تھی اور اب دوسری بازی بھی چڑھی ہوئی تھی۔
میرے بتانے پر نو وارد صاحب نے بھنا کر میری طرف دیکھا اور کہا، ’’بولنے کی نہیں ہے صاحب۔‘‘ خان صاحب تیز ہو کر بولے، ’’میر صاحب کیا اندھے ہیں؟ کیا انہیں اتنا نہیں دکھائی دیتا کہ مہرہ پٹ رہا ہے۔ کیا وہ ایسے اناڑی ہیں؟‘‘
’’آپ اور بھی بتائے دیتے ہیں‘‘ نو وارد نے کہا۔ ادھر صاحب واقعی اندھے ہو رہے تھے اور اگر خان صاحب نہ بولتے تو گھوڑا مفت پٹ گیا ہوتا۔ وہ گھوڑے کو پٹتا چھوڑ کر رخ چل رہے تھے۔ اب رخ کی چال واپس کر کے انہوں نے گھوڑا پکڑا۔
’’چال ہو گئی۔‘‘ نووارد نے بگڑ کر کہا۔ ’’چال کی واپسی نہیں۔‘‘
میر صاحب جل کر بولے، ’’جھوٹی موٹی تھوڑی ہو رہا ہے۔ شطرنج ہو رہی ہے۔ چال کی واپسی کی برابر نہیں، مگر میں نے چال بھی تو نہیں چلی۔ میں نے رخ کو چھوا اور چال ہو گئی؟ یہ کیا۔۔۔؟ روتے ہو۔۔۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ نووارد نے کہا۔ ’’چال ہو گئی آپ کو رخ وہی رکھنا پڑےگا۔ میں چال واپس نہیں دوں گا۔ یہ کہہ کر رخ اٹھا کر اس جگہ رکھ لیا اور میر صاحب نے پھر واپس رکھ لیا۔ تیز ہو کر نووارد نے جھنجھلا کر کہا، ’’جی نہیں چلنا پڑےگا۔‘‘ اور پھر اپنی چال بھی چال دی۔ یعنی رخ سے میر صاحب کا گھوڑا مار مٹھی میں مضبوط پکڑ لیا۔ میر صاحب نے اور خان صاحب نے ہلڑ سا مچایا۔ میر صاحب کو جو تاؤ آیا تو گھوڑے کو رخ سے مار دیا۔ نووارد نے رخ کو رخ سے مارا تو خان صاحب نے غصہ میں اپنے وزیر سے مخالف کے فیل کو دیدہ و دانستہ مار کر وزیر پٹاکر مہرے بساط پر یہ کہہ کر پٹک دیئے ’’شطرنج کھیلتے ہو کہ روتے ہو؟ یہ لو میں ایسے اناڑیوں سے نہیں کھیلتا۔‘‘
اب میں بیٹھا، مگر نہ میر صاحب کی زبان قابو میں تھی اور نہ خان صاحب کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میر صاحب میرے مہرے اٹھا اٹھا کر چلنے لگے۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام، وہ مضمون اس بازی کا ہوا۔ شیخ جی (نووارد) ویسے بھی اچھی شطرنج کھیلتے تھے، بازی بگڑنے لگی کہ میر صاحب نے پھر ایک چال واپس کی۔ شیخ جی نے ہاتھ پکڑ لیا حالانکہ میر صاحب چال چل چکے تھے، مگر کہنے لگے کہ ’’ابھی تو مہرہ میرے ہاتھ میں تھا۔‘‘ خوب خوب جھائیں جھائیں ہوئی۔ شیخ جی مہرہ پھینک کر بگڑ کھڑے ہوئے، نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ جی بھاگ گئے۔ میں بھی اٹھنے کو ہوا تو میر صاحب نے کہا کہ ’’آو ایک بازی ہو جائے۔‘‘ میں نے گھڑی دیکھی۔ ابھی تو شام ہی تھی، میں نے جلدی جلدی مہرے جمائے کہ لاؤ ایک بازی کھیل لوں۔
میر صاحب روز کے کھیلنے والے، جھٹ پٹ انہوں نے مات کر دیا۔ میں نے جلدی سے دوسری بچھائی۔ وقت کی بات میر صاحب نے وہ بھی مات کیا۔ تیسری بچھائی، یہ دیر تک لڑی۔ میری بازی چڑھی ہوئی تھی اور میں ضرور جیت جاتا کہ میرا وزیر دھوکہ میں پٹ گیا۔ چال واپس کی ٹھہری نہیں تھی۔ یہ بھی میر صاحب جیتے۔ خوش ہو کر کہنے لگے، ’’اب تم سے کیا کھیلیں، ہماری شطرنج خراب ہوتی ہے۔ کوئی برابر والا ہو تو ایک بات تھی۔‘‘
مجھے غصہ آ رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’میر صاحب وہ دن بھول گئے۔ جب چار چار مات دیتا تھا اور ایک نہیں گنتا تھا۔ میری شطرنج چھوٹی ہوئی ہے۔‘‘ میر صاحب نے اور میری جان جلائی کہنے لگے، ’’ہار جاتے ہیں تو سب یوں ہی کہتے ہیں۔‘‘ غرض پھر ہونے لگی، اب میں جیتا۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ تینوں بازیاں اتار دوں اور میں نے دو اتار دیں اور تیسری زور سے جمی ہوئی تھی کہ خان صاحب نے سر اٹھا کر باہر جھانکا، ’’کون ہے؟‘‘ انہوں نے کہا اور سارس کی سی گردن اونچی کر کے دیکھا اور کہا، ’’لیجیے۔‘‘ کچھ طنزاً کہا۔ ’’لیجئے وہ ایلچی آ گیا۔‘‘
یہ میرا ملازم احمد تھا۔ وہ جا رہا تھا۔ میں نے آواز دے کر بلایا، ’’کیوں کیسے آئے۔‘‘
’’کچھ نہیں صاحب۔۔۔ دیکھنے بھیجا تھا۔‘‘
’’اور کچھ کہا تھا؟‘‘
’’جی نہیں بس یہی کہا تھا کہ دیکھ کے چلے آنا۔۔۔ جلدی سے۔‘‘
’’تو دیکھو‘‘ میں نے کہا۔ ’’کہا کہو گے جا کے؟ یہ کہنا کہ خان صاحب کے یہاں نہیں تھے۔ یوسف صاحب کے یہاں تھے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ تم سے تو یہی کہا ہے کہ خان صاحب کے یہاں دیکھ لینا۔۔۔ تو بس یہی کہہ دینا نہیں تھے۔۔۔ دیکھو۔۔۔‘‘
’’لا حول ولا قوۃ۔‘‘ خان صاحب نے بگڑ کر کہا۔ ’’ارے میاں تم آدمی ہو کہ پنج شاخہ! بیوی نہ ہوئی نعوذ باللہ وہ ہو گئی۔‘‘ نہیں جی۔ ’’خان صاحب نے غصہ سے احمد سے کہا، ’’جاؤ کہنا خان کے یہاں بیٹھے شطرنج کھیل رہے ہیں اور ایسے ہی کھیلیں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں دیکھو۔۔۔‘‘ میں نے کہا مگر خان صاحب نے جملہ کاٹ دیا۔
’’جاؤ یہاں سے کہہ دینا شطرنج کھیل رہے ہیں۔‘‘
’’مت کہنا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ابھی آتا ہوں۔‘‘
احمد چلا گیا اور اب خان صاحب نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ بہت سی انہوں نے تجویزیں میرے سامنے پیش کیں، مثلاً یہ کہ ’’میں ڈوب مروں۔۔۔ دوسری شادی کر لوں۔۔۔ گھر چھوڑ دوں۔۔۔ یہ سب محض اس وجہ سے کہ ایسی زندگی سے کہ بیوی کی سخت گیری کی وجہ سے شطرنج کھیلنا نہ ملے، موت سے بدرجہا بہتر۔ غرض اسی حجت اور بحث میں میرا ایک رخ پٹ گیا اور میری بازی بگڑنے لگی کہ میں نے میر صاحب کا وزیر مار لیا۔ میر صاحب غصہ ہو کر پھاند پڑے، ’’ادھر لاؤ وزیر۔۔۔ ہاتھ سے وزیر چھینتے ہو۔ ابھی تو میرے ہاتھ میں ہی تھا۔‘‘
’’اس کی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’وزیر واپس نہیں دوں گا۔ ابھی ابھی تم نے مجھ سے گھوڑے والا پیدل زبردستی چلوا لیا تھا اور اب اپنی دفعہ یوں کہتے ہو! میں نہیں دوں گا۔‘‘
خان صاحب بھی میر صاحب کی طرف داری کرنے لگے۔ مگر یہ آخری بازی تھی جس سے میں برابر ہوا جا رہا تھا، لہذا میں نے کہا کہ میں ہرگز ہرگز چال واپس نہ دوں گا۔ خوب خوب حجت ہوئی، گزشتہ پرانی بازیوں کا ذکر کیا گیا۔ مجھے ان سے شکایت تھی کہ پرانی ماتیں جو میں نے ان کو دی تھیں وہ بھول گئے اور یہی شکایت ان کو مجھ سے تھی۔ پرانی ماتوں کا نہ میں نے اقبال کیا اور نہ انہوں نے۔ بالاخر جب یہ طے ہو گیا کہ میں وزیر واپس نہیں دوں گا تو میر صاحب نے مہرے پھینک کر قسم کھائی کہ اب مجھ سے کبھی نہ کھیلیں گے، لعنت ہے اس کے اوپر جو تم سے کبھی کھیلے۔ بے ایمان کہیں کے، تف ہے اس کم بخت پر جو تم سے اب کھیلے۔‘‘
میں نے بھی اسی قسم کے الفاظ دہرائے اور نہایت بدمزگی سے ہم دونوں اٹھنے لگے۔ خان صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’بھئی یہ تو کچھ نہ ہوا برابر برابر ہو گئی۔ ایک کو ہارنا چاہیے۔‘‘ اس پر میر صاحب بولے کہ میں جیتا اور میں بولا کہ یہ غلط کہتے ہیں، برابر ہے، خان صاحب نے کہا کہ اچھا، ایک بازی اور ہو، مگر میر صاحب کہنے لگے، ’’تو یہ ہے، ارے میاں خان صاحب تم مسلمان ہو اور میرا یقین نہیں کرتے میں قسم کھا چکا، لعنت ہو اس پر جو اب ان سے کھیلے۔‘‘ میں نے میر صاحب سے طنزاً کہا، ’’میر صاحب قبلہ یہ شطرنج ہے‘‘ اس کو شطرنج کہتے ہیں۔ مذاق نباشد۔ ابھی سیکھئے کچھ دن۔‘‘
’’ارے جاؤ۔‘‘ میر صاحب بولے۔ ’’بہت کھلاڑی دیکھے ہیں۔ نہ معلوم تم سے کتنوں کو سکھا کر چھوڑ دیا۔ ابھی کچھ دن اور کھیلو۔‘‘ اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اٹھ کر چلے گئے۔ خان صاحب میرے لیے پان لینے گئے، میں اپنی سائکل کے پاس پہنچا اور بتی جلائی۔ اتنے میں خان صاحب پان لے کر آ گئے اور میں چل دیا۔
بمشکل سامنے کے موڑ پر پہنچا ہوں گا کہ سامنے سے ایک آدمی نے ہاتھ سے مجھے روکا۔ میں رک گیا تو اس نے پیچھے اشارہ کیا۔ مڑ کر دیکھتا ہوں کہ میر صاحب چلاتے بھاگتے آتے ہیں، ’’اجی مرزا صاحب، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔‘‘ میر صاحب ہانپتے ہوئے بولے۔ ’’واللہ میں نے اچھی طرح حساب کیا کعبہ کے رخ ہاتھ اٹھا کر کہتا ہوں میری دو بازیاں اس آخری بازی کو چھوڑ کر تمہارے اوپر چڑھی رہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’بالکل غلط، بلکہ میری ہی آپ پر ہوں گی۔ آپ وہ اس اتوار والی بازی بھی لگاتے ہوں گے، وہ جس میں آپ کا رخ کم تھا۔‘‘
’’کیوں نہیں ضرور لگاؤں گا۔‘‘ میر صاحب نے کہا۔
’’یہ کیسے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’خوب! خان صاحب کی بازی اگر میں دیکھنے لگا اور ایک آدھ چال بتا دی تو وہ مات مجھے کیسے ہوئی۔‘‘
’’اچھا وہ بھی جانے دو خیر تو پھر ایک تو رہی۔‘‘
’’وہ کون سی؟‘‘
’’وہ جو شوکت صاحب کے یہاں ہوئی تھی۔‘‘
’’کون سی، کون سی مجھے یاد نہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں بھلا ایسی باتیں تمہیں کیوں یاد رہنے لگیں، ایسے بچہ ہونا۔‘‘
’’مجھے تو یاد نہیں میر صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہمیشہ آپ کو مات دے کر چھوڑ کر اٹھا ہوں یا اتار کر، ورنہ آپ پر چڑھا کر۔‘‘
’’ارے میاں ایک روز سب کو مرنا ہے۔ کیوں اپنی عاقبت ایک بازی شطرنج کے پیچھے خراب کرتے ہو۔ ذرا خدا اور رسولﷺ سے نہیں ڈرتے۔ شرم نہیں آتی، مات پہ مات کھاتے ہو اور بھول جاتے ہو۔‘‘
’’میر صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’آپ تو تین جنم لیں تب بھی مجھے مات دینے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اور بات ہے کہ بھول چوک میں ایک آدھ بازی پڑی مل جائے۔‘‘
’’ارے تم بیچارے کیا کھا کے کھیلو گے۔ گھر والی تو قابو میں آتی نہیں۔ میاں شطرنج کھیلنے چلے ہیں۔ اب دس برس رخ اٹھا کے کھلاؤں۔ کیا بتاؤں قسم کھا چکا ہوں ورنہ ابھی بتا دیتا۔‘‘
’’میر صاحب یہ شطرنج ہے۔‘‘ میں نے طنزاً کہا۔ ’’کبھی خواب میں بھی جیتے ہو؟‘‘
’’کیا قسم میری تم تڑواؤگے؟‘‘
’’ابھی شطرنج سیکھئے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے پیر مار کے انجن اسٹارٹ کر دیا اور سائیکل کو آگے بڑھایا۔
’’تو پھر ایک بازی میری رہی۔‘‘ میر صاحب ہینڈل پکڑ کر بولے۔
’’غلط بات۔‘‘ میں نے کہا۔
لیکن، میر صاحب نے سائیکل کو روک کر کھڑا کر دیا اور بولے۔ ’’ماننا پڑے گی۔‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں مانتا۔‘‘
میر صاحب پھر بولے، ’’تمہیں ماننا پڑے گی۔ نہیں تو پھر آ جاؤ۔۔۔ ابھی۔۔۔ قسم تو ٹوٹے ہی گی۔۔۔ خیر لیکن بازی۔‘‘
میں نے کچھ سوچا۔ یہ واقعہ تھا کہ اگر کھیلوں تو میر صاحب بھلا کیا جیت سکتے تھے۔ لہٰذا میں نے میر صاحب سے طے کر لیا کہ بس ایک بازی پر معاملہ طے ہے۔ میں ہار جاؤں یا وہ ہاریں تو ہمیشہ ہارے کہلائیں گے۔ سودا اچھا تھا۔ لہٰذا میں نے سائیکل موڑ لی۔ خان صاحب کے اخلاق کو دیکھیے۔ کنڈی کھٹکھٹاتے ہی کھانا کھانے سے اٹھ کر آئے اور ’’بھئی واللہ!‘‘ کہہ کر پھر اندر گس گئے اور پھر جو آئے تو لالٹین اور کھانے کی سینی ہاتھ میں لیے۔ بہت کچھ معذرت کی مگر بیکار، خان صاحب نے زبردستی کھلایا اور پھر شاباش ہے خان صاحب کی بیوی کو۔ انڈے جلدی سے تل کر فوراً تیار کیے۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم دونوں نے اپنا معاملہ خان صاحب کے سامنے پیش کیا۔ قصہ مختصر شطرنج جم گئی۔ مجھے جانے کی بڑی فکر تھی کہ خانم کیا کہےگی، مگر ایک بازی کا کھیلنا ہی کیا۔
شروع ہی سے میری بازی چڑھ گئی اور تابڑ توڑ دو چار تیز چالیں نکال کے اپنے رخ سے میر صاحب کا وزیر عروب میں لے لیا۔ میر صاحب نے یہ کہہ کر مہرے پھنک دیے کہ یہ ’’اتفاق کی بات ہے نظر چوک گئی۔‘‘ میں اٹھ کر چلنے لگا کہ دیر ہو رہی ہے۔ خان صاحب نے ہاتھ پکڑا کہ ایک بازی اور سہی۔ میر صاحب چپ تھے کہ میں نے کہا، ’’اب ہم دونوں برابر ہو گئے، اب کوئی ضرورت نہیں۔، خان صاحب ہنس کر بولے کہ ’’واہ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کون زبردست کھلاڑی ہے، برابر رہنا ٹھیک نہیں۔‘‘ ادھر میر صاحب نے کہا کہ اب اس اتوار والی بازی کو پھر شمار کر لیا جائے، جس سے وہ دستبردار ہو گئے تھے اور کہنے لگے کہ ایک اب بھی مجھ سے جیتے ہیں۔ ادھر خانم کا ڈر لگا ہوا، ادھر میر صاحب کی ضد اور خان صاحب کی کوشش۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بس ایک بازی اور ہو اور طے ہو جائے۔ قسمت کی خوبی کہ بازی جمائی اور چو مہری اٹھی، اس کے بعد کی بازی میر صاحب نے ایک چال پر قائم کر دی۔ شہ، شہ، شہ، شہ۔ بس شہ دیے جائیں تو ان کی بچت ہے، یہ بھی قائم اٹھی۔ پھر دوسری بازی بچھی اس کو میں بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا اور میں نے سوچا پیدل کی مات کروں گا۔ پورا مہرہ زائد تھا، مگر بدقسمتی سے میر صاحب کا بادشاہ زچ ہو گیا اور یہ بھی قائم اٹھی۔ میں گھبرا گیا۔ بڑی دیر ہو گئی تھی۔ جاڑوں کے دن تھے۔ گھڑی پر نظر کی، ساڑھے بارہ بجے تھے۔
(۴)
میں گھبراکر اٹھا۔ بڑی دیر ہو گئی۔ اب کیا ہوا؟ خانم کیا کہے گیَ خوب لڑے گی۔ بڑی گڑبڑ کرے گی، غالباً صبح تک لڑتی رہےگی۔ کیا کیا جائے؟ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ ایک تدبیر سمجھ میں آ گئی، سیدھا بزاز کی دکان پر پہنچا۔ دوکان بند تھی۔ مکان معلوم تھا، رات کو لالہ کو جا کھٹکھٹایا۔ لالہ گھبرائے ہوئے باہر نکلے۔ میں نے مطلب بیان کیا کہ ’’وہ عمدہ والی ساڑی دے دو۔ ابھی ابھی چاہئے۔‘‘ لالہ صاحب گھبرائے، کہا۔ ’’خیر تو ہے؟‘‘ مگر میں نے کہا کہ ابھی دو۔ لالہ نے بہانے کیے، مگر میں کب ماننے والا تھا۔ لالہ نے اپنے دو آدمی ساتھ لئے اور میں نے وہی عمدہ والی ساڑی لے لی اور جو پہلے لے گیا تھا وہ واپس کر دی۔ اب سیدھا گھر کا رخ کیا۔ جیسے ہی پھاٹک میں داخل ہوا انجن روک دیا اور پیدل گاڑی کو گھسیٹتا لے چلا۔ گاڑی کھڑی کر کے بنڈل ہاتھ میں لیا اور چپکے سے دروازے کا رخ کیا کہ اپنے ہی کتے نے ٹانگ لی۔ اسے چپکا کیا اور برآمدے میں پہنچ کر راستہ تلاش کیا۔ سب دروازے بند تھے۔ خیال آیا کہ غسل خانے کی چٹخنی ڈھیلی ہے، مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ صحن کی دیوار پر چڑھنے کی ٹھانی۔ نیم کے نیچے بھینس بندھتی تھی۔ اس کی ناندپر کھڑے ہو کر ایک پیر دروازہ پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کا سہارا لے کر اندر داخل ہوا۔ دھیرے دھیرے سونے کے کمرے کی طرف چلا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور میں چپکے سے کپڑے بدل کر کمرے میں داخل ہو گیا اور بڑی پھرتی سے لحاف کے اندر گھس گیا۔
میں سمجھا کہ خانم سورہی ہے، مگر وہ جاگ رہی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ کھانسی گویا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ’’میں جاگتی ہوں، ادھر میں کھنکارا کہ، ’’جاگتی ہو تو کیا کر لوگی۔ میرے پاس بڑھیا والی ساڑی ہے۔‘‘ ایک اور کروٹ انہوں نے لی اور پھر بڑبڑائیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں بھلا کب دبنے والا تھا۔ میں نے کہا، ’’کیوں، کیا جاگتی ہو؟‘‘
وہ بولیں، ’’تمہاری بلاسے۔ تم شطرنج کھیلنے جاؤ، میں کل جاتی ہوں۔‘‘
’’تم بھی عجیب عورت ہو!‘‘ میں نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’بزاز کے یہاں گیا وہاں پر خان صاحب مل گئے اور زبردستی انہوں نے وہی پیازی رنگ والی ساڑی دلوا دی۔ بہت کچھ میں نے کہا کہ دام نہیں مگر۔۔۔‘‘
’’پھر؟‘‘ خانم نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’پھر وہ ساڑی کیا ہوئی؟‘‘ اٹھ کر وہ لحاف میں بیٹھ گئیں۔
’’ہوئی کیا۔۔۔ وہاں سے ساڑی لے کر خان صاحب کے یہاں گیا، کھانا انہوں نے کھلایا، دو چار آدمی۔۔۔‘‘
’’ہوگا۔‘‘ خانم نے کہا۔ ’’ہوں گے آدمی، پھر وہ ساڑی وہی پیازی رنگ والی۔‘‘
’’یہ لو۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے بنڈل لا پرواہی سے خانم کے لحاف پر مارا۔ لیمپ کی روشنی فوراً تیز کر کے انہوں نے تیزی سے بنڈل کھولا۔ ساڑی کو کھول کر جلدی سے دیکھا پھر میری طرف بجائے غصہ کے ان کی آنکھوں سے محبت آمیز شکریہ ٹپک رہا تھا۔ شطرنج پر اعتراض تو کجا نام تک نہ لیا۔ ’’وہ مارا اناڑی کو۔‘‘ میں نے دل میں کہا۔
بہت دن تک تو جناب اسی ساڑی کی بدولت خوب دیر کر کے آیا۔ خوب شطرنج ہوتی رہی جیسے بیشتر ہوتی تھی۔ فرق تھا تو یہ کہ بجائے میرے گھر کے اب خان صاحب کے گھر پر جمتی۔ مگر رفتہ رفتہ غیر حاضری اور شطرنج بازی پر پھر بھویں چڑھنے لگیں۔ بجائے ملائمت کے ترش روئی اور سختی! دراصل استانی جی خانم کو بھڑکاتی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ خانم نے پیچ کسنا شروع کیا۔ مگر شطرنج کسی نہ کسی طرح ہوتی ہی رہی۔
ساری خدائی ایک طرف، خانم کا بھائی ایک طرف۔ وجہ شاید اس کی یہ تھی کہ خانم کے بھائی اصلی معنی میں بھائی تھے۔ یعنی صورت شکل ہو بہو ایک، بالکل ایک ذرہ بھر بھی فرق نہ تھا۔ صرف گھنٹہ بھر بڑے تھے۔ جڑواں بہن بھائیوں میں بے حد محبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے خانم کی مناسبت سے مجھے بھی خانم کے بھائی بےحد عزیز ہیں۔ پہلی مرتبہ بہن کے یہاں آئے۔ بہن کا نام سنتے ہی یہ حال ہو گیا کہ ننگے پیر دوڑ کر بھائی سے لپٹ گئی، بھائی خود بیتاب تھا، سینہ سے لگا کر بہن کی گردن کو بوسہ دیا۔ بھائی بہن نے گھنٹوں جم کر یکسوئی کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ دونوں دیوانے ہیں۔ بہن اپنے بھائی کو کتنا چاہتی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں خانم کو بھائی سے محبت دیکھ کر رشک کر رہا تھا۔ یہ شائد بھائی کی محبت کا ہی تقاضا تھا کہ خانم نے مجھے کونے میں لے جا کر بڑے پیار سے کہا کہ ’’دیکھو اب دو چار روز شطرنج نہ کھیلنا۔‘‘
میں نے خانم کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔ کس طرح اس نے محبت سے مجھ سے کہا، ’’شاید اسی طرز و انداز نے بت پرستی و شرک کی بنا ڈالی ہے! مظلوم غریب کیا کرے، ظالم کے کہنے کو کیسے رد کرے؟ خانم کی آنکھ کے نیچے کسی چیز کا ذرہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو ہٹانے کے لیے انگلی بڑھائی۔ آنکھیں جھپکا کر خانم نے خود رومال سے اس کو پاک کیا، پھر ہاتھ پکڑ کر اور بھی زیادہ صفائی سے زور دے کر شطرنج کو منع کیا۔
قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں۔ خانم کے بھائی پکارے، ’’بجو۔۔۔‘‘
بیتاب ہو کر خانم نے کہا، ’’بھیا۔۔۔‘‘ اور بے تحاشہ جیسے توڑا کر بھاگی کہ بھیا خود آ گئے، ’’کیا کر رہی ہو؟ خانم کے بھائی نے اپنے خوبصورت چہرہ کو عجیب جنبش دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خانم نے اس طرح کہا جیسے کوئی دکھ بھری داستان کا حوالہ تھا، ’’شطرنج کو منع کر رہی ہوں۔۔۔ شطرنج۔۔۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’دن دن بھر کھیلتے ہیں۔ رات رات بھر کھیلتے ہیں اور وہ کم بخت خان صاحب ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’بھائی خدا کے واسطے شطرنج چھوڑیے۔ آپ برج نہیں کھیلتے۔۔۔؟ برج کھیلا کیجئے۔‘‘ بھیا نے کہا۔ ’’ہاں برج کھیلیں مگر یہ شطرنج تو۔۔۔‘‘
’’بڑی خراب چیز ہے بھائی۔‘‘ بجو (بہن سے اپنی مخاطب کر کے کہا) تو ان کی شطرنج جلا ڈال۔‘‘
’’رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بھیا میرے پاس۔۔۔‘‘ خانم ذرا چیخ کے بولی۔ ’’وہ کم بخت خان صاحب ایسے ہیں کہ ان کے ہاں جاجا کر کھیلتے ہیں۔۔۔‘‘
مجھ سے مخاطب ہو کر خانم نے کہا۔ ’’وعدہ کیجئے جب تک بھیا ہیں بالکل نہ کھیلئےگا۔‘‘ چنانچہ پختہ وعدہ کر لیا، پختہ!
(۵)
چلتے وقت خانم نے مسکرا کر انگلی گھما کر کہا تھا۔ ’’ادھر سے جائیےگا۔ ادھر سے۔‘‘ بھیا کی طرف میں نے مسکرا کے دیکھا۔ ’’دیکھتے ہو تم ان کا پاگل پن۔‘‘ بھیا کچھ نہ سمجھے کہ ان باتوں کا یہ مطلب ہے کہ خان صاحب کی طرف ہو کے مت جانا۔ میں تو چل دیا۔ بہن اپنے بھائی کو سمجھاتی رہی ہو گی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
’’وہ بھئی واہ! غضب کرتے ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خان صاحب ہاتھ کا سگنل سامنے کئے ہوئے کھڑے تھے۔ ’’ایسا بھی کیا کہ پھٹ پھٹ کرتے بھاگتے جاتے ہو، سنتے ہی نہیں۔‘‘ میں نے گاڑی تو روک لی، مگر اترا نہیں اور ویسے ہی کنارے ہو کر کہا، ’’کام سے جا رہا ہوں، کام سے۔‘‘
’’ایسا بھی کیا ہے!‘‘ خان صاحب نے بازو پکڑے ہوئے کہا، ’’ذرا بیٹھو۔‘‘
’’اماں مرزا صاحب۔۔۔ مرزا جی۔۔۔‘‘ میر صاحب بیٹھک میں سے بولے۔ ’’واللہ دیکھو۔۔۔ تمہیں واللہ۔ اماں سنتے نہیں۔۔۔‘‘ ہاتھ سے بلا کر بولے، ’’تمہیں واللہ ذرا آ کر تماشا تو دیکھو، کیسا لالہ جی کا وزیر گھیرا ہے۔۔۔ ارے میاں ذرا۔۔۔‘‘
’’نہیں تمہیں ہم نہ چھوڑیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے گھسیٹا۔
’’بخدا مجھے بڑے ضروری کام سے جانا ہے۔ کل صبح تڑکے ہی موٹر چاہیے۔۔۔ اتوار کا دن ہے۔ ویسے ہی موٹر خالی نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
’’بیر سٹر صاحب کے یہاں جا رہے ہوں گے۔۔۔ موٹر لینے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیا کرو گے؟‘‘
میں نے خان صاحب کو بتایا کہ خانم اور ان کے بھائی دونوں کو کل دن بھر مختلف مقامات کی سیر کرانا ہے۔
’’لاحول ولاقوۃ‘‘ خان صاحب نے مجھے گھسیٹتے ہوئے کہا، ’’اماں ہم سمجھے کوئی کام ہوگا۔۔۔ واللہ تم نے تو غضب ہی کر دیا۔ ذرا غور کرو۔۔۔ بھئی اندر چلو ذرا۔۔۔‘‘
’’میں رک نہیں سکتا۔‘‘
’’بخدا ذرا دیر کو۔۔۔ بس دو منٹ کو۔۔۔ بس پان کھاتے جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے آخر گھسیٹ ہی لیا۔ بیٹھک میں پہنچا تو میر صاحب مارے خوشی کے بےحال تھے۔
’’واللہ۔۔۔ بھئی مرزا کیا بتاؤں تم نہ آئے۔ دیکھو ان کا وزیر یہاں تھا۔۔۔ میں نے پیدل جو آگے بڑھایا تو۔۔۔‘‘
’’تو مہرے آپ کیوں جگہ سے ہٹاتے ہیں۔ کھیلنا ہو تو کھیلئے‘‘ یہ کہہ کر لالہ صاحب نے میر صاحب کو چپ کیا اور ادھر خان صاحب نے اپنا سلسلہ کلام شروع کیا۔
’’تو۔۔۔ ہاں وہ آپ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ ہاں تو بات یہ ہے میاں تم ابھی نا تجربہ کار ہو۔ بھلا عورتوں کو موٹروں کی سیر سے کیا تعلق؟ خدارا کچھ سیکھو، جب ہی تو ہے نا کہ آپ کی ’’گھر میں‘‘ آپ شطرنج بھی نہیں۔۔۔‘‘
’’نقشہ دیکھو۔۔۔ ارے رے!‘‘ میرے صاحب نے زور سے پکڑ کر خان صاحب کو ہلا ڈالا، ’’و اللہ! بادشاہ کو گھیرا ہے۔۔۔ اپنا وزیر پٹا کر۔۔۔؟ مخالف سے مخاطب ہو کر، ’’مارئیے وزیر، لالہ صاحب۔۔۔ وزیر مارنا پڑےگا۔۔۔ مارو تو مات، نہ مارو تو مات۔۔۔ یہ لو مہرے اور بنو۔۔۔ بوندیں آ گئیں۔۔۔ اور بنو۔۔۔ ہٹاؤ چرخہ۔۔۔ یہ لو۔‘‘
میر صاحب نے واقعی خوب مات کیا تھا، اور میں اٹھنے لگا۔
’’بھئی ہم نہ جانے دیں گے۔۔۔ بغیر پان کھائے ہوئے۔۔۔‘‘ ارے پان لانا۔ خان صاحب نے زور سے آواز دی اور پھر کہا۔ ’’بھئی کوئی بات بھی ہے۔ عورتوں کو اول تو سیر کرانا ہی منع ہے اور پھر تم دیکھ رہے ہو کہ روز بروز تمہارے گھر کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ آج شطرنج کو منع کرتی ہیں کل کہہ دیں گی کچہری نہ جایا کرو۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو اور سہی تو ایک بازی میرصاحب کی دیکھ لو، چلے جانا، جلدی کاہے کی ہے۔‘‘
’’میر صاحب کا کھیل میں نے بہت دیکھا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے جلدی جانا ہے۔‘‘
’’میرا کھیل؟‘‘ میر صاحب بولے۔ ’’میرا کھیل دیکھا ہے۔۔۔ یہ کہو مذاق دیکھا ہے، تمہارے ساتھ کھیلتا تھوڑی ہوں۔ مذاق کرتا ہوں۔‘‘
’’اس روز زچ ہو گئی۔۔۔ بازی زچ ہو گئی ہو گی۔ ورنہ پیدل ہوتی اور وہ بھی پیدل پسند۔‘‘ ’’بازی تو آپ کی خوب چڑھی ہوئی تھی۔‘‘ خان صاحب نے تائید کی۔
’’جی ہاں۔‘‘ میر صاحب بولے، ڈھیل دے کر کاٹتا ہوں۔۔۔ ’’اناڑی کو بڑھا کر مارتا ہوں اور ایک میری اب بھی چڑھی ہوئی ہے۔‘‘
’’مر گئے چڑھانے والے۔‘‘ میں نے ترش روئی سے کہا، ’’میر صاحب یہ شطرنج ہے۔‘‘
پھر آ جاؤ نا۔۔۔ تمہیں آ جاؤ۔۔۔‘‘
’’بھائی ہو گی۔۔۔ ہو گی۔۔۔ ہٹو تو۔۔۔‘‘ خان صاحب نے شطرنج میری طرف گھسیٹتے ہوئے کہا۔
’’ہوگی۔۔۔ بس ایک بازی ہوگی۔‘‘
’’نہیں صاحب مجھے جانا ہے۔۔۔ ضروری کام سے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم آدمی بھیج دیں گے۔۔۔ دیکھا جائےگا۔ اماں بیٹھو۔۔۔ رکو۔۔۔ بس، ایک۔‘‘
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔ جماہی لے کر کہا۔ ’’اچھا لائیے۔ ایک بازی میر صاحب کو مات دے ہی دوں۔ آؤ بس ایک ہوگی۔‘‘
ایک بازی میر صاحب پر نظر کی چوک سے ہو گئی اور بڑی جلدی ہو گئی تو میں اٹھنے لگا۔ لیکن خاں صاحب نے آستین پکڑ لی کہ ’’بھئی یہ اتفاق ہے یہ کچھ نہیں ایک اور کھیل لو۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’خیر اچھا کھیلے لیتا ہوں۔‘‘ اور بیٹھ گیا۔
مگر اتفاق تو دیکھیے کہ یہ اس سے بھی جلدی چٹ پٹ ہو گئی۔ میر صاحب کا چہرہ فق ہو گیا۔ غضب ہے دس منٹ میں دو بازیاں۔ خان صاحب نے پھر پکڑ لیا اور کہا کہ یہ کوئی بات نہیں۔ غرض اسی طرح پانچ بازیاں میر صاحب پہ ہو گئیں۔ اب میں بھلا کیسے جا سکتا تھا۔ کیوں نہ ساتھ بازیاں کر کے میر صاحب کی لنگڑی باندھوں اور پھر دو بازیاں اور یعنی پورے نوکر کا ’’نوشیرواں‘‘ کر دوں۔ ضروری کروں گا، ابھی تو بہت وقت ہے۔ میں نے کہا کہ، ’’میں جاتا ہوں ورنہ لنگڑی کے لیے رسی منگائیے، میر صاحب غصہ میں خود چارپائی کی ادوان کھولنے لگے۔ خان صاحب نے فوراً رسی منگا دی اور اب زور شور سے شطرنج شروع ہو گئی۔
ایک بج گیا اور میں اب گویا چونک سا پڑا۔ بلا مبالغہ سیکڑوں بازیاں ہوئیں مگر مجھے لنگڑی نصیب نہ ہوئی۔ میں شطرنج چھوڑ چھاڑ کر سیدھا گھر بھاگا۔ پھاٹک پہ جب سائیکل روکی ہے تو آدھی رات گزر کر سوا بجے کا عمل تھا۔
’’یا اللہ اب کیا کروں؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر کہا، ’’خانم کیا کہے گی، لاحول ولاقوۃ۔ میں نے بھی کیا حماقت کی۔ بھیا کیا کہےگا؟ بڑی لڑائی ہو گی۔‘‘ شش و پنج میں کھڑا سوچتا رہا، مگر اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔
اسی روز کی طرح بھینس کی ناند پر سے دیوار پار کی۔ استانی جی کے کمرے کے سامنے ہوتا ہوا تیزی سے نکل گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ ٹٹول کر کپڑے اتارے، سلیپر بغل میں دابے برابر والے کمرے میں داخل ہوا جس میں بھیا کا پلنگ تھا۔ بڑی ہوشیاری سے چاروں ہاتھ پاؤں پر چلتا ہوا گویا جانور کی طرح جانے کی ٹھہرائی۔ آدھے کمرے میں جو پہنچا تو ماتھے میں میز کا پایہ لگا اوپر سے کوئی چیز اس زور سے گردن پر گری کہ اس اندھیرے میں آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ میں دبک کر بیٹھ گیا۔ میں جانتا ہی تھا کہ بھیا غافل سونے والاہے، خانم سے بھی نمبر لے گیاہے۔ بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ یہ کیا گردن زدنی چیز تھی جو میری گردن پر گری، رینگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اور اٹھ کر اب خانم کے کمرے کے دروازہ پر پہنچا۔ خدا کا شکر ہے کہ اندھیرا گھپ تھا۔ اسی طرح پھر چاروں ہاتھ پاؤں کے بل رینگنا شروع کیا، کیونکہ اس روز خانم اٹھ بیٹھی تھی۔ چپکے چپکے پلنگ تک پہنچا اور غڑاپ سے اپنے بچھونے میں لحاف تان کے دم بخود پڑے پڑے سو گیا۔
صبح دیر سے آنکھ کھلی، اٹھا جو سہی تو کیا دیکھتا ہوں کہ خانم مع بسترا غائب۔ ارے! نکل کر دوڑا تمام معاملہ ہی پلٹ گیا۔ نہ بھیا ہیں نہ خانم، نہ استانی جی! نوکر نے کہا کہ رات کی بارہ بجے کی گاڑی سے سب گئے۔ غضب ہی ہو گیا۔ نہ تو ناشتے میں جی لگا اور نہ کسی اور طرف۔ سخت طبیعت پریشان تھی۔ اندھیرا ہو گیا، جن کمروں میں بھیا اور خانم کی مزیدار باتوں اور قہقہوں سے چہل پہل تھی ان میں سناٹا تھا۔ ادھر گھوما، ادھر گوما، گھر ایک اجڑا مقام تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد باؤلوں کی طرح گھومنے لگا۔ ایک دم سے غصہ آیا کہ چلو خان صاحب کے یہاں پھر جمےگی۔ کپڑے آدھے پہنے تھے کہ پھر طبیعت پہ خلجان سوار ہو گیا۔
خدا خدا کر کے تین بجے، اب خانم گھر پہنچنے والی ہو گی، لہٰذا تار دیا۔ ’’جلدی آؤ اور فوراً تار سے جواب دو۔‘‘ مگر جواب ندارد۔ وقت گزر گیا۔ دوسرا جوابی تار دیا کہ ’’جلدی آؤ۔‘‘ جواب آیا۔ ’’نہیں آتے‘‘ پھر جواب دیا۔ ’’اب شطرنج کبھی نہیں کھیلیں گے، جواب رات کو آیا۔ ’’خوب کھیلو۔‘‘
رات کے بارہ بجے کی گاڑی سے خود روانہ ہو گیا۔
خانم کے گھر پہنچا۔ خانم کی ماں اور باپ دونوں خانم سے بےحد خفا تھے۔ مگر خانم جب چلنے پر راضی ہوئی جب خدا اور رسول اور زمین و آسمان معہ قرآن مجید اور خود خانم کے سر اور بھیا اور خود خانم کی محبت کی قسم کھائی۔ وہ بھی بڑی مشکل سے وہ دن اور آج کا دن، جناب میری شطرنج ایسی چھوٹی ہے کہ بیان سے باہر، مگر سوچ میں رہتا ہوں کہ کون سی تدبیر نکالوں۔ شائد کوئی شاطر بتا سکے۔
میں دوڑا ہوا پہنچا۔ ایک رکابی میں کٹی اور بےکٹی یعنی ثابت چھالیہ رکھی ہوئی تھی۔ سروتا بھی رکھا ہوا تھا اور سب سے تعجب کی بات یہ کہ شطرنج کا ایک رخ بھی چھالیہ کے ساتھ کٹا رکھا تھا۔ اس کے تین ٹکڑے تھے۔ ایک تو آدھا اور دو پاؤ پاؤ۔ صاف ظاہر ہے کہ چھالیہ کے دھوکے میں کترا گیا ہے، مگر یہاں کدھر سے آیا۔ غصہ اور رنج تو گمشدگی کا ویسے ہی تھا۔ اب رخ کی حالت زار جو دیکھی تو میرا وہی حال ہوا جو علی بابا کا قاسم کی لاش کو دیکھ کر ہوا تھا۔ خانم کے سامنے جا کر رکابی جوں کی توں رکھ دی۔ خانم نے بھویں چڑھا کر دیکھا اور یک دم ان کے خوبصورت چہرے پر تعجب خیز مسکراہٹ سی آ کر رک گئی اور انہوں نے مصنوعی تعجب سے استانی جی کی طرف رکابی کرتے ہوئے دیکھا۔ استانی جی نے ایک دم سے بھویں چڑھا کر دانتوں تلے زبان داب کے آنکھیں پھاڑ دیں، پھر سنجیدہ ہو کر بولیں،
’’جب ہی تو میں کہوں یا اللہ اتنی مضبوط اور سخت چھالیہ کہاں سے آ گئی۔ کل رات اندھیرے میں کٹ گیا۔ جب سے رکابی جوں کی توں وہیں رکھی ہے۔‘‘
’’اجی یہ یہاں آیا کیسے؟‘‘ میں نے تیز ہوکر کہا۔ استانی جی نے چوروں کی طرح خانم کی طرف دیکھ کے کہا، ’’خدا جانے کہاں سے آیا۔۔۔ میں۔۔۔‘‘
’’میں خوب جانتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر غصہ سے میں نے خانم کی طرف دیکھا اور زور سے کہا، ’’ہنستی کیوں ہو؟ میں خوب جانتا ہوں۔۔۔ ان باتوں سے کیا فائدہ؟‘‘
ادھر وہ ہنس پڑیں اور ادھر دروازے سے استانی جی کا لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ میری جان ہی تو جل گئی اور میں نے یہ کہہ کر کہ ’’اسی موذی کی شرارت ہے۔‘‘ لڑکے کا کالر پکڑ کر دو تین بید ایسے جمائے کہ مزہ آ گیا۔ یہ بید گویا خانم کے لگے۔ دوڑ کر انہوں نے بید پکڑنے کی کوشش کی اور روکنا چاہا مگر میں نے مارنا بند نہ کیا۔ میں مار رہا تھا اور خانم کہہ رہی تھی، ’’اس کی کوئی خطا نہیں۔‘‘ مگر میں غصہ میں دیوانہ ہو رہا تھا اور مارے ہی گیا حتیٰ کہ نوبت بایں جا رسید کہ خانم نے بید پکڑ کر کہا، ’’تم مجھے مار لو مگر اسے نہ مارو۔‘‘ مگر مجھے غصہ ہی بے حد تھا۔ میں نے بید چھڑا لیا اور وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں۔ میں غصہ میں کانپتا ہوا باہر چلا آیا۔
میرا غصہ حق بجانب تھا یا نہیں۔ ناظرین خود انصاف کریں۔ شطرنج کا شوق ہوا تو ہاتھی دانت کے مہرے منگائے۔ یہ مہرے نہایت ہی نازک اور خوبصورت تھے اور خان صاحب نے دو ہی دن میں سب کی چوٹیاں توڑ کر ہفتہ بھر کے اندر ہی اندر تمام مہرے برابر کر دیے تھے۔ خان صاحب نہ میز پر کھیلتے تھے اور نہ فرش پر، وہ کہتے تھے کہ شطرنج تخت پر ہوتی ہے تاکہ زور سے مہرہ پر مہرہ مارنے کی آواز آئے۔ اس کے بعد پھر بنارسی مہرے منگائے۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت، نہایت ہی سادہ اور سبک مہرے تھے کہ بس دیکھا کیجئے۔ ہفتہ بھر مشکل سے ان مہروں سے کھیلنے پائے ہوں گے کہ سفید بازی کا ایک پیدل خان صاحب کے سال بھر کے بچے نے کھا لیا۔ بہت کچھ اس کے حلق میں خان صاحب نے انگلیاں گھنگھولیں۔ چت لٹایا، جھنجھوڑا، پیٹھ پر دھموکے دیے، مگر وہ ظالم اسے پار ہی کر گیا۔
سفید بازی چونکہ خان صاحب لیتے تھے لہذا پیدل کی جگہ اپنی انگوٹھی رکھ دیتے، پیدل پٹ جاتا تو اس کو رکھ لیتے لیکن اس کے بعد ہی جلد لال بازی کا بادشاہ کھو گیا۔ بہت ڈھونڈا، تلاش کیا مگر بےسود۔ اس کی جگہ دو ایک روز دیا سلائی کا بکس رکھا، پھر ایک روز مناسب عطر کی خالی شیشی مل گئی۔ وہ شاہ شطرنج کا کام دیتی رہی کہ اس کے بعد ہی لال بازی کا فیل اور سفید کا ایک گھوڑا غائب ہو گیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے اور پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ہو نہ ہو مہرے ’’آپ کے گھر میں‘‘ سے چروائے جاتے ہیں مگر میں یہی کہہ دیتا کہ یہ ناممکن ہے۔ انہیں بھلا اس سے کیا مطلب۔ بہتیرا وہ مجھے یقین دلاتے سر مارتے کہ سوائے ان کے کوئی نہیں، مگر مجھے یقین ہی نہ آتا۔
خان صاحب کہتے تھے ’’عورتوں کو شطرنج سے بغض ہوتا ہے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ خانم میری شطرنج بازی کے خلاف تو تھیں اور بہت خلاف تھیں، مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس طرح مخل ہو سکتی ہیں، غرض ان مہروں کے بعد ہی رام پور سے خان صاحب نے منڈے مہرے امرود کی لکڑی کے منگوا دیے۔ رام پور کے بہتر، عمدہ، خوبصورت اور ساتھ ہی ساتھ مضبوط مہرے ہونا ناممکن ہیں۔ ابھی چار روز بھی آئے نہ ہوئے تھے کہ یہ واقعہ ہوا۔ یعنی استانی جی نے چھالیا کے ساتھ اس نئی شطرنج کا رخ کتر ڈالا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میں نے اس واقعہ کا ذکر سب سے پہلے خان صاحب سے کیا۔ انہوں نے بائیں طرف کی ڈاڑھی کا چھبو جو ذرا نیچے آ گیا تھا خوب اوپر چڑھاتے ہوئے اور آنکھیں جھپکا کر اپنی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا، ’’میں نہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب کہ ہو نہ ہو یہ آپ کے ’’گھر میں‘‘ ہی ہیں۔۔۔ اجی صاحب یہاں اللہ بخشے مرنے والی (پہلی بیوی) سے دن رات جوتی پیزار ہوتی رہتی تھی۔ پھر اس کے بعد اب اس سے بھی دو تین مرتبہ زور کے ساتھ چائیں چائیں ہو چکی ہے اور ہوتی رہتی ہے مگر میں شطرنج کے معاملہ میں ذرا سخت ہوں۔ گھر والی کو سونے کا نوالہ کھلائے، مگر وہ جو کہے کہ شطرنج نہ کھیلو تو بس اسے کھا ہی جائے۔۔۔ جب جا کے کہیں شطرنج کھیلنی ملتی ہے۔ ورنہ یہ سمجھ لیجیے کہ آئے دن کے جھگڑے رہیں گے اور شطرنج کھیلنی دوبھر ہو جائےگی۔ ویسے آپ کا مزاج۔۔۔ میں تو کچھ کہتا نہیں۔‘‘
میں نے سوچا خان صاحب واقعی سچ کہتے ہیں۔۔۔ مگر اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ خان صاحب بولے، ’’ابھی کوئی سترہ برس کا ذکر ہے کہ مرنے والی لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ وہ پان نہیں بھیجتی تھی۔ ذرا غور تو کیجیے کہ ہم تو باہر شطرنج کھیل رہے ہیں۔ یہ صاحب بیٹھے ہیں اور پان ندارد! خدا بخشے کسی معاملہ میں نہیں دبتی تھی۔ ہاں تو۔۔۔ کوئی سترہ برس ہوئے وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ خوب چھنی۔ بڑی مشکل سے رام کیا۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
خان صاحب نے سر ہلا کر ایسا جواب دیا جیسے شاید ڈیوک آف ویلنگٹن نے نپولین کو شکست دے کر وزیر اعظم سے کہا ہوگا، ’’آپ بتائیے۔۔۔ پہلے آپ بتائیے۔ سنئے۔۔۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ بیگم صاحب یہ لو اپنا پانچ روپے کا مہر اور گھر کی راہ لو۔ بندہ تو شطرنج کھیلےگا۔۔۔ پر کھیلےگا۔۔۔ پان بناؤ تو بناؤ، نہیں تو گاڑی بڑھاؤ اور چلتی پھرتی نظر آؤ۔ آخر جھک مار کر بنانا پڑے، اور وہی مثل رہی۔
پانڈے جی پچھتائیں گے
وہی چنے کی کھائیں گے
تو بات یہ ہے۔۔۔ مرزا صاحب بات یہ ہے کہ عورت ذات ذرا شطرنج کے خلاف ہوتی ہے اور ذرا کمزوری دکھائی اور سر پر سوار۔ خان صاحب نے اپنے بائیں ہاتھ کی کلمے کی انگلی پر داہنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو سوار کرتے ہوئے کہا۔ اب میں یہ لیکچر سن کر ترکیب سوچ رہا تھا کہ کیا کروں۔ جو کہوں کہ اپنا راستہ دیکھو تو خانم سیدھی طوفان میل سے گھر پہنچےگی۔ ایک لمحہ نہیں رکےگی۔ گھر پر جی نہیں لگےگا۔ تار الگ دینے پڑیں گے اور ہفتہ بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد ہی لانا ہی پڑےگا۔‘‘
خان صاحب نے کہا، ’’چلی جانے دیجئے۔ جھک مار کر پھر آخر کو خود ہی آئیں گی۔ مہینہ، دو مہینہ، تین مہینہ آخر کتنے دن نہ آئیں گی۔‘‘ میں نے دل میں کہا کہ یہ علت ہے اور خان صاحب سے کہا کہ ’’مگر مجھے تکلیف ہو جائےگی۔‘‘
’’آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔‘‘ خان صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا، ’’آپ شطرنج نہیں کھیل سکتے۔۔۔ لکھ لیجیے کہ آپ کے ’’گھر میں‘‘ آپ کا شطرنج کھیلنا سولی کر دیں گی۔ آپ نہیں کھیل سکتے۔۔۔‘‘
’’آخر کیوں؟‘‘
خان صاحب بولے، ’’لکھ لیجیے۔۔۔ بندہ خاں کی بات یاد رکھئےگا لکھ لیجئے۔۔۔‘‘
’’آخر کیوں لکھ لوں؟ کوئی وجہ؟‘‘
’’وجہ یہ!‘‘ خان صاحب نے اپنی داہنے ہاتھ کی مٹھی زور سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مار کر کہا، ’’وجہ یہ کہ معاف کیجئےگا آپ زن مرید ہیں۔۔۔ زن مرید۔۔۔! جدھر وہ جائیں گی ادھر آپ۔۔۔ (انگلی گھما کر نقل بناتے ہوئے) ’’ہائے جورو! ہائے جورو! ایسے کہیں شطرنج کھیلی جاتی ہے۔ لاحول ولا قوۃ۔‘‘ میں نے طے کر لیا کہ خانم سے اس بارے میں قطعی سخت لڑائی ہوگی۔ میں نہیں دبوں گا۔ یہ میرا شوق ہے، شوق۔ انہیں ماننا پڑےگا۔
(۲)
تین چار روز تک خانم سے سخت ترین جنگ رہی، یعنی خاموش جنگ، ادھر وہ چپ ادھر میں چپ۔ خانم کی مددگار استانی اور میرے مددگار خان صاحب۔ پانچویں دن یہ شطرنج دوبھر معلو م ہونے لگی۔ میری سپاہ کمزوری دکھا رہی تھی۔ جی تھا کہ الٹا آتا تھا۔ خاموش جنگ سے خدا محفوظ رکھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے گیس کی لڑائی ہو رہی ہے۔ غنیم کا گیس دم گھوٹے دیتا تھا۔ خان صاحب طرح طرح کے حملے تجویز کرتے تھے، مگر جناب اس گیس کی لڑائی میں کوئی تدبیر نہ چلتی تھی۔ خان صاحب ماہر فنون تھے مگر جرمن گیس کا جواب توپ اور بندوق نہیں دے سکتی۔ یہ انہیں معلوم نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پرانے زمانے کی لڑائیاں لڑے ہوئے بیچارے کیا جانیں کہ خاموشی کا گیس کیا بلا ہوتی ہے۔ میری کمزوری پر دانت پیستے تھے، کہتے تھے، ’’نہ ہوا میں۔۔۔ دکھا دیتا۔‘‘
خان صاحب اول تو خود جنگی آدمی اور پھر جنرل بھی اچھے، مگر جناب سپاہی ہمت ہار جائے تو جنرل کیا کرے۔ چھ دن گزر گئے اور اب میں جنگ مغلوبہ لڑ رہا تھا۔ بہت ہمت کی، بہت کوشش کی، مگر ہار ہی گیا۔ شرائط صلح بھی بہت خراب تھی۔ شاید معاہدہ ورسیلز جس طرح ترکوں کے لئے ناقابل پذیرائی تھا، اسی طرح میرے لیے بھی شرائط ضرورت سے زیادہ سخت تھیں، مگر بقول ’’بزور شمشیر و بنوک سنگین‘‘ مجھ کو مجبوراً صلح نامہ پر دستخط کرنا پڑے اور صلح نامہ کی سخت شرائط ذرا ملاحظہ ہوں؛
(۱) خان صاحب سے تمام تعلقات دوستی منقطع کر دوں گا، وہ گھر پر آئیں گے تو کہلوا دوں گا کہ نہیں ہوں۔ ویسے حصہ وغیرہ ان کے یہاں جائےگا اور آئےگا۔
(۲) شطرنج کھیلنا بالکل بند۔ اب کبھی شطرنج نہیں کھیلوں گا۔ خصوصاً رات کو تو کھیلوں گا ہی نہیں۔
(۳) شطرنج کے علاوہ تاش بھی نہیں کھیلوں گا۔ سوائے اتوار کے، رات کو وہ بھی نہیں۔
(۴) رات کو دیر کر کے آنا شطرنج کھیلتے رہ جانے کے برابر متصور ہوگا۔ کوئی ثبوت لیے بغیر تصور کر لیا جائےگا کہ شطرنج کھیلی گئی۔ کوئی عذر تسلیم نہ کیا جائےگا۔
پانچویں اور چھٹی شرط میں خود بیان کرنا پسند نہیں کرتا۔
ساتویں شرط یہ تھی کہ اس معاہدہ کی پابندی نہ کی گئی تو ’’تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔‘‘
خان صاحب سے میں نے اپنی شکست اور شرائط صلح کا ذکر صاف صاف نہیں کیا مگر اتنا ضرور تسلیم کیا کہ مہرے برابر استانی جی کے لڑکے سے چروائے جاتے رہے۔ پھر صلح کا ذکر کیا اور اس کے بعد کچھ روز کے لیے مصلحتاً شطرنج کھیلنا بند کرنے کا ذکر کیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے۔ دانت نکال کر انہوں نے ران پر ہاتھ مار کر پہلے تو دنیا بھر کی لڑاکا بیویوں کو گالیاں دیں اور پھر کہا، ’’میاں لمڈے ہو۔ مجھ سے باتیں بنانے آئے ہو۔ بیوی کی جوتیاں کھا رہے ہو! شطرنج کھیلیں گے۔۔۔ یہ شطرنج ہے! ہونہہ۔۔۔ میں نہ کہتا تھا۔۔۔ میری بلا سے۔ تم جانو تمہارا کام، مگر لکھ لو ایک دن سر پکڑ کر روؤگے۔۔۔ گھر والی کو اتنا سر پر نہیں چڑھاتے۔۔۔ تم جانو تمہارا کام۔۔۔ جب کبھی ملاقات ہوئی علیک سلیک کر لی۔ بس لکھ لو۔۔۔‘‘
خان صاحب کی گفتگو سے کچھ پھریری سی آئی۔ گھر میں آیا تو خانم کو پھول کی طرح کھلا ہوا پایا۔ لاحول ولا قوۃ۔
شطرنج جائے چولھے میں۔ اتنی اچھی بیوی سے شطرنج کے پیچھے لڑنا حماقت ہے۔ کون لڑے۔ گول کرو۔
کسی نے سچ کہا ہے چور چوری سے جائے تو کیا ہیرا پھیری بھی چھوڑ دے۔ لگے ہاتھوں ادھر ادھر کبھی کبھار ایک دو بازیاں جم ہی جاتیں۔ کبھی خان صاحب کے یہاں پہنچ گیا تو کبھی میر صاحب کے یہاں۔ پھر بات چھپی نہیں رہتی۔ خانم کو بھی معلوم ہو گیا کہ کبھی کبھار میں کوئی جرم نہیں۔ خود خانم نے ہی کہا۔ میرا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ قسم کھانے کو بھی نہ کھیلو، کھیلو، شوق سے کھیلو، مگر ایسے کھیلو کہ کبھی کبھار ایک دو بازی وقت پر کھیل لیے، نہ یہ کہ یہ کہ جم گئے تو اٹھتے ہی نہیں۔
خانم کو نہیں معلوم کہ ’’کبھی کبھار‘‘ سے اور شطرنج سے باپ مارے کا بیر ہے۔ کبھی کبھار والا بھلا کھیلنے والے کے آگے کیا جمے؟ جو لوگ مجھ سے آٹھ آٹھ ماتیں کھاتے تھے وہ الٹی مجھے آٹھ آٹھ پلانے لگے۔ دو ایک روز پھر ایسا ہوا کہ قدرے قلیل دیر سے آنا پڑا۔ خانم نے کبھی ناک بھویں سکیڑیں، کبھی ذرا چیں بہ جبیں ہوئیں، لیکن کبھی چپقلش کی نوبت نہ آئی، بس بڑبڑا کر رہ گئیں۔ ’’پھر وہی شطرنج بازی۔۔۔ خان صاحب کے ساتھ۔۔۔ پھر کھیلنے لگے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غرض اسی قسم کے جملوں تک خیریت گزری۔
(۳)
ایک روز کا ذکر ہے کہ خانم نے بزاز سے بمبئی کے کام کی عمدہ عمدہ ساڑیاں منگائی تھیں۔ ایک ساڑی بےحد پسند تھی، مگر جیب میں اتنے دام نہیں۔ بار بار بےچین ہو کر وہی پسند آتی، مگر میرے پاس بھلا اتنے دام کہاں۔ کیسی اچھی ہے۔۔۔ رنگ تو دیکھو۔۔۔ بیل! کیا کام ہو رہا ہے۔۔۔ اور پھر کپڑا۔۔۔ وہ جو میں دلا رہا تھا، اس کو طرح طرح سے گھما پھرا کر اس طرح مہنگا ثابت کیا گیا کہ سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔ ایسے موقع پر غریب شوہر کے کلیجہ پر ایک گھونسا لگتا۔ دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ ’’ظالم تجھے کیا خبر میرا بس چلے تو جہان لے دوں مگر کیا کروں۔ بیوی بھی بے بسی کو دیکھتی ہے۔ مجبوری کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک سانس لے کر چپ سی ہو جاتی ہے۔ مرد کے لئے شائد اس سے زیادہ کوئی تکلیف دہ چیز نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دفعہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہ کرے اور کہیں نہ کہیں سے روپیہ پیدا کرے۔ اپنی چہیتی کا کہنا کر دے مگر وہاں تو یہ حال ہے کہ آج ساڑی کا قصہ ہے تو کل جمپر کا اور آج یہ چیز ہے تو کل وہ چیز۔ کہاں تک کرے۔ بیوی بیچاری بھی کچھ مجبور نہیں کرتی مگر اس کی آنکھیں مجبور ہیں۔ زبان قابو میں ہے، مگر دل قابو میں نہیں۔ عمر کا تقاضا ہے، کیا اس سے بھی گئی گزری۔
غرض ایسا ہی موقع آیا۔ پسند کردہ ساڑھی نہ لی جا سکتی تھی اور نہ لینے کی طاقت تھی۔ مجبوراً ایک دوسری پسند کی گئی تھی اور دام لے کر میں خود جا رہا تھا کہ کچھ نہیں تو دس پانچ روپیہ اسی میں کم کر دے اور اگر آدھے داموں میں دے دے تو پھر بڑھیا والی ہی لیتا آؤں۔ چلتے وقت خانم نے کہا، ’’دیکھئے ادھر سے جائیےگا۔ ادھر سے ہو کر۔‘‘ انگلی کے اشارہ سے کہا۔ اس سے یہ مطلب تھا کہ دوسری سڑک سے یعنی خان صاحب کے گھر سے بچتے ہوئے کہ شطرنج نہ کھیلنے لگوں۔ میرا ارادہ شطرنج کا نہ تھا۔ میں نے ہنس کر کہا، ’’اب ایسا دیوانہ بھی نہیں کہ کام سے جا رہا ہوں اور چھوڑ چھاڑ شطرنج پر ڈٹ جاؤں۔‘‘ خان صاحب کی بیٹھک کے سامنے سے گزرا تو دیکھوں کہ کچھ بھیڑ بھڑکا ہے۔ جی نہ مانا، رفتار کچھ ہلکی ہی تھی۔ آواز سن کر خان صاحب ننگے پیر چوکھٹ پر کھڑے ہو کر چلائے، ’’اجی مرزا صاحب‘‘ اونگھتے کو ٹھیلنے کا بہانہ، سائکل کا انجن روک دیا اور اتر پڑا۔
’’دور ہی دور سے چلے جاؤگے۔ ایسا بھی کیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے ہاتھ پکڑ کر مونڈھے پر بٹھایا۔ ایک نئے شاطر آئے ہوئے تھے۔ دو یا تین ماتیں میر صاحب کو دے چکے تھے۔ اب ایک اور صاحب ڈٹے ہوئے تھے۔ بڑے زور کی بازی ہو رہی تھی۔ دونوں بازیاں برابر کی تھیں۔ گزشہ بازیوں کی خان صاحب نے تفصیل سنائی۔ میر صاحب نے بتایا کہ کس طرح پہلی بازی میں خان صاحب نے ایک غلط چال بتا کر ان کا گھوڑا پٹوا دیا اور پھر کس طرح دھوکہ میں خود انہوں نے اپنا رخ پیدل کے منہ میں رکھ دیا۔ ورنہ وہ بازی میر صاحب ضرور جیت جاتے بلکہ جیت ہی گئے تھے۔ کیونکہ قلعہ دشمن کا توڑ ہی دیا تھا اور بادشاہ زچ بیٹھا تھا۔ بس ایک گھوڑے کی شہ کی دیر تھی کہ غلطی سے پیدل کے منہ میں رخ رکھ دیا۔ ورنہ گھوڑا کم ہونے پر بھی انہوں نے مات کر دی ہوتی۔ نئے شاطر نے کچھ اس کی تردید کی، وہ دراصل کافی دیر کرتے مگر مجبوری تھی اور کھیل میں منہمک تھے۔ دوسری بازی کی تفصیل بھی میر صاحب سنانا چاہتے تھے کہ کن غیر معمولی وجوہات سے اتفاقاً یہ بازی بھی بگڑ گئی، مگر اب موجودہ کھیل زیادہ دلچسپ ہوا جا رہا تھا۔
بازی بہت جلد ختم ہو گئی اور نئے شاطر پھر جیتے۔ میں خان صاحب سے یہ کہتا ہوا ا ٹھا کہ ’’ابھی آیا کچھ کپڑا لے آؤں۔‘‘ خان صاحب نے بڑے پختہ وعدے لیے جب جا کر چھوڑا۔ کپڑے والے کی دکان پر پہنچا اور ساڑھی خریدی۔ دام نقد ہی دے دیے۔ لالہ صاحب بہت معقول آدمی تھے اور بقول ان کے تمام کپڑے مجھے دام کے دام پہ دے دیتے تھے۔ دکان سے ساڑھی لے کر واپس آیا اور خان صاحب کے یہاں شطرنج دیکھنے لگا۔ بڑے کانٹے کی شطرنج کٹ رہی تھی۔ کیونکہ میر صاحب نے ان نو وارد شاطر کو ایک مات دی تھی اور اب دوسری بازی بھی چڑھی ہوئی تھی۔
میرے بتانے پر نو وارد صاحب نے بھنا کر میری طرف دیکھا اور کہا، ’’بولنے کی نہیں ہے صاحب۔‘‘ خان صاحب تیز ہو کر بولے، ’’میر صاحب کیا اندھے ہیں؟ کیا انہیں اتنا نہیں دکھائی دیتا کہ مہرہ پٹ رہا ہے۔ کیا وہ ایسے اناڑی ہیں؟‘‘
’’آپ اور بھی بتائے دیتے ہیں‘‘ نو وارد نے کہا۔ ادھر صاحب واقعی اندھے ہو رہے تھے اور اگر خان صاحب نہ بولتے تو گھوڑا مفت پٹ گیا ہوتا۔ وہ گھوڑے کو پٹتا چھوڑ کر رخ چل رہے تھے۔ اب رخ کی چال واپس کر کے انہوں نے گھوڑا پکڑا۔
’’چال ہو گئی۔‘‘ نووارد نے بگڑ کر کہا۔ ’’چال کی واپسی نہیں۔‘‘
میر صاحب جل کر بولے، ’’جھوٹی موٹی تھوڑی ہو رہا ہے۔ شطرنج ہو رہی ہے۔ چال کی واپسی کی برابر نہیں، مگر میں نے چال بھی تو نہیں چلی۔ میں نے رخ کو چھوا اور چال ہو گئی؟ یہ کیا۔۔۔؟ روتے ہو۔۔۔‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ نووارد نے کہا۔ ’’چال ہو گئی آپ کو رخ وہی رکھنا پڑےگا۔ میں چال واپس نہیں دوں گا۔ یہ کہہ کر رخ اٹھا کر اس جگہ رکھ لیا اور میر صاحب نے پھر واپس رکھ لیا۔ تیز ہو کر نووارد نے جھنجھلا کر کہا، ’’جی نہیں چلنا پڑےگا۔‘‘ اور پھر اپنی چال بھی چال دی۔ یعنی رخ سے میر صاحب کا گھوڑا مار مٹھی میں مضبوط پکڑ لیا۔ میر صاحب نے اور خان صاحب نے ہلڑ سا مچایا۔ میر صاحب کو جو تاؤ آیا تو گھوڑے کو رخ سے مار دیا۔ نووارد نے رخ کو رخ سے مارا تو خان صاحب نے غصہ میں اپنے وزیر سے مخالف کے فیل کو دیدہ و دانستہ مار کر وزیر پٹاکر مہرے بساط پر یہ کہہ کر پٹک دیئے ’’شطرنج کھیلتے ہو کہ روتے ہو؟ یہ لو میں ایسے اناڑیوں سے نہیں کھیلتا۔‘‘
اب میں بیٹھا، مگر نہ میر صاحب کی زبان قابو میں تھی اور نہ خان صاحب کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میر صاحب میرے مہرے اٹھا اٹھا کر چلنے لگے۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام، وہ مضمون اس بازی کا ہوا۔ شیخ جی (نووارد) ویسے بھی اچھی شطرنج کھیلتے تھے، بازی بگڑنے لگی کہ میر صاحب نے پھر ایک چال واپس کی۔ شیخ جی نے ہاتھ پکڑ لیا حالانکہ میر صاحب چال چل چکے تھے، مگر کہنے لگے کہ ’’ابھی تو مہرہ میرے ہاتھ میں تھا۔‘‘ خوب خوب جھائیں جھائیں ہوئی۔ شیخ جی مہرہ پھینک کر بگڑ کھڑے ہوئے، نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ جی بھاگ گئے۔ میں بھی اٹھنے کو ہوا تو میر صاحب نے کہا کہ ’’آو ایک بازی ہو جائے۔‘‘ میں نے گھڑی دیکھی۔ ابھی تو شام ہی تھی، میں نے جلدی جلدی مہرے جمائے کہ لاؤ ایک بازی کھیل لوں۔
میر صاحب روز کے کھیلنے والے، جھٹ پٹ انہوں نے مات کر دیا۔ میں نے جلدی سے دوسری بچھائی۔ وقت کی بات میر صاحب نے وہ بھی مات کیا۔ تیسری بچھائی، یہ دیر تک لڑی۔ میری بازی چڑھی ہوئی تھی اور میں ضرور جیت جاتا کہ میرا وزیر دھوکہ میں پٹ گیا۔ چال واپس کی ٹھہری نہیں تھی۔ یہ بھی میر صاحب جیتے۔ خوش ہو کر کہنے لگے، ’’اب تم سے کیا کھیلیں، ہماری شطرنج خراب ہوتی ہے۔ کوئی برابر والا ہو تو ایک بات تھی۔‘‘
مجھے غصہ آ رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’میر صاحب وہ دن بھول گئے۔ جب چار چار مات دیتا تھا اور ایک نہیں گنتا تھا۔ میری شطرنج چھوٹی ہوئی ہے۔‘‘ میر صاحب نے اور میری جان جلائی کہنے لگے، ’’ہار جاتے ہیں تو سب یوں ہی کہتے ہیں۔‘‘ غرض پھر ہونے لگی، اب میں جیتا۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ تینوں بازیاں اتار دوں اور میں نے دو اتار دیں اور تیسری زور سے جمی ہوئی تھی کہ خان صاحب نے سر اٹھا کر باہر جھانکا، ’’کون ہے؟‘‘ انہوں نے کہا اور سارس کی سی گردن اونچی کر کے دیکھا اور کہا، ’’لیجیے۔‘‘ کچھ طنزاً کہا۔ ’’لیجئے وہ ایلچی آ گیا۔‘‘
یہ میرا ملازم احمد تھا۔ وہ جا رہا تھا۔ میں نے آواز دے کر بلایا، ’’کیوں کیسے آئے۔‘‘
’’کچھ نہیں صاحب۔۔۔ دیکھنے بھیجا تھا۔‘‘
’’اور کچھ کہا تھا؟‘‘
’’جی نہیں بس یہی کہا تھا کہ دیکھ کے چلے آنا۔۔۔ جلدی سے۔‘‘
’’تو دیکھو‘‘ میں نے کہا۔ ’’کہا کہو گے جا کے؟ یہ کہنا کہ خان صاحب کے یہاں نہیں تھے۔ یوسف صاحب کے یہاں تھے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ تم سے تو یہی کہا ہے کہ خان صاحب کے یہاں دیکھ لینا۔۔۔ تو بس یہی کہہ دینا نہیں تھے۔۔۔ دیکھو۔۔۔‘‘
’’لا حول ولا قوۃ۔‘‘ خان صاحب نے بگڑ کر کہا۔ ’’ارے میاں تم آدمی ہو کہ پنج شاخہ! بیوی نہ ہوئی نعوذ باللہ وہ ہو گئی۔‘‘ نہیں جی۔ ’’خان صاحب نے غصہ سے احمد سے کہا، ’’جاؤ کہنا خان کے یہاں بیٹھے شطرنج کھیل رہے ہیں اور ایسے ہی کھیلیں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں دیکھو۔۔۔‘‘ میں نے کہا مگر خان صاحب نے جملہ کاٹ دیا۔
’’جاؤ یہاں سے کہہ دینا شطرنج کھیل رہے ہیں۔‘‘
’’مت کہنا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ابھی آتا ہوں۔‘‘
احمد چلا گیا اور اب خان صاحب نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ بہت سی انہوں نے تجویزیں میرے سامنے پیش کیں، مثلاً یہ کہ ’’میں ڈوب مروں۔۔۔ دوسری شادی کر لوں۔۔۔ گھر چھوڑ دوں۔۔۔ یہ سب محض اس وجہ سے کہ ایسی زندگی سے کہ بیوی کی سخت گیری کی وجہ سے شطرنج کھیلنا نہ ملے، موت سے بدرجہا بہتر۔ غرض اسی حجت اور بحث میں میرا ایک رخ پٹ گیا اور میری بازی بگڑنے لگی کہ میں نے میر صاحب کا وزیر مار لیا۔ میر صاحب غصہ ہو کر پھاند پڑے، ’’ادھر لاؤ وزیر۔۔۔ ہاتھ سے وزیر چھینتے ہو۔ ابھی تو میرے ہاتھ میں ہی تھا۔‘‘
’’اس کی نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’وزیر واپس نہیں دوں گا۔ ابھی ابھی تم نے مجھ سے گھوڑے والا پیدل زبردستی چلوا لیا تھا اور اب اپنی دفعہ یوں کہتے ہو! میں نہیں دوں گا۔‘‘
خان صاحب بھی میر صاحب کی طرف داری کرنے لگے۔ مگر یہ آخری بازی تھی جس سے میں برابر ہوا جا رہا تھا، لہذا میں نے کہا کہ میں ہرگز ہرگز چال واپس نہ دوں گا۔ خوب خوب حجت ہوئی، گزشتہ پرانی بازیوں کا ذکر کیا گیا۔ مجھے ان سے شکایت تھی کہ پرانی ماتیں جو میں نے ان کو دی تھیں وہ بھول گئے اور یہی شکایت ان کو مجھ سے تھی۔ پرانی ماتوں کا نہ میں نے اقبال کیا اور نہ انہوں نے۔ بالاخر جب یہ طے ہو گیا کہ میں وزیر واپس نہیں دوں گا تو میر صاحب نے مہرے پھینک کر قسم کھائی کہ اب مجھ سے کبھی نہ کھیلیں گے، لعنت ہے اس کے اوپر جو تم سے کبھی کھیلے۔ بے ایمان کہیں کے، تف ہے اس کم بخت پر جو تم سے اب کھیلے۔‘‘
میں نے بھی اسی قسم کے الفاظ دہرائے اور نہایت بدمزگی سے ہم دونوں اٹھنے لگے۔ خان صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’بھئی یہ تو کچھ نہ ہوا برابر برابر ہو گئی۔ ایک کو ہارنا چاہیے۔‘‘ اس پر میر صاحب بولے کہ میں جیتا اور میں بولا کہ یہ غلط کہتے ہیں، برابر ہے، خان صاحب نے کہا کہ اچھا، ایک بازی اور ہو، مگر میر صاحب کہنے لگے، ’’تو یہ ہے، ارے میاں خان صاحب تم مسلمان ہو اور میرا یقین نہیں کرتے میں قسم کھا چکا، لعنت ہو اس پر جو اب ان سے کھیلے۔‘‘ میں نے میر صاحب سے طنزاً کہا، ’’میر صاحب قبلہ یہ شطرنج ہے‘‘ اس کو شطرنج کہتے ہیں۔ مذاق نباشد۔ ابھی سیکھئے کچھ دن۔‘‘
’’ارے جاؤ۔‘‘ میر صاحب بولے۔ ’’بہت کھلاڑی دیکھے ہیں۔ نہ معلوم تم سے کتنوں کو سکھا کر چھوڑ دیا۔ ابھی کچھ دن اور کھیلو۔‘‘ اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اٹھ کر چلے گئے۔ خان صاحب میرے لیے پان لینے گئے، میں اپنی سائکل کے پاس پہنچا اور بتی جلائی۔ اتنے میں خان صاحب پان لے کر آ گئے اور میں چل دیا۔
بمشکل سامنے کے موڑ پر پہنچا ہوں گا کہ سامنے سے ایک آدمی نے ہاتھ سے مجھے روکا۔ میں رک گیا تو اس نے پیچھے اشارہ کیا۔ مڑ کر دیکھتا ہوں کہ میر صاحب چلاتے بھاگتے آتے ہیں، ’’اجی مرزا صاحب، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔‘‘ میر صاحب ہانپتے ہوئے بولے۔ ’’واللہ میں نے اچھی طرح حساب کیا کعبہ کے رخ ہاتھ اٹھا کر کہتا ہوں میری دو بازیاں اس آخری بازی کو چھوڑ کر تمہارے اوپر چڑھی رہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’بالکل غلط، بلکہ میری ہی آپ پر ہوں گی۔ آپ وہ اس اتوار والی بازی بھی لگاتے ہوں گے، وہ جس میں آپ کا رخ کم تھا۔‘‘
’’کیوں نہیں ضرور لگاؤں گا۔‘‘ میر صاحب نے کہا۔
’’یہ کیسے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’خوب! خان صاحب کی بازی اگر میں دیکھنے لگا اور ایک آدھ چال بتا دی تو وہ مات مجھے کیسے ہوئی۔‘‘
’’اچھا وہ بھی جانے دو خیر تو پھر ایک تو رہی۔‘‘
’’وہ کون سی؟‘‘
’’وہ جو شوکت صاحب کے یہاں ہوئی تھی۔‘‘
’’کون سی، کون سی مجھے یاد نہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں بھلا ایسی باتیں تمہیں کیوں یاد رہنے لگیں، ایسے بچہ ہونا۔‘‘
’’مجھے تو یاد نہیں میر صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہمیشہ آپ کو مات دے کر چھوڑ کر اٹھا ہوں یا اتار کر، ورنہ آپ پر چڑھا کر۔‘‘
’’ارے میاں ایک روز سب کو مرنا ہے۔ کیوں اپنی عاقبت ایک بازی شطرنج کے پیچھے خراب کرتے ہو۔ ذرا خدا اور رسولﷺ سے نہیں ڈرتے۔ شرم نہیں آتی، مات پہ مات کھاتے ہو اور بھول جاتے ہو۔‘‘
’’میر صاحب۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’آپ تو تین جنم لیں تب بھی مجھے مات دینے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اور بات ہے کہ بھول چوک میں ایک آدھ بازی پڑی مل جائے۔‘‘
’’ارے تم بیچارے کیا کھا کے کھیلو گے۔ گھر والی تو قابو میں آتی نہیں۔ میاں شطرنج کھیلنے چلے ہیں۔ اب دس برس رخ اٹھا کے کھلاؤں۔ کیا بتاؤں قسم کھا چکا ہوں ورنہ ابھی بتا دیتا۔‘‘
’’میر صاحب یہ شطرنج ہے۔‘‘ میں نے طنزاً کہا۔ ’’کبھی خواب میں بھی جیتے ہو؟‘‘
’’کیا قسم میری تم تڑواؤگے؟‘‘
’’ابھی شطرنج سیکھئے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے پیر مار کے انجن اسٹارٹ کر دیا اور سائیکل کو آگے بڑھایا۔
’’تو پھر ایک بازی میری رہی۔‘‘ میر صاحب ہینڈل پکڑ کر بولے۔
’’غلط بات۔‘‘ میں نے کہا۔
لیکن، میر صاحب نے سائیکل کو روک کر کھڑا کر دیا اور بولے۔ ’’ماننا پڑے گی۔‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں مانتا۔‘‘
میر صاحب پھر بولے، ’’تمہیں ماننا پڑے گی۔ نہیں تو پھر آ جاؤ۔۔۔ ابھی۔۔۔ قسم تو ٹوٹے ہی گی۔۔۔ خیر لیکن بازی۔‘‘
میں نے کچھ سوچا۔ یہ واقعہ تھا کہ اگر کھیلوں تو میر صاحب بھلا کیا جیت سکتے تھے۔ لہٰذا میں نے میر صاحب سے طے کر لیا کہ بس ایک بازی پر معاملہ طے ہے۔ میں ہار جاؤں یا وہ ہاریں تو ہمیشہ ہارے کہلائیں گے۔ سودا اچھا تھا۔ لہٰذا میں نے سائیکل موڑ لی۔ خان صاحب کے اخلاق کو دیکھیے۔ کنڈی کھٹکھٹاتے ہی کھانا کھانے سے اٹھ کر آئے اور ’’بھئی واللہ!‘‘ کہہ کر پھر اندر گس گئے اور پھر جو آئے تو لالٹین اور کھانے کی سینی ہاتھ میں لیے۔ بہت کچھ معذرت کی مگر بیکار، خان صاحب نے زبردستی کھلایا اور پھر شاباش ہے خان صاحب کی بیوی کو۔ انڈے جلدی سے تل کر فوراً تیار کیے۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم دونوں نے اپنا معاملہ خان صاحب کے سامنے پیش کیا۔ قصہ مختصر شطرنج جم گئی۔ مجھے جانے کی بڑی فکر تھی کہ خانم کیا کہےگی، مگر ایک بازی کا کھیلنا ہی کیا۔
شروع ہی سے میری بازی چڑھ گئی اور تابڑ توڑ دو چار تیز چالیں نکال کے اپنے رخ سے میر صاحب کا وزیر عروب میں لے لیا۔ میر صاحب نے یہ کہہ کر مہرے پھنک دیے کہ یہ ’’اتفاق کی بات ہے نظر چوک گئی۔‘‘ میں اٹھ کر چلنے لگا کہ دیر ہو رہی ہے۔ خان صاحب نے ہاتھ پکڑا کہ ایک بازی اور سہی۔ میر صاحب چپ تھے کہ میں نے کہا، ’’اب ہم دونوں برابر ہو گئے، اب کوئی ضرورت نہیں۔، خان صاحب ہنس کر بولے کہ ’’واہ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کون زبردست کھلاڑی ہے، برابر رہنا ٹھیک نہیں۔‘‘ ادھر میر صاحب نے کہا کہ اب اس اتوار والی بازی کو پھر شمار کر لیا جائے، جس سے وہ دستبردار ہو گئے تھے اور کہنے لگے کہ ایک اب بھی مجھ سے جیتے ہیں۔ ادھر خانم کا ڈر لگا ہوا، ادھر میر صاحب کی ضد اور خان صاحب کی کوشش۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بس ایک بازی اور ہو اور طے ہو جائے۔ قسمت کی خوبی کہ بازی جمائی اور چو مہری اٹھی، اس کے بعد کی بازی میر صاحب نے ایک چال پر قائم کر دی۔ شہ، شہ، شہ، شہ۔ بس شہ دیے جائیں تو ان کی بچت ہے، یہ بھی قائم اٹھی۔ پھر دوسری بازی بچھی اس کو میں بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا اور میں نے سوچا پیدل کی مات کروں گا۔ پورا مہرہ زائد تھا، مگر بدقسمتی سے میر صاحب کا بادشاہ زچ ہو گیا اور یہ بھی قائم اٹھی۔ میں گھبرا گیا۔ بڑی دیر ہو گئی تھی۔ جاڑوں کے دن تھے۔ گھڑی پر نظر کی، ساڑھے بارہ بجے تھے۔
(۴)
میں گھبراکر اٹھا۔ بڑی دیر ہو گئی۔ اب کیا ہوا؟ خانم کیا کہے گیَ خوب لڑے گی۔ بڑی گڑبڑ کرے گی، غالباً صبح تک لڑتی رہےگی۔ کیا کیا جائے؟ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ ایک تدبیر سمجھ میں آ گئی، سیدھا بزاز کی دکان پر پہنچا۔ دوکان بند تھی۔ مکان معلوم تھا، رات کو لالہ کو جا کھٹکھٹایا۔ لالہ گھبرائے ہوئے باہر نکلے۔ میں نے مطلب بیان کیا کہ ’’وہ عمدہ والی ساڑی دے دو۔ ابھی ابھی چاہئے۔‘‘ لالہ صاحب گھبرائے، کہا۔ ’’خیر تو ہے؟‘‘ مگر میں نے کہا کہ ابھی دو۔ لالہ نے بہانے کیے، مگر میں کب ماننے والا تھا۔ لالہ نے اپنے دو آدمی ساتھ لئے اور میں نے وہی عمدہ والی ساڑی لے لی اور جو پہلے لے گیا تھا وہ واپس کر دی۔ اب سیدھا گھر کا رخ کیا۔ جیسے ہی پھاٹک میں داخل ہوا انجن روک دیا اور پیدل گاڑی کو گھسیٹتا لے چلا۔ گاڑی کھڑی کر کے بنڈل ہاتھ میں لیا اور چپکے سے دروازے کا رخ کیا کہ اپنے ہی کتے نے ٹانگ لی۔ اسے چپکا کیا اور برآمدے میں پہنچ کر راستہ تلاش کیا۔ سب دروازے بند تھے۔ خیال آیا کہ غسل خانے کی چٹخنی ڈھیلی ہے، مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ صحن کی دیوار پر چڑھنے کی ٹھانی۔ نیم کے نیچے بھینس بندھتی تھی۔ اس کی ناندپر کھڑے ہو کر ایک پیر دروازہ پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کا سہارا لے کر اندر داخل ہوا۔ دھیرے دھیرے سونے کے کمرے کی طرف چلا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور میں چپکے سے کپڑے بدل کر کمرے میں داخل ہو گیا اور بڑی پھرتی سے لحاف کے اندر گھس گیا۔
میں سمجھا کہ خانم سورہی ہے، مگر وہ جاگ رہی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ کھانسی گویا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ’’میں جاگتی ہوں، ادھر میں کھنکارا کہ، ’’جاگتی ہو تو کیا کر لوگی۔ میرے پاس بڑھیا والی ساڑی ہے۔‘‘ ایک اور کروٹ انہوں نے لی اور پھر بڑبڑائیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں بھلا کب دبنے والا تھا۔ میں نے کہا، ’’کیوں، کیا جاگتی ہو؟‘‘
وہ بولیں، ’’تمہاری بلاسے۔ تم شطرنج کھیلنے جاؤ، میں کل جاتی ہوں۔‘‘
’’تم بھی عجیب عورت ہو!‘‘ میں نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’بزاز کے یہاں گیا وہاں پر خان صاحب مل گئے اور زبردستی انہوں نے وہی پیازی رنگ والی ساڑی دلوا دی۔ بہت کچھ میں نے کہا کہ دام نہیں مگر۔۔۔‘‘
’’پھر؟‘‘ خانم نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’پھر وہ ساڑی کیا ہوئی؟‘‘ اٹھ کر وہ لحاف میں بیٹھ گئیں۔
’’ہوئی کیا۔۔۔ وہاں سے ساڑی لے کر خان صاحب کے یہاں گیا، کھانا انہوں نے کھلایا، دو چار آدمی۔۔۔‘‘
’’ہوگا۔‘‘ خانم نے کہا۔ ’’ہوں گے آدمی، پھر وہ ساڑی وہی پیازی رنگ والی۔‘‘
’’یہ لو۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے بنڈل لا پرواہی سے خانم کے لحاف پر مارا۔ لیمپ کی روشنی فوراً تیز کر کے انہوں نے تیزی سے بنڈل کھولا۔ ساڑی کو کھول کر جلدی سے دیکھا پھر میری طرف بجائے غصہ کے ان کی آنکھوں سے محبت آمیز شکریہ ٹپک رہا تھا۔ شطرنج پر اعتراض تو کجا نام تک نہ لیا۔ ’’وہ مارا اناڑی کو۔‘‘ میں نے دل میں کہا۔
بہت دن تک تو جناب اسی ساڑی کی بدولت خوب دیر کر کے آیا۔ خوب شطرنج ہوتی رہی جیسے بیشتر ہوتی تھی۔ فرق تھا تو یہ کہ بجائے میرے گھر کے اب خان صاحب کے گھر پر جمتی۔ مگر رفتہ رفتہ غیر حاضری اور شطرنج بازی پر پھر بھویں چڑھنے لگیں۔ بجائے ملائمت کے ترش روئی اور سختی! دراصل استانی جی خانم کو بھڑکاتی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ خانم نے پیچ کسنا شروع کیا۔ مگر شطرنج کسی نہ کسی طرح ہوتی ہی رہی۔
ساری خدائی ایک طرف، خانم کا بھائی ایک طرف۔ وجہ شاید اس کی یہ تھی کہ خانم کے بھائی اصلی معنی میں بھائی تھے۔ یعنی صورت شکل ہو بہو ایک، بالکل ایک ذرہ بھر بھی فرق نہ تھا۔ صرف گھنٹہ بھر بڑے تھے۔ جڑواں بہن بھائیوں میں بے حد محبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے خانم کی مناسبت سے مجھے بھی خانم کے بھائی بےحد عزیز ہیں۔ پہلی مرتبہ بہن کے یہاں آئے۔ بہن کا نام سنتے ہی یہ حال ہو گیا کہ ننگے پیر دوڑ کر بھائی سے لپٹ گئی، بھائی خود بیتاب تھا، سینہ سے لگا کر بہن کی گردن کو بوسہ دیا۔ بھائی بہن نے گھنٹوں جم کر یکسوئی کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ دونوں دیوانے ہیں۔ بہن اپنے بھائی کو کتنا چاہتی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں خانم کو بھائی سے محبت دیکھ کر رشک کر رہا تھا۔ یہ شائد بھائی کی محبت کا ہی تقاضا تھا کہ خانم نے مجھے کونے میں لے جا کر بڑے پیار سے کہا کہ ’’دیکھو اب دو چار روز شطرنج نہ کھیلنا۔‘‘
میں نے خانم کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔ کس طرح اس نے محبت سے مجھ سے کہا، ’’شاید اسی طرز و انداز نے بت پرستی و شرک کی بنا ڈالی ہے! مظلوم غریب کیا کرے، ظالم کے کہنے کو کیسے رد کرے؟ خانم کی آنکھ کے نیچے کسی چیز کا ذرہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو ہٹانے کے لیے انگلی بڑھائی۔ آنکھیں جھپکا کر خانم نے خود رومال سے اس کو پاک کیا، پھر ہاتھ پکڑ کر اور بھی زیادہ صفائی سے زور دے کر شطرنج کو منع کیا۔
قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں۔ خانم کے بھائی پکارے، ’’بجو۔۔۔‘‘
بیتاب ہو کر خانم نے کہا، ’’بھیا۔۔۔‘‘ اور بے تحاشہ جیسے توڑا کر بھاگی کہ بھیا خود آ گئے، ’’کیا کر رہی ہو؟ خانم کے بھائی نے اپنے خوبصورت چہرہ کو عجیب جنبش دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خانم نے اس طرح کہا جیسے کوئی دکھ بھری داستان کا حوالہ تھا، ’’شطرنج کو منع کر رہی ہوں۔۔۔ شطرنج۔۔۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’دن دن بھر کھیلتے ہیں۔ رات رات بھر کھیلتے ہیں اور وہ کم بخت خان صاحب ہیں کہ۔۔۔‘‘
’’بھائی خدا کے واسطے شطرنج چھوڑیے۔ آپ برج نہیں کھیلتے۔۔۔؟ برج کھیلا کیجئے۔‘‘ بھیا نے کہا۔ ’’ہاں برج کھیلیں مگر یہ شطرنج تو۔۔۔‘‘
’’بڑی خراب چیز ہے بھائی۔‘‘ بجو (بہن سے اپنی مخاطب کر کے کہا) تو ان کی شطرنج جلا ڈال۔‘‘
’’رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بھیا میرے پاس۔۔۔‘‘ خانم ذرا چیخ کے بولی۔ ’’وہ کم بخت خان صاحب ایسے ہیں کہ ان کے ہاں جاجا کر کھیلتے ہیں۔۔۔‘‘
مجھ سے مخاطب ہو کر خانم نے کہا۔ ’’وعدہ کیجئے جب تک بھیا ہیں بالکل نہ کھیلئےگا۔‘‘ چنانچہ پختہ وعدہ کر لیا، پختہ!
(۵)
چلتے وقت خانم نے مسکرا کر انگلی گھما کر کہا تھا۔ ’’ادھر سے جائیےگا۔ ادھر سے۔‘‘ بھیا کی طرف میں نے مسکرا کے دیکھا۔ ’’دیکھتے ہو تم ان کا پاگل پن۔‘‘ بھیا کچھ نہ سمجھے کہ ان باتوں کا یہ مطلب ہے کہ خان صاحب کی طرف ہو کے مت جانا۔ میں تو چل دیا۔ بہن اپنے بھائی کو سمجھاتی رہی ہو گی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
’’وہ بھئی واہ! غضب کرتے ہو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے خان صاحب ہاتھ کا سگنل سامنے کئے ہوئے کھڑے تھے۔ ’’ایسا بھی کیا کہ پھٹ پھٹ کرتے بھاگتے جاتے ہو، سنتے ہی نہیں۔‘‘ میں نے گاڑی تو روک لی، مگر اترا نہیں اور ویسے ہی کنارے ہو کر کہا، ’’کام سے جا رہا ہوں، کام سے۔‘‘
’’ایسا بھی کیا ہے!‘‘ خان صاحب نے بازو پکڑے ہوئے کہا، ’’ذرا بیٹھو۔‘‘
’’اماں مرزا صاحب۔۔۔ مرزا جی۔۔۔‘‘ میر صاحب بیٹھک میں سے بولے۔ ’’واللہ دیکھو۔۔۔ تمہیں واللہ۔ اماں سنتے نہیں۔۔۔‘‘ ہاتھ سے بلا کر بولے، ’’تمہیں واللہ ذرا آ کر تماشا تو دیکھو، کیسا لالہ جی کا وزیر گھیرا ہے۔۔۔ ارے میاں ذرا۔۔۔‘‘
’’نہیں تمہیں ہم نہ چھوڑیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے گھسیٹا۔
’’بخدا مجھے بڑے ضروری کام سے جانا ہے۔ کل صبح تڑکے ہی موٹر چاہیے۔۔۔ اتوار کا دن ہے۔ ویسے ہی موٹر خالی نہیں ہوتا۔۔۔‘‘
’’بیر سٹر صاحب کے یہاں جا رہے ہوں گے۔۔۔ موٹر لینے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیا کرو گے؟‘‘
میں نے خان صاحب کو بتایا کہ خانم اور ان کے بھائی دونوں کو کل دن بھر مختلف مقامات کی سیر کرانا ہے۔
’’لاحول ولاقوۃ‘‘ خان صاحب نے مجھے گھسیٹتے ہوئے کہا، ’’اماں ہم سمجھے کوئی کام ہوگا۔۔۔ واللہ تم نے تو غضب ہی کر دیا۔ ذرا غور کرو۔۔۔ بھئی اندر چلو ذرا۔۔۔‘‘
’’میں رک نہیں سکتا۔‘‘
’’بخدا ذرا دیر کو۔۔۔ بس دو منٹ کو۔۔۔ بس پان کھاتے جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر خان صاحب نے آخر گھسیٹ ہی لیا۔ بیٹھک میں پہنچا تو میر صاحب مارے خوشی کے بےحال تھے۔
’’واللہ۔۔۔ بھئی مرزا کیا بتاؤں تم نہ آئے۔ دیکھو ان کا وزیر یہاں تھا۔۔۔ میں نے پیدل جو آگے بڑھایا تو۔۔۔‘‘
’’تو مہرے آپ کیوں جگہ سے ہٹاتے ہیں۔ کھیلنا ہو تو کھیلئے‘‘ یہ کہہ کر لالہ صاحب نے میر صاحب کو چپ کیا اور ادھر خان صاحب نے اپنا سلسلہ کلام شروع کیا۔
’’تو۔۔۔ ہاں وہ آپ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔ ہاں تو بات یہ ہے میاں تم ابھی نا تجربہ کار ہو۔ بھلا عورتوں کو موٹروں کی سیر سے کیا تعلق؟ خدارا کچھ سیکھو، جب ہی تو ہے نا کہ آپ کی ’’گھر میں‘‘ آپ شطرنج بھی نہیں۔۔۔‘‘
’’نقشہ دیکھو۔۔۔ ارے رے!‘‘ میرے صاحب نے زور سے پکڑ کر خان صاحب کو ہلا ڈالا، ’’و اللہ! بادشاہ کو گھیرا ہے۔۔۔ اپنا وزیر پٹا کر۔۔۔؟ مخالف سے مخاطب ہو کر، ’’مارئیے وزیر، لالہ صاحب۔۔۔ وزیر مارنا پڑےگا۔۔۔ مارو تو مات، نہ مارو تو مات۔۔۔ یہ لو مہرے اور بنو۔۔۔ بوندیں آ گئیں۔۔۔ اور بنو۔۔۔ ہٹاؤ چرخہ۔۔۔ یہ لو۔‘‘
میر صاحب نے واقعی خوب مات کیا تھا، اور میں اٹھنے لگا۔
’’بھئی ہم نہ جانے دیں گے۔۔۔ بغیر پان کھائے ہوئے۔۔۔‘‘ ارے پان لانا۔ خان صاحب نے زور سے آواز دی اور پھر کہا۔ ’’بھئی کوئی بات بھی ہے۔ عورتوں کو اول تو سیر کرانا ہی منع ہے اور پھر تم دیکھ رہے ہو کہ روز بروز تمہارے گھر کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ آج شطرنج کو منع کرتی ہیں کل کہہ دیں گی کچہری نہ جایا کرو۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو اور سہی تو ایک بازی میرصاحب کی دیکھ لو، چلے جانا، جلدی کاہے کی ہے۔‘‘
’’میر صاحب کا کھیل میں نے بہت دیکھا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’مجھے جلدی جانا ہے۔‘‘
’’میرا کھیل؟‘‘ میر صاحب بولے۔ ’’میرا کھیل دیکھا ہے۔۔۔ یہ کہو مذاق دیکھا ہے، تمہارے ساتھ کھیلتا تھوڑی ہوں۔ مذاق کرتا ہوں۔‘‘
’’اس روز زچ ہو گئی۔۔۔ بازی زچ ہو گئی ہو گی۔ ورنہ پیدل ہوتی اور وہ بھی پیدل پسند۔‘‘ ’’بازی تو آپ کی خوب چڑھی ہوئی تھی۔‘‘ خان صاحب نے تائید کی۔
’’جی ہاں۔‘‘ میر صاحب بولے، ڈھیل دے کر کاٹتا ہوں۔۔۔ ’’اناڑی کو بڑھا کر مارتا ہوں اور ایک میری اب بھی چڑھی ہوئی ہے۔‘‘
’’مر گئے چڑھانے والے۔‘‘ میں نے ترش روئی سے کہا، ’’میر صاحب یہ شطرنج ہے۔‘‘
پھر آ جاؤ نا۔۔۔ تمہیں آ جاؤ۔۔۔‘‘
’’بھائی ہو گی۔۔۔ ہو گی۔۔۔ ہٹو تو۔۔۔‘‘ خان صاحب نے شطرنج میری طرف گھسیٹتے ہوئے کہا۔
’’ہوگی۔۔۔ بس ایک بازی ہوگی۔‘‘
’’نہیں صاحب مجھے جانا ہے۔۔۔ ضروری کام سے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہم آدمی بھیج دیں گے۔۔۔ دیکھا جائےگا۔ اماں بیٹھو۔۔۔ رکو۔۔۔ بس، ایک۔‘‘
میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔ جماہی لے کر کہا۔ ’’اچھا لائیے۔ ایک بازی میر صاحب کو مات دے ہی دوں۔ آؤ بس ایک ہوگی۔‘‘
ایک بازی میر صاحب پر نظر کی چوک سے ہو گئی اور بڑی جلدی ہو گئی تو میں اٹھنے لگا۔ لیکن خاں صاحب نے آستین پکڑ لی کہ ’’بھئی یہ اتفاق ہے یہ کچھ نہیں ایک اور کھیل لو۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’خیر اچھا کھیلے لیتا ہوں۔‘‘ اور بیٹھ گیا۔
مگر اتفاق تو دیکھیے کہ یہ اس سے بھی جلدی چٹ پٹ ہو گئی۔ میر صاحب کا چہرہ فق ہو گیا۔ غضب ہے دس منٹ میں دو بازیاں۔ خان صاحب نے پھر پکڑ لیا اور کہا کہ یہ کوئی بات نہیں۔ غرض اسی طرح پانچ بازیاں میر صاحب پہ ہو گئیں۔ اب میں بھلا کیسے جا سکتا تھا۔ کیوں نہ ساتھ بازیاں کر کے میر صاحب کی لنگڑی باندھوں اور پھر دو بازیاں اور یعنی پورے نوکر کا ’’نوشیرواں‘‘ کر دوں۔ ضروری کروں گا، ابھی تو بہت وقت ہے۔ میں نے کہا کہ، ’’میں جاتا ہوں ورنہ لنگڑی کے لیے رسی منگائیے، میر صاحب غصہ میں خود چارپائی کی ادوان کھولنے لگے۔ خان صاحب نے فوراً رسی منگا دی اور اب زور شور سے شطرنج شروع ہو گئی۔
ایک بج گیا اور میں اب گویا چونک سا پڑا۔ بلا مبالغہ سیکڑوں بازیاں ہوئیں مگر مجھے لنگڑی نصیب نہ ہوئی۔ میں شطرنج چھوڑ چھاڑ کر سیدھا گھر بھاگا۔ پھاٹک پہ جب سائیکل روکی ہے تو آدھی رات گزر کر سوا بجے کا عمل تھا۔
’’یا اللہ اب کیا کروں؟‘‘ میں نے پریشان ہو کر کہا، ’’خانم کیا کہے گی، لاحول ولاقوۃ۔ میں نے بھی کیا حماقت کی۔ بھیا کیا کہےگا؟ بڑی لڑائی ہو گی۔‘‘ شش و پنج میں کھڑا سوچتا رہا، مگر اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔
اسی روز کی طرح بھینس کی ناند پر سے دیوار پار کی۔ استانی جی کے کمرے کے سامنے ہوتا ہوا تیزی سے نکل گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ ٹٹول کر کپڑے اتارے، سلیپر بغل میں دابے برابر والے کمرے میں داخل ہوا جس میں بھیا کا پلنگ تھا۔ بڑی ہوشیاری سے چاروں ہاتھ پاؤں پر چلتا ہوا گویا جانور کی طرح جانے کی ٹھہرائی۔ آدھے کمرے میں جو پہنچا تو ماتھے میں میز کا پایہ لگا اوپر سے کوئی چیز اس زور سے گردن پر گری کہ اس اندھیرے میں آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ میں دبک کر بیٹھ گیا۔ میں جانتا ہی تھا کہ بھیا غافل سونے والاہے، خانم سے بھی نمبر لے گیاہے۔ بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ یہ کیا گردن زدنی چیز تھی جو میری گردن پر گری، رینگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اور اٹھ کر اب خانم کے کمرے کے دروازہ پر پہنچا۔ خدا کا شکر ہے کہ اندھیرا گھپ تھا۔ اسی طرح پھر چاروں ہاتھ پاؤں کے بل رینگنا شروع کیا، کیونکہ اس روز خانم اٹھ بیٹھی تھی۔ چپکے چپکے پلنگ تک پہنچا اور غڑاپ سے اپنے بچھونے میں لحاف تان کے دم بخود پڑے پڑے سو گیا۔
صبح دیر سے آنکھ کھلی، اٹھا جو سہی تو کیا دیکھتا ہوں کہ خانم مع بسترا غائب۔ ارے! نکل کر دوڑا تمام معاملہ ہی پلٹ گیا۔ نہ بھیا ہیں نہ خانم، نہ استانی جی! نوکر نے کہا کہ رات کی بارہ بجے کی گاڑی سے سب گئے۔ غضب ہی ہو گیا۔ نہ تو ناشتے میں جی لگا اور نہ کسی اور طرف۔ سخت طبیعت پریشان تھی۔ اندھیرا ہو گیا، جن کمروں میں بھیا اور خانم کی مزیدار باتوں اور قہقہوں سے چہل پہل تھی ان میں سناٹا تھا۔ ادھر گھوما، ادھر گوما، گھر ایک اجڑا مقام تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد باؤلوں کی طرح گھومنے لگا۔ ایک دم سے غصہ آیا کہ چلو خان صاحب کے یہاں پھر جمےگی۔ کپڑے آدھے پہنے تھے کہ پھر طبیعت پہ خلجان سوار ہو گیا۔
خدا خدا کر کے تین بجے، اب خانم گھر پہنچنے والی ہو گی، لہٰذا تار دیا۔ ’’جلدی آؤ اور فوراً تار سے جواب دو۔‘‘ مگر جواب ندارد۔ وقت گزر گیا۔ دوسرا جوابی تار دیا کہ ’’جلدی آؤ۔‘‘ جواب آیا۔ ’’نہیں آتے‘‘ پھر جواب دیا۔ ’’اب شطرنج کبھی نہیں کھیلیں گے، جواب رات کو آیا۔ ’’خوب کھیلو۔‘‘
رات کے بارہ بجے کی گاڑی سے خود روانہ ہو گیا۔
خانم کے گھر پہنچا۔ خانم کی ماں اور باپ دونوں خانم سے بےحد خفا تھے۔ مگر خانم جب چلنے پر راضی ہوئی جب خدا اور رسول اور زمین و آسمان معہ قرآن مجید اور خود خانم کے سر اور بھیا اور خود خانم کی محبت کی قسم کھائی۔ وہ بھی بڑی مشکل سے وہ دن اور آج کا دن، جناب میری شطرنج ایسی چھوٹی ہے کہ بیان سے باہر، مگر سوچ میں رہتا ہوں کہ کون سی تدبیر نکالوں۔ شائد کوئی شاطر بتا سکے۔
- मिर्ज़ा-अज़ीम-बेग़-चुग़ताई