دل کو چھو جانے والی کہانیاں شاعری

احساسات کا جادو محسوس کریں

کہانیوں سے متاثرہ، شاعری کی دنیا میں غوطہ ڈالیں، جہاں محبت بھری اشعار آپ کے دل کو چھو لیں اور آپ کی روح کو احساسات کی دنیا میں جگا دیں۔ ان اشعار کو آپ کی آنکھوں میں لبب کرنے دیں اور آپ کے اندر بھی حس مٹھا کریں۔

مجھ سے سوال کیا گیا کہ بی بی کیسی ہونا چاہیے، میں کہتا ہوں کہ کوئی بری بی بی مجھ کو دکھادے تو میں اس سوال کاجواب دوں۔ میرے خیال میں بی بی خدا کی نعمت ہے اور خدا کی نعمت کبھی بری نہیں ہوتی۔ بیوی کی وجہ سے گھر میں روشنی سی پھیلی رہتی ہے۔ چراغ کے نیچے ذرا سا اندھیرا بھی ہوتا ہے، جیسا کہ میں ایک مرتبہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اگر کوئی نادان مرد ذری سی تاریکی سے گھبراکر چراغ کی شکایت کرے تو اندھیرا ہی تو ہے۔ میں اس کا بھی دعوے دار ہوں کہ میں نے آج تک کوئی بدصورت عورت بھی نہیں دیکھی۔ آنکھیں رکھتا ہوں اور دنیا دیکھتی ہے، اگر کہیں ہوتی تو آخر میں نہ دیکھتا۔
اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ بدصورت سے بدصورت جو کہی جاسکتی ہے اس کا بھی چاہنے والا کوئی نہ کوئی نکل آتا ہے۔ پھر اگر وہ بدصورت تھی تو یہ پرستش کرنے والا کہاں سے پیدا ہوگیا۔ اس لیلیٰ کا مجنوں کہاں سے آگیا، نہیں صاحب عورت بدصورت نہیں ہوتی یہ میرا ایمان ہے او ریہی ایمان ہرشخص کا ہونا چاہیے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ عورت میں عمدہ ترشے ہوئے ہیرے کی طرح ہزاروں پہل ہوتے ہیں اور ہر پہل میں آفتاب ایک نئے رنگ سے مہمان ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی پہل کسی (خاص شخص) کی آنکھ میں ضرورت سے زیادہ چکاچوندھ پیدا کردے، اور وہ پسند نہ کرے تو اس سے بی بی کی برائی کہاں سے ثابت ہوئی۔
ایک پرانے یونانی ڈرامہ نویس نے لکھا ہے کہ پہلے مرد اور عورتیں اس طرح ہوتے تھے کہ دونوں کی پیٹھ ایک دوسرے سے جڑی ہوتی تھی اور یہ لوگ راستہ اس طرح چلتے تھے کہ پہلے چاروں ہاتھ زمین پر لگے اور دونوں سر نیچے آگیے۔ اور چاروں پاؤں سر کی جگہ ہوا میں رہے۔ اس طرح کے بعد پلٹا کھایا اور چاروں پاؤں کے بل کھڑے ہوگیےاور اس طرح آگے بڑھتے گیے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسی حالت میں یہ لوگ راستہ بہت تیز چلتے تھے اور چونکہ دو دو آدمی ملے ہوئے تھے اس لیے ان کی قوتیں بھی دوگنی تھیں۔ دیوتاؤں نے ان کی شورہ پشتی کی وجہ سے مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہیے، آخرکار یہ صلاح ٹھہری کہ یہ بیچ سے علیحدہ کردیے جائیں تاکہ ان کی قوتیں آدھی رہ جائیں اور ان کے چڑھاوے دوگنے ہوجائیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، تب سے ہر عورت اور ہر مرد اپنا اپنا جوڑا ڈھونڈھتے پھرتے ہیں، جن کو مل جاتا ہے وہ خوش رہتے ہیں، جن کو بدقسمتی سے نہ ملا وہ غریب عورت کو دکھ دیتے ہیں۔
کسی کو بے زبان نموہی بیوی پسند ہے، کسی کو ایسی عورت اچھی لگتی ہے جس کی زبان ہر وقت کترنی کی طرح چلتی رہے، اگر خوش قسمتی سے وہی قدیم جوڑا مل گیا تو دونوں خوش ہیں، نہیں تو بی بی غریب کو برا کہتے ہیں، آخر اس غریب کا جوڑا بھی تو بچھڑ گیا ہے مگر اس کی کوئی بات بھی نہیں پوچھتا۔ یہ خیال غلط ہے کہ صرف اچھوں ہی اچھے کا ساتھ مزے دار ہوتا ہے۔ اگر تال میل ہوا اور پرگت مل گئی تو جن لوگوں کو ہم اپنے زعم ناقص میں براسمجھتے ہیں ان کی بھی زندگی لطف کی گزرتی ہے۔ آپ نے سنا نہیں


خدا کے فضل سے اترا تھا کیا ہی عرش سے جوڑا
نہ مجھ سا کوئی گرگا ہو نہ تم سی کوئی شفتل ہو
ہمارے پڑوس میں ایک میاں بی بی رہتے ہیں جن کا جوڑا پوری طور سے مل گیا ہے۔ یہ دونوں آدمی انتہا درجے کے کاہل، پرلے سرے کے جھوٹے اور حد کے نکارے ہیں، مگر جب دیکھیے دونوں قمریوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور گل بہیاں ڈالے بیٹھے ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں، کسی نے ان بچوں کا دھویا ہوا منھ کبھی نہیں دیکھا۔ کپڑے ان لوگوں کے تن پر سے کٹ کے گرجاتے ہیں مگر دھوبی کو دینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ بچوں کے کپڑوں میں ذرا سی پھونک بڑھ کے نیچے سے اوپر تک پہنچ جاتی اور پھٹ کر علیحدہ ہوجاتی ہے مگر سوئی تاگے کی شرمندہ نہیں ہوتی۔ میں نے ایک دن اس عورت سے پوچھا کہ تمہارے میاں تم کو چاہتے ہیں، کہنے لگی کہ اتنا چاہتے ہیں کہ کھانا لیے بیٹھے رہتے ہیں، مگر بغیر میرے نہیں کھاتے۔ دوسری مثال محبت کی دی کہ کل صبح بٹیر کے شکار کو جارہے تھے، میں نے کہا روز جاتے ہو مگر کبھی ایک پر بھی گھر میں نہ آیا۔ بس غصے میں ایک ڈنڈا میری پیٹھ پر رسید کیا، میں بھی دوپہر تک منھ پھلائے رہی اور نہیں بولی۔ تب دوڑے گیے، تیل کی جلیبیاں لے آئے، تب میں بولی، کبھی برابر کے جوڑ میں لطف آتا ہے، کبھی ایک نرم اور ایک گرم، زندگی کو آرام دہ بنادیتے ہیں۔
کسی رانڈ بیوہ کے یہاں ایک طوطا پلا تھا۔ وہ ہروقت اس عورت کو مغلظات سنایا کرتا تھا۔ ایک دن ان کے یہاں ایک پیرصاحب تشریف لائے۔ طوطے کو سن کر کہنے لگے، ارے تیرا طوطا بڑا فحاش ہے، پنجرا کھول دے یہ اڑے جائے، کہنے لگی، رہنے دیجیے میاں صاحب گھر میں مردوے کی ایسی بولی تو سنائی دیتی ہے۔


کوئی شخص شراب بہت پیتا تھا۔ اس نے پادری کے کہے سے شراب ترک کردی۔ کچھ دنوں کے بعد پادری صاحب اپنے پندونصائح پر ناز کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے اور پوچھا کہ کہو اب تمہارے میاں ماردھاڑ دنگافساد تو نہیں کرتے، نہایت مایوسی سے کہنے لگی، ارے حضور اب تو وہ میاں ایسے معلوم ہی نہیں ہوتے، کوئی دیکھے تو کہے مہمان طریق گھر میں آئے ہیں۔
چارلس ڈکنس نے ایک شخص سائکس امےکا حال لکھا ہے کہ وہ بھی اپنی نیک شریف خصلت، محنتی، چاہنے والی بیوی کو نہ صرف مارتا ہی تھا بلکہ جو کچھ محنت مزدوری کرکے وہ کمالاتی تھی، وہ بھی شراب میں اڑا دیتا تھا اور خود اس میں دنیا کا کوئی عیب نہ تھا جو نہ ہو۔ چور پر لے سرے کا تھا، ایک ہمدرد نے اس عورت کو مشورہ دیا کہ اس کو چھوڑدے، اس نے کہا کہ افسوس ہے دنیا اس کی برائی سے واقف ہے، خوبی سے نہیں واقف۔ اب ان باتوں کے بعد کوئی کیا کہہ سکتا ہے کہ کون مرد اچھا ہےاور کون عورت۔
میرے ایک دوست ایک ڈپٹی صاحب کا حال بیان کرتے ہیں کہ وہ دورے پر تھے اور میں ان سے ملنے گیا۔ معلوم ہوا کہ ڈپٹی صاحب غسل فرمارہے ہیں۔ یہ بیٹھے رہے، جب دیر ہوئی تو انھوں نے پھر دریافت کیا معلوم ہوا ابھی تک غسل میں ہیں۔ سرکاری کام تھا جس کے ناتمام رہ جانے میں دونوں کی بدنامی تھی۔ اس وجہ سے سنگ آمد سخت آمد انتظار کرتے رہے۔ مگر ڈپٹی صاحب آج نکلنے کا نام لیتے ہیں نہ کل۔ ان کی آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں، مگر ان کی برآمدگی کی کوئی صورت نہیں دکھائی دیتی۔ خیر کئی گھنٹوں کے بعد طلبی ہوئی تو یہ کیا دیکھتے ہیں کہ ڈپٹی صاحب دفتر کی میز کے پاس کرسی پر بڑی شان سے تشریف فرما ہیں۔ مسلوں کا ڈھیر لگا ہے مگر خالی پتلون اور کھڑاؤں پہنے بیٹھے ہیں۔ کاندھوں پر پتلون کی گیلس البتہ دکھائی دیتی ہے۔ کام پورا کرکے جب یہ باہر نکلے، نہ تاب ہوئی، اردلی سے انوکھی وضع کا سبب پوچھ ہی بیٹھے۔ معلوم ہوا بیگم کو کسی بات پر غصہ آگیا ہے۔ انھوں نے حکم دیا کہ آج اس مونڈی کاٹے کو کپڑے نہ دیے جائیں۔ خیال تو کیجیے جاڑوں کا مہینہ خیمہ کی زندگی لیکن اگر ڈپٹی صاحب کو یہ باتیں پسند ہیں تو ہم آپ برا ماننے والے کون۔
پیٹر پنڈر نے لکھا ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ اپنی بی بی کو مارتا ہے، مجھے ایسا جوش پیدا ہوا کہ میں گھر میں گھس گیا اور اس عورت کو بچانے لگا، میرا یہ کرنا تھا کہ دونوں میرے اوپر پلٹ پڑے اور مجھ کو مار کے باہر کردیا۔ لیجیے صاحب ہم تم راضی تو کیا کریں قاضی، غالب نے کہا ہے:


کبھی جو یاد بھی آتا ہوں تو وہ کہتے ہیں
کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں
کیوں صاحب اگر کسی کو فتنہ وفساد ہی والا شریک زندگی پسند ہو تو ہماری آپ کی پسندیدگی ناپسندیدگی کیا چیز ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ بی بی اچھی اور یہ بری ہے۔ اکثروں کو آس پاس کے گھروں سے اس طرح کی باتیں سننے کا اتفاق ہوا ہوگا کہ ارے یہ ہاتھ تھکیں، الٰہی تن تن کوڑھ ٹپکے، مچ مچاتی کھاٹ نکلے، تب میرے دل میں ٹھنڈک پڑے۔ اڑوسی پڑوسی ادھر ادھر کھڑے نفرین کر رہے ہیں کہ بھئی کیا برے لوگ ہیں۔ کیا کتے بلی کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیجیے صاحب شور و شغب مٹ گیا۔ میاں نکل کر اپنے کام پر چلے گیے، بی ہمسائی کچھ تو ہمدردی کرنے کے خیال سے اور زیادہ تر ٹوہ لینے کو کھڑکی کی طرف سے اندر داخل ہوئیں۔ دیکھا کہ اک طرف کا گال سوجا ہوا ہے، آنکھوں کی لالی باوجود منھ دھونے کے ابھی مٹی نہیں ہے۔ حال تو سب پہلے ہی سے جانتی تھیں، مگر انجان بن کر پوچھنے لگی۔ اے بہن یہ کیا ہوا، جواب ملا بہن کیا کہیں، آپ ہی لڑے، آپ ہی خفا ہوکر چلے گیے، کھانا بھی نہیں کھایا، یہ دیکھو ویسے ہی رکھا ہے، پان کی ڈبیا بھی نہیں لے گیے، دل کڑھتا ہے کہ دن بھر بن پان کے رہیں گے، منھ صابن ہوجائے گا۔ لیجیے صاحب یہ تو گئی تھیں کہ وہ میاں کی اگر ایک برائی کریں گی تو ہم دس کریں گے۔ وہاں رنگ ہی دوسرا دیکھا۔ اپنا سا منھ لے کر چلی آئیں۔
ایک دوسرے مرحوم دوست کہا کرتے تھے کہ بی بی کے ناز وانداز ہر طرح کے اٹھائے جاسکتے ہیں، لیکن ایک بات ناقابل معافی ہے، وہ یہ کہ یہ لوگ کبھی کبھی مرجاتی ہیں۔ اسی کے مقابل یہ دوسرا لطیفہ سنیے۔


ایک صاحب نے بیان کیا کہ میری بی بی دو ہی برس کے اندر داغ مفارقت دے گئیں۔ ذرا سا لڑکا ایک پھوسڑا اپنی نشانی چھوڑ گئیں۔ میری ایک بڑی سالی تھیں جو شاید اسی انتظار میں پہلے ہی سے رنڈاپا کھے رہی تھیں۔ خوش دامن صاحبہ کہنے لگیں، میاں تمہاری سالی موجود ہے اگر عقد کرلیتے تو مردہ رشتہ پھر زندہ ہوجاتا۔ میں نے بھی سوچا کہ اب وہ جوان جہاں نہ رہی تو یہ ادھیڑ کیا رہے گی، لاؤ کر بھی لو۔ لڑکے کی خالہ ہے، بچہ بھی پل جائے گا، جہیز بھی اچھا خاصا ہاتھ لگے گا۔ ان کے مرنے کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ اپنی ہم سن ڈھونڈھ کر کرلیں گے۔
لیجیے صاحب عقد ہونے کو تو ہوگیا مگر وہ آج مرتی ہیں نہ کل۔ وہ تو پہلے ہی سے بوڑھی تھیں، میرے بھی دانت گر گیے، مگر وہ جانے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ ادھر میں کہیں سفر کو تیار ہوا اور ادھر وہ امام ضامن لیے ڈیوڑھی کے پاس پہنچ گئیں۔امام ضامن کی ضمانت میں سونپا کہو قبول کیا۔ جس طرح پیٹھ دکھاتے جاتے ہو اسی طرح اصل خیر سے واپس آکر منہ دکھانا نصیب ہو۔ ان صاحب کا بیان ہے کہ بڑی بی بی کے مرنے سے تو مایوسی ہوہی چکی ہے۔ میں نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہے کہ ادھر انھوں نے امام ضامن باندھا، ادھر میں نے بھی ایک چیتھڑا لے کر ان کے داہنے بازو پر باندھ دیا اور کہنا شروع کیا،’’خدا تمہارے سائے میں ہمیں پروان چڑھائے۔‘‘وہ پوپلا منھ بٹوا سا لے کر ہنسنے لگیں، ہٹو بھی تمہاری مذاخ۔۔۔ کی باتیں کبھی نہ جائیں گی۔
اب ذرا غور فرمائیے۔ اگر ان صاحب کو کہیں ہم نے صلاح دی ہوتی کہ بڑی سالی سے کرلو تو خدا واسطے کو، ہم ہی تو بدنام ہوتے۔ نہیں صاحب اس معاملے میں یہی ٹھیک ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ،
مذاق عشق یہ ہے نکتہ چیں نہ بن ناصح


نگاہ میری، پرکھ میری، آنکھ میری ہے
جنھیں نظر نہیں اے آرزو وہ کیا جانیں
خزف سمیٹے ہیں یا موتیوں کی ڈھیری ہے؟

- chaudhari-mohammad-ali-rudaulvi


دس سال سے یعنی جس دن سےمیری شادی ہوئی ہے، یہی ایک سوال بار بارکسی نہ کسی صورت میں ہمارے سامنے دہرایا جاتا ہے، آپ کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ کے ہاں روٹی ہے؟ گھر ہے؟ روزگار ہے؟ خوشی ہے؟ عقل ہے؟ سب یہی پوچھتے ہیں کہ آپ کے ہاں بچّہ ہے؟ گویا بچّہ ان تمام ضروریاتِ زندگی کا نعم البدل مان لیا گیا ہے، ہم دونوں کو اس سوال سے انتہائی کوفت ہوتی ہے مگر کیا کریں سکون کی خاطر طرح طرح سے اس سوال کو ٹالنا پڑتا ہے۔
میرے ایک دوست ہیں ماشاء اللہ سات عدد بچّوں کے باپ ہیں اور آٹھویں کی فکر میں ہیں، ان کے بچّے اکثر بیمار رہتے ہیں، آج ایک کو کالی کھانسی ہے، تو دوسرے کو بخار ہے، تیسرے کو چیچک نکل آئی ہے، تو چوتھے نے سڑک پر گر کر اپنا سر پھوڑ لیاہے، پانچویں کی آنکھیں دکھتی ہیں، تو چھٹا اس بات پر ادھار کھائے ہے کہ کب کسی مہمان کی گود میں بیٹھے، اور پیشاب کرے، مگر اس روشن اولاد کے باپ کو صرف ایک ہی غم کھائے جا رہا ہے، اٹھتے، بیٹھتےمجھ سے سوال کرتے رہتے ہیں۔ ’’آپ کے ہاں بچّہ کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
میں اس سوال کے جواب میں اکثر اپنی ڈبڈبائی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھاکر نہایت مسکین لہجے میں جواب دیتا ہوں۔ ’’کیا بتاؤں نہیں ہوتا۔‘‘ گویا اس حادثہ یا عدم حادثہ کی ذمّے داری مجھ پر نہیں خدا پر عائد ہوتی ہے مگر میرے دوست کی تسلّی اس جواب سے نہیں ہوتی آگے جھک کر بڑے رازدارانہ لہجے میں فرماتے ہیں۔ ’’کسی ڈاکٹر کی مدد لیجئے۔‘‘ میں کہتا ہوں۔ ’’کیسے لے سکتا ہوں۔ جس ڈاکٹر کے ہاں ہم لوگوں کا علاج ہوتا ہے اس کے ہاں خود کوئی بچّہ نہیں ہے۔‘‘ وہ فوراً گھبرا کر کہتے ہیں، ’’آپ سمجھے نہیں، میرا مطلب ہے۔۔۔ کسی ڈاکٹر کو دکھایئے۔۔۔ ممکن ہے آپ کے اندر کوئی نقص۔۔۔‘‘
میں بات کاٹ کر کہتا ہوں، ’’دکھایا ہے۔ کوئی نقص نہیں ہے۔‘‘


’’اور ہماری بھابی؟‘‘
’’وہ بھی ٹھیک ہیں۔‘‘
’’وہ بھی ٹھیک ہیں۔۔۔ آپ بھی ٹھیک ہیں۔‘‘ میرے دوست بڑی حیرت سے کہتے، ’’پھر بھی بچّہ نہیں ہوتا۔ حیرت کی بات ہے صاحب؟‘‘
یہ کہہ کر غور سے اور انتہائی شُبے سے مجھے دیکھنے لگتے ہیں، جیسے میں جھوٹ بول رہا ہوں اور کسی خوفناک بلکہ شرمناک مرض کا شکار ہوں اور ان سے دانستہ چھپا رہا ہوں۔ ان کا بس نہیں چلتا، ورنہ وہ خود کھڑے کھڑے ہم دونوں کا ڈاکٹری معائینہ کرا ڈالیں۔


ایک اور دوست ہیں ہمارے۔ انہیں یہ تو شبہ نہیں ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی میں خدانخواستہ کوئی نقص ہے مگر وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ہم لوگ دیدہ ودانستہ بچّہ پیدا نہیں کرتے۔ وہ جب بھی ہمارے گھر آتے ہیں بچّوں کے فوائد پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتے ہیں۔ البتہ تقریر کرتے وقت انداز سیاستداں کا سا نہیں ہوتا بلکہ ایسے بروکرکا ہوتا جیسے ہمارے ہاں بچّہ ہونے پر ان کو فوراً کمیشن ملے گا۔
میں ان سے بہت الجھتا ہوں۔ کیوں کہ مجھے خواہ مخواہ شبہ ہوجاتا ہے کہ بچّہ میں پیدا کروں اور فائدہ ان کو ہوگا۔ جی چاہتا ہے کہ محض ان کو زک دینے کے لئے زندگی بھر کوئی بچّہ پیدا نہ کیا جائے۔ اکثر فرماتے رہتے ہیں، اگر آپ کے گھر کوئی بچّہ ہوتا تو میں اس کی شادی اپنی مُنّی سے کرتا۔ ان کی مُنّی انتہائی بدصورت، بھینگی، بدمزاج، اور مرگھِلی ہے۔ محلّے کے سب بچّوں سے لڑتی رہتی ہے۔ اس کے سر پر بال اس قدر کم ہیں کہ بڑی ہونے پر انشاء اللہ واقعی گنجی ثابت ہوگی۔ مگر یہ حضرت ہیں کہ میرے گھر میں اسی چاند سی بیوی کا اضافہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس مُنّی کو دیکھ کر مجھے نہ صرف اپنے بلکہ ان تمام بچّوں کی خوش قسمتی پر رشک ہوتا ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ یا جن کے پیدا ہونے کی کوئی امیّد نہیں ہے۔
ہمارے ایک تایا ہیں۔ پچاس برس کی عمر ہونے پر بھی ان کا نام چُھٹن لال ہے۔ تایا چُھٹن لال بچّوں کے بے حد قائل ہیں اور جوں جوں بوڑھے ہوتے جاتے ہیں بچّوں کے زیادہ سے زیادہ قائل ہوتے جاتے ہیں۔ گھر آتے ہی میرے سر پر بڑی شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہیں۔ مجھ پر کم، میری بیوی پر زیادہ۔ پھر ایک آہ سرد بھر کر کہتے ہیں،
’’افسوس تمہارے ہاں کوئی بچّہ نہ ہوا۔ اسے گود میں کھلانے کا ارمان دل ہی دل میں رہ گیا۔‘‘


میں جواب دیتا ہوں۔ ’’تایا جی! مجھے ہی گود میں کھلا لیجئے۔‘‘
تو اس پر برہم ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’’تو نہیں جانتا۔ تو تو احمق ہے۔ نرا پورا احمق! بچّے تو گھر کی رونق ہوتے ہیں۔ وہ کبھی جھگڑتے ہیں، کبھی ہنستے ہیں، کبھی روتے ہیں، کبھی چلّاتے ہیں، دھول دھپّا کرتے ہیں، بچّوں کے ہونے سے گھر میں عجیب رونق سی رہتی ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں، ’’اس کام کے لئے ہمسائے کے بچّے کیا کافی نہیں ہوتے؟ پھرجہاں تک چیخنے چلاّنے کا تعلق ہے آدمی بچّے کیوں پیدا کرے وہ آل انڈیا ریڈیو کا کوئی ڈرامہ کیوں نہ سن لے۔ جس میں چیخنے چلاّنے کے سوا اور کچھ ہوتا ہی نہیں۔ اس لئے ایک بچّے کو نو مہینے پیٹ میں رکھنا، پھر اسے پالنا پوسنا اور اس پر ہزاروں روپے خرچ کرنا کیا ضروری ہے۔ جب کہ یہ کام بہ آسانی ریڈیو کی ایک سوئی گھومانے سے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔‘‘
میری یہ بات سن کر وہ اور برہم ہو جاتے ہیں۔


’’تیری تو مت ماری گئی ہے۔ اور تو اپنے ساتھ اپنی بیوی کو بھی لے ڈوبے گا۔‘‘
پھر وہ بڑے پیار سے میری بیوی کی طرف مخاطب ہو کرکہتے ہیں، ’’کیوں بیٹا! تجھے تو بچّے پسند ہیں نہ؟‘‘ اور میری بیوی لجا کر نہایت شرمیلی آواز میں جواب دیتی ہے، ’’جی ہاں۔ بشرطیکہ وہ دوسروں کے ہوں۔ صاف ستھرے کپڑے پہنتےہوں اور غسل خانے سے فارغ ہوچکے ہوں۔‘‘ اس پر تایا جی ہنس پڑتے ہیں۔ اور میری بیوی کے ہاتھ سے دودھ جلیبی کھا کر رخصت ہوجاتے ہیں یہ دعا دیتے ہوئے۔ ’’بھگوان تیری کوکھ ہری کرے۔‘‘
اب یہ کون کس کو سمجھائے کہ جوں جوں کوکھ ہری ہوتی جاتی ہے یہ د نیا اجڑتی جاتی ہے۔ اورنگ زیب کے زمانے میں ہندوستان کی آبادی دس کروڑ تھی۔ اب چالیس کروڑ ہے، اورنگ زیب کے زمانے میں آٹا روپےکاڈیڑھ من تھا، اب روپے کا ڈیڑھ سیر بھی مشکل سے ملتاہے۔ سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر دنیا کی کوکھ اسی طرح ہری ہوتی رہی تو اگلے تین سو سال کے بعد انسانی آبادی اس قدر بڑھ جائے گی کہ ایک انسان کے حصّے میں صرف ایک مربعّ گز زمین آئے گی۔
اب اس ایک گز زمین میں آپ چاہے کھڑے ہولیں، چاہیں بیٹھ لیں، چاہے سو لیں، یا چہل قدمی کر لیں۔ ایک مربعّ گز زمین پر آپ اپنا گھر بنا لیجئےاور اسی پر اپنی قبر۔ اس سے زیادہ زمین آپ کو تین سوسال کے بعد نہیں ملنے والی ہے۔


اور سائنس دانوں نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ جس رفتار سے آج کل بچّے پیدا ہو رہے ہیں۔ اسی شرح کے مطابق اگلے سات سو سال میں انسانوں کی آبادی اتنی بڑھ جائے گی کہ ان کا کل وزن ملا کے زمین کے وزن سے بڑھ جائےگا۔ لازماً زمین اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی اور ٹکڑے ہوجائے گی۔ یعنی قیامت آجائے گی۔
گو جو بچّے پیدا کرتا ہے، وہ دھیرے دھیرے قیامت کو قریب لاتا ہے۔ مگر ہندوستان میں یہ بات آپ کسی سے نہیں کہہ سکتے، کسی کی کوکھ ہری ہو یا نہ ہو، آپ کی چندیا ضرور ہری کردی جائے گی۔
اس لئے بچّوں کے سلسلے میں مجھے تو آج تک اپنا ہم خیال کوئی نہیں ملا۔ لیکن ایک بار میری بیوی کو ایسی سہیلی مل گئی تھی۔ قصّہ یہ ہوا کہ میری بیوی ایک روز اکیلے سنیما دیکھنے چلی گئی، کوئی ہندوستانی پکچر تھی، اس تصویر میں ٹن ٹن کے بارہ بچّے۔ پورے بارہ بچّے تلے اوپر کے دکھائے گئے تھے۔ بارہ بچّوں کی لین ڈوری کو دیکھ کر میری بیوی تو ہنس ہی پڑی ۔ لیکن ساتھ کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی ایک عورت بھی ہنس پڑی۔
میری بیوی کو یہ دیکھ کر پہلے تو بڑی حیرت ہوئی۔ بعد میں اس نے اس عورت سے بہنا پا کر لیا۔ بعد میں میری بیوی کو پتہ چلا کہ وہ عورت محض اس لئے ہنس رہی تھی کہ اس کے صرف گیارہ بچّے تھے۔ گیارہ بچّوں والی عورت کو بارہ بچّوں والی عورت پر ہنسنے کا پورا پورا حق ہے۔


یہ اکثر کہاگیا ہے کہ بچّے قوم کی دولت ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ہندوستان کا شمار دنیا کی امیر ترین قوموں میں کرنا چاہیئے۔ زندگی کے کسی اور شعبے میں ہم دولت پیدا کریں یا نہ کریں، بچّے پیدا کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
ہمارے محلّے میں ایک صاحب رہتےہیں۔ نام ان کا دولت رام ہے اور واقعی بچّوں کی دولت کے اعتبار سےوہ ہمارے محلّے کے رئیس سمجھے جا سکتے ہیں۔ اب تک دس بچّے تصنیف فرما چکے ہیں جب ان کے ہاں پہلا بچّہ ہوا تو ان کے گھر میں موٹر گاڑی تھی، ریفریجٹر تھا، ریڈیو گرام تھا، غالیچہ تھا، صوفہ تھا، بجلی کا پنکھا تھا۔ غرضیکہ آرام و آسائش کی ہر چیز مہیّا تھی۔ پھر جب دوسرا بچّہ پیدا ہوا تو موٹر گئی، تیسرے بچّےکے ہونے پر ریڈیو گرام گیا، چوتھے پر ریفریجٹر، پانچویں پر غالیچہ، چھٹے پر صوفہ، ساتویں پر پنکھا، اب دسویں بچّے کی پیدائش پر چند ہفتے ہوئے ان کے گھر کی بجلی بھی کٹ گئی ہے۔ یعنی جس منزل اور مقام پر کل ہندوستان اورنگ زیب کے زمانے سے اب تک ڈھائی سو سال میں پہنچا ہے وہ انہوں نے دس سال میں حاصل کرلیا ہےاور اپنی خوش قسمتی پر نازاں نظر آتے ہیں۔
اکثر ایک بچّے کو کندھے پر چڑھائے، دوسرے کو گود میں اٹھائے تیسرے کو انگلی سے لگائے میرے پاس آتے ہیں۔ اور چوتھے بچّے کو میری گوددے کر کہتے، ’’بھائی صاحب!اب آپ بھی بال بچّوں والے ہوتے تو اپنے بچّے کو گود میں لے کر خوش ہوتے۔‘‘ اور میں جلدی سے ان کے بچّے کو گود سے اتار کر کہتا ہوں، ’’رہنے دیجئے بھائی صاحب ! میں لنڈورا ہی بھلا۔‘‘
اس پر ان کا بچّہ میری گود سے اترنے سے انکار کر دیتا اور اپنی ناک سے انگلی نکال کر میرے منھ میں ٹھونستے ہوئے کہتا ہے، ’’آہا۔۔۔ میرا چاچالندولا۔۔۔ میرا چاچا لندولا۔۔۔‘‘


پھر ان بچّوں کے نام کس قدر عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ جو لڑکا ہے وہ کٹّو ہے، یا بِجّو ہے، یا پکوّ ہے، یاسلوّ ہے، یا جُنوّ ہے، وہ راکی ہے، کراکی ہے، راتی ہے، پاتی ہے، چٹپرقناتی ہے، جو لڑکی ہے وہ گیلگی ہے، گوگلی ہے، شُنّی ہے، ڈنّی ہے، چّمی ہے، پّمی ہے، اَللّی ہے، بللّی ہے، مرگھلّی ہے۔ آج تک آپ نے کسی بچّے کا نام قائدے اور ڈھنگ کا نہیں سنا ہوگا اس بات سے جہاں والدین کے ذہن کی غربت پر روشنی پڑتی ہے، وہاں ان بچّوں کے مستقبل کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہےجو یہ نام لے کر زندگی کے سفر پر نکلتے ہیں۔ اس حساب سےاپنے بچپن میں پنڈت جواہرلال کا نام ضرور حجّو رہا ہوگا۔ میکمِلن کا مکِی اور کینیڈی اگر ہندوستان میں پیدا ہوتے تو ضرور ان کا نام کِڈا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں بڑے آدمیوں کی عظمت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اپنے بچپن کے مضحکہ خیز ناموں کے باوجود بڑے آدمی بن جاتے ہیں اور جو عام صلاحیتوں کےمالک ہوتے ہیں، جیسے کہ اکثر لوگ ہوتے ہیں وہ اسی مضحکہ خیزی کی بدولت ایک انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔
بات اگر ناموں تک ہی محدود ہوتی تو چنداں مضائقہ نہ تھا۔ لیکن مصیبت تو یہ ہےکہ اچھے بھلے لوگ ایسے بھی جن کی انشا پردازای، ادبیت صحافت اور خطابت کی ساری دنیا میں دھوم ہے۔ اپنے بچّوں سے اکثر اسی لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں، تو بڑا ڈرلو ہے، پپلو ہے، چپلا گُھپلو ہے، میرا مُنّا تو آکا باکا ہے، کجّو پاکا ہے، جمن پٹاکا ہے،ارے تو ہپّا کھائے گا ؟، رپّا کھائے گا؟ گپّا کھائے گا؟ دہپّا کھائےگا؟
یہ کیا زبان ہوتی ہے؟ یہ نہ اردو ہے نہ ہندی، گجراتی ہے نہ مراٹھی، پشتو ہے نہ بلوچی، انگریزی ہے نہ لاطینی، یہ توسپرانٹو تک نہیں ہے۔ خدا جانے کس دیس اور قوم کی زبان ہے؟ مگر ہر دیس یا قوم کا فرد اپنے بچّے سے اس زبان میں گفتگو کرے گا اور بچّے بھی ایسے نا معقول ہوتے ہیں کہ غوں غاں کرتے ہوئے، بانہیں اچھال کر، ٹانگیں اٹھا کر، منھ پر جھاگ کے بلبلے چھوڑتے ہوئے ہنس ہنس کر سر ہلاتے ہوئے اسی زبان میں جواب تصنیف فرمانے کی کوشش فرماتے ہیں۔
غالباً دنیا کی یہی وہ واحد زبان ہے جس کے لئے ڈکشنری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ڈکشنری کیا اس کے لئے تو کسی کتاب، کسی گرامر اور کسی قائدے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔


یہی زبان سیکھ کر جب بچّے بڑے ہو جاتے ہیں اور زندگی کے مسائل سے الجھ کر اپنا مافی الضمیر بھی ٹھیک طرح سے بیان نہیں کر سکتے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ یہی بچّےجب بڑے ہو کر کتابوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور باربار سنیما دیکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو انہیں قابلِ ملامت کیوں سمجھا جائے۔ سارا قصور ان کے والدین کا ہےجو ان کی تربیت ہی اسی انداز میں کرتے ہیں۔
تربیت سے یاد آیا کہ بالعموم بچّوں کی تربیت ایک سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ آج کل یہ ایک طرح کا فیشن چل نکلا ہے کہ بچّوں کو روکو نہ ٹوکو، جو ان کا جی چاہے وہی کرنے دو، سنا ہے اس سے بچّوں کی بہت سی نفسیاتی الجھنیں دور ہو جاتی ہیں، یعنی وہ الجھنیں جو بڑے ہونے پر ان کو لاحق ہو سکتی تھیں، یہ بھی سنا ہے کہ ایسی نفسیاتی ایجاد کا سہرا فرائیڈ کے سر ہے جس سے بڑا الجھنوں کا بانی اور گورکھ دھندے باز اس دنیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا۔
میرے عزیز دوست دولت رام، فرائیڈ کے اس مقولے پر بڑی پابندی سےعمل کرتے ہیں۔ نہ صرف عمل کرتے ہیں بلکہ بچّوں کو بہ راہ روی پر اکساتے ہیں، یعنی فرائیڈ سے بھی دو ہاتھ آگے جاتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ یہ حضرت مع اپنی بیوی کے اور چھ بچّوں کے ہمارے گھر میں اس وقت وارد ہوئے جب ہم میاں بیوی نہا دھوکر اجلے کپڑے پہن کر سنیما جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ہمارے ہندوستانی سماج کا ایک قائدہ یہ بھی ہے کہ کتنے ہی ضروری کام یا ضروری تفریح کے لئے جا رہے ہوں۔ گھر میں اگر مہمان آجائے تو آپ کہیں نہیں جا سکتے، مہمان سےکچھ کہہ نہیں سکتے، آپ کو لا محالہ رکنا پڑے گا، گھنٹوں بات چیت کرنی پڑے گی، اور باتوں کے دوران میں بات بے بات بلا وجہ یو ں ہی ہنسناپڑے گا، الغرض آپ کو یوں کہنا پڑے گا کہ آپ اپنے ہمسائے کی آمد سے بے حد خوش ہوئے ہیں، حلانکہ اندر ہی اندر آپ کا دل انہیں قتل کرنے کو چاہتا ہوگا، مگر تہذیب مانع ہے، آپ مسکرا کر اور خون کا گھونٹ پی کر (ہمسائے کا نہیں ۔ اپنا) خیر مقدم کرنے پر مجبور ہیں۔


مگر ہمسائےکے لئے تو کسی خیر مقدم کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ آپ کو ہو تو ہو، ہمسائے کو نہیں ہوتی، چنانچہ دولت رام نے آتے ہی میری پیٹھ پر ایک زور کا دھپ دیا اور میری کمر میں ہاتھ ڈال کر بڑی بے تکلفی سے میری ہڈی پسلی ایک کرتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔ مسز دولت رام نے میری بیوی سے باتیں شروع کردیں، اور بچّوں نے غالیچے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف کمرے کے سامان کا یوں جائزہ لینا شروع کردیا، جیسے وہ کسی کمرے میں نہیں کسی جنگل میں آنکلے ہوں۔
اس کے بعد دو بچّوں نے ٹارزن کی طرح ایک خوفناک چیخ اپنے حلق سے نکالی اور ریڈیوگرام کی طرف لپکے، میرا دل دھک سے رہ گیا، مگر بچّوں کو کسی کے دل کے دورے سے کیا غرض، چنانچہ ایک بچّہ نے بڑھ کر کے ریکارڈ بجانے شروع کر دیئے، دوسرے نے ریڈیو کی سوئی گھمانی شروع کردی۔
تیسرا بچّہ بک شیلف پر چڑھ گیا اور کتابیں نکال نکال کر باہر پھینکنے لگا۔ چوتھا بچّہ اونچے کارنر پیس پر پڑے ہوئے گلدان کے پھولوں کو لالچی نگاہوں سے دیکھنے لگا، پھر ایک اسٹول اٹھا کر کارنر پیس پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا، میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
’’کیا حال ہے؟‘‘ دولت رام نے ایک قہقہہ لگاتے ہوئے میری پیٹھ پر دوسرا دھپ مارا۔


’’اچھا ہوں۔‘‘ میں نے کانپ کر مری ہوئی آواز میں کہا۔
اتنے میں ایک زور کا تڑاخہ ہوا۔ میں نے گھبراکر دیکھا، چوتھے بچّے نے گلدان سے پھول گھسیٹنے کی کوشش میں گلدان ہی کو گھسیٹ لیاتھا اور اب پھولدان فرش پر گرکر ایک سو ایک ٹکڑوں میں بکھرا پڑا تھا۔ ’’یہی وہ گلدان ہے نہ جو آپ نے خُرجے سے لائے تھے؟‘‘ مسٹر دولت رام نے بڑے اطمینان سے مجھ سے پوچھا۔
’’نہیں وہ تو پچھلے ہفتے ہی ٹوٹ چکا تھا۔‘‘ میں نے خوش ہوکر کہا۔ ’’جب آپ اپنے سب سے چھوٹے بچّے کی سالگرہ کی دعوت کے سلسلے میں تشریف لائے تھے۔‘‘
’’ارے وہ تو دوسرا گلدان تھا۔‘‘ مسز دولت رام نے تصحیح کرتے ہوئے کہا۔ ’’جسے ہمارے پُٹّو نے توڑا تھا۔‘‘


پھر وہ میری بیوی کی طرف مخاطب ہو کر بولیں،’’یہ(اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرکے) بڑے بھلکّڑ ہو گئے ہیں۔ انہیں کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔۔۔ کون گلدان کب ٹوٹا تھا۔۔۔ کون کب؟‘‘
میری بیوی جواب میں کچھ خوفزدہ سی ہو کر منمنائی، اتنے میں ریڈیو گرام سے ایک بھیانک سی چیخ بلند ہوئی، اور میں نے دیکھاکہ دونوں لڑکےآپس میں لڑ رہے ہیں اور ریڈیو کے دونوں بٹن ریڈیو سے نکل کر ان کے ہاتھوں میں آچکے ہیں، بڑے لڑکے نے چھوٹے لڑکے کے گھونسہ مارا۔
’’شاباش‘‘ دولت رام خوشی سے چلاّیا۔
مگر گھونسہ لڑکے پر پڑنے کے بجائے ریڈیو گرام کے وکانچ پر پڑا۔ اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئےاور لڑکا سہم کر ریڈیو گرام سے الگ کھڑا ہوکربسورنے لگا۔


’’ڈر گیا میرا لال۔‘‘ مسز دولت رام جلدی سے اپنے بچّے کو اپنے گھٹنوں پر لیتے ہوئے بولیں۔
اتنے میں میں نے دیکھا کہ تین بچّے کتابوں پر جھکے ہوئے ہیں اور مُصوَّر کتابوں سے تصویریں پھاڑ پھاڑ کر الگ کر رہے ہیں۔ بچّوں کو مطالعےکا کس قدر شوق ہوتا ہے یہ بات آج ہی سمجھ میں آئی۔ اتنے میں دیوانِ غالب کے مُصوَّر ایڈیشن پر دو بچّوں کا جھگڑا ہوگیا، دونوں بچّے اس کتاب کو اپنی اپنی طرف کھیچنے لگے، کھیچنے میں آدھی کتاب ایک بچّے کے ہاتھ میں چلی گئی، آدھی دوسرے بچّے کے ہاتھ میں رہ گئی، اور غالب زبانِ حال سے کہتا رہ گیا۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے


پانچواں اور چھٹا بچّہ دونوں بڑے ہوشیار تھے۔ انہوں نے ڈرائنگ روم کو چھوڑ دیا تھا اور درّاتے ہوئے کھانے کے کمرے میں گُھس گئے تھےاور وہاں سے سنترے اور سیب، اور تربوز کی قاشیں اٹھا لائے تھے، کچھ کھا رہے تھے، کچھ مار رہے تھے، ایک سیب میرے ماتھے سے جا لگا، اور وہاں سے اوچھل کر دیوار پر لگنے والا تھا کہ دولت رام نے قہقہہ مار کر بیچ ہی سے کیچ کر لیا، اور میری طرف فاتحانہ انداز سے دیکھ کر بولے، ’’اب تو عادت چھوٹ گئی لیکن بچپن میں کیا کرکٹ کا بہت عمدہ کھلای تھا۔‘‘
اس پر میں کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میں نے اپنی بیوی کا رنگ متغیر ہوتے دیکھا اور پھر دیکھا کہ چھٹے بچّے کی نگاہیں میری بیوی کی نئی شفان کی جوگیا ساڑھی پر ہیں۔ بالکل نئی اور خوب صورت ساڑھی تھی۔ جو جگہ جگہ زردوزی کے کام سے جِھلمِل جِھلمِل کر رہی تھی۔ غریب بچّے کا دل اس ساڑھی کو دیکھ کر مچل گیا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ جو تربوز کی قاشوں میں گھنگھولے ہوئے تھے، اوپر اٹھائے اور اپنی ناک کو تربوز کی قاش پر صاف کرتے ہوئے جھجکتے جھجکتے آگے بڑھا۔
’’ناں، ناں‘‘ میری بیوی خوف سے چلاّئی۔
مسز دولت رام قہقہہ مار کر، تالی بجا کر بولیں، ’’میرا مُنّن آنٹی کو پکڑے گا، آنٹی کو ضرور پکڑے گا، آنٹی بڑی اچھی آنٹی سے ڈرنا نہیں۔‘‘


میری بیوی گھبراکر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی، اب سب بچّوں نے خوش ہوکر تالی بجائی اور سب اپنے اپنے کھیل چھوڑ کر اس نئے کھیل کی طرف متوجہ ہوگئے۔ جوں جوں میری بیوی اپنی نئی ساڑھی بچانے کے لئے پیچھے ہٹتی جاتی تھی، مُنّن میاں آگے آتے جاتے تھے، آخر زور کا ایک جھپٹّا مار کر مُنّن نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میری بیوی کی ساڑھی پکڑ لی اور اپنا منھ اس میں چھپا لیا۔ اور تربوز کا گودا، اور سنترے کھائی پھانکیں اور ناک اور گلے کا لُعاب اس بے داغ ساڑھی کو جگہ جگہ سے منقش کرتا گیا۔
میری بیوی چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اسےہوش آیا تو اس نے مجھے آپنے آپ پر جُھکا ہوا پایا۔ مجھ سے نظریں ہٹاکر اس نے جو کمرے کا جائزہ لیا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کمرے میں کوئی چیز صحیح و سلامت نہیں رہ گئی تھی۔ کتابیں، پھولدان، ریڈیوگرام، میز، تپائیاں، کرسیاں عجیب بے ترتیبی کی حالت میں اس طرح پڑی تھیں جیسے اس گھر پر ابھی ابھی نشہ بندی پولیس نے چھاپا مارا ہو۔
میری بیوی کے لب بڑی سختی سے اندر ہی اندر کو بھینچ گئے۔ اس نے زور سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اِدھر ادھر دیکھتے ہوئے مجھ سے گلوگیر لہجے میں لیکن مضبوط اور پختہ ارادے والے لہجے میں مجھ سے کہا، ’’مجھے بچّہ چاہیئے، ضرور چاہیئے، بچّہ ہوگا، ضرور ہوگا۔‘‘
اس واقعے کے ٹھیک نو ماہ بعد ہمارے گھر میں بچّہ پیدا ہوا، جسے ہم محض اس امید پر پال رہے ہیں کہ وہ بڑا ہو کر سارے ہمسایوں کا سامان توڑے گا۔


- krishn-chander