استادوں کی شکریہ
شاعری کے ساتھ رہنمائی منانا
اپنے استادوں کے ساتھ دل سے محبت اور تعریف کا اظہار کریں، جو ان کی رہنمائی، عقلمندی، اور ہمارے زندگیوں میں روشنی لاتے ہیں۔ شاعرانہ اشعار کے ذریعہ احترام اور شکریہ کی جذبات کی اکاؤ کریں جو رعاکاری اور شکریہ کے جذبات کی صداقت کرتے ہیں۔
اپنے شاگردوں کو یہ عام ہدایت ہے مری
کہ سمجھ لیں تہ دل سے وہ بجا و بے جا
شعر گوئی میں رہیں مد نظر یہ باتیں
کہ بغیر ان کے فصاحت نہیں ہوتی پیدا
چست بندش ہو نہ ہو سست یہی خوبی ہے
وہ فصاحت سے گرا شعر میں جو حرف دبا
عربی فارسی الفاظ جو اردو میں کہیں
حرف علت کا برا ان میں ہے گرنا دبنا
الف وصل اگر آئے تو کچھ عیب نہیں
لیکن الفاظ میں اردو کے یہ گرنا ہے روا
جس میں گنجلک نہ ہو تھوڑی بھی صراحت ہے وہی
وہ کنایہ ہے جو تصریح سے بھی ہو اولیٰ
عیب و خوبی کا سمجھنا ہے اک امر نازک
پہلے کچھ اور تھا اب رنگ زباں اور ہوا
یہی اردو ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے
اہل دہلی نے اسے اور سے اب اور کیا
مستند اہل زباں خاص ہیں دلی والے
اس میں غیروں کا تصرف نہیں مانا جاتا
جوہری نقد سخن کے ہیں پرکھنے والے
ہے وہ ٹکسال سے باہر جو کسوٹی نہ چڑھا
بعض الفاظ جو دو آئے ہیں اک معنیٰ میں
ایک کو ترک کیا ایک کو قائم رکھا
ترک جو لفظ کیا اب وہ نہیں مستعمل
اگلے لوگوں کی زباں پر وہی دیتا تھا مزہ
گرچہ تعقید بری ہے مگر اچھی ہے کہیں
ہو جو بندش میں مناسب تو نہیں عیب ذرا
شعر میں حشو و زواید بھی برے ہوتے ہیں
ایسی بھرتی کو سمجھتے نہیں شاعر اچھا
گر کسی شعر میں ایطائے جلی آتا ہے
وہ بڑا عیب ہے کہتے ہیں اسے بے معنیٰ
استعارہ جو مزے کا ہو مزے کی تشبیہ
اس میں اک لطف ہے اس کہنے کا پھر کیا کہنا
اصطلاح اچھی مثل اچھی ہو بندش اچھی
روزمرہ بھی رہے صاف فصاحت سے بھرا
ہے اضافت بھی ضروری مگر ایسی تو نہ ہو
ایک مصرع میں جو ہو چار جگہ بلکہ سوا
عطف کا بھی ہے یہی حال یہی صورت ہے
وہ بھی آئے متواتر تو نہایت ہے برا
لف و نشر آئے مرتب وہ بہت اچھا ہے
اور ہو غیر مرتب تو نہیں کچھ بے جا
شعر میں آئے جو ایہام کسی موقع پر
کیفیت اس میں بھی ہے وہ بھی نہایت اچھا
جو نہ مرغوب طبیعت ہو بری ہے وہ ردیف
شعر بے لطف ہے گر قافیہ ہو بے ڈھنگا
ایک مصرع میں ہو تم دوسرے مصرع میں ہو تو
یہ شتر گربہ ہوا میں نے اسے ترک کیا
چند بحریں متعارف ہیں فقط اردو میں
فارسی میں عربی میں ہیں مگر ان سے سوا
شعر میں ہوتی ہے شاعر کو ضرورت اس کی
گر عروض اس نے پڑھا وہ ہے سخن ور دانا
مختصر یہ ہے کہ ہوتی ہے طبیعت استاد
دین اللہ کی ہے جس کو یہ نعمت ہو عطا
بے اثر کے نہیں ہوتا کبھی مقبول کلام
اور تاثیر وہ شے ہے جسے دیتا ہے خدا
گرچہ دنیا میں ہوئے اور ہیں لاکھوں شاعر
کسب فن سے نہیں ہوتی ہے یہ خوبی پیدا
سید احسنؔ جو مرے دوست بھی شاگرد بھی ہیں
جن کو اللہ نے دی فکر رسا طبع رسا
شعر کے حسن و قبائح جو انھوں نے پوچھے
ان کی درخواست سے اک قطعہ یہ برجستہ کہا
پند نامہ جو کہا داغؔ نے بیکار نہیں
کام کا قطعہ ہے یہ وقت پہ کام آئے گا
کہ سمجھ لیں تہ دل سے وہ بجا و بے جا
شعر گوئی میں رہیں مد نظر یہ باتیں
کہ بغیر ان کے فصاحت نہیں ہوتی پیدا
چست بندش ہو نہ ہو سست یہی خوبی ہے
وہ فصاحت سے گرا شعر میں جو حرف دبا
عربی فارسی الفاظ جو اردو میں کہیں
حرف علت کا برا ان میں ہے گرنا دبنا
الف وصل اگر آئے تو کچھ عیب نہیں
لیکن الفاظ میں اردو کے یہ گرنا ہے روا
جس میں گنجلک نہ ہو تھوڑی بھی صراحت ہے وہی
وہ کنایہ ہے جو تصریح سے بھی ہو اولیٰ
عیب و خوبی کا سمجھنا ہے اک امر نازک
پہلے کچھ اور تھا اب رنگ زباں اور ہوا
یہی اردو ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے
اہل دہلی نے اسے اور سے اب اور کیا
مستند اہل زباں خاص ہیں دلی والے
اس میں غیروں کا تصرف نہیں مانا جاتا
جوہری نقد سخن کے ہیں پرکھنے والے
ہے وہ ٹکسال سے باہر جو کسوٹی نہ چڑھا
بعض الفاظ جو دو آئے ہیں اک معنیٰ میں
ایک کو ترک کیا ایک کو قائم رکھا
ترک جو لفظ کیا اب وہ نہیں مستعمل
اگلے لوگوں کی زباں پر وہی دیتا تھا مزہ
گرچہ تعقید بری ہے مگر اچھی ہے کہیں
ہو جو بندش میں مناسب تو نہیں عیب ذرا
شعر میں حشو و زواید بھی برے ہوتے ہیں
ایسی بھرتی کو سمجھتے نہیں شاعر اچھا
گر کسی شعر میں ایطائے جلی آتا ہے
وہ بڑا عیب ہے کہتے ہیں اسے بے معنیٰ
استعارہ جو مزے کا ہو مزے کی تشبیہ
اس میں اک لطف ہے اس کہنے کا پھر کیا کہنا
اصطلاح اچھی مثل اچھی ہو بندش اچھی
روزمرہ بھی رہے صاف فصاحت سے بھرا
ہے اضافت بھی ضروری مگر ایسی تو نہ ہو
ایک مصرع میں جو ہو چار جگہ بلکہ سوا
عطف کا بھی ہے یہی حال یہی صورت ہے
وہ بھی آئے متواتر تو نہایت ہے برا
لف و نشر آئے مرتب وہ بہت اچھا ہے
اور ہو غیر مرتب تو نہیں کچھ بے جا
شعر میں آئے جو ایہام کسی موقع پر
کیفیت اس میں بھی ہے وہ بھی نہایت اچھا
جو نہ مرغوب طبیعت ہو بری ہے وہ ردیف
شعر بے لطف ہے گر قافیہ ہو بے ڈھنگا
ایک مصرع میں ہو تم دوسرے مصرع میں ہو تو
یہ شتر گربہ ہوا میں نے اسے ترک کیا
چند بحریں متعارف ہیں فقط اردو میں
فارسی میں عربی میں ہیں مگر ان سے سوا
شعر میں ہوتی ہے شاعر کو ضرورت اس کی
گر عروض اس نے پڑھا وہ ہے سخن ور دانا
مختصر یہ ہے کہ ہوتی ہے طبیعت استاد
دین اللہ کی ہے جس کو یہ نعمت ہو عطا
بے اثر کے نہیں ہوتا کبھی مقبول کلام
اور تاثیر وہ شے ہے جسے دیتا ہے خدا
گرچہ دنیا میں ہوئے اور ہیں لاکھوں شاعر
کسب فن سے نہیں ہوتی ہے یہ خوبی پیدا
سید احسنؔ جو مرے دوست بھی شاگرد بھی ہیں
جن کو اللہ نے دی فکر رسا طبع رسا
شعر کے حسن و قبائح جو انھوں نے پوچھے
ان کی درخواست سے اک قطعہ یہ برجستہ کہا
پند نامہ جو کہا داغؔ نے بیکار نہیں
کام کا قطعہ ہے یہ وقت پہ کام آئے گا
- dagh-dehlvi
مرے افکار بدلے جو وہی استاد ہو میرا
مہارت ہو جسے فن پر وہی نقاد ہو میرا
مرے اشعار آفاقی مری غزلیں ہوں پیغامی
ہو میری فکر سنجیدہ قلم آزاد ہو میرا
رہے قائم نمی ہونٹوں کی تیرا نام لینے سے
ترے ہی ذکر سے بنجر یہ دل آباد ہو میرا
مرے پر نوچ کر دونوں در زنداں ہی وا کر دے
کہ اتنا مہرباں مجھ پر کبھی صیاد ہو میرا
سزائے عشق دے مجھ کو سر بازار لٹکا کر
بڑا بے رحم پتھر دل کوئی جلاد ہو میرا
دلاسہ کوئی جھوٹا دوں بتاؤ کیا یہ ممکن ہے
میں سب کچھ بھول جاؤں اور اسے سب یاد ہو میرا
مبارکؔ وجد میں آئے مکرر کی صداؤں سے
الٰہی پر اثر ایسا کوئی ارشاد ہو میرا
مہارت ہو جسے فن پر وہی نقاد ہو میرا
مرے اشعار آفاقی مری غزلیں ہوں پیغامی
ہو میری فکر سنجیدہ قلم آزاد ہو میرا
رہے قائم نمی ہونٹوں کی تیرا نام لینے سے
ترے ہی ذکر سے بنجر یہ دل آباد ہو میرا
مرے پر نوچ کر دونوں در زنداں ہی وا کر دے
کہ اتنا مہرباں مجھ پر کبھی صیاد ہو میرا
سزائے عشق دے مجھ کو سر بازار لٹکا کر
بڑا بے رحم پتھر دل کوئی جلاد ہو میرا
دلاسہ کوئی جھوٹا دوں بتاؤ کیا یہ ممکن ہے
میں سب کچھ بھول جاؤں اور اسے سب یاد ہو میرا
مبارکؔ وجد میں آئے مکرر کی صداؤں سے
الٰہی پر اثر ایسا کوئی ارشاد ہو میرا
- mubarak-lone