روحانی غیر مطبوع غزل
نا مکمل شاعری کی معنی تلاش کریں
خود کو روحانی شاعری کی دنیا میں غوطہ دیں جہاں ہر لائن ناپختہ جذبات کو انتہائی گہرائی سے بیان کرتی ہے اور شاعری کی خوبصورتی کو کچھ سے ظاہر کرتی ہے۔ اپنی روحانی شاعری کا پس منظر بنانے کے لئے اجازت کریں اور روحانی غیر مطبوع غزل کی جمال کو بیان کریں۔
نہ بھولا اضطراب دم شماری انتظار اپنا
کہ آخر شیشۂ ساعت کے کام آیا غبار اپنا
زبس آتش نے فصل رنگ میں رنگ دگر پایا
چراغ گل سے ڈھونڈھے ہے چمن میں شمع خار اپنا
اسیر بے زباں ہوں کاش کے صیاد بے پروا
بدام جوہر آئینہ ہو جاوے شکار اپنا
مگر ہو مانع دامن کشی ذوق خود آرائی
ہوا ہے نقشبند آئنہ سنگ مزار اپنا
دریغ اے ناتوانی ورنہ ہم ضبط آشنایاں نے
طلسم رنگ میں باندھا تھا عہد استوار اپنا
اگر آسودگی ہے مدعائے رنج بیتابی
نیاز گردش پیمانہ مے روزگار اپنا
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا
کہ آخر شیشۂ ساعت کے کام آیا غبار اپنا
زبس آتش نے فصل رنگ میں رنگ دگر پایا
چراغ گل سے ڈھونڈھے ہے چمن میں شمع خار اپنا
اسیر بے زباں ہوں کاش کے صیاد بے پروا
بدام جوہر آئینہ ہو جاوے شکار اپنا
مگر ہو مانع دامن کشی ذوق خود آرائی
ہوا ہے نقشبند آئنہ سنگ مزار اپنا
دریغ اے ناتوانی ورنہ ہم ضبط آشنایاں نے
طلسم رنگ میں باندھا تھا عہد استوار اپنا
اگر آسودگی ہے مدعائے رنج بیتابی
نیاز گردش پیمانہ مے روزگار اپنا
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گداۓ بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگان آہو پشت خار اپنا
- mirza-ghalib
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس لیے اے غیرت ماہ
ہیں ہوس پیشہ بہت وہ نہ ہو اور سہی
تم ہو بت پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے
تم خداوند ہی کہلاؤ خدا اور سہی
حسن میں حور سے بڑھ کر نہیں ہونے کے کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
تیرے کوچے کا ہے مائل دل مضطر میرا
کعبہ ایک اور سہی قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ
خلد بھی باغ ہے خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی آب بقا اور سہی
مجھ سے غالبؔ یہ علائیؔ نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گر رنج فزا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس لیے اے غیرت ماہ
ہیں ہوس پیشہ بہت وہ نہ ہو اور سہی
تم ہو بت پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے
تم خداوند ہی کہلاؤ خدا اور سہی
حسن میں حور سے بڑھ کر نہیں ہونے کے کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
تیرے کوچے کا ہے مائل دل مضطر میرا
کعبہ ایک اور سہی قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ
خلد بھی باغ ہے خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی آب بقا اور سہی
مجھ سے غالبؔ یہ علائیؔ نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گر رنج فزا اور سہی
- mirza-ghalib
کاشانۂ ہستی کہ بر انداختنی ہے
یاں سوختنی اور وہاں ساختنی ہے
ہے شعلۂ شمشیر فنا حوصلہ پرواز
اے داغ تمنا سپر انداختنی ہے
جز خاک بسر کردن بے فائدہ حاصل
ہر چند بہ میدان ہوس تاختنی ہے
اے بے ثمراں حاصل تکلیف دمیدن
گردن بہ تماشاے گل افراختنی ہے
ہے سادگی ذہن تمناے تماشا
جاے کہ اسدؔ رنگ چمن باختنی ہے
یاں سوختنی اور وہاں ساختنی ہے
ہے شعلۂ شمشیر فنا حوصلہ پرواز
اے داغ تمنا سپر انداختنی ہے
جز خاک بسر کردن بے فائدہ حاصل
ہر چند بہ میدان ہوس تاختنی ہے
اے بے ثمراں حاصل تکلیف دمیدن
گردن بہ تماشاے گل افراختنی ہے
ہے سادگی ذہن تمناے تماشا
جاے کہ اسدؔ رنگ چمن باختنی ہے
- mirza-ghalib
جنبش ہر برگ سے ہے گل کے لب کو اختلاج
حب شبنم سے صبا ہر صبح کرتی ہے علاج
شاخ گل جنبش میں ہے گہوارہ آسا ہر نفس
طفل شوخ غنچۂ گل بس کہ ہے وحشی مزاج
سیر ملک حسن کر میخانہ ہا نذر خمار
چشم مست یار سے ہے گردن مینا پہ باج
گریہ ہاے بیدلاں گنج شرر در آستیں
قہرمان عشق میں حسرت سے لیتے ہیں خراج
رنگریز جسم و جاں نے از خمستان عدم
خرقۂ ہستی نکالا ہے برنگ احتیاج
ہے سواد چشم قربانی میں یک عالم مقیم
حسرت فرصت جہاں دیتی ہے حیرت کو رواج
اے اسدؔ ہے مستعد شانہ گیسو شدن
پنجۂ مژگاں بخود بالیدنی رکھتا ہے آج
لو ہم مریض عشق کے تیمار دار ہیں
اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج
حب شبنم سے صبا ہر صبح کرتی ہے علاج
شاخ گل جنبش میں ہے گہوارہ آسا ہر نفس
طفل شوخ غنچۂ گل بس کہ ہے وحشی مزاج
سیر ملک حسن کر میخانہ ہا نذر خمار
چشم مست یار سے ہے گردن مینا پہ باج
گریہ ہاے بیدلاں گنج شرر در آستیں
قہرمان عشق میں حسرت سے لیتے ہیں خراج
رنگریز جسم و جاں نے از خمستان عدم
خرقۂ ہستی نکالا ہے برنگ احتیاج
ہے سواد چشم قربانی میں یک عالم مقیم
حسرت فرصت جہاں دیتی ہے حیرت کو رواج
اے اسدؔ ہے مستعد شانہ گیسو شدن
پنجۂ مژگاں بخود بالیدنی رکھتا ہے آج
لو ہم مریض عشق کے تیمار دار ہیں
اچھا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج
- mirza-ghalib
میں ہوں سراب یک تپش آموختن ہنوز
زخم جگر ہے تشنۂ لب دوختن ہنوز
اے شعلۂ فرصتے کہ سویداے دل سے ہوں
کشت سپند صد جگر اندوختن ہنوز
فانوس شمع ہے کفن کشتگان شوق
در پردہ ہے معاملۂ سوختن ہنوز
مجنوں فسون شعلہ خرامی فسانہ ہے
ہے شمع جادہ داغ ینفروختن ہنوز
کو یک شرر کہ ساز چراغاں کروں اسدؔ
بزم طرب ہے پردگی سوختن ہنوز
زخم جگر ہے تشنۂ لب دوختن ہنوز
اے شعلۂ فرصتے کہ سویداے دل سے ہوں
کشت سپند صد جگر اندوختن ہنوز
فانوس شمع ہے کفن کشتگان شوق
در پردہ ہے معاملۂ سوختن ہنوز
مجنوں فسون شعلہ خرامی فسانہ ہے
ہے شمع جادہ داغ ینفروختن ہنوز
کو یک شرر کہ ساز چراغاں کروں اسدؔ
بزم طرب ہے پردگی سوختن ہنوز
- mirza-ghalib
فزوں کی دوستوں نے حرص قاتل ذوق کشتن میں
ہوے ہیں بخیہ ہاے زخم جوہر تیغ دشمن میں
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخور مرے تن میں
ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں
تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل
سواد داغ مرہم مردمک ہے چشم سوزن میں
دل و دین و خرد تاراج ناز جلوہ پیرائی
ہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور خرمن میں
نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی
ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں
ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی
کف سیلاب باقی ہے برنگ پنبہ روزن میں
ودیعت خانۂ بیداد کاوشہاے مژگاں ہوں
نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرہ خوں تن میں
بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں
ہوئے اس مہروش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پر افشاں جوہر آئینے میں مثل ذرہ روزن میں
نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں
ہزاروں دل دیے جوش جنون عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہوگیا ہر قطرہ خوں تن میں
اسدؔ زندانی تاثیر الفت ہاے خوباں ہوں
خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں
ہوے ہیں بخیہ ہاے زخم جوہر تیغ دشمن میں
نہیں ہے زخم کوئی بخیے کے درخور مرے تن میں
ہوا ہے تار اشک یاس رشتہ چشم سوزن میں
تماشا کردنی ہے لطف زخم انتظار اے دل
سواد داغ مرہم مردمک ہے چشم سوزن میں
دل و دین و خرد تاراج ناز جلوہ پیرائی
ہوا ہے جوہر آئینہ خیل مور خرمن میں
نکوہش مانع بے ربطی شور جنوں آئی
ہوا ہے خندۂ احباب بخیہ جیب و دامن میں
ہوئی ہے مانع ذوق تماشا خانہ ویرانی
کف سیلاب باقی ہے برنگ پنبہ روزن میں
ودیعت خانۂ بیداد کاوشہاے مژگاں ہوں
نگین نام شاہد ہے مرے ہر قطرہ خوں تن میں
بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں
ہوئے اس مہروش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پر افشاں جوہر آئینے میں مثل ذرہ روزن میں
نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں
ہزاروں دل دیے جوش جنون عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہوگیا ہر قطرہ خوں تن میں
اسدؔ زندانی تاثیر الفت ہاے خوباں ہوں
خم دست نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں
- mirza-ghalib
ضعف جنوں کو وقت تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا
اے واے غفلت نگہ شوق ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا
درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے
وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا
شاید کہ مرگیا ترے رخسار دیکھ کر
پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر
جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا
ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا
اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا
اے واے غفلت نگہ شوق ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لخت دل کوہ طور تھا
درس تپش ہے برق کو اب جس کے نام سے
وہ دل ہے یہ کہ جس کا تخلص صبور تھا
شاید کہ مرگیا ترے رخسار دیکھ کر
پیمانہ رات ماہ کا لبریز نور تھا
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا
جنت ہے تیری تیغ کے کشتوں کی منتظر
جوہر سواد جلوۂ مژگان حور تھا
ہر رنگ میں جلا اسدؔ فتنہ انتظار
پروانۂ تجلی شمع ظہور تھا
- mirza-ghalib
رہتے ہیں افسردگی سے سخت بیدر دانہ ہم
شعلہ ہا نذر سمندر بلکہ آتش خانہ ہم
حسرت عرض تمنا یاں سے سمجھا چاہیے
دو جہاں حشر زبان خشک ہیں جوں شانہ ہم
کشتی عالم بہ طوفان تغافل دے کہ ہیں
عالم آب گداز جوہر افسانہ ہم
وحشت بے ربطی پیچ و خم ہستی نہ پوچھ
ننگ بالیدن ہیں جوں موے سر دیوانہ ہم
شعلہ ہا نذر سمندر بلکہ آتش خانہ ہم
حسرت عرض تمنا یاں سے سمجھا چاہیے
دو جہاں حشر زبان خشک ہیں جوں شانہ ہم
کشتی عالم بہ طوفان تغافل دے کہ ہیں
عالم آب گداز جوہر افسانہ ہم
وحشت بے ربطی پیچ و خم ہستی نہ پوچھ
ننگ بالیدن ہیں جوں موے سر دیوانہ ہم
- mirza-ghalib
بلبلوں کو دور سے کرتا ہے منع بار باغ
ہے زبان پاسباں خار سر دیوار باغ
کون آیا جو چمن بے تاب استقبال ہے
جنبش موج صبا ہے شوخی رفتار باغ
میں ہمہ حیرت جنوں بے تاب دوران خمار
مردم چشم تماشا نقطۂ پرکار باغ
آتش رنگ رخ ہر گل کو بخشے ہے فروغ
ہے دم سرد صبا سے گرمی بازار باغ
کون گل سے ضعف و خاموشی بلبل کہہ سکے
نے زبان غنچہ گویا نے زبان خار باغ
جوش گل کرتا ہے استقبال تحریر اسدؔ
زیر مشق شعر ہے نقش از پئے احضار باغ
ہے زبان پاسباں خار سر دیوار باغ
کون آیا جو چمن بے تاب استقبال ہے
جنبش موج صبا ہے شوخی رفتار باغ
میں ہمہ حیرت جنوں بے تاب دوران خمار
مردم چشم تماشا نقطۂ پرکار باغ
آتش رنگ رخ ہر گل کو بخشے ہے فروغ
ہے دم سرد صبا سے گرمی بازار باغ
کون گل سے ضعف و خاموشی بلبل کہہ سکے
نے زبان غنچہ گویا نے زبان خار باغ
جوش گل کرتا ہے استقبال تحریر اسدؔ
زیر مشق شعر ہے نقش از پئے احضار باغ
- mirza-ghalib
کارخانے سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا
ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک
شوق دیدار بلا آئنہ ساماں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگی دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
بوے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں لیکن آخر
جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا
کس قدر خاک ہوا ہے دل مجنوں یارب
نقش ہر ذرہ سویداے بیاباں نکلا
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا
ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرۂ خاک
شوق دیدار بلا آئنہ ساماں نکلا
زخم نے داد نہ دی تنگی دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا
بوے گل نالۂ دل دود چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
کچھ کھٹکتا تھا مرے سینے میں لیکن آخر
جس کو دل کہتے تھے سو تیر کا پیکاں نکلا
کس قدر خاک ہوا ہے دل مجنوں یارب
نقش ہر ذرہ سویداے بیاباں نکلا
دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
-
خود پرستی سے رہے باہم دگر نا آشنا
بیکسی میری شریک آئینہ تیرا آشنا
آتش موے دماغ شوق ہے تیرا تپاک
ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغ تمنا آشنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
بے دماغی شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہیں
یار تیرا جام مے خمیازہ میرا آشنا
جوہر آئینہ جز رمز سر مژگاں نہیں
آشنا کی ہم دگر سمجھے ہے ایما آشنا
ربط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزاے بہار
سبزہ بیگانہ صبا آوارہ گل نا آشنا
ذرہ ذرہ ساغر میخانۂ نیرنگ ہے
گردش مجنوں بہ چشمک ہاے لیلا آشنا
شوق ہے ساماں تراز نازش ارباب عجز
ذرہ صحرا دستگاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہ کن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
بیکسی میری شریک آئینہ تیرا آشنا
آتش موے دماغ شوق ہے تیرا تپاک
ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغ تمنا آشنا
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
بے دماغی شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہیں
یار تیرا جام مے خمیازہ میرا آشنا
جوہر آئینہ جز رمز سر مژگاں نہیں
آشنا کی ہم دگر سمجھے ہے ایما آشنا
ربط یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزاے بہار
سبزہ بیگانہ صبا آوارہ گل نا آشنا
ذرہ ذرہ ساغر میخانۂ نیرنگ ہے
گردش مجنوں بہ چشمک ہاے لیلا آشنا
شوق ہے ساماں تراز نازش ارباب عجز
ذرہ صحرا دستگاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہ کن نقاش یک تمثال شیریں تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
-
جاتا ہوں جدھر سب کی اٹھے ہے ادھر انگشت
یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے مگر انگشت
میں الفت مژگاں میں جو انگشت نما ہوں
لگتی ہے مجھے تیر کے مانند ہر انگشت
ہر غنچۂ گل صورت یک قطرۂ خوں ہے
دیکھا ہے کسو کا جو حنا بستہ سر انگشت
گرمی ہے زباں کی سبب سوختن جاں
ہر شمع شہادت کو ہے یاں سر بسر انگشت
خوں دل میں جو میرے نہیں باقی تو پھر اس کی
جوں ماہی بے آب تڑپتی ہے ہر انگشت
شوخی تری کہہ دیتی ہے احوال ہمارا
راز دل صد پارہ کی ہے پردہ در انگشت
بس رہتے ہیں باریکی و نرمی ہے کہ جوں گل
آتی نہیں پنجے میں بس اس کے نظر انگشت
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی در خور عقد گہر انگشت
کافی ہے نشانی تری چھلے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بوقت سفر انگشت
مژگاں کی محبت میں جو انگشت نما ہوں
لگتی ہے مجھے تیر کے مانند ہر انگشت
کس رتبہ میں باریکی و نرمی ہے کہ جو گل
آتی نہیں پنجہ میں بس اس کے نظر انگشت
لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے مگر انگشت
میں الفت مژگاں میں جو انگشت نما ہوں
لگتی ہے مجھے تیر کے مانند ہر انگشت
ہر غنچۂ گل صورت یک قطرۂ خوں ہے
دیکھا ہے کسو کا جو حنا بستہ سر انگشت
گرمی ہے زباں کی سبب سوختن جاں
ہر شمع شہادت کو ہے یاں سر بسر انگشت
خوں دل میں جو میرے نہیں باقی تو پھر اس کی
جوں ماہی بے آب تڑپتی ہے ہر انگشت
شوخی تری کہہ دیتی ہے احوال ہمارا
راز دل صد پارہ کی ہے پردہ در انگشت
بس رہتے ہیں باریکی و نرمی ہے کہ جوں گل
آتی نہیں پنجے میں بس اس کے نظر انگشت
افسوس کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی در خور عقد گہر انگشت
کافی ہے نشانی تری چھلے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بوقت سفر انگشت
مژگاں کی محبت میں جو انگشت نما ہوں
لگتی ہے مجھے تیر کے مانند ہر انگشت
کس رتبہ میں باریکی و نرمی ہے کہ جو گل
آتی نہیں پنجہ میں بس اس کے نظر انگشت
لکھتا ہوں اسدؔ سوزش دل سے سخن گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
-
پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
پھر مہ و خرشید کا دفتر کھلا
خامے سے پائی طبیعت نے مدد
بادباں بھی اٹھتے ہی لنگر کھلا
مدح سے ممدوح کی دیکھی شکوہ
یاں عرض سے رتبۂ جوہر کھلا
مہر کانپا چرخ چکر کھا گیا
بادشہ کا رایت لشکر کھلا
بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
اب علو پایۂ منبر کھلا
سکۂ شہ کا ہوا ہے روشناس
اب عیار آبروے زر کھلا
شاہ کے آگے دھرا ہے آئنہ
اب مآل سعی اسکندر کھلا
ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے
اب فریب طغرل و سنجر کھلا
ہوسکے کیا مدح ہاں اک نام ہے
دفتر مدح جہاں داور کھلا
فکر اچھی پر ستایش ناتمام
عجز اعجاز ستایش گر کھلا
جانتا ہوں ہے خط لوح ازل
تم پہ اے خاقان نام آور کھلا
تم کرو صاحب قرانی جب تلک
ہے طلسم روز و شب کا در کھلا
پھر مہ و خرشید کا دفتر کھلا
خامے سے پائی طبیعت نے مدد
بادباں بھی اٹھتے ہی لنگر کھلا
مدح سے ممدوح کی دیکھی شکوہ
یاں عرض سے رتبۂ جوہر کھلا
مہر کانپا چرخ چکر کھا گیا
بادشہ کا رایت لشکر کھلا
بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
اب علو پایۂ منبر کھلا
سکۂ شہ کا ہوا ہے روشناس
اب عیار آبروے زر کھلا
شاہ کے آگے دھرا ہے آئنہ
اب مآل سعی اسکندر کھلا
ملک کے وارث کو دیکھا خلق نے
اب فریب طغرل و سنجر کھلا
ہوسکے کیا مدح ہاں اک نام ہے
دفتر مدح جہاں داور کھلا
فکر اچھی پر ستایش ناتمام
عجز اعجاز ستایش گر کھلا
جانتا ہوں ہے خط لوح ازل
تم پہ اے خاقان نام آور کھلا
تم کرو صاحب قرانی جب تلک
ہے طلسم روز و شب کا در کھلا
-
کنج میں بیٹھا رہوں یوں پر کھلا
کاش کے ہوتا قفس کا در کھلا
ہم پکاریں اور کھلے یوں کون جاے
یار کا دروازہ پاویں گر کھلا
ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ
دوست کا ہے راز دشمن پر کھلا
واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا
ہاتھ رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کی خنجر کھلا
مفت کا کس کو برا ہے بدرقہ
رہروی میں پردۂ رہبر کھلا
سوز دل کا کیا کرے باران اشک
آگ بھڑکی منہ اگر دم بھر کھلا
تامے کے ساتھ آگیا پیغام مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
کاش کے ہوتا قفس کا در کھلا
ہم پکاریں اور کھلے یوں کون جاے
یار کا دروازہ پاویں گر کھلا
ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ
دوست کا ہے راز دشمن پر کھلا
واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا
ہاتھ رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کی خنجر کھلا
مفت کا کس کو برا ہے بدرقہ
رہروی میں پردۂ رہبر کھلا
سوز دل کا کیا کرے باران اشک
آگ بھڑکی منہ اگر دم بھر کھلا
تامے کے ساتھ آگیا پیغام مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا
دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
-
نالۂ دل میں شب انداز اثر نایاب تھا
تھا سپند بزم وصل غیر گو بے تاب تھا
دیکھتے تھے ہم بچشم خود وہ طوفان بلا
آسمان سفلہ جس میں یک کف سیلاب تھا
موج سے پیدا ہوئے پیراہن دریا میں خار
گریہ وحشت بے قرار جلوۂ مہتاب تھا
جوش تکلیف تماشا محشرستان نگاہ
فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشت آب تھا
بے خبر مت کہہ ہمیں بے درد خود بینی سے پوچھ
قلزم ذوق نظر میں آئنہ پایاب تھا
بے دلی ہاے اسدؔ افسردگی آہنگ تر
یاد ایا مے کہ ذوق صحبت احباب تھا
مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانۂ عاشق مگر ساز صداے آب تھا
نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں
پہلوے اندیشہ وقف بستر سنجاب تھا
کچھ نہ کی اپنی جنون نارسا نے ورنہ یاں
ذرہ ذرہ روکش خرشید عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
میں نے روکا رات غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے
اس کی سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا
تھا سپند بزم وصل غیر گو بے تاب تھا
دیکھتے تھے ہم بچشم خود وہ طوفان بلا
آسمان سفلہ جس میں یک کف سیلاب تھا
موج سے پیدا ہوئے پیراہن دریا میں خار
گریہ وحشت بے قرار جلوۂ مہتاب تھا
جوش تکلیف تماشا محشرستان نگاہ
فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشت آب تھا
بے خبر مت کہہ ہمیں بے درد خود بینی سے پوچھ
قلزم ذوق نظر میں آئنہ پایاب تھا
بے دلی ہاے اسدؔ افسردگی آہنگ تر
یاد ایا مے کہ ذوق صحبت احباب تھا
مقدم سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے
خانۂ عاشق مگر ساز صداے آب تھا
نازش ایام خاکستر نشینی کیا کہوں
پہلوے اندیشہ وقف بستر سنجاب تھا
کچھ نہ کی اپنی جنون نارسا نے ورنہ یاں
ذرہ ذرہ روکش خرشید عالم تاب تھا
آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا
یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا
میں نے روکا رات غالبؔ کو وگرنہ دیکھتے
اس کی سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا
-
یاد رکھیے ناز ہائے التفات اولیں
آشیان طائر رنگ حنا ہوجائیے
لطف عشق ہریک انداز دگر دکھلائے گا
بے تکلف یک نگاہ آشنا ہوجائیے
داداز دست جفائے صدمۂ ضرب المثل
گر ہمہ افتادگی جوں نقش پا ہوجائیے
وسعت مشرب نیاز کلفت وحشت اسد
یک بیاباں سایۂ بال ہما ہوجائیے
آشیان طائر رنگ حنا ہوجائیے
لطف عشق ہریک انداز دگر دکھلائے گا
بے تکلف یک نگاہ آشنا ہوجائیے
داداز دست جفائے صدمۂ ضرب المثل
گر ہمہ افتادگی جوں نقش پا ہوجائیے
وسعت مشرب نیاز کلفت وحشت اسد
یک بیاباں سایۂ بال ہما ہوجائیے
-
ہاتھ پر گر ہاتھ مارے یار وقت قہقہہ
کرمک شب تاب آسا مہ پر افشانی کرے
وقت اس افتادہ کا خوش جو قناعت سے اسد
نقش پائے مور کو تخت سلیمانی کرے
کرمک شب تاب آسا مہ پر افشانی کرے
وقت اس افتادہ کا خوش جو قناعت سے اسد
نقش پائے مور کو تخت سلیمانی کرے
-
کلفت طلسم جلوۂ کیفیت دگر
زنگار خوردہ آئینہ یک برگ تاک ہے
ہے عرض جوہر خط و خال ہزار عکس
لیکن ہنوز دامن آئینہ پاک ہے
ہوں خلوت فسردگی انتظار میں
وہ بے دماغ جس کو ہوس بھی تپاک ہے
زنگار خوردہ آئینہ یک برگ تاک ہے
ہے عرض جوہر خط و خال ہزار عکس
لیکن ہنوز دامن آئینہ پاک ہے
ہوں خلوت فسردگی انتظار میں
وہ بے دماغ جس کو ہوس بھی تپاک ہے
-
گھر سے نکالنا ہے اگر ہاں نکالیے
ناحق کی حجتیں نہ مری جاں نکالیے
لیں بوسہ یا یا مصیبت ہجراں بیاں کریں
اک منہ ہے کون کون سے ارماں نکالیے
ناحق کی حجتیں نہ مری جاں نکالیے
لیں بوسہ یا یا مصیبت ہجراں بیاں کریں
اک منہ ہے کون کون سے ارماں نکالیے
-
عجز دید نہا بناز و ناز رفتن ہا بچشم
جادۂ صحرائے آگاہی، شعاع جلوہ ہے
اختلاف رنگ و بو طرح بہار بیخودی
صلح گل گرد ادب گاہ نزاع جلوہ ہے
حسن خوباں بسکہ بے قدر تماشا ہے اسدؔ
آئینہ یک دست رد امتناع جلوہ ہے
جادۂ صحرائے آگاہی، شعاع جلوہ ہے
اختلاف رنگ و بو طرح بہار بیخودی
صلح گل گرد ادب گاہ نزاع جلوہ ہے
حسن خوباں بسکہ بے قدر تماشا ہے اسدؔ
آئینہ یک دست رد امتناع جلوہ ہے
-
صبح ناپیدا ہے کلفت خانۂ ادبار میں
توڑنا ہوتا ہے رنگ یک نفس ہر شب مجھے
شومی طالع سے ہوں ذوق معاصی میں اسیر
نامۂ اعمال ہے تاریکئ کوکب مجھے
درد ناپیدا و بیجا تہمت وارستگی
پردہ دار یادگی ہے وسعت مشرب مجھے
توڑنا ہوتا ہے رنگ یک نفس ہر شب مجھے
شومی طالع سے ہوں ذوق معاصی میں اسیر
نامۂ اعمال ہے تاریکئ کوکب مجھے
درد ناپیدا و بیجا تہمت وارستگی
پردہ دار یادگی ہے وسعت مشرب مجھے
-
سراب یقیں ہیں پریشاں نگاہاں
اسد کو گر از چشم کم دیکھتے ہیں
کہ ہم بیضہ طوطی ہند غافل
تہ بال شمع حرم دیکھتے ہیں
اسد کو گر از چشم کم دیکھتے ہیں
کہ ہم بیضہ طوطی ہند غافل
تہ بال شمع حرم دیکھتے ہیں
-
زنجیر یاد پڑتی ہے جادے کو دیکھ کر
اس چشم سے ہنوز نگہ یادگار ہے
سودائی خیال ہے طوفان رنگ و بو
یاں ہے کہ داغ لالہ دماغ بہار ہے
بھونچال میں گرا تھا یہ آئینہ طاق سے
حیرت شہید جنبش ابروئے یار ہے
حیراں ہوں شوخی رگ یاقوت دیکھ کر
یاں ہے کہ صحبت خس آتش برار ہے
اس چشم سے ہنوز نگہ یادگار ہے
سودائی خیال ہے طوفان رنگ و بو
یاں ہے کہ داغ لالہ دماغ بہار ہے
بھونچال میں گرا تھا یہ آئینہ طاق سے
حیرت شہید جنبش ابروئے یار ہے
حیراں ہوں شوخی رگ یاقوت دیکھ کر
یاں ہے کہ صحبت خس آتش برار ہے
-
پیری میں بھی کمی نہ ہوئی تاک جھانک کی
روزن کی طرح دید کا آزار رہ گیا
وہ مرغ ہے خزاں کی صعوبت سے بے خبر
آئندہ سال تک جو گرفتار رہ گیا
روزن کی طرح دید کا آزار رہ گیا
وہ مرغ ہے خزاں کی صعوبت سے بے خبر
آئندہ سال تک جو گرفتار رہ گیا
-
بہ پاس شوخی مژگاں سر ہر خار سوزن ہے
تبسم برگ گل کو بخیہ دامن نہ ہوجاوے
جراحت دوزی عاشق ہے جائے رحم ترساں ہوں
کہ رشتہ تار اشک دیدۂ سوزن نہ ہوجاوے
غضب شرم آفریں ہے رنگ ریز بہائے خود بینی
سفیدی آئینے کی پنبۂ روزن نہ ہوجاوے
تبسم برگ گل کو بخیہ دامن نہ ہوجاوے
جراحت دوزی عاشق ہے جائے رحم ترساں ہوں
کہ رشتہ تار اشک دیدۂ سوزن نہ ہوجاوے
غضب شرم آفریں ہے رنگ ریز بہائے خود بینی
سفیدی آئینے کی پنبۂ روزن نہ ہوجاوے
-