اتنی رغبت سے نہ مل عشق کے بیماروں سے ...
بازو ہیں تیرے حلقۂ رد بلا مجھے ...
اپنی آواز کی زنجیر سے آزاد نہ کر ...
ضرور بھول ہوئی ہے کہیں سنانے میں ...
زرد یادوں سے بھر دیا ہے مجھے ...
ذرا سا ہو میسر وہ جو مجھ کو ...
زمین حسب ضرورت اگائی جاتی ہے ...
وہ مجھ کو میں کسی کو منانے نکل گیا ...
وہ مٹی کا ستارہ ہے ہمارا ...
وہ جو سبھی خداؤں کا اک ہے خدا مرے عزیز ...
وہ اک دریا اور اسے حیرانی ہے ...
وہ بھولا صبح کا تھا گھر گیا نا ...
اس کے سوا ہر ایک کی مشکل میں جان ہے ...
اس آگ نے دیا تھا بڑا مرتبہ مجھے ...
تمہارے رنگ کی بھی کیا کوئی زنجیر ملتی ہے ...
تم اپنا پہلا قدم تو بڑھاؤ بسم اللہ ...
تھے اک خدا کے سامنے اتنے پسارے ہاتھ ...
تھا عشق یا میں واقعی بیمار پڑا تھا ...
تیز آندھیوں کے ساتھ گزارا ہوا مرا ...
ٹلنے کا یوں فقیر نہیں ہے یہ عشق ہے ...