آسماں بھی ہے ستم ایجاد کیا!

جولائی ۴۴ء کی ایک ابر آلود سہ پہر جب وادیوں اور مکانوں کی سرخ چھتوں پر گہرا نیلا کہرا چھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹیوں پر تیرتے ہوئے بادل برآمدوں کے شیشوں سے ٹکڑا رہے تھے۔ سوائے کے ایک لاؤنج میں، تاش کھیلنے والوں کے مجمع سے ذرا پرے ایک میز کے گرد وہ پانچوں چپ چاپ بیٹھے تھے۔
وہ پانچوں۔۔۔ ان پورنا پر بھاکر، ناہید انور امام،راج کمار آسمان پور، لفٹنٹ کرنل دستور، رستم جہانگیر اور ڈون کارلو۔ اگر اس وقت راون لُکر کا کوئی ذہین اور مستعد رپورٹر اپنے کالموں میں ان کا مفصل تذکرہ کرتا تو وہ کچھ اس طرح ہوتا، ’’ان پورنا پربھاکر، برجیشور راؤ پر بھاکر، ارجن گڑھ کے فنانس منسٹر کی دل کش بیوی گہرے سبز رنگ کے میسور جارجٹ کی ساری میں ملبوس تھیں جو ان کی سبز آنکھوں کے ساتھ خوب ’جا‘ رہی تھی۔ ان کا کشمیری کام کا اور کوٹ سفید رنگ کا تھا جو انہوں نے اپنے شانوں پر ڈال رکھا تھا۔ ان کے خوب صورت کانوں میں کندن کےمگر جھلکورے کھارہے تھے۔ جن کی وجہ سے ان کی چمپئی رنگت دمک رہی تھی۔ ناہید انور امام گہرے نارنجی بڑے پائنچوں کے پاجامے اور طلائی کا رچوب کی سیاہ شال میں ہمیشہ کی طرح بے حد اسمارٹ لگ رہی تھیں۔ راج کمار روی شنکر سیاہ شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامے میں اسمارٹ معلوم ہوتا تھا کہیں ڈنر میں جانے کے لیے تیار ہوکر آئے ہیں۔ کرنل جہانگیر براؤن رنگ کی شیپ اسکن جیکٹ میں ملبوس بے فکری سے سگار کا دھواں اڑاتے غیر معمولی طور پر وجیہ اور شاندار نظر آتے تھے۔ مس انور امام کا بے حد مختصر اور انتہائی خوش اخلاق سفید کتا بھی بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔‘‘

برابر کی میزوں پر زور وشور سے برج ہورہا تھا۔ اور ان پانچوں کے سامنے رکھا ہوا قہوہ ٹھنڈا ہوتا جارہا تھا۔ وہ غالباً ایک دوسرے سے اکتائے ہوئے کافی دیر سے خاموش بیٹھے تھے۔ تین دن سے برابر بارش ہورہی تھی۔ نہ کہیں باہر جایا جاسکتا تھا نہ کسی ان ڈور قسم کے مشغلے یا موسیقی میں جی لگتا تھا۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ سیزن حد سے زیادہ ڈل ہوتا جارہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے رنک بند کردیا گیا تھا۔ اور اس میں فوجیوں کے لیے کینٹین بن گئی تھی۔ سڑکوں پر ہوٹلوں اور دوکانوں میں ہر جگہ ہر تیسرا آدمی وردی میں ملبوس نظر آتا تھا۔ اپنے ساتھیوں میں سے بہت سے واپس جاچکے تھے۔ جنوبی ہند اور یوپی والے جون ہی سے اترنے لگے تھے۔ دلی اور پنجاب کے لوگوں نے اب آنا شروع کیا تھا۔
ان پورنا پر بھاکر دل ہی دل میں اس دھن کو یاد کرنے کی کوشش کررہی تھی جو اس نے پچھلی شام فی فی سے پیانو پر سنی تھی۔ ناہید انور امام کرسی کے کشن سے سر ٹیکے کھڑکی سے باہر نیچے کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں کورٹ یارڈ کے پختہ فرش پر اکاد کا آدمی آجارہے تھے۔ دونوں طرف کے ونگز کے برآمدوں میں بیرے کشتیاں اٹھائے سائے کی طرح ادھر ادھر پھر رہے تھے۔ کرنل جہانگیر جو ایران،مصر، انگلستان اور جانے کہاں کہاں گھوم کر اسی مہینے ہندوستان واپس لوٹے تھے، پچھلے پندرہ دن میں اپنی سیروں کے سارے قصے سناکر ختم کرچکے تھے اور اب مکمل قناعت،اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھے سگار کا دھواں اڑا رہے تھے۔ راج کمار روی کو اجمیر والے عظیم پریم راگی کی قوالی اور فرانسیسی شرابوں کا شوق تھا۔ فی الحال دونوں چیزیں وہاں دستیاب نہ ہوسکتی تھیں۔ اس لیے انہیں اس وقت خیال آرہا تھا کہ اگر وہ اپنی راج کماری اندرا ہی سے صلح کرلیتے تو برا نہ تھا۔ لیکن وہ محض ایک اوسط درجے کے تعلقہ دار تھے اور راج کماری راجپوتانہ کی ان سے دس گنی بڑی ریاست کی لڑکی تھی اور ان سے قطعی مرعوب نہیں ہوتی تھی۔ اور سال بھر اپنے میکے میں رہتی تھی۔

برجیشور راؤپر بھاکر اسی وقت چہل قدمی کرکے واپس آیا تھا اور لاؤنج کے نصف دائرے کے دوسرے سرے پر اپنے چند دوستوں کے ساتھ گولف اور اسٹاک ایکسچینج پر تبادلہ خیال میں مصروف تھا۔ قریب کی ایک میز پر انعام محمود سپر نٹنڈنٹ پولیس جو عنقریب ڈی آئی، جی ہونے والے تھے برج کھیلتے کھیلتے سوچ رہے تھے کہ اگر وہ سیاہ آنکھوں اور گھنگھریالے بالوں والی پرتگالی لڑکی فی فی جس نے کل رات پیانو بجایا تھا، کم از کم آج ہی کی سرد اور غیر دل چسپ شام ان سے ملاقات کرسکتی تو بہت غنیمت تھا۔ اس سلسلے میں مزید ڈپلومیٹک گفتگو کی غرض سے راج کمار روی کی کرسی کی طرف جھک کر انہوں نے آہستہ سے کچھ کہا۔ راج کماری روی نے بے تعلقی سے سرہلایا۔ گویا بھئی ہم سادھو سنگ آدمی ہمیں موہ مایا کے اس چکر سے کیا۔ کرنل جہانگیر نے سگار کی راکھ جھٹک کر ذرا بلند آواز سے پکارا، ’’برجیش چلو کم از کم بلیرڈ ہی کھیلیں۔‘‘
’’روی کو لے جاؤ۔۔۔ ہم بے حد ضروری مسائل حل کررہے ہیں۔‘‘برجیش نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا اور پھر اپنی باتوں میں اس انہماک سے مصروف ہوگیا گویا اگر اس نے دوسری طرف ذراسی بھی توجہ کی تو ٹاٹا اور سپلا کے شیرز کی قیمتیں فوراً گرجائیں گی۔


’’ان پورنا رانی،دیکھو تو تمہارا شوہر کس قدر زبردست بوریت کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ کرنل جہانگیر نے اکتا کر شکایت کی۔

’’بھئی اللہ۔۔۔ برجیش گڈو ہئی اتنابور۔ جائیے آپ لوگ جاکر کھیلیے ہم تو اب بیگم ارجمند کے ساتھ چائے پینے جارہے ہیں۔‘‘ ناہید نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’ناہید بیگم تمہیں کنور رانی صاحبہ سے جو تازہ ترین خبریں معلوم ہوں، ہمیں رات کے کھانے پر ضرور بتانا۔‘‘ راج کمار روی بھی اٹھتے ہوئے بولے۔

’’قطعی‘‘ناہید اپنی نقرئی آواز میں تھوڑا سا ہنسی پھر وہ دونوں اپنے اوور کوٹ اور شال سنبھالتی وسط کے ہال کے بڑے زینے کی طرف چلی گئیں۔
’’فی فی۔۔۔ فی فی۔۔۔ کیا نام ہے واللہ! گویا جلترنگ بج رہی ہے۔‘‘ انعام محمود نے چند لمحوں تک ڈون کار لوکو کرسی پر سے اتر کے اپنے چھوٹے چھوٹے سفید قدموں سے اپنی مالکہ کے پیچھے پیچھے بھاگتا دیکھتے رہنے کے بعد اب ذرا اونچی آواز میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

’’بہت تیز ہوتے جارہے ہو بھائی جان۔ ذرا نیچے سے آنے دو اپنی بیگم کو کان کھنچوائے جائیں گے تمہارے۔‘‘ کرنل جہانگیر نے ڈانٹ پلائی۔
’’خواتین کہاں گئی ہیں؟‘‘ انعام محمود نے پوچھا۔

’’بیگم ارجمند کے کمروں کی طرف۔‘‘
’’رانی بلیر سنگھ بھی ہوں گی وہاں؟‘‘

’’یقینا‘‘
’’نفرت ہے مجھے اس بڑھیا سے۔‘‘انعام محمود پھر تاش کی طرف متوجہ ہوگیے۔ شام کی چائے کے بعد سب پھر لاؤنج میں جمع ہوئے اور سوچا جانے لگا۔ کہ اب کیا کیا جائے۔

’’کاش خورشید ہی آجاتا۔‘‘ راج کمار روی نے خواہش ظاہر کی۔
’’خورشید۔۔۔ واقعی۔۔۔ جانے آج کل کہاں ہوگا۔‘‘کرنل جہانگیر نے کہا۔ اور پھر سب مل کر بے حد دلچسپی سے کسی ایسے شخص کے متعلق باتیں کرنے لگے جسے خواتین بالکل نہیں جانتی تھیں۔ اکتا کر ناہید نے مسوری ٹائمز کا تازہ پرچہ اٹھالیا اور اس کے ورق پلٹنے لگی۔

سب ذلیل فلم دکھائے جارہے ہیں۔ روبرٹ ٹیلر۔ اس سے مجھے نفرت ہے۔ ڈور تھی لیمور میرے اعصاب پر آجاتی ہے۔ کیتھرین ہپ برن روز بروز زیادہ بد شکل ہوتی جارہی، یہ ہیک منیز میں کسی روسی نام کا کیبرے ہورہا ہے۔ وہ بھی سخت خرافات ہوگا۔۔۔‘‘ راج کمار روی نے ناہید کی کرسی کے پیچھے سے پرچے کے صفحات پر جھانکتے ہوئے کہا، ’’لہٰذا بہترین پروگرام یہی ہے کہ شریفوں کی طرح گھر میں بیٹھ کر قہوہ پیا جائے۔‘‘
’’اور ان پورنا رانی سے پیانو سنا جائے۔‘‘کرنل جہانگیر نے جلدی سے صاحبزادہ ارجمند کی تجویز میں اضافہ کر دیا۔ سب ان کی رائے سے اتفاق ظاہر کرکے ان پورنا کو دیکھنے لگے جو اپنی شیریں ترین مسکراہٹ بکھیرتی اسی وقت بیگم ارجمند کے ساتھ ان کی میز کی طرف آئی تھی۔ وہ سب لاؤنج سے نکل کر نشست کے بڑے کمرے میں آگیے۔

’’اب ان پورنا رانی کو پکڑو۔‘‘کسی نے برابر کے کمرے میں زینے پر سے اترتے ہوئے آواز دی۔
’’جادو جگاتی ہے اپنی انگلیوں سے لڑکی۔‘‘ کنور رانی بلیر سنگھ نے ویکس سونگھتے ہوئے اپنی بزرگانہ بلندی پر سے ان پورنا کی تعریف کی اور پھر رومال میں ناک ٹھونس کر ایک صوفے پر بیٹھ گئیں۔

’’ناہید بیٹا، تمہیں شاید زکام ہوگیا ہوگا؟‘‘ ان پورنا جب پیانو پر سے اٹھ آئی تو صاحبزادہ ارجمند نے ناہید کو مخاطب کیا۔
’’ارے نہیں رجو بھیا۔۔۔ کیا گائیں ہم؟‘‘ ناہید نے ہنستے ہوئے چاروں طرف نظر ڈال کر دریافت کیا۔

باہر بارش شروع ہوچکی تھی۔ خنکی بڑھتی جارہی تھی۔جب ناہید اپنی نقرئی آواز میں ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپ رہی تھی اس وقت ان پورنا کو اپنی نٹنگ سنبھالتے ہوئے دفعتاً خیال آیا۔۔۔ زندگی کم از کم اتنی ناگوار نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اس نے محسوس کیا جیسے پر خطر طوفانوں اور تند رو آندھیوں سے محفوظ ایک چھوٹے سے گرم اور روشن کمرے میں آگ کے سامنے بیٹھے چوکو لیٹ پیتے پیتے ہی عمر بیتی جارہی ہے۔ کیا بچپنا ہے۔ اسے اپنے اس تخیل پر ہنسی آگئی۔ تان پورے کے تار اور پیانو کے پردے چھیڑتے ہوئے اسے ہمیشہ چاندنی رات اور کنول کے پھولوں کا خیال آجاتا تھا۔ اور اس سمے ہوٹل کی نچلی منزل کے چاروں طرف کیاریوں میں لہلہاتے سفید پھول جولائی کی بارش میں نکھر رہے تھے۔ چاند کبھی کبھی بادلوں میں سے نکل کر دریچے میں جھانک لیتا تھااور پھر چھپ جاتا تھا۔ اور ایسا لگ رہا تھا جیسے فضاؤں سے پگھلی ہوئی موسیقی برس رہی ہے۔
سچ مچ موسیقی کے بغیر اس روکھی پھیکی اجاڑ زندگی میں کیا رہ جاتا۔ درگا اور پوروی اور ماروا اور بہار۔ پیو پل نہ لاگیں موری انکھیاں۔۔۔ اور تان پورے کے چاروں تاروں کی گمبھیر گونج میں جیسے ہستی کی ساری تڑپ،سارا درد سمٹ آتا ہے۔ اور گھنگھروؤں کی جھنکار میں اور منی پوری کی لچک، بھرت ناٹیم کی گونج اور گرج اور کتھک کی چوٹ اور دھمک میں۔۔۔ اور جب بھیگی رات کے گہرے سناٹے میں کہیں اور گتار بجتا ہو تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ ان پورنا نے سوچا۔ اس خوب صورت آرام دہ دنیا میں جو لوگ دکھی ہیں انہیں سب کو رات کے کھانے کے بعد ’’نندیا لاگی میں سوئے گئی گوئیاں‘‘ الاپنا چاہئے۔

ان پورنا نے نٹنگ کرتے کرتے کشن پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے ناہید کا یہ گیت بہت پسندتھا جو وہ اس وقت گار رہی تھی۔ اسے ناہید کے وہ سارے پوربی گیت پسند تھے جو اس نے اکثر سنائے تھے۔ آہ۔۔۔ موسیقی۔۔۔ موسیقی۔۔۔ برجیش اکثر مذاقاً کہا کرتا تھا کہ جس طرح قصے کہانیوں کی پریوں اور شہزادیوں کی جان کسی بیگن، سرخ مرچ یا طوطے میں بند ہوتی ہے، اسی طرح ان پورنا کی جان اس کے تان پورے میں بند ہے۔ جب وہ پیانو بجاتی تھی تو برجیش اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرکے کلکتے کے کلایو اسٹریٹ کی تجارتی خبریں پڑھتا تھا یا آرام سے کرسی پر لیٹے لیٹے سوجاتا تھا اور ناہید خوف زدہ ہو کر کہتی ہائے اللہ کیسا ٹپکل قسم کا شوہر ہے!لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے پر جان دیتے تھے۔
برجیش نے ان پورنا کوچھ سات سال قبل پہلی بار مہا بلیشور میں دیکھا تھا۔ اور اس کے صرف ایک ماہ بعد ہی ان پورنا کو اپنے نام کے آگے سے شیرالےہٹا دینا پڑا تھا۔ وہ دونوں سال کا زیادہ حصہ ریاست کے صدر مقام پر راجپوتانہ میں گزارتے تھے۔ جاڑوں میں کبھی کبھی اپنے عزیزوں سے ملنے پونا یا بمبئی چلے جاتے اور گرمیوں میں شمالی ہند کے پہاڑوں پر آجاتے۔ اب کی مرتبہ انہوں نے طے کیا تھا کہ اگلے سال وہ دونوں کشمیر جائیں گے جو ان پورنا نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ اسے نینی تال کی جھیل میں رقصاں روشنیاں پسند تھیں اور مسوری کی بے پناہ رنگینیاں اور چہل پہل۔ شملہ بہت غیر دلچسپ اور بہت سرکاری تھا۔ زیادہ سے زیادہ تفریح کرلی، جاکر بے وقوفوں کی طرح’’اسکینڈل پوائنٹ‘‘ پر بیٹھ گیے یا ڈے وی کو چلے گیے۔ ان پورنا کو مسوری پسند تھی اور اپنا شوہر اور اپنے دونوں بچے اور اپنے مخلص اور دلچسپ دوستوں کا حلقہ جو ہر سال وسیع تر ہوتا جاتا تھا۔ اسے اس صوبے کی سب چیزیں بہت اچھی معلوم ہوتی تھیں۔ یہاں کے لوگوں کا کلچر ،ان کا باتیں کرنے کا خوب صورت انداز، ان کے شاندار اور تصویروں ایسے لباس ،ان کے رنگ برنگے غرارے اور سیاہ شیروانیاں، ان کے مشاعرے، ان کی کلاسیکل موسیقی۔

جب موسم بہت غیر دل چسپ ہوجاتا یا بارش کی وجہ سے وہ ناہید کے گھر تک نہ جاسکتی تو اپنے کمرے میں بچوں کے لیے نٹنگ کرتی، یا برآمدے میں بیٹھ کر اپنی ہمسایہ بیگم ارجمند سے باتیں کرتی۔ اس کے دونوں بچے پچھلے سال سے کین ویل ہاؤس میں پڑھ رہے تھے۔ بڑا لڑکا بالکل برجیش جیسا تھا۔ سنجیدہ، کم سخن، لیکن اپنی بات منوانے والا۔ بچی ان پورنا کی طرح تھی۔ شیریں تبسم اور سبز آنکھوں والی۔ چار سال کی عمر میں کتھک ناچ ایسا ناچتی تھی کہ بس دیکھا کیجئے۔ یہ ان پورنا کا محبوب مشغلہ تھا کہ آرام کرسی پر لیٹ کر میرؔا کی آئندہ زندگی کے لیے پروگرام بنائے اور اس نے سوچا تھا کہ اگلے سال وہ اسے شمبھو مہاراج کے پاس لکھنؤ لے جائے گی۔
ناہید اپنا گیت ختم کرچکی تھی اور خوب زور زور سے تالیاں بجائی جارہی تھیں۔ باہر بارش تھم گئی تھی اور رات کا اندھیرا بڑھتا جارہا تھا۔ڈنر کے بعد سب پھر وہاں جمع ہوگیےاور وہ کمرہ باتوں اور قہقہوں کے شور سے جاگ اٹھا۔ سب دیواروں کے قریب بکھرے ہوئے صوفوں پر بیٹھ کر قہوہ،سگریٹ، پائپ اور دوسری اپنی اپنی پسند کی چیزیں پینے میں مصروف ہوگیے۔ مختلف قسم کی باتیں شروع ہوئیں۔ جنگ کی صورت حال، سوسائٹی کے تازہ ترین اسکنڈلز، ٹینس اور کرکٹ کے متعلق پیشین گوئیاں، بھتنے روحیں، قسمت کی لکیریں۔

’’بھئی ہم کو تو اب نیند آرہی ہے ہم جاتے ہیں۔ شب بخیر‘‘ برجیش اپنی چائے کی پیالی ختم کرکے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’بیٹھو ابھی کیا بد مذاقی ہے‘‘کرنل جہانگیر نے ڈانٹا۔

’’بے چاری ان پورنا۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔ ایسی شاعرانہ، آرٹسٹک مزاج کی لڑکی اور کیسے روکھے پھیکے آدمی سے پالا پڑا ہے۔‘‘ بیگم ارجمند نے ذرا دور دریچے کے نزدیک رکھے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے آہستہ سے کہا۔
’’آہ۔ یہ ہمارے ہندوستان کی بے جوڑ شادیاں۔‘‘ کنور رانی بلبیر سنگھ نے ناک پر سے رومال ہٹاکر سماج کی دگرگوں حالت پر ایک مختصر سی آہ بھری اور پھر ویپکس سونگھنے لگیں۔ بیگم ارجمند اور کنور رانی بلبیر سنگھ سارے دن اپنے ونگ میں اپنے کمروں کے آگے برآمدے میں بیٹھی بیٹھی مسوری بھرکے اسکنڈلز ڈائریکٹ کرتی رہتیں۔ سوائے کی دوسری منزل سے دنیا کا ایک جنرل طائرانہ جائزہ لے کر واقعات عالم پر تبصرہ اور آخری فیصلہ صادر کیا جاتا تھا۔ رفعت آرا اپنے بہنوئی سے شادی کرنے والی ہے۔ آمنہ طلاق لے رہی ہے۔ نسیم نے ہندو سے شادی کرلی۔ میجر ارشاد تیسری بار عشق میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یہ ناہید جو مستقل بیمار رہنے لگی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے قطعی اس کنگ جارج میڈیکل کالج والے خوبصورت ڈاکٹر سے عشق ہوگیا ہے۔ جو بیگم حمیداللہ کا بھانجا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں نے بیگم ارجمند کے بر آمدے کا نام ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘ رکھ چھوڑا تھا۔ ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ٹو‘‘ ہیک مینزکی پچھلی گیلری تھی۔

اور پھر دفعتاً اپنی اپنی باتیں چھوڑ کر سب کرنل جہانگیر کی طرف بے حد دلچسپی سے متوجہ ہوگیے،جو تھوڑی دیر سے فی فی کا ہاتھ دیکھنے میں مشغول تھے۔ فی فی گوا کے پرتگالی حاکم اعلیٰ کی سیاہ آنکھوں اور سیاہ بالوں والی لڑکی تھی۔ جو چند روز قبل اپنے والدین کے ہمراہ بمبئی سے آئی تھی اور آتے ہی اپنے اخلاق اور اپنی موسیقی کی وجہ سے بے حدہر دلعزیز ہوگئی تھی۔ سب اپنے اپنے ہاتھ دکھانے لگے۔ بھوتوں اور روحوں کے قصے چھڑ گیے۔ باتوں باتوں میں کرنل جہانگیر نے دعویٰ کیا کہ وہ اسی وقت جس کی چاہوروح بلا دیں گے۔


اور پھر سب کے ہاتھ ایک نیا مشغلہ آگیا۔ اب موسم کے ’ڈل‘ ہونے کی شکایت نہ کی جاتی۔ جب بارش ہوتی یا برج میں جی نہ لگتا تو سب کرنل جہانگیر کے سٹنگ روم میں جمع ہوجاتے۔ برج کی میز پر انگریزی کے حروف تہجی الگ الگ کاغذ کے ٹکڑوں پر لکھ کر ایک دائرے میں پھیلا دیے جاتے۔ بیچ میں ایک گلاس الٹا الٹا رکھ دیا جاتا۔ سب چاروں طرف چپ چاپ بیٹھ جاتے۔ گلاس پر دو انگلیاں ٹکادی جاتیں اور پھروہ گلاس خود بخود اچھلتا ہوا مختلف حروف پر جا رکتاا اور ان حروف کوجمع کر کے روحوں کا پیغام حاصل کیا جاتا ۔ اس میں بڑے مزے کے لطیفے ہوتے۔ بعض دفعہ غلط روحیں آجاتیں اور خوب ڈانٹ پھٹکار سنا کر واپس جاتیں۔
شہنشاہ اشوک ہمیشہ بڑی مستعدی سے آجاتے۔ جاتے وقت روح سے درخواست کی جاتی کہ اب فلاں کو بھیج دیجئے گا۔ جین ہار لو اور لیزلی ہاورڈ کو کئی بار بلایا گیا۔ پنڈت موتی لال نہرو نے آکر ایک مرتبہ بتایا کہ اگلے دو تین سال کے اندر اندر ان کا بیٹا ہندوستان کا حاکم اعلیٰ بن جائے گا۔ روحوں کی پیشین گوئیاں بعض دفعہ بالکل صحیح نکلتیں۔ ان سے سیاسیات پر کم شادی اور رومان پر زیادہ سوالات کیے جاتے۔ لڑکیاں خوب خوب جھینپتیں۔ بہت دلچسپی سے وقت گزرتا۔ کرنل جہانگیر انتالیس چالیس کے رہے ہوں گے لیکن اب تک کنوارے تھے اور مسئلہ تناسخ کے بے حد قائل۔ انہیں دنیا میں صرف تین چیزوں سے دلچسپی تھی۔۔۔ باغبانی، روحانیات اور نرگس۔ پونا میں ان کی ایک بھتیجی تھی۔ جسے وہ بہت چاہتے تھے اور اکثر اس کا ذکر کیا کرتے تھے اور بیگم ارجمند نے یہ طے کیا تھا کہ یہ نرگس ان کی بھتیجی و تیجی قطعی نہیں ہے۔

وہ خواتین کی سوسائٹی میں بے حد مقبول تھے۔ انہوں نے ژند اوستا اور ایران کے صوفی شعراء اور جرمن فلسفیوں کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ کئی سال یورپ میں گزارے تھے۔ پیرس میں روحوں کے scancesمیں شامل رہ چکے تھے۔ اور سب ملا کر بے حد دلچسپ شخص تھے۔
ایک روز ڈنر کے بعد سب لوگ حسب معمول پھر نشست کے کمرے میں آگیے۔ ان پورنانٹنگ میں مشغول تھی۔ انعام محمودفی فی کے آگے پیچھے پھر رہے تھے۔ ناہید ڈون کارلو سے سوجانے کے لیے کہہ رہی تھی۔ لیکن وہ آنکھیں پھیلائے بیٹھا سب کی باتیں سن رہا تھا۔ برجیش ایک کونے میں ایک آئی ۔سی۔ ایس صاحب بہادر سے ہندوستانی ریاستوں کی سیاست پر الجھ رہا تھا۔ پیانو کے قریب ایک اسٹول پر رانی کرم پور تلاری کا منظور نظر مظہر الدین بیٹھا پائپ کا دھواں اڑا رہا تھا۔ مظہر الدین بہتر سے بہتر سوٹ پہنتا، اعلیٰ سے اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہرتااور بڑے ٹھاٹھ سے رہتا، پونٹیک سے کم بات نہ کرتا اور سب جانتے تھے کہ کہ یہ بڑے ٹھاٹھ کس طرح ہوتے ہیں اور ان کے لیے اتنا بے تحاشا روپیہ کہاں سے آتا ہے۔ اس کی شکل اچھی خاصی تھی۔ ذہن کے معاملہ میں یوں ہی، لیکن بات کرنے میں بہت تیز ۔ پہلے وہ ادھیڑ عمر کی بیگم فرقان الدولہ کا منظور نظر تھا۔ اب کچھ عرصے سے رانی کرم پور تلاری کے ساتھ دکھائی دیتا تھا۔

بیگم ارجمند اور ان پورنا وغیرہ اس سے بہت کم بات کرتی تھیں۔ لیکن ان کے شوہروں کی سوسائٹی میں وہ کافی مقبول تھا۔ پائپ کی راکھ جھٹک کر اس نے ان پورنا سے پوچھا، ’’مسز پر بھاکر آپ کو مسئلہ تناسخ سے دلچسپی ہے؟ ‘‘
’’میں نے کبھی اس طرف خیال نہیں کیا۔ کیوں کیا آپ کو بھی۔۔۔ روحانیت سے شغف پیدا ہوگیا؟ ‘‘ ان پورنا کو بادل ناخواستہ لیکن اخلاقاً کیوں کہ وہ مظہر الدین کے قریب بیٹھی تھی، اس سے باتوں کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔’’کرنل جہانگیر تولگتا ہے اس مرتبہ ہم سب کو بالکل سنیاسی بنا کر چھوڑیں گے۔ آج کل جسے دیکھئے اپنی اپنی شکار اور اسٹاک ایکسچینج کی باتیں چھوڑ کر روحوں سے الجھ رہا ہے۔‘‘ مظہر الدین نے کہا۔ کرنل جہانگیر نے اس کی بات سن لی۔ وہ بولے، ’’ان پورنا رانی کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روز ہم سب اس مایا جال کو تج کر جٹائیں بڑھائے دو تارہ بجاتے سامنے ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں کی طرف رخ کرتے نظر آئیں۔‘‘

’’اگرمیری بیوی بھی اپنا تان پورہ اٹھا کر بنوں کو نکل گئی تو میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گا کرنل۔‘‘ برجیش نے اپنے مخصوص انتہائی غیر دلچسپ طریقے سے کہا۔ ’’چپ رہو یار۔ تم اپنے بازار کے بھاؤ اور گولف سے الجھتے رہو۔ یہ مسائل تصوف ہیں بھائی جان۔‘‘ صاحبزادہ ارجمند نے ڈانٹ پلائی۔ برجیش ایک خشک سی ہنسی ہنسا اورپھر نہایت مستعدی سے ان صاحب بہادر کو ارجن گڈھ اسٹیٹ کی پالیسی سمجھانے میں مصروف ہوگیا جو غالباً اگلے مہینے سے وہاں کے ریزیڈنٹ بننے والے تھے۔ پھر قہوہ کے دور کے ساتھ زور شور سے گرما اور آواگون کی بحث چھڑ گئی۔ کرنل جہانگیرکی باتیں بہت دل چسپ ہوتی تھی۔ مثلاً اس وقت انہوں نے ناہید سے کہا کہ پچھلے جنم میں وہ پرتھوی راج تھے اورناہیدان کی کوئی بہت قریبی عزیز تھی۔
’’غالباً سنجو گتا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔ سب ہنسنے لگے پھر مزے مزے کی قیاس آرائیاں شروع ہوئیں۔ کون کون پچھلے جنم میں کیا کیا رہا ہوگا۔ ’’کرنل پچھلے جنم میں ناہید کی شادی کس سے ہوئی تھی؟ ‘‘ بیگم ارجمند نے انتہائی دلچسپی سے اپنی سیاہ آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔ ’’کوئی جون پور کا کن کٹا قاضی رہا ہوگا‘‘راج کمار روی بولے۔ بڑا زبردست قہقہہ پڑا۔ ناہیدکی نسبت پچھلی کرسمس میں کسی پولس افسر سے ہوئی تھی اور سب دوستوں نے مل کر اسے مبارکباد کا تار بھیجا تھا۔۔۔جس میں صرف یہ جملہ تھا،’’سیاّں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا۔‘‘

کرنل جہانگیر ان پور نا کا ہاتھ دیکھنے میں مصروف تھے۔ اورپھر یک لخت کرنل جہانگیر نے بے حد سنجیدہ لہجہ میں اور بڑی مدھم آواز سے آہستہ آہستہ کہا،’’ان پورنا رانی تمہیں یاد آتا ہے کسی نے تم سے کبھی کہا تھا ۔۔۔جب چاندنی راتوں میں کنول کے پھول کھلتے ہوں گے اور بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ ہمالیہ کی برف پگھل کر گنگا کے پانیوں میں مل رہی ہوگی۔ اس وقت میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔ یاد رہے۔‘‘
ان پورنا حیرت زدہ سی اپنی پلکیں جھپکاتی کرنل کو دیکھنے لگی۔ کمرے میں دفعتاً بڑا حساس سکوت طاری ہوگیا۔کرنل نے اس کا چھوٹا سا ہاتھ کشن پر رکھ کر پھر کہنا شروع کیا، ’’یاد کرو۔۔۔ اس کا نام کمل اندر تھا۔ پچھلے جنم میں تم اس کی رانی تھیں۔ چاندنی راتوں میں اپنے راج محل کی سیڑھیوں پر جو گنگا میں اترتی تھیں۔ وہ وینا بجاتا تھا اور تم سنتی تھیں، تم ناچتی تھیں اور وہ دیکھتا تھا۔ پھر تمہاری شادی کے کچھ عرصہ کے بعد ہی وہ ایک جنگ میں مارا گیااور تمہاری قسمت کی لکیریں کہتی ہیں کہ تم اس جنم میں اس سے ضرور ملوگی۔ ایسا ضرور ہوگا۔ ستارے یہی چاہتےہیں۔ کرنل رک کر اپنی پیشانی سے پسینہ پوچھنے لگا۔سب بت بنے اس کی آواز سن رہے تھے، جو لگ رہا تھا، رات کے اس سناٹے میں کہیں بہت دور سے آرہی ہے ان پورنا اسی طرح پلکیں جھپکاتی رہی۔ بیگم ارجمند کی آنکھیں پھیلی کی پھیلی رہ گئیں۔

’’اوہ کرنل ہاؤفنٹاسٹک۔۔۔‘‘ ناہید نے چند لمحوں بعد اس خاموشی کو توڑا پھر رفتہ رفتہ قہقہے اور باتیں شروع ہوگئیں۔ کرنل کی پیشین گوئی سب کے خیال میں متفقہ طور پر شام کا بہترین لطیفہ تھا۔
برجیش نے آئی۔ سی۔ ایس صاحب بہادر سے گفتگو ختم کرنے کے بعد اپنے کونے سے ان پورنا کو آواز دی،’’چلوبھئی اب چلیں سخت نیند آرہی ہے۔‘‘ پھر سب اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک دوسرے کو شب بخیر کہہ کہہ کر اپنے اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد نشست کا کمرہ بالکل خالی ہوگیا۔اور سب سے آخر میں،ان سب باتوں پر اچھی طرح غور و خوض کرتا ہوا ڈون کارلو اپنی کرسی پر سے نیچے کودا اور ایک طویل مطمئن انگڑائی لینے کے بعد چھوٹے چھوٹے قدموں سے باہرکے زینے کی سیڑھیاں چھلانگتا نیچے کورٹ یارڈ میں پہنچ گیا۔ جہاں اپنے گھر جانے کے لیے ناہید رکشا میں سوار ہو رہی تھی۔

موسم روز بروز زیادہ غیر دل چسپ ہوتا جارہا تھا۔ مرد دن بھر لاؤنج میں برج کھیلتے ،اَن پورنا بچوں کو لے کر ٹہلنے چلی جاتی یا اپنے سٹنگ روم میں میرا کو طبلے کے ساتھ کتھک کے قدم رکھنا سکھاتی رہتی۔ جب وہ تان پورے کے تار چھیڑتی تو دفعتاً اسے محسوس ہوتا کوئی اس سے کہہ رہا ہے میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ میں تم سے دوبارہ ملوں گا۔۔۔ ستارے یہی چاہتے ہیں۔۔۔ ستارے یہی۔۔۔ کیا حماقت۔۔۔ گدھے پن کی حد ہے۔ اسے غصہ آجاتا۔ پھر ہنسی آتی۔ اس قسم کے باولے پن کی باتوں کا وہ خودمذاق اڑایا کرتی تھی۔۔۔ان پورنا۔۔۔ ان پورنا۔۔۔ اتنی موربڈ ہوتی جارہی ہے۔ ان پورنا جس کے شیریں قہقہے سوسائٹی کی جان تھے۔
’’کرنل کم از کم روحیں ہی بلادو۔ بہت دنوں سے مہاراجہ اشوک سے گپ نہیں کی۔‘‘ ناہید نے بے حداکتا کر ایک روز کرنل جہانگیر سے کہا۔ وہ سب ’’اونٹ کی پیٹھ‘‘ سے واپس آرہے تھے۔ ’’خدا کے لیے اب یہ حماقت کا بکھیڑانہ پھیلانا۔ میرے اعصاب پرآجاتی ہیں تمہاری یہ روحوں سے ملاقاتیں۔‘‘ بیگم ارجمند نے ڈانٹا۔

’’کرنل واقعی تم کمال کے آدمی ہو۔ اچھا میرے ہاتھ کے امپریشن کا تم نے مطالعہ نہیں کیا؟ ‘‘ ناہید نے بیگم ارجمند کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’ان نصیبوں پہ کیا اختر شناس۔۔۔‘‘ کرنل نے کچھ سوچتے ہوئے بڑی رنجیدہ آواز میں کہا اور چپ ہوگیے۔

’’کیوں کرنل تمہیں کیا دکھ ہے؟‘‘ ناہید نے ’’تمہیں‘‘پر زور ڈال کر پوچھا۔
’’دکھ ۔۔۔؟ شش۔۔۔ شش۔ بچے دکھوں کی باتیں نہیں کیا کرتے۔‘‘ وہ لائبریری کی سڑک پر سیڑھیوں تک پہنچ چکے تھے۔


اس روز کنورانی بلیر سنگھ نے اپنی ’’اوبزرویشن پوسٹ نمبر ون‘‘پر سے پیشین گوئی کی،’’ دیکھ لینا۔۔۔ ان پورنا اس مرتبہ ضرور کوئی نہ کوئی آفت بلائے گی۔ یہ اس دل جلے کرنل نے ایسا شگوفہ چھوڑا ہے۔ اور برجیش کیسا بے تعلق رہتا ہے اور یہ ہندوستانی ریاستوں کے حکام۔۔۔ تم نہیں جانتیں مائی ڈیر۔۔۔ ان لوگوں کی کیا زندگیاں ہوتی ہیں کیا مورلز ہوتے ہیں۔۔۔ جبھی تو دیکھو برجیش اس کم عمری میں اتنی جلدی فنانس منسٹر کے عہدے پر پہنچ گیا۔‘‘

’’دنیا نہ جانے کدھر جارہی ہے‘‘ بیگم ارجمند نے ان کے خیال کی تائید کی۔
اور پھر آخر ایک روز راجکماری نے چائے کے وقت سب کو بتایا کہ ’’وہ‘‘ واقعی آرہا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ سے تقریباً ایک ایک فٹ اچھل پڑے۔ کئی دن سے کسی شخص کا مستقل تذکرہ ہو رہا تھا۔ کئی پارٹیاں اور پکنکیں ایک خاص مدت کے لیے ملتوی کی جارہی تھیں۔ طرح طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں۔ ’’دیکھ لینا وہ ضرور اس دفعہ شادی کر لے گا۔۔۔قطعی نہیں۔۔۔وہ شادی کرنے والا ٹائپ ہی نہیں۔۔۔بھئی موسیقی کی پارٹیوں کا اس کے بغیر لطف ہی نہیں۔ ارے میاں انعام محمودفی فی کی طرف سے باخبر رہنا، وہ آرہا ہے۔ بھئی ڈاکٹر خان کو اطلاع کر کے ایمبولینس کاریں منگوا لی جائیں۔ نجانے کتنی بے چاریاں قتل ہوں گی کتنی زخمی۔‘‘

’’آخر یہ کون ڈون ژوان صاحب ہیں جنہوں نے اپنی آمد سے پہلے ہی اتنا تہلکہ مچا رکھا ہے‘‘ ناہید نے اکتا کر پوچھا۔
’’ڈون ژوان۔۔۔! قسم سے ناہید بیگم خوب نام رکھا تم نے۔ ’’وہ‘‘ ہے در اصل خورشید احمد۔ پچھلے کئی سال سے اپنا ہوائی بیڑہ لے کر سمندر پار گیا ہوا تھا۔ اسی سال واپس آیا ہےاور اتوار کی شام کو یہاں پہنچ رہا ہے۔ باقی حالات آپ خود پردہ سیمیں پر ملاحظہ فرمائیے گا۔‘‘ راج کمار روی نے کہا۔

اسی روز سے بارش شروع ہوگئی اور اپنی امی کی طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے ناہید کئی روز تک ان پورنا اور دوسرے دوستوں سے ملنے کے لیے سوائے نہ آسکی۔دوسرے دن شام کو بالآخر ’’وہ‘‘ آگیا ۔ اس کے ساتھ اس کے دو دوست اور تھے جو اس کے ہوائی بیڑے سے تعلق رکھتے تھے۔چائے کے بعد ڈائننگ ہال کی سیڑھیاں طے کر کے وہ بلیرڈ روم کی طرف جارہا تھااور اس وقت ان پورنا نے اسے دوسری بار دیکھا۔ کیوں کہ وہ کمل اندر تھا۔ ان پورنا کے دل میں کسی نے چپکے سے کہا۔ اس وقت تک ان پورنا کا اس سے باقاعدہ تعارف نہیں کرایا گیا تھا۔ اس لیے ڈائننگ ہال کے زینے پر سے اتر کے گیلری کی جانب جاتی ہوئی ان پورنا پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اسے پہچانے بغیر بلیرڈ روم میں داخل ہوگیا۔ جہاں سب دوست جمع تھے۔
تھوڑی دیر بعد نشست کے بڑے کمرے میں واپس آکر ان پورنا آکر ایک بڑے صوفے پر گر گئی۔ اس نے دیوار پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرنی چاہی۔ اس نے پیانو پر ایک نیا نغمہ نکالنے کا ارادہ کیا لیکن وہ کشنوں پر سر رکھے اسی طرح پڑی رہی۔ بالکل خالی الذہن۔ اتنے میں وسط کے ہال کے زینے پر سے اتر کر مسز پد منی اچاریہ اندر آئیں۔ اس نے سوچا کہ وہ ان سے میراؔ کے ’’ پل اوور‘‘ کے لیے وہ نمونہ مانگ لے جو وہ صبح بن رہی تھی۔ مگر مسز اچاریہ اسے ایک ہلکا سا ’’ ہلو‘‘ کہنے کے بعد آئینے میں اپنے بال ٹھیک کر کے باہر چلی گئیں اور وہ ۔۔۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ کمرے کی کھڑکیوں میں سے باہر لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگ حسب معمول برج کھیلتے نظر آرہے تھے۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ پھر اندھیرا پڑے بلیرڈ روم سے واپس آکر برجیش برآمدے میں سے گزرا اور وہ اس کے ساتھ اپنے کمروں کی طرف چلی گئی۔

دوسرے روز صبح جب وہ اپنے کمرے سے نکل کر ونگ کے برآمدے میں سے گزرتی زینے کی سمت جارہی تھی۔ وہ زینے کی مختصر سیڑھیوں کے اختتام پر کلوک روم کے قریب کھڑا سگریٹ جلاتا نظر آیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو اس نے آگے آکر بے حد اخلاق سے آداب عرض کہا، غالباً پچھلی شام بلیرڈ روم میں ان پورنا سے اس کا غائبانہ تعارف کرا دیا گیا تھا۔
’’میں خورشید ہوں۔ خورشید احمد۔‘‘

’’آداب۔ برجیش کے دوستوں میں سے میں نے صرف آپ کو اب تک نہیں دیکھا۔‘‘
’’جی ہاں جب میں ہندوستان سے باہر گیا تھا۔ اس وقت تک برجیش نے شادی نہیں کی تھی۔‘‘


اور تب ان پورنا سے کوئی چپکے سے بولا ۔ اس سے کہو تم غلط کہتے ہو، تم خورشید احمد قطعی نہیں ہو۔ تم بالکل صفا کمل اندر ہو۔ پورن ماشی کی چاندنی میں نکھرتے سفید شگوفوں اور دنیا کے گیتوں والے کمل اندر۔ کنول کے پھول کے دیوتا۔ فوراً اسے اپنے اس بچپنے پر ہنسی آگئی۔ اس بے موقع ہنسی کو ایک انتہائی خوش اخلاقی کی مسکراہٹ میں تبدیل کرتے ہوئے اس نے۔۔۔

’’اچھا آئیے نیچے چلیں۔ ہمارا انتظار کیا جارہا ہوگا۔‘‘
چائے پیتے پیتے کنور رانی بلیر سنگھ نے بڑی بزرگانہ شفقت سے خورشید سے پوچھا، ’’بھیا تم کا کرت ہو؟‘‘ انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی تھی کہ وہ بھی ہردوئی کے اسی حصے کا ہے جس طرف ان کا تعلقہ تھا۔

’’فی الحال تو بمبار طیارے اڑاتا ہوں۔ لڑائی کے بعد نوکری نہیں ملی تو مرغیوں کی تجارت کیا کروں گا۔ بڑی مفید چیز ہوتی ہے۔ پولٹری فارمنگ۔۔۔‘‘
’’شادی اب تک کیوں نہیں کی؟ ‘‘بیگم ارجمند نے اس کی بات کاٹ دی۔

’’وہ وجہ در اصل یہ ہوئی بیگم ارجمند کہ کوئی لڑکی مجھ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتی۔ اور جن لڑکیوں سے میں ملا وہ یا توجلد بازی میں آکر پہلے ہی شادی کرچکی تھیں یا کسی اور کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھیں یا عنقریب ہونے والی تھیں۔ اس کے علاوہ بیگم ارجمند میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچتے کہ ایک بلی بھی پال سکوں۔‘‘
جب خواتین بیگم انور امام یعنی ناہید کی امی کی مزاج پرسی کے لیے رکشاؤں میں سوار ہو گئیں تو راج کمار روی نے پوچھا، ’’ خورشید میاں تم بہت اترا رہے ہو ۔لیکن تمہارے اس تازہ ترین عشق کا کیا ہوا جس کا ذکر اپنے خطوط میں کر کے تم نے بور کردیا تھا۔ ‘‘

’’چل رہا ہے ‘‘اس نے اس بے فکری سے جواب دیا گویا موٹر ہے جو ٹھیک کام دے رہی ہے۔
اور بہت سی دل چسپ اور انوکھی باتوں کے علاوہ اس نے طے کیا تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسے سچ مچ پسند آگئی تو وہ فی الفور اس سے شادی کرلے گا۔ چاہے وہ کتنی ہی کالی بھجنگی ایسی کیوں نہ ہو۔ ویسے وہ کیپ فٹ کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے گاہے بگاہے غم دل میں مبتلا ہوجایا کرتا تھا۔

لیکن پچھلے دنوں والا واقعہ خاصی سنجیدہ شکل اختیار کرتا جارہا تھا۔ اسی مارچ کے ایک غیر دلچسپ سے اتوار کو جب کہ اس کی میس کے سارے ساتھی یا سو رہے تھے یا اپنے اپنے گھروں کو خط لکھنے میں مصروف تھےاور کینٹین میں کام کرنے والی ساری لڑکیاں اوف ڈیوٹی تھیں اور مطلع سخت ابر آلود تھا۔ اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ اس وقت اس نے فوراً اس لڑکی سے عشق کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا جس کی تصویر اسی روز نئے listner میں دیکھی تھی۔ وہ ایک خاصی خوش شکل لڑکی تھی اور شمالی ہند کی کسی نشرگاہ سے دوپہر کوانگریزی موسیقی کے ریکارڈوں کا اناؤنسمنٹ کرتی تھی۔ چنانچہ بے حد اہتمام سے اسی وقت ایک ریڈیو فین کی حیثیت سے اسے ایک خط لکھا گیا۔
آپ کے ریکارڈوں کا انتخاب بے حد نفیس ہوتا ہے اور اپنی نقرئی آواز میں جب آپ فرمائشی ریکارڈوں کے ساتھ ساتھ سننے والوں کو ایک دوسرے کے پیغامات نشر کرتی ہیں،انہیں سننے کے بعد سے صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کو رات بھر نیند نہیں آتی، دوسرے کو اختلاج قلب کا عارضہ ہوگیا ہے، تیسرے کو اعصابی شکایت اور باقی سب کو ابھی دل و دماغ کے جتنے امراض تحقیق ہونے باقی ہیں وہ سب لاحق ہونے والے ہیں۔ اور پرسوں رات کے ڈرامے میں جوآپ کینڈیڈ بنی تھیں تو چاروں طرف اتنے حادثات وقوع پذیر ہوئے کہ ہمیں ریڈیو بند کر کے ایمبولنس کار منگوانی پڑی۔ پھر ایک دوست صاحب خاص طور پر سفر کر کے اس لڑکی کو دیکھنے گیےاور تقریباً نیم جاں واپس آئے۔ پھر ایک صاحب سے جو اسی نشرگاہ کے ایس ڈی کے دوست تھے،معلوم ہوا کہ بڑی بددماغ لڑکی ہے۔ کسی کو لفٹ نہیں دیتی۔ اسٹوڈیوز میں اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور سب اس سے ڈرتے ہیں۔ پھر اس کو مختلف ناموں سے دس پندرہ خط لکھے گیے۔

عرصے کے بعد اس کا جواب آیا۔ خط میں بڑا فیشن ایبل پتہ درج تھا جو بڑی رومینٹک بات لگی اور نہایت مختصر سا خط جو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ لوگوں کو ہمارے پروگرام پسند آتے ہیں، سے شروع ہو کر امید ہے کہ آپ سب بخیریت ہوں گے، پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعدپھر دوتین خط لکھے گیے۔ سب کا جواب غائب۔ آخر میں خورشیدکے مسوری آنے سے چند روز قبل اسی لڑکی کا ان سارے خطوں کے جواب میں ایک اور مختصر خط ملا تھا۔ جس پر اور بھی زیادہ فیشن ایبل اور افسانوی پتہ درج تھا۔ فیئری لینڈونسنٹ ہل ، مسوری۔ اور اب جب سے خورشید اور اس کے دونوں دوست مسوری پہنچے تھے۔ یہی فکر کی جارہی تھی کہ اس فیئری لینڈ کو تلاش کیا جائے۔ اگلی صبح اپنے سوائے والے دوستوں کو بتائے بغیر پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ ونسنٹ ہل کی طرف چل پڑے۔ بہت اونچی چڑھائی کے بعد ایک خوب صورت دو منزلہ کوٹھی نظر آئی جس کے پھاٹک پر ایک سنگ مرمر کے ٹکڑے پر فیئری لینڈ لکھا تھا۔
آگے بڑھے تو پہلے ایک بل ڈاگ اندر سے نکلا۔ پھر دوسرا پھر تیسرا۔ آخر میں ایک چھوٹا سا سفید کتا باہر آیا جو پیسٹری کھا رہا تھا۔ تینوں پہلے کتوں نے مل کر بھونکنا شروع کیا۔ چوتھا کتا یقینا زیادہ خوش اخلاق تھا۔ وہ چپ چاپ پیسٹری کے ڈبے میں مصروف رہا۔ سب کے بعد ایک لڑکی باہر آئی اور ان سب کتوں کو گھسیٹ کر اندر لے گئی کیوں کہ باہر خنکی زیادہ تھی اور کتوں کو انفلوئنزا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ ابھی انہوں نے یہ طے نہیں کیا تھا کہ آگے جائیں یا واپس چلیں کہ موڑ پر سے کنور رانی بلیر سنگھ کی رکشا آتی نظر آئی۔ سوالات کی زد سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے پیچھے چلے گیے۔

’’چنانچہ پیسٹری کھاتا ہے‘‘خاموشی سے چلتے ہوئے کپور تھلہ ہاؤس کی سڑک پر واپس پہنچ کر ایک دوست نے بے حد غور و فکر کے بعد کہا۔
’’باقی کے تینوں بھی اگر یہی شوق کریں تو نہیں بھونکیں گے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔

’’قطعی نہیں بھونکیں گے۔‘‘خورشید نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔
شام کو جب خورشید راج کمار رویؔ اور برجیش کے ساتھ مال پر ٹہلنے نکلا تو دفعتاً اسے یاد آگیا کہ بے حد ضروری خریداری کرنا ہے۔ ’’ تم لوگ حمید اللہ سے مل آؤ ہم ابھی آتے ہیں۔ ‘‘ راجکمار روی اور برجیش کے آگے جانے کے بعد وہ اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ منزلیں مارتا کلہڑی تک پہنچ گیا۔ لیکن کیک پیسٹری کی دوکان کہیں نظر نہ آئی۔ آخر جب وہ بالکل نا امید ہو کر واپس لوٹ رہے تھے تو خورشید کی نظر سڑک کی ڈھلوان کے اختتام پر ایک چھوٹی سی دوکان پر پڑ گئی جس پر بہت بڑا بورڈ لگا تھا۔ ’’رائل کنفکشنری۔‘‘ ایک صاحب دوکان کے باہر کرسی پر بیٹھے ہمدرد صحت پڑھ رہے تھے۔

’’کیوں صاحب آپ کیک پیسٹری بیچتے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔۔۔ کیا آپ کا خیال ہے میں نے تفریحاً دوکان کھولی ہے۔‘‘

’’ارے میرا مطلب ہے۔۔۔ ‘‘
’’مطلب کیا صاحب!کیا میں یہاں محض تفریحاً بیٹھا ہوں یا یہ جو کھڑکی سجی ہے اسے صرف دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ یا انہیں محض سونگھتا ہوں۔ آخر سمجھتے کیا ہیں آپ؟ کہتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

’’کیا چاہئے صاحب۔۔۔؟‘‘اندر سے جلدی سے ایک لڑکا نکلا۔
شام کو وہ سب ہیک مینز کے ایک نسبتاً خاموش گوشے میں جمع چائے پی رہے تھے۔ ’’آہ۔۔۔ فقط ایک جھلک اس کی دیکھی ہے لیکن کیا نفیس ناک ہے کہ گلابی سی اور مختصر جو غالباً سردی کی وجہ سے نم رہتی ہےاور آنکھیں چمکیلی اور شوخ اور نرگسی اور لمبے لمبے ریشمی بال اور آہ وہ کان چھوٹے چھوٹے بالکل پرستش کے قابل۔۔۔‘‘ خورشید نے بہت دیر خاموش رہنے کے بعد بے حد رنجیدہ لہجہ میں کہا۔

’’کہاں دیکھی تھی یار جلدی بتاؤ‘‘انعام محمود نے کان کھڑے کیے۔
’’ آہ۔۔۔ وہ دنیا کا بہترین کتا ہے۔ کیوں کہ دنیا کی خوب صورت ترین لڑکی کا کتاہے اور ۔۔۔ ‘‘

یک لخت خورشید کو وہ دوبارہ نظر آگیا۔ وہ ذرا دور پر دیوار کے قریب ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔ اتنا نفیس خلیق کتا جو اگر نہ بھونکتا تو پتہ بھی نہ چلتا کہ کتا ہے۔ بالکل سفید فرکا بڑا سا پرس معلوم ہوتا تھا۔ اور ڈؤن کارلو کو اپنے سامنے رکھی ہوئی طشتری میں پلم کیک کے ٹکڑے کھاتے کھاتے دفعتاً خیال آیا کہ گیلری کے پرے نیلے رنگ کے یونیفارم میں ملبوس اس انسان کو وہ صبح دیکھ چکا ہے۔ اس نے کیک ختم کر کے ایک طویل انگڑائی لی اور اس انسان سے گفتگو کرنے کے ارادے سے صوفے پر سے کود کر چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا گیلری کی طرف چلا۔
اس کی مالکہ اسی گیلری کی دوسری جانب اپنے بھائیوں اور بہنوئی کے ساتھ چائے پی رہی تھی۔ اور حالاں کہ ’’ انڈین ٹی‘‘ کے اشتہار سے پتہ چلتا ہے کہ اس چائے کو پینے کے بعد آپ کو دنیا میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اس وقت اس نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان جو تھوڑی دیر قبل ’’ارجمند ز کراؤڈ‘‘ کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تھا یقینا ایسا تھا کہ اگر پچھلی کرسمس میں اس کی نسبت علی ریاض اے ۔ ایس۔ پی۔ سے نہ ہوگئی ہوتی اور یہ نووارد آدمی اگر اس میں دل چسپی لینا چاہتا تو قطعی مضائقہ نہ تھا۔

’’ہلو ناہید بیگم۔۔۔ تم اتنے دنوں کہاں چھپی رہیں۔ ادھر آؤ۔۔۔ تمہیں خورشید سے ملوائیں جسے تم نے ڈون ژوان کا خطاب دیا تھا۔‘‘ راجکمار روی نے اس کی میزکے قریب آکر کہا۔
رات کو جب وہ سب ہیک منیز سے واپس آرہے تھے تو ناہید نے خورشید کے اس دوست کو دیکھ کر جو رائل کنفکشنری سے واپسی سے اب تک بے حد اہتمام سے پیسٹری کا ڈبہ اٹھائے پھر رہا تھا۔ اپنی آنکھیں پھیلاتے ہوئے خورشید سے پوچھا،’’آپ لوگوں کو پیسٹری کا اتنا شوق ہے کہ اس کے ڈبے ساتھ لیے گھومتے ہیں؟‘‘

اگلی صبح بڑی خوش گوار تھی۔ مینہ رات بھر برس کر اب کھل گیا تھا۔ راستوں کے رنگ برنگے سنگ ریزے بارش کے پانی میں دھل دھلا کر خوب چمک رہے تھے۔ فضا میں پھولوں کی مہک اور گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی بڑی تروتازہ اور نکھری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ان پورنا میرا کو لے کر ٹہلتی ہوئے نچلی دیوار تک آگئی۔ جہاں چند رکشائیں اور موٹریں کھڑی تھیں۔ لائبریری والی سڑک کی سیڑھیاں چڑھ کر وہ ہوٹل کی طرف نظر آیا۔ قریب پہنچ کر اس نے اپنی دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ آداب عرض کہا،’’جے کرو بی بی انکل کو جے نہیں کی تم نے ۔‘‘ ان پورنا نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا کوڈانٹا۔ میرا نے بے حد پیارے طریقے سے اپنے ننھے منے ہاتھ جوڑ دیے، خورشید نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ پھر اسے آیا کے سپرد کردینے کے بعد وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے ہوٹل کی جانب آگیے۔ برجیش کے برآمدے میں پکنک کا پروگرام بنایا جارہا تھا۔ سب خورشید کے منتظر تھے۔
ایسا لگتا تھا جیسے سب میں جان پڑ گئی ہے۔ جو لوگ موسم کی غیر دل چسپی کی شکایت کرتے رہتے تھے، اب ان کا ہر لمحہ نت نئے پروگرام بنانے میں صرف ہوتا۔ ہر وقت پیانو اور وائلن بجتا ،فیری لینڈ جاکر ناہید سے ڈھولک کے پوربی گیت سنے جاتے۔ برساتیوں ،ٹوکریوں اور چھتریوں سے لد پھند کر وہ سب دور دور نکل جاتے۔ ایک روز پکنک پر جاتے ہوئے رائل کنفکشنری پر بھی دھاوا بولا گیا۔ برجیش بھی اب کلا یواسٹریٹ کی خبریں پڑھنے کی بجائے ان تفریحوں میں حصہ لینے لگا۔ دنیا یک لخت بڑی پر مسرت بڑی روشن اور بڑی خوش گوار جگہ بن گئی تھی۔

جس گھر میں خورشید اپنے ایک دور کے عزیز کے یہاں ٹھہرا تھا، وہ نہایت عجیب و غریب اور بے حد دل چسپ جگہ تھی۔ اوپر کی منزل میں جو سڑک کی سطح کے برابر تھی گھوڑے رہتے تھے جو سڑک پر سے سیدھے اپنے اصطبل میں پہنچ جاتے، جو ڈرائنگ روم کے عین اوپر تھا۔ درمیانی منزل میں مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں رہتی تھیں۔ نچلی منزل میں جس کی سیڑھیاں کھڈ میں اترتی تھیں، خورشید کو ٹھہرایا گیا تھا۔ گھوڑے شاید الارم لگا کر سوتے تھے۔ صبح سویرے ہی وہ جاگ جاتے اور تیسری منزل کی کھڑکیوں سے نیچے جھانکنے میں مصروف ہوجاتے۔ خورشید کا جی چاہتا تھا کہ زور سے کچھ اس قسم کا گیت الاپے۔۔۔ یہ کون اٹھا اور گھوڑوں کو اٹھایا۔۔۔ پھر دوسری منزل پر مرغیاں، کتے، بلیاں، بچے اور لڑکیاں اپنے اپنے پسندیدہ اسٹائل سے جاگنا شروع کرتیں اور قیامت کا شور مچتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خورشید کے دونوں دوست غسل خانوں میں گھس کر اپنا صبح کا قومی ترانہ شروع کردیتے۔۔۔ یہ کون آج آیا سویرے سویرے ۔۔۔پھر لڑکیاں گھوڑوں پر سواری کے لیے جاتیں۔ لیکن سواری کرنی کسی کو بھی نہیں آتی تھی۔ اس لیے سڑکوں پر روز شہسواری کے بعض نہایت نادر نظارے دیکھنے میں آتے۔۔۔ پھر ایک روز لڑکیوں کی شہسواری سکھانے کا بے اتنہا خوش گوار فرض خورشید کے سپرد کیا گیا۔ وہ اسی دن اپنا سامان لے کر سوائے بھاگ آیا۔
اسٹینڈرڈ میں سالانہ مشاعرہ تھا۔ محفل ختم ہونے کے بعد سب باہر نکل آئے تھے۔ بڑا بے پناہ مجمع تھا۔ بھوپال کی الٹرافیشن ایبل لڑکیاں، حیدرآباد کے جاگیردار، رام پور کے رئیس، نئی دہلی اور لکھنؤ کے ہندوستانی صاحب لوگ سب کے ہونٹوں پر جگرؔ کی تازہ غزل کے اشعار تھے،

لاکھ آفتاب پاس سے ہو کر گزر گیے
بیٹھے ہم انتظار سحر دیکھتے رہے

زینے کی سیڑھیاں طے کر کے وہ سارے دوست بھی نیچے سڑک پر آگئے۔ مشاعرے کے دوران میں خورشید ان پورنا کو شعروں کے مشکل الفاظ کے معنی بتاتا رہا اور ان پورنا نے طے کر لیا کہ وہ ناہید سے قطعی طور پر اردو پڑھنا شروع کر دے گی۔ اردو دنیا کی خوب صورت ترین اور شیریں ترین زبان تھی اور لکھنؤ والوں کا لب و لہجہ، لکھنؤ جو خورشید کا وطن تھا، ان پورنا کالکھنؤ دیکھنے کا اشیاق زیادہ ہوگیا۔ وہاں کے ہرے بھرے باغ، سایہ دار خوب صورت سڑکیں، شان دار عمارتیں،مہذب لوگ جہاں کے تانگے والے اور سبزی فروش بھی اس قدر تہذیب سے اور ایسی نفیس زبان میں گفتگو کرتے تھے کہ بس سنا کیجئے اور پھر وہاں کا موسیقی کامیرس کالج ، وہاں کا کتھک ناچ ۔خورشید نے وائلن میرس کالج میں سیکھا تھا۔ برجیش کہتا تھا جس طرح ان پورنا رانی کی جان تان پورے کے تاروں میں رہتی ہے اسی طرح خورشید کی جان اس کے وائلن کیس میں بند ہے۔ مسلمان لڑکے عام طور پر زیادہ خوب صورت ہوتے ہیں۔ ناہید کی ساری غیر مسلم سہیلیاں اس سے اکثر کہا کرتی تھیں۔ خورشید بھی بہت خوب صورت تھا۔ برجیش اورکرنل جہانگیر اور راج کمار روی ان سب سے زیادہ دل کش اور شان دار۔
اور اس وقت جب کہ مشاعرے کے بعد وہ سب ٹہلتے ہوئے اسٹینڈرڈ سے واپس آرہے تھے، مال کی ریلنگ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دفعتاً خورشید نے مڑ کر ان پورنا سے کہا، ’’زندگی بڑی خوش گوار ہے نا ان پورنا رانی، ہے نا؟‘‘ پھر وہ بے فکری سے سیٹی بجا کر ڈؤن کارلو کو بلانے لگا جو ناہید کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھاوہ اور ان پورنا آگے جاتے ہوئے مجمع سے ذرا فاصلہ پر سڑک کے کنارے چل رہے تھے۔ آسمان پر ستارے جگمگا اٹھے تھے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔

’’تم زندگی سے بالکل مطمئن ہو خورشید احمد ؟‘‘ان پورنا نے تھوڑی دیر تک اس کے ساتھ چلتے رہنے کے بعد پوچھا۔
’’بالکل۔۔۔ مجھ سے زیادہ بے فکر شخص کون ہوگا۔۔۔ان پورنا رانی! میں جس کی زندگی کا واحد مصرف کھیلنا اور خوش رہنا ہے۔ جب میں اپنا طیارہ لے کر فضا کی بلندیوں پر پہنچتا ہوں، اس وقت مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میں موت سے ملاقات کرنے کی غرض سے جارہا ہوں۔ موت مجھے کسی لمحے بھی زندگی سے چھین سکتی ہے، لیکن زندگی اب تک میرے لیے خوب مکمل اور بھرپور رہی ہے۔ میرے پیچھے اس خوب صورت دنیا میں صرف میرے دوست رہ جائیں گے جو کبھی کبھی ایسی ہی خوشگوار راتوں میں مجھے یاد کر لیا کریں گے۔‘‘ ان پورنا کا جی چاہا کہ وہ چلا کر کہے۔۔۔ تم غلط کہتے ہو کمل اندر! اگر تم مرو گے تو تمہارے لیے ایک روح عمربھرروئے گی کہ تم نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا۔ لیکن نہ مل سکے۔

اور پھر اپنی اوبزرویشن پوسٹ پر بیٹھے بیٹھے بیگم ارجمند اور کنور رانی صاحبہ نے طے کیا کہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانے کا۔ نیک سیرت،شکیل، برسر روزگار اور اب تک یوں ہی کنوارا گھوم رہ

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close