خون کی ایک بوتل

Shayari By

ڈاکٹر ابھی ابھی راؤنڈ کرکے باہر نکلا تھا۔ ماں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ شاید وہ سو چکی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ ذرا ادھر ادھر گھوم پھر آئے اور وہ دروازے کی طرف جانے لگا۔ دروازے سے کچھ دور ہی تھا کہ نرس جو ڈاکٹر کے ساتھ باہر گئی تھی تیزی سے اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے ہاتھ کےاشارے سےاسے روک لیا اور اپنی چھوٹی سی ڈائری میں سے ایک ورق پھاڑ کر اسے دینے لگی۔
’’یہ کیا ہے مس؟‘‘

’’خون کی بوتل چاہیے آپ کی ماں کے لیے۔‘‘
’’اچھا جی۔‘‘ [...]

شاہی رقاصہ

Shayari By

شاہی دربار کی حسین ترین رقاصہ اپنے آراستہ و پیراستہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک لفظ کہے بغیر کنیزوں کی مدد سے اپنی سیر کامخصوص لباس اتارنے لگی اور چند منٹ بعد اس کام سے فراغت پاکر مخملیں کرسی میں دھنس گئی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ مغموم و ملول نظر آ رہی تھی۔۔۔ دونوں کنیزیں ایک گوشے میں کھڑی حیرت سے ایک دوسری کو دیکھ رہی تھیں۔
’’تم چلی جاؤ اور جب تک میں نہ بلاؤں کمرے میں نہ آنا۔۔۔ کوئی اور بھی کمرے میں نہ آئے۔‘‘ رقاصہ نے جھنجھلاکر کہا۔ کنیزیں مبہوت و ششدر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔

ان کے چلے جانے کے بعد رقاصہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سر رکھ کر اپنے خیالات میں کھوگئی۔ دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا، سامنے دیکھا اور اس کی نگاہیں سنگ مرمر کی میز پر رکھے ہوئے ایک سفید مجسمہ پر جم گئیں۔ یہ ایک نہایت حسین و جمیل مجسمہ تھا۔ جس کے ساتھ، ایک بھیانک سیاہ سانپ لپٹا ہواتھا۔ رقاصہ ٹکٹکی باندھ کر اس مجسمے کو دیکھنے لگی اور خیالات کا وہ ہجوم جو کئی دن سے اس کے ذہن میں منڈلا رہا تھا اب سمندر کی طوفانی موجیں بن بن کر اس کے دل و دماغ میں بےقرار ہو گیا۔ وہ مضطرب ہوکر کرسی سے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔
وہ دربار کی سب سے بری رقاصہ تھی۔ اسے دنیا کی ہر نعمت حاصل تھی، ہر قسم کی آسایش میسر تھی، اس کی نئی پوشاکوں پر، اس کے گلے کے ہاروں پر اور اس کے خوبصورت زیورات پر ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ محل اور محل کے باہر اس کی اتنی قدر ومنزلت تھی کہ لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ بادشاہ اس پر خاص مہربان تھا۔ مگر ان تمام چیزوں کے باوجود چند دن سے اس کی روح میں ایک خلش سی، اس کے دماغ میں ایک اضطراب سا اور اس کے دل میں ایک بے قراری سی موجزن تھی۔ [...]

خاں صاحب

Shayari By

ہمارے محلے میں ایک خاں صاحب رہتے تھے۔ میں نے جب انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کی عمر قریب پینتالیس سال کے تھی، مگر روایات سے معلوم ہوا کہ ان کے بال ہمیشہ سے ایسے ہی سیاہ و سپید کی آمیزش رہے ہیں۔ آنکھیں ایسی ہی خونی، مزاج ترش اور ٹوپی میلی، بواسیر کی شکایت بھی ان کی ہستی سے وابستہ تھی، مدتوں سے وہ شہر کے تمام طبیبوں اور ہندوستان کی تمام درگاہوں کی برائی کرتے چلے آئے تھے۔
ہمارے محلے میں کسی کو بھی وہ دن یاد نہ تھے، جب خاں صاحب کی کریہہ اور دل لرزانے والی آواز گلی کوچے میں نہیں گونجتی تھی۔ یا ان کا سیاہ چہرہ، قوی ہیکل جسم اور لمبا لٹھ خوف اور نفرت سے لوگوں کی نگاہیں نیچی نہیں کردیتا تھا۔ خاں صاحب کے پیشے کا کسی کو علم نہ تھا، سوا ان کم بختوں کے جنھیں کسی ناگہانی مصیبت میں روپے کی ضرورت ہوئی اور انہوں نے خاں صاحب سے مدد مانگی، مگر ان کی کیا مجال تھی کہ گالیاں سن کر اور سود در سود ادا کرکے بھی خاں صاحب کے پیشے کا کسی سے ذکر کریں۔ خاں صاحب سویرے جاکر موذن کو جگاتے تھے، مسجد کا امام ان کے ڈر سے نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتا تھا، دیر تک دعا مانگتا اور دعامانگتے مانگتے کثرت گناہ کا احساس اسے رلا بھی دیتا تھا۔ خاں صاحب کی ذات نے اس مسجد کو جو علاوہ جمعے کے ویران پڑی رہتی تھی اجتماعِ مسلمین کا مرکز بنادیا تھا۔ جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوا کرتی تھی۔ خاں صاحب کی داڑھی دیکھ کر شریفوں کیا غنڈوں میں میں بھی ڈاڑھی مونڈنے کی ہمت نہ رہی۔ خاں صاحب کا چہرہ سیاہ اور آنکھیں خونی تھیں تو کیا، انھوں نے سینکڑوں مسلمانوں کی صورتیں منور کر دی تھیں۔ ان کا مزاج ترش تھا تو کون سی شکایت کی بات، جب ان کی وجہ سے اتنے گمراہ بندے اپنے خدا کے قہر سے پناہ مانگنے لگے تھے۔

ہمارے محلے کے بنئے تو مستقل اختلاج قلب کے مریض ہوگیے۔ مگر بنیوں کا کیا، ان کا تو پیشہ یہی ہے، اگر دھوتی میل سے کالی اور قلب میں اختلاج نہ ہو تو وہ سود کا نرخ کیسے بڑھائیں۔ خاں صاحب شریعت کے ایسے عالم تھے کہ بغیر کفر کا الزام اپنے سر لیے دنیاوی معاملات میں بھی کوئی ان کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔ منطقی ایسے کہ جوش گفتار سے دوسرے کا دماغ پھرادیں اور فلسفی اس پایے کے کہ جب بیان شروع کریں تو کسی سے بغیر ہاں میں ہاں ملائے نہ بن پڑے۔ خاں صاحب نہایت فصاحت وبلاغت سے دین اسلام کی خوبیاں اپنے پست اندیشہ ہم جنسوں پر روشن کرتے، تنگ نظروں کو خدا کی مصلحت سمجھاتے اور مناظر کائنات کی تعریف میں سرد آہیں بھرتے تھے۔
ہمارا محلہ غریبوں کا تھا، کسی بیچارے کو اتنی مہلت کہاں ملتی تھی کہ شریعت، فلسفہ، منطق اور جمالیات میں یہ امتیاز حاصل کرے۔ خاں صاحب نے اپنی عقل و دانش اور مہیب شخصیت کے اثر سے محلے والوں کے دل و دماغ اور قوت ارادی کو معطل کر دیا تھا اور محلے والے غلامی کےایسے عادی ہوگیے تھے کہ انہیں اپنی آزادی کے دن تک یاد نہ رہے۔ [...]

نازو

Shayari By

’’چھن چھن۔‘‘
آواز نے کانوں کو چور چور کردیا جیسے اس کے سامنے اس کی نازو نے سرخ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دونوں ہاتھ دہلیز پر پٹخ دیے ہوں۔ دونوں سفید تندرست کلائیاں خون کی چھوٹی چھوٹی مہین لکیروں سے لالوں لال ہوگئیں۔ کتنی شدت سے جی چاہا تھا کہ اس جیتے جاگتے خون پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ آج پھر اس کی زبان نمکین ہوگئی۔ آنکھیں چیخ پڑیں۔ دونوں زخمی کلائیاں دو بچوں کی لاشوں کی طرح اس کے پہلو میں جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے۔ دھاروں دھار ہونٹ کانپ رہے تھے۔ عذابوں کی بددعائیں دے رہے تھے۔ اسےیقین نہ آرہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے، اس کی وہی بیوی ہے جس کی بے مزہ قربت کی چکی میں سیکڑوں راتیں پس کرنابود ہوگئیں۔ طلاق کی چلمن کے پیچھے سے وہ کتنی پراسرار اور زرنگار لگ رہی تھی۔

ٹریکٹر پھر چلنےلگا۔ تھوڑا سا کھیت باقی رہ گیا تھا۔ گیہوں کی پوری فصل کٹی پڑی تھی۔ کہیں کہیں بڑےانبار لگے تھے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ جیسے بیتے ہوئے سال اور مہینے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو اپنی چھڑی سے الٹ دیا، سنہرے تنکوں اور ڈنٹھلوں کے ہجوم سے کچھ دانے نکل آئے،زندہ چمک دار جیسے گزرے دنوں کے ان گنت لمحوں کے بھوسے میں کچھ یادیں چمک رہی ہوں۔۔۔ یادیں ہماری بوئی ہوئی فصلوں کے دانے۔ ابھی نہ دھوپ تیز ہوئی تھی اور نہ ہوا گرم۔ لیکن وہ اپنے ادھیڑ جسم کے ساتھ ٹیوب ویل کے پانی سےلبریز پختہ نالی کے کنارے کنارے چلتا ہوا ڈامر کی سڑک پر آگیا۔
اب انجمنوں کی آوازیں دور اور دلکش ہونےلگی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف اسکولوں کی زرد عمارتوں میں امتحانوں کے پڑاؤ پڑے تھے اور شرارتوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں کھوگئی تھیں۔ بلاک کے دفتر پر بھیڑ لگی تھی۔ تقاوی اور بیسارے کے کاغذات بن رہے تھے۔ اب وہ بھیڑ سے ڈرنے لگا تھا۔ ان کی بے ادب نظروں سے کچلے جانے کے خوف نےاسے ایک گلی میں موڑدیا، جو کھری اور شاداب آوازوں سے چھلک رہی تھی۔ شور مچاتے زیوروں اور بھڑکدار کپڑوں سے چمک رہی تھی اور ان سب میں شرابور ہوتا اپنےمکان تک گیا جو اس کے آبائی مکان کا حصہ تھا۔ دوسرے حصوں میں ہسپتال، ڈاک خانہ اور گورنمنٹ اسٹور تھا۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ ہسپتال میں انتظار کرتے مریضوں میں سےکوئی جان پہچان والا وقت گزارنے اس کے پاس نہ آجائے۔ [...]

آنکھیں

Shayari By

طاؤس کی غمناک موسیقی چند لمحوں کے بعد رک جاتی ہے۔
’’سبحان اللہ۔۔۔ جہاں پناہ۔۔۔ سبحان اللہ۔‘‘

’’بیگم‘‘ (بھاری اور رنجورآواز میں )
’’جہاں پناہ۔۔۔ اگر ہندوستان کے شہنشاہ نہ ہوتے تو ایک عظیم مصنف، عظیم شاعر، عظیم مصور اور عظیم موسیقار ہوتے۔‘‘ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close