ننگے زخم

Shayari By

مہینے کی پہلی تاریخ کا تصور کسی کے لیے خوش آیند ہوتا ہو تو ہو؛ میرے لیے تو سارے سوئے ہوئے فتنوں کو جگانے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ غلہ والا، دودھ والا، مالک مکان، ملازم، دھوبی، بھنگی، نائی بچوں کی فیس۔ پہلی تاریخ چپکے سے اس طرح نہیں چلی آتی جس طرح ولی دکنی کی محبوبہ دلنواز ان کے گھر آتی تھی،
ولی اس گوہر کان وفا کا واہ کیا کہنا

مرے گھر اس طرح آوے ہے جو سینے میں راز آئے
پہلی تاریخ تو اپنے جلو میں بڑی ہنگامہ آرائیاں، بڑی حشرت سامانیاں لیے بالکل مخدوم محی الدین کی مرضی کے مطابق کچھ اس طرح آتی ہے، [...]

ماں کا دل

Shayari By

ایک فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔سٹوڈیو میں حسب معمول ہنگامہ تھا۔ ہیرو کے سر پرنقلی بالوں کی ’’وِگ‘‘ بٹھائی جارہی تھی۔۔۔ ہیروئن بار بار آئینہ میں اپنی لپ سٹک کا معائنہ کر رہی تھی۔ ڈائریکٹر کبھی ڈائیلاگ رائٹر سے الجھ رہا تھا تھا کبھی کیمرہ مین سے۔ پروڈکشن منیجر اکسٹرا سپلائر سے ایک کونے میں اپنی کمیشن طے کر رہا تھا۔
کیمرہ مین کے اسسٹنٹ نے روشنیوں کے کالےشیشے میں سے دیکھ کر کیمرہ مین سے کہا ’’شاٹ ریڈی۔‘‘ کیمرہ مین نے اپنےکالے شیشے میں سے سین کامعائنہ کرکے ڈائرکٹر سے چلا کر کہا،’’شاٹ ریڈی۔‘‘ ڈائرکٹر نے ہیرو کی کرسی کے پاس جاکر دھیرے سے کہا،’’شاٹ ریڈی۔‘‘ ہیرو نے بڑے اطمینان سے سگریٹ کا کش لیا۔ پھر دو آئینوں میں اپنے سر کو آگے پیچھے سے دیکھا۔ وگ کو دو تین بار تھپ تھپایا۔ نقلی بالوں کی ایک لٹ کو ماتھے پر گرایا اورکرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی طرف دیکھ کر (جوڈائلاگ کا فائل لیے کھڑا تھا) ہیرو نے پوچھا،’’پکچر کون سی ہے؟‘‘

’’ماں کا دل۔‘‘
’’سین کون سا ہے؟‘‘ [...]

مالکن

Shayari By

۱۹۵۰ء میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے سیتاپور سے لے کر لکھیم پور کھیری تک کے سارے ’’گانجر‘‘ کے علاقے کو تہس نہس کرکے رکھ دیاتھا۔ لیکن گھاگھرا نے تو کمال ہی کردیا۔ صدیوں کا بنابنایا راستہ چھوڑ کر سات میل پیدل چل کر آئی اور سڑک کوٹنے والے انجن کی طرح چھوٹے موٹے دیہاتوں کو زمین کے برابر کرتی ہوئی رونق پور میں داخل ہوگئی۔
رونق پور پہلے ہی سے خالی ڈھابلی کی طرح ننگا پڑا تھا۔ سارے گاؤں میں بس حویلی کھڑی تھی۔ حویلی کی کھڑکیوں سے اکا دکا بدحواس آدمیوں کے چہرے نظر آجاتے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کے بڑے چھتے لٹک رہے ہوں۔ حویلی کچی تھی۔ لیکن کوئی سو برس سے گھنگھور برساتوں کے خلاف سینہ تانے کھڑی تھی۔ اس کی دیواروں کی چوڑان پر جہازی پلنگ بچھائے جاسکتے تھے۔ مشہور تھا کہ ایک نوسکھیا چور رونق پور کے نجیب الطرفین کا مہمان ہوا۔ رال ٹپکاتی نظروں سے حویلی کو دیکھ کر ہتھیلیاں کھجلانے لگا اور کنکھیوں سے ہاتھ کی صفائی دکھلانے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ میزبان کو دل لگی سوجھی۔ اس نے کچھ اتا پتا بتاکر آدھی رات کو رخصت کردیا۔ مہمان ایک دیوار پر سابر لے کر جٹ گیا۔ کھودتا رہا۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ دیوار اسی طرح کھڑی تھی۔ اسی ٹھاٹ باٹ سے کھڑی تھی۔ وہ بیچارہ نامراد واپس ہوا۔

لیکن بنانے والوں نے حویلی بنائی تھی۔ ’’جل بھون‘‘ نہیں بنایا تھا۔ اوپر سے ’’ہتھیانکہت‘‘ برستا تھا اور نیچے برجھائی ہوئی مست ہتھنی کی طرح گھاگھرا چوٹیں کر رہی تھی۔ پہلے پھاٹک گرا، پھر دیوان خانہ۔ جب ڈیوڑھی گر گئی اور اندر کے کئی درجے بیٹھ گیے تب چودھری گلاب کی نمک حلالی کو غیرت آئی۔ علاقے بھر کے نامی نامی کہاروں اور مچھیروں کی چھوٹی سی فوج بنائی اور ان کے بازوؤں کے بجرے پر چڑھ کر تھان گاؤں سے نکلے اور رونق پور کی حویلی میں اترگیے۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی مالکن کو کانپتی ہوئی آواز میں خطاب کیا۔
’’حضور اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ حکم دیجیے تو جان پر کھیل کر پالکی چڑھالاؤں اگر سرکارکی جوتیاں تک بھیگ جائیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘ تھوڑی دیر تک سناٹا رہا۔ گھاگرا کی پاگل موجوں کی دل دہلادینے والی بھیانک آواز کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ چودھری گلاب نے آہستہ سے پھر کہا تو آوازئی، [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close