عشق بالواسطہ

Shayari By

لارڈ کرزن ہندستان کے سابق وائسرائے اور انگلستان کے مشہور سیاست داں کی بابت مشہور تھا کہ وہ ’’میں‘‘ کااستعمال بہت کرتے تھے۔ قیصر ولیم شہنشاہ جرمنی میں بھی لوگ یہی عیب بتاتے تھے۔ نفسیات کے ماہرین کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ اپنی انانیت کی وجہ سے وہ ٹھوکریں کھائیں گے کہ ان کے مرنے کے بعد بھی دوسرے یاد رکھیں گے۔ وہ دونوں تو چل بسے۔ اب اس زمانے میں ایک ہم ہی خودی کے قدردان رہ گئے ہیں، رہے نام اللہ کا۔
تو ہم بھی کب تک، ناظرین کو اگر میری بات میں شک ہو تو واحد متکلم کا صیغہ اس تحریر میں گنتے جائیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ معلوم ہی ہو جائےگا میرے ان دونوں ہم خیالوں میں صفات یہی تھے جن کو سراہنے میں ان کو لطف آتا تھا۔ ہم میں ذری صفات کی کمی رہ گئی ہے۔ اس لیے ہم اپنے عیوب ہی کا ذکر کرکے سڑا سا منھ سوندھا کرتے ہیں۔ عیوب کا لفظ تو ہم نے مصنف خوار معترضین کا منھ بند کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اگر ہم ان کو واقعی عیب سمجھتے تو بیان ہی کرنے کیوں بیٹھتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ کمزوریاں کہہ دیتے وہ بھی آپ کی خاطر سے ورنہ ہم تو ان کو صفات ہی سمجھتے۔

اپنے عیوب اور صفات کی طویل فہرست میں ہم جس عیب کا تذکرہ کرنے جاتے ہیں وہ صنف نازک سے تعلق رکھتا ہے۔ دنیا عجیب جگہ ہے۔ یہاں دل میں کچھ ہو مگر زبان پر وہی ہوگا جس کو سننے والے اور کہنے والا سب ہی جھوٹ جانتے ہیں۔ مگر سچ پکارتے رہتے ہیں۔ آپس میں سمجھوتہ اسی پر ٹھہرا ہے جیسے چوروں میں ہوتا ہے۔ عورت کا نام آیا نہیں کہ ان حضرات کا ذہن عیوب کی طرف منتقل ہوا نہیں۔ اب لاحول ولا قوۃ ہے، الحیاہ من الایمان ہے، استغفراللہ کا زور بندھا ہے۔ دل کا حال تو خدا ہی جانتا ہے کہ صرف منھ میں شیخ فرید ہے ورنہ بغل میں اینٹیں ہم سے بھی زیادہ لیے ہیں اور ہم ہیں کہ حافظ شیرازی، شیخ سعدی اور عمر خیام رحمہم اللہ تعالیٰ کے قدموں سے لگے مونچھوں پر تاؤ دیتے چلے جاتے ہیں۔
من ارچہ عاشقم ور ندمست و نامہ سیاہ [...]

ماں

Shayari By

’’بیٹی اچھی!‘‘
یہ آواز، ایک عالیشان عمارت، اسمٰعیل بلڈنگ کے دروازے کے پاس بجلی کے کھمبے کے نیچے کھڑی ہوئی، ایک برقعہ پوش عورت کے لبوں سے نکلی اور اس کے قریب کھڑی ہوئی سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی ایک کمسن لڑکی، اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔

’’کیوں اماں؟‘‘
’’جاؤ بیٹی! اندر چلی جاؤ، یہاں بہت سردی ہے۔‘‘ [...]

پو پھٹنے تک

Shayari By

راملو کی چھوٹی سی کٹیا میں آٹھ زندگیاں سانس لیتی تھیں۔ اسی کٹیا میں انکیا کا بچپن جوانی سے جاملا تھا۔ اسی کٹیا میں ملیا کی میں بھیگی تھیں۔ اسی کٹیا میں پوچی نے شرمانا سیکھا تھا۔ او رپھر اسی کٹیا میں انکیا کی بیوی نے دو بچے بھی جنے تھے۔۔۔ اور اب یہی بچے دن دن بھر کٹیا کے باہر ننگ دھڑنگ کھیلا کرتے تھے۔ راملو نے اسی کٹیا میں خوشیاں دیکھیں، غم سہے۔
دن تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتا۔ رات کو راملو اپنی بوڑھی بیوی کے ساتھ ایک کونے میں پڑ رہتا۔ دوسرے کونے میں انکیا اور اس کی بیوی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ چمٹے رہتے۔ تیسرے کونے میں ملیّا اور پوچی اپنے سر جوڑ لیتے۔ پیٹھ کے بھائی بہن ہونے کی وجہ سے ملیا اور پوچی میں بہت پیار تھا۔ چوتھے کونے میں جہاں چولہا تھا ایک دو مٹی کی ہانڈیاں پڑی رہتیں، جہاں آس پاس کے مریل کتے موقع پاکر پہنچ جاتے۔

راملو کے آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کو اس کٹیا سے کوئی شکایت نہ تھی اور اگر شکایت تھی تو اس میں کٹیا کا کیادوش تھا، دوش تھا تو راملو کا، اس کی بیوی کا جنہوں نے ایک نہیں دو نہیں آٹھ بچوں کو اسی کٹیا میں جنم دیا تھا۔ وہ تو اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ ہیضہ پھوٹ پڑا تو ایک ہی سال میں راملو کے پانچ بچے اسی کٹیا میں مر گیے۔ تین بچ گیے تو راملو اور اس کی بیوی نے پیٹ کاٹ کاٹ کر ان کو پروان چڑھایا۔ انھیں اس قابل بنایا کہ اب وہ بھی اسی کٹیا میں بچے جَن سکیں۔ ہیضے کی وبا نہ پھوٹتی اور راملو کے پانچ بچے نہ مرتے تو اسی کٹیا میں آج تیرہ زندگیاں سانس لیتیں یا سانس لینے کی خواہش میں سسکتی رہتیں۔ راملو کا دم گھٹ جاتا۔ وہ اپنی بیوی کو افیون کھلاکر اور خود کھاکر سو رہتا یا بوکھلاکر کسی گھنے درخت کے سائے میں پناہ لیتا یا نہیں معلوم اور کیا ہوتا۔ یہ بھی تو عین ممکن تھا کہ اتنے افراد اس کٹیا میں سانس لیتے تو ان کی سانوھں کی گرمی ہی سے اس کٹیا کو آگ لگ جاتی اور اگر آگ نہ لگتی تو چھپر اڑ جاتا۔ راملو کے بھگوان کی کرپا تھی جو اس کے پانچ بچے ہیضے کا شکار ہوگیے اور آج راملو اپنے خاندان کے سات افراد کے ساتھ اس کٹیا میں سانس لینے کے لیے زندہ رہ گیا۔
انکیاں کی بیوی آنے والی تھی، ساس سسر متفکر تھے کہ اس کٹیا میں کس طرح گزر بسر ہوگی۔ لیکن انکیا کی بیوی آئی تو وہ بھی نہ سوچ سکے کہ کس طرح گزر بسر کر رہی ہے اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے اسی کٹیا میں دو بچے جن دیے۔ اب راملو اور اس کی بیوی کے لیےبیٹے اور بہو کا کٹیا میں رہن سہن کوئی مسئلہ ہی نہ رہا۔ لیکن آج راملو اور اس کی بیوی زیادہ پریشان تھے۔ ملیا کی ننھی منی گھر والی پھوٹ پھاٹ کر اب جوان ہوگئی تھی۔ ملیا ان تبدیلیوں سے واقف تھا اس لیے وہ اپنی جروا کو جلد ہی اپنے ساتھ لے آنا چاہتا تھا۔ [...]

فاصلے

Shayari By

رحمت خاں خاصا طویل تھا۔ دور دور تک پرانے مکانوں کی دو رویہ قطاریں پھیلی ہوئی تھیں، آخر میں جہاں آنے جانے والوں کے لیے راستہ بند کرنے کی خاطر ایک دیوار کھڑی کی گئی تھی۔ آمنے سامنے پانچ دکانیں اس کوچے میں رہنے والوں کی ضرورتیں پوری کر رہی تھیں۔ ان دکانوں سے کچھ دور، دیوار کے ساتھ لکڑی کا ایک تخت بچھا رہتا تھا، کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ تخت کب بچھایا گیا تھا اور اس کو بچھانے والا کون تھا اور یہ جاننے کے لیے کسی کو ضرورت بھی نہیں تھی۔ دکانداروں کو اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی دقت نہیں تھی اور نہ اس پر کسی کو اعتراض تھا۔ کسی دکاندار کو دن بھر کے لیے کہیں فالتو سامان رکھوانے کی مجبوری ہوتی تھی تو وہ بلاتکلف اپنی یہ چیزیں اس تخت پر ڈھیر کردیتا تھا اور دکان بند کرتے وقت انھیں اٹھوا لیتا تھا۔
یہ تخت عام طور پر سامان رکھوانے ہی کے کام آتا تھا مگر چند ماہ سے اس مصرف کے ساتھ ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا آدمی بھی یہاں دن کا بیشتر حصہ گزارنے لگا تھا، یہ شخص جس کا نام حسین احمد تھا۔ خود اس کوچے میں نہیں رہتا تھا۔ دوسرے محلے میں رہتا تھا۔ صبح سویرے آ جاتا تھا او ردوپہر کے آدھ پونے گھنٹے کے وقفے کے سوا شام تک یہیں پرا رہتا تھا۔

دکاندار اس سے حوش تھے۔ کیونکہ انھیں اس شخص کے روپ میں ایک قسم کا نوکر مل گیا تھا۔ ایک ایسا نوکر جو کسی سے پیسہ بھی نہیں لیتا تھا اور ہر ایک کا کام بخوشی کر دیتا تھا۔ کسی کو کسی ضرورت سے گھر جانا پڑتا تھا تو وہ اسے دکان میں بٹھاکر چلا جاتا تھا اور دکان کی طرف سے بےفکر ہو جاتا تھا۔
حسین احمد کے لیے ان پانچ دکانوں میں سے چار دکانوں کے اندر بیٹھ کر ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیے سودا بیچنا کوئی مشکل مسئلہ نہیں تھا۔ بشیر اور راشد کی دکانوں میں دالیں، آٹا اور ایسی ہی اشیائے صرف بکتی تھیں اور وہ ان کے بارے میں بنیادی معلومات حاصل کر چکا تھا۔ تیسری دکان بوتلوں اور پان سگریٹ کی تھی۔ اس سے ملحقہ دکان میں ڈبل روٹی، انڈے، اچار، جام اور اس قسم کی چیزیں دستیاب تھیں۔ پان سگریٹ کی دکان کا کرایہ دار ابراہیم تھا اور ڈبل روٹی اور انڈوں کی دکان میں خود بیٹھتا تھا۔ ان دکانوں میں بھی بیٹھنے اور وقتی طور پر انھیں چلانے میں حسین احمد کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی تھی۔ البتہ پانچویں دکان جو افضال درزی کی تھی۔ یہاں وہ صرف بیٹھ کر دکان کی چیزوں کی نگرانی ہی کر سکتا تھا۔ درزی کا کام کرنا اس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ [...]

اولڈ ایج ہوم

Shayari By

آخری سیڑھی اور اس کے کمرے کے درمیان کم و بیش دس گز کا فاصلہ حائل تھا اور یہ فاصلہ اس کے لیے ایک بڑی آزمائش کا حرملہ بن جاتا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند ہوتا تھا تو اسے کسی قدر اطمینان ہوجاتا تھا کہ اس کے پوتے اور پوتیوں کے حملے سے اس کا کمرہ محفوظ ہے مگر جب اس کے دونوں پٹ کھلے ہوتے تھے اور دروازے کے باہر کمرے کی کوئی نہ کوئی چیز پڑی ہوتی تھی تو اس کی پیشانی شکن آلود ہوجاتی تھی اور چہرے کی بوڑھی رگیں زیادہ نمایاں ہوکر اس کی کرب انگیز دلی کیفیت کا اظہار کرنے لگتی تھیں۔
اس وقت کمرے کے دونوں پٹ کھلے تھے۔

’’او میرے خدایا۔‘‘ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا اور کمرے کے اندر چلا گیا۔
جس غارت گری کا اس نے اندازہ لگایا تھا وہ صورت حال سے کچھ کمتر ہی تھی۔ اس روز محمود اور اس کی دونوں بہنوں نے معمول سے زیادہ ہی تباہی مچادی تھی۔ [...]

نازو

Shayari By

’’چھن چھن۔‘‘
آواز نے کانوں کو چور چور کردیا جیسے اس کے سامنے اس کی نازو نے سرخ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دونوں ہاتھ دہلیز پر پٹخ دیے ہوں۔ دونوں سفید تندرست کلائیاں خون کی چھوٹی چھوٹی مہین لکیروں سے لالوں لال ہوگئیں۔ کتنی شدت سے جی چاہا تھا کہ اس جیتے جاگتے خون پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ آج پھر اس کی زبان نمکین ہوگئی۔ آنکھیں چیخ پڑیں۔ دونوں زخمی کلائیاں دو بچوں کی لاشوں کی طرح اس کے پہلو میں جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے۔ دھاروں دھار ہونٹ کانپ رہے تھے۔ عذابوں کی بددعائیں دے رہے تھے۔ اسےیقین نہ آرہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے، اس کی وہی بیوی ہے جس کی بے مزہ قربت کی چکی میں سیکڑوں راتیں پس کرنابود ہوگئیں۔ طلاق کی چلمن کے پیچھے سے وہ کتنی پراسرار اور زرنگار لگ رہی تھی۔

ٹریکٹر پھر چلنےلگا۔ تھوڑا سا کھیت باقی رہ گیا تھا۔ گیہوں کی پوری فصل کٹی پڑی تھی۔ کہیں کہیں بڑےانبار لگے تھے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ جیسے بیتے ہوئے سال اور مہینے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو اپنی چھڑی سے الٹ دیا، سنہرے تنکوں اور ڈنٹھلوں کے ہجوم سے کچھ دانے نکل آئے،زندہ چمک دار جیسے گزرے دنوں کے ان گنت لمحوں کے بھوسے میں کچھ یادیں چمک رہی ہوں۔۔۔ یادیں ہماری بوئی ہوئی فصلوں کے دانے۔ ابھی نہ دھوپ تیز ہوئی تھی اور نہ ہوا گرم۔ لیکن وہ اپنے ادھیڑ جسم کے ساتھ ٹیوب ویل کے پانی سےلبریز پختہ نالی کے کنارے کنارے چلتا ہوا ڈامر کی سڑک پر آگیا۔
اب انجمنوں کی آوازیں دور اور دلکش ہونےلگی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف اسکولوں کی زرد عمارتوں میں امتحانوں کے پڑاؤ پڑے تھے اور شرارتوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں کھوگئی تھیں۔ بلاک کے دفتر پر بھیڑ لگی تھی۔ تقاوی اور بیسارے کے کاغذات بن رہے تھے۔ اب وہ بھیڑ سے ڈرنے لگا تھا۔ ان کی بے ادب نظروں سے کچلے جانے کے خوف نےاسے ایک گلی میں موڑدیا، جو کھری اور شاداب آوازوں سے چھلک رہی تھی۔ شور مچاتے زیوروں اور بھڑکدار کپڑوں سے چمک رہی تھی اور ان سب میں شرابور ہوتا اپنےمکان تک گیا جو اس کے آبائی مکان کا حصہ تھا۔ دوسرے حصوں میں ہسپتال، ڈاک خانہ اور گورنمنٹ اسٹور تھا۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ ہسپتال میں انتظار کرتے مریضوں میں سےکوئی جان پہچان والا وقت گزارنے اس کے پاس نہ آجائے۔ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close