تم نے گر مجھ کو کبھی دل سے پکارا ہوتا ...
تم بھی روٹھی رہو یہ گوارہ نہیں ...
خار دشمن جو بچھائے تو کوئی بات نہیں ...
تمہارے غم کی اداسی قلیل کرتے ہوئے
تم اپنی تباہی کا ماتم تو کر لو
سب کو دل کا راز بتانا ٹھیک نہیں
پتہ کیسے ہوں آخر ہجر کے اسباب دنیا کو
بس اک یہی تو خرابی ہے اس کی فطرت میں
تو نے ہی ہر قدم پہ دیا حوصلہ مجھے ...
تیری ہر بات پہ تنقید نہیں کر سکتا ...
میں نہ کہتا تھا مرے یار بدل جاتا ہے ...
گلاب رنگوں کو زعفرانی نہیں کروں گا ...
اپنی آنکھوں سے تباہی یہ نظارہ دیکھوں ...
کیا اسی بھول کو کہتے ہیں محبت کا زوال
نئی زمینیں نئے آسماں بناؤں گا ...
میں تجھ سے جو مانگوں تو یہی مانگوں کہ مجھ کو ...
جتنے حسین چہرے تھے لوگوں کو بھا گئے ...
جلنے والوں کو اور ستاتے ہیں ...
داغ وہ سارے دھو سکتا ہے ...
باغ اردو کی مہک راز خدا ہوتی ہے ...