کیوں سمجھتے ہو تم مجھے گڑیا ...
کبھی سوچا ہے تم نے ...
اک لڑکی ...
مجھے حیرت ہے کیسے جی رہا ہوں ...
ان کی قسمت سنوارتا ہوں میں ...
رہ رہ کے مجھے اتنا ستاتی ہے اداسی ...
کبھی میں چلوں کبھی تو چلے کبھی بے مزہ یہ سفر نہ ہو ...
بے نفس اور بے صدا چہرہ ...
بہہ گیا اس کا بھی لہو شاید ...
سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے ...
نہ ثبات ہے نہ دوام ہے ...
لگ رہا تھا یہیں کہیں ہو تم ...
کوئی ارمان ہی نہیں پایا ...
جیسا جیسا ہم نے چاہا ویسا ویسا ہو گیا ...
اس اندھیرے میں کہاں تازہ خیال آئے گا ...
غم اتارا گیا سبھی کے لیے ...
در دریچے کے بنا اور کسی چھت کے بغیر ...
بات کس کس سے ہو گئی میری ...
یا محبت یا وفا ...
یوں قیس دشت میں تن تنہا مقیم ہے ...