انقلاب ایک خواب ہے سو ہے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
یہ جو لڑتا جھگڑتا ہوں سب سے
یہ غم جدا ہے بہت جلدباز تھے ہم تم
وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
وہ بھی ملنے نئی پوشاک بدل کر آیا
تیرے خیال میں کبھی اس طرح کھو گئے
ترا فراق تو رزق حلال ہے مجھ کو
صورت دل بڑے شہروں میں رہ یک طرفہ
نئے سرے سے جل اٹھی ہے پھر پرانی آگ
نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں
میرے ہونے سے نہ ہونا ہے مرا
مرا کمال کہ میں اس فضا میں زندہ ہوں
منحوس ایک شکل ہے جس سے نہیں فرار
میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بینا کا روگ ہے
کیا اس سے ملاقات کا امکاں بھی نہیں اب
کسی کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں اکثر
کون ہے اس رم جھم کے پیچھے چھپا ہوا