مُفتی و قاضی کی کرتے ہیں نہ مُلّاؤں کی باتہم تو کرتے ہیں فقط اے دوستو گاؤں کی باتدور لوّر کا ہے سو بیٹھے ہیں اُس کے پاؤں میںمانتے ہیں باپ کی نہ نوجواں ماؤں کی باتاور بھی تو مسئلے تھے حل طلب اِس بِیچ میںپاک و بھارت کر رہے ہیں صِرف دریاؤں کی باتبات جو حد سے بڑھی تو یاد آیا ہے عِلاجکاش پہلے مان لیتے ہم مسیحاؤں کی باتہم کہ صحرا، خُشکی و دشت و بیاباں کے اسِیرکیا جچے گی لب پہ اپنے کوہ پیماؤں کی باتکُچھ چُنیدہ لوگوں پہ کرتے ہیں یہ لُطف و کرم کیا کریں ہم آج کے اِن بزم آراؤں کی باتفلسفہ و حِکمٹ و منطق سے کیا لینا اِنہیںگُفتگُو چہرے پہ یا کرتے ہیں یہ پاؤں کی باتہے امیرِ شہر کا یہ فیصلہ کہ آج سےمسجد و مندر کی ہو گی نہ کلیساؤں کی باتگُفتگُو کرتے ہوئے یہ احتیاطیں اِس لیئےآ ہی جائے لب پہ نہ کُچلی تمنّاؤں کی باتجِن کے ہونے سے نہ تھا سُکھ چین کا جِینا نصِیبچہچہا کے کرتے ہو کیا ایسے آقاؤں کی باتیُوسفِؔ ثانی ہیں حسرتؔ، ہم پہ ہو گی بے اثرلیلاؔ و شیرینؔ و سسّیؔ اور زلیخاؤںؔ کی باترشید حسرتؔ