تھا بے سکت ہوا میں اُچھالا گیا تھا جببے روزگار گھر سے نِکالا گیا تھا جبناکامیوں نے مُجھ میں بڑی توڑ پھوڑ کیمحرُومیوں کی گود میں ڈالا گیا تھا جباُس نے تو صاف آنے سے اِنکار کر دیااحقر منانے، حضرتِ اعلا! گیا تھا جبتب اُس کی ضِد میں تھا کہ نہ تھا مُمکِنات میںبچّے کی طرح ڈانٹ کے ٹالا گیا تھا جباُس دِن سے یہ وجُود اندھیروں کی زد میں ہےمُجھ کو اکیلا چھوڑ اُجالا گیا تھا جباپنی زبان کاٹ کے جانا پڑا مُجھےاِک فرد ساتھ بولنے والا گیا تھا جبتب تک مِرا وجُود ہی گل بھی چکا حُضورمُدّت کے بعد آ کے سنبھالا گیا تھا جباُس کے گلے میں غیر کی بانہوں کے ہار تھےلے کر خلُوص و پیار کی مالا گیا تھا جباب ہیں سمیٹنے میں تُمہیں ہِچکِچاہٹیںتب کیوں نہ تِھیں رشؔید کو گالا گیا تھا جبرشید حسرتؔ