دو سارس کی اوڈیسی

دنیا پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے جب چلکا جھیل کے پانی پر کھڑے دو سارس نے وقت سے قبل سائبیریا لوٹنے کا فیصلہ کیا۔
’’جنگ کے اسلحے بہت زیادہ بیچے جا چکے ہیں،‘‘ نر سارس نے کہا۔ ’’اب ایک بڑی جنگ کا ہونا لازمی ہے تاکہ یہ اسلحے ختم ہو جائیں ورنہ سمندر پار ہتھیار بنانے کے سارے کارخانے بند ہو جائیں گے۔‘‘

’’تم نے ایسا کوئی کارخانہ دیکھا ہے؟‘‘ مادہ سارس نے دریافت کیا۔ ’’ورنہ زیادہ تر لوگ سنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔‘‘
’’میں نے ایک ریگستان پر پرواز کے دوران ایٹمی دھماکہ دیکھا تھا۔ ہمارے بہت سارے ساتھی اس دھماکے کے بہت قریب اڑ رہے تھے۔ وہ پھر کبھی نظر نہ آئے۔رہا کارخانہ تو سارے کارخاے مجھے ایک سے لگتے ہیں، آگ اور دھواں اگلنے والے، کسی ڈریگن کی طرح۔‘‘

دونوں سارس اپنی لانبی پتلی ٹانگوں پر کھڑے غور سے پانی کے اندر تاک رہے تھے جو بدنصیب مچھلیوں کا مسکن تھا۔
’’تمہارا کیا خیال ہے، یہ سفر ضروری ہے؟‘‘ مادہ سارس نے دریافت کیا۔

’’بالکل،‘‘ نر سارس نے کہا۔’’پہلے بھی کئی بار دونوں ملکوں نے سرحد پر اپنی فوجیں اکٹھی کی تھیں مگر اس وقت اس کرتب کا ایک سیاسی مقصد تھا۔ اس بار معاملہ سنجیدہ ہے۔ ہمیں پرواز کر لینی چاہئے۔‘‘
’’کیوں نہ ہم دوسروں کو بھی یہ مشورہ دیں۔ ان لوگوں کے لئے ہمارا کچھ تو فرض بنتا ہے۔‘‘ مادہ سارس نے پانی میں ہزارو ں کی تعداد میں کھڑے اپنے ساتھیوں کی طرف تاکتے ہوئے کہا جو ایک ٹک پانی کے اندر کلبلاتی مچھلیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

’’نہیں، ہم نے ایسا کیا تو بہت دیر ہو جائےگی۔ یوں بھی تم انھیں یقین نہ دلا پاؤگی، بلکہ یہ ایک نئے مسئلے کی شروعات ہوگی۔‘‘
’’ہمیں کب پرواز کرنی ہے؟‘‘

’’بس ذرا سورج ڈوب جائے۔ رات کے اندھیرے میں ہمیں کوئی واپس جاتے نہیں دیکھ پائےگا۔ ورنہ ہمیں ہر ایک کو کیفیت دینی ہوگی۔‘‘
رات ساحل پر ایک پاگل نے پہلا الاؤ روشن کیا اور دور تک لوگوں کے سائے پھیل گئے۔ اس الاؤ میں کاغذ کم اور پولیتھین کے ٹکڑے زیادہ تھے جو بد بو دار دھواں چھوڑ رہے تھے۔ آگ بار بار بجھنا چاہ رہی تھی مگر پاگل کے پاس ایک کھوکھلا بانس تھا جس کے سہارے وہ کوڑا کرکٹ کے اس مشکل سے جلتے ہوئے ڈھیر کو سلگائے جا رہا تھا۔

’’آہ، یہ دھواں کتنا تلخ ہے۔ میرا تو سر چکرا رہا ہے۔ میں اب مزید پرواز نہیں کر سکتی،‘‘ مادہ سارس نے اڑتے اڑتے نر سارس سے کہا۔ دونوں سمندر کے کنارے سے گذر رہے تھے۔
’’اپنے آپ کو سنبھالو۔‘‘

’’نہیں،‘‘ وہ بولی۔’’مجھے مر جانے دو۔‘‘
’’سمندر کا یہ کنارا ہمارے لئے محفوظ نہیں ہے،‘‘ نر سارس نے کہا۔’’تم نہیں دیکھتی اس جگہ کس طرح کے لوگوں کا ہجوم ہے؟ ان میں زیادہ ترنشے کی حالت میں ہوں گے۔ اس کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتی ہو کہ اب عورتیں اور بچے ساحل پر نظر نہیں آتے۔‘‘

’’یوں بھی مجھے مر جانا ہے، مجھے اس سے کیا۔‘‘ اور مادہ سارس پاگل کے الاؤ کی روشنی کو اپنی منزل بنا کر تیر کی طرح نیچے اتری اور ایک چٹان پر آکر اپنی عادت کے مطابق ایک ٹانگ پر کھڑی ہو گئی۔ دوسرا سارس اس کے پیچھے پیچھے ہی اس کے پاس اترا تھا اور بڑے غصے میں نظر آ رہا تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ایک وردی پوش کانسٹبل ڈنڈا تھامے پاگل کے الاؤ کے پاس دکھائی دیا۔
’’اے پاگل، ساحل کو گندا کیوں کر رہا ہے بے؟‘‘ کانسٹبل کہہ رہا تھا۔ وہ کوتاہ گردن والا ایک بدنیت انسان تھا جو ہر رات نشے کی حالت میں گھر لوٹنے کا عادی تھا۔’’یہ سالے پاگل، اب انھیں کون سمجھائے۔‘‘

پاگل مسکرا رہا تھا مگر یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ کیوں مسکرا رہا تھا۔ کانسٹبل الاؤ میں تھوکتا ہے اور بیٹھ کر پولیتھین کے ٹکڑوں کو جلتے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ مٹھی میں ریت بھر بھر کر چنگاریوں اور شعلوں پر پھینکنے لگتا ہے۔’’کتنی بدبو چھوڑ رہاہے یہ۔اے پاگل۔۔۔‘‘ اور وہ واپس لوٹتا نظر آتا ہے۔
’’وہ پاگل نہیں ہے۔‘‘ نر سارس نے کہا۔

’’تہیں کیسے پتہ؟‘‘
’’میں نے انسانوں کو بہت سوچا ہے۔ یاد کرو جب سائبیریا کے کیمپوں میں پہلی بار ریزر کے تار لگائے گئے، کیا ہم لوگوں نے نہیں کہا تھا، یہ کیمپ ملک کو پاگلوں سے پاک کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ مگر جو لوگ ان کیمپوں میں ڈالے گئے کیا وہ پاگل تھے؟‘‘

’’ہاں، ہاں، وہ پاگل ہی تھے اور میں نے ایسا بھی ایک پاگل دیکھا تھا جو خود کوشاعر کہتا تھا اور برف پر اپنے اشعار لکھا کرتا کیونکہ اس کے پاس لکھنے کے لئے قلم کاغذ تھے ہی نہیں۔ اب تم یہ نہ کہنا کہ وہ پاگل نہ تھا۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ شروع شروع میں مجھے یہ سب کچھ بہت سیدھا سادا لگا تھا۔ مگر پھر میں نے انسانوں کو سوچنا شروع کیا اور میں نے دیکھا، اس انسانوں کی دنیا میں صرف پاگل صحیح الدماغ لوگ ہیں،وہی اس قابل ہیں کہ اپنے ایلدورادو کو پا سکیں۔‘‘

’’یہ بار بار تم انسانوں کے کسی ایلدورادو کا ذکر کرتے رہتے ہو۔ کیا ہم سارسوں کے لئے ایسے کسی ایلدورادو کا وجود نہیں؟‘‘
’’نہیں۔ یوں بھی ہم سارسوں کا کوئی ایلدورادو ہوتا تو وہاں بھی ہم شکار ہی کئے جاتے۔‘‘

’’مگر یہ پاگل، مجھے یقین نہیں آتا اور تم کہتے ہو وہ پاگل نہیں ہے۔‘‘
’’میں نے تم سے یقین کرنے کے لئے یہ سب کچھ نہیں کہا ہے۔‘‘

’’آہ، اس الاؤ کے بجھتے ہی اب میں بہت راحت محسوس کر رہی ہوں،‘‘ مادہ سارس نے تاریک چٹا ن پر اپنی ٹانگ بدلتے ہوئے کہا جس پر وہ اتنی دیر سے کھڑی تھی۔’’کیوں نہ ہم اپنی پرواز جاری رکھیں؟‘‘
’’نہیں، ہمیں آرام کی ضرورت ہے۔ہم پو پھٹنے سے پہلے یہاں سے نکل جائیں گے۔‘‘

’’تم اتنے عقلمند کیوں ہو؟‘‘
’’کیونکہ میں ایک سارس ہوں جس نے دنیا دیکھی ہے۔‘‘

اندھیرے میں پاگل کو دونوں سارس نظر نہیں آئے تھے۔ وہ ریت پر گھٹنوں کے بل بیٹھا بجھے ہوئے الاؤ کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے آسمان پر تاروں کو پلکیں جھپکتے دیکھ رہا تھا اور ان کی نقل اتار رہا تھا۔
’’پچھلی بار جب یہ ہوا تو میں ایک پرانا کوٹ پہنے ہوئے تھا جسے میں نے ایک مرے ہوئے فوجی کے جسم سے اتارا تھا،‘‘ اس نے اپنی خود کلامی شروع کی جس کے لئے وہ مشہور تھا۔’’میں نے اس کا ایک بٹن چبایا اور اس کا ذائقہ مجھے اچھا لگا اور میں نے کہا جب جب اس دھرتی پر ظلم ڈھایا جائےگا میں اپنا بٹن چباؤ ں گا۔‘‘

’’مگر کوٹ میں تو صرف چند ہی بٹن ہوتے ہیں اور دنیا میں ظلم کتنا زیادہ ہے؟‘‘ مادہ سارس نے سرگوشی کی۔
’’چپ رہو، تم اپنی تمام بیوقوفیوں کے باوجود سارس ہی رہوگی۔‘‘

’’پھر میں نے ایک سرکاری بنگلے کی چہاردیواری پر پیشاب کرنے کامنصوبہ بنایا،‘‘اس نے آگے کہنا شروع کیا۔ ’’اس کے اندر دو بھاری بھرکم کتے اپنی عیش کی زندگی گذار رہے تھے گرچہ ان میں سے ایک کو بیٹھے بیٹھے اسپونڈِلائٹس کی بیماری ہو گئی تھی اور دوسرا چپ رہتے رہتے اپنی آواز کھو چکا تھا۔ تو میں نے اپنے کنستر سے کہا،’آؤ، چونکہ تم اور ہم دونوں پانی سے بھرے ہیں اس لئے تم میرا مسئلہ سمجھ سکتے ہو اور میں نے غٖور سے دیکھا تو اس کنستر میں اور انسانوں میں مجھے ایک بہت بڑا فرق نظر آیا وہ یہ کہ کنستر میں پانی پینے اور نکاسی کا راستہ ایک ہی ہوتا ہے جب کہ ہم انسانوں کو قدرت نے دو الگ الگ راستے ودیعت کئے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔‘‘
’’میں نہ کہتی تھی۔۔۔‘‘ مادہ سارس بولی۔’’۔۔۔ وہ پاگل ہے۔‘‘

’’اور جب میرے اوپر سے آئل ٹینکر گذر گئی تو میری انتڑیوں پر اس کے پہیوں کے نشان ہمیشہ کے لئے رہ گئے۔ مگر میں نے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا بلکہ ایک گدھ کی تلاش میں نکل پڑا جو ایک متروک سنگِ میل پر بیٹھا میرے مرنے کا انتظار کرتے کرتے بوڑھا ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا میرے پاس جسم کے نام پر جو کچھ بچا تھا یا تو اسے پیش کر دوں گا یا پھر اس سے کہوں گا کہ اے گدھ، اے کہ آئے دن تو نیست و نابود ہوتا جا رہا ہے اور انسان تیری جگہ لیتے جا رہے ہیں، اگلی بار کے لئے مجھے نہ سوچ کیونکہ میرا ایک لمبی زندگی جینے کا ارادہ ہے اور جب میں اس کی تلاش میں بھٹک رہا تھا تو میں نے ایک دوسرے شخص کو دیکھا جس کا چہرا بالکل مجھ سے ملتا جلتا تھا بلکہ اس نے بھی میری طرح کا ایک کوٹ پہن رکھا تھا جس کے بٹن چبائے ہوئے تھے۔ وہ دریا کے کنارے دیوار پر بیٹھا گذرتی کشتیو ں کو ہری جھنڈی دکھا رہا تھا۔
’شٹ اپ!‘ میں نے اس سے کہا۔’یہ کوئی سڑک نہیں اور نہ ہی تم کوئی ٹریفک کانسٹبل ہو۔ اور یاد رکھو ، میں اس طرح کی بکواس چیزوں کو دیکھنے کا عادی نہیں ہوں۔‘

’عالی جناب، مجھے پتہ ہے۔‘وہ میری طرف دیکھے بغیر جھنڈی ہلاتا رہا۔’مگر آپ کو بھی پتہ ہونا چاہئے کہ یہ وہ دریا ہے جس سے حملہ آور اپنی کشتیوں میں توپ اور طپنچوں کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں اور گولوں سے ہمارے گھروں میں سوراخ بنا دیتے ہیں اور دیکھو۔۔۔‘ اس نے ایک سرخ جھنڈی دکھائی۔’میں یہ جھنڈی دکھاکر انھیں روک دوں گا۔ میں ان سے کہوں گا واپس لوٹ جاؤ، اب اس ملک کے اندر ہماری اپنی خود کی جنگیں شروع ہو چکی ہیں، اب ہمیں کسی باہری حملہ آور کی ضرورت نہیں۔تم کیوں اس کا حصہ دار بننا چاہتے ہو؟‘ ‘‘
’’حیرت ہے،‘‘ مادہ سارس نے کہا۔ ’’ان پاگلوں کا حافظہ کتنا تیز ہوتا ہے۔ مجھے تو لوگوں کی زیادہ تر باتیں یاد ہی نہیں رہتیں۔ ایک آدھ جملے جو یاد رہتے ہیں دہراتے وقت انھیں بھی میں لاشعوری طور پر بدل دیا کرتی ہوں۔‘‘

’’ایک پاگل اور سیانے آدمی میں کچھ تو فرق ہوتا ہے،‘‘ دوسرے سارس نے کہا۔’’آہ، دیکھو، تم نے پھر بیوقوفی کی بات کی۔ دیکھو ہم نے اس کے کچھ جملے کھو دئے۔‘‘
’’گھبراؤ مت،تم نے کچھ بھی نہیں کھویا ہے۔ وہ پاگل چپ ہو چکا ہے۔ اور اب دیکھو، پوپھٹ رہا ہے۔‘‘

دونوں سارس نے اپنے پر پھیلائے، ٹانگیں سمیٹیں اور آسمان کی طرف پرواز کر گئے۔ کچھ دیر پرواز کرنے کے بعد مادہ سارس نے نیچے دیکھا۔
’’نیچے لگ رہا ہے آتش بازیاں چھوٹ رہی ہیں۔‘‘ اس نے اپنی پرواز جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’شاید لوگ بادشاہ کے استقبال کے لئے اپنے گھروں سے نکل آئے ہیں۔‘‘

’’احمق، یہ آتش بازیاں نہیں ہیں۔ یہ انسانوں کے گھر جل رہے ہیں،‘‘ سارس بولا۔ ’’لگتا ہے تمہاری آنکھیں اور نتھنے دونوں کمزور ہو گئے ہیں۔‘‘
’’کاش، اب جو میں دیکھتی ہوں تو لگتا ہے ان کا کمزور ہو جانا ہی اچھا ہے۔‘‘

دونوں ایک بڑے شہر کے بیچوں بیچ پرواز کر رہے تھے۔ نیچے روشنیوں کا جال بچھا ہوا تھا اور رہ رہ کر سائرن اور گولیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’’میں اس شہر میں اترنا چاہتی ہوں،‘‘ مادہ سارس بولی۔ ’’میں نے اس طرح کے شہروں کے بارے میں بہت سنا ہے۔ ایک سارس اس سے ہو کر آئی ہے۔ اس نے اس کے چوراہوں پر ابلنے والے فواروں کا ذکر کیا تھا۔ کاش میں وہ سارس ہوتی۔‘‘ اور اس سے پہلے کہ دوسرا سارس کچھ کہتا وہ غوطہ لگا کر نیچے کی طرف جانے لگی۔ روشنیوں کے نقطے جو ایک دوسرے کو چھو رہے تھے اب ان کے درمیان فرق بڑھتا گیا، عمارتیں بڑی اور مینار اونچے ہوتے گئے اور دونوں آگے پیچھے اڑتے ہوئے ایک قلعے کی فصیل پر آ کھڑے ہوئے جس کے نیچے پتھریلے راستے سے بکتر بند گاڑیاں گذر رہی تھیں۔’’یہاں کتنا سکون ہے،‘‘ مادہ سارس بولی۔’’تم نے گھروں کے جلنے کا جھوٹ کیوں گڑھا؟‘‘

’’احمق،‘‘ نر سارس نے جواب دیا۔ ’’احمق، یہ قلعے والا علاقہ ہے۔ یہاں صرف فوج رہتی ہے۔ مگر بہتر ہے کہ ہم آبادی کی طرف نہ جائیں۔‘‘
’’تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ مادہ سارس بولی۔’’میں اتنا قریب آکر بیوقوف کی طرح لوٹ جاؤں۔ مجھے ایک جلتا ہوا گھر دکھاؤ، ورنہ میں اگلی بار۔۔۔اگلی بار۔۔۔ تم سمجھ رہے ہو نا میری بات؟‘‘

’’عورت۔۔۔‘‘ نر سارس نے غصے میں کہا۔ ’’کچھ ہتھیار ہر وقت استعمال نہیں کئے جاتے۔ مگر ٹھیک ہے۔ آؤ ہم پھر سے اس شہر کے اوپر پرواز کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے لئے یہ آخری شہر ہوگا۔اس کے بعد ہم کسی شہر کو اپنے راستے پر آنے نہ دیں گے۔ وعدہ کرو، اب تم صرف میرے کہنے پر چلوگی۔‘‘
’’اڑوگی کہو ڈارلنگ، تم بہت جلد غصے میں آ جاتے ہو۔ تمہیں اپنا بلڈ پریسر چیک کرانا چاہئے۔ کیوں نہ ہم تھوڑا پیار کر لیں؟‘‘

’’کیوں نہیں۔‘‘ اور دونوں پیار کرنے لگے۔ دیوار کے طاقچے پر بیٹھے ہوئے ایک الو نے آنکھیں بند کرکے یہ بد تہذیبی برداشت کی، کچھ کبوتروں نے اپنے پر پھڑپھڑا کر احتجاج کیا، ایک گرگٹ نے اسے ایک غیر ضروری عمل قرار دے کر اسے نظر انداز کیا اور ایک گلہری کو یہ فعل اتنا مضحکہ خیز نظر آیا کہ وہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ کھانے لگی۔
پھر دور کسی گرجے کی گھنٹی بجی اور دونوں الگ ہو گئے۔

’’شکریہ!‘‘ مادہ سارس بولی۔
’’any time‘‘ نر سارس نے کہا۔ دونوں نے اپنے پر پھیلائے اور شہر کے اوپر اڑنے لگے اور اب جب کہ وہ نیچے نیچے اڑ رہے تھے انھیں جلتے گھروں کی گرمی اپنے پروں کے اندر تک محسوس ہو رہی تھی، بلکہ اٹھتے دھووں سے گوشت کے جلنے کی بو بھی آ رہی تھی۔

’’لگ رہا ہے جنگ شروع ہو چکی ہے۔ ہمیں یہاں سے نکل لینا چاہئے۔‘‘
’’نہیں، یہ جنگ نہیں ہے، مگر تم نے پہلی بار عقلمندی کی بات کی ہے۔‘‘ مگر ابھی انھوں نے آسمان کی طرف رخ کیا ہی تھا کہ انھیں تابڑ توڑ گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔دونوں نے گھبرا کر نیچے دیکھا اور سوچا کہ شاید ان کی زندگی کا آخری لمحہ آن پہنچا ہے۔ مگر نیچے ایک کشادہ چوراہے پر انھیں پولس کے دستے نظر آئے جو اپنے بیونٹ تانے چاروں طرف سے آگے بڑھ رہے تھے اور ان نہتے عورتوں بچوں اور بوڑھوں پر گولیاں برسا رہے تھے جنھیں انھوں نے اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔

’’شکر ہے اوپر والے کا،‘‘ مادہ سارس بولی۔ ’’میں سمجھی تھی کسی شکاری نے ہمیں اپنا نشانہ بنایا ہے۔ مگر یہ پولس ان لوگوں پر گولیاں کیوں چلا رہی ہے؟‘‘
ٍ

’’بیوقوف عورت، اتنے برسوں سے تم ملکوں ملک سفر کرتی آ رہی ہو، تم نے کچھ بھی نہ سیکھا،‘‘ نر سارس بولا۔ ’’مگر میرا خیال ہے ہمیں زیادہ نیچے نہیں جانا چاہئے، ہم بھی کسی گولی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘‘
’’تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟‘‘

’’یہ سماج کے کمزور لوگ ہیں جن پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔‘‘
’’کیا کمزور ہونا کوئی بری بات ہے؟‘‘

’’انسانوں کے سماج میں یہ ایک بری بات تو ضرور ہے۔‘‘
’’پھر تو اس سلسلے میں ہم سارس زیادہ عقلمند ہیں کیونکہ ہمارا کوئی سماج نہیں، نہ ہمارے پاس کوئی پولس ہے، بلکہ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں ہمارا کبھی کوئی بادشاہ رہا ہو۔‘‘

’’اب بس کرو، اپنی تعریف کے پل مت باندھو۔ وہ ویران حویلی دیکھ رہی ہو، وہ جگہ محفوظ لگ رہی ہے۔ چلو وہاں اترتے ہیں۔ چاروں طرف افراتفری کا عالم ہے۔ابھی سفر کرنا ٹھیک نہیں۔ رات ہم وہاں گذار لیں گے اور کل صبح صبح نکل پڑیں گے۔‘‘ اور دونوں ایک غیر آباد حویلی کی چھت پر اتر گئے جہاں اندھیرے میں منڈیر پر بہت ساری بدروحیں جمع تھیں اور شہر کو جلتے دیکھ رہی تھیں۔
’’کتنا دلکش نظارا ہے یہ،‘‘ ایک لحیم شحیم بھوت نے کہا جو روحوں سے تھوڑا الگ تھلگ کھڑا تھا اور گرچہ اس کی آواز سنائی دے رہی تھی اس کے ہونٹ ہل نہیں رہے تھے۔’’اتنے سارے لوگوں کو مرتے دیکھ کر دل میں کتنی ٹھنڈک پہنچ رہی ہے۔‘‘

’’اسی لئے تو میں نے اس شہر کو اپنا دائمی ٹھکانہ بنایا ہے،‘‘ ایک خبیث نے جس کی گردن نہیں تھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو دیکھو، اس خون خرابے کا مزا لینے کے لئے دنیا بھر کے بھوت پریت اس شہر میں جمع ہو گئے ہیں،‘‘ ایک چڑیل نے جس کے بال سانپوں کی طرح اس کے ننگے پستانوں پر بل کھا رہے تھے اپنی لانبی پتلی انگلی سے اشارا کیا اور سب نے دیکھا، دور جہاں تک نظر یں کام کر رہی تھیں، عمارتوں کی منڈیروں پر ان ہی کی طرح روحیں جمع تھیں اور نیچے تاک رہی تھیں۔ ان میں سے کچھ روحیں آسمان پر اڑ رہی تھیں اور کچھ بھوت پریت تو اتنے دلیر تھے کہ قاتلوں کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، ان کی تلواروں ،بندوقوں اور گنڈاسوں کو چھو رہے تھے بلکہ مقتولوں کے پاس کھڑے ہوکر ان کے مرنے کی بھونڈی نقالی کر رہے

تھے۔ دوسری طرف ان سب سے الگ تھلگ ایک بھوت نے پٹرول کا ایک کنستر اپنے اوپر الٹ کر آگ لگا لی تھی اور اب بھاگا بھاگا پھر رہا تھا جسے دیکھ کر چڑیلوں کو اپنی ہنسی روکتے نہیں بن رہی تھی۔
’’مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے،‘‘ مادہ سارس بولی۔’’یہ مجھے تم کہاں لے آئے؟ ہمیں یہاں سے نکل پڑنا چاہئے۔‘‘

’’تم نے پھر بیوقوفی کی بات کی۔ بھلا ہمیں ان بھوت پریت سے کیا لینا۔ کیا ہم کوئی انسان ہیں۔ بس آنکھیں بند کر لو اور چپ چاپ کھڑی رہو، رات اپنے آپ گذر جائےگی۔‘‘
دونوں نے چھت کے کونے سے لگ کر آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ چڑیلوں کی نظریں ان پر پڑیں اور وہ ان کے گرجمع ہو گئیں۔ انھوں نے انھیں خوفزدہ کرنے کی بہت کوشش کی، مگر دونوں سارس آنکھیں بند کئے ایک دوسرے سے چپکے کھڑے رہے۔ تھک ہار کر چڑیلیں منڈیر کی طرف واپس لوٹ گئیں۔ انھوں نے دیکھا، شہر کے ایک دوسرے گوشے سے نئے سرے سے آگ کی لپٹیں بلند ہو رہی تھیں۔

ابھی سورج نہیں نکلا تھا مگر آسمان صبح کی دھلی دھلائی روشنی میں کسی شاداب کنول کی طرح کھل اٹھا تھا جب دونوں سارسوں نے اڑتے اڑتے مڑ کر ایک آخری نظر بدنصیب شہر پر ڈالی جو بہت پیچھے چھوٹ گیا تھا مگر جس سے کالے دھوووں کے مرغولے اب بھی بلند ہو رہے تھے۔
’’یہ انسان آپس میں اتنا خون خرابہ کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’بیوقوف،‘‘ نر سارس نے کہا۔ ’’اگر وہ مل جل کر امن سے رہیں تو سارس نہ بن جائیں۔‘‘
’’کیا ہم سارس برے لوگ ہیں؟‘‘

’’یہ تو میں نے نہیں کہا۔‘‘
’’تو کیا میں نے کہا ہے؟‘‘

’’عورت تم سے بحث کرنا بیکار ہے،‘‘ نر سارس نے تنگ آ کر کہا۔
’’نہیں، تمہیں بتانا ہوگا، کیا میں بری عورت ہوں؟‘‘

’’ارے دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا؟میں نے ایک بات کہی اور تم نے اس کا بتنگڑ بنا دیا۔‘‘
’’نہیں، مجھے بتاؤ، کیا میں بری ہوں؟ اگر تم نے نہیں بتایا تو میں واپس اس شہر میں لوٹ کر ان کمزور نہتے لوگوں میں شامل ہو جاؤں گی اور تمہیں میری لاش ملےگی۔‘‘

’’ٹھیک ہے بابا، پوچھو، تم کیا جاننا چاہتی ہو؟‘‘
’’یہ انسان آپس میں اتنا خون خرابہ کیوں کرتے ہیں؟‘‘

’’یہ تو یہ انسان ہی بتا سکتے ہیں۔ میں تو ایک سارس ہوں۔‘‘
’’تمہیں نہیں معلوم؟‘‘

’’نہیں۔‘‘
’’واقعی؟‘‘

’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
’’نہیں، تم مجھے بیوقوف بنا رہے ہو۔‘‘

’’میرا یقین کرو۔‘‘
’’پھر تو تم نے خوامخواہ میرا وقت بر باد کیا۔،‘‘ مادہ سارس نے ہوا میں اپنے پروں کو اور بھی زور زور سے گردش دیتے ہوئے کہا۔ ’’اور مجھے دیکھو، میں اب تک تمہیں کافی عقلمند سمجھتی آ رہی تھی۔‘‘

وہ ایک پہاڑ کے اوپر سے گذر رہے تے جس کے ڈھلانوں پر برف جمی ہوئی تھی جب ایک شکاری نے ایک پیڑ کی آڑ سے اپنی بندوق کی لبلبی دبائی اور مادہ سارس نیچے گرنے لگی۔ نر سارس نے سر موڑ کر ایک پل کے لئے اسے دیکھا اور پروں کو تیزی سے گردش دیتے ہوئے آسمان کی طرف اڑتا چلا گیا۔ اس کے بعد بھی اس پر کئی گولیاں داغی گئیں، مگر وہ ان کے رینج سے دور ہو چکا تھا۔
’’یہ ایک بالکل جوان سارس ہے۔ مجھے افسوس ہے اس کا جوڑا میرے ہات سے نکل گیا،‘‘ شکاری نے جھک کر مادہ سارس کے زخمی جسم کو زمین سے اٹھاتے ہوئے کہا۔ مرنے کے بعد سارس کی گردن اور بھی لمبی ہو گئی تھی اور اس کا سر زمین کو چھو رہا تھا۔ اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جن کے بیچ سے خون کی ایک پتلی لکیر بہتی ہوئی اس کی چونچ کی طرف چلی گئی تھی۔

’’تمہارا نشانہ اچھا ہے،‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ اس کے ہات میں ایک بائنا کولر تھا جس سے آنکھیں لگا کر وہ دور دراز کی چوٹیوں کا جائزہ رہا تھا۔
’’ہم خاندانی شکاری ہیں،‘‘ شکاری نے فخر سے موچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا۔

’’یعنی پشتوں سے تم لوگ یہ خو ن خرابہ کرتے آ رہے ہو۔‘‘
’’پشتوں سے۔‘‘

’’اس کا ساتھی، جانے بیچارا کیا محسوس کر رہا ہوگا۔‘‘
’’پرندوں کے اندر اس طرح کے احساسات نہیں ہوتے۔‘‘

’’ہاں۔۔۔‘‘ شکاری کے ساتھی نے بائنا کولر کی مدد سے ایک بار پھر سے پہاڑ کی چوٹی کی طرف دیکھا جس کی برف پر سورج کی کرنیں بیدار ہو رہی تھیں۔’’ہر قاتل اپنے مقتول کے بارے میں یہی سوچتا ہے۔‘‘


Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close