لالہ امام بخش

Shayari By

رمواپور کے لالہ دیبی بخش جب مچھر ہٹہ پہنچے تو دیکھا کہ ان کا ’’موکل‘‘ ملو بھر جی لائی کا تعزیہ بنارہا تھا۔ ہندو بھرجی کو مسلمانوں کے کرم کرتے دیکھا تو جل کر رہ گیے۔ چنے کی طرح چٹختی آواز میں مقدمے کی پیروی کو بقایا کاتقاضہ کردیا۔ ملوبے چارہ للو چپو کرنے لگا۔ اور بتلاتے بتلاتے وہ منت بھی بتلاگیا جو اس نے امام حسین سے مانگی تھی اور پائی تھی۔ لالہ لاٹھی کی مٹھیا پر ٹھڈی رکھے کھڑے سنتے رہے اور سنتے سنتے اپنی سوکھی ماری للائن کی ہری گود کے مہکتے سپنوں میں کھو گیے۔ جب جاگے تو چوکے میں تھالی پروسی دھری تھی اور للائن بدن کی اکلوتی دھوتی کے پلو سے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ پہلے وہ جھوٹ موٹ منھ چھوتی رہیں پھر پھیل گئیں اور لالہ کو ملو بھرجی کا حال بتانا پڑا۔ للائن نے چپ سادھ لی۔ وہی چپ جس کے جادو سے چاندی ایسی دلہن مٹی کے مادھو سے نکاح قبول کرلیتی ہے۔
جب سوچتے سوچتے لالہ دیبی بخش کی کھوپڑی تڑخ گئی، آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور مچھر ہٹہ میں بجتےہوئے محرمی باجوں کی دھمک ان کے سنسان آنگن میں منڈلانے لگی تب لالہ دیبی بخش اپنی کھٹیا سے اٹھے۔ چراغ کی ٹھنڈی پیلی روشنی میں جھاویں سے مل مل کر خوب نہائے اور دھوبی کا دھلا ہوا جوڑا پہنا جسے ڈٹ کر مسرکھ اور سیتاپور کی کچہریوں میں وہ ٹکے ٹکے پر مقدمے لڑاتے ہیں۔ دروازے سے نکلتے نکلتے للائن کو جتا گیے کہ میں رات کے گیے لوٹوں گا۔ جیسے جیسے مچھرہٹہ قریب آتا جاتا اور باجوں کی گھن گرج نزدیک ہوتی جاتی ویسے ویسے ان کے دل کی دھیرج بڑھتی جاتی۔ جوگی اپنے چوک پر رکھی ہوئی ضریح کے آگے اچھل اچھل کر ماتم کر رہے تھے اور مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ گلستاں بوستاں چا ٹے ہوئے لالہ دیبی بخش نے آدمیوں کی دیوار میں اپنا راستہ بنایا اور کھڑے پگھلتے رہے۔ نیم سار کے مندر میں درگا میا کی مورتی کی طرح سامنے ضریح مبارک رکھی تھی۔ لالہ نے کانپتے ہاتھوں کو سنبھال کر جوڑا اور آنکھیں بند کرلیں۔ جب وہ وہاں سے ٹلے تو چاندنی سنولانے لگی تھی، سڑکیں ننگی پڑی تھیں روشنیوں کی آنکھیں جھپکنے لگی تھیں۔ باجے سو گیے تھے۔ دوکانوں نے پلکیں موند لی تھیں۔ اور وہ خود دیر تک سوکر اٹھے ہوئے بچے کی طرح ہلکے پھلکے اور چونچال ہوگیے تھے۔

پھر ان کےتعزیہ نے بھی ملو بھرجی کی کہانی دہرادی۔ گھر کے اکلوتے کمرے کی کنڈی میں پانی بھرنے والی رسی میں پرویا ہوا جھوا جھولنے لگا جس میں ایک گل گوتھنا بچہ آنکھوں میں کاجل بھرے ہاتھ پیروں میں کالے تاگے پہنے اور ڈھیروں گنڈے تعویز لادے ہمک رہا تھا۔ لالہ کو بھائی برادری کے خوف نے بہت دہلایا لیکن وہ مانے نہیں اور اپنے سپوت کا نام لالہ امام بخش رکھ ہی دیا۔ یہ چھوٹے سے لالہ امام بخش پہلے امامی لالہ ہوئے پھر ممولالہ بنے اور آخر میں ممواں لالہ ہوکر رہ گیے۔
لالہ نے ممواں لالہ کو پھول پان کی طرح رکھا۔ ان کے پاس زمینداری یا کاشتکاری جو کچھ بھی تھی تیس بیگھے زمین تھی جسے وہ جوتتے بوتے تھے لیکن اس طرح کہ جیتے جی نہ کبھی ہل کی مٹھیا پر ہاتھ رکھااور نہ بیل بدھیا پالنے کا جھگڑا مول لیا۔ لیکن کھلیان اٹھاتے تھے کہ گھر بھر جاتا تھا۔ کرتے یہ تھے کہ ایسے ایسوں کو مقدمے کی پیروی کے جال میں پھانس لیتے تھے جو بل بھی چلاتے اور پانی بھی لگاتے۔ لالہ کی کھیتی ہری رہتی اور جیب بھری۔ ممواں لالہ بڑھتا گیا اور لالہ کا آنگن پاس پڑوس کے الاہنوں سے بھرتا گیا۔ کسی کو گالی دے دی، کسی کا بیل بدھیا کھول دیا کسی کاکھیت نوچ لیا، کسی کا باغ کھسوٹ لیا۔ لالہ دیبی بخش سب کے ہاتھ پاؤں جوڑتے، بیگار بھگتتے، پیسے کوڑی سے بھرنا بھرتے لیکن لاڈلے کو پھول کی چھڑی بھی نہ چھلاتے۔ [...]

مالکن

Shayari By

۱۹۵۰ء میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے سیتاپور سے لے کر لکھیم پور کھیری تک کے سارے ’’گانجر‘‘ کے علاقے کو تہس نہس کرکے رکھ دیاتھا۔ لیکن گھاگھرا نے تو کمال ہی کردیا۔ صدیوں کا بنابنایا راستہ چھوڑ کر سات میل پیدل چل کر آئی اور سڑک کوٹنے والے انجن کی طرح چھوٹے موٹے دیہاتوں کو زمین کے برابر کرتی ہوئی رونق پور میں داخل ہوگئی۔
رونق پور پہلے ہی سے خالی ڈھابلی کی طرح ننگا پڑا تھا۔ سارے گاؤں میں بس حویلی کھڑی تھی۔ حویلی کی کھڑکیوں سے اکا دکا بدحواس آدمیوں کے چہرے نظر آجاتے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کے بڑے چھتے لٹک رہے ہوں۔ حویلی کچی تھی۔ لیکن کوئی سو برس سے گھنگھور برساتوں کے خلاف سینہ تانے کھڑی تھی۔ اس کی دیواروں کی چوڑان پر جہازی پلنگ بچھائے جاسکتے تھے۔ مشہور تھا کہ ایک نوسکھیا چور رونق پور کے نجیب الطرفین کا مہمان ہوا۔ رال ٹپکاتی نظروں سے حویلی کو دیکھ کر ہتھیلیاں کھجلانے لگا اور کنکھیوں سے ہاتھ کی صفائی دکھلانے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ میزبان کو دل لگی سوجھی۔ اس نے کچھ اتا پتا بتاکر آدھی رات کو رخصت کردیا۔ مہمان ایک دیوار پر سابر لے کر جٹ گیا۔ کھودتا رہا۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی۔ دیوار اسی طرح کھڑی تھی۔ اسی ٹھاٹ باٹ سے کھڑی تھی۔ وہ بیچارہ نامراد واپس ہوا۔

لیکن بنانے والوں نے حویلی بنائی تھی۔ ’’جل بھون‘‘ نہیں بنایا تھا۔ اوپر سے ’’ہتھیانکہت‘‘ برستا تھا اور نیچے برجھائی ہوئی مست ہتھنی کی طرح گھاگھرا چوٹیں کر رہی تھی۔ پہلے پھاٹک گرا، پھر دیوان خانہ۔ جب ڈیوڑھی گر گئی اور اندر کے کئی درجے بیٹھ گیے تب چودھری گلاب کی نمک حلالی کو غیرت آئی۔ علاقے بھر کے نامی نامی کہاروں اور مچھیروں کی چھوٹی سی فوج بنائی اور ان کے بازوؤں کے بجرے پر چڑھ کر تھان گاؤں سے نکلے اور رونق پور کی حویلی میں اترگیے۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی مالکن کو کانپتی ہوئی آواز میں خطاب کیا۔
’’حضور اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ حکم دیجیے تو جان پر کھیل کر پالکی چڑھالاؤں اگر سرکارکی جوتیاں تک بھیگ جائیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔‘‘ تھوڑی دیر تک سناٹا رہا۔ گھاگرا کی پاگل موجوں کی دل دہلادینے والی بھیانک آواز کے سوا کوئی آواز نہ تھی۔ چودھری گلاب نے آہستہ سے پھر کہا تو آوازئی، [...]

مجو بھیا

Shayari By

پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہوکر مان پور آہی گیے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا جیسے صبح سورج کی مشعل لیے شام کو ڈھونڈھا کرتی ہے اور شام اپنی آرتی میں ستارے جلائے صبح کی راہ تکا کرتی ہے۔ مگر چیت کے آتے آتے انہوں نے کاشتکاروں سے اپنی سیر نکالی اور چار جوڑ بیل خرید کر کھیتی شروع کردی۔
پہلا پانی پڑتے ہی بستی سے ملے ہوئے پاسی سکھیے کے پلاٹ پر کنواں کھود کر قلعی باغ کی طرح بھی ڈال دی۔ لیکن وقت اب بھی کاٹے نہ کٹتا۔ آخرکار انہوں نے اپنی شیخی کو طاق پر رکھ اور بستی کے بڑے بوڑھوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کسی کو تعویذ لکھ دیتے، کسی کو سرمے منجن کا نسخہ بتاتے، کسی کے پھوڑے پھنسی میں اپنے ہاتھ سے پوٹس باندھتے، کسی کا خط لکھتے، کسی کامقدمہ لڑتے۔ غرض پانچ چھ ہزار کی بستی وہ بھی مسلمان بستی، ان کا وقت پر لگاکر اڑنے لگا۔

شبرات کاچاند دیکھ کر وہ اپنی بیٹھک میں تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ چھوٹے خاں اور گاؤں کے چودھری میر بخش دوچار بڑے بوڑھوں کے ساتھ آگیے۔ شیخ نے ان کو پلنگوں پر بٹھایا، اور منظور کو آواز دی۔ وہ سیاہ لنگوٹ باندے موٹے موٹے ہاتھ پیروں پر تازی تازی مٹی ملے دندناتا ہوا آیا اور بھونچکوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ شیخ نے بیٹے کا جو یہ حلیہ دیکھا تو حقہ کی چلم کی طرح جل گیے۔ کڑک کر پوچھا،
’’یہ کیا؟‘‘ [...]

نازو

Shayari By

’’چھن چھن۔‘‘
آواز نے کانوں کو چور چور کردیا جیسے اس کے سامنے اس کی نازو نے سرخ چوڑیوں سے بھرے ہوئے دونوں ہاتھ دہلیز پر پٹخ دیے ہوں۔ دونوں سفید تندرست کلائیاں خون کی چھوٹی چھوٹی مہین لکیروں سے لالوں لال ہوگئیں۔ کتنی شدت سے جی چاہا تھا کہ اس جیتے جاگتے خون پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ آج پھر اس کی زبان نمکین ہوگئی۔ آنکھیں چیخ پڑیں۔ دونوں زخمی کلائیاں دو بچوں کی لاشوں کی طرح اس کے پہلو میں جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو ابل رہے تھے۔ دھاروں دھار ہونٹ کانپ رہے تھے۔ عذابوں کی بددعائیں دے رہے تھے۔ اسےیقین نہ آرہا تھا کہ یہ وہی عورت ہے، اس کی وہی بیوی ہے جس کی بے مزہ قربت کی چکی میں سیکڑوں راتیں پس کرنابود ہوگئیں۔ طلاق کی چلمن کے پیچھے سے وہ کتنی پراسرار اور زرنگار لگ رہی تھی۔

ٹریکٹر پھر چلنےلگا۔ تھوڑا سا کھیت باقی رہ گیا تھا۔ گیہوں کی پوری فصل کٹی پڑی تھی۔ کہیں کہیں بڑےانبار لگے تھے۔ کہیں چھوٹے چھوٹے ڈھیر۔ جیسے بیتے ہوئے سال اور مہینے۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے ڈھیر کو اپنی چھڑی سے الٹ دیا، سنہرے تنکوں اور ڈنٹھلوں کے ہجوم سے کچھ دانے نکل آئے،زندہ چمک دار جیسے گزرے دنوں کے ان گنت لمحوں کے بھوسے میں کچھ یادیں چمک رہی ہوں۔۔۔ یادیں ہماری بوئی ہوئی فصلوں کے دانے۔ ابھی نہ دھوپ تیز ہوئی تھی اور نہ ہوا گرم۔ لیکن وہ اپنے ادھیڑ جسم کے ساتھ ٹیوب ویل کے پانی سےلبریز پختہ نالی کے کنارے کنارے چلتا ہوا ڈامر کی سڑک پر آگیا۔
اب انجمنوں کی آوازیں دور اور دلکش ہونےلگی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف اسکولوں کی زرد عمارتوں میں امتحانوں کے پڑاؤ پڑے تھے اور شرارتوں کی ٹولیاں نہ جانے کہاں کھوگئی تھیں۔ بلاک کے دفتر پر بھیڑ لگی تھی۔ تقاوی اور بیسارے کے کاغذات بن رہے تھے۔ اب وہ بھیڑ سے ڈرنے لگا تھا۔ ان کی بے ادب نظروں سے کچلے جانے کے خوف نےاسے ایک گلی میں موڑدیا، جو کھری اور شاداب آوازوں سے چھلک رہی تھی۔ شور مچاتے زیوروں اور بھڑکدار کپڑوں سے چمک رہی تھی اور ان سب میں شرابور ہوتا اپنےمکان تک گیا جو اس کے آبائی مکان کا حصہ تھا۔ دوسرے حصوں میں ہسپتال، ڈاک خانہ اور گورنمنٹ اسٹور تھا۔ اس نے دروازے پر ہلکی سی تھپکی دی کہ ہسپتال میں انتظار کرتے مریضوں میں سےکوئی جان پہچان والا وقت گزارنے اس کے پاس نہ آجائے۔ [...]

नवमी

Shayari By

वो अजीब थी। जिस्म देखिए तो एक लड़की सी मालूम होती, चेहरे पर नज़र डालिये तो बिल्कुल बच्ची सी दिखाई देती और अगर आँखों में उतर जाइये तो सारी समूची औरत अंगड़ाइयाँ लेती मिलती। वो सुर्ख़ ऊँचा सा फ़्रॉक और सियाह सलेक्स पहने जगमगा रही थी और सियाह घुँघराले बालों को झटक-झटक कर जीप में अपने सामान का शुमार कर रही थी और मेरे सामने एक दोपहर खिली पड़ी थी। उसने आँगन में क़दम रखते ही अपनी मम्मी से भैया के लिए पूछा था। ऊँचे बग़ैर आस्तीन के ब्लाउज़ और नीची छपी हुई साड़ी में कसी बंधी आँटी ने, जिन्हें अभी अपने बदन पर नाज़ था चमक कर भैया को मुख़ातिब किया, नवमी पूछ रही है कि तुम कौन हो?
भैया ने उदास चेहरे पर सलीक़े से रखी हुई रंजूर आँखें चश्मे के अंदर घुमाईं। रूखे सूखे बालों पर दुबला पतला गंदुमी सा हाथ फेरा। अंकल ने बड़े से बैग को तख़्त पर पटका। पीक थूकने के लिए उगलदान पर झुके और भैया भारी आवाज़ में बोले। भैया की आवाज़ उनकी शख़्सियत को और मुनफ़रिद बना देती है। ग़म में बसी हुई खोजदार आवाज़ से हल्का-हल्का धुआँ सा उठता रहता है और जिसे सुन कर अजनबियत एहसास-ए-कमतरी बन जाती है और ख़्वाह-मख़ाह मुतआरिफ़ होने को जी चाहता है, बहुत छोटी सी थी जब देखा था उसने।

और नवमी को इस तरह देखा जैसे कैलेंडर को देख रहे हों। जवाब इस तरह दिया जैसे आँटी से कह रहे हों उसे बुक्स में रख लीजिए वरना ख़राब हो जाएगा देहात में, और नवमी बेचारी भैया की आवाज़ में शराबोर खड़ी थी। उसकी नज़रें भैया के चेहरे में पैवस्त हो चुकी थीं। अंकल पक्का गाना गाने वालों की तरह खंकार कर बोले, बेटी... मैंने तुम्हें बताया था कि वहाँ गाँव में जहाँ तुम शादी में जा रही हो तुम्हारे एक कज़िन हैं जो बहुत सी किताबों के ऑथर हैं... वही तो हैं ये।
भाबी जो ननद की शादी में भैया से ज़्यादा अपना आपा खोए बैठी थीं एक तरफ़ से बड़बड़ाती निकलीं और भैया को लिए दूसरी तरफ़ चली गईं और भैया ने बे ख़्याली में भी, नवमी की निगाहें भी अपने साथ ही लिए चले गए। और वो बेचारी ख़ाली-ख़ाली आँखें लिए गुम सुम खड़ी रही, जल्दी कीजिए ... पानी लदा खड़ा है। फाटक से किसी ने हाँक लगाई। मैंने आसमान की तरफ़ देखा। सारे में सियाह जामुनी बादल छाए हुए थे और अंधेरा फैला हुआ था जैसे सूरज की बिजली फ़ेल हो गई हो। उस दिन भी ऐसा ही दिल मसोस डालने वाला मौसम था। [...]

ٹھاکر دوارہ

Shayari By

بڑے باغ کے دھورے پر ڈھول تو سانجھ سے بج رہے تھے لیکن اب ان کی گدے کھائی آواز میں لیزم کی تولی گوٹ بھی ٹانکی جانے لگی۔ پتمبر پاسی نے چلم منہ سے نکال کر کان کھڑے کیے اور کہزلی۔ اب گدے کھائی آواز پر لگی تو گوٹ کے اوپر مدراپاسی کی چہچہاتی آواز کے گول گول ٹھپے بھی پڑنے لگے تھے۔ پتمبر نے چلم مانچی پاس ہی دھری نیائی میں جھونک دی اور اپنےبھاری گھٹنوں پر جو جہازی پلنگ کے تیل پلائے پایوں کی طرح ٹھوس تھے، دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوا تو اس کے سر کا مریٹھا چھپر کے بانس سے لڑگیا۔
ساتھ ہی تدواری سے بڑ کئو کی مہتاری نکلی جو اونچے ٹھاٹھ اور چوڑے ہاڑ کی ہٹی کٹی ادھیڑ عورت تھی۔ اس کے پیروں میں کالے پرمٹے کالہنگا اور سر پر تول کالمبا چوڑا اوڑھنا لہریں لے رہا تھا اور دونوں کالے ہاتھوں پر پیتل کی تھالی دھری تھی۔ تھالی میں دھرے پیتل کے ڈھکے لوٹے کے پاس ہی مٹی کا چراغ جل رہا تھا اور تلچوری کے ڈھیر پر گڑ کی سنہری ڈلیاں چمک رہی تھیں اور اس کے دونوں کندھوں سے لگی دونوں بہویں چل رہی تھیں جو لال پیلی دھوتیوں میں سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوئی تھیں لیکن ان کے چاروں ہاتھ باہر تھے۔ چاندی اور لاکھ سے جڑےہوئے ہاتھوں کے ایک جوڑے پر کمان اور پانچ تیر رکھے تھے اور دوسرا جوڑا مٹی کی ایک مٹکی سنبھالےہوئے تھا۔

پتمبر سرنہوڑا کر چھپر سے نکلا اور بیچوں بیچ آنگن کھڑا ہوگیا۔ بڑکئو کی مہتاری نے تھالی اس کے چہرے کے سامنے تین بار نچاکر روک لی۔ پتمبر نے گڑ کی ڈلی اٹھاکر منہ میں ڈال لی۔ بڑکئو کی مہتاری نے پتل ہٹاکر لوٹے سے رنگ کا ایک چلو بھرا اور پتمبر کے نئے لنکلاٹ کے چوبندے پر چھڑک دیا اور وہ اس طرح سرخ ہوگیا جیسے اس نے اپنے تیر سے شکار کیےہوئے زخمی بڑیلے کو دونوں بازوؤں میں بھر کر داب لیا ہو اور خونم خون ہوگیا۔ پتمبر نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چندرماں سر کے اوپر آچکا تھا۔ اس نے بڑی بہو کے ہاتھ سے کمان لے کر ماتھے سے لگائی۔ چھوٹی بہو کی ہتھیلی سے ایک تیر اٹھاکر ہونٹوں سے چوما اور دونوں ہاتھوں سے مٹکی اٹھاکر منہ میں انڈیل لی اور وہ تینوں عورتیں مٹی کی ڈھلی مورتیوں کی طرح کھڑی گھٹ گھٹ کی آوازیں سنتی رہیں۔ جب مٹکی خالی ہوگئی اور چھوٹی بہو نےسنبھال لی تو بڑکئو مہتاری نے پتمبر کے چارپائی جیسے چوڑےچکلے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا۔
’’اب کی ہولی ہم کا دے دیو‘‘ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close