جس کی طرح سوں درد ہمن کو نصیب ہے ہمنا کوں کیوں دوانہ کرے وہ طبیب ہے راضی ہوا ہوں اس کی رضا پر میں دم بہ دم آواز دم کے ساتھ سدا یا حبیب ہے میرے قدم کوں فقر کی رہ میں درست رکھ کر مستجاب اتنی دعا توں مجیب ہے ظاہر اگرچہ دور ہے یو آب و گل کا تن باطن کے بیچ روح نہایت قریب ہے اے دوست دردمند کرم کر حسینؔ پر بندوں میں ایک بندۂ عاجز غریب ہے