*طرحی غزل*

*طرحی غزل*

جیسا سمجھ رہی ہے تو ویسا نہیں ہوں میں۔
*دنیا ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں*۔

مجھ کو محبتوں کی تجارت پسند ہے۔
نفرت کے سودے بیچنے والا نہیں ہوں میں۔

اپنے بڑوں کا کرتے نہیں ہیں جو احترام۔
تعظیم ایسے لوگوں کی کرتا نہیں ہوں میں۔

ہمت کے ساتھ جانبِ منزل ہوں میں رواں۔
دشواریوں سے راہ کی ہارا نہیں ہوں میں۔

کرتا ہوں میں خطائیں تو حیرت کی بات کیا۔
انسان ہوں جناب فرشتہ نہیں ہوں میں۔

دل میں تمہارے پیار نہیں ہے مرے لۓ۔
تم کیا سمجھ رہے ہو سمجھتا نہیں ہوں میں۔

غیروں کی بات چھوڑیۓ وہ تو 'قمر' ہیں غیر۔
اپنوں کی بھی نگاہ میں اپنا نہیں ہوں میں۔

*جاوید قمر فیروزآبادی*

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close