آئینہ سا ہوں سرسیں قدم تک تمام چشم میرا رکھے ہیں مردم برائے نام چشم پختہ نظر مشاہدہ مشہود اون کو ہے پہچانتے ہیں کب میری باتوں کو خام چشم عالم کے آشنا ہیں سواد و بیاض سے پہچانتے ہیں دونوں جہاں صبح و شام چشم یہ مردمک ہیں دام کے حلقوں کی کیا گرہ انساں کی راہ بیچ بچھاتے ہیں دام چشم توشہ لے آئینہ سا یہ حیرت کی راہ میں بر میں رکھے ہیں آپ نے آب و طعام چشم بن میں کہیں نہ ناقۂ لیلیٰ کو گم کرو رکھو نگہ کے ہاتھ میں اپنی زمام چشم اس بتکدے میں ہند کے تیرا خیال کر ہر ہر کو دیکھ بولتی ہے رام رام چشم جس دن سے ہے وہ حور لقا ان میں جلوہ گر پہچانتے ہیں آپ کو دارالسلام چشم روشن رکھے جو شمع نظر ان میں یا امام پروانہؔ کے ہووے گی وہ بیت الحرام چشم