वापसी का टिकट

Shayari By

इंसान ने इंसान को ईज़ा पहुँचाने के लिए जो मुख़्तलिफ़ आले और तरीक़े इख़्तियार किए हैं उनमें सबसे ज़ियादा ख़तरनाक है टेलीफ़ोन साँप के काटे का मंत्र तो हो सकता है मगर टेलीफ़ोन के मारे को तो पानी भी नहीं मिलता।
मुझे तो रात-भर इस कम्बख़्त के डर से नींद नहीं आती कि सुब्ह-सवेरे न जाने किस की मनहूस आवाज़ सुनाई देगी। दो ढ़ाई बजे आँख लग भी गई तो ख़्वाब में क्या देखता हूँ कि सारी दुनिया की घंटियाँ और घंटे-घड़ियाल बेक-वक़्त बजने शुरू’ हो गए। मंदिरों के पीतल के बड़े-बड़े घंटे, पुलिस के थाने का घड़ियाल, दरवाज़ों की बिजली वाली घंटियाँ, साईकलों की ट्रिंग-ट्रिंग, फ़ायर इंजनों की क्लिंग-क्लिंग। और जब आँख खुलती है तो मा’लूम होता है कि टेलीफ़ोन की घंटी बज रही है। इस ग़ैर वक़्त रात को किस का फ़ोन आया है? ज़रूर ट्रंक काल होगी। पल-भर में न जाने कितने वहम दिल धड़काते हैं। एक दोस्त मद्रास में बीमार है। एक रिश्तेदार लंदन और बंबई के दरमियान हवाई जहाज़ में है। भतीजे का मैट्रिक का नतीजा निकलने वाला है।

मैं फ़ोन उठाकर कहता हूँ, “हैलो।”
दूसरी तरफ़ से घबराई हुई आवाज़ आती है, “चुन्नी भाई, केम छो।” मैं कहता हूँ कि यहाँ न कोई चुन्नी भाई है न केम छो। मगर वो कहता है, “चुन्नी भाई। टाटा डलीज़ डार पर जा रहा है।” मैं कहता हूँ, “जाने दो।” [...]

ہائی وے پر ایک درخت

Shayari By

گردن میں پھندا سخت ہوتا جا رہا تھا۔ آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے کے لئے زور لگانے لگی تھیں۔ منھ کا لعاب جھاگ بن کر ہونٹوں کے کونوں پر جمنے لگا تھا۔ موت اور زندگی کے درمیان چند لمحوں کافاصلہ اب باقی رہ گیا تھا۔ دم نکلنے سے پہلے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس نے شاخ کو دیکھا، جس میں وہ لٹکا دیا گیا تھا۔ وہ ہرابھرا نیا نیا جوان ہوا ایک درخت تھا۔ سڈول تنا، گھنی گھنی اجلی اجلی پتیاں، لچکیلی اور شاداب شاخیں۔
جس وقت اس کا بھاری بھرکم جسم شاخ میں لٹکایا گیا تھا اور اس کے بوجھ سے شاخ ہوا میں اوپر نیچے جھولی تھی اور اس کا لٹکا ہوا جسم رسی کے سہارے اوپر نیچے ہوا تھا اور تلوے ایک بار زمین سے چھوگیے تھے تو اس کے کانوں میں درخت کی شاخ سے ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز سنائی دی تھی۔

جن قزاقوں نے اسے لٹکایا تھا وہ سب اپنے تنومند اور مچلتےہوئے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر اپنے راستے پر ہو لیے تھے۔ اس نے ابلتی ہوئی آنکھوں سے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ہوئی گرد کو ایک پل کے لیے دیکھا تھا اور پھر اسے لچکتی ہوئی شاخ کی چرچراہٹ نے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اس نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے جن میں ابھی بصارت کی آخری کرن باقی تھی، اس جھولتی ہوئی شاخ کو دیکھا تھا۔ شاخ بہت موٹی نہ تھی اور اس کی لچک سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس کے بوجھ کے پہلے جھٹکے پر کچھ چوٹ کھا گئی ہو۔ وہ اس طرح جھول رہی تھی جیسے اب ٹوٹی اور تب ٹوٹی۔ لیکن دماغ کے کسی گوشے میں وہ اس بات سے بھی باخبر تھا کہ چوٹ کھائی ہوئی شاخ نرم تھی، گیلی تھی۔ اس کی تازگی کے سبب شاخ کے سارے ریشے، ریشم کے دھاگوں کی طرح آپس میں مل کر مضبوط ہو چکے تھے۔ اگر وہ شاخ سوکھی ہوتی تو ریشے جگہ چھوڑ دیتے، لچکتے نہیں ٹوٹ جاتے اور حقیقت صرف اتنی تھی کہ شاخ صرف اس کے جسم کے ساتھ جھول رہی تھی۔
وہ سب اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر ہائی وے پر فرار ہو چکے تھے اور درخت سے کچھ ہی فیصلے پر حد نظر تک لیٹی ہوئی پکی چمکیلی اور سیاہ ہائی وے سنسان پڑی تھی۔ [...]

شاہی رقاصہ

Shayari By

شاہی دربار کی حسین ترین رقاصہ اپنے آراستہ و پیراستہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک لفظ کہے بغیر کنیزوں کی مدد سے اپنی سیر کامخصوص لباس اتارنے لگی اور چند منٹ بعد اس کام سے فراغت پاکر مخملیں کرسی میں دھنس گئی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ وہ مغموم و ملول نظر آ رہی تھی۔۔۔ دونوں کنیزیں ایک گوشے میں کھڑی حیرت سے ایک دوسری کو دیکھ رہی تھیں۔
’’تم چلی جاؤ اور جب تک میں نہ بلاؤں کمرے میں نہ آنا۔۔۔ کوئی اور بھی کمرے میں نہ آئے۔‘‘ رقاصہ نے جھنجھلاکر کہا۔ کنیزیں مبہوت و ششدر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔

ان کے چلے جانے کے بعد رقاصہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر سر رکھ کر اپنے خیالات میں کھوگئی۔ دو تین منٹ کے بعد سر اٹھایا، سامنے دیکھا اور اس کی نگاہیں سنگ مرمر کی میز پر رکھے ہوئے ایک سفید مجسمہ پر جم گئیں۔ یہ ایک نہایت حسین و جمیل مجسمہ تھا۔ جس کے ساتھ، ایک بھیانک سیاہ سانپ لپٹا ہواتھا۔ رقاصہ ٹکٹکی باندھ کر اس مجسمے کو دیکھنے لگی اور خیالات کا وہ ہجوم جو کئی دن سے اس کے ذہن میں منڈلا رہا تھا اب سمندر کی طوفانی موجیں بن بن کر اس کے دل و دماغ میں بےقرار ہو گیا۔ وہ مضطرب ہوکر کرسی سے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں ٹہلنے لگی۔
وہ دربار کی سب سے بری رقاصہ تھی۔ اسے دنیا کی ہر نعمت حاصل تھی، ہر قسم کی آسایش میسر تھی، اس کی نئی پوشاکوں پر، اس کے گلے کے ہاروں پر اور اس کے خوبصورت زیورات پر ہر ماہ ہزاروں روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ محل اور محل کے باہر اس کی اتنی قدر ومنزلت تھی کہ لوگ اس کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔ بادشاہ اس پر خاص مہربان تھا۔ مگر ان تمام چیزوں کے باوجود چند دن سے اس کی روح میں ایک خلش سی، اس کے دماغ میں ایک اضطراب سا اور اس کے دل میں ایک بے قراری سی موجزن تھی۔ [...]

گرم لہو میں غلطاں

Shayari By

ان کے طباق ایسے چوڑے چکلے زرد چہرے پر چھوٹی بڑی شکنوں کا گھنا ڈھیلا جلال پڑا ہوا تھا جیسے کوری مارکین کا ٹکڑا نچوڑ کر سکھادیا گیا ہو۔ دھندلی دھندلی آنکھوں سے میلا میلا پانی رس رہا تھا جسے ان کے سیاہ گندے ناخونوں والی موٹی موٹی انگلیاں کاندھے پر جھولتے میلے چکٹ آنچل سے بار بار پونچھ رہی تھیں اور سامنے رکھے بڑے سے طوق کے ڈھانچے کو برابر نہارے جارہی تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کا سونا دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ پھر انہوں نے پاس رکھے ہوئے خمیدہ نے اور مٹی کے پیندے والے حقے کو جھکا کر بانس کی سرمئی نے موٹے موٹے لرزتے ہونٹوں میں دبالی اور ایک پھسپھسا کش لیا اور میرا سارا حافظہ جھنجھنا گیا۔
شادی کابھرا پرا گھر مہمان عورتوں اور ندیدے بچوں کی پرشور آوازکے تھپیڑوں سے ہل رہا تھا اور میں ڈولتا ہوا ان کے قریب سے گزرا جارہا تھا۔ میں نے جاتے جاتے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا جیسے مارکین کے ٹکڑے پر بجھتے کوئلوں کا عکس لپک گیا اور انہوں نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا،’’تم نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘اور میری آنکھوں کے سامنے یادوں کے ورق اڑنے لگے۔ ابھی نہ ہندوستان آزاد ہوا تھا اور نہ پاکستان پیدا ہوا تھا۔ نہ زمینداری ختم ہوئی تھی اور نہ آم کی فصلیں روزی کا وسیلہ بنی تھیں۔ سب کچھ اسی طرح موجود تھا جس طرح صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ انگریز خدا اپنے گدھوں کو سونے کے توبڑوں میں خشکہ نہیں بریانی کھلا رہا تھا اور اس سال آم کی فصل اس طرح ٹوٹ کر آئی تھی کہ گلی کوچے پھلوں سے سڑنے لگے تھے۔ تخمی باغوں کے باغبانوں کی لین ڈوری پھاٹک سے ڈیوڑھی تک سروں پر چیندہ آموں کے جھوے لادے کھڑی رہتی۔ تیسرے درجے کے مسافروں کی طرح انہیں کوئی نہ پوچھتا۔ ہاں قلعی باغوں کے باغبان فرسٹ کلاس کے مسافروں کی طرح فضیلت سے نوازے جاتے اور ان کے آم ہاتھ کے ہاتھ گنالیے جاتے۔

دور تک پھیلے ہوئے اونچی چھتوں اور موٹے ستونوں والے لق ودق دالانوں میں کچے پکے آموں کی جازم بچھی رہتی۔ بوڑھی بدصورت اور کٹکھنی عورتیں ہاتھوں میں لمبی لمبی لکڑیاں لیے ندیدے لڑکوں اور ہتھ لکی عورتوں کو گالیاں اور کوسنے بانٹا کرتیں۔ اس روز اندر سے باہر تک جیسے ساری فضا بدلی ہوئی تھی، دھلی دھلائی سی لگ رہی تھی۔ ڈیوڑھی میں نہ جھوے، نہ کدالیں، نہ کھرپے اور نہ وہ مانوس بھناٹا، صاف صفیلا آنگن، اندرونی دالان کے چوکے اور گاؤ تکیے صندوق سے نکلے، تخت پوش اور غلاف پہنے میاں پوت بنے بیٹھے تھے۔ ماہی پشت والے نواڑی پلنگوں پر آدھے آدھے سوتی قالین پڑے تھے۔ پان خوروں کے منہ کی طرح لال لال اگالدان انگریزوں کے منھ کی طرح صاف صاف رکھے تھے۔ مرادآبادی پاندان اور لوٹے اور سرپوش سب اجلے اجلے کپڑے پہنے سلیقے سے اپنی جگہ کھڑے بیٹھے تھے۔ چھت میں جھولتے بھاری پنکھے تک کو دھلا جوڑا پہنادیا گیا تھا۔
بالکل عید بقرعید کا سا ماحول تھا، لیکن بقرعید کا سا شور نہ ہنگامہ۔ کمرے کے پانچوں دروازوں پر پڑے ہوئے خس کے موٹے موٹے بدوضع پردوں کے نیچے پانی کے چھوٹے چھوٹے سے تھالے بن گیے تھے۔ اندر چھت کے دوہرے پنکھوں کی اکلوتی رسی لوہے کی گراری پر تیز تیز چل رہی تھی جیسے چڑیوں کے کئی جوڑے ایک ساتھ چوں چوں کر رہے ہوں۔ میں نے ذرا جھجک کر پردا اٹھایا تو محسوس ہوا جیسے یہاں سے وہاں تک سارا کمرہ ان کی روشنی سے جھم جھمارہا ہے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا جیسے امام باڑے میں رکھا ہوا چاندی کا تعزیہ دیکھا جاتا ہے جیسے دسہرے کی جھانکی دیکھی جاتی ہے۔ [...]

ایک حلفیہ بیان

Shayari By

میں مقدس کتابوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ سچ سچ بیان کروں گا۔اس سچائی میں آپ کو شریک کرلوں گا جو صرف سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں۔


یہ ایک رات کی بات ہے۔
یہ ایک ایسی رات کی بات ہے جب میں اکیلا اپنے بستر پر لیٹا تھا اور دیوا پر ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ روشن دان کھلا تھا۔ بارش کاموسم تھا۔ ٹیوب لائٹ پر بہت سےچھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے۔ یقینا یہ برساتی کیڑے تھے۔ تب ہی میرے سر کے اوپر سے مسہری اور کمرے کی چھت کے درمیان فضا میں بھنبھنا ہٹ کی آواز کے ساتھ کسی قدر بڑے کیڑے کے اُڑنے کی آواز آئی اور پھر مسہری کے برابر فرش پر پٹ سے کسی کے گرنے کی آواز۔۔۔ یہ آواز اتنی واضح تھی کہ میرا دھیان اس کی طرف چلا گیا۔ [...]

रूपा

Shayari By

नीम सार से आगे क्रिया के अंधेरे जंगल के निकलते ही गोमती मग़रूर हसीनाओं की तरह दामन उठाकर चलती है... दूर तक फैले हुए रेतीले चमचमाते दामन में नबी नगर घड़ा है जैसे किसी बद-शौक़ रईस-ज़ादे ने अपने बुर्राक़ कपड़ों पर चिकनी मिट्टी से भरी हुई दवात उंडेल ली हो। मिट्टी के टूटे-फूटे मकान बचे खुचे छप्परों की टोपियाँ पहने बड़े फूहड़पने से बैठे हैं।
यह गाँव अवध के देहातों की ज़िद है। इसके गिर्द न तो बाँसी की वो घनी बाढ़ है जिसमें फँस कर सांप मर जाते हैं, न छतनार पीपलों और झलदारे बरगदों के वो ख़ामोश शामियाने हैं जिनके कुंजों में गालों के गुलाब और होंटों के शहतूत उगते हैं, न वो चौड़े चकले पनघट हैं जहाँ कुकरे बजाती पनिहारिनों के पैरों के बिछुवे अपने घुंघरुओं के डंक उठाए राहगीरों की राह तका करते हैं मगर दूर दूर तक यह गाँव जाना जाता है। यहाँ की भैंसें मशहूर हैं। यहाँ के गद्दी मशहूर हैं। यहाँ का रजब मशहूर है। सारंग आबाद राज का हाथी... वहाँ बड़हल के पेड़ों के झंडे के नीचे तक आकर रुक जाता है... कि हाथी के पैरों बराबर ऊँची दीवारों के पीछे कुलेलें करती हुई ग़रीब रानियों के खुले ढ़ले जिस्मों पर निगाहों की गर्द न पड़ जाये।

(2)
दस-बारह बरस का रजब अपने बाप के साथ सारंग आबाद राज की भैंसें लगाए गढ़ी जाया करता था। अपनी भूरी भैंसें लगाकर उसने अंगड़ाई ली तो सलीक़े के श्लोके का बटन चट से टूट कर गिर पड़ा। बटन उठाकर निगाह उठाई तो बौखला गया। सरकार खड़े हुए घूर रहे थे उसने जल्दी से सलाम कर लिया। [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close