نیا مکان

Shayari By

انسان کو خدا اسی وقت یاد آتا ہے جب اس پر کوئی آفت نازل ہوتی ہے۔ ایوب خاں تعلقہ دار کے پیر اسے کئی برس سے سمجھا رہے تھے، لیکن اس نے اپنی زندگی کاڈھنگ بدلنے کا ارادہ اسی وقت کیا جب اس کی جوان لڑکی اور دس برس کا لڑکا ایک ہی ہفتے کے اندر انتقال کر گیے اور اسے اپنی ڈاڑھی میں سفید بال نظر آنے لگے۔
’’نئی زندگی‘‘، ’’نیا مکان‘‘ اس نے اپنے دل میں سوچا۔ ’’جس گھر میں سات پشتوں سے عیاشی ہو رہی ہو وہاں ایک اللہ والا کیسے بسر کر سکتا ہے۔ یہاں رہا تو میں دن بھر میں اپنے نیک ارادے بھول جاؤں گا۔‘‘

پرانے مکان میں اس نے رات گزارنا بھی پسندنہ کیا، فوراً ایک کوٹھی کرایے پر لی اور خاندانی گھر اپنی آخری ’’ساقی‘‘ نجیاکو بحش دیا۔ نجیاکو اب اپنی صورت شکل پر اتنا بھروسہ بھی نہ رہاتھا۔ وہ خوشی سے اس پر راضی ہو گئی اور مچھلی کو جال سے چھوڑ دیا۔
ایوب خاں کا نیا مکان بننے لگا، اس کے دل پر دوزخ کا خوف طاری تھا، مگر جب نماز پڑھتے پڑھتے ٹانگیں تھک جاتیں تو جی بہلانے کے لیے وہ اپنے نئے مکان کو دیکھنے چلا جاتا۔ مکان بنتے اور بڑھتے دیکھ کر اسے ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے اس کی دعائیں قبول ہو رہی ہیں اور اس کے کندھوں سے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوتا جاتا ہے۔ مکان اور اس کی روحانی زندگی میں ایک رشتہ سا پیدا ہو گیا جس پر اسے اکثر تعجب ہوتا تھا۔ لیکن وہ اسے کبھی نہ سمجھ سکا۔ [...]

خاں صاحب

Shayari By

ہمارے محلے میں ایک خاں صاحب رہتے تھے۔ میں نے جب انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کی عمر قریب پینتالیس سال کے تھی، مگر روایات سے معلوم ہوا کہ ان کے بال ہمیشہ سے ایسے ہی سیاہ و سپید کی آمیزش رہے ہیں۔ آنکھیں ایسی ہی خونی، مزاج ترش اور ٹوپی میلی، بواسیر کی شکایت بھی ان کی ہستی سے وابستہ تھی، مدتوں سے وہ شہر کے تمام طبیبوں اور ہندوستان کی تمام درگاہوں کی برائی کرتے چلے آئے تھے۔
ہمارے محلے میں کسی کو بھی وہ دن یاد نہ تھے، جب خاں صاحب کی کریہہ اور دل لرزانے والی آواز گلی کوچے میں نہیں گونجتی تھی۔ یا ان کا سیاہ چہرہ، قوی ہیکل جسم اور لمبا لٹھ خوف اور نفرت سے لوگوں کی نگاہیں نیچی نہیں کردیتا تھا۔ خاں صاحب کے پیشے کا کسی کو علم نہ تھا، سوا ان کم بختوں کے جنھیں کسی ناگہانی مصیبت میں روپے کی ضرورت ہوئی اور انہوں نے خاں صاحب سے مدد مانگی، مگر ان کی کیا مجال تھی کہ گالیاں سن کر اور سود در سود ادا کرکے بھی خاں صاحب کے پیشے کا کسی سے ذکر کریں۔ خاں صاحب سویرے جاکر موذن کو جگاتے تھے، مسجد کا امام ان کے ڈر سے نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتا تھا، دیر تک دعا مانگتا اور دعامانگتے مانگتے کثرت گناہ کا احساس اسے رلا بھی دیتا تھا۔ خاں صاحب کی ذات نے اس مسجد کو جو علاوہ جمعے کے ویران پڑی رہتی تھی اجتماعِ مسلمین کا مرکز بنادیا تھا۔ جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوا کرتی تھی۔ خاں صاحب کی داڑھی دیکھ کر شریفوں کیا غنڈوں میں میں بھی ڈاڑھی مونڈنے کی ہمت نہ رہی۔ خاں صاحب کا چہرہ سیاہ اور آنکھیں خونی تھیں تو کیا، انھوں نے سینکڑوں مسلمانوں کی صورتیں منور کر دی تھیں۔ ان کا مزاج ترش تھا تو کون سی شکایت کی بات، جب ان کی وجہ سے اتنے گمراہ بندے اپنے خدا کے قہر سے پناہ مانگنے لگے تھے۔

ہمارے محلے کے بنئے تو مستقل اختلاج قلب کے مریض ہوگیے۔ مگر بنیوں کا کیا، ان کا تو پیشہ یہی ہے، اگر دھوتی میل سے کالی اور قلب میں اختلاج نہ ہو تو وہ سود کا نرخ کیسے بڑھائیں۔ خاں صاحب شریعت کے ایسے عالم تھے کہ بغیر کفر کا الزام اپنے سر لیے دنیاوی معاملات میں بھی کوئی ان کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔ منطقی ایسے کہ جوش گفتار سے دوسرے کا دماغ پھرادیں اور فلسفی اس پایے کے کہ جب بیان شروع کریں تو کسی سے بغیر ہاں میں ہاں ملائے نہ بن پڑے۔ خاں صاحب نہایت فصاحت وبلاغت سے دین اسلام کی خوبیاں اپنے پست اندیشہ ہم جنسوں پر روشن کرتے، تنگ نظروں کو خدا کی مصلحت سمجھاتے اور مناظر کائنات کی تعریف میں سرد آہیں بھرتے تھے۔
ہمارا محلہ غریبوں کا تھا، کسی بیچارے کو اتنی مہلت کہاں ملتی تھی کہ شریعت، فلسفہ، منطق اور جمالیات میں یہ امتیاز حاصل کرے۔ خاں صاحب نے اپنی عقل و دانش اور مہیب شخصیت کے اثر سے محلے والوں کے دل و دماغ اور قوت ارادی کو معطل کر دیا تھا اور محلے والے غلامی کےایسے عادی ہوگیے تھے کہ انہیں اپنی آزادی کے دن تک یاد نہ رہے۔ [...]

हतक

Shayari By

दिन भर की थकी मान्दी वो अभी अभी अपने बिस्तर पर लेटी थी और लेटते ही सो गई। म्युनिसिपल कमेटी का दारोग़ा सफ़ाई, जिसे वो सेठ जी के नाम से पुकारा करती थी, अभी अभी उसकी हड्डियाँ-पस्लियाँ झिंझोड़ कर शराब के नशे में चूर, घर वापस गया था... वो रात को यहीं पर ठहर जाता मगर उसे अपनी धर्मपत्नी का बहुत ख़याल था जो उससे बेहद प्रेम करती थी।
वो रुपये जो उसने अपनी जिस्मानी मशक़्क़त के बदले उस दारोगा से वसूल किए थे, उसकी चुस्त और थूक भरी चोली के नीचे से ऊपर को उभरे हुए थे। कभी कभी सांस के उतार चढ़ाव से चांदी के ये सिक्के खनखनाने लगते और उसकी खनखनाहट उसके दिल की ग़ैर-आहंग धड़कनों में घुल मिल जाती। ऐसा मालूम होता कि उन सिक्कों की चांदी पिघल कर उसके दिल के ख़ून में टपक रही है!

उसका सीना अंदर से तप रहा था। ये गर्मी कुछ तो उस ब्रांडी के बाइस थी जिसका अद्धा दरोग़ा अपने साथ लाया था और कुछ उस “ब्यौड़ा” का नतीजा थी जिसका सोडा ख़त्म होने पर दोनों ने पानी मिला कर पिया था।
वो सागवान के लम्बे और चौड़े पलंग पर औंधे मुँह लेटी थी। उसकी बाहें जो काँधों तक नंगी थीं, पतंग की उस काँप की तरह फैली हुई थीं जो ओस में भीग जाने के बाइस पतले काग़ज़ से जुदा हो जाये। दाएं बाज़ू की बग़ल में शिकन आलूद गोश्त उभरा हुआ था जो बार बार मूंडने के बाइस नीली रंगत इख़्तियार कर गया था जैसे नुची हुई मुर्ग़ी की खाल का एक टुकड़ा वहां पर रख दिया गया है। [...]

शलजम

Shayari By

“खाना भिजवा दो मेरा, बहुत भूक लग रही है।”
“तीन बज चुके हैं, इस वक़्त आपको खाना कहाँ मिलेगा?”

“तीन बज चुके हैं तो क्या हुआ, खाना तो बहरहाल मिलना ही चाहिए। आख़िर मेरा हिस्सा भी तो इस घर में किसी क़दर है।”
“किस क़दर है?” [...]

कोख जली

Shayari By

घमंडी ने ज़ोर-ज़ोर से दरवाज़ा खटखटाया।
घमंडी की माँ उस वक़्त सिर्फ अपने बेटे के इंतेज़ार में बैठी थी। वो ये बात अच्छी तरह जानती थी कि पहले पहर की नींद के चूक जाने से अब उसे सर्दियों की पहाड़ ऐसी रात जाग कर काटना पड़ेगी। छत के नीचे ला-तादाद सरकंडे गिनने के इलावा टिड्डियों की उदास और परेशान करने वाली आवाज़ों को सुनना होगा। दरवाज़े पर-ज़ोर ज़ोर की दस्तक के बावजूद वो कुछ देर खाट पर बैठी रही, इसलिए नहीं कि वो सर्दी में घमंडी को बाहर खड़ा कर के इस के घर में देर से आने की आदत के ख़िलाफ़ आवाज़ उठाना चाहती है, बल्कि इसलिए कि घमंडी अब आ ही तो गया है।

यूँ भी बूढ़ी होने की वजह से उस पर एक क़िस्म का ख़ुशगवार आलकस, एक मीठी सी बे-हिसी छाई रहती थी। वो सोने और जागने के दरमयान मुअल्लक़ रहती। कुछ देर बाद माँ ख़ामोशी से उठी। चारपाई पर फिर से औंधी लेट कर उसने अपने पाँव चारपाई से दूसरी तरफ़ लटकाए और घसीट कर खड़ी हो गई। शमादान के क़रीब पहुँच कर उसने बत्ती को ऊँचा किया। फिर वापिस आकर खाट के साँघे में छुपाई हुई हुलास की डिबिया निकाली और इतमीनान से दो चुटकियाँ अपने नथनों में रखकर दो गहरे साँस लिए और दरवाज़े की तरफ़ बढ़ने लगी। लेकिन तीसरी दस्तक पर यूँ मालूम हुआ जैसे किवाड़ टूट कर ज़मीन पर आ रहेंगे।
“अरे थम जा। उजड़ गए।” माँ ने बरहम हो कर कहा… “मुझे इंतेज़ार दिखाता है और आप एक पल भी तो नहीं ठहर सकता।” [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close