(نذر نیر مسعود) پرانی عبادت گاہوں میں جانا، ان کے درودیوار کو دیرتک دیکھتے رہنا اور ان کے اندرونی نیم تاریک نم حصوں میں پہنچ کر سونگھ سونگھ کر پرانے پن کومحسوس کرنا میرا بچپن کا مشغلہ ہے۔ ایسا میں جب کرتا ہوں جب غروب کا وقت ہوتا ہے اوراندھیرے کی پوشاک پہن کر درخت چپ چاپ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ وقت کی اس کیفیت میں ایک ایسی اداسی ہوتی ہے جسے کوشش کے باوجود لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس کیفیت کی مماثلت ماضی کے کچھ واقعات میں تلاش کی جاسکتی ہے لیکن دقت یہ ہے کہ ماضی کے ان واقعات کو بھی صرف یاد کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میرا مسئلہ مختلف ہے بلکہ برعکس۔ میں ماضی کے واقعات یاد کرتا ہوں اورجب ان کو بعینہ بیان نہ کر پانے کی شدید الجھن میں گرفتار ہوتا ہوں تو ان واقعات کی مماثلت ڈھونڈنے پرانی عبادت گاہوں کے نیم تاریک اندرونی نم حصوں میں پہنچ جاتا ہوں۔ اس دن بھی سورج غروب ہونے ہی والا تھا اور درخت اندھیرے کی پوشاک پہن کرچپ چاپ گم سم کھڑے تھے۔ بستی سے آنے والی سڑک کے بائیں طرف آم کے پرانے باغوں کو عبورکر کے میں اس قدیم عمارت میں داخل ہوا جس کے صدر دروازے پر کسی مضبوط عمارتی لکڑی کے دروازے ابھی تک سلامت تھے، حالاں کہ فرش اورچہار دیواری شکستہ ہونے کی وجہ سے صدردروازہ کھولنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ یوں بھی صدردروازے پرایک سیاہ رنگ کازنگ خوردہ قفل لٹکا رہتا تھا۔ قفل کے اصل رنگ میں زنگ کی زردی مائل سرخی نے مل کرایک ایسے رنگ کی آمیزش کردی تھی کہ قفل اپنی اصل عمر سے زیادہ قدیم محسوس ہوتا تھا۔ شکستہ دیواروں کے آس پاس کانٹے دار جھاڑیوں کو پھلانگ کر جب میں اندر کے ٹوٹے پھوٹے فرش پر قدم جمائے کھڑا تھا تو عمارت کے دوہرے دالانوں میں سے کوئی پرندہ چیخیں مارتا نکلا تھا۔ مجھے تھوڑی دیربعد علم ہو پایا کہ وہ کوئی پرندہ نہیں ایک چمگادڑ تھا۔
[...]