گول چبوترے پرکھڑے ہوکر چاروں راستےصاف نظرآتے ہیں، جن پر راہ گیر سواریاں اورخوانچے والے چلتے رہتے ہیں۔ چبوترے پرجو بوڑھا آدمی لیٹا ہے، اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹےہیں۔ کہیں کہیں پیوند بھی لگے ہیں۔ اس کی داڑھی بےتریب ہے اورچہرے پرلاتعداد شکنیں ہیں۔ آنکھوں کی روشنی مدھم ہوچکی ہے۔ وہ راستے پرچلنے والے ہرفرد کوبہت حسرت سے دیکھتاہے۔ جب کوئی خوش خوش اس کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ دور تک اوردیر تک اسے دیکھتا رہتا ہے۔ کسی طرف سے ایک دس گیارہ برس کی بچی آئی۔ وہ اسکول کی پوشاک پہنے ہوئے ہے، بستہ کندھے پرلٹکا ہے۔ ناشتہ کاڈبہ ہاتھ میں دباہے۔ لڑکی کے بال سنہری ہیں۔ چہرہ گلابی ہے، اورآنکھوں میں ایک سادہ سی چمک ہے۔ بے فکری ، خوشحالی اور بچپن جب ایک جگہ جمع ہو جائیں توآنکھوں میں ایسی ہی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔
[...]