تماشا گھر

Shayari By

جو کچھ ہوا، وہ آخر ہوا کیسے؟
میں اپنے باہری کمرے کے دروازے پر کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ سامنے کھلا میدان۔ وہ مشرق کی طرف سے آئی تھی۔ بس ایک پرچھائیں سی۔ کوئی چیز کب کیسی نظر آتی ہے یہ بات کیا دیکھنے والے کی خود اپنی حالت پر منحصر نہیں؟ یہ سب تو میں اب بتا سکتا ہوں کہ وہ کوئی تیس برس کے آس پاس کی رہی ہوگی۔ میلے بال، گھیردار گھاگھرا، اس میں کچھ پیوند، کچھ نازک سا ناک نقشہ، رنگ سانولا جس کا نمک غالباً سخت کوش زندگی نے اڑا دیا تھا۔

میں اس وقت اپنی زندگی کے ایسے مرحلے میں تھا، جب سچ پوچھا جائے تو مجھے کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا، کیونکہ وہی تو وہ منحوس لمحہ تھا جب میں نے اپنی جان دے دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں اپنی تسلیم شدہ سچائیوں اور اپنے اصولوں کے ساتھ اس دیوقامت ڈیم کی تعمیر میں مصروف سیکڑوں عملے کے درمیان اپنی ملازمت کو نہیں نبھا سکوں گا۔ میں ایک انجینئر تھا اور ایک سسٹم کے تحت مجھے دوسروں کے ساتھ جن میں میرے افسران بھی تھے اور معاونین بھی، اپنی ذمے داریاں پوری کرنی تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ میرے سارے ساتھی یہ جانتے تھے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ کسی اعتبار سے بھی جائز نہیں مگر وہ اس کام کو اس طرح کرتے تھے جیسے وہ ان کی پیشہ ورانہ ضرور ت کا ایک جائز حصہ ہو۔ اب یہ مجھے نہیں معلوم کہ اس معاملے میں قصور میرا تھا یا دوسروں کا۔ بہر حال اتنا تو طے ہے کہ اچھے اور برے کی تفریق کرنے کے لیے میرے اپنے کچھ معیار تھے اور میں ایسی ایمانداری کو ایمانداری اور بے ایمانی جانتا تھا جو مجھے سکھائی گئی تھی۔
چھوٹے قد کا ایک سینئر انجینئر جو پہاڑی تھا اور میری دلیلوں پر ترس کھاکر مجھ پر مہربان رہا کرتا تھا، کئی بار مجھے سمجھا چکا تھا کہ ایماندار رہنا دراصل ایک مجبوری ہے اور لوگ عام طور پر ایماندار اس لیے رہا کرتے ہیں کہ انہیں بےایمانی کا موقع میسر نہیں ہوتا۔ بہرحال بات بہت بڑھ چکی تھی، برے دن قریب آتے ہیں تو بچ نکلنے کے سارے راستے پہلے ہی بند ہو جایا کرتے ہیں۔ یہ بات خاصی قوت حاصل کر گئی کہ میں راستے کا روڑا بنتا جا رہا ہوں۔ پھر اس روڑے کے ہٹائے جانے کی سازشوں کے جال کچھ اس قدر تنگ ہوتے گیے کہ مجھے لگا کہ یا تو مجھے خود ہی مر جانا چاہیے یا پھر یہ انتظار کرنا چاہیے کہ کسی دن میرے دروازے کی کال بیل بجے، میں دسترخوان پر سے نوالہ چھوڑ کر دروازے پر آؤں جہاں دو چار اجنبی لوگ میرے منتظر ہوں، وہ مجھے کسی انتہائی معقول بہانے سے کسی ویرانے میں لے جائیں اور وہاں مجھے ذبح کر کے اس طرح ڈال دیں کہ میری شناخت میں ہی خاصا وقت لگ جائے۔ کیونکہ اب معاملات کی رفتار خاصی تیز بھی ہو چکی تھی، ہر روز کوئی نئی ذلت، کوئی نیا بکھیڑا اور کوئی نئی وارننگ سے سامنا ہو رہا تھا میرا۔ [...]

ہائی وے پر ایک درخت

Shayari By

گردن میں پھندا سخت ہوتا جا رہا تھا۔ آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے کے لئے زور لگانے لگی تھیں۔ منھ کا لعاب جھاگ بن کر ہونٹوں کے کونوں پر جمنے لگا تھا۔ موت اور زندگی کے درمیان چند لمحوں کافاصلہ اب باقی رہ گیا تھا۔ دم نکلنے سے پہلے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس نے شاخ کو دیکھا، جس میں وہ لٹکا دیا گیا تھا۔ وہ ہرابھرا نیا نیا جوان ہوا ایک درخت تھا۔ سڈول تنا، گھنی گھنی اجلی اجلی پتیاں، لچکیلی اور شاداب شاخیں۔
جس وقت اس کا بھاری بھرکم جسم شاخ میں لٹکایا گیا تھا اور اس کے بوجھ سے شاخ ہوا میں اوپر نیچے جھولی تھی اور اس کا لٹکا ہوا جسم رسی کے سہارے اوپر نیچے ہوا تھا اور تلوے ایک بار زمین سے چھوگیے تھے تو اس کے کانوں میں درخت کی شاخ سے ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز سنائی دی تھی۔

جن قزاقوں نے اسے لٹکایا تھا وہ سب اپنے تنومند اور مچلتےہوئے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر اپنے راستے پر ہو لیے تھے۔ اس نے ابلتی ہوئی آنکھوں سے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑتی ہوئی گرد کو ایک پل کے لیے دیکھا تھا اور پھر اسے لچکتی ہوئی شاخ کی چرچراہٹ نے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ اس نے اپنی پھٹی پھٹی آنکھوں سے جن میں ابھی بصارت کی آخری کرن باقی تھی، اس جھولتی ہوئی شاخ کو دیکھا تھا۔ شاخ بہت موٹی نہ تھی اور اس کی لچک سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس کے بوجھ کے پہلے جھٹکے پر کچھ چوٹ کھا گئی ہو۔ وہ اس طرح جھول رہی تھی جیسے اب ٹوٹی اور تب ٹوٹی۔ لیکن دماغ کے کسی گوشے میں وہ اس بات سے بھی باخبر تھا کہ چوٹ کھائی ہوئی شاخ نرم تھی، گیلی تھی۔ اس کی تازگی کے سبب شاخ کے سارے ریشے، ریشم کے دھاگوں کی طرح آپس میں مل کر مضبوط ہو چکے تھے۔ اگر وہ شاخ سوکھی ہوتی تو ریشے جگہ چھوڑ دیتے، لچکتے نہیں ٹوٹ جاتے اور حقیقت صرف اتنی تھی کہ شاخ صرف اس کے جسم کے ساتھ جھول رہی تھی۔
وہ سب اپنے گھوڑوں کو ایڑ لگاکر ہائی وے پر فرار ہو چکے تھے اور درخت سے کچھ ہی فیصلے پر حد نظر تک لیٹی ہوئی پکی چمکیلی اور سیاہ ہائی وے سنسان پڑی تھی۔ [...]

گرم لہو میں غلطاں

Shayari By

ان کے طباق ایسے چوڑے چکلے زرد چہرے پر چھوٹی بڑی شکنوں کا گھنا ڈھیلا جلال پڑا ہوا تھا جیسے کوری مارکین کا ٹکڑا نچوڑ کر سکھادیا گیا ہو۔ دھندلی دھندلی آنکھوں سے میلا میلا پانی رس رہا تھا جسے ان کے سیاہ گندے ناخونوں والی موٹی موٹی انگلیاں کاندھے پر جھولتے میلے چکٹ آنچل سے بار بار پونچھ رہی تھیں اور سامنے رکھے بڑے سے طوق کے ڈھانچے کو برابر نہارے جارہی تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ اس کا سونا دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ پھر انہوں نے پاس رکھے ہوئے خمیدہ نے اور مٹی کے پیندے والے حقے کو جھکا کر بانس کی سرمئی نے موٹے موٹے لرزتے ہونٹوں میں دبالی اور ایک پھسپھسا کش لیا اور میرا سارا حافظہ جھنجھنا گیا۔
شادی کابھرا پرا گھر مہمان عورتوں اور ندیدے بچوں کی پرشور آوازکے تھپیڑوں سے ہل رہا تھا اور میں ڈولتا ہوا ان کے قریب سے گزرا جارہا تھا۔ میں نے جاتے جاتے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا جیسے مارکین کے ٹکڑے پر بجھتے کوئلوں کا عکس لپک گیا اور انہوں نے بیٹھی ہوئی آواز میں کہا،’’تم نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘اور میری آنکھوں کے سامنے یادوں کے ورق اڑنے لگے۔ ابھی نہ ہندوستان آزاد ہوا تھا اور نہ پاکستان پیدا ہوا تھا۔ نہ زمینداری ختم ہوئی تھی اور نہ آم کی فصلیں روزی کا وسیلہ بنی تھیں۔ سب کچھ اسی طرح موجود تھا جس طرح صدیوں سے چلا آرہا تھا۔ انگریز خدا اپنے گدھوں کو سونے کے توبڑوں میں خشکہ نہیں بریانی کھلا رہا تھا اور اس سال آم کی فصل اس طرح ٹوٹ کر آئی تھی کہ گلی کوچے پھلوں سے سڑنے لگے تھے۔ تخمی باغوں کے باغبانوں کی لین ڈوری پھاٹک سے ڈیوڑھی تک سروں پر چیندہ آموں کے جھوے لادے کھڑی رہتی۔ تیسرے درجے کے مسافروں کی طرح انہیں کوئی نہ پوچھتا۔ ہاں قلعی باغوں کے باغبان فرسٹ کلاس کے مسافروں کی طرح فضیلت سے نوازے جاتے اور ان کے آم ہاتھ کے ہاتھ گنالیے جاتے۔

دور تک پھیلے ہوئے اونچی چھتوں اور موٹے ستونوں والے لق ودق دالانوں میں کچے پکے آموں کی جازم بچھی رہتی۔ بوڑھی بدصورت اور کٹکھنی عورتیں ہاتھوں میں لمبی لمبی لکڑیاں لیے ندیدے لڑکوں اور ہتھ لکی عورتوں کو گالیاں اور کوسنے بانٹا کرتیں۔ اس روز اندر سے باہر تک جیسے ساری فضا بدلی ہوئی تھی، دھلی دھلائی سی لگ رہی تھی۔ ڈیوڑھی میں نہ جھوے، نہ کدالیں، نہ کھرپے اور نہ وہ مانوس بھناٹا، صاف صفیلا آنگن، اندرونی دالان کے چوکے اور گاؤ تکیے صندوق سے نکلے، تخت پوش اور غلاف پہنے میاں پوت بنے بیٹھے تھے۔ ماہی پشت والے نواڑی پلنگوں پر آدھے آدھے سوتی قالین پڑے تھے۔ پان خوروں کے منہ کی طرح لال لال اگالدان انگریزوں کے منھ کی طرح صاف صاف رکھے تھے۔ مرادآبادی پاندان اور لوٹے اور سرپوش سب اجلے اجلے کپڑے پہنے سلیقے سے اپنی جگہ کھڑے بیٹھے تھے۔ چھت میں جھولتے بھاری پنکھے تک کو دھلا جوڑا پہنادیا گیا تھا۔
بالکل عید بقرعید کا سا ماحول تھا، لیکن بقرعید کا سا شور نہ ہنگامہ۔ کمرے کے پانچوں دروازوں پر پڑے ہوئے خس کے موٹے موٹے بدوضع پردوں کے نیچے پانی کے چھوٹے چھوٹے سے تھالے بن گیے تھے۔ اندر چھت کے دوہرے پنکھوں کی اکلوتی رسی لوہے کی گراری پر تیز تیز چل رہی تھی جیسے چڑیوں کے کئی جوڑے ایک ساتھ چوں چوں کر رہے ہوں۔ میں نے ذرا جھجک کر پردا اٹھایا تو محسوس ہوا جیسے یہاں سے وہاں تک سارا کمرہ ان کی روشنی سے جھم جھمارہا ہے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا جیسے امام باڑے میں رکھا ہوا چاندی کا تعزیہ دیکھا جاتا ہے جیسے دسہرے کی جھانکی دیکھی جاتی ہے۔ [...]

رپورٹر

Shayari By

وہ علاقہ جو صرف ایک سال پیشتر ایک انتہائی پس ماندہ گاؤں سمجھا جاتا تھا، حکومت اور لوگوں کی مشترکہ منصوبہ بندی، ایثار اور محبت سے ایک اچھا خاصا ترقی یافتہ قصبہ بنگیا تھا۔ کھنڈرات کی جگہ ایک منزلہ، دو منزلہ اور کہیں کہیں سہ منزلہ مکانات سر اٹھائے کھڑے تھے۔ شاندار حویلیاں بھی اپنے مالکوں کےحسن ذوق کا ثبوت دے رہی تھیں۔ سڑکیں، تمام کی تمام تو نہیں۔ ان کی معقول تعداد ہر قسم کی ٹریفک کے قابل ہو گئی تھی۔ کھیتوں میں فصلیں لہرا رہی تھیں۔ قصبے کے بعد حضوں میں کچھ مکان اور جھونپڑیاں بھی نظر آ جاتا تھیں مگر ان کے وجود سے قصبے کی مجموعی ترقی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا تھا۔
قصبے کی مجموعی ترقی میں ایک شخص کا بڑا حصہ تھا۔ شہر سے اخباروں کےجو رپورٹر اس قصبے میں آنکھوں دیکھا حال دیکھنے گئے تھے۔ انہوں نے چند روز وہاں ٹھہر کر اپنے اپنے اخباروں کو جو رپورٹیں بھیجیں تھیں ان میں اس قصبے کی ترقی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا اور یہی ترقی کا سرچشمہ حاجی رحیم علی کی ذات کو قرار دیا گیا تھا جن کے پوتے کے نام پر اب اس قصبے کا نام ’خرم آباد‘ مشہور ہو گیا تھا۔

اخبارات کی رپورٹیں پڑھ پڑھ کر شہروں میں رہنےوالے لوگوں کی ’خرم آباد‘ میں دلچسپی لینی کوئی خلاف توقع بات نہیں تھی۔ وہ سمجھنے لگے تھے کہ خرم آباد اسی طرح بارونق ہوتا چلا گیا تو ایک روز یہ قصبہ نہیں رہےگا، شہر بن جائےگا۔
اخباروں میں ’خرم آباد‘ کی ہمہ جہت ترقی و فروغ کی روداد وقفے وقفے سے شائع ہو رہی تھیں مگر ایک ہفت روزہ ایسا بھی تھا جس میں اس سلسلے کی کوئی تحریر نہیں چھپتی تھی۔ اس ہفت روزہ کا نام ’صداقت شعار‘ تھا اور اس کے مالک اور ایڈٹر علی نیاز تھے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پرچے کاصرف نام ہی صداقت شعار نہیں ہے۔ وہ اپنی پالیسی کے اعتبار سے بھی صداقت شعار ہے۔ [...]

باغی

Shayari By

آم کا کنج اور بڑے بابو، ان دونوں میں کوئی تعلق بظاہر تو معلوم نہیں ہوتا، لیکن ہندوستان باوجود ضرب المثل کثرت کے وحدت کاملک ہے۔ یہاں ہر چیز دوسری چیز سے رشتہ رکھتی ہے، یہ رشتہ ہر شخص کو نظر نہیں آتا، لیکن شاعر (یہاں اس لفظ کے وسیع معنی مراد ہیں) کی درد پرور نظر اسے دیکھتی ہے اور دوسروں کو دکھاتی ہے اور جو دیکھنے سے انکار کرے وہ ’’باغی‘‘ کہلاتا ہے۔ باغی کا مفہوم سمجھنے کے لیے تعزیرات ہند، عدالت اور کالا پانی کاخیال دل سے نکال دیجیے اور ذرا دیر کے لیے ناموسِ فطرت کی طرف توجہ کیجیے جو انسان یعنی ’’کائنات مجمل اور اس کے ماحول یعنی کائنات مفصل‘‘ میں ہم آہنگی چاہتا ہے اور جس کی خلاف ورزی ’’بغاوت‘‘ ہے۔ مگر خدا کے لیے ان مسائل میں اتنے محو نہ ہو جائیے گا کہ قصے کی سادگی، اندازبیان کی دل آویزی اور ایک خاص طرح کی ظرافت جو بجا موجود ہے نظر سے چھپ جائے۔
(ڈاکٹر سید عابد حسین)

ایک چھوٹے سے دیہاتی اسٹیشن کا ذکر ہے، مسافر یہاں بہت کم دیکھنے میں آتے تھے اور گاڑیاں اور بھی کم، لیکن کسی مصلحت سے خداوندانِ تدبیر نے تین ملازمان ریلوے کا یہاں تعین کر رکھا تھا جن کی تفصیل یہ ہے، ایک اسٹیشن ماسٹر (بڑے بابو) ایک ٹکٹ بابو اور ایک سگنل والا۔
کشن پرشاد اسٹیشن ماسٹر کشیدہ قامت متین آدمی تھے۔ ان کا چہرہ چوڑا چکلا تھا اور مونچھیں بھری بھری اور کسی قدر نیچے کی طرف مڑی ہوئی، ظاہر ہے کہ ان کی ذات گویا اسٹیشن کے مرقعے میں نقش مرکزی تھی۔ یہ اپنی تنہائی کی زندگی پر قانع بلکہ اس میں مگن تھے اور جو کوئی ان کے پرسکون چہرے اور خاموشی بھری آنکھوں پر نظر ڈالتا اسے اس بات پر حیرت نہ ہوتی۔ ان کے چہرے سے غور و فکر، علم و فضل کا اظہار ہوتا تھا، حالانکہ انھوں نے برائے نام تعلیم پائی تھی اور ان کی چمک ان کے کور سواد ساتھیوں کے ساتھ۔۔۔ تقابل کا نتیجہ تھی۔ [...]

مجو بھیا

Shayari By

پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہوکر مان پور آہی گیے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا جیسے صبح سورج کی مشعل لیے شام کو ڈھونڈھا کرتی ہے اور شام اپنی آرتی میں ستارے جلائے صبح کی راہ تکا کرتی ہے۔ مگر چیت کے آتے آتے انہوں نے کاشتکاروں سے اپنی سیر نکالی اور چار جوڑ بیل خرید کر کھیتی شروع کردی۔
پہلا پانی پڑتے ہی بستی سے ملے ہوئے پاسی سکھیے کے پلاٹ پر کنواں کھود کر قلعی باغ کی طرح بھی ڈال دی۔ لیکن وقت اب بھی کاٹے نہ کٹتا۔ آخرکار انہوں نے اپنی شیخی کو طاق پر رکھ اور بستی کے بڑے بوڑھوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کسی کو تعویذ لکھ دیتے، کسی کو سرمے منجن کا نسخہ بتاتے، کسی کے پھوڑے پھنسی میں اپنے ہاتھ سے پوٹس باندھتے، کسی کا خط لکھتے، کسی کامقدمہ لڑتے۔ غرض پانچ چھ ہزار کی بستی وہ بھی مسلمان بستی، ان کا وقت پر لگاکر اڑنے لگا۔

شبرات کاچاند دیکھ کر وہ اپنی بیٹھک میں تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ چھوٹے خاں اور گاؤں کے چودھری میر بخش دوچار بڑے بوڑھوں کے ساتھ آگیے۔ شیخ نے ان کو پلنگوں پر بٹھایا، اور منظور کو آواز دی۔ وہ سیاہ لنگوٹ باندے موٹے موٹے ہاتھ پیروں پر تازی تازی مٹی ملے دندناتا ہوا آیا اور بھونچکوں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ شیخ نے بیٹے کا جو یہ حلیہ دیکھا تو حقہ کی چلم کی طرح جل گیے۔ کڑک کر پوچھا،
’’یہ کیا؟‘‘ [...]

Don't have an account? Sign up

Forgot your password?

Error message here!

Error message here!

Hide Error message here!

Error message here!

OR
OR

Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link to create a new password.

Error message here!

Back to log-in

Close