ہمارے محلے میں ایک خاں صاحب رہتے تھے۔ میں نے جب انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کی عمر قریب پینتالیس سال کے تھی، مگر روایات سے معلوم ہوا کہ ان کے بال ہمیشہ سے ایسے ہی سیاہ و سپید کی آمیزش رہے ہیں۔ آنکھیں ایسی ہی خونی، مزاج ترش اور ٹوپی میلی، بواسیر کی شکایت بھی ان کی ہستی سے وابستہ تھی، مدتوں سے وہ شہر کے تمام طبیبوں اور ہندوستان کی تمام درگاہوں کی برائی کرتے چلے آئے تھے۔ ہمارے محلے میں کسی کو بھی وہ دن یاد نہ تھے، جب خاں صاحب کی کریہہ اور دل لرزانے والی آواز گلی کوچے میں نہیں گونجتی تھی۔ یا ان کا سیاہ چہرہ، قوی ہیکل جسم اور لمبا لٹھ خوف اور نفرت سے لوگوں کی نگاہیں نیچی نہیں کردیتا تھا۔ خاں صاحب کے پیشے کا کسی کو علم نہ تھا، سوا ان کم بختوں کے جنھیں کسی ناگہانی مصیبت میں روپے کی ضرورت ہوئی اور انہوں نے خاں صاحب سے مدد مانگی، مگر ان کی کیا مجال تھی کہ گالیاں سن کر اور سود در سود ادا کرکے بھی خاں صاحب کے پیشے کا کسی سے ذکر کریں۔ خاں صاحب سویرے جاکر موذن کو جگاتے تھے، مسجد کا امام ان کے ڈر سے نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتا تھا، دیر تک دعا مانگتا اور دعامانگتے مانگتے کثرت گناہ کا احساس اسے رلا بھی دیتا تھا۔ خاں صاحب کی ذات نے اس مسجد کو جو علاوہ جمعے کے ویران پڑی رہتی تھی اجتماعِ مسلمین کا مرکز بنادیا تھا۔ جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوا کرتی تھی۔ خاں صاحب کی داڑھی دیکھ کر شریفوں کیا غنڈوں میں میں بھی ڈاڑھی مونڈنے کی ہمت نہ رہی۔ خاں صاحب کا چہرہ سیاہ اور آنکھیں خونی تھیں تو کیا، انھوں نے سینکڑوں مسلمانوں کی صورتیں منور کر دی تھیں۔ ان کا مزاج ترش تھا تو کون سی شکایت کی بات، جب ان کی وجہ سے اتنے گمراہ بندے اپنے خدا کے قہر سے پناہ مانگنے لگے تھے۔ ہمارے محلے کے بنئے تو مستقل اختلاج قلب کے مریض ہوگیے۔ مگر بنیوں کا کیا، ان کا تو پیشہ یہی ہے، اگر دھوتی میل سے کالی اور قلب میں اختلاج نہ ہو تو وہ سود کا نرخ کیسے بڑھائیں۔ خاں صاحب شریعت کے ایسے عالم تھے کہ بغیر کفر کا الزام اپنے سر لیے دنیاوی معاملات میں بھی کوئی ان کی مخالفت نہیں کر سکتا تھا۔ منطقی ایسے کہ جوش گفتار سے دوسرے کا دماغ پھرادیں اور فلسفی اس پایے کے کہ جب بیان شروع کریں تو کسی سے بغیر ہاں میں ہاں ملائے نہ بن پڑے۔ خاں صاحب نہایت فصاحت وبلاغت سے دین اسلام کی خوبیاں اپنے پست اندیشہ ہم جنسوں پر روشن کرتے، تنگ نظروں کو خدا کی مصلحت سمجھاتے اور مناظر کائنات کی تعریف میں سرد آہیں بھرتے تھے۔ ہمارا محلہ غریبوں کا تھا، کسی بیچارے کو اتنی مہلت کہاں ملتی تھی کہ شریعت، فلسفہ، منطق اور جمالیات میں یہ امتیاز حاصل کرے۔ خاں صاحب نے اپنی عقل و دانش اور مہیب شخصیت کے اثر سے محلے والوں کے دل و دماغ اور قوت ارادی کو معطل کر دیا تھا اور محلے والے غلامی کےایسے عادی ہوگیے تھے کہ انہیں اپنی آزادی کے دن تک یاد نہ رہے۔
[...]